منزلت غدیر

منزلت غدیر0%

منزلت غدیر مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 156

منزلت غدیر

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین محمد دشتی
زمرہ جات:

صفحے: 156
مشاہدے: 42102
ڈاؤنلوڈ: 2415

تبصرے:

منزلت غدیر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 156 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42102 / ڈاؤنلوڈ: 2415
سائز سائز سائز
منزلت غدیر

منزلت غدیر

مؤلف:
اردو

اہلِ عراق کو عراق کی طرف ، اہلِ شام کو شام کی طرف ،بعض کو مشرق کی سمت اوربعض کو مغرب کی سمت ،ایک تعدادکو مدینہ ، اور اسی طرح مختلف گروہوں کو اپنے اپنے قبیلوں اور دیہاتوں کی طرف لَوٹنا تھا،رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسے مقام کا انتخاب کرتے اور توقّف کرتے ہیں شدید گرمی کا عالم ہے ، سائبان اور گرمی سے بچنے کے دوسرے وسائل موجود نہیں ہیں اور عورتوں اور مردوں پر مشتمل ایک لاکھ بیس ہزار (۰۰۰،۱۲۰)حاجیوں کی اتنی بڑی تعداد کو ٹہرنے کا حکم دیتے ہیں یہاںتک کہ( ۱ ) پچھے رہ جانے والوں کا انتظار کیاجائے ،آگے چلے جانے والوں کو واپس بلایا جائے اور پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُونٹوں کے کجا ووںاور مختلف وسائل سے ایک اُونچی جگہ بنانے کا حکم د یا تاکہ سب لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آسانی سے دیکھ سکیں، اور اسلامی ممالک سے آ ئے ہو ئے حاجیوں کے جمع ہونے تک انتظار کیا گیا، گرمی کی شدّت سے پسینے میں شرابور لوگ صرف اس لئے جمع ہوئے تھے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پیغام غور سے سنیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ فرمائیں!

____________________

( ۱ ) واقعۂ غدیر کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت حاجیوں کا جمع غفیر تھا جوکہ مختلف اسلامی ممالک سے آئے ہوئے تھے جنکی تعداد مؤرّخین نے نوّے ہزار (۰۰۰،۹۰) سے ایک لاکھ بیس ہزار (۰۰۰،۱۲۰)تک نقل کی ہے اورحج کی ادائگی کے بعد اپنے اپنے وطن لَوٹتے ہوئے ۱۸ ذی الحجہ کے دن خدا کے حکم سے سرزمینِ غدیر خُم پر جمع ہوئے اور جنہوں نے رسولِ خد اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیام کو سُننے کے بعدحضرت علی ـ کی بیعت کی،غدیر کے دن لوگوں کی اس عام بیعت کا اعتراف بہت سارے مؤرِّخین نے کیا ہے ۔جو مندرجہ ذیل ہیں!

۱ ۔ سیرۂ حلبی ، ج ۳ ص ۲۸۳ : حلبی :

۲ ۔ سیرۂ نبوی ، ج ۳ ص ۳ : زینی دحلان

۳ ۔ تاریخُ الخُلَفاء ، ج ۴ : سیوطی (متوفّٰی ۹۱۱ ہجری)

۴ ۔ تذکرةُخواص الاُمّة ، ص ۱۸ : ابنِ جَوزی(متوفّٰی ۶۵۴ ہجری)

۵ ۔ احتجاج ، ج ۱ ص ۶۶ : طبرسی (متوفّٰی ۵۸۸ ہجری)

۶ ۔ تفسیرِ عیّاشی ، ج ۱ ص ۳۲۹/۳۳۲ حدیث ۱۵۴ : ثمر قندی

۷ ۔ بحارُا لا نوار ، ج ۳۷ ص ۱۳۸ حدیث ۳۰ : علّامہ مجلسی

۸۔ اثباتُ الہُداة ، ج ۳ حُرِّعاملی ص ۵۴۳ /۵۴۴ حدیث ۵۹۰/۵۹۱/۵۹۳ :

۹ ۔ تفسیرِبرہان ، ج ۱ ص ۴۸۵ حدیث ۲ ، ص ۴۸۹ حدیث ۶ :بحرانی

۱۰ ۔ حبیبُ السَّیر ، ج ۱ ص ۲۹۷/۳۷۵/۴۰۴/۴۱۲/۴۴۱ : خواند میر

۲۱

''اے لوگو !میں علی ـ کو دوست رکھتا ہوں ''

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی لوگوں سے بار بارتاکید کی کہ آج کے اس واقعہ کو اپنی اَولادوں،آئندہ آنے والی نسلوںاور اپنے شہرودیار کے لوگوں تک پہنچادیں۔

یہ اہم واقعہ کیا ہے؟

کیا صرف یہ ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ فرمائیں ! میں علی ـ کو دوست رکھتا ہوں ؟

کیا ایسی حرکت کسی عام شخص سے قابلِ قبول ہے ؟

کیا ایسی حرکت بیہودہ ،اذیّت ناک اور قابل مذمّت نہیں ہے ؟

پھر کسی نے اعتراض کیوں نہیں کیا؟

کیا مسلمان یہ نہیں جانتے تھے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علی ـ کو دوست رکھتے ہیں ؟ کیا علی ـ ایسے صف شکن مجاہد کی محبّت پہلے سے مسلمانوں کے دلوں میں نہیں بسی ہوئی تھی؟

۲۔فرشتۂ وحی کا بار بار نزول:

اگر غدیر کا دن صرف دوستی کے اعلان کے لئے تھا تو ایسا کیوںہواکہ جبرئیل امین جیسا عظیم فرشتہ تین بار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہو اور پیغامِ الٰہی سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آگاہ کرے؟! جیسا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود ارشاد فرمایا!۔

'' إنَّ جِبْرَئ ي ْلَـ ه َبَطَ اِلَیَّ مِرٰاراً ثَلٰاثاً یَاْ مُرُنِیْ عَنِ السَّلٰامِ رَبِّیْ وَ ه ُوَالسَّلٰامُ َانْ َقُوْمَ فِی ه ٰذا الْمَشْ ه َدِ، فُعْلِمَ کُلَّ َبْياَضٍ وَ َسْوَدٍ اَنَّ عَلِیَّ ابْنَ اَبِیْ طٰالِبٍ َاخِیْ وَ وَصِییّ و َخَلِیفَتِی عَلٰی اُمَّتِیْ وَ الْاِمٰام ُ مِنْ بَعْدِیْ اَلَّذِی مَحَلَّ ه مِنِّیْ مَحَلُ ه ٰارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلّٰا انَّ ه لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ وَ ه ُوَ وَلِیُّکُمْ بَعْدَ ﷲ وَرَسُوْلِ ه وَ قَدْ اَنْزَلَ ﷲ تَبٰارَ کَ وَ تَعٰا لٰی عَلَیَّ

۲۲

بِذٰ لِکَ آیَةً مِنْ کِتٰابِ ه !''

( اِنَّمٰاوَلِیُّکُمُ ﷲ ُوَرَسُوْلُهُ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْاالَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَیُؤْ تُوْن الزَّکٰوةَ وَ هُمْ رٰاکِعُوْنَ ) ( ۱ )

وَعَلِیُّ بْنَ اَبِیْطالِبٍ اَلَّذِیْ اقٰامَ الصَّلٰوةَوَاٰتَی الزَّکٰوةَ وَ ه ُوَرٰاکِع یُرِیْد ﷲ َ عزَّ وَجَلَّ فِی ْکُل ّحٰالٍ ( ۲ )

جبرائیل ـ تین بار وحی لے کرمجھ پرنازل ہو ئے اور درود و سلام کے بعد فرمایا کہ یہ مقام غدیرہے یہاں قیام فرمائیں اورہر سیاہ و سفید،یہ بات جان لے کہ حضرت علی ـ میرے بعدآپ کے وصی خلیفہ اورتمہارے پیشوا ہیں ، انکا مقام میری نسبت ایسا ہی ہے جیسا مقام ہارون کا موسٰی کی نسبت تھا ،بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گاعلی ـ خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد تمہارے رہنما ہیں خدا وندِ صاحب عزّت و جلال نے اپنی پا ک وبابرکت کتاب قرآنِ مجید میں اس مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی۔اس کے سوا کچھ نہیں کہ تمہارے ولی اور سرپرست خدا،رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوروہ لوگ ہیں جو ایمان لائیں ،نماز بپا کریں اور حالتِ رکوع میں زکٰوة ادا کریں یہ بات تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو کہ علی ـ نے نماز بپا کی اور حالتِ رکوع میں زکٰوة ادا کی اور ہر حال میں مرضیِ خدا کے طلبگار رہے ۔

____________________

(۱)مائدہ، ۵/ ۵۵

(۲) حجّةُالوداع کے موقع پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خطبہ ( کتاب احتجاج طبرسی ،ج ۱، ص۶۶)

خطبہ کے مدارک و اسناد :

(۱) ۔ احتجاج ، ج ۱، ص ۶۶ : طبرسی ( ۲)۔ اقبا ل الاعمال ،ص۴۵۵: ابن طاؤوس ( ۳)۔ کتاب الیقین،باب۱۲۷: ابن طاؤوس

( ۴) التحصین ، باب۲۹: ابن طاؤوس (۵)۔روضةُالواعظین ،ص۸۹ :قتال نیشابوری (۶)۔ البرہان،ج۱ ص۴۳۳:بحرانی

(۷)۔ اثباتُ الہُداة ، ج۳ ص۲ : عاملی(۸)۔ بحارُالانوار ، ج۳۷ص ۲۰۱:بحرانی( ۹)۔ کشف المہم،ص ۵۱:بحرانی

(۱۰)۔تفسیرِ صافی،ج۲، ص۵۳۹:فیض کاشانی

۲۳

۳۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پریشانی:

اگر غدیر کا مقصد صرف علی ـ کی دوستی کا پیغام پہنچانا تھا تواس پیغامِ الٰہی کے پہنچا دینے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پریشانی کا کیا سبب ہے؟آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تین بار پس و پیش کیوں کی؟ اور جِبرَئیل ـ کا مسلسل اصرار کرنا اور اس آیت کاپڑھناکہ( یٰا اَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰا اُنْزِلَ ِالَیْکَ مِنْ رَبِّکْ وَاِنْ لَمْ تَفْعَل فَمٰا بَلَّغْتَ رِسٰالَتَهُ ) ( ۱ )

( اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !جو حکم خدا کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دیں اگر آج آپنے یہ کام انجام نہیں دیا تو گویا آپنے اپنی رسالت کو ادھورا چھوڑ دیا ۔( ۲ )

____________________

(۱) مائدہ ۵/۶۷

(۲)بہت سارے مسلمان عُلماء نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ! یہ آیۂ مبارکہ غدیر کے دن حضرت ِ علی ـ کی ولایت کے ا علان کے لئے نازل ہوئی۔

۱۔ الولایة فی طرق حدیث الغدیر : طبری ۲۔ ما نزل القرآن فی امیرالمؤمنین ـ : ابو بکر فارسی ۳۔ ما نزل القرآن فی علی ـ : ابو نعیم ۴۔ الدرایة فی حدیث الولایة : سجستانی

۵۔ الخصائص العلویّة : نطنزی ۶۔ تفسیر شاہی : محبوب العالم۷۔ ارجح المطالب ، ص ۶۷/۶۸/۲۰۳/ ۵۶۶ : امرتسری۸۔ اسباب النزول ، ص ۱۳۵ : واحدی

۹۔ تاریخ دمشق ، ج ۲ ، ص ۸۵ : ابن عساکر ۱۰۔ فتح القدیر ، ج ۳ ، ص ۵۷ : شوکانی۱۱۔ مفاتیحُ الغیب ، ج ۱۲ : فخر رازی۱۲۔ تفسیر المنار ، ج ۶ ، ص ۴۶۳ : رشید رضا

۱۳۔ حبیبُ السَّیر، ج ۲ ،ص ۱۲ : خواند میر ۱۴۔ الدرّ المنثور ، ج ۲ ص ۲۹۸ : سیوطی۱۵۔ شواھدالتنزیل ، ج ۱، ص ۱۸۷ / ۱۹۲ : حسکانی ۱۶۔ فرائد ا لسّمطین : حموینی

۱۷۔ فصول المہمّة ، ص ، ۲۳ /۷۴ : ابن صبّاغ ۱۸۔ مطالب السؤول : ابن طلحہ۱۹۔ ینا بیع المودّة : ص ،۱۲۰ قندوزی۲۰ ۔ روح المعانی : ج ۲ ص، ۳۴۸ آلوسی

۲۱۔ عمدة القاری ، ج ۸ ، ص۵۸۴: عینی۲۲۔ غرایب القرآن ، ج ۶، ص ۱۷۰ : نیشا بوری ۲۳ ۔: مودّة القربی : ھمدانی

۲۴

یہ اتنا بڑااور اہم کام کیا تھا؟حضرت علی ـ کی دوستی کا پیغام تو کوئی اتنا بڑا کام نہیں تھا !اور یہ کام کسی خاص خطرہ کا حامل بھی نہیں تھا کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اتنا پریشان کرتا یہاں تک کہ ۳ بار حضرت جبرئیل ـ نازل ہوں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کام کو انجام دینے سے عذر خواہی کریں ،اس بات کا اظہا ر خود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس دن کے خطبہ میں کیا !

وَسَاَلْتُ جِبْرَئِیْل ا ـَنْ یَسْتَعْفِیَ الِیَ السَّلٰامَ عَنْ تَبْلِیْغِ ذٰلِکَ اِلَیْکُمْ؛ اَیُّ ه َاالنّٰاسُ؛ لِعِلْمِیْ بِقِلَّة ِ الْمُتَّقِیْنَ وَکَثْرَةِالْمُنٰافِقِیْنَ ، وَاِدْغٰال َالا ثْمِیْنَ وَحِیَل ِالْمُسْتَ ه ْزِئِیْن ِ بِالاِسْلٰامِ اَلَّذِیْن َوَصَفَ ه ُم ﷲ فِیْ کِتٰابِ ه :( بِاَنَّهُمْ یَقُوْ لُوْنَ بِاَلْسِنَتِهِمْ مٰالَیْسَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ وَیَحْسَبُوْنَه هَیِّنا ً وَ هُوَ عِنْدَﷲ ِعَظِیْم ) ( ۱ )

وَکَثْرَ ةِ َاذٰا ه ُمْ لِیْ غَیْرَ مَرَّة ِ، حَتّیٰ سَمُّوْنِی ا ُذُناً، وَزَعَمُوْاَنِّیْ کَذٰلِک لِکَثْرَةِ مُلٰازِمَتِ ه ا ِیّٰایَ، وَاِقْبٰالِیْ عَلَیْ ه ِ، وَ ه َوٰا ه ُ وَقَبُوْلِ ه حَتّیٰ ا َنْزَلَ ﷲ ُ عَزَّ وجَلَ َّفِیْ ذٰلِکَ قُرْآناً

( وَمِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَیَقُوْلُوْنَ هُوَاُذُ ن قُلْ اذُن خَیْرٍلَکُم ) ( ۲ )

وَلَوْ شِئْتُ اَنْ ُسَمِّیَ القٰائِلیْنَ بِذٰلِکَ بِاَسْمٰئِ ه ِمْ لَسَمَّیْتُ، وَاِنْ َوْمَیئَ ِلَیْ ه ِمْ بِاَعْیٰانِ ه ِم ْ لاَوْمْتُ،وَاَنْ َدُلَّ عَلَیْ ه ِمْ لَدَلَلْتُ،وَلٰکِنِّیْ وَﷲ ِ فِیْ ُمُوْر ه ِمْ قَدْ تَکَرَّمْتُ ۔

میں نے جبرَئیل ـ سے درخواست کی کہ مجھے علی ـ کی ولایت کے اعلان سے معاف رکھے کیوںکہ اے لوگو !میں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ ،پرہیزگار بہت کم اور منافقوں کی تعداد

____________________

(۱) نور،۲۴/۱۵

(۲) توبہ / ۶۱

۲۵

بہت زیادہ ہے ، مکّار گنہگار اور اسلام کا مذاق اڑانے وا لے موجود ہیں وہ لوگ کہ جن کے بارے میںخدا وندِعالم نے اپنی کتاب میں فرمایا: (وہ لوگ اپنی زبانوں سے ایسی باتیں کہتے ہیں کہ جن پر دل میں یقین نہیں رکھتے اور انکا خیال یہ ہے کہ یہ آسان اور بہت سادہ سی بات ہے جبکہ منافقت خدا کے نزدیک سب سے بڑاگناہ ہے )

ان منافقوں نے بارہا مجھے تکلیف پہنچائی یہاں تک کہ مجھ پر تہمتیں لگائیں اور کہا کہ ( پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم معاذﷲ دوسروں کے کہنے پر عمل کرتے ہیں اور اس میں انکا اپنا کوئی ا رادہ شامل نہیں ہوتا) کیونکہ! میں ہمیشہ علی ـ کے ساتھ تھا اور وہ زیادہ تر میری توجّہ کے مرکز تھے لہٰذا منا فقین حسد کی وجہ سے اس بات کو تحمّل نہ کر سکے یہاں تک کہ خداو ندِ بزرگ و بر تر نے ایک آیت نازل کی جسکے ذریعہ اُنکی ان بیہودہ باتوںکامُنہ توڑ جواب دیا فرمایاکہ:( بعض منافقین ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تکلیف پہنچاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ سرا پاگوش ہیں، اے رسول کہدو کہ پیغمبر اچھی باتیںسننے والا ہے یہی تمہارے لئے بہتر ی ہے) اگر ابھی چاہوں تو منافقوں کونام اور پتے کے ساتھ پہچنوا دوں، یا انکی طرف ا نگلی کا اشارہ کر دوںیا لوگوں کو انکو پہچاننے کے لئے راہنمائی کردوںتوجو چاہوں کر سکتا ہوںلیکن خداکی قسم میں ان کیلئے کریم ہوں اور بزرگواری سے کا م لیتا ہوں( ۱ )

اگر اُس دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علی ـ کی دوستی کا پیغام نہ پہنچاتے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر کیا حرف آتا ؟یہ کام ایسا کونسا کام ہے کہ اگر پیغمبر گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انجام نہ دیں تو انکی رسالت نا مکمّل رہ جائے گی؟ اور پھر فرشتۂ وحی آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تسلّی کے لئے پیغام الٰہی لے کر آئے کہ( وَﷲ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ) ( ۲ )

____________________

۱۔ یہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حجّةُ الوداع کے موقع پر معروف خطبہ کا کچھ حصّہ ہے مکمّل خطبہ اس کتاب کے آ خر میں اسناد و مدارک کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے رجوع فرمائیں:

(۲)مائدہ ۵/۶۷

۲۶

( خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو انسانوں کے شر سے محفوظ رکھے گا )

وہ رسول جن پر آغاز بعثت سے لے کر حجّةُ الوداع تک کبھی بھی خوف غالب نہیں آیا ،ہمیشہ میدان جنگ میں موجود رہے( ۱ ) کارِ رسالت کے مشکل اور کٹھن راستے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم کبھی متزلزل نہیں ہوئے اب آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کیا بات پریشان کئے ہوئے ہے ؟

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کونسا کام انجام دینا ہے کہ جسکے انجام دینے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن کے مخالفانہ پروپیگنڈے، منکروں کے انکار ،کافروں کے کفر اور منافقوں کے نفاق سے خوفزدہ ہیںاور تین بارجبرَئیل ـ سے اس کام کو انجام نہ دینے کی درخواست کرتے ہیں ؟

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو کبھی خوف میں مبتلا نہیں ہوتے تھے ،اور وحیِّ الہی کے پہنچانے میں ایک لحظہ پس و پیش سے کام نہیں لیتے تھے،حقیقت میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ُمّت کے بکھر جانے سے خوفزد ہ تھے،رسولِ اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوداخلی اختلاف اور جھگڑوں کا ڈر تھاکہ کہیں لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مقابلہ میںکھڑے نہ

____________________

۱ ۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شجاعت اور خط شکنی کے سلسلے میں امیرُالمؤمنین ـ نے فرمایا:

( کُنَّا ِذَا أحْمَرَّالْبَاْس ُأتَّقَیْنَا بِرَسُوْلِ ﷲ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،فَلَمْ یَکُنْ َحَد مِنَّاَقْرَبَ ِلَیٰ الْعَدُوِّمِنْهُ )

(جب بھی شعلۂ جنگ بھڑکتا ہم رسولِخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پناہ میں چلے جاتے تھے کیوںکہ ایسے نازک وقت میں ہم لوگوںمیں سب سے زیادہ رسولِخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دشمن کے نزدیک ہوتے تھے ۔ )

۱۔ کشف الغمة : مرحوم اربلی( متوفیٰ ۶۸۹ ھ)

۲۔غریب الحدیث ، ج۲ ص۱۸۵ : ابن سلام ( متوفیٰ ۲۲۳ھ )

۳۔کتاب النہایة ، ج۱ ص ۸۹ ، ۴۳۹ : ابن اثیر ( متوفیٰ ۶۳۰ھ )

۴۔تاریخ طبری ، ج۲ ص۱۳۵ : طبری ( متوفیٰ ۳۱۰ھ )

۵۔بحار الانوار ، ج۵ ص ۲۲۰ : مرحوم مجلسی ( متوفی۱۱۱۰ھ )

۶۔بحار الانوار ، ج۱۶ص ۱۱۷، ۲۳۲، ۳۴۰ : مرحوم مجلسی ( متوفی۱۱۱۰ھ )

۲۷

ہوجائیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کہیں موجودگی میں امّت کے درمیان خونریزی شرو ع نہ ہو جائے، احترام جاتا رہے،جو کچھ جہاد کی قربانیوںاور شہادتوں سے حاصل ہوا تھا بھلا دیا جائے آیا یہ سب کچھ حضرت علی ـ سے دوستی کے اعلان کی وجہ سے تھا ؟ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ماضی میں آغاز بعثت سے لے کر غدیر کے موقع تک بارہا و بارہا فرمایا تھا کہ میں علی ـ کو دوست رکھتا ہوں ۔

یہ تو کوئی اتنا اہم مسئلہ نہیں تھا کہ امّت مسلمہ کی صفوں میں تزلزل اور دراڑ کا باعث ہو دوستی کا اعلان کوئی خاص اہمیت کا حامل مسئلہ نہ تھا کہ صاحب عزّت و جلال خدا اپنے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اطمینان دلائے اور کہے کہ( وَ ﷲ ُ یَعصِمُکَ مِنَ النَّاسِ )

اور تم ڈر و نہیں خداوند عالم آپ کو لوگوںکے شر سے محفو ظ رکھے گا اگر ہدف صرف یہ تھا کہ ''دوستی کا ابلاغ '' ہو جائے تو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـکا ہاتھ بلند کرکے انکی بیعت کیوں کی ؟ اور تمام مسلمانوں کو بیعت کا حکم کیوں دیا کہ حضرت علی ـ کی بیعت کریں !! اور حاضرین میں سے مرد آدھی رات تک اور خواتین اگلے دن کی صبح تک حکم بیعت کی بجاآوری میں مشغول رہیں ۔ حضرت علی ـ کی د وستی یا اسکا ابلاغ تو اس بات کا متقاضی نہیں ہے کہ بیعت طلب کی جائے اور لوگ بھی امتثال حکم کرتے ہوئے مشغول ہوجائیں ۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مختلف اسلامی ممالک سے آئے ہوئے ایک لاکھ بیس ہزار حجاج کو ایک دن اور رات کے لئے غدیر خم کے میدان میں روکے رہیں صرف یہ کہنے کے لئے کہ ( اے لوگو ! میں علی ـ کو دوست رکھتا ہوں ) آیا یہ دعویٰ قابل ِ قبول ہے ؟

۲۸

۴۔ تکمیلِ دین کا راز :

یہاں ایک سوا ل اور پیدا ہوتا ہے کہ آیا حضرت علی ـکی دوستی کے اعلان کے ساتھ دین کامل ہو جائے گا؟اگر پیغمبر گرامی ِ اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم روزِغدیر اپنے ساتھ علی ـ کی دوستی کا اعلان نہ کرتے تو کیا دین ناقص تھا ؟ اور چونکہ اُس دن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں سے کہا کہ ( میں علی ـ کو دوست رکھتا ہوں ) تو دین ِ خدا کامل ہو گیا ؟ اور خدا کی نعمتیں لوگوں پر تمام ہو گئیں ؟ اور جیسا کہ بہت سارے شیعہ اور سُنّی علماء( ۱ ) نے اس بات کااعتراف کیا ہےغدیر کے دن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اعلان ِ ولایت اور لوگوں کے بیعت کر لینے کے بعد ختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر یہ آیۂ مبارکہ نازل ہوئی !

( ا لْیَوْ مَ یَئِسَ ا لَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِ یْنِکُمْ ، فَلاَ تَخْشَوْ هُم وَاخْشَوْنِ،الْیَوْمَ أَکْمَلْت لَکُم ْدِیْنَکُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتی وَرَضِیْتُ لَکُم ُالاِسْلٰامَ دِیْناً ) ( ۲ )

(مسلمانوں ) اب تو کفّار تمہارے دین سے( پھر جانے سے ) ما یوس ہو گئے ہیں ، لھذا تم ان سے تو ڈرو ہی نہیں بلکہ صرف مجھ سے ڈرو آج ( غدیر کے دن )میں نے تمہارے دین کو مکمّل کر دیا اور تم لوگوںپر اپنی نعمتیں پوری کر دیں ،اور تمارے اس دین اسلام کو پسندکیا غدیر کے دن ایسا کونسا کام انجام پایا کہ فرشتۂ وحی مذ کورہ آیت کوبشارت و خوشخبری کے سا تھ لیکر نازل ہوا ؟

وہ عظیم واقعہ کیا تھا کہ جس کی وجہ سے

الف۔ کافر دین کی نابودی سے مایوس ہو گئے ۔

____________________

۱۔تمام مؤرّخوں اور بہت سارے اہل ِ سنّت مفسِّروں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سورۂ مبارکہ ٔ مائدہ کی آیت شمارہ /۳ (الْیَوْمَ َکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ) غدیر کے دن حضرت علی ـ کی اعلان ِ ولایت اور لوگوں کی بیعت ِعمومی کے بعدآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہوئی ۔مورخوں اور مفسّروں کے نام مندرجہ ذیل ہیں !

۱۔تاریخ دمشق ، ج۲ ص ۷۵ و ۵۷۷ : ابن عساکر شافعی ( متوفّیٰ ۵۷۱ ھ )۲۔ شواہدُ التنزیل ، ج۱ ص ۱۵۷ : حسکانی حنفی ( متوفّیٰ ۵۰۴ ھ ) ۳۔ مناقب ،ص۱۹ : ابن مغازلی شافعی ۴۔ تاریخ بغداد ، ج۸، ص ۲۹۰ :خطیب ِ بغدادی ( متوفّیٰ ۴۸۴ ھ )۵۔ تفسیرِدرّالمنثور ،ج۲، ص ۲۵۹ : سیوطی شافعی ( متوفّیٰ ۹۱۱ ھ ) ۶۔ الِتقان ، ج ۱، ص ۳۱ و۵۲ : سیوطی شافعی ( متوفّیٰ ۹۱۱ ھ )۷۔ مناقب ،ص۸۰ : خوارزمی حنفی ( متوفّیٰ ۹۹۳ ھ )۸۔تذکرةُ الخواص ، ص ۳۰ و ۱۸: ابن جوزی حنفی ( متوفّیٰ ۶۵۴ ھ )۹۔ تفسیر ِ ابن کثیر ، ج۲ ،ص ۱۴ : ابن کثیر ِ شافعی ( متوفّیٰ ۷۷۴ ھ )۱۰۔ مقتلُ الحُسین،ج۱ ، ص۴۷ : خوارزمی حنفی ( متوفّیٰ ۹۹۳ ھ ) ۱۱۔ینابیعُ المودة، ص۱۱۵ : قندوزی حنفی۱۲۔ فرائدُ السّمطین ،ج ۱ ،ص، ۷۲ و ۷۴ و۳۱۵: حموینی ( متوفّیٰ ۷۲۲ ھ )۱۳۔ تاریخ یعقوبی ،ج ۲، ص ۳۵ : یعقوبی ( متوفّیٰ ۲۹۲ ھ )۱۴۔ الغدیر ، ج ۱، ص ۲۳۰ : علّامہ امینی ۱۵۔ کتاب الولایة : ابن جریر طبری ( متوفّیٰ ۳۱۰ ھ )۱۶۔ تاریخ ابن کثیر،ج۵، ص ۲۱۰ : ابن کثیر ِ شافعی ( متوفّیٰ ۷۷۴ ھ )۱۷۔ مناقب ،ص ۱۰۶: عبدﷲ ِ شافعی ۱۸ ۔ ارجح المطالب ،ص ۵۶۸ : عبدﷲ ِ حنفی ۱۹۔ تفسیر ِ روحُ المعانی ، ج۶ ص۵۵: آلوسی ۲۰ ۔ البدایة والنہایة ،ج۵، ص۲۱۳وج۷ ص ۳۴۹ :ابن کثیر ِ شافعی ( متوفّیٰ ۷۷۴ ھ )۲۱۔ الکشف و البیان :ثعلبی ( متوفّیٰ ۲۹۱ ھ ) ۲۲۔بحارُ الانوار ،ج۳۷ باب ۵۲ : علّامہ مجلسی اور بہت ساری تفاسیر اہل سنّت ، اور تمام شیعہ علماء کی تفاسیر جن کے ذکر کے لئے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے ۔

(۲) مائدہ ۵/ ۳

۲۹

ب ۔ جس کے بعد کافروں کی سازشوں سے نہ ڈرا جائے ۔

ج ۔ دین اسلام کامل ہوگیا۔

د۔ ﷲ کی نعمتیں پوری ہو گئیں ۔

ھ ۔ اسلام کے پائندہ رہنے کی ضمانت دی گئی ۔

کیا یہ سب کچھ صرف دوستی کا پیغام پہنچانے کے لئے تھا ؟

آیا اس قسم کے دعوے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لئے قابلِ قبول ہیں ؟

ہم غدیر کے پر نور خورشید کے مقابلے میں جہل کی تاریکی اور کینہ پروری کی پناہ کیوں لیں؟

بلکہ غدیر کاواقعہ تو کوئی بہت بڑا واقعہ ہونا چاہیے کہ جس نے آیاتِ الٰہی کے( بہت سی بشارتوں اور پیغاموں کے ساتھ) نزول کی راہ ہموار کی۔

اُس واقعہ کو تو بہت اہم واقعہ ہونا چا ہیے کہ جسکا نتیجہ ''اکمالِ دین '' اور '' اتمامِ نعمت ہو۔

ایسا واقعہ کہ جس نے راہ رسالت کو رنگ جاویدانی بخشا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغاز ِ بعثت سے لے کر ہجرت اور اسکے بعد کی زحمتوں کا پھل دیا۔

آیا یہ عظیم واقعہ '' عام مسلمانوں کا حضرت علی ـ کی بیعت کرنے'' کے علاوہ کچھ اور ہے؟ آیا یہ عظیم واقعہ '' حضرت علی ـ اور انکے گیارہ بیٹوں کی ''قیامت تک کے لئے بیعت عمومی کے علاوہ کچھ اور ہے ؟

کیایہ عظیم واقعہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدسے قیامت تک کے لئے مسلمانوں کے رہبراور پیشوا معیّن ہونے کے علاوہ کچھ اور ہے؟

یہ اہل سنّت مصنّفین، تاریخ کا مطالعہ کیوں نہیں کرتے کہ روزِ غدیر کے بعد کس قسم کے تلخ حوادث رونما ہوئے ؟

۳۰

۵۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل کی نا کام سازش :

اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہدف غدیر کے دن صرف حضرت علی ـ کی دوستی کا پیغام پہنچانا تھا تو ایک گروہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل کا ارادہ کیوں کیا ؟ اور مدینے کے راستے میں اپنے اس باغیانہ ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کیوں کی لیکن خدا وند عالم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی ؟ دوستی کا پیغام تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل کا سبب نہیں ہو سکتا ؟

امیرُ المؤمنین ـ کی ولایت کے مخالفوں نے سوچا کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کر دیا جائے ، اور اس قتل کوطبیعی موت ظاہر کرنے کے لئے ان لوگوںنے آپس میںسازش یہ کی کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سواری '' عقبہ'' (جو کہ پہاڑی علاقہ ہے اور وہاں بہت گہری گہری کھائیّاں ہیں) کے قریب پہنچے تو پتھر اور لکڑیاں وغیرہ ان کھائیّوں میں پھینکی جائیں جن سے مختلف قسم کی خوفناک آوازیں پیدا ہو ںگی جن آوازوں سے ڈر کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سواری کسی گہری کھائی میں جا گرے گی۔ اور ہم تاریکی شب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں سے فرار ہو جائیںگے پھر کل سب لوگوں میں یہ بات مشہور کر دیں گے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کا سبب طبیعی حادثہ ہے ۔

پھر یہ سارے مخالفین تیزی سے اس مقام پر جمع ہوکر گھات لگا کر بیٹھ گئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سواری کا انتظار کرنے لگے ،لیکن خدا وند ِعالم نے فرشتہ ٔ وحی کو نازل کرکے اپنے حبیبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دشمن کی اس سازش سے آگاہ فرما دیا،جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سواری اس مقام کے نزدیک پہنچی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حذیفہ ٔ یمانی اور عمّار یاسر سے کہا کہ اُن میں سے ایک اونٹ کی مھار تھامے اور ایک سواری کو ہنکائے، گھات لگائے ہوئے منافقوں نے جو کچھ بھی ہاتھ میں آیا کھائی کی طرف پھینکنا شروع کر دیا اور مختلف قسم کی خوفناک آوازوں سے اُونٹ کو ڈرانے کی کوشش کی ، لیکن خدا کی مدد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شامل حال رہی اور اُونٹ پر کوئی اثر نہ ہوا ۔

۳۱

اور اس طرح دشمن کی سازش ناکام ہوئی ، مگر یہ منافقین اس سنہرے موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے اور جب اس سازش کو ناکام ہوتے دیکھا تو تلواریںلے کر پیغمبر گرامیِ اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حملہ آور ہو گئے لیکن ان کے سامنے حذیفہ ٔ یمانی اور عمار ِ یاسر جیسے عاشقانِ ولایت تھے جن کے بے نظیر اور شجاعت سے بھرپور دفاع کے سبب اس سازش میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ، اب اگر یہ منافقین تھوڑی سی دیر کرتے تو قافلے میں شامل عاشقان ِ ولایت سر پر پہنچ جاتے اور منافقوں کا کام تمام کر دیتے ۔

لہٰذا اب منافقین کے پاس فرار کے علاوہ کو ئی چارہ نہیں تھا ، حذیفہ ٔ یمانی نے پوچھا یا رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ کون لوگ تھے ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا خود ہی دیکھ لو، اُس وقت بجلی چمکی اور منافقوں کے چہرے تاریکی کے پردے سے بے نقاب ہوئے اور حذیفہ نے اُن افراد کو آسانی سے پہچان لیا ! جن کی تعداد پندرہ (۱۵) ہے اور ان کے نام در ج ذیل کتب میں درج ہیں۔( ۱ )

۶۔ نفرین آمیز طو مار کا انکشاف :

روزِ غدیر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہدف صرف حضرت علی ـ کی دوستی کا اعلان اور لوگوں سے حضرت علی ـ کی بعنوان امام اور رہبربیعت لینا نہیں تھا تو ایک گروہ نے اس دن کے بعد اُمّت ِ اسلامی کی امامت اور رہبری کے متعلّق مخفیانہ تحریر کیوں لکھی کہ جسکے ذریعہ رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد قدرت و حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں ؟

جب یہ گروہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے میں کامیاب نہ ہوسکا تو انہوں نے احتیاط کا دامن تھاما اور تا حیات ِ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس قسم کی حرکتوں

____________________

(۱) کشف الیقین ، ص ۱۳۷ : علّامہ حلّی ۲۔ ارشادالقلوب ، ص ۱۱۲ و ۱۳۵ : دیلمی ۳۔ بحارالانوار ، ج۲۸ ص ۸۶ و ۴ ۱۱ : علّامہ مجلِسی

۳۲

سے اجتناب کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن ایک دوسرے گر وہ نے ولایتِ علی ـ کی کھلّم کھلّا مخالفت کی ا ور اس طرح ایک تحریر لکھی جس پر بہت سارے لوگوں کے دستخط لئے تاکہ یہ ظاہر کر سکیں کہ ہمار ی مخالفت بہت منظّم اور مستحکم ہے ۔

اس مقصد کے لئے ابو بکر کے گھر پر جمع ہوئے باہم گفتگو کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک عہد نامہ لکھا جائے ،چنانچہ سعید بن عاص نے ایک عہد نامہ لکھا ، اس عہد نامے پر جن لوگوں نے دستخط کئے ان کے ناموں سے قریش اور امیرُالمؤ منین ـ کے مخالفوں کے سینوں میں کینے اور بغض کی شدت ثابت ہو جاتی ہے ،ان ناموں میں سرِ فہرست ابو سفیان ، فرزندِ ابی جہل اورصفوان بن ُمیّہ جیسے نام دیکھنے میں آتے ہیں، یعنی مشرکوں اور کافروں کے سردار منافقوں ( نام نہاد مسلمانوں ) کے ہاتھوں میںہاتھ دئے ہوئے ہیں تاکہ خورشیدِ ولایت کا انکار کیا جاسکے ۔

عہد نامہ

بِسْمِ ﷲ ِالرَّحْمٰن ِالرَّحِیمِ

یہ وہ عہد نامہ ہے کہ جس پر اصحابِ رسول میں سے انصار و مہاجر ین پر مشتمل ایک گروہ نے اتفاق کیا ہے، یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کی تعریف خدا وندِ عالم نے اپنی آسمانی کتاب میں رسول کے ذریعہ اور بزبانِ رسالت کی ہے،اس گروہ نے ولایت وامامت کے مسئلے میں مختلف آراء اور مشوروں کی روشنی میں اجتہاد اور کوشش کرنے کے بعد اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کے لئے جو کچھ دین اور لوگوں کے لئے مناسب تھا اس عہد نامے میں تحریر کر دیا ہے تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکیں اور اسکے دستورالعمل کی پیروی کرتے ہوئے دنیا اور آخرت کی سعادت حاصل کر سکیں ۔

۳۳

امّا بعد! خداوند ِ منّان نے اپنے کرم اور مہربانی کے ساتھ حضرت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو لوگوں کی طرف بھیجا تاکہ اسکے پسندیدہ دین کو لوگوں تک پہنچائیں ، اور رسول ِ اکرم نے اپنے اس تبلیغی وظیفے کو انجام دینے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی ،جن جن امورکی تبلیغ پر مامور کئے گئے تھے ان کو بخیر وخوبی لوگوں تک پہنچایا،یہاں تک کہ دین کامل ہو گیا اور اسلامی معاشرے میں واجبات و سنن ِلٰہی رائج ہوگئے ۔ اس کے بعد خدا وند ِ عالم نے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی طرف بُلا لیااور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکمّل عزّت و احترام کے ساتھ دعوت حق کو لبّیک کہا اور اپنی جا نشینی کے لئے کسی شخص کی نشان دہی کئے بغیر اس دار ِفانی سے دار بقا ء کی طرف کوچ کر گئے ، بلکہ خلیفہ وجانشین چننے کا اختیار لوگوں کو سونپ گئے تاکہ جس کو بھی مورد وثوق واطمنان پائیں اسے جانشین رسول اور ولایت امرالمسلمین کے لئے منتخب کر لیں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت مسلمانوں کے لئے باعث افنخار ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:( جو بھی روز ِ قیامت اپنے پروردگار سے ملاقات کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ رسول کی اطاعت کرے ) حقیقت میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس لئے اپنا جانشین مقرّر نہیں کیا کہ خلافت ِ رسول ایک ہی خاندان میںمنحصر نہ رہے بلکہ دوسرے خاندان بھی خلافت سے کچھ فائدہ حاصل کر سکیںمیراث کی طرح ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف منتقل نہ ہوتی رہے،اور اس لیے کہ دلتمندوں کے ہاتھوں کا کھلونا نہ بن جائے اور کوئی خلیفہ بھی قیامت تک کے لئے اپنی نسل میں خلافت کا دعوے دار نہ ہو۔

ہر عہد اور زمانے میں تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایک خلیفہ کے مرنے کے بعد صاحبان ِ حلّ و عقدمل کر بیٹھیں اور باہمی صلاح و مشورے سے جس کو بھی صالح اور خلافت کے لائق سمجھیں مسلمانوں کے تمام امور کی لگام اسکے سپرد کردیں اور اسکو ولی ِامرِ مسلمین اور ان کے اموال و نفوس کا مختار قرار دیں،کیو نکہ اصحابِ حل ّ و عقد ایسے امور کی پوری صلاحیّت رکھتے ہیں اس لئے یہ کبھی بھی خلافت کے لئے انتخاب سے قاصر نہیں ہوں گے، لہٰذا اگر کوئی اس بات کا دعوے دار ہو کہ رسول ِخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک خاص شخص کو اپنی جانشینی کے لئے چن لیاتھا اور اسکے نام اور حسب و نسب سے سب کو آگاہ فرمادیا تھا ، اسکی یہ بات بیہودہ اور اصحابِ رسول کی رای کے خلاف ہے ، اور ا س نے مسلمانوں کی جماعت میں اختلاف ڈالاہے اوراگر کوئی دعو ی کرے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلافت اور جانشینی وراثت ہے اور اسکے بعد دوسرے کو ملے گی تو اسکی یہ بات بے معنیٰ ہے کیونکہ رسول ِخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ( ہم انبیاء کسی کو ار ث نہیں دیتے اور جو کچھ ہم سے باقی بچے صدقہ ہے ۔ )

اور اگر کوئی اس بات کا دعوے دار ہو کہ خلافت ِ رسو ل خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر کسی کو زیب نہیں دیتی بلکہ مسلمانوں میں سے ایک معیّن شخص اس مقام کے لائق ہے ، اور خلافت اسکا حق ہے کوئی دوسرا خلافت کا مستحق نہیں ہے کیونکہ خلافت نبوّت کے بعد بالکل ویسا ہی ایک سلسلہ ہے، یہ بات قابل ِ قبول نہیں ہے اور اسکا کہنے والا جھوٹا ہے ،اس لئے کہ خود رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا! ( میرے صحابہ آسمان کے ستاروں کے مانند ہیں جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پا جاؤ گے۔)

۳۴

اور اگر کوئی کہے کہ وہ خلافت کا مستحق ہے وہ بھی اس لئے کہ حسب و نسب کے لحاظ سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریب ہے اور یہی معیار رہتی دنیا تک خلافت کا ملاک ا ور معیار ہے، اسکا یہ کلام بے جا ہے کیونکہ ملاک اور معیار تقویٰ ہے ،نہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے رشتہ داری،

جیسا کہ خدا وند ِ عالم نے فرمایا :( اِنَّ َکْرَمَکُمْ عِنْدَﷲ اَتْقٰاکُمْ )

تم میں سے خدا کے نزدیک صاحب عزت وہ ہے جس کا تقوی ز یادہ ہواور ایسے ہی رسول ِ اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا:( سارے مسلمان ایک ہیں اور مخالفوں کے سامنے ایک صف میں ہیں ۔

لہٰذا جو بھی کتاب خدا پر ایمان لائے اور سُنّت ِ رسول کو قبول کرتے ہوئے اس پر عمل کرے وہ حق کے راستے پر ہے اور اسکے نیک اور صالح ہونے میں کوئی شک نہیں اور جو بھی قرآن و سُنّت کے بر خلاف عمل کرے اور مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جائے اسے قتل کر دو کیونکہ اسکے قتل میں ہی اُمّت کی صلاح پوشیدہ ہے۔ کیونکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی یہی فرمایا:

( جو بھی میری اُمّت میں تفرقہ ڈالے ، انکو ایک دوسرے سے جدا کرے اورانکی صفوں میں شگاف ڈالے تو اس کو قتل کر دو، چاہے وہ کوئی بھی ہو ؛ کیونکہ اجتماع اُمّت رحمت ہے اور اُمّت کی جدائی عذاب ہے اور میری اُمّت ضلالت اور گمراہی پر متّفق نہیں ہوسکتی ،اور یہ سب دشمن کے مقابلے میں بہت زیادہ متّحد اور یکدست ہیں معاندین کے گروہ کے علاو ہ کوئی بھی مسلمانوں کی جماعت سے جدا نہیں ہوگا جو جدا ہو اس کا خون مباح ہے۔

تاریخ:محرّمُ الحرام ۱۰ ھ( ۱ )

اس دستاویز کو سعید بن عاص نے لکھا اور تیرہ لوگوں (کہ جنہوں نے اس دستاویز پر دستخط کئے )کو اس کا گواہ بنایا جن کے اسماء ذیل کتب میں موجود ہیں( ۲ )

غدیر کے روز ایسا کونسا اہم کام انجام دیا کہ جس کی وجہ سے ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہنے والے نا اُمّید ہو گئے ،اُنکے تمام منصوبے خاک میں مل گئے اور تمام سازشوں پر پانی پھر گیا، مزید صبر نہ کر سکے اور جتنی مخالفت کر سکتے تھے کی اور کھل کر سامنے آگئے ، یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے عذاب طلب کیا۔

____________________

(۱)۱۔بحارُ الانوار ، ج۲۸ ص ۱۰۵۔۱۰۳

(۲)ارشاد القلوب دیلمی ،ص ۱۳۵۔ ۱۱۲،کشف الیقین،ص۱۳۷، مسند احمد ،ج ۱ ۔ ص ۱۰۹

۳۵

۷۔بعض حاضرین کی علی الاعلان مخالفت :

ایک شخص جسکا نام ''حارث بن نعمان فہری''تھا اور امام علی ـ کے خلاف دل میں بغض لئے تھا اپنے اونٹ پر سوار ہو کر رسول ِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خیمے کے سامنے آیا اور کہا !

(اے محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! تم نے ہمیں ایک خدا کی تعلیم دی ہم نے تسلیم کیا ، اپنی نبوت کا دعویٰ کیا ہم نے لاالٰہَ الّﷲ وَ محمّد رسول ُ ﷲ کہا ، ہمیں اسلام کی دعوت دی ہم نے قبول کی اور اسلام لے آئے ، تم نے کہا پانچ وقت نماز پڑھوہم نے پڑھی ،زکوٰة و روزہ و حج و جہاد کا حکم دیا ہم نے اطاعت کی ، اب اپنے چچا زاد بھائی کو ہمارا امیر بنا دیا معلوم نہیںیہ حکم خدا کا ہے یا تمہارے ذاتی ارادے کی پیداوار ہے ۔ )

رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ( خدا کی قسم کہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں ،یہ حکم اس خدا ہی کی طرف سے ہے میرا کام فقط اس حکم کو تم لوگوں تک پہنچانا تھا) حارث آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ جواب سن کر غضبناک ہو گیا اور آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہا !

( خدا یا ! اگر جو کچھ محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی ـ کے بارے میں کہا ہے تیری طرف سے ہے اور تیرے حکم سے ہے تو ایک پتھر آسمان سے مجھ پر گرے اورمیں ہلاک ہو جائو ں )

ابھی حارث بن نعمان کے یہ جملے ختم نہیں ہوئے تھے کہ آسمان کی طرف سے ایک پتھر آیااور اس کو ہلاک کر دیا،تو اس وقت سورۂ معارج کی آیات نمبر ۱ و ۲ نازل ہوئی۔( ۱ )

____________________

(۱)۔ (سَاَلَ سَآئِل بِعَذَابٍ وَاقِعٍ لِلْکٰافِرِیْنَ لَیْسَ لَه دَافِع )

۱۔ غریب ُالقرآن : ہروی۲۔شفاء الصدور : موصلی۳۔الکشف والبیان:ثعلبی ۴۔رعاة الھداة:حسکانی ۵۔الجامع لاحکام القرآن : قرطبی۶۔ تذکرة الخواص ،ص۱۹ : سبط ابن جوزی۷۔ الاکتفاء : وصابی شافعی ۸۔ فرائد السّمطین ،باب۱۳ : حموینی۹۔ معارج الاصول : زرندی ۱۰۔ نظم درر السمطین : زرندی۱۱ ۔ ہدایة ا لسعداء : دولت آبادی۱۲ ۔ الفصول المہمّة ،ص۴۶ : ابن صبّاغ ۱۳۔ جواہر العقدین :سمہودی۱۴۔ تفسیر ابن سعود ،ج۸ ص۲۹۲: عمادی ۱۵۔السراج المنیر ،ج۴ ص ۳۶۴: شربینی۱۶۔ الاربعین فی فضائلِ امیرالمؤمنین ـ : جمال الدّین شیرازی۱۷۔ فیض ا لقدیر ،ج۶ ص ۲۱۸ : مناوی۱۸۔العقدالنّبوی والسّر المصطفوی: عبد روس ۱۹۔ وسیلة المآل: با کثیر مکّی۲۰۔نزہة المجالس، ج۲ ص۲۴۲: صفوری۲۱۔السیرة الحلبیّة، ج۳ ص۳۰۲:حلبی۲۲۔الصراط السوی فی مناقب النّبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :قاری۳ ۲۔ معارج العلی فی مناقب المصفی: صدر عالم۲۴۔ تفسیر شاہی :محبوب عالم۲۵ ۔ذخیرة المآل : حفظی شافعی۲۶۔ الروضة النّذیّة: یمانی۲۷۔نورالابصار ،ص ۷۸: شبلنجی ۲۸۔ تفسیر المنار ،ج۶ ص ۴۶۴: رشید رضا۲۹۔ الغدیر ،ج۱ ص ۲۳۹: علّامہ امینی (اور سینکڑوں شیعہ اور سُنّی کتب ِتفسیرجنہوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیاہے

۳۶

( ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا کہ جو کافروں پر آتا ہے اور اسکو کوئی نہیں روک سکتا۔) دوسرے نے وہ شرمناک تحریر لکھی ، اور ایک گروہ تو کھلے دشمن کی طرح برہنہ شمشیر لئے رسولِ اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل کے درپے ہوگئے ، اگر غدیر کے دن صرف علی ـ کی دوستی کا اعلان ہوا تھا اور کوئی بہت اہم کام انجام نہیں پایا تھا تو پھر سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ،موقع کی تلاش میںرہنے والے حکومت اور اقتدار کے بھوکے رسول ِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل کی سازش میں ناکام ہونے کے بعد مسلمانوں کی منظّم صفوں کو درہم برہم کرنے کی کوششیں کیوں کرتے رہے ؟اور مکّہ سے مدینہ تک راستے بھر اس کوشش میںکیوں لگے رہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب پر کاری ضرب لگائیں؟

''غدیر خم'' میں ایسا کونسا اہم واقعہ رونما ہوا کہ ان سارے گروہوں نے جو سازش ممکن تھی کی اور شیطانی چالیں چلیں؟

۸۔ناکام سازشیں :

تمام مسلمانوں کے حضرت علی ـ کی بیعت کر لینے کے بعد اور مخالفوں کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے یہ احتمال ہر آن بڑھتا جارہاتھا کہ سرزمین غدیر خم سے مدینہ تک کے طویل راستے میں کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن اس شیطانی سازش میں کامیاب ہو جائے اور ایسی جارحانہ حرکتوں کا مرتکب ہو جو دنیایٔ اسلام اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لئے خوش آیند نہ ہو، لہٰذا اس خطرے کے پیش نظر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ منادی یہ اعلان کردے:

( رسول خدا کا حکم ہے کہ مدینہ پہنچنے تک راستے میں دو یا تین آدمی اس بات کا حق نہیں رکھتے کہ ایک ساتھ جمع ہوں اور ایک دوسرے کے کانوں میں باتیں کریں ۔)

۳۷

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے شیطانی منصوبے خاک میں مل گئے ، تمام سازش آمیز اتحادٹوٹ گیا اور مخالفین اپنی ان شیطانی سازشوں اور حرکتوں کو عملی جامہ نہ پہنا سکے ، اس قافلے کے مدینہ کی طرف سفر کے دوران حذیفہ کے غلام( جس کا نام سالم تھا) نے دیکھا کہ ابو بکر ،عمر اور ابو عبیدہ جرّاح ایک جگہ جمع ہیں اور آپس میں گفتگو میں مشغول ہیں ، اس نے کہا کہ اگر مجھے نہیں بتاؤگے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اطلاع دے دوں گا، انہوں نے وعدہ و وعید کے بعد سالم سے کہا کہ :

(ہم چاہتے ہیں کہ ولایت علی ـکی اطاعت نہ کرنے پر اتّحاد کرلیں تو بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جا۔) سالم نے کہا : کیونکہ میں بنی ہاشم اور علی ـ کا دشمن ہوں اس لئے مجھے منظور ہے ۔ لیکن یہ چھوٹا سا جلسہ بھی رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ رہ سکا اور راستے میںاُن سے مخاطب ہو کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : ( میں نے تم لوگوں کو جمع ہونے اورکانوں میں باتیں کرنے سے منع کیا تھا تم لوگوں نے اطاعت کیوں نہیں کی جان لو کہ خدا وند عالم تمہارے ہر عمل سے واقف ہے اور کوئی شی اس سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے ۔)

اگر غدیر کے دن کی تاریخی حقیقت کا کما حقّہ مطالعہ اور تحقیق کی جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ روزِ غدیر صرف دوستی کے اعلان کے لئے نہیں تھا،اور لفظ '' مولیٰ '' اور'' ولی ''کے معنیٰ صرف (امامت اور رہبری ) ہی کئے جاسکتے ہیں ، گویا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدیر میں فرمایا : (ہر اسکا کہ جسکا میں رہبر ،امام اور مولیٰ ہوں علی ـ بھی رہبر ،امام اور مولیٰ ہے) اور کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امت مسلمہ کی رہبری اور امامت کا واضح اور قطعی اعلان کیا اور حضرت علی ـ کے لئے بیعت لے لی تو منافقوں کی ا میدوں ، موقع کی تلا ش میں رہنے والوں کے انتظار اور انکی حد درجہ مخالفانہ کوششوں پر پانی پھر گیا۔

۳۸

سوّم۔رسولِ اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علی ـ کی دوستی

ا مام علی ـ کا دوست رکھنا اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حضرت علی ـ کے ساتھ دوستی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی ،علی ـ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان او ر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علی ـ کی جان تھے آغاز بعثت کے وقت سے سب لوگ یہ دیکھتے رہے کہ علی ـ اور حضرت خدیجہ سلامُ ﷲ ِ علیہا حجر اسمٰعیل کے برابر میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہیںیہ سب نے دیکھا کہ حضرت علی ـ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر سوئے اور اپنی جان کی پرواہ نہ کی تاکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان بچا سکیں سب نے دیکھا کہ حضرت علی ـ بعثت وھجرت میں ایک پروانے کی طرح شمع رسالت کے گرد چکر لگاتے رہے سب نے یہ بارہا سنا کہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کے ساتھ اپنی دوستی کا اعلان کیا : جن میں سے چند نمونے مندرجہ ذیل ہیں

۱۔ جنگ اُحُد میں دوستی کا اعلان :

ابن اثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مشرکوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ حملے کے لیے تیّار ہے حضرت علی ـ کو حکم دیا کہ اس گروہ پر حملہ کریں ، حضرت علی ـ نے حکم کی اطاعت کی اور ان لوگوں پر حملہ کرکے کا فی کو قتل اور باقی کو فرار پر مجبور کر دیا بعد ایک اور گروہ کو دیکھا اور حضرت علی ـ کو حملہ کا حکم دیا علی ـ نے انکو بھی مار بھگایا اس وقت فرشتۂ وحی نے پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ یہ فداکاری کی انتہا ہے جو حضرت علی ـ دکھا رہے ہیں رسول ِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ! ( وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ) ا س وقت آسمان سے یہ آواز آئی،لاَ فَتیٰ الّٰا عَلِی ّ ،لاَ سَیْفَ الّٰا ذُوالْفِقٰار ( علی ـ جیسا شجاع جوان اور ذوالفقار جیسی تلوار وجود نہیں رکھتی)۔

۳۹

ابن ابی الحدید بھی لکھتے ہیں : جب اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے اکثریت فرارہو رہی تھی تو دشمن کے مختلف دستے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گرد گھیرا تنگ کرنے لگے قبیلۂ بنی کنانہ کا ایک گروہ ،اور ایک گروہ قبیلہ عبد مناة کا جس میں چار نامور جنگجو بھی؛ تھے جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف بڑھنے لگے توآپ نے حضرت علی ـ سے فرما یا : ان لوگوں کے حملے کو رفع دفع کرو علی ـ جو پا پیادہ جنگ میں مصروف تھے ، پچاس افراد پر مشتمل اس گرو ہ پر حملہ کر کے انھیں پسپا کر دیا انھوں نے کئی بار جمع ہو کر حملہ کیا لیکن پسپائی انکا مقدّر تھی ان حملوں میں چار مشہور جنگجو اور دس دوسرے افراد جنکا نام تاریخ میں نہیں ملتا علی ـ کے ہاتھوں قتل ہوئے جبرَئیل نے رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا:( حق یہ ہے کہ علی ـ فدا کاری کر رہے ہیں ، فرشتے انکی اس جاں فشانی سے تعجب میں مبتلا ہیں )

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : ایسا کیوں نہ ہو حضرت علی ـ مجھ سے ہیں اور میں علی ـ سے ہوں، جبر ئیل نے کہا : میں بھی آپ سے ہوں۔

اس وقت آسمان سے دوبارہ یہ آوازآ ئی ''لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفَقٰاروَلاَ فَتیٰ اِلَّا عَلِیّ'' لیکن کہنے والا دکھائی نہیں دے رہا تھا، جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا گیا یہ کس کی آواز ہے ؟ توآپ نے فرمایا جبرئیل کی آواز ہے ۔( ۱ )

۲۔ جنگ خیبر میں دوستی کا اعلان :

جنگ احزاب میں کامیابی کے بعد جب یہودیوں نے خیانت کی اور عہدو پیمان کا پاس نہ کیا تو مسلمان رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قیادت میں جنگ خیبر کے لئے تیّار ہوئے اور حملے کے آغازمیں ہی یہودیوں کے بعض قلعوں کو فتح کرلیا حضرت علی ـ آشوب ِ چشم میں مبتلا تھے ۔

____________________

(۱)۔ ابن ا بی الحدید نے شرح نہج البلاغہ ،ج۱۴ ص ۲۵۳میں اور خوارزمی نے کتاب المناقب' ص ۲۲۳ میں روایت کی ہے اپنی اس فداکاری (کہ جس کے نتیجے میں آسمان سے یہ ندا آئی) کو حضرت علی ـ نے شوریٰ کی تشکیل کے وقت اعضا کے سامنے دلیل کے طور پر پیش کیا۔

۴۰