قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت0%

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 180

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اﷲ الحاج الشیخ محسن الآراکی
زمرہ جات: صفحے: 180
مشاہدے: 33063
ڈاؤنلوڈ: 2382

تبصرے:

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 33063 / ڈاؤنلوڈ: 2382
سائز سائز سائز
قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

تفسیر قرآن یعنی تفصیل احکام، نبی ا ور ائمۂ معصومین سے مخصوص ہے

جیسا کہ اپنی جگہ پر بیان اور ثابت ہوچکا ہے کہ وحی کے حاصل کرنے اور پہنچانے کے علاوہ پیغمبر کا ایک عہدہ، وحی کی توضیح اور الٰہی احکام کی تفصیل بیان کرنا ہے۔ قرآن کریم احکام کے کلیات اور قوانین کے ایک مجموعہ کی صورت میں پیغمبر پر نازل ہوا ہے اور خود ان کے جزئیات اور احکام کی تفصیل و توضیح نہیں بیان کی ہے اور چند موارد کے علاوہ ان کی تفصیل و توضیح پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کے ذمہ قرار دی ہے۔ مثال کے طور پر قرآن کلی صورت میں نماز کا حکم دیتا ہے اور مسلمانوں سے چاہتا ہے کہ نماز پڑھیں، لیکن یہ کہ نماز کیا ہے؟ کتنی رکعت ہے؟ اس کے پڑھنے کا طریقہ کیا ہے؟ اوراس کے شرائط و جزئیات کیا ہیں؟ قرآن میں بیان نہیں ہوئے ہیں۔

اس کلی حکم اور اس جیسے بہت سے احکام کی تفصیل پیغمبر کے ذمہ چھوڑ دی ہے۔اس بنا پر احکام الٰہی کی تفسیر و توضیح پیغمبر کا فرض منصبی ہے۔

۱۰۱

قرآن کریم بھی وحی کی تفسیر و توضیح کے عہدہ کی طرف توجہ دلاتا ہے اور اسے پیغمبر کے فرائض میں سے شمار کرتا ہے:

(وَ أَنْزَلْنَا اِلَیکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیهِم) 1 ہم نے قرآن کو آپ پر نازل کیا تاکہ لوگوں کے لئے ان باتوں کو واضح کریں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں۔

بعید نہیں ہے کہ سورۂ آل عمران کی آیت جیسی آیتوں میں، کہ جن میں تعلیم کو تلاوت کے ساتھ استعمال کیا ہے، تعلیم سے مقصود وحی و قرآن کی تفسیر و توضیح کے متعلق پیغمبر کا عہدہ و منصب بیان کرنا ہو۔

حقیقت میں پیغمبر جس وقت وحی پہنچاتے تھے، اس وقت دواہم فریضے آپ کے ذمے ہوتے تھے، ایک یہ کہ کلام وحی کو لوگوں کے سامنے تلاوت کرتے تھے اور دوسرے یہ کہ آیتوں کے مقاصد و مضامین کی ان کے لئے تفسیر و توضیح فرماتے تھے اور ان کو قرآن کے احکام و معارف سے آشنا کرتے تھے۔

قرآن فرماتا ہے:

(لَقَد مَنَّ اللّٰهُ عَلٰی الْمُؤمِنِینَ اِذ بَعَثَ فِیهِمْ رَسُولاً مِن أَنفُسِهِم یَتلُوا عَلَیهِم آیَاتِهِ وَ یُزَکِّیهِم وَ یُعَلِّمُهُمُ الکِتَابَ وَ الْحِکمَةَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبلُ لَفِی ضَلالٍ مُبِینٍ)2

''یقینا خدا نے صاحبان ایمان پر احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو ان پر آیات الٰہیہ کی تلاوت کرتا ہے انھیں پاکیزہ بناتا ہے اور

(1) سورۂ نحل ، آیت 44 ۔

(2)سورۂ آل عمران، آیت 164 ۔

۱۰۲

کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگر چہ یہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں مبتلا تھے''۔

اس آیۂ مبارکہ اور اس کے مشابہ دوسری آیتوںمیں پہلا فریضہ یعنی آیات کی تلاوت و قرائت''یَتْلُوْا'' کی تعبیر سے بیان ہوا ہے اور دوسرے فریضہ یعنی احکام و مطالب کی تفسیر و توضیح کے لئے ''تعلیم'' کی تعبیر سے استفادہ کیا گیاہے۔

خلاصہ یہ کہ وحی کی توضیح،احکام الٰہی کی تفصیل اور قرآن کریم کی تفسیر مذکورہ معنی میںایسا کام ہے کہ جس کی صلاحیت پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کے علاوہ کوئی نہیں رکھتا اس لئے کہ صرف یہی ہستیاں ہیں جو خدا داد علم کے ذریعے الٰہی علوم و معارف سے آشنا ہیں۔

علوم اہلبیت کا سمجھنا قرآن سمجھنے کا مقدمہ

اب مذکورہ نکتہ پر توجہ کرنے سے مفسرین کا فریضہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ بیان ہوچکا ہے وحی کی توضیح، احکام کی تفصیل اور آیات قرآن کی تفسیر کا عہدہ او راس کی صلاحیت دراصل پیغمبر کو حاصل ہے اور آنحضرت نے اپنی مبارک زندگی کے زمانہ میں جہاں تک ممکن تھا لوگوں کو قرآن کے معارف سے آشنا کیا۔ اس زمانہ میں مفسرین کا بھی فریضہ ہے کہ ان روایات و احادیث کی طرف رجوع کریں جو صحیح اسناد کے ساتھ پیغمبر سے اس سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں اور ان کی بنیاد پر مربوط آیتوں پر توجہ اور غور و فکر کریں اور اپنی فکر و نظر کو پیغمبر کی توضیح و تفسیر کے حدود ہی کے اندر رکھیں۔ اور جہاں آنحضرت نے اس ثقل اکبر اور قرآن مستحکم کی تفسیر و توضیح نہ کی ہو وہاں ثقل اصغر یعنی اہلبیت اور ائمۂ معصومین (ع) سے تمسک کریں۔

۱۰۳

اس سلسلہ میں بھی دینی علوم و معارف کے ماہر و عالم افراد کا فریضہ ہے کہ ایسی احادیث اور روایات کے ذریعہ قرآن کریم کو سمجھا جائے جن کی سند صحیح ہو اور وہ مشکل کو حل کرنے والی ہوں۔

اس بنا پر سب سے پہلا معیار قرآن اور معارف دین کے صحیح سمجھنے میں وہ توضیح و تفسیر ہے جو پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) سے وارد ہوئی ہے۔ نتیجہ میں ایک مفسر کا اولین اور اصلی فریضہ اس تفسیر کا سمجھنا اور بیان کرنا ہے جو پیغمبر اور ائمۂ طاہرین (ع) سے وارد ہوئی ہے اس لئے کہ صرف علوم اہلبیت (ع) ہی کی روشنی میں معارف قرآن کو سمجھا جاسکتاہے۔

قرآن کی تفسیر قرآن سے

تیسرا نکتہ جو کہ کلام وحی کے صحیح سمجھنے میں نہایت اہمیت کا حامل ہے اور جس کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے، قرآن سے قرآن کی تفسیر کا مسئلہ اور آیات کے درمیان ارتباط کی طرف توجہ دیناہے۔ اگر چہ قرآن کی آیتیں ظاہری اعتبار سے الگ الگ صورت میں اور ان میں ہر ایک یا کچھ آیتیں ایک خاص مطلب کو بیان کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، لیکن صحیح فہم و تفسیر اس صورت میں وجود میں آتی ہے کہ ایک دوسرے سے مرتبط او رمتعلق آیتوں پر توجہ دی جائے۔ بہت سی آیات قرآن ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں اور ایک دوسرے کے مضامین و مطالب کے صدق پر گواہی دیتی ہیں۔

۱۰۴

امیر المومنین حضرت علی ـ اس سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

''کِتَابُ اللّٰهِ تُبصِرُونَ بِهِ وَ تَنطِقُونَ بِهِ وَ تَسمَعُونَ بِهِ وَ یَنطِقُ بَعضُهُ بِبَعضٍ وَ یَشْهَدُ بَعضُهُ عَلٰی بَعضٍ وَ لایَختَلِفُ فِی اللّٰهِ وَ لایُخَالِفُ بِصَاحِبِهِ عَنِ اللّٰهِ'' 1

یہ کتاب خدا ہے جو تمھیں حق کا بینا، گویا او رشنوا بناتی ہے، اس کا بعض حصہ بعض دوسرے حصوں کی تفسیر و توضیح کرتا ہے اور ایک دوسرے کی گواہی دیتاہے یہ قرآن خدا کے بارے میں اختلاف نہیں رکھتا ہے اور اپنے ساتھی کو خدا سے الگ نہیں کرتا ہے۔

قرآن سے قرآن کی تفسیر کے موارد میں سے نمونہ کے طور پر سورۂ شوریٰ کی گیارہویں آیت(لَیسَ کَمِثلِهِ شَیئ وَ هُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ) اور سورۂ فتح کی دسویں آیت(یَدُ اللّٰهِ فَوقَ أَیدِیهِم) کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔

''لَیسَ کَمِثلِهِ شَیئ'' قرآن کے محکمات میں سے اور اس کا معنی روشن و واضح ہے یہ آیت بتاتی ہے کہ کوئی چیز خدا کے مانند نہیںہے، خداوند متعال بے مثل حقیقت ہے۔ آیۂ(یَدُ اللّٰهِ فَوقَ أَیدِیهِمْ) بتاتی ہے کہ خدا کا ہاتھ تمام لوگوں کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ اگرچہ اس آیت نے خداوند تعالی کی طرف ہاتھ کی نسبت دی ہے لیکن آیۂ''لَیسَ کَمِثلِهِ شَیئ'' اس ظاہری معنی کی نفی کرتی ہے اور اس کی طرف توجہ کرنے سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ''ید'' سے مراد اس کا ظاہری معنی یعنی ''ہاتھ'' نہیں ہے، بلکہ کنائی معنی مثلاً قدرت وغیرہ مقصودہے۔ اس بنا پر آیۂ''یَدُ اللّٰهِ فَوقَ أَیدِیهِم'' کی تفسیر و توضیح

(1)نہج البلاغہ، خطبہ 133 ۔

۱۰۵

آیۂ''لَیسَ کَمِثلِهِ شَیئ'' کی طرف توجہ کئے بغیر تفسیر کی صحیح روش سے خارج ہونا ہے اور ممکن ہے خطا سرزد ہو جائے اور غلط تفسیر کی بنا پر خدا کی جسمانی او رجھوٹی تصویر دکھا دی جائے۔

لہٰذا قرآن کریم کی تفسیر میں اس نکتہ کی طرف توجہ دینا لازم ہے کہ آیات کو ایک دوسرے سے مرتبط ہونے میں مورد توجہ قرار دیں اور ان کا مطلب خود قرآن کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کریں۔

قرآن فہمی میں عقلائی اصول و قواعد کی رعایت

چوتھا نکتہ کہ جس کی طرف تفسیر قرآن میں توجہ دینا لازم ہے، قرآن کریم کے صحیح سمجھنے میں عقلائی محاورہ کے اصول و قواعد کی رعایت کرنا ہے۔ خصوصاً جس وقت کہ کسی آیت کے متعلق پیغمبر یاائمۂ معصومین سے کوئی صحیح روایت اور واضح بیان دسترس میں نہ ہو تو آیات قرآن کے صحیح سمجھنے میں عقلائی محاورہ کے اصول و قواعد کی رعایت کی ضرورت دوگنی ہوجاتی ہے۔

اسی موقع پر ان بزرگان دین اور مفسرین اور علوم اہلبیت سے آشنا علماء کا کردار اور اثر، کہ جنھوں نے اپنی عمر معارف قرآن اور علوم اہلبیت کے سمجھنے میں گزاری ہے، قرآن کے صحیح سمجھنے اور معارف دین کی توضیح میں ظاہر ہوتا ہے۔ وہی حضرات عقلائی محاورہ کے اصولوں کے مطابق، قرآن کے عام و خاص کی تشخیص دیتے ہیں اور ہر ایک کے معنی کے حدود معین کرتے ہیں، مطلق و مقید کی نشاندہی کرتے ہیں اور آیات کی ایک دوسرے سے تفسیر کرتے ہیں، ایک آیت کے دوسری آیت پر ناظر اور اس سے متعلق ہونے کی تعیین کرتے ہیں اور تفسیر کے وقت اس پر توجہ رکھتے ہیں۔

۱۰۶

مفسرین کی فہم کا ان کی صلاحیتوں کے مطابق ہونا

اس بحث میں ایک دوسرا نکتہ کہ جس کی طرف توجہ دینا لازم ہے قرآن اور معارف دین سمجھنے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام اور مختلف علمی شعبوں میں سب کے لئے قابل قبول ہے اور وہ فہم کے مراتب کا پایا جانا ہے اور صحیح سمجھنے میں اس کا ذہنی قوت اور کوشش و کاوش کے مطابق ہونا ہے اس کی توضیح یہ ہے کہ:

فقہی مباحث میں ایک مسئلہ ہے کہ جس کا تقریباً تمام فقہاء فتویٰ دیتے ہیںاور مقلِّد کا فریضہ سمجھتے ہیں، وہ اعلم کی تقلید ہے۔ اس بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ فقہ و استنباط احکام کے شعبے میں مہارت اور فقاہت کے بہت سے مرتبے ہیںاور ہر مکلف کا فریضہ ہے کہ فقیہ اعلم یعنی اس مرجع کی تقلید کرے جو احکام کے استنباط میں دوسروں سے زیادہ فہم، مہارت اور فقاہت کا حامل ہو۔ البتہ دوسرے مراجع جو کہ قوت استنباط کے اعتبار سے اس فقیہ اعلم کی حد میں نہیں ہیں وہ بھی فقیہ اور مجتہد ہیں لیکن وہ بعد کے مراتب میں قرار پاتے ہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فقہاء کا یہ فتویٰ کہ اعلم کی تقلید لازم ہے، ایک عقلائی سیرت و روش سے صادر ہوا ہے۔ بالکل جیسے اس ماہر اور اسپشلسٹ ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا جو برسوں سے ڈاکٹری اور طبابت کا تجربہ رکھتا ہے اور اسے اس شخص پر ترجیح دینا کہ جس نے آج ہی ڈاکٹری کی سند لی ہے، ایک عقلائی سیرت و روش ہے او راس روش کے برخلاف عمل کرنا عقلاء کے نزدیک مذموم ہے۔

۱۰۷

معارف قرآن کی باریکیاں سمجھنے اوران کی تشخیص کی صلاحیت علوم اہلبیت (ع) کے عالم اور ماہر افراد کے علاوہ کسی کو حاصل نہیںہے کہ جنھوں نے اپنی زندگی قرآن اور دینی معارف کے سمجھنے میں صرف کی ہے۔

قرآن فہمی اور اس آسمانی کتاب کی تفسیر کے مراتب کے ا عتبار سے واضح بات ہے کہ مذکورہ امور اور نکات پر جس قدر توجہ اور غور کیا جائے گا آیات الٰہی کی تفسیر میں اتنا ہی غلطیوں کا احتمال کم ہوگا اور ہم اس آسمانی کتاب کو زیادہ سے زیادہ صحیح سمجھیں گے۔

کلامی قرائن پر توجہ کی ضرورت

چھٹا نکتہ کہ جس کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں یہ ہے کہ کلام خدا کے قرائن اور آیات کی شان نزول پر توجہ دینا لازم ہے۔ اگرچہ قرآن کریم تمام زمانوں او رنسلوں کے لئے نازل ہوا ہے اور اس کے مخاطب ہر زمانے کے لوگ ہیں، لیکن قرائن، شان نزول اور وہ موقع و محل کہ جن میں آیات کریمہ نازل ہوئی ہیں وہ اولین مخاطبین اور نزول قرآن کے زمانہ کے لوگوں کے لئے ایسی واضح و روشن ہوتی تھیں کہ اس کے معنی و تفسیر میں کسی شک وشبہہ اور اختلاف کی گنجائش باقی نہ رہتی تھی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی آیت مبہم اور غیر واضح نظر آتی تھی تو لوگوں کا پیغمبر تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ لیکن آج زمانۂ نزول سے دور ہونے اور بعض قرائن اور شان نزول کے مخفی ہوجانے کے امکان سے قرآن کے صحیح سمجھنے میں کوشش و کاوش کی ضرورت کئی گنا زیادہ اہمیت کی حامل ہوگئی ہے۔

۱۰۸

دوسری طرف قرآن کریم میں استعمال شدہ الفاظ کے حقیقی و لغوی معنیٰ کی اطلاع، ان مسائل میں سے ہے کہ جن کے بغیر قرآن کا صحیح سمجھنا اوراس کی درست تفسیر کرنا ممکن نہیںہے۔

ممکن ہے کسی معنی کی تبدیلی سے غفلت جو کبھی کسی زبان میں مرور زمانہ سے واقع ہوتی ہے، غلطی اور بدفہمی کا باعث بن جائے۔

مثال کے طور پر لفظ ''تقیہ'' کا معنی و مفہوم سب کے لئے واضح ہے۔ عام طور پر اس لفظ سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ کوئی شخص اپنا عقیدہ و مذہب مخفی رکھے اور ایسا ظاہر کرے کہ اس کا مخاطب اس کے حقیقی عقیدہ و مذہب سے آگاہ نہ ہو، اگرچہ تقیہ کے لغوی معنی پرہیزگاری کے ہیں اور قرآن و نہج البلاغہ میں ان ہی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ولو لفظ تقیہ قرآن میں نہیں ہے لیکن لفظ ''تقاة'' جو کہ تقیہ اور تقویٰ کے مترادف ہے، آیۂ(اِتَّقُواْ اللّٰهَ حَقَّ تُقَاتِهِ) 1 میں آیا ہے۔

قرآن کریم اور کلامی محاسن

اگر چہ قرآن کریم، جیسا کہ خود کہتا ہے، واضح اور آشکار زبان میں نازل ہوا ہے اور ہر شخص اپنی سمجھ او رصلاحیت کے مطابق اس آسمانی کتاب سے مستفید ہوسکتا ہے۔ لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ قرآن سب سے زیادہ فصیح و بلیغ اور کلام و بیان کے تمام محاسن (خوبیوں) سے آراستہ ہے اور واضح ہے کہ مذکورہ نکات کی طرف توجہ دینا بھی قرآن کریم سے صحیح استفادہ کے بنیادی شرائط میں سے ہے۔

(1)سورۂ آل عمران، آیت 102 ۔

۱۰۹

قرآن کریم میں کہیں کہیں ایسا ہے کہ ایک آیت کسی حکم کو عام اور کلی صورت میں بیان کرتی ہے اور دوسری آیت اس حکم کے حدود کو واضح کرتی ہے۔ یا ایک آیت میں کسی حکم کو مطلق طور پر بیان کیا ہے اور دوسری آیت سے اس کی قید و شرط معلوم ہوتی ہے، مثال ، کنایہ، استعارہ، مجاز وغیرہ کے استعمال کے ذریعہ، مطالب کا بیان ان اسلوبوں میں سے ہے کہ جن کا استعمال قرآن کریم میں ہوا ہے، اور چونکہ قرآن کے مخاطب انسان ہیں اور مذکورہ طرز و اسلوب، مقصود و مطلب بیان کرنے میں انسانی اور عقلائی کلام کے محاسن میں سے سمجھے جاتے ہیں، لہٰذا قرآن بھی مذکورہ اسالیب کو اپنے احکام و معارف کے بیان میں بہترین طرز کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔

اس بنا پر قرآن میں استعمال شدہ اسالیب وہی اسالیب ہیں جو عقلاء اپنے مقاصد و مطالب بیان کرنے میں استعمال کرتے ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ کلامی و بیانی فنون کے استعمال کی جو نوع اور کیفیت قرآن میں پائی جاتی ہے و ہ مرتبہ، حسن اور طرز و اسلوب کے اعتبار سے ، انسانی کلام میں پائے جانے والے محاسن کے استعمال سے مقائسہ اور موازنہ کے قابل نہیںہے۔

اس بات کی دلیل بھی یہ ہے کہ قرآن کریم خداوند متعال کا کلام ہے جو سب سے زیادہ فصیح و بلیغ بیان کے ساتھ پیغمبر پر نازل ہوا ہے کہ جس نے فن فصاحت و بلاغت کے اصول انسان کو سکھائے ہیں۔ اس الٰہی کتاب نے سب سے زیادہ خوبصورت اور فصیح و بلیغ بیان کے ساتھ لوگوں کو توحید، ہدایت، تکامل اور سعادت و کامیابی کی طرف دعوت دی ہے۔

اس فصل کے آخری حصہ کے مباحث کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ: اس سے پہلے ذکر شدہ نکات کے ساتھ قرآن میں کلامی محاسن اور نکات کی طرف توجہ دینا، اس کے سمجھنے کے شرائط میں سے ہے کہ ان کی طرف توجہ نہ دینا یقینا غلط فہمی اور غلط تفسیر کامستلزم ہے۔

۱۱۰

تیسری فصل

قرآن اور ثقافتی حملہ

حق و باطل کا تضایف1

گزشتہ دونوں فصلوں میں بیان کئے گئے مطالب کے تحت جس حد تک کہ کتاب کی غرض و غایت حاصل ہو، قرآن کی اہمیت و فضیلت کے متعلق، نیز کمال و سعادت کی طرف انسانوں کی ہدایت کے لئے نہج البلاغہ کی روشنی میں اس الٰہی کتاب کے نقش و اثر کے متعلق، کچھ توضیحات مختصر طور پر ذکر کی گئیں۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا مذکورہ مطالب کی رعایت قرآن کریم سے استفادہ اور پیغمبر عظیم الشان کی اس عظیم میراث، ثقل اکبر سے تمسک کے لئے کافی ہے؟

ممکن ہے جواب دیا جائے کہ اگر ان تمام نکتوں کی رعایت کی جائے جو کہ قرآن کے صحیح سمجھنے میں مؤثر ہیں تو لازمی طور پر قرآن کے احکام و معارف جیسا کہ ہیں سمجھے جائیں گے اور معاشرہ کا کلچر قرآن کریم کی ہدایات کے مطابق وجود میں آئے گا اور دینی حکومت کے زیر سایہ لوگ قرآن کی پناہ میں انحراف و گمراہی کے خطرے سے مخفوظ رہیں گے، اس لئے کہ قرآن سے تمسک اس کے معارف کا صحیح سمجھنا اور قرآنی ہدایات کی بنیاد پر عمل کرنا ہے۔

(1) تضایف یعنی دوایسے وجود جن کا تعقل ایک ساتھ ہواو روہ دونوں ایک موضوع میں ایک ہی جہت سے جمع نہ ہوسکتے ہوں لیکن دونوں کا ایک ساتھ مرتفع ہونا ممکن ہو جیسے باپ اور بیٹا، علت و معلول، تحت و فوق، تقدم و تأخر وغیرہ ۔

۱۱۱

مذکورہ جواب اگر چہ کچھ حدتک قرآن کی فردی ہدایت و رہنمائی کے لئے صحیح سمجھا جاسکتا ہے، لیکن اس مسئلہ کا مکمل تحقق اس صورت میںہے جبکہ قرآن کے لازمی اثر کی طرف بڑے پیمانے پر نظر کی جائے نیز اس کی اہمیت اور عظمت پر، گمراہ کن افکار اور دینی ثقافت پر حملہ آور افراد کے مقابلہ میں توجہ دی جائے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مخالفان قرآن کے گمراہ کن افکار کی شناخت کے بغیر، آشکارا طور پر ان کا مقابلہ کئے بغیر اور ان کی فکری سازشوں کو برملا کئے بغیر، معاشرہ کی ہدایت اور قرآن کے مکتب فکر کو حاکم کرنا دینی اعتقادات و اقدار کی بنیاد پر کچھ آسان کام نہیںہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے اکثر مواقع پر غفلت برتی جاتی ہے۔

اس بنا پر قرآن کے سمجھنے اور اس کی ہدایات پر عمل کرنے میں مسلسل کوشش کے ذریعہ کسی وقت بھی قرآن کے دشمنوں اور مخالفوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔

قرآن سے تمسک کرنا اوراس آسمانی کتاب کو حَکَم قرار دینا، قرآن کے خلاف گمراہ کن افکار کی شناخت او ران سے مقابلہ کے بغیر ممکن نہیںہے۔

حق و باطل جس طرح کہ مقام شناخت میں متضایف ہیں اسی طرح مقام عمل میں بھی متضایف ہیں، یعنی آپ اگر حق کو پہچان لیں گے تو باطل کو بھی پہچان لیں گے، باطل کی شناخت آپ کو حق کی شناخت میں مدد دیتی ہے۔

قرآن کو عملی طور پر معاشرہ میں حاکم قرار دینا، مخالفین اور ان کے گمراہ کن افکار کی شناخت کے بغیر نیز لوگوں کے دینی کلچر کو کمزور کرنے میںان کی شیطانی سازشوں سے مقابلہ کے بغیر ممکن نہیںہے۔

۱۱۲

ہم اس سلسلہ میں پہلے نہج البلاغہ میں مذکور حضرت علی ـ کے ارشاد کو پیش کر تے ہیں پھر معاشرہ کے افکار کو منحرف کرنے میں مخالفین قرآن کی کارستانیوں اور ملحدین کے شبہوں کو بیان کر کے تمام لوگوں کو خصوصاً معاشرہ کے جوان اور تعلیم یافتہ طبقہ کو دشمنوں کے شیطانی مکر و فریب سے آشنا کریں گے۔

قرآن اور دینی مکتب فکر کے مخالفین اور دشمنوں کی شناخت اس قدر اہم ہے کہ امیر المومنین حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:

''وَ اعْلَمُوْا إنّکُم لَن تَعرِفُوا الرُّشدَ حَتَّی تَعرِفُوا الَّذِی تَرَکَهُ، وَ لَن تَأخُذُوا بِمِیثَاقِ الکِتَابِ حَتَّی تَعرِفُوا الَّذِی نَقَضَهُ، وَ لَن تَمَسَّکُوا بِهِ حَتَّی تَعرِفُوا الَّذِی نَبَذَهُ فَالْتَمِسُوا ذٰلِکَ مِن عِندِ اَهلِهِ فَإنّهُم عیَشُ الْعِلمِ وَ مَوتُ الجَهلِ'' 1

تم جان لو! کہ ہدایت کو اس وقت تک نہیں پہچان سکتے جب تک اسے چھوڑنے والوں کو نہ پہچان لو اور کتاب خدا کے عہد و پیمان کے پابند اس وقت تک نہیں ہوسکتے جب تک کہ اس کے توڑنے والوں کی شناخت نہ کرلو اور اس سے تمسک اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اسے نظر انداز کرنے والوں کی معرفت حاصل نہ کرلو، پھر فرماتے ہیں: قرآن، اس کی تفسیر اور اس کے معارف کو اہل قرآن (اہلبیت طاہرین) سے حاصل کرو اس لئے کہ یہی حضرات الٰہی علوم و معارف کی زندگی اور جہل و نادانی کی موت ہیں۔

(1) نہج البلاغہ، خطبہ 147 ۔

۱۱۳

امیر المومنین حضرت علی ـ کا یہ روشن بیان جو کہ دشمن شناسی، گمراہ کن افکار سے آشنائی کے لزوم اور گمراہوں کے پہچاننے کی ضرورت پر مبنی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی علماء اور الٰہی علوم و معارف کے مبلغین کا فریضہ دوگنا ہے، اس لئے کہ گمراہ کن فکروں اور ملحدین کے شبہوں کو لوگوں کے افکار سے خصوصاً ان جوانوں کے افکار سے دور کرنا، جو کہ دینی علوم و معارف کے اعتبار سے کافی علمی سطح کے حامل نہیںہیں، تبلیغ اور قرآنی و دینی مکتب فکر کو حاکمیت بخشنے کے بنیادی کاموں میں سے ہے اور اس کے بغیر مطلوب اور لازمی نتیجہ کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔

اس بات کی وضاحت تین حصوں میں بیان کرتے ہیں: ۔ مخالفین کے شبہات ۔ مخالفین کی سازشیں ۔ ان شبہات کے پیش کرنے کا مقصد۔

اگر چہ قرآن ایسی عظیم نعمت ہے جو خداوند متعال نے اپنے بندوں کو عطا فرمائی ہے اور اگرچہ خدا نے خود، شیطانوں کی دستبرد اور شیطان صفت انسانوں کی تحریف سے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، لیکن داستان یہیں پر ختم نہیں ہوتی، اولاد آدم کا یہ قسم خوردہ دشمن، شیطان بھی ہر زمانہ میں ان لوگوں پر حاکم حالات، روحیات و نفسیات کے مطابق ،جو کہ اجتماعی حیثیتوں کے اعتبار سے لوگوں کے ذہنوں پر اثر ڈالنے کی قدرت رکھتے ہیں، نفسانی خواہشات کے حصول کے لئے ان کے دلوں میں شک پیدا کر دیتا ہے تاکہ ان کے ذریعہ تمام لوگوں کواپنے پیچھے کھینچ لے اور قرآن و دین سے منحرف کردے، چونکہ قرآن انسانوں کی نجات، ہدایت اور سعادت کا سب سے بڑا وسیلہ ہے، اس لئے شیطان کی پوری آرزو لوگوں کو قرآن و دین سے جدا کرنا ہے۔

۱۱۴

اس راستے میں شیطان کا ایک کام ان لوگوں کو بہکانا اور ان کے اندر وسوسہ پیدا کرنا ہے جو کہ دین و قرآن کے متعلق شک و شبہہ پیدا کر کے لوگوں کے ایمان و اعتقاد میں خلل پیدا کرسکتے ہیں۔

شیطان او رشیطان صفت افراد کی فعالیت قرآن کریم سے مقابلہ کرنے میں نزول قرآن کی ابتدا ہی سے پائی جاتی ہے یہ فعالیتیں آیات الٰہی کے سننے سے ممانعت اور کان میں روئی ڈالنے کی تاکید اور پیغمبر پر تہمت و افترا پردازی سے شروع ہوئیں اور آج بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہیں اور اس کے بعد بھی جاری رہیں گی۔

اس سلسلے میں پوری تاریخ میں قرآن سے مقابلہ کی روش کے جزئیات ذکر کرنے سے صرف نظر کرتے ہیں اوربحث کے طولانی ہونے کے خوف سے ان بعض شبہوں کو ذکر کر کے، جو کہ آج معاشرہ کے درمیان دینی مکتب فکر اور لوگوں، خصوصاً جوانوں کے مذہبی عقائد کو کمزور کرنے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ قارئین اور جوانوں کے ذہنوں کو روشن کریں تاکہ ان شیطانی سازشوں سے آگاہ ہو کر دشمنوں کے ثقافتی حملوں کا مقابلہ کرسکیں۔

چونکہ قرآن سے مقابلہ کرنے میں شیاطین، اس کو نابود اور فنا کرنے سے مایوس ہوگئے، لہٰذا طے کرلیاکہ لوگوں کواس کے مطالب کی آشنائی سے محروم کردیں۔

۱۱۵

قرآن کے مخالفین کئی صدیوں سے مسلمانوں خصوصاً شیعوں کے درمیان ایسی تبلیغ کرتے رہے کہ ہمیں قرآن سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہئے، اس لئے کہ قرآن ہمارے لئے قابل فہم نہیں ہے اور ہم قرآن کے باطن سے مطلع نہیں ہیں، اس بنا پر قرآن کے ظاہر سے استناد نہیں کیا جاسکتا۔

وہ یہ فکر ایجاد کر کے کہ ہم قرآن کے سمجھنے پر قادر نہیں ہیں، کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کو قرآن کے استفادہ سے محروم کردیں اور نتیجہ میں قرآن کو مسلمانوں کی زندگی سے نکال دیں۔

اس کے دوران اگر چہ قرآن کا ظاہری احترام ، اس کی تلاوت و قرائت، اس کو بوسہ لینے اور مقدس و محترم سمجھنے کی صورت میں مسلمانوں کے درمیان رائج تھا، لیکن جو کچھ قرآن کے دشمنوں اور مخالفوں کا مقصد ہے وہ لوگوں کو قرآن کے مطالب سے اور اس آسمانی کتاب کی ہدایات پر عمل کرنے سے محروم کرنا ہے۔

آج روشن فکری کے دعویدار افراد جو کہ اسلامی علوم و معارف سے بالکل بے بہرہ ہیں سب سے زیادہ گمراہ کن ان شیطانی شبہات او ر افکار کو جو کہ صدیوں پہلے سے مغرب میں دوسرے ادیان کی تحریف شدہ کتابوں کے متعلق پیش کئے گئے ہیں، نئی فکر کے نام سے ثقافتی اور علمی معاشروں میں پیش کرتے ہیں، اور علم و دانش کے پیاسے نیز تحصیل علم میں مشغول طبقہ کو تحت تاثیر قرار دیکر اپنے خیال میں ان کے اعتقادی ستون کو کمزور کرتے ہیں۔ وہ اس بات سے غافل ہیں کہ مسلمان خصوصاً تحصیل علم میں مشغول جوان اور ذہین و زیرک تربیت یافتہ افراد، ان کے بے بنیاد، عاریتی اور عقل و منطق سے دور افکار کے بطلان کو جان لیں گے۔

مسلمان اور دیندار تربیت یافتہ افراد کے عقائد و افکار عقل و منطق پر مبنی اور پیغمبر او رائمۂ معصومین (ع) کے علوم سے اخذ شدہ ہیں ان کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے اور جب بھی کوئی مسلمان فکری اور اعتقادی شعبوں میں گمراہ کن افکار سے روبرو ہوتا ہے تو سب سے پہلے ان کو دینی علوم و معارف کے ماہرین اور علماء کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ ان سے صحیح اور منطقی جواب دریافت کرے۔

۱۱۶

دین کی حقیقت حاصل نہ ہونے کا شبہہ

''حقیقت دین حاصل نہ ہونے'' کا شبہہ نہایت شیطانی مقاصد کے تحت پیش کیا گیا ہے اور اس کے نتائج بہت ہی تباہ کن ہیں کہ جن کے بیان کرنے کی گنجائش فی الحا ل نہیں ہے، یہاں پر ہم اس کی وضاحت اور اس کے بعض پوشیدہ پہلوؤ ں اور لوازم کو صریح طور پر بیان کر کے فیصلہ خود آپ حضرات کے حوالے کرتے ہیں۔

چونکہ ہماری بحث خصوصاً قرآن کے بارے میں ہے لہٰذا مذکورہ شبہہ کے متعلق خصوصاً قرآن کے بارے میں بحث و تحقیق کریں گے۔ یہ شبہہ قرآن فہمی کے بارے میں طرح طرح کی شکلوں اور مختلف سطحوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیتوں کی مختلف تفسیریں ہیں اور مفسرین ان کی تفسیر و توضیح میں اتفاق رائے نہیں رکھتے اور ہم جس قدر بھی صحیح نظریہ حاصل کرنے کے لئے تحقیق کریں، جو کہ قرآن کے حقیقی مطلب کو بیان کرنے والی ہو، آخر کار صرف ایک مفسر کی تفسیر اور نظریہ ہی کو قبول کریں گے کہ جس کو دوسرے مفسرین قرآن کی تفسیر نہیں سمجھتے۔ اس بنا پر قرآن کے حقیقی مطلب کا حصول ممکن نہیںہے۔

یقینا یہ شبہہ پیش کرنے والے چاہتے ہیں کہ مذکورہ نظریہ پیش کر کے ان لوگوں کو شک و شبہہ میں مبتلا کردیں جو کہ قوی فکر و نظر کے حامل نہیںہیںاور دینی معارف کا کافی مطالعہ، جواب دینے اور تجزیہ و تحقیق کی قدرت نہیں رکھتے۔ وہ لوگ غلط خیالات کی بنا پر یہ سوچتے ہیں کہ مسلمانوںکی فکری و اعتقادی بنیادیں اندھی تقلید کی بنیاد پر استوار ہیں کہ ان خیال آرائیوں سے وہ ویران و برباد ہو جائیں گی۔ چونکہ وہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ جس وقت فکر، عقل اور منطق کی بات آتی ہے تو صرف قرآن اوراس الٰہی کتاب کے معارف ہی کی تصدیق عقل سلیم اور صحیح منطق کرتی ہے، اور ہر حق پرست انسان صدق دل سے اس کو قبول کرتا ہے، لہٰذا کوشش کرتے ہیں کہ مذکورہ شبہہ اور زیادہ گہری صورت میں پیش کریں تاکہ اپنے خیال میں اورزیادہ کاری ضرب، دینی فکر پر لگائیں۔ وہ اس سے غافل ہیں کہ ذہین و زیرک مسلمان مفکرین ان کے نظریہ کا تجزیہ کرکے اس طرح کے نظریہ کے باطل نتائج و لوازم کو بھانپ لیں گے کہ جس کا انجام شکاکیت کے گڑھے میں گرنے کے علاوہ کچھ نہیںہے۔

۱۱۷

بہرحال جیسا کہ مذکورہ شبہہ بیان کیا گیا اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ شبہہ پیش کرنے والے معتقد ہیں کہ قرآن کریم ثابت حقیقتوں کا مالک ہے لیکن چونکہ مفسرین قرآن کی تفسیر میں اتفاق رائے نہیں رکھتے، لہٰذا ہماری رسائی قرآن کے حقیقی مطالب تک نہیں ہوتی۔ اس بنا پر قرآن سے استفادہ ممکن نہیں ہے اور اسے بالائے طاق رکھ دینا چاہئے۔

لیکن جب قرآن کریم کی صریح و روشن آیتوں سے روبرو ہوتے ہیں اوران کے ظہور اور واضح معنی میں کوئی خدشہ وارد نہیں کرسکتے نیز اپنے کو عقل و منطق اور قرآن کے محکمات کے سامنے عاجز پاتے ہیں تو قدم اور آگے بڑھا کر شبہہ دوسری طرح سے پیش کرتے ہیں۔ وہ لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے یعنی قرآن اور دینی اعتقادات و اقدار کو بے اعتبار کرنے کے لئے اپنی پہلی بات سے، جو کہ قرآن اوردینی معارف سمجھنے کے عدم امکان پر مبنی ہے، پیترا بدل کر پھر مقابلہ میں آجاتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے پہلے موقف میں دینی معارف اور قرآن کے کلام کے لئے ذاتی اور حقیقی معنی قبول کرنے کے باوجود ان کو انسان کی دسترس سے مافوق سمجھتے تھے۔ لیکن اس نئے موقف میں قرآن اوردینی تعلیمات و ارشادات کو حقیقت سے خالی سمجھ کر دینی معارف و احکام کو آیات سے افراد کی ذہنی اپج بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نہ صرف قرآن بلکہ تمام آسمانی کتابیںاس طرح نازل ہوئی ہیں کہ جن کی تفسیر مختلف طریقوں سے ہوسکتی ہے اور وہ تمام مختلف تفسیریں اور متفاوت فکریں صحیح ہوسکتی ہیں۔

اگر سوال کیا جائے کہ اس صورت میں بھی ان تفسیروں میں آپس میں اتنا اختلاف کیوں ہے؟

وہ لوگ جواب دیں گے کہ تفسیروں کا اختلاف اگرچہ تضاد و تناقض کی حد تک ہو تو بھی اس سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی، اس لئے کہ اصلاً قرآن اوردین نے کوئی واقعیت و حقیقت بیان نہیں کی ہے، بلکہ صرف خالی الفاظ اور جملے، وحی الٰہی کے نام سے پیغمبر پر نازل ہوئے ہیں اور ان کی طرف رجوع کے وقت ہر شخص کے ذہن میں ایک مطلب پیدا ہوتا ہے اور جو مطلب پیدا ہوتا ہے وہ خود انسان کی سمجھ ہے اور چونکہ انسان مختلف ذہنیتوں کے حامل ہیں نتیجہ میں ان کے افکار بھی مختلف ہیں۔

۱۱۸

انسان قرآن کی آیات و الفاظ اوردینی تعلیمات سے جو کچھ سمجھتے ہیں اسے دین کہتے ہیں۔ اور چونکہ قرآن اور دینی تعلیمات و ارشادات کسی واقعیت کو بیان کرنے والے نہیں ہیں، ان کی متفاوت تفسیریں بھی تصدیق و تکذیب کے قابل نہیںہیں۔ لہٰذا تما م افکار صحیح ہیں، کیونکہ قرآن ایسے ثابت حقائق بیان نہیں کرتا کہ ان افہام اور تفسیروں میں سے صرف کوئی ایک ہی اس کے مطابق ہو۔

'' سیدھے راستوں'' یا ''دین کی مختلف قرائتوں'' کا نظریہ رکھنے والے دین کی بنیاد و اساسی یعنی وحی پر حملہ کرنے کے لئے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نہ صرف انسان، قرآن اور وحی الٰہی سے کوئی ثابت حقیقت درک نہیں کرتا اور ہر شخص اپنی ذہنیت کو وحی کے نام سے بیان اور تفسیر کرتا ہے، بلکہ پیغمبر نے بھی (معاذ اللہ) انسانی صفات کا حامل ہونے کے سبب اپنے درک اور فہم کو وحی کے نام سے لوگوں کے لئے بیان کیا ہے۔

اس بنا پر پیغمبر کی فہم بھی آنحضرت کے زمانی و مکانی خاص حالات اور ذہنیت کے مطابق اور شخصی و ذاتی فہم تھی کہ جسے الفاظ و آیات کی صورت میں بیان کیا ہے۔ لہٰذا قرآن کو کلام خدا اور وحی الٰہی نہیں سمجھا جاسکتا، بلکہ کہنا چاہئے کہ قرآن پیغمبر کا کلام ہے(نعوذ باللہ)۔

یقینا آپ سوال کریں گے کہ مندرجہ ذیل آیات کے بارے میں کیا کہا جائے ؟

(وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الهَویٰ اِن هُوَ ِلاَّ وَحْی یُّوحیٰ) 1 پیغمبر اپنی خواہش سے کبھی کلام نہیں کرتے، آپ کا کلام وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے۔

(1)سورۂ نجم، آیت 3، 4 ۔

۱۱۹

یا(تَنزِیل مِن رَّبِّ العَالَمِینَ، وَ لَو َتقَوَّلَ عَلَینَا بَعضَ الأَقَاوِیلَ، لَأَخَذنَا مِنهُ بِالیَمِینِ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنهُ الوَتِیْنَ) 1 یہ قرآن رب العالمین کا نازل کردہ ہے، اور اگر یہ پیغمبر ہماری طرف سے کوئی بات گڑھ لیتے، تو ہم ان کے ہاتھ کو پکڑ لیتے، پھر ہم ان کی گردن کی شہ رگ کاٹ دیتے۔

اس نظریہ کے طرفدار جواب میں کہتے ہیں کہ یہ مضامین بھی خود پیغمبر کی ذہنی اپج ہیں نیز آپ کے احساسات کی غمّاز ہیں۔

واضح ہے کہ ایسا نظریہ، شکاکیت اور انکار حقیقت کے دلدل میں گرنے، عقل و منطق کو نظرانداز کرنے اور الفاظ کے ساتھ بازی کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، یہ نظریہ پیش کرنے والے سب سے زیادہ روشن اور واضح معانی و مفاہیم کے مقابلہ میں کہیں گے کہ یہ آپ کا احساس اور آپ کی سمجھ ہے اور خود آپ کے ذہنی خیالات کے علاوہ کسی حقیقت کی نشاندہی کرنے والا نہیں ہے، اس بنا پرقرآن خود آپ کے لئے اچھا اور محترم ہے لیکن دوسروں کے لئے کوئی قیمت اور اعتبار نہیں رکھتا۔

بہرحال ہم دیکھتے ہیں کہ دین و قرآن کے متعلق ایسے نظریہ کی ترویج سب سے زیاد ہ ان ترقی یافتہ شیطانی جالوں میں سے ایک ہے جو اب تک حضرت آدم ـ کی اولاد کو گمراہ کرنے اور فریب دینے کے لئے بچھائے گئے ہیں۔

(1) سورۂ حاقہ، آیت 43 تا 46 ۔

۱۲۰