منزلت غدیر

منزلت غدیر0%

منزلت غدیر مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 156

منزلت غدیر

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین محمد دشتی
زمرہ جات:

صفحے: 156
مشاہدے: 42097
ڈاؤنلوڈ: 2414

تبصرے:

منزلت غدیر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 156 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42097 / ڈاؤنلوڈ: 2414
سائز سائز سائز
منزلت غدیر

منزلت غدیر

مؤلف:
اردو

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدا وند عالم کی طرف سے یہ تسلی ملی تو آپ نے یہ حکم صادر فرمایا کہ سب لوگ غدیر خم کی سرزمین پر ٹہر جائیں ؛ جو لوگ غدیر کے مقام سے آگے چلے گئے تھے انکو پلٹ آنے کے لئے کہا گیا اور جو لوگ ابھی تک اس مقام تک نہ پہنچے تھے ان کے پہنچ جانے کا انتظار کیا گیا ۔ جب تمام اسلامی ممالک سے آئے ہوئے سارے مسلمان غدیر خم کے میدان میں جمع ہوگئے تو حکم فرمایا کہ اونٹوں کے کجاووں کے ذریعہ ایک بلند جگہ ( منبر) تیّار کیا جائے ، اس بلند مقام پر کھڑے ہو کر پروردگار عالم کی حمد و ثنا کے بعد اہم مسئلہ کو ذکر کیا اور اپنے اور فرشتہ وحی کے درمیان واقع ہونے والے ماجر ے کو لوگوں کے سامنے بیان کیا ، اسکے بعد حضرت امیرالمؤمنین ـ اور انکی اولاد میں سے گیارہ فرزندوں کی تا قیامت قائم رہنے والی امامت اور ولایت کا اعلان فرمایا اور انکا تعارف کروایا ۔

پھر عملی طورپر خود حضرت علی ـ کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کی ؛ اسکے بعد بیعت عمومی کا فرمان جاری کیا ؛ جسکی وجہ سے تمام مردوزن دوسرے دن تک اس مقام پر ٹہرے رہے اور حضرت علی ـ کی بیعت کرتے رہے اگر روز غدیر صرف ولایت کا پیغام پہنچانے کے لئے ہوتا تو اتنے سارے انتظامات کیونکر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کی عمومی بیعت بھی تشکیل نہ پاتی ، دلچسپ اور جالب توجہ تو یہ ہے کہ مخالفین کے کلمات سے بھی یہ حقیقت واضح اور روشن ہوتی ہے ،خواہ وہ لوگ جو دست بشمشیر تھے یا وہ لوگ جنہوں نے خیمۂ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے کھڑے ہو کر تو ہین آمیز الفاظ استعمال کئے !

( کیا تم نے یہ کام جو اپنی رسالت کے اختتام پر کیا ہے خدا وند عالم کے حکم سے کیا ہے ) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا :

( ہاں خدا وند عالم کے حکم سے انجام دیا ہے ۔)

۱۰۱

۳۔ مخالفتوں کی طرف توجّہ :

جو لوگ روز غدیر سے غافل تھے اور ان کی تمام شیطانی آرزوئیں مٹی میں مل ر ہی تھیں تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے توہین آمیز کلمات استعمال کرتے ہوئے مخاطب ہوئے اور کہا:

تم نے ہم سے کہا: بت پرستی چھوڑ دو ہم نے بتوں کو پوجنا چھوڑ دیا ۔

تم نے کہا :نماز پڑھو ، ہم نے نماز یں پڑھیں ۔

تم نے کہا :روز ے رکھو ، ہم نے روز ے ر کھے۔

تم نے کہا :خمس و زکات دو ، ہم نے ادا کی۔

تم نے کہا: حج پہ جاؤ ، ہم گئے ۔

اب یہ کو ن سا حکم ہے جو تم نے صادر کیا ہے ؟ اب ہم سے کہہ رہے ہو کہہ ہم تمہارے داماد کی بیعت کریں ۔

حضرت زہرا سلام ﷲ ِ عَلیہاوامیر المؤمنین ـ کی ولایت کے اعلان''اور غدیر خم میں عمومی بیعت کے تشکیل پانے کے شروع میں ہی مخالفین کی عہد شکنی اور منافقت سے آگاہ تھیں،

جب حارث بن نعمان نے مخالفت کی اور کہا اے خدا ! اگر یہ حق ہے کہ ولایت علی ـ کا اعلان تیری طرف سے ہوا ہے تو مجھ پر آسمان سے ایک پتھر نازل ہو جو میری زندگی کا خاتمہ کردے ۔ فوراً خدا کا عذاب نازل ہوا ؛ آسمان سے ایک پتھر آیا اور اسے ہلاک کر دیا، حضرت زہرا سلام ﷲ ِ علیہا نے ایک معنی خیز نگاہ سے جناب امیر المؤمنین ـ کی طرف دیکھا اور فرمایا:

'' َتَظُنَّ یٰا اَبَا الْحَسَن ! اَنَّ ه ٰذَا الرَّجُلَ وَحْدَ ه ُ ؟وَﷲ ! مٰا ه ُوا لاَّ طَلِیْعَةَ قَوْمٍ لاَ یَلْبِثُوْنَ ا نْ یُکْشِفُوْا عَنْ وُجُوْ ه ِ ه ِمْ َ قْنَعَتَ ه ٰا عِنْدَ مٰا تَلُوْحُ لَ ه ُمُ الْفُرْصَةُ ''

۱۰۲

اے ابو الحسن ـ : آیا آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ غدیر کی مخالفت میں یہ آدمی اکیلا ہے،۔ خدا کی قسم ! یہ پیش قدم ہے ایک قوم کا کہ ابھی تک انکے چہروں سے نقابیں نہیں اتری ہیں، اور جس وقت بھی موقع ملا اپنی مخالفت کو ظاہر کردیں گے ۔)( ۱ )

حضرت علی ـ نے جواب میں فرمایا:( میں خدا وندعالم اور اسکے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کو انجام دیتا ہوں اور خد ا پہ توکل کرتا ہوں کہ وہ بہترین مدد گار ہے ۔)

حارث بن نعمان فہری نامی ایک شخص جو امام علی ـ کی دشمنی دل میںلئے ہوئے تھا اُونٹ پر سوار آگے بڑھا اور کہا: ( اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! تم نے ہمیں ایک خدا کا حکم دیا ، ہم نے قبول کیا اپنی نبوّت کا ذکر کیا ہم نے ، لا لٰہ الّﷲ و مُحَمّد رسول ﷲ کہا ، ہمیں اسلام کی دعوت دی ہم نے قبول کی تم نے کہا پانچ وقت نماز پڑھو ہم نے پڑھی ،زکات ، روزہ ، حج ،جہاد کا حکم دیا ہم نے اطاعت کی ، اب تم اپنے چحا زاد بھا ئی کو ہمارا ا میر بنا رہے ہو ہمیں معلوم نہیں خدا کی طرف سے ہے یا تمہارے اپنے ارادے اور سوچ کی پیدا وار ہے ؟۔ )

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا :

( اس خدا کی قسم کہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ، یہ حکم اس خدا ہی کی طرف سے ہے اور میرا کام تو صرف پیغا م پہنچا نا ہے ۔) حارث یہ جواب سن کر غضبناک ہو گیا اور اپنے سر کو آسمان کی طرف اٹھا کر کہنے لگا : ( اے خدا ! اگر جو کچھ محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی ـ کے بارے میں کہا ہے تیری طرف سے

____________________

( ۱)۔ (الف ) سیرہ ٔ حلبی ، ج ۳ ص ۳۰۸/۳۰۹ :

حلبی شافعی ( متوفّیٰ ۱۰۴۴ ھ )

(ب) نزھة المجالس ، ج ۲ ص ۲۰۹ : ( تفسیر قرطبی سے نقل کیا ہے ) :

علامہ صفوری شافعی ( متوفّیٰ ۸۹۴ ھ)

۱۰۳

اور تیرے حکم سے ہے تو آسمان سے ایک پتھر مجھ پر آئے اور مجھے ہلاک کر دے۔) ابھی حارث بن نعمان کی بات ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ آسمان سے ایک پتھر گرا اور اسکو ہلاک کر دیا۔ اور اس وقت سورہ ٔ مبارکہ معارج کی آیات ۱ اور ۲ نازل ہوئیں۔

( سَاَلَ سٰائل بِعَذ ٰابٍ وٰاقِعٍ لِلکٰافِریْنَ لَیْسَ لَهُ د ٰافِع ) ( ۱ ) ایک مانگنے والے نے کافروں کے لئے ہو کر رہنے والے عذاب کو ما نگا جس کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔

____________________

۱۔ غریب القرآن : ہروی۲۔ شفاء الصّدور : موصلی ۳۔ الکشف والبیان : ثعلبی

۴۔ رعاة الھداة : حسکانی ۵۔ الجامع لاحکام القرآن : قرطبی۶۔ تذکرة الخواص ، ص ۱۹ : سبط بن جوزی

۷۔ الاکتفاء : وصابی شافعی۸۔ فرائد السمطین ، باب ۱۳ : حموینی۹۔ معارج الاصول : زرندی

۱۰۔ نظم دررالسمطین : زرندی۱۱۔ ھداة السّعداء : دولت آبادی۱۲۔ فصول المہمّة ، ص ۴۶ : ابن صباغ

۳ ۱۔ جواہر العقدین : سمہودی۱۴۔ تفسیر ابی السعود ، ج ۸ ،ص ۲۹۲ : عمادی۱۵۔ السراج المنیر ، ج ۴ ، ص ۳۶۴ : شربینی

۱۶۔ الا ربعین فی فضائل امیر المؤمنین ـ / ۷ : جمال الدّین شیرازی۱۷۔ فیض القدیر ، ج ۶ ، ص ۲۱۸ : مناوی

۱۸۔ العقد النّبوی و السّر المصطفوی : عبد روس۱۹۔ وسیلة المآل : باکثیر مکّی۲۰۔ نزہة المجالس ، ج ۲ ،ص ۲۴۲ : صفوری

۲۱۔ السیرة الحلبیّة ، ج ۳ ، ص ۳۰۲ : حلبی ۲۲۔ الصراط السوی فی مناقب النّبی : قاری۲۳۔ معارج العلیٰ فی مناقب المصطفیٰ : صدر عالم

۲۴۔ تفسیر شاہی : محبوب عالم ۲۵۔ ذخیرة المآل : حفظی شافعی ۲۶۔ الرّوضة النذیّة : یمانی

۲۷۔ نور الابصار ، ص ۷۸ : شبلنجی ۲۸۔ تفسیر المنار ، ج ۶ ، ص ۴۶۴ : رشید رضا۲۹ ۔ الغدیر ، ج ۱، ص ۲۳۹ : علّامہ امینی

اور سینکڑوں سنّی، شیعہ کتب تفاسیرکہ جن میں اس حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے ۔

۱۰۴

پانچویں فصل

آیا غدیر امام کی ولایت کا دن تھا ؟

پہلی بحث : ایک اور تنگ نظری

دوسری بحث : واقعۂ غدیر میں تحقیق کی ضرورت

تیسری بحث : اہل بیت کی مظلومیت کے اسباب

۱۔ ایک اور تنگ نظری :

واقعہ ٔ غدیر کی جانب بے توجّہی کی ایک اور وجہ، بعض لوگوں کا سطحی عقیدہ ہے جنہوں نے ہمیشہ غدیر کے بارے میں یہ لکھا اور کہا ہے : ( غدیر کا دن حضرت امیر المؤمنین ـ کی ولایت کا دن ہے ) انہوں نے روز غدیر کو صرف حضرت علی ـ کی ولایت کے لئے مخصوص کردیا ہے ؛ اور واقعہ ٔ غدیر کے باقی سارے پہلوؤں پر کچھ بھی بیان نہیں کیا ہے ۔

یہ درست ہے کہ غدیر کے دن حضرت امیر المؤمنین ـ کی ولایت کا پیغام پہنچایا گیا اور ایک لحاظ سے غدیر کا دن امام علی ـ کی ولایت کا دن ہے ؛ روز غدیر امامت کے تعیّن کا دن تھا، لیکن اس واقعہ کے اور بھی بہت سارے اہداف تھے جو اس دن ایک حقیقت کی صورت میں وجود میں آئے کہ جن کے بارے میں بہت ہی کم بیان کیا گیا ہے اور بہت ہی کم توجّہ دی گئی ہے ۔

۱۰۵

۲۔ واقعۂ غدیر میں تحقیق کی ضرورت :

واقعۂ غدیر صرف مذکورہ اعتقادات میں محدود نہیں ہوتا اور بیان کی گئی حدود میں منحصر نہیں ہوتا،بلکہ دیکھا یہ جانا چاہیے کہ اس عظیم واقعۂ کے موجد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس دن کیافرمایا؟ کیا کام انجام دیا ؟اور لوگوں کی عمومی بیعت کو کس حد تک وسعت دی؟

آیا صرف امام علی ـ کا تعارف کروایا؟

آیا صرف امام علی ـ کے لئے بیعت طلب کی ؟

ہم خطبۂ غدیر کا مطالعہ کیوں نہیں کرتے ؟

اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس دن کی تمام گفتگو کو تحقیق کی نگاہ سے کیوں نہیں دیکھتے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خطبے میں موجود اہم نکات کی جانب ہماری توجہ کیوں نہیں ہے ؟

اگر ہم خطبۂ حجة الوداع کا صحیح طریقے( تحقیقی) سے مطالعہ کریں تو ہمارے درمیان موجود بہت سارے اختلافات برطرف ہو جائیں گے ، اور ہم غدیر کے حقیقی اور واقعی مقام و منزلت سے آگاہ ہو جائیں گے،اگر ہم غدیر کے صحیح مقام و منزلت سے آشنا ہوجائیں اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلام و پیام کی گہرائیوں سے واقف ہو جائیں اور جان لیں کہ غدیر کے دن کونسے عظیم واقعات رونما ہوئے تو ہم واقعات غدیر میں سے بہت سار ے واقعات کو حل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور غدیر کے بارے میں بہت سارے سوالات کا صحیح جواب دے سکیں گے ،مثال کے طور پر : فرشتہ وحی تین بار کیوں نازل ہوا ؟

یہ مسئلہ کتنی اہمیت کا حامل تھا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تین بار اس کام کو انجام نہ دئے جانے کی درخواست کی ؟

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حکم خدا وندی کی بجا آوری سے کیوں گھبرائے؟ اور انکی یہ گھبراہٹ اور پریشانی کس وجہ سے تھی ؟

وہ دشمن جو آج تک سکوت کئے ہوئے تھے غدیر میں کیوں خشمناک و غضبناک ہوگئے ؟ یہاں تک کہ دست بشمشیر ہوگئے ؟

غدیر کے دن ایسا کیا ہو ا کہ ا ئمّہ معصومین علیہم السّلام ہمیشہ اس روز رونما ہونے والے واقعات کو دلیل کے طور پر بیان کرتے ؟ اور فرماتے ( غدیر کے بعد اب کسی کے پاس کوئی عذر اور بہانہ باقی نہیں رہ گیا ۔)

۱۰۶

غدیر کے دن ایسا کیا ہوا کہ منافقوں اور حکومت پسند ا ور قدرت کے خواہاںافراد سینوںکے میں تیر لگے اوران کو ایک ساتھ ایسے مقام پر لاکھڑا کیا کہ جہاں انکے کے لئے کوئی راستہ باقی نہیں رہ گیا ؟

ہم کہہ چکے ہیں کہ غدیر کے دن ولایت امیر المؤمنین ـ جو کہ خدا کی طرف سے معیّن ہوئی اور کئی بار پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے توسّط سے لوگوں تک پہنچائی جا چکی تھی '' لوگوں کی عمومی بیعت '' کے ساتھ مکمل ہو گئی، لیکن منافقوں کی پریشانی کی وجہ صرف یہی نہیں تھی کیونکہ جیسا کہ انہوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کو تحمّل کیا تھا اور اس بات کا انتظار کیا تھا کہ انکے بعد اپنی کارروائی کا آغاز کریں ؛ بالکل اسی طرح امام علی ـ کی جان کے لئے بھی سازشیں کر رکھی تھیں وہ انکی ولایت کو بھی تحمّل کر سکتے تھے ،یہاں مسئلہ کچھ اور تھا :

غدیر کے دن نہ صرف یہ کہ امامت و ولایت امام علی ـ کا اعلان ہو ابلکہ امت مسلمہ کی تا وقت ظہور حضرت مہدی ـ اور زمانۂ رجعت و قیامت امامت کو ذکر کیا گیا اور لوگوں سے اعتراف اور بیعت طلب کی گئی،جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:

(مَعٰاشِرَ النّٰاسِ!اِنَّکُمْ َکْثَرُمِنْ َنْ تُصٰافِقُوْنی بِکَفٍ واحِدٍفی وَقْتٍ وَاحِدٍ قَدْ اَمَرَنِیْ ﷲ عَزَّ وَجَلَّ اَنْ اٰخُذَ مِنْ اَلْسِنَتِکُم الْا ِقْرٰارَ بِمٰا عَقَّدْ تُ لِعَلِیٍّ اَمیْرِالْمُؤْمِنیْنَ وَلِمَن جٰائَ بَعْدَ ه ُ مِنَ الْاَئِمّةِ مِنّیْ وَ مِنْ ه ُ عَلیٰ ماَعلَمْتُکُمْ اَنَّ ذُرِّیَّتیْ مِنْ صُلْبِ ه ، فَقُوْلُوابِاَجْمَعِکُم انّا سٰامِعُونَ مُطِیْعُوْنَ رٰاضُوْنَ مُنْقٰادُوْنَ لِمٰا بَلَّغْتَ عَنْ رَبِّنٰا ، وَرَبِّک فیْ اَمْرِ ِمٰا مِنٰا عَلیٍّ اَمیْرِ الْمُؤْمِنیْنَـ وَمَنْ وُلِدَتْ مِنْ صُلْبِ ه مِن الْاَئِمَّةِ ، نُبٰایِعُکَ عَلیٰ ذٰلِکَ بِقُلُوْبِنا وَانْفُسِنٰاوَاَلْسِنَتِنٰا،وَ اَیْدیْنٰا،عَلیٰ ذٰلِکَ نَحْییٰ،وَعَلَیْ ه ِ نَمُوْتُ،وَعَلَیْ ه ِ نُبْعَثُ،وَلا نُغَیِّرُ،وَلاَ نُبَدِّل ولانَشُکُّ وَلاَنَجْحَدُ وَلاَنَرْتٰاب وَلاَنَرْجِعُ عَن الْعَ ه ْدِ وَلاَ نَنْقُض الْمیْثٰاقَ و َعَظْتَنٰا بِوَعْظِ ﷲ فیْ عَلِیّ ا َمیْرَالْمُؤْمِنیْنَ،وَالْاَئِمَّةِ الَّذیْنَ ذَکَرْت مِنْ ذُرِّیَّتِکَ مِنْ وُلْدِ ه ،بَعْدَ ه ُ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ وَمَنْ نَصَبَ ه ُ ﷲ ُبعْدَ ه ُمٰا فَالْعَ ه ْدُ وَالْمیْثٰاقُ لَ ه ُمْ مَْخُوْذمِنّٰا،مِنْ قُلُوْبِنٰا وَاَنْفُسِنٰا وَاَلْسِنَتِنٰا وضَمٰایِرِنٰا وَا یْدیْنٰا مَنْ اَدْرَکَ ه ٰا بِ ي َدِ ه وَ اِلَّا فَقَدْ اَقَرَّ بِلِسٰانِ ه وَلاَ نَبْتَغی بِذٰلِکَ بَدَلاً وَلاَ یَرَی ﷲ ُمِنْ اَنْفُسِنٰا حِوَلاً،نَحْنُ نُؤَدِّیْ ذٰلِکَ عَنْک الدّٰانیْ وَالْقٰاصی مِنْ اَوْلاَدِنٰا و َاَحٰال ي ْنٰا وَ نُشْ ه َدُ ﷲ بِذٰلِک وَکَفیٰ بِاﷲ ِشَ ه یْداً وَاَنْتَ عَلَیْنٰا بِ ه شَ هي ْد )

( اے مسلمانوں ! تمہاری تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کہ تم لوگ خود اپنے ہاتھوں سے اس تپتے ہوئے صحرا میں میرے ہاتھ پر بیعت کر سکو پس خدا وند عالم کی جانب سے مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تم لوگوں سے ولایت علی ـ اور انکے بعد آنے والے اماموں کی امامت ]جو کہ میری اور علی ـ کی اولاد میں سے ہیں [کے بارے میں اقرار لے لوں اور میں تم لوگوں کو اس بات سے آگاہ کر چکا ہوں میر ے فر زندعلی ـ کے ُصلب سے ہیں،پس تم سب لوگ کہو کہ :

۱۰۷

( یارسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم آپکا فرمان سن رہے ہیں اور اسکو تسلیم کرتے ہیں ،اس پر راضی ہیں ، اور آپکے اِس حکم کی اطاعت کرتے ہیں جو کہ خدا وند عالم کی طرف سے آپ نے ہم تک پہنچایا جو ہمارا رب ہے ، ہم اس پیمان پرجو کہ حضرت علی ـ کی ولایت اور ان کے بیٹوں کی ولایت کے سلسلے میں ہے اپنے جان و دل کے ساتھ اپنی زبان اور ہاتھوں کے ذریعہ آپکی بیعت کرتے ہیں اس بیعت پر زندہ رہیں گے ، مر جائیں گے اور اٹھائے جائیں گے اس میں کسی قسم کی تبدیلی و تغییر نہ کریں گے ، اس میں کسی قسم کا شک و تردید نہیں کرتے اور اس سے رو گردانی نہیں کریں گے ، اور اس عہد و پیمان کو نہیں توڑیں گے خدا وند عالم اور آپکی اطاعت کرتے ہیں اور علی امیر المؤمنین ـ اورانکے بیٹوں کی اطاعت کریں گے کیونکہ یہ سب امت کے امام ہیں وہ امام جنکا آپنے تذکرہ کیا ہے آپکی اولاد میں سے ہیں

اور حضر ت علی ـ کے صلب سے امام حسن ـاورامام حسین ـ کے بعد آنے والے ہیں حسن اور حسین علیہما السلام؛ کے اپنے نزدیک مقام کے بارے میں پہلے تمہیں آگاہ کر چکا ہوں ، خدا وند عالم کے نزدیک انکی قدرو منزلت کا تذکرہ کر چکا ہوںاور امانت تم لوگوں کو دے دی یعنی کہہ دیا کہ یہ دو بزرگوار ہستیاں جوانان جنّت کے سردار ہیں اور میرے اور علی ـ کے بعد امّت مسلمہ کے امام ہیں تم سب مل کر کہو : حضرت علی ـ کی( ہم اس حکم میں خدا کی اطاعت کرتے ہیں ؛اور اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپکی ، حسنین علیہما السلام کی اور انکے بعد آنے والے اماموں کی اطاعت کرتے ہیں کہ جن کی امامت کا آپ نے تذکرہ کیا اور ہم سے عہد و پیمان لیا ہمارے دل و جان ، زبان اور ہاتھ سے بیعت لی جو آپکے قریب تھے ؛ یا زبان سے اقرار لیا ، اس عہد و پیمان میں تبدیلی نہ کریں گے اور خدا وند عالم کو اس پر گواہ بناتے ہیں جو گواہی کے لئے کافی ہے

۱۰۸

اور اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !آپ ہمارے اس پیمان پر گواہ ہیں ، ہر مؤمن ِپیروکار ظاہری یا مخفی ، فرشتگان خدا ، خدا کے بندے اور خدا ان سب لوگوں کا گواہ ہے۔( ۱ )

یعنی روز غدیر سے لے کر دنیا کے اختتام تک غدیر سے لحظۂ قیامت تک امت مسلمہ کی امامت خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علی ـ میں قرار پائی تمام َئمّہ معصومین علیہم السّلام حضرت علی ـکی اولاد میں سے ہیں جنہیں امّت مسلمہ کی امامت و ولایت کوتا قیام قیامت اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جہاں بھی حضرت امیر المؤمنین ـ کی ولایت و امامت کا اعلان کیا دیگر ائمہ اور آخری امام حضرت مہدی ـ کی ولایت کا اعلان بھی اسکے ساتھ کیا، لہٰذا حضرت علی ـ کی ولایت بھی ذکر ہوگئی اور عترت کی ولایت بھی بیان کر دی گئی اور ساتھ ہی حضرت مہدی عجل ﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ولایت بھی معرض عام ہوئی۔

____________________

(۱)۔ غدیر کے دن کارسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معروف خطبے میں سے کچھ حصّہ :

پھر تمام ائمہ معصومین علیہم السّلام کے لیے'سب لوگوں کے اعتراف ' کے ساتھ ساتھ سب سے بیعت لی گئی غدیر کے دن ولایت کا پیغام بھی تھا اور امامت و ولایت کی تعیین بھی، غدیر کے دن ولایت کا پیغام بھی تھا اور سلسلہ امامت و ولایت کے لئے عمو می بیعت بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدآنے والی امامت بھی ذکرہوئی اور اس کا تا قیام قیامت تسلسل بھی اب کونسا ابہام باقی رہ گیا تھا جو مسلمانوں کی صفوں میں گھسے ہوئے منافقوں کیلئے شک و شبہ کی گنجائش فراہم کرتا ؟

اب کونسی خالی جگہ باقی تھی کہ حکومت کے پیاسے اپنے قدم رکھنے کی جگہ پاتے ؟ یہی وجہ تھی کہ ان کے سینوں میں بغض و حسد کی آگ بھڑک اٹھی اور دست بشمشیر ہو گئے۔

۱۰۹

۳۔ اہلبیت علیھم السلام کی مظلومیت کے اسباب :

اگرچہ مخالفین اورمنافقین رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں باوجود فکری اورسیاسی پروپیگنڈے کر کے مسلمانوں کے درمیان کامیابی حاصل نہ کرسکے تاکہ اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنا سکیں ، لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد جو بھی سازش کر سکتے تھے کی جب جناب زہرا سلام ﷲ علیہا احد میں حضرت حمزہ ـ کے مزار پر عزاداری میں مشغول تھیںتو آپ سے سوال کیا گیا :

( لوگ آپ کے اور علی ـ کے خلاف کیوں ہو گئے ہیں اور آپ کے مسلّم حق کو کیوں غصب کرلیا ہے حضرت زہرا سلام ﷲ علیہا نے جواب دیا :

'' لٰکِنَّ ه ٰا اَحْقٰاد بَدْرِیَّة وتَرات اُحُدِیَّة کٰانَتْ عَلَیْ ه ٰا قُلُوْبُ النِّفٰاق مُکْتَمِنَةً لِاِمْکٰان الْوُشٰاةِ فَلَمّٰا اِسْتَ ه ْدَفَ الَمْرُ اُرْسِلَتْ عَلَیْنٰا شٰابیْبُ الْآثٰارِ .''

(یہ سارا کینہ و حسد جنگ بدر اور جنگ احد کا انتقام ہے جو منافقوں کے دلوں میں پوشیدہ تھا اور جس دن سے انہوں نے حکومت پر غاصبانہ قبضہ کیا ہے اپنے دلوںمیں موجودکینہ اورحسد کی آگ

۱۱۰

ہم پر برسانا شروع کردی۔)( ۱ )

انہوں نے اسکے بعد سے َئمّہ معصومین علیہم السّلام کو امامت اور رہبریت کی فرصت مہلت نہ دی، اور حضرت علی ـ کے پانچ سالہ دور حکومت کو تین جنگوں کی تحمیل کے ذریعہ خاک و خون میں ملادیا اور تاریخ کے اوّل مظلوم کے دل کا خون کر دیا ۔

جیسا کہ حضرت امیر المؤمنین ـ نے فرمایا!

'' اَمٰا وَﷲ ا ِنْ کُنْتَ لَفیْ سٰا قَتِ ه ٰاحَتّیٰ تَوَلَّتْ بِحَذَافیْرِ ه ٰا: مٰا عَجَزْتُ وَلا جَبُنْتُ ، وَاِنَّ مَسیْرِیْ ه ٰذَا لِمِثْلِ ه ٰا ؛ فَلَاَنْقُبَنَّ الْبٰاطِلَ حَتّیٰ یَخْرُجَ الْحَقُّ مِنْ جَنْبِ ه ِ مٰا لِیْ وَلِقُرَیْشٍ ! وَﷲ ِ لَقَدْ قٰا تَلْتُ ه ُمْ کٰافِریْنَ ، وَلَاُ قٰا تِلَنَّ ه ُمْ مَفْتُوْنِیْنَ وَاِنِّیْ لَصٰاحِبُ ه ُمْ بِالْاَمْسِ کَمٰا اَنٰا صٰاحِبُ ه ُمُ الْیَوْم وَﷲ ِمٰا تَنْقِمُ مِنّٰا قُرَیْش ِلاَّ َنَّ ﷲ َأخْتٰارَنٰا عَلَیْ ه ِمْ ،فَاَدْخَلْنٰا ه ُمْ فِیْ حَیَّزِنٰا ، فَکٰانُوْ ا کَمٰا قٰالَ الْاَوَّلُ :

اَدَمْتَ لَعَمْرِیْ شُرْبَکَ الْمَحْضَ صَابِحاً

وَ َ کْلَکَ بِالزُّ بْاْدِ ا لْمُقَشَّرَةَ ا لْبُجْرَا

وَ نَحْنُ وَ ه َبْنٰاکَ الْعَلَا ئَ وَ لَمْ تَکُنْ

عَلِیّاً ، وَحُطْنٰا حَوْلَکَ الْجُرْدَ وَالسُّمْرَا

____________________

( ۱)۔ بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۱۵۶ اور مناقب ابن شہرآشوب ، ج ۲ ،ص ۲۰۵

۱۱۱

آگاہ ہو جاو! کہ بخدا قسم میں اس صورت حال کا تبدیل کرنے والوں میں شامل تھا یہاں تک کہ حالات مکمل طور پر تبدیل ہوگئے اور میں نہ کمزور ہوا اور نہ خوف زدہ ہوا اور آج بھی میرا یہ سفر ویسے ہی مقاصد کے لئے ہے میں باطل کے شکم کو چاک کر کے ا س کے پہلو سے وہ حق نکال لوں گا جسے اس نے مظالم کی تہوں میں چھپا دیا ہے ،میرا قریش سے کیا تعلق ہے میں نے کل ان سے کفر کی بنا پر جہا د کیا تھا اور آج فتنہ اور گمراہی کی بنا پرجہاد کروں گا میں ان کا پرانا مد مقابل ہوں ، اور آج بھی ان کے مقا بلہ پر تیار ہوں ۔

خدا کی قسم قر یش کو ہم سے کوئی عداوت نہیں مگر یہ کہ پرور دگار نے ہمیں منتخب قرار دیا اور ہم نے ان کو اپنی جماعت میں داخل کرنا چاہا تو وہ ان اشعار کے مصدا ق ہو گئے ۔( ۱ )

ہماری جان کی قسم یہ شرا ب ناب صبا ح یہ چرب چرب غذائیں ہمارا صدقہ ہے

ہمیں نے تم کو یہ سا ری بلندیاں دی ہیں وگرنہ تیغ و سناں بس ہمارا حصہ ہے

اور انکے بعد جلّاد صفت ،حکومت کے طلبگار بنی امیّہ نے پھرانکے بعد بنی عبّاس نے جو بھی ظلم کرنا چاہا کیاتمام ائمہ علیہم السّلام کویا زہر دے کر یا شمشیر کے ذریعہ شہید کر دیا، وہ یہ سمجھتے تھے کہ طاقت و تلوار انکے پاس ہے اس لئے حاکم ہیں ، لیکن یہ انکی خام خیالی تھی اور وہ مسلمانوں کے دلوں کو نہ جیت سکے اس کے اہلبیت ـ کا وجود دنیا میں موجود تھا ۔

اَولادِ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاک و اطہر خون کی برکت سے خدا وند عالم کے دین کامل کو بقا حاصل ہوئی، خون شہیداں رائیگاں نہ جائے گا، جب تک خون باقی ہے اسکی برکت بھی باقی ہے ۔

____________________

(ا)۔سناد و مدارک مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔ کتاب ارشاد ، ص ۱۱۷/۱۵۴ : شیخ مفید استاد سیّد رضی ( متوفّیٰ ۴۱۳ ھ )۲۔ کتاب الخصائص ، ص ۷۰ : نسائی ( متوفّیٰ ۳۰۳ ھ )

۳۔ خصائص الائمہ : سیّد رضی ( متوفّیٰ ۴۰۶ ھ )۴۔ شرح قطب راوندی ، ج ۱ ص ،۲۸ : ابن راوندی ( متوفّیٰ ۵۷۳ ھ )

۵۔ نہج البلاغہ ، نسخۂ خطی ، ص ۲۸ : نوشتۂ ابن مؤدّب ( ۴۹۹ ھ )

۶۔ نہج البلاغہ ، نسخۂ خطی ،ص ۳۰ : نوشتۂ ( ۴۲۱ ھ )

۷۔ بحار الانوار ، ج ۳۲ ،ص ۷۶/۱۱۴ : مرحوم علّامہ مجلسی ( متوفّیٰ ۱۱۱۰ ھ )

۸۔ بحار الانوار ، ج ۱۸ ، ص ۲۲۶ : مرحوم علّامہ مجلسی ( متوفّیٰ ۱۱۱۰ ھ )

۱۱۲

چھٹی فصل

حجّة الوداع اور غدیر کے موقع پر پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خطبہ

۱ ۔ شناخت خدا :

شروع ﷲ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔

تمام تعریفیں اس خدا کے لئے مخصوص ہیں جو اپنی وحدانیت میں بلند، یکتائی میں اکیلا، اپنی سلطنت اور قدرت میں بالا تر ہے ، اسکی قدرت کے ستون محکم اور استوار ہیں ،اسکاعلم ہر چیز کو شامل ہے ، اور ہر جگہ موجود ہے ، اور ہر موجود پر اپنی قدرت اور حجّت کے ساتھ حاوی ہے ،وہ ہمیشہ سے عظیم ہے ،اور ہمیشہ صاحب و لائق تعریف ہے ، وہ بلندیوں کو وجود بخشنے والا ہے ۔

اور زمین کے فرش کو بچھا نے والاہے زمین آسمان کا حاکم پاک ومقدس اور وہی روح او ر فرشتوںکا پروردگار ہے اسکی بخشش اور عطاء ہر موجود کو شامل ہے ، اور سب کے لئے فراوان اور وسیع ہے، تمام دیکھنے والوں کو دیکھتاہے ، اور کوئی آنکھ بھی اسکو نہیں دیکھ سکتی۔

وہ ایسا بخشنے والا اور غفور ہے جسکی رحمت کا سایہ سب کے سروں پر ہے ، اور جس نے سب پر اپنی عطائے نعمت کے سبب احسان کیا ہے ،گنہگاروں کو سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا ،اور مستحقین عذاب کو عذاب دینے میں جلدی سے کام نہیں لیتا، خدا ہر شی پر احاطہ کئے ہوئے ہے اور ہر شی پر قدرت رکھتا ہے ، اسکا مثل کوئی نہیں ہے ، اس نے ہر لا وجودشی کو وجود بخشا۔

وہ خدا جسکی حکومت عدالت پر استوار ہے ، اسکے سوا کوئی خدا نہیں وہ صاحب قدرت اور دانا ہے وہ آنکھوں کی بصارت سے بالا تر ہے ، لیکن وہ ہر شی کو دیکھتا ہے ، وہ مہربان ہے او ر ہر چیز سے آگاہ ہے ، کوئی بھی اسکی حقیقی صفات کا مشاہدہ نہیں کر سکتا اور اسکے ظاہر و باطن کے بار ے میں کچھ نہیں جانتا مگر ان چیزوں کے سا تھ جو اس نے اپنی شناخت کے لئے خود بیان فرمائیں ہیں میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ ایسا خدا ہے جسکے نور اور پاکیزگی نے زمانے کو پرُ کیا ،

۱۱۳

اور ا س کا نور ہمیشہ سے ہمیشہ تک ہے ، اسکا حکم بغیر کسی مشورے کے جاری ہوتا ہے اورموجودات کی خلقت میںاسکا کوئی شریک نہیں ہے ، اسکی تدبیر میں کوئی تبدیلی نہیں ، ا س نے بغیر کسی نمونے کے اشیا کو صورت بخشی ، اور دوسروں کی مدد کے بغیر خلق کیا ، جس چیز کو بھی ا س نے چاہا خلق کردیا اور ظاہر کردیا۔

وہ ایسا خدا ہے جسکا کوئی ثانی نہیں ہے ، اسکی بنائی ہوئی ہر شی مستحکم ہے ، اور خوبصورتی میں اسکی کوئی مثال نہیں ہے وہ ایسا عادل خدا ہے جو ستم نہیں کرتا ، اور ایسا صاحب کرامت ہے کہ ہر چیز کی بازگشت اسکی جانب ہے ۔

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہر چیز اس کی قدرت کے سامنے جھکی ہوئی ہے اور اس کے خوف وہیبت سے ہر چیز ہراساں ہے ۔

خدا تمام مملکتوں کا مالک ہے ، اور آسمانوں کو اپنی جگہ ٹہرائے ہوئے ہے ، اور چاند و سورج کو ان کے محور پر چلانے والا ہے اور یہ اپنے معینہ راستے سے ہٹتے نہیں ،رات کو دن میں اور دن کو رات میں پے در پے لانے والا ہے وہ ہر جابر و ظالم کے غرور کو توڑنے والااور ہر غارت گر اور تباہی مچانے والے شیطان کو نابود کرنے والا ہے ۔

خدا کا کوئی دشمن اور شریک نہیں ہے وہ اکیلا ہے اور ہر شی سے نیاز ہے ، نہ ہی وہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ ہی اسکی کوئی اولاد ہے ،اور اسکی ہمسری اور برابری کرنے والی کوئی شی نہیں ہے وہ خدا یگانہ اور بزرگوار ہے ، جس چیز کاارادہ کرے وجود میں آجاتی ہے وہ جاننے والا اور شمار کرنے والا ہے ، اوروہ مارنے اور زندہ کرنے والا ہے ، اور فقر و غنیٰ دینے والا ہے ، وہ ہنساتا اور رُلاتا ہے ، قریب اور دور کرتا ہے ، روکنے اور دینے والا ہے ، وہ لائق بادشاہی ہے ، اور تمام تعریفیں اس ہی کے لئے مخصوص ہیں ، نیکیاں اسکے ہاتھ ہیں اور وہ ہر شی پر قادر ہے رات کو دن ارور دن کو رات میں تبدیل

۱۱۴

کرنے والا ہے ، اسکے سوا کوئی خدا نہیں ہے جو صاحب عزّت اور مغفرت کرنے والا ہے ، دعائوں کو برلانے والا ہے جزا دینے والاہے ، سانسوں کا شمارکرنے والا ہے اور جنوںاور انسانوں کا پروردگار ہے اسکے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ہے رونے والوں کے نالے اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے،اور گڑگڑانے والوں کا گڑگڑانا اس پر اثر انداز نہیں ہوتا ، وہ نیکی کرنے والوں کا محافظ اور ہدایت یافتہ کو کامیاب کرنے والاہے ، وہ مومنین کا مولا اور دونوں جہان کا رب ہے وہ ایسا خدا ہے جس کا ہر مخلوق شکر ادا کرتی ہے، وہ ہر حال میںخوشی وغمی ، سختی وآسانی میں لائق تعریف ہے ۔

۲ ۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایمان اور خدا کی طرف جھکاؤ :

میں خدا ،فرشتوں، آسمانی کتابوں ، اور اپنے سے پہلے پیغمبروں کی رسالت پر ایمان رکھتا ہوں ،میں خدا کے حکم کومانتا ، اور ہر اس حکم کی اطاعت کرتا ہوں جو اسکی خوشنودی کا باعث ہو ، اس کو بجالانے میں جلدی کرتا ہوں ، اسکی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں ،کیونکہ میں اطاعت کا مشتاق او ر اسکے عذاب سے خو فزدہ ہوں ، اس لئے کہ وہ ایسا خدا ہے جسکے سامنے کسی کا حیلہ کارگر نہیں ،اور سب اسکے ستم سے محفوظ ہیں میں اس کے لائق عبادت ہونے کا اعتراف کرتا ہوں ، اور اسکی ربوبیت وپرورد گاری کا شاہد ہوں اس نے جو مجھ پر وحی بھیجی ہے اس کو انجام دوں گا ، کیونکہ اگر انجام نہ دوں تو اس کے عذاب کا خوف ہے ، اور جس عذاب سے کوئی چھٹکارا دلانے والا نہیں ،چاہے کتنا ہی بڑا مفکّر اوراندیشمند ہی کیوں نہ ہو ۔

۱۱۵

۳۔ حضرت علی ـ کی ولایت کا اعلان :

اسکے سوا کوئی خدا نہیں ہے ، اس نے مجھ سے فرمایا ہے کہ جو کچھ ا س نے مجھ پر نازل فرمایا ہے اگر تم لوگوں تک نہ پہنچاؤں تو گویا میں نے وظیفۂ رسالت کو انجام نہیں دیا ، پھر ا س نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ شرّ دشمنان سے مجھے محفوظ رکھے گا ، وہ ہے خدا مہربان کفایت کرنے والا ،تو اس نے مجھ پر یوں وحی نازل فرمائی ہے ۔

خدا کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ،

اے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے علی ـ کے بارے میں نازل ہو ا ہے اس کو پہنچا دو، اگر تم نے یہ پیغام نہ پہنچایا تو گویا اس کی رسالت کا کوئی پیغام نہیں پہنچایا اور تم ڈرو نہیں خدا تم کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

اے لوگو میں نے اب تک جو کچھ مجھ پر نازل ہوا اسکی تبلیغ میں کوتاہی نہیں کی ہے ،اور ابھی جواس آیت کے توسط سے مجھ پر نازل ہوا ہے اس کو تم تک پہنچا نے ولا ہوں جبکہ یہ آیت نازل ہو چکی ہے ایک حقیقت تم لوگوں کے سامنے واضح اور آشکار طور پر کہوںگا۔

حقیقت میں جبرئیل ـ تین بارمجھ پر نازل ہوا اور خدا کا سلام پہنچایا ،اور یہ پیغام لایا کہ اس سر زمین ''غدیر خم '' پر توقّف کروں اور تمہارے سیاہ سفید کو بیان کروں ! حضرت علی ابن ابی طالب ـ میرے بعد میرے وصیّ اور جانشین اور تم لوگوں کے امام ہیں ،اس کی نسبت میرے ساتھ ایسی ہے جیسی ہارون کی موسیٰ پیغمبر کے ساتھ تھی ، فرق صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا ، خدا اور رسول کے بعد علی ـ تمہارے رہبر اور امام ہیں ، اور خدا وندعالم نے اپنی کتاب قرآن مجید میں یہ آیت علی ـ کی ولایت کے بارے میں مجھ پر ناز ل کی ہے

۱۱۶

بتحقیق تمہارا رہبر اور سرپرست خدا اور اسکا رسول ،اور وہ مومنین جو پابندی سے نماز ادا کرتے ہین ، اور حالت رکوع میںزکواة دیتے ہیں ۔( سورہ مائدہ ایت ۵۵ )

اور حضرت علی ابن ابی طالب ـ نے نماز قائم کی اور حالت رکوع میں ز کواة دی ، اور خدا بزرگ اور بر تر کا ہر حال میں شکر ادا کیا ۔

۴۔ حضرت علی ـ کے لئے بیعت لینے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احتیا ط کے اسباب :

میں نے جبرئیل سے اس بات کی درخواست کی کہ خدا سے اس حکم کی بجاآوری کے لئے معافی طلب کرے کیونکہ میں اس بات سے ا چھی طرح واقف ہو ں کہ ! تمہارے درمیان پرہیز گار بہت کم اور منافق بہت زیادہ ہیں ،گنہگار، حیلہ گر اور اسلام کا مذاق اڑانے والے بہت زیادہ ہیں ، وہ لوگ کہ جن کی شناخت قرآن میں خود خدا نے یوں کروا ئی ہے :

( اپنی زبانوں سے وہ جو کچھ کہتے ہیں ا ن کے د ل میں نہیں ہے ، اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ دوغلا پن کوئی بہت سادہ سی بات ہے،حالانکہ پروردگار کے نزدیک بہت بڑی ہے ۔)

اور بہت ساری آزار اور تکلیفیں ہیںمنافقوں کی طرف سے جنہوں نے ہمیشہ مجھے تکلیف پہنچائی ہے ، یہاں تک کہ انہوں نے میرا نام ''گوش '' رکھ دیا ، یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ دوسرے کہتے ہیں میں سنتا ہوں کیونکہ انہوں نے یہ دیکھا ہے کہ میں ہمیشہ علی ـ کے ساتھ ہوں اور میں انکی اور انکے نظریّات کی طرف توجّہ دیتا ہوں، یہاں تک کہ خدا وند عالم نے انکی اس اہانت کا جواب دینے کے لئے قرآن مجید میں یہ آیت نازل کی ۔ ( سورہ توبہ آیت ۶۱)

ان میںسے بعض نے پیغمبر کو ستایا اور کہا کہ وہ گوش(کان) ہیں ، اے رسول تم کہدو کان تو ہیں مگر تمہاری بھلائی سننے کے کان ہیں اور خدا پر ایمان اور مومنین کی باتوں پر یقین رکھتے ہیں ۔

۱۱۷

اگر میں ابھی چاہوں تو منافقوں کا نام و نشان کے ساتھ تعارف کروا دوں ،یا انگلی سے ان کی طرف اشارہ کردوں ،لیکن خدا کی قسم انکے سلسلے میں ،میں بزرگواری سے کام لے رہا ہوں اور ا ن کو رسوا نہیں کرونگا ، ان تمام باتوں کے باوجود خدا وند عالم مجھ سے اس وقت تک خشنود نہیں ہوگا جب تک میںاس کی طرف سے نازل کئے گئے پیغام کو تم تک نہ پہنچادوں ،اس نے فرمایا ہے کہ ( اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہو ا ہے اس کو پہنچا دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو سمجھ لو تم نے اس کا کوئی پیغام نہیں پہنچا یا اور تم ڈرو نہیں ، خدا تمہیں لوگوں کے شر سے محفوظ ر کھے گا ۔)

۱۱۸

۵ ۔ ائمہ معصومین (ع) کی اما مت کا تعارف:

اے لوگو ! جان لو کہ خدا وند عالم نے علی ـ کو تمہارا سرپرست،ولی ، پیشوا اور امام مقرّر کر دیا ہے ؛ انکی اطاعت تمام مہاجرین و انصار ، اسلام کے نیک پیرو کاروں،ہر شہری اور دیہاتی ، عرب وعجم ، آزاد و غلام ، چھوٹے بڑے ، کالے گورے ،اور خدا وند عالم کی عبادت کرنے والے تمام لوگوںپر واجب ہے ، اس کا حکم مانا جانا چاہیے، اس کا ہر کلام و سخن مناسب ہے ، اسکے ہر دستو ر کی اطاعت واجب ہے ، جو اسکی مخالفت کرے اس پر لعنت ہے ، اور جو ا س کے فرمان کی اطاعت کرے ا س کی بخشش ہے ، اس کی تصدیق کرنے والا مومن اور تکذ یب کرنے والا کافر ہے ، ہر وہ شخص جو علی ـ کی بات سنے اور ا س کی اطاعت کرے خدا ا س کو بخش دے گا ۔

اے لوگو!یہ وہ آخری مقام ہے کہ جہاں میں تمہارے درمیان کھڑے ہو کر بات کر رہا ہوں، اس لئے میری بات اچھی طرح سن لو اور اس پر عمل کرو،اور اپنے پروردگارکی اطاعت کرو وہی خدا تمہارا پرودگا ر معبود اور سر پرست اور اس کے بعد اس کا نبی میں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو ابھی

۱۱۹

تمہارے درمیان کھڑا بات کررہا ہوں تمہارا سر پرست ہوں ، پھر میرے بعد علی ـ خدا کے حکم سے تمہارے سر پرست اور امام ہیں اور پھر انکے بعد امامت میری اولاد میں جو کہ علی ـ سے ہوں گے قیامت تک کے لئے برقرار رہے گی ، یہاں تک کہ تم روز قیامت خدا اور اس کے رسول سے ملاقات کرو ۔

لوگو ! حلال خدا کے علاوہ کچھ بھی حلال نہیں ، اور حرام خدا کے علاوہ کچھ حرام نہیں ، اس نے مجھے حلال و حرام کے بارے میں بتایا ،اور میں نے اس علم ودانش کی بنیاد پر جو میں نے خدا وند عالم سے حاصل کیا ہے ، اسکی کتاب میں سے حلال و حرام کو تمہارے لئے واضح کر دیا ہے ۔

اے لوگو !ایسا کوئی علم نہیں ہے جسے خدا ئے منّا ن نے میرے سینے میں نہ رکھا ہو؛ ا ور میں نے یہ تمام علوم حضرت علی ـ کو تعلیم فرمائے ہیں علی ـ تمہارے امام اور پیشوا ہیں

۶ ۔ حضرت علی ـ کے سلسلے میں لوگوں کی ذمّہ داریاں:

اے لوگو! علی ـ کے سلسلے میں گمراہ نہ ہونا ، اور اس سے دوری اختیا ر نہ کرنا ، اس کی ولایت سے منحرف نہ ہوجانا وہ حق کی ھدایت کرنے والااور حق پر عمل کرنے والا ہے باطل کو نابو دکرنے والا اور باطل سے روکنے والاہے اور خدا کی راہ میں کسی برا بھلا کہنے والے کی کوئی پروا نہیں کرتا،

بتحقیق علی ـ وہ پہلا شخص ہے جو خدا اور اسکے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان لایا ،علی ـ وہ شخص ہے جس نے اپنی جان کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر فدا کردیا ، وہ ہمیشہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ساتھ دیا ، ایک دن ایسا تھا جب علی ـ کے سوا مردوں میںسے کوئی نہ تھا جو میرے ساتھ خدا کی عبادت کرتا ۔

اے لوگو ! علی ـ کودوسروں سے افضل اور بر تر جاننا کیونکہ خدا نے اسکو برتری دی ہے ، اور اسکی امامت و ولایت کو قبول کر نا کیونکہ خدا نے ا س کو تمہارا امام مقرّر کیا ہے ۔

۱۲۰