قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت22%

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 180

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42227 / ڈاؤنلوڈ: 3521
سائز سائز سائز
قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

پر ایمان نہیں لایا ہے جو اپنی رائے سے میرے کلام کی تفسیر کرتا ہے۔

دوسرے بیان میں پیغمبر سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا:''مَن فَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَأیِهِ فَقَدِ افْتَرَیٰ عَلٰی اللّٰهِ الکَذِبَ'' ۱ جس شخص نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے اور اپنی فکر سے کی وہ یقینا خدا پر جھوٹ باندھتا ہے۔ پیغمبر کا یہ ارشاد اس وجہ سے ہے کہ جو شخص خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ اس بات پر آمادہ ہو جائے کہ آیات الٰہی کی توجیہ کسی بھی طرح اپنے نفع کے تحت کرے اور اسے قرآن اور کلام الٰہی کی تفسیر بتائے، وہ حقیقت میں اپنی نظر اور رائے کو معیار قرار دیکر اس کی خداوند متعال کی طرف جھوٹی نسبت دیتا ہے۔

قرآن کے ساتھ اس طرح کا معاملہ اور کلام الٰہی کی اس طرح کی تفسیر و تفہیم اتنی مذموم اور خطرناک ہے اور ایسی ضلالت و گمراہی کا باعث ہوتی ہے کہ اس گناہ کے مرتکب افراد قیامت میں سخت ترین عذاب میں مبتلاہوں گے۔

حضرت پیغمبر اس سلسلہ میں بھی ارشاد فرماتے ہیں :''مَن فَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَأیِهِ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَده مِنَ النَّار'' ۲ جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے گا اس کا ٹھکانہ قیامت میں جہنم ہے۔

اس بنا پر بدترین عذابوں سے محفوظ رہنے، خداوند متعال پر بہتان باندھنے سے

پرہیز کرنے اور ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرنے سے بچنے کے لئے لازم ہے کہ نفسانی خواہشات کو چھوڑ دیں، خدا کی ذات اقدس پر جو کہ خیر محض ہے اور انسان کے لئے خیر کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا، ایمان رکھیں، خود محوری اور خود پرستی سے پرہیز کریں، خدا محوری اور خدا پرستی کا جذبہ و عقیدہ اپنے اندر پیدا کریں اورخدا کے سامنے سراپا تسلیم ہو جائیں۔

(۱)بحار الانوار، ج۳۶، ص ۲۲۷ ۔

(۲)عوالی اللعالی، ج ۴، ص ۱۰۴ ۔

۸۱

حضرت علی ـ کا ارشاد، تفسیر بالرائے سے پرہیز کے سلسلہ میں

جیسا کہ اس کے قبل اشارہ کیا جا چکا ہے کہ انسان ایسے خیالات اور خواہشات رکھتا ہے کہ کبھی کبھی وہ قرآن کے مطابق نہیں ہوتے اور وہ اپنی انسانی طبیعت کے لحاظ سے چاہتا ہے کہ قرآن بھی اس کی خواہش اور نظر کے موافق ہو، یہاں تک کہ بعض اوقات لاشعوری طور پر ممکن ہے کہ وہ خواہشات و خیالات اس کی قرآن فہمی میں اثر انداز ہوں۔ چونکہ ایساخطرہ ہر انسان کو قرآن کریم کی تفسیر کے وقت پیش آسکتا ہے اور شیطان بھی ہر لمحہ گھات میں لگا ہوا ہے تاکہ ایسے ثقافتی لوگوں کو فریب دیکر جو کہ فہم دین کے دعویدار ہیں، ایک گروہ کو راہ حق سے پھیر دے۔ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ حضرت علی ـ کے اس ارشاد پر خاص توجہ دیں۔

حضرت علی ـ کج فہمی سے محفوظ رہنے اوراحتمالی انحراف سے پرہیز کرنے کے لئے ارشاد فرماتے ہیں:

''وَاتَّهِمُوا عَلَیهِ آرَائَکُم'' ۱ جس وقت تم قرآن کی تفسیر کرنا چاہو تو اپنے

(۱)نہج البلاغہ، خطبہ ۱۷۵ ۔

۸۲

خیالات و آراء اور افکار و نظریات کو قرآن کے سامنے غلط سمجھو، اپنی شخصی آراء اور نظریات اور نفسانی خواہشات کو چھوڑ دو، اور حضرت کی لفظوں میں، اپنے کو قرآن کے سامنے متہم کرو اور غلط سمجھو!۔

قابل ذکر ہے کہ مذکورہ تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن فہمی میں امانت و تقوی کی رعایت اوراحتیاط نہایت لازم ہے، اس لئے کہ حضرت فرماتے ہیں کہ اپنے خیالات و نظریات کو قرآن کے مقابلہ میں غلط سمجھو اور اس ذہنیت کے ساتھ کہ میں کچھ نہیں جانتا، جو کچھ قرآن کہتا ہے وہی حق ہے، قرآن سے روبرو ہونا چاہئے پھر کہیں قرآن کی تفہیم و تفسیر کے لئے آمادہ ہونا چاہئے۔

''وَاسْتَغِشُّوا فِیهِ اَهوَائَکُمْ'' اپنے خواہشات او رہوا و ہوس کو فریب خوردہ اور غلط سمجھو تاکہ قرآن سے صحیح استفادہ کرسکو ورنہ ہمیشہ خطا اورانحراف سے دوچار ہوگے۔

اس بنا پر دین کا جوہر (اصل) کہ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ہے، اقتضا کرتا ہے کہ انسان صرف خداوند متعال کا مطیع ہو اور خدا کے احکام، قرآن کریم کے دستورات کے مقابلہ میں اپنی رائے، نظر، خود پسندی اور کج فکری کو باطل سمجھے، جس وقت ایسی روح انسان پر غالب و حاکم ہوگی، واضح ہے کہ اس صورت میں وہ قرآن اور الٰہی احکام و معارف کو بہتر طور سے سمجھے گا پھر جب وہ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہوگا ان کو جان و دل سے قبول کرے گا۔

۸۳

قرآن اور دینی معارف سے متعلق دو طرح کے نظریئے

قرآن کریم اور دینی معارف سے متعلق دو طرح کے مختلف نظریئے پائے جاتے ہیں:

۔ وہ نظریہ جو تسلیم و بندگی اور خدا محوری و خدا دوستی کی روح پر مبنی ہے۔

۔ وہ نظریہ جو کہ انسان کی نفسانی خواہشات کواصل قرار دیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دینی متون و مطالب اور قرآن کے معارف کی اپنے نفسانی خواہشات کے مطابق تفسیر و توجیہ کرے، وہ نظریہ جس کو آج کی رائج اصطلاح میں ''ہیومن ازم'' ( Humanism ) کہا جاتا ہے، یعنی انسان محوری وانسان دوستی کو خدا محوری و خدا دوستی کے مقابلہ میں پیش کرنا۔

معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ تفسیم بندی گزشتہ مباحث و مطالب سے بالاتر ہے، اس لئے کہ اب تک فرض یہ تھا کہ ممکن ہے قرآن سے متعلق دو طرح کی فکر ظاہر ہو کہ ایک تسلیم و بندگی کی روح واصل پر مبنی ہو اور دوسری وہ فکر و فہم جو کہ نفسانی خواہشات سے متاثر ہو۔ اس بنا پر قرآن کے سمجھنے بوجھنے میں تفسیر بالرائے سے پرہیز کیا جائے اور قرآن جیسا ہے اسے ویسا ہی سمجھا جائے، اس سلسلہ میں حضرت علی ـ کی وصیت کی توضیح کرچکے ہیں کہ خود پسندی اور کج فکری سے پرہیز کرنا اور نفسانی خواہشات سے ذہن کو خالی رکھنا لازم

(۱)یہ ایسا نظریہ ہے جو چودھویں صدی عیسوی میں یورپ میں پیدا ہوا جس کا مقصد، اصالتاً صرف انسانی مرتبہ اور حیثیت کو بلند کرنا ہے، اس نظریہ کے طرفدار اومانسٹ یا ہومانسٹ کہے جاتے ہیں جن میں سے اکثر مذہب پروٹسٹ کی طرف مائل ہوگئے۔

۸۴

ہے۔ اس نظریئے میں حضرت کے کلام کے مخاطب دونوں گروہوں کو ہم مسلمان سمجھتے تھے اور دین میں منحرف ہونے سے پرہیز کرنے کے لئے نیز تفسیر بالرائے میں مبتلا ہونے سے بچنے کے لئے تقویٰ کی پابندی کی اور خواہش نفس اور خود پسندی و کج فکری سے دور رہنے کی نصیحت کر رہے تھے۔

جب ہم اس مسئلہ کی تحقیق مزید گہرائی سے کرتے ہیں تو ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ دقیق اور باریک نکتے حاصل ہوتے ہیں، ہمیں بندگی کے باب میں انسانوں کے دو گروہوں میں تقسیم ہونے کے متعلق حضرت علی ـ کے کلام کا اعجاز معلوم ہوتا ہے اور دین و احکام الٰہی کے مقابلہ میں انسانوں کے افکار و نظریات کی نسبت حضرت کے علم النفس اور علم الروح سے زیادہ سے زیادہ آگاہ ہوتے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ دو اہم خصوصیات کو بیان کرتے ہیں اور ان کی بنیاد پر انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر گروہ کی خصوصیتں ذکر کر کے ان کا تعارف کراتے ہیں کہ جن کی طرف ذیل میں ہم اشارہ کر رہے ہیں:

ـ: وہ گروہ کہ جس نے تمام وجود کے ساتھ خدا کی بندگی کو قبول کیا ہے، یہ لوگ اپنے نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرتے ہیں، خدا کے ارادہ اور حکم کو اپنے نفسانی خواہشات اور میلانات پر مقدم رکھتے ہیں۔

فطری بات ہے کہ ایسے انسان، اس آسمانی کتاب قرآن کو تہ دل سے قبول کرتے ہیں، اس کے احکام و معارف کو جان و دل سے مانتے ہیںاور مقام عمل میں اسے نمونہ قرار دیکر اس کے شعائر کو برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

۸۵

حضرت علی ـ اسی گروہ کی تعریف میں فرماتے ہیں:

''إنّ مِنْ أَحَبِّ عِبَادِ اللّٰهِ عَبداً أَعَانَهُ اللّٰهُ عَلٰی نَفْسِهِ'' ۱ بے شک خدا کا سب سے زیادہ محبوب بندہ خود خدا کے نزدیک وہ ہے جس کی خدانے (اس کے نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرنے میں) اس کے نفس کے خلاف مدد کی ہے۔ پھر اس گروہ کے اوصاف بیان کرنے کے بعد ایسے اشخاص کے درمیان قرآن کے مرتبہ کے متعلق ذکر فرماتے ہیں: ''قَد اَمْکَنَ الْکِتَابَ مِن زِمَامِهِ فَهُوَ قَائِدُهُ وَ اِمَامُهُ، یَحُلُّ حَیثُ حَلَّ ثَقَلُهُ، وَ یَنزِلُ حَیثُ کَانَ مَنزِلُهُ'' ۲ یہ گروہ جو مومنین و متقین کا گروہ ہے وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے امور کی زمام کتاب خدا کے حوالے کردی ہے لہٰذا وہی اس کی قائد اور پیشوا ہے ۔ جہاں قرآن کا سامان اترتاہے وہیں وہ لوگ بھی وارد ہوجاتے ہیں اور جہاںاس کی منزل ہوتی ہے وہیں وہ بھی پڑاؤ ڈال دیتے ہیں، ان کا سکون و حرکت قرآن کے تابع ہے۔

یہ گروہ قرآن اوردین کے حقائق کو حقیقی وجود کے لحاظ سے قبول کرتا ہے اور ان پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے۔ یہ لوگ دین اور قرآن کریم کے احکام کو حقیقی وجود کا آئینہ دار سمجھتے ہیں کہ جن کی رعایت انسان کی سعادت سے بلاواسطہ رابطہ رکھتی ہے اور ان کی رعایت نہ کرنے کو دنیا و آخرت کی سعادت سے محروم رہنے کا باعث سمجھتے ہیں۔

(۱) نہج البلاغہ، خطبہ ۸۶ ۔

(۲)نہج البلاغہ، خطبہ ۸۶ ۔

۸۶

چونکہ ایسے انسان خود اپنی کوئی نظر اور رائے نہیں رکھتے، دین اور آسمانی کتابوںاور الٰہی احکام و تعلیمات کے لئے حقیقی وجود کے قائل ہیں نیز ان کے اور انسان کی مصلحتوں کے درمیان علّی اور معلولی رابطہ کے وجود کے معتقد ہیں لہٰذا قرآن کو صحیح طریقہ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جو بھی قرآن حکم دے وہی سمجھیں اور اسی پر عمل کریں۔

ـ:پہلے گروہ کے نظریئے کے بالکل برعکس، بعض افراد ایسا نظریہ رکھتے ہیں کہ قرآن یا ہر دینی متن یا ہر دوسری آسمانی کتاب خود افراد کی ذہنیتوں کی تابع ہے نہ یہ کہ خود قطعی اور مشخص مطالب کو بیان کرنے والی ہے، یعنی قرآن یا ہر دوسرا دینی متن، معنی و مطلب کے بغیر ہے اور اس کا کوئی مقصد نہیں ہے، لیکن چونکہ ہر انسان کچھ خاص ذہنیتوں کا حامل ہوتا ہے یہ ذہنیتیں (افکار و خیالات) تربیتی، خانوادگی، اجتماعی اور اس کے مانند دوسرے رابطوں سے ابھرتی ہیں، لہٰذا جس وقت انسان قرآن پڑھتا ہے تووہ اپنی ذہنیت کی بنیاد پر مطالب کو قرآن سے سمجھتا ہے، جبکہ ان مطالب کو قرآن نے بیان نہیں کیا ہے بلکہ یہ انسان کی فہم اور سمجھ ہے جس کو وہ قرآن کے پیرائے میں دیکھتا ہے۔

واضح ہے کہ ایسے اعتقاد اور نظریئے کے اعتبار سے دین و قرآن اور اس کے احکام و آیات ایسے الفاظ اور قالب سمجھے جائیں گے جو کہ ہر طرح کے معنی و مطلب سے خالی ہیں اور یہ انسان کی ذہنیتیں ہیں جو ان الفاظ کو معنی و مفہوم بخشتی ہیں۔

اس خیال کی بنیاد پر ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن یا کوئی بھی دوسرا دینی متن، کوئی بھی بات بیان کرنے کے لئے نہیں رکھتا بلکہ ہر شخص اپنی ذہنیت اور نظر و فکر کی بنیاد پر قرآن اور دوسرے دینی متون سے مطالب کو اخذ کرتا ہے۔

واضح سی بات ہے کہ اس طرح کا نظریہ اگر چہ ظاہری طور سے دین و قرآن اور دینی معارف و تعلیمات کی بات پیش کرتا ہے لیکن حقیقت میں دین اور اہل دین سے کھلواڑ اور مذاق کرتا ہے۔

۸۷

دینی پلورال ازم۱ یا مختلف قرائتوں کے قالب میں دین کا انکار

معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ آج ہمارے معاشرے میں دین کی مختلف قرائتوں کے عنوان سے بتایا جارہا ہے اس کا سرچشمہ دوسرے گروہ کا نظریہ ہے۔ اگرچہ مذکورہ عنوان ان نام نہاد روشن فکر افراد کی طرف سے پیش کیا جارہا ہے جو ظاہری صورت میں اپنے کو مسلمان کہتے ہیں، لیکن ''دین کے متعلق مختلف قرائتوں کے تفکر'' کی اصل کو انسان محوری اور ہیومن ازم میں تلاش کرنا چاہئے۔

جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ مذکورہ نظریہ دینی تعلیمات اور آسمانی کتابوں کے احکام کو بے معنی سمجھتا ہے اور معتقد ہے کہ قرآن اور ہر دوسرا دینی متن ساکت ہے اور کسی معنی و مفہوم کا حامل نہیںہے، بلکہ ہم انسان ہی ہیں کہ اپنی اپنی ذہنیتوں کے ذریعہ اپنی اپنی قرائت، فہم اور سمجھ کو دین و قرآن کی طرف نسبت دیتے ہیں ورنہ خود قرآن نہ کسی پیغام کا حامل ہے اور نہ کسی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔

مذکورہ نظریہ کی حقیقت کو واضح کرنے اوراس کے طرفداروں کے اس قول کا

(۱)یعنی اس بات کا اعتقاد کہ انسان کی فلاح و نجات کسی ایک دین و مذہب میں منحصر نہیں بلکہ دوسرے ادیان و مذاہب بھی اس کی فلاح و نجات کا ذریعہ ہیں لہٰذا اسے دوسرے ادیان و مذاہب کو بھی صحیح سمجھنا چاہئے۔

۸۸

مطلب سمجھنے کے لئے (کہ دین ساکت و خاموش ہے اور اس سے مختلف اور متفاوت مطالب و مفاہیم اخذ کرنا ممکن ہے) ایک مثال کا ذکر مفید ہوسکتا ہے۔

کم و بیش ہم سبھی لوگ حافظ جیسے عظیم شاعر، بلند مرتبہ عارف کے دیوان، ان کی غزلوں اور ان کے اشعار سے واقف ہیں۔ حافظ کے دیوان اور ان کے اشعار کی مختلف قرائتیں اس معنی میں ہیں کہ ان اشعار کا خالق اپنے اشعار میں استعمال شدہ الفاظ و کلمات میں کوئی معنی و مقصود مد نظر نہ رکھتا ہو، اور صرف الفاظ و کلمات کو بغیر اس کے کہ وہ کسی معنی کے حامل ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ موزوں صورت میں کھوکھلے قالب کے عنوان سے، البتہ نہایت انوکھے اوردلکش انداز میں نظم کردیاہے، یعنی ان اشعار کی تخلیق شاعر نے کسی طرح کا بھی معنی و مقصدمدنظر رکھے بغیر کی ہو۔

''مختلف قرائتوں'' کے نظریہ کے مطابق کہا جاسکتاہے کہ حافظ کی غزلیں اور اشعار کوئی معنی نہیں رکھتے اور ہر شخص فال کی نیت سے اور ایک خاص قصد و ذہنیت کے ساتھ دیوان حافظ کو کھولتا ہے اور سب سے پہلے شعر سے یا ایک غزل کے مجموعے سے ایک مطلب اپنی ذہنیت کی بنیاد پر سمجھتا ہے، مثلاً کسی کے یہاں کوئی مریض ہے اوروہ اس کی شفا چاہتا ہے، فال نکالتاہے اور ایک غزل سے مریض کی شفا کو سمجھتا ہے، ایک دوسرا شخص مقروض ہے اور اسی غزل سے اپنے قرض کی ادائگی کو سمجھتاہے، تیسرا ایک مسافر کے آنے کی امید رکھتا ہے وہ اسی غزل سے اپنے مسافر کی آمد کی خوشخبری کو سمجھتا ہے۔

۸۹

کلی طور سے ہر شخص اپنی اپنی ذہنیت کے مطابق ان الفاظ سے ایک ایک مطلب نکالتا ہے اور حقیقت میں یہ افراد ہی ہیں جو دیوان حافظ کو نطق و گویائی دیتے ہیں او ر ہر شخص اپنی ذہنیت اور اپنی فکر کو حافظ کی زبان سے ادا کراتا ہے اور تمام توضیح و توجیہ اور مطالب و معنی صحیح سمجھا جاتا ہے، اس لئے کہ مذکورہ مطالب و معانی خود افراد کے ہیں اور الفاظ، کلمات، اشعار اور غزلیں اس فرض کے مطابق بے معنی ہیں۔

جو نظریہ آج ہمارے معاشرہ میں ''دین کی مختلف قرائتوں'' کے نام سے پیش کیا جارہا ہے وہ بھی ایسا ہی نظریہ ہے، یعنی جتنے منھ اتنی باتیں ۔ یہ نظریہ قرآن اوردوسرے دینی متن کو بے معنی اور ہر طرح کے پیغام سے کھوکھلا تصور کرتا ہے۔ اس نظریہ کے طرفدار ایسا خیال رکھتے ہیں کہ قرآن ہرگز نہیں بولتا کہ کیا کرنا چاہئے؟ یا کس کام کے انجام سے پرہیز کرنا چاہئے؟کون سی چیز حق اور صحیح اور کون سی چیز باطل اور غلط ہے؟ بلکہ یہ افراد ہی ہیں جو کہ اپنی خاص ذہنیتوں کی بنیاد پر ایک خاص معنی مثلاً حق و باطل اور صحیح و غلط قرآن سے سمجھتے ہیں۔

چونکہ یہ امور افراد کی ذہنیتوں سے ابھرتے اور پیدا ہوتے ہیں، اس بنا پر ان سب کو صحیح سمجھا جاسکتا ہے، بلکہ کلی طور سے ان کے صحیح اور باطل ہونے کا فیصلہ ہی بے معنیٰ ہے، کیونکہ مثال کے طور پر ایک ہی آیت سے مختلف معانی و مطالب اگرچہ متناقض اور ایک دوسرے کے خلاف ہوں پھر بھی صحیح سمجھے جاتے ہیں، جیسا کہ حافظ کی ایک غزل سے فال نکال کر ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کا مریض شفا پاتا ہے، تو دوسرا ا س سے اپنے مہمان کی آمد کی خوشخبری سمجھتا ہے اور تیسرا اسی غزل سے ناامید ہو جاتا ہے ا ور اپنے بیمار کی موت کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہے۔

۹۰

''دین کی مختلف قرائتوں'' کا نظریہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ قرآن اور ہر ایک دوسرا دینی متن بھی ایسا ہی ہے۔ وہ لوگ معتقد ہیں ، افراد کو ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ایک دوسرے کو قرآن کے سمجھنے میں غلط فہمی سے متہم کریں کیونکہ قرآن سمجھنے کے لئے کسی طرح کی کسی خصوصیت کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ قرآن اور ہر دوسرا متن خود کوئی پیغام نہیں رکھتا کہ اس کا سمجھنا قابل ذکر ہو، جو کچھ قابل ذکر ہے وہ خود انسان کی سمجھ ہے۔ ہماری نظر میںاس نظریہ کو حقیقت میں سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے گڑھا گیا ہے لیکن ظاہر میں ایک دین شناسی نظریہ کے عنوان سے، دین اور صراط ہائے مستقیم (سیدھے راستوں) کی جدید قرائت اور معرفت وغیرہ کے نام سے اس کی تبلیغ کی جاتی ہے۔ دینی پلورال ازم کا نظریہ جو کہ دین کی مختلف قرائتوں کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے منطق و عقل سے اتنا دور ہے کہ ہر صاحب عقل جس وقت اس نظریہ کی جڑوں اور اس کے نتیجوں پر توجہ کرتا ہے تو فوراً اس کے کھوکھلے پن اور باطل ہونے کی تصدیق کردیتا ہے۔دوسری طرف دینی معاشرہ میں پلورال ازم نظریہ کے تباہ کن اور تخریبی نتائج کو دیکھتے ہوئے اس سے آسانی کے ساتھ نہیں گزرا جاسکتا۔

معلوم ہوتا ہے کہ سب سے بڑے ان جالوں میں سے ایک جال جو کہ انسان کے قسم کھائے دشمن، شیطان نے از آدم تا ایندم دنیا کے موحدین اور خدا پرستوں کو فریب دینے کے لئے اپنے ہزاروں سال کے تجربہ کی مدد سے بچھایاہے، وہ دین کی مختلف قرائتوں کا نظریہ گڑھنا ہے۔ کچھ نام نہاد روشن فکر افراد بھی اس شیطانی فکر کے وسوسہ سے متأثر ہوکر تن من دھن سے شیطان کی مدد کے لئے دوڑ پڑے ہیں تاکہ اس کا اس سلسلہ میں ساتھ دیں۔

۹۱

یہ لوگ اپنی عقل، ذہن، بیان اور تقریر و تحریر کی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو شیطان کے اختیار میں دے کر خود کو انسانوں کی گمراہی کا ذریعہ بنا لئے ہیں۔

اس بنا پراگر ہم دین شناسی میں ''پلورال ازم'' نظریہ کا خلاصہ جو کہ دین اور صراط ہائے مستقیم (سیدھے راستوں) کی مختلف قرائتوں اور اقلیتی و اکثریتی دین وغیرہ کے عناوین کے تحت پیش کیا جارہا ہے، مختصر اور واضح طور پر بیان کرنا چاہیں تو ہمیں کہنا چاہئے کہ مذکورہ نظریہ سے مراد وہ نظریہ ہے جو کہ دین و قرآن اور ہر دوسرے دینی متن کو ثابت حقائق سے خالی تصور کرتا ہے اور حق و باطل اور صحیح و غلط کو اس سلسلہ میں منتفی سمجھتا ہے۔

دین، یہ نظریہ ماننے والوں کے نزدیک متفاوت و مختلف بلکہ کبھی کبھی متناقض (ایک دوسرے کی نقیض) اور آراء و افکار کے اس مجموعہ کا نام ہے کہ جو انسان دینی کتابوں کی طرف رجوع کے وقت ان سے سمجھتے ہیں بغیر اس کے کہ خود قرآن یا دینی کتاب کوئی چیز بتائے۔

یہ نظریہ رکھنے والے ایسا تصور کرتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) قرآن ایک ایسی رومانی کتاب ہے جوانسان کے اندر طرح طرح کے خیالات ابھارتی ہے اور ہر شخص اپنی اپنی سوچی سمجھی ذہنیت اور نظر و فکر کی بنیاد پر ایک مطلب کا تصور کرتا ہے اور اسے دین و قرآن سے اپنی قرائت اور فکر بتا کر خدا کی طرف نسبت دیتا ہے۔

۹۲

اس جگہ ہم تاکید کرتے ہیں کہ ہمیں چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ ''دین کی مختلف قرائتوں'' کے معنی کی حقیقت اور ''بہت سے صراط مستقیم'' کی واقعیت کو سمجھیںاور اس الحادی نظریہ کے مہلک نتائج و آثار کے متعلق غور و فکر کریں تاکہ یہ شیطانی جال بچھانے والوں کے مقاصد کو جان سکیں اور ان کی حرکت کی گہرائی کو درک کرسکیں۔

بہرحال جس وقت ہم مذکورہ نظریہ کا پہلے گروہ کے نظریہ سے مقایسہ اور موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے نظریہ کی روح، خدا پرستی اور خداوند متعال کے سامنے تسلیم و بندگی کی روح ہے، اور دوسرے نظریہ کی روح، انسان پرستی کی روح اور خدا اور احکام خدا سے فرار کرنے والی روح ہے۔

کلی طور سے پہلے نظریہ میں اس بات کی کوشش ہوتی ہے کہ انسان خداوند متعال کی بندگی کو قبول کرے، جبکہ دوسرے نظریہ میں اس بات کی کوشش ہوتی ہے کہ انسان خدا کی بندگی سے جدا ہوجائے اور اپنے کو حیوانی شہوات و خواہشات میں چھوڑ دے، یہ نظریہ انسان کے میلانات اور خواہشات کو اصل قرار دیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دین اور قرآن کی تفسیر و توجیہ انہی کے اعتبار سے کرے۔

۹۳

قرآن مجید میں جو اس طرح کی تعبیریں آئی ہیں مثلاً:(تِلْکَ آیَاتُ الکِتَابِ وَ قُرآن مُبِین) ۱ (بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُبِین) ۲ (تِلْکَ آیَاتُ القُرآنِ وَ کِتَابٍ مُبِینٍ) ۳ (قَد جَاء َکُم مِنَ اللّٰهِ نُور وَّ کِتَاب مُبِین) ۴ کہ جن میں قرآن مجید کے روشن، واضح اور فصیح و بلیغ ہونے کو تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، ان تعبیروں کا ایک راز شاید یہی ہو کہ ''مختلف قرائتوں'' جیسے گمراہ کن افکار کو روکا جائے اور قرآن کے مقصود و معنی کے مبہم اور نامفہوم ہونے کے اعتبار سے کوئی بھی بہانہ کسی شخص کے پاس نہ ہو۔

اس بنا پر قرآن، ہدایت کی کتاب ہے، خداوند متعال نے اس میں وہ تمام حقائق بیان کردیئے ہیں جو انسان کی دنیا و آخرت کی سعادت کے لئے لازم ہیں، اور مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ قرآن میں تدبر و تفکر کے ذریعہ اپنے فردی و اجتماعی فرائض سے آشنا ہوں اور اس کی پیروی کے ذریعہ اپنے کو کامیاب بنائیں، لیکن یہ بات کہ قرآن اور دینی معارف سمجھنے کی صلاحیت کس میں ہے؟ ایک ایسا مطلب ہے کہ جس کی توضیح ہم آگے بیان کر رہے ہیں۔

(۱)سورۂ حجر، آیت ۱ ۔

(۲)سورۂ شعراء ، آیت ۱۹۵ ۔

(۳)سورۂ نمل، آیت ۱ ۔

(۴) سورۂ مائدہ، آیت ۱۵ ۔

۹۴

قرآن کی تفہیم و تفسیر کی صلاحیت

یہ بات بدیہی ہے کہ قرآن کو سمجھنے اور اس کی تفسیر کرنے کی ہر شخص میں صلاحیت نہیں ہے۔ جیسا کہ ہر شعبہ میں دقیق و عمیق علمی مطالب سمجھنے کی صلاحیت ہر شخص نہیں رکھتا۔ ریاضی کے پیچیدہ مسائل یا تمام علوم کی باریکیاں سمجھنے کی صلاحیت صرف ان علوم کے ماہر و متبحر افراد ہی رکھتے ہیںاور غیر ماہر نہ صرف ان کے متعلق اظہار نظر کرنے سے عاجز ہیں بلکہ ان کا اظہار نظر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

قرآن مجید کی تفہیم و تفسیر کے متعلق بھی ا ن لوگوں کا اظہار نظر کوئی اعتبار نہیں رکھتا جو کہ دینی علوم و معارف سے ناآشنا ہیں۔ اگرچہ قرآن فصیح و بلیغ زبان میں نازل ہوا ہے تاکہ لوگ سمجھیں اور اس پر عمل کریں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس کے معارف کی گہرائی ایک سطح میں تمام لوگوں کے لئے قابل فہم ہو۔ جو کچھ قرآن سے تمام لوگوں کے لئے قابل فہم ہے اس کے وہی معنی ہیں جو خود قرآن فرماتا ہے کہ ہم نے واضح و روشن بیان کے ساتھ قرآن کو نازل کیا ہے، یعنی قرآن اس طرح نازل ہوا ہے کہ جو شخص عربی زبان کے اصول و قواعد سے آشنا ہواور بندگی کی روح اس پر غالب و حاکم ہو وہ قرآن سے استفادہ کرسکتا ہے اور اپنی فکر و معرفت کی حد میں اس سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔

۹۵

لیکن قرآن کے معارف و معانی کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لئے مقدمات اور تعقل و تدبر ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن فرماتا ہے:(إنّا أَنزَلْنَاهُ قُرآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُم تَعقِلُونَ) ۱ (ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو) یا(إنّا جَعَلْنَاهُ قُرآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُم تَعقِلُونَ) ۲ (بے شک ہم نے اسے عربی قرآن قرار دیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو)۔

کلی طور سے جو آیتیں انسان کو قرآن اور اس کے معارف کے متعلق تدبر و تعقل کی دعوت دیتی ہیں وہ ہم سے کہتی ہیں کہ قرآن کے ظواہر پر اکتفا نہ کرو بلکہ تدبر و تعقل اوراہلبیت (ع) کے علوم و معارف سے استفادہ کے ذریعے معارف قرآن کے دقیق و عمیق مطالب کو حاصل کرو اور علم الٰہی کے اس خزانے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرو۔

اس بنا پر قرآن کے سمجھنے اوراس کے بلند معارف کی تفسیر کرنے کی صلاحیت صرف علوم اہلبیت (ع) سے آشنا اور ماہر و متبحر افراد ہی رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جو بھی تھوڑی شُدبُد پیدا کر لے اس کو اظہار نظر کا حق بھی ہو جائے اور دینی معارف نیز تفسیر و توضیح کے اصول و قواعد کی تھوڑی سی بھی اطلاع رکھے بغیر، دین اور اس کے احکام و

معارف کے بارے میں جدید قرائت کے عنوان سے بول سکے۔

(۱) سورۂ یوسف، آیت ۲ ۔

(۲)سورۂ زخرف، آیت ۳ ۔

۹۶

معارف قرآن کے مفہوم کے مختلف مرتبے

بہت سی روایتوں میں یہ مضمون ملتا ہے کہ قرآن ظاہر و باطن رکھتا ہے او رہر شخص قرآن کے علوم و معارف کی گہرائیاں سمجھنے پر قادر نہیںہے۔ قرآن کوئی معمولی کتاب نہیںہے کہ تمام انسان اس کے تمام معارف درک کرنے پر قادر ہوں۔ جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ قرآن ایک ایسا اتھاہ اور ناپیدا کنار سمندر ہے کہ ہر شخص اپنی غواصی کی قدرت و توانائی کی مقدار بھر اس سے معرفت کے موتی حاصل کرتا ہے اور اپنی استعداد و صلاحیت کی مقدار بھر قرآن کے ظواہر سے آگے بڑھ کر اس کے معارف کی گہرائی تک رسائی پیدا کرتا ہے اور ایک آیت سے مختلف مطالب کو سمجھتا ہے جبکہ مذکورہ مطالب ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہوتے، اور یہ خود قرآن کریم کا معجزہ ہے۔

مثال کے طور پر قرآن کریم فرماتا ہے:(یَا أَیُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الفُقَرآئُ اِلٰی اللّٰهِ وَ اللّٰهُ هُوَ الغَنِیُّ الحَمِیدُ) ۱ جو بات عام لوگ اس آیۂ کریمہ سے سمجھتے ہیں اور جو بات آیت کا ظاہر بیان کرتا ہے یہ ہے کہ اے لوگو! تم سب خداوند متعال کے محتاج ہو اور خداوند متعال بے نیاز اور قابل حمد و ثنا ہے۔

جو بات لفظ ''فقرائ'' سے عام لوگوں کے ذہن میں آتی ہے وہی امر معاش میں انسان کی احتیاجات اور ضروریات ہیں خواہ غذا ہو یا لباس یا مکان یا کوئی بھی چیز کہ خداوند

(۱) سورۂ فاطر، آیت ۱۵ ۔

۹۷

متعال ان کے اسباب و علل کو ایجاد کر کے انسان کی نشو و نما، تکامل اور زندگی کی بقا کا وسیلہ فراہم کرتا ہے۔

معنی و مفہوم کے اس مرتبہ میں کہ جس کو ''مرتبۂ ظاہر'' کہا جاتا ہے، قرآن کا ظاہر روشن، گویا اور واضح ہے اور تمام اہل زبان اسے بخوبی سمجھتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس ظاہری معنی سے زیادہ گہرا کوئی اور دوسرا معنی اس سے حاصل نہ ہو او رمذکورہ آیۂ کریمہ اس عمومی فہم سے بالاتر اس سے زیادہ دقیق مطالب کی طرف اشارہ نہ رکھتی ہو۔ انسان جس قدر کلام کے زیر و بم اور زبان کے ادبی رموز و نکات سے واقف ہوگا اور دوسری طرف، جیسا کہ قرآن تاکید کرتا ہے آیات قرآن کی طرف رجوع کے وقت ان میں تدبر و تعقل کرے گا تو آیات کے ظواہر سے بھی بڑھ کر اور زیادہ دقیق و عمیق نکتے حاصل کرے گا۔

اگر ہم اس آیت کا کچھ غور سے مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم خوراک، لباس، صحت اور مادی وسائل سے کہیں زیادہ خدا کے محتاج ہیں۔ ہم محض فقیر و محتاج ہیںاور خدا غنی مطلق ہے۔ ہم فقیر بالذات ہیں اور خدا غنی بالذات۔ فقیر لغت میںاس شخص کو کہتے ہیں کہ جس کے ''ستون فقرات'' (ریڑھ کی ہڈیاں) شکستہ ہوں اور کھڑے ہونے پر قادر نہ ہو۔ انسان فقیر ہے اس معنی میں کہ اگرچہ تمام مادی امکانات و وسائل اس کے لئے فراہم ہوں پھر بھی انسان کا وجود ناقص ہے۔

جس وقت ہم اس نظر سے اورا س نکتہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے آیت پر غور کریں گے تو سمجھ لیں گے کہ ہم انسانوں کی احتیاج خدا سے خوراک، پوشاک اور تمام مسائل سے بڑھ کر ہے۔ ہم اصل وجود میں خدا کے محتاج ہیں۔ خداوند متعال ہی نے ہم کو پیدا کیا ہے اور اسی نے وجودی اسباب و علل کو ایجاد کر کے انسان کی نشو و نما ، تکامل اور زندگی کی بقا کا وسیلہ مہیا کیا ہے۔ ہم اصل وجود میں او ربالذات محتاج و فقیر ہیں اور خداوند متعال غنی بالذات ہے۔

۹۸

واضح ہے کہ دوسری نظر، پہلی نظر سے زیادہ گہری ہے۔ یہاں پر پہلے معنی کو ظاہر اور دوسرے معنی کو باطن سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے معنی سے بھی زیادہ عمیق معنی یہ ہے کہ تم سب (اے لوگو!) نہ صرف اصل وجود میں فقیر و محتاج ہو بلکہ عین نیاز اور سراپا محتاج ہو۔ تمھارا وجود خداوند متعال کی نسبت عین ربط ہے۔ البتہ اس تیسرے معنی کی حقیقت کا درک کرنا عام عقول کی حد سے باہر ہے۔

بہرحال یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس آیۂ کریمہ کے یہ تینوں معنی ایک دوسرے کے طول میں (یکے بعد دیگرے) ہیں یعنی تینوں معنی اور تفسیر درست اور صحیح ہیں، کوئی بھی دوسرے کے منافی نہیںہے، لیکن گہرائی کے اعتبار سے مذکورہ معانی ایک سطح پر قرار نہیں پاتے اور ایسا نہیں ہے کہ قرآن کے تمام مرتبے سب کے لئے قابل فہم ہوں اور تمام افراد قرآن کریم کے تمام مراتب و بطون سمجھنے کی صلاحیت اور قدرت رکھتے ہوں۔ البتہ مذکورہ بیان کا مقصد اس مطلب کو آسانی سے سمجھانا ہے جو بعض روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ قرآن ظاہر و باطن رکھتا ہے اور تمام لوگ اس الٰہی کتاب کے معارف کی گہرائیوں کو درک کرنے پر قادر نہیں ہیں۔

اس مطلب کی تاکید او ریاد دہانی بھی لازم ہے کہ وہ صرف ائمۂ معصومین (ع) ہیں جو الٰہی تعلیم کے ذریعہ قرآن کے علوم و معارف سے آگاہ ہیں اور اس عظیم آسمانی کتاب کے بطون کے عالم ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم ایک روایت کا ایک حصہ ذکر کر رہے ہیں:

۹۹

''عَن اَبِ جَعفَرٍ عَلَیهِ السَّلامُ قَال : یَا جَابِرُ! إنّ لِلْقُرآنِ بَطنًا وَ لِلبَطنِ بَطن وَ لَهُ ظَهر وَ لِلظَّهرِ ظَهر یَاجَابِرُ! وَ لَیسَ شَیئ أَبعَدَ مِن عُقُولِ الرِّجَالِ مِن تَفسِیرِ القُرآنِ إنّ الآیَةَ یَکُونُ أَوَّلُهَا فِی شَیئٍ وَ آخِرُهَا فِی شَیئٍ وَ هُوَ کَلام مُتَّصِل یُتَصَرَّفُ عَلٰی وُجُوهٍ''۱

حضرت امام محمد باقر ـ جابر کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: ''قرآن باطن رکھتا ہے اور باطن کا بھی باطن رکھتا ہے، نیز قرآن ظاہر رکھتا ہے اور ظاہر کا بھی ظاہر رکھتا ہے، اے جابر! اس نکتہ پر بھی توجہ رکھو کہ لوگوں کی عقلیںاس بات سے عاجز ہیں کہ قرآن کے باطن اور اس کی حقیقت کی تفسیر کرسکیں، اس لئے کہ ممکن ہے آیت کا پہلا حصہ کسی چیز کے بارے میں ہواور آخری حصہ کسی دوسری چیز کے متعلق ہو، اور قرآن ایسا باہم متصل اور پیوستہ کلام ہے جو مختلف معانی رکھنے کی قابلیت رکھتا ہے اس کے معارف و معانی میں کسی قسم کا تعارض یا تنافی نہیں ہوتی ہے''۔

جو بات یہاں پر قابل تاکید ہے یہ ہے کہ معارف قرآن کے باطن اور دقیق مطالب کا سمجھنا سب کے بس کی بات نہیں ہے، البتہ اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن صرف ائمہ او رراسخون فی العلم کے لئے نازل ہوا ہے اور دوسرے لوگ حتی ظاہر قرآن کے سمجھنے سے بھی عاجز ہیں، بلکہ ظاہر قرآن ہر شخص کے لئے اس کی صلاحیت کے

مطابق قابل فہم ہے بشرطیکہ خود پسندی، کج فکری اور اپنے نفسانی میلانات و خواہشات کو چھوڑ دے اور تفسیر بالرائے سے پرہیز کرے۔ قرآن فہمی کے متعلق چند نکات قابل ذکر ہیں اور وہ یہ ہیں۔

(۱) بحار الانوار، ج۹۲،

۱۰۰

تفسیر قرآن یعنی تفصیل احکام، نبی ا ور ائمۂ معصومین سے مخصوص ہے

جیسا کہ اپنی جگہ پر بیان اور ثابت ہوچکا ہے کہ وحی کے حاصل کرنے اور پہنچانے کے علاوہ پیغمبر کا ایک عہدہ، وحی کی توضیح اور الٰہی احکام کی تفصیل بیان کرنا ہے۔ قرآن کریم احکام کے کلیات اور قوانین کے ایک مجموعہ کی صورت میں پیغمبر پر نازل ہوا ہے اور خود ان کے جزئیات اور احکام کی تفصیل و توضیح نہیں بیان کی ہے اور چند موارد کے علاوہ ان کی تفصیل و توضیح پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کے ذمہ قرار دی ہے۔ مثال کے طور پر قرآن کلی صورت میں نماز کا حکم دیتا ہے اور مسلمانوں سے چاہتا ہے کہ نماز پڑھیں، لیکن یہ کہ نماز کیا ہے؟ کتنی رکعت ہے؟ اس کے پڑھنے کا طریقہ کیا ہے؟ اوراس کے شرائط و جزئیات کیا ہیں؟ قرآن میں بیان نہیں ہوئے ہیں۔

اس کلی حکم اور اس جیسے بہت سے احکام کی تفصیل پیغمبر کے ذمہ چھوڑ دی ہے۔اس بنا پر احکام الٰہی کی تفسیر و توضیح پیغمبر کا فرض منصبی ہے۔

۱۰۱

قرآن کریم بھی وحی کی تفسیر و توضیح کے عہدہ کی طرف توجہ دلاتا ہے اور اسے پیغمبر کے فرائض میں سے شمار کرتا ہے:

(وَ أَنْزَلْنَا اِلَیکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیهِم) 1 ہم نے قرآن کو آپ پر نازل کیا تاکہ لوگوں کے لئے ان باتوں کو واضح کریں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں۔

بعید نہیں ہے کہ سورۂ آل عمران کی آیت جیسی آیتوں میں، کہ جن میں تعلیم کو تلاوت کے ساتھ استعمال کیا ہے، تعلیم سے مقصود وحی و قرآن کی تفسیر و توضیح کے متعلق پیغمبر کا عہدہ و منصب بیان کرنا ہو۔

حقیقت میں پیغمبر جس وقت وحی پہنچاتے تھے، اس وقت دواہم فریضے آپ کے ذمے ہوتے تھے، ایک یہ کہ کلام وحی کو لوگوں کے سامنے تلاوت کرتے تھے اور دوسرے یہ کہ آیتوں کے مقاصد و مضامین کی ان کے لئے تفسیر و توضیح فرماتے تھے اور ان کو قرآن کے احکام و معارف سے آشنا کرتے تھے۔

قرآن فرماتا ہے:

(لَقَد مَنَّ اللّٰهُ عَلٰی الْمُؤمِنِینَ اِذ بَعَثَ فِیهِمْ رَسُولاً مِن أَنفُسِهِم یَتلُوا عَلَیهِم آیَاتِهِ وَ یُزَکِّیهِم وَ یُعَلِّمُهُمُ الکِتَابَ وَ الْحِکمَةَ وَ اِنْ کَانُوْا مِنْ قَبلُ لَفِی ضَلالٍ مُبِینٍ)2

''یقینا خدا نے صاحبان ایمان پر احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو ان پر آیات الٰہیہ کی تلاوت کرتا ہے انھیں پاکیزہ بناتا ہے اور

(1) سورۂ نحل ، آیت 44 ۔

(2)سورۂ آل عمران، آیت 164 ۔

۱۰۲

کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگر چہ یہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں مبتلا تھے''۔

اس آیۂ مبارکہ اور اس کے مشابہ دوسری آیتوںمیں پہلا فریضہ یعنی آیات کی تلاوت و قرائت''یَتْلُوْا'' کی تعبیر سے بیان ہوا ہے اور دوسرے فریضہ یعنی احکام و مطالب کی تفسیر و توضیح کے لئے ''تعلیم'' کی تعبیر سے استفادہ کیا گیاہے۔

خلاصہ یہ کہ وحی کی توضیح،احکام الٰہی کی تفصیل اور قرآن کریم کی تفسیر مذکورہ معنی میںایسا کام ہے کہ جس کی صلاحیت پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کے علاوہ کوئی نہیں رکھتا اس لئے کہ صرف یہی ہستیاں ہیں جو خدا داد علم کے ذریعے الٰہی علوم و معارف سے آشنا ہیں۔

علوم اہلبیت کا سمجھنا قرآن سمجھنے کا مقدمہ

اب مذکورہ نکتہ پر توجہ کرنے سے مفسرین کا فریضہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ بیان ہوچکا ہے وحی کی توضیح، احکام کی تفصیل اور آیات قرآن کی تفسیر کا عہدہ او راس کی صلاحیت دراصل پیغمبر کو حاصل ہے اور آنحضرت نے اپنی مبارک زندگی کے زمانہ میں جہاں تک ممکن تھا لوگوں کو قرآن کے معارف سے آشنا کیا۔ اس زمانہ میں مفسرین کا بھی فریضہ ہے کہ ان روایات و احادیث کی طرف رجوع کریں جو صحیح اسناد کے ساتھ پیغمبر سے اس سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں اور ان کی بنیاد پر مربوط آیتوں پر توجہ اور غور و فکر کریں اور اپنی فکر و نظر کو پیغمبر کی توضیح و تفسیر کے حدود ہی کے اندر رکھیں۔ اور جہاں آنحضرت نے اس ثقل اکبر اور قرآن مستحکم کی تفسیر و توضیح نہ کی ہو وہاں ثقل اصغر یعنی اہلبیت اور ائمۂ معصومین (ع) سے تمسک کریں۔

۱۰۳

اس سلسلہ میں بھی دینی علوم و معارف کے ماہر و عالم افراد کا فریضہ ہے کہ ایسی احادیث اور روایات کے ذریعہ قرآن کریم کو سمجھا جائے جن کی سند صحیح ہو اور وہ مشکل کو حل کرنے والی ہوں۔

اس بنا پر سب سے پہلا معیار قرآن اور معارف دین کے صحیح سمجھنے میں وہ توضیح و تفسیر ہے جو پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) سے وارد ہوئی ہے۔ نتیجہ میں ایک مفسر کا اولین اور اصلی فریضہ اس تفسیر کا سمجھنا اور بیان کرنا ہے جو پیغمبر اور ائمۂ طاہرین (ع) سے وارد ہوئی ہے اس لئے کہ صرف علوم اہلبیت (ع) ہی کی روشنی میں معارف قرآن کو سمجھا جاسکتاہے۔

قرآن کی تفسیر قرآن سے

تیسرا نکتہ جو کہ کلام وحی کے صحیح سمجھنے میں نہایت اہمیت کا حامل ہے اور جس کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے، قرآن سے قرآن کی تفسیر کا مسئلہ اور آیات کے درمیان ارتباط کی طرف توجہ دیناہے۔ اگر چہ قرآن کی آیتیں ظاہری اعتبار سے الگ الگ صورت میں اور ان میں ہر ایک یا کچھ آیتیں ایک خاص مطلب کو بیان کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، لیکن صحیح فہم و تفسیر اس صورت میں وجود میں آتی ہے کہ ایک دوسرے سے مرتبط او رمتعلق آیتوں پر توجہ دی جائے۔ بہت سی آیات قرآن ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں اور ایک دوسرے کے مضامین و مطالب کے صدق پر گواہی دیتی ہیں۔

۱۰۴

امیر المومنین حضرت علی ـ اس سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

''کِتَابُ اللّٰهِ تُبصِرُونَ بِهِ وَ تَنطِقُونَ بِهِ وَ تَسمَعُونَ بِهِ وَ یَنطِقُ بَعضُهُ بِبَعضٍ وَ یَشْهَدُ بَعضُهُ عَلٰی بَعضٍ وَ لایَختَلِفُ فِی اللّٰهِ وَ لایُخَالِفُ بِصَاحِبِهِ عَنِ اللّٰهِ'' 1

یہ کتاب خدا ہے جو تمھیں حق کا بینا، گویا او رشنوا بناتی ہے، اس کا بعض حصہ بعض دوسرے حصوں کی تفسیر و توضیح کرتا ہے اور ایک دوسرے کی گواہی دیتاہے یہ قرآن خدا کے بارے میں اختلاف نہیں رکھتا ہے اور اپنے ساتھی کو خدا سے الگ نہیں کرتا ہے۔

قرآن سے قرآن کی تفسیر کے موارد میں سے نمونہ کے طور پر سورۂ شوریٰ کی گیارہویں آیت(لَیسَ کَمِثلِهِ شَیئ وَ هُوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ) اور سورۂ فتح کی دسویں آیت(یَدُ اللّٰهِ فَوقَ أَیدِیهِم) کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔

''لَیسَ کَمِثلِهِ شَیئ'' قرآن کے محکمات میں سے اور اس کا معنی روشن و واضح ہے یہ آیت بتاتی ہے کہ کوئی چیز خدا کے مانند نہیںہے، خداوند متعال بے مثل حقیقت ہے۔ آیۂ(یَدُ اللّٰهِ فَوقَ أَیدِیهِمْ) بتاتی ہے کہ خدا کا ہاتھ تمام لوگوں کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ اگرچہ اس آیت نے خداوند تعالی کی طرف ہاتھ کی نسبت دی ہے لیکن آیۂ''لَیسَ کَمِثلِهِ شَیئ'' اس ظاہری معنی کی نفی کرتی ہے اور اس کی طرف توجہ کرنے سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ''ید'' سے مراد اس کا ظاہری معنی یعنی ''ہاتھ'' نہیں ہے، بلکہ کنائی معنی مثلاً قدرت وغیرہ مقصودہے۔ اس بنا پر آیۂ''یَدُ اللّٰهِ فَوقَ أَیدِیهِم'' کی تفسیر و توضیح

(1)نہج البلاغہ، خطبہ 133 ۔

۱۰۵

آیۂ''لَیسَ کَمِثلِهِ شَیئ'' کی طرف توجہ کئے بغیر تفسیر کی صحیح روش سے خارج ہونا ہے اور ممکن ہے خطا سرزد ہو جائے اور غلط تفسیر کی بنا پر خدا کی جسمانی او رجھوٹی تصویر دکھا دی جائے۔

لہٰذا قرآن کریم کی تفسیر میں اس نکتہ کی طرف توجہ دینا لازم ہے کہ آیات کو ایک دوسرے سے مرتبط ہونے میں مورد توجہ قرار دیں اور ان کا مطلب خود قرآن کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کریں۔

قرآن فہمی میں عقلائی اصول و قواعد کی رعایت

چوتھا نکتہ کہ جس کی طرف تفسیر قرآن میں توجہ دینا لازم ہے، قرآن کریم کے صحیح سمجھنے میں عقلائی محاورہ کے اصول و قواعد کی رعایت کرنا ہے۔ خصوصاً جس وقت کہ کسی آیت کے متعلق پیغمبر یاائمۂ معصومین سے کوئی صحیح روایت اور واضح بیان دسترس میں نہ ہو تو آیات قرآن کے صحیح سمجھنے میں عقلائی محاورہ کے اصول و قواعد کی رعایت کی ضرورت دوگنی ہوجاتی ہے۔

اسی موقع پر ان بزرگان دین اور مفسرین اور علوم اہلبیت سے آشنا علماء کا کردار اور اثر، کہ جنھوں نے اپنی عمر معارف قرآن اور علوم اہلبیت کے سمجھنے میں گزاری ہے، قرآن کے صحیح سمجھنے اور معارف دین کی توضیح میں ظاہر ہوتا ہے۔ وہی حضرات عقلائی محاورہ کے اصولوں کے مطابق، قرآن کے عام و خاص کی تشخیص دیتے ہیں اور ہر ایک کے معنی کے حدود معین کرتے ہیں، مطلق و مقید کی نشاندہی کرتے ہیں اور آیات کی ایک دوسرے سے تفسیر کرتے ہیں، ایک آیت کے دوسری آیت پر ناظر اور اس سے متعلق ہونے کی تعیین کرتے ہیں اور تفسیر کے وقت اس پر توجہ رکھتے ہیں۔

۱۰۶

مفسرین کی فہم کا ان کی صلاحیتوں کے مطابق ہونا

اس بحث میں ایک دوسرا نکتہ کہ جس کی طرف توجہ دینا لازم ہے قرآن اور معارف دین سمجھنے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام اور مختلف علمی شعبوں میں سب کے لئے قابل قبول ہے اور وہ فہم کے مراتب کا پایا جانا ہے اور صحیح سمجھنے میں اس کا ذہنی قوت اور کوشش و کاوش کے مطابق ہونا ہے اس کی توضیح یہ ہے کہ:

فقہی مباحث میں ایک مسئلہ ہے کہ جس کا تقریباً تمام فقہاء فتویٰ دیتے ہیںاور مقلِّد کا فریضہ سمجھتے ہیں، وہ اعلم کی تقلید ہے۔ اس بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ فقہ و استنباط احکام کے شعبے میں مہارت اور فقاہت کے بہت سے مرتبے ہیںاور ہر مکلف کا فریضہ ہے کہ فقیہ اعلم یعنی اس مرجع کی تقلید کرے جو احکام کے استنباط میں دوسروں سے زیادہ فہم، مہارت اور فقاہت کا حامل ہو۔ البتہ دوسرے مراجع جو کہ قوت استنباط کے اعتبار سے اس فقیہ اعلم کی حد میں نہیں ہیں وہ بھی فقیہ اور مجتہد ہیں لیکن وہ بعد کے مراتب میں قرار پاتے ہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فقہاء کا یہ فتویٰ کہ اعلم کی تقلید لازم ہے، ایک عقلائی سیرت و روش سے صادر ہوا ہے۔ بالکل جیسے اس ماہر اور اسپشلسٹ ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا جو برسوں سے ڈاکٹری اور طبابت کا تجربہ رکھتا ہے اور اسے اس شخص پر ترجیح دینا کہ جس نے آج ہی ڈاکٹری کی سند لی ہے، ایک عقلائی سیرت و روش ہے او راس روش کے برخلاف عمل کرنا عقلاء کے نزدیک مذموم ہے۔

۱۰۷

معارف قرآن کی باریکیاں سمجھنے اوران کی تشخیص کی صلاحیت علوم اہلبیت (ع) کے عالم اور ماہر افراد کے علاوہ کسی کو حاصل نہیںہے کہ جنھوں نے اپنی زندگی قرآن اور دینی معارف کے سمجھنے میں صرف کی ہے۔

قرآن فہمی اور اس آسمانی کتاب کی تفسیر کے مراتب کے ا عتبار سے واضح بات ہے کہ مذکورہ امور اور نکات پر جس قدر توجہ اور غور کیا جائے گا آیات الٰہی کی تفسیر میں اتنا ہی غلطیوں کا احتمال کم ہوگا اور ہم اس آسمانی کتاب کو زیادہ سے زیادہ صحیح سمجھیں گے۔

کلامی قرائن پر توجہ کی ضرورت

چھٹا نکتہ کہ جس کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں یہ ہے کہ کلام خدا کے قرائن اور آیات کی شان نزول پر توجہ دینا لازم ہے۔ اگرچہ قرآن کریم تمام زمانوں او رنسلوں کے لئے نازل ہوا ہے اور اس کے مخاطب ہر زمانے کے لوگ ہیں، لیکن قرائن، شان نزول اور وہ موقع و محل کہ جن میں آیات کریمہ نازل ہوئی ہیں وہ اولین مخاطبین اور نزول قرآن کے زمانہ کے لوگوں کے لئے ایسی واضح و روشن ہوتی تھیں کہ اس کے معنی و تفسیر میں کسی شک وشبہہ اور اختلاف کی گنجائش باقی نہ رہتی تھی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی آیت مبہم اور غیر واضح نظر آتی تھی تو لوگوں کا پیغمبر تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ لیکن آج زمانۂ نزول سے دور ہونے اور بعض قرائن اور شان نزول کے مخفی ہوجانے کے امکان سے قرآن کے صحیح سمجھنے میں کوشش و کاوش کی ضرورت کئی گنا زیادہ اہمیت کی حامل ہوگئی ہے۔

۱۰۸

دوسری طرف قرآن کریم میں استعمال شدہ الفاظ کے حقیقی و لغوی معنیٰ کی اطلاع، ان مسائل میں سے ہے کہ جن کے بغیر قرآن کا صحیح سمجھنا اوراس کی درست تفسیر کرنا ممکن نہیںہے۔

ممکن ہے کسی معنی کی تبدیلی سے غفلت جو کبھی کسی زبان میں مرور زمانہ سے واقع ہوتی ہے، غلطی اور بدفہمی کا باعث بن جائے۔

مثال کے طور پر لفظ ''تقیہ'' کا معنی و مفہوم سب کے لئے واضح ہے۔ عام طور پر اس لفظ سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ کوئی شخص اپنا عقیدہ و مذہب مخفی رکھے اور ایسا ظاہر کرے کہ اس کا مخاطب اس کے حقیقی عقیدہ و مذہب سے آگاہ نہ ہو، اگرچہ تقیہ کے لغوی معنی پرہیزگاری کے ہیں اور قرآن و نہج البلاغہ میں ان ہی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ولو لفظ تقیہ قرآن میں نہیں ہے لیکن لفظ ''تقاة'' جو کہ تقیہ اور تقویٰ کے مترادف ہے، آیۂ(اِتَّقُواْ اللّٰهَ حَقَّ تُقَاتِهِ) 1 میں آیا ہے۔

قرآن کریم اور کلامی محاسن

اگر چہ قرآن کریم، جیسا کہ خود کہتا ہے، واضح اور آشکار زبان میں نازل ہوا ہے اور ہر شخص اپنی سمجھ او رصلاحیت کے مطابق اس آسمانی کتاب سے مستفید ہوسکتا ہے۔ لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ قرآن سب سے زیادہ فصیح و بلیغ اور کلام و بیان کے تمام محاسن (خوبیوں) سے آراستہ ہے اور واضح ہے کہ مذکورہ نکات کی طرف توجہ دینا بھی قرآن کریم سے صحیح استفادہ کے بنیادی شرائط میں سے ہے۔

(1)سورۂ آل عمران، آیت 102 ۔

۱۰۹

قرآن کریم میں کہیں کہیں ایسا ہے کہ ایک آیت کسی حکم کو عام اور کلی صورت میں بیان کرتی ہے اور دوسری آیت اس حکم کے حدود کو واضح کرتی ہے۔ یا ایک آیت میں کسی حکم کو مطلق طور پر بیان کیا ہے اور دوسری آیت سے اس کی قید و شرط معلوم ہوتی ہے، مثال ، کنایہ، استعارہ، مجاز وغیرہ کے استعمال کے ذریعہ، مطالب کا بیان ان اسلوبوں میں سے ہے کہ جن کا استعمال قرآن کریم میں ہوا ہے، اور چونکہ قرآن کے مخاطب انسان ہیں اور مذکورہ طرز و اسلوب، مقصود و مطلب بیان کرنے میں انسانی اور عقلائی کلام کے محاسن میں سے سمجھے جاتے ہیں، لہٰذا قرآن بھی مذکورہ اسالیب کو اپنے احکام و معارف کے بیان میں بہترین طرز کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔

اس بنا پر قرآن میں استعمال شدہ اسالیب وہی اسالیب ہیں جو عقلاء اپنے مقاصد و مطالب بیان کرنے میں استعمال کرتے ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ کلامی و بیانی فنون کے استعمال کی جو نوع اور کیفیت قرآن میں پائی جاتی ہے و ہ مرتبہ، حسن اور طرز و اسلوب کے اعتبار سے ، انسانی کلام میں پائے جانے والے محاسن کے استعمال سے مقائسہ اور موازنہ کے قابل نہیںہے۔

اس بات کی دلیل بھی یہ ہے کہ قرآن کریم خداوند متعال کا کلام ہے جو سب سے زیادہ فصیح و بلیغ بیان کے ساتھ پیغمبر پر نازل ہوا ہے کہ جس نے فن فصاحت و بلاغت کے اصول انسان کو سکھائے ہیں۔ اس الٰہی کتاب نے سب سے زیادہ خوبصورت اور فصیح و بلیغ بیان کے ساتھ لوگوں کو توحید، ہدایت، تکامل اور سعادت و کامیابی کی طرف دعوت دی ہے۔

اس فصل کے آخری حصہ کے مباحث کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ: اس سے پہلے ذکر شدہ نکات کے ساتھ قرآن میں کلامی محاسن اور نکات کی طرف توجہ دینا، اس کے سمجھنے کے شرائط میں سے ہے کہ ان کی طرف توجہ نہ دینا یقینا غلط فہمی اور غلط تفسیر کامستلزم ہے۔

۱۱۰

تیسری فصل

قرآن اور ثقافتی حملہ

حق و باطل کا تضایف1

گزشتہ دونوں فصلوں میں بیان کئے گئے مطالب کے تحت جس حد تک کہ کتاب کی غرض و غایت حاصل ہو، قرآن کی اہمیت و فضیلت کے متعلق، نیز کمال و سعادت کی طرف انسانوں کی ہدایت کے لئے نہج البلاغہ کی روشنی میں اس الٰہی کتاب کے نقش و اثر کے متعلق، کچھ توضیحات مختصر طور پر ذکر کی گئیں۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا مذکورہ مطالب کی رعایت قرآن کریم سے استفادہ اور پیغمبر عظیم الشان کی اس عظیم میراث، ثقل اکبر سے تمسک کے لئے کافی ہے؟

ممکن ہے جواب دیا جائے کہ اگر ان تمام نکتوں کی رعایت کی جائے جو کہ قرآن کے صحیح سمجھنے میں مؤثر ہیں تو لازمی طور پر قرآن کے احکام و معارف جیسا کہ ہیں سمجھے جائیں گے اور معاشرہ کا کلچر قرآن کریم کی ہدایات کے مطابق وجود میں آئے گا اور دینی حکومت کے زیر سایہ لوگ قرآن کی پناہ میں انحراف و گمراہی کے خطرے سے مخفوظ رہیں گے، اس لئے کہ قرآن سے تمسک اس کے معارف کا صحیح سمجھنا اور قرآنی ہدایات کی بنیاد پر عمل کرنا ہے۔

(1) تضایف یعنی دوایسے وجود جن کا تعقل ایک ساتھ ہواو روہ دونوں ایک موضوع میں ایک ہی جہت سے جمع نہ ہوسکتے ہوں لیکن دونوں کا ایک ساتھ مرتفع ہونا ممکن ہو جیسے باپ اور بیٹا، علت و معلول، تحت و فوق، تقدم و تأخر وغیرہ ۔

۱۱۱

مذکورہ جواب اگر چہ کچھ حدتک قرآن کی فردی ہدایت و رہنمائی کے لئے صحیح سمجھا جاسکتا ہے، لیکن اس مسئلہ کا مکمل تحقق اس صورت میںہے جبکہ قرآن کے لازمی اثر کی طرف بڑے پیمانے پر نظر کی جائے نیز اس کی اہمیت اور عظمت پر، گمراہ کن افکار اور دینی ثقافت پر حملہ آور افراد کے مقابلہ میں توجہ دی جائے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ مخالفان قرآن کے گمراہ کن افکار کی شناخت کے بغیر، آشکارا طور پر ان کا مقابلہ کئے بغیر اور ان کی فکری سازشوں کو برملا کئے بغیر، معاشرہ کی ہدایت اور قرآن کے مکتب فکر کو حاکم کرنا دینی اعتقادات و اقدار کی بنیاد پر کچھ آسان کام نہیںہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے اکثر مواقع پر غفلت برتی جاتی ہے۔

اس بنا پر قرآن کے سمجھنے اور اس کی ہدایات پر عمل کرنے میں مسلسل کوشش کے ذریعہ کسی وقت بھی قرآن کے دشمنوں اور مخالفوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔

قرآن سے تمسک کرنا اوراس آسمانی کتاب کو حَکَم قرار دینا، قرآن کے خلاف گمراہ کن افکار کی شناخت او ران سے مقابلہ کے بغیر ممکن نہیںہے۔

حق و باطل جس طرح کہ مقام شناخت میں متضایف ہیں اسی طرح مقام عمل میں بھی متضایف ہیں، یعنی آپ اگر حق کو پہچان لیں گے تو باطل کو بھی پہچان لیں گے، باطل کی شناخت آپ کو حق کی شناخت میں مدد دیتی ہے۔

قرآن کو عملی طور پر معاشرہ میں حاکم قرار دینا، مخالفین اور ان کے گمراہ کن افکار کی شناخت کے بغیر نیز لوگوں کے دینی کلچر کو کمزور کرنے میںان کی شیطانی سازشوں سے مقابلہ کے بغیر ممکن نہیںہے۔

۱۱۲

ہم اس سلسلہ میں پہلے نہج البلاغہ میں مذکور حضرت علی ـ کے ارشاد کو پیش کر تے ہیں پھر معاشرہ کے افکار کو منحرف کرنے میں مخالفین قرآن کی کارستانیوں اور ملحدین کے شبہوں کو بیان کر کے تمام لوگوں کو خصوصاً معاشرہ کے جوان اور تعلیم یافتہ طبقہ کو دشمنوں کے شیطانی مکر و فریب سے آشنا کریں گے۔

قرآن اور دینی مکتب فکر کے مخالفین اور دشمنوں کی شناخت اس قدر اہم ہے کہ امیر المومنین حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:

''وَ اعْلَمُوْا إنّکُم لَن تَعرِفُوا الرُّشدَ حَتَّی تَعرِفُوا الَّذِی تَرَکَهُ، وَ لَن تَأخُذُوا بِمِیثَاقِ الکِتَابِ حَتَّی تَعرِفُوا الَّذِی نَقَضَهُ، وَ لَن تَمَسَّکُوا بِهِ حَتَّی تَعرِفُوا الَّذِی نَبَذَهُ فَالْتَمِسُوا ذٰلِکَ مِن عِندِ اَهلِهِ فَإنّهُم عیَشُ الْعِلمِ وَ مَوتُ الجَهلِ'' 1

تم جان لو! کہ ہدایت کو اس وقت تک نہیں پہچان سکتے جب تک اسے چھوڑنے والوں کو نہ پہچان لو اور کتاب خدا کے عہد و پیمان کے پابند اس وقت تک نہیں ہوسکتے جب تک کہ اس کے توڑنے والوں کی شناخت نہ کرلو اور اس سے تمسک اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اسے نظر انداز کرنے والوں کی معرفت حاصل نہ کرلو، پھر فرماتے ہیں: قرآن، اس کی تفسیر اور اس کے معارف کو اہل قرآن (اہلبیت طاہرین) سے حاصل کرو اس لئے کہ یہی حضرات الٰہی علوم و معارف کی زندگی اور جہل و نادانی کی موت ہیں۔

(1) نہج البلاغہ، خطبہ 147 ۔

۱۱۳

امیر المومنین حضرت علی ـ کا یہ روشن بیان جو کہ دشمن شناسی، گمراہ کن افکار سے آشنائی کے لزوم اور گمراہوں کے پہچاننے کی ضرورت پر مبنی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی علماء اور الٰہی علوم و معارف کے مبلغین کا فریضہ دوگنا ہے، اس لئے کہ گمراہ کن فکروں اور ملحدین کے شبہوں کو لوگوں کے افکار سے خصوصاً ان جوانوں کے افکار سے دور کرنا، جو کہ دینی علوم و معارف کے اعتبار سے کافی علمی سطح کے حامل نہیںہیں، تبلیغ اور قرآنی و دینی مکتب فکر کو حاکمیت بخشنے کے بنیادی کاموں میں سے ہے اور اس کے بغیر مطلوب اور لازمی نتیجہ کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔

اس بات کی وضاحت تین حصوں میں بیان کرتے ہیں: ۔ مخالفین کے شبہات ۔ مخالفین کی سازشیں ۔ ان شبہات کے پیش کرنے کا مقصد۔

اگر چہ قرآن ایسی عظیم نعمت ہے جو خداوند متعال نے اپنے بندوں کو عطا فرمائی ہے اور اگرچہ خدا نے خود، شیطانوں کی دستبرد اور شیطان صفت انسانوں کی تحریف سے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، لیکن داستان یہیں پر ختم نہیں ہوتی، اولاد آدم کا یہ قسم خوردہ دشمن، شیطان بھی ہر زمانہ میں ان لوگوں پر حاکم حالات، روحیات و نفسیات کے مطابق ،جو کہ اجتماعی حیثیتوں کے اعتبار سے لوگوں کے ذہنوں پر اثر ڈالنے کی قدرت رکھتے ہیں، نفسانی خواہشات کے حصول کے لئے ان کے دلوں میں شک پیدا کر دیتا ہے تاکہ ان کے ذریعہ تمام لوگوں کواپنے پیچھے کھینچ لے اور قرآن و دین سے منحرف کردے، چونکہ قرآن انسانوں کی نجات، ہدایت اور سعادت کا سب سے بڑا وسیلہ ہے، اس لئے شیطان کی پوری آرزو لوگوں کو قرآن و دین سے جدا کرنا ہے۔

۱۱۴

اس راستے میں شیطان کا ایک کام ان لوگوں کو بہکانا اور ان کے اندر وسوسہ پیدا کرنا ہے جو کہ دین و قرآن کے متعلق شک و شبہہ پیدا کر کے لوگوں کے ایمان و اعتقاد میں خلل پیدا کرسکتے ہیں۔

شیطان او رشیطان صفت افراد کی فعالیت قرآن کریم سے مقابلہ کرنے میں نزول قرآن کی ابتدا ہی سے پائی جاتی ہے یہ فعالیتیں آیات الٰہی کے سننے سے ممانعت اور کان میں روئی ڈالنے کی تاکید اور پیغمبر پر تہمت و افترا پردازی سے شروع ہوئیں اور آج بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہیں اور اس کے بعد بھی جاری رہیں گی۔

اس سلسلے میں پوری تاریخ میں قرآن سے مقابلہ کی روش کے جزئیات ذکر کرنے سے صرف نظر کرتے ہیں اوربحث کے طولانی ہونے کے خوف سے ان بعض شبہوں کو ذکر کر کے، جو کہ آج معاشرہ کے درمیان دینی مکتب فکر اور لوگوں، خصوصاً جوانوں کے مذہبی عقائد کو کمزور کرنے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ قارئین اور جوانوں کے ذہنوں کو روشن کریں تاکہ ان شیطانی سازشوں سے آگاہ ہو کر دشمنوں کے ثقافتی حملوں کا مقابلہ کرسکیں۔

چونکہ قرآن سے مقابلہ کرنے میں شیاطین، اس کو نابود اور فنا کرنے سے مایوس ہوگئے، لہٰذا طے کرلیاکہ لوگوں کواس کے مطالب کی آشنائی سے محروم کردیں۔

۱۱۵

قرآن کے مخالفین کئی صدیوں سے مسلمانوں خصوصاً شیعوں کے درمیان ایسی تبلیغ کرتے رہے کہ ہمیں قرآن سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہئے، اس لئے کہ قرآن ہمارے لئے قابل فہم نہیں ہے اور ہم قرآن کے باطن سے مطلع نہیں ہیں، اس بنا پر قرآن کے ظاہر سے استناد نہیں کیا جاسکتا۔

وہ یہ فکر ایجاد کر کے کہ ہم قرآن کے سمجھنے پر قادر نہیں ہیں، کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کو قرآن کے استفادہ سے محروم کردیں اور نتیجہ میں قرآن کو مسلمانوں کی زندگی سے نکال دیں۔

اس کے دوران اگر چہ قرآن کا ظاہری احترام ، اس کی تلاوت و قرائت، اس کو بوسہ لینے اور مقدس و محترم سمجھنے کی صورت میں مسلمانوں کے درمیان رائج تھا، لیکن جو کچھ قرآن کے دشمنوں اور مخالفوں کا مقصد ہے وہ لوگوں کو قرآن کے مطالب سے اور اس آسمانی کتاب کی ہدایات پر عمل کرنے سے محروم کرنا ہے۔

آج روشن فکری کے دعویدار افراد جو کہ اسلامی علوم و معارف سے بالکل بے بہرہ ہیں سب سے زیادہ گمراہ کن ان شیطانی شبہات او ر افکار کو جو کہ صدیوں پہلے سے مغرب میں دوسرے ادیان کی تحریف شدہ کتابوں کے متعلق پیش کئے گئے ہیں، نئی فکر کے نام سے ثقافتی اور علمی معاشروں میں پیش کرتے ہیں، اور علم و دانش کے پیاسے نیز تحصیل علم میں مشغول طبقہ کو تحت تاثیر قرار دیکر اپنے خیال میں ان کے اعتقادی ستون کو کمزور کرتے ہیں۔ وہ اس بات سے غافل ہیں کہ مسلمان خصوصاً تحصیل علم میں مشغول جوان اور ذہین و زیرک تربیت یافتہ افراد، ان کے بے بنیاد، عاریتی اور عقل و منطق سے دور افکار کے بطلان کو جان لیں گے۔

مسلمان اور دیندار تربیت یافتہ افراد کے عقائد و افکار عقل و منطق پر مبنی اور پیغمبر او رائمۂ معصومین (ع) کے علوم سے اخذ شدہ ہیں ان کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے اور جب بھی کوئی مسلمان فکری اور اعتقادی شعبوں میں گمراہ کن افکار سے روبرو ہوتا ہے تو سب سے پہلے ان کو دینی علوم و معارف کے ماہرین اور علماء کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ ان سے صحیح اور منطقی جواب دریافت کرے۔

۱۱۶

دین کی حقیقت حاصل نہ ہونے کا شبہہ

''حقیقت دین حاصل نہ ہونے'' کا شبہہ نہایت شیطانی مقاصد کے تحت پیش کیا گیا ہے اور اس کے نتائج بہت ہی تباہ کن ہیں کہ جن کے بیان کرنے کی گنجائش فی الحا ل نہیں ہے، یہاں پر ہم اس کی وضاحت اور اس کے بعض پوشیدہ پہلوؤ ں اور لوازم کو صریح طور پر بیان کر کے فیصلہ خود آپ حضرات کے حوالے کرتے ہیں۔

چونکہ ہماری بحث خصوصاً قرآن کے بارے میں ہے لہٰذا مذکورہ شبہہ کے متعلق خصوصاً قرآن کے بارے میں بحث و تحقیق کریں گے۔ یہ شبہہ قرآن فہمی کے بارے میں طرح طرح کی شکلوں اور مختلف سطحوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیتوں کی مختلف تفسیریں ہیں اور مفسرین ان کی تفسیر و توضیح میں اتفاق رائے نہیں رکھتے اور ہم جس قدر بھی صحیح نظریہ حاصل کرنے کے لئے تحقیق کریں، جو کہ قرآن کے حقیقی مطلب کو بیان کرنے والی ہو، آخر کار صرف ایک مفسر کی تفسیر اور نظریہ ہی کو قبول کریں گے کہ جس کو دوسرے مفسرین قرآن کی تفسیر نہیں سمجھتے۔ اس بنا پر قرآن کے حقیقی مطلب کا حصول ممکن نہیںہے۔

یقینا یہ شبہہ پیش کرنے والے چاہتے ہیں کہ مذکورہ نظریہ پیش کر کے ان لوگوں کو شک و شبہہ میں مبتلا کردیں جو کہ قوی فکر و نظر کے حامل نہیںہیںاور دینی معارف کا کافی مطالعہ، جواب دینے اور تجزیہ و تحقیق کی قدرت نہیں رکھتے۔ وہ لوگ غلط خیالات کی بنا پر یہ سوچتے ہیں کہ مسلمانوںکی فکری و اعتقادی بنیادیں اندھی تقلید کی بنیاد پر استوار ہیں کہ ان خیال آرائیوں سے وہ ویران و برباد ہو جائیں گی۔ چونکہ وہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ جس وقت فکر، عقل اور منطق کی بات آتی ہے تو صرف قرآن اوراس الٰہی کتاب کے معارف ہی کی تصدیق عقل سلیم اور صحیح منطق کرتی ہے، اور ہر حق پرست انسان صدق دل سے اس کو قبول کرتا ہے، لہٰذا کوشش کرتے ہیں کہ مذکورہ شبہہ اور زیادہ گہری صورت میں پیش کریں تاکہ اپنے خیال میں اورزیادہ کاری ضرب، دینی فکر پر لگائیں۔ وہ اس سے غافل ہیں کہ ذہین و زیرک مسلمان مفکرین ان کے نظریہ کا تجزیہ کرکے اس طرح کے نظریہ کے باطل نتائج و لوازم کو بھانپ لیں گے کہ جس کا انجام شکاکیت کے گڑھے میں گرنے کے علاوہ کچھ نہیںہے۔

۱۱۷

بہرحال جیسا کہ مذکورہ شبہہ بیان کیا گیا اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ شبہہ پیش کرنے والے معتقد ہیں کہ قرآن کریم ثابت حقیقتوں کا مالک ہے لیکن چونکہ مفسرین قرآن کی تفسیر میں اتفاق رائے نہیں رکھتے، لہٰذا ہماری رسائی قرآن کے حقیقی مطالب تک نہیں ہوتی۔ اس بنا پر قرآن سے استفادہ ممکن نہیں ہے اور اسے بالائے طاق رکھ دینا چاہئے۔

لیکن جب قرآن کریم کی صریح و روشن آیتوں سے روبرو ہوتے ہیں اوران کے ظہور اور واضح معنی میں کوئی خدشہ وارد نہیں کرسکتے نیز اپنے کو عقل و منطق اور قرآن کے محکمات کے سامنے عاجز پاتے ہیں تو قدم اور آگے بڑھا کر شبہہ دوسری طرح سے پیش کرتے ہیں۔ وہ لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے یعنی قرآن اور دینی اعتقادات و اقدار کو بے اعتبار کرنے کے لئے اپنی پہلی بات سے، جو کہ قرآن اوردینی معارف سمجھنے کے عدم امکان پر مبنی ہے، پیترا بدل کر پھر مقابلہ میں آجاتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے پہلے موقف میں دینی معارف اور قرآن کے کلام کے لئے ذاتی اور حقیقی معنی قبول کرنے کے باوجود ان کو انسان کی دسترس سے مافوق سمجھتے تھے۔ لیکن اس نئے موقف میں قرآن اوردینی تعلیمات و ارشادات کو حقیقت سے خالی سمجھ کر دینی معارف و احکام کو آیات سے افراد کی ذہنی اپج بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نہ صرف قرآن بلکہ تمام آسمانی کتابیںاس طرح نازل ہوئی ہیں کہ جن کی تفسیر مختلف طریقوں سے ہوسکتی ہے اور وہ تمام مختلف تفسیریں اور متفاوت فکریں صحیح ہوسکتی ہیں۔

اگر سوال کیا جائے کہ اس صورت میں بھی ان تفسیروں میں آپس میں اتنا اختلاف کیوں ہے؟

وہ لوگ جواب دیں گے کہ تفسیروں کا اختلاف اگرچہ تضاد و تناقض کی حد تک ہو تو بھی اس سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی، اس لئے کہ اصلاً قرآن اوردین نے کوئی واقعیت و حقیقت بیان نہیں کی ہے، بلکہ صرف خالی الفاظ اور جملے، وحی الٰہی کے نام سے پیغمبر پر نازل ہوئے ہیں اور ان کی طرف رجوع کے وقت ہر شخص کے ذہن میں ایک مطلب پیدا ہوتا ہے اور جو مطلب پیدا ہوتا ہے وہ خود انسان کی سمجھ ہے اور چونکہ انسان مختلف ذہنیتوں کے حامل ہیں نتیجہ میں ان کے افکار بھی مختلف ہیں۔

۱۱۸

انسان قرآن کی آیات و الفاظ اوردینی تعلیمات سے جو کچھ سمجھتے ہیں اسے دین کہتے ہیں۔ اور چونکہ قرآن اور دینی تعلیمات و ارشادات کسی واقعیت کو بیان کرنے والے نہیں ہیں، ان کی متفاوت تفسیریں بھی تصدیق و تکذیب کے قابل نہیںہیں۔ لہٰذا تما م افکار صحیح ہیں، کیونکہ قرآن ایسے ثابت حقائق بیان نہیں کرتا کہ ان افہام اور تفسیروں میں سے صرف کوئی ایک ہی اس کے مطابق ہو۔

'' سیدھے راستوں'' یا ''دین کی مختلف قرائتوں'' کا نظریہ رکھنے والے دین کی بنیاد و اساسی یعنی وحی پر حملہ کرنے کے لئے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نہ صرف انسان، قرآن اور وحی الٰہی سے کوئی ثابت حقیقت درک نہیں کرتا اور ہر شخص اپنی ذہنیت کو وحی کے نام سے بیان اور تفسیر کرتا ہے، بلکہ پیغمبر نے بھی (معاذ اللہ) انسانی صفات کا حامل ہونے کے سبب اپنے درک اور فہم کو وحی کے نام سے لوگوں کے لئے بیان کیا ہے۔

اس بنا پر پیغمبر کی فہم بھی آنحضرت کے زمانی و مکانی خاص حالات اور ذہنیت کے مطابق اور شخصی و ذاتی فہم تھی کہ جسے الفاظ و آیات کی صورت میں بیان کیا ہے۔ لہٰذا قرآن کو کلام خدا اور وحی الٰہی نہیں سمجھا جاسکتا، بلکہ کہنا چاہئے کہ قرآن پیغمبر کا کلام ہے(نعوذ باللہ)۔

یقینا آپ سوال کریں گے کہ مندرجہ ذیل آیات کے بارے میں کیا کہا جائے ؟

(وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الهَویٰ اِن هُوَ ِلاَّ وَحْی یُّوحیٰ) 1 پیغمبر اپنی خواہش سے کبھی کلام نہیں کرتے، آپ کا کلام وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے۔

(1)سورۂ نجم، آیت 3، 4 ۔

۱۱۹

یا(تَنزِیل مِن رَّبِّ العَالَمِینَ، وَ لَو َتقَوَّلَ عَلَینَا بَعضَ الأَقَاوِیلَ، لَأَخَذنَا مِنهُ بِالیَمِینِ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنهُ الوَتِیْنَ) 1 یہ قرآن رب العالمین کا نازل کردہ ہے، اور اگر یہ پیغمبر ہماری طرف سے کوئی بات گڑھ لیتے، تو ہم ان کے ہاتھ کو پکڑ لیتے، پھر ہم ان کی گردن کی شہ رگ کاٹ دیتے۔

اس نظریہ کے طرفدار جواب میں کہتے ہیں کہ یہ مضامین بھی خود پیغمبر کی ذہنی اپج ہیں نیز آپ کے احساسات کی غمّاز ہیں۔

واضح ہے کہ ایسا نظریہ، شکاکیت اور انکار حقیقت کے دلدل میں گرنے، عقل و منطق کو نظرانداز کرنے اور الفاظ کے ساتھ بازی کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، یہ نظریہ پیش کرنے والے سب سے زیادہ روشن اور واضح معانی و مفاہیم کے مقابلہ میں کہیں گے کہ یہ آپ کا احساس اور آپ کی سمجھ ہے اور خود آپ کے ذہنی خیالات کے علاوہ کسی حقیقت کی نشاندہی کرنے والا نہیں ہے، اس بنا پرقرآن خود آپ کے لئے اچھا اور محترم ہے لیکن دوسروں کے لئے کوئی قیمت اور اعتبار نہیں رکھتا۔

بہرحال ہم دیکھتے ہیں کہ دین و قرآن کے متعلق ایسے نظریہ کی ترویج سب سے زیاد ہ ان ترقی یافتہ شیطانی جالوں میں سے ایک ہے جو اب تک حضرت آدم ـ کی اولاد کو گمراہ کرنے اور فریب دینے کے لئے بچھائے گئے ہیں۔

(1) سورۂ حاقہ، آیت 43 تا 46 ۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180