قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت33%

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 180

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42260 / ڈاؤنلوڈ: 3526
سائز سائز سائز
قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۳۵۶،۳۵۹،نمبر۱۱۲۵،۱۱۳۰،اشاعت اوّل۔

۲۔ حافظ ابن عساکر، کتاب تاریخ دمشق، جلد۲،صفحہ۳۴۴،۴۴۲،باب امیر المومنین کے حالات، حدیث۸۵۲،۹۵۸، اشاعت دوم(شرح محمودی)۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور، جلد۶،صفحہ۳۷۹،اشاعت دوم، صفحہ۴۲۴۔

۴۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، جلد۱،صفحہ۱۵۵، باب۳۱۔

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، صفحہ۲۴۵،باب۶۲۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة ، صفحہ۳۶۱۔

۷۔ بلاذری، کتاب النساب الاشراف، ج۲ص۱۱۳حدیث۵۰،اشاعت اوّل بیروت

۸۔ شبلنجی ،کتاب نورابصار، صفحہ۷۰،۱۰۱۔

۹۔ خوارزمی، کتاب مناقب امیر المومنین ،حدیث۱۱،صفحہ۶۲۔

پندرہویں آیت

پیغمبر کی صداقت پر قرآن ایک روشن دلیل ہے اور علی ایک سچے گواہ ہیں

( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِه کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَامًا وَّرَحْمَةً )

”کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل پر ہو اور اُس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ آتا ہو جو اُسی کا جزو ہو(سورئہ ہود:آیت۱۷)

۴۱

تشریح

اس آیت شریفہ کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ کون(مَنْ) سے مرادجناب رسول خدا

فضائل علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں ۔۳

کی ذات مبارک ہے اور روشن دلیل(بَینَہ)سے مرادقرآن مجید ہے اور (نبوت کے) گواہ صادق(شاہد) سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔بعض مفسرین نے شاہد سے مراد جبرئیل علیہ السلام کو لیا ہے اور بعض نے َیَتْلُوْهُ کو مادّہ تلاوت سے قرأ ت کے معنی میں لیا ہے نہ کہ اس معنی میں کہ ایک کے بعد دوسرے کا آنا۔ انہوں نے شاہد سے مراد زبان رسول اللہ لی ہے۔ لیکن بہت سے اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے شاہد سے مراد سچے مومنین لئے ہیں اور سچے مومن کی تصویر علی علیہ السلام کو لیا ہے اور اس ضمن یں بڑی اہم روایات کو بیان کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک یہاں بیان کی جاتی ہیں:

(ا)۔ سیوطی نے کتاب جمع الجوامع اور تفسیر الدرالمنثور میں یہ روایت بیان کی ہے:

حَدَّثْنَا عبادُ بنُ عَبْدِاللّٰهِ الاَ سَدِی قال:سَمِعْتُ عَلِیَّ بنَ ابی طالبٍ وَهُوَ یَقُولُ:مٰا أَحَدٌ مِنْ قُرَیْشٍ اِلَّا وَقَدْ نَزَلَتْ فیهِ آیةٌ وآیتانِ فَقٰالَ لَهُ رَجُلٌ:وَمٰانَزَلَ فِیْکَ یٰااَمِیْرَالمومنینَ؟قٰالَ:فَغَضِبَ ثُمَّ قٰالَ: اَمٰاوَاللّٰهِ لَولَمْ یَسْأَلْنِیْ عَلٰی رُووسِ الْقَوْمِ مٰاحَدَّ ثْتُکَ،ثُمَّ قال:هَلْ تَقْرَأُ سورةَ هودٍ؟ ثُمَّ قَرَاءَ: ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) رسولُ اللّٰه عَلٰی بَینةٍ مِنْ رَبَّهِ وَاَنَاالشّٰاهِدُ مِنْهُ ۔

”عباد بن عبداللہ اسدی کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں کہ قریش کے سرداروں میں کوئی نہیں مگر اُس کے بارے میں ایک یا دو آیتیں نازل ہوئی ہوں۔ پس ایک شخص نے سوال کیا:یا امیر المومنین ! آپ کے بارے میں کونسی آیت نازل ہوئی ہے۔ آپ(اُس شخص کے جہل یا عداوت کی وجہ سے) غضبناک ہوئے اور کہا کہ اگر دوسرے لوگ موجود نہ ہوتے تو میں تمہارے سوال کا جواب نہ دیتا۔ اُس وقت آپ نے فرمایا : کیا تم نے سورئہ ہود پڑھی ہے؟ اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:

( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) ”اور فرمایا کہ پیغمبر روشن دلیل یعنی قرآن مجید (بَینَةٍ) رکھتے تھے اور میں گواہ تھا“۔

۴۲

(ب)۔ کچھ مفسرین اس روایت کو نقل کرتے ہیں:

عَنْ انس(فی قَولِه تعالٰی) ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُط“قَالَ هُوَرسولُ اللّٰهِ ”وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) قَالَ هُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب، کَانَ وَاللّٰهِ لِسَانَ رَسُولِ اللّٰهِ ۔

”انس بن مالک سے اس آیت کی تفسیر سے متعلق روایت کی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ آیت کے اس حصہ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه ) سے مراد پیغمبر اسلام کی ذات مبارک ہے اور( یَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) سے مرادعلی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ خدا کی قسم! یہ(علی کا نام)رسول اللہ کی زبان پر تھا“۔

(ج)۔ تفسیر برہان، جلد۲،صفحہ۲۱۳پر یہ روایت بیان کی گئی ہے:

امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس آیت میں ”شاہد“ سے مراد امیرالمومنین علی علیہ السلام ہیں اور اُن کے یکے بعد دیگرے جانشین ہیں۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی، کتاب جمع الجوامع، جلد۲،صفحہ۶۸،حدیث۴۰۷،۴۰۸ اور ج۳،ص۳۲۴۔

۲۔ حافظ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۴۲۰،حدیث۹۲۸۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب ۶۲،صفحہ۲۳۵۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، حدیث۳۸۶،جلد۱،صفحہ۲۷۷۔

۵۔ ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب امیرالمومنین ، حدیث۳۱۸،صفحہ۲۷۰۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۲۶،صفحہ۱۱۵۔

۷۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال، جلد۱،صفحہ۲۵۱،اشاعت اوّل۔

۸۔ طبری اپنی تفسیر میں جلد۱۵،صفحہ۲۷۲،شمارہ۱۸۰۴۸۔

۹۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں، جلد۲،صفحہ۲۳۹۔

۴۳

سولہویں آیت

علی صدیق اکبر اورشہید فی سبیل اللہ ہیں

( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ وَالشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَنُوْرُهُمْْ )

”اور جو لوگ اللہ پر اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی تو اپنے پروردگارکے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ اُن کا اجر اور اُن کا نور اُن ہی کیلئے ہوگا“(سورئہ حدید،آیت۱۹)

تشریح

اس میں کوئی شک نہیں کہ سچائی اور راست گوئی ایسی صفت ہے جو انسان کو اعلیٰ مقام تک پہنچادیتی ہے۔ ہمیں یہ صفت حضرت علی کے وجود پاک میں روز روشن کی طرح نظر آتی ہے۔

اگرچہ اہل سنت میں خلیفہ اوّل ہی صدیق کے طور پر مشہور ہیں لیکن بہت سی روایات جو اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں نقل کی ہیں، اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ صفت سچائی اور راست گوئی ہر لحاظ سے مکمل طور پر حضرت علی علیہ السلام کے وجود پاک میں نظر آتی ہے۔ چند روایات ذیل پرتوجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اِبْنِ عباس فِی قَوْلِه تعٰالٰی ( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ ) قال صدیقُ هَذِه الْاُمَّةِ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب هُوَ الصِّدِّ یقُ الْاَکْبَرُ وَالْفَارُوْقُ الْاَعْظَمُ

”ابن عباس سے روایت ہے کہ اس آیت شریفہ( وَالَّذیْ نَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّ یْ قُوْن ) کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ اس اُمت کے صدیق علی ابن ابی طالب ہیں۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام صدیق اکبر بھی ہیں اور فاروق(حق اور باطل کو جدا کرنے والا) اعظم بھی“۔

۴۴

(ب)۔عَنْ عبدالرحمٰنِ بن ابی لیلٰی عَنْ اَبِیْهِ قٰالَ رسولُاللّٰهِ اَلصِّدِّیْقُوْنَ ثَلاٰ ثَةٌ: حَبِیبُ النَّجَّارِ، مومِنُ آلِ یٰسِینَ وَحِزْبِیْلُ مُومِنُ آلِ فِرْعَوْنَ وَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطالِبٍ وَهُوَ اَفْضَلُهُمْ

”عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تین افراد صدیق ہیں اور وہ ہیں:حبیب نجار، مومن آل یاسین اور حزبیل مومن آل فرعون اور علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور علی علیہ السلام اُن سب سے افضل ہیں“۔

(ج)۔عَنْ عُبادِ بنِ عَبْداللّٰهِ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیّاً علیه السلام یقولُ: أَ نَا الصِّدِّیقُ الْاَکْبَرُ لَایقُولُهَا بَعْدِیْ اِلَّا کَذَّابٌ وَلَقَدْ صَلَّیْتُ قَبْلَ النَّاسِ سَبْعَ سِنِیْنَ ۔

”عباد بن عبداللہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں ہی صدیق اکبر ہوں اور میرے بعد کوئی بھی اپنے آپ کو صدیق اکبر نہیں کہلا سکتا لیکن سوائے جھوٹے اور کذاب کے اور میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی(یعنی سب سے پہلے خدا اور اُس کے رسول پر میں ایمان لایا)“۔

(د)۔ اسی طرح سب علمائے اہل سنت مثلاً حافظ ابی نعیم، ثعلبی، حافظ بن عساکر، سیوطی اور دوسرے بہت سے مفسرین سورئہ توبہ آیت۱۱۹( اِتَّقُوااللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْن ) میں ابن عباس اور دوسروں سے بھی روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ”الصادقین“ سے مراد علی ہیں ۔ روایت اس طرح سے ہے:

عَنْ ابنِ عباس فِی قوله تعٰالٰی ( اِتَّقُواللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ ) قَالَ نَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَامُ خٰاصَّةً“

”ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آیت صرف علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۲۸۲،حدیث۸۱۲،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین ، صفحہ۲۴۶،۲۴۷، حدیث۲۹۶۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۶اور باب۲۴،صفحہ۱۲۳۔

۴۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل۔

۴۵

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۴۲،صفحہ۱۴۶۔

۶۔ نسائی، کتاب خصائص امیرالمومنین ، حدیث۶،صفحہ۳۸۔

۷۔ سیوطی ،کتاب اللئالی المصنوعہ، باب فضائل علی ، جلد۱،صفحہ۱۶۰۔

۸۔ احمد بن حنبل، کتاب الفضائل، باب فضائل امیر المومنین ،حدیث۱۱۷،صفحہ۷۸۔

۹۔ حافظ المزی،کتاب تہذیب الکمال، ترجمہ العلاء بن صالح، جلد۴،صفحہ۱۹۳۔

سترہویں آیت

اللہ تعالیٰ نے علی کے وسیلہ سے پیغمبر کی مدد کی

( هُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْنَیٰٓاَ یُّهَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُومِنِیْنَ )

”وہ وہی ہے جس نے اپنی امداد سے اور مومنین کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی تھی۔

اے نبی! تمہارے لئے اللہ اور مومنین میں سے جو تمہارا اتباع کرتے ہیں، وہی کافی ہیں ہیں“۔(سورئہ انفال: آیات۶۲،۶۴)۔

تشریح

کچھ مفسرین نے ان آیات کے ضمن میں خصوصاً آیت :۶۴کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب یہودیوں کے قبائل بنی قریظہ اور بنی نضیر کے کچھ افراد پیغمبر اسلام کی خدمت میں مکروفریب سے حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ” اے پیغمبر خدا! ہم حاضر ہیں کہ آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی پیروی کریں اور مدد کریں“۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے کہہ رہا ہے کہ ہرگز کسی غیر پر اعتماد نہ کریں بلکہ اللہ اور وہ مومنین جو آپ کی اتباع کرتے ہیں، آپ کے لئے کافی ہیں، انہی پر اعتماد کریں(تفسیر تبیان، جلد۵،صفحہ۱۵۲)۔

۴۶

اہل سنت اور شیعہ علماء کی کثیر تعداد روایات لکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ ان دو آیتوں میں مومنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ اگرچہ دوسرے مومنین بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن ان آیتوں کے مصداق(پوری طرح آیت کے مطابق) علی ابن ابی طالبعلیہما السلام ہیں۔ پیغمبر اسلام نے ہمیشہ تمام مشکلات اور سخت حالات میں علی علیہ السلام کے وجود مقدس پر فخر کیا۔ ذیل میں لکھی گئی دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبِیْ هُریرةِ قَالَ: قال رسولُ اللّٰه رَأَیْتُ لَیْلَةً اُسْرِیَ بِی اِلَی السَّمٰاءِ عَلَی الْعَرْشِمَکْتُوْباً: لَااِلٰهَ اِلّٰا أَنَا وَحْدِیْ لَا شَرِیْکَ لِیْ وَمحمدًعَبْدِی وَرَسُوْلِی اَیَّدْتُهُ بِعَلیٍّ(قال)فَذٰلِکَ قَوْلُهُ ( هُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْن ) ۔

”ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ شب معراج میں نے دیکھا کہ عرش پر لکھا ہوا تھا :’میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں تنہا اور لاشریک ہوں اور محمد میرا بندہ اور میرا رسول ہے اور میں نے علی کے ذریعے سے اپنے رسول کی مدد کی ہے اور اس آیت شریفہ( هُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْنَ ) میں بھی اسی طرف اشارہ ہے“۔

(ب)۔ حافظ حسکانی جو اہل سنت کے نامور عالم ہیں، کتاب شواہد التنزیل میں روایت نقل کرتے ہیں جو معتبر اسناد کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے والد بزرگوارحضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔ انہوں نے اس آیت( یٰٓاَ یُّهَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُومِنِیْنَ ) کی تفسیرمیں فرمایا کہ یہ آیت علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے جو ہمیشہ رسول اللہ کے مددگار و حامی و ناصر رہے ہیں۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں حدیث۹۲۶، باب احوال امیرالمومنین ، ج۲،ص۴۱۹

۲۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۴۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۳،صفحہ۲۱۶،اشاعت دوم، صفحہ۱۹۹۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ۲۹۹،جلد۱،صفحہ۲۲۳اور اشاعت اوّل میں جلد۱،صفحہ۲۳۰،شمارہ۳۰۵۔

۴۷

۵۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، باب مناقب علی علیہ السلام، جلد۹،صفحہ۱۲۱۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۲۳،صفحہ۱۰۹ اور باب۲ص۲۱

۷۔ ذہبی، میزان الاعتدال، ج۱،ص۲۶۹،حدیث۱۰۰۶اور ص۵۳۰،ج۱،شمارہ۱۹۷۷۔

۸۔ المحب الطبری، کتاب ریاض النضرہ، جلد۲،صفحہ۱۷۲۔

۹۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال،جلد۶،صفحہ۱۵۸، اشاعت اوّل۔

اٹھارہویں آیت

حضرت علی کا بغض اور دشمنی شقاوت قلب، نفاق اور انسان کی بدبختی کا باعث ہے

( وَلَوْنَشَآءُ لَاَرَیْنَکَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِیْمٰهُمْوَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ )

”اور اگر ہم چاہیں تو ہم اُن لوگوں کو تمہیں دکھلا دیں پھر تم اُن لوگوں کو اُن کی علامتوں سے پہچان لو اور تم اُن کو اُن کی بات کے لہجے سے ضرور پہچان لوگے“۔(سورئہ محمد، آیت:۳۰)۔

تشریح

اس آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر اسلام کومنافقین کی اور شقاوت قلبی رکھنے والے انسانوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے :”اگر ہم چاہیں تو ہم تمہیں اُن کی شناخت کروادیں گے“ تاکہ صرف اُن کی چال ڈھال اور قیافہ دیکھنے سے ہی اُن کو پہچا ن لو۔ اس کے علاوہ اُن کے لہجہ و کلام سے بھی پہچان سکتے ہو کہ اُن کے ناپاک دلوں میں کیا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن کے بولنے کا انداز کیا تھا کہ پروردگار نے اُس کو منافقین کے پہچاننے کا ایک اہم طریقہ بتایا۔اس ضمن میں اہل سنت اور شیعہ علماء نے جو روایات بیان کی ہیں، اُن پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ منافقین کے دلوں میں حضرت علی علیہ السلام کیلئے شدید دشمنی اور کینہ پایا جاتا تھا۔

۴۸

البتہ وہ اپنی اس دشمنی اور کینہ کو رسول اللہ کی زندگی میں واضح طور پر ظاہر نہیں کرتے تھے۔ شاید وہ اس میں اپنی بھلائی اور فائدہ نہیں دیکھتے تھے ۔ اس لئے وہ موقع بہ موقع رسول اللہ اور مسلمانوں کے پاس آکر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بدگوئی کرتے تھے اور تنقید کرتے تھے۔ اُن کی اس چال کا مقصد صرف حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کے درمیان کمزور کرنا اور اُن کی محبوبیت کو کم کرنا تھا۔

لیکن خدائے بزرگ نے یہ آیت نازل کرکے اُن کے مکروفریب کو باطل کردیا اور اُن کے ناپاک چہروں کو سب کے سامنے آشکار کردیا۔ اس ضمن میں دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبی سعیدُالخَدْری فِی قوله عزوجل”وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ“ قال بِبُغْضِهِمْ عَلَیّاً عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ اس آیت’( وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ ) کی تفسیر میں فرمایاکہ یہ علی کی دشمنی اور بغض کی وجہ سے ہے(یعنی دشمنی علی اُن کی زبان سے ظاہر ہوجاتی ہے)“۔

(ب)۔ درج ذیل روایت کو اکثر مفسرین نے اس آیت کی بحث کے دوران ذکر کیا ہے اور رسول اکرم کے خاص صحابہ کی زبان سے بیان کی گئی ہے جیسے ابی سعید اور دوسروں نے نقل کیا ہے:

کُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِیْنَ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ بِبُغْضِهِمْ عَلِیّاً ۔

”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو اُن کی علی علیہ السلام سے دشمنی کے سبب پہچانتے تھے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۱۷۸،حدیث۸۸۳،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،ج۲، ص۴۲۱،حدیث۹۲۹،باب احوال علی ،اشاعت۲

۳۔ گنجی شافعی،کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۵۔

۴۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیرالمومنین ، حدیث۳۵۹،۳۶۲،صفحہ۳۱۵۔

۵۔ سیوطی، تفسیر المدرالمنثور، جلد۶،صفحہ۷۴اورتاریخ الخلفاء،صفحہ۱۷۰۔

۴۹

۶۔ ابن عمر یوسف بن عبداللہ، کتاب استیعاب، جلد۳،صفحہ۱۱۰۔

۷۔ بلاذری، انساب الاشراف، جلد۲،صفحہ۹۶،حدیث۱۹،اشاعت اوّل از بیروت۔

۸۔ متقی ہندی کنزالعمال، جلد۱،صفحہ۲۵۱،اشاعت اوّل اور اسی طرح احمد بن حنبل ۔

کتاب فضائل میں اور ابن اثیر کتاب جامع الاصول میں، طبری کتاب ریاض النضرہ میں اور بہت سے دوسرے۔

اُنیسویں آیت

علی صالح المو منین ہیں

( وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ )

”اور اگر تم دونوں ہمارے رسول کے برخلاف ایک دوسرے کے پشت و پناہ بنو تو اللہ ، جبرئیل اور صالح مومنین اُس کے مددگار ہیں“۔(سورئہ تحریم:آیت۴)

تشریح

یہ نکتہ توجہ طلب ہے کہ اگرچہ کلمہ”صالح المومنین“ اپنے اندر وسیع تر معنی رکھتا ہے اور تمام صالح مومنین اور پرہیز گار اس میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن مومن کامل اور اکمل ترین انسان کون ہے؟اس کے لئے ہمیں روایات سے مدد لینا ہوگی اور روایات کو دیکھنا ہوگا۔ تحقیق کرنے پر بڑی آسانی سے ہم منزل تک پہنچ جائیں گے ۔ شیعہ علماء سے منقول روایات کے علاوہ اہل سنت نے بھی بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ ان سب سے یہی پتہ چلتا ہے کہ متذکرہ بالا آیت میں صالح مومنین سے مراد ذات مقدس امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ یہاں ہم چند ایک روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

(ا)۔عَنْ اَسماءِ بنتِ عُمَیس قٰالَتْ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ یَقْرَأُ هٰذِهِ الآیَة:وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ، قَالَ صَالِحُ المُومِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْطَالِب ۔

۵۰

”اسماء بنت عمیس روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے پیغمبر اسلام سے یہ آیت سنی( وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلٰهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ ) آیت پڑھنے کے بعد پیغمبر خدا نے فرمایا کہ صالح المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں“۔

(ب)۔عَنْ السُّدی عَن ابنِ عَبَّاس، فِی قَولِه عَزَّوَجَلَّ’وَصَالِحُ المُومِنِیْنَ قَالَ:هُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِب ۔

”سدی، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کہ جس میں صالح المومنین کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

(ج)۔عَنْ مُجٰاهِد فی قَولِهِ تَعٰالٰی:”وَصَالِحُ المُومِنِیْنَ“ قَالَ: صَالِحُ المُومِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِب ۔

”مجاہد سے روایت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس کلام میں جہاں صالح المومنین کا تذکرہ ہے، وہاں صالح المومنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۹۸۴ اور ۹۸۵،جلد۲،صفحہ۲۵۷۔

۲۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، باب۶۷،جلد۱،صفحہ۳۶۳۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۲۴۴اور اشاعت دیگر صفحہ۲۶۹،۲۷۰۔

۴۔ ابن مغازلی، مناقب امیر المومنین میں، حدیث۳۱۶،صفحہ۲۶۹،اشاعت اوّل۔

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایت الطالب میں، باب۳۰،صفحہ۱۳۷۔

۶۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال میں،حدیث لا شی، جلد۱،صفحہ۲۳۷، اشاعت اوّل۔

۷۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۴۲۵، اشاعت دوم، حدیث۹۳۲،۹۳۳۔

۸۔ ابن حجر فتح الباری میں، جلد۱۳،صفحہ۲۷۔

۵۱

بیسویں آیت

قیامت کے دن لوگوں سے ولایت علی کے بارے میں سوال کیا جائے گا

( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ )

”اور ان کو ٹھہرا ؤ کہ ابھی ان سے سوالات کئے جائیں گے“۔(سورئہ صافات:آیت۲۴)

تشریح

سورئہ مبارکہ صافات کے ایک حصہ میں جہاں پروردگار قیامت اور اس کے متعلقہ مسائل اور عذاب عظیم جو مشرکین اور گمراہوں کے انتظار میں ہے، کے بارے میں بیان فرماتا ہے، اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) سے اپنے تمام فرشتوں اور ملائکہ کو اُس دن دوسرے احکام کے ساتھ یہ اہم حکم دے گا اور وہ حکم یہ ہوگا کہ اے میرے فرشتو ! ان کو روک لو ، ابھی ان سے سوال کیا جائیگا۔

لوگوں کے اس سوال پر کہ قیامت والے دن اس آیت کے مطابق کونسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے مختلف جواب دئیے ہیں۔ کچھ نے کہا ہے کہ توحید کے بارے میں سوال کیا جائے گا، کچھ نے کہا ہے کہ اُس دن لوگوں سے بدعتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو وہ دنیا میں چھوڑ گئے، کچھ اوروں نے مختلف دیگر چیزوں کا ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ جوابات آیت کے مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اہل سنت اور شیعہ کتب میں بہت سی روایات موجود ہیں جن کے مطابق باقی اہم سوالوں کے علاوہ جو مجرموں سے پوچھے جائیں گے، ولایت علی ابن ابی طالب کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔ اس مطلب کی وضاحت کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبِیْ سعید خدری، عَنْ النبی فی قوله تعالٰی ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) قال: عَنْ وِلَایَةَ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِب ۔

”ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) ک ی تفسیر میں فرمایا کہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

۵۲

(ب)۔وَرَوِیٰ اَبُوالْاَحْوَضِ عَنْ أَبی اسحٰاقِ فی قولِهِ تعٰالٰی: ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) قَالَ یَعنی مِنْ وِلَایَةِ عَلِیِّ ابنِ اَبِی طَالِب اِنَّهُ لَا یَجُوْزُ اَحَدُالصِّرَاطَ اِلَّا وَبِیَدِهِ بَرَاةً بِوِلَایةِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب ۔

”ابو احوض، ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس آیہ شریفہ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) کی تفسیر میں کہا کہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائیگااور مزید کہا:”اِنَّهُ لَا یَجُوْزُ اَحَدُالصِّرَاطَ اِلَّا وَبِیَدِهِ بَرَاةً بِوِلَایَةِ عَلِی“ ’ کسی کو پل صراط سے گزرنے کا حق حاصل نہ ہوگا مگر وہ جس کے ہاتھ میں ولایت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کا پروانہ ہوگا‘۔

(ج)۔عَنْ اِبْنِ عباس فِی قولِه عَزَّوَجَلَّ ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْن ) قَالَ:عَنْ وِلَایةِ علی ابنِ ابی طالب ۔

”ابن عباس سے اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْن ) کي باري م یں روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب۴،جلد۱،صفحہ۷۹۔

۲۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ۷۸۷،جلد۲،صفحہ۱۰۶،اشاعت اوّل۔

۳۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال، باب حال علی بن حاتم، ج۳،ص۱۱۸،شمارہ۵۸۰۲۔

۴۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۴۷۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۳۷،صفحہ۱۳۳اور اسی کتاب میں

باب مناقب ،صفحہ۲۸۲،حدیث۵۱۔

۶۔ خوارزمی، کتاب مناقب، باب۱۷،صفحہ۱۹۵۔

۷۔ ہیثمی، کتاب صواعق المحرقہ، صفحہ۸۹اور کتاب لسان المیزان،جلد۴،صفحہ۲۱۱۔

۸۔ ابن جوزی، کتاب تذکرة الخواص، باب دوم، صفحہ۲۱۔

۵۳

اکیسویں آیت

اللہ تعالیٰ نے جنگوں اور مشکلات میں مسلمانوں کی مدد علی کے وسیلہ سے کی

( وَرَدَّاللّٰهُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْابِغَیْظِهِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًاوَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَالَوَکَانَ اللّٰهُ قَوِیًّا عَزِیْزًا )

”اور اُن لوگوں کو جو کافر ہوگئے تھے، اللہ نے اُن کے غصے ہی کی حالت میں لوٹا دیا کہ وہ کسی مراد کو نہ پہنچیں اور اللہ نے مومنوں پر لڑائی کی نوبت ہی نہ آنے دی اور اللہ صاحب قوت اور صاحب غلبہ ہے“۔(سورئہ احزاب: آیت۲۵)۔

تشریح

یہ آیت سورئہ احزاب سے ہے جس کی کچھ دوسری آیتیں جنگ خندق(جنگ احزاب) کے متعلق ہیں۔ جنگ خندق ایسی جنگ ہوئی ہے جس میں مسلمانوں کو کامیابی معجزانہ طور پر نصیب ہوئی اور بغیر کسی وسیع قتل و غارت کے کفار شکست خوردہ اور مایوس ہوکر مدینہ کے محاصرے کو توڑ کر ناکام واپس اپنے علاقوں کی طرف چلے گئے۔اس میں مدد غیبی کی ایک شکل تو قدرت کی طرف سے زبردست طوفان اور سخت ترین سرد ہوائیں چلیں جس نے کفار کے حوصلے پست کردئیے ۔ اُن کے دلوں میں خدائی طاقت کا رعب اور ڈر بیٹھ گیا اور دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام نے اُن کے طاقتور ترین پہلوان اور جنگجو یعنی عمر بن عبدود پر وہ کاری ضرب لگائی کہ وہ نیست و نابود ہوگیا۔ اس سے کفار کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا اور وہ مایوسی میں تبدیل ہوگئیں۔ کفارکے بڑے بڑے سرداروں کے حوصلے پست ہوگئے۔

اس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کی فداکاری اور کارکردگی اتنی اہمیت کی حامل تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:

”لَمُبارِزَةُ عَلِی ابنِ ابی طالب لِعُمروبنِ عَبدُوَدیَومَ الْخَنْدَقِاَفْضَلُ مِنْ اَعْمٰالِ اُمَّتِیْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰامَةِ“

”حضرت علی علیہ السلام کی جنگ خندق میں ایک ضربت میری تمام اُمت کی قیامت تک کی عبادت سے افضل ہے“۔

حاکم، کتاب المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۳۲۔

شیخ سلیمان قندوزی، ینابیع المودة، باب۲۳،صفحہ۱۰۹اور باب۴۶،ص۱۶۱اوربہت سے دوسرے۔

۵۴

اب اس آیت کی تفسیر میں چند ایک روایات بیان کی جارہی ہیں جو توجہ طلب ہیں:

(ا)۔عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ اِنّه کَانَ یَقْرَاُ هٰذِهِ الآیة”وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَالَ“ بِعَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”عبداللہ بن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ وہ یہ آیت

( وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال )

تلاوت فرمارہے تھے اور اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام کی ذات مقدس کو لے رہے تھے“۔

(ب)۔عَنْ عبداللّٰهِ بن مسعود قَالَ: لَمَّا قَتَلَ عَلِیٌّ عمروبن عَبْدُوَدْ یَوْمَ الْخَنْدَقِ، اَنْزَلَ اللّٰهُ تعالٰی:”وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال“بِعَلِیٌّ ۔

”عبداللہ بن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے جنگ خندق میں عمربن عبدود کو ہلاک کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت

( وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال )

حضرت علی علیہ السلام (کے عمل) کی خاطر نازل فرمائی“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی کتاب شواہد التنزیل میں، شمارہ۶۲۹،جلد۲،صفحہ۳۔

۲۔ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، باب حال امیرالمومنین ، شمارہ۹۲۷،جلد۲،صفحہ۴۲۰،

اشاعت دوم(شرح محمودی)۔

۳ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، شمارہ۴۱۴۹،جلد۲،صفحہ۳۸۰۔

۴۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۴۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب۲۳،صفحہ۱۰۸اور باب۴۶،ص۱۶۱۔

۶۔ سیوطی تفسیر الدالمنثور میں، جلد۵،صفحہ۲۰۹۔

۵۵

بائیسویں آیت

علی اورفاطمہ علم و معرفت کے دریائے بیکراں ہیںاور حسن و حسین اُن کے انتہائی قیمتی موتی ہیں

( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِبَیْنَهُمَابَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِفَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَآ تُکَذِّبٰنِیَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلو وَالْمَرْجَانُ )

”اُس نے دودریا بہادئیے، وہ باہم ملتے ہیں اور اُن دونوں کے مابین پردہ ہے کہ ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کرسکتا۔پھر تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ اُن دونوں سے موتی اور مونگا برآمد ہوتے ہیں“۔(سورئہ رحمٰن:آیات۱۹تا۲۱)۔

تشریح

وہ افراد جو قرآن اور علوم قرآن سے واقف ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کتاب آسمانی اپنے اندر معنی کا سمندر رکھتی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک آیت بعض اوقات چند معنی رکھتی ہو اور بعض اوقات بیسیوں معنی رکھتی ہو جبکہ اُن کا ہر معنی اپنی جگہ قابل توجہ اور اہمیت کا حامل ہو اور وہ ایک دوسرے سے ٹکراؤ بھی نہ رکھتے ہوں۔مثال کے طور پر یہ چند آیات جو سورئہ رحمٰن سے ہیں اوراوپر بیان کی گئی ہیں، اس طرح کی آیات ہیں جن کے مختلف معنی نکل سکتے ہیں۔

وہ لوگ جو ان آیات کو ظاہری اعتبار سے دیکھتے ہیں تو اُن کے اذہان میں یہی معنی آتے ہیں کہ کرئہ ارض کے بڑے بڑے دریا اور سمندر جو اس کے تین چوتھائی حصے پر پھیلے ہوئے ہیں اور اُن کے اندر بڑے بڑے قیمتی گوہر اور معدنیات موجود ہیں، یہ خدائے بزرگ کی طرف سے عظیم نعمتیں ہیں۔ یہ سب ،انسان کو غوروفکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ دیکھیں کہ خدا نے انسان کیلئے کس طرح یہ دریااور سمندر پھیلائے اور اُن میں بیش بہا نعمتیں پیدا کیں۔ لیکن ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ ان آیات کے دوسرے مطالب ہیں جو مقصود خالق ہیں۔

۵۶

روایات اور اطلاعات جو اسلامی تاریخ میں موجود ہیں، اُن کو بغور دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان آیات سے دو عظیم ہستیوں کا تعارف کروانا مقصود ہے۔ وہ ہستیاں جو علم و معرفت اور کمال کے دریائے بیکراں ہیں اور ان سے ملنے والے دو قیمتی موتی حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ہیں۔توضیح کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں:

عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰه عنه فی قوله تعالٰی ( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن ) قال:علی و فاطمه ،( بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ ) اَلنّبی،( یَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلو وَالْمَرْجَانُ ) قال:اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْن علیهماالسلام ۔

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ تفسیر( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن ) سے مراد علی علیہ السلام اور فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں۔”بَیْ نَھُمَابَرْزَخٌ لَّایَبْغِ یٰن“ سے مراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے(پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات جناب علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے درمیان وہ واسطہ ہے جس سے یہ صحیح بندگی خدا اور اُس کی عبودیت کے لئے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح اُن کی ذات گرامی سے خود بھی فیض یاب ہوتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے بطور نمونہ اُن کی رہنمائی اور ہدایت کا باعث بنتے ہیں)۔( یَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلووَالْمَرْجَانُ ) سے مراد امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام ہیں۔

یہ قابل توجہ بات ہے کہ درج بالا روایت کو علمائے اہل سنت نے دوسرے صحابہ سے بھی نقل کیا ہے اور شیعہ علماء نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے اور یہ روایت بجائے خود بہت اہمیت کی حامل ہے۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۱۵۸اور دوسری اشاعت میں ج۶،ص۱۴۲

۲۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل ، حدیث۹۱۹،ج۲،ص۲۰۹،اشاعت اوّل،ج۲،

صفحہ۲۱۲،اشاعت دوم۔

۳۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین ، صفحہ۳۳۹،حدیث ۳۹۰۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۳۹،صفحہ۱۳۸۔

۵۷

۵۔ ثعلبی، تفسیر ثعلبی میں جلد۴،صفحہ۲۸۹۔

۶۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب ”مانزل من القرآن فی علی “،اس آیت کی تشریح میں۔

۷۔ شبلنجی، کتاب نورابصار میں، صفحہ۱۰۱۔

۸۔ خوارزمی، کتاب مقتل الحسین ، صفحہ۱۱۲۔

۹۔ کراجکی، کتاب کنزالفوائد میں، صفحہ۳۶۶۔

تئیسویں آیت

علی اور اہل بیت سے محبت نیکی ہے اور ان سے بغض گناہ ہے

( مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرٌ مِّنْهَا وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍاٰمِنُوْنَ وَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعَْمَلُوْنَ )

”جو شخص کوئی نیکی لے کر آئے گا پس اُس کیلئے اس کا عوض اس سے بہتر موجود ہے اور وہ اُس دن خوف سے امن میں ہوں گے اور جو بدی لے کر آئے گا وہ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے، جو کچھ تم کرتے تھے، اُسی کا بدلہ تمہیں ملے گا“(سورئہ نمل:آیت۸۹اور۹۰)

تشریح

اس آیت میں دو الفاظ یعنی”حَسَنَةِ“ اور”سَيِّئَةِ“ استعمال ہوئے ہیں۔آیت کا اصلی مقصد بھی انہی کو سمجھانا ہے کہ نیکی اور بدی اصل میں کہتے کسے ہیں کیونکہ اس کا انسان کی مادّی اور روحانی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

”حَسَنَةِ“ اور”سَيِّئَةِ“ ، یہ دوالفاظ اس آیت میں اور قرآن کی دیگر آیات میں استعمال ہوئے ہیں۔ان الفاظ کے مفہوم اور معنی نہایت وسیع ہیں مثلاً”حَسَنَةِ“ میں تمام نیک اور پسندیدہ اعمال شامل ہیں اور ان میں سرفہرست خدا پر ایمان، اُس کے پیغمبر پر ایمان اور حضرت علی علیہ السلام اور آئمہ علیہم السلام کی ولایت پر ایمان ہے اور”سَيِّئَةِ“ میں تمام قبیح اور ناپسندیدہ اعمال شامل ہیں جو انسان کو خدا اور اُس کے رسول

۵۸

اور اُس کے اولیائے حق کے خلاف سرکشی پر ابھارتے ہیں اور یہ ”حَسَنَة“کی مکمل ضد ہے۔ لیکن ان کلمات کی تفاسیر اور تعابیر جو ہم تک آئمہ معصومین کے ذریعے سے پہنچی ہیں اور جسے بہت سے علمائے اہل سنت اور شیعہ نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے، کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ”حَسَنَة“ سے مراد قبول ولایت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور اُن کی اولاد ہیں اور ”سَےئَة“ سے مرادعدم قبول ولایت علی اور اولاد علی ہے۔درج ذیل روایت میں اسی بات کی تفسیر ہے:

عَنْ ابی عبدِاللّٰهِ الجَدَلِی قال: قٰال لی علی علیه السلام:اَلٰا اُنَبِّئُکَ بِالْحَسَنَةِ الَّتِی مَنْ جٰاءَ بِهٰااَدْخَلَهُ اللّٰهُ الجَنَّةَ وَبِالسَّيّئَةِ الَّتِی مَنْ جٰاءَ بِهٰااَکَبَّهُ اللّٰهُ فِی النّٰارِوَلَمْ یُقْبَلُ لَه عَمَلاً؟ قُلْتُ بلٰی ثُمَّ قَرَأَ(امیرالمومنین) مَنْ جٰاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرُ مِنْهٰاوَهُمْ مِنْ فَزَعِ یَومَئِذٍآمِنُوْنَ وَمَنْ جٰاءَ بالسَّيّئَةِ فَکُبَّتْ وَجُوْهَهُمْ فِی النَّارِهَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ثُمَّ قٰالَ: یٰا أَبٰاعَبْدِاللّٰهِ، اَلْحَسَنَةُ حُبُّنٰاوَالسَّيِّئَةُ بُغْضُنَا

”ابو عبداللہ جدلی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:’کیا میں تجھے اُس نیک عمل کی خبر نہ دوں کہ جو کوئی اُس کو انجام دے گا، پروردگار اُس کو بہشت میں داخل کرے گا اور کیا تجھے اُس بدعمل کی خبر نہ دوں کہ اُسے جو کوئی انجام دے گا، پروردگار اُسے جہنم میں پھینکے گااور اُس کاکوئی دوسراعمل بھی قبول نہ ہوگا‘۔

میں نے عرض کی:’ہاں مولا! میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اس سے باخبرکریں‘۔ حضرت علی علیہ السلام نے پھر یہ آیت پڑھی:

مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرٌ مِّنْهَا وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍاٰمِنُوْنَوَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِهَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلَُوْنَ

پھر فرمایاحَسَنَةہم اہل بیت سے محبت ہے اورسَےئَة اہل بیت سے بغض و دشمنی ہے۔اسی طرح بعض دوسری روایات میں آیاہے کہ آپ نے اس بارے میں فرمایا:

”اَلْحَسَنَةُ مَعْرِفَةُ الْوِلَایَةِ وَحُبُّنٰا اَهْلِ الْبَیْتِ وَالسِّيِّئَةُ اِنْکَارُ الْوِلَایَةِ وَبُغْضُنَا اَهْلَ الْبَیْتِ“ ۔

”حَسَنَة یعنی معرفت ولایت علی علیہ السلام اورہم اہل بیت سے محبت ہے اور سَّےئَة یعنی انکار ولایت علی علیہ السلام اور ہم اہل بیت سے بغض و دشمنی ہے“۔

۵۹

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب۶۱،جلد۲،صفحہ۲۹۹۔

۲۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۵۸۲،۵۸۷،ج۱،ص۴۲۶،۴۲۸

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۲۴،صفحہ۱۱۳۔

۴۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں، جلد۲۔

۵۔ الحنینی کتاب خصائص الوحی المبین، صفحہ۱۲۸۔

۶۔ رشید الدین، مناقب آل علی ، جلد۲،صفحہ۲۲۵،عنوان درجات علی عند قیام الساعة۔

چوبیسویں آیت

اللہ تعالیٰ علی کے وسیلہ سے کفارو مشرکین سے انتقام لیتا ہے

( فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ )

”پس اگر تم کو ہم لے جائیں گے تو ہم اُن سے بھی ضرور ہی بدلہ لینے والے ہیں“۔

(سورئہ زخرف:آیت۴۱)۔

تشریح

سورئہ مبارکہ زخرف میں اللہ تعالیٰ کفار کی حرکتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے پیغمبر کی تسلی اور سکون کی خاطر فرمارہا ہے کہ کفار کی چالوں کی وجہ سے اسلام کے مستقبل کے بارے میں بالکل پریشان نہ ہوں کیونکہ اگر وہ کفر، ظلم اور انتقام جوئی کو ترک نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ بھی یقینا اُن سے انتقام لے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بشری زندگی کے مختلف زمانوں میں اپنے قابل دید اور ناقابل دید لشکروں سے کفار، منافق اور مشرکوں سے انتقام لیتا رہا ہے اور اُن کوسزائیں دیتا رہا ہے اور یہ عمل اُس کیلئے کوئی مشکل نہیں کیونکہ اُس کی ذات

( فَعَّالٌ لِمٰا یُرِیْد )

”وہ جو چاہتا ہے ، کرتا ہے“۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تکرار وسوسہ شیطانوں کا اہم اسلحہ

شیطانوں کا ایک اسلحہ انسانوں کو گمراہ کرنے کے لئے ان کے اندر مسلسل وسوسہ ڈالنا اوران کے ذہن وعقل میں نفوذ پیدا کرنا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن ان کو وسواس اور خناس کے لقب سے یاد کرتا ہے اورانسانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ جنّ و انس کے شیاطین کے شر سے خدا کی پناہ مانگیں، اس لئے کہ شیاطین، انسان کے دل پر مسلسل وسوسہ اندازی سے چاہتے ہیں کہ انسانوں کے ذہن و عقل کو اپنے تسلط میں لے لیں اور ان کے افکار کو ہلاکت و گمراہی کے گڑھے کی طرف موڑ دیں۔

شیطان اور شیطان صفت انسان خود جانتے ہیں کہ خدا پرست لوگوں کے اذہان میں شیطانی تخیلات کو جگہ دینے کے لئے ضروری ہے کہ اتنا بولیں، لکھیں اور تکرار کریں کہ اذہان کو اپنے باطل تخیلات سے مانوس کر کے دھیرے دھیرے ان کی فکر و عقل میں نفوذ کر جائیں۔ خود وہ لوگ کہتے ہیں کہ اس قدر بولنا، لکھنا اور تکرار کرنا چاہئے کہ لوگوں کو شک و شبہہ میں مبتلا کردیں۔

وہ لوگ ابلیس کی وسوسہ اندازی سے سب سے پہلے طالب علموں اور تعلیم یافتہ طبقہ کو منحرف اور گمراہ کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو فریب دیکر عام لوگوں کواور زیادہ گمراہ کرسکیں گے۔ لیکن وہ اس بات سے غافل ہیں کہ خداوند متعال نے مسلمانوں اور شیعوں کی ہدایت کے لئے روشن مشعلیں قرار دی ہیں اور مسلمان لطف الٰہی اوردینی علوم و معارف سے الہام کے ذریعہ دشمنوں کی شیطانی سازشوں کو بھانپ لیں گے اور روز بروز قرآن کی پیروی میں پہلے سے زیادہ محکم و پائدار ہوتے جائیں گے۔

۱۲۱

متشابہات سے استناد، قرآن کے مقابلہ میںایک دوسری سازش

اس کے پہلے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کا ایک عہدہ وحی الٰہی کی تفسیر و توضیح ہے، چونکہ قرآن میں محکمات و متشابہات ہیں اور جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا گیا کہ اس میں ظاہر و باطن بھی ہیں کہ اس کے معارف کی گہرائیوں کا حصول پیغمبر اور ائمۂ معصومین اور علوم الٰہی سے واقف حضرات کے علاوہ کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور اس کی تفسیر و توضیح مکتب اہلبیت کے تعلیم یافتہ افراد کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔

چونکہ حکم عقل اور سیرۂ عقلاء کے مطابق جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا لازم ہے، لہٰذا قرآن اور دین کے معارف سمجھنے کے لئے اس کتاب الٰہی کے لانے والے اور ائمۂ معصومین (ع) اور ان حضرات کے مکتب کے تعلیم یافتہ افراد کی طرف رجوع کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ تمام انسان عقلائی سیرت و روش کی پیروی کریں یا اپنے کو عقل و فہم اور سمجھنے اور سمجھانے کے منطقی اصول کا پابند سمجھیں۔

ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو لوگوں کو صرف گمراہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کا مقصد معاشرہ میں شبہہ اور فتنہ پیدا کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ قرآن نے بھی اس بات کی پیشین گوئی کی ہے:

۱۲۲

(وَ هُوَ الَّذِی أَنزَلَ عَلَیکَ الکِتَابَ مِنهُ آیَات مُحکَمَات هُنَّ أُمُّ الکِتَابِ وَ أُخَرُ مُتَشَابِهَات فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم زَیغ فَیَتَّبِعُونَ مَاتَشَابَهَ مِنهُ ابْتِغَائَ الْفِتنَةِ وَ ابْتِغَائَ تَأوِیْلِهِ وَ مَا یَعلَمُ تَأوِیلَهُ اِلاَّ اللّٰهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِی العِلمِ یَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ کُلّ مِن عِندِ رَبِّنَا وَ مَایَذَّکَّرُ اِلاَّ أُولُوا الأَلبَابِ)۱

یعنی ''اس (خدا) نے آپ (پیغمبر) پر وہ کتاب نازل کی ہے جس میں سے کچھ آیتیںمحکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں، اب جن کے دلوں میں کجی ہے وہ انہیں متشابہات کے پیچھے لگ جاتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور من مانی تاویلیں کریں حالانکہ اس کی تاویل کا علم صرف خدا کو ہے ا ور انھیں ہے جو علم میں رسوخ رکھنے والے ہیں، جن کا کہنا یہ ہے کہ ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ سب کی سب محکم و متشابہ آیات ہمارے پروردگار ہی کی طرف سے ہیں اور یہ بات سوائے صاحبان عقل کے کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے''۔

اس آیۂ کریمہ نے قرآن کریم کو دو حصوں میں یعنی محکمات و متشابہات میں تقسیم کیا ہے اور محکمات کو ''ام الکتاب'' (اصل کتاب) کے نام سے یاد کیا ہے ۔ قرآن کا ایک حصہ آیات محکمات ہیں جو دوسرے حصہ یعنی متشابہات کی نسبت جڑ اوراصل ہیں۔

محکمات قرآن سے مراد وہ آیات ہیں کہ جن کے معانی واضح و روشن ہیں اور ان کے معارف قابل شک و شبہہ نہیںہیں۔ یہ آیات، معارف قرآن کے اصول و امہات پر مشتمل ہیں۔ انھیں کے مقابل وہ آیات ہیں جو محکمات کا سہارا لئے بغیر قابل فہم نہیںہیں اور ایسا نہیں ہے کہ تمام لوگ ان کے معنی کی گہرائی تک پہنچ جائیں۔ آیات قرآن کے اس حصہ کو متشابہات کہا جاتا ہے۔

قرآن نے لوگوں کو متشابہات کی پیروی سے، محکمات نیز پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کی تفسیر و توضیح کی طرف توجہ کئے بغیر منع کیا ہے۔ قرآن کریم متشابہات کی پیروی کودل کے انحراف و کجی کی نشانی سمجھتا ہے اور فرماتا ہے کہ جو لوگ قرآن کے متشابہات کو اپنی فکر و فہم اوراپنے اعتقادات کا معیار قرار دیتے ہیں وہ قرآن کی من مانی تاویل و تحریف اور فتنہ برپا کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن کے بقول، آیات متشابہات کی تاویل و تفسیر خدا، راسخون فی العلم اور ائمۂ معصومین (ع) کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا۔ علم میں راسخ وہ لوگ ہیں جنھوںنے دل و جان سے خدا کی بندگی کو قبول کیا ہے اور کہتے ہیں کہ ہم قرآن پر ایمان لائے ہیں، خواہ وہ قرآن کے محکمات ہوں یا متشابہات، سب پروردگار کی طرف سے ہیں۔

(۱) سورۂ آل عمران، آیت ۷ ۔

۱۲۳

قرآن میں متشابہات کی حکمت

یہاں پر ممکن ہے یہ سوال کیا جائے کہ کیوں قرآن اس طرح نازل نہیںہوا ہے کہ اس کی تمام آیتیں واضح و محکم اور بغیر کسی ابہام و اجمال کے ہوں تاکہ سب کے لئے یکساں طور پر قابل فہم و استفادہ ہوں؟

اس سوال کے جواب کے لئے پہلے ایک مختصر سا مقدمہ بیان کرتے ہیں: ہم عام انسانوں کا ذہن فطری عوامل کا تابع ہے۔ عام انسان جب پیدا ہوتا ہے تو حواس کے ذریعہ پہلے محسوسات سے آشنا ہوتا ہے اور شروع میں اس کا ادراک و فہم محسوسات و مادیات کے حدود میں محدود ہوتا ہے، لیکن دھیرے دھیرے انسان کی فکری قوتیںبڑھتی ہیں اور وہ تجرید و تعقل کی قدرت پیدا کر لیتا ہے، نتیجہ میںاس کو مادیات سے مافوق مطالب کے درک کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جاتی ہے۔

انسان کی عقل جس قدر تجرید و تعقل کی قدرت کی حامل ہوگی اور مادہ و مادیات کے حدود سے آگے بڑھے گی اتنا ہی وہ طبیعت سے ماوراء حقائق کو بہتر طور پر درک کرے گی اور چونکہ تمام انسان عقلی نشو و نما کے اعتبار سے مساوی نہیں ہیں لہٰذا غیر محسوس امور کے ادراک کے اعتبار سے بھی برابر نہیں ہیں۔

ایسے انسانوں کی کمی نہیں ہے کہ جن کی عمر کے دسیوں سال گزر جاتے ہیں، لیکن ان کی عقل و فہم سات، آٹھ سال کے بچوں کی سی ہوتی ہے او رایک عمر گزر جانے کے بعد بھی ممکن ہے کہ وہ خدا اور مجرد چیزوں کو زمان و مکان کی حدوں میں محدود تصور کریں، جبکہ دین کی بنیاد، غیب پر ایمان رکھنا ہے، یعنی مجرد اور غیر مادی حقائق پر ایمان رکھنا، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:

(ذٰلِکَ الکِتَابُ لارَیبَ فِیهِ هُدیً لِلمُتَّقِینَ الَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِالغَیبِ)۱

یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے یہ متقین کے لئے مجسم ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس بنا پر ایمان کی بنیاد یہ ہے کہ انسان محسوسات سے مافوق حقائق پر ایمان لائے اور ان پر اعتقاد رکھے۔ لیکن ان حقائق کی کنہ و حقیقت کیا ہے؟ ایک ایسا مطلب ہے کہ جس کا سمجھنا الٰہی الہامات کے علاوہ ممکن نہیںہے جو کہ انبیاء اور ائمۂ معصومین (ع) کے دل پروارد ہوتے ہیں۔

(۱) سورۂ بقرہ، آیت ۲ ۔

۱۲۴

ہم عام انسان طبیعت سے ماوراء تھوڑے سے امور و حقائق کو درک کرنے کے لئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رکھتے کہ اپنی عقلی قوتوں کو تقویت دیںاوردھیرے دھیرے محسوسات سے مجردات کی طرف اور مافوق طبیعت امور کی طرف آگے بڑھیں۔

دوسری طرف جوالفاظ مجردات کے متعلق استعمال ہوتے ہیں وہ اکثر ابتدا میں محسوس معانی کے لئے وضع کئے گئے ہیں:''یَدُ اللّٰهِ فَوقَ أَیدِیهِمْ'' ۱ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ یا''وَ هُوَ العَلِیُّ العَظِیمُ'' ۲ خدا بلند و بالا او رعظمت والا ہے۔ مذکورہ الفاظ، علی، عالی، علو سب بلند و بالا کے معنی میں ہیں جو کہ سافل اور نیچے کے مقابل ہیں۔

واضح ہے کہ انسان ابتدا میں ان الفاظ سے صرف حسی معنی سمجھتا ہے اور بس، مثلاً انسان اپنے سر کو اونچا اور اوپر ہونے کا معیار قرار دیتا ہے اور جو کچھ سر کے اوپر آسمان کی طرف پایا جاتا ہے اس کو ''اونچا'' سمجھتا ہے اور ''نیچے'' کے معنی کے لئے اپنے پاؤں کو معیار قرار دیتا ہے اور جو کچھ اس سے نیچے ہوتا ہے اسے نیچا سمجھتا ہے۔ اسی لئے کہتا ہے کہ آسمان اوپر اور زمین نیچے ہے۔ لیکن اجتماعی زندگی میں داخل ہونے کی صورت میں دھیرے دھیرے ان حسی معانی سے قدم آگے بڑھا کر ا ن کے انتزاعی اور غیر حسی معنی کو درک کرتا ہے، یعنی جس وقت کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کا مرتبہ بلند ہے یا اور بلند ہوگیا ہے تو پھر انسان اس لفظ سے سر سے اوپر ہونے کے اس حسی معنی کو نہیں سمجھتا اور مرتبہ نیچے آنے

سے وہ حسی معنی اس کے ذہن میں نہیں آتے۔

(۱) سورۂ شوریٰ، آیت ۱۱ ۔

(۲)سورۂ شوریٰ، آیت ۴ ۔

۱۲۵

سامنے کی بات ہے کہ ایسے استعمالات میں جو معنی مقصود ہوتے ہیں وہ مادی اور محسوس لوازم سے منزہ ہوتے ہیں۔

جب یہ کہا جاتا ہے کہ: ''جو (خدا) تمام وجود کو ایک ارادہ سے پیدا کرتا ہے اس کا مرتبہ بہت بلند ہے'' جس علو اور بلندی کی نسبت پروردگار کی طرف دی جاتی ہے وہ اس علو اور بلندی سے بہت اونچی ہے کہ جس کا اطلاق ایک رئیس پر اس کے نوکروں کی بہ نسبت ہوتا ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان کا فاصلہ، صفر اور لامتناہی اور حقیقت و مجاز کا ہے، اس لئے کہ ہر فرضی علواور مرتبہ، عاریتی اور فنا پذیر ہے، سوائے اس حقیقی علو اور بلندی کے جو کہ خداوند خالق کائنات کے شایان شان اور اسی سے مخصوص ہے۔ وہی ہے کہ''إنَّمَاأَمرُهُ اِذَا اَرَادَ شَیئاً اَن یَّقُولَ لَهُ کُن فَیَکُونُ'' ۱ یعنی اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کر لے کہ ہو جا تو وہ شے فوراً ہو جاتی ہے۔

اس بنا پر جس وقت قرآن کہتا ہے:''هُوَ الْعَلُِّ العَظِیمُ'' ۲ خداوند متعال کا علو نہ تو مادی اور محسوس علو ہے، نہ اس کے عظیم و بزرگ ہونے سے مادی اور محسوس معنی مراد ہے۔ لیکن یہ کہ خدا کے علو اور اس کی عظمت کی حقیقت کیا ہے؟ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ انسان کی عقل جس تک نہیں پہنچ سکتی۔ البتہ بہت سے مقامات پر کوئی دوسری لفظ بھی ان الفاظ کے علاوہ جو کہ محسوس معانی کے لئے استعمال ہوتے ہیں، نہیں ہے اور مجبوراً یہی

(۱) سورۂ یٰس ، آیت ۸۲ ۔

(۲) سورۂ بقرہ، آیت ۲۵۵ ۔

۱۲۶

الفاظ مجرد معانی کی طرف اشارہ کے لئے استعمال ہوتے ہیں، مثلاً ارشاد ہوتا ہے: ''خدا بلند اور بزرگ ہے'' بلند وہی لفظ ہے جو چھت کی بلندی کے لئے سطح زمین کی بہ نسبت استعمال کی جاتی ہے اور بزرگ بھی وہی لفظ ہے جو ہمالیہ پہاڑ کے متعلق استعمال کی جاتی ہے، لیکن جس وقت یہ الفاظ خدا کے لئے استعمال ہوتے ہیں تو وہ اپنے محسوس معانی سے الگ ہو جاتے ہیں، البتہ پھر بھی ایسا نہیں ہے کہ الگ ہونے کے ساتھ بھی اس کی حقیقت تک پہنچا جاسکے۔

کہا جاتا ہے کہ وہ الفاظ و معانی کہ جن کی حقیقت کو مذکورہ طریقہ سے پہچانا جاتا ہے وہ ایک قسم کے تشابہ کے حامل ہیں کہ ابہام او رمغالطہ کا باعث ہوسکتے ہیں۔ جو شخص ابھی مذکورہ معانی کو حسی شوائب و لوازم سے مجرد اور منزہ نہیں کرسکا ہے جب اس کے سامنے کہا جاتاہے خدا بلند اور اُوپر ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا آسمانوں کے اوپر ہے جبکہ خدا جسم نہیںہے کہ اس کے لئے مکان کا تصور کیا جائے:''أَینَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجهُ اللّٰهِ'' ۱ (تم جس جگہ بھی رخ کرو گے سمجھو وہیں خدا موجود ہے)، لیکن وہ اس سے زیادہ نہیں سمجھتا، البتہ جتنا سمجھتا ہے اتنی ہی اس کی ذمہ داری ہے چونکہ اس سے زیادہ قدرت نہیں رکھتا۔

جو شخص اس مرحلہ سے آگے ہوتا ہے اور کچھ زیادہ قدرت فہم کا حامل ہوتا ہے نیز اعتباری معانی کو بھی درک کرتا ہے، جب اس کے سامنے کہا جاتا ہے:''إنّ اللّٰهَ عَلِیّ عَظِیم'' (بے شک اللہ بلند او رصاحب عظمت ہے) تو وہ فکر کرتا ہے کہ خدا بھی ایسا ہی

(۱) سورۂ بقرہ، آیت ۱۱۵ ۔

۱۲۷

بلند ہے جیسے نوکروں کی بہ نسبت ان کا مالک، لیکن یہ معنی کہاں اور خدا کی بلندی کہاں؟

جو شخص اپنی عمر علم و دانش اور حکمت کی تحصیل اور مجرد معانی کودرک کرنے میں گزارتا ہے وہ مذکورہ معانی سے بہت بلند اور بہتر علو اور بلندی کا معنی درک کرتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا اپنے ماسوا تمام عالمین کی نسبت وجودی علو اور بلندی رکھتا ہے۔

تمام مخلوقات وجود رکھتی ہیں او رخدا بھی وجود رکھتا ہے، لیکن خداوند تبارک و تعالی کا وجود، وجودی مرتبہ کی بلندی کے اعتبار سے دوسری موجودات کے ساتھ قابل مقائسہ نہیں ہے، لیکن پھر یہ کہ اس وجودی مرتبہ کے علو اور بلندی کی حقیقت کیا ہے؟ یہ ایسی بات ہے کہ ہر شخص اپنی فہم اور سمجھ کے مطابق اس سے نزدیک ہوسکتا ہے، اگر چہ اس کی کنہ و حقیقت کا درک ہر شخص کے لئے ممکن نہیں ہے۔ اب ہم مذکورہ توضیح کے پیش نظر کہتے ہیں کہ جس وقت خدا ہم انسانوں کے لئے ان امور کے متعلق جو کہ ہماری عام اور عادی فہم سے بالاتر ہیں بیان کرنا چاہے تواسے ایسے الفاظ استعمال کرنا چاہئے کہ جن میں غور و فکر کر کے ہر انسان اپنی فہم کے مطابق ان کو درک کرے، اگر چہ ان معانی کی حقیقت کا ادراک ہماری فہم سے بالاتر ہے۔ ایسے مقامات پر الفاظ ''متشابہ'' کے استعمال کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

اس بنا پر جو آیات طبیعت سے مافوق اور عام انسانوں کی سمجھ سے بالا تر امور کو بیان کرتی ہیں لامحالہ اس میں تشابہ کا ایک پہلو رہے گا۔ ان کی حقیقت تک محکمات کی مدد سے پہنچنا چاہئے۔ مثلاً جس وقت قرآن کہتا ہے :''هُوَ الْعَلُِّ العَظِیمُ'' ۱ اور ہم خدا

(۱) سورۂ شوریٰ، آیت ۴ ۔

۱۲۸

کے وجودی مرتبہ کی بلندی اور عظمت کی کنہ و حقیقت کو نہیں سمجھتے تو اس کو محکمات قرآن جیسے''لَیسَ کَمِثلِهِ شَٔ'' ۱ کے وسیلے سے تفسیر کرنا چاہئے تاکہ غلط فہمی اور غلط تفسیر سے دو چار نہ ہوں۔

پہلی آیت کہتی ہے کہ خدا بلند اور عظمت والا ہے اور دوسری آیت کہتی ہے کہ خدا کے مثل اور مانند کوئی چیز نہیں ہے، یعنی جس طرح کی بھی مرتبہ کی بلندی اور عظمت خدا کے لئے تصور کرو گے خدا کی بلندی اور عظمت کودرک نہ کر پاؤ گے، اس لئے کہ خدا اس سے بالاتر ہے۔

صفات خدا کے متعلق ایسا ہی ہے جب کہا جاتا ہے خدا عالم ہے، خدا قدرت رکھتا ہے، واضح ہے کہ علم کی حقیقت خدا کے متعلق اس معنی کے علاوہ اور اس سے بالاتر ہے جو انسان کے متعلق ذہن میں ذہنی صورتوں کے ادراک سے حاصل ہوتی ہے، لیکن خدا کے علم اور اس کی قدرت کی حقیقت کیا ہے؟ اور کلی طور سے خدا کے اوصاف کی حقیقت کیا ہے؟ ایسا مطلب ہے جو خدا کے علاوہ کہ جس کی ذات عین علم و عین حیات و قدرت ہے، کسی اور کے لئے قابل فہم نہیں ہے۔

خداوند متعال نے بھی اپنی طرف اور اپنے الٰہی اوصاف کی طرف انسان کی راہنمائی کے لئے و ہی الفاظ استعمال کئے ہیں کہ انسان پہلے جن سے محسوس معانی کو درک کرتا ہے تاکہ انسان ان بلند معارف سے بالکل بے بہرہ نہ رہے۔

(۱) سورۂ شوریٰ، آیت ۷ ۔

۱۲۹

اس بنا پر قرآن کریم میں آیات متشابہ کا وجود الٰہی حکمتوں میں سے ہے کہ جن کے بغیر انسان کا راستہ مجرد اور غیر محسوس معانی و معارف کے ادراک کے لئے بند ہو جاتا ہے، لیکن متشابہات سے استفادہ اور ان کی تفسیر و توضیح جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا گیا ایک ایسا مطلب ہے جو محکمات کی مدد سے واقع ہونا چاہئے، مگر ایسا نہیں ہے کہ وہ تمام افراد جو قرآن اور اس کے معارف کو سمجھنا چاہتے ہیں مذکورہ طبیعی، منطقی اور عقلائی طریقہ الٰہی معارف کو سمجھنے کے لئے انتخاب کریں۔

زیر بحث آیۂ کریمہ میں خداوند تعالیٰ قرآن میں متشابہ اور محکم آیات کے وجود کی طرف اشارہ کرتا ہے اور فرماتا ہے: وہ لوگ کہ''فِی قُلُوبِهِم زَیغ'' ۱ جن کے دلوں میں کجی ہے، روحی اعتبار سے پستی اور تیرگی کے حامل ہیں اور کج فکری و کج اندیشی میں مبتلا ہیں اور دوسری لفظوں میں''فِی قُلُوبِهِم مَرَض'' ۲ ان کا قلب اور ان کی روح بیمار ہے، ایسے لوگ آیات متشابہ کو اپنی فکر و عمل کا معیار قرار دیتے ہیں اور قرآن کی محکم آیات کی طرف توجہ کئے بغیر متشابہات کو محسوس معانی پر حمل کرتے ہیںاور اپنی اور دوسروں کی گمراہی کے لئے زمین ہموار کرتے ہیں ۔

(۱)سورۂ آل عمران، آیت ۷ ۔

(۲) سورۂ بقرہ ، آیت ۱۰ ۔

۱۳۰

حق و باطل کو مخلوط کرنا، گمراہوں کا دوسرا اسلحہ

واضح بات ہے کہ جو لوگ اسلامی معاشرہ میں دین، قرآن اور دینی اقدار و

معارف کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، وہ اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے کبھی براہ راست مقابلہ نہیں کرتے، کیونکہ بخوبی جانتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا اور پہلے ہی قدم پر شکست کھا جائیں گے۔ وہ لوگ نفسیاتی نکات سے استفادہ کر کے مناسب طریقے اور ہتھکنڈے اپنے شیطانی مقاصد حاصل کرنے کے لئے انتخاب کرتے ہیں۔

ان کے ان ہی ہتھکنڈوں میں سے ایک ہتھکنڈا حق و باطل کو مخلوط کرنا ہے۔ وہ لوگ حق و باطل کو آپس میں ملا دیتے ہیں اور حق و باطل کے ایک مجموعہ کی تبلیغ خوبصورت انداز میں کرتے ہیں تاکہ ان کے مخاطب افراد جو کہ اتفاقاً ضروری علم و آگاہی، باطل سے حق بات کی تشخیص کے متعلق نہیں رکھتے ان کی تمام بات کو قبول کرلیں اور نتیجہ میں وہ باطل مطلب جو کہ حق کی آرائش سے آراستہ کیا گیا ہے اور خوبصورت ادبی بیان کی نقاب کے پیچھے مخفی ہے، لاشعوری طور پر سننے والے کے ذہن و فکر میں جاگزیں ہو جائے۔

امیر المومنین حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:

''فَلَو إنّ البَاطِلَ خَلَصَ مِن مِزَاجِ الحَقِّ لَم یَخْفَ عَلٰی الْمُرتَادِینَ وَ لَو إنّ الْحَقَّ خَلَصَ مِن لَبْسِ الْبَاطِلِ انْقَطَعَتْ عَنْهُ أََلسُنُ المُعَانِدِینَ وَ لَکِن یُؤخَذُ مِن هٰذا ضِغث وَ مِن هٰذَا ضِغث فَیُمْزَجَانِ فَهُنَالِکَ یَسْتَولِی الشَّیطَانُ عَلٰی أَولِیَائِهِ وَ یَنْجُوْ الَّذِینَ سَبَقَتْ لَهُم مِنَ اللّٰهِ الْحُسْنیٰ''۱

(۱)نہج البلاغہ، خطبہ ۵۰ ۔

۱۳۱

یعنی ''اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلبگاروں پر مخفی نہ ہوسکتا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تودشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں، لیکن ایک حصہ اس میں سے لے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے، اور پھر دونوں کو ملادیا جاتا ہے پس ایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہو جاتا ہے اور صرف وہ لوگ نجات حاصل کر پاتے ہیں جن کے لئے پروردگار کی طرف سے نیکی پہلے ہی پہنچ جاتی ہے''۔

واضح بات ہے کہ گمراہ کن افراد اور جن کے قلب و روح میں قرآن کے بقول کجی اور تاریکی ہے اور خدا کے سامنے سراپا تسلیم نہیں ہیں وہ لوگ متشابہ آیات اور ان روایات کو جو کہ سند کے اعتبار سے مخدوش یا دلالت کے اعتبار سے متشابہ ہیں، اسلام کے خلاف اپنی تبلیغ اور فعالیت میں سرفہرست قرار دیتے ہیں اور قرآن کے محکمات، حق بات اور ان الٰہی معارف کے سننے سے بھاگتے ہیں جو کہ اہلبیت اورائمۂ معصومین (ع) کی زبان سے معتبر اسناد کے ساتھ وارد ہوئے ہیں۔

یہ لوگ جو کہ اپنے کو مسلمان سمجھتے ہیں، شعوری یا لاشعوری طور پر دشمنان اسلام کے ساتھ ہم آواز ہو جاتے ہیں، اس لئے کہ وہ لوگ بھی یہی چاہتے ہیں کہ جھوٹی باتوں کی اسلام کی طرف نسبت دیں اور ان کو بڑھا چڑھا کر ان حق طلب انسانوں کی رغبت کو کم کردیں جو اب تک مسلمان نہیں ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں مخاطب، ملحدین اور غیر مسلمان دشمن نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو اپنے کو مسلمان سمجھتے ہیں۔

البتہ ممکن ہے وہ لوگ حق بات کو نہ سننے، اور عقل و منطق کے سامنے سراپا تسلیم ہونے سے روکنے کے لئے توجیہیں کریں، جیسا کہ'' دین کی مختلف قرائتوں'' کی بحث میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور اپنی باتوں کے نتائج پر توجہ کئے بغیر اپنے نظریہ پر اڑے رہیں۔ ہم بھی اس حصہ میں فیصلہ مذکورہ نظریہ کی توجیہات اور اس کے انجام کے متعلق محترم قارئین کے ذمہ چھوڑتے ہیں، لیکن دلسوزی اور خیر خواہی کی بنا پرہم ان کو عقائد، افکار اور ایمان پر نظر ثانی اور ان کی اصلاح کی دعوت دیتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن بھی مومنین سے چاہتا ہے کہ ایک دوسرے کو تفکر، تعقل، اصلاح اور ہدایت کی دعوت دیں اور ایک دوسرے کو حق یاد دلاتے رہیں۔

۱۳۲

مختلف قرائتیں، قرآن سے مقابلہ کا ایک حربہ

کتاب کے پہلے حصوں میں کچھ باتیں مختصر طور سے بندوں پر سب سے بڑی الٰہی نعمت یعنی قرآن کریم کی عظمت اور خصوصیات کے متعلق بیان کی گئیں۔ یہ بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ خداوند متعال نے قرآن کریم کو سب سے عظیم فرشتے حضرت جبرئیل امین کے ذریعہ اپنے بندوں میں سب سے زیادہ عزیز بندے حضرت محمد مصطفی پر نازل فرمایا تاکہ اسے انسان کے اختیار میں قرار دے اور انسان فردی و اجتماعی زندگی میں اس آسمانی کتاب کی تعلیمات، ہدایات اور احکام سے آشنا ہو کر اور ان پر عمل کر کے اپنی دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرے۔

نہج البلاغہ میں مذکور حضرت علی ـ کے بعض بیانات ذکر کئے گئے کہ قرآن سے تمسک، فتنوں اور گمراہیوں کو رفع کرنے کے لئے اور فردی و اجتماعی مشکلات اور بیماریوں کے علاج کے لئے لازم ہے۔ یہ بھی ذکر کیا گیا کہ قرآن کی تفسیر و توضیح کی صلاحیت دینی وظائف و مسائل کے جزئیات کی تفصیل اور احکام کی توضیح کے معنی میں، صرف پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کو حاصل ہے۔ اس بات کی بھی وضاحت کی گئی کہ قرآن کی تفسیر کی صلاحیت، دینی احکام و وظائف کے دائرہ کے علاوہ نیز اس کے معارف کے بیان کی صلاحیت، صرف دینی علماء و ماہرین اور قرآن و اہلبیت کے علوم سے آشنا افراد کو حاصل ہے، ہم نے ذکر کیا کہ صرف وہ علماء جنھوں نے اپنی عمر معارف دین اور علوم اہلبیت کے سمجھنے میں گزاری ہے وہی قرآن کے متشابہات اور محکمات کو پہچان سکتے ہیں، اور محکمات اور روایات اہلبیت (ع) کی مدد سے قرآن کے متشابہات کی بھی تفسیر کرسکتے ہیں اور قرآن کے معارف کو لوگوں سے بیان کرسکتے ہیں تاکہ لوگ اسے اپنی فکری حرکت کی بنیاد اور عملی نیز فردی و اجتماعی تکامل کا نمونہ قرار دیں اور خدا کی اس دعوت:(یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَجِیبُوا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُولِ اِذَا دَعَاکُم لِمَایُحیِیکُم) ۱ پر لبیک کہیں اور اپنی کامیابی کا میدان ہموار کریں۔

اس کے مقابل ہم نے اشارہ کیا کہ جو لوگ زمانۂ دراز سے شیطانی وسوسوں کے ذریعہ لوگوں کو قرآن سے جدا کرنا چاہتے ہیں، وہ لوگ اپنے شیطانی مقاصد تک پہنچنے کے لئے کوشش کرتے ہیں کہ اپنی خیال آرائی سے اس طرح ظاہر کریں کہ قرآن قابل فہم نہیں ہے اور نتیجہ میں اس بات کی امید نہ رکھنی چاہئے کہ قرآن ہماری زندگی میں ہدایت و رہنمائی کرے گا۔

(۱)سورۂ انفال، آیت ۲۴۔ ترجمۂ آیت: اے ایمان لانے والو! چونکہ خدا اور رسول نے اس چیز کی طرف دعوت دی ہے جو تمھیں زندگی بخشتی ہے، ان کی دعوت پر لبیک کہو اور اسے قبول کرو۔

۱۳۳

ہم نے ذکر کیا کہ یہ شیطانی شبہہ جو پوری تاریخ میں مختلف شکلوں کے ساتھ پایا جاتا رہا ہے، آج اپنی تکامل یافتہ شکل میں اپنے نقطۂ عروج پر پہنچا ہوا ہے اور نت نئی صورتوں میں پیش کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ آج بھی قرآن اور دینی مکتب فکر کے مخالفین اپنے نظریات و افکار کو اس تھیوری کی شکل میں کہ ''دین کی زبان ایک مخصوص زبان ہے'' بیان کرتے ہیں تاکہ جو لوگ دینی علوم و معارف سے کافی آگاہی نہیں رکھتے ان کو فریب دیں۔

جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ اس قول سے کہ ''دین کی زبان، مخصوص زبان ہے'' ان کا مقصود کیا ہے؟ تو وہ لوگ جواب میں ''دین کی زبان کے، خاص ہونے'' کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ دینی تعلیمات اور قرآن ایسے الفاظ اور قالب ہیں کہ جن کے مطالب کو خود انسانوں کی فکریں اور ذہنیتیں تشکیل دیتی ہیں۔ البتہ یہ افراد عام طور سے ادبی عبارتوں کے انتخاب، اور جذبات انگیز اشعار پڑھنے کے ساتھ اپنے نظریہ کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ آپ حضرات آسانی سے ان کے مقصد کو بھانپ نہیں سکتے، کیونکہ اس صورت میں ان کی بات کے بے بنیاد ہونے کو سمجھ جائیں گے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ نظریہ جو کہ کبھی ''صراط ہائے مستقیم'' (بہت سے سیدھے راستے) کے نام سے اور کبھی ''دین کی مختلف قرائتوں، فکروں یا تفسیروں'' کی تعبیر کے ساتھ اور کبھی ''دین کی زبان'' یا ''اقلیتی اور اکثریتی دین'' کی تھیوریوں کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے، دینی اعتقادات اور توحیدی مکتب فکر سے مقابلہ کے علاوہ کوئی مقصد نہیں رکھتا۔

واقف کار لوگوں پر پوشیدہ نہیں ہے کہ دیندار افراد خصوصاً ذہین و زیرک مسلمان صاحبان علم و دانش اس سے زیادہ ہوشیار ہیں کہ ان کی باتوں کے عقل و منطق سے دور ہونے کو بھانپ نہ لیں یا ان بے بنیاد شبہوں کے پیش کرنے والوں کے مخفی مقاصد سے غافل رہیں۔

۱۳۴

دینی ثقافت کے مخالفین کا مقصد قرآن کی روشنی میں

مذکورہ مطالب کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن اور دینی ثقافت کے مقابلہ میں ان شیطنتوں سے مخالفین کا مقصد کیا ہے؟ اس کے جواب کے لئے پہلے ہم قرآن کے نظریہ کی تحقیق پیش کرتے ہیںپھر اس کے متعلق نہج البلاغہ میں حضرت علی ـ کے بیان کی توضیح پیش کریں گے۔

قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے آغاز ہی سے شیطان اس بات پر تل گیا اور اس نے اپنی تمام کوششیں صرف کردیں کہ دنیا پرست انسانوں اور انسان نما شیطانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھائے اور لوگوں کو قرآن سے جدا کردے۔

شیطان سے اس کے علاوہ کوئی امید بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس نے قسم کھائی تھی کہ:

(قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَأُغوِیَنَّهُم أَجمَعِینَ اِلاَّ عِبَادَکَ مِنهُمُ المُخْلَصِینَ) ۱ ''تو پھر تیری عزت کی قسم میں سب کو گمراہ کروں گا، علاوہ تیرے ان بندوں کے جنھیں تونے خالص بنا لیا ہے''۔ شیطان نے لوگوں کو گمراہ کرنے اور ان کو معارف قرآن سے محروم کرنے کے لئے اپنے بنائے ہوئے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر، قرآن کریم کی

(۱) سورۂ ص، آیت ۸۲ ، ۸۳ ۔

۱۳۵

آیات متشابہ کو اپنا حربہ قرار دیا ہے۔ اپنے دوستوں اور دنیا پرستوں کو محکمات کی طرف متوجہ کئے بغیر، متشابہات قرآن کی پیروی کی تشویق و ترغیب کرتا ہے تاکہ ان کے ذریعہ دوسرے لوگوں کو بھی شک و تردد اور گمراہی کی طرف کھینچ لائے۔

خداوند متعال محکمات و متشابہات سے آیات قرآن کی تقسیم کے بعد فرماتا ہے:(فَأَََمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم زَیغ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنهُ ابْتِغَائَ الفِتْنَةِ وَ ابْتِغَائَ تَاوِیلِهِ) ۱ جن لوگوں کا وجود سر سے پاؤں تک انحراف، گمراہی، پلیدی اور خود پرستی ہے، جن کے دل بیمار ہیں اور شیطانی وسوسوں سے متاثر ہیں وہ قرآن کے محکمات اور دین کے بدیہی اور واضح و روشن عقائد کو چھوڑ دیتے ہیں اور آیات متشابہ کے ظاہر سے سہارا لیکر کوشش کرتے ہیں کہ معارف قرآن میں تحریف اور غلط تفسیر کر کے لوگوں کو گمراہ کریں۔ ایسے انسان شیطان کے پالے ہوئے چیلے ہیںکہ اس کا مقصد پورا کرنے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔

قرآن ایسے لوگوں کو مختلف عنوانوں جیسے''فِی قُلُوبِهِم زَیغ'' یا''فِی قُلُوبِهِم مَرَض'' سے یاد کرتا ہے اور لوگوں کو ان کی پیروی کرنے سے ڈراتا ہے۔

جس بات کی تحقیق یہاں پر کی جارہی ہے، وہ قرآن کی روشنی میں دینی ثقافت اور مکتب فکر کی مخالفت کرنے والوں کے مقصد کو واضح کرنا ہے ۔

قرآن کریم فرماتا ہے کہ بہت سے لوگ''اِبتِغَائَ الفِتنَةِ'' (فتنہ جوئی) کے مقصد کے تحت، قرآن کے متشابہات کو اپنی فکر و عمل کا معیار قرار دیتے ہیں اور متشابہات کو

(۱) سورۂ آل عمران ، آیت ۷ ۔

۱۳۶

ہتھکنڈا بنا کر ظاہر قرآن کو چھوڑ کر آیات کی من مانی تاویل اور غلط تفسیر کر کے فتنے پھیلاتے ہیں۔

یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ فتنہ کیا ہے؟ اور فتنہ پرور کون ہے؟ علم لغت کے ماہرین خصوصاً جو لوگ کوشش کرتے ہیں کہ لغت کو اپنے اصلی اور حقیقی معنی پر واپس لے جائیں اور لغت کے اصلی معنی کے پیش نظر الفاظ کے معنی کریں، انھوں نے کہا ہے کہ: ''فتنہ'' در اصل کسی چیز کو آگ کے اوپر گرم کرنے کے معنی میں ہے۔

جس وقت کسی شی کو گرم کرنے یا جلانے یا پگھلانے کے لئے آگ کے اوپر رکھتے ہیں تو عرب اس معنی کو ''فَتَنَہُ'' سے تعبیر کرتے ہیں یعنی اس نے اس چیز کو گرم کیا۔

قرآن میں بھی مادۂ ''فتنہ'' اسی لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ فرماتا ہے:''یَومَ هُم عَلٰی النَّارِ یُفتَنُونَ'' ۱ یعنی جس دن انھیں جہنم کی آگ پر تپایا جائے گا۔

اس بنا پر ''فتنہ'' کے اصل لغوی معنی جلانے اور پگھلانے کے ہیں، لیکن جیسا کہ اہل لغت کہتے ہیں کبھی کبھی ایک لغوی معنی کے لوازم کے پیش نظر، وہ معنی اس کے لوازم یا ملزومات میں بھی سرایت کر جاتا ہے اور لازمۂ معنی کے غلبہ نیز لازمۂ معنی میں اس لغت کے استعمال کے سبب دھیرے دھیرے وہ لازم لغت کے لئے دوسرے اور تیسرے معنی کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔

(۱) سورۂ ذاریات، آیت ۱۳ ۔

۱۳۷

لفظ ''فتنہ'' کی بھی یہی صورت ہے، جیسا کہ کہا گیا ''فتنہ'' در اصل گرم ہونے کے معنی میں ہے، لیکن ''گرم ہونے'' کا بھی ایک لازمہ ہے وہ یہ کہ اگر یہ گرم ہونا اور آگ میں قرار پانا انسان کے متعلق واقع ہو (جیسے آیۂ''یَومَ هُم عَلی النَّارِ یُفتَنُونَ'' ۱ ) تو انسان اضطراب کی حالت پیدا کرتا ہے۔ اضطراب بھی کبھی ظاہری اور بدنی ہوتا ہے جیسے یہ کہ جسم کے جلنے اور گرم ہونے سے متعلق ہو اور کبھی باطنی اور روحی امور سے پیدا ہوتا ہے۔ لہذا اضطراب حقیقت میں ''فتنہ'' اور گرم ہونے کے معنی میں ہے، پھر لفظ کے معنی میں توسیع کے پیش نظر ان چیزوں پر بھی ''فتنہ'' کا اطلاق کیا جاتا ہے جو معنوی اور باطنی اضطراب کا باعث ہوتی ہیں۔ چونکہ روحی اور باطنی اضطراب کی ایک قسم، وہ اضطراب و تشویش ہے جو کہ اعتقادات کے سلسلہ میں پیش آتی ہے، لہذا وہ چیز جو ایسے اضطرابوں کا باعث ہوتی ہے اسے بھی ''فتنہ'' کہا گیا ہے۔

جس وقت ''دین میں فتنہ'' کہا جاتا ہے، وہ اس لحاظ سے کہا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ کوشش کرتے ہیں کہ وہمی اور باطل خیالات اور وسوسوں سے دیندار افراد کو ان کے ایمان و اعتقادات میں اضطراب و تزلزل سے دوچار کردیں اور انھیں دین حق اور دینی اعتقادات سے پھیر دیں۔

امتحان کو بھی ''فتنہ'' کہا گیا ہے، اس لئے کہ وہ بھی اضطراب اور تشویش کا باعث ہوتا ہے۔ چونکہ انسان امتحان کے وقت نتیجہ کے لئے مضطرب اور پریشان ہوتا ہے، وہ

(۱) سورۂ ذاریات، آیت ۱۳ ۔

۱۳۸

روحی آرام اور قلبی سکون نہیں رکھتا۔ لفظ ''فتنہ'' قرآن میں بھی کئی آیتوں میں امتحان سے پیدا شدہ اسی اضطراب کے معنی میں آیا ہے۔

قرآن فرماتا ہے:(إنّمَا أَموَالُکُم وَ أَولادُکُم فِتنَة) ۱ تمھارے اموال اور اولاد تمھارے امتحان اور آزمائش کا وسیلہ ہیں۔ یا فرماتا ہے:(وَ نَبلُوکُم بِالشَّرِّ وَ الخَیرِ فِتنَةً) ۲ ہم تمھیں خیر و شر اور نعمت و نقمت سے آزماتے ہیں۔ نیز کبھی خود عذاب اور تکلیف پر ''فتنہ'' کا اطلاق ہوا ہے۔

واضح ہے کہ زیر بحث آیۂ کریمہ(هُوَ الَّذِی أَنزَلَ عَلَیکَ الکِتَابَ مِنهُ آیَات مُحکَمَات هُنَّ أُمُّ الکِتَابِ وَ أُخَرُ مُتَشَابِهَات فَأََمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم زَیغ فَیَتَّبِعُونَ مَاتَشَابَهَ مِنهُ ابْتِغَائَ الْفِتنَةِ ...) میں فتنہ سے مراد ''دین میں فتنہ'' پیدا کرنا ہے، اس لئے کہ متشابہات کی پیروی، امتحان و آزمائش سے کوئی تناسب نہیں رکھتی اور جو لوگ متشابہات کی پیروی کرتے ہیں وہ دوسروں کو شکنجہ اور عذاب دینے کی کوشش نہیں کرتے نیز گرم کرنے اور جلانے کے معنی میں بھی نہیں ہے، بلکہ ان کی فتنہ پروری اس سبب سے ہے کہ وہ اس بات کے درپے ہوتے ہیں کہ آیات متشابہ کو ہتھکنڈا بنا کر لوگوں کے دینی عقائد و افکار میں اضطراب و تزلزل پیدا کریں اور انھیں گمراہ کریں۔

(۱)سورۂ انفال، آیت ۲۸ ۔

(۲)سورۂ انبیائ، آیت ۳۵ ۔

۱۳۹

''دین میں فتنہ'' کے مقابلہ میں قرآن کا موقف

''دین میں فتنہ'' اس معنی میں کہ جس کی توضیح دی گئی، پوشیدہ مقابلہ اور فریب و حیلہ کی قسم سے سمجھا جاتا ہے۔ یہ کام ظاہری ایمان کے لباس میں اصل دین کو ختم کرنے کے مقصد سے کیا جاتا ہے۔ ایسے فتنہ گر افراد نفاق کا چہرہ اختیار کر کے اپنی شیطانی فکروں کواس طرح پوشیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے مخالف دین مقاصد کی تشخیص عام لوگوں کے لئے کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے اسے سب سے بڑا گناہ شمار کیا ہے اور لوگوں کو دنیا و آخرت کے اس سب سے بڑے خطرے کی طرف توجہ دلاکر ان سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کے مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوںاور اپنے مادی و معنوی وجود کا دفاع کریں۔

دشمن، اسلام او رمسلمین سے مقابلہ کے لئے عام طور سے دو اہم حربے استعمال کرتا ہے۔ یہاں پر ہم قرآن اوردینی ثقافت کے دشمنوں کے حربوں اور ہتھکنڈوں کی توضیح کے ضمن میں، دشمنوں کی سازشوں کے مقابلہ میں قرآن کے موقف سے واقف ہوں گے۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180