قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت33%

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 180

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42249 / ڈاؤنلوڈ: 3524
سائز سائز سائز
قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

بلکہ ہر ایک مسلمان کیلئے۔ مسلمانوں پر اپنے مذہب کے احکام پر عمل پیرا ہونا واجب ہے :(۔۔۔ اللہ تمہارے لئے کسی طرح کی زحمت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاتا ہے کہ تمہیں پاک و پاکیزہ بنا دے اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کردے شاید تم اسطرح اسکے شکر گذار بندے بن جائو۔مائدہ۔6) ۔اسلئے اگر ہم یہ قبول کریں گے کہ وہ معصوم ہیں جن کے متعلق یہ آیت اتری ہے،ہم کو معلوم ہوجائیگا کہ وہ ازواج نبی(ص) نہیں ہیںکیونکہ وہ معصوم نہیں ہیں( بلکہ انکے افعال، اقوال و بیا نات میں بہت تضاد ہے مترجم)۔یہ حقیقت ہے کہ نہ ہی پہلی نسل میں کسی نے ایسا دعویٰ کیا ہے اور نہ ہی بعد میں کسی نے یہ جانتے ہوئے کہ نبی (ص) نے اپنی کچھ ازواج کو طلاق اور دوسرے تنبیہ کی دھمکی دی تھی جیسا کہ آپ اگلے باب میں دیکھیں گے۔

عصمت ِاہلبیت کے ثبوت میں مزید دلائل:

(1): حدیث ثقلین :

دو گراں قدر چیزیں والی حدیث کے متن! (اے لوگو میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں، کتاب اللہ اور اپنی عترت ،میرے اہلبیت چھوڑے جارہا ہوں جنکا دامن تھامنے سے تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہوؤ گے) میں خدا کے رسول (ص) کا حکم ہے کہ کتاب اللہ اور اہلبیت و آل ِ رسول (ص) ،دونوں سے ایک ساتھ وابستہ رہناگمراہی سے بچنے کی شرط ہے۔اس سے ثقلین یعنی ثقل اکبر کتاب اللہ جس کے آگے یا پیچھے برائی آہی نہیں سکتی اورثقل اصغر اہلبیت ،دونوں (ص) کی عصمت ثابت ہوجاتی ہے کیونکہ ضلالت میں گرنے کے خلاف قرآن کے ساتھ اہلبیت کا دامن پکڑنے کا حکم ِ رسول (ص)ان کی بیگناہی اور غلطی سے پاک ہونے پردلالت کرتا ہے۔

۲۱

(2): قرآنی آیت :

'' اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعے حضرت ابراہیم کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کر دیا تو اللہ نے کہا کہ ہم تمکو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں،ابراہیم نے عرض کی ،کیا میری ذریت کو بھی ؟ ارشاد ہوا کہ عہدئہ امامت ظالمین تک نہیں پہنچ پائے گا ۔ البقرہ ۔12 4 ''۔ امامت کا اعلی ٰ مقام بیان کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ امامت ظالمین کا حق نہیں ہے۔ گناہ چھوٹا ہو یا بڑا،انجام دینے والے کو ظالمین میں شمار کرواتا ہے۔اسی لئے امام گناہ یا اور کسی برائی کے ارتکاب سے خدائی حفاظت میں ہونا چاہئے۔

(3):مستدرک علی صحیحین سے گواہی :

حناش الکنانی کے اسناد سے امام حاکم روایت کرتے ہے کہ میں نے ابو ذر کو خانہ کعبہ کے دروازہ کو پکڑ کر یہ کہتے ہوئے سنا ! اے لوگو تم جانتے ہو کہ میں کون ہوں اوراگر کوئی نہیںجانتا تو وہ جان لے کہ میں ابوذر ہوں۔ میں نے اللہ کے رسول (ص) کو یہ کہتے سنا ہے کہ: میرے اہلبیت کی مثال تمہارے درمیان سفینۂ نوح کی طرح ہے،جو بھی اسمیں سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ڈوب گیا۔(11) ۔ حاکم کہتا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ اسی کتاب میں حاکم ابن عباس کی سند سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا کہ میں نے اللہ کے رسول (ص) کو یہ کہتے ہوئے سنا !ستارے اہل زمین کوڈوبنے سے بچاتے ہیں جبکہ میرے اہلبیت میری امت کو اختلافات سے بچانے کیلئے جائے امان ہیں۔اگر عرب میں کوئی ان کی مخالفت کرے گا۔تو اس کا شمار ابلیس کی جماعت میں ہوگا۔(12) ۔

۲۲

( 4 ): صحیح بخاری میں :

اہل بیت کس مقام ومنزلت پر فائز ہیں اس کی وضاحت کیلئے ہم صحیح بخاری کی کچھ حدیثیں بیان کرتے ہیں جنمیں انکو علیہم السلام کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔اور یہ انہیں کا لقب ہے نہ کہ کسی صحابی یا ازواج کا۔مثال کے طورپر صحیح بخاری میں بیان کیا گیا ہے کہ :

علی علیہ السلام سے روایت ہے ،'' مجھے مال غنیمت سے ایک خاص حصہ ملتا تھا اور نبی رحمت (ص)مجھے خمس کا ایک خاص حصہ بھی دیتے تھے،جبکہ مجھے ایک بیٹی بھی ہوئی تھی اللہ کے رسول (ص) کی بیٹی فاطمہ سے۔۔۔۔۔۔(13) بخاری میں یہ بھی روایت ہے کہ ۔۔۔۔ اور اللہ کے رسول (ص) درِ علی و فاطمہ علیہم السلام پر رات کو آکے کہتے تھے'' الصلوات''(14) دوسری روایت میں یہ لکھا ہے کہ ۔۔ اس نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ حسن بن علی علیہ السلام اپنے نبی کے ہوبہو ہے۔۔۔(15) اسی حوالہ میں یہ بھی کہا گیا ہے ! علی ابن حسین علیہ السلام سے اس نے کہا ۔۔۔۔(16)

کیا کوئی دلیل دیگا کہ اس سے انکی عظمت ثابت نہیں ہوتی ہے مگر پھر یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر کیوں انہی کو ا ن القاب سے نوازا جاتا تھا نہ کہ اور کسی کو۔

(5):احادیث سے گواہی :

اللہ کے رسول نے ہر ایک کو حکم دیا ہے کہ ان پر درود بھیجنے میں ان کی آل کو بھی شامل کیا جائے۔ بخاری اپنی صحیح میں عبد الرحمان ابن ابی لیلیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ''۔۔کعب ابن اجراہ مجھ سے ملا اور کہا،' مجھے ہدیہ دو ! نبی (ص) ہم کو دیکھنے باہر آئے اور ہم نے اسے کہا،' اے اللہ کے رسول (ص) ہمیں پہلے ہی معلوم ہے کہ آپ (ص) کو سلام کیسے کریں مگر ہمیں بتائیے کہ آپ پر درود کیسے بھیجیں ؟ انہوںنے کہا کہ اسطرح کہو:اللہم صلی علٰی محمد و علٰی آلِ محمد کما صلیت ابراہیم و علٰی آلِ ابراہیم انک حمید المجید۔(17) ۔

۲۳

اس حدیث میں جہاں ایک طرف ہمارے آقا حضرت ابراہیم ـ اور آقاحضرت محمدمصطفیٰ (ص) کا ذکر ہے تو دوسری طرف انکے درمیان یہ رشتہ ہے کہ دونوں حضرت ابراہیم اور حضرت محمد نبی تھے اور انکی ذریت محافظ شریعت تھی۔مسلمانوں کو وصال نبی (ص) کے بعد ان کی آل پاک سے رجوع کرنے کا حکم تھا فرق صرف یہ تھا کہ وہ امام تھے جبکہ آل ابراہیم نبی بھی تھے۔ ایک دوسری حدیث میں ہمارے آقا حضرت محمد (ص) نے فرمایا: اے علی کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے ہارون موسیٰ کیلئے تھے سواے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا؟۔(18) اس حدیث پر بعد میں بحث کریں گے۔

اوپر بیان کئے گئے واقعات سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نے اہلبیت رسول (ص) کو عصمت و پاکیزگی اسی لئے عطا کی ہے تاکہ وہ وصال نبی (ص) کے بعداللہ و رسول (ص) کا پیغام اگلی نسلوں تک صاف و شفاف طریقہ سے پہنچائیں اور تحریف و شبہات سے یہ محفوظ رہے۔ اللہ کے رسول (ص) کے ذریعے الٰہی شریعت کا پیغام دینے سے کیا فائدہ ہے اگر یہ بعدوفات رسول (ص) بھروسے مند افراد کے ہاتھوں محفوظ نہ رہے ؟ اس سوال کا بہترین جواب یہ ہے کہ پچھلی امتوں کو کیا ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ جعلسازی نے انہیں رنج والم کیوں دیا جیسا کہ خدائے حمید و مجید نے کہا ہے ''کیا تمہیں امید ہے کہ وہ تمہاری طرح ایمان لائیں گے جب کہ ان کے اسلاف کا ایک گروہ کلام خدا کو سن کر تحریف کردیتا تھا حالانکہ سب سمجھ بھی جاتے تھے اور جانتے بھی تھے''؟۔(البقرہ 75)

یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ قرآ ن کریم کا متن تحریف سے محفوظ رکھنے سے شریعت دین اسلام کی تحریف سے از خود حفاظت کی ضمانت نہیں ہے ۔امامت اسی لئے احکام عامہ میں نبوت کی توسیع مانی جاتی ہے سوائے وحی الہٰی کے متعلق معا ملوں میں جو کہ نبوت سے مخصوص ہے۔امامت کو نبوت کی توسیع ماننے کا مطلب ہے علم و عمل سے شریعت کی حفاظت کرنا۔اس لئے اماموں کی عصمت الہٰی قوانین کے تحت برائے نشر و ترسیل آیندہ نسل کیلئے اشد ضروری ہے جو کہ صرف خاندان نبوت کے بارہ اماموں کے صاف وپاک مقامات سے ہی ممکن ہے۔

۲۴

دوم،اہلبیت میں اماموں کی تعداد کے بارے میں ثبوت :

اللہ کے منتخب شدہ رسول (ص) نے فرمایا ہے کہ انکے بعد خلیفہ یا امام قریش سے ہونگے اور انکی تعداد بارہ ہوگی۔امام بخاری جابر بن سمرہ سے روایت کرتے ہیں کہ جابر نے اللہ کے رسول (ص) کو فرماتے سنا: '' میرے بعد بارہ امیر ہونگے۔۔وہ کہتا ہے کہ جابر نے کہا کہ اس کے بعد اللہ کے رسول (ص) نے کیا فرمایا،میں نے نہیں سنا مگر میرے باپ نے کہا کہ انہوں نے فرمایا کہ وہ سب قریش سے ہونگے''۔(19) صحیح مسلم میں ایک حدیث اسطرح ہے : ''ایمان اس وقت تک باقی رہیگا جب تک کہ بارہ خلیفہ حکومت کریںگے جو سب کے سب قریش سے ہونگے''(20) ۔اسی حوالہ میں یہ بھی درج ہے :''لوگوں کے معاملات اس وقت تک برقرا رہیں گے جب تک کہ بارہ خلفاء ہونگے''(21) ۔ مسندد احمدابن حنبل میں عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک بار اللہ کے رسول (ص) سے ان خلفا کے بارے میں پوچھا تو نبی خدا (ص) نے فرمایا: ''وہ بارہ ہیں جیسا کہ بنی اسرائیل کے قبیلوں کی تعداد ہے''۔(22)

اہل کتاب کی توریت کے ایک مضمون کا مفہوم یہ ہے: اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو حضرت اسمعٰیل کی خوش خبری دی اور یہ کہ ان کی ذریعہ بہت زیادہ پھیل جائے گی اور ان کی اولاد میںسے بارہ شہزادے اور ایک عظیم قوم وجود میں آئے گی۔(23) عظیم قوم کی طرف اشارہ ہمارے نبی (ص) کی امت ہے جن کا سلسلۂ نسب حضرت اسمعٰیل سے ملتا ہے۔ اور جو بارہ شہزادوں کا ذکر ہے،وہ وہی بارہ امام یا خلفاء ہیں جو اللہ کے رسول (ص) کے بعدآئے اور انکی ہی نسل پاک سے ہیں۔ وہ،وہ ہیں جن کا ذکر اوپر بیان کی گئیںصحیح احادیث میں کیا گیا ہے۔

یہ مسئلہ اہل سنت دانشوروں کیلئے بڑاپیچیدہ ہے کیونکہ وہ ان کی صحیح کتب احادیث میں مذکور ان بارہ اماموں یا خلفا ء کی پہچان کے متعلق ایک بھی واضح یا قابل اطمینان دلیل نہیں دے پارہے ہیں یہاں تک کہ یہ مسئلہ ان کے لئے ایک الجھن بن گیا ہے۔اس بارے میں انکی وضاحت متزلزل ہے اوربلا نتیجہ ہے کیونکہ بارہ کی تعداد چار خلفائے راشدین سے شروع کرکے کیسے برابرکریں،بنو امیہ ،بنو عباس اور سلظنت عثمانیہ سے یا انکو ان سب میں چن کر لینا ہے ؟

۲۵

اس حدیث کے متعلق ان کی الجھن بھری وضاحت کی ایک مثال ہم یہاں پیش کرنا چاہتے ہیں :۔ جلال الدین سیوطی کا کہنا ہے کہ،'' بارہ خلفاء میں سے پہلے چار خلفاء ہیں ،پھرحسن ۔معاویہ۔عبداللہ ابن زبیر۔عمرابن عبدالعزیز۔یہ آٹھ ہیں اور یہ ممکن ہے کہ مہدی عباسی خلیفہ بھی شامل ہوسکتا ہے کیونکہ بنو عباس میں ا س کی وہی حیثیت ہے جو کہ بنو امیہ میں عمر ابن عبدالعزیز کی ہے۔ اور عباسی خلیفہ'' طاہر'' بھی ان کی برابری کی بناپر ہے۔دو باقی ہیں جنکا انتظار ہے،ان میں ایک مہدی المنتظرہیں کیونکہ وہ اہلبیت میں ہے ''(24)

جب ہم اس بارہ خلفا والی الجھن کو حل کرنے والی انکی پریشانی کی بات کرتے ہیں ،ہمارا مطلب ان کے دانشوروں کی پریشانی وحیرانی ہے۔جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے ،انہوں نے یہ حدیث جس میں خلفاء کی تعداد کا ذکرہے ،حدیث ثقلین اور دوسری احادیث جن سے عظمت اہلبیت کتب اہلسنت سے ثابت ہے اکثر سنی ہی نہیں ہے۔ میں اس وقت بہت حیران ہوا جب جارڑن یونیورسٹی میں شریعت کالج کے پروفیسر ڈاکٹر احمد نوفل نے میرے ساتھ بحث کرتے ہوئے کہا کہ یہ بارہ خلفاء والی حدیث میری اپنی(شیعی) ایجادہے اور یہ اہلسنت کی کتب احادیث میں موجود نہیں ہے،یہ کہکر وہ فوراََ اٹھ کے چلا گیا اور بحث کرنے سے مکرگیا۔یہ اس کے بعد کا واقعہ ہے جب اس نے منیلا(فلپائن) میں ایک لیکچر پر شیعوں کے متعلق پوچھے جانے پر کچھ سوالات کے جوابات دئیے تھے۔اسکے جوابات سچ سے بہت دور تھے ،اسی لئے میں نے اس کے جھوٹ کو رد کرنے کیلئے اس سے بحث کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ میں نے بہت سی احادیث پیش کیںکہ شیعہ حضرت محمد (ص) کے پیروکار ہیں نہ کہ عبداللہ ابن سبا کے جیسا کہ اس کادعوٰی تھا ۔یہ واقعہ بیان کرکے ہم اس نیک پروفیسر کو بدنام نہیں کرنا چاہتے ہیں،اللہ اسکو معاف کرے۔ ہم صرف حقیقت کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں جو واضح ہونی چاہئے کیونکہ تعصب کچھ لوگوں کو اس سے زیادہ کرنے کیلئے اکساتا ہے۔سچ مچ یہ حیران کن ہے کہ کیسے کوئی کسی موضوع کی بنیاد نہ جانے بغیر ہی اسکے متعلق سوالات کا جواب دینے کی زحمت کر سکتا ہے چہ جائیکہ اس کا تعلق مذہبی معاملات کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو اسکے متعلق کیا فیصلہ ہے جو جانے بغیر ہی فتویٰ دیتا ہے؟ لاحول ولا قوت الا باللہ علی العظیم۔ اسطرح ہم اہلسنت کو اس بارہ خلفاء والی الجھن سے پریشان دیکھتے ہیں جبکہ وہ ان کے متعلق رہنمائی کرنے والی روایت شدہ ،ستاروں کی طرح چمکتی ہوئی احادیث سے ناواقف ہیں۔

۲۶

اہلبیت رسول (ص) کے پیرو کار،شیعہ امامی نے پہلے ہی یہ معاملہ صفائی سے بیان کیا ہے کہ جو ان احادیث میں بارہ خلفاء مذکور ہیں، وہی اہلبیت رسول (ص) سے بارہ امام ہیں۔اسکے علاوہ اہلبیت طاہرین سے وہ ثبوت اپنی کتب احادیث سے اسطرح پیش کرتے ہیں جن میں ان اماموں کے نام صاف ظاہر ہیں اور شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔وہ یہ ہیں:1 ۔امیر المومنین امام علی ابن ابی طالب ،2۔امام حسن ابن علی ،3۔امام حسین ابن علی ، 4 ۔امام علی ابن حسین زین العابدین (سجاد) ،5۔امام محمد ابن علی باقر ،6۔امام جعفر ابن محمدصادق، 7۔امام موسی ابن جعفر کاظم ،8۔ امام علی ابن موسی رضا ،9۔امام محمد ابن علی جواد ،10۔امام علی ابن محمدہادی ،11۔امام حسن ابن علی عسکری ،12۔امام محمد ابن حسن مہدی منتظر ۔ ِ

رسول اکرم (ص)نے اپنا جانشین علی علیہ السلام کو بنایا اس بارے میں ثبوت

ہم امامت اہلبیت اور تعداد ائمہ کے ثبوت تفصیل سے پہلے ہی بیان کر چکے ہیں جن میں پیغمبر (ص) نے فرمایا ہے کہ میرے بعد امت میں یہ میرے جانشین ہوںگے حدیث ثقلین کے علاوہ حضرت علی ابن ابی طالب کو نبی آخر زمان (ص) کے ذریعے مقرر کرنے کے مندرجہ ذیل ثبوت ہیں: حضرت علی کی خلافت کے بیان میں سب سے مشہور ہے رسول خدا (ص) کا 11ھ (632ئ) میں حجة الوداع کے موقع پر خطبۂ غدیر۔یہ وہی موقع ہے جب اللہ کے رسول (ص)نے آخری بار کہا: من کنت مولا فھٰذا علی مولا یعنی جس کا میں مولا (حاکم) ہوں،یہ علی آج سے اس کا مولا ہے۔اس کی روایت ترمذی نے زید بن ارقم سے کی ہے(25) ابن ماجہ نے براء ابن عازب کی روایت سے اس خطبہ کا ایک حصہ اپنی صحیح میں اسطرح درج کیا ہے:

براء ابن عازب کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (ص) کے اس حج میں ان کے ہمراہ تھے۔انہوں نے سڑک سے تھوڑی دور پڑاؤ ڈالا اور باجماعت نماز کا حکم دیا۔ پھر انہوں نے علی کا ہاتھ پکڑ کر کہا : کیا مجھے مسلمانوں پر اس سے زیادہ حقوق نہیں ہیں جتنے کہ انہیں اپنے آپ پر ہیں؟ سب نے ہاں میں جواب دیا۔ پھر انہوں نے فرمایا: کیا مجھے ہر مومن پر اس سے زیادہ اختیارنہیں ہے جتنا کہ اسکو اپنے او پر ہے۔سب نے کہا: ہاں ۔ پس آپنے فرمایا: کہ آج سے علی ہر اسکا مولیٰ ہے جسکا میں مولیٰ ہوں،اے اللہ ! تو بھی اسکو دوست رکھ جو اسکو دوست رکھے اور تو اسکو دشمن رکھ جو اسکو دشمن رکھے۔(26)

۲۷

مسند احمد بن حنبل میں بھی یہ روایت براء بن عاز ب سے اسطرح موجووہے :براء بن عازب کی زبانی'' ہم اللہ کے رسول (ص) کے ہمراہ سفر میں تھے،ہم غدیر خم نامی جگہ پر ٹھہرے اور نماز جماعت کا حکم ہوا۔ اللہ کے رسول (ص) کیلئے کچھ پودے بچھائے گئے، ظہر کی نماز ادا کی گئی اور پھر علی کا ہاتھ بلند کرکے فرمایا : کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ مجھے مومنین پر ان سے زیادہ اختیار ہے ؟ انہوں نے ہاں میں جواب دیا۔تو نبی برحق نے کہا : من کنت مولیٰ فھٰذا علی مولاہ۔ اے اللہ ! علی کے دوست کو دوست اور علی کے دشمن کو دشمن رکھ''۔عمر ابن خطاب ان سے ملنے کے بعد اسطرح مبارک باد دیتے ہیں :اے علی ابن ابی طالب مبارک ہوتمہیں صبح و شام ہرمومن مرد اور عورت کی مولایت مل گئی ہے۔(27) اس حدیث کو مکہ کے نزدیک غدیر خم نامی جگہ پر واقع ہونے سے '' حدیث غدیر'' کہتے ہیں۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسکی صداقت پر شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے کیونکہ اسکو اہلسنت کے اکثر کتب حدیث میںدرج کیا گیا ہے یہاں تک کہ کچھ محققوں نے اہلسنت سے ہی اسی (80) طریقوں سے اسکو نقل کیا ہے۔

مذکورہ حدیث سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے اس وقت لوگوں سے اپنی حاکمیت کا اقرار لیا جب انہوں نے کہا کہ کیا مجھے مومنین پر اس سے زیادہ اختیا رنہیں ہے جتنا کہ انہیں اپنے آپ پر ہے؟۔۔۔۔کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ مجھے تم پر تم سے زیادہ اختیار ہے ؟ اسکا مطلب یہ ہے کہ جس کو مومنین پر ان سے زیادہ حق اختیار ہے وہ انکا اسی طرح رہبر و رہنما ہے جسطرح اللہ کا رسول (ص) انکا رہبر ورہنما تھا۔ جب آنجناب (ص) نے علی کو اس فرمان میں شامل کردیا کہ جس جس کا میں مولا ہوں ،یہ علی بھی اسکے مولا ہیں،انہوں نے علی کو اپنی رحلت کے بعد لوگوں کی رہبریت عطا کی۔شیعہ اس موقعہ کو ہر سال عید غدیر کی حیثیت سے مناتے ہیں۔اہلسنت اس حدیث کا دوسرا مطلب نکال کے دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سے خلافت علی ظاہرنہیں ہوتی ہے۔وہ لفظ ''مولیٰ'' کو بحیثیت ''دوست ''مانتے ہیں نہ کہ ولی امر یعنی رہبر۔انک کی نظر میں اس حدیث کا مطلب ہے : کہ جسکا میں دوست ہوں یہ علی بھی اسکا دوست ہے! سچ تو یہ کہ لفظ ''مولیٰ'' کے بہت سے معنٰی ہیں یہاں تک کہ سترہ جن میں آزاد کردہ یا نوکر بھی ہے۔

۲۸

حدیث میں یہ لفظ مولیٰ سمجھنے کی ضرورت ہے،اس کے علاوہ جو کہ بہت سے دلائل کے ذریعے اوپر بیان کئے گئے ولایت کے ضمنی مفہوم میں کہا گیا ہے،مندرجہ ذیل دلائل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔:

(1):سورہ مائدہ کی آیت نمبر 76 '' اے رسول (ص) آپ لوگوں تک وہ پیغام پہنچادیں جس کا تمہیں اللہ کی طرف سے حکم دیاگیا ہے،اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو اس کامطلب ہے کہ گویا آپ نے کار رسالت ہی انجام نہیں دیا اور اللہ آپ کو دشمنوں سے محفوظ رکھے گا۔'' بہت سی کتب تفاسیر میں خطبہ غدیر سے اس کا تھوڑا پہلے نازل ہونا ثابت ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے کوئی خاص حکم ہے جس کا پہنچانا ضروری ہے۔جیسا کہ اس آیت مبارکہ کے الفاظ اور لہجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت ہی اہمیت کا کوئی حکم ہے جو کہ علی کی محبت اور نصرت کے طرف اشارہ نہیں ہوسکتا ہے۔

(2): سورہ مائدہ ہی کی آیت نمبر 4 '' آج کے دن میں نے تمھارے دین کوکامل کیا ،تم پر اپنی نعمتیں پوری کردی اور تمہارے دین اسلام سے راضی ہوا '' بہت سے مفسرین کے مطابق خطبہ غدیر کے بعد ہی نازل ہوئی۔ یہ حضرت محمد (ص)کے پیغامات کے اختتام ہونے کا پیغام ہے ،ایک ایسا پیغام جو کہ امام علی اور دوسرے اہل بیت کی حاکمیت کے اعلان کے بغیرناممکن لگتا ہے۔یہ بات بعید از عقل ہے کہ احکام نبوت (ص) کا اختتام اس حکم پر ہو کہ علی سے محبت و دوستی کی جائے۔

(3):ان حالات میں پیغمبر محمد (ص) کا خطبۂ غدیر دینا جہاں تقریباََ نوے ہزارلوگ سخت دھوپ میں جمع کئے گئے(تاریخ نے جمع ہونے والوں کی تعداد ستّر ہزار سے ایک لاکھ بیس ہزار تک لکھی ہے مترجم) تاکہ ان پرعلی کی حاکمیت کا حکم دینے سے پہلے ان سے اللہ اور رسول (ص) کی حاکمیت کا اقرار لیا جائے،ثابت کرتا ہے کہ مسئلہ علی محبت اور دوستی کانہیں تھا۔

( 4 ):اوپر بیان کی گئیں حدیثیں بالخصوص حدیث ثقلین جو امام علی کی خلافت پر صراحتاً دلالت کرتی ہے جس کے بعد شک کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی مگر پھر بھی ذیل میں ہم کچھ اور دلائل پیش کر رہے ہیں :

۲۹

حضرت علی علیہ السلام کی وصایت وخلافت پر مزید شواہد :

صحیح ترمذی میں عمران بن حصین سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے علی ابن ابی طالب کی سربراہی میں ایک مہم روانہ کی جو کہ طے ہوئی۔ مالِ غنیم میں ایک کنیز حضرت علی کے حصّہ میں آئی۔کچھ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا۔چار صحابی اللہ کے رسول (ص) کے پاس ان کی شکایت لیکر آئے۔اللہ کے رسول (ص) کے چہرہ مبارک پر ناراضگی کے آثار صاف نمودار ہوئے اور ان سے کہا،'' تم علی سے کیا چاہتے ہو ؟ یاد رکھوعلی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں،اور وہ میرے بعد تم سب کا حاکم ہے ۔(28)

اور اللہ کی طرف سے اس آیت پر غور کرو '' بیشک تمہارا سرپرست اللہ اور اس کارسول (ص) ہے اور وہ صاحب ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة ادا کرتے ہیں سورہ مائدہ آیت 58 ''۔اہلسنت کے اکثر مفسرین مانتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی کی شان میں اس وقت نازل ہوئی جب انہوں نے حالت رکوع میں ایک سائل کو اپنی انگلی سے انگھوٹھی نکال کر بطور صدقہ دی۔ صحیح بخاری میں مصعب بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول (ص) نے علی کے بغیر ہی تبوک کی طرف کوچ کیا۔ جس پر علی نے عرض کی یا رسول اللہ کیا آپ (ص) مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ رہے ہیں ؟ آپ (ص) نے فرمایا : کہ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کو جناب موسیٰ سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ؟ ( 28) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ علی کو اس امت میں وہی حیثیت حاصل تھی جو جناب ہارون کو قوم بنی اسرائیل میں تھی سوائے نبوت کے جو کہ قادر مطلق اللہ جلہ و شانہ نے اپنی کتاب میں اسطرح بیان کیا ہے :''۔۔۔اور مقرر کردے میرے لئے ایک وزیر میرے کنبے سے یعنی ہارون کو جو میرا بھائی ہے اور مضبوط کردے تو اس کے ذریعے میری پشت کو اور شریک کردے تو اسکو میرے کام (نبوت) میں ....طہٰ ''آیت 25۔32 ۔۔۔۔۔ اور اللہ نے موسی ٰ کی دعاقبول کی اور فرمایا : اے موسٰی تمہاری دعا قبول ہوئی(طٰہ 36) اور ہم نے موسٰی کو کتاب عطا کی اور ہم نے ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر بنایا ( فرقان 35)

۳۰

حضرت علی عہد ہ ٔ خلافت کے زیادہ حقدار تھے چونکہ بقو ل صحیح بخاری وہ تمام صحابہ میں سب سے زیادہ علم والے تھے جیسا کہ ابن عباس سے روایت ہے کہ عمر ابن خطاب نے کہا : قرآن کی تلاوت سب سے بہتر میرے باپ کرتے ہیں اور ہم میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی ہیں(30) جو احکام اور قوانین سب سے زیادہ جاننے والا ہو وہ ہی سب سے بہتر قاضی ہوتا ہے۔یہ ثبوت کافی ہے کہ علی تمام صحابہ سے اعلم ہیں اور سب سے اچھی عقلی دلیل یہ ہے کہ وہ نبی (ص) کے شہر علم کے دروازہ ہیں۔مستدرک علیٰ صحیحین میں ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا : میں علم کا شہر ہوں اور علی اسکا دروازہ ہے،جس کو علم حاصل کرنا ہے وہ دروازہ سے داخل ہو(31) ۔ صحیح ترمذی میں روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا کہ میں حکمت کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے(32) ۔مستدرک علیٰ صحیحین میں یہ بھی روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا : اے علی! میرے بعد امت میں جن امور میںاختلاف ہوگا،تم انکو صاف صاف بیان کروگے(33) ۔اللہ کے رسول(ص) نے علی سے نفرت کرنے کو منافق کی ایک نشانی قرار دیا ہے جیسا کی صحیح مسلم میں علی سے روایت ہے ! اس کی قسم جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور جس نے ٹھنڈی ہوا چلائی، اللہ کے رسول (ص) نے قسم کھا کر مجھ سے فرمایا : اے علی منافق کے سوا تجھ سے دشمنی کوئی نہیں کرے گا اور مومن کے سوا تجھ سے کوئی محبت نہیں کرے گا(34) ۔

اگر اللہ کے رسول (ص) نے اپنے بعد کیلئے جانشین مقرر و نامزد نہیں بھی کیا تو کیا امت کیلئے یہ فرض نہیں تھا کہ وہ سب سے زیادہ علم والے اور سب سے زیادہ اعلیٰ صفات والے شخص کو اپنا رہبر چنتے؟ ہم یہ پہلے ہی ثابت کرچکے کہ علی تمام صحابہ کرام میں اعلم تھے۔ جب بھی ان کو کوئی پیچیدہ دینی مسئلہ پیش آتا تھا تو وہ امام علی کی طرف رجوع کرتے تھے۔سنن ابن داوئود میں ابن عباس سے روایت ہے کہ عمر ابن خطاب نے ایک ذہنی مرض میں مبتلا عورت کو جس نے بدکاری کی تھی سنگساری کا حکم دیا۔

۳۱

حضرت علی ابن ابی طالب کوجب اس کا علم ہوا کے توآپ اس کو اپنے ساتھ لیکر عمر ابن خطاب کے پاس پہنچے اور ان سے کہا: کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ تین طبقے سزا سے بری ہیں،پاگل جب تک کہ وہ ٹھیک نہ ہوجائے،سویا ہوا جب تک کہ وہ نیند سے اٹھ نہ جائے اور چھوٹا بچہ جب تک کہ وہ عقلی طور سے بالغ نہ ہوجائے ؟ انہوںنے کہا ،ہاں۔ علی نے کہا پھر اس عورت کو سنگساری کا حکم کیسا ؟ عمر ابن خطاب خاموش ہوگئے۔عورت چھوڑدی گئی اور عمر تکبیر پڑھتے رہے(35) ۔بخاری میں بھی اس واقعہ کا ایک حصہ درج ہے۔(36) ۔

اس کے علاوہ امام علی زاہدوں کے امام ہونے کے حیثیت سے بھی مشہور تھے اور وہ بلندحوصلہ اور مد مقابل کو للکارنے کیلئے بھی بہت مشہور تھے،ہر اسلامی معرکہ میں اللہ کے رسول (ص) کی طرف سے لڑتے لڑتے انہوں نے فیصلہ کن رول ادا کیا ہے،جنگ بدر میں انہوں نے اپنی ذوالفقار سے تیس قریشی بہادروں کو تہہ تیغ کیا، احد اور حنین کی جنگوں میں انہوں نے رسول (ص) کی حفاظت کی خاطر اپنی جان ہتھیلی پر لیکرتاریخی اقدام کئے جب کہ بہت سے صحابی میدان جنگ سے راہ ِفرار اختیار کر گئے تھے ! جنگ خندق (موتہ) میںانہوں نے مشرکوں کے دیو قامت سردار عمر ابن عبدود کو للکار کر اس وقت واصل نار کیا جب کہ رسول (ص) کے تین بار پکارنے پر بھی کوئی صحابی ہمت کرکے اسکا مقابلہ نہ کر سکا، حالانکہ امام علی اس وقت ان میں سب سے چھوٹے تھے، جنگ خیبر میں اللہ نے علی کے ہاتھوں کامیابی عطا کرکے درِ خیبر کو مسلمانوں کیلئے کھول دیا جب کہ بہت سے صحابہ اکٹھے مل کر بھی اسکو کھول نہ سکے۔

صحابہ میںجو منزلت ومقام حضرت علی کا ہے وہ کسی کا نہیں ، زمانۂ جاہلیت میں بھی آپ نے بتوں کی پرستش نہیںکی ۔ آپ کی خاص تربیت انسانیت کے سب سے اعلیٰ معلم محمد عربی (ص) کے ہاتھوں ہوئی ،جن کے وجود ِمقدس سے وہ ایک لمحہ کیلئے بھی الگ نہیں رہے۔جب آنحضرت (ص) نے رحلت فرمائی علی ان کی خدمت میں تھے۔علی ہمیشہ آنجناب (ص) سے علم و دانش حاصل کرتے رہے۔ اسلئے وہ آنجناب (ص) کے علم و حکمت کے دروازہ کے حقدار اور ان کے بھائی ہیں۔

۳۲

صحیح بخا ری میں عبدللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ جب اللہ کے رسول (ص) نے صحابہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا،علی آنسوں بھری آنکھوں کے ساتھ آئے اور کہا! اے اللہ کے رسول (ص) آپ(ص) نے اپنے صحابہ کرام کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا اور مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا: اے علی تم دنیا اور آخرت میںمیرے بھائی ہو(37) ۔ روایت یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا: اے علی تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں(38) ۔ علی کو بہت سی خوبیوں کی بنا پر صحابہ پر فوقیت تھی جیسا کہ مستدرک علیٰ صحیحین میں حاکم نے احمدبن حنبل سے روایت کی ہے:'' اللہ کے رسول (ص) کے صحابہ میں امام علی ابن ابی طالب ٭جتنی فضیلتوں کے حامل تھے،اتنا کوئی نہیں تھا(39) ۔صحیح ترمذی میں روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا :،'' اللہ نے مجھ سے فرمایا :کہ فاطمہ کا نکاح علی سے انجام دو(40) ۔ یہ اسکے بعد ہوا جب رسول اللہ (ص) نے بہت سے صحابہ کا پیغام ِ نکاح رد کیا جنہوں نے انکا ہاتھ مانگا تھا تاکہ انہیںاس خاتونِ پاک سے نکاح کرنے کا شرف حاصل ہو جائے جو اللہ کے رسول (ص) کا حصہ تھیں،مومن عورتوں اور اہل جنت کی سردار اور وہ خاتون جس کی ناراضگی سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔اسلئے سچ ہی کہا گیا ہے کہ ،'' اگر علی پیدا نہ ہوتے،فاطمہ کا کفو ہی نہ ہوتا(41) ''۔ اوپر بیان کئے گئے واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر خلافت کا چنائو حقیقتاً لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا، توعلی تمام صحابہ میں سر فہرست ہوتے کیونکہ وہ خلافت کے سب سے زیادہ حقدار تھے۔

مسلمانوں کی اکثریت نے اہلبیت کے متعلق احادیث کی مخالفت کی

ہم نے پہلے ہی وہ دلائل بیان کئے ہیں جن سے اہلبیت کا حق ِولایت ثابت ہوتا ہے جنمیں بارہ اماموں کی امامت خصوصی طور پرواضح وآشکار ہے ہے جو کہ وصال ِ نبی (ص) کے بعد امام علی سے شروع ہوتی ہے۔ ایک فیصلہ کن سوال کا جواب دینا باقی ہے تاکہ صدیوں سے جاری شیعہ،سنی اختلاف کی بنیاد کا ازالہ ہوسکے ۔سوال یہ ہے :'' اگر قدیم روایات سے اہل بیت کی امامت صریحی طور پر ثابت ہے، توکیوں اور کیسے خلافت دوسروں کی حصے میں آگئی؟کیا صحابہ پیغمبر (ص) کے ہر اس فرمان کی تعمیل نہیں کرتے تھے جس کاوہ ان کوحکم دیتے تھے؟

۳۳

اس سوال کا جواب دینے کیلئے ہمیں ِ اسلام کے ابتدائی دور کے کچھ واقعات سامنے لانے ہونگے جنہوں نے تاریخ اسلام کا رخ موڑنے میں بہت ہی اہم رول ادا کیا ہے تاکہ قاری آخر میں خود ہی اپنا فیصلہ سنائے۔ ان میں سے آئے کچھ اہم واقعات یہ ہیں :

( 1 )کچھ صحابہ نے اللہ کے رسول (ص) کو وصیت لکھنے سے روکا:۔

صحیح بخاری میں اس حادثہ کے متعلق چھ (6 )بیان موجود ہیںجو وصال نبی (ص) کے چار دن پہلے پیش آئے۔

ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا:پنجشنبہ کا دن ! ہائے یہ کیسا د ن تھا! رسول خدا (ص) کے درد میں اضافہ ہوا،تو انہوں نے فرمایا ،'' میرے پاس کچھ لائو تاکہ تمہارے لئے ایک نوشتہ لکھ دوں جو تمہیں اس کے بعدکبھی بھی گمراہ نہیں ہونے دیگا۔''انہوں نے نبی (ص) کے سامنے ایک دوسرے سے تنازعہ کیا،اور نبی (ص) کے سامنے کسی کو تنازعہ نہیں کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا ،' ان کو کیا ہوگیا ہے ؟! کیا ان کو ہذیان ہوا ہے؟ (استغفر اللہ ) جس پر رسول اکرم نے فرمایا :مجھے اکیلا چھوڑدو ،جو درد مجھے ہورہا ہے وہ اس سے بہتر ہے جس کا تم مجھے الزام دے رہے ہو''(42)

دوسرے بیان میں ابن عباس سے ہی روایت ہے کہ انہوں نے کہا: جب رسول خدا (ص) کا وقت رحلت قریب پہنچا،وہاں کچھ لوگ بھی تھے تو آنجناب (ص) نے فرمایا ،'چلو میں تمہارے لئے ایک ایسا نوشتہ لکھ دوں جس سے تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگے،ان میں سے کچھ نے کہا کہ رسول خدا (ص) کو درد کا غلبہ ہوگیاہے، اور تمہارے پاس قرآن ہے۔ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔رسول کے پاس جمع لوگوں نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا اور تنا زعہ اٹھ کھڑا ہو۔ان میں سے کچھ نے کہا کہ اللہ کا رسول جو لکھنا چاہتا ہے اسے لکھنے دیا جائے ،جبکہ باقی وہی دُہرا رہے تھے جو حضرت عمر نے کہا تھا۔جب ان کاشور اور اختلاف بہت زیادہ بڑھ گیا،تواللہ کے رسول (ص) نے کہا،' یہاں سے چلے جائو! '' ۔عبید اللہ نے کہا،'' ابن عباس کہا کرتے تھے،عظیم مصیبت تھی وہ،کہ جب لوگوں کے اختلاف اور جھگڑے نے اللہ کے رسول کو وصیت لکھنے سے روک دیا''(43) ۔

۳۴

تیسرے بیان میں ابن عباس سے روایت ہے کہ جب رسول خدا (ص) کا وقت وصال نزدیک آیا تو وہاں کچھ لوگ تھے جنمیں عمر ابن خطاب بھی تھے۔اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،' چلو میں تمہارے لئے ایک ایسا نوشتہ لکھ دوں جس سے تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہو۔ عمر ابن خطاب نے کہا ،' رسول خدا (ص) کو درد کا غلبہ ہوا ہے ا س وجہ سے ایسا کہ رہے ہیں ہمارے لئے قرآن کافی ہے ،وہاں جمع لوگوں کے درمیان اختلاف اور نزاع ہوگیا۔کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ رسول (ص) کے حکم کی تعمیل کرنا ضروری ہے تاکہ رسول اکرم جو کچھ چاہیں وہ تحریر فرمادیں ،باقی عمر ابن خطاب کی کہی ہوئی بات دہرا رہے تھے۔جب انکا اختلاف اور جھگڑا نبی (ص) کے سامنے تیز ہوا تو انہوں نے کہا ! میرے پاس سے چلے جائو !

ابن عبا س ہمیشہ کہتے رہے کہ ہائے کیسی مصیبت،سب سی بڑی مصیبت جب لوگ اختلاف اور جھگڑے کی وجہ سے رسول اور وصیت کے درمیاں حائل ہوئے۔(یعنی آپس کو وصیت نہ لکھنے دی )(44) ۔ صحیح مسلم میں درج ہے کہ انہوں نے کہا۔۔۔۔ کہ ا للہ کا رسول ہذیان بک رہا ہے(45) ۔(استغفر اللہ ،مترجم)

ایک بیان میں اسطرح درج ہے: ۔۔۔۔۔۔۔عمر ابن خطاب نے کہا کہ اللہ کے رسول (ص) کو درد کا غلبہ ہوا ہے،ہمارے لئے قرآن ہے،اللہ کی کتاب کافی ہے(46) ۔ جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ اس آخری بیان میں لفظ ''ہذیان '' درد کے غلبہ سے بدل دیا گیا ہے۔ اوپر بیان کئے گئے واقعات پر غور و فکر کرنے سے یہ صحیح ثابت ہوتا ہے کہ وہ عمر ابن خطاب ہی تھے جنہوں نے اللہ کے رسول (ص) کے ساتھ لفظ 'ہذیان' منسوب کیا اور ان کا ساتھ وہاں موجود کچھ صحابہ نے دیا جس سے اللہ کے رسول (ص) بہت ناراض ہوئے اور انکو '' میرے پاس سے چلے جائو'' کہکرکر وہاںسے نکال دیا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اس حادثہ سے بلا شک یہی تاثر ملتا ہے کہ عظمت والے اللہ کے رسول (ص) کی شان کو ٹھیس پہنچی ہے۔جب مجھے اسکا پتہ چلا تو بہت صدمہ ہوا ،اوریہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اہلسنت کی اکثریت اس حادثہ کے اثرات کی تباہی کے باوجود اس سے بے خبر ہے۔

۳۵

کچھ حضرات جن کومیں نے اس کے بارے میں آاگاہ کیا نے تو انہوں نے یقین ہی نہیں کیا۔ ان میں سے ایک نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ اگر ایسے واقعہ کا تھوڑا سا بھی ثبوت صحیح بخاری میں ملا،تو میں اس صحیح بخاری کی کسی روایت پر یقین نہیں کروں گا۔کچھ نے اس واقعہ پر یقین کیا مگر جب انکو پتہ چلا کہ رسول خدا (ص) پر سب سے پہلے ہذیان کا الزام دینے والے عمر ابن خطاب ہیں تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کیا۔ وہ اس حد تک گئے کہ وہ بخاری یا اور کسی ایسی حدیث کی کتاب پر یقین نہیں کریں گے جس میں ایسے واقعات درج ہوں جن سے ان کے مطابق نیک اجداد کی صورت مشکوک ہوجاتی ہے۔اس حادثہ کی حیرانگی کے پیچھے راز یہ ہے کہ جو صحابہ وہاں موجود تھے انہیں بلا کسی تاخیر اس کو ترجیح دینی چاہئے تھی جسکا اللہ کے رسول (ص) نے حکم دیا تھا تاکہ آنجناب (ص) ان کے لئے ایک ایسی آخری وصیت لکھ دیتے جس میں انکی تقدیر کا معاملہ تھا اور پیروی کرنے کی صورت میں انکی گمراہی سے بچنے کی ضمانت تھی،جیسا کہ بیان سے صاف ظاہر ہے۔ اہلسنت میں کون یہ گمان کرسکتا ہے کہ رسول خدا (ص) کی صحابہ سے آخری نشست ان کی ناراضگی کا باعث بنی کیونکہ انہوں نے آنجناب (ص) کو ایسے تکلیف دہ جملہ کہہ کر وداع کیا جس کاصرف ایک ہی معنی ہوسکتا ہے؟ جس کو النوائی نے شرح صحیح مسلم میں درج کیا ہے جہاں اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے''ہذیان بکنا '' ہم اللہ کی ناراضگی سے پناہ مانگتے ہیں ۔

ا مام شرف الدین(مولف ِ المراجعات) کے مطابق اگر آپ پیغمبر (ص) کے اس فرمان،' میرے پاس کچھ لائو تاکہ میں تمہارے لئے ایک ایسا نوشتہ لکھ دوں جس سے تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہوں گے اور آنجناب (ص) کا بیان ِ حدیث ثقلین جس میں آپ (ص) فرماتے ہیں ،' میں تمہارے درمیان دوگراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور دوسری اپنی عترت ، اہلبیت جن سے اگر تم متمسک رہے تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے'' پر غور و خوض کریں تو تمہیں ہوجائیگا کہ دونوں کا مدعاء و مقصد ایک ہی ہے۔ اپنی علالت میں اللہ کے رسول (ص) نے حدیث ثقلین کی واجب تکمیل اور تفصیل بیان کرنے کی خواہش کی لیکن آنجناب (ص) نے ان کے ذریعے حیران کرنے والے بیان سے ارادہ بدل دیا اور آنحضرت (ص) وہ نہ لکھنے پر مجبور ہوئے ورنہ کچھ لوگ نبوت پر شک کرنے کا درازہ کھولنے میں کامیاب ہوجائیںگے ۔ یہ اس لئے ہے کہ ایسی دستاویز لکھنے کا کوئی مقصد ہی نہ رہا صرف آنحضرت (ص) کے بعداختلاف کہ انہوں نے جو لکھا ،ہذیان ہے کہ نہیں کیونکہ لوگوں نے حضور (ص) کے سامنے اختلاف،جھگڑا اور شور و غل کر ڈالا جیسا کہ مذکور بالا احادیث سے صاف واضح ہے،ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔

۳۶

انہوں نے پیغمبر (ص) کی حالت ِ علالت میں ان کے حکم کی روگردانی کے جواز میں اپنے آپ کیلئے وہی کافی سمجھا جو قرآن مجید میں ہے۔ یہ ایسا ہے کہ شاید وہ بھول گئے ہیں کہ اللہ رب العزت نے اپنے عظیم پیغمبر (ص)کے متعلق اعلان کیا ہے ،''۔۔۔ نہ بھٹکا ہے تمہارا رفیق اور نہ بہکا ہے ۔نہیں ہے ہ کلام مگر ایک وحی،جو نازل کی جارہی ہے۔تعلیم دی ہے اسے زبردست قوت والے نے اور بڑا صاحب حکمت ہے۔( سورہ نجم 2۔6) اور یہ قرانی آیت :اور جو کچھ دے تمہیں رسول (ص) سو اسے لے لو اور جس سے روک دے تمہیں رسول (ص)،پس رک جائو اس سے اور ڈرو اللہ سے،بلا شبہ اللہ بہت سخت ہے سزا دینے والا۔( سورہ حشر 7)۔ اور اس قرانی آ یت ''۔۔ بیشک یہ (کلام) پیغام ہے زبانی فرشتئہ عالی مقام کے جو صاحب قوت ہے،مالک عرش کے ہاں،اونچے مرتبہ والا ہے۔اسکی بات مانی جاتی ہے وہاں اور امین بھی ہے اور نہیں ہے اے لوگو تمہارا یہ ساتھی (نبی (ص)) کوئی دیوانہ۔(سورہ تکویر 19۔22)(47)

ابن عباس نے ان آخری حالات کو اچھی طرح بیان کیا جب آپ نے کہا : مصیبت ،کتنی بڑی مصیبت ہے کہ جب انہوں اختلاف اور جھگڑے سے اللہ کے رسول (ص) کو وہ نوشتہ لکھنے سے روکا ۔ اس سب کے باوجود اور جو ابن عباس کا بیان صحیح بخاری میں درج ہے کہ اللہ کے رسول (ص) یہ کہنے سے پہلے فوت نہیں ہوئے،''۔۔مجھے اکیلا چھوڑو،میرا یہ درد اس سے کم ہے جوتم مجھ سے منسوب کرتے ہو۔پھر آنحضرت (ص) نے انہیں حکم دیا کہ تین چیزوں کی تعمیل کرو : جزیرۂ عرب سے مشرکوں کو نکال باہر کرو۔ دوسرے ممالک کے سفیرو ں کے ساتھ میری طرح اچھے طریقے سے پیش آؤ۔اور تیسرا حکم کہنے سے وہ رک گیا یا کہا کہ میں یہ بھول گیا!(48) ۔ یہ صحیح ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے یہ سفارشات اپنے اہل خانہ اور کچھ رشتہ دار مع اپنے چچا زاد بھائی ابن عباس کے سامنے انہی ایام ِ المیہ جمعرات کے دوران صادر کئے تھے۔لیکن حیرانگی یہی ہے کہ بخاری کے مطابق ابن عبا س نے تیسری سفارش ظاہر نہیں کی ہے کیونکہ وہ افشاکرنے کیلئے آمادہ نہیں تھے۔بہر حال شیعوں نے اہل بیت کی روایات کے مطابق ثابت کیا کہ''بھولا ہوا '' یا'' خاموشی کے پردہ میں لپٹا ہوا'' مسئلہ امام علی کا اعلان خلافت ہے۔

۳۷

( 2 ): کچھ صحابہ کا لشکر اسامہ میں جانے سے پس و پیش اور ان کی سرداری پراعتراض

تمام مسلمان جانتے ہیں کہ اللہ کے رسول (ص) نے سترہ سالہ اسامہ بن زید کی سرداری میں ملک روم پر فوجی مہم بھیجنے کا فیصلہ کیا۔یہ حیات رسول (ص) کی آخری فوجی مہم تھی۔ کسی بھی بڑے انصار یا مہاجر صحابی بشمول حضرت ابوبکر،حضرت عمر،ابوعبیدہ،سعد وغیرہ کو اس مہم سے پیغمبر (ص) نے مستثنیٰ(باہر)نہیں رکھا(49) ۔ یہ حقیقت تمام سیرت نگاروں اور تاریخ دانوں نے بہ اتفاق رائے قبول کی ہے کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے۔پیغمبر (ص) نے اسامہ کو کوچ کرنے کا حکم صادر کیا ،مگر انہوں نے اپنے قدم پیچھے کھینچے اور کچھ نے ان کی سرداری پر شکوک ظاہر کئے یہان تک کہ رسول (ص) منبر پر تشریف لے گئے جیسا کہ علامہ بخاری نے ابن عمر سے روایت کی ہے۔ابن عمر کہتے ہیں ،'' اللہ کے رسول (ص) نے اسامہ کو لوگوں کا سردار مقرر کیا۔ انہوں نے اس تقرری پراعتراض کیا جس پر پیغمبر (ص) نے فرمایا : ،تم اس کے باپ کی سرداری پر بھی معترض تھے ۔اللہ کی قسم اسکا باپ اس منصب کے قابل تھا اور وہ میرے قریب ترین محبوں میں تھا اور یہ اس کا بیٹا ہے جس کو میں اس کے باپ کے بعد بہت زیادہ عزیز ر کھتاہوں(50) ۔ پھر آنجناب (ص) نے انہیں جلدی سے نکلنے کی ایک بار پھرتاکید فرمائی،مگر پیغمبر کے تاکیدی حکم کے با وجود وہ اسامہ کے ساتھ نہیں گئے۔ پیغمبر (ص) اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔(انا لا للہ و انا الیہ راجعون،مترجم)۔اس واقعہ سے ہم مندرجہ ذیل نتیجہ حاصل کر سکتے ہیں :

(ا): کچھ صحابہ نے فرمان ِ رسول (ص) کی مخالفت کرکے اپنے ذاتی اجتہاد کی پیروی کی۔ اسامہ کے کم سن ہونے کی بنا پر ان کی سپہ سالاری پر اعتراض کیا حالانکہ پیغمبر (ص) نے اپنے دست مبارک سے پرچم اسلام ان کے سپرد کیا تھا۔اگر ہم یہ سب سمجھ جائیں،تو کیا یہ سمجھنا مشکل ہوگا کہ انہوں نے خلافت ِ علی اور ان کے امام ہونے جیسے بڑے مسئلہ میں اپنے ذاتی اجتہا د کی پیروی کیوں اور کیسے کی۔

۳۸

(ب):پیغمبر (ص) کے ہاتھوں اسامہ کی بحیثیت ان کے سردارِلشکر کی تعایناتی صحابہ کیلئے اپنے سے کم عمر کی سرداری قبول کرنے کے معاملے میںایک عملی سبق تھا،خاص کر کہ جب آنحضرت (ص) کی جبین مبارک پر ناراضگی کے آثار صاف نمودار ہوئے جب انہوں نے ایک جوان آدمی کو سردار لشکر مقرر کرنے کے آنحضرت کے منصوبہ پر شکوک ظاہر کئے۔

(ت):جس اللہ کے رسول (ص) نے اسامہ کو لشکرکی سربراہی سونپی،اسکو معلوم تھا کہ وہ سب سے مکرم صحابی کو الودا ع کرنے جارہا ہے،اور بیشک وہ خلافت پر اٹھنے والے تنازعہ پر غور و فکر فرما رہے تھے جس کی بنا پر انہوں نے اعلیٰ دانشمندی کا ثبوت دیکر بڑے بڑے انصار و مہاجر صحابہ کو اس مہم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا جس کو آنجناب (ص) نے اپنے وصال کے کچھ ہی دن پہلے روانہ ہونے کا حکم دیا تھا تاکہ رہبریت پر تنازعہ کرنے کا موقعہ کسی کو نہ ملے۔

علی ،پیغمبر (ص) کے حالات ِ علالت میں پورے ایام ان کے ساتھ رہے۔آنجناب (ص) کے رحلت کے بعد علی انکے تجہیز و تکفین میں مشغول رہے جبکہ انصار و مہاجر سقیفہ بنی سعد میں چلے گئے جہاں انہوں نے رہبریت کے معاملے میں ایک دوسرے سے ہنگامہ آرائی کی جبکہ انہوں نے لشکر اسامہ میں پیر پیچھے کھینچ کے جانے سے انکار کیا جسمیں انہیں پیغمبر (ص) نے شامل کیا تھا۔یہ انہوں نے اپنے اس ذاتی اجتہاد اور فکر سے کیا کہ انکی غیر موجودگی میں وفات رسول (ص) کے بعد کیا ہوجائے گا ! اس لئے صحابہ کے ذریعے علی ابن ابی طالب کو امام تسلیم کرنے سے انکار کرنا قبول یا ہضم کرنا مشکل ہے ورنہ کوئی اسی گروہ کے ذریعے اسامہ کو اپنا لیڈر ماننے سے انکار کرنے اور اس پر شک کرنے کاکیا مطلب نکال سکتا ہے حالانکہ یہ بھی رسول خدا (ص)نے حکم صادر کیا تھا ؟ چونکہ یہ دونوں واقعات ،'' المیہ جمعرات '' اور '' اسامہ کی سرداری میں شک کرنا '' پیغمبر (ص) کی حیات ِ مبارکہ میں ہی ان کے سامنے پیش آئے،ان واقعات کے مضر اثرات کی تباہ کاریوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا کوئی توقع کرسکتا ہے کہ آنحضرت (ص) کے بعد کیا ہونے والا ہے ؟!

۳۹

حالات ِ سقیفہ اور حضرت ابوبکر بعنوان خلیفہ:

جب علی اور ان کے ساتھ رسول (ص) کے رشتہ دار وصال نبی (ص) کے بعد ان کے تجہیز و تکفین میںمشغول تھے،عمر ابن خطاب نے رسول (ص) کے وفات ہونے کے تصور کو ماننے سے انکار کرنے کا اعلان کیا اور ہر کسی کو قتل کرنے کی دھمکی دی جو اسکے خلاف کہے۔ ان کو یقین نہیں آیا کہ رسول (ص) وفات کر گئے ہیں جب تک کہ حضرت ابوبکر مدینہ سے باہر 'سخ' نامی جگہ سے واپس نہ آئے۔جیسا کہ بخاری میںحضرت عائشہ سے روایت ہے کہ : اللہ کے رسول (ص) نے جب رحلت کی، حضرت ابوبکر سخ میں تھے،اسمعٰیل کہتا ہے کہ ان کا مطلب ہے پہاڑی علاقہ۔عمر کہتے رہے،'' اللہ کی قسم رسول (ص) مر ے نہیں ہیں ! حضرت عائشہ کا یہ بھی فرمانا ہے کہ،'' عمر نے یہ بھی کہا : اللہ کی قسم میں نے کبھی بھی اس کے علاوہ کچھ پسند نہ کیا اور اللہ ان کو واپس بھیجے گا اور وہ لوگوں کے ہاتھ و پائوں کاٹے گا '' حضرت ابو بکر آئے،رسول (ص) کے چہرے سے پردہ اٹھایا اور اس کا بوسہ لیا۔پھر انہوں نے کہا،'' میرے ماں باپ کی قسم آپ (ص) اچھے زندہ اور مردہ ہو! اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری روح ہے اللہ آپ کو دو دفعہ موت کا مزہ چکھنے نہیں دیگا ''پھر وہ یہ کہتے چلے گئے ،'' اے قسمیں کھانے والے (عمر)! اب خاموش بھی ہوجائو !(51) انصار جو تھے سقیفہ بن سعدمیں جمع ہوئے اور سعد بن عبادہ کو بحیثیت رسول (ص) کا جانشین نامزد کیا۔جب بزرگ مہاجرین( حضرت ابوبکر،حضرت عمر،ابو عبیدہ ) کو اسکے متعلق معلوم ہوا،وہ فوراََ وہاں پہنچ گئے اور اعلان کیا کہ وہ خود اس کے زیادہ حقدار ہیں۔انصار و مہاجرین کے درمیان تکرار ہوئی اور تنازعہ اٹھا۔ انصار کا لیڈر سعد بن عبادہ کھڑا ہوا اور کہا ،' ہم اسلام کے مدد گار اور اس کی کمک ہیں جبکہ تم اے مہاجرین اسکے رشتہ دار ہو ۔آپ میں سے ایک ڈھول بجانے والے نے اپناڈھول بجاڈالا،اسلئے وہ ہمیں اپنی بنیاد سے محروم کرنا اور ہمیں اس مسئلہ سے پیچھے دھکیلنا چاہتے ہو(52) ۔

۴۰

بعض بلاؤں کی حکمت

مذکورہ بالا باتوں کے علاوہ، کبھی کبھی خداوند متعال کی حکمت اور حق کی رحمانیت اس بات کا موجب ہوتی ہے کہ غیر طبیعی راستوں سے اپنے بندوں پر لطف کرے اور اپنی نعمت ان پر نازل کرے۔

اس مقصد کے لئے خداوند متعال مادی اسباب و علل کے علاوہ دوسرے اسباب و علل قرار دیتا ہے اور لوگوں سے چاہتا ہے کہ ان کے وسیلے سے لوگ اپنے کو الٰہی رحمت و نعمت کا مستحق بنائیں، یہ معنی بھی خداوند متعال کے لطف اور اس کی رحمت کا مقتضی ہے، خلقت کا نظام، حکمت کی بنیاد پر ہے اور انسان کی تخلیق کا مقصد ہدایت اور تکامل ہے، اور ہدایت و تکامل، اس وقت حاصل ہوتا ہے جبکہ لوگ آیات الٰہی کی معرفت اور ان میں تدبر، بندگی، دین حق نیز انبیاء الٰہی کے احکام پر عمل کرتے ہوں، لیکن کبھی کبھی لوگ گناہ اور معصیت کے نتیجہ میں راہ حق سے منحرف ہو جاتے ہیں، عام طور سے لوگ جس وقت مادی عیش و آرام میں ہوتے ہیں اور اقتصادی اور مادی لذتوں سے بہرہ مند ہونے کے اعتبار سے کوئی مشکل نہیں رکھتے اور ان کی ہر من پسند چیز فراہم ہوتی ہے تو اس وقت خدا اور معنویات کی طرف بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ ایسے وقت میں، انسانی اور الٰہی خصلتیں ان کے اندر دھیرے دھیرے کمزور ہونے لگتی ہیں اور آخر کار فراموشی کی نذر ہو جاتی ہیں، نتیجہ میں ان کے اندر کفر و ضلالت اور سرکشی و گمراہی پیدا ہو جاتی ہے۔

۴۱

قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے:(کَلاَّ ِنَّ الِنسَانَ لَیَطْغیٰ٭ أَن رَّئٰ اهُ اسْتَغنیٰ) ۱ جس وقت انسان اپنے کو بے نیاز خیال کرلیتا ہے تو سرکشی کرنے لگتا ہے۔ اگر ایک معاشرہ اور امت کی اکثریت پر سرکش اور استکباری فکر حاکم ہو تو خداوندمتعال کا لطف اور اس کی عنایت اس بات کا سبب بنتی ہے کہ کسی بھی طرح سے انسانوں کو ہوشیار کرے، ان کو خواب غفلت سے بیدار کرے اور راہ حق اور طرز بندگی کی طرف واپس لے آئے۔

اس مقصد کے تحقق کے لئے کبھی کبھی بلائیں، جیسے فقر اور قحط نازل کرتا ہے اور دوسری طرف ان بلاؤں کے رفع کرنے او ران کے علاج کے لئے گناہوں سے توبہ واستغفار، خدا کی طرف توجہ اور نماز کو بتاتا ہے تاکہ نتیجہ میں خلقت کا مقصد پورا ہوسکے اور یہی انسان کی اختیاری ہدایت اور تکامل ہے۔یہ بات بھی تعجب خیز الٰہی سنتوں میں سے ایک رہی ہے کہ کبھی کسی نبی کو مبعوث کرتا تھا اور اس کی امت کو سختیوں میں مبتلا کرتا تھا تاکہ وہ خدا اور راہ حق سے غافل نہ ہوں، نیز مادی لذتوں میں غرق ہونا ان کو سعادت سے باز نہ رکھے۔

بہرحال بعض بلاؤں کا نزول، غافل انسانوں کی توجہ اور بیداری کا سبب ہوتا ہے اس لئے کہ سخت حالات میں انسان بہتر طور پر خدا سے اپنی احتیاج کو درک کرتا ہے اور عیش و آرام کی زندگی سے بہتر بلاؤں کی زندگی میں وہ انبیاء کی تعلیمات کو سمجھتا اور قبول کرتا ہے ، قرآن کریم فرماتا ہے:(وَ مَا أَرْسَلنَا فِی قَریَةٍ مِن نَّبِیٍّ ِلاَّ أَخَذنَا أَهْلَهَا بِاْلبَأسآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُونَ )۲ اور ہم نے جب بھی کسی قریہ یا شہر

(۱)سورۂ علق، آیت ۷،۶۔

(۲)سورۂ اعراف، آیت ۹۴۔

۴۲

میں کوئی نبی بھیجا تو اہل قریہ یا اہل شہر کو نافرمانی پر سختی اور پریشانی میں ضرور مبتلا کیا کہ شاید وہ لوگ ہماری بارگاہ میں تضرع و زاری کریں۔

سورۂ مومنون کی آیت اور بھی اسی مطلب کی وضاحت کرتی ہے:

(وَ لَو رَحِمنَاهُم وَ کَشَفْنَا مَابِهِم مِن ضُرٍّ لَلَجُّوا فِی طُغیَانِهِم یَعمَهُونَ٭ وَ لَقَد أَخَذنَاهُم بِالعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوا لِرَبِّهِم وَ مَایَتَضَرَّعُونَ)

اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور ان کی تکلیف اور سختی کو دور کردیں تو بھی یہ اپنی سرکشی پر اڑے رہیں گے اور گمراہ ہی ہوتے جائیں گے، اور ہم نے انھیں عذاب کے ذریعہ پکڑا بھی مگر یہ نہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی گڑگڑاتے ہیں۔

اس بنا پر امتوں کے بعض عذابوں اور ان کی سختیوں کا فلسفہ لوگوں کی بیداری اور راہ ہدایت کی طرف ان کا واپس آنا ہے، اگرچہ ممکن ہے کہ یہ سختیاں، پریشانیاں اور بلائیں بعض امتوں کو بیدار نہ کریں اور وہ لوگ اسی طرح ضلالت و گمراہی پر اڑے رہیں، کہ اس صورت میں حجت ان پر تمام ہو جاتی ہے اور انھیں چاہئے کہ ان بلاؤں کے نزول کے منتظر رہیں جو کہ ان کی حیات اور زندگی کا خاتمہ کردیں گی۔

۴۳

قرآن سورۂ انعام کی آیات سے تک، حضرت پیغمبر اسلام کو خطاب کر کے فرماتا ہے:

(وَ لَقَد أَرسَلنَااِلیٰ أُمَمٍ مِن قَبلِکَ فَأََخَذنَاهُم بِالبَاسآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّهُم یَتَضَرَّعُونَ ٭ فَلَو لا ِذْجآئَ هُم بَاسُنَا تَضَرَّعُوا وَ لٰکِن قَسَتْ قُلُوبُهُم وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیطٰنُ مَا کَانُوا یَعمَلُونَ ٭ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِهِ فَتَحنَا عَلَیهِم أَبوَابَ کُلِّ شَیئٍ حَتَّیٰ ِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذنَاهُم بَغتَةً فَاِذَاهُم مُبْلِسُونَ)

یعنی ''ہم نے تم سے پہلے والی امتوں کی طرف بھی رسول بھیجے ہیں اس کے بعد انھیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں، پھر ان سختیوں کے بعد انھوں نے کیوں فریاد نہیں کی، بات یہ ہے کہ ان کے دل سخت ہوگئے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کوان کے لئے آراستہ کردیا ہے، پھر جب ان نصیحتوں کو بھول گئے جو انھیں یاد دلائی گئی تھیں تو ہم نے امتحان کے طور پر ان کے لئے ہر چیز کے دروازے کھول دیئے، یہاں تک کہ جب وہ ان نعمتوں سے خوش ہوگئے تو ہم نے اچانک انھیں اپنی گرفت میں لے لیا اور وہ مایوس ہوکر رہ گئے'' ۔

ہمیں جاننا اور سمجھنا چاہئے کہ یہ سنت الٰہی ہے جو کہ پہلے والی امتوں میں جاری رہی ہے اور نبی آخرالزمان کی امت بھی اس سے مستثنیٰ نہیںہے۔

بہرحال صاحبان بصیرت اور ان لوگوں کے لئے جو کہ اپنی سعادت اور سرنوشت کی فکر رکھتے ہیں، بعض مشکلات و مصائب اور بلاؤں کا وجود، عبرت و ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اسی کے برعکس جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ ایسے انسان بھی ہیں جو ایسے خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں کہ کسی بھی ٹہوکے اور نصیحت سے نصیحت حاصل نہیں کرتے اور ہوش میں نہیں آتے۔

۴۴

لہٰذا وہ بلائیں اور سختیاں جو معاشروںاور قوموں کے لئے لوگوں کو بیدار کرنے اور ہوش میں لانے کی خاطر پیش آتی ہیں وہ سابق انبیاء کی امتوں سے مخصوص نہیںہیں، بلکہ یہ مسئلہ الطاف الٰہی میں سے ہے جو کہ امتوں کی بیداری اور خدا کی طرف توجہ کے لئے واقع ہوتا ہے، جو بات اہم ہے وہ ایسے حوادث کے فلسفہ او رراز کو سمجھنا، گزشتہ سے عبرت حاصل کرنا، خدا کی طرف بازگشت اور توبہ ہے۔ نہایت افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت کم لوگ اس مسئلہ کی طرف توجہ کرتے ہیںاور اسی غفلت کی بنا پر اقتصادی بحرانوں سے نجات کے لئے (کہ انھیں میں سے قحط اور پانی کی کمی کا بحران ہے)، بعض عہدہ دار افراد غفلت و بے توجہی کی بنا پر یا ایمانی اور اعتقادی کمزوری کی بنا پر غیر خدا کا دامن تھام لیتے ہیں اور مسلمانوں کے بیت المال سے زیادہ پیسے خرچ کر کے اسکیمیں تیار کرتے ہیں تاکہ شیمیائی مادوں کے ذریعے بادلوں میں پانی بھر کر بارش ایجاد کریں، کتنا باطل خیال ہے! کیا بارش کی علت تامہ یہی بادل کا وجود اور ہوا کے ذریعے اس کا منتقل ہونا اور دوسرے چند محدود اسباب ہیں کہ انسان مکڑی کی طرح اپنے ہی بنے ہوئے جالوں میں پھنس کر مغرور ہو جائے نیز بندگان خدا اور مسلمان عوام کو بجائے اس کے کہ خدا او راس کے احسان و عنایت کے دامن سے متوسل ہونے کی طرف متوجہ کرے، پہاڑوں کی چوٹیوں پر بادلوں کے ٹکڑے تلاش کرے او ران کا شکار کرنے کے بعد پھر ان میں پانی بھر کر بارش برسائے؟

۴۵

واقعاً یہ بات حضرت نوح ـ اور ان کے فرزند کے واقعہ کو یاد دلاتی ہے کہ حضرت نوح ـ سال تبلیغ کے بعد خدا پر اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے، ان کی ہدایت سے ناامیدی اور عذاب کی علامتیں ظاہر ہونے کے بعد انھوں نے اپنے بیٹے سے چاہا کہ ایمان لے آئے اور کشتی پر سوار ہو جائے تاکہ اس قطعی و یقینی عذاب سے نجات حاصل کرلے۔ اس نے اپنے باپ کے جواب میں اپنے شرک آلود خیال کو اس طرح بیان کیا کہ:(سَاٰوِ اِلٰی جَبَلٍ یَعْصِمُنِْ مِنَ الْمَائِ) ۱ میں پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لے لوں گا تاکہ وہ مجھے غرق ہونے سے بچالے، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ آخر کار وہ ایمان نہ لایا اور ہلاک ہوگیا، خداوند متعال اس واقعہ کا ذکر کرکے شرک آلود فکر کی اصل کو بیان کر رہا ہے اور لوگوں کو اس سے ڈرا رہا ہے۔

اب بھی یہ شرک آلود فکر بعض لوگوں کے درمیان خصوصاً مغرب زدہ روشن فکر افراد میں رائج ہے۔ وہ لوگ بجائے اس کے کہ خدا پر ایمان رکھیں اور قلم و بیان سے لوگوں کو خدا کی طرف بلائیں، مشکلات کو دور کرنے کے لئے اسلام و مسلمین کے دشمنوں کے ہاتھوں کی طرف نگاہیں جمائے ہوئے ہیں اور انھیں سے مدد کی امید رکھتے ہیں۔

صاحبان علم و فہم پر پوشیدہ نہیں ہے کہ ہم علمی ترقی اور انسانی علوم کی ایجادات کے مخالف نہیں ہیں کیونکہ دین و قرآن اور توحیدی مکتب فکر، ہر مکتب فکر سے زیادہ انسانوں کو علم و دانش کے حصول اور انسانی افکار و خیالات سے حاصل شدہ چیزوں سے استفادہ کی طرف دعوت دیتا ہے۔ جس بات کی نفی پر یہاں تاکید کی جارہی ہے اور جس کے سخت اور سنگین نتائج سے خبردار کیا جارہا ہے، یہ شرک آلود فکر ہے کہ نہایت افسوس ہے کہ اس میں مبتلا افراد ہمارے معاشرے میں کم نہیں ہیں۔

(۱)سورۂ ہود، آیت ۴۳۔

۴۶

بہرحال سب سے زیادہ بہتر، نزدیک اور اطمینان بخش راستہ فردی و اجتماعی مشکلات کو دور کرنے کے لئے خانۂ خدا کے درپر واپس آنا ہے اس لئے کہ راہ خدا کا انتخاب اس بات کے علاوہ کہ ہماری ابدی و اخروی سعادت کا ضامن ہے، دنیوی زندگی کے مشکلات اور بحرانوں کو بھی دور کرتا ہے،(فَقُلتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إنّهُ کَانَ غَفَّاراً یُرسِلُ السَّمَائَ عَلَیکُم مِدرَاراً) ۱

پس میںنے لوگوں سے کہا کہ اپنے پروردگار سے استغفار کرو بے شک وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے وہ آسمان سے تم پر موسلا دھار پانی برسائے گا، نتیجہ میں باغ وجود میں آئیں گے اور نہریں جاری ہوں گی۔

اس بنا پر قرآن، نقائص اور کمیوں کو دور کرنے اور مسلمانوں کے امور میں کشائش کے لئے اپنے پیرؤوں کے لئے راہ حل پیش کرتا ہے اور ان راستوں کی افادیت کی ضمانت لیتا ہے۔ اس کے علاوہ، مسلمان جیسا کہ بارہا آزما چکا ہے دوبارہ پھر آزما سکتا ہے۔

بے شک ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی ہمارے اسلامی معاشرہ پر نصرت الٰہی اور خدا کی غیبی امدادوں کے معجزنما نمونوں میں سے ایک ہے۔ جس وقت کہ تمام لوگ خدا پر توکل اور اس کے غیر سے امید قطع کر کے اسلامی حکومت کے خواہاں ہوئے، خدا نے اپنے وعدہ کی بنا پر کہ قرآن میں فرماتا ہے:(ِإنْ تَنصُرُوْا اللّٰهَ یَنصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ

(۱) سورۂ نوح، آیت ۱۰، ۱۱۔

۴۷

أَقدَامَکُمْ) ۱ (اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں ثابت قدم بنا دے گا)، دشمن اسلام کی تمام حمایتوں کے ساتھ ڈھائی ہزار () سالہ شہنشاہی حکومت کی تمام قوتوں کے برخلاف، لوگوں کو ان کے دشمنوں پر فتحیاب کیا، اور یہ سنت الٰہی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک لوگ خدا کی طرف متوجہ رہیں گے خدا بھی ان کی مدد فرمائے گا اور جب وہ خدا کو بھول جائیں گے، غیر خدا سے مدد کی امید رکھنے لگیں گے اور خدا سے منھ موڑ لیں گے تو عذاب و ذلت سے دوچار ہو جائیں گے۔

بہرصورت، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن کریم علم الٰہی کا نسخۂ شافیہ ہے اور دنیا و آخرت میں انسان کی سعادت و نجات، اس کے حیات بخش احکام کی پیروی میں پوشیدہ ہے، اور فردی و اجتماعی مشکلات کا راہ حل اسی میں تلاش کرنا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ قرآن یعنی انسان کی سعادت کے اس ضامن کو پہچانیں، اس کی تعظیم و تکریم کریں اور اس پر عمل کریں۔ البتہ قرآن کے متعلق دو طرح کی تعظیم و تکریم پائی جاتی ہے کہ ذیل میں ہم اس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

قرآن کریم کی ظاہری اور حقیقی تعظیم

قرآن کریم کے احترام کے متعلق زیادہ تر جو کچھ آج اسلامی معاشروں میں موجود ہے ان کو قرآن کا ظاہری احترام کہا جاسکتا ہے، جبکہ قرآن کریم ہرگز اس لئے نازل نہیں ہوا ہے کہ اس کے ساتھ ایک خاص (ظاہری) آداب و رسوم اور احترام

(۱) سورۂ محمد، آیت ۷۔

۴۸

بجالائیں، قرآن فقط حفظ کرنے اور بہترین دھن اور آواز کے ساتھ تلاوت کرنے کے لئے نہیں ہے۔ قرآن زندگی اور الٰہی پیغامات کی کتاب ہے کہ سب کا فریضہ ہے کہ اپنی دنیوی زندگی میں اس پر عمل کریں تاکہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں، خصوصاً اسلامی معاشروں میں حکومت کے عہدہ دار افراد کا فریضہ ہے کہ نظام کی کلی سیاستوں کو اس کتاب الٰہی کی ہدایات کی بنیاد پر تنظیم کر کے ان کا اجرا کریں، تاکہ قرآن کے مکتب فکر کے پھلنے پھولنے کا مقدمہ معاشرہ کے افراد کے لئے بہتر طور سے مہیا ہواور نتیجہ میں نزول قرآن کا مقصد پورا ہو جائے کہ اس کا مقصد یہی ہے کہ روئے زمین پر عدل و انصاف کے زیر سایہ انسان کا تکامل اور اس کی سعادت ممکن ہے۔

افسوس ہے کہ اس امید کے برخلاف، جو کچھ آج ہم قرآن کریم کی تعظیم و تکریم کے عنوان سے مشاہدہ کر رہے ہیں وہ ظاہری احترام کی حد سے آگے نہیں بڑھتا اور قرآن کی مرکزیت کا لازمہ مسلمانوں کی سیاسی و اجتماعی زندگی میں بھلا دیا گیا ہے۔

آج بہت سے اسلامی ممالک میں بہت سے ادارے، ابتدائی کلاسوں سے کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک قرآن کریم کی تعلیم و تعلم کا انتظام کرتے ہیں اور مختلف طریقوں سے قرآن کے ناظرے، حفظ اور قرائت کا اہتمام کرتے ہیں اور ہر سال ہم عالمی پیمانے پر قرآن کریم کے حفظ و قرائت کے مقابلوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ مختلف قرآنی علوم جیسے تجوید و ترتیل وغیرہ قرآن کے عقیدتمندوں کے درمیان ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان امور کے علاوہ قرآن عام مسلمانوں کے درمیان ایک خاص احترام کا حامل ہے مثلاً اس کے الفاظ و آیات کو بغیر وضو کے مس نہیں کرتے اور قرائت کے وقت ادب کے ساتھ بیٹھتے ہیں، زیادہ تر افراد قرآن کے مقابل اپنا پاؤں نہیں پھیلاتے، اس کو سب سے زیادہ بہتر جلد میں اور سب سے زیادہ مناسب جگہ پر رکھتے ہیں، خلاصہ یہ کہ اس طرح کے ظاہری احترام عام مسلمانوں کے درمیان رائج ہیں۔

۴۹

واضح ہے کہ مذکورہ امور کی رعایت اس آسمانی کتاب کے احترام کے عنوان سے ایک بڑی فضیلت ہے کہ جس قدر بھی ہم ان کے پابند ہوں بہتر ہے لیکن ہم نے اس آسمانی کتاب کے احترام کا حق کماحقہ ادا نہیں کیا ہے اور خداوند متعال کی اس عظیم نعمت کا شکر جو کہ نعمت ہدایت ہے، بجا نہیں لائے ہیں ، لیکن ہر نعمت کا سب سے زیادہ احترام اور شکر اس کی حقیقت کی شناخت او راس کا اس جگہ استعمال ہے کہ خدا نے جس کے لئے خلق کیا ہے۔

چنانچہ اگر ہم اس نظریہ کے ساتھ چاہیں کہ قرآن کو دیکھیں اور اس کا احترام و اکرام کریں تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ قرآن کریم اسلامی معاشروں کے کلچر میں ایک مطلوب منزلت نہیں رکھتا اور اس کا حقیقی طور پر احترام نہیں کیا جاتا۔

قرآن کریم کے احترام و اکرام سے متعلق مسلمانوں کا جو عمل بیان کیا گیا ہے، وہ اگرچہ ضروری اور لازم ہے، لیکن ان امور کی انجام دہی سے خداوند متعال کے قرآن نازل کرنے کا مقصد پورا نہیں ہوتا اور اس آسمانی کتاب کے بارے میں مسلمانوں کا جو فریضہ ہے وہ بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ ظواہر قرآن کی معرفت، آیات الٰہی کی قرائت اور اس نسخۂ شافیہ کی ظاہری تعظیم و تکریم، اس کے مطالب اور احکام پر عمل کرنے کا مقدمہ ہیں۔ قرآن کا واقعی حق، مسلمانوں کی سیاسی و اجتماعی زندگی میں اس کو محور قرار دیئے بغیر ادا نہیں ہوسکتا۔

۵۰

واضح سی بات ہے کہ ڈاکٹر کے نسخے کو چومنا، اس کا احترام کرنا اور اس کو بہترین دھن اور میٹھی آواز کے ساتھ پڑھنا، بغیر اس کے کہ ڈاکٹر کی ہدایات اور اس کے احکام کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں، بیمار کے کسی بھی درد کا مداوا نہیں کرتا۔ ہر عقلمند یقین رکھتا ہے کہ شفا کے لئے ماہر ڈاکٹر کے احکام پر عمل کرنا لازم ہے۔ ڈاکٹر کے نسخہ کا حقیقی احترام اس پر عمل کرنا ہے نہ کہ ڈاکٹر اور اس کے نسخہ کی تعظیم و تکریم کرنا ہے۔

قرآن کے متعلق بھی کہنا چاہئے کہ اگرچہ قرآن کریم کا ظاہری احترام کرنا، پسندیدہ امور اور ہر ایک مسلمان کے فرائض میں سے ہے، لیکن یہ اس آسمانی کتاب کے بارے میں مسلمانوں کا سب سے معمولی فریضہ ہے، اس لئے کہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے اور اس کے حیات بخش احکام پر عمل کرنے کے ذریعے اس ہدایت الٰہی کی نعمت کا شکر او رواقعی احترام بجالائیں اور اپنے کو اس پُرفیض امانت سے محروم نہ کریں تاکہ نتیجہ میں ا س نور الٰہی کے ذریعے اپنی اندھیری دنیا کو روشنی بخشیں۔

قرآن، حقیقی نور

خداوند متعال کی تجلی کا ایک مظہر نور ہے۔ خداوند تعالی اپنے کو نور سے تشبیہ دیتا ہے اور فرماتا ہے:(أَللّٰهُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرْضِ) ۱ خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ یہ خداوند متعال کے نور وجود کی تجلی اور چھوٹ ہے کہ جس سے زمین و آسمان اور

(۱)سورۂ نور، آیت ۳۵۔

۵۱

مخلوقات کی خلقت ہوئی ہے۔ عنایت خدا کی برکت ہے کہ عالم وجود قائم و ثابت ہے اور فیض وجود، ہمیشہ اور مسلسل منبع جود کی جانب سے موجودات پر جاری و ساری ہے نتیجہ میں موجودات و مخلوقات اپنی زندگی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کبھی کبھی کلام خدا کو بھی نور سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس لئے کہ نور ہی کے پرتو میں انسان راستے کو پیدا کرتا ہے، سرگردانی اور بھول بھلیوں میں بھٹکنے سے نجات حاصل کرتا ہے۔ چونکہ سب سے زیادہ بری اور نقصان دہ گمراہی، راہ زندگی کی ضلالت و گمراہی اور انسان کی سعادت کا خطرے میں پڑنا ہے، اس لئے حقیقی اور واقعی نور وہ ہے جو کہ انسانوں کو اور انسانی معاشروں کو ضلالت و گمراہی سے نجات دے اور انسانی کمال کے صحیح راستے کو ان کے لئے روشن کرے تاکہ سعادت و تکامل کے راستے کو سقوط و ضلالت کے راستوں سے تمیز دے سکیں۔ اسی بنیاد پر خداوند متعال نے قرآن کو نور سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے: (قَدجَائَکُم مِنَ اللّٰہِ نُور وَّ کِتَاب مُبِین) یقینا تمھارے پاس خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آئی ہے تاکہ تم اس سے استفادہ کر کے راہ سعادت کو شقاوت سے جدا کرسکو۔ اب چونکہ بحث کا موضوع ''قرآن، نہج البلاغہ کے آئینہ میں'' ہے، اس لئے ہم اس سلسلہ میں وارد شدہ آیات کی تفسیر و توضیح سے چشم پوشی کرتے ہیں اور اس بارے میں حضرت علی کے بیان کی توضیح کرتے ہیں۔

(۱)سورۂ مائدہ، آیت ۱۵۔ اس آیۂ کریمہ میں نور سے مراد در حقیقت حضرات محمد و آل محمد (ع) ہیں اس لئے کہ قرآن کا ذکر یہاں ''کتاب مبین'' کے ذریعہ کیا گیا ہے، اگرچہ قرآن کریم کا بھی نور ہونا اس ''کتاب مبین'' (روشن کتاب) کی تعبیر سے نیز دوسری آیات و روایات سے ثابت ہے (مترجم)۔

۵۲

امیر المومنین حضرت علی ـ خطبہ میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی توصیف کے بعد قرآن کریم کا وصف بیان فرماتے ہیں:''ثُمَّ أَنزَلَ عَلَیهِ الْکِتَابَ نُوراً لاتُطْفَأُ مَصَابِیْحُهَ وَ سِرَاجاً لایَخْبُو تَوَقُّدُهُ وَ بَحْراً لایُدْرَکُ قَعْرُهُ'' پھر خداوند متعال نے اپنے پیغمبر پر قرآن کو ایک نور کی صورت میں نازل فرمایا کہ جس کی قندیلیں کبھی بجھ نہیں سکتیں، اور ایسے چراغ کے مانند کہ جس کی لو کبھی مدھم نہیں پڑسکتی اور ایسے سمندر کے مانند جس کی تھاہ مل نہیں سکتی۔

حضرت علی ـ اس خطبہ میں وصف قرآن کے متعلق پہلے تین نہایت خوبصورت تشبیہوں کے ذریعے چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دلوں کو قرآن کی عظمت سے آشنا کریں اور ان کی توجہ اس عظیم الٰہی سرمایہ کی طرف جو کہ ان کے ہاتھوں میں موجود ہے، زیادہ سے زیادہ مبذول فرمائیں۔

پہلے حضرت علی ـ قرآن کی توصیف نور کے ذریعہ فرماتے ہیں:''أَنْزَلَ عَلَیهِ الْکِتَابَ نُوراً لاتُطْفَأُ مَصَابِیحُهُ'' خداوند تعالی نے قرآن کو اس حال میں کہ نور ہے، پیغمبر پر نازل فرمایا، لیکن یہ نور تمام نوروں سے مختلف ہے۔

یہ حقیقت (قرآن کریم) ایک ایسا نور ہے کہ جس کی قندیلیں ہرگز خاموش نہیں ہوسکتیں اور ان کی لو کبھی مدھم نہیں پڑسکتی۔

۵۳

معقول کی محسوس سے تشبیہ کے عنوان سے قرآن کریم اس برقی انرجی کے عظیم منبع کے مانند ہے جو کہ اندھیری راتوں میں بجلی کے مرکز کے ذریعے قوی اور بڑی بڑی مرکریوں کے وسیلے سے ان راستوں کو روشن کرتا ہے جو کہ منزل مقصود تک منتہی ہوتے ہیں اور ان لوگوں کے لئے جو سلامتی کے ساتھ مقصد تک پہنچنا چاہتے ہیں، دو راہوں، چوراہوں یا چند راہوں پر راہنما چراغوں کو نصب کر کے اس شاہراہ کو روشن کرتا ہے جو کہ منزل مقصود تک پہنچتا ہے اور ان دوسرے راستوں سے تمیز دیتا ہے جو کہ سرگردانی اور ہولناک گھاٹیوں میں گرنے کا باعث ہوتے ہیں۔

قرآن بھی دینی اور اسلامی معاشرہ میں اور سعادت و کامیابی تلاش کرنے والوں کی زندگی میں ایسا ہی اثر رکھتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ جو چراغ اس نور کے منبع سے روشنی کسب کرتے ہیں اور راہ سعادت کو روشن کرتے ہیں وہ کبھی بجھ نہیں سکتے نتیجہ میں راہ حق، ہمیشہ مستقیم اور روشن ہے، قرآن کریم اور اس کے روشن چراغ ہمیشہ قرآن کے پیرؤوں کو نصیحت کرتے رہتے ہیں کہ ہوشیار رہو کہیں راہ حق سے منحرف نہ ہو جاؤ۔

اسی خطبہ میں آگے بڑھ کر حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:''نُوْ راً لَیسَ مَعَهُ ظُلْمَة'' قرآن وہ نور ہے جس کے ہوتے ہوئے ظلمت و تاریکی کا امکان نہیں ہے، اس لئے کہ یہ آسمانی کتاب ایسے چراغ اور قندیلیں رکھتی ہے جو اس سے نور حاصل کرتی ہیں اور ہمیشہ ہدایت و سعادت کی راہوں کو روشن رکھتی ہیں۔

اس کے علاوہ، حضرات ائمۂ معصومین (ع) کہ وہی وحی الٰہی کے مفسر ہیں ان چراغوں اور قندیلوں کے مانند ہیں جو کہ قرآن کے معارف کو لوگوں سے بیان کرتے ہیں اور اپنے خداداد علم کے ذریعے مسلمانوں کو قرآن کی حقیقت سے آشنا کرتے ہیں۔

۵۴

قرآنی چراغ اور آئینے

جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ حدیث ثقلین کے مطابق، قرآن و عترت (اہلبیت) یہ دونوں الٰہی امانتیں موحدین کی ہدایت کے راستے میں ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہیں کہ ایک سے تمسک کرنے اور دوسرے کو چھوڑنے سے نزول قرآن کا مقصد، جو کہ انسانوں کی ہدایت ہے، پورا نہیں ہوتا۔

حضرات ائمۂ معصومین (ع) وہ چراغ ہیں جو اس الٰہی منبع سے نور اخذ کرتے ہیں اور سعادت کے طلبگار افراد کی راہ زندگی کو روشن کرتے ہیں کیونکہ قرآن اور اس کی حقیقت آپ حضرات ہی کے پاس ہے۔ یہی ذوات مقدسہ ہیں جو متشابہات کو محکمات کی طرف واپس لے آتے ہیں، راہ کو بیراہی و سرگردانی سے جدا کرتے ہیں اور لوگوں کو کمال و سعادت کے راستے کی رہنمائی کرتے ہیں۔ لوگوں کو بھی چاہئے کہ قرآن کے معارف کو فقط آپ ہی حضرات سے حاصل کریں اور ان پر عمل کریں۔

حکمت الٰہی اسی بات کی مقتضی ہے اور سنت الٰہی اسی بات پر قائم ہے کہ لوگ اہلبیت (ع) کے وسیلے سے قرآن کے معارف و علوم حاصل کریں اور ان پر عمل کر کے اپنی دنیوی اور اخروی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ لہٰذا اس مقصد کے تحقق کے لئے خداوند متعال نے امامت کا ایک سلسلہ قائم کرکے معارف قرآن سے استفادہ کا راستہ سعادت کے طلبگاروں کے لئے کھلا رکھا ہے۔ اگر چہ دشمن اور دنیا پرست افراد پوری تاریخ میں اس بات کے درپے رہے ہیں کہ لوگوں کے لئے ہدایت الٰہی کے نور کو جو کہ مکتب اہلبیت (ع) میںمجسم نظر آتا ہے، خاموش کردیں۔

۵۵

لیکن قرآن فرماتا ہے کہ ہرگز اس کام میں کامیاب نہ ہوں گے:(یُرِیدُونَ لِیُطْفِئُوا نُورَ اللّٰهِ بِأَفوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَ لَو کَرِهَ الْکافِرُونَ) ۱ وہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنی پھونکوں سے بجھادیں اور اللہ اپنے نور کو کامل کرنے والا ہے اگرچہ کافروں کو ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا

اسی وجہ سے حضرت علی ـ قرآن کو اس چراغ سے تشبیہ دیتے ہیں جس کی لَو کبھی مدھم نہیں پڑسکتی اور جو کبھی بجھ نہیں سکتا۔

قرآن کے معارف اتنے گہرے اور وسیع ہیں کہ جس قدر علوم اہلبیت (ع) سے آشنا لوگ اس کے اندر غور و فکر کرتے ہیں ہر قدم پر ایک نیا نکتہ او رایک نئی معرفت حاصل کرتے ہیں اور چونکہ یہ آسمانی کتاب، علم الٰہی کا ایک نسخہ ہے جس قدر تشنگان حقیقت اس کی حقیقت کے آب زلال کو نوش کرتے ہیں وہ نہ صرف سیراب نہیں ہوتے بلکہ ان کی تشنگی اور بڑھ جاتی ہے اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اولیاء خدا اور حقیقت قرآن کی معرفت رکھنے والے کوشش کرتے ہیں کہ نماز میں آیات الٰہی کی تلاوت اور ان میں تدبر و تفکر کے ذریعے اپنی روح کو لطیف و پاکیزہ بنائیں اور زیادہ سے زیادہ اپنے کو الہامات خداوندی اور بیکراں معارف الٰہی کی بارش کا مرکز قرار دیں۔

قرآن ایک ایسا دمکتا آفتاب ہے جس کے معارف بے کراں اور جس کی روشنی ابدی ہے، اس لئے کہ یہ آسمانی کتاب اس گہرے سمندر کے مانند ہے جس کی تھاہ تک

(۱)سورۂ صف، آیت ۸۔

۵۶

پہنچنا پیغمبر اور ائمۂ معصومین ـ کے علاوہ کہ جن کے پاس ''علم کتاب'' ہے، کسی اور کے لئے ممکن نہیں ہے اور جو شخص اور جو معاشرہ بھی چاہے کہ قرآن اور کلام الٰہی سے آشنا ہو اور اپنی فردی و اجتماعی زندگی کو اس آسمانی کتاب کی ہدایات کی بنیاد پر قائم اور منظم کرے، اس کے لئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ پیغمبر اور ائمہ معصومین (ع) کی تفسیر و توضیح کی بنیاد پر قرآن سے تمسک کرے اور ان حضرات کی سیرت و سنت کو نمونۂ عمل قرار دے۔ اس بات کی تائید کے لئے ہم صرف دو روایتوں کے کچھ حصوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق ـ ارشاد فرماتے ہیں:

''وَ نَحْنُ قَنَادِیْلُ النُّبُوَّةِ وَ مَصَابِیحُ الرِّسَالَةِ وَ نَحْنُ نُورُ الاَنوَارِ وَ کَلِمَةُ الْجَبَّارِ وَ نَحْنُ رَایَةُ الْحَقِّ الَّتِی مَن تَبِعَهَا نَجَیٰ وَ مَن تَأَخَّرَ عَنْهَا هَوَیٰ وَ نَحنُ مَصَابِیْحُ الْمِشْکَاةِ الَّتِی فِیهَا نُورُ النُّورِ''۱۔

ہم (اہلبیت) نبوت کی قندیلیں اور رسالت کے چراغ ہیں، یعنی لوگوں کو چاہئے کہ ائمۂ معصومین (ع) کی راہنمائی کے ساتھ نبوت و رسالت کی منزل مقصود کی طرف، کہ وہی حق کی طرف ہدایت ہے، راستہ طے کریں۔ ہم تمام نوروں کے نور ہیں، خدا کی حاکمیت ہماری ولایت کے ذریعے تحقق حاصل کرتی ہے اور ہم ہی وہ حق کا علَم ہیں کہ جو بھی اس کی پیروی کرے گا نجات حاصل کرے گا اور جو اس سے دو رہوا وہ ہلاک ہوجائے

گا اور ہم وہ چراغ ہیں کہ جن میں نور در نور ہے۔

(۱)بحار الانوار، ج۲۶، ص ۲۵۹۔

۵۷

ایسا ہی بیان حضرت امام زین العابدین ـ سے بھی نقل ہوا ہے، چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں:

''إنّ مَثَلَنَا فِی کِتَابِ اللّٰهِ کَمَثَلِ الْمِشْکَاةِ والْمِشْکَاةُ فِی الْقَنْدِیْلِ فَنَحْنُ الْمِشْکَاةُ فِیهَا مِصْبَاح وَ الْمِصْبَاحُ هُوَ مُحَمَّد ۖ اَلْمِصْبَاحُ فِی زُجَاجَةٍ نَحنُ الزُّجَاجَةُ کَأََنَّهَا کَوْکَب دُرِّی یُوقَدُ مِن شَجَرِةٍ مُبَارَکَةٍ زَیتُونَةٍ لاشَرقِیَّةٍ وَ لاغَربِیَّةٍ لامُنکَرَةٍ وَ لادَعْیَةٍ یَکَادُ زَیتُهَا نُوْر یُضِیئُ وَ لَو لَم تَمْسَسْهُ نَارُ نُورُالفُرْقَانِ عَلٰی نُورٍ یَهْدِْ اللّٰهُ لِنُورِهِ مَن یَّشآئُ لِوِلَایَتِنَا وَ اللّٰهُ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیم بِأَن یَّهْدِْ مَن أَحَبَّ لِوِلایَتِنَا حَقّاً''۱

حضرت نے اس بیان میں سورۂ نور کی پینتیسویں آیت کی تفسیر پیغمبر اور اہلبیت اور ائمۂ معصومین (ع) سے کی ہے۔

حضرت ارشاد فرماتے ہیں کہ قرآن میں ہم اہلبیت کی مثل اس منبع کے مانند ہے جس کے ذریعے ہدایت الٰہی کا نور بندوں کے لئے راستے کو روشن کرتا ہے، ہم اہلبیت اس شفاف آئینے کے مانند ہیں جو چراغ ہدایت کے نور کو کہ وہی نبوت کا نور ہے، بندوں کے سامنے منعکس کرتے ہیں، اس نور کا سرچشمہ نور الٰہی کا وہ شجرہ طیبہ ہے جس کی روشنی نہایت وسیع اور ناقابل انکار ہے حقیقت میں یہ نہ شرقی ہے نہ غربی، نہ تو غیر معروف ہے اور نہ متروک۔

حضرت امام زین العابدین ـ ارشاد فرماتے ہیں کہ پیغمبر اور اہلبیت طاہرین (ع) کی حقیقت اس نہایت شفاف چراغ کے مثل ہے جو شعلہ کے بغیر، نور دیتا ہے، نور قرآن اس نور پر مبتنی ہے کہ خدا جس کو ہدایت دینا چاہتا ہے اسے اس نور (ولایت اہلبیت (ع)) کی ہدایت دیتا ہے۔

(۱)بحارالانوار، ج۲۳، ص۳۱۴۔

۵۸

قیامت کے دن پیروان قرآن کی کامیابی

جیسا کہ اس کے قبل اشارہ کیا گیا جو بات انسان کے لئے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور عقل لازم قرار دیتی ہے کہ تن من دھن سے بہتر سے بہتر طور پر اس کو حاصل کرے، وہ اخروی سعادت و کامیابی ہے، اس لئے کہ اس دنیا کی زندگی، آخرت کی ابدی زندگی کا مقدمہ ہے۔ انسان کی مثل اس دنیا میں عالم آخرت کی نسبت اس مسافر کے مانند ہے کہ جو پردیس میں رات دن محنت و کوشش کرتا ہے، قناعت کر کے اپنی پونجی جمع کرتا ہے اور اسے اپنے اصلی وطن، اپنے گھر بھیج کر تمنا رکھتا ہے کہ اپنے لئے ایک گھر، ٹھکانہ اور سرمایہ فراہم کرے تاکہ اپنے وطن پلٹ کر پہلے سے بھیجے ہوئے ساز و سامان اور وسائل سے بہرہ مند ہو اور اپنی زندگی کے ان باقی ماندہ چند دنوں کو آرام، عزت اور سربلندی کے ساتھ گزارے، بس فرق یہ ہے کہ یہ دنیوی زندگی محدود اور فنا پذیر ہے لیکن اخروی زندگی ابدی اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔

انسان کے عقائد و اعمال وہ بیج ہیں جواس دنیا میںانسان کے ہاتھ سے بوئے جاتے ہیں اور عالم آخرت میں اس کا نتیجہ اور محصول ظاہر ہوگا۔ اس دنیا میں اگر کوئی کسان علم زراعت کے ماہر عالم کی ہدایات کی بنیاد پر بیج بوئے تو کاٹنے کے وقت بہترین کیفیت کے ساتھ اپنی زحمتوں کا زیادہ سے زیادہ نتیجہ و محصول حاصل کرے گا۔

۵۹

اسی طرح اگر لوگ اپنے عقائد و اعمال کو قرآن کریم کی ہدایات اوراہلبیت طاہرین (ع) کے علوم و معارف کی بنیاد پر قائم رکھیں اور اپنے فردی، اجتماعی اور سیاسی امور کو قرآن کریم کی ہدایات کی بنیاد پر منظم کریں، تو دنیا کی عزت و سربلندی کے علاوہ، عالم آخرت میں بھی اپنے نیک اعمال کے نتائج سے بہرہ مند ہوں گے اور اس بات سے خوش ہوں گے کہ اپنے اعمال صالحہ سے رحمت خدا کے جوار میںایک سعادتمند تقدیر و سرنوشت کے حامل ہوگئے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ مذکورہ بالا مضمون کوایک نہایت خوبصورت مثال کے ساتھ بیان فرماتے ہیں اور لوگوں کو قرآن پر عمل کرنے اور اس کے حیات بخش احکام کی پابندی کرنے کی طرف دعوت دیتے ہیں:

''فَاسْئَلُوا اللّٰهَ بِهِ وَ تَوَجَّهُوالیهِ بِحُبِّهِ وَ لاتَسْئَلُُوْا بِهِ خَلْقَهُ إنّهُ مَا تَوَجَّهَ العِبَادُ اِلٰی اللّٰهِ بِمِثْلِهِ وَ اعْلَمُوْا إنّهُ شَافِع وَ مُشَفَّع وَ قَائِل مُصَدِّق وَ أَنَّهُ مَن شَفَعَ لَهُ الْقُرآنُ یَومَ الْقِیَامَةِ شُفِّعَ فِیهِ وَ مَن مَّحَلَ بِهِ الْقُرآنُ یَومَ الْقِیَامَةِ صُدِّقَ عَلَیهِ''۱

حضرت علی ان گزشتہ مطالب کو بیان کرنے کے بعد کہ قرآن معاشرہ کے سب سے بڑے درد و مرض کا علاج ہے، لوگوں کو نصیحت فرماتے ہیں کہ: ''اس کے ذریعہ اللہ

(۱)نہج البلاغہ، خطبہ ۱۷۵۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180