قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت22%

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 180

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42205 / ڈاؤنلوڈ: 3517
سائز سائز سائز
قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

اس بنا پر قرآن نے انسان کی زندگی کی چھوٹی، بڑی تمام مشکلات کو ایک ایک کر کے بیان نہیں کیا ہے۔ بلکہ قرآن نے انسان کی سعادت و تکامل کے بنیادی اور کلی طریقوں کو بیان کیا ہے اور مسلمانوں کے لئے ان کی نشاندہی کردی ہے۔ اس حصہ میں قرآن کے شافی ہونے کے متعلق حضرت علی ـ کا ارشاد ذکر کرتے ہوئے قرآن میں مذکور ان کلی طریقوں میں سے ایک طریقہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور نمونہ کے طور پر اس کی وضاحت کر رہے ہیں۔

قرآن کی کلی راہنمائی کا ایک نمونہ

قرآن کریم فرماتا ہے:(وَ لَو أَنَّ أَهلَ القُریٰ آمَنُوا وَ اتَّقَوا لَفَتَحنَا عَلَیهِم بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمآئِ وَ الأَرضِ وَ لٰکِن کَذَّبُوا فَأَخَذنَاهُم بِمَا کانُوا یَکسِبُونَ) ۱

یہ آیت ان آیات محکمات میں سے ایک ہے جن میں کسی طرح کا تشابہ نہیں پایا جاتا اور اس کے معنی ایسے صریح و واضح ہیں کہ جس میں کسی طرح کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے، اس طرح کہ اس آیت کے الفاظ اور جملوں سے اس بات کے علاوہ کوئی اور بات سمجھ میں نہیں آسکتی کہ جس کو ہر اہل زبان او رعربی داں سمجھ سکتا ہے، ان کج فکروں اور ان لوگوں کو چھوڑیئے جو کہ مختلف قرائتوں اور نئے نئے معانی کے قائل ہیں، ممکن ہے وہ

(۱)سورۂ اعراف، آیت۹۶۔

۲۱

کہیں کہ ہم لفظ لیل (شب) سے نہار (دن) اور حجاب سے عریانیت سمجھتے ہیں۔ البتہ یہ یاد دلادیں کہ آئندہ دین کی مختلف قرآئتوں کے متعلق تفصیل سے گفتگو کریں گے۔

یہ آیۂ کریمہ اعتقاد کے کلی قوانین میں سے ایک کو نیز اقتصادی مشکلات کے علاج اور معاشی سختیوں کے برطرف کرنے کے طریقوں کو بیان کرتی ہے۔ آیۂ شریفہ کا ترجمہ یہ ہے: ''اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو یقینا ہم آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے ان کے اوپر کھول دیتے، لیکن ان لوگوں نے تقویٰ اختیار نہ کیا، بلکہ کفر اختیار کیا او رالٰہی نعمتوں کی ناشکری کی، نتیجہ میں مختلف مشکلوں اور بلاؤں میں گرفتار ہوگئے''۔

اس بنا پر قرآن کریم پوری وضاحت کے ساتھ مومنین کی زندگی میں کشائش پیدا ہونے، اقتصادی توسیع، اقتصادی بحرانوں کو دور کرنے اور نعمت نازل ہونے کونیز کلی طور سے آسمان و زمین کی برکتیں نازل ہونے کو ایمان و تقویٰ کا مرہون منت جانتا ہے، اور اسی کے مقابل، الٰہی نعمتوں کی ناشکری کو نعمتوں کے زوال، بلاؤں کے نزول اور مختلف مشکلوں کا سبب بتاتا ہے۔ اور نعمت کے شکر اور اس کی قدر دانی کو نعمت کے اضافہ کا ذریعہ اور نعمت کی ناشکری کو عذاب کا سبب جانتا ہے، قرآن فرماتا ہے:(لَئِنْ شَکَرتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرتُمْ إنّ عَذَابِیْ لَشَدِید) ۱ اگر تم نعمتوں کا شکر بجا لاؤ گے تو میں یقینا تمھارے لئے نعمتوں کو زیادہ کردوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو بے شک میرا عذاب بہت ہی سخت ہے۔

(۱)سورۂ ابراہیم، آیت ۷۔

۲۲

یہاں پر ایک بہت بڑی الٰہی نعمت کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں جو قرآن کریم کی پیروی کے نتیجہ میں ایران کی عظیم قوم کو حاصل ہوئی ہے، اور خداوند عزو جل سے دعا کرتے ہیں کہ لوگوں کو اس کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے اوراسی کی ذات اقدس کی پناہ چاہتے ہیں اس بات سے کہ کہیں ناشکری کے نتیجہ میں یہ عظیم نعمت ہم سے چھن نہ جائے۔

اسلامی حکومت کی تشکیل میں عطائے الٰہی کی جھلک

ہم سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت علی ـ کی شہادت کے بعد ہم مسلمانوں کی سب سے بڑی تمنا، الٰہی وحی و احکام پر مبنی ایک عادلانہ حکومت قائم کرنے کی رہی ہے۔ صدیوں سے ہمارے بزرگ اور آباء و اجداد ایسی حکومت قائم کرنے کی تمنا دل میں لئے رہے اور ظالم و جابر بادشاہوں اور حاکموں کے زیر تسلط گھٹن کی زندگی گزارتے رہے اور وہ اپنے اجتماعی امور کو نافذ نہیں کرسکتے تھے، ایسی صورت میں ان کو اسلامی حکومت کا وجود فقط دلی ارمان اور ناممکن چیز نظر آتی تھی۔

تیرہ سو سال سے زیادہ گزر جانے کے بعد تاریخ کے اس دور میں ایرانی مسلمانوں کے قرآن کریم پر عمل کرنے نیز امام معصوم ـ کے نائب اور ولی فقیہ کی رہبری کو تسلیم کرنے کے نتیجہ میں خداوند متعال نے اپنی ایک بہت بڑی نعمت یعنی اسلامی حکومت مسلمانوں کو عنایت فرمائی۔ واضح رہے کہ ہم نواقص کی توجیہ نہیں کرنا چاہتے، بلکہ جو بات یہاں قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اس مقدس نظام و حکومت کا اصل وجود، الٰہی عطاؤں اور عنایتوں سے اس مقصد کے تحت ہے کہ الٰہی احکام نافذ ہوں اور انھیں عملی جامہ پہنایا جائے۔

۲۳

انقلاب کے بیس سال گزر جانے کے بعد اب جو بات قابل توجہ ہے کہ جس نے دینی و اخلاقی اقدار کے پاسداروں اورنگہبانوں نیز انقلاب کے دلسوز افراد کی تشویش کو دو گنا کردیا ہے وہ یہ ہے کہ کہیں (خدا نخواستہ) ایسا نہ ہو کہ معاشرہ اپنے ایمان و تقویٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے اور دھیرے دھیرے اس کی دینی و انقلابی قدریں پھیکی پڑ جائیںاور نتیجہ میں اسلام و ایران کے دشمن ثقافتی حملہ اور شبخون مار کے اپنے منصوبوں میں کامیاب ہو جائیں، اور لوگوں کو خصوصاً جوانوں کو دینی و انقلابی اقدار سے جدا کر کے دوبارہ ایران کے مسلمانوں پر تسلط حاصل کرلیں۔

ممکن ہے یہاں یہ سوال کیا جائے کہ تو پھر اس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے کہ جس سے ایک طرف معاشرہ کے دینی و اعتقادی اقدار محفوظ رہیں اور نتیجہ میں دشمن اپنے منصوبوں میں ناکام ہوجائے اور دوسری طرف ہم تمام مشکلات پر غالب آجائیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ نہج البلاغہ میں خطبہ کے شروع میں اسی بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور فردی و اجتماعی مشکلات کے حل کا راستہ قرآن کی طرف رجوع اور اس کے احکام پر عمل کرنے کو بتاتے ہیں۔

اجتماعی مشکلات کا حل قرآن کی پیروی میں ہے

اس سلسلہ میں حضرت علی ـ کا کلام، حضرت رسول اسلام کے نہایت ہی قیمتی ارشاد کی ایک دوسری توضیح ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:''اِذَا الْتَبَسَتْ عَلَیکُمُ الْفِتَنُ کَقِطَعِ اللَّیلِ الْمُظْلِمِ فَعَلَیکُمْ بِالْقُرآن'' ۱ یعنی جب بھی اضطراب و

(۱)بحار الانوار، ج۹۲، ص ۱۷۔

۲۴

مشکلات، فتنے اور فسادات، اندھیری رات کے ٹکڑوں کے مانند تم پر چھا جائیں اور ان مشکلات کو حل کرنے میں عاجز ہو جاؤ تو تم پر لازم ہے کہ قرآن کی طرف رجوع کرو اور اس کی نجات بخش ہدایات کو عمل کا معیار قرار دو۔

قرآن کریم کے امید بخش احکام، امید، مشکلات پر غلبہ، نجات و کامیابی، سعادت اور خوشبختی کی روح کو دلوں میں زندہ کرتے ہیں اور انسانوں کو یاس و ناامیدی کے بھنور سے نکال کر نجات دلاتے ہیں۔

واضح ہے کہ ہر کامیابی انسانوں کی خواہش و کوشش کی مرہون منت ہے۔ اس بنا پر اگر ہم چاہیں کہ اسی طرح اپنے استقلال، اپنی آزادی اور اسلامی حکومت کو محفوظ رکھیں اور ہر قسم کی سازش سے خداوند متعال کی پناہ میں رہیں تو اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ خدا اور قرآن کے نجات بخش احکام کی طرف رجوع کریں اور اس ناشکری اور بے حرمتی کے سبب توبہ کریں جو بعض مغرب زدہ افراد کی طرف سے دینی اقدار کو پامال کرنے کے لئے کی گئی ہیں۔

نہایت ہی احمقانہ بات ہے اگر ہم یہ خیال کریں کہ سامراجی طاقتیں کسی چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ میں بھی جو کہ ایران کی مسلمان قوم کے نفع میں ہو اور ان کے استعماری منافع کے خلاف ہو، اسلامی جمہوریۂ ایران کے ارباب حکومت کا ساتھ دیں گی اور یہ بہت بڑی ناشکری ہے کہ ہم نجات و سعادت کے ضامن اور نبی اکرم کے ابدی معجزہ قرآن کریم کو چھوڑدیں اور مشکلات کے حل کے لئے دشمنوں کی طرف دست نیاز بڑھائیں، اور ولایت فقیہ جو کہ انبیاء اور ائمۂ معصومین (ع) کی ولایت ہی کی ایک کڑی ہے، اس کو چھوڑ کر شیاطین اور دشمنان خدا کی ولایت و تسلط کو قبول کریں۔ خدا کی پناہ مانگنی چاہئے اس بات سے کہ کسی دن ایران کی مسلمان قوم، استقلال و آزادی، عزت و امنیت کی عظیم نعمت کی ناشکری کے سبب غضب کا مستحق قرار پائے اور اپنی ذلت و اہانت، اپنے سقوط و انحطاط کا ذریعہ دوبارہ اپنے ہی ہاتھوں سے فراہم کرے۔

۲۵

بہرحال پوری ملت خصوصاً ملک کے ثقافتی امور کے عہدہ داروں اور کارندوں کا فریضہ ہے کہ معاشرہ کے اخلاقی و دینی اعتقادات و اقدار کی حفاظت کریں۔

بعض ایسے لوگ جو کہ دینی علوم و معارف میں زیادہ بصیرت نہیں رکھتے اور سیکولرازم اور اصالت فرد ( Individualism ) کے نظریوں سے متاثر ہیں، حضرت علی ـ کے اس ارشاد کے متعلق (کہ تمھارے تمام درد اور مشکلات کا حل قرآن میں ہے)، ان لوگوں کا تصور یہ ہے کہ اس ارشاد میں درد اور مشکلات سے مراد لوگوں کے انفرادی، معنوی اور اخلاقی درد اور مشکلات ہیں۔ لیکن ہماری نظر میں یہ توضیح صحیح نہیں ہے اس لئے کہ یہاں پر انفرادی و اجتماعی دونوں طرح کے مسائل موضوع بحث ہیں۔ یہ بات کہنا ضروری ہے کہ دین کی سیاست سے جدائی اور نظریۂ سیکولرازم کے بے بنیاد ہونے کے متعلق یہاں پر تفصیل سے بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے، اس کے باوجود اس بحث کے ضمن میں حضرت علی ـ کے ارشاد کی توضیح بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دین کی سیاست سے جدائی کے نظریہ کا بے بنیاد ہونا اور سیکولرازم کے نظریہ کا باطل ہونا بھی واضح ہو جائے گا۔

۲۶

قرآن کی ہدایات کے مطابق اجتماعی امور کا نظم و نسق

حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:

'' اَلا إنّ فِیهِ عِلمَ مَا یَأتِی وَ الْحَدِیثَ عَنِ الْمَاضِیْ وَ دَوَائَ دَائِکُمْ وَ نَظمَ مَابَینَکُمْ'' ۱

حضرت اس بات کے بیان کے بعد کہ گزشتہ و آئندہ کا علم قرآن میں ہے اور قرآن تمام دردوں کی دوا ہے، یہ نکتہ یاد دلاتے ہیں کہ: ''وَ نَظمَ مَابَینَکُم''تم مسلمانوں کے باہمی امور کی شیرازہ بندی قرآن میں ہے۔ یہ آسمانی کتاب تمھارے اجتماعی روابط کی کیفیت کو بھی معین کرتی ہے۔ یوں تو یہ ایک چھوٹا سا جملہ ہے لیکن یہی مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا ضامن ہے، ہم اس کی توضیح پیش کر رہے ہیں لیکن اس سے پہلے ایک چھوٹا سا مقدمہ ذکر کرنا ضروری ہے۔

ہر سیاسی اور اجتماعی نظام کا سب سے بڑا مقصد، اجتماعی نظم اور امنیت کو بحال اور برقرار رکھنا ہے۔ کوئی بھی سیاسی مکتب فکر دنیا میں ایسا نہیں پایا جاسکتا جو اس مقصد کا انکار کرے، بلکہ امنیت کی بحالی اور نظم کی برقراری ہر حکومت کے فرائض میں سرفہرست ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیاسی و اجتماعی نظم کا برقرار رکھنا علم سیاست کے مقاصد میں سے ہے، جیسا کہ انسانی معاشروں پر حاکم تمام سیاسی نظام کم از کم اپنی تبلیغات اور اپنے نعروں میں اس مقصد کو اپنے حکومتی نظام کے سب سے بڑے مقصد کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔

(۱)نہج البلاغہ، خطبہ ۱۵۷۔

۲۷

اجتماعی زندگی میںمقصد کا اثر

یہاں پر اجتماعی زندگی میں مقصد کے اثر کی طرف توجہ دلا دینا بھی ضروری ہے اس لئے کہ اجتماعی زندگی میں مقصد کی طرف توجہ دیئے بغیر، اجتماعی نظم کے متعلق کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔ مقصد ہی ہے جو کہ منطقی طور پر خاص رفتار و گفتار کا موجب و سبب بنتا ہے، انسان اپنی اس خاص رفتار و گفتار کے ذریعہ اجتماعی زندگی میں اس مقصد تک پہنچنا چاہتا ہے۔ مقصد خود، افراد معاشرہ کے نظریات اور مکتب فکر سے پیدا ہوتا ہے، اس طرح کہ ہر معاشرہ فطرت اوّلی کے اعتبار سے اپنے نظریات اور مکتب فکر کے تحت ایک خاص اجتماعی نظم کو پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا سامراجی طاقتیں اپنی استکباری سیاستوں کے تحت کوشش کرتی ہیں کہ دوسری قوموں کو اپنے سامراجی مقاصد کی طرف کھینچ لائیں، ان کو ان کے اصلی مکتب فکر سے دور کردیں اور بیرونی مکتب فکر کو لاد کر ان قوموں کے نظم و تمدن اور مکتب فکر کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔

اس بنا پر یہ دیکھنا چاہئے کہ معاشرہ پر حاکم مکتب فکر کیا نظم پیدا کرتا ہے؟ یہ بات ہے کہ قرآن اور توحیدی مکتب فکر سے پیدا شدہ دینی مکتب فکر ایسے نظم اور ایسی سیاست کا سبب اور نافذ کرنے والا ہوتا ہے کہ جس سے دنیا و آخرت میں انسان کی خلقت کا مقصد حاصل ہو اور وہ سعادت و خوشبختی حاصل کرسکے۔ یعنی جو بات اصالتاً اسلام و قرآن کے پیش نظر ہے، وہ انسان کی سعادت اور اس کا تکامل ہے۔

۲۸

نہایت افسوس ہے کہ بعض روشن فکر اور لیبرل افراد جو ایک طرف مسلمان ہیں اور دوسری طرف اسلام کے سیاسی اور اجتماعی مسائل میں زیادہ بصیرت نہیں رکھتے، نتیجہ میں ان میں دینداری اور دین سے لگاؤ نہیں ہے، اور وہ اس بنیادی نکتہ سے غافل ہیں، چنانچہ جس وقت اجتماعی نظم کی بات کہی جاتی ہے تو ان کے ذہن میں مغربی ڈیموکراسی (عوامی حکومت ) سے حاصل شدہ اجتماعی نظم ابھرتا ہے، اس حال میں کہ مغرب کا وہ اجتماعی نظام اس کے سیکولرازم نظریہ سے پیدا ہوا ہے یہ روشن فکر افراد اپنی ناقص دینی معلومات کے سبب گمان کرتے ہیں کہ اجتماعی امور کے نظام پر مبنی معاشرہ کی ادارت، صرف دین کی سیاست سے جدائی میں ممکن ہے کہ یہ بات خود استعماری مکتب فکر کا نتیجہ ہے اور اس کو سامراجی طاقتوں کی ایک کامیابی سمجھا جاتا ہے تاکہ تیسری دنیا کے ممالک کے روشن فکر افراد کی فکروں کو بے جان کر کے ان کو دینی فکر سے دور کرسکیں اور اپنی سامراجی ثقافت کی ترویج کے عوامل و اسباب میں تبدیل کرسکیں۔

بہرحال توحیدی و اسلامی مکتب فکر میں ہر چیز منجملہ ان کے اجتماعی نظام کی تعیین، خلقت کے ہدف و مقصد کی روشنی میں ہوتی ہے، اور واضح ہے کہ دینی و قرآنی مکتب فکر میں اجتماعی نظام کا ہدف فقط مادی فائدے اور دنیوی منافع ہی کا تحقق نہیں ہے بلکہ دنیوی فائدے کے تحقق کے علاوہ، انسان کے تکامل اور اخروی سعادت پر بھی توجہ دی گئی ہے، اور واضح ہے کہ تعارض (ٹکراؤ) کی صورت میں دنیوی امور پر اخروی سعادت کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔

۲۹

اب ہم اس مقدمہ کو مد نظر رکھتے ہوئے معاشرہ کے سیاسی و اجتماعی نظام کے تحقق کے متعلق قرآن کے اثر کے بارے میں حضرت علی ـ کے بیان کی طرف واپس آتے ہیں، اور حضرت کے ارشاد پر غور و خوض کرتے ہیں تاکہ ولایت کی راہنمائی میں اجتماعی زندگی میں قرآن کے اثر اور اس کی اہمیت سے زیادہ آگاہ ہوسکیں۔

حضرت علی ـ معجز نما تعبیر کے ساتھ قرآن کے اثر کو معاشرہ کے اجتماعی امور کی تنظیم کے متعلق بیان فرماتے ہیں اور اس کی طرف ہمیں توجہ دلاتے ہیں تاکہ ہم اس سے غفلت نہ برتیں۔

حضرت یہ بیان فرمانے کے بعد کہ قرآن تمھاری مشکلات کو حل کرنے کے لئے بہترین نسخہ ہے، فرماتے ہیں:''وَ نَظْمَ مَابَینَکُمْ'' تمھارے امور اور روابط کا نظم و نسق قرآن میں ہے، یعنی اگر تم مطلوب و معقول نظام کو چاہتے ہو کہ جس کے سایہ میں معاشرہ کے تمام افراد اپنے جائز حقوق حاصل کرسکیں تو تمھارے لئے لازم ہے کہ اپنے امور قرآن کی ہدایات کے مطابق منظم کرو۔

صاحبان علم و دانش پر یہ پوشیدہ نہیں ہے کہ''وَ نَظْمَ مَابَینَکُمْ'' کی تعبیر لوگوں کے اجتماعی روابط و امور پر مشتمل ہے، اگرچہ لوگوں کا فریضہ ہے کہ اپنے شخصی و فردی امور کو بھی قرآن کی ہدایات کی بنیاد پر منظم کریں، لیکن ''وَ نَظمَ مَابَینَکُم'' کی تعبیر لوگوں کے شخصی و فردی امور کے نظم و نسق کو شامل نہیں ہے جیسا کہ اہل زبان پر پوشیدہ نہیںہے، حضرت علی ـ اپنے اس خطبہ میں قرآن کریم کے اجتماعی پہلوؤں کے اثر کو بیان فرما رہے ہیں۔

۳۰

حضرت اس نکتہ کے بیان کے ساتھ کہ تمھارا اجتماعی نظم و نسق قرآن کریم میں ہے، مسلمانوں او راپنے پیروؤں سے فرماتے ہیں کہ تمھیں اپنے سیاسی امور اور اجتماعی روابط کو قرآن کی بنیاد پر قرار دینا چاہئے۔

البتہ یہ بات بھی واضح ہے کہ مذکورہ فرمان اور نصیحتیں جب تک اسلامی نظام کے عہدہ دار اور ذمہ دار افراد کی طرف سے صرف ایسی اخلاقی نصیحتیں سمجھی جائیں کہ جن کا جاری کرنا لازم نہ ہو اور ان کے قلبی ایمان او راعتقاد و یقین میں رچی بسی نہ ہوں، تو اس وقت تک ''یہ آسمانی نسخۂ شافیہ'' ہمارے معاشرہ کے کسی بھی درد کی دوا نہ بنے گا۔

حضرت علی ـ دینی نظام کی سیاست کے کلیدی اور اہم نکات کے بیان کے ساتھ ایسی واقعیتوں اور حقیقتوں کو بیان فرما رہے ہیں کہ جن پر عمل کئے بغیر، عدل و انصاف پر مبنی اس انسانی معاشرہ تک پہنچنا ممکن نہیں ہے جس میں تمام افراد اپنے حقوق اور مطلوب تکامل کو حاصل کرسکیں۔

اس بنا پر سب سے زیادہ اصلی اور کارساز و مفید عامل ، قرآن کریم کی کلی سیاستوں اور اس کے دستور العمل پر، حکومت کے مسئولین اور عہدہ داروں کا ایمان واعتقاد اور یقین رکھنا ہے۔ جب تک وہ لوگ، معاشرہ کی مشکلات کے حل اور افراد کی کامیابی کے سلسلہ میں قرآن اور اس کے ہدایات کے مفید و کارآمد ہونے پر قلبی ایمان اور پختہ اعتقاد نہ رکھیں گے، اس وقت تک نہ صرف عمل میں، قرآن کو اپنا نمونہ قرار نہیں دیں گے، بلکہ قرآن کے علوم و معارف کو سمجھنا بھی نہ چاہیں گے۔

البتہ چونکہ وہ اسلامی ملک اور مسلمان عوام پر حکومت کرتے ہیں، اس لئے ممکن ہے کہ وہ اپنی حیثیت کو محفوظ رکھنے کے لئے ظاہری طور سے اور نعروں کی حد تک، اپنی عوام اور دوسری مسلمان قوموں کے درمیان اپنے کو مسلمان اور اپنی حکومت کو اسلامی حکومت کہیں، جبکہ اس حکومت کا نمونہ جو کہ ان کے لئے اہم بات نہیں ہے،

۳۱

وہ حکومت ہے جو اسلامی قوانین اور قرآنی نمونوں پر استوار ہے لیکن دین اور قرآنی مکتب فکر سے نام نہاد اسلامی حکومتوں کی بیگانگی، خصوصاً معاشرہ کے نظم و نسق اور سیاست کے شعبہ میں، ایسی بات نہیں ہے جو مسلمانوں کے لئے اجنبی اور غیر معروف ہو، اس لئے کہ تمام مسلمان قومیں جانتی ہیں کہ ان کے ممالک کے حکومتی نظام اسلامی نہیں ہیں، اور حکومت کے عہدہ داروں پر حاکم ذہنیت و مکتب فکر، اس ذہنیت اور مکتب فکر سے جو کہ قرآنی مکتب فکر کی بنیاد پر قائم ہیں، کلی طور پر مختلف ہے۔

جو بات انسان کو حیرت و تعجب میں ڈالتی ہے اوراسی کے ساتھ افسوس اور تشویش کا باعث ہے، ہمارے عزیز اسلامی ملک ایران کی موجودہ ثقافتی حالت ہے۔ جس ملک میں ہدایات قرآن اور دینی مکتب فکر کی بنیاد پر اور ولایت فقیہ کی رہبری میں انقلاب آیا اور کامیاب ہوا، نہایت افسوس اور تشویش کی بات ہے کہ بعض ثقافتی عہدہ داروں کے بیانات، ان کے موقف اوران کے افکار کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ بھی اس آسمانی کتاب کی اچھی طرح معرفت نہیں رکھتے اور اس سے اخذ شدہ حکومتی نمونہ کے مفید و کارآمد ہونے کو دوسرے مشرقی اور مغربی نمونوں سے زیادہ نہیں سمجھتے۔ چنانچہ یہ لوگ مسلسل اسلامی انقلاب کے اصول اور دینی اقدار سے پیچھے ہٹتے جارہے ہیں اور پختہ ایمان اور قلبی اعتقاد نہ رکھنے کے سبب کبھی کبھی اشاروں، کنایوں سے اور کبھی کبھی تصریح کے ساتھ، نہایت بے شرمی سے ایسا اظہار کرتے ہیں کہ قرآن کی حاکمیت اور دینی مکتب فکر پر عمل کا زمانہ حکومت کے میدان میں گزر چکا ہے اور اس دور میں انسانی معاشرہ وحی الٰہی کی احتیاج نہیں رکھتا اور خود تنہا معاشرہ کی ادارت، امنیت کی بحالی اور نظم برقرار رکھنے کے لئے بہتر راستے دکھا سکتا ہے۔

مناسب تھا کہ ہم یہاں پر دنیا میں موجودہ ظالمانہ حکومتی نظام اور ترقی یافتہ نظاموں کے نام پر مختلف اقوام و مذاہب پر جو ظلم ہو رہا ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ، تاکہ مذکورہ قول کی بے مائگی اور اس کے قائلین کی خود فروشی و بے ایمانی پہلے سے زیادہ برملا ہو جائے، لیکن اصل موضوع سے دور ہونے اور بیان کے طویل ہو جانے کے خوف سے، انسانی نظاموں میں موجود بے عدالتی، انسانوں کے حقوق کی پامالی اور ظلم و جور کے بیان سے گریز کرتے ہیں لہٰذا آپ حضرات ان موضوعات سے متعلق کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔

۳۲

بہرحال یہ بات واضح ہے کہ ہدایات قرآن کی بنیاد پر حکومت کی صلاحیت و افادیت، معاشرہ کے درمیان عدل و انصاف اور نظم و نسق کے تحقق میںاس وقت منصّۂ شہود پر ظاہر ہوتی ہے جس وقت کہ حکومت کے عہدہ دار اور کارندے اس پر یقین و اعتقاد رکھیں اور منزل عمل میں قرآن کے احکام و قوانین کو اپنا نصب العین قرار دیں، اس لئے کہ جب تک ایسا نہ ہوگا معاشرہ پر قرآن کی حکومت نہیں ہوگی۔

اس بنا پر معاشرہ میں قرآن کی حاکمیت کے لئے، حکومت کے عہدہ داروں اور کارندوں کا اس آسمانی کتاب پر قلبی یقین و ایمان رکھنا ضروری ہے اسی طرح خود اس بات کے لئے لازم ہے کہ وہ لوگ اس الٰہی نسخۂ شافیہ کی شناخت، نیز الٰہی حکومت اوردین کی احتیاج کا احساس رکھتے ہوں۔ یہ احساس بھی صرف اور صرف اسی صورت میں حاصل ہوگا جبکہ بندگی کی روح پیدا کریں اور خداوند متعال کی حاکمیت کے مقابل کبر و غرور و خود پسندی اوراستکباری روح کو نکال باہر کریں۔ یہ استکباری روح وہی مذموم روح ہے جس نے شیطان کو عالم ملکوت اور بارگاہ خداوندی سے باہر نکال دیا اور اس کی ابدی شقاوت کا باعث بن گئی۔

مناسب ہے کہ یہاں پر ہم حضرت علی ـ کے خطبہ ، پر توجہ دیں کہ جس میں حضرت نے قرآن کریم سے دوری کے برے نتائج کو بیان فرمایا ہے۔ یہ بیان ان افراد کے لئے ایک تنبیہ اور ٹہوکا ہے جو ایک طرف اپنے کو حضرت علی ـکا پیرو بتاتے ہیں اور دوسری طرف قرآن اور اس سے اخذ شدہ حکومتی نمونہ کو آج کے انسانی معاشرہ کی ادارت کے لئے ناکافی سمجھتے ہیں، نیز حکومتی سیاستوں کو پیش کرنے میں انسان کی ناقص فکری اُپج کو قرآن کی ولائی حکومت پر ترجیح دیتے ہیں۔ امید ہے کہ ایسی ہدایتوں کی روشنی میں ہمارے معاشرہ کے تمام لوگ خصوصاً حکومتی امور کے عہدہ دار اور دستور ساز افراد، پہلے سے زیادہ اسلامی معاشرہ میں قرآن کے محور ہونے کے لزوم پر ایمان پیدا کریں گے اور یہ ہدایات منزل عمل میں بروئے کار لائی جائیں گی۔

۳۳

بے نیازی، قرآن کی پیروی میں

حضرت علی ـ مذکورہ خطبہ میں قرآن کریم کا تعارف شاخص و رہنما کے عنوان سے کراتے ہیں اور فرماتے ہیں: یقین رکھو! قرآن ایسا ناصح ہے جو کہ اپنے پیرووں کے ارشاد میں خیانت نہیں کرتا اور ایسا ہادی ہے جو گمراہ نہیں کرتا اور ایسا بولنے والا ہے جو اپنی بات میں جھوٹ نہیں بولتا، کوئی شخص اس قرآن کے ساتھ نہیں بیٹھا اور کسی نے اس میں تدبر و تفکر نہیں کیا مگر یہ کہ جب اس کے پاس سے اٹھا تو اس کی ہدایت و رستگاری میں اضافہ ہی ہوا اور اس کی گمراہی ختم ہوگئی، پھر حضرت فرماتے ہیں:

''وَ اعْلَمُوا أَنَّهُ لَیسَ عَلٰی اَحَدٍ بَعدَ الْقُرآنِ مِن فَاقَةٍ وَ لَا لِأَحَدٍ قَبلَ الْقُرآنِ مِن غِنًی فَاسْتَشفُوهُ مِن اَدْوَائِکُم وَ اسْتَعِینُوا بِهِ عَلٰی لَأوَائِکُم فَإنّ فِیهِ شِفَائً مِن أَکْبَرِ الدَّائِ وَ هُوَ الْکُفْرُ وَ النِّفَاقُ وَ الْغَیُّ وَ الضَّلاَلُ'' ۱

قرآن، اور معاشرہ پر اس کی حاکمیت ہونے کی صورت میں کسی کے لئے کوئی ایسی نیاز و احتیاج باقی نہیں رہ جاتی جو کہ پوری نہ ہو، اس لئے کہ قرآن کریم موحدین کی زندگی کے لئے سب سے زیادہ بلند و عالی، الٰہی دستور العمل ہے اور خداوند متعال نے اس آسمانی کتاب کے پیرؤوں کی دنیا و آخرت کی عزت و کامیابی کی ضمانت لی ہے۔ اس بنا پر جب ہمارا اسلامی معاشرہ قرآن کے حیات بخش احکام و فرامین پر عمل کرے او راس کے وعدوں کی سچائی پر ایمان رکھتے ہوئے اس کو اپنے عمل کا نمونہ قراردے، تو قرآن معاشرہ کی تمام فردی، اجتماعی، مادی اور معنوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور اسلامی معاشرہ کو ہر چیز اور ہر شخص سے بے نیاز کردیتا ہے۔

اسی کے مقابل، حضرت علی ـ قرآن سے جدائی کے خطرے کو بھی گوش زد فرماتے ہیں اور اس نظریہ کو رد کرتے ہیں کہ اس الٰہی ثقل اکبر، قرآن کے بغیر معاشرہ کی فردی و اجتماعی مشکلات اور ضرورتوں کو برطرف کیا جاسکتا ہے، حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں:''وَ لَا لِأَحَدٍ قَبلَ الْقُرآنِ مِن غِنًی'' کوئی بھی شخص قرآن کے بغیر بے نیاز نہیں

(۱)نہج البلاغہ، خطبہ ۱۷۵۔

۳۴

ہوسکتا اور کبھی بھی معاشرہ قرآن سے مستغنی نہیں ہوسکتا، یعنی عدل و انصاف اور اخلاقی و انسانی اقدار کی بنیاد پر ایک معاشرہ وجود میں لانے کے لئے اگر تمام انسانی علوم اور تجربوں کواستعمال کیا جائے اور تمام افکار و خیالات اکٹھا ہو جائیں، تب بھی قرآن کے بغیر ہرگز صحیح راستہ اور صحیح منزل نہیں پاسکتے، اس لئے کہ بے نیازی کسی شخص کے لئے بھی قرآن کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسی بنا پر آپ فرماتے ہیں:''فَاسْتَشفُوهُ مِن اَدْوَائِکُم وَ اسْتَعِینُوا بِهِ عَلیٰ لَأوَائِکُم'' اپنی مشکلات اور بیماریوں کا علاج قرآن سے طلب کرو اور سختیوں اور پریشانیوں میں قرآن سے مدد حاصل کرو۔ پھر سب سے بڑی فردی و اجتماعی بیماری یعنی کفر و ضلالت و نفاق کو یاد دلا کر فرماتے ہیں کہ ان مشکلات اور بیماریوں کے علاج کا طریقہ قرآن میں موجود ہے، تمھیں چاہئے کہ قرآن کی طرف رجوع کر کے اپنے درد اور مشکلات کا علاج کرو۔

اس بنا پر بنیادی اصولوں کو قرآن سے لینا چاہئے اور ان کلی اصولوں کی پیروی کر کے نیز تدبر و تفکر اور تجربوں سے استفادہ کر کے مشکلات کے حل کا راستہ پیدا کرنا چاہئے۔ اگر ا س نظریہ کے ساتھ مشکلات کو حل کرنا چاہیں تو ہم یقینا تمام مشکلات پر، تمام شعبوںمیں غلبہ اور قابو پالیں گے، اس لئے کہ یہ الٰہی وعدہ ہے، خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:(و مَن یَّتقِ اللّٰهَ یَجعَل لَّهُ مَخرَجاً) ۱ جو شخص تقوائے الٰہی اختیار کرتا ہے اوراحکام خدا سے روگردانی نہیں کرتا خداوند متعال اس کے لئے نجات اور مشکلات سے نکلنے کا راستہ فراہم کردیتا ہے۔

(۱)سورۂ طلاق، آیت ۲۔

۳۵

قرآن سب سے بڑی بیماری کی دوا

البتہ ممکن ہے مذکورہ باتیں مغرور انسانوں کے ذوق کے موافق نہ ہوں اور ان لوگوں کواچھی نہ لگیں جو کہ تقوائے الٰہی اور قرآن واہلبیت کے علوم سے بالکل بے بہرہ ہیں نیز بشری علوم کی چند اصطلاحیں جاننے کے سبب اپنے کو خداوندمتعال کے مقابل سمجھتے ہیں، لیکن ہر عقلمند انسان اعتراف کرتا ہے کہ انسان نے جو کچھ اپنی نت نئی علمی ترقیوں کے ساتھ انکشاف اور ایجاد کیا ہے وہ اس کی مجہول و نامعلوم باتوں کے مقابل ایسا ہی ہے جیسے سمندر کے مقابل ایک قطرہ، اور انسانی مدینۂ فاضلہ کا نمونہ پیش کرنے میں تمام غیر الٰہی اخلاقی مکاتب فکر کے نظریات اوردعوے، خدا کے لامحدود علم اور علوم اہلبیت (ع) (جن کا سرچشمہ الٰہی الہامات ہیں)کے مقابلہ میں صفر سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔

بہرحال حضرت علی ـ انسانی معاشرہ کی سب سے بڑی بیماری کفر و نفاق اور گمراہی کو جانتے ہیں۔ یہی روحی بیماریاں ہیں جو کہ معاشرہ کو مختلف مشکلوں اور پریشانیوں سے دوچار کرتی ہیں اور ان کا علاج بھی قرآن ہی سے حاصل کرنا چاہئے:'' فَإنّ فِیهِ شِفَائً مِن اَکْبَرِ الدَّائِ وَ هُوَ الْکُفْرُ وَ النِّفَاقُ وَ الْغَیُّ وَ الضَّلاَلُ '' سب سے بڑی بیماری سے مراد کفر و نفاق اور ضلالت و گمراہی ہے، اور دوا اور علاج سے مراد قرآن پر ایمان اور اس کی پیروی ہے۔

۳۶

البتہ توجہ رکھنی چاہئے کہ یہ بات (کہ اپنی بیماریوں کی دوا قرآن سے طلب کرو، اس لئے کہ قرآن تمام مشکلات اوربیماریوں کی دوا ہے)، اس کا مفہوم یہ نہیںہے کہ قرآن نے ڈاکٹر کے نسخہ کے مانند تمھارے جسمانی امراض کو بیان کردیا ہے اور ہر ایک مرض سے شفایابی کے لئے ایک دوا کا مشورہ دیا ہے یا اقتصادی و فوجی مشکلات کے باب میں نیز صنعت اور ٹکنالوجی کے شعبوں میں مسائل کے حل کے فارمولوں کو قرآن سے لینا چاہئے، جو شخص دینی معارف سے ذرا سا بھی واقف ہے وہ ہرگز حضرت علی ـ کے اس کلام کی توضیح ا س معنی میں نہیں کرتا، اس لئے کہ جسمانی بیماریوں اور بقیہ تمام مشکلات کا حل اپنے طبیعی وسیلوں کا محتاج ہے، قرآن کریم ان مشکلات کے حل کے لئے جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کلی اصولوں کو بیان کرتا ہے اب لوگوں کا فریضہ ہے کہ قرآن کے ان کلی اصولوں کو سر مشق اور نمونہ قرار دیکر نیز عقل، خداداد قوتوں اور انسانی علوم کے تجربوں سے استفادہ کر کے اپنے مشکلات کو حل کریں اور اپنی بیماریوں کا علاج کریں۔

یہاں پر ہم عزیز قارئین کی توجہ دو نکتوں کی طرف مبذول کر رہے ہیں:

پہلا نکتہ٭ یہ ہے کہ طبیعی اور مادی اسباب و علل اگرچہ اپنے معلول اور مسبب کو مستلزم ہیں، لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے کہ تمام موجودات کی علت العلل خداوند تبارک و تعالیٰ کی ذات اقدس ہے۔ اسی نے عالم کے نظام کو علت و معلول کے رابطہ کی بنیاد پر خلق کیا ہے اور وہی ہمیشہ اسباب و علل کو سببیت اور علیت عطا کرتا ہے اور یہ اس کا تکوینی ارادہ ہے اور جب تک یہ تکوینی ارادہ نہ ہوگا اس وقت تک کسی فعل کا براہ راست کوئی اثر نہیں ہوگا۔

۳۷

اس بنا پر تمام دردوں کی دوا اور تمام مشکلات کو دور کرنے کے لئے ہمیں چاہئے کہ بنیادی طور پر خداوند متعال کی طرف توجہ کریں اور چشم امید اسی کی طرف رکھیں، اگرچہ مشکلات کو حل کرنے میں اور بیماری سے شفا حاصل کرنے میں طبیعی اسباب و علل کا بھی سہارا لیں لیکن توحید افعالی کے اقتضاء کی بنا پر شفا اور مشکلات کے حل کو اصل میں اسی سے سمجھنا چاہئے اور اسی سے امید رکھنا چاہئے۔

دوسرا نکتہ٭ یہ ہے کہ مشکلات کے حل اور بیماریوں کے علاج کا راستہ فقط عادی اور طبیعی اسباب و علل میں منحصر نہیں سمجھنا چاہئے، یعنی ایسا نہیںہے کہ مشکلات کے حل میں مادی اور طبیعی اسباب و علل نہ پائے جانے سے یا ان کے مفید و کارآمد نہ ہونے سے مشکل کے حل، بہبودی کے حصول، امراض کی شفا یا انسان کی جائز اور برحق خواہشات کے پورا ہونے کا امکان نہ ہو۔

خداوند متعال نے علّی اور معلولی نظام خلق کرکے اپنے کو غیر طبیعی طریقے سے کوئی شے ایجاد کرنے سے عاجز نہیں کیا ہے، بلکہ سنت الٰہی اس بات پر قائم ہے کہ پہلے مرحلہ میں امور عادی اور طبیعی راستے سے انجام پائیں، لیکن امور کا انجام پذیر ہونا طبیعی طریقہ میں منحصر نہیں ہے بلکہ خاص حالات میں خداوند متعال کچھ امور کو طبیعی راستے کے بغیر بھی خود ایجاد کرتا ہے کہ اس کو بھی سنت الٰہی کہا جاسکتا ہے۔ مرض سے شفا اور بہبودی ممکن ہے طبیعی راستے سے اور ڈاکٹری علاج سے واقع ہو اورممکن ہے کہ خاص شرائط و حالات کے تحت غیر مادی علتوں کے واسطے سے، جیسے ائمۂ معصومین (ع) یا دوسرے اولیاء خدا کی دعا سے حاصل ہو جائے۔ جیسا کہ ممکن ہے محاذ توحید کے مجاہدین مادی وسائل اور اسلحہ نیز طبیعی حالات کے اعتبار سے دشمن کے مقابل (لوگوں کی نظر میں) شکست کھانے والے ہوں، لیکن غیبی امداد اور غیر طبیعی اسباب کے ذریعے فتحیاب ہو جائیں کہ یہ بات بھی الٰہی اسباب و علل میں سے سمجھی جاتی ہے۔

۳۸

قرآن کریم میں ایسے واقعات کے بہت سے نمونے مذکور ہیں جو کہ غیر مادی اور غیر طبیعی اسباب کے راستے سے واقع ہوئے ہیں، مثال کے طور پر نزول باران اگر طبیعی اسباب و عوامل کے راستے سے واقع ہو تو ضروری ہے کہ دریا اور سمندروں کا پانی سورج کی دھوپ اور گرمی کی تپش سے بخار اوربھاپ بن کر بادل کی صورت اختیار کریں، پھر دریا اور خشکی کے درجۂ حرارت کے نتیجے میں ہوا چلنے سے بادل دریاؤں کے اوپر سے زمین کے تمام علاقوں میں منتقل ہو جائیں تاکہ خاص حالات کے تحت بادل میں موجود پانی، بارش کے قطروں، یا برف کے دانوں یا اولوں کی صورت میں زمین پر برسے۔

بارش کی امید اس کے طبیعی اسباب و علل کے بغیر، مادی نظر سے ایک بیجا اور نامعقول امید سمجھی جاتی ہے، لیکن حضرت نوح ـ نزول باران کے لئے طبیعی عوامل کو نظر میں رکھے بغیر اپنی قوم کو خطاب کرکے فرماتے ہیں کہ استغفار اور توبہ کرو تا کہ آسمان سے تم پر موسلا دھار بارش ہو،(وَ یَا قَومِ اسْتَغفِرُوا رَبَّکُم ثُمَّ تُوبُوالیهِ یُرسِلِ السَّمَائَ عَلَیکُم مِدْرَاراً وَ یَزِدْکُم قُوَّةً ِلٰی قُوَّتِکُمْ وَ لاتَتَوَلَّوْا مُجرِمِینَ) ۱ اے میری قوم والو! اپنے پروردگار سے استغفار کرو پھر اسی کی طرف ،ہمہ تن گوش ہو جاؤ اور اس کی طرف پلٹ آؤ تاکہ خداوند متعال آسمان سے تم پر موسلادھار بارش نازل کرے اور رحمت الٰہی اور بارش کے نزول کے ذریعہ تمھاری موجودہ قوت کو اور قوت دیکر

(۱)سورۂ ہود، آیت ۵۲ ۔

۳۹

زیادہ کردے، پھر فرمایا:(وَ لاتَتَوَلَّوا مُجرِمِینَ)، خبردار! توبہ و استغفار کے بغیر اور اس حال میں کہ تم مجرم و گنہگار ہو خدا سے منھ مت پھیرو او راپنے کو رحمت الٰہی سے محروم مت کرو۔

اگر چہ نزول باران کے طبیعی اسباب و علل اور طبیعت میں جاری تمام علّی و معلولی نظام، سب قدرت الٰہی کے ہاتھ میں ہیںاور اسی کے ارادے سے کام کرتے ہیں، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ طبیعی اسباب و عوامل کو نظر میں رکھے بغیر خداوند متعال فرماتا ہے کہ تم اپنے گناہ سے استغفار کرو اور خدا کی طرف واپس آجاؤ، ہم آسمان سے کہہ دیں گے کہ تم پر موسلادھار برسے۔

ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ خداوند متعال کا مقصود یہ نہیں ہے کہ طبیعی عوامل کے تحقق کے بغیر بارش نازل ہو، بلکہ مقصود یہ ہے کہ ہم طبیعی عوامل کو پیدا کر کے تم پر بارش برسائیں گے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نظریہ توحیدی مکتب فکر کے موافق نہیں ہے، اس لئے کہ جیسا کہ اس سے پہلے ذکر کیا گیا، ایسا نہیں ہے کہ خداوند متعال نے علّی و معلولی نظام کو خلق کر کے، طبیعی اسباب و علل کے بغیر موجودات کو ایجاد کرنے سے اپنے کو عاجز کر رکھا ہے۔ خداوند متعال موجودات کی ایجاد و خلقت پر اپنی قدرت کے متعلق اس طرح فرماتا ہے:(اِذَا أَرادَ شَیئاً أَن یَّقُولَ لَهُ کُن فَیَکُون) جب بھی خداوند متعال کسی شے سے یہ کہنے کا ارادہ کرتا ہے کہ ہو جا، تو وہ شے فوراً ہوجاتی ہے۔

(۱)سورہ یٰس، آیت ۸۲۔

۴۰

بعض بلاؤں کی حکمت

مذکورہ بالا باتوں کے علاوہ، کبھی کبھی خداوند متعال کی حکمت اور حق کی رحمانیت اس بات کا موجب ہوتی ہے کہ غیر طبیعی راستوں سے اپنے بندوں پر لطف کرے اور اپنی نعمت ان پر نازل کرے۔

اس مقصد کے لئے خداوند متعال مادی اسباب و علل کے علاوہ دوسرے اسباب و علل قرار دیتا ہے اور لوگوں سے چاہتا ہے کہ ان کے وسیلے سے لوگ اپنے کو الٰہی رحمت و نعمت کا مستحق بنائیں، یہ معنی بھی خداوند متعال کے لطف اور اس کی رحمت کا مقتضی ہے، خلقت کا نظام، حکمت کی بنیاد پر ہے اور انسان کی تخلیق کا مقصد ہدایت اور تکامل ہے، اور ہدایت و تکامل، اس وقت حاصل ہوتا ہے جبکہ لوگ آیات الٰہی کی معرفت اور ان میں تدبر، بندگی، دین حق نیز انبیاء الٰہی کے احکام پر عمل کرتے ہوں، لیکن کبھی کبھی لوگ گناہ اور معصیت کے نتیجہ میں راہ حق سے منحرف ہو جاتے ہیں، عام طور سے لوگ جس وقت مادی عیش و آرام میں ہوتے ہیں اور اقتصادی اور مادی لذتوں سے بہرہ مند ہونے کے اعتبار سے کوئی مشکل نہیں رکھتے اور ان کی ہر من پسند چیز فراہم ہوتی ہے تو اس وقت خدا اور معنویات کی طرف بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ ایسے وقت میں، انسانی اور الٰہی خصلتیں ان کے اندر دھیرے دھیرے کمزور ہونے لگتی ہیں اور آخر کار فراموشی کی نذر ہو جاتی ہیں، نتیجہ میں ان کے اندر کفر و ضلالت اور سرکشی و گمراہی پیدا ہو جاتی ہے۔

۴۱

قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے:(کَلاَّ ِنَّ الِنسَانَ لَیَطْغیٰ٭ أَن رَّئٰ اهُ اسْتَغنیٰ) 1 جس وقت انسان اپنے کو بے نیاز خیال کرلیتا ہے تو سرکشی کرنے لگتا ہے۔ اگر ایک معاشرہ اور امت کی اکثریت پر سرکش اور استکباری فکر حاکم ہو تو خداوندمتعال کا لطف اور اس کی عنایت اس بات کا سبب بنتی ہے کہ کسی بھی طرح سے انسانوں کو ہوشیار کرے، ان کو خواب غفلت سے بیدار کرے اور راہ حق اور طرز بندگی کی طرف واپس لے آئے۔

اس مقصد کے تحقق کے لئے کبھی کبھی بلائیں، جیسے فقر اور قحط نازل کرتا ہے اور دوسری طرف ان بلاؤں کے رفع کرنے او ران کے علاج کے لئے گناہوں سے توبہ واستغفار، خدا کی طرف توجہ اور نماز کو بتاتا ہے تاکہ نتیجہ میں خلقت کا مقصد پورا ہوسکے اور یہی انسان کی اختیاری ہدایت اور تکامل ہے۔یہ بات بھی تعجب خیز الٰہی سنتوں میں سے ایک رہی ہے کہ کبھی کسی نبی کو مبعوث کرتا تھا اور اس کی امت کو سختیوں میں مبتلا کرتا تھا تاکہ وہ خدا اور راہ حق سے غافل نہ ہوں، نیز مادی لذتوں میں غرق ہونا ان کو سعادت سے باز نہ رکھے۔

بہرحال بعض بلاؤں کا نزول، غافل انسانوں کی توجہ اور بیداری کا سبب ہوتا ہے اس لئے کہ سخت حالات میں انسان بہتر طور پر خدا سے اپنی احتیاج کو درک کرتا ہے اور عیش و آرام کی زندگی سے بہتر بلاؤں کی زندگی میں وہ انبیاء کی تعلیمات کو سمجھتا اور قبول کرتا ہے ، قرآن کریم فرماتا ہے:(وَ مَا أَرْسَلنَا فِی قَریَةٍ مِن نَّبِیٍّ ِلاَّ أَخَذنَا أَهْلَهَا بِاْلبَأسآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُونَ )2 اور ہم نے جب بھی کسی قریہ یا شہر

(1)سورۂ علق، آیت 7،6۔

(2)سورۂ اعراف، آیت 94۔

۴۲

میں کوئی نبی بھیجا تو اہل قریہ یا اہل شہر کو نافرمانی پر سختی اور پریشانی میں ضرور مبتلا کیا کہ شاید وہ لوگ ہماری بارگاہ میں تضرع و زاری کریں۔

سورۂ مومنون کی آیت اور بھی اسی مطلب کی وضاحت کرتی ہے:

(وَ لَو رَحِمنَاهُم وَ کَشَفْنَا مَابِهِم مِن ضُرٍّ لَلَجُّوا فِی طُغیَانِهِم یَعمَهُونَ٭ وَ لَقَد أَخَذنَاهُم بِالعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوا لِرَبِّهِم وَ مَایَتَضَرَّعُونَ)

اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور ان کی تکلیف اور سختی کو دور کردیں تو بھی یہ اپنی سرکشی پر اڑے رہیں گے اور گمراہ ہی ہوتے جائیں گے، اور ہم نے انھیں عذاب کے ذریعہ پکڑا بھی مگر یہ نہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی گڑگڑاتے ہیں۔

اس بنا پر امتوں کے بعض عذابوں اور ان کی سختیوں کا فلسفہ لوگوں کی بیداری اور راہ ہدایت کی طرف ان کا واپس آنا ہے، اگرچہ ممکن ہے کہ یہ سختیاں، پریشانیاں اور بلائیں بعض امتوں کو بیدار نہ کریں اور وہ لوگ اسی طرح ضلالت و گمراہی پر اڑے رہیں، کہ اس صورت میں حجت ان پر تمام ہو جاتی ہے اور انھیں چاہئے کہ ان بلاؤں کے نزول کے منتظر رہیں جو کہ ان کی حیات اور زندگی کا خاتمہ کردیں گی۔

۴۳

قرآن سورۂ انعام کی آیات سے تک، حضرت پیغمبر اسلام کو خطاب کر کے فرماتا ہے:

(وَ لَقَد أَرسَلنَااِلیٰ أُمَمٍ مِن قَبلِکَ فَأََخَذنَاهُم بِالبَاسآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّهُم یَتَضَرَّعُونَ ٭ فَلَو لا ِذْجآئَ هُم بَاسُنَا تَضَرَّعُوا وَ لٰکِن قَسَتْ قُلُوبُهُم وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیطٰنُ مَا کَانُوا یَعمَلُونَ ٭ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِهِ فَتَحنَا عَلَیهِم أَبوَابَ کُلِّ شَیئٍ حَتَّیٰ ِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذنَاهُم بَغتَةً فَاِذَاهُم مُبْلِسُونَ)

یعنی ''ہم نے تم سے پہلے والی امتوں کی طرف بھی رسول بھیجے ہیں اس کے بعد انھیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں، پھر ان سختیوں کے بعد انھوں نے کیوں فریاد نہیں کی، بات یہ ہے کہ ان کے دل سخت ہوگئے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کوان کے لئے آراستہ کردیا ہے، پھر جب ان نصیحتوں کو بھول گئے جو انھیں یاد دلائی گئی تھیں تو ہم نے امتحان کے طور پر ان کے لئے ہر چیز کے دروازے کھول دیئے، یہاں تک کہ جب وہ ان نعمتوں سے خوش ہوگئے تو ہم نے اچانک انھیں اپنی گرفت میں لے لیا اور وہ مایوس ہوکر رہ گئے'' ۔

ہمیں جاننا اور سمجھنا چاہئے کہ یہ سنت الٰہی ہے جو کہ پہلے والی امتوں میں جاری رہی ہے اور نبی آخرالزمان کی امت بھی اس سے مستثنیٰ نہیںہے۔

بہرحال صاحبان بصیرت اور ان لوگوں کے لئے جو کہ اپنی سعادت اور سرنوشت کی فکر رکھتے ہیں، بعض مشکلات و مصائب اور بلاؤں کا وجود، عبرت و ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اسی کے برعکس جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ ایسے انسان بھی ہیں جو ایسے خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی بھی ٹہوکے اور نصیحت سے نصیحت حاصل نہیں کرتے اور ہوش میں نہیں آتے۔

۴۴

لہٰذا وہ بلائیں اور سختیاں جو معاشروںاور قوموں کے لئے لوگوں کو بیدار کرنے اور ہوش میں لانے کی خاطر پیش آتی ہیں وہ سابق انبیاء کی امتوں سے مخصوص نہیںہیں، بلکہ یہ مسئلہ الطاف الٰہی میں سے ہے جو کہ امتوں کی بیداری اور خدا کی طرف توجہ کے لئے واقع ہوتا ہے، جو بات اہم ہے وہ ایسے حوادث کے فلسفہ او رراز کو سمجھنا، گزشتہ سے عبرت حاصل کرنا، خدا کی طرف بازگشت اور توبہ ہے۔ نہایت افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت کم لوگ اس مسئلہ کی طرف توجہ کرتے ہیںاور اسی غفلت کی بنا پر اقتصادی بحرانوں سے نجات کے لئے (کہ انھیں میں سے قحط اور پانی کی کمی کا بحران ہے)، بعض عہدہ دار افراد غفلت و بے توجہی کی بنا پر یا ایمانی اور اعتقادی کمزوری کی بنا پر غیر خدا کا دامن تھام لیتے ہیں اور مسلمانوں کے بیت المال سے زیادہ پیسے خرچ کر کے اسکیمیں تیار کرتے ہیں تاکہ شیمیائی مادوں کے ذریعے بادلوں میں پانی بھر کر بارش ایجاد کریں، کتنا باطل خیال ہے! کیا بارش کی علت تامہ یہی بادل کا وجود اور ہوا کے ذریعے اس کا منتقل ہونا اور دوسرے چند محدود اسباب ہیں کہ انسان مکڑی کی طرح اپنے ہی بنے ہوئے جالوں میں پھنس کر مغرور ہو جائے نیز بندگان خدا اور مسلمان عوام کو بجائے اس کے کہ خدا او راس کے احسان و عنایت کے دامن سے متوسل ہونے کی طرف متوجہ کرے، پہاڑوں کی چوٹیوں پر بادلوں کے ٹکڑے تلاش کرے او ران کا شکار کرنے کے بعد پھر ان میں پانی بھر کر بارش برسائے؟

۴۵

واقعاً یہ بات حضرت نوح ـ اور ان کے فرزند کے واقعہ کو یاد دلاتی ہے کہ حضرت نوح ـ سال تبلیغ کے بعد خدا پر اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے، ان کی ہدایت سے ناامیدی اور عذاب کی علامتیں ظاہر ہونے کے بعد انھوں نے اپنے بیٹے سے چاہا کہ ایمان لے آئے اور کشتی پر سوار ہو جائے تاکہ اس قطعی و یقینی عذاب سے نجات حاصل کرلے۔ اس نے اپنے باپ کے جواب میں اپنے شرک آلود خیال کو اس طرح بیان کیا کہ:(سَاٰوِ اِلٰی جَبَلٍ یَعْصِمُنِْ مِنَ الْمَائِ) 1 میں پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لے لوں گا تاکہ وہ مجھے غرق ہونے سے بچالے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ آخر کار وہ ایمان نہ لایا اور ہلاک ہوگیا، خداوند متعال اس واقعہ کا ذکر کرکے شرک آلود فکر کی اصل کو بیان کر رہا ہے اور لوگوں کو اس سے ڈرا رہا ہے۔

اب بھی یہ شرک آلود فکر بعض لوگوں کے درمیان خصوصاً مغرب زدہ روشن فکر افراد میں رائج ہے۔ وہ لوگ بجائے اس کے کہ خدا پر ایمان رکھیں اور قلم و بیان سے لوگوں کو خدا کی طرف بلائیں، مشکلات کو دور کرنے کے لئے اسلام و مسلمین کے دشمنوں کے ہاتھوں کی طرف نگاہیں جمائے ہوئے ہیں اور انھیں سے مدد کی امید رکھتے ہیں۔

صاحبان علم و فہم پر پوشیدہ نہیں ہے کہ ہم علمی ترقی اور انسانی علوم کی ایجادات کے مخالف نہیں ہیں کیونکہ دین و قرآن اور توحیدی مکتب فکر، ہر مکتب فکر سے زیادہ انسانوں کو علم و دانش کے حصول اور انسانی افکار و خیالات سے حاصل شدہ چیزوں سے استفادہ کی طرف دعوت دیتا ہے۔ جس بات کی نفی پر یہاں تاکید کی جارہی ہے اور جس کے سخت اور سنگین نتائج سے خبردار کیا جارہا ہے، یہ شرک آلود فکر ہے کہ نہایت افسوس ہے کہ اس میں مبتلا افراد ہمارے معاشرے میں کم نہیں ہیں۔

(1)سورۂ ہود، آیت 43۔

۴۶

بہرحال سب سے زیادہ بہتر، نزدیک اور اطمینان بخش راستہ فردی و اجتماعی مشکلات کو دور کرنے کے لئے خانۂ خدا کے درپر واپس آنا ہے اس لئے کہ راہ خدا کا انتخاب اس بات کے علاوہ کہ ہماری ابدی و اخروی سعادت کا ضامن ہے، دنیوی زندگی کے مشکلات اور بحرانوں کو بھی دور کرتا ہے،(فَقُلتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إنّهُ کَانَ غَفَّاراً یُرسِلُ السَّمَائَ عَلَیکُم مِدرَاراً) 1

پس میںنے لوگوں سے کہا کہ اپنے پروردگار سے استغفار کرو بے شک وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے وہ آسمان سے تم پر موسلا دھار پانی برسائے گا، نتیجہ میں باغ وجود میں آئیں گے اور نہریں جاری ہوں گی۔

اس بنا پر قرآن، نقائص اور کمیوں کو دور کرنے اور مسلمانوں کے امور میں کشائش کے لئے اپنے پیرؤوں کے لئے راہ حل پیش کرتا ہے اور ان راستوں کی افادیت کی ضمانت لیتا ہے۔ اس کے علاوہ، مسلمان جیسا کہ بارہا آزما چکا ہے دوبارہ پھر آزما سکتا ہے۔

بے شک ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی ہمارے اسلامی معاشرہ پر نصرت الٰہی اور خدا کی غیبی امدادوں کے معجزنما نمونوں میں سے ایک ہے۔ جس وقت کہ تمام لوگ خدا پر توکل اور اس کے غیر سے امید قطع کر کے اسلامی حکومت کے خواہاں ہوئے، خدا نے اپنے وعدہ کی بنا پر کہ قرآن میں فرماتا ہے:(ِإنْ تَنصُرُوْا اللّٰهَ یَنصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ

(1) سورۂ نوح، آیت 10، 11۔

۴۷

أَقدَامَکُمْ) 1 (اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں ثابت قدم بنا دے گا)، دشمن اسلام کی تمام حمایتوں کے ساتھ ڈھائی ہزار () سالہ شہنشاہی حکومت کی تمام قوتوں کے برخلاف، لوگوں کو ان کے دشمنوں پر فتحیاب کیا، اور یہ سنت الٰہی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک لوگ خدا کی طرف متوجہ رہیں گے خدا بھی ان کی مدد فرمائے گا اور جب وہ خدا کو بھول جائیں گے، غیر خدا سے مدد کی امید رکھنے لگیں گے اور خدا سے منھ موڑ لیں گے تو عذاب و ذلت سے دوچار ہو جائیں گے۔

بہرصورت، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن کریم علم الٰہی کا نسخۂ شافیہ ہے اور دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت و نجات، اس کے حیات بخش احکام کی پیروی میں پوشیدہ ہے، اور فردی و اجتماعی مشکلات کا راہ حل اسی میں تلاش کرنا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ قرآن یعنی انسان کی سعادت کے اس ضامن کو پہچانیں، اس کی تعظیم و تکریم کریں اور اس پر عمل کریں۔ البتہ قرآن کے متعلق دو طرح کی تعظیم و تکریم پائی جاتی ہے کہ ذیل میں ہم اس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

قرآن کریم کی ظاہری اور حقیقی تعظیم

قرآن کریم کے احترام کے متعلق زیادہ تر جو کچھ آج اسلامی معاشروں میں موجود ہے ان کو قرآن کا ظاہری احترام کہا جاسکتا ہے، جبکہ قرآن کریم ہرگز اس لئے نازل نہیں ہوا ہے کہ اس کے ساتھ ایک خاص (ظاہری) آداب و رسوم اور احترام

(1) سورۂ محمد، آیت 7۔

۴۸

بجالائیں، قرآن فقط حفظ کرنے اور بہترین دھن اور آواز کے ساتھ تلاوت کرنے کے لئے نہیں ہے۔ قرآن زندگی اور الٰہی پیغامات کی کتاب ہے کہ سب کا فریضہ ہے کہ اپنی دنیوی زندگی میں اس پر عمل کریں تاکہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں، خصوصاً اسلامی معاشروں میں حکومت کے عہدہ دار افراد کا فریضہ ہے کہ نظام کی کلی سیاستوں کو اس کتاب الٰہی کی ہدایات کی بنیاد پر تنظیم کر کے ان کا اجرا کریں، تاکہ قرآن کے مکتب فکر کے پھلنے پھولنے کا مقدمہ معاشرہ کے افراد کے لئے بہتر طور سے مہیا ہواور نتیجہ میں نزول قرآن کا مقصد پورا ہو جائے کہ اس کا مقصد یہی ہے کہ روئے زمین پر عدل و انصاف کے زیر سایہ انسان کا تکامل اور اس کی سعادت ممکن ہے۔

افسوس ہے کہ اس امید کے برخلاف، جو کچھ آج ہم قرآن کریم کی تعظیم و تکریم کے عنوان سے مشاہدہ کر رہے ہیں وہ ظاہری احترام کی حد سے آگے نہیں بڑھتا اور قرآن کی مرکزیت کا لازمہ مسلمانوں کی سیاسی و اجتماعی زندگی میں بھلا دیا گیا ہے۔

آج بہت سے اسلامی ممالک میں بہت سے ادارے، ابتدائی کلاسوں سے کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک قرآن کریم کی تعلیم و تعلم کا انتظام کرتے ہیں اور مختلف طریقوں سے قرآن کے ناظرے، حفظ اور قرائت کا اہتمام کرتے ہیں اور ہر سال ہم عالمی پیمانے پر قرآن کریم کے حفظ و قرائت کے مقابلوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ مختلف قرآنی علوم جیسے تجوید و ترتیل وغیرہ قرآن کے عقیدتمندوں کے درمیان ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان امور کے علاوہ قرآن عام مسلمانوں کے درمیان ایک خاص احترام کا حامل ہے مثلاً اس کے الفاظ و آیات کو بغیر وضو کے مس نہیں کرتے اور قرائت کے وقت ادب کے ساتھ بیٹھتے ہیں، زیادہ تر افراد قرآن کے مقابل اپنا پاؤں نہیں پھیلاتے، اس کو سب سے زیادہ بہتر جلد میں اور سب سے زیادہ مناسب جگہ پر رکھتے ہیں، خلاصہ یہ کہ اس طرح کے ظاہری احترام عام مسلمانوں کے درمیان رائج ہیں۔

۴۹

واضح ہے کہ مذکورہ امور کی رعایت اس آسمانی کتاب کے احترام کے عنوان سے ایک بڑی فضیلت ہے کہ جس قدر بھی ہم ان کے پابند ہوں بہتر ہے لیکن ہم نے اس آسمانی کتاب کے احترام کا حق کماحقہ ادا نہیں کیا ہے اور خداوند متعال کی اس عظیم نعمت کا شکر جو کہ نعمت ہدایت ہے، بجا نہیں لائے ہیں ، لیکن ہر نعمت کا سب سے زیادہ احترام اور شکر اس کی حقیقت کی شناخت او راس کا اس جگہ استعمال ہے کہ خدا نے جس کے لئے خلق کیا ہے۔

چنانچہ اگر ہم اس نظریہ کے ساتھ چاہیں کہ قرآن کو دیکھیں اور اس کا احترام و اکرام کریں تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ قرآن کریم اسلامی معاشروں کے کلچر میں ایک مطلوب منزلت نہیں رکھتا اور اس کا حقیقی طور پر احترام نہیں کیا جاتا۔

قرآن کریم کے احترام و اکرام سے متعلق مسلمانوں کا جو عمل بیان کیا گیا ہے، وہ اگرچہ ضروری اور لازم ہے، لیکن ان امور کی انجام دہی سے خداوند متعال کے قرآن نازل کرنے کا مقصد پورا نہیں ہوتا اور اس آسمانی کتاب کے بارے میں مسلمانوں کا جو فریضہ ہے وہ بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ ظواہر قرآن کی معرفت، آیات الٰہی کی قرائت اور اس نسخۂ شافیہ کی ظاہری تعظیم و تکریم، اس کے مطالب اور احکام پر عمل کرنے کا مقدمہ ہیں۔ قرآن کا واقعی حق، مسلمانوں کی سیاسی و اجتماعی زندگی میں اس کو محور قرار دیئے بغیر ادا نہیں ہوسکتا۔

۵۰

واضح سی بات ہے کہ ڈاکٹر کے نسخے کو چومنا، اس کا احترام کرنا اور اس کو بہترین دھن اور میٹھی آواز کے ساتھ پڑھنا، بغیر اس کے کہ ڈاکٹر کی ہدایات اور اس کے احکام کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں، بیمار کے کسی بھی درد کا مداوا نہیں کرتا۔ ہر عقلمند یقین رکھتا ہے کہ شفا کے لئے ماہر ڈاکٹر کے احکام پر عمل کرنا لازم ہے۔ ڈاکٹر کے نسخہ کا حقیقی احترام اس پر عمل کرنا ہے نہ کہ ڈاکٹر اور اس کے نسخہ کی تعظیم و تکریم کرنا ہے۔

قرآن کے متعلق بھی کہنا چاہئے کہ اگرچہ قرآن کریم کا ظاہری احترام کرنا، پسندیدہ امور اور ہر ایک مسلمان کے فرائض میں سے ہے، لیکن یہ اس آسمانی کتاب کے بارے میں مسلمانوں کا سب سے معمولی فریضہ ہے، اس لئے کہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے اور اس کے حیات بخش احکام پر عمل کرنے کے ذریعے اس ہدایت الٰہی کی نعمت کا شکر او رواقعی احترام بجالائیں اور اپنے کو اس پُرفیض امانت سے محروم نہ کریں تاکہ نتیجہ میں ا س نور الٰہی کے ذریعے اپنی اندھیری دنیا کو روشنی بخشیں۔

قرآن، حقیقی نور

خداوند متعال کی تجلی کا ایک مظہر نور ہے۔ خداوند تعالی اپنے کو نور سے تشبیہ دیتا ہے اور فرماتا ہے:(أَللّٰهُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرْضِ) 1 خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ یہ خداوند متعال کے نور وجود کی تجلی اور چھوٹ ہے کہ جس سے زمین و آسمان اور

(1)سورۂ نور، آیت 35۔

۵۱

مخلوقات کی خلقت ہوئی ہے۔ عنایت خدا کی برکت ہے کہ عالم وجود قائم و ثابت ہے اور فیض وجود، ہمیشہ اور مسلسل منبع جود کی جانب سے موجودات پر جاری و ساری ہے نتیجہ میں موجودات و مخلوقات اپنی زندگی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کبھی کبھی کلام خدا کو بھی نور سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس لئے کہ نور ہی کے پرتو میں انسان راستے کو پیدا کرتا ہے، سرگردانی اور بھول بھلیوں میں بھٹکنے سے نجات حاصل کرتا ہے۔ چونکہ سب سے زیادہ بری اور نقصان دہ گمراہی، راہ زندگی کی ضلالت و گمراہی اور انسان کی سعادت کا خطرے میں پڑنا ہے، اس لئے حقیقی اور واقعی نور وہ ہے جو کہ انسانوں کو اور انسانی معاشروں کو ضلالت و گمراہی سے نجات دے اور انسانی کمال کے صحیح راستے کو ان کے لئے روشن کرے تاکہ سعادت و تکامل کے راستے کو سقوط و ضلالت کے راستوں سے تمیز دے سکیں۔ اسی بنیاد پر خداوند متعال نے قرآن کو نور سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے: (قَدجَائَکُم مِنَ اللّٰہِ نُور وَّ کِتَاب مُبِین) یقینا تمھارے پاس خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آئی ہے تاکہ تم اس سے استفادہ کر کے راہ سعادت کو شقاوت سے جدا کرسکو۔ اب چونکہ بحث کا موضوع ''قرآن، نہج البلاغہ کے آئینہ میں'' ہے، اس لئے ہم اس سلسلہ میں وارد شدہ آیات کی تفسیر و توضیح سے چشم پوشی کرتے ہیں اور اس بارے میں حضرت علی کے بیان کی توضیح کرتے ہیں۔

(1)سورۂ مائدہ، آیت 15۔ اس آیۂ کریمہ میں نور سے مراد در حقیقت حضرات محمد و آل محمد (ع) ہیں اس لئے کہ قرآن کا ذکر یہاں ''کتاب مبین'' کے ذریعہ کیا گیا ہے، اگرچہ قرآن کریم کا بھی نور ہونا اس ''کتاب مبین'' (روشن کتاب) کی تعبیر سے نیز دوسری آیات و روایات سے ثابت ہے (مترجم)۔

۵۲

امیر المومنین حضرت علی ـ خطبہ میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی توصیف کے بعد قرآن کریم کا وصف بیان فرماتے ہیں:''ثُمَّ أَنزَلَ عَلَیهِ الْکِتَابَ نُوراً لاتُطْفَأُ مَصَابِیْحُهَ وَ سِرَاجاً لایَخْبُو تَوَقُّدُهُ وَ بَحْراً لایُدْرَکُ قَعْرُهُ'' پھر خداوند متعال نے اپنے پیغمبر پر قرآن کو ایک نور کی صورت میں نازل فرمایا کہ جس کی قندیلیں کبھی بجھ نہیں سکتیں، اور ایسے چراغ کے مانند کہ جس کی لو کبھی مدھم نہیں پڑسکتی اور ایسے سمندر کے مانند جس کی تھاہ مل نہیں سکتی۔

حضرت علی ـ اس خطبہ میں وصف قرآن کے متعلق پہلے تین نہایت خوبصورت تشبیہوں کے ذریعے چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دلوں کو قرآن کی عظمت سے آشنا کریں اور ان کی توجہ اس عظیم الٰہی سرمایہ کی طرف جو کہ ان کے ہاتھوں میں موجود ہے، زیادہ سے زیادہ مبذول فرمائیں۔

پہلے حضرت علی ـ قرآن کی توصیف نور کے ذریعہ فرماتے ہیں:''أَنْزَلَ عَلَیهِ الْکِتَابَ نُوراً لاتُطْفَأُ مَصَابِیحُهُ'' خداوند تعالی نے قرآن کو اس حال میں کہ نور ہے، پیغمبر پر نازل فرمایا، لیکن یہ نور تمام نوروں سے مختلف ہے۔

یہ حقیقت (قرآن کریم) ایک ایسا نور ہے کہ جس کی قندیلیں ہرگز خاموش نہیں ہوسکتیں اور ان کی لو کبھی مدھم نہیں پڑسکتی۔

۵۳

معقول کی محسوس سے تشبیہ کے عنوان سے قرآن کریم اس برقی انرجی کے عظیم منبع کے مانند ہے جو کہ اندھیری راتوں میں بجلی کے مرکز کے ذریعے قوی اور بڑی بڑی مرکریوں کے وسیلے سے ان راستوں کو روشن کرتا ہے جو کہ منزل مقصود تک منتہی ہوتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے جو سلامتی کے ساتھ مقصد تک پہنچنا چاہتے ہیں، دو راہوں، چوراہوں یا چند راہوں پر راہنما چراغوں کو نصب کر کے اس شاہراہ کو روشن کرتا ہے جو کہ منزل مقصود تک پہنچتا ہے اور ان دوسرے راستوں سے تمیز دیتا ہے جو کہ سرگردانی اور ہولناک گھاٹیوں میں گرنے کا باعث ہوتے ہیں۔

قرآن بھی دینی اور اسلامی معاشرہ میں اور سعادت و کامیابی تلاش کرنے والوں کی زندگی میں ایسا ہی اثر رکھتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ جو چراغ اس نور کے منبع سے روشنی کسب کرتے ہیں اور راہ سعادت کو روشن کرتے ہیں وہ کبھی بجھ نہیں سکتے نتیجہ میں راہ حق، ہمیشہ مستقیم اور روشن ہے، قرآن کریم اور اس کے روشن چراغ ہمیشہ قرآن کے پیرؤوں کو نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ ہوشیار رہو کہیں راہ حق سے منحرف نہ ہو جاؤ۔

اسی خطبہ میں آگے بڑھ کر حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:''نُوْ راً لَیسَ مَعَهُ ظُلْمَة'' قرآن وہ نور ہے جس کے ہوتے ہوئے ظلمت و تاریکی کا امکان نہیں ہے، اس لئے کہ یہ آسمانی کتاب ایسے چراغ اور قندیلیں رکھتی ہے جو اس سے نور حاصل کرتی ہیں اور ہمیشہ ہدایت و سعادت کی راہوں کو روشن رکھتی ہیں۔

اس کے علاوہ، حضرات ائمۂ معصومین (ع) کہ وہی وحی الٰہی کے مفسر ہیں ان چراغوں اور قندیلوں کے مانند ہیں جو کہ قرآن کے معارف کو لوگوں سے بیان کرتے ہیں اور اپنے خداداد علم کے ذریعے مسلمانوں کو قرآن کی حقیقت سے آشنا کرتے ہیں۔

۵۴

قرآنی چراغ اور آئینے

جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ حدیث ثقلین کے مطابق، قرآن و عترت (اہلبیت) یہ دونوں الٰہی امانتیں موحدین کی ہدایت کے راستے میں ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہیں کہ ایک سے تمسک کرنے اور دوسرے کو چھوڑنے سے نزول قرآن کا مقصد، جو کہ انسانوں کی ہدایت ہے، پورا نہیں ہوتا۔

حضرات ائمۂ معصومین (ع) وہ چراغ ہیں جو اس الٰہی منبع سے نور اخذ کرتے ہیں اور سعادت کے طلبگار افراد کی راہ زندگی کو روشن کرتے ہیں کیونکہ قرآن اور اس کی حقیقت آپ حضرات ہی کے پاس ہے۔ یہی ذوات مقدسہ ہیں جو متشابہات کو محکمات کی طرف واپس لے آتے ہیں، راہ کو بیراہی و سرگردانی سے جدا کرتے ہیں اور لوگوں کو کمال و سعادت کے راستے کی رہنمائی کرتے ہیں۔ لوگوں کو بھی چاہئے کہ قرآن کے معارف کو فقط آپ ہی حضرات سے حاصل کریں اور ان پر عمل کریں۔

حکمت الٰہی اسی بات کی مقتضی ہے اور سنت الٰہی اسی بات پر قائم ہے کہ لوگ اہلبیت (ع) کے وسیلے سے قرآن کے معارف و علوم حاصل کریں اور ان پر عمل کر کے اپنی دنیوی اور اخروی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ لہٰذا اس مقصد کے تحقق کے لئے خداوند متعال نے امامت کا ایک سلسلہ قائم کرکے معارف قرآن سے استفادہ کا راستہ سعادت کے طلبگاروں کے لئے کھلا رکھا ہے۔ اگر چہ دشمن اور دنیا پرست افراد پوری تاریخ میں اس بات کے درپے رہے ہیں کہ لوگوں کے لئے ہدایت الٰہی کے نور کو جو کہ مکتب اہلبیت (ع) میںمجسم نظر آتا ہے، خاموش کردیں۔

۵۵

لیکن قرآن فرماتا ہے کہ ہرگز اس کام میں کامیاب نہ ہوں گے:(یُرِیدُونَ لِیُطْفِئُوا نُورَ اللّٰهِ بِأَفوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَ لَو کَرِهَ الْکافِرُونَ) 1 وہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنی پھونکوں سے بجھادیں اور اللہ اپنے نور کو کامل کرنے والا ہے اگرچہ کافروں کو ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا

اسی وجہ سے حضرت علی ـ قرآن کو اس چراغ سے تشبیہ دیتے ہیں جس کی لَو کبھی مدھم نہیں پڑسکتی اور جو کبھی بجھ نہیں سکتا۔

قرآن کے معارف اتنے گہرے اور وسیع ہیں کہ جس قدر علوم اہلبیت (ع) سے آشنا لوگ اس کے اندر غور و فکر کرتے ہیں ہر قدم پر ایک نیا نکتہ او رایک نئی معرفت حاصل کرتے ہیں اور چونکہ یہ آسمانی کتاب، علم الٰہی کا ایک نسخہ ہے جس قدر تشنگان حقیقت اس کی حقیقت کے آب زلال کو نوش کرتے ہیں وہ نہ صرف سیراب نہیں ہوتے بلکہ ان کی تشنگی اور بڑھ جاتی ہے اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اولیاء خدا اور حقیقت قرآن کی معرفت رکھنے والے کوشش کرتے ہیں کہ نماز میں آیات الٰہی کی تلاوت اور ان میں تدبر و تفکر کے ذریعے اپنی روح کو لطیف و پاکیزہ بنائیں اور زیادہ سے زیادہ اپنے کو الہامات خداوندی اور بیکراں معارف الٰہی کی بارش کا مرکز قرار دیں۔

قرآن ایک ایسا دمکتا آفتاب ہے جس کے معارف بے کراں اور جس کی روشنی ابدی ہے، اس لئے کہ یہ آسمانی کتاب اس گہرے سمندر کے مانند ہے جس کی تھاہ تک

(1)سورۂ صف، آیت 8۔

۵۶

پہنچنا پیغمبر اور ائمۂ معصومین ـ کے علاوہ کہ جن کے پاس ''علم کتاب'' ہے، کسی اور کے لئے ممکن نہیں ہے اور جو شخص اور جو معاشرہ بھی چاہے کہ قرآن اور کلام الٰہی سے آشنا ہو اور اپنی فردی و اجتماعی زندگی کو اس آسمانی کتاب کی ہدایات کی بنیاد پر قائم اور منظم کرے، اس کے لئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ پیغمبر اور ائمہ معصومین (ع) کی تفسیر و توضیح کی بنیاد پر قرآن سے تمسک کرے اور ان حضرات کی سیرت و سنت کو نمونۂ عمل قرار دے۔ اس بات کی تائید کے لئے ہم صرف دو روایتوں کے کچھ حصوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق ـ ارشاد فرماتے ہیں:

''وَ نَحْنُ قَنَادِیْلُ النُّبُوَّةِ وَ مَصَابِیحُ الرِّسَالَةِ وَ نَحْنُ نُورُ الاَنوَارِ وَ کَلِمَةُ الْجَبَّارِ وَ نَحْنُ رَایَةُ الْحَقِّ الَّتِی مَن تَبِعَهَا نَجَیٰ وَ مَن تَأَخَّرَ عَنْهَا هَوَیٰ وَ نَحنُ مَصَابِیْحُ الْمِشْکَاةِ الَّتِی فِیهَا نُورُ النُّورِ''

ہم (اہلبیت) نبوت کی قندیلیں اور رسالت کے چراغ ہیں، یعنی لوگوں کو چاہئے کہ ائمۂ معصومین (ع) کی راہنمائی کے ساتھ نبوت و رسالت کی منزل مقصود کی طرف، کہ وہی حق کی طرف ہدایت ہے، راستہ طے کریں۔ ہم تمام نوروں کے نور ہیں، خدا کی حاکمیت ہماری ولایت کے ذریعے تحقق حاصل کرتی ہے اور ہم ہی وہ حق کا علَم ہیں کہ جو بھی اس کی پیروی کرے گا نجات حاصل کرے گا اور جو اس سے دو رہوا وہ ہلاک ہوجائے

گا اور ہم وہ چراغ ہیں کہ جن میں نور در نور ہے۔

(1)بحار الانوار، ج26، ص 259۔

۵۷

ایسا ہی بیان حضرت امام زین العابدین ـ سے بھی نقل ہوا ہے، چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں:

''إنّ مَثَلَنَا فِی کِتَابِ اللّٰهِ کَمَثَلِ الْمِشْکَاةِ والْمِشْکَاةُ فِی الْقَنْدِیْلِ فَنَحْنُ الْمِشْکَاةُ فِیهَا مِصْبَاح وَ الْمِصْبَاحُ هُوَ مُحَمَّد ۖ اَلْمِصْبَاحُ فِی زُجَاجَةٍ نَحنُ الزُّجَاجَةُ کَأََنَّهَا کَوْکَب دُرِّی یُوقَدُ مِن شَجَرِةٍ مُبَارَکَةٍ زَیتُونَةٍ لاشَرقِیَّةٍ وَ لاغَربِیَّةٍ لامُنکَرَةٍ وَ لادَعْیَةٍ یَکَادُ زَیتُهَا نُوْر یُضِیئُ وَ لَو لَم تَمْسَسْهُ نَارُ نُورُالفُرْقَانِ عَلٰی نُورٍ یَهْدِْ اللّٰهُ لِنُورِهِ مَن یَّشآئُ لِوِلَایَتِنَا وَ اللّٰهُ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیم بِأَن یَّهْدِْ مَن أَحَبَّ لِوِلایَتِنَا حَقّاً''1

حضرت نے اس بیان میں سورۂ نور کی پینتیسویں آیت کی تفسیر پیغمبر اور اہلبیت اور ائمۂ معصومین (ع) سے کی ہے۔

حضرت ارشاد فرماتے ہیں کہ قرآن میں ہم اہلبیت کی مثل اس منبع کے مانند ہے جس کے ذریعے ہدایت الٰہی کا نور بندوں کے لئے راستے کو روشن کرتا ہے، ہم اہلبیت اس شفاف آئینے کے مانند ہیں جو چراغ ہدایت کے نور کو کہ وہی نبوت کا نور ہے، بندوں کے سامنے منعکس کرتے ہیں، اس نور کا سرچشمہ نور الٰہی کا وہ شجرہ طیبہ ہے جس کی روشنی نہایت وسیع اور ناقابل انکار ہے حقیقت میں یہ نہ شرقی ہے نہ غربی، نہ تو غیر معروف ہے اور نہ متروک۔

حضرت امام زین العابدین ـ ارشاد فرماتے ہیں کہ پیغمبر اور اہلبیت طاہرین (ع) کی حقیقت اس نہایت شفاف چراغ کے مثل ہے جو شعلہ کے بغیر، نور دیتا ہے، نور قرآن اس نور پر مبتنی ہے کہ خدا جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اسے اس نور (ولایت اہلبیت (ع)) کی ہدایت دیتا ہے۔

(1)بحارالانوار، ج23، ص314۔

۵۸

قیامت کے دن پیروان قرآن کی کامیابی

جیسا کہ اس کے قبل اشارہ کیا گیا جو بات انسان کے لئے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور عقل لازم قرار دیتی ہے کہ تن من دھن سے بہتر سے بہتر طور پر اس کو حاصل کرے، وہ اخروی سعادت و کامیابی ہے، اس لئے کہ اس دنیا کی زندگی، آخرت کی ابدی زندگی کا مقدمہ ہے۔ انسان کی مثل اس دنیا میں عالم آخرت کی نسبت اس مسافر کے مانند ہے کہ جو پردیس میں رات دن محنت و کوشش کرتا ہے، قناعت کر کے اپنی پونجی جمع کرتا ہے اور اسے اپنے اصلی وطن، اپنے گھر بھیج کر تمنا رکھتا ہے کہ اپنے لئے ایک گھر، ٹھکانہ اور سرمایہ فراہم کرے تاکہ اپنے وطن پلٹ کر پہلے سے بھیجے ہوئے ساز و سامان اور وسائل سے بہرہ مند ہو اور اپنی زندگی کے ان باقی ماندہ چند دنوں کو آرام، عزت اور سربلندی کے ساتھ گزارے، بس فرق یہ ہے کہ یہ دنیوی زندگی محدود اور فنا پذیر ہے لیکن اخروی زندگی ابدی اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔

انسان کے عقائد و اعمال وہ بیج ہیں جواس دنیا میںانسان کے ہاتھ سے بوئے جاتے ہیں اور عالم آخرت میں اس کا نتیجہ اور محصول ظاہر ہوگا۔ اس دنیا میں اگر کوئی کسان علم زراعت کے ماہر عالم کی ہدایات کی بنیاد پر بیج بوئے تو کاٹنے کے وقت بہترین کیفیت کے ساتھ اپنی زحمتوں کا زیادہ سے زیادہ نتیجہ و محصول حاصل کرے گا۔

۵۹

اسی طرح اگر لوگ اپنے عقائد و اعمال کو قرآن کریم کی ہدایات اوراہلبیت طاہرین (ع) کے علوم و معارف کی بنیاد پر قائم رکھیں اور اپنے فردی، اجتماعی اور سیاسی امور کو قرآن کریم کی ہدایات کی بنیاد پر منظم کریں، تو دنیا کی عزت و سربلندی کے علاوہ، عالم آخرت میں بھی اپنے نیک اعمال کے نتائج سے بہرہ مند ہوں گے اور اس بات سے خوش ہوں گے کہ اپنے اعمال صالحہ سے رحمت خدا کے جوار میںایک سعادتمند تقدیر و سرنوشت کے حامل ہوگئے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ مذکورہ بالا مضمون کوایک نہایت خوبصورت مثال کے ساتھ بیان فرماتے ہیں اور لوگوں کو قرآن پر عمل کرنے اور اس کے حیات بخش احکام کی پابندی کرنے کی طرف دعوت دیتے ہیں:

''فَاسْئَلُوا اللّٰهَ بِهِ وَ تَوَجَّهُوالیهِ بِحُبِّهِ وَ لاتَسْئَلُُوْا بِهِ خَلْقَهُ إنّهُ مَا تَوَجَّهَ العِبَادُ اِلٰی اللّٰهِ بِمِثْلِهِ وَ اعْلَمُوْا إنّهُ شَافِع وَ مُشَفَّع وَ قَائِل مُصَدِّق وَ أَنَّهُ مَن شَفَعَ لَهُ الْقُرآنُ یَومَ الْقِیَامَةِ شُفِّعَ فِیهِ وَ مَن مَّحَلَ بِهِ الْقُرآنُ یَومَ الْقِیَامَةِ صُدِّقَ عَلَیهِ''1

حضرت علی ان گزشتہ مطالب کو بیان کرنے کے بعد کہ قرآن معاشرہ کے سب سے بڑے درد و مرض کا علاج ہے، لوگوں کو نصیحت فرماتے ہیں کہ: ''اس کے ذریعہ اللہ

(1)نہج البلاغہ، خطبہ 175۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180