منزلت غدیر

منزلت غدیر0%

منزلت غدیر مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 156

منزلت غدیر

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین محمد دشتی
زمرہ جات:

صفحے: 156
مشاہدے: 42105
ڈاؤنلوڈ: 2415

تبصرے:

منزلت غدیر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 156 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42105 / ڈاؤنلوڈ: 2415
سائز سائز سائز
منزلت غدیر

منزلت غدیر

مؤلف:
اردو

نقل شیخ مفید:

ایک اور روایت میں شیخ مفید بہ سند خود ابن عبّاس سے نقل کرتے ہیں : رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُمِّ سلمیٰ سے فرمایا :

اسْمَعی وَا شْ ه َد ایْ ه ٰذا ؛ عَلِیُّ ا میْرُالْمُؤْ مِنیْنَ وَ سَیَّدُ الْوَ صِیّیْنَ )

( اے امّ سلمیٰ میری بات سنو اور اسکی گواہ رہنا کہ یہ علی]بن ابیطالب ـ[مؤمنوں کا امیراوروصیّوں کا سردار ہے۔ )

نقل ابن ثعلبہ :

شیخ مفید تیسری روایت میں بہ سند خود معاویةبن ثعلبہ سے نقل کرتے ہیںکہ ( ابو ذر سے کہا گیا کہ وصیّت کرو۔

ا بوذرنے کہا:میں نے وصیّت کردی ہے ۔

انہوں نے کہا: کس شخص کو؟

ابوذر نے کہا :امیرُالمؤمنین ـ کو،؟

انہوں نے کہا :کیا عثمان بن عفّان کو؟

ابوذر نے کہا: نہیں امیرُالمؤمنین علی بن ابیطالب ـ کو جنکے دم سے زمین ہے اور جواُمّت کی تربیت کرنے والے ہیں ۔ )

نقل بریدة بن اسلمی :

برید ہ بن خضیب اسلمی کی خبر جو علما ء کے درمیان مشہور ہے بہت سی اسناد کے ساتھ (کہ جنکا ذکر کلام کو طولا نی کرے گا ) بُریدہ کہتا ہے کہ: جناب رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے اور میرے ساتھ ایک جماعت ( ہم لوگ سات افراد تھے ان میں سے منجملہ ابو بکر ،عمر ، طلحہ ، زبیر تھے کو حکم دیا کہ: ''سَلِّمُوا عَلیٰ عَلِیٍّ بِا مْرَةِ الْمُؤْمِنیْنَ'' علی ـ کو امیر المؤمنین کے کلمہ کے ساتھ سلام کیا کرو) ہم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات اور ان کی موجودگی میں ا ن کو یا امیر المومنین کہکر سلام کیا۔( ۱ )

____________________

(۱)۔ارشاد ِ شیخ مفید ، ص ۲۰ : شیخ مفید و بحارُالانوار ، ج۳۷ ،ص ۲۹۰ تا ۳۴۰ : علامہ مجلسی ، الغدیر ج۸ ،ص ۸۷۔ ج۶، ص ۰ ۸ : علّامہ امینی و حلیة الا ولیاء ، ج ۱، ص ۶۳ : ابو نعیم

۶۱

نقل عیّاشی:

عیّاشی اپنی تفسیر میں نقل کرتا ہے کہ ایک شخص امام صادق ـ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:( اَلسَّلاٰمُ عَلَیْکَ یٰا َمیْرَالْمُؤمِنیْن) امام صادق ـ کھڑے ہوگئے اور فرمایا :یہ نام امیرُالمؤمنین علی ـ کے علاوہ کسی اور کے لئے مناسب نہیں ہے اور یہ نام خدا وند عالم کا رکھا ہوا ہے ا س نے کہا کہ آپکے امامِ قائم کو کس نام سے پکارا جاتا ہے ؟

ا مام صادق ـ نے فرمایا :

(السَّلاٰمُ عَلَیْکَ یٰا بَقْیَةَ ﷲ ِ ،السَّلاٰمُ عَلَیْکَ یَابنَ رَسُوْل ﷲ )( ۱ )

اور امام باقر ـ نے فُضیل بن یسار سے فرمایا:

(یٰا فُضَیْلُ لَمْ یُسَمَّ بِ ه ٰا وَﷲ ِ بَعْدَ عَلِیٍّ اَمیْرِالْمُؤْمِنیْنَ ِلا مُفٰتِرٍ کَذّٰابِ الیٰ یَوْمَ النّٰاسِ ه ٰذٰا )( ۲ )

اے فضیل !خدا کی قسم علی ـکے علاوہ کسی کو بھی اس نام (امیر المؤمنین )سے نہیں پکارا گیا اور اگر کسی کو پکارا گیا تو وہ خائن اور جھوٹا ہے۔ )

واقعۂ غدیر سے قبل حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اتنی فراوان اور وسیع روایات و احادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ روز غدیر ( ولایت )کے اعلان کے لئے مخصوص نہیں تھا ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اور اہم چیز حقیقت کے روپ میں سامنے آئی اوروہ حقیقت حضرت علی ـ کیلئے لوگوں کی بیعت عمومی تھی ،کیونکہ اگر لوگوں کی عمومی بیعت نہ ہو توامام ـ کی قیادت و راہنمائی قابل اجرا اور قابل عمل نہ رہے گی ۔

____________________

(۱)۔ تفسیر عیّاشی ، ج ۱، ص ۲۸۶ ( سورۂ نساء کی آیت /۱۱۷ کے ذیل میں )

(۲)۔بحار الانوار ، ج۳۷، ص ۳۱۸

۶۲

۷۔اعلان ولایت بوقت نزول وحی:

جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحی کا نزول ہو رہا تھا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے حضرت علی ـ کی امامت اور وصایت کا بھی اعلان ہوا۔ امیرُالمؤمنین ـ نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ: جب وحی نازل ہو رہی تھی تو میں نے شیطان کی گریہ وزاری کی آواز سنی اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس کی وجہ

پوچھی ؛ جناب رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میرے سوال کے مناسب جواب کے ساتھ میری وصایت اور ولایت کو بھی بیان فرمایا۔)

(وَلَقَدْ کُنْتُ اَتَّبِعُ ه ُ أتِّبٰاعَ الْفَصیْلِ اَثَرَ اُمِّ ه ٭ یَرْفَعُ لی فی کُلِّ یَوْمٍ مِن ْا ِخْلَاقِ ه عَلَماً وَ یَاْ مُرُنی بِا لْاِ قْتِدَائِ بِ ه وَ لَقَدْکٰان یُجٰاوِرُ فی کُلِّ سَنَةٍ بِحِرٰائَ فَاَرٰا ه ُ، وَلٰا یَرٰا ه ُ غَیْری؛ وَلَمْ یَجْمَع بَیْت وَاحِد یَوْمَئِذ فی الْاِ سْلٰامِ غَیْرَرَسُوْلِ ﷲ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدیْجَة وَ اَنٰا ثٰالِثُ ه ُمٰا اَرَیٰ نُوْرَ الْوَحْیِ وَ الرِّسٰالَةِ ، وَ اَشُمُّ ریْحَ النُّبُوَّةِ وَلَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشَّیْطٰانِ حیْنَ نَزَل الْوَحْیُ عَلَیْ ه ِ فَقُلْتُ؛ یٰا رَسُوْلَ ﷲ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مٰا ه ٰذِ ه ِ الرَّنَّةُ ؟ فَقٰالَ! ( ه ٰذَا الشَّیْطٰانُ قَدْ َیِسَ مِنْ عِبٰادَ تِ ه اِنَّکَ تَسْمَعُ مٰا اَسْمَعُ،وَتَرَیٰ مٰا َارَیٰ ، اِلّاٰاَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍّ ،وَلٰکِنَّکَ لَوَزِیْر وَ اِنَّکَ لَعَلیٰ خَیْرٍ. )( ۱ )

میں ہمیشہ ؛پیغمبرگرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تھا جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کے ساتھ ہوتا ہے، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر روز اپنے پسندیدہ اخلاق میں سے ایک نمونہ مجھے دکھاتے اورمجھے اپنی اقتدا کا حکم دیتے تھے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سال کے کچھ مہینے غار حرا میں بسرکرتے تھے صرف میں ہی ان سے ملاقات کرتاتھا ،اور میرے علاوہ کوئی بھی ان سے نہیں ملتا ان دنوں کسی مسلمان کے گھر میں را ہ نہ تھی؛ سوائے خانہ رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جنابِ خدیجہ علیہا سلام بھی وہاں ہوتیںاور میں تیسرا شخص ہوتا تھا ، میں نور وحی اور رسالت کو دیکھتا اور بوئے نبوّت کو محسوس کرتا تھا۔

____________________

( ۱)۔ خطبۂ ، ۱۹۲ / ۱۱۹ ، نہج البلاغہ

٭ ( اونٹنی کا بچہ ہمیشہ اسکے ساتھ ہے )یہ ایک ضرب المثل ہے ، جب یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ دو لوگ ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں تو ،اسطرح کہتے تھے۔

۶۳

جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحی نازل ہو رہی تھی تو میں نے شیطان رجیم کی آہ و زار ی کی آوازسنی ، جنابِ رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دریافت کیا کہ یہ کس کی آہ و زاری کی آواز ہے ؟ پیغمبرگرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا :

یہ شیطان ہے جو اپنی عبادت سے نا اُمید ہو گیا ہے ، اور ارشاد فرمایا: یاعلی ـ ! جو کچھ میں سنتا ہوں آپ سنتے ہیں اورجو کچھ میں دیکھتا ہوں آ پ دیکھتے ہیں لیکن فرق اتنا ہے کہ آپ نبی نہیں بلکہ آپ میرے وزیر ہیں اور راہ خیر پر ہیں( ۱ )

____________________

( ۱) ۔اس خطبے کے اسناد و مدارک اور ( معجم المفہرس ) مؤلّف درج ذیل ہے :

۱۔کتاب الیقین ، ص ۱۹۶ : سیّد ابن طاؤوس ( متوفیٰ ۶۶۴ ھ )۲۔فروع کافی ، ج۴، ص ۱۹۸ و ۱۶۸ / ج۱، ص۲۱۹ : مرحوم کلینی ( متوفیٰ ۳۲۸ ھ )

۳۔ من لا یحضرہ الفقیہ ، ج۱، ص ۱۵۲ : شیخ صدوق ( متوفیٰ ۳۸۰ ھ )۴۔ربیع الابرار ، ج۱، ص ۱۱۳ : زمخشری ( متوفیٰ ۵۳۸ ھ )

۵۔اعلام النبوة ، ص ۹۷ : ماوردی ( متوفیٰ ۴۵۰ ھ )۶۔بحار الانوار ، ج۱۳ ،ص ۱۴۱ / ج۶۰ ،ص ۲۱۴ : مر حوم مجلسی ( متوفیٰ ۱۱۱۰ ھ )

۷۔ منہاج البراعة ، ج۲،ص۲۰۶ : ابن راوندی ( متوفیٰ ۵۷۳ ھ )۸۔ نسخۂ خطی نہج البلاغہ ، ص ۱۸۰ : لکھی گئی ۴۲۱ ھ

۹۔ نسخۂ خطی نہج البلاغہ ، ص ۲۱۶ : ابن مؤدّب : لکھی گئی ۴۹۹ ھ۱۰۔دلائل النبوة : بیہقی ( متوفیٰ ۵۶۹ ھ )

۱۱۔کتاب السّیرة و المغازی : ابن یسار ۱۲۔ کتاب خصال ، ج ۱، ص ۱۶۳ حدیث ۱۷۱ / ص ۶۵۵ و ۵۰۰ : شیخ صدوق ( متوفیٰ ۳۸۰ ھ )

۱۳۔غرر الحکم ، ج ۱،ص۲۹۴ / ج۲ ،ص ۱۱۰ : مرحوم آمدی ( متوفیٰ ۵۸۸ ھ )۱۴۔ بحار الانوار ، ج۶۳، ص ۲۱۴ / ج۱۱۳،ص ۱۴۱ : مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ۱۱۱۰ ھ )

۱۵۔ بحار الانوار ، ج۱۴،ص ۴۷۷ : مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ۱۱۱۰ ھ )۱۶۔ غررالحکم ، ج۴،ص ۴۳۵ /۴۳۸/۴۷۷ : مرحوم آمدی مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ۵۸۸ ھ )

۱۷۔غررالحکم ، ج۳ ص ۲۰ /۳۹/۳۰۰/۳۱۱/۳۷۳ : مرحوم آمدی مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ۵۸۸ ھ )۱۸۔غررالحکم ، ج۶،ص ۲۷۶ /۲۷۹/۴۳۱ : مرحوم آمدی مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ۵۸۸ ھ )

۱۹۔غررالحکم ، ج۲ ،ص ۲۶۲/۳۴۲ : مرحوم آمدی مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ۵۸۸ ھ )۲۰۔غررالحکم ، ج۵ ،ص ۱۱۹ /۱۵۶ : مرحوم آمدی مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ۵۸۸ ھ )

۲۱۔ارشاد ، ج۱ ،ص ۳۱۵ : شیخ مفید ( متوفیٰ ۴۱۳ ھ )۲۲۔ احتجاج ، ج ۱، ص ۱۴۱ : مرحوم طبرسی ( متوفیٰ ۵۸۸ ھ )

۶۴

۸ ۔ حدیث ثقلین :

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غدیر سے بہت پہلے معروف حدیث (ثقلین )میں بھی حضرت علی ـاور دوسرے َئِمّہ معصومین علیہم السّلام کی امامت کا واضح اعلان کر چکے تھے ، ارشاد فرمایا: ''انِّیْ تٰا رِک فیْکُمُ الثِّقَلَیْن کِتٰابَ ﷲ ِ وَ عِتْرَتیْ'' ( ۱ ) میں تمہارے درمیان'' دو گراں قدر' چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں؛ ایک کتاب خدا اور دوسری اپنی عترت ۔)

____________________

(۱)۔ حدیث ثقلین کے اسناد و مدارک :

۱۔بحار الانوار ، ج۲۲، ص ۴۷۲ : علّامہ مجلسی ( متوفیٰ ۱۱۱۰ ھ )۲۔ کتاب مجالس : شیخ مفید ( متوفیٰ ۴۱۳ ھ )

۳۔ صحیح ترمذی ، ج۵ ،ص ۳۲۸ / ج۱۳ ص ۱۹۹ : محمد بن عیسیٰ ترمذی ( متوفیٰ ۲۷۹ ھ )۴۔نظم درر السمطین ، ص ۲۳۲ : زرندی حنفی

۵۔ ینابیع المؤدّة ، ص ۳۳/۴۵ : قندوزی حنفی۶۔ کنزالعمّال ، ج ۱، ص ۱۵۳ : متّقی ہندی ۷۔ تفسیر ابن کثیر ، ج۴، ص ۱۱۳ : اسماعیل بن عمر ( متوفیٰ ۷۷۴ ھ )

۸۔ مصابیح السنّة ، ج ۱ ،ص ۲۰۶ / ج۲ ،ص ۲۷۹ ۹۔ جامع الاصول ، ج ۱،ص ۱۸۷ : ابن اثیر ( متوفیٰ ۶۰۶ ھ )

۱۰۔ معجم الکبیر ، ص۱۳۷ : طبرانی ( متوفیٰ ۳۶۰ ھ )۱۱۔ فتح الکبیر ، ج ۱ ، ص ۵۰۳ / ج ۳ ص ۳۸۵

۱۲۔عبقات الانوار ، ج۱، ص ۹۴/۱۱۲/۱۱۴/۱۵۱ :۱۳۔ احقاق الحق ، ج۹ : علّامہ قاضی نورﷲ شوشتری۱۴۔ ارجح المطالب ، ص۳۳۶ :

۱۵۔ رفع اللّبس و الشّبہات ، ص۱۱/۱۵ : ادریسی۱۶۔الدرّ المنثور ، ج۴ ،ص ۷/۳۰۶ : سیوطی ( متوفیٰ ۹۱۱ ھ )

۱۷۔ذخائر العقبیٰ ، ص۱۶ : محب الدّین طبری ( متوفیٰ ۶۹۴ ھ )۱۸۔ صوا عق المحرّقة ، ص۱۴۷/۲۲۶ : ابن حجر ( متوفیٰ ۸۵۲ ھ )

۱۹۔ اسد الغابة ، ج۲ ،ص ۱۲ : ابن َثیر شافعی ( متوفیٰ ۶۳۰ ھ )۲۰۔ تفسیر الخازن ، ج ۱ ،ص۴ : ۲۱ ۔ الجمع بین الصحّاح ( نسخۂ خطّی)

۲۲۔ علم الکتاب ، ص۲۶۴ : سیّد خواجہ حنفی ۲۳۔ مشکاة المصابیح ، ج۳ ،ص ۲۵۸ :۲۴۔ تیسیر الوصول ، ج۱، ص ۱۶ : ابن الدیبع۲۵۔مجمع الزوائد ، ج۹ ،ص ۱۶۲ : ہیثمی ( متوفیٰ ۸۰۷ ھ )۲۶۔جامع الصغیر ، ج۱ ،ص ۳۵۳ : سیوطی ( متوفیٰ ۹۱۱ ھ )۲۷۔ مفتاح النّجاة ، ص۹ ( نسخۂ خطّی )۲۸۔ مناقب علی بن ابی طالب ـ ، ص۲۳۴/۲۸۱ : ابن المغازلی۲۹۔ فرائد السّمطین ، ج۲، ص۱۴۳ : حموینی ( متوفیٰ ۷۲۲ ھ )۳۰۔مقتل الحسین ـ ، ج۱ ،ص ۱۰۴ : خوارزمی ( متوفیٰ ۹۹۳ ھ )۳۱۔طبقات الکبریٰ ، ج۲، ص۱۹۴ : ابن سعد ( متوفیٰ ۲۳۰ ھ )۳۲۔ خصائص امیرُ المؤمنین ـ ، ص۲۱ : نسائی ( متوفیٰ ۳۰۳ ھ )۳۳۔ مسند احمد ، ج۵، ص ۱۲۲/۱۸۲ : احمد بن حنبل ( متوفیٰ ۲۴۱ ھ )۳۴۔ الغدیر ، ج۱ ،ص ۳۰ : علّا مہ امینی

۶۵

سوّم ۔ اثبات امامت تا رجعت و قیامت

روز غدیر کے دن کی عظیم تبدیلیوں اور تحوّلات کی روشنی میں یہ معلوم ہوا کہ:

۱ ۔ غدیر کے دن ؛حضرت علی ـ کی امامت و ولایت کے مکرّر اعلان کے بعد سارے مسلمانوں کی امیرُالمؤمنین ـ کے ہاتھوں پر بیعت نے حقیقت کا روپ دھارا۔

۲۔اس وسیع بیعت کا آغاز حکم خداوندی ، نزول فرشتۂ وحی اور خود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیعت کرنے سے ہوا ؛اوریہ سلسلہ اختتام شب تک جاری رہا ۔

۳۔ اگر لوگوں کی بیعت عمومی نہ ہوتی اور صرف ( اعلان ولایت ) پہ اکتفا کیا جاتا ( جیسا کہ اس سے پہلے آغاز بعثت سے حجّة الوداع تک بارہا اس حقیقت کو بیان کیا گیا اور منافقوں نے کسی قسم کے خطرے کا احساس نہیں کیا اور نہ ہی کوئی خطرناک سازش کی)تو موقع کی تلاش میں رہنے والے منافقین خطرے کا احساس نہ کرتے اور خطرنا ک سازشوں کے جال نہ بُنتے کیونکہ امام ـ کی امامت کے اجراء کی پشت پناہ لوگوں کی آراء اور انکی عمومی بیعت ہوتی ہے ۔

لیکن غدیر کے دن انتہائی تعجب اور بے یقینی کی کیفیت کے ساتھ ا نہوں نے دیکھا کہ:

(الف) اعلان ولایت

سب سے پہلے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کی ولایت کا اعلان کیا اور ارشاد فرمایا :''ثُمَّ مِنْ بَعْدیْ عَلِیّ وَلِیُّکُمْ وَ اِمٰامُکُمْ بِاَمْرِ ﷲ ِ رَبِّکُمْ ثُمَّ الْاِمٰامَةُ فیْ ذُرِّیَتیْ مِنْ وُلْدِ ه اِلیٰ یَوْمٍ تَلْقُوْنَ ﷲ َ وَ رَسُوْلَ ه ''اب میرے بعد تمہارے امام علی ـ ہیں وہ امام جو خدا کے حکم سے معیّن ہوا ہے ا ور اسکے بعد امامت ؛میرے خاندان میں علی ـ کی اولاد کے ذریعہ تا قیامت جاری رہے گی اس دن تک کہ جس دن تم لوگ خدا اور اسکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرو گے۔

۶۶

(ب ) سلسلہ امامت کا اعلان

پھر سلسلۂ امامت کی دوسری گیارہ کڑیوں یعنی خاندان ِ رسالت اور اولادِ علی ـ کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا:''مَعٰاشِرَ النّٰاسِ؛ اِنَّ ه اٰخِرُ مَقٰامٍ َقُوْمُ ه ُ فیْ ه ٰذَا الْمَشْ ه َدِ؛ فَاسْمَعُوْا وَا َطیْعُوْا وَ أنْقٰادُوْا لِاَمْرِﷲ ِ رَبِّکُمْ؛ فَاِنَّ ﷲ عَزَّ وجَلَّ ه ُوَ رَبُّکُمْ وَ وَلِیُّکُمْ وَا ِلٰ ه ُکُمْ؛ ثُمَّ مِنْ دُ وْنِ ه رَسُوْلُ ه مُحَمَّد وَلِیُّکُمْ ؛القٰا ئِمُ الْمُخٰاطِبُ لَکُمْ ؛ ثُمَّ مِنْ بَعْدیْ عَلِیّ وَلِیُّکُمْ وَ اِمٰامُکُمْ بِاَمْرِ ﷲ ِ رَبِّکُمْ ؛ ثُمَّ الْاِمٰامَةُ فیْ ذُرِّیَتی مِنْ وُلْدِ ه ِ اِلی یَوْمِ الْقِیٰامَةِ ؛یَوْمَ تَلْقُوْنَ ﷲ َ وَ رَسُوْلَ ه .''

اے لوگو ! یہ آخری مقام ہے جہاں میں تمہارے درمیان کھڑے ہو کر بات کر رہا ہوں: تو میری بات سنو ؛ فرمانبرداری کرو اور اپنے پروردگار کے سامنے سر تسلیم خم کرو حق یہ ہے کہ خدا وند ِبزرگ وبرتر تمہارا پروردگار ، تمہاراسرپرست اور تمہارا معبود ہے ا س کے علاوہ ا س کا رسول محمَّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جو کھڑاتم سے خطاب کر رہا ہے تمہارا سرپرست ہے اور پھرمیرے بعد علی ـ خدا کے حکم سے تمہارے سرپرست اور امام ہیں اور ا س کے بعد امامت ؛ میری ذرّیت میں علی ـ کی اولاد سے تا قیامت جاری رہے گی اس دن تک کہ جس دن تم لوگ خدا اور اسکے رسول سے ملاقات کروگے ۔

( ج ) تا قیامت امامت مسلمین

اسکے بعد پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قیامت تک کے لئے اسلامی حکومت اور اما مت کی نشاندہی کی۔

( د ) حضرت مہدی عج کی امامت کا تعارّف

آخری زمانے کے امام ؛امام مہدی (عجّلَ ﷲ ُ تَعٰالیٰ فَرَجَہُ الشَّریْف) کی حکومت اور امامت کو بیان کیا ۔

۶۷

( ہ ) خلافت کا دعوے دار غاصب ہے

امامت کے ہر مدّعی اور خاندان رسالت کے علاوہ کسی اور خلافت کے دعوے دار غاصب اور باطل کی پہچان کروائی گئی( مَلْعُوْن مَلْعُوْن،مَغضُوْب مَغْضُوْب،مَنْ رَدَّ عَلَیَّ قَوْلیْ ه ٰذٰا وَلَمْ یُوَافِقْ ه ُ َ لاَ ِنَّ جَبْرَئِیْلَ خَبَّرَنیْ عَنِ ﷲ ِ تَعٰالیٰ! بِذٰلِکَ وَیَقُوْلُ!( مَنْ عٰادیٰ عَلِیّاً وَلَمْ یَتَو لَّ ه فَعَلَیْ ه ِ لَعْنَتیْ ) ( فَلْتَنْظُرْ نَفْس مٰا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوﷲ ا نْ تُخٰالِفُوْهُ فَتَزِلَّ قَد َم بَعْدَ ثُبُوْ تِهٰا اِنَّ ﷲ َ خَبیر بِمٰا یَعملونَ ) )

ملعون ہے؛ ملعون ہے ؛مغضوب ہے مغضوب ہے؛ وہ شخص جو میری بات کا اس لئے انکار کرے کہ اس کی خواہش کے مطابق نہیں ہے آگاہ ہو جاؤ! کہ جبرئیل نے مجھے خدا کی طرف سے خبر دی ہے وہ فرماتا ہے : ( جو شخص علی ـ سے دشمنی کرے اور انکی ولایت کو قبول نہ کرے اس پر میری لعنت و غضب ہو( پس ہر شخص کو سوچنا چاہیے کہ وہ قیامت کے لئے کیا لے کر جا رہا ہے ؟) لوگو ! خدا سے ڈرو مبادا تم اسکی مخالفت کربیٹھو یا تمہارے قدم ایمان کی راہ سے ڈگمگا جائیں جو کبھی ایمان کی راہ پر استوار اور ثابت تھے ؛ حق یہ ہے کہ جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا جانتاہے۔)

( و ) عام اعلان ( حکم اعتراف)

پھر امام علی ـ کی بیعت اور دوسرے اماموں پراعتقاد ،یقین اور اعتراف کرنے کے لئے فرمان جاری کیا:

مَعٰاشِرَالنّٰاسِ!اِنَّکُمْ َکْثَرُمِنْ اَنْ تُصَافِقُوْنی بِکَفٍ واحِدٍ فی وَقْتٍ وَاحِدٍ قَدْ اَمَرَنِیْ ﷲ ُ عَزَّ وَجَلَّ اَنْ اٰخُذَ مِنْ اَلْسِنَتِکُم الْا ِقْرٰارَ بِمٰا عَقَّد تُ لِعَلِیٍّ اَمیْرِالْمُؤْمِنیْنَ وَلِمَنْ جٰائَ بَعْدَ ه ُ؛ مِنَ الْاَئِمّةِ مِنّیْ وَ مِنْ ه ُ عَلیٰ ماَعَْلمْتُکُمْ اَنَّ ذُرِّیَّتیْ مِنْ صُلْبِ ه فَقُوْلُوْا بِاَجْمَعِکُمْ: انّا سٰامِعُونَ مُطِیْعُوْنَ رٰاضُوْنَ مُنْقٰادُوْنَ لِمٰا بَلَّغْتَ عَنْ رَبِّنٰا ، وَرَبِّک فیْ اَمْرِ اِمٰامِنٰا عَلِیٍّ اَمیْرِ الْمُؤْمِنیْنَ ـ وَمَنْ وُلِدَتْ مِنْ صُلْبِ ه مِنَ الْاَئِمَّة نُبٰایِعُکَ عَلیٰ ذٰلِکَ بِقُلُوْبِنٰا، وَ َنْفُسِنٰا و اَلْسِنَتِنٰا،وَا یْدیْنٰا، عَلیٰ ذٰلِکَ نَحْییٰ،وَعَلَیْ ه ِ نَمُوْتُ،وَعَلَیْ ه ِ نَبْعَثُ،وَلاَ نُغَیِّرُ، وَلاَ نُبَدِّلُ،و لانَشُکُّ وَلاَنَجْحَدُ وَلاَنَرْتٰابُ وَلاَنَرْجِعُ عَنِ الْعَ ه ْدِ،و َلاَتَنْقُض الْمیْثٰاقَ وَعَظْتَنٰا بِوَعْظِ ﷲ ِ فیْ عَلِیًّ اَمیْرِالْمُؤْمِنیْنَ،وَالْاَئِمَّةِ الَّذیْنَ ذَکَرْتَ مِنْ ذُرِّیَّتِکَ مِنْ وُلْدِ ه ،بَعْدَ ه ُ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ وَمَنْ نَصَبَ ه ُ ﷲ بَعْدَ ه ُمٰا فَالْعَ ه ْدُوَالْمیْثٰاقُ لَ ه ُمْ مَاْخُوْذمِنّٰا،مِنْ قُلُوْبِنٰا وَاَنْفُسِنٰا وَاَلْسِنَتِنٰا وَضَمٰایِرِنٰا وَا یْدیْنٰا مَنْ اَدْرَکَ ه ٰا بِ ي َدِ ه وَ ِلَّا فَقَدْ اَقَرَّ بِلِسٰانِ ه وَلاَ نَبْتَغیْ بِذٰلِکَ بَدَلاً وَلاَ یَرَی ﷲ ُمِنْ اَنْفُسِنٰا حِوَلاً نَحْنُ نُؤَدِّیْ ذٰلِکَ عَنْکَ َالدّٰانیْ وَالْقٰاضی مِنْ اَوْلاَدِنٰا و َاحٰال ي ْنٰا وَ نَشْ ه َدُ ﷲ َ بِذٰلِکَ وَکَفیٰ بِﷲ ِشَ ه یْداً وَاَنْتَ عَلَیْنٰا بِ ه شَ هي ْد. )

۶۸

( اے مسلمانوں ! تمہاری تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کہ تم لوگ خود اپنے ہاتھوں سے اس تپتے ہوئے صحراء میں میرے ہاتھ پر بیعت کر سکو پس خدا وند عالم کی جانب سے مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تم لوگوں سے ولایت علی ـ اور انکے بعد آنے والے اماموںکی امامت ]جو کہ میری اور علی ـ کی اولاد میں سے ہیں [کے بارے میں اقرار لے لوں اورمیں تم لوگوں کو اس بات سے آگاہ کر چکا ہوں میر ے فر زندعلی ـ کے ُصلب سے ہیں ۔

پھر تم سب لوگ کہو کہ: ( یارسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم !ہم آپکا فرمان سن رہے ہیں اور اس کو تسلیم کرتے ہیں ،اس پر راضی ہیں ، اور آپکے اِس حکم کی اطاعت کرتے ہیں جو کہ خدا وند عالم کی طرف سے آپ نے ہم تک پہنچایا جو ہمارا رب ہے ، ہم اس پیمان پرجو کہ حضرت علی ـ کی ولایت اور ان کے بیٹوں کی ولایت کے سلسلے میں ہے اپنے جان و دل کے ساتھ اپنی زبان اور ہاتھوں کے ذریعہ آپکی بیعت کرتے ہیں اس بیعت پر زندہ رہیں گے ، مر جائیں گے اور اٹھائے جائیں گے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کریں گے ، اس میں کسی قسم کا شک و تردید نہیں کرتے ، اور اس سے رو گردانی نہیں کریں گے ،اور اس عہد و پیمان کو نہیں توڑیں گے ۔

خدا وند عالم اور آ پ کی اطاعت کرتے ہیں اور علی ؛امیر المؤمنین ـ اورانکے بیٹوں کی اطاعت کریں گے کہ یہ سب ا مّت کے امام ہیں وہ امام جن کا آ پ نے تذکرہ کیا ہے آپکی اولاد میں سے ہیں حضر ت علی ـ کے صلب سے اورامام حسن ـ وامام حسین ـ کے بعد آنے والے ہیں ، حسن و حسین علیہما السلام کے میرے نزدیک مقام کے بارے میں پہلے تمہیںآگاہ کر چکا ہوں ، خدا وند عالم کے نزدیک انکی قدرو منزلت کا تذکرہ کر چکا ہوں اورامانت تم لوگوں کو دے دی یعنی کہہ دیا کہ یہ دو بزر گ ہستیاں جوانان جنّت کی سردار ہیں میرے اور علی ـ کے بعد امّت مسلمہ کے امام ہیں۔

۶۹

تم سب مل کر کہو! کہ ہم اس حکم میں خدا کی اطاعت کرتے ہیں اور اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی ،حضرت علی ـ کی ، حسنین علیہما السلام کی اور انکے بعد آنے والے اماموں کی اطاعت کرتے ہیں کہ جن کی امامت کا آپ نے تذکرہ کیا اور ہم سے عہد و پیمان لیا ہمارے دل و جان ،زبان اور ہاتھ سے بیعت لی جو کہ آپکے قریب تھے یا زبان سے اقرار لیا اس عہد و پیمان میں تبدیلی نہ کریں گے اورخدا وند عالم کواس پر گواہ بناتے ہیں جو گواہی کے لئے کافی ہے اے رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ ہمارے اس پیمان پر گواہ ہیںہر مؤمن پیروکار ظاہری یا مخفی ، فرشتگان خدا ، خدا کے بندے اور خدا ان سب لوگوں کا گواہ ہے، پھر رسول گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اس اہم خطبے کے دوران تمام حاضرین کو علی الاعلان اور واضح طور پر ہوشیار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:

(مَعٰاشِرَالنَّاسِ!مٰاتَقُوْلُوْنَ فَاِ نَّ ﷲ یَعْلَمُ کُلَّ صَوْتٍ وَخٰافِیَة کُلِّ نَفْس فَمَن ا ه ْتَدیٰ فَلِنَفْسِ ه ِ، وَمَنْ ضَلَّ فَنَّمٰا یَضِلُّ عَلَیْ ه ٰا )و مَن بٰایَعَ فَاِنَّمٰا یُبٰایِعُ ﷲ ا یَدُﷲ ِ فَوْقَ َیْدیْ ه ِمْ)مَعٰاشِرَالنَّاس فَبٰایِعُوْاﷲ َوَبٰایِعُوْنی وَ بَایِعُوْاعَلِیّاً اَمیْرَالْمُؤْمِنیْنَ ،وَالْحَسَن وَالْحُسَیْنَ وَ الْاَ ئِمَّةَ مِنْ ه ُمْ فیْ الدُّ نْیٰا وَالْآخِرَةِ کَلِمَةً طَیِّبَة بٰاقِیَةًیُ ه ْلِکُ ﷲ ُمَنْ غَدَرَ وَ یَرْحَمَ ﷲ ُ مَنْ وَفیٰ،( فَمَنْ نَکَثَ فَاِ نَّمٰا یَنْکُثُ عَلیٰ نَفْسه وَمَنْ َا وْفیٰ بِمٰا عٰا هَدَ عَلَیْهِ ﷲ َ فَسَیُؤْتيْه ا َجْراً عَظیْماً )

مَعٰاشِرَ النَّاس! قُوْلُوْا الَّذی قُلْتُ لَکُمْ ، وَ سَلِّمُوْاعَلیٰ عَلِیٍّ ؛بِاِمِرْةِ الْمُؤْمِنیْنَ، وَقُوْلُوْا!( سَمِعْنٰا وَاَطَعْنٰا غُفْرٰانَکَ رَبَّنٰا وَاِلَیْکَ الْمَصیْرُ ) ( ۱ )

وَقُوْلُوْا( الْحَمْدُلِلّٰهِ الَّذیْ هَدٰینٰا لِهٰذَاوَمٰا کُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْلَاَانْ هَدٰانَاﷲ ) ( ۲ )

____________________

(۱)۔بقرہ ۲/۲۸۵

(۲)۔اعراف۴۳/۷

۷۰

مَعٰا شِرَالنَّاسِ!اِنَّ فَضٰا ئِلَ عَلِیِّ بْنِ َا بیْ طاٰ لِبٍ عِنْدَﷲ ِعَز وَجَلَّ وَ قَدْ َا نْزَلَ ه ٰا فیْ الْقُرْآن ِاَ کْثَرُ مِنْ ُا حْصِیَ ه ا فیْ مَقٰامٍ وٰاحِدٍ ، فَمَنْ نْبَاَکُمْ بِ ه ٰا وَ عَرَفَ ه ٰا فَصَدِّ قُوْ ه ُ مَعٰا شِرَالنَّاسِ ! مَنْ یُطِعِ ﷲ وَ رَسُوْلَ ه ُ وَعَلِیّاً وَالْاَ ئِمَّةَالَّذ ین ذَکَرْتُ ه ُمْ فَقَدْ فٰازَ فَوْزاً عَظیْماً مَعٰا شِرَالنَّاسِ ! السّٰا بِقُوْنَ اِلیٰ مُبٰا یَعَتِ ه َ و مُوَالاَتِ ه وَالتّسْلیْم علَیْ ه بِاِ مْرَةِ الْمُؤْ مِنیْنَ ا وْلٰئِکَ ه ُمُ الْفٰا ئِزُوْنَ فی جَنّٰات النَّعیمِ ۔

( و( اے لوگو ! تم کیا کہتے ہو؟ حق یہ ہے کہ جو آواز بھی تم زبان سے جاری کرتے ہو اور تمہارے دلوں میں جو نیّت بھی ہو خدا وند عالم اس سے آگاہ ہے ؛ بس جس نے ہدایت کا راستہ ا ختیار کیا ؛اس نے اپنے ساتھ نیکی کی اور جو گمراہ ہو گیا اس نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا ، اور جو اپنے امام کی بیعت کرے گا اسنے اپنے خدا وند برتر کی بیعت کی ؛ کہ اسکی قدرت ساری قدرتوں سے بالا ہے ۔

اے لوگو !خدا وند عالم کی بیعت کرو میری بیعت کرو اور علی ـ امیر المؤمنین کی بیعت کرو، حسن و حسین علیہماالسّلام کی بیعت اور انکے بعد آنے والے ائمّہ علیہِمُ السّلام کی بیعت کرو جو کہ زندہ و جاوید کلمۂ طیّبہ ہیں ،خدا دغا بازکو ہلاک کرتا ہے اور جو ایفایٔ عہد کر ے گا رحمت خدا وندی اسکے شا مل

۷۱

حال ہو گی، اور جو بھی پیمان شکنی کرے گا،تو وہ اپنے نقصان میں یہ عمل انجام دیگا،اور جس نے وفا کی اسکے لئے اجر عظیم ہے ۔

اے لوگو! جو کچھ میں نے تمہارے لئے کہا ہے اس کو دہراؤ اور علی ـ کو امیرالمؤمنین کہہ کر سلام کیا کرواور کہو : ہم نے سن لیا ہے اور اس امر میں آپکی اطاعت کرتے ہیں ، خدا وندا تجھ سے مغفرت کے طلبگارہیں اور ہمیں تیری طرف لوٹنا ہے۔

اور کہو: ]حمد ہو خدا کی کہ اسنے ولایت علی ـ کی طرف ہماری ہدایت کی ، اگر خدا ہمار ی ر ہنمائی نہ فرماتاتو ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے۔ [

اے لوگو! در حقیقت علی ابن ابی طالب ـ کے فضائل خدا وند منّان کی نظر میںجو اس نے قرآن مجید میں نازل فرمائے ہیں اتنے زیادہ ہیں کہ جنکا ذکرکر ناکسی ایک تقریر میںممکن نہیں،لہٰذا اگر کوئی علی ـ کے فضائل اورانکی قدرو منزلت تمہارے لئے بیان کرے تو اس کی تصدیق کرو اور شک نہ کرو۔

اے لوگو! جس نے خدا ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،علی ـ اور انکے بعد آنے والے اماموں کی اطاعت کی کہ جن کا ذکرمیں نے کیا تو در حقیقت وہ ایمان کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہو گیا۔

اے لوگو! وہ لوگ جنہوں نے علی ـ کی بیعت ، ان سے دوستی ،اور امیر المؤمنین کے عنوان سے انکو سلام کرنے میں سبقت حاصل کی تو وہ لوگ؛ بہشت میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔

۷۲

( ز ) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور علی ـ کی بیعت

اس مقام پر رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کے ساتھ بیعت کی اور عمومی بیعت کا فرمان اس طرح صادر فرمایا:'اَ لاَ وَاِنِّیْ عِنْدَانْقِضٰا ئِ خُطْبَتیْ َ دْعُوْکُمْ ِلیٰ مُصٰافَقَتیْ عَلیٰ بَیْعَتِ ه وَالْاِ قْرٰارِ بِ ه ثُمَّ مُصٰا فَقَتِ ه مِنْ بَعْدِیْ اَ لاَ وَ ِ نِّیْ قَدْ بٰا یَعْتُ ﷲ َ وَعَلِیّ قَدْ بٰا یَعْنی وَاَ نٰا آخِذْ کُم بِالْبَیْعَةِ لَ ه ُ؛ عَنِ ﷲ ِ عَزَّ وَ جَلَّ ! ( ا ِنَّ الَّذ یْنَ ! یُبٰا یِعُوْنَکَ اِنَّمٰا یُبٰا یِعُوْنَ ﷲ یَدُﷲ ِ فَوْقَ اَیْدیْهِمْ فَمَن نَکَثَ فَاِنَّمٰایَنْکُثُ عَلیٰ نَفْسِه وَمَن َوْفیٰ بِمٰاعٰاهَدَعَلَیْهِ ﷲ َفَسَیُوتیْه اَجْراً عَظیْماً )

( آگاہ ہو جاؤ خطبہ کے بعد ؛ میں تمہیں علی ـ کی بیعت کرنے کی دعوت دونگا ؛ تو انکی بیعت کرو ، انکی امامت کا اعتراف کرو اور انکے بعد آنے والی اماموں کی؛بیعت کرو ۔

آگاہ ہوجاؤ حق یہ ہے کہ میں نے خد ا کی بیعت کی ہے اور علی نے میری بیعت کی ہے ۔ اور میں خدا وند عالم کی طرف سے تم لوگوں کو حضرت علی ـ کی بیعت کرنے کی دعوت دے رہا ہوں لھذا تم میںجو عھدوپیمان کو توڑے گا تو وہ اپنے نقصان میں پیمان شکنی کرے گا مجھے خدا وند عالم کی طرف سے حکم ہے کہ میں آپ سے حضرت علی ـ کی بیعت لوں اور جو کچھ خدا وند عالم کی طرف سے حضرت علی ـ کی ولایت کے بارے میں نازل ہوا ہے ا سں کا اعتراف کرو۔

۷۳

(ح ) مرد و زن کا حضرت علی ـ کی بیعت کرنا

اس کے بعد تمام مسلمانوں (مرد و زن) نے حضرت علی ـ کی بیعت کی اور سب نے ایک ساتھ خاندان رسالت کے بار ہ اماموں کی تاقیامت رہنے والی امامت کا اعتراف کیا، اس وقت رسول ِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا: (مَعٰاشِرَ النّٰاسِ !ِانِّیْ اَدَعُ ه ٰا اِمٰامَةً ،وَ وِرٰاثَةً فِیْ عَقَبیْ اِلی یَوْمِ الْقِیٰامَةِ؛ وَ قَدْ بَلَّغْتُ مٰاُامِرْتُ بِتَبْلِیْغِ ه ِ،حُجَّةًعَلیٰ کُلِّ حٰا ضِرٍوَغٰائب وَ عَلیٰ کُلِّ اَحَد مِمَّنْ شَ ه ِدَ اَو لَمْ یَشْ ه َدْ ، وُلِدَ اَو لَمْ یُوْلَدْ؛ فَلْیُبَلِّغِ الْحٰاضِرُالْغٰائِبَ ، وَالْوَالِدُ الْوَلَدَ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیٰامَةِ ،و سَیَجْعَلُوْ نَ ا لْاِ مٰا مَةَ بَعْدِ یْ مُلْکَ وَ ا غْتِصٰا باً ،َالاَا لَعَنَ ﷲ الْغٰا صِبیْنَ وَالْمُغْتَصِبیْن َ،وَعِنْدَ ه ٰا سَیَفْرُغُ لَکُمْ اَیُّ ه َا الثَّقَلَان مَنْ یَفْرُ غُ وَ یُرْ سِلُ عَلَیْکُمٰا شُوٰاظ مِنْ نٰا رٍ وَ نُحٰا سُ فَلَا تَنْتَصِرٰانِ :

( اے لوگو ! میں علی ـ کی اور ان کے بیٹوں کی امامت تمہا رے درمیان قیامت تک کے لئے باقی چھوڑکرجا رہا ہوں ، میں نے وہ چیز کہ جسکی تبلیغ پر ممور تھا تم تک پہنچا دی ہے ، میری حجّت ہر انسان کے لئے تمام ہو چکی ہے چاہے وہ حاضرہو یا غائب ، شاہد ہو یا غیر شاہد ،جو ،اب تک متولّد ہوگیاہو یا ابھی تک اس دنیا میں نہ آیا ہو۔

لہٰذا حاضرین کو چاہیے کہ غائبین کے لئے ، والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کے لیے تا قیامت علی ـ اور انکے بیٹوں کی امامت کے مسئلے کو بیان کریں کیونکہ کچھ لوگ بہت جلد خلافتِ لٰہی کو بادشاہی میں تبدیل کرکے اسے غصب کرلیں گے۔

آگاہ ہو جاؤ !خداخلافت کے غاصبوں اور انکے طرفداروں پر لعنت کرتا ہے ، بہت جلد جن وانس سے حساب کتاب لے گااور ان میں سے گنہگاروںپر آگ کے شعلے برسائے گا،اور اس وقت تم لوگ کوئی یار ومدد گار نہ پاؤ گے ۔ ) پھر آخر میں ہر اس شخص پر کہ جو امامت عترت کو نظر انداز کرے ، یا خلافت کو غصب کرے، یا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عترت کو اُمّت کی قیادت سے دور رکھے سب پر لعنت کی۔ ان سارے اقدامات کے بعد حکومت کے پیاسے منافقوں کے لئے قدرت طلبی کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ گئی تھی۔

وہ لوگ جو اس بات کے منتظر تھے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد سیاسی طاقت وقدرت اپنے ہاتھ میں لے لیں گے ؛ واقعہ غدیر(مذکورہ خصوصیات کے ساتھ ) کے بعد کیا کر سکتے تھے ؟یہ درست ہے کہ مسلّحانہ بغاوت کے ذریعے ہر کام ممکن تھا ۔

لیکن دوسروں کے دلوں میں انکا کوئی نفوذ نہیں تھا اور اپنے سیاسی حربوں کو اسلام کا رنگ دے کر پیش نہیں کر سکتے تھے ،منافقوں کی خواہش یہ تھی کہ دین ،خلافت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس کے اندر موجود معنوی کشش کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کریں ، اور ہر قسم کی مخالفانہ تحریک کی سرکوبی کرتے ہوئے ہر اعتراض کا گلا گھونٹ دیں ۔

۷۴

لیکن واقعۂ غدیر کے تحقق پانے کے بعد یہ لوگ اپنے خفیہ اور نا پاک ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے اور ا ن کے پاس ا س کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ دنیا کے دوسرے مغرور اورظالم حکمرانوں کی طرح عمل کریں، تاریخ کے فرعونوں اور ظالم بادشاہوں کی طرح قتل و غارت گری ، قید ودھمکیوں کے ذریعے لوگوں کو خاموش ہونے پر مجبور کریں اور اپنے مخالفوں کو راستے سے ہٹادیں غدیر کے دن ''امامت عترت ''جیسی حقیقت کے آشکار ہونے کے بعد منافقوں کے بڑے بڑے دعوے ریزہ ریزہ ہوگئے اور ان کے چہروں کے جھوٹے نقاب تار تار ہوگئے اور انہیں مجبوراً صفِ اوّل میں یا لوگوں کے اس جم غفیر کے ساتھ آگے بڑھ کر اوراپنے عقیدوں اورخواہشات کے بر خلاف حضرت علی ـ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر آپ ـ کی بیعت اور مبارکباد پیش کرناپڑی۔( ۱ )

____________________

(۱)۔بہت سارے مصنّفوں نے لکھا کہ ابو بکر اور عمر آگے بڑھے اور امام علی ـ کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کرتے ہوئے کہا

بَخٍّ بَخٍّ لَکَ یٰا َبَا الْحَسَن؛ لَقَدْ َصْبَحْتَ مَوْلٰایَ وَ مَوْلیٰ کُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ

( آپ پر درود اور سلا م ہو اے ابوالحسن ـ، آپنے اس حالت میںصبح کی ہے کہ میرے امام اور ہر مسلمان مرد اور عورت کے امام ہیں۔)

اسناد و مدارک مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔ تاریخ دمشق ، ج ۲ ،ص ۵۴۸/۵۵۰ : ابن عساکر شافعی ( متوفّیٰ ۵۷۱ ھ )۲۔ مناقب خوارزمی ، ص ۹۴ : خوارزمی ( متوفّیٰ ۹۹۳ ھ )۳۔ مسند احمد ، ج ۴ ،ص ۲۸۱ : احمد بن حنبل ( متوفّیٰ ۲۴۱ ھ )۴۔ فصول المہمّة ، ص ۲۴ : شیخ حرّ عاملی ۵۔ الحاوی الفتاوی ، ج ۱، ص ۱۲۲ : سیوطی شافعی ( متوفّیٰ ۹۱۱ ھ )۶۔ ذخائر العقبیٰ ، ص ۶۷ : طبری ( متوفّیٰ ۶۹۴ ھ ) ۷۔ فضائل الخمسہ ، ج ۱ ،ص ۳۵۰ : فیروز آبادی ۸۔ فضائل الصّحابہ ( مخطوط ) : نسائی ( متوفّیٰ ۳۰۳ ھ )۹۔ تاریخ اسلام ، ج ۲ ،ص ۱۹۷ : ذہبی ( متوفّیٰ ۷۴۸ ھ )۱۰۔ علم الکتاب ، ص ۱۶۱ : خواجہ حنفی۱۱۔ دررالسمطین ، ص ۱۰۹ : زرندی ۱۲۔ ینابیع المؤدّة ، ص ۳۰/۳۱/۲۴۹ : قندوزی حنفی ( متوفّیٰ ۱۲۷ ھ )۱۳۔ تفسیر فخر رازی ، ج ۳، ص ۶۳ / ج ۱۲ ، ص ۵۰ : فخر رازی ( متوفّیٰ ۳۱۹ ھ )۱۴۔ تذکرة الخواص ، ص ۲۹ : ابن جوزی ( متوفّیٰ ۶۵۴ ھ )۱۵۔ مشکاة المصابیح ، ج ۳ ،ص ۲۴۶ ۱۶۔ عبقات الانوار ، ج ۱، ص ۲۸۵ : سید جزائری ۱۷۔ فرائد السمطین ، ج ۱ ،ص ۷۷ باب ۱۳ : حموینی ( متوفّیٰ ۷۲۳ ھ ) ۱۸۔ الغدیر ، ج ۱، ص ۲۷۲ : علّامہ امینی ۱۹۔ ریاض النضرة ، ج ۲ ، ص ۱۶۹ : طبری ( متوفّیٰ ۶۹۴ ھ )۲۰۔ کفایة المطالب ، ص ۲۸۲۱ ۔ مناقب ابن جوزی : ابن جوزی ( متوفّیٰ ۷۵۱ ھ )۲۲۔ البدایة والنّہایة ، ج ۵، ص ۲۱۲ : ابن کثیر ( متوفّیٰ ۷۷۴ ھ )۲۳۔ کتاب الخطط ، ص ۲۲۳ : مقریزی ۲۴۔ بدیع المعانی ، ص ۷۵۲۵۔ کنز العمّال ، ج ۶ ،ص ۳۹۷ : متّقی ہندی ۲۶۔ وفاء الوفاء ، ج ۲ ،ص ۱۷۳ : سمہودی ( متوفّیٰ ۹۱۱ ھ )۲۷۔ مناقب ابن مغازلی ، ص ۱۸/۲۴ : مغازلی شافعی ( متوفّیٰ ۴۸۳ ھ )۲۸۔ تاریخ بغداد ، ج ۸ ،ص ۲۹۰ : خطیب بغدادی ( متوفّیٰ ۴۸۴ ھ ۲۹۔ شواہد التّنزیل ، ج ۱ ،ص ۱۵۸ : حسکانی حنفی ( متوفّیٰ ۵۱۴ ھ )

۳۰۔ سرّالعالمین ، ص ۲۱ : غزالی ( متوفّیٰ ۵۰۵ ھ )۳۱۔ احقاق الحق ، ج ۶ ، ص ۲۵۶ : قاضی نور ﷲ شوشتری۳۲۔ الصواعق المحرّقہ ، ص ۲۶ : ابن حجر عسقلانی ( متوفّیٰ ۸۵۲ ھ )

۳۳۔ فیض الغدیر ، ج ۶، ص ۲۱۸ : حاج شیخ عبّاس قمیّ۳۴۔ شرح المواہب ، ج ۷، ص ۱۳ : زرقانی مالکی۳۵۔ الفتوحات الاسلامیہ ، ج ۲، ص ۳۱۸

۷۵

پس غدیر کے دن صرف ولایت و امامت کا اعلان نہیں ہوا بلکہ حضرت علی ـاور آپ کے فرزندوں میں سے گیارہ دیگر اَئمہ علیہم السلام کی امامت اور رہبری کے لئے مسلمانوں کی ''عمومی بیعت نے ایک تاریخی حقیقت کا روپ اختیار کیا، یہ عمومی بیعت ولایت کے اعلان کے لئے اور ولایت کو مستحکم کرنے کے لیے ممد و معاون ،اور پشت پناہ بنی، اب اسکے بعد حضرت امیر المؤمنین ـ خدا کی طرف سے بھی منصب امامت پر فائز ہوگئے تھے ۔

اور لوگوں کی حمایت بھی حاصل ہو گئی تھی،خدا نے بھی انکو چن لیا تھا اور لوگوں نے بھی منتخب کر لیا تھا ، فرصت طلب منافقوںاور چالبازوں کے لئے کسی عذر اور بہانے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ جنگی ہتکنڈوں اور مسلّحانہ کاروائیّوںکے ذریعے اپنے نا پاک اہداف تک پہنچنے کی کوششیں شروع کی اورآخر کار رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد فوجی بغاوت کے ذریعے اپنے نا پاک اہداف تک پہنچ گئے ، اگر غدیر کا دن صرف ولایت کے اعلان کے لئے تھا تو پھر جناب رسولِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کی بیعت کیوں کی؟ اور فرمایا:

اَناٰ آخِذبِیَدِ ه وَمُصْعِدُ ه ُ اِلَیَّ وَشٰآئِل بِعَضُدِ ه وَرٰافِعُ ه ُ بِیَدَی وَ مُعَلِّمُکُم اَنَّ مَنْ کُنْتُ مَوْلاَ ه ُ فَ ه ٰذٰاعَلِیّ مَوْلاَ ه ُ،وَ ه ُوَعَلِیُّ بْن اَبِیْ طاٰ لِب ٍاَخِی وَ وَصِیِّیْ و مَواْلاَتُ ه ُ مِنَ ﷲ ِعَزَّوَجَلَّ اَنْزَلَ ه ٰا عَلَیّ )

اس وقت جسکا ہاتھ پکڑ کر بلند کررہا ہوں( حضرت علی ـ کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا )اور تم لوگوں کو آگاہ کر رہا ہوں ، حق یہ ہے کہ جس جس کا میں مولیٰ اور سرپرست ہوں اس اس کا یہ علی ـ بھی مولیٰ اور سرپرست ہیں اور وہ علی ـ جو ابو طالب کا بیٹا میرا بھائی اور جا نشین ہے ، اور جسکی سرپرستی کے اعلان کے لئے خدا وند عالم کی طرف سے مجھ پر حکم نازل ہوا ہے، پھر سب مسلمانوں کو حضرت علی ـ کی بیعت کا حکم دیا جسکا سلسلہ اسکے دوسرے دن تک جاری رہا اگر ہدف فقط ولایت کا اعلان تھا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیگر اَئمہ معصومین علیہم السلام کی تا قیامت جاری رہنے والی امامت کا تذکرہ کیوں کیا؟ اور حضرت علی ـ انکی اولاد اور حضرت مہدی ـ کی بیعت کا حکم کیوں صادر فرمایا:؟!

۷۶

فَاُ مِرْتُ َا نْ اٰخُذَ الْبَیْعَةَ مِنْکُمْ وَ الصَّفَقَةَ لَکُمْ بِقَبُوْلِ مٰاجِئْتُ بِ ه عَنِ ﷲ عَزَّ وَ جَلَّ فیْ ''عَلِیٍّ'' اَم ي ْرِا لْمُؤْمِن ي ْنَ وا لْاَ وْ صِیٰائِ مِنْ بَعْدِ ه ا لَّذ ي ْنَ ه ُمْ مِنِّیْ وَ مِنْ ه ُ اِ مٰا مَةً؛ فیْ ه ِم الْمَ ه ْدِیُّ اِلیٰ یَوْمِ یَلْقیَ ﷲ َ الَّذیْ یُقَدِّرُ وَ یَقْضیْ )

پس خدا وند بزرگ و برتر کی طرف سے مجھے حکم ملا کہ علی امیرا لمؤمنین ـکے لئے تم لوگوں سے بیعت لوں اور انکے بعد آنے والے اماموں کے لئے بھی بیعت کرالوں وہ ائمہ جو سارے مجھ سے اور علی ـسے ہیں اور انھیں میں قائم مہدی ـ بھی ہیں جو تا روز قیامت حق سے قضاوت کر یںگے۔)

۷۷

تیسری فصل

آیا غدیر کا ہدف امام کاتعین تھا ؟

غدیر کے مختلف پہلوؤں پرلوگوں کی جانب سے تنگ نظری

پہلی بحث : پہلے سے تعیین شدہ امامت

دوسری بحث : لوگ اور انتخاب

تیسری بحث : تحقق امامت کے مراحل

واقعۂ غدیر کے مقاصد کے اذہان سے پوشیدہ رہنے کی ایک اور افسوسناک وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ اپنے قصیدوں یا تقاریر میں یہ کہتے ہیں کہ روز غدیر اسلامی امّت کے لئے امامت کی تعیین کا دن ہے ، روز غدیر '' حضرت امیر المؤمنین ـ '' کی ولایت کا دن ہے ۔

یہ تنگ نظری اور محدودفکر اس قدر مکرّر بیان ہوئیں کہ بہت سے لوگ غدیر جیسے عظیم واقعہ کے دیگر نکات کی طرف توجّہ دینے سے قاصر رہے ۔

کوتہ نظر ببین کہ سخن مختصر گرفت:

غدیر کے مختلف پہلوؤں پر لوگوںکی جانب سے تنگ نظری :

ا فسوس کہ آج بھی اگر مشاہدہ کیا جائے تو جب بھی روزغدیر کا تذکرہ ہوتا ہے تو ہمارے لوگ اس دن کو صرف 'امام علی ـ کی ولایت ' کی نسبت سے یاد کرتے ہیں اور غدیر کے دیگر اہم اور تاریخ ساز پہلوؤں سے غافل نظر آتے ہیں ۔

غدیر کے اصلی اہداف، نہ ہونے کے برابر تصانیف اور کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں اور جس طرح غدیر کے وسیع اور با مقصد جہتوں کو منابر کے ذریعے اور نماز جمعہ کے خطبوں میں بیان کیاجانا چاہیے بیان نہیں کئے جاتے ، مجلّوں اور اخباروں میں بھی صرف ''ولایت امام ـ کے ذکر پر اکتفاء کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ روز غدیر لوگوں کے درمیا ن فقط ولایت علی ـ کے ساتھ خاص ہو کر رہ گیا ہے۔

۷۸

۱۔ پہلے سے تعیین شدہ امامت :

شیعہ نظریہ ،یہ ہے کہ حضرت علی ـ اور انکے گیارہ بیٹوں کی امامت غدیر سے پہلے ہی معیّن ہو چکی تھی اس دن کہ جب موجودات اور ہماری اس کائنات کی خلقت کی کوئی خبر نہ تھی اس دن کہ جب ابھی تک پیغمبر ان ِ الٰہی کی ارواح بھی خلق نہ ہوئی تھیں ۔

جناب رسول ِ خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور پنجتن آلِ عباء علیہم السلام کی ارواح خلق ہوچکی تھیں ، جناب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی ـ کے وجود کے انوار اس وقت خلق کئے جا چکے تھے کہ جب بھی آدم خلق نہ ہوئے تھے ۔

سارے پیغمبران خدا اپنے خدا ئی انقلاب کی ابتدا میں پنجتن آلِ عباء علیہم السلام کے اسمائے مبارک کی قسم کھاتے تھے ،اور سخت مشکلات کے وقت خدا وند عالم کو محمّد ، علی فاطمہ ، حسن اور حسین صلوٰةُ ﷲ ِ عَلیہِم َجمعینکے ناموں کا واسطہ قسم دیتے اور انکی برکت سے توبہ کرتے اور خدا وند منّان کی بارگاہ میں عفو اور بخشش طلب کرتے تھے ۔

حضرت آدم ـ نے ان اسمائے مبارک کو جب عرش معلّیٰ پر دیکھا؛انکی نورانیّت کیو جہ سے حضرت آدم ـ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اورخدا وند عالم سے ان ناموںکے ذریعے بات کی۔

حضرت نوح ـ نے ا نھیں مبارک اسما ء کو اپنی کشتی کے تختے پر لکھا اور جب شدید اور سخت طوفان میں گھر گئے تو ان ہی ناموںکا واسطہ دے کر خدا وند عالم سے مدد طلب کی، تمام پیغمبران خدا جانتے تھے کہ ایک پیغمبر خاتمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئیں گے اور انکے اس راستے کو کمال کے درجہ تک پہنچائیں گے ،اور اس بات سے بھی واقف تھے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آنے والے امام کون ہونگے اور دین و بشریت کو کمال تک پہنچانے میں اُن َئمّہ کو کن کن ناگوار حوادث کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

انہوں نے حضرت علی ـ کی مظلومیت پر گریہ و زاری کی اور امام حُسین ـ کی کربلا کو یاد کر کے اشک بہائے ،ا ن کے نام اور پیش آنے والے حوادث کواپنی امّتوں کے لئے بیان کئے؛ اسی لئے جب یہودی عالم نے امام حُسین ـ کو گہوارہ میں دیکھا تو اس کو وہ تمام نشانیاں یاد آگئیں جوذکرکی گئیں تھیں ؛وہ اسلام لے آیا اور امام حُسین ـ کے بوسے لینے لگا۔

۷۹

تو معلوم ہو اکہ روز غدیر صرف'' تعیین امامت ''کا دن نہیں تھا ؛بلکہ آغاز بعثت میں ہی پیغمبر گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امام کو معیّن کر دیا تھا ، جس وقت عالم شیر خواری میں حضرت علی ـ کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مبارک ہاتھوں میں دیا گیا تو حضرت علی ـ نے پیغمبر گرامیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود و سلام بھیجا اور قرآن مجید کی کچھ آیات کی تلاوت فرمائی جب کہ بظاہر ابھی قرآن نازل نہیں ہوا تھا۔

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب بھی اور جہاں بھی ضرورت محسوس کی بارہ ا ئمہ علیہم السّلام کے اسمائے مبارک ایک ایک کرکے بیان فرمائے ، اور اپنے بعد آنے والے امام ـ کو مختلف شکلوں اور عبارتوں کے ذریعے بیان فرمایا، ائمہ علیہم السّلام کے ادوار میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلییوں کو آشکار کیا ؛مدینہ کے منبر سے بار بار ائمّہ علیہم السّلام کے اسماء مبارک انکی تعداد،حالات زندگی ، انکے زمانے کے ظالم حکمرانوںاور انکے نابکار قاتلوں کا تعارف کروایا۔

حضرت مہدی عجل ﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف کے زمانۂ غَیبت کے بارے میں بار بار بات کی اورغَیبت کے دوران انکی راہنمائی کے بارے میں سننے والوں کے اعتراضات کے جواب دئے ؛ حضرت مہدیعجل ﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ساری دنیا پر حکومت کے بارے میں اتنا بیان کیا کہ اُمَوی و عبّاسی دور میں بعض لوگوں نے اس خیال سے کہ وہ اُمّت کے مہدی ہو سکتے ہیں قیام کیا تاکہ جو لوگ حضرت مہدی عجل ﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف کے انتظار میںہیں ا ُن کو آسانی سے گمراہ کیاجا سکے۔ لہٰذا امامت کا عہدہ خدا وند عالم کی جانب سے مقرّر کردہ ہے جو ہمیشہ سے انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کرتا رہا ہے اور تا قیام قیامت انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کرتا رہے گا،اگر انسان کی ہدایت ضرور ی ہے تو امام کا وجود بھی ضروری ہے ؛ اور صرف خدا وند عالم کی پاک اور بابرکت ذات ہی پیغمبروں اور ائمہ ـ کاتعین اور انتخاب کر سکتی ہے۔ (وﷲ ا َعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسٰالَتَ ه ُ )

۸۰