منزلت غدیر

منزلت غدیر0%

منزلت غدیر مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 156

منزلت غدیر

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین محمد دشتی
زمرہ جات:

صفحے: 156
مشاہدے: 42871
ڈاؤنلوڈ: 2522

تبصرے:

منزلت غدیر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 156 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42871 / ڈاؤنلوڈ: 2522
سائز سائز سائز
منزلت غدیر

منزلت غدیر

مؤلف:
اردو

چھوٹے چھوٹے قلعوں کو فتح کرنے کے بعدمسلمان سپاہیوں نے بڑے قلعوں '' وطیع 'اور ''سلالم''کی طرف پیش قدمی کی لیکن قلعہ کے باہر ہی یہودیوں کی سخت مقاومت کا سامنا ہوا ، یہی وجہ تھی کہ اسلام کے دلیر سپاہی اس تمام جاں نثاری ،فداکاری اور سنگین نقصانات ( جنکا ذکر اسلامی مورخ ابن ہشام نے مخصوص باب میں کیاہے )کے با وجود کامیابی حاصل نہ کر سکے ، لشکر ِ اسلام کے سپاہی دس دن سے زیادہ نبرد آزما ئی کرتے رہے۔

لیکن ہر روز بغیر کامیابی کے لوٹتے رہے ایک دن جلیل القدر صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ابو بکر سفید پرچم لے کر قلعہ خیبر کو فتح کرنے کے لئے روانہ جنگ ہوے مسلمانوں نے بھی ان کی سالاری میں حرکت کر دی لیکن کچھ دیر بعد بغیر کسی نتیجہ کے واپس لشکر گاہ کی طرف پلٹ آئے سالار اور سپاہی سب ایک دوسرے کو قصور وار ٹھراتے ہوئے بزدلی اور فرار کا الزام لگارہے تھے ۔

ایک دن لشکر کی سالاری عمر کو دی گئی انہوں نے بھی اپنے دوست کی کہانی دہرائی اورجیسا کہ طبری( ۱ ) نے نقل کیا ہے،میدانِ جنگ سے پلٹنے کے بعد قلعۂ خیبر کے سردارمرحب کی غیر معمولی دلاوری اور شجاعت کے ذکر سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھیوں کو ہرا ساں کرتے رہے اس صورت حال نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمان سرداروں کو سخت پریشانی میں مبتلا کردیا، ان حسّاس حالات میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فوج اسلام کے سپاہیوں اور سرداروں کو جمع کیا اور یہ قیمتی کلمات ا رشاد فرمائے :

''لَاَعْطَیَنَّ الرَّایَةَ غَدَاً رَجُلاًیُحِبُّ ﷲ َ وَرَسُوْلَ ه وَیُحِبُّ ه ﷲوَ رَسُوْ لُ ه یَفْتَحُ ﷲ عَلیٰ یَدَیْ ه ِ، لَیْسَ بِفَرَّارٍ .''( ۲ )

____________________

( ۱)۔تاریخ طبری ، ج۲ ،ص ۳۰۰

(۲)۔ مجمع البیان ، ج ۹، ص ۱۲۰ ۔ سیرۂ حلبی ، ج ۲، ص ۴۳ ۔ سیرۂ ابن ہشام ، ج ۳ ، ص ۳۴۹

۴۱

( یہ علم میں کل اس مردکے ہاتھوں میں دونگا جو خدا اور اسکے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوست رکھتا ہوگا اورخدا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کودوست رکھتے ہونگے ،ﷲ اسکے ہاتھوں پرفتح (قلعہ پر غلبہ ) دیگاوہ مردہرگز میدان جنگ سے دشمن کی طرف پشت کر کے بھا گنے و الا نہ ہو گا۔)

طبری اور حلبی کی ایک روایت کے مطابق اس طرح فرمایا:''کَرّارٍ غَیْرَ فَرَّار'' (دشمن پر حملہ کرتا ہے اور ہر گز فرار نہیں ہوتا)( ۱ ) یہ جملہ اس سردار کی فضیلت، معنوی برتری، شہامت اور شجاعت کی حکایت کرتاہے کہ فتح و کامرانی جسکا مقدّر ہے اور کامیابی جسکے ہاتھوں حاصل ہوگی؛ سپاہیوں اور سرداروں کے درمیان خوشی ، اضطرا ب اور پریشانی کی ملی جُلی کیفیت ہے کہ کل یہ اعزاز کس کو ملنے والا ہے ؟ ایک عجیب غوغا خیموں اور اطراف میں بلندتھا، ہر شخص کے دل میں یہ آرزو تھی کہ کل یہ اعزاز مجھے مل جائے۔( ۲ )

____________________

(۱)۔ ابن ابی الحدید نے ان دو سرداروں کے فرار سے سخت متثر ہوتے ہوئے اپنے معروف قصیدہ میں اس طرح بیان کیا

وما انس لا انس اللّذینَ تقدما و فر هما و الفر ، قد علما

(اگر ہر چیز کو بھول بھی جاؤں لیکن ان دو سرداروں کے فرار کو نہیں بھول سکتا کیونکہ وہ تلواریں ہاتھ میں لے کر دشمن کی طرف گئے اور یہ جاننے کے باوجود کہ جہاد سے فرار کرنا حرام ہے دشمن کی طرف پیٹھ کرکے فرار ہو گئے ۔)

و للر ایة العظمیٰ و قد ذهبابها ملابس ذل فوقها و جلابیب

(وہ لوگ بڑا پرچم لے کر دشمن کی طرف گئے لیکن معنوی طور پر ذلّت اور خواری کے پردے میں لپٹاہوا تھا۔)

یَشلّهمامن آل موسیٰ شمردل طویل نجاد السّیف ،اجید یعبوب

فرزندانِ موسیٰ میں سے ایک تیز و طرّار اور بلند قامت جوان انکو میدانِ جنگ سے دور کر رہا تھا وہ بہترین اور تند رو سوار تھا۔

( ۲)۔ جب حضرت علی ـ نے خیمہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فرمان کو سنا تو بڑے شوق دل کے ساتھ فرمایا!

''اللّٰهُمَّ لَا معطی لما منعت ولا مانع لما َ عطیت'' سیرۂ حلبی ،ج۳، ص ۴۱

اے پرودگا ر جس سے تو منع کیااسے انجام نہیں دوں گا اور جس کاامر فرمایااسے انجام دوں گا۔

۴۲

رات کی تاریکی نے ہر جگہ کو اپنی آغوش میںلے لیا تھا مسلمان سپاہی اپنے اپنے خیموں میں تھے سب جلداز جلد یہ جاننا چاہتے تھے کہ کل یہ اعزاز کس کو دیا جائے گا؟( ۱ )

نا گاہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ! علی ـ کہاں ہیں ؟ جواب دیا گیا کہ ؛ وہ آشوب ِ چشم میں مبتلا ہیں اور ایک گوشے میں آرام فرما رہے ہیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ! انکو بلایا جائے لہٰذا امیر المؤمنین ـ کے ساتھ دوستی کا اعلان تو غدیر ِ خم سے کئی سال پہلے ہو چکا تھا جب علی ـ دشمن کی صفوں کو توڑتے اور سردارانِ قریش کے سروں کو کچلتے ؛جب جنگ ِ اُحُد میں قریش کے طاقتو ر علمداروں کو خاک میں ملایاجب جنگِ احزاب میں قریش کے د لیر پہلوان عمرو ابن عبد ِ ود کو مغلوب کیا ۔

جب جنگ ِ ذاتُ السّلاسل میں دشمن کی طاقت کو خاک میں ملایامسلمانوںنے دیکھا اور سنا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دل و جان سے علی ـ کو چاہتے ہیں اور انکے زخموں پر آنسو بہاتے ہیں اور ان کا تعارف اپنی جان کہکر کراتے ہیں، جب علی ـ میدان جنگ کی طرف جاتے تو اشک آلودہ آنکھوں کے ساتھ ہاتھ دعا کے لئے بلند کرتے اور علی ـکی خدا سے سلامتی طلب کرتے ہیں، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حضرت علی ـ کے ساتھ دوستی کوئی ایسی ڈھکی چھپی اور پوشیدہ بات نہیں تھی جو غدیر میں عام کی گئی ہو ا میر المؤمنین ـ کی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دوستی اور محبت کی شدّت سے ہر خاص و عام واقف تھا اور مہاجرین و انصار میں سے بہت سارے بزر گ افراد اس دوستی اور محبت پر رشک کرتے تھے ۔

سیاسی جماعتوں کے سربراہ اور منافقین اس موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ اعتراض کر سکیں اور حسد کی آگ بجھا سکیں، لہٰذاکوئی بھی دانشمند مورّخ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ '' غدیر خم''صرف دوستی کا اعلان تھا اور کوئی خاص بات رونما نہیں ہوئی۔

____________________

(۱)۔ تاریخ طبری کی عبارت اس بحث میں کچھ ایسی ہے : فتطاول ابو بکر و عمر

۴۳

۳۔امام ـ کے دوستوں کی پہچان :

نہ صرف یہ کہ حضور ِ اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امیر المؤمنین ـ کے ساتھ اپنی دوستی کا بارہا و بارہا اعلان کر چکے تھے بلکہ انکے دوستوں کو بھی پہچنواچکے تھے اور انکے دشمنوںکے چہروں سے بھی پردے اُٹھاچکے تھے۔

۴۔حضرت علی ـ کی دوستی مؤمن اور منافق کی پہچان کا معیار:

غدیر خم سے کئی سال پہلے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کی دوستی کو ''حق و باطل'' اور مؤمن و منافق ''کی پہچان کا معیار قرار دیا، اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ علی بن ابی طالب ـ ایمان اور کفر کا معیار ہیں۔ صرف مؤمنین ہی آنحضرت ـ کے دوست ہو سکتے ہیں اور صرف منافقین ہی آپ ـ سے دشمنی کر سکتے ہیں۔

یہ حدیث شریف جس سے شیعہ اور سُنّی کتابیں بھری ہوئی ہیں حد تواتر سے گذر چکی ہے،اور امیرُالمؤمنین ـ کے لئے ایسی فضیلت کا درجہ رکھتی ہے کہ جو آپ ـ کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں۔ اس حدیث کو مختلف تعابیر کے ساتھ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا گیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''قٰالَ رَسُوْلُ ﷲ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : یٰا عَلِیُّ لَا یُحِبُّکَ اِلّٰا مُؤْمِن وَلَا یُبْغِضُکِ الّٰا مُنٰافِق ''( ۱ ( یا علی ! سوائے مؤمن کے کوئی تمہارا محب اورچاہنے والا نہیں اور سوائے منافق کے کوئی تم سے بغض وکینہ نہیں رکھتا۔)

____________________

۱۔ارشاد مفید ۔ص ۱۸ ، بحار الانوار ۔ ج۳۹ ص ۳۴۶ ۔ ۳۱۰ ، صحیح مسلم ۔ ج۱ ص ۴۸ ( باب الدّ لیل علی حسب الانصار ) ، صواعق محرّقہ ۔ابن حجر ص۱۲۰ ، حدیث ۔(ہشتم از فضائل آنحضرت ـ ) ، شرح ابن ابی الحدید ج۱۸ ص ۱۷۳ حکمت ۴۲ کے ذیل میں کہتا ہے کہ ( ہٰذالخبر مرویّ فی الصّحاح)

۴۴

حارث ہمدانی کہتے ہیں :

میں نے ایک دن حضرت علی ـ کو دیکھا کہ ممبر پر تشریف فرما ہیں اور پروردگار کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا :'' قَضٰاء قَضٰا ه ﷲ ُ تَعٰالیٰ عَلیٰ لِسٰانِ النَّبِیِّ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اِنَّ ه قٰالَ: لاَ یُحِبُّنِی اِلّٰامُؤمِن و لَا یُبْغِضُنِیْ اِلّٰامُنٰافِق وَ قَدْ خَابَ مَنِ افْتَریٰ ''( ۱ )

( یہ منظورِ خدا تھا جو رسولِ اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبانِ مبارک پر یہ کلمات جاری ہوئے کہ مجھے دوست نہیں رکھے گا سوائے مؤمن کے اور مجھے دشمن نہیں جانے گا سوائے منافق کے جس نے باطل دعویٰ کیا وہ جھوٹا ہے ۔)

____________________

(۱)ارشاد مفید ، ص ۱۸ ، بحار الانوار ، ج ۳۹ ص ۳۴۶ / ۳۱۰ ، صحیح مسلم ، ج ۱ ص ۴۸ ( باب الدّ لیل علی حسب الانصار ) صواعق محرّقہ ، ابن حجر ص ۱۲۰ ، حدیث ، (ہشتم از فضائل آنحضرت ـ ) ، شرح ابن ابی الحدید ، ج ۱۸ ص ۷۳ ۱ حکمت ۴۲ کے ذیل میں کہتا ہے کہ : ( ہٰذالخبر مرویّ فی الصّحاح)

۴۵

۵۔امام ـکی دوستی نہج البلاغہ کی زبانی :

امیرُ المؤمنین ـ خود نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں !

''لَوْضَرَبْتُ خَیْشُوْمَ الْمُؤْمِنِ بِسَیْفِیْ ه ٰذَا عَلَیٰ اَن ْیُبْغِضَنِی مَا اَبْغَضَنِیْ ؛ وَ لَوْصَبَبْتُ الدُّنْیَا بِجَمَّاتِ ه َاعَلَیٰ المنافق علٰی اَنْ یُحِبَّنِیْ مَا َحَبَّنِیْ وَذٰلِکَ َانَّ ه قُضِی فَانْقَضَیٰ عَلَیٰ لِسَانِ النَّبِیِّ الْاُمِّیّ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ؛ اَنَّ ه قَال: یَا عَلِیُّ لا یُبْغِضُکَ مُؤْ مِن ، وَ لاَ یُحِبُّک مُنٰافِق .''

( میں اگر اپنی شمشیر سے مؤمن کی ناک پر وار کروں تاکہ وہ میرا دشمن ہو جائے وہ کبھی بھی مجھ سے دشمنی نہیںکرے گا ا ور اگر ساری دنیا منافق کو دے دوں تا کہ وہ میرا دوست ہوجائے ، وہ کبھی بھی میرا دوست نہیں ہو گایہ ِ خداوند عالم کی مرضی تھی جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان سے جاری ہوئی ،اے علی ! مومن تم سے دشمنی نہیں کرے گااور منافق تمہارا دوست نہیں ہو گا۔)( ۱ )

____________________

(۱)۔وہ مصنِّفین جنہوں نے اس کلام ِ امام کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔بشارة المصطفیٰ ، ص ۱۳۰ و ۱۸۱ : مرحوم طبری ( متوفّیٰ ۵۵۳ ھ)۲۔ کتاب ِامالی ، ج ۱ ،ص ۲۰۹ : شیخ طوسی ( متوفّیٰ ۴۶۰ ھ)۳۔ ربیع الابرار ، ج ۱، ص ۱۳۸ : زمخشری ( متوفّیٰ ۵۳۸ ھ)۴۔ روضۂ کافی ، ص ۲۶۸ : مرحوم کلینی ( متوفّیٰ ۳۲۸ ھ)۵۔مشکاة الانوار ، ص ۷۴ : مرحوم طبرسی ( متوفّیٰ ۵۴۸ ھ)۶۔مقتلِ امیرُ المؤمنین ـ ، ص ۳ : ابن ابی الدنیا ( متوفّیٰ ۲۸۱ ھ)۷۔ تاریخ دمشق ، ج۲ ، ص ۱۹۰ : ابن عساکر ( متوفّیٰ ۶۷۳ ھ)۸۔ علل الشّرایع ، ص ۵۹/۵۸ : شیخ صدوق ( متوفّیٰ ۳۸۰ ھ)۹۔ بحار الانوار ، ج۳۶ ، ص ۲۱۶ : مرحوم مجلسی ( متوفّیٰ ۱۱۱۰ ھ)۱۰۔ کتاب احتجاج ( بہ نقل بحار ) : مرحوم طبرسی ( متوفّیٰ ۵۴۸ ھ)۱۱۔ بحار الانوار ، ج۳۹ ، ص ۲۵۲ تا ۲۵۶ : مرحوم مجلسی ( متوفّیٰ ۱۱۱۰ ھ)۱۲۔ کتاب محاسن ، ص ۱۵۰ و ۱۵۱ : علَّامہ برقی ( متوفّیٰ ۲۷۴ ھ)۱۳۔ کتاب ارشاد ، ص ۳۵ / ۱۷ و ۱۸ : شیخ مفید ( متوفّیٰ ۴۱۳ ھ)٭ مندرجہ ذیل منابع بحارالانوار ( ج۳۹ ، ص ۲۶۲ تا ۳۲۶ ) میں نقل کئے گئے ہیں ۔۱۴ ۔ کتاب حلیة : سمعانی ۱۵۔ کتاب الفضائل ص ۱۰۰ : سمعانی ۱۶۔ مسند احمد : احمد بن حنبل ( متوفّیٰ ۲۴۱ ھ) ۱۷۔ جامع ترمذی : ترمذی ( متوفّیٰ ۲۷۹ ھ)۱۸۔ کتاب مسند : موصلی۱۹۔ تاریخ بغداد : خطیب بغدادی ( متوفّیٰ ۴۶۳ ھ) ۲۰۔سنن ابن ما جہ : ابن ما جہ ( متوفّیٰ ۲۷۵ ھ)۲۱۔ کتاب صحیح بخاری : بخاری ( متوفّیٰ ۲۵۶ ھ)

۲۲۔کتاب صحیح مسلم : مسلم ( متوفّیٰ ۲۶۱ ھ)۲۳۔کتاب الغارات : ابن ہلال ثقفی ( متوفّیٰ ۲۸۳ ھ)۲۴۔ شرح الالکانی : الکانی ۲۵۔ اعیان ، ج۲ ص ۲۶۹ : ابن عقدہ۲۶۔ کتاب الغریبین : ہروی ( متوفّیٰ ۴۰۱ ھ)۲۷۔کتاب الولایة : طبری ( متوفّیٰ ۴۶۰ ھ )۲۸ ۔ احتجاج : طبرسی ( متوفّیٰ ۵۸۸ ھ) ۲۹۔ کتاب امالی ، ص ۳۸ و ۳۹ و ۱۷۳ : شیخ مفید ( متوفّیٰ ۴۱۳ ھ)

۳۰۔ تفسیر البرہان ، ج۳ ص۲۰۷ : بحرانی ( متوفّیٰ ۱۱۰۷ ھ)۳۱۔کشف ا لغمہ : مرحوم اربلی ( متوفّیٰ ۶۸۷ ھ)۳۲۔ کشف الیقین : علّامہ حلّی ( متوفّیٰ ۷۵۷ ھ)۳۳۔ کتاب طرائف : ابن طاؤوس ۳۴۔ الجمع بین ا لصححین : حمیدی ۳۵۔ کتاب صحیح ابی داؤود : ابی داؤود ( متوفّیٰ ۲۵۷ ھ)۳۶۔ عیون اخبار الرّضا ، ص ۲۲۱ : شیخ صدوق ( متوفّیٰ ۳۸۰ ھ)

۳۷۔کتاب العمدة : ابن البطریق ( متوفّیٰ ۶۰۰ ھ) ۳۸۔ کتاب الجمع بین صحاح الستّہ : عبدری ۳۹۔ کتاب الفردوس : ابن شیرویہ ۴۰۔ غرر الحکم ، ج۵ ص ۱۰۹ : مرحوم آمدی ( متوفّیٰ ۵۸۸ ھ) ۴۱۔کشف الغمہ ، ج۱ ص ۵۲۶ : مرحوم اربلی ( متوفّیٰ ۶۸۷ ھ)

۴۶

چہارم ۔ خطبۂ حجةُ الوداع پر ایک نظر

غدیر خم کے اصلی پیغام کی شناخت کا ایک طریقہ اور ہے وہ یہ کہ رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس دن کے خطبہ کا عمیق نظروں سے جائزہ لیا جائے جو اس تاریخ ساز دن بیان ہوا !

( آفتاب آمد دلیل آفتاب)

موجب اختلاف ابحاث اور کسی ایک فرقہ یا گروہ کے اظہار نظر پر بات کرنے سے پہلے اس بات پر غور و فکر کرنا چاہیے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدیر خم کے دن اپنے خطبہ میں کن اہم مسائل کی طرف لوگوں کی توجّہ مبذول کرائی ؟

اگر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہدف و مقصد صرف یہ تھا کہ علی ـ کی دوستی کا اعلان فرمائیںتو سورۂ مائدہ کی آیة / ۵۵( بَلِّغْ مَا ُنْزِلَِلَیْکَ ) کا تعلق سے حضرت علی ـ کی خلافت اور امامت سے کیوں ہے ؟

جیسا کہ ارشاد فرمایا :( بِسْمِ ﷲ ِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم:یٰا اَیُّهَا الرَّسُوْلُ! بَلِّغْ مَاُانْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ ) ]فِی عَلِیٍّ ،یَعْنِی فِی الْخِلٰافَةِلِعَلِیِّ بْنِ اَبِی طاٰلِب ٍ [( وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰا بَلَّغْتَ رِسٰالَتَه وَﷲ یَعْصِمُکَ مِن النّٰاسِ )

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خطبۂ حجّة الوداع کا کچھ حصہ اے رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! جو کچھ] حضرت علی ـ کے بارے میں [ تمہارے خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس کو لوگوں تک پہنچا دو،یعنی حضرت علی ـ کی خلافت اور امت مسلمہ سے رہبری کے بارے میں مسلمانوں کو بتا دو ، اپنے خطبے میں حضرت علی ـ کی وصایت اورامامت کوواضح طور پر بیان کیوں فرمایا :

۴۷

فَاُعْلِمَ کُلَّ َا بْیَضٍ وَاَ سْوَدٍاَ نَّ عَلِیَّ بْنَ َبِیْ طٰالِب ٍ، ااَخِیْ و وَصِیِّی و خَلِیْفَتی عَلیٰ اُمَّتی وَالْاِمٰامُ مِنْ بَعْدِی ( ۱ )

(لہٰذا سارے ! سیاہ و سفید یہ جان لیں کہ علی بن ابی طالب ـ میر ے بھائی ، خلیفہ ، وصی اور جانشین اور میرے بعد اُمّت کے امام و رہبر ہیں ۔)

کیا اس قسم کے جملے دوستی کا پیغام پہنچانے کے لئے تھے ؟

اگر ہدف، دوستی کا اعلان تھا تو کیوں فرمایا:

''وَاعْلَمُواَنَّ ﷲ َقَدْ نَصَبَ ه لَکُمْ وَلِیّاً وَاِمَاماً،فَرَضَ طٰا عَتَ ه عَلَی الْمُ ه ٰاجِرِیْن وَالْاَنْصٰارِ، وَعَلَی التَّابِعِیْنَ لَ ه ُمْ بِاِحْسٰانٍ، وَعَلَی الْبٰادِی وَالْحٰاضِرِ،وَعَلَی الْعَجَمِیِّ وَا لْعَرَبِیِّ ، وَالْحُر وَالْمَمْلُوْکِ، وَالصَّغِیْرِ وَالْکَبِیْرِ،وَعَلَی الْاَبْیَض وَالاْسْوَدِ، و عَلیٰ کُلِّ مُوَحِّدٍ،مٰاضٍ حُکْمُ ه ،جٰازَ قَوْلُ ه ،نٰافِذ َمْرُ ه ،مَلْعُوْن مَنْ خٰالَفَ ه ، مَرْحُوْم مَنْ تَبِعَ ه ، وَصَدَقَ ه ، فَقَدْ غَفَرَﷲ ُ لَ ه وَلِمَنْ سَمِعَ مِنْ ه وَاَطٰاعَ لَ ه .''

اے لوگو ! جان لو کہ خدا وند ِ عالم نے علی ـ کو تمہارا امام اور سرپرست بنایا ہے،انکی اطاعت تمام مہاجرین و انصار، اسلام کے نیک پیروکار، شہری و دیہاتی، عرب و عجم ، غلام و آزاد ،چھوٹے بڑے ، کالے گورے اور ہر اس خداپرست پر جو ایک خدا کی پرستش کرتا ہے واجب قرار دی ہے؛ انکے فرمان پر عمل ، کلام کا سننا اور حکم کی بجا آوری واجب ہے؛ ملعون ہے وہ شخص جو انکی مخالفت کرے اور اس پر خدا کی رحمت جو انکی اطاعت کرے، انکی تصدیق کرنے والا مومن ہے جو بھی ان سے سنے اور ان کی اطاعت کرے خدا اس کو بخش دے گا۔) اگر روزِ غدیر صرف دوستی کے اعلان کے لئے تھا تو پھر حضرت علی ـاور انکے فرزندوں کی امامت اور رہبری ِ کی بات کیوں کر رہے ہیں ؟

____________________

(۱)پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خطبۂ حجّةُالْوداع کا کچھ حصّہ انکی اطاعت کو سب مسلمانوں پر واجب کیوں کر رہے ہیں ؟ امامت اور رہبری کو تا روزِ قیامت علی ـ اور انکے فرزندوں میں کیوں قرار دے رہے ہیں؟

جیسا کہ فرمایا:''ثُمَّ مِنْ بَعْدِیْ عَلِیّ وَ لِیُّکُمْ، وَاِمٰامُکُمْ بِاَمْرِﷲ ِ رَبِّکُمْ، ثُم الامٰا مَةُ فِیْ ذُرِّیَتِیْ مِنْ وُلْدِه ِلیٰ یَوْمِ الْقِیٰامَةِ،یَوْمَ تَلْقُوْنَ ﷲ َ وَ رَسُوْلَه. ''

( خدا وندِ عالم کے حکم سے میرے بعد علی ـ تمہارے امام اور ولی ہونگے اور انکے بعد اما مت میری ذرّیت میں ہے کہ جو علی ـ سے ہو گی او رتا روزِ قیامت برقرار رہے گی وہ دن کہ جس دن تم لوگ خدا اور اسکے رسول سے ملاقات کرو گے ۔)

۴۸

اگر غدیر کا دن صرف دوستی کے اعلان کے لیے تھا تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود حضرت علی ـ کی بیعت کیوںکی ؟ اور تمام مسلمانوں کو بیعت کا حکم کیوں دیا ؟دوستی کا اعلان تو بیعت کاتقاضا نہیں کرتا ۔

'' َلَا وَاِنِّیْ عِنْدَ انْقِضٰائِ خُطْبَتیْ َدْعُوْکُمْ ِلیٰ مُصٰافَقَتی عَلی بَیْعَتِ ه وَالْاِقْرَارِ بِ ه ثُمَّ مُصٰافَقَتِ ه مَنْ بَعْدی؛؛؛َلَا وَ اِنِّی قَدْ بٰا یَعْتُ ﷲ َ،وَ عَلِیّ قَدْ بٰایَعْنِیْ وَ اَنٰا آخِذْ کُمْ بِالْبَیْعَةِ لَ ه عَنِ ﷲ ِ عَزَّ وَجَل ( ا ِنَّ الَّذِیْن یُبٰایِعُوْنَکَ اِنَّمٰا یُبٰایِعُوْنَ ﷲ یَدُﷲ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ فَمَنْ نَکَث فَاِنَّمٰا یَنْکُث عَلیٰ نَفْسِه وَمَنْ َوْفیٰ بِمٰا عٰاهَدعَلَیْهِ ﷲ َ فَسَیُوْ تِیْهِ اجْراً عَظِیْماً ) سورةُ الْفَتْح/ ۱۰)

تم سب آگاہ ہو جاؤ کہ میں اپنے خطبے کے اختتام پر تم لوگوں کو حضر ت علی ـکی بیعت کے لئے بلاؤں گا تو تم سب انکی بیعت کرنا اور انکی امامت کا اعترا ف کرنا ،اور پھرانکے بعد آنے والے اماموں کی بھی بیعت کرنا ۔

آگاہ ہو جاؤ اس کے سوا کچھ نہیںکہ میں نے خدا کی بیعت کی اور علی ـ نے میری بیعت کی میں خدا وند ِعالم کی طرف سے تم لوگوں کو حضرت علی ـ کی بیعت کرنے کے لئے دعوت دیتاہوں، آیہ /۱۰ سورۂ الفتح : ( بتحقیق جو لوگ تمہاری بیعت کرتے ہیں اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ خدا کی ہی بیعت کرتے ہیں خدا کی قوّت اور قدرت تو سب کی قوّت پر غالب ہے ، جو عہد شکنی کرے گا اسکو نقصان ہوگا ،اور جو عہد و پیمان کو وفا کرے گا خدا وند ِ منّان ا س کو عنقریب اجر عظیم عطا فرمائے گا ۔)

جو شخص بھی عہد کو توڑے گا اسنے اپنے نقصان میں کام کیا، خداوند عالم کی جانب سے مجھے یہ کام سونپا گیا ہے کہ تم لوگوں سے علی ـ کے لئے بیعت لوں ، لہٰذاجو کچھ خدا وند عالم کی طرف سے ولایت علی ـ کے سلسلے میں نازل ہوا ہے اسکا اعتراف کرو اور ان کوامیرُالمؤمنین جانو ، اور علی ـ کے بعد آنے والے میرے خاندان میں سے اور علی ـ کے فرزندوں کی ا مامت کو قبول کرو ، اور انکے قائم حضرت مہدی ـ ہونگے جو تا روزِ قیامت حق سے قضاوت کریں گے ۔)

اگر سارے اسلامی فرقے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خطبہ حجة الوداع کو ہر قسم کے تعصب سے ہٹ کر دیکھیں اور اس میں غور و فکر کریں تو حقیقت کو نور خورشید کے مانند پائیںگے،اور حق کے مزے سے آشنا ہو جائیں گے ۔

۴۹

دوسری فصل

آیا واقعۂ غدیر ولایت کے اعلان کے لئے تھا؟

پہلی بحث : سطحی طر ز تفکّر اور پیام غدیر

دوسری بحث: ولایت کا اعلا ن غدیر سے پہلے

تیسری بحث : اثبات امامت تا رجعت و قیامت

بعض لوگوں نے اپنی تقاریر اور تحریروں میں بغیر کسی تحقیق اور تدبّر کے واقعۂ غدیرکے بارے میں لکھا اور کہا کہ ( غدیر کا دن اعلان ولایت کا دن ہے ۔ )

اور اس بات کی اتنی تکرار کی گئی کہ قارئین اور سامعین کے نزدیک یہ بات ایک حقیقت بن گئی اور سب نے اس کو عقیدے کے طور پر قبول کر لیا۔

۱ سطحی طرز تفکّر اور پیام غدیر:

واقعاً کیا غدیر کے دن صرف اعلان ولایت کیا گیا؟

مشہور اہل قلم و بیان کے قلم و بیان سے یہی بات ثابت ہوتی ہے جو غلط فہمی کا سبب بنی جسکے نتیجے میں لوگوں کو واقعۂ غدیر سے صحیح اور حقیقی آگاہی حاصل نہ ہو سکی درست ہے کہ عید غدیر کے دن ( ولایت ِ عترت ) کا اعلان بھی کیا گیا ،لیکن روز غدیر کو صرف ولایت کے اعلان سے ہی مخصوص نہیں کیا جاسکتا ۔

اگر کسی نے کم علمی ، عدم آگاہی یا اپنی سطحی سوچ کی وجہ سے اس قسم کا دعویٰ کیاہے اور اخباروں رسالوں اور مختلف جرائد میں ایسا لکھا گیا ہے تو کوئی بات نہیں ، لیکن اس کے بر طرف کرنے کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا غدیر کی حقیقت کو شائستہ اور دلنشین انداز میں بیان کر کے امت مسلمہ کی جان و دل کو پاک کیا جائے ۔

۵۰

۲۔ ولایت کا اعلان غدیر سے پہلے:

روز غدیر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہم کاموں میں سے ایک کام اعلان ولایت تھا نہ صرف روز غدیر بلکہ آغاز بعثت سے غدیر تک ہمیشہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علی ـ کی( ولایت ) اور ( وصایت ) کے بارے میں لوگوں کو بتاتے رہے۔

اگر غدیر کا دن صرف اعلان ولایت کے لئے تھا توفرصت طلب منافقین ا تنا ہاتھ پاؤں نہ مارتے اور پیامبر گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل کا منصوبہ نہ بناتے،کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بارہا مدینہ میں ، اُحُد میں، خیبر میں ، بیعت عقبہ میں، بعثت کے آغاز پر، ہجرت کے دوران،غزوہ ٔ تبوک کے موقع پر اور کئی حساس موقعوں پر علی ـ کی ولایت کا اعلان کر چکے تھے۔

اپنے بعد کے امام اور حضرت علی ـ کے فرزندوںمیں سے آنے والے دوسرے اماموںکا تعارف ناموں کے ساتھ کروا چکے تھے، مگر کسی کو دکھ نہ ہوا، کچھ منافق چہرے بھی وہاں موجود تھے لیکن انھوں نے کسی قسم کی سازش نہیں کی، کوئی قتل کا منصوبہ نہیں بنایا کیوں ؟ اس لئے کہ صرف اعلان ولایت انکے پوشیدہ مقاصد کے لئے کوئی خطرے والی بات نہیں تھی ،غدیر سے پہلے اعلان ولایت کے چند نمونے پیش خدمت ہیں :

۱۔ ولایت ِ علی ـ کا اعلان آغاز بعثت میں:

حضرت امیر المؤمنین ـ کی ولایت کا اعلان غدیر کے دن پرمنحصر نہیں بلکہ آغاز بعثت کے موقع پر ہو چکا تھا، سیرۂ ابن ہشّام میں ہے کہ بعثت کو ابھی تین سال بھی نہ گذرے تھے کہ خدا وند عالم نے اپنے حبیب سے فرمایا :

( اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبیْنَ ) سورۂ شعراء / ۲۱۴

( اے رسول تم اپنے قرابت داروں کو عذاب الہی سے ڈراؤ )

۵۱

اس آیت کے نازل ہو تے ہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اسلام کے لئے مخفیانہ دعوت تمام ہو گئی اور وہ وقت آگیا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں اور قرابت داروں کو اسلام کی دعوت دیں تمام مفسّرین اور مؤرّخین تقریباً بالاتفاق یہ لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دینے کا بیڑہ اٹھا لیا ،اور یہی وجہ تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو گوشت اور شیر (دودھ) سے غذا بنانے کا حکم دیا اور کہا کہ بنی ہاشم کے بڑے لوگوں میں سے چالیس یا پینتالیس لوگوں کو کھانے پر دعوت دیں( ۱ )

دعوت کی تیاریاں ہو گئیں ، سب مہمان مقررہ وقت پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے ، لیکن کھانے کے بعد ( ابو لہب) کی بیھودہ اور سبک باتوں کی وجہ سے مجلس درہم برہم ہو گئی اور کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہ ہو سکا ، تمام مدعوّین کھانا کھا کر اور دودھ پی کر واپس چلے گئے۔

حضوراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فیصلہ کیا کہ اسکے دوسرے دن ایک اور ضیافت کا انتظام کیا جائے اور ایک بارپھر ان سب لوگوں کو دعوت دی جائے ، رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے حضرت علی ـ نے ان لوگوں کو دوبارہ کھانے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کلمات سننے کی دعوت دی سارے مہمان ایک مرتبہ پھر مقررہ وقت پر حاضر ہو گئے ، کھانے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد جناب رسولِ خدا نے فرمایا:

____________________

(۱)۔مجمع البیان ج ۷،ص ۲۶۰، و کامل ابن اثیر ج ۲، ص ۶۱، و تفسیر کشّاف ج ۳ ،ص ۳۴۱ ، و تفسیر کبیر امام فخر رازی ج ۲۴، ص ۷۳ ۱ ، و تاریخ دمشق ج ۱، ص ۸۷ ، و الدرالمنثور ج ۵، ص ۹۷ ، کقایة الطالب ص ۲۰۵،

۵۲

( جو اپنی اُمّت کا حقیقی اور واقعی راہنما ہوتا ہے وہ کبھی ان سے جھوٹ نہیں بولتا اس خدا کی قسم کہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں ، میں اسکی طرف سے تمہارے لئے اور سارے جہان والوں کے لئے بھیجا گیا ہوں ہا ں اس بات سے آگاہ ہو جاؤ کہ جس طرح سوتے ہو اس ہی طرح مرجاؤگے ، اور جس طرح بیدار؛ ہوتے ہواس ہی طرح قیامت کے دن زندہ ہو جاؤ گے اعمال نیک بجا لانے والوں کو جزائے خیر اور بُرے اعمال و الوں کو عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ،نیک اعمال والوں کے لئے ہمیشہ رہنے والی جنت اور بدکاروں کے لئے ؛ ہمیشہ کے لئے جہنّم تیّا ر ہے میں پورے عرب میں کسی بھی شخص کو نہیں جانتا کہ جو کچھ میں اپنی امّت کے لئے لایا ہوں اس سے بہتر اپنی قوم کے لئے لایا ہو ؛جس میں بھی دنیا وآخرت کی خیر اور بھلائی تھی میں تمہارے لئے لے کر آیا ہوں میرے خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کو اسکی وحدانیّت اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دوں۔)

اسکے بعد فرمایا :

(وَاِنَّ ﷲ َ لَمْ یَبْعَثْ نَبِیّاً اِلَّا جَعَلَ لَ ه مِنْ َا ه ْلِ ه اخاً وَ وَزِیْراً وَ وٰارِثاً وَوَصِیَّاَا َخَلِیْفَةً فی اَ ه ْلِ ه فَاَ یُّکُمْ یَقُوْمُ فَیُبٰایِعْنی عَلیٰ ا َنَّ ه اَخی وَوٰارِثی وَ وَزِیْری وَ وَصِیّ وَیَکُوْنُ مِنّی بِمَنْزِلَةِ ه ٰارُوْنَ مِنْ مُوْسی اِلَّا اَنَّ ه ُ لَا نَبِی َّبَعْدی )

بتحقیق خدا وند عالم نے کوئی نبی نہیں بھیجا کہ جسکے قریبی رشتہ داروں میں سے اس کے لئے بھائی ، وارث ، جانشین ، اور خلیفہ مقرر نہ کیا ہو پس تم میں سے کون ہے جوسب سے پہلے کھڑا ہو اور اس امر میں میری بیعت کرے اورمیرا بھائی ، وارث ،وصی اوروزیر بنے تو اسکا مقام اور منزلت میری نسبت و ہی ہے جو موسیٰ کی نسبت ہارون کی تھی فرق صرف اتناہے کہ میرے بعد کوئی پیامبر نہیں آئے گا ۔)( ۱ )

____________________

(۱)۔مجمع البیان ، ج ۷ ،ص ۲۰۶ / تفسیر المیزان ، ج ۱۵، ص ۳۳۵ / تاریخ دمشق ابن عساکر ، ج ۱۹، ص ۶۸ المنا قب فی ذرّیّة ِ اطائب ۔

۵۳

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس جملے کو تین بار تکرار فرمایا :ایک اور روایت میں ہے کہ فرمایا :

(فَاَیُّکُمْ یُوَازِرُنی عَلیٰ ه ٰذَاالْاَمْرِ؟ وَاَ نْ یَکُوْنَ اَخی وَوَصیّی وَخَلِیْفَتی فِیکُمْ؟ )( ۱ )

( پس تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میری مدد کرے اور یہ کہ وہ تمہارے درمیان میرا بھائی ، وصی اور خلیفہ ہو گا؟ ) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ جملہ ارشاد فرمانے کے بعد کچھ دیر توقّف کیا تاکہ دیکھ سکیں کہ ان لوگوں میں سے کس نے انکی دعوت پر لبّیک کہا اور مثبت جواب دیا؟سب لو گ سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے کہ اچانک حضرت علی ـ کو دیکھا( جنکا سن اس وقت ۱۵سال سے زیادہ نہ تھا۔ ) کہ وہ کھڑے ہوئے اور سکوت کو توڑتے ہوئے

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رخ کر کے فرمایا: (اے خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !میں اس راہ میں آپکی مدد کروں گا ۔)

اسکے بعد وفاداری کی علامت کے طور پر اپنے ہاتھ کو جناب ختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف بڑھا دیا ، رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بیٹھ جانے کا حکم دیا ؛ اور ایک بار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی بات دہرائی،پھر حضرت علی ـ کھڑے ہوئے اور اپنی آمادگی کا اظہار کیا ،اس بار بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بیٹھ جانے کا حکم دیا ؛تیسری دفعہ بھی حضرت علی ـ کے علاوہ کوئی کھڑانہ ہوا،اس جماعت میں صرف حضرت امیرُالمؤمنین ـ تھے جو کھڑے ہوئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس مقدّس ہدف کی حمایت اور پشت پناہی کا کھلا اظہار کیا اور فرمایا:

____________________

(۱)۔حیات ِ محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ڈاکٹر ھیکل ص ۱۰۴ / کامل ابن اثیر ، ج ۲ ،ص ۶۳کفایةالمطالب ، ص ۲۵۰ و تاریخ مشق ج ۱، ص ۸۹/ شرح ابن ابی الحدید ، ج ۳ ۱ ،ص ۲۱۱۔

۵۴

( یا رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اس راہ میں آپکا مدد گار و معاون رہونگا۔ )

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا دست مبارک حضرت علی ـ کے دست مبارک پر رکھا اور فرمایا:''ِانَّ ه ٰذ َا خی وَ وَ صیّ وَ خَلِیْفَتی عَلَیْکُمْ فَاسْمَعُوْا لَ ه ُ وَاَطِیْعُوْ ه ُ .''

بے شک یہ علی ـ تمہارے درمیا ن میرا بھائی ،وصی اور جانشین ہے اسکی بات سنو اور اسکی اطاعت کرو، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اپنوں نے اس موضوع کو بہت سادہ اور عام سمجھا اور یہاں تک کہ بعض نے تو مذاق اڑا یا اور جناب ابوطالبـ سے کہا آج کے بعداپنے بیٹے علی ـ کی بات غور سے سنو اور اسکی اطاعت کرو۔) لہٰذا ولایت کا اعلان ،رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے ۳سال بعداور اسلام رائج ہوتے وقت ہی ہو گیا تھا اور غدیرخُم سے پہلے ہی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قرابت داروں اور بزرگانِ قریش کے کانوں تک پہنچ گیا تھا ۔

۲۔ جنگ تبوک کے موقع پر اعلان ولایت : (حدیث ِ منزلت )

۹ ہجری میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تبوک کی طرف لشکر کشی فرمائی ، چونکہ یہ لشکر کشی بہت طولانی تھی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اسلامی حکومت کے دارُالخلافہ سے بہت دور شام کی سرحدوں تک جانا تھا، اس امر کی ضرورت تھی کہ ایک قدرت مند اور بہادر مرد مدینہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جانشین ہو ؛تاکہ حکومت کے مرکزاور صدر مقام پر امن و امان کی فضا بحال رہے اس لئے حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بہتر یہ سمجھا کہ حضرت علی ابن ابی طالب ـ کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرّر کریں ۔

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تبوک کی طرف روانگی کے فوراً بعد ہی منافقوں نے شہر مدینہ میںچر چا شروع کردیا کہ( نعوذبﷲ) رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علی ابن ابی طالب ـ سے ناراض ہیں اور اب ان سے محبّت نہیں کرتے ،اور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اپنے ساتھ لے کر نہیں جا رہے، یہ بات حضرت علی ـ پر گراں گذر ی ا ور آپ ـاس کو برداشت نہ کر سکے اس لئے تبوک کے راستے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے اور عرض کی :

۵۵

یا رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ لوگ ایسی ایسی بات کر رہے ہیں حضرت ختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

(َنْتَ مِنِّیْ بمنزِلَةِ ه ٰارُوْنَ مِن مُوْسیٰ ، ِلَّا َنَّ ه لا نَبِیَّ بَعْدی )

اے علی ـ! تمہاری نسبت میرے ساتھ ایسی ہی ہے جیسے ہارون ـ کی موسیٰ ـکے ساتھ تھی لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ )( ۱ )

یعنی : تمہیں اس لئے مدینہ میں رہنا ہے کہ جب بھی موسیٰ اپنے پروردگار کے امر کی بجاآوری کے لئے جاتے تھے ،تواپنے بھائی کو اپنی جگہ پر بٹھا کرجاتے تھے۔

( وَ قٰالَ مُوسیٰ لِاَ خِیْه هٰا رُوْنَ اُخْلُفْنی فی قَوْمی وَ اَصْلِحْ ولاَ تَتَّبِع سَبیلَ الْمُفْسِدِیْن ) ( ۲ )

____________________

(۱)۱۔ معانی الاخبار ،ص۷۴ ، جابر ابن عبدﷲ اور سعد ابن ابی وقّاص سے نقل کیا ہے۔

۲۔ مناقب آل ِ ابن طالب ـ ، ج۳، ص ۱۶

۳۔ صحیح بخاری ، ج۵ ،ص ۲۴ ، ( باب مناقب علی )

۴۔ صحیح مسلم ، ج۲، ص۳۶۰ ، ( باب فضائل علی ـ )

۵۔ الغدیر ،ج۱ ،ص ۱۹۷ ،ج۳، ص۱۹۹

۶۔ کتاب احقاق الحق ، ج۲۱ ،ص ۲۶ و ۲۷

۷۔ الغدیر ،ج۱ ،ص ۱۹۷ ، ج۳ ،ص۱۹

۸۔َسنی المطالب فی مناقب علی بن ابیطالب ـ : شمس الدین ابوالخیر جزری

۹۔الضوء اللّامع ، ج۹ ،ص ۲۵۶

۱۰۔البدر الطالع ،ج۲، ص ۲۹۷

(۲) سورۂ اعراف/۱۴۲

۵۶

اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا : میری اُمّت میں میرے جانشین رہو ، اور انکی اصلاح کرنااور مفسدین کی راہ پر مت چلنا، مذکورہ حدیث میں بھی واقعۂ غدیر سے پہلے حضرت امیرُالمؤمنین ـ کی وصایت و ولایت کا اعلان ہو چکا تو پھر کیا ضرورت تھی کہ اتنے تپتے ہوئے صحرا میں صرف ولایت کے اعلان کے لیے لوگوں کو روکا جائے ۔

۳۔ حضرت علی ـکے رہبر ہونے کا اعلان غدیر سے پہلے:

لفظِ( یعسوب ) کے معنیٰ رئیس ، بزرگ اور ا سلام کے سرپرست کے ہیں ۔( ۱ )

رسولِ اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کے بارے میں کچھ اس طرح ارشا د فرمایا !

(یٰا عَلِیُّ اِنَّکَ سَیِّد ُالْمُسْلِمیْنَ وَیَعْسُوْبُ الْمُؤمِنیْنَ وَاِمٰامُ الْمُتَّقیْنَ وَ قٰا ئِدُالْغُرِّالْمُحَجَّلیْنَ )( ۲ )

اے علی ـ ! تم مومنین کے بزرگ اور رہبر ہو اور پرہیز گاروں کے امام ہو اور با ایمان عورتوں کے رہبر ہو ) جناب ِ امیرالمؤمنین نے ارشاد فرمایا :(اَنَا یَعْسُوْبُ الْمُؤْ مِنیْنَ وَ الْمٰالُ یَعْسُوْبُ الْفُجَّارِ) ابنِ ابی الحدید امیرالمؤمنین کے کلام کی شرح کرتے ہوئے لکھتا ہے ! یہ کلمہ خدا کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امام علی ـ کے بارے میں ارشاد فرمایا:ایک بار ''انْتَ یَعْسُوْ بُ الدّیْن'' کے لفظوں کے ساتھ اور دوسری بار''َنْتَ یَعْسُوْبُ الْمُؤْمِنیْنَ '' کے لفظوں کے ساتھ، اور ان دونوں کے ایک ہی معنیٰ ہیں گویا امیرُالمؤمنین ـ کومؤمنین کا رئیس اور سیّد و سردار قرار دیا ہے( ۳ ) نیز

____________________

(۱)۔ لغت میں ہے کہ ( الیعسوب ؛ الرّئیس الکبیر ، یقال ھو یعسوب قومہ) اصل میں شہد کی مکھیوں کے امیر اور نر کو (یعسوب ) کہتے ہیں، جیسا کہ اہل لغت کہتے ہیں ( الیعسوب ؛ ذَکَرُ النَّحْلِ وَمیرھا ) ۔

(۲)۔بحار الانوار ، ج۳۸ ص ۱۲۶ تا ۱۶۶ تقریباً ۱۰/روایتیں شیعہ اور سنّی سے اس سلسلے میں نقل ہوئی ہیں ۔

(۳) ۔ شرح ابن ابی الحدید ، ج ،۱۹ص ۲۲۴ حکمت ۳۲۲ کے ذیل میں اپنی شرح کے مقدمہ میں لکھتاہے : اہل حدیث کی روایت میں ایک کلام نقل ہوا ہے جسکے معنیٰ امیرُالمؤمنین کے ہیں،اور وہ یہ ہے کہ فرمایا:

''ا َنْتَ یَعْسُوْبُ الدّیْنِ وَالْمٰالُ یَعْسُوْبُ الظُّلْمَةِ ''اے علی ـ !تم دین کے رہبر اور مال گمراہوں کا رہبر ہے ) ایک دوسری روایت میں ہے کہ فرمایا :

هٰذٰا یَعْسُوْبُ الدیْنِ ( یہ علی ـ دین کے رہبر ہیں ) ان دونوں روایتوں کو احمد بن حنبل نے اپنی کتاب ( مسند) میں اور ابو نعیم نے اپنی کتاب حلیة الاو لیاء میں نقل کیا ہے

۵۷

یاد رہے کہ یہ فضائل اور مناقب امام علی ـ کے ساتھ مخصوص ہیںاور منحصر بہ فرد ہیں ،انکی خلافت کے دلائل میں سے ہیںاور واقعۂ غدیر سے پہلے بیان کئے جاچکے ہیں ۔

۴۔حضرت علی ـ کی امامت کا اعلان :

حدیث اعلان ولایت حضرت امیرُالمؤمنین ـ کی ایک ایسی فضیلت ہے کہ جو آپ ـ کی ذات سے مخصوص ،منحصر بہ فرد اور آپ ـ کی خلافت اور امامت کے دلائل میں سے ہے ، ابن عبّاس نقل کرتے ہیں کہ رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا: یا علی ـ ''انْتَ وَلِیُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدیْ وَمُؤْمِنَةٍ ''( ۲ )

آپ میرے بعد ہر مؤمن مرد و زن کے ولی اور رہبر ہیں ) یہ حدیث بھی غدیر خُم کے اہم واقعہ سے پہلے رسولِ اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے صادر ہوئی سب لوگوں نے اسکو سنا بھی تھا اورحفظ بھی کر لیا تھا۔

____________________

(۱)۔ شرح ابن ابی الحدید ، ج۱ص ۱۲ : مقدمہ کنز العمال ، حاشیہ مسند احمد

(۲)۔ تلخیص مستدرک ، ج۳، ص ۳۴ ۱ : ذہبی مسندِ حنبل ، ج۱ص ۳۳۱ : احمد ابن حنبل

۳۔صحیح ترمذی ، ج۵ص ۶۳۲ (باب مناقب علی بن ابی طالب ـ ) : ترمذی

۴۔کنزالعمال حاشیہ مسند احمد

۵۔ الغدیر ، ج۳ ص ۲۱۵تا ۲۱۷ : علّامہ امینی

۶۔ مناقب ابن شہر آشوب ، ج۳ ص ۴۶تا۵۲

۷۔مستدرک حاکم ، ج۳ ص ۱۳۴

۵۸

۵ ۔ پرہیزگا روںکے امام حضرت علی ـ :

رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل ہوا ہے کہ

ا وْحِیَ ِلِیَّ فی ثَلٰاثٍ،َنَّ ه سَیَّدُالْمُسْلِمیْنَ وَاِمٰامُ الْمُتَّقیْنَ وَقٰائِدُ الْغُرِّالْمُحَجَّلیْنَ رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

تین بار حضرت علی ـ کے بارے میں مجھ پر وحی نازل ہوئی : علی ـ مسلمانوں کے سردار ، پرہیزگاروں کے امام اور با ایما ن خو اتین کے رہبر ہیں( ۱ ) اس طرح واضح اور روشن انداز میں ولایت کا اظہار بھی واقعۂ غدیر سے پہلے ہو چکا تھااور کسی سے پوشیدہ نہ تھا ۔

۶۔ علی ـ امیرُالمؤمنین :

ایک اور بہت واضح اور روشن حقیقت یہ ہے کہ رسولِ گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے واقعۂ غدیر سے پہلے حضرت علی بن ابیطالب ـ کو ( امیرُالمؤمنین )کا لقب دیا جوکہ حضرت علی ـ کی امامت اور خلافت کی حکایت کرتا ہے اور یہ لقب آپ ـ کی ذات اقدس کے ساتھ مخصوص ہے۔

انس بن مالک :

ا نس بن مالک نے نقل کیا ہے کہ میں جناب رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خادم تھا ؛ جس رات آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اُمِّ حبیبہ کے گھرمیں شب بسر کرنا تھی ، میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے

____________________

( ۱ )۔مستدرک صحیحین ،ج۳، ص ۱۳۶ و صحیح بخاری ، مختصر کنزالعمال حاشیۂ مسند احمد ،ص ۳۴ و المراجعات ،ص۱۵۰

۵۹

لئے وضوء کا پانی لے کر آیا تو آپ نے مجھ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا :''یا اَنَسُ یَدْ خُل عَلَیْکَ السّٰاعَة مِن ه ٰذاالباب امیرالْمؤمِنیْنَ وَخَیْرالْوَصِیّیْن ، َ قْدَمُ النّٰاسَ سِلْماً وَ َ کْثِرُ ه ُمْ عِلْماً و َا رْ جَحُ ه ُم حِلْما''

اے انس ! ابھی اس دروازے سے امیرالمؤمنین و خیر الوصیّین داخل ہونگے؛ جو سب سے پہلے اسلام لائے جنکا علم سب انسانوں سے زیادہ ہے؛ جو حلم ا ور بردباری میں سب لوگوں سے بڑھ کر ہیں)( ۱ ) انس کہتے ہیں کہ! میں نے کہا کہ خدایا کیا وہ شخص میری قوم میں سے ہے؟ ابھی کچھ دیر نہ گذری تھی کہ میں نے دیکھا علی بن ابیطالب ـ دروازے سے داخل ہوئے جبکہ رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وضو کرنے میں مشغول تھے ،آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وضوکے پانی میں سے کچھ پانی حضرت علی ـ کے چہرۂ مبارک پرڈالا۔

____________________

۱۔ ارشاد ، ص ۲۰ : شیخ مفید ابن مالک سے نقل کرتے ہیں ۔

۶۰