قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت33%

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 180

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42258 / ڈاؤنلوڈ: 3526
سائز سائز سائز
قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

خواہشات پر عقل کی حکومت

اگر چہ انسان پرخواہشات کی حکومت بہت ہی مستحکم ہوتی ہے لیکن عقل کے اندر ان خواہشات کو کنٹرول کرنے اور انہیں صحیح رخ پرلانے کی مکمل صلاحیت اورقدرت پائی جاتی ہے۔بشرطیکہ انسان خواہشات پر عقل کو فوقیت دے اور اپنے معاملات زندگی کی باگ ڈورعقل کے حوالہ کردے۔

صرف یہی نہیں بلکہ جس وقت خواہشات پر عقل کی گرفت کمزور پڑجاتی ہے اور خواہشات اسکے دائرہ اختیار سے باہر نکل جاتے ہیں تب بھی عقل کی حیثیت حاکم و سلطان کی سی ہوتی ہے وہ حکم دیتی ہے ،انسان کو برے کامو ںسے روکتی ہے،اور خواہشات ،نفس کے اندرصرف وسوسہ پیدا کرتے ہیں حضرت علی نے فرمایاہے:

(للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجروتنهی )( ۱ )

''نفسوں کے اندرمختلف خواہشیں سر ابھارتی ہیںاور عقلیں ان سے مانع ہوتی ہیں اورانہیں روکتی رہتی ہیں''

آپ ہی سے منقول ہے :

(للقلوب خواطرسوئ،والعقل یزجرمنها )( ۲ )

''دلوںمیں برے خیالات آتے ہیں اور عقل ان سے روکتی رہتی ہے''

اس کا مطلب یہ ہے کہ خواہشات کی بناء پر انسان کے نفس میں صرف برے خیالات،اوہام اور وسوسے جنم لیتے ہیں لیکن عقل کے پاس انہیں کنڑول کرنے نیز ان سے روکنے کا اختیار موجود ہے اور اس کی حیثیت حاکم و سلطان کی سی ہے۔ اسی لئے مولائے کائنات نے فرمایاہے:

(العقل الکامل قاهرللطبع السُّوئ )( ۳ )

''عقل کامل ،بری طبیعتوں پر غالب ہی رہتی ہے''

جسکا مطلب یہ ہوا کہ انسانی مزاج اور اسکا اخلاق، بے جا خواہشات کی بناء پر بگڑکرچاہے جتنی پستی میں چلاجائے تب بھی عقل کی حکومت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے اور عقل سلیم وکامل اپنے اندر

____________________

(۱)تحف العقول ص۹۶۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۳)بحار الانوارج۱۷ص۱۱۶۔

۲۱

ہر قسم کی بری طبیعت اور مزاج کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔یہ اسلامی تربیت کا ایک اہم اصول ہے جسکے بارے میں ہم آئندہ تفصیل سے گفتگوکریں گے۔

انسان ،عقل اور خواہش کا مجموعہ

یہاں تک ہم اس واضح نتیجہ تک پہونچ چکے ہیں کہ خواہشیں کتنی ہی قوی اورموثر کیوں نہ ہوںلیکن وہ انسان سے اسکاارادہ اور قوت ارادی کونہیں چھین سکتی ہیں۔بشرطیکہ انسان عقل کو کامل بنالے اور معاملات زندگی میں عقل کو اہمیت دیتارہے کیونکہ انسان، عقل اور خواہشات سے مل کر بنا ہے لہٰذاعقل اور خواہشات کے باعث انسان ہمیشہ ترقی و تنزلی کی منزلیںطے کرتارہتاہے انسان اپنے معاملات حیات میں جس حد تک عقل کی حاکمیت کا قائل ہوگا اور اپنی عقل کے تکامل کی کوشش کرے گا اسی حد تک ترقی اور کمال کی جانب قدم بڑھائے گا اسکے برخلاف عقل کو بالکل نظر انداز کرکے اور اس سے غافل ہو کراگرخواہشات کوعقل پر ترجیح دے گاتو اسی کے مطابق پستیوں میں چلاجائے گا۔

لیکن حیوانات کی زندگی کا معاملہ انسان کے بالکل بر خلاف ہے کیونکہ ان کے یہاں کہیں سے کہیں تک عقل کا گذر نہیں ہے اوروہاںسوفیصد خواہشات کی حکومت ہوتی ہے گویا وہ صرف ایک سبب کے تابع ہوتے ہیںاوران کی زندگی صرف اسی ایک سبب کے تحت گذرتی ہے۔مولائے کائنات کا ارشاد ہے:

(إن ﷲ رکّب فی الملائکة عقلا ًبلا شهوة،ورکّب فی البهائم شهوةبلاعقل،ورکّب فی بنی آدم کلیهمافمن غلب عقله شهوته فهوخیرمن الملائکة،ومن غلبت شهوته عقله،فهوشرمن البهائم )( ۱ )

''خداوند عالم نے ملائکہ کو صرف عقل دی ہے مگرخواہشات نہیں دیںاورحیوانات

____________________

(۱)وسائل الشیعہ،کتاب الجھاد:جہاد النفس باب ۹ح۲۔

۲۲

کو خواہشات دی ہیں مگر عقل سے نہیں نوازا ،مگر اولاد آدم میں یہ دونوںچیزیں ایک ساتھ رکھی ہیں لہٰذا جسکی عقل اس کی خواہشوں پر غالب آجائے وہ ملائکہ سے بہتر ہے اور جس کی خواہشیں اسکی عقل پر غلبہ حاصل کرلیں وہ حیوانات سے بدتر ہے ''

خواہشات کی شدت اورکمزوری

اسلامی تہذیب کاایک اہم مسئلہ خواہشات کی شدت اورکمزوری کا بھی ہے۔کیونکہ عین ممکن ہے کہ کوئی خواہش نہایت مختصر اور کم ہواور ممکن ہے کہ بعض خواہشات بھڑک کرشدت اختیار کرلیں ۔ چنانچہ اگر یہ مختصر ہوگی تو اس پر عقل حاکم ہوگی اور آدمی ،انسان کامل بن جائے گا اوراگر یہی خواہشات شدت اختیار کرلیں تو پھر ان کا تسلط قائم ہوجاتا ہے اور انسان،حیوانیت کی اس پستی میں پہنچ جاتا ہے جہاں صرف اور صرف خواہشات کا راج ہوتاہے اور عقل وشعور نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی ہے ۔

انسان چاہے اس حالت کے ماتحت ہو یا اس حالت کے ماتحت ہو ہرصورت میں خواہشات کی کمی یا زیادتی کا دارومدار خود انسان کے اوپر ہی ہوتا ہے کہ جب وہ خواہشات کا تابع ہوتاہے اور ان کے تمام مطالبات کو پورا کرتاہے تو خواہشات اور بھڑک اٹھتی ہیں اور انسان کو مکمل طور پر اپنا اسیر بنالیتی ہیںاور انسانی زندگی میں ایک مضبوط قوت کے روپ میں ابھرتی ہیں اور انسان کی زندگی میں ان کاکردار بہت اہم ہوتا ہے۔

اوراسی کے برعکس جب انسان اپنی خواہشات پرپابندی لگاتارہے اوران کوہمیشہ حداعتدال میں رکھے اور خواہشات پرانسان کا غلبہ ہواور وہ عقل کے ماتحت ہوں تو پھر اسکی خواہشات ضعیف ہوجاتی ہیں اور انکا زور گھٹ جاتاہے ۔

ایک متقی کے اندر بھی وہی خواہشات ہوتے ہیں جو دوسروں کے اندر پائے جاتے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ متقی افراد خواہشات کو اپنی عقل و فہم کے ذریعہ اپنے قابو میں رکھتے ہیں جبکہ بے عمل افرادپر ان کے خواہشات حاکم ہوتے ہیں اورخواہشات ان کو قابو میںکرلیتے ہیں۔ اس دور اہے پر انسان کوکوئی ایک راستہ منتخب کرناہے وہ جسے چاہے اختیار کرے۔ خواہشات کو کچل کر ان کا مالک ومختا ر بن جائے یا انکی پیروی کرکے ان کاغلام ہوجائے۔

۲۳

آئندہ صفحات میں ہم خواہشات پرغلبہ حاصل کرنے کے کچھ طریقے ذکر کریںگے لیکن فی الحال آیات وروایات کی روشنی میں ان باتوں کا تذکرہ کر رہے ہیں جن سے خواہشات کی کمزوری یاشدت اور ان صفات کے اسباب کا علم حاصل ہوتاہے۔

سب سے پہلے قرآن کریم کی آیات ملاحظہ فرمائیں۔ﷲتعالیٰ ارشادفرماتاہے:

( ولکن ﷲ حبَّب لیکم الایمان وزیَّنه فی قلوبکم وکَرَّه إلیکم الکفروالفسوق والعصیان ) ( ۱ )

''لیکن خدا نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیا ہے اور کفر،فسق اور معصیت کو تمہارے لئے ناپسندیدہ قرار دیدیا ہے ''

فسوق (برائی) کی یہ نفرت خداوند عالم نے مومنین کے دلوں میں پیداکی اور اہل تقویٰ اس سے ہمیشہ متنفر رہتے ہیںمگرفاسقین اس پرلڑنے مرنے کو تیار رہتے ہیں اسکے واسطے جان توڑ کوشش کرتے ہیں اور اس کی راہ میں بیش قیمت اشیاء کو قربان کردیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کس ذات نے اس برائی کو مومنین کی نظروں میں قابل نفرت بنادیا؟ کون ہے جس نے فاسقوں کی نگاہ میں اسے محبوب بنادیا؟یقینا خدا وند عالم ہی نے مومنین کو اس سے متنفر کیا ہے۔کیونکہ مومن کا دل خداکے قبضۂ قدرت میں رہتا ہے لیکن برائیوں کو فاسقوں کیلئے پسندیدہ بنانے والی چیز خود ان برائیوں اور خواہشات کی تکمیل نیزان کوہرقیمت پر انجام دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جسکی بناپر وہ ان کی

____________________

(۱)سورئہ حجرات آیت۷۔

۲۴

من پسند چیز بن جاتی ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے:

(المداومة علیٰ الخیرکراهیة الشر )( ۱ )

''کار خیر کی پابند ی برائیوں سے بیزار و متنفر کرتی ہے''

یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ اگر مسلسل کا رخیر کی پابندی کی جاتی رہے تو خود بخود شر اور برائی سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے شر سے مراد انسان کی وہ خواہشات اور لذتیں ہیںجن کے پیچھے لوگ دوڑتے رہتے ہیں۔ یعنی فاسق اور گمراہ لوگ انھیں حرام خواہشات ولذائذ کے متلاشی رہتے ہیں۔

اس کے برعکس ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح کارخیرکی پابندی کے باعث برائی سے نفرت ہوجاتی ہے اسی طر ح یہ بھی ایک فطری بات ہے کہ''برائیوں کی پابندی سے برائیوں کی محبت پیدا ہوجاتی ہے''

خطبہ متقین جو خطبہ ہمام کے نام سے مشہور ہے اس میں امیر المومنین کا یہ ارشاد ہے: (تراه قریباًأمله،قلیلاًزلَله،خاشعاًقلبه،قانعةنفسه،منزوراًأکله،سهلاًأمره، حریزاًدینه،میتةً شهوته،مکظوماًغیظه )( ۲ ) '' متقین کی پہچان یہ ہے کہ ان کی آرزوئیں بہت مختصر ،لغزشیںکم،دل خاشع،نفس قانع، غذا معمولی،معاملات آسان،دین محفوظ ،خواہشات مردہ اور غیظ و غضب اور غصہ ٹھنڈارہتاہے''

بیشک تقویٰ شہوات اور خواہشات کو مختصر اور سادہ بنا دیتا ہے جسکے نتیجہ میں حریص اور لالچی نفوس بھی متقی اور قانع ہو جاتے ہیںاور انکی خواہشات گھٹ کر گویا مردہ ہوجاتی ہیں۔

البتہ اس طرح کی روایات نقل کرنے سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ تقویٰ ،خواہشات کو لگام

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۷۔

(۲)نہج البلا غہ خطبہ ۹۵(ہمام)

۲۵

لگاکر ایک دم روک دیتا ہے( اگر چہ یہ بات اپنی جگہ پر کسی حد تک درست ہے )۔بلکہ نفس کے اوپر تقویٰ کا دوسرا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہشات کو بہت ہی ہلکا اور سادہ بنادیتا ہے اور اسی مقصد کے تحت ہم نے مذکورہ روایات بیان کی ہیں اب حضرت علی سے مروی مندرجہ ذیل روایات ملاحظہ فرمائیں جنہیں ہم بغیر کسی تبصرہ کے پیش کررہے ہیں:

(کلما قویت الحکمة،ضعفت الشهوة )( ۱ )

''جس قدر حکمت قوی ہوگی خواہش اتنی ہی کمزور ہوجائے گی''

(اذاکثرت المقدرة قلت الشهوة )( ۲ )

''جب قدرت زیادہ ہوگی تو شہوت کم ہوجائے گی''

(العفة تضعف الشهوة )( ۳ )

''عفت اور پاکدامنی شہوت کو کمزور بنادیتی ہے''

(من اشتاق الیٰ الجنة سلا من الشهوات )( ۴ )

''جو جنت کا مشتاق ہوا وہ خواہشات سے بری ہوگیا ''

(واذکرمع کل لذة زوالها،ومع کل نعمة انتقالها،ومع کل بلیة کشفها فن ذلک أبقیٰ للنعمة،وأنقیٰ للشهوة،وأذهب للبطر،وأقرب للفرج، وأجد ر بکشف الغمةودرک المأمول )( ۵ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۱۱۔

(۲)بحار الانوار ج۷۲ص۶۸ونہج البلاغہ حکمت ۲۴۴۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۱۱۸۔

(۴)نہج البلاغہ حکمت ۳۱۔

(۵)غررالحکم۔

۲۶

''ہر لذت کے ساتھ اسکے زوال پر، ہر نعمت کے ساتھ اسکے منتقل ہونے اورہر بلاکے ساتھ اسکے رفع ہونے پر بھی نظر رکھو کیونکہ یہ نعمت کو تادیر باقی رہنے، شہوت کو صاف و پاکیزہ بنانے ،نعمت پر اترانے اور اسکی ناشکری کو ختم کرنے ،آسانی اور کشادگی کو قریب کرنے ،مشکلات اور پیچیدگیوں کودور کرنے نیزآرزووں کی تکمیل کے لئے سب سے زیادہ مناسب ہے۔''

تقویٰ اورضبط نفس کاتسلط انسانی خواہشات اور آرزووں پر اس حد تک ہوتا ہے کہ وہ انسانی خواہشات کو حدود الٰہیہ کے سانچہ میں ڈھال دیتے ہیں جسکے بعد انسان صرف وہی چاہتااور پسند کرتا ہے جو خداوند عالم پسند کرتا ہے اور صرف اسی سے نفرت اور کراہت محسوس کرتا ہے جس سے خداوندعالم نفرت کرتاہے اور یہ انسانی نفس اور حدود الٰہیہ کے آپسی رابطہ کی آخری حد ہے اسی عجیب و غریب انقلاب کی طرف اس آیۂ کریمہ نے اشارہ کیا ہے :

(وکرَّه لیکم الکفر والفسوق والعصیان )( ۱ )

''اور کفر،فسق اور معصیت کو تمہارے لئے ناپسندیدہ قرار دیدیا ہے ''

اس مرحلہ میں تقویٰ کاانسان پر صرف یہی اثر نہیںہوتا ہے کہ وہ کفر،فسق وفجور اور گناہ سے دوررہتا ہے بلکہ تقویٰ انسان کو ان باتوں سے متنفر بھی کردیتا ہے۔

انسانی زندگی میں خواہشات کا مثبت کردار

انسانی زندگی میں اسکی خواہشوں کی تباہ کاریوں کو دیکھنے کے بعد ہر انسان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ان کی اتنی تباہ کاریوںکے باوجودبھی خداوند عالم نے انسان کے اندر ان خواہشات کو کیوں پیدا کیا ہے؟اور ان کاکیا فائدہ ہے ان میںایساکونسا مثبت پہلو پایاجاتا ہے جسکی بناپر انہیں خلق کیا گیا ہے؟اگر چہ آئندہ ہم خواہشات کی تباہ کاریوں اور اسکے منفی اثرات کا جائزہ لیں گے

____________________

(۱)سورئہ حجرات آیت۷۔

۲۷

لیکن فی الحال اسکے مثبت اثرات اور فوائد کا تذکرہ کررہے ہیں۔

۱۔انسانی زندگی کا سب سے طاقتور محرک

انسانی خواہشات اس کی زندگی میں سب سے بڑا محرک ہیں کیونکہ ﷲ تعالیٰ نے حیات انسانی کے اہم ترین پہلوئوں کو انہیں خواہشات سے جوڑدیا ہے اوریہی خواہشات اسکی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کی ضامن ہیں۔

جیسے تولیدنسل، انسانی زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر انسان صفحہ ہستی سے نابود ہوکر رہ جائے گا۔لہٰذا افزائش نسل اوراسکی بقاکے لئے کوئی ایساذریعہ یا جذبہ در کار تھا جسکی بنا پر نسل انسانی باقی رہے۔چنانچہ اس اہم مسئلہ کو خداوند عالم نے جنسی خواہشات سے جوڑکر بقائے انسانیت کا سامان فراہم کردیا۔

اسی طرح جسمانی نشوونما کو کھانے پینے سے جوڑ دیا اگر آب ودانہ کی یہ خواہش نہ ہوتو انسانی جسم نمو نہیں پاسکتا اور مسلسل جد و جہد کی وجہ سے اسکے بدن میں جو کمزوری پیدا ہوجاتی ہے اس کی کمی پوری نہیں ہوسکتی تھی اور اسکے بدن میں جو خلیے مردہ ہوجاتے ہیں ان کی جگہ زندہ خلیے حاصل نہ ہوپاتے۔

اسی طرح خدا وند عالم نے اجتماعی زندگی کے لئے نفس میں سماج کی جانب رغبت اوررجحان کا جذبہ رکھا ہے اگر یہ جذبہ نہ ہوتاتو سماجی زندگی انتشار کا شکار ہوجاتی اور انسانی تہذیب و تمدن تارتار ہوجاتا۔

انسانی زندگی کے اقتصادی اور معاشی حصہ میں ملکیت اورمالکیت کا جذبہ کا رفرما رکھا ہے۔ اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو پھر اقتصادی نظام بالکل برباد ہوجاتا ۔

جان ،مال،ناموس اورعزت و آبرو کے تحفظ کیلئے قوت غضب رکھی گئی ہے اگر انسان کے اندر یہ قوت نہ رہے تو پھر ہر سمت دشمنی کارواج ہوگا اور کہیںبھی امن وامان کا نام ونشان باقی نہ رہے گا

اسی طرح انسان کے وہ دوسرے تمام ضروریات جن کے بغیر اسکے لئے روئے زمین پر زندگی گذار ناممکن نہیںہے ان کے لئے بھی خداوند عالم نے کوئی نہ کوئی جذبہ اور خواہش ضرور رکھی ہے اور اسی خواہش کے ذریعہ ان ضروریات کی فراہمی کا انتظام کیا ہے۔

۲۸

۲۔خواہشات ترقی کا زینہ

خواہشات انسانی زندگی میں ترقی کا زینہ ہیںاسی کے ساتھ یہ وہ پھسلن بھرا راستہ بھی ہے جس پر چل کرانسان پستیوں میںبھی پہنچ سکتا ہے۔اوراسی زینہ کے ذریعہ خدا تک بھی پہونچ سکتا ہے یہی زینہ انسان کی ترقی اور تکامل میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جسکی تفصیل کچھ یوں ہے۔

قرب خدا کی جانب انسان کا سفر اور اسی طرح انسان کی نشو ونما کادارو مداراس کے ''ارادہ''پر ہے جبکہ جمادات ،حیوانات اورنباتات کی نشو و نما اور ان کاتکاملی سفر ایک فطری اور قہری انداز میں انجام پاتاہے۔اور اس میں ان کے کسی ارادہ کا دخل نہیں ہوتا ہے لیکن انسان کو خداوند عالم نے ''ارادہ''کے ذریعہ یہ خاص شرف بخشا ہے کہ اس کی ہر حرکت ،ہر کام اسکے اپنے ارادہ واختیار کے تحت انجام پاتاہے ۔ انسان اور کائنات کی دوسری تمام اشیاء مشیت وارادہ ٔ الٰہی کے تابع ہیں اس اعتبار سے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے فرق صرف اتنا ساہے کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ مشیت الٰہی کا تابع ہوتا ہے اوربقیہ کا ئنات فطری اورقہری طور پر یعنی اپنے ارادہ و اختیار کے بغیر مشیت الٰہی کے مطابق چلتی رہتی ہے۔

احکام الٰہی در اصل خدا کی مشیت اور اس کے ارادہ کا مظہر ہیں جن پر بندہ اپنے اختیار سے چلتا ہے اسی طرح سنن الٰہی بھی مشیت و ارادہ الٰہی کامظہر ہیں جن پر جمادات نباتا ت اور حیوانات اپنے ارادہ و اختیار کے بغیر رواں دواں ہیں۔

اسی لئے انسان کو قرآن مجید میں:(خلیفة ﷲ)قرار دیا گیاہے( ۱ ) اور اسکے علاوہ پوری کائنات کو (مسخرات بأ مرہ)''اسکے حکم کی تابع ''کہا گیا ہے۔( ۲ )

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت۳۰۔

(۲)سورئہ اعراف آیت ۵۴وسورئہ نحل آیت ۱۲و۷۹۔

۲۹

خلافت اور تسخیر کے درمیان ایک چیز مشترک ہے اور ایک لحاظ سے ان کے درمیان اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ ان کا مشترک پہلو یہ ہے کہ دونوں ہی مشیت و ارادئہ الٰہی کے تابع اور مطیع ہیں البتہ اس لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں کہ خلیفہ خدا (انسان)اپنے ارادہ و اختیار سے حکم الٰہی کی پابندی کرتا ہے اور(والمسخرات بامرہ) تقریباًمشینی اندا ز میں اپنے کسی ارادہ و اختیار کے بغیر حکم خدا پر چلتے رہتے ہیں۔

اور یہی نکتہ انسان کی عظمت و بلندی کا راز ہے کیونکہ اگر وہ بھی اپنے قصد و ارادہ سے خداوند عالم کی اطاعت نہ کرتااور مجبور ہوتا تو پھر اسکے اور بقیہ پوری کائنات کے عمل میں کوئی فرق نہ ہوتااور اس کے عمل کو کسی قسم کا امتیاز یا برتری حاصل نہ ہوتی۔

اسی ارادی اور اختیاری اطاعت نے دیگر مخلوقات کے مقابل انسان کوخلافت الٰہیہ کا اہل بنایا ہے اور اسی بناء پر اسکے ہر عمل کی قدروقیمت بھی اسکی محنت و مشقت کے متناسب ہوتی ہے۔

چونکہ ارادی عمل میں جسمانی زحمت کے ساتھ نفسیاتی اور روحانی زحمت ومشقت بھی برداشت کرنا پڑتی ہے لہٰذاخدا کے نزدیک اس عمل کی قدروقیمت زیادہ ہونی ہی چاہئے ۔ارادی عمل سے پیدا ہونے والی حرکت میں سرعت و استحکام بھی زیادہ ہونا چاہئے لہٰذا یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ ایک انسان تو کسی عمل کیلئے باقاعدہ زحمتیں اٹھائے اور دوسرا شخص بغیر کسی مشقت کے کوئی عمل انجام دے اور قدرو قیمت کے اعتبار سے دونوں برابر قرار د یدئے جائیں ۔

جیسے'' کھانے پینے'' اور'' روزہ رکھنے'' کے درمیان زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے جبکہ چاہے کھانا پینا ہو اور یا روزہ ہو یہ سب اعمال قصد وارادہ اور حکم الٰہی کی اطاعت کے جذبہ سے انجام پاتے ہیں لیکن کھانے پینے میں چونکہ انسان کے ارادہ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا اور اس میں اسے کسی قسم کی زحمت ومشقت نہیں ہوتی ہے اورچونکہ ہرعمل کی قیمت کا اندازہ اس عمل کی راہ میں ہونے والی اس محنت و مشقت کو دیکھکر لگایا جاتا ہے جو اس عمل کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے درکار ہوتی ہے اور کیونکہ کھانے پینے میں ایسی کوئی خاص زحمت نہیں ہے لہٰذاروزہ کے برخلاف اس عمل کی کوئی خاص اہمیت بھی نہیں ہے۔

جس عمل میں زحمت و مشقت کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی اس عمل کی قدروقیمت بھی اسی اعتبار سے بڑھتی رہے گی۔اور ایسا عمل انسانی ترقی اور قرب الٰہی کے سفر میں زیادہ اہمیت کا حامل ہوتاہے ۔ لہٰذا اصل حیثیت عمل پر صرف ہونے والی محنت ومشقت کی ہے اور اگر یہ محنت و مشقت نہ ہو تو پھر عمل بالکل بے قیمت ہوکر رہ جاتاہے۔

۳۰

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ زحمت ومشقت کیا ہے؟یہ کیسے حاصل ہوتی ہے؟اور اسکے درجات مختلف کیوں ہوتے ہیں؟

اس زحمت و مشقت کودینی اصطلاح میں''ابتلا''یعنی امتحان اور آزمائش کہا جاتا ہے اور یہ زحمت و مشقت خواہشات اور آرزووںکے وقت ظاہرہوتی ہے کیونکہ اگر ہمارے وجود میں خداوند عالم کی ودیعت کردہ یہ خواہشات نہ ہوتیں یا اسی طرح ان خواہشات کی مخالفت کے بغیر اطاعت ممکن ہوتی تو پھر ہمارے کسی عمل کی کوئی قیمت باقی نہ رہ جاتی اور کوئی عمل بھی قرب الٰہی کا ذریعہ نہیں بن سکتاتھا۔

اس ابتلاء اور مشقت کے درجات میں تفاوت در اصل خواہشات اور آرزووں کی شدت و ضعف یاکمی وزیادتی کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ کیونکہ خواہشات جتنی زیادہ طاقتور ہونگی ان پر قابو پانے کیلئے انسان کو اتنی ہی مشقت اٹھا ناپڑے گی( ۱ ) اور عمل کو انجام دینے کیلئے خواہشات نفس کی جتنی زیادہ مخالفت درکارہوتی ہے وہ عمل قرب خداکیلئے اتنا ہی بیش قیمت ہوتاہے اور اسی کے مطابق خداوندعالم اسے جنت میں ثواب عنایت فرما تاہے ۔

____________________

(۱)خواہشات کے بارے میں اسلام کا نظریۂ اعتدال واضح ہے اوراسے تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔مختصر یہ کہ:

اسلام نہ تومکمل طورپر خواہشات کا گلا گھو ٹنے کی اجازت دیتاہے اور نہ وہ انھیں مطلق العنا ن چھوڑنے کاقائل ہے بلکہ اسلام کا ہر انسان سے صرف اتنا مطالبہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو شرعی احکام کے دائر ہ میں پورا کرتا رہے ۔

۳۱

اس وضاحت کے بعد بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ اپنے پروردگار کی جانب انسان کے ارتقائی سفر میں خواہشات کی کیا قدر وقیمت ہے کیونکہ قرب الٰہی کے ہر راہرو کو خواہشات اور آرزووںکے اس دلدل سے گذرناپڑے گاجسے خداوندعا لم نے ہر انسان کے وجود کا حصہ قرار دیا ہے ۔

اس وضاحت سے یہ نتیجہ اخذ ہوتاہے کہ جسطرح خواہشات پستی اور ہلاکت کا باعث ہیںاسی طرح خداوندعالم تک پہونچنے کا زینہ بھی ہیں یہ نظریہ اسلامی فکر کی امتیازی جدت کا ایک نمونہ ہے ۔

جس کی طرف متعدد روایات میں اشارہ پایاجا تا ہے مگرہم اس مقام پر بطور نمونہ صرف دوروایات ذکر کر رہے ہیں :

۱۔(عن أبی البجیر،وکان من أصحاب النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال:اصاب النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یومًاجوع شدید،فوضع حجراً علیٰ بطنه ثم قال:''ألارُبَّ طاعمة،ناعمة،فی الدنیاجائعة،عاریةیوم القیامة،ألارُبَّ مکرم لنفسه،وهولها مهین،ألاربّ مهین لنفسه،وهولها مکرم،ألا یارب متخوض،متنعم،فیما أفاء ﷲعلیٰ رسوله،ماله عندﷲ من خلاق،ألاون''عمل الجنة''حَزْنة بربوة، ألاون'' عملالنار''سهلة بشهوة،ألایارب شهوة ساعةٍأورثت حزناًطویلا )( ۱ )

''پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی ابی بجیر کا بیان ہے کہ ایک روز آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوبے حد بھوک لگی تھی تو آپ نے اپنے شکم مبارک پر پتھر رکھ لیا اور فرمایا :

نعمتوں کے خواہشمندکتنے ایسے افرادہیںجنہیں دنیا میں نعمتیں مل جاتی ہیں لیکن وہ قیامت کے دن بھوکے اور برہنہ ہونگے یا د رکھو! بظاہراپنے نفس کی عزت کرنے والے نہ جانے کتنے لوگ خودنفس کی توہین کرتے ہیں ۔اور نفس کو رسوا کرنے والے کتنے افراد ہیں جو دراصل نفس کی عزت

____________________

(۱)ذم الہویٰ لا بن الجوزی ص۳۸۔

۳۲

افزائی کرتے ہیں۔یاد رکھو! کتنے لوگ ان نعمتوں سے سرشار ہیںجو خداوندعالم نے اپنے رسول کو عنایت فرمائی ہیں مگر خدا کے نزدیک ان کا کوئی مرتبہ نہیں ہے یادرکھو !کہ جنت والا عمل ''حزنہ بربوة' ( نا ہموار پہا ڑی پر چڑھنے کے مثل )ہے اور جہنمی اعمال خواہشات کے عین مطابق او ر آسان ہیں یا د رکھو! بسا اوقات ایک ساعت کی شہوت ،طویل حزن و ملال کاسبب ہوتی ہے۔''

اس روایت میں متعدد قابل توجہ فکر انگیز نکات پائے جاتے ہیں جن سے بیحد مفید نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں جیسے کتنے نفس ایسے ہیں کہ جب انہیں کسی چیز کی خواہش ہوتی ہے تو انہیں وہ نعمت مل جاتی ہے مگر وہ اپنی خواہشات کی بناء پر حرام وحلال کی کوئی فکر نہیں کرتے ۔۔۔ایسے لوگ روز قیامت بھوکے اوربرہنہ لائے جائیں گے۔

اور اسی طرح بعض اپنی خواہشات اور آرزووں کو پورا کرنے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس طرح اپنے نفس کی عزت و احترام میں اضافہ کررہے ہیں جب کہ در حقیقت وہ نفس کی توہین کرکے اسے تکلیف پہنچا رہے ہیں۔

کچھ لوگ اپنے نفس کے ساتھ شدت اور سختی سے پیش آتے ہیں اورجب وہ کسی شہوت اور خواہش کی طرف آگے بڑھناچاہتاہے تو صرف اسے روکتے ہی نہیں بلکہ اسکے ساتھ ساتھ اسکی توہین و تذلیل بھی کرتے ہیںیہ عمل در حقیقت اپنے نفس کی عزت افزائی اور احترام ہے۔

اور کچھ ایسے ہیں جو بالکل اندھا دھنداپنی خواہشات میں ڈوبے رہتے ہیں انھیںصرف دنیاوی لذت سے مطلب ہے ایسے لوگوں کو آخرت میں کچھ ہاتھ آنے والانہیں ہے۔یہ لوگ آخرت کی نعمتوں سے محروم رہیں گے۔

حدیث کے ان الفاظ پرمزید توجہ فرمائیں :

(ألا ون عمل الجنةحَزْنة بربوة )

''حزنة ربو ة'' والاعمل جنت میں لے جاتا ہے۔''

۳۳

''حزنہ'' ناہموار پتھریلی زمین اور'' ربوة'' اس پر چلنے کو کہا جاتا ہے۔جو شخص ناہمواراور پتھریلی پہاڑیوں پر چڑھتا ہے اسکا سانس پھول جاتا ہے اور ہمت جواب دینے لگتی ہے اور آخری منزل تک پہنچنے تک اسکو بیحد مشقتوں کا سامنا کر نا پڑتاہے جیسے دریا کے بہائو کے خلاف تیرنے میں انسان کی ہمت جواب دینے لگتی ہے لیکن ہموار راستہ پر چلنا یا دریا کے رخ کے مطابق تیرنا نہایت ہی آسان کام ہے یہی حال جنت اور جہنم کے اعمال یعنی اطاعت و معصیت کا بھی ہے کہ گناہ کرتے وقت تو انسان آسانی کے ساتھ خواہشات کے بہائو میں بہتا رہتا ہے لیکن اطاعت خدا کرتے وقت اسے اپنے نفس کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرناپڑتا ہے۔

۲۔ نہج البلاغہ میں منقول ہے کہ مولائے کائنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کایہ قول نقل کیا ہے کہ رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم برابر یہ فرمایا کرتے تھے:

(ن الجنةحفت بالمکاره،ون النارحفت بالشهوات،واعلموا:نه مامن طاعة ﷲ شیٔ لایأتی فی کره،وما من معصیة ﷲ شیٔ لایاتی فی شهوة،فرحم ﷲامرأً نزع نفسه عن شهوته،وقمع هویٰ نفسه،فن هذه النفس أبعد شی منزعا،ونها لاتزال تنزع لی معصیة فی هویٰ )( ۱ )

'' جنت کے چاروں طرف مشکلات اور زحمتوں کا حصار ہے اور جہنم کے چاروں طرف شہوتوں (خواہشات )کا گھرائو ہے اور یہ یاد رکھو کہ خدا کی کوئی اطاعت ایسی نہیں ہے جس میں کچھ نہ کچھ زحمت اور ناگواری کا پہلو نہ ہو اور اسکی کوئی معصیت ایسی نہیں ہے جس میں شہوت اور ہوی ٰوہوس شامل نہ ہو۔ ﷲ اس بندے پر رحمت نازل کرے جو اپنے نفس کو ہویٰ وہوس سے دور کرلے اور اپنی ہوس کو بالکل اکھاڑ پھینکے کہ یہ نفس خواہشات میں بہت دور تک کھینچ لے جانے والا ہے اور ہمیشہ

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ۱۷۶

۳۴

گناہوں کی خواہش کی طرف ہی کھنچتا رہتا ہے''

یہ حدیث ہمارے اس نتیجہ کی بہترین دلیل ہے جسے ہم نے روایات سے اخذ کرکے یہاںپیش کیا ہے کیونکہ جنت و جہنم ہی ہر انسان کی آخری منزل ہے جوانسان خداوند عالم کی طرف محوحرکت ہے وہ جنت میں جائے گا اور جو اسکی نافرمانی کرے گا وہ انتہائی پستیوں میں پہنچ کر جہنم کا نوالہ بن جائے گا۔

جنت کے چاروں طرف مشکلات اور ناگوار یوں کے حصار کا مطلب یہ ہے کہ اس تک پہونچنے کے لئے انسان کو ہر طرح کی مشکلات سے گذر ناپڑتا ہے یعنی خواہشات اور ہوی وہوس پر قابو پانے ،تسلط حاصل کرنے اوراسے کچلنے کے لئے سخت زحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے

جبکہ جہنم کے ہر طرف خواہشات اور ہوی ٰو ہوس کا بسیراہے انسان خواہشات اور ہوی وہوس کے درمیان پھسل کرہی تنزلی اور پستیوں میں مبتلا ہوتا ہے۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حدیث کی روشنی میں امیر المومنین نے ایک عام اصول ہمارے حوالے کردیا ہے:

(مامن طاعة ﷲ شیء لایاتیفی کره ،ومامن معصیة ﷲ شیء لایاتی فی شهوة )

'' ہر اطاعت خدا کے وقت کچھ نہ کچھ ناگواری ضرور محسوس ہوتی ہے اور ہر گناہ میں ہوس کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور پایا جاتا ہے ''

اطاعت الٰہی کرتے وقت نفس کو اسکی خواہشات و لذات اور ہویٰ و ہوس سے دور رکھنے کے لئے انسان کو ناگواری کا احساس ہوتاہے جبکہ وہ گناہوں میں لذت محسوس کرتا ہے کیونکہ اس سے نفس کی ہوس اور خواہشات پوری ہوتی ہیں اور اسے کسی قسم کے اندرونی ٹکرائو کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

ان تمام تفصیلات کے بعد یہ حقیقت بآسانی قبول کی جاسکتی ہے کہ انسان کے لئے خداوندعالم تک پہونچنے کی راہیں خواہشات اور لذتوں کی دشوار گذاروادیوں سے ہوکر ہی گذرتی ہیں اورانسان خواہشات کے زینہ سے ہی ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا خداوند عالم تک پہونچتا ہے۔ اگرانسانی وجود میں یہ خواہشات نہ ہوتیں تو انسان کے لئے اس منزل معراج وکمال تک پہونچنا ہرگز آسان نہ ہوتا جس کااسے اہل قرار دیاگیا ہے۔

۳۵

عمل اور رد عمل کا سلسلہ

خداوند عالم نے انسانی وجود میں خواہشات کو ودیعت فرماکر اسکے لئے درحقیقت ایک ایساذخیرہ فراہم کردیا جس سے انسان اپنی ہر ضرورت پوری کر سکتاہے ۔جیسے پروردگار نے انسان کے لئے زمین کے اندر کھانے پینے اور لباس کی جملہ ضروریات ،سمندروں میں پینے اور سینچائی کے لئے پانی فضا میں ہوا اور سانس کے لئے مختلف اقسام کے ذخائر فراہم کردئیے کہ انسان ان تینوں عناصر سے حسب ضرورت آب و غذایا دوسرے خام مواد حاصل کرتاہے۔اسی طرح خداوند عالم نے ان خواہشات کے ضمن میں نفس انسانی کے اندر علم ومعرفت ،یقین اور بندگی کے خزانے بھی ودیعت فرمائے ہیں۔

نفسانی خواہشات در حقیقت حیوانی وجود کا مقدمہ ہیں اوران خواہشات کا اکثر حصہ حیوانات کے اندر پایا جاتا ہے صرف انسان ایک ایسی مخلوق ہے جسکو خداوند عالم نے ''ارادہ''کے ذریعہ ان خواہشات پرغلبہ حاصل کرنے ،انہیں روکنے یامحدود رکھنے کی صلاحیت بھی عنایت فرمائی ہے اوراسی ارادہ کے ماتحت ہوجانے کے بعد یہ اڑیل اور خود سر حیوانی خصلتیں بھی بہترین روحانی اور اخلاقی فضائل و اقدار ،بصیرت ویقین، عزم واستقلال اور تقوی وپرہیزگاری جیسی حسین شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

وہ خواہشات جن سے انسان کے اندر حیوانی اور جسمانی پہلو کی تشکیل ہوتی ہے یہ جب کنٹرول اور قابو میں رکھنے والے اسباب کے ماتحت آتی ہیں تو اخلاقی اقدار میں تبدیل ہوجاتی ہیںاور وہی خواہشات اس کے ''انسانی''پہلو کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ خود سرحیوانی خواہشات تقویٰ اور پرہیزگاری کے ذریعہ کس طرح ان بلندوبالا انسانی اقدار میں تبدیل ہوتی ہیں اور تقوی و پرہیز گاری کی بنا پر نفس کے اندرکس قسم کے تغیرات اورتبدیلیاںرونماہوتے ہیں جو اس حیوانی خصلت کو علم ویقین اور صبر و بصیرت میں تبدیل کردیتے ہیں؟اسکا جواب ہمیں نہیں معلوم ہے۔

۳۶

بلکہ نہایت افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ ایک تویہ کہ ہمیں یہ بات معلوم نہیں ہے۔ اور مزیدافسوس یہ کہ علم ومعرفت کا یہ وسیع باب انسان کیلئے آج تک نہ کھل سکا اور قدیم وجدیدماہرین نفسیات یہاں تک کہ اسلامیات کے ماہرین میں سے کوئی بھی آج تک اس گتھی کو سلجھا نے میں کامیاب نہیں ہوسکاہے۔

لیکن جب ہم خود اپنے نفس کے اوپر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں اسکے اندربڑے پیمانہ پر رونما ہونے والے عمل اور رد عمل کے سلسلہ کا صاف اشارہ ملتاہے جیسے حیا ئ،جنسی خواہشات پر غلبہ حاصل کرنے کا ''ذریعہ''ہی نہیں ہے بلکہ حیاء ان خواہشات کو کچلنے کا ''نتیجہ''بھی ہے۔چنانچہ انسان ادب،فن اور ذوق کے غیر اخلاقی مواقع پر جس حد تک جنسی خواہشات کو کچلتارہتاہے اس کی حیامیں اتنا ہی اضافہ ہوتاجاتاہے ۔

ادب سے ہمار ی مراد ،ہرگز بدکاری نہیںہے البتہ وہ بلندپایہ ادب ،فن اور ذوق جس کی بناء انسان حیوانیت سے ممتاز ہوتاہے وہ اسی قوت برداشت اور تقوی کی بناء پر حاصل ہوتا ہے۔

اس سلسلہ میں جب ہم قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اسکے اندر بھی ہمیں واضح طورپر اشارے ملتے ہیں جو ہمیںاپنے نفس کے بارے میں غور کرنے سے حاصل ہورہے تھے ۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے:

( واتقواﷲ ویعلمکم ﷲ ) ( ۱ )

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت ۲۸۲۔

۳۷

''یعنی تم پر ہیزگار اور متقی بن جائواور خداوند عالم تم کو دولت علم عطا فرمائے گا''

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس آیت کا دوسرا جملہ( ویعلمکم ﷲ ) پہلے جملہ پر بغیرکسی رابطہ کے عطف کیا گیاہے اوران دونوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ علم و تقویٰ میں گہرا رابطہ ہے اور یہ دونوں جملے در حقیقت ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں ۔ اور ایک ترازو کے دوپلڑوںکی طرح ہیں؟

جو شخص بھی قرآن مجید کے اسلوب سے باخبر ہے وہ اسمیں کوئی شک وشبہ نہیں کرسکتا اوروہ یقینی طورپر جانتاہے کہ یہ دونوں جملے ایک ہی ترازو کے دوپلڑوںکی مانند ہیں۔ خداوند عالم نے اپنے بندوںکے لئے یہاں جس علم کاتذکرہ فرمایا ہے وہ علم تقویٰ کا ہی نتیجہ اور اثر ہے اور یہ علم اس علم سے بالکل مختلف ہے جسے ہم تعلیم کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ علم، نور ہے جو خداوند عالم اپنے جس بندے کو چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے۔

اس نور کی طرف سورئہ حدید کی یہ آیۂ کریمہ بھی اشارہ کر رہی ہے:

( یاأیهاالذین آمنواا تقواﷲ وآمنوابرسوله یؤتکم کفلین من رحمته ویجعل لکم نوراً تمشون به ) ( ۱ )

''ایمان والو ﷲ سے ڈرو اور رسول پر واقعی ایمان لے آو تاکہ خدا تمہیں اپنی رحمت کے دوہرے حصے عطا کردے اور تمہارے لئے ایسا نور قرار دیدے جسکی روشنی میں چل سکو''

اس نور سے مراد علم ہے لہٰذا سورئہ بقرہ اور سورئہ حدید دونوں مقامات پرعلم اور تقویٰ کے درمیان ایک جیسارابطہ پایا جاتا ہے۔

تقویٰ خواہشات کے طوفان کے سامنے بند باندھنے کا نام ہے اور خواہشات کے سامنے

____________________

(۱)سورئہ حدید آیت۲۸۔

۳۸

لگائی جانے والی یہی بندش ایک دن نور علم و بصیرت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

جناب یوسف کے واقعہ کے ذیل میں ارشاد الٰہی ہے :

( ولمابلغ أشده آتیناه حکماً وعلماً وکذٰلک نجزی المحسنین ) ( ۱ )

''اور جب یوسف اپنی جوانی کی عمر کو پہونچے تو ہم نے انہیں حکم اور علم عطا کردیا کہ ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں''

جناب موسیٰ کے قصہ میں بھی بعینہ یہی تذکرہ موجودہے :

( ولمابلغ أشده واستویٰ آتیناه حکماً وعلماً وکذٰلک نجزی المحسنین ) ( ۲ )

''اور جب موسی جوانی کی توانائیوں کو پہونچے اور تندرست ہوگئے تو ہم نے انہیں علم اور حکمت عطا کردی اور ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں''

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خداوند عالم نے جناب موسی اور جناب یوسف کو اس خاص انعام سے کیوں نواز ا دوسرے لوگوں کو یہ نعمت کیوں نہیں ملی؟کیاخدا یوں ہی بلاسبب اپنے بعض بندوں کو ایسے اعزاز سے نوازدیتاہے اور دوسروں کو محروم رکھتاہے؟یا ایسا نہیں ہے بلکہ یہ سب تبدیلیاں ثابت واستوار الٰہی سنتوں کے تحت انجام پاتی ہیں۔

جو لوگ قرآنی لہجہ سے واقف ہیں انھیں اس بات میں ذرہ برابر بھی شک وشبہ نہیں ہوسکتا کہ ان دونوں آیتوں میں علم وحکمت کا تعلق ''احسان ''سے قراردیا گیا ہے۔ ''( وکذٰ لک نجزی المحسنین ) ''اور ہم احسان کرنے والوں کو اسی طرح جزادیاکرتے ہیں''تو جب وہ علم وحکمت جو جناب مو سی اور جناب یوسف کو خدا کی طرف سے عطا کی گئی ہے وہ سنت الٰہی کی بناء پر احسان سے

____________________

(۱)سورہ یوسف آیت ۲۲

(۲)سورہ قصص آیت ۱۴

۳۹

مربوط ہے تو اسکے معنی یہ ہوئے کہ محسنین اپنے احسان اور حسن عمل کی وجہ سے ہی رحمت الٰہی کے مستحق ہوتے ہیںاور اسی بناء پر ان کو اسکی بارگاہ سے علم وحکمت کی دولت سے نوازا جاتا ہے۔لہٰذا اس استدلال کی درمیانی کڑیوں کو چھوڑتے ہوئے ہم مختصر طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ'' درحقیقت وہ احسان،علم وحکمت میں تبدیل ہوگیا ہے۔''

اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ تقوی اور خواہشات نفس کی مخالفت،احسان کا واضح ترین مصداق ہیں۔

فی الحال ہم اس موضوع کو مزید طول نہیں دے سکتے کیونکہ اس اہم موضوع کے لئے ہمارے پاس مناسب مقدار میں علمی مواد موجودنہیں ہے۔خدا وند عالم سے یہی دعا ہے کہ کوئی ایسا صاحب علم و کمال پیدا ہوجائے جو بہترین انداز سے اس مسئلہ کی گتھیاں سلجھا دے۔ کیونکہ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ نفس کے اندرعمل اور رد عمل کا سلسلہ بالکل اسی طرح رونما ہوتارہتاہے جس طرح فیزکس،کیمسٹری اور زولوجی وغیرہ کے میدانوں میں دکھائی دیتاہے مثلاًحرارت حرکت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور حرکت حرارت میں بدل جاتی ہے یا بجلی کی طاقت حرکت پیدا کردیتی ہے اور اسی حرکت سے بجلی بنائی جاتی ہے بالکل اسی طرح نفس کے اندربھی عمل اور رد عمل کا سلسلہ پایا جاتاہے جسکی طرف قرآن مجید کی بعض آیتوں میں سرسری اشارہ موجود ہے ،لہٰذااسلام سے تعلق رکھنے والے علم النفس کے ماہرین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نفس کے اسرار سے پردہ ہٹاکر ان کے اصول وقوانین کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔

خواہشات کا تخریبی کردار

خواہشات اور طاغوت

انسانی زند گی میںبربادی کاایک مرکز انسانی ہویٰ و ہوس اور خواہشات ہیں اور دوسرا مرکز طاغوت ہے انکے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ ہویٰ وہوس نفس کے اندر رہ کر تخریبی کا رروائی کرتی ہے اور طاغوت یہی کام نفس کے باہرسے انجام دیتا ہے اس طرح یہ دونوں انسان کو فتنہ وفسا داورتباہی کی آگ میں جھونک دیتے ہیں۔بس ان کاانداز جداہوتاہے۔

شیطان ان خواہشات کے ذریعہ انسان کے اندرداخل ہوکر اس پر اپنا قبضہ جما لیتا ہے جبکہ سماج یا معاشرہ اور قوموں کے اوپر طاغوت کے ذریعہ اپنی گرفت مضبوط رکھتا ہے۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

سے سوال کرو اور اس کی محبت کے وسیلے سے اس کی طرف رخ کرو، اور دوسرے لوگوں سے مدد طلب کرنے کے لئے قرآن کو وسیلہ قرار نہ دو، اس لئے کہ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہونے کا اس جیسا کوئی وسیلہ نہیں ہے، اور یاد رکھو! کہ وہ ایسا شفیع ہے جس کی شفاعت مقبول ہے اور ایسا بولنے والا ہے جس کی بات تصدیق شدہ ہے، جس کے لئے قرآن روز قیامت شفاعت کردے اس کے حق میں شفاعت قبول ہے اور جس کا عیب قرآن روز قیامت بیان کردے اس کا عیب تصدیق شدہ ہے''۔

اس کے بعد حضرت قرآن سے لوگوں کی جدائی کے خطرے کو گوش گزار فرماتے ہیں، پھر ان کو اس آسمانی کتاب کی پیروی اور اسے فکر و عمل میں نمونہ قرار دینے کی طرف دعوت دیتے ہیں:

''یُنَادِی مُنَادٍ یَومَ الْقِیَامَةِ أََلاَ إنّ کُلَّ حَارِثٍ مُبْتَلیٰ فِی حَرثِهِ وَ عَاقِبَةِ عَمَلِهِ غَیرَ حَرَثَةِ القُرآنِ فَکُونُوا مِن حَرَثَتِهِ وَأََتْبَاعِهِ وَ اسْتَدِلُّوهُ عَلٰی رَبِّکُم وَ اسْتَنْصِحُوهُ عَلٰیٰ أََنْفُسِکُمْ وَ اتَّهِمُوْا عَلَیهِ آرَائَکُمْ وَاسْتَغِشُّوْا فِیهِ أََهْوَائَکُمْ'' ۱

جس وقت قیامت برپا ہوگی اور خلائق حساب و کتاب اور جزا و سزا کے لئے کھڑے ہوں گے اس وقت ایک منادی ندا دے گا اور اہل قیامت کو اس حقیقت کی خبر دے گا کہ:

(۱)نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۷۵۔

۶۱

''ہاں اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ آج ہر کھیتی کرنے والا اپنی کھیتی اور اپنے عمل کے آثار و نتائج اور محصول وانجام میں مبتلاہے، لیکن جو لوگ اپنے دل میں قرآن کا بیج بونے والے تھے یعنی دنیا میں اپنے عقائد واعمال قرآن کے احکام و ہدایات کی بنیاد پر قائم رکھے تھے صرف وہی لوگ کامیاب ہیں، لہٰذا تم لوگ انھیں لوگوں میں اور قرآن کی پیروی کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ، اسے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں رہنما بناؤ اور اس سے اپنے نفسوں کے بارے میں نصیحت حاصل کرو اور اپنے خیالات کو متہم قرار دو اور اپنی خواہشات کو فریب خوردہ تصور کرو''۔

تنبیہ و آگاہی

ہر موجود و مخلوق منجملہ اس کے انسان کی زندگی اور حیات ایک محدود چیز ہے۔ یہ زندگی ایک خاص نقطۂ زمان (ولادت) سے شروع ہوتی ہے اور ایک خاص نقطۂ زمان میں موت کے ذریعہ ختم ہو جاتی ہے۔ انسان اس محدود زمانہ میں مسلسل متحرک اور ہست و بود کی حالت میں ہے، اور اس کی شخصیت مختلف شکلیں اور صورتیںاختیار کرتی رہتی ہے۔ انسان کی شخصیت جو کہ اس کے عقائد و نظریات سے ابھر کر وجود میں آتی ہے اس کے اعمال و کردار کا مصدر و منشأ ہوتی ہے۔ انسان کے اعمال و کردار بھی روز قیامت مجسم ہو جائیں گے اور ہر شخص اپنے اعمال کے آثار و نتائج دیکھ رہا ہوگا۔

۶۲

لیکن جو بات یہاں پر قابل توجہ ہے، یہ ہے کہ جب تک انسان اس دنیا سے کوچ نہیں کرتا ہر لمحہ اپنے عقائد و افکار اور اعمال و کردار کا محاسبہ کر کے اپنے ماضی کا جبران اور اس کی اصلاح کرسکتا ہے اور اپنی تقدیر کے رخ کو دنیوی اوراخروی سعادت و کامیابی کی طرف موڑ سکتا ہے۔ کتنے ہی انسان ایسے ہیں جوایک لمحہ میں سنبھل گئے اور ایک حقیقی توبہ و انابت کے ذریعے اپنے اندھیرے گھپماضی کو روشن و سعادتمند مستقبل سے بد ل دیا اور سینکڑوں سال کے راستے کوایک رات میں طے کرلیا، اس لئے کہ: معرفت کا ہر لمحہ عمر جاودانی ہے

لیکن یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ماضی کے محاسبہ، جبران، اصلاح اور تدارک کا امکان فقط اس دنیا میں ہے اوراس دنیا ئے فانی سے رحلت اور موت کے بعد اصلاح و تدارک کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔

اگر انسان عالم دنیا میںاپنے اعمال و کردار کو قرآن اور الٰہی احکام و معارف کی بنیاد پر قائم رکھے اور حضرت علی ـ کے ارشاد کے مطابق قرآن کی بنیاد پر کھیتی کرنے والا ہو تو وہ عالم آخرت میں ان کے آثار و محصول سے فیضیاب اور خوش ہوگا۔

عمل اور اصلاح کا موقع صرف دنیا میں پایا جاتا ہے اور عالم آخرت اصلاح و تدارک کی جگہ نہیںہے:''اَلْیَومَ عَمَل وَ لاحِسَاب وَ غَداً حِسَاب وَ لاعَمَل'' ۱

آج عمل کا دن ہے حساب کا نہیں، اور کل کا دن، حساب کا ہے عمل کا نہیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ جو کہ دنیا و آخرت کی حقیقت کے عالم، ان کے درمیان رابطے سے آشنا اور مسلمانوں کے خیر خواہ و دلسوز ہیں، ارشاد فرماتے ہیں:

(۱)بحار الانوار، ج۳۲، ص ۳۵۴۔

۶۳

''فَکُوْنُوْا مِنْ حَرَثَةِ الْقُرآن'' یعنی اگر سعادت کے طلبگار ہو تو اپنی کھیتی قرآن کے بابرکت کشت زار میں قرار دو، ان لوگوںمیں ہو جاؤ جو کہ اس آسمانی کتاب کے حیات بخش احکام و ہدایات پرعمل کر کے اپنی دنیا و آخرت کو آباد کرتے ہیں، قرآن کریم کو نمونہ قرار دو تاکہ کبھی نقصان و خسارہ نہ اٹھاؤ۔

قرآن کی تاثیر اور کامیابی کا راز

ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہر اسکیم، دستور العمل اور سیاست کی کامیابی کے لئے خصوصاً تربیتی، ثقافتی اور اجتماعی مسائل کے متعلق تین بنیادی شرطوں کا ہونا ضروری ہے:

۔ اسکیم اور دستور العمل کا ملحوظ خاطر مقصد تک پہنچنے کے لئے درست اور صحیح ہونا۔

۔ اسکیم اور اس کے دستور العمل پر ایمان و اعتقاد رکھنا۔

۔ اسکیم میں ذکر شدہ احکام اور دستور العمل کی بنیاد پر عمل کرنا۔

واضح ہے کہ اگر تینوں شرطوں میں سے کوئی ایک شرط بھی نہیں پائی جائے گی تواس اسکیم اور دستور العمل کی افادیت جیسا کہ چاہئے ظاہر نہ ہوگی اور ملحوظ خاطر مقصد حاصل نہ ہوگا۔

۶۴

یہ بات ہم سب کہتے ہیں کہ قرآن خدا کا کلام اور ہم مسلمانوں کی زندگی کا دستور العمل ہے۔ لیکن اس بات کا صرف کہنا اور ظاہری اقرار کافی نہیںہے، اقرار و اظہار اس صورت میں قرآن اور اس کے حیات بخش احکام پر ایمان سمجھا جائے گا جبکہ قلبی اعتقاد و یقین کی غمّازی کرے اور انسان روح و دل کی گہرائی سے قرآن اور اس کے حیات بخش دستورات و ہدایات پر ایمان رکھتا ہو اور الٰہی ارشادات و پیغامات کے سامنے سراپا تسلیم ہو۔ ایسے ہی ایمان و یقین اور اعتقاد کے ساتھ معاشرہ کی ہدایت میں قرآن کی افادیت کی شرط کا، یعنی قرآن کے حیات بخش دستورات و ہدایات کی بنیاد پر عمل کا تحقق ہوتا ہے۔

قرآن کریم فرماتا ہے:

(ذٰلِکَ الْکِتَابُ لارَیبَ فِیهِ هُدیً لِلمُتَّقِینَ٭ الَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِالغَیْبِ وَ یُقِیمُونَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّارَزَقنٰهُم یُنفِقُونَ ٭ وَ الَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِمَا أُنزِلَالیکَ وَ مَا أُنزِلَ مِن قَبلِکَ وَ بِالآخِرَ ةِ هُم یُوقِنُونَ ٭ أُولٰئِکَ عَلٰی هُدیً مِن رَّبِّهِم وَ أُولٰئِکَ هُمُ المُفْلِحُونَ)۱

یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیںہے، یہ صاحبان تقویٰ اور پرہیزگار لوگوں کے لئے ہدایت ہے، جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں، پابندی سے پورے اہتمام کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ ان تمام باتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جنھیں (اے رسول) ہم نے آپ پر اور آپ سے پہلے والوں پر نازل کیا ہے اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت کے حامل ہیں اور فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں۔

البتہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایمان کے بہت سے درجے ہیں اور اسلامی معاشرہ

(۱)سورۂ بقرہ، آیت ۲ تا ۵۔

۶۵

اس صورت میںاپنے مشکلات پر قابو اور دشمنوں پر غلبہ حاصل کر کے عزت و عظمت کا امیدوار اور قرآن کریم کی لفظوں میں دنیوی واخروی فلاح و کامیابی کا امیدوار ہوسکتا ہے جبکہ معاشرہ کے ثقافتی عہدہ دار افراد، دینی حکومت اور قرآن کے احکام و ہدایات پر تہ دل سے ایمان و اعتقاد رکھتے ہیں، نہ یہ کہ دین اور لوگوں کے دینی کلچر کی صرف کچھ باتوں سے استفادہ کر کے جاہ و منصب حاصل کرنے کے لئے اپنے کو قرآن کا معتقد ظاہر کریں۔

قرآن کریم میں ان لوگوں کو جو کہ الٰہی احکام و ہدایات پر ایمان نہیں رکھتے اور صرف مسلمانوں کو فریب دینے اوراپنے دنیوی مقاصد تک پہنچنے کے لئے ایمان کا اظہار کرتے ہیں، منافقین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس گروہ کی ظاہری ، باطنی او رعملی خصوصیات قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں بیان ہوئی ہیں۔

بہرحال جس نکتہ پر ہم یہاں تاکید کر رہے ہیں، یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں کہ قرآن کے ا حکام و ہدایات کی بنیاد پر زندگی بسر کریں اور یہ آسمانی کتاب ہم لوگوں کو سعادتمندبنائے تو لازم ہے کہ تمام لوگ خصوصاً معاشرہ کے ثقافتی امور کے عہدہ دار افراد قرآن پر ایمان و اعتقاد رکھتے ہوں اور اس الٰہی کتاب کے سامنے حضرت ابراہیم ـ کے مانند سراپا تسلیم ہوں، یعنی قرآن کے حیات بخش احکام و ہدایات کو بغیر کسی چون و چرا کے قبول کرتے ہوں۔

۶۶

حضرت ابراہیم ، قرآن کریم میں تسلیم و بندگی کا نمونہ

قرآن کریم الٰہی احکام و اوامر کے سامنے حضرت ابراہیم ـ کے سراپا تسلیم ہونے کے واقعہ کو تسلیم و رضا کا نمونہ بیان کرتا ہے نیز مشکلات کے مقابلہ آپ کی کامیابی اور مشرکین پر غلبہ کا راز، خداوند متعال پر توکل، ایمان اور صبر و استقامت کو بتاتا ہے اور ہم سے چاہتا ہے کہ ہم امر خدا اور قرآن کریم کے بارے میں ایسے ہی ایمان و اعتقاد کے حامل ہوں اور عملاً الٰہی احکام جاری کرنے میں حضرت ابراہیم ـ کی طرح ثابت قدم ہوں۔

ہم یہاں حضرت ابراہیم ـ کا واقعہ اپنے فرزند حضرت اسماعیل ـ کو ذبح کرنے کے سلسلہ میں خداوند متعال کا حکم بجا لانے کے متعلق مختصر طور پر بیان کر رہے ہیں تاکہ اسی کے ضمن میں توحیدی مکتب فکر میں خدا محوری اور حق پرستی کی روح کو واضح کر کے قرآن اور اس کے احکام کے بارے میں اپنی کمیوں کودیکھیں اور اس کی روشنی میں عزیز قارئین کو معاشرہ کے اصلی مشکلات سے آشنا کریں۔

قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ تقدیر الٰہی میںایسا تھا کہ حضرت ابراہیم ـ سو سال لاولد رہیںاور مسلسل ناامیدی کے ساتھ طویل انتظار کے بعد صاحب اولاد ہوںاور یہ آپ کی دیرینہ تمنا پوری ہو، فطری بات ہے کہ ہر انسان زندگی میں ایک نیک بیٹے کی تمنا رکھتا ہے اور فرزند صالح کے وجود کواپنے وجود کی بقا سمجھتا ہے۔

۶۷

حضرت اسماعیل ـ کی ولادت کے بعد حضرت ابراہیم ـ خداوند متعال کی طرف سے مامور ہوئے کہ اپنے بیٹے کوان کی مادر گرامی کے ساتھ مکہ کی سرزمین پر لے جائیں تاکہ سخت سے سخت حالات میں ایسی وادی میں تنہا چھوڑ دیں کہ جہاں آب و حیات کے آثار بالکل دکھائی نہیں دیتے پھر حکم الٰہی بجالانے کی خاطر سرزمین مکہ کو ترک کردیں، ایک مدت کے بعد واپسی کے وقت جبکہ آپ کا بیٹا بڑا ہوگیا اور ایک ایسا باادب اور خوبصورت جوان نظر آرہا ہے کہ جس کے جمال زیبا کو دیکھ کر ہر انسان کی آنکھ چوندھیا جاتی ہے اور جس کا پھول جیسا مکھڑا باپ کے تمام ہم و غم کو بھلا دیتا ہے نیز جدائی اور مشکلات کے رنج کو دور کردیتا ہے، ایسا سپوت کہ جس میں نبوت کی صلاحیت نمایاں ہے اس سے کمال عشق و محبت کی حالت میں اچانک آپ کو خواب میں وحی ہوتی ہے کہ تم اپنے فرزند کو راہ خدا میں قربان کردو۔

۶۸

سچ مچ مناسب ہے کہ خدا، قرآن اور احکام الٰہی پر اپنے ایمان و اعتقاد اور خدا کے سامنے اپنے مراتب تسلیم کو حضرت ابراہیم ـ کے ایمان اور مرتبۂ تسلیم و رضا کے ساتھ تولیں تاکہ اس فاصلہ کو بہتر طور سے سمجھ سکیں جو ہمارے اور ان چیزوں کے درمیان ہے جو قرآن اور خداوند متعال ہم سے چاہتا ہے اور دینی اعتقاد کی بنیاد پر ایمان وعمل کی تقویت کے لئے پہلے سے زیادہ آمادہ ہو جائیں۔ اگر جبرئیل ایسا حکم ہم آپ کو دیتے، جو کہ اپنے ہی ہاتھ سے اپنے فرزند کی قربانی پر مبنی ہے وہ بھی بیداری میں نہ کہ خواب میں، تو ہم اس کے سننے کی تاب نہ رکھتے تو بھلا پھر یہ کیسے ممکن ہوتا کہ اپنے بیٹے کی قربانی میں الٰہی فرمان و حکم کو عملی جامہ پہنائیں، لیکن حضرت ابراہیم ـ بے دھڑک فوراً حکم الٰہی کو بجالانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور بغیر اس کے کہ وحی شدہ حکم کے صحیح ہونے میں شک و شبہہ کریں کہ آیا کون سی مصلحت بے گناہ بیٹے کو ذبح کرنے میں ہے؟ اس بات کو اپنے بیٹے سے پیش کرتے ہیں:

(فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ اِنِّی أَریٰ فِی الْمَنَامِ اَنِّی أَذبَحُکَ فَاْنظُرْ مَاذَا تَرَیٰ قَالَ یَا أَََبَتِ افْعَلْ مَاتُؤمَرْ سَتَجِدُنِ اِن شَائَ اللّٰهُ مِنَ الصَّابِرِینَ)۱

(۱)سورۂ صافات، آیت ۱۰۲۔

۶۹

(پھر جب وہ فرزند اپنے باپ کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہوگیا تو انھوں نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمھیں ذبح کر رہا ہوں، اب تم بتاؤ کہ تمھارا کیا خیال ہے فرزند نے جواب دیا کہ بابا جو آپ کو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے)

حضرت ابراہیم ـ فرماتے ہیں کہ: میں نے خواب میںدیکھا ہے کہ تمھیں راہ خدا میں ذبح کر رہا ہوں، تمھاری مرضی کیا ہے؟ حضرت ابراہیم ـ کا ایمان و تسلیم اس مرتبہ پر ہے، اب بیٹے کے ایمان و تسلیم کا مرتبہ دیکھئے اور خدا اور اپنے باپ کے حکم کے سامنے بیٹے کی اطاعت کو ملاحظہ فرمائیے، اسی طرح ان انسانوں کے اخلاص وایمان سے کہ قلم و بیان جن کے وصف سے عاجز ہے حیرت کیجئے اور اپنے کو مسلمان کہنے میں احتیاط و ہوشیاری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیئے۔

حضرت اسماعیل ـ جیسے فرزند کہ جنھوں نے امر خدا کے سامنے تسلیم و رضا کا سبق اپنے باپ سے حاصل کیا تھا، اظہار موافقت سے بڑھ کر ایک جواب کے ذریعے اپنے باپ کو حکم الٰہی پر عمل کرنے میں تشویق دلاتے ہیں کہ خدانخواستہ حکم خدا چھوٹ نہ جائے۔

نیز حضرت اسماعیل ـ بغیر اس کے کہ اپنے ذبح ہونے کے فلسفہ کے متعلق سوال کریں اور بغیر اس کے کہ باپ کواپنی ذمہ داری انجام دینے کے متعلق سوچنے پر مجبور کریں، اپنے بابا سے کہتے ہیں:(یَا أََبَتِ افْعَلْ مَاتُؤْمَرْ سَتَجِدُنِ ِنْ شَائَ اللّٰهُ مِنَ الصَّابِرِینَ) ۱ اے بابا اپنے فریضہ کوانجام دیجئے، ان شاء اللہ آپ مجھے صابر اور

(۱)سورۂ صافات، آیت ۱۰۲۔

۷۰

ثابت قدم پائیں گے۔ البتہ عظیم انسان تمام فرائض اور بڑی سے بڑی ذمہ داری کے پورا کرنے میں خداوند متعال سے مدد چاہتے ہیں اور اس پر توکل کر کے قدم اٹھاتے اور تمام کاموں میں اس سے کمک اور مدد طلب کرتے ہیں اور نہایت ادب کے ساتھ اس طرح اظہار کرتے ہیں کہ اگر خدا چاہے اور اگر وہ مدد کرے تو میں فلاں کام کو انجام دوں گا۔

خداوند متعال حضرت ابراہیم ـ کی جھلک اور اپنے سامنے سراپا تسلیم ہونے کی حالت کو خود ابراہیم کی زبان مبارک سے اس طرح بیان فرماتا ہے:

(اِنِّ وَجَّهْتُ وَجْهي لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرْضَ حَنِیفاً وَ مَا أَنَا مِنَ المُشْرِکِینَ)۱

میرا رخ (خالص ایمان کے ساتھ) پوری طرح اس خدا کی طرف ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں باطل سے کنارہ کش ہوں اور ہرگز مشرکوں میں سے نہیںہوں۔

ہمیں چاہئے کہ خدا اور قرآن کے بارے میں حضرت ابراہیم ـ کے اعتقاد و ایمان کے مانند اعتقاد و ایمان رکھیں، اسی صورت میں قرآن کریم سے استفادہ کی دوسری بنیادی شرط یعنی قرآن کی ہدایات کی بنیاد پر معاشرہ کی ہدایت ہوسکے گی۔

اس بنا پر قرآن کا وجود، پختہ ایمان اوردلی اعتقاد کے بغیر ہرگز انسان اور معاشرہ کو سعادتمند نہیں بنائے گا، البتہ یہ بات بھی واضح ہے کہ ایمان و اعتقاد کے علاوہ جو چیز

ہدایت قرآن کی اسکیم اور دستور العمل کو وجود بخشتی ہے وہ تیسری شرط کا پایا جانا ہے یعنی فردی و اجتماعی زندگی میں قرآن کے احکام و ہدایات اور اس کے حیات بخش دستور العمل کو وجود میں لانا اور ان پر عمل کرنا۔

(۱)سورۂ انعام، آیت ۷۹۔

۷۱

دوسری فصل

قرآن کی تفہیم و تفسیر

اصلی مشکل

گزشتہ فصل کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم ہدایت الٰہی کی کتاب ہے اور ہم سب کا فریضہ ہے کہ اس پر ایمان رکھیں، فردی و اجتماعی زندگی میں اس کے احکام پر عمل کر کے اور اسے نمونہ قرار دے کر اپنی زندگی اور معاشرہ کو قرآن کی ہدایات کی بنیاد پر قائم کریں تاکہ دنیا اور آخرت میں سعادتمند اور کامیاب ہوجائیں۔

اب ہم یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ اس بات کے باوجود کہ قرآن، فردی و اجتماعی بیماریوں کا یہ نسخۂ شافیہ مسلمانوں کے معاشروں میں، منجملہ ان کے ہمارے انقلابی اور اسلامی معاشرہ میں موجود ہے لیکن پھر بھی ہم کیوں اسی طرح بعض مشکلات خصوصاً ثقافتی مشکلات سے دوچار ہیں؟

ممکن ہے گزشتہ مطالب سے استفادہ کرتے ہوئے جواب میں کہا جائے کہ چونکہ قرآن اور اس کے نجات بخش احکام پر کماحقّہ عمل نہیں ہوتا۔ یہ جواب اگرچہ صحیح سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے بعد اس سے بھی بڑھ کر بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں قرآن پر عمل کماحقّہ نہیں کیا جاتا؟

حقیقت میں وہ کون سے عوامل و اسباب ہیں کہ جن کی بنا پر قرآن کا رنگ معاشرہ میں پھیکا پڑ جاتا ہے اور دھیرے دھیرے لوگ قرآن، دینی ثقافت و مکتب فکر اور الٰہی اقدار سے جدا ہو جاتے ہیں؟

۷۲

چونکہ موضوع بحث ''قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں'' ہے، لہٰذا ہم مذکورہ سوال کواس طرح پیش کرسکتے ہیں کہ حضرت علی ـ ہمارے معاشرہ کی اصلی مشکل کس چیز میں سمجھتے ہیں اور اس کے حل کے لئے کس راستہ کی نشاندہی فرماتے ہیں؟

اس سوال کے جواب اور اس سلسلہ میں حضرت علی ـ کے ارشاد کی توضیح کے لئے ہم پہلے ایک مقدمہ پیش کرتے ہیں پھر اصل بحث شروع کریں گے۔ جیسا کہ پچھلی فصل میں بیان کیا گیا خدا اوردستورات الٰہی پر ایمان اور اوامر خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا، قرآن کریم کی رہنمائیوں سے فیضیاب ہونے اور ہدایت کی سب سے بڑی اصل شرط ہے۔

حضرت ابراہیم ـ کے مانند ایمان و یقین اور تسلیم و رضا کو روح و جان کے اندر سرایت کرنا چاہئے تاکہ شیطانی جالوں سے محفوظ رہیں۔ معرفت کے ''مَشعر'' میں ایسے سنگریزے اکٹھا کرنا چاہئے کہ قرآن کی طرف رجوع کے وقت ''نفس امارہ کے شیطان'' کو ان سنگریزوں سے ''رمی'' کریں۔

ہمیں چاہئے کہ نفسانی خواہشات کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں اور کلام خدا کو نفسانی خواہشات پر مقدم رکھیںاور نفس کو قرآن کریم کے سمجھنے میں خود پسندی اور کج فکری سے باز رکھیں تاکہ قرآن کریم کو سمجھنے اور آیات الٰہی کی طرف رجوع کے وقت خطا و غلطی سے دو چار نہ ہوں، اس لئے کہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص کسی بھی نیت اور کسی بھی روش کے ساتھ قرآن کو سمجھنا چاہے تو اس سے صحیح استفادہ کرسکتا ہو۔

۷۳

ایک جملہ میں، اگر ہم نے خدا کی بندگی کو قبول کر لیا ہے تو لازم ہے کہ اپنے کو پوری طرح اس کے حوالے کردیں اوردل کو خدا کے ارادہ و مشیت کے سپرد کردیں اور تمام وجود کے ساتھ یقین و اعتقاد رکھیں کہ خدا اپنے بندوں سے بہتر ان کی مصلحتوں کو جانتا ہے اور اپنے بندوں کی صلاح اور نفع کے علاوہ امر و نہی نہیں کرتا۔

صرف ایسے ہی اعتقاد و ایمان کے ساتھ اس کتاب الٰہی کے صحیح سمجھنے اور اس کے حیات بخش ہدایات سے فیضیاب ہونے کا امکان انسانوں کے لئے حاصل ہوسکتا ہے۔

اس بنا پر ہدایت الٰہی سے فیضیاب ہونے کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی بنیادی شرط ہر طرح کی کج فکری اور خود پسندی سے پرہیز کرنے اور تسلیم و رضا کی روح رکھنا ہے۔

ماہر ڈاکٹر اس نسخہ میں جو کہ وہ اپنے بیمار کے لئے لکھتا ہے، کچھ دواؤں کے استعمال کو لازم قرار دیتا ہے اور کچھ غذائیں کھانے کو تجویز کرتا ہے اور ایسی دوا اور غذا کھانے سے منع کرتا ہے جو کہ علاج اور شفا کو تاخیر میں ڈال دیتی ہے یا جس سے شفا کا امکان نہیں رہ جاتا، لیکن کیا ڈاکٹر کے تمام حکم بیمار کی خواہشات کے مطابق ہوتے ہیں؟

ممکن ہے بیمار، بعض تجویز شدہ دواؤں کو نہایت رغبت کے ساتھ استعمال کرے اور بعض ممنوع غذاؤں سے شوق کے ساتھ پرہیز کرے، لیکن اکثر مریض کی خواہشات ڈاکٹر کے حکم اور تجویز سے میل نہیں کھاتیں۔ کبھی کبھی مریض اچار اور کھٹائی کھانے کی شدید خواہش رکھتا ہے لیکن ڈاکٹر اچار اور کھٹائی کے استعمال کو بیمار کے لئے زہر قاتل سمجھتا ہے۔

۷۴

ایسے مواقع پر ممکن ہے بیمار اس چیز کی شدید رغبت کے زیر اثر ڈاکٹر کی تشخیص میں شک کرے اور اس کو کھانے کے لئے اپنی طرف سے توجیہیں گڑھے، البتہ انسان جسمانی بیماریوں کے موقع پر اپنی صحت و سلامتی کی نہایت خواہش کی بنا پر بہت کم ڈاکٹر کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اکثر کوشش کرتا ہے کہ ان کو اپنی شخصی خواہشات پر ترجیح دے اور معالج ڈاکٹر کے احکام پر کامل طور سے عمل کرے، لیکن روحانی امراض کے موقع پر ایسے انسان کم نہیں ہیں جو کہ اپنی نفسانی خواہشات کو قضاوت و فیصلہ کا معیار قرار دیتے ہیں اور باطل کج فکریوں، نادرست ذہنیتوں اور غلط خواہشات کی بنیاد پر دین و احکام الٰہی کی تفسیر و توضیح کرنے لگتے ہیں۔

واضح ہے کہ ایسی روح کے ساتھ قرآن اور دین کا صحیح سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ حتی اگر یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ کوئی شخص واقعاً دین و قرآن کو صحیح سمجھنا چاہتا ہے اور ہر طرح کے فریب اور دوسروں کے گمراہ کرنے کا ارادہ اس کے بارے میں محال ہو، تب بھی وہ دین و قرآن کو صحیح نہیں سمجھ سکتا چونکہ وہ خود پسندی، کج فکری اور غلط ذہنیت کے ساتھ قرآن و دین کو سمجھنا چاہتا ہے، خود پسندی، کج فکری، غلط ذہنیتوں اور نفسانی خواہشات کی تاثیر کو اس کے آیات و روایات کے سمجھنے میں کالعدم نہیں سمجھا جاسکتا۔

البتہ ان افراد کی داستان، جو کہ دیدہ و دانستہ، علم و آگاہی کے ساتھ اور جان بوجھ کر لوگوں کو فریب دینے اور دینی تہذیب و ثقافت کو نابود کرنے کے لئے ''مختلف قرائتوں'' کے نام سے دینی احکام و دستورات میں تحریف کرتے ہیں، ایک جداگانہ داستان ہے کہ جس کو اپنی جگہ پر بیان کریں گے اور اس مخالف دین تفکر کے اسباب و علل کو نہج البلاغہ کی روشنی میں تحقیق کے ساتھ مختصر طور پر ذکر کریں گے۔ اب ہم دیکھیں کہ قرآن کی طرف رجوع اور اس کے احکام و ہدایات کو سمجھنے کا صحیح راستہ حضرت علی ـ کی نظر میں کیا ہے؟

۷۵

حضرت علی ـ کی وصیت قرآن کے متعلق

امیر المومنین حضرت علی ـ کا وہ نورانی بیان، جس میں عالم قیامت، روز محشر، اس دن پیروان قرآن کے اپنے اعمال سے راضی ہونے اور قرآن سے روگردانی کرنے والوں کو عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر دی ہے، اس میں لوگوں کو اس طرح وصیت فرماتے ہیں:''فَکُونُوا مِنْ حَرَثَةِ الْقُرآنِ وَ اَتْبَاعِهِ'' ۱ قرآن کی بنیاد پر اپنے اعمال کی کھیتی کرنے والے اور اس کے پیرو ہو جاؤ، ''وَ استَدِلُّوہُ عَلیٰ رَبِّکُم'' قرآن کو اپنے پروردگار پر دلیل و گواہ قرار دو، خدا کو خود اسی کے کلام سے پہچانو! اوصاف پروردگار کو قرآن کے وسیلہ سے سمجھو! قرآن ایسا رہنما ہے جو خدا کی طرف تمھاری رہنمائی کرتا ہے۔ اس الٰہی رہنما سے اس کے بھیجنے والے (خدا) کی معرفت کے لئے استفادہ کرو اور اس خدا پر جس کا تعارف قرآن کرتا ہے ایمان لاؤ۔

وَاسْتَنْصِحُوهُ عَلٰی أَنفُسِکُمْ، اے لوگو! تم سب کو ایک خیر خواہ اور مخلص کی ضرورت ہے تاکہ ضروری موقعوں پر تمھیں نصیحت کرے، قرآن کو اپنا ناصح اور خیر خواہ قرار دو اور اس کی خیر خواہانہ نصیحتوں پر عمل کرو، اس لئے کہ قرآن ایسا ناصح اور دلسوز ہے جو ہرگز تم سے خیانت نہیں کرتا ہے اور سب سے زیادہ اچھی طرح سے صراط مستقیم کی طرف تمھاری ہدایت کرتا ہے۔

اس بنا پر حضرت علی ـ مسلمانوں اور دنیا و آخرت کی سعادت کے مشتاق لوگوں کو

(۱)نہج البلاغہ، خطبہ ۱۷۵۔

۷۶

وصیت فرماتے ہیں کہ قرآن کو اپنا رہنما قرار دیں اور اس کی مخلصانہ نصیحتوں پر کان دھریں، اس لئے کہ (إنّ هٰذَا الْقُرآنَ یَهْدِْ لِلَّتِي هي أَقوَمُ وَ یُبَشِّرُ المُؤمِنِینَ الَّذِینَ یَعمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُم أَجرًا کَبِیراً) ۱

''بے شک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے''۔

جو نکتہ یہاں پر قابل تاکید ہے، یہ ہے کہ اس آیۂ شریفہ کے مضمون پر ایمان و اعتقاد رکھنا دل و جان سے لازم ہے، اس لئے کہ جب تک کہ قرآن کے متعلق ایسا ایمان و اعتقاد انسان کی روح پر حاکم نہ ہو او رجب تک انسان اپنے کو کامل طور سے خدا کے اختیار میں نہ دے اور اپنے کو کج فکری، خود پسندی اور نفسانی خواہشات سے پاک و صاف نہ کرے ہر لمحہ ممکن ہے شیطانی وسوسوں کے جال میں پھنس جائے اور گمراہ ہو جائے، پھر جب بھی قرآن کی طرف رجوع کرے گا تو ناخواستہ طور پر قرآن میں بھی ایسے مطالب اور آیات ڈھونڈے گا جو کہ اس کی نفسانی خواہشات سے میل کھاتے ہوں۔

واضح ہے کہ قرآن کے تمام احکام و دستورات انسان کے نفسانی خواہشات اور حیوانی میلانات کے موافق نہیںہیں۔ انسان اپنی طبیعت کے مطابق خواہشات رکھتا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ قرآن بھی اس کی خواہش کے مطابق ہو، اس بنا پر فطری بات ہے کہ جہاں قرآن انسان کے حیوانی و نفسانی خواہشات کے برخلاف بولے گا انسان اس

(۱)سورۂ اسرائ، آیت ۹۔

۷۷

سے ذرا سا بھی خوش نہ ہوگا اور جہاں آیات قرآن اس کی نفسانی خواہشات کے موافق ہوں گی وہ کشادہ روئی کے ساتھ ان کا استقبال کرے گا۔

البتہ یہ تمام فعل و انفعالات اور تاثیر و تاثرات اس کے اندر ہی اندر مخفی طور پر انجام پائیں گے لیکن اس کے آثار انسان کے اقوال و افعال میں ظاہر ہوں گے، لہٰذا عقل اس بات کو واجب و لازم قرار دیتی ہے کہ قرآن کی طرف رجوع سے پہلے، انسان اپنے ذہن کو ہر طرح کی خود پسندی اور کج فکری سے پاک و صاف کر لے اور اپنے تمام نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس سے منھ موڑ لے تاکہ ایک خدا پسند اور خدا پرست روح کے ساتھ قرآنی مکتب میں قدم رکھے، اس صورت میں انسان زانوئے ادب تہ کرتا ہے اور نہایت شوق و رغبت کے ساتھ الٰہی معارف کو قبول کرتا ہے۔

تفسیر بالرائے

واضح ہے کہ نفسانی خواہشات سے ہاتھ اٹھانا او رالٰہی احکام اور قرآنی معارف کے سامنے سراپا تسلیم ہونا نہ صرف ایک آسان کام نہیں ہے، بلکہ جو لوگ عبودیت و بندگی کی قوی روح کے حامل نہیں ہیں ان کے لئے نفسانی خواہشات سے چشم پوشی کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے، اسی وجہ سے اسے جہاد اکبر بھی کہا جاتا ہے۔

۷۸

معلوم ہوتا ہے کہ تفسیر بالرائے کا روحی اور نفسیاتی محرّک یہیں سے پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف انسان بندگی کی روح کمزور ہونے کے سبب اپنی نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کو چھوڑ نہیں سکتا اور دوسری طرف شیطان اس حالت سے مناسب فائدہ حاصل کرتا ہے اور شیطانی وسوسوں سے کام لیتا ہے کہ ایسے انسان کے فکر و ذہن کو قرآن ودین سے غلط تفسیر کی طرف موڑ دے اور اسے گمراہ کردے۔

خصوصاً اگر یہ شخص اجتماعی اور سماجی لحاظ سے ثقافتی مرتبہ کا حامل ہو، شیطان کا وسوسہ، اس کی کوشش اور اس قسم کھائے ہوئے دشمن کی حرص ایسے انسان کے منحرف اور گمراہ کرنے میں سینکڑوں گنا بڑھ جاتی ہے اس لئے کہ شیطان جانتا ہے کہ ایسے انسان کو منحرف کرنے سے ایک گروہ کودین سے منحرف کردے گا کہ وہ گروہ ممکن ہے اس انسان کی باتیں سنتا اور مانتا ہو۔ایسے لوگ نہ کم تھے اور نہ ہیں جو کہ تہذیب نفس اور روح کی پاکیزگی کے بغیر، خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ، قرآن کی طرف رجوع کرنے سے پہلے فتویٰ صادر کرتے ہیں اور بغیر اس کے کہ تھوڑی سی بھی علمی صلاحیت اور ضرورت بھر مہارت رکھتے ہوں، اظہار نظر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن بھی ہمارا ہی نظریہ رکھتا ہے۔

واضح سی بات ہے کہ ایسے انسان اپنے نفسانی خواہشات اور باطل افکار و نظریات پر دینی اور قرآنی رنگ چڑھانے کے لئے مجمل آیات اور بحسب ظاہرمبہم سے مبہم آیات سے تمسک کرتے ہیں۔

۷۹

بدیہی ہے کہ ایسی روحی، خود پسندی اور کج فکری کی حالت سے نہ صرف قرآن کے صحیح سمجھنے کے لئے کوئی ضمانت باقی نہیں رہ جاتی، بلکہ فطری طور پر غلط فہمی اور حق سے منحرف ہونے کا راستہ بھی کھل جاتا ہے۔

قرآن کی اس طرح کی تفسیر و فہم کو دینی مکتب فکر میں تفسیر بالرائے سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دین و قرآن کے ساتھ سب سے زیادہ برے قسم کا معاملہ اور برتاؤ سمجھا جاتا ہے۔

قرآن دین اور آیات الٰہی کے ساتھ اس طرح کے برتاؤ کو استہزاء (مذاق) سمجھتا ہے اور صریحی طور پر اس سے منع کرتا ہے:

(وَ لاتَتَّخِذُوْا آیاتِ اللّٰهِ هُزُواً وَ اذْکُرُوْا نِعمَةَ اللّٰهِ عَلَیکُمْ وَ مَاأَنزَلَ عَلَیکُمْ مِنَ الْکِتَابِ وَ الْحِکمَةِ یَعِظُکُمْ بِهِ وَ اتَّقُوْا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰهَ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیمٍ)۱

یعنی ''خبردار! آیات الٰہی کو مذاق نہ بناؤ اور خدا کی نعمت کو یاد کرو اور اس نے کتاب و حکمت کو تمھاری نصیحت کے لئے نازل کیا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یاد رکھو! کہ وہ ہر شے کا جاننے والا ہے''۔

جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا گیا کہ وہ لوگ قرآن کریم کی ہدایت سے فیضیاب ہوتے ہیں جو اس پر ایمان و اعتقاد رکھتے ہوں، اور جو لوگ خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ اس بات پر آمادہ ہو جاتے ہیں کہ اپنی نفسانی خواہشات کے لئے دینی اور قرآنی توجیہیں گڑھیں اور اپنی رائے سے کلام خدا کی تفسیر و توجیہ کریں، وہ خدا پر ایمان رکھنے سے بے بہرہ ہیں۔

یہاں پر مناسب ہے کہ اس سلسلہ میں چند روایتوں پر توجہ کریں:

قال رسول اللّٰه ۖ : قال اللّٰه جلّ جلاله: مَا آمَنَ بِی مَن فَسَّرَ بِرَأیِهِ کَلامِی'' ۲ پیغمبر ، خداوند متعال کا قول نقل فرماتے ہیں کہ خدا فرماتا ہے: وہ شخص ہرگز مجھ

(۱)سورۂ بقرہ، آیت ۲۳۱۔

(۲)توحید صدوق ، ص ۶۸۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180