قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت0%

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 180

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اﷲ الحاج الشیخ محسن الآراکی
زمرہ جات: صفحے: 180
مشاہدے: 33770
ڈاؤنلوڈ: 2441

تبصرے:

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 33770 / ڈاؤنلوڈ: 2441
سائز سائز سائز
قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پر ایمان نہیں لایا ہے جو اپنی رائے سے میرے کلام کی تفسیر کرتا ہے۔

دوسرے بیان میں پیغمبر سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا:''مَن فَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَأیِهِ فَقَدِ افْتَرَیٰ عَلٰی اللّٰهِ الکَذِبَ'' 1 جس شخص نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے اور اپنی فکر سے کی وہ یقینا خدا پر جھوٹ باندھتا ہے۔ پیغمبر کا یہ ارشاد اس وجہ سے ہے کہ جو شخص خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ اس بات پر آمادہ ہو جائے کہ آیات الٰہی کی توجیہ کسی بھی طرح اپنے نفع کے تحت کرے اور اسے قرآن اور کلام الٰہی کی تفسیر بتائے، وہ حقیقت میں اپنی نظر اور رائے کو معیار قرار دیکر اس کی خداوند متعال کی طرف جھوٹی نسبت دیتا ہے۔

قرآن کے ساتھ اس طرح کا معاملہ اور کلام الٰہی کی اس طرح کی تفسیر و تفہیم اتنی مذموم اور خطرناک ہے اور ایسی ضلالت و گمراہی کا باعث ہوتی ہے کہ اس گناہ کے مرتکب افراد قیامت میں سخت ترین عذاب میں مبتلاہوں گے۔

حضرت پیغمبر اس سلسلہ میں بھی ارشاد فرماتے ہیں :''مَن فَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَأیِهِ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَده مِنَ النَّار'' 2 جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے گا اس کا ٹھکانہ قیامت میں جہنم ہے۔

اس بنا پر بدترین عذابوں سے محفوظ رہنے، خداوند متعال پر بہتان باندھنے سے

پرہیز کرنے اور ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرنے سے بچنے کے لئے لازم ہے کہ نفسانی خواہشات کو چھوڑ دیں، خدا کی ذات اقدس پر جو کہ خیر محض ہے اور انسان کے لئے خیر کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا، ایمان رکھیں، خود محوری اور خود پرستی سے پرہیز کریں، خدا محوری اور خدا پرستی کا جذبہ و عقیدہ اپنے اندر پیدا کریں اورخدا کے سامنے سراپا تسلیم ہو جائیں۔

(1)بحار الانوار، ج36، ص 227 ۔

(2)عوالی اللعالی، ج 4، ص 104 ۔

۸۱

حضرت علی ـ کا ارشاد، تفسیر بالرائے سے پرہیز کے سلسلہ میں

جیسا کہ اس کے قبل اشارہ کیا جا چکا ہے کہ انسان ایسے خیالات اور خواہشات رکھتا ہے کہ کبھی کبھی وہ قرآن کے مطابق نہیں ہوتے اور وہ اپنی انسانی طبیعت کے لحاظ سے چاہتا ہے کہ قرآن بھی اس کی خواہش اور نظر کے موافق ہو، یہاں تک کہ بعض اوقات لاشعوری طور پر ممکن ہے کہ وہ خواہشات و خیالات اس کی قرآن فہمی میں اثر انداز ہوں۔ چونکہ ایساخطرہ ہر انسان کو قرآن کریم کی تفسیر کے وقت پیش آسکتا ہے اور شیطان بھی ہر لمحہ گھات میں لگا ہوا ہے تاکہ ایسے ثقافتی لوگوں کو فریب دیکر جو کہ فہم دین کے دعویدار ہیں، ایک گروہ کو راہ حق سے پھیر دے۔ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ حضرت علی ـ کے اس ارشاد پر خاص توجہ دیں۔

حضرت علی ـ کج فہمی سے محفوظ رہنے اوراحتمالی انحراف سے پرہیز کرنے کے لئے ارشاد فرماتے ہیں:

''وَاتَّهِمُوا عَلَیهِ آرَائَکُم'' 1 جس وقت تم قرآن کی تفسیر کرنا چاہو تو اپنے

(1)نہج البلاغہ، خطبہ 175 ۔

۸۲

خیالات و آراء اور افکار و نظریات کو قرآن کے سامنے غلط سمجھو، اپنی شخصی آراء اور نظریات اور نفسانی خواہشات کو چھوڑ دو، اور حضرت کی لفظوں میں، اپنے کو قرآن کے سامنے متہم کرو اور غلط سمجھو!۔

قابل ذکر ہے کہ مذکورہ تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن فہمی میں امانت و تقوی کی رعایت اوراحتیاط نہایت لازم ہے، اس لئے کہ حضرت فرماتے ہیں کہ اپنے خیالات و نظریات کو قرآن کے مقابلہ میں غلط سمجھو اور اس ذہنیت کے ساتھ کہ میں کچھ نہیں جانتا، جو کچھ قرآن کہتا ہے وہی حق ہے، قرآن سے روبرو ہونا چاہئے پھر کہیں قرآن کی تفہیم و تفسیر کے لئے آمادہ ہونا چاہئے۔

''وَاسْتَغِشُّوا فِیهِ اَهوَائَکُمْ'' اپنے خواہشات او رہوا و ہوس کو فریب خوردہ اور غلط سمجھو تاکہ قرآن سے صحیح استفادہ کرسکو ورنہ ہمیشہ خطا اورانحراف سے دوچار ہوگے۔

اس بنا پر دین کا جوہر (اصل) کہ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ہے، اقتضا کرتا ہے کہ انسان صرف خداوند متعال کا مطیع ہو اور خدا کے احکام، قرآن کریم کے دستورات کے مقابلہ میں اپنی رائے، نظر، خود پسندی اور کج فکری کو باطل سمجھے، جس وقت ایسی روح انسان پر غالب و حاکم ہوگی، واضح ہے کہ اس صورت میں وہ قرآن اور الٰہی احکام و معارف کو بہتر طور سے سمجھے گا پھر جب وہ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہوگا ان کو جان و دل سے قبول کرے گا۔

۸۳

قرآن اور دینی معارف سے متعلق دو طرح کے نظریئے

قرآن کریم اور دینی معارف سے متعلق دو طرح کے مختلف نظریئے پائے جاتے ہیں:

۔ وہ نظریہ جو تسلیم و بندگی اور خدا محوری و خدا دوستی کی روح پر مبنی ہے۔

۔ وہ نظریہ جو کہ انسان کی نفسانی خواہشات کواصل قرار دیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دینی متون و مطالب اور قرآن کے معارف کی اپنے نفسانی خواہشات کے مطابق تفسیر و توجیہ کرے، وہ نظریہ جس کو آج کی رائج اصطلاح میں ''ہیومن ازم'' ( Humanism ) کہا جاتا ہے، یعنی انسان محوری وانسان دوستی کو خدا محوری و خدا دوستی کے مقابلہ میں پیش کرنا۔

معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ تفسیم بندی گزشتہ مباحث و مطالب سے بالاتر ہے، اس لئے کہ اب تک فرض یہ تھا کہ ممکن ہے قرآن سے متعلق دو طرح کی فکر ظاہر ہو کہ ایک تسلیم و بندگی کی روح واصل پر مبنی ہو اور دوسری وہ فکر و فہم جو کہ نفسانی خواہشات سے متاثر ہو۔ اس بنا پر قرآن کے سمجھنے بوجھنے میں تفسیر بالرائے سے پرہیز کیا جائے اور قرآن جیسا ہے اسے ویسا ہی سمجھا جائے، اس سلسلہ میں حضرت علی ـ کی وصیت کی توضیح کرچکے ہیں کہ خود پسندی اور کج فکری سے پرہیز کرنا اور نفسانی خواہشات سے ذہن کو خالی رکھنا لازم

(1)یہ ایسا نظریہ ہے جو چودھویں صدی عیسوی میں یورپ میں پیدا ہوا جس کا مقصد، اصالتاً صرف انسانی مرتبہ اور حیثیت کو بلند کرنا ہے، اس نظریہ کے طرفدار اومانسٹ یا ہومانسٹ کہے جاتے ہیں جن میں سے اکثر مذہب پروٹسٹ کی طرف مائل ہوگئے۔

۸۴

ہے۔ اس نظریئے میں حضرت کے کلام کے مخاطب دونوں گروہوں کو ہم مسلمان سمجھتے تھے اور دین میں منحرف ہونے سے پرہیز کرنے کے لئے نیز تفسیر بالرائے میں مبتلا ہونے سے بچنے کے لئے تقویٰ کی پابندی کی اور خواہش نفس اور خود پسندی و کج فکری سے دور رہنے کی نصیحت کر رہے تھے۔

جب ہم اس مسئلہ کی تحقیق مزید گہرائی سے کرتے ہیں تو ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ دقیق اور باریک نکتے حاصل ہوتے ہیں، ہمیں بندگی کے باب میں انسانوں کے دو گروہوں میں تقسیم ہونے کے متعلق حضرت علی ـ کے کلام کا اعجاز معلوم ہوتا ہے اور دین و احکام الٰہی کے مقابلہ میں انسانوں کے افکار و نظریات کی نسبت حضرت کے علم النفس اور علم الروح سے زیادہ سے زیادہ آگاہ ہوتے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ دو اہم خصوصیات کو بیان کرتے ہیں اور ان کی بنیاد پر انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر گروہ کی خصوصیتں ذکر کر کے ان کا تعارف کراتے ہیں کہ جن کی طرف ذیل میں ہم اشارہ کر رہے ہیں:

ـ: وہ گروہ کہ جس نے تمام وجود کے ساتھ خدا کی بندگی کو قبول کیا ہے، یہ لوگ اپنے نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرتے ہیں، خدا کے ارادہ اور حکم کو اپنے نفسانی خواہشات اور میلانات پر مقدم رکھتے ہیں۔

فطری بات ہے کہ ایسے انسان، اس آسمانی کتاب قرآن کو تہ دل سے قبول کرتے ہیں، اس کے احکام و معارف کو جان و دل سے مانتے ہیںاور مقام عمل میں اسے نمونہ قرار دیکر اس کے شعائر کو برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

۸۵

حضرت علی ـ اسی گروہ کی تعریف میں فرماتے ہیں:

''إنّ مِنْ أَحَبِّ عِبَادِ اللّٰهِ عَبداً أَعَانَهُ اللّٰهُ عَلٰی نَفْسِهِ'' 1 بے شک خدا کا سب سے زیادہ محبوب بندہ خود خدا کے نزدیک وہ ہے جس کی خدانے (اس کے نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرنے میں) اس کے نفس کے خلاف مدد کی ہے۔ پھر اس گروہ کے اوصاف بیان کرنے کے بعد ایسے اشخاص کے درمیان قرآن کے مرتبہ کے متعلق ذکر فرماتے ہیں: ''قَد اَمْکَنَ الْکِتَابَ مِن زِمَامِهِ فَهُوَ قَائِدُهُ وَ اِمَامُهُ، یَحُلُّ حَیثُ حَلَّ ثَقَلُهُ، وَ یَنزِلُ حَیثُ کَانَ مَنزِلُهُ'' 2 یہ گروہ جو مومنین و متقین کا گروہ ہے وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے امور کی زمام کتاب خدا کے حوالے کردی ہے لہٰذا وہی اس کی قائد اور پیشوا ہے ۔ جہاں قرآن کا سامان اترتاہے وہیں وہ لوگ بھی وارد ہوجاتے ہیں اور جہاںاس کی منزل ہوتی ہے وہیں وہ بھی پڑاؤ ڈال دیتے ہیں، ان کا سکون و حرکت قرآن کے تابع ہے۔

یہ گروہ قرآن اوردین کے حقائق کو حقیقی وجود کے لحاظ سے قبول کرتا ہے اور ان پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے۔ یہ لوگ دین اور قرآن کریم کے احکام کو حقیقی وجود کا آئینہ دار سمجھتے ہیں کہ جن کی رعایت انسان کی سعادت سے بلاواسطہ رابطہ رکھتی ہے اور ان کی رعایت نہ کرنے کو دنیا و آخرت کی سعادت سے محروم رہنے کا باعث سمجھتے ہیں۔

(1) نہج البلاغہ، خطبہ 86 ۔

(2)نہج البلاغہ، خطبہ 86 ۔

۸۶

چونکہ ایسے انسان خود اپنی کوئی نظر اور رائے نہیں رکھتے، دین اور آسمانی کتابوںاور الٰہی احکام و تعلیمات کے لئے حقیقی وجود کے قائل ہیں نیز ان کے اور انسان کی مصلحتوں کے درمیان علّی اور معلولی رابطہ کے وجود کے معتقد ہیں لہٰذا قرآن کو صحیح طریقہ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جو بھی قرآن حکم دے وہی سمجھیں اور اسی پر عمل کریں۔

ـ:پہلے گروہ کے نظریئے کے بالکل برعکس، بعض افراد ایسا نظریہ رکھتے ہیں کہ قرآن یا ہر دینی متن یا ہر دوسری آسمانی کتاب خود افراد کی ذہنیتوں کی تابع ہے نہ یہ کہ خود قطعی اور مشخص مطالب کو بیان کرنے والی ہے، یعنی قرآن یا ہر دوسرا دینی متن، معنی و مطلب کے بغیر ہے اور اس کا کوئی مقصد نہیں ہے، لیکن چونکہ ہر انسان کچھ خاص ذہنیتوں کا حامل ہوتا ہے یہ ذہنیتیں (افکار و خیالات) تربیتی، خانوادگی، اجتماعی اور اس کے مانند دوسرے رابطوں سے ابھرتی ہیں، لہٰذا جس وقت انسان قرآن پڑھتا ہے تووہ اپنی ذہنیت کی بنیاد پر مطالب کو قرآن سے سمجھتا ہے، جبکہ ان مطالب کو قرآن نے بیان نہیں کیا ہے بلکہ یہ انسان کی فہم اور سمجھ ہے جس کو وہ قرآن کے پیرائے میں دیکھتا ہے۔

واضح ہے کہ ایسے اعتقاد اور نظریئے کے اعتبار سے دین و قرآن اور اس کے احکام و آیات ایسے الفاظ اور قالب سمجھے جائیں گے جو کہ ہر طرح کے معنی و مطلب سے خالی ہیں اور یہ انسان کی ذہنیتیں ہیں جو ان الفاظ کو معنی و مفہوم بخشتی ہیں۔

اس خیال کی بنیاد پر ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن یا کوئی بھی دوسرا دینی متن، کوئی بھی بات بیان کرنے کے لئے نہیں رکھتا بلکہ ہر شخص اپنی ذہنیت اور نظر و فکر کی بنیاد پر قرآن اور دوسرے دینی متون سے مطالب کو اخذ کرتا ہے۔

واضح سی بات ہے کہ اس طرح کا نظریہ اگر چہ ظاہری طور سے دین و قرآن اور دینی معارف و تعلیمات کی بات پیش کرتا ہے لیکن حقیقت میں دین اور اہل دین سے کھلواڑ اور مذاق کرتا ہے۔

۸۷

دینی پلورال ازم1 یا مختلف قرائتوں کے قالب میں دین کا انکار

معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ آج ہمارے معاشرے میں دین کی مختلف قرائتوں کے عنوان سے بتایا جارہا ہے اس کا سرچشمہ دوسرے گروہ کا نظریہ ہے۔ اگرچہ مذکورہ عنوان ان نام نہاد روشن فکر افراد کی طرف سے پیش کیا جارہا ہے جو ظاہری صورت میں اپنے کو مسلمان کہتے ہیں، لیکن ''دین کے متعلق مختلف قرائتوں کے تفکر'' کی اصل کو انسان محوری اور ہیومن ازم میں تلاش کرنا چاہئے۔

جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ مذکورہ نظریہ دینی تعلیمات اور آسمانی کتابوں کے احکام کو بے معنی سمجھتا ہے اور معتقد ہے کہ قرآن اور ہر دوسرا دینی متن ساکت ہے اور کسی معنی و مفہوم کا حامل نہیںہے، بلکہ ہم انسان ہی ہیں کہ اپنی اپنی ذہنیتوں کے ذریعہ اپنی اپنی قرائت، فہم اور سمجھ کو دین و قرآن کی طرف نسبت دیتے ہیں ورنہ خود قرآن نہ کسی پیغام کا حامل ہے اور نہ کسی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔

مذکورہ نظریہ کی حقیقت کو واضح کرنے اوراس کے طرفداروں کے اس قول کا

(1)یعنی اس بات کا اعتقاد کہ انسان کی فلاح و نجات کسی ایک دین و مذہب میں منحصر نہیں بلکہ دوسرے ادیان و مذاہب بھی اس کی فلاح و نجات کا ذریعہ ہیں لہٰذا اسے دوسرے ادیان و مذاہب کو بھی صحیح سمجھنا چاہئے۔

۸۸

مطلب سمجھنے کے لئے (کہ دین ساکت و خاموش ہے اور اس سے مختلف اور متفاوت مطالب و مفاہیم اخذ کرنا ممکن ہے) ایک مثال کا ذکر مفید ہوسکتا ہے۔

کم و بیش ہم سبھی لوگ حافظ جیسے عظیم شاعر، بلند مرتبہ عارف کے دیوان، ان کی غزلوں اور ان کے اشعار سے واقف ہیں۔ حافظ کے دیوان اور ان کے اشعار کی مختلف قرائتیں اس معنی میں ہیں کہ ان اشعار کا خالق اپنے اشعار میں استعمال شدہ الفاظ و کلمات میں کوئی معنی و مقصود مد نظر نہ رکھتا ہو، اور صرف الفاظ و کلمات کو بغیر اس کے کہ وہ کسی معنی کے حامل ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ موزوں صورت میں کھوکھلے قالب کے عنوان سے، البتہ نہایت انوکھے اوردلکش انداز میں نظم کردیاہے، یعنی ان اشعار کی تخلیق شاعر نے کسی طرح کا بھی معنی و مقصدمدنظر رکھے بغیر کی ہو۔

''مختلف قرائتوں'' کے نظریہ کے مطابق کہا جاسکتاہے کہ حافظ کی غزلیں اور اشعار کوئی معنی نہیں رکھتے اور ہر شخص فال کی نیت سے اور ایک خاص قصد و ذہنیت کے ساتھ دیوان حافظ کو کھولتا ہے اور سب سے پہلے شعر سے یا ایک غزل کے مجموعے سے ایک مطلب اپنی ذہنیت کی بنیاد پر سمجھتا ہے، مثلاً کسی کے یہاں کوئی مریض ہے اوروہ اس کی شفا چاہتا ہے، فال نکالتاہے اور ایک غزل سے مریض کی شفا کو سمجھتا ہے، ایک دوسرا شخص مقروض ہے اور اسی غزل سے اپنے قرض کی ادائگی کو سمجھتاہے، تیسرا ایک مسافر کے آنے کی امید رکھتا ہے وہ اسی غزل سے اپنے مسافر کی آمد کی خوشخبری کو سمجھتا ہے۔

۸۹

کلی طور سے ہر شخص اپنی اپنی ذہنیت کے مطابق ان الفاظ سے ایک ایک مطلب نکالتا ہے اور حقیقت میں یہ افراد ہی ہیں جو دیوان حافظ کو نطق و گویائی دیتے ہیں او ر ہر شخص اپنی ذہنیت اور اپنی فکر کو حافظ کی زبان سے ادا کراتا ہے اور تمام توضیح و توجیہ اور مطالب و معنی صحیح سمجھا جاتا ہے، اس لئے کہ مذکورہ مطالب و معانی خود افراد کے ہیں اور الفاظ، کلمات، اشعار اور غزلیں اس فرض کے مطابق بے معنی ہیں۔

جو نظریہ آج ہمارے معاشرہ میں ''دین کی مختلف قرائتوں'' کے نام سے پیش کیا جارہا ہے وہ بھی ایسا ہی نظریہ ہے، یعنی جتنے منھ اتنی باتیں ۔ یہ نظریہ قرآن اوردوسرے دینی متن کو بے معنی اور ہر طرح کے پیغام سے کھوکھلا تصور کرتا ہے۔ اس نظریہ کے طرفدار ایسا خیال رکھتے ہیں کہ قرآن ہرگز نہیں بولتا کہ کیا کرنا چاہئے؟ یا کس کام کے انجام سے پرہیز کرنا چاہئے؟کون سی چیز حق اور صحیح اور کون سی چیز باطل اور غلط ہے؟ بلکہ یہ افراد ہی ہیں جو کہ اپنی خاص ذہنیتوں کی بنیاد پر ایک خاص معنی مثلاً حق و باطل اور صحیح و غلط قرآن سے سمجھتے ہیں۔

چونکہ یہ امور افراد کی ذہنیتوں سے ابھرتے اور پیدا ہوتے ہیں، اس بنا پر ان سب کو صحیح سمجھا جاسکتا ہے، بلکہ کلی طور سے ان کے صحیح اور باطل ہونے کا فیصلہ ہی بے معنیٰ ہے، کیونکہ مثال کے طور پر ایک ہی آیت سے مختلف معانی و مطالب اگرچہ متناقض اور ایک دوسرے کے خلاف ہوں پھر بھی صحیح سمجھے جاتے ہیں، جیسا کہ حافظ کی ایک غزل سے فال نکال کر ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کا مریض شفا پاتا ہے، تو دوسرا ا س سے اپنے مہمان کی آمد کی خوشخبری سمجھتا ہے اور تیسرا اسی غزل سے ناامید ہو جاتا ہے ا ور اپنے بیمار کی موت کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہے۔

۹۰

''دین کی مختلف قرائتوں'' کا نظریہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ قرآن اور ہر ایک دوسرا دینی متن بھی ایسا ہی ہے۔ وہ لوگ معتقد ہیں ، افراد کو ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ایک دوسرے کو قرآن کے سمجھنے میں غلط فہمی سے متہم کریں کیونکہ قرآن سمجھنے کے لئے کسی طرح کی کسی خصوصیت کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ قرآن اور ہر دوسرا متن خود کوئی پیغام نہیں رکھتا کہ اس کا سمجھنا قابل ذکر ہو، جو کچھ قابل ذکر ہے وہ خود انسان کی سمجھ ہے۔ ہماری نظر میںاس نظریہ کو حقیقت میں سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے گڑھا گیا ہے لیکن ظاہر میں ایک دین شناسی نظریہ کے عنوان سے، دین اور صراط ہائے مستقیم (سیدھے راستوں) کی جدید قرائت اور معرفت وغیرہ کے نام سے اس کی تبلیغ کی جاتی ہے۔ دینی پلورال ازم کا نظریہ جو کہ دین کی مختلف قرائتوں کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے منطق و عقل سے اتنا دور ہے کہ ہر صاحب عقل جس وقت اس نظریہ کی جڑوں اور اس کے نتیجوں پر توجہ کرتا ہے تو فوراً اس کے کھوکھلے پن اور باطل ہونے کی تصدیق کردیتا ہے۔دوسری طرف دینی معاشرہ میں پلورال ازم نظریہ کے تباہ کن اور تخریبی نتائج کو دیکھتے ہوئے اس سے آسانی کے ساتھ نہیں گزرا جاسکتا۔

معلوم ہوتا ہے کہ سب سے بڑے ان جالوں میں سے ایک جال جو کہ انسان کے قسم کھائے دشمن، شیطان نے از آدم تا ایندم دنیا کے موحدین اور خدا پرستوں کو فریب دینے کے لئے اپنے ہزاروں سال کے تجربہ کی مدد سے بچھایاہے، وہ دین کی مختلف قرائتوں کا نظریہ گڑھنا ہے۔ کچھ نام نہاد روشن فکر افراد بھی اس شیطانی فکر کے وسوسہ سے متأثر ہوکر تن من دھن سے شیطان کی مدد کے لئے دوڑ پڑے ہیں تاکہ اس کا اس سلسلہ میں ساتھ دیں۔

۹۱

یہ لوگ اپنی عقل، ذہن، بیان اور تقریر و تحریر کی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو شیطان کے اختیار میں دے کر خود کو انسانوں کی گمراہی کا ذریعہ بنا لئے ہیں۔

اس بنا پراگر ہم دین شناسی میں ''پلورال ازم'' نظریہ کا خلاصہ جو کہ دین اور صراط ہائے مستقیم (سیدھے راستوں) کی مختلف قرائتوں اور اقلیتی و اکثریتی دین وغیرہ کے عناوین کے تحت پیش کیا جارہا ہے، مختصر اور واضح طور پر بیان کرنا چاہیں تو ہمیں کہنا چاہئے کہ مذکورہ نظریہ سے مراد وہ نظریہ ہے جو کہ دین و قرآن اور ہر دوسرے دینی متن کو ثابت حقائق سے خالی تصور کرتا ہے اور حق و باطل اور صحیح و غلط کو اس سلسلہ میں منتفی سمجھتا ہے۔

دین، یہ نظریہ ماننے والوں کے نزدیک متفاوت و مختلف بلکہ کبھی کبھی متناقض (ایک دوسرے کی نقیض) اور آراء و افکار کے اس مجموعہ کا نام ہے کہ جو انسان دینی کتابوں کی طرف رجوع کے وقت ان سے سمجھتے ہیں بغیر اس کے کہ خود قرآن یا دینی کتاب کوئی چیز بتائے۔

یہ نظریہ رکھنے والے ایسا تصور کرتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) قرآن ایک ایسی رومانی کتاب ہے جوانسان کے اندر طرح طرح کے خیالات ابھارتی ہے اور ہر شخص اپنی اپنی سوچی سمجھی ذہنیت اور نظر و فکر کی بنیاد پر ایک مطلب کا تصور کرتا ہے اور اسے دین و قرآن سے اپنی قرائت اور فکر بتا کر خدا کی طرف نسبت دیتا ہے۔

۹۲

اس جگہ ہم تاکید کرتے ہیں کہ ہمیں چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ ''دین کی مختلف قرائتوں'' کے معنی کی حقیقت اور ''بہت سے صراط مستقیم'' کی واقعیت کو سمجھیںاور اس الحادی نظریہ کے مہلک نتائج و آثار کے متعلق غور و فکر کریں تاکہ یہ شیطانی جال بچھانے والوں کے مقاصد کو جان سکیں اور ان کی حرکت کی گہرائی کو درک کرسکیں۔

بہرحال جس وقت ہم مذکورہ نظریہ کا پہلے گروہ کے نظریہ سے مقایسہ اور موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے نظریہ کی روح، خدا پرستی اور خداوند متعال کے سامنے تسلیم و بندگی کی روح ہے، اور دوسرے نظریہ کی روح، انسان پرستی کی روح اور خدا اور احکام خدا سے فرار کرنے والی روح ہے۔

کلی طور سے پہلے نظریہ میں اس بات کی کوشش ہوتی ہے کہ انسان خداوند متعال کی بندگی کو قبول کرے، جبکہ دوسرے نظریہ میں اس بات کی کوشش ہوتی ہے کہ انسان خدا کی بندگی سے جدا ہوجائے اور اپنے کو حیوانی شہوات و خواہشات میں چھوڑ دے، یہ نظریہ انسان کے میلانات اور خواہشات کو اصل قرار دیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دین اور قرآن کی تفسیر و توجیہ انہی کے اعتبار سے کرے۔

۹۳

قرآن مجید میں جو اس طرح کی تعبیریں آئی ہیں مثلاً:(تِلْکَ آیَاتُ الکِتَابِ وَ قُرآن مُبِین) 1 (بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُبِین) 2 (تِلْکَ آیَاتُ القُرآنِ وَ کِتَابٍ مُبِینٍ) 3 (قَد جَاء َکُم مِنَ اللّٰهِ نُور وَّ کِتَاب مُبِین) 4 کہ جن میں قرآن مجید کے روشن، واضح اور فصیح و بلیغ ہونے کو تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، ان تعبیروں کا ایک راز شاید یہی ہو کہ ''مختلف قرائتوں'' جیسے گمراہ کن افکار کو روکا جائے اور قرآن کے مقصود و معنی کے مبہم اور نامفہوم ہونے کے اعتبار سے کوئی بھی بہانہ کسی شخص کے پاس نہ ہو۔

اس بنا پر قرآن، ہدایت کی کتاب ہے، خداوند متعال نے اس میں وہ تمام حقائق بیان کردیئے ہیں جو انسان کی دنیا و آخرت کی سعادت کے لئے لازم ہیں، اور مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ قرآن میں تدبر و تفکر کے ذریعہ اپنے فردی و اجتماعی فرائض سے آشنا ہوں اور اس کی پیروی کے ذریعہ اپنے کو کامیاب بنائیں، لیکن یہ بات کہ قرآن اور دینی معارف سمجھنے کی صلاحیت کس میں ہے؟ ایک ایسا مطلب ہے کہ جس کی توضیح ہم آگے بیان کر رہے ہیں۔

(1)سورۂ حجر، آیت 1 ۔

(2)سورۂ شعراء ، آیت 195 ۔

(3)سورۂ نمل، آیت 1 ۔

(4) سورۂ مائدہ، آیت 15 ۔

۹۴

قرآن کی تفہیم و تفسیر کی صلاحیت

یہ بات بدیہی ہے کہ قرآن کو سمجھنے اور اس کی تفسیر کرنے کی ہر شخص میں صلاحیت نہیں ہے۔ جیسا کہ ہر شعبہ میں دقیق و عمیق علمی مطالب سمجھنے کی صلاحیت ہر شخص نہیں رکھتا۔ ریاضی کے پیچیدہ مسائل یا تمام علوم کی باریکیاں سمجھنے کی صلاحیت صرف ان علوم کے ماہر و متبحر افراد ہی رکھتے ہیںاور غیر ماہر نہ صرف ان کے متعلق اظہار نظر کرنے سے عاجز ہیں بلکہ ان کا اظہار نظر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

قرآن مجید کی تفہیم و تفسیر کے متعلق بھی ا ن لوگوں کا اظہار نظر کوئی اعتبار نہیں رکھتا جو کہ دینی علوم و معارف سے ناآشنا ہیں۔ اگرچہ قرآن فصیح و بلیغ زبان میں نازل ہوا ہے تاکہ لوگ سمجھیں اور اس پر عمل کریں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس کے معارف کی گہرائی ایک سطح میں تمام لوگوں کے لئے قابل فہم ہو۔ جو کچھ قرآن سے تمام لوگوں کے لئے قابل فہم ہے اس کے وہی معنی ہیں جو خود قرآن فرماتا ہے کہ ہم نے واضح و روشن بیان کے ساتھ قرآن کو نازل کیا ہے، یعنی قرآن اس طرح نازل ہوا ہے کہ جو شخص عربی زبان کے اصول و قواعد سے آشنا ہواور بندگی کی روح اس پر غالب و حاکم ہو وہ قرآن سے استفادہ کرسکتا ہے اور اپنی فکر و معرفت کی حد میں اس سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔

۹۵

لیکن قرآن کے معارف و معانی کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لئے مقدمات اور تعقل و تدبر ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن فرماتا ہے:(إنّا أَنزَلْنَاهُ قُرآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُم تَعقِلُونَ) 1 (ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو) یا(إنّا جَعَلْنَاهُ قُرآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُم تَعقِلُونَ) 2 (بے شک ہم نے اسے عربی قرآن قرار دیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو)۔

کلی طور سے جو آیتیں انسان کو قرآن اور اس کے معارف کے متعلق تدبر و تعقل کی دعوت دیتی ہیں وہ ہم سے کہتی ہیں کہ قرآن کے ظواہر پر اکتفا نہ کرو بلکہ تدبر و تعقل اوراہلبیت (ع) کے علوم و معارف سے استفادہ کے ذریعے معارف قرآن کے دقیق و عمیق مطالب کو حاصل کرو اور علم الٰہی کے اس خزانے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرو۔

اس بنا پر قرآن کے سمجھنے اوراس کے بلند معارف کی تفسیر کرنے کی صلاحیت صرف علوم اہلبیت (ع) سے آشنا اور ماہر و متبحر افراد ہی رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جو بھی تھوڑی شُدبُد پیدا کر لے اس کو اظہار نظر کا حق بھی ہو جائے اور دینی معارف نیز تفسیر و توضیح کے اصول و قواعد کی تھوڑی سی بھی اطلاع رکھے بغیر، دین اور اس کے احکام و

معارف کے بارے میں جدید قرائت کے عنوان سے بول سکے۔

(1) سورۂ یوسف، آیت 2 ۔

(2)سورۂ زخرف، آیت 3 ۔

۹۶

معارف قرآن کے مفہوم کے مختلف مرتبے

بہت سی روایتوں میں یہ مضمون ملتا ہے کہ قرآن ظاہر و باطن رکھتا ہے او رہر شخص قرآن کے علوم و معارف کی گہرائیاں سمجھنے پر قادر نہیںہے۔ قرآن کوئی معمولی کتاب نہیںہے کہ تمام انسان اس کے تمام معارف درک کرنے پر قادر ہوں۔ جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ قرآن ایک ایسا اتھاہ اور ناپیدا کنار سمندر ہے کہ ہر شخص اپنی غواصی کی قدرت و توانائی کی مقدار بھر اس سے معرفت کے موتی حاصل کرتا ہے اور اپنی استعداد و صلاحیت کی مقدار بھر قرآن کے ظواہر سے آگے بڑھ کر اس کے معارف کی گہرائی تک رسائی پیدا کرتا ہے اور ایک آیت سے مختلف مطالب کو سمجھتا ہے جبکہ مذکورہ مطالب ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہوتے، اور یہ خود قرآن کریم کا معجزہ ہے۔

مثال کے طور پر قرآن کریم فرماتا ہے:(یَا أَیُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الفُقَرآئُ اِلٰی اللّٰهِ وَ اللّٰهُ هُوَ الغَنِیُّ الحَمِیدُ) 1 جو بات عام لوگ اس آیۂ کریمہ سے سمجھتے ہیں اور جو بات آیت کا ظاہر بیان کرتا ہے یہ ہے کہ اے لوگو! تم سب خداوند متعال کے محتاج ہو اور خداوند متعال بے نیاز اور قابل حمد و ثنا ہے۔

جو بات لفظ ''فقرائ'' سے عام لوگوں کے ذہن میں آتی ہے وہی امر معاش میں انسان کی احتیاجات اور ضروریات ہیں خواہ غذا ہو یا لباس یا مکان یا کوئی بھی چیز کہ خداوند

(1) سورۂ فاطر، آیت 15 ۔

۹۷

متعال ان کے اسباب و علل کو ایجاد کر کے انسان کی نشو و نما، تکامل اور زندگی کی بقا کا وسیلہ فراہم کرتا ہے۔

معنی و مفہوم کے اس مرتبہ میں کہ جس کو ''مرتبۂ ظاہر'' کہا جاتا ہے، قرآن کا ظاہر روشن، گویا اور واضح ہے اور تمام اہل زبان اسے بخوبی سمجھتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس ظاہری معنی سے زیادہ گہرا کوئی اور دوسرا معنی اس سے حاصل نہ ہو او رمذکورہ آیۂ کریمہ اس عمومی فہم سے بالاتر اس سے زیادہ دقیق مطالب کی طرف اشارہ نہ رکھتی ہو۔ انسان جس قدر کلام کے زیر و بم اور زبان کے ادبی رموز و نکات سے واقف ہوگا اور دوسری طرف، جیسا کہ قرآن تاکید کرتا ہے آیات قرآن کی طرف رجوع کے وقت ان میں تدبر و تعقل کرے گا تو آیات کے ظواہر سے بھی بڑھ کر اور زیادہ دقیق و عمیق نکتے حاصل کرے گا۔

اگر ہم اس آیت کا کچھ غور سے مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم خوراک، لباس، صحت اور مادی وسائل سے کہیں زیادہ خدا کے محتاج ہیں۔ ہم محض فقیر و محتاج ہیںاور خدا غنی مطلق ہے۔ ہم فقیر بالذات ہیں اور خدا غنی بالذات۔ فقیر لغت میںاس شخص کو کہتے ہیں کہ جس کے ''ستون فقرات'' (ریڑھ کی ہڈیاں) شکستہ ہوں اور کھڑے ہونے پر قادر نہ ہو۔ انسان فقیر ہے اس معنی میں کہ اگرچہ تمام مادی امکانات و وسائل اس کے لئے فراہم ہوں پھر بھی انسان کا وجود ناقص ہے۔

جس وقت ہم اس نظر سے اورا س نکتہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے آیت پر غور کریں گے تو سمجھ لیں گے کہ ہم انسانوں کی احتیاج خدا سے خوراک، پوشاک اور تمام مسائل سے بڑھ کر ہے۔ ہم اصل وجود میں خدا کے محتاج ہیں۔ خداوند متعال ہی نے ہم کو پیدا کیا ہے اور اسی نے وجودی اسباب و علل کو ایجاد کر کے انسان کی نشو و نما ، تکامل اور زندگی کی بقا کا وسیلہ مہیا کیا ہے۔ ہم اصل وجود میں او ربالذات محتاج و فقیر ہیں اور خداوند متعال غنی بالذات ہے۔

۹۸

واضح ہے کہ دوسری نظر، پہلی نظر سے زیادہ گہری ہے۔ یہاں پر پہلے معنی کو ظاہر اور دوسرے معنی کو باطن سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے معنی سے بھی زیادہ عمیق معنی یہ ہے کہ تم سب (اے لوگو!) نہ صرف اصل وجود میں فقیر و محتاج ہو بلکہ عین نیاز اور سراپا محتاج ہو۔ تمھارا وجود خداوند متعال کی نسبت عین ربط ہے۔ البتہ اس تیسرے معنی کی حقیقت کا درک کرنا عام عقول کی حد سے باہر ہے۔

بہرحال یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس آیۂ کریمہ کے یہ تینوں معنی ایک دوسرے کے طول میں (یکے بعد دیگرے) ہیں یعنی تینوں معنی اور تفسیر درست اور صحیح ہیں، کوئی بھی دوسرے کے منافی نہیںہے، لیکن گہرائی کے اعتبار سے مذکورہ معانی ایک سطح پر قرار نہیں پاتے اور ایسا نہیں ہے کہ قرآن کے تمام مرتبے سب کے لئے قابل فہم ہوں اور تمام افراد قرآن کریم کے تمام مراتب و بطون سمجھنے کی صلاحیت اور قدرت رکھتے ہوں۔ البتہ مذکورہ بیان کا مقصد اس مطلب کو آسانی سے سمجھانا ہے جو بعض روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ قرآن ظاہر و باطن رکھتا ہے اور تمام لوگ اس الٰہی کتاب کے معارف کی گہرائیوں کو درک کرنے پر قادر نہیں ہیں۔

اس مطلب کی تاکید او ریاد دہانی بھی لازم ہے کہ وہ صرف ائمۂ معصومین (ع) ہیں جو الٰہی تعلیم کے ذریعہ قرآن کے علوم و معارف سے آگاہ ہیں اور اس عظیم آسمانی کتاب کے بطون کے عالم ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم ایک روایت کا ایک حصہ ذکر کر رہے ہیں:

۹۹

''عَن اَبِ جَعفَرٍ عَلَیهِ السَّلامُ قَال : یَا جَابِرُ! إنّ لِلْقُرآنِ بَطنًا وَ لِلبَطنِ بَطن وَ لَهُ ظَهر وَ لِلظَّهرِ ظَهر یَاجَابِرُ! وَ لَیسَ شَیئ أَبعَدَ مِن عُقُولِ الرِّجَالِ مِن تَفسِیرِ القُرآنِ إنّ الآیَةَ یَکُونُ أَوَّلُهَا فِی شَیئٍ وَ آخِرُهَا فِی شَیئٍ وَ هُوَ کَلام مُتَّصِل یُتَصَرَّفُ عَلٰی وُجُوهٍ''1

حضرت امام محمد باقر ـ جابر کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: ''قرآن باطن رکھتا ہے اور باطن کا بھی باطن رکھتا ہے، نیز قرآن ظاہر رکھتا ہے اور ظاہر کا بھی ظاہر رکھتا ہے، اے جابر! اس نکتہ پر بھی توجہ رکھو کہ لوگوں کی عقلیںاس بات سے عاجز ہیں کہ قرآن کے باطن اور اس کی حقیقت کی تفسیر کرسکیں، اس لئے کہ ممکن ہے آیت کا پہلا حصہ کسی چیز کے بارے میں ہواور آخری حصہ کسی دوسری چیز کے متعلق ہو، اور قرآن ایسا باہم متصل اور پیوستہ کلام ہے جو مختلف معانی رکھنے کی قابلیت رکھتا ہے اس کے معارف و معانی میں کسی قسم کا تعارض یا تنافی نہیں ہوتی ہے''۔

جو بات یہاں پر قابل تاکید ہے یہ ہے کہ معارف قرآن کے باطن اور دقیق مطالب کا سمجھنا سب کے بس کی بات نہیں ہے، البتہ اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن صرف ائمہ او رراسخون فی العلم کے لئے نازل ہوا ہے اور دوسرے لوگ حتی ظاہر قرآن کے سمجھنے سے بھی عاجز ہیں، بلکہ ظاہر قرآن ہر شخص کے لئے اس کی صلاحیت کے

مطابق قابل فہم ہے بشرطیکہ خود پسندی، کج فکری اور اپنے نفسانی میلانات و خواہشات کو چھوڑ دے اور تفسیر بالرائے سے پرہیز کرے۔ قرآن فہمی کے متعلق چند نکات قابل ذکر ہیں اور وہ یہ ہیں۔

(1) بحار الانوار، ج92،

۱۰۰