قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت33%

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت مؤلف:
زمرہ جات: امامت
صفحے: 180

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 42245 / ڈاؤنلوڈ: 3524
سائز سائز سائز
قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

پر ایمان نہیں لایا ہے جو اپنی رائے سے میرے کلام کی تفسیر کرتا ہے۔

دوسرے بیان میں پیغمبر سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا:''مَن فَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَأیِهِ فَقَدِ افْتَرَیٰ عَلٰی اللّٰهِ الکَذِبَ'' ۱ جس شخص نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے اور اپنی فکر سے کی وہ یقینا خدا پر جھوٹ باندھتا ہے۔ پیغمبر کا یہ ارشاد اس وجہ سے ہے کہ جو شخص خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ اس بات پر آمادہ ہو جائے کہ آیات الٰہی کی توجیہ کسی بھی طرح اپنے نفع کے تحت کرے اور اسے قرآن اور کلام الٰہی کی تفسیر بتائے، وہ حقیقت میں اپنی نظر اور رائے کو معیار قرار دیکر اس کی خداوند متعال کی طرف جھوٹی نسبت دیتا ہے۔

قرآن کے ساتھ اس طرح کا معاملہ اور کلام الٰہی کی اس طرح کی تفسیر و تفہیم اتنی مذموم اور خطرناک ہے اور ایسی ضلالت و گمراہی کا باعث ہوتی ہے کہ اس گناہ کے مرتکب افراد قیامت میں سخت ترین عذاب میں مبتلاہوں گے۔

حضرت پیغمبر اس سلسلہ میں بھی ارشاد فرماتے ہیں :''مَن فَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَأیِهِ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَده مِنَ النَّار'' ۲ جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے گا اس کا ٹھکانہ قیامت میں جہنم ہے۔

اس بنا پر بدترین عذابوں سے محفوظ رہنے، خداوند متعال پر بہتان باندھنے سے

پرہیز کرنے اور ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرنے سے بچنے کے لئے لازم ہے کہ نفسانی خواہشات کو چھوڑ دیں، خدا کی ذات اقدس پر جو کہ خیر محض ہے اور انسان کے لئے خیر کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا، ایمان رکھیں، خود محوری اور خود پرستی سے پرہیز کریں، خدا محوری اور خدا پرستی کا جذبہ و عقیدہ اپنے اندر پیدا کریں اورخدا کے سامنے سراپا تسلیم ہو جائیں۔

(۱)بحار الانوار، ج۳۶، ص ۲۲۷ ۔

(۲)عوالی اللعالی، ج ۴، ص ۱۰۴ ۔

۸۱

حضرت علی ـ کا ارشاد، تفسیر بالرائے سے پرہیز کے سلسلہ میں

جیسا کہ اس کے قبل اشارہ کیا جا چکا ہے کہ انسان ایسے خیالات اور خواہشات رکھتا ہے کہ کبھی کبھی وہ قرآن کے مطابق نہیں ہوتے اور وہ اپنی انسانی طبیعت کے لحاظ سے چاہتا ہے کہ قرآن بھی اس کی خواہش اور نظر کے موافق ہو، یہاں تک کہ بعض اوقات لاشعوری طور پر ممکن ہے کہ وہ خواہشات و خیالات اس کی قرآن فہمی میں اثر انداز ہوں۔ چونکہ ایساخطرہ ہر انسان کو قرآن کریم کی تفسیر کے وقت پیش آسکتا ہے اور شیطان بھی ہر لمحہ گھات میں لگا ہوا ہے تاکہ ایسے ثقافتی لوگوں کو فریب دیکر جو کہ فہم دین کے دعویدار ہیں، ایک گروہ کو راہ حق سے پھیر دے۔ لہٰذا بہت ضروری ہے کہ حضرت علی ـ کے اس ارشاد پر خاص توجہ دیں۔

حضرت علی ـ کج فہمی سے محفوظ رہنے اوراحتمالی انحراف سے پرہیز کرنے کے لئے ارشاد فرماتے ہیں:

''وَاتَّهِمُوا عَلَیهِ آرَائَکُم'' ۱ جس وقت تم قرآن کی تفسیر کرنا چاہو تو اپنے

(۱)نہج البلاغہ، خطبہ ۱۷۵ ۔

۸۲

خیالات و آراء اور افکار و نظریات کو قرآن کے سامنے غلط سمجھو، اپنی شخصی آراء اور نظریات اور نفسانی خواہشات کو چھوڑ دو، اور حضرت کی لفظوں میں، اپنے کو قرآن کے سامنے متہم کرو اور غلط سمجھو!۔

قابل ذکر ہے کہ مذکورہ تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن فہمی میں امانت و تقوی کی رعایت اوراحتیاط نہایت لازم ہے، اس لئے کہ حضرت فرماتے ہیں کہ اپنے خیالات و نظریات کو قرآن کے مقابلہ میں غلط سمجھو اور اس ذہنیت کے ساتھ کہ میں کچھ نہیں جانتا، جو کچھ قرآن کہتا ہے وہی حق ہے، قرآن سے روبرو ہونا چاہئے پھر کہیں قرآن کی تفہیم و تفسیر کے لئے آمادہ ہونا چاہئے۔

''وَاسْتَغِشُّوا فِیهِ اَهوَائَکُمْ'' اپنے خواہشات او رہوا و ہوس کو فریب خوردہ اور غلط سمجھو تاکہ قرآن سے صحیح استفادہ کرسکو ورنہ ہمیشہ خطا اورانحراف سے دوچار ہوگے۔

اس بنا پر دین کا جوہر (اصل) کہ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ہے، اقتضا کرتا ہے کہ انسان صرف خداوند متعال کا مطیع ہو اور خدا کے احکام، قرآن کریم کے دستورات کے مقابلہ میں اپنی رائے، نظر، خود پسندی اور کج فکری کو باطل سمجھے، جس وقت ایسی روح انسان پر غالب و حاکم ہوگی، واضح ہے کہ اس صورت میں وہ قرآن اور الٰہی احکام و معارف کو بہتر طور سے سمجھے گا پھر جب وہ خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہوگا ان کو جان و دل سے قبول کرے گا۔

۸۳

قرآن اور دینی معارف سے متعلق دو طرح کے نظریئے

قرآن کریم اور دینی معارف سے متعلق دو طرح کے مختلف نظریئے پائے جاتے ہیں:

۔ وہ نظریہ جو تسلیم و بندگی اور خدا محوری و خدا دوستی کی روح پر مبنی ہے۔

۔ وہ نظریہ جو کہ انسان کی نفسانی خواہشات کواصل قرار دیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دینی متون و مطالب اور قرآن کے معارف کی اپنے نفسانی خواہشات کے مطابق تفسیر و توجیہ کرے، وہ نظریہ جس کو آج کی رائج اصطلاح میں ''ہیومن ازم'' ( Humanism ) کہا جاتا ہے، یعنی انسان محوری وانسان دوستی کو خدا محوری و خدا دوستی کے مقابلہ میں پیش کرنا۔

معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ تفسیم بندی گزشتہ مباحث و مطالب سے بالاتر ہے، اس لئے کہ اب تک فرض یہ تھا کہ ممکن ہے قرآن سے متعلق دو طرح کی فکر ظاہر ہو کہ ایک تسلیم و بندگی کی روح واصل پر مبنی ہو اور دوسری وہ فکر و فہم جو کہ نفسانی خواہشات سے متاثر ہو۔ اس بنا پر قرآن کے سمجھنے بوجھنے میں تفسیر بالرائے سے پرہیز کیا جائے اور قرآن جیسا ہے اسے ویسا ہی سمجھا جائے، اس سلسلہ میں حضرت علی ـ کی وصیت کی توضیح کرچکے ہیں کہ خود پسندی اور کج فکری سے پرہیز کرنا اور نفسانی خواہشات سے ذہن کو خالی رکھنا لازم

(۱)یہ ایسا نظریہ ہے جو چودھویں صدی عیسوی میں یورپ میں پیدا ہوا جس کا مقصد، اصالتاً صرف انسانی مرتبہ اور حیثیت کو بلند کرنا ہے، اس نظریہ کے طرفدار اومانسٹ یا ہومانسٹ کہے جاتے ہیں جن میں سے اکثر مذہب پروٹسٹ کی طرف مائل ہوگئے۔

۸۴

ہے۔ اس نظریئے میں حضرت کے کلام کے مخاطب دونوں گروہوں کو ہم مسلمان سمجھتے تھے اور دین میں منحرف ہونے سے پرہیز کرنے کے لئے نیز تفسیر بالرائے میں مبتلا ہونے سے بچنے کے لئے تقویٰ کی پابندی کی اور خواہش نفس اور خود پسندی و کج فکری سے دور رہنے کی نصیحت کر رہے تھے۔

جب ہم اس مسئلہ کی تحقیق مزید گہرائی سے کرتے ہیں تو ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ دقیق اور باریک نکتے حاصل ہوتے ہیں، ہمیں بندگی کے باب میں انسانوں کے دو گروہوں میں تقسیم ہونے کے متعلق حضرت علی ـ کے کلام کا اعجاز معلوم ہوتا ہے اور دین و احکام الٰہی کے مقابلہ میں انسانوں کے افکار و نظریات کی نسبت حضرت کے علم النفس اور علم الروح سے زیادہ سے زیادہ آگاہ ہوتے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ دو اہم خصوصیات کو بیان کرتے ہیں اور ان کی بنیاد پر انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر گروہ کی خصوصیتں ذکر کر کے ان کا تعارف کراتے ہیں کہ جن کی طرف ذیل میں ہم اشارہ کر رہے ہیں:

ـ: وہ گروہ کہ جس نے تمام وجود کے ساتھ خدا کی بندگی کو قبول کیا ہے، یہ لوگ اپنے نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرتے ہیں، خدا کے ارادہ اور حکم کو اپنے نفسانی خواہشات اور میلانات پر مقدم رکھتے ہیں۔

فطری بات ہے کہ ایسے انسان، اس آسمانی کتاب قرآن کو تہ دل سے قبول کرتے ہیں، اس کے احکام و معارف کو جان و دل سے مانتے ہیںاور مقام عمل میں اسے نمونہ قرار دیکر اس کے شعائر کو برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

۸۵

حضرت علی ـ اسی گروہ کی تعریف میں فرماتے ہیں:

''إنّ مِنْ أَحَبِّ عِبَادِ اللّٰهِ عَبداً أَعَانَهُ اللّٰهُ عَلٰی نَفْسِهِ'' ۱ بے شک خدا کا سب سے زیادہ محبوب بندہ خود خدا کے نزدیک وہ ہے جس کی خدانے (اس کے نفسانی خواہشات سے مقابلہ کرنے میں) اس کے نفس کے خلاف مدد کی ہے۔ پھر اس گروہ کے اوصاف بیان کرنے کے بعد ایسے اشخاص کے درمیان قرآن کے مرتبہ کے متعلق ذکر فرماتے ہیں: ''قَد اَمْکَنَ الْکِتَابَ مِن زِمَامِهِ فَهُوَ قَائِدُهُ وَ اِمَامُهُ، یَحُلُّ حَیثُ حَلَّ ثَقَلُهُ، وَ یَنزِلُ حَیثُ کَانَ مَنزِلُهُ'' ۲ یہ گروہ جو مومنین و متقین کا گروہ ہے وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے امور کی زمام کتاب خدا کے حوالے کردی ہے لہٰذا وہی اس کی قائد اور پیشوا ہے ۔ جہاں قرآن کا سامان اترتاہے وہیں وہ لوگ بھی وارد ہوجاتے ہیں اور جہاںاس کی منزل ہوتی ہے وہیں وہ بھی پڑاؤ ڈال دیتے ہیں، ان کا سکون و حرکت قرآن کے تابع ہے۔

یہ گروہ قرآن اوردین کے حقائق کو حقیقی وجود کے لحاظ سے قبول کرتا ہے اور ان پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے۔ یہ لوگ دین اور قرآن کریم کے احکام کو حقیقی وجود کا آئینہ دار سمجھتے ہیں کہ جن کی رعایت انسان کی سعادت سے بلاواسطہ رابطہ رکھتی ہے اور ان کی رعایت نہ کرنے کو دنیا و آخرت کی سعادت سے محروم رہنے کا باعث سمجھتے ہیں۔

(۱) نہج البلاغہ، خطبہ ۸۶ ۔

(۲)نہج البلاغہ، خطبہ ۸۶ ۔

۸۶

چونکہ ایسے انسان خود اپنی کوئی نظر اور رائے نہیں رکھتے، دین اور آسمانی کتابوںاور الٰہی احکام و تعلیمات کے لئے حقیقی وجود کے قائل ہیں نیز ان کے اور انسان کی مصلحتوں کے درمیان علّی اور معلولی رابطہ کے وجود کے معتقد ہیں لہٰذا قرآن کو صحیح طریقہ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جو بھی قرآن حکم دے وہی سمجھیں اور اسی پر عمل کریں۔

ـ:پہلے گروہ کے نظریئے کے بالکل برعکس، بعض افراد ایسا نظریہ رکھتے ہیں کہ قرآن یا ہر دینی متن یا ہر دوسری آسمانی کتاب خود افراد کی ذہنیتوں کی تابع ہے نہ یہ کہ خود قطعی اور مشخص مطالب کو بیان کرنے والی ہے، یعنی قرآن یا ہر دوسرا دینی متن، معنی و مطلب کے بغیر ہے اور اس کا کوئی مقصد نہیں ہے، لیکن چونکہ ہر انسان کچھ خاص ذہنیتوں کا حامل ہوتا ہے یہ ذہنیتیں (افکار و خیالات) تربیتی، خانوادگی، اجتماعی اور اس کے مانند دوسرے رابطوں سے ابھرتی ہیں، لہٰذا جس وقت انسان قرآن پڑھتا ہے تووہ اپنی ذہنیت کی بنیاد پر مطالب کو قرآن سے سمجھتا ہے، جبکہ ان مطالب کو قرآن نے بیان نہیں کیا ہے بلکہ یہ انسان کی فہم اور سمجھ ہے جس کو وہ قرآن کے پیرائے میں دیکھتا ہے۔

واضح ہے کہ ایسے اعتقاد اور نظریئے کے اعتبار سے دین و قرآن اور اس کے احکام و آیات ایسے الفاظ اور قالب سمجھے جائیں گے جو کہ ہر طرح کے معنی و مطلب سے خالی ہیں اور یہ انسان کی ذہنیتیں ہیں جو ان الفاظ کو معنی و مفہوم بخشتی ہیں۔

اس خیال کی بنیاد پر ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن یا کوئی بھی دوسرا دینی متن، کوئی بھی بات بیان کرنے کے لئے نہیں رکھتا بلکہ ہر شخص اپنی ذہنیت اور نظر و فکر کی بنیاد پر قرآن اور دوسرے دینی متون سے مطالب کو اخذ کرتا ہے۔

واضح سی بات ہے کہ اس طرح کا نظریہ اگر چہ ظاہری طور سے دین و قرآن اور دینی معارف و تعلیمات کی بات پیش کرتا ہے لیکن حقیقت میں دین اور اہل دین سے کھلواڑ اور مذاق کرتا ہے۔

۸۷

دینی پلورال ازم۱ یا مختلف قرائتوں کے قالب میں دین کا انکار

معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ آج ہمارے معاشرے میں دین کی مختلف قرائتوں کے عنوان سے بتایا جارہا ہے اس کا سرچشمہ دوسرے گروہ کا نظریہ ہے۔ اگرچہ مذکورہ عنوان ان نام نہاد روشن فکر افراد کی طرف سے پیش کیا جارہا ہے جو ظاہری صورت میں اپنے کو مسلمان کہتے ہیں، لیکن ''دین کے متعلق مختلف قرائتوں کے تفکر'' کی اصل کو انسان محوری اور ہیومن ازم میں تلاش کرنا چاہئے۔

جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ مذکورہ نظریہ دینی تعلیمات اور آسمانی کتابوں کے احکام کو بے معنی سمجھتا ہے اور معتقد ہے کہ قرآن اور ہر دوسرا دینی متن ساکت ہے اور کسی معنی و مفہوم کا حامل نہیںہے، بلکہ ہم انسان ہی ہیں کہ اپنی اپنی ذہنیتوں کے ذریعہ اپنی اپنی قرائت، فہم اور سمجھ کو دین و قرآن کی طرف نسبت دیتے ہیں ورنہ خود قرآن نہ کسی پیغام کا حامل ہے اور نہ کسی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔

مذکورہ نظریہ کی حقیقت کو واضح کرنے اوراس کے طرفداروں کے اس قول کا

(۱)یعنی اس بات کا اعتقاد کہ انسان کی فلاح و نجات کسی ایک دین و مذہب میں منحصر نہیں بلکہ دوسرے ادیان و مذاہب بھی اس کی فلاح و نجات کا ذریعہ ہیں لہٰذا اسے دوسرے ادیان و مذاہب کو بھی صحیح سمجھنا چاہئے۔

۸۸

مطلب سمجھنے کے لئے (کہ دین ساکت و خاموش ہے اور اس سے مختلف اور متفاوت مطالب و مفاہیم اخذ کرنا ممکن ہے) ایک مثال کا ذکر مفید ہوسکتا ہے۔

کم و بیش ہم سبھی لوگ حافظ جیسے عظیم شاعر، بلند مرتبہ عارف کے دیوان، ان کی غزلوں اور ان کے اشعار سے واقف ہیں۔ حافظ کے دیوان اور ان کے اشعار کی مختلف قرائتیں اس معنی میں ہیں کہ ان اشعار کا خالق اپنے اشعار میں استعمال شدہ الفاظ و کلمات میں کوئی معنی و مقصود مد نظر نہ رکھتا ہو، اور صرف الفاظ و کلمات کو بغیر اس کے کہ وہ کسی معنی کے حامل ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ موزوں صورت میں کھوکھلے قالب کے عنوان سے، البتہ نہایت انوکھے اوردلکش انداز میں نظم کردیاہے، یعنی ان اشعار کی تخلیق شاعر نے کسی طرح کا بھی معنی و مقصدمدنظر رکھے بغیر کی ہو۔

''مختلف قرائتوں'' کے نظریہ کے مطابق کہا جاسکتاہے کہ حافظ کی غزلیں اور اشعار کوئی معنی نہیں رکھتے اور ہر شخص فال کی نیت سے اور ایک خاص قصد و ذہنیت کے ساتھ دیوان حافظ کو کھولتا ہے اور سب سے پہلے شعر سے یا ایک غزل کے مجموعے سے ایک مطلب اپنی ذہنیت کی بنیاد پر سمجھتا ہے، مثلاً کسی کے یہاں کوئی مریض ہے اوروہ اس کی شفا چاہتا ہے، فال نکالتاہے اور ایک غزل سے مریض کی شفا کو سمجھتا ہے، ایک دوسرا شخص مقروض ہے اور اسی غزل سے اپنے قرض کی ادائگی کو سمجھتاہے، تیسرا ایک مسافر کے آنے کی امید رکھتا ہے وہ اسی غزل سے اپنے مسافر کی آمد کی خوشخبری کو سمجھتا ہے۔

۸۹

کلی طور سے ہر شخص اپنی اپنی ذہنیت کے مطابق ان الفاظ سے ایک ایک مطلب نکالتا ہے اور حقیقت میں یہ افراد ہی ہیں جو دیوان حافظ کو نطق و گویائی دیتے ہیں او ر ہر شخص اپنی ذہنیت اور اپنی فکر کو حافظ کی زبان سے ادا کراتا ہے اور تمام توضیح و توجیہ اور مطالب و معنی صحیح سمجھا جاتا ہے، اس لئے کہ مذکورہ مطالب و معانی خود افراد کے ہیں اور الفاظ، کلمات، اشعار اور غزلیں اس فرض کے مطابق بے معنی ہیں۔

جو نظریہ آج ہمارے معاشرہ میں ''دین کی مختلف قرائتوں'' کے نام سے پیش کیا جارہا ہے وہ بھی ایسا ہی نظریہ ہے، یعنی جتنے منھ اتنی باتیں ۔ یہ نظریہ قرآن اوردوسرے دینی متن کو بے معنی اور ہر طرح کے پیغام سے کھوکھلا تصور کرتا ہے۔ اس نظریہ کے طرفدار ایسا خیال رکھتے ہیں کہ قرآن ہرگز نہیں بولتا کہ کیا کرنا چاہئے؟ یا کس کام کے انجام سے پرہیز کرنا چاہئے؟کون سی چیز حق اور صحیح اور کون سی چیز باطل اور غلط ہے؟ بلکہ یہ افراد ہی ہیں جو کہ اپنی خاص ذہنیتوں کی بنیاد پر ایک خاص معنی مثلاً حق و باطل اور صحیح و غلط قرآن سے سمجھتے ہیں۔

چونکہ یہ امور افراد کی ذہنیتوں سے ابھرتے اور پیدا ہوتے ہیں، اس بنا پر ان سب کو صحیح سمجھا جاسکتا ہے، بلکہ کلی طور سے ان کے صحیح اور باطل ہونے کا فیصلہ ہی بے معنیٰ ہے، کیونکہ مثال کے طور پر ایک ہی آیت سے مختلف معانی و مطالب اگرچہ متناقض اور ایک دوسرے کے خلاف ہوں پھر بھی صحیح سمجھے جاتے ہیں، جیسا کہ حافظ کی ایک غزل سے فال نکال کر ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کا مریض شفا پاتا ہے، تو دوسرا ا س سے اپنے مہمان کی آمد کی خوشخبری سمجھتا ہے اور تیسرا اسی غزل سے ناامید ہو جاتا ہے ا ور اپنے بیمار کی موت کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہے۔

۹۰

''دین کی مختلف قرائتوں'' کا نظریہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ قرآن اور ہر ایک دوسرا دینی متن بھی ایسا ہی ہے۔ وہ لوگ معتقد ہیں ، افراد کو ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ایک دوسرے کو قرآن کے سمجھنے میں غلط فہمی سے متہم کریں کیونکہ قرآن سمجھنے کے لئے کسی طرح کی کسی خصوصیت کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ قرآن اور ہر دوسرا متن خود کوئی پیغام نہیں رکھتا کہ اس کا سمجھنا قابل ذکر ہو، جو کچھ قابل ذکر ہے وہ خود انسان کی سمجھ ہے۔ ہماری نظر میںاس نظریہ کو حقیقت میں سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے گڑھا گیا ہے لیکن ظاہر میں ایک دین شناسی نظریہ کے عنوان سے، دین اور صراط ہائے مستقیم (سیدھے راستوں) کی جدید قرائت اور معرفت وغیرہ کے نام سے اس کی تبلیغ کی جاتی ہے۔ دینی پلورال ازم کا نظریہ جو کہ دین کی مختلف قرائتوں کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے منطق و عقل سے اتنا دور ہے کہ ہر صاحب عقل جس وقت اس نظریہ کی جڑوں اور اس کے نتیجوں پر توجہ کرتا ہے تو فوراً اس کے کھوکھلے پن اور باطل ہونے کی تصدیق کردیتا ہے۔دوسری طرف دینی معاشرہ میں پلورال ازم نظریہ کے تباہ کن اور تخریبی نتائج کو دیکھتے ہوئے اس سے آسانی کے ساتھ نہیں گزرا جاسکتا۔

معلوم ہوتا ہے کہ سب سے بڑے ان جالوں میں سے ایک جال جو کہ انسان کے قسم کھائے دشمن، شیطان نے از آدم تا ایندم دنیا کے موحدین اور خدا پرستوں کو فریب دینے کے لئے اپنے ہزاروں سال کے تجربہ کی مدد سے بچھایاہے، وہ دین کی مختلف قرائتوں کا نظریہ گڑھنا ہے۔ کچھ نام نہاد روشن فکر افراد بھی اس شیطانی فکر کے وسوسہ سے متأثر ہوکر تن من دھن سے شیطان کی مدد کے لئے دوڑ پڑے ہیں تاکہ اس کا اس سلسلہ میں ساتھ دیں۔

۹۱

یہ لوگ اپنی عقل، ذہن، بیان اور تقریر و تحریر کی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو شیطان کے اختیار میں دے کر خود کو انسانوں کی گمراہی کا ذریعہ بنا لئے ہیں۔

اس بنا پراگر ہم دین شناسی میں ''پلورال ازم'' نظریہ کا خلاصہ جو کہ دین اور صراط ہائے مستقیم (سیدھے راستوں) کی مختلف قرائتوں اور اقلیتی و اکثریتی دین وغیرہ کے عناوین کے تحت پیش کیا جارہا ہے، مختصر اور واضح طور پر بیان کرنا چاہیں تو ہمیں کہنا چاہئے کہ مذکورہ نظریہ سے مراد وہ نظریہ ہے جو کہ دین و قرآن اور ہر دوسرے دینی متن کو ثابت حقائق سے خالی تصور کرتا ہے اور حق و باطل اور صحیح و غلط کو اس سلسلہ میں منتفی سمجھتا ہے۔

دین، یہ نظریہ ماننے والوں کے نزدیک متفاوت و مختلف بلکہ کبھی کبھی متناقض (ایک دوسرے کی نقیض) اور آراء و افکار کے اس مجموعہ کا نام ہے کہ جو انسان دینی کتابوں کی طرف رجوع کے وقت ان سے سمجھتے ہیں بغیر اس کے کہ خود قرآن یا دینی کتاب کوئی چیز بتائے۔

یہ نظریہ رکھنے والے ایسا تصور کرتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) قرآن ایک ایسی رومانی کتاب ہے جوانسان کے اندر طرح طرح کے خیالات ابھارتی ہے اور ہر شخص اپنی اپنی سوچی سمجھی ذہنیت اور نظر و فکر کی بنیاد پر ایک مطلب کا تصور کرتا ہے اور اسے دین و قرآن سے اپنی قرائت اور فکر بتا کر خدا کی طرف نسبت دیتا ہے۔

۹۲

اس جگہ ہم تاکید کرتے ہیں کہ ہمیں چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ ''دین کی مختلف قرائتوں'' کے معنی کی حقیقت اور ''بہت سے صراط مستقیم'' کی واقعیت کو سمجھیںاور اس الحادی نظریہ کے مہلک نتائج و آثار کے متعلق غور و فکر کریں تاکہ یہ شیطانی جال بچھانے والوں کے مقاصد کو جان سکیں اور ان کی حرکت کی گہرائی کو درک کرسکیں۔

بہرحال جس وقت ہم مذکورہ نظریہ کا پہلے گروہ کے نظریہ سے مقایسہ اور موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے نظریہ کی روح، خدا پرستی اور خداوند متعال کے سامنے تسلیم و بندگی کی روح ہے، اور دوسرے نظریہ کی روح، انسان پرستی کی روح اور خدا اور احکام خدا سے فرار کرنے والی روح ہے۔

کلی طور سے پہلے نظریہ میں اس بات کی کوشش ہوتی ہے کہ انسان خداوند متعال کی بندگی کو قبول کرے، جبکہ دوسرے نظریہ میں اس بات کی کوشش ہوتی ہے کہ انسان خدا کی بندگی سے جدا ہوجائے اور اپنے کو حیوانی شہوات و خواہشات میں چھوڑ دے، یہ نظریہ انسان کے میلانات اور خواہشات کو اصل قرار دیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دین اور قرآن کی تفسیر و توجیہ انہی کے اعتبار سے کرے۔

۹۳

قرآن مجید میں جو اس طرح کی تعبیریں آئی ہیں مثلاً:(تِلْکَ آیَاتُ الکِتَابِ وَ قُرآن مُبِین) ۱ (بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُبِین) ۲ (تِلْکَ آیَاتُ القُرآنِ وَ کِتَابٍ مُبِینٍ) ۳ (قَد جَاء َکُم مِنَ اللّٰهِ نُور وَّ کِتَاب مُبِین) ۴ کہ جن میں قرآن مجید کے روشن، واضح اور فصیح و بلیغ ہونے کو تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، ان تعبیروں کا ایک راز شاید یہی ہو کہ ''مختلف قرائتوں'' جیسے گمراہ کن افکار کو روکا جائے اور قرآن کے مقصود و معنی کے مبہم اور نامفہوم ہونے کے اعتبار سے کوئی بھی بہانہ کسی شخص کے پاس نہ ہو۔

اس بنا پر قرآن، ہدایت کی کتاب ہے، خداوند متعال نے اس میں وہ تمام حقائق بیان کردیئے ہیں جو انسان کی دنیا و آخرت کی سعادت کے لئے لازم ہیں، اور مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ قرآن میں تدبر و تفکر کے ذریعہ اپنے فردی و اجتماعی فرائض سے آشنا ہوں اور اس کی پیروی کے ذریعہ اپنے کو کامیاب بنائیں، لیکن یہ بات کہ قرآن اور دینی معارف سمجھنے کی صلاحیت کس میں ہے؟ ایک ایسا مطلب ہے کہ جس کی توضیح ہم آگے بیان کر رہے ہیں۔

(۱)سورۂ حجر، آیت ۱ ۔

(۲)سورۂ شعراء ، آیت ۱۹۵ ۔

(۳)سورۂ نمل، آیت ۱ ۔

(۴) سورۂ مائدہ، آیت ۱۵ ۔

۹۴

قرآن کی تفہیم و تفسیر کی صلاحیت

یہ بات بدیہی ہے کہ قرآن کو سمجھنے اور اس کی تفسیر کرنے کی ہر شخص میں صلاحیت نہیں ہے۔ جیسا کہ ہر شعبہ میں دقیق و عمیق علمی مطالب سمجھنے کی صلاحیت ہر شخص نہیں رکھتا۔ ریاضی کے پیچیدہ مسائل یا تمام علوم کی باریکیاں سمجھنے کی صلاحیت صرف ان علوم کے ماہر و متبحر افراد ہی رکھتے ہیںاور غیر ماہر نہ صرف ان کے متعلق اظہار نظر کرنے سے عاجز ہیں بلکہ ان کا اظہار نظر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

قرآن مجید کی تفہیم و تفسیر کے متعلق بھی ا ن لوگوں کا اظہار نظر کوئی اعتبار نہیں رکھتا جو کہ دینی علوم و معارف سے ناآشنا ہیں۔ اگرچہ قرآن فصیح و بلیغ زبان میں نازل ہوا ہے تاکہ لوگ سمجھیں اور اس پر عمل کریں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس کے معارف کی گہرائی ایک سطح میں تمام لوگوں کے لئے قابل فہم ہو۔ جو کچھ قرآن سے تمام لوگوں کے لئے قابل فہم ہے اس کے وہی معنی ہیں جو خود قرآن فرماتا ہے کہ ہم نے واضح و روشن بیان کے ساتھ قرآن کو نازل کیا ہے، یعنی قرآن اس طرح نازل ہوا ہے کہ جو شخص عربی زبان کے اصول و قواعد سے آشنا ہواور بندگی کی روح اس پر غالب و حاکم ہو وہ قرآن سے استفادہ کرسکتا ہے اور اپنی فکر و معرفت کی حد میں اس سے بہرہ مند ہوسکتا ہے۔

۹۵

لیکن قرآن کے معارف و معانی کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لئے مقدمات اور تعقل و تدبر ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن فرماتا ہے:(إنّا أَنزَلْنَاهُ قُرآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُم تَعقِلُونَ) ۱ (ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو) یا(إنّا جَعَلْنَاهُ قُرآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُم تَعقِلُونَ) ۲ (بے شک ہم نے اسے عربی قرآن قرار دیا ہے تاکہ تم لوگ سمجھو)۔

کلی طور سے جو آیتیں انسان کو قرآن اور اس کے معارف کے متعلق تدبر و تعقل کی دعوت دیتی ہیں وہ ہم سے کہتی ہیں کہ قرآن کے ظواہر پر اکتفا نہ کرو بلکہ تدبر و تعقل اوراہلبیت (ع) کے علوم و معارف سے استفادہ کے ذریعے معارف قرآن کے دقیق و عمیق مطالب کو حاصل کرو اور علم الٰہی کے اس خزانے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرو۔

اس بنا پر قرآن کے سمجھنے اوراس کے بلند معارف کی تفسیر کرنے کی صلاحیت صرف علوم اہلبیت (ع) سے آشنا اور ماہر و متبحر افراد ہی رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جو بھی تھوڑی شُدبُد پیدا کر لے اس کو اظہار نظر کا حق بھی ہو جائے اور دینی معارف نیز تفسیر و توضیح کے اصول و قواعد کی تھوڑی سی بھی اطلاع رکھے بغیر، دین اور اس کے احکام و

معارف کے بارے میں جدید قرائت کے عنوان سے بول سکے۔

(۱) سورۂ یوسف، آیت ۲ ۔

(۲)سورۂ زخرف، آیت ۳ ۔

۹۶

معارف قرآن کے مفہوم کے مختلف مرتبے

بہت سی روایتوں میں یہ مضمون ملتا ہے کہ قرآن ظاہر و باطن رکھتا ہے او رہر شخص قرآن کے علوم و معارف کی گہرائیاں سمجھنے پر قادر نہیںہے۔ قرآن کوئی معمولی کتاب نہیںہے کہ تمام انسان اس کے تمام معارف درک کرنے پر قادر ہوں۔ جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ قرآن ایک ایسا اتھاہ اور ناپیدا کنار سمندر ہے کہ ہر شخص اپنی غواصی کی قدرت و توانائی کی مقدار بھر اس سے معرفت کے موتی حاصل کرتا ہے اور اپنی استعداد و صلاحیت کی مقدار بھر قرآن کے ظواہر سے آگے بڑھ کر اس کے معارف کی گہرائی تک رسائی پیدا کرتا ہے اور ایک آیت سے مختلف مطالب کو سمجھتا ہے جبکہ مذکورہ مطالب ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہوتے، اور یہ خود قرآن کریم کا معجزہ ہے۔

مثال کے طور پر قرآن کریم فرماتا ہے:(یَا أَیُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الفُقَرآئُ اِلٰی اللّٰهِ وَ اللّٰهُ هُوَ الغَنِیُّ الحَمِیدُ) ۱ جو بات عام لوگ اس آیۂ کریمہ سے سمجھتے ہیں اور جو بات آیت کا ظاہر بیان کرتا ہے یہ ہے کہ اے لوگو! تم سب خداوند متعال کے محتاج ہو اور خداوند متعال بے نیاز اور قابل حمد و ثنا ہے۔

جو بات لفظ ''فقرائ'' سے عام لوگوں کے ذہن میں آتی ہے وہی امر معاش میں انسان کی احتیاجات اور ضروریات ہیں خواہ غذا ہو یا لباس یا مکان یا کوئی بھی چیز کہ خداوند

(۱) سورۂ فاطر، آیت ۱۵ ۔

۹۷

متعال ان کے اسباب و علل کو ایجاد کر کے انسان کی نشو و نما، تکامل اور زندگی کی بقا کا وسیلہ فراہم کرتا ہے۔

معنی و مفہوم کے اس مرتبہ میں کہ جس کو ''مرتبۂ ظاہر'' کہا جاتا ہے، قرآن کا ظاہر روشن، گویا اور واضح ہے اور تمام اہل زبان اسے بخوبی سمجھتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس ظاہری معنی سے زیادہ گہرا کوئی اور دوسرا معنی اس سے حاصل نہ ہو او رمذکورہ آیۂ کریمہ اس عمومی فہم سے بالاتر اس سے زیادہ دقیق مطالب کی طرف اشارہ نہ رکھتی ہو۔ انسان جس قدر کلام کے زیر و بم اور زبان کے ادبی رموز و نکات سے واقف ہوگا اور دوسری طرف، جیسا کہ قرآن تاکید کرتا ہے آیات قرآن کی طرف رجوع کے وقت ان میں تدبر و تعقل کرے گا تو آیات کے ظواہر سے بھی بڑھ کر اور زیادہ دقیق و عمیق نکتے حاصل کرے گا۔

اگر ہم اس آیت کا کچھ غور سے مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم خوراک، لباس، صحت اور مادی وسائل سے کہیں زیادہ خدا کے محتاج ہیں۔ ہم محض فقیر و محتاج ہیںاور خدا غنی مطلق ہے۔ ہم فقیر بالذات ہیں اور خدا غنی بالذات۔ فقیر لغت میںاس شخص کو کہتے ہیں کہ جس کے ''ستون فقرات'' (ریڑھ کی ہڈیاں) شکستہ ہوں اور کھڑے ہونے پر قادر نہ ہو۔ انسان فقیر ہے اس معنی میں کہ اگرچہ تمام مادی امکانات و وسائل اس کے لئے فراہم ہوں پھر بھی انسان کا وجود ناقص ہے۔

جس وقت ہم اس نظر سے اورا س نکتہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے آیت پر غور کریں گے تو سمجھ لیں گے کہ ہم انسانوں کی احتیاج خدا سے خوراک، پوشاک اور تمام مسائل سے بڑھ کر ہے۔ ہم اصل وجود میں خدا کے محتاج ہیں۔ خداوند متعال ہی نے ہم کو پیدا کیا ہے اور اسی نے وجودی اسباب و علل کو ایجاد کر کے انسان کی نشو و نما ، تکامل اور زندگی کی بقا کا وسیلہ مہیا کیا ہے۔ ہم اصل وجود میں او ربالذات محتاج و فقیر ہیں اور خداوند متعال غنی بالذات ہے۔

۹۸

واضح ہے کہ دوسری نظر، پہلی نظر سے زیادہ گہری ہے۔ یہاں پر پہلے معنی کو ظاہر اور دوسرے معنی کو باطن سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے معنی سے بھی زیادہ عمیق معنی یہ ہے کہ تم سب (اے لوگو!) نہ صرف اصل وجود میں فقیر و محتاج ہو بلکہ عین نیاز اور سراپا محتاج ہو۔ تمھارا وجود خداوند متعال کی نسبت عین ربط ہے۔ البتہ اس تیسرے معنی کی حقیقت کا درک کرنا عام عقول کی حد سے باہر ہے۔

بہرحال یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس آیۂ کریمہ کے یہ تینوں معنی ایک دوسرے کے طول میں (یکے بعد دیگرے) ہیں یعنی تینوں معنی اور تفسیر درست اور صحیح ہیں، کوئی بھی دوسرے کے منافی نہیںہے، لیکن گہرائی کے اعتبار سے مذکورہ معانی ایک سطح پر قرار نہیں پاتے اور ایسا نہیں ہے کہ قرآن کے تمام مرتبے سب کے لئے قابل فہم ہوں اور تمام افراد قرآن کریم کے تمام مراتب و بطون سمجھنے کی صلاحیت اور قدرت رکھتے ہوں۔ البتہ مذکورہ بیان کا مقصد اس مطلب کو آسانی سے سمجھانا ہے جو بعض روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ قرآن ظاہر و باطن رکھتا ہے اور تمام لوگ اس الٰہی کتاب کے معارف کی گہرائیوں کو درک کرنے پر قادر نہیں ہیں۔

اس مطلب کی تاکید او ریاد دہانی بھی لازم ہے کہ وہ صرف ائمۂ معصومین (ع) ہیں جو الٰہی تعلیم کے ذریعہ قرآن کے علوم و معارف سے آگاہ ہیں اور اس عظیم آسمانی کتاب کے بطون کے عالم ہیں۔ اس سلسلہ میں ہم ایک روایت کا ایک حصہ ذکر کر رہے ہیں:

۹۹

''عَن اَبِ جَعفَرٍ عَلَیهِ السَّلامُ قَال : یَا جَابِرُ! إنّ لِلْقُرآنِ بَطنًا وَ لِلبَطنِ بَطن وَ لَهُ ظَهر وَ لِلظَّهرِ ظَهر یَاجَابِرُ! وَ لَیسَ شَیئ أَبعَدَ مِن عُقُولِ الرِّجَالِ مِن تَفسِیرِ القُرآنِ إنّ الآیَةَ یَکُونُ أَوَّلُهَا فِی شَیئٍ وَ آخِرُهَا فِی شَیئٍ وَ هُوَ کَلام مُتَّصِل یُتَصَرَّفُ عَلٰی وُجُوهٍ''۱

حضرت امام محمد باقر ـ جابر کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں: ''قرآن باطن رکھتا ہے اور باطن کا بھی باطن رکھتا ہے، نیز قرآن ظاہر رکھتا ہے اور ظاہر کا بھی ظاہر رکھتا ہے، اے جابر! اس نکتہ پر بھی توجہ رکھو کہ لوگوں کی عقلیںاس بات سے عاجز ہیں کہ قرآن کے باطن اور اس کی حقیقت کی تفسیر کرسکیں، اس لئے کہ ممکن ہے آیت کا پہلا حصہ کسی چیز کے بارے میں ہواور آخری حصہ کسی دوسری چیز کے متعلق ہو، اور قرآن ایسا باہم متصل اور پیوستہ کلام ہے جو مختلف معانی رکھنے کی قابلیت رکھتا ہے اس کے معارف و معانی میں کسی قسم کا تعارض یا تنافی نہیں ہوتی ہے''۔

جو بات یہاں پر قابل تاکید ہے یہ ہے کہ معارف قرآن کے باطن اور دقیق مطالب کا سمجھنا سب کے بس کی بات نہیں ہے، البتہ اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن صرف ائمہ او رراسخون فی العلم کے لئے نازل ہوا ہے اور دوسرے لوگ حتی ظاہر قرآن کے سمجھنے سے بھی عاجز ہیں، بلکہ ظاہر قرآن ہر شخص کے لئے اس کی صلاحیت کے

مطابق قابل فہم ہے بشرطیکہ خود پسندی، کج فکری اور اپنے نفسانی میلانات و خواہشات کو چھوڑ دے اور تفسیر بالرائے سے پرہیز کرے۔ قرآن فہمی کے متعلق چند نکات قابل ذکر ہیں اور وہ یہ ہیں۔

(۱) بحار الانوار، ج۹۲،

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

ایسے پر آشوب ماحول میں امام علی ـ، پیغمبر کے غسل وکفن میں مشغول تھے اور انجمن سقیفہ اپنے کام میں مشغول تھی ۔ ابو سفیان جو بہت بڑا سیاسی اور سوجھ بوجھ رکھتاتھا مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کر نے کے لئے حضرت علی ـ کے گھر آیا اور آپ سے کہنے لگا اپنا ہاتھ بڑھائے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں اورآپ کو مسلمانوں کے خلیفہ کے عنوان سے لوگوں کے سامنے روشناس کرائوں،کیو نکہ اگر میں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو عبد مناف کے فرزندوں میں سے کوئی بھی آپ کی مخالفت کے لئے نہیں اٹھے گااور آخر میں پورا عرب آپ کو اپنا حا کم وسردار قبول کرلے گا لیکن حضرت علی ـ نے ابو سفیان کی باتوں پر کوئی توجہ نہ دی کیونکہ اس کی نیت سے آگاہ تھے آپ نے فرمایا فی الحال میں پیغمبر کی تجہیز وتکفین میں مصروف ہوں۔

ابو سفیان کی درخواست کے وقت یا اس کے پہلے عباس نے بھی حضرت علی ـ سے درخواست کی کہ اپنے بھتیجے حضرت علی ـکے ہاتھ پر بیعت کریں لیکن حضرت نے ان کی درخواست کو قبول نہیں کیا۔

تھوڑی دیر گزری تھی کہ تکبیر کی آواز کانوں سے ٹکرائی حضرت علی ـ نے عباس سے اس کا سبب پوچھا عباس نے کہا ۔

میں نے نہیں کہا تھا کہ دوسرے لوگ بیعت لینے میں تم پر سبقت کر رہے ہیں؟.میں نے تم سے نہیں کہا تھاکہ اپنا ہاتھ بڑھائوتاکہ تمھاری بیعت کریں ؟لیکن تم حاضر نہ ہوئے اور دوسروں نے تم پر سبقت حاصل کرلی ۔

کیا عباس اور ابو سفیان کی درخواست عاقلانہ تھی ؟

اگر حضرت علی ـ، عباس کی درخواست قبول کر لیتے اور پیغمبر اسلام کے انتقال کے فوراً بعدبڑی بڑی شخصیتوں کو بیعت کی دعوت دیتے تو یقینا سقیفہ میں لوگ جمع نہیں ہو سکتے تھے یا اصلاً سقیفہ کا وجود ہی نہ ہوتا ، کیونکہ دوسرے افراد کے اندر ہر گزاتنی جرأ ت نہ تھی کہ خلافت اسلامی جیسے اہم مسئلہ پر ایک گروہ کے مختصر سے مجمع میں تبادلئہ خیالات کرتے ،اور ایک شخص کو چند آدمیوں کی رائے سے جانشین کے لئے منتخب کر تے۔

بہر حال ،پیغمبراسلام(ص) کی عمومی دعوت اور چند اہم شخصیتوں کا حضرت علی کے ہاتھوں پر خصوصی بیعت کرنا حقیقت سے دور تھا اور تاریخ نے اس بیعت کے سلسلے میں بھی وہی فیصلہ کیا ہے جو ابوبکر کی بیعت کے بارے میں کیا ہے ، اس لئے کہ حضرت علی ـ کی جانشینی دوحال سے خالی نہیں تھی یا امام ـ ،خدا کی طرف سے ولی وحاکم منصوص تھے یانہیں تھے ؟

۱۴۱

پہلی صورت میں ۔ بیعت لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور خلافت کے لئے رائے لینا اور اس منصب پر قبضہ کرنے کے لئے کسی کو خلیفہ بنانا خدا کی معین کی ہو ئی چیزوں کی توہین کرنا ہے اور خلافت کے موضوع کو جو الہی منصب ہے اور یہ کہ خلیفہ کے لئے ضروری ہے کہ خدا کی طرف سے معین ہو اس قانون کی توہین کرتا ہے اور اُسے ایک انتخابی مقام ومنصب قرار دینا ہے، جب ایک متدین اور حقیقت پسند انسان اپنی شخصیت و منزلت کی حفاظت کے لئے حقیقت اور اصلیت میں تحریف نہیں کرتا، اور حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرتا تو کس طرح سے امام معصوم ایسا کر سکتاہے ؟

دوسری صورت میں : ۔خلافت کے لئے حضرت علی ـ کا انتخاب بالکل اسی طرح ہوتا جس طرح سے خلافت کے لئے ابو بکرکا انتخاب ہوا ، اور ابو بکر کے جگری دوست خلیفئہ دوم (عمر) ابو بکر کے انتخاب کے سلسلے میں بہت دنوں تک یہی کہتے رہے ۔

کانت بیعةابی بکر فلتة وقی الله شرها ۔(۱)

یعنی ابوبکر کا خلافت کے لئے منتخب ہونا ایک جلد بازی کاکام تھا اور خدانے اس کے شرکو روک دیا ،ان تمام چیزوں سے اہم بات یہ کہ ابو سفیان اپنی درخواست میں ذرہ برابر بھی حسن نیت نہیں رکھتا تھا اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ،اضطراب اور گروہ بندی پیدا کردے اورعربوں کو پھرسے جاہلیت کے اندھیرے میں ڈال دے اور اسلام کے نئے اور ہرے بھرے درخت کو ہمیشہ کے لئے خشک کردے ۔

وہ حضرت علی ـ کے گھر آیا اور امام ـ کی مدح میں اشعار پڑھا جس کے دو شعر کا ترجمہ یہاں پیش کررہے ہیں ۔

اے ہاشم کے بیٹو،اپنی خاموشی کو ختم کردو تاکہ لوگ خصوصاًقبیلئہ تیم اور قبیلئہ عد ی کے لوگ تمہارے

______________________

(۱)تاریخ طبری ج۳ص۵.۲ سیر ہ ابن ہشام ج۴ ص۸.۳

۱۴۲

مسلم حق کو لالچی نگاہوں سے نہ دیکھیں ۔

خلافت کا حق تمھیں ہے اور تمھاری طرف آیا ہے اور اس کے لئے حضرت علی کے علاوہ کوئی شائستگی ولیاقت نہیں رکھتا ہے(۱)

لیکن حضرت علی ـ کنا بتہً اس ناپاک نیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :توایسی فکر میں ہے جس کے اہل ہم نہیں ہیں ۔

طبری لکھتا ہے :

علی ـ نے اس کی ملامت کی اور کہا تیرا ہدف فتنہ وفساد کے علاوہ کچھ نہیں ہے تو ہمیشہ ، اسلام کے لئے کینہ پرور ثابت ہوا ہے مجھے تیرے وعظ ونصیحت کی ضرورت وحاجت نہیں ہے(۲)

ابوسفیان، مسلمانوں کے درمیان پیغمبر کی جانشینی کے اختلافی مسئلے سے بخوبی واقف تھا اور اس سلسلے میں اس نے یہ نظریہ پیش کی۔

میں ایک ایسا طوفان دیکھ رہا ہوں جسے خون کے علاوہ کوئی دوسری چیز خاموش نہیں کرسکتی(۳)

ابوسفیان اپنے نظریہ میں بہت صحیح تھا ،اور اگر خاندان بنی ہاشم کی قربانی اور عفو ودر گذ رنہ ہوتی تو اس اختلافی طوفان کو قتل وغارت گری کے علاوہ کوئی دوسری چیز روک نہیں سکتی تھی۔

______________________

(۱)الد رجات الر فیعہ ص۸۷

بنی هاشم لاتُطمِعُواالناس فیکم

ولاسیماتیم ابن مرّة اوعدی

فما الامرالا فیکم و الیکم

ولیس لها الاابو حسن علٍ

(۲) شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدیدج۲ص۴۵

(۳)''انی لأری عجاجة لایُطفؤُها الاالدم'' شرح نہج البلاغہ ج۲ص۴۴جوہری کی کتاب السقیفہ سے ماخوذ۔

۱۴۳

بغض وکینہ رکھنے والا گروہ

جاہل عرب کے بہت سے قبیلے بدلہ لینے اور بغض وکینہ رکھنے میںبہت مشہورتھے ،جب ہم تاریخ جاہلیت عرب کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے حادثے ہمیشہ بڑے بڑے حادثات میں تبدیل ہوتے تھے ،اس کی صرف وجہ یہ تھی کہ ان کے اندر بدلہ لینے کی فکر کبھی ختم نہیں ہوتی تھی یہ بات صحیح ہے کہ وہ لوگ اسلامی تعلیمات کی بناء پر ایک حد تک جاہلیت سے دور ہوئے تھے اور نئی زندگی حاصل کر لی تھی لیکن ایسا نہیں تھا کہ ان کے اس طرح کے احساسات مکمل طور پر ختم ہو گئے تھے ،اور کوئی اثر ان کے اندر باقی نہ تھا ،بلکہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی کم وبیش بدلہ لینے کی حس ان کے اندر باقی تھی ۔

یہ بات بغیر کسی دلیل کے نہ تھی کہ حباب بن منذرنے جوگروہ انصار کا بہادر شخص اور گروہ انصار کے لئے خلافت کا امید وار تھاسقیفہ میں خلیفہ دوم کی طرف رخ کرکے کہا تھا ۔

ہم تمہاری خلافت و جانشینی کے ہر گز مخالف نہیں ہیں اور نہ اس کام پرحسد کرتے ہیں لیکن ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ حکومت کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھ میں چلی جائے کہ ہم نے شرک کو مٹانے اور اسلام کو پھیلانے کے لئے اسلامی جنگوں میں ان کے باپ دادا اوران کے فرزندوں کو قتل کیا ہے کیونکہ مہاجرین کے اعزاء و احباب انصار کے فرزندوں اور نوجوانوں کے ہاتھ قتل ہوئے ہیں. چنانچہ اگر انہی افراد کے ہاتھ میں حکومت آجائے تو ہماری حالت یقینا تبدیل ہو جائے گی۔

ابن ابی الحدید کہتے ہیں:

میں نے کتاب ''سقیفہ'' تالیف احمد بن عبد العزیز جوہری کو ۶۱۰ھ میں استاد ابن ابی زید رئیس بصرہ سے پڑھی، اور جب بحث حباب بن منذر کی گفتگو تک پہونچی تو میرے استاد نے کہا حباب کی پیشنگوئی بہت عاقلانہ تھی اور جس چیز کا اسے خوف تھا وہ یہ کہ مسلم بن عقبہ مدینہ پر حملہ کرے گا اور اس شہر کویزید کے حکم سے محاصرہ میں رکھا جائے گا اورہوا بھی یہی بنی امیہ نے جنگ بدرمیں قتل ہونے والے اپنے تمام افراد کا بدلہ انصار کے بیٹوں سے لے لیا۔

پھر استاد نے ایک اور مطلب کی یاد دہانی کرتے ہوئے کہا:

۱۴۴

جس چیز کی حباب نے پیشنگوئی کی تھی پیغمبر نے بھی اس کی پیشنگوئی کی تھی، آپ بعض عربوں کے بغض و کینہ اور اپنے خاندان کے ساتھ بدلہ لینے کے متعلق خوف زدہ تھے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ ان کے بہت سے رشتہ داروں کو مختلف جنگوں میں بنی ہاشم کے جوانوںنے قتل کیا تھا اور اس سے بھی آگاہ تھے کہ اگر حکومت کی باگ ڈور دوسروں کے ہاتھ میں چلی گئی تو ممکن ہے خاندان رسالت سے بدلہ لینے کی جرأت ان کے اندر پیدا ہوجائے اسی وجہ سے آپ ہمیشہ حضرت علی کے بارے میں سفارش کرتے تھے اور انھیں اپنا وصی اور امت کے حاکم کے عنوان سے پہچنواتے تھے، تاکہ جو مقام و مرتبہ ا ور منزلت خاندان رسالت کی ہو اس کی وجہ سے علی ـاوران کے اہلبیت کا خون محفوظ رہے، لیکن کوئی کیا کرسکتا ہے تقدیر نے تمام چیزوں کو بدل ڈالا اور حکومت دوسروں کے ہاتھوں میں آگئی اور پیغمبر کی پیشنگوئی شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکی اور جو چیز نہیں ہونی چاہیئے تھی وہ ہوگئی اور ان کے خاندان کا کتنا پاک و پاکیزہ خون بہا دیا گیا۔(۱)

اگرچہ رئیس بصرہ کی بات شیعہ نقطۂ نظر سے صحیح نہیں ہے ، کیونکہ شیعہ عقیدہ کے مطابق، پیغمبر نے خدا کے حکم سے حضرت علی کوامت کی رہبری کے لئے منصوب اور معین کیا او رحضرت علی کو منتخب کرنے کی وجہ ان کے اور ان کے اہلبیت کے خون کی حفاظت کرنا مقصود نہیں تھی بلکہ حضرت علی کے اندر وہ خوبیاں تھیں کہ ایسا بابرکت مقام و منزلت ان کے لئے ہوا۔

لیکن بہرحال اس کی تحلیل بالکل صحیح تھی کیونکہ اگر حکومت کی باگ ڈور حضرت علی کے خاندان کے ہاتھوں میں ہوتی تو کبھی بھی کربلاکا خونین واقعہ نہ ہوتا اور امام کے بچے بنی امیہ اور بنی عباس کے جلادوں کے ہاتھ شہید نہ ہوتے اور خاندان رسالت کا پاکیزہ خون مٹھی بھر مسلمان نما افراد کے ہاتھوں نہ بہتا۔

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص۵۳

۱۴۵

بامقصد خاموشی

حقیقت ہے کہ اسلامی معاشرہ اور خاندان رسالت کو عجیب مشکلات سے دوچار کر دیا تھا اور ہر لمحہ اس بات کا ڈر تھا کہ مسلمانوں کے درمیان خلافت کے موضوع پر جنگ چھڑ جائے اور اسلامی معاشرے کا شیرازہ بکھر جائے اور عرب قبیلوں کے تازہ مسلمان، جاہلیت اور بت پرستی کے دور کی طرف پلٹ جائیں ،اسلامی تحریک، ابھی نئی نئی اور جواں سال تحریک تھی اور ابھی اس تحریک نے لوگوں کے دلوں میں جڑ نہیں پکڑی تھی اور ان میں سے اکثریت نے دل کی گہرائیوں سے اس تحریک کو قبول نہیں کیا تھا۔

ابھی حضرت علی او ر پیغمبر کے بہت سے باوفا اصحاب پیغمبر کے غسل و کفن اوردفن سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ اصحاب کے دو گروہ آپس میں خلافت کے مدعی ہوگئے او راس راہ میں بہت زیادہ مشکلات کھڑی کردیں وہ دو گروہ یہ تھے:

۱۔ انصار ، خصوصاً قبیلۂ خزرج جو مہاجرین سے پہلے ایک مقام پر جسے سقیفہ بنی ساعدہ کہتے ہیں جمع ہوگئے تھے اورچاہا تھاکہ تمام امور کی ذمہ داری سعد بن عبادہ رئیس خزرج کے حوالہ کریں اوراسے پیغمبر کا جانشین منتخب کریں. لیکن چونکہ انصار کے قبیلے میں اتحاد و اتفاق نہ تھا اور ابھی بھی پرانے کینے ان کے دلوں میں جڑ پکڑے ہوئے تھے خصوصاً اوس و خزرج کے قبیلے والے اپنے اپنے کینوں کونہیں بھولے تھے. انصار کا گروہ داخلی مخالفت کی وجہ سے ایک دوسرے کے مقابلے میں آگیا اور قبیلۂ اوس کے لوگ سعد کی پیشوائی میں جو کہ خزرج سے تھا مخالفت کی اور نہ صرف یہ کہ انھوں نے اس راہ میں ان کی مدد نہ کی بلکہ خواہش ظاہر کی کہ امت کی باگ ڈور مہاجرین میں سے کسی کے ہاتھ میں ہو۔

۲۔ مہاجرین،اوران سب کے رئیس ابوبکر اور ان کے ہم فکر ہیں کی تعدا د سقیفہ میں بہت کم تھی لیکن اس علت کی بناء پر جس کا اشارہ ہم کرچکے ہیں انہوں نے ابوبکر کے لئے ووٹ جمع کرلیا اور کامیابی کے ساتھ سقیفہ سے باہر آئے او رمسجد تک آتے آتے بہت زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ کرلیا. اور ابوبکر خلیفہ رسول کے عنوان سے منبر رسول خدا پر بیٹھے اور لوگوں کو بیعت و اطاعت کی دعوت دی۔

۱۴۶

تیسرا گروہ اور مسئلہ خلافت

ان دو گروہوں کے مقابلے میں ایک گروہ اور بھی موجود تھا جو روحانی اور معنوی طاقت سے سرشار تھا اور اس گروہ میں حضرت علی جیسی شخصیت اور بنی ہاشم کے افراد اور کچھ اسلام کے سچے ماننے والے موجود تھے جو خلافت کو حضرت علی کا حق سمجھتے تھے اور ان کودوسرے افراد کے مقابلے میں خلافت و رہبری کے لئے ہر طرح سے لائق و شائستہ جانتے تھے۔

ان لوگوں نے خود مشاہدہ کیا کہ ابھی پیغمبر کا جنازہ دفن بھی نہ ہوا تھا کہ گروہ مہاجرین و انصار خلافت کے مسئلے پر جنگ و جدال کرنے لگے۔

اس گروہ نے اپنی مخالفت کی آواز کو مہاجرین وانصار بلکہ تمام مسلمانوں تک پہونچانے کے لئے یہ اعلان کردیاکہ ابوبکر کا انتخاب غیر قانونی اورنص پیغمبر اور اصول مشورہ کے خلاف تھا ،اسی وجہ سے وہ لوگ حضرت زہرا کے گھر میں جمع ہوئے اور سقیفہ میں حاضر نہیں ہوئے ،لیکن یہ اجتماع آخر کار ختم ہوا اورخلافت ابوبکر کی مخالفت کرنے والے مجبور ہوکر حضرت زہرا کے گھر سے باہر نکل کر مسجد کی طرف چلے گئے۔

ایسے حالات میں تیسرے گروہ پر بہت اہم ذمہ داری آپڑی، خصوصاً امام علیہ السلام کے لئے کہ آپ نے خود مشاہدہ کیا کہ خلافت و رہبری اپنے اصلی محور سے خارج ہوگئی. جس کے نتیجہ میں بہت سے امور اپنے اصلی محور سے خارج ہو جائیں گے اسی وجہ سے امام نے خاموشی اختیار کرنا مناسب نہ سمجھاک،یونکہ غیر مناسب کام پر خاموش رہنے کی وجہ سے ان کی تائید ہوجاتی، اور امام ـ جیسی عظیم شخصیت کا ایسی صورت حال میں خاموش رہنے کی وجہ سے ممکن تھا کہ ان لوگوں کے لئے حقانیت کی دلیل بن جاتی اور ان کی خلافت ثابت ہو جاتی، لہذا آپ نے خاموشی ختم کردی. اوراپنا سب سے پہلا وظیفہ انجا دیا یعنی خطبہ کے ذریعے حقانیت کو یاد دلایااور مسجد نبوی میں جو آپ سے زبردستی بیعت لینا چاہ رہے تھے اس مہاجرین کے گروہ کو مخاطب کر کے کہا:

۱۴۷

اے گروہ مہاجر، اس حکومت کو حضرت محمد مصطفی نے جس اساس و بنیاد پر قائم کیاہے اس سے خارج نہ کرو اور اپنے گھروں میں داخل نہ کرو ،خدا کی قسم پیغمبر کا خاندان اس امر کے لئے زیادہ سزوار ہے کیونکہ ان کے خاندان میں ایسے افراد موجود ہیں جو مفاہیم قرآن اور دین کے اصول و فروع کی مکمل معلومات رکھتے ہیں اور پیغمبر کی سنتوں سے واقف ہیں اور اسلامی معاشرے کو اچھی طرح سے چلا سکتے ہیں اور ظلم و فساد کو روک سکتے ہیں اور مال غنیمت کو برابر برابر تقسیم کرتے ہیں، ایسے افراد کی موجودگی میں یہ منصب دوسروں تک نہیں پہونچ سکتا، ایسا نہ ہو کہ تم خواہشات نفسانی کی پیروی کرو اور صراط مستقیم سے بھٹک کر حقیقت سے دور ہو جاؤ۔(۱)

اس بیان میں امام علیہ السلام نے خلافت کے لئے اپنی لیاقت و شائستگی کو آسمانی کتابوں کا علم رکھنے اور پیغمبر کی سنتوں اور اپنی روحانی طاقت کو معاشرے کی رہبری کے شایان شان جانا ہے اور اگر پیغمبر سے اپنے رشتہ کی طرف بھی اشارہ کرتے تو مہاجرین کی طرح کا ایک استدلال ہو جاتا کہ انھوں نے پیغمبر کی طرف اپنے کو نسبت دی ہے شیعہ روایتوں کے مطابق امیر المومنین بنی ہاشم کے گروہ کے ساتھ ابوبکر کے پاس گئے اور خلافت کے لئے اپنے کو سزاوار بتایا اور اپنے ان تمام فضائل و کمالات یعنی علم کتاب و سنت، اسلام قبول کرنے میں سبقت وغیرہ اور جنگ کے میدان میں ثابت قدم اور فصاحت و بلاغت و غیرہ کو بیان کیا اور فرمایا:

______________________

(۱) الامامة والسیاسة، ج۱، ص ۱۱

۱۴۸

''میں پیغمبر کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد بھی ان کے مقام و منصب کا حقدار ہوں، میں ان کا وزیراور وصی اوراسرار کا گنجینہ اور علوم کے خزانہ کا مخزن ہوں میں ہی صدیق اکبر اور میں ہی فاروق اعظم ہوں میں پہلا وہ شخص ہو ں جو ان پر ایمان لایا میں مشرکوں سے جنگ کرنے میں سب سے زیادہ ثابت قدم، کتاب خدا اور پیغمبر کی سنت کا سب سے زیادہ جاننے والا، دین کے اصول و فروع پر تم سب سے زیادہ نگاہ رکھنے والا، اور گفتگو کرنے میں تم سب سے زیادہ فصیح و بلیغ اور ہر معاملے میں تم سب سے زیادہ مستحکم ہوں.توپھر کیوں اس میراث میں ہمارے مقابلے پر اٹھ کھڑے ہو۔(۱)

امیر المومنین علیہ السلام اپنے ایک خطبہ میں خلافت کو اس شخص کا حق جانتے ہیں جو حکومت کو چلانے میں تمام لوگوں سے زیادہ اہلیت رکھتا ہو اور تمام قوانین الہی وغیرہ پر مکمل تسلط رکھتا ہو جیسا کہ آپ فرماتے ہیں:

''اے لوگو،حکومت کی قیادت کے لئے سب سے اچھا شخص وہ ہے جو تمام الہی قوانین کو جانتا ہو. اگر کسی شخص کے اندر یہ تمام شرائط موجود نہیں ہوں. اور خلافت کی تمنا کرے تو اس سے کہا جائے گا کہ تو اپنے اس عمل اور فکر سے باز آجا، لیکن اگر وہ اپنی ضد پر باقی رہا تو اسے قتل کردیاجائے گا۔(۲)

یہ منطق فقط حضرت علی علیہ السلام ہی کی نہیں ہے بلکہ آپ کے بعض مخالفین کا بھی یہی نظریہ ہے ، اور انہوں نے حضرت علی کے لئے خلافت کا اعتراف کیا ہے اور ان کا یقین وایمان بھی یہی ہے کہ کسی غیر کو ان کے اوپر مقدم کرنا گویا ایک بڑے اور اہم حق کو پامال کرناہے۔جب ابوعبیدۂ جراح کو اس بات کی خبر ملی کہ حضرت علی نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی ہے تو امام کی طرف رخ کر کے کہتا ہے:''امت کی باگ ڈور کو ابوبکر کے حوالے کردو اوراگر زندہ رہ گئے اور لمبی عمر نصیب ہوئی تو حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے تم سب سے زیادہ حقدار ہو کیونکہ تمہیں تمام فضائل کا ملکہ حاصل ہے اور مستحکم ایمان اورعالم علم لدنی اور حقیقتوں کا درک کرنا اور اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنا اور پیغمبر کا بھائی و داماد ہونا

______________________

(۱) احتجاج طبرسی ج۱ ص ۹۵

(۲) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۶۸ ،''ایها الناس ان احق الناس بهذا الامر اقواهم علیه . .

۱۴۹

یہ تمام فضائل و کمالات سب پر واضح و آشکار ہیں۔(۱)

امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے حق خلافت کی واپسی کے لئے صرف متوجہ اور متنبہ کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اکثر مؤرخین کی تحریر کے مطابق اکثر رات میں آپ نے پیغمبر کی بیٹی اور اپنے نور چشم حسنینکے ہمراہ انصار کے سرداروں سے ملاقات کی تاکہ خلافت کو اس کے صحیح مقام پر واپس لائیں. لیکن افسوس کہ ان لوگوں نے قابل اطمینان جواب نہیں دیا. اور یہ عذر پیش کیا کہ اگر حضرت علی دوسروں سے پہلے خلافت کی فکر کرتے اور ہم سے بیعت طلب کرتے تو ہم لوگ انہی کے ہاتھ پہ بیعت کرتے اور کبھی بھی دوسروں کی بیعت نہ کرتے۔

امیر المومنین علیہ السلام نے ان کے جواب میں کہا کہ کیا یہ بات درست تھی کہ میں پیغمبر کے جنازے کو بغیر غسل و کفن گھر کے ایک گوشہ میں چھوڑ دیتا اور خلافت کی فکر کرکے لوگوں سے بیعت لیتا؟ پیغمبر اسلام کی بیٹی نے حضرت علی کی بات کی تائید کرتے ہوئے فرمایا: علی ـاپنے وظیفہ میں دوسروں سے بہت زیادہ آشنا تھے وہ گروہ جس نے علی کے حق کو ان سے چھین لیا ہے خدا اس کا حساب لے گا۔(۲)

امام علیہ السلام کااس سلسلے میں یہ پہلا کام تھا جو تجاوز کرنے والے گروہ کے مقابلے میں انجام دیاتھا تاکہ توجہ وتذکراور گروہ انصار کے بزرگوں کی مدد سے اپنے حق کو غاصبوں سے واپس لے لیں، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اس راہ میں امام کو کوئی نتیجہ نہ ملا، اور آپ کا حق پامال کردیا گیا، اس وقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے پرآشوب اور حساس ماحول میں امام کا فریضہ کیا تھا؟ کیا آپ کا فریضہ صرف یہ تھا کہ آپ اپنی نگاہوں سے اس منظر کو دیکھتے رہیں اور خاموش بیٹھ جائیں یا اس کی حفاظت کے لئے قیام کریں؟

______________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱ ص۱۲

(۲) الامامة والسیاسة ج۱ص ۱۲ ،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۴۷ معاویہ کے نامہ سے مأخوذ۔

۱۵۰

امام کے لئے صرف ایک راستہ تھا

امام علیہ السلام کا خلافت کے سلسلے میں مسجد پیغمبر میں مہاجرین اور انصار کو متوجہ کرنے کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں پر حقیقت آشکار ہوگئی اور آپ نے تمام مسلمانوں پر حجت تمام کردیا، لیکن خلیفہ اور ان کے ہم فکر و خیال افراد منصب خلافت پر اپنا قبضہ جمائے رہے اور دھیرے دھیرے ایک طاقت بن کر ابھرنے لگے اور زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دلوں میں خلافت مستحکم ہونے لگی اور رفتہ رفتہ لوگ اس حکومت کو ''اصل حکومت'' شمار کرنے لگے اور اسی کے پیرو ہوگئے۔

ایسے حساس ماحول میں جب کہ ہر لمحہ خاندان رسالت کو نقصان اور حکومت وقت کو فائدہ ہو رہا تھا حضرت علی جیسی شخصیت کا فریضہ کیا تھا؟ امام کے سامنے صرف دو راستے تھے ایک یہ کہ خاندان رسالت کے مردوں اور اپنے سچے ماننے والوں اور پیروی کرنے والوں کی مدد سے قیام کرتے اور اپنے حق کوان لوگوں سے واپس لے لیتے ، یا یہ کہ مکمل طور پر خاموشی اختیار کرکے تمام عمومی و اجتماعی امور سے کنارہ کشی کرلیتے اور جتنا ممکن ہو تااپنے اخلاقی و فردی فریضے پر عمل کرتے۔

تمام قرائن و شواہد (جو آئندہ بیان ہوں گے) سے واضح ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام اگر ایسے حالات میں قیام کرتے تو اس نئے اسلام اور نئے معاشرۂ اسلامی کو کوئی فائدہ نہیں پہونچتا لہذا امام علیہ السلام کے لئے ضروری تھا کہ دوسرا راستہ اپناتے۔

پیغمبر اسلام امت کے مرتد ہونے سے خوف زدہ تھے

۱۔ قرآن کریم کی آیتیں اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ پیغمبر اسلام اپنی زندگی میں اسلامی معاشرہ کے مستقبل کے لئے بہت فکر مند تھے، اور مسلسل ناخوشگوار واقعات دیکھنے کے بعد اس احتمال نے انھیں زیادہ سوچنے پر مجبور کردیاتھا کہ کہیں کچھ لوگ ہمارے بعد اپنے جاہلیت کے ماحول کو پھر سے اختیار کرلیں اور سنت الہی کو بھول جائیں۔

یہ خیال اس وقت اور محکم ہوگیاجب جنگ احد میں پیغمبر کے مرنے کی خبر پھیلا کر لوگ میدان جنگ سے فرار ہوگئے اور پیغمبر نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اکثر مسلمانوں نے راہ فرار اختیار کرلی. اور پہاڑوں اور دوسرے مقامات پر پناہ لے لی اور بعض افراد نے چاہا کہ منافقوں کے سردار (عبد اللہ ابن ابی) سے بات کرکے ابوسفیان سے امان نامہ لے لیں. اور ان کا ایمان و عقیدہ اتنا پستی کی طرف آگیا کہ خداوند عالم کے متعلق بدگمانی کرنے لگے اورغلط فکریں کرنے لگے. قرآن مجید نے اس راز کا پردہ فاش کردیا (ارشاد قدرت ہے)

۱۵۱

( طَائِفَة قَدْ اهَمَّتْهُمْ َنْفُسُهُمْ یَظُنُّونَ بِاﷲِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِیَّةِ یَقُولُونَ هَلْ لَنَا مِنْ الْامْرِ مِنْ شَیْئٍ ) (۱)

اور ایک گروہ جن کو اس وقت بھی (بھاگنے کی شرم سے) جان کے لالے پڑے تھے خدا کے ساتھ (خواہ مخواہ) زمانہ جاہلیت کی ایسی بدگمانیاں کرنے لگے (اور) کہنے لگے بھلا کیا یہ امر (فتح) کچھ بھی ہمارے اختیار میں ہے۔

قرآن کریم نے دوسری آیت میں پیغمبر کی رحلت کے بعد صحابہ کے درمیان اختلاف و کشیدگی کی بھی خبر دی ہے ارشاد قدرت ہوتا ہے:( وَمَا مُحَمَّد ِلاَّ رَسُول قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ َفَایْن مَاتَ َوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَی َعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَنْقَلِبْ عَلَی عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَضُرَّ اﷲَ شَیْئًا وَسَیَجْزِی اﷲُ الشَّاکِرِینَ ) (۲)

اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو صرف رسول ہیں ان سے پہلے اور بھی بہت سے پیغمبر گزر چکے ہیں پھر کیا اگر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی موت سے مرجائیں یا مار ڈالے جائیں تو تم الٹے پاؤں (اپنے کفر کی طرف) پلٹ جاؤ گے اور جو الٹے پاؤں پھرے گا (بھی) تو (سمجھ لو) ہرگز خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑے گا اور عنقریب خدا شکر کرنے والوں کو اچھا بدلہ دے گا۔

یہ آیت پیغمبر کے اصحاب کے دو گروہوں میں تقسیم ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے (ایک ''عصر جاہلیت کی طرف واپس جانا، دوسرے'' ثابت قدم اور شکر گذار ہونا) کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد ممکن ہے مسلمان اختلاف اور گروہوں میں تقسیم ہو جائیں۔

۲۔ سقیفۂ بنی ساعدہ میں موجود افراد کا اگر جائز لیا جائے تو بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ اس دن کس طرح سے ایک دوسرے کے رازوں کا پردہ فاش ہو رہا تھا اورایک بار پھر قومی اور خونی تعصب اور جاہلیت کی فکریں پیغمبر کے صحابہ کی زبانی زندہ ہوگئیں تھیں، اور یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ ابھی مکمل طور پر اسلامی تربیت ان کے اندر نفود نہیں ہوئی ہے اور اسلام وایمان صرف ان کے جاہلیت کے چہرے پر پڑا ہے۔

اس تاریخی واقعہ کی تحقیق کرنے کے بعد یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ سقیفہ میں جمع

______________________

(۱) سورۂ آل عمران آیت ۱۵۳

(۲) سورۂ آل عمران آیت ۱۴۴

۱۵۲

ہونے کا ہدف اور ان تقریروں اور لڑائیوں کا مقصد ذاتی مفاد کے علاوہ کچھ نہ تھا، اور ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ خلافت کے لباس کو خود پہن لے جب کہ حق یہ تھا کہ امت کی بہترین فرد اس خلافت کے لباس کو پہنے ،اور جو چیز اس مجمع یا انجمن سقیفہ میں بیان نہیں ہوئی تھی وہ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت اور مفاد کا تذکرہ اور خلافت کوایسے شخص کے سپرد کرنا جو اپنی ذہانت و عقلمندی علم و دانش اور بہترین اخلاقی و معنوی روح کے ذریعے اسلام کی کشتی کو نجات کے ساحل تک پہونچاناتھا۔

ایسے حالات میںجب کہ اسلامی عقیدہ لوگوں کے دلوںمیں رسوخ نہیں کیا تھا اور جاہلیت کی رسم و عادت او رپیروی ان کے ذہنوں سے نہیں نکلی تھی اور ہر طرح کی خانہ جنگی، گروہ بندی، معاشرے کو بکھیر دینے اور بہت زیادہ افراد کے بت پرستی اور شرک کی طرف جانے کا امکان تھا۔

۳۔ان تمام چیزوں سے واضح و روشن حضرت علی علیہ السلام کی وہ گفتگو ہے جو آپ نے سقیفہ کے واقع ہونے سے پہلے کی تھی آپ نے اپنی گفتگو میں اتحاد اسلامی کی اہمیت اوراختلاف و تفرقہ کے برے انجام کی طرف اشارہ کیا ہے مثلاً جب ابوسفیان نے چاہا کہ حضرت علی کو بیعت لینے کے لئے راضی کرے اور اس کے ذریعے اپنے بدترین مقاصد کو عملی جامہ پہنائے تواس وقت امام نے مجمع کی طرف رخ کر کے فرمایا:

''فتنہ و فساد کی موجوں کو نجات کی کشتی سے توڑ دو اور تفرقہ و اختلاف سے پرہیز کرو اور فخر و مباہات ، تکبر و غرور کو دل سے نکال دو. اگر میں کچھ کہوں تو لوگ کہیں گے کہ حکومت کے لالچی ہیں اور اگر خاموشی سے بیٹھ جاؤں تو لوگ کہتے ہیں کہ موت سے ڈرتے ہیں. خدا کی قسم ابوطالب کے بیٹے کے نزدیک موت سے مانوس ہونا ماں کے پستان سے مانوس ہونے سے زیادہ بہتر ہے، اگر علم و آگاہی کے بعد خاموشی اختیار کریں تو گویا ہم بھی انھیں میں سے ہوگئے اور اگر تم بھی ہماری طرح ان چیزوںسے باخبرہوتے توتم بھی گہرے کنویںمیںڈالی ہوئی رسی کی طرح پریشان ولرزاں ہوتے۔''(۱)

جس علم و آگاہی کے متعلق آپ گفتگو کر رہے تھے وہ اختلاف و تفرقہ کا وحشتناک نتیجہ تھا آپ جانتے تھے کہ خلافت کے لئے قیام یا خانہ جنگی کا ہوناا سلام کے مٹ جانے اورلوگوں کا جاہلیت کے

______________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ ۵

۱۵۳

عقیدے پر واپس ہو جانے کا باعث تھا۔

۴۔ جس وقت پیغمبر کے انتقال کی خبر نو مسلم قبیلوں کے درمیان منتشر ہوئی اسی وقت ایکگروہ اپنے بزرگوں کے مذہب کی طرف واپس جانے کے لئے تیار ہوگیا اور مرکزی حکومت کی مخالفت کے لئے آمادہ ہوگیا اور جزیہ دینے سے انکار کردیا. سب سے پہلے جو کام مرکزی حکومت نے انجام دیا وہ یہ تھا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ جو جنگ کے لئے آمادہ تھا ان کو تیار کیا تاکہ دوبارہ مرکزی حکومت کی اطاعت اور اسلامی قوانین سے انکار نہ کیا جا سکے. اور اس کے نتیجہ میں دوسرے قبیلے والوں کے ذہنوں سے اپنے اپنے مذہب کی طرف واپس جانے کا خیال ہمیشہ کے لئے نکل جائے گا۔

بعض قبیلوں کے مذہب اسلام سے پھر جانے کے علاوہ، یمامہ میں ایک اور فتنہ برپا ہوگیا اور وہ نبوت کا دعوی کرنے والے افراد تھے مثلاً مسیلمہ و سجاح و طلیحہ وغیرہ۔

ایسے حالات میں جب مہاجرین و انصار کے درمیان اتحاد کا خاتمہ ہوچکا تھااوراطراف کے قبیلے والے اپنے پرانے مذہب کی طرف جانے پر آمادہ تھے ،نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے نجد، اور یمامہ میں کھڑے ہوگئے ،ایسے ماحول میں امام کے لئے مناسب نہیں تھا کہ آپ بھی ایک اور محاذ قائم کرتے اوراپنے حق کے لئے قیام کرتے، امام اس خط میں جو آپ نے مصر کے لوگوںکے نام لکھا تھا اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

خدا کی قسم، میں نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ عرب خلافت کو پیغمبر کے خاندان سے لے لیں گے یاہمیں اس کے لینے سے روک دیں گے مگر ہوا وہی، دیکھتے ہی دیکھتے لوگ فلاں شخص کی بیعت کے لئے ٹوٹ پڑے. یہ دیکھ کر میں نے اپنا ہاتھ روک لیا یہاں تک کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پھرنے والے اسلام سے پھر گئے اورحضرت رسول خدا کے دین کو مٹانا چاہتے ہیں مجھے اس بات کا ڈر ہوا کہ اسلام میں کوئی رخنہ یا خرابی دیکھتے ہوئے بھی اگر ہم نے اسلام اوراہل اسلام کی نصرت نہ کی تو (اس کوتاہی کی وجہ سے) میرے سر پر وہ مصیبت آپڑے گی جو تمہاری حکومت میرے ہاتھ سے نکل جانے (کی مصیبت) سے بھی بڑی ہوگی (وہ حکومت) جو حقیقت میں چند دنوں سے زیادہ نہیں ہے

۱۵۴

اور اس کی بودوباش اسی طرح نابود ہوجائے گی جس طرح سراب نابود ہوجاتاہے، یا جیسے بادل چھنٹ جاتا ہے، غرض ان بدعتوں (کے ہجوم) میں ، میں اٹھ کھڑا ہوا یہاں تک کہ باطل کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ نیست و نابود ہوگیا اوردین کو اطمیان نصیب ہوا اور تباہی سے بچ گیا۔(۱)

عثمان کی خلافت کے آغاز میں اس شوریٰ نے جو خلافت کے تعیین کے لئے بنائی گئی تھی جب عثمان کے حق میں رائے دیا اس وقت امام علیہ السلام اس شوریٰ کے عہدہ داروں سے مخاطب ہوئے اور کہا:

''تم خوب جانتے ہو کہ میں منصب خلافت کا تم سب سے زیادہ حقدار ہوں لیکن جب تک مسلمانوں کے امور کا نظم و نسق درست رہے گامیں خلافت سے کنارہ کشی کر سکتا ہوں اگرچہ میرے اوپر ظلم و ستم ہوتا رہے اور اگر میں خاموشی سے کام لوں تو صرف اس بنا پر کہ خدا کے نزدیک میرا اجر و ثواب ملتا رہے گا۔(۲)

ابن ابی الحدید کہتے ہیں:

جب علی ـ کو لوگوں نے خلافت سے معزول کردیاتوآپ نے مکمل خاموشی اختیار کرلی ایک دن آپ کی محترم و باعظمت بیوی فاطمہ زہرا نے انھیں اپنے حق کو واپس لینے کے لئے قیام و تحریک کی خاطر متوجہ کیا تواسی وقت مؤذن کی آواز ''اشہد ان محمداً رسول اللہ'' بلند ہوئی آپ نے حضرت زہرا کی طرف رخ کر کے کہا: کیا تم پسند کرو گی کہ زمین پر سے یہ آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے؟ فاطمہ (س) نے کہا: ہرگز نہیں امام نے فرمایا: یہی بہترین راستہ ہے جسے میں نے اختیار کیاہے۔(۳)

اس موضوع کی اہمیت کے مد نظر اس سلسلے میں کچھ مزیدبحث کریں گے تاکہ امام کے مسلحانہ قیام کے نتائج کی صحیح سندوں کے ساتھ تحقیق کرسکیں۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ، نامہ ۶۲

(۲) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ا۷

(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۱ ص ۱۱۳

۱۵۵

اعلیٰ مقصد کی اہمیت

اجتماعی مسئلوں میں بہت کم ہی مسئلے ایسے ہوتے ہیں جو اہمیت اوردقت کے لحاظ سے مدیریت اور رہبری کے مقام تک پہونچتے ہیں. رہبری کے شرائط اتنے زیادہ دقیق اوراہمیت کے حامل ہیں کہ بڑے اجتماع کے درمیان فقط چند ہی لوگ شرائط پر پورے اتریں گے۔

ہر طرح کی رہبری کے دوران، آسمانی رہبروں کے مراتب دوسرے رہبروں سے بہت سنگین اوران کے فرائض بہت عظیم ہوتے ہیں اور دنیاوی رہبر سماج کے انتخاب کرنے کے بعد ایسے مقام و مرتبہ پر پہونچتے ہیں۔

الہی و معنوی رہبری میں مقصد، مقام و منصب کی حفاظت سے زیادہ بلند و باعظمت ہوتا ہے اور رہبر اس لئے قیام کرتا ہے کہ مقصد کو پایۂ تکمیل تک پہونچائے اور اگر اس کے سامنے دو راستے ہوں اور مجبور ہو کہ ایک کو چھوڑ دے اوردوسرے کو قبول کرے تو مقصد کے اصول و اساس کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ رہبری کو چھوڑ دے اور مقصد کو اپنے مقام و منصب رہبری سے زیادہ مقدس قرار دے۔

پیغمبر اسلام کے انتقال کے بعد حضرت امیر المومنین علیہ السلام بھی ایسے ہی اہم مسئلہ سے دو چار ہوئے، جب کہ رہبری اور حاکمیت سے ان کا مقصد اس پودے کی دیکھ بھال تھی جو پیغمبر اسلام کے ہاتھوں حجاز کی سر زمین پر لگایا گیا تھا اور ضروری تھا کہ زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ وہ ایک تناور اور مضبوط درخت میں تبدیل ہو جائے اور اس کی تمام شاخیں پوری دینا پر چھا جائیں اور لوگ اس کے سائے میں آرام کریں. اور اس کے بابرکت پھلوں سے استفادہ کریں۔

۱۵۶

پیغمبر کے ا نتقال کے بعد امام علیہ السلام اس بات سے بخوبی آگاہ ہوگئے کہ ہم ایسے حالات میں زندگی بسر کررہے ہیں کہ اگر حکومت پر قبضہ کرنے اوراپنے حق و مقام کے لئے اصرار کریں توایسے حالات رونما ہوں گے کہ پیغمبر اسلام کی تمام زحمتیں او رجواس مقدس مقصد میں آپ کا خون بہا ہے بے کار ہو جائے گا۔

پرانے کینے اور بغض و حسد

اسلامی معاشرہ ان دنوں بہت زیادہ مشکلات و اختلافات اور تفرقہ کا شکار تھا کہ ایک چھوٹی سی خانہ جنگی یا معمولی سی خوں ریزی مدینہ کے اندر یا باہر ایک زبردست جنگ کا سبب بن جاتی. بہت سے قبیلے والے جو مدینہ یا مدینہ سے باہر زندگی بسر کر رہے تھے ان کو حضرت علی سے کوئی محبت و انسیت نہیں تھی بلکہ ان سے بغض او رحسد و کینہ کواپنے دل میں رکھے تھے کیونکہ حضرت علی ہی تھے جنہوں نے ان قبیلوں کے کفر کے پرچم کو سر نگوں کیا تھا او ران کے پہلوانوں کو ذلت کے ساتھ زمین پر گرایا تھا۔

اگرچہ ان لوگوں نے بعد میں اسلام سے اپنے رشتے کو مضبوط کرلیا تھا اور ظاہراً خدا پرستی اور اسلام کی پیروی کر رہے تھے لیکن اسلام کے جانبازوں سے اپنے دل میں بغض و عداوت کو چھپائے ہوئے تھے۔

ایسے حالات میں اگر امام علیہ السلام اپنی قدرت کاملہ سے اپنا حق لینے کے لئے مسلحانہ قیام کرتے تو اس کے نتیجے میں یہ صورتیں پیش آتیں۔

۱۵۷

۱۔ اس جنگ میں امام کے بہت سے عزیز اور ساتھی جو آپ کی امامت و رہبری پر جان و دل سے معتقد تھے شہید ہو جاتے. البتہ جب بھی ان افراد کی قربانیوں کی وجہ سے حق اپنی جگہ واپس آجاتا تو مقصد کے پیش نظر ان کی جانبازی و فداکاری پر اتنا افسوس نہ ہوتا، لیکن جیسا کہ ہم آئندہ بیان کریں گے. ان افراد کے شہید ہوجانے کے بعد بھی حق، صاحب حق کے پاس واپس نہیں آپاتا۔

۲۔ صرف حضرت علی ہی اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے نہ بچھڑتے، بلکہ بنی ہاشم او رحضرت علی کے سچے پیرو اور دوستوں کے قیام کی وجہ سے پیغمبر کے بہت زیادہ صحابی جو امام کی خلافت پر راضی نہ تھے ان کا ساتھ نہ دیتے اور قتل ہو جاتے اور نتیجتاً مسلمانوں کی قدرت مرکز میں کمزور ہوجاتی، یہ گروہ اگرچہ رہبری کے مسئلے میں امام کے مقابلے میں کھڑا تھا لیکن دوسرے امور میں امام کے مخالف نہیں تھا اور شرک و بت پرستی، یہودیوں اور عیسائیوں کے مقابلے میں قدرت مند شمار کیا جاتا تھا۔

۳۔ مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے، دور دراز میں رہنے والے قبیلے جن کی سرزمین پر اسلام کا پودا ابھی قاعدے سے ہرا بھرا نہ ہوا تھا وہ اسلام کے مخالفوں اور دشمنوں سے مل جاتے اورایک طاقت بن کر ابھرتے اور ممکن تھا کہ مخالفوں کی قدرت و طاقت اور مرکز میں صحیح رہبری نہ ہونے کی وجہ سے، توحید کے چراغ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کردیتے۔

امیر المومنین علیہ السلام نے اس تلخ و دردناک حقیقت کو بہت نزدیک سے محسوس کیا تھا اسی لئے مسلحانہ قیام پر خاموشی کو ترجیح دیا. بہتر ہے کہ اس مطلب کوامام علیہ السلام کی زبان مبارک سے سنیں۔

عبد اللہ بن جنادہ کہتا ہے:

میںعلی ـکی حکومت کے اوائل میں مکہ سے مدینہ آیا میں نے دیکھا کہ تمام لوگ مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے اورامام کی آمد کے منتظرتھے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ علی اپنی تلوار لٹکائے ہوئے گھر سے باہر آئے. تمام لوگوں کی نگاہیں ان کی طرف تھیں یہاں تک کہ آپ مسند خطابت پر جلوہ افروز ہوئے اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد اپنی گفتگو کا آغاز اس طرح کیا۔

۱۵۸

''اے لوگو، آگاہ رہو! جب پیغمبر اسلام ہمارے درمیان سے اٹھ گئے تو اس وقت ضروری تھا کہ کوئی بھی ہمارے ساتھ حکومت کے سلسلے میں نزاع و اختلاف نہ کرتا اور اسے لالچی نگاہوں سے نہ دیکھتا کیونکہ ہم ان کی عترت کے وارث اوران کے ولی ہیں لیکن توقع کے خلاف ، قریش کے ایک گروہ نے ہمارے حق کی طرف ہاتھ بڑھایا. خلافت کو ہم سے چھین لیا اور اس پر قابض ہوگئے، خدا کی قسم، اگر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اوراختلاف کا ڈرنہ ہوتا اور پھر ان کے اسلام سے بت پرستی اور کفر کی طرف پلٹ جانے کا خطرہ نہ ہوتا اوراسلام کے مٹ جانے اور ختم ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو نقشہ کچھ او رہی ہوتا جس کا تم مشاہدہ کرتے۔(۱)

کلبی کہتا ہے:

جب علی ـ ، طلحہ وزبیر جیسے لوگوں کو بے وفائی اورعہد شکنی پر متنبہ کرنے کے لئے بصرہ کے لئے روانہ ہوئے تو اس وقت آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا:

''جس وقت خدا نے اپنے پیغمبر کی روح قبض کیا اس وقت قریش نے اپنے کو محترم سمجھ کر اپنے آپ کو ہم پر مقدم سمجھا اورہمارے حق کو ہم سے چھین لیا، لیکن میں نے صبر و بردباری کو اس کام سے بہتر سمجھا کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و اختلاف اور ان کا خون بہہ جائے، کیونکہ لوگوںنے ابھی ابھی اسلام قبول کیا تھا اوردینی بیداری ان کے اندر ابھی ابھی سرایت ہوئی تھی. اور تھوڑی سی غفلت انھیں خراب کردیتی اورایک معمولی شخص بھی انھیں بدل ڈالتا۔(۲)

ابن ابی الحدید جو حضرت علی سے محبت اور خلفاء سے تعصب رکھتا ہے صحابہ کے بعض گروہ جو حضرت علی سے کینۂ و عداوت رکھتے تھے ان کے بارے میں لکھتا ہے :

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱ ص ۳۰۷

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۸ ص۳۰

۱۵۹

تجربہ سے یہ ثابت ہے کہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ کینہ اور حسد کی آگ فراموش ہوجاتی ہے اور کینوں سے بھرے ہوئے دل سرد ہو جاتے ہیں اور اسی طرح زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک نسل ختم ہو جاتی ہے تو دوسری نسل اس کی جانشین بن جاتی ہے اورنتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دیرینہ کینہ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہو جاتا ہے ،جس دن حضرت علی مسند خلافت پر بیٹھے پیغمبر کو گزرے ہوئے پچیس سال ہوچکے تھے اور امید یہ تھی کہ اس طولانی مدت میں لوگ اپنے دلوں سے کینہ و عداوت کو بھلا بیٹھے ہوں گے لیکن امید کے برخلاف حضرت علی کے مخالفوں کی روح و مزاج بدلے نہیں تھے اور علی ـ سے کینہ و عداوت جو پیغمبر کے زمانے یا ان کے بعد لئے ہوئے ختم نہیں ہوئے تھے یہاں تک کہ فرزندان قریش، ان کے جوان اور نئی نسلیں جنھوں نے اسلام کے خونین جنگوں، واقعہ کودیکھا بھی نہ تھا اور امام کی شجاعت و بہادری کو جنگ بدر، احد وغیرہ میںقریش کے خلاف مشاہدہ نہیں کیا تھا اپنے بزرگوں کی طرح حضرت علی سے بہت سخت دشمنی و عداوت رکھتے تھے اور ان سے کینے کو اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے۔

چنانچہ امام علیہ السلام ایسے حالات میں پیغمبر کے انتقال کے بعد مسند خلافت پر بیٹھے اور حکومت کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور مخالفین کے دل میں حسد کی آگ بھڑکنے لگی، اور ایسے ایسے حالات رونماہوئے کہ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام مٹنے اور مسلمان نابود ہونے لگے اورجاہلیت اسلامی ملکوں سے ختم نہ ہوئی۔(۱)

امام علیہ السلام اپنی ایک تقریر میں اپنے مسلحانہ قیام کے نتیجہ کے ایک گوشہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

پیغمبر کے انتقال کے بعد میں نے اپنے کام میں بہت غور و فکر کی او رقریش کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے اپنے اہلبیت کے علاوہ کسی کو اپنا مددگار و ناصر نہ پایا لہذا ان کی موت پر راضی نہ ہوا اور اس آنکھ کو جس میں خس و خاشاک تھے اسے بند کرلیا اور گلے میں جو ہڈی اٹکی تھی اسے نگل گیااور زہرسے زیادہ تلخ حوادث و واقعات پر صبر کیا۔(۲)

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۱ ص ۱۱۴ خطبہ ۳۱۱

(۲)فَنَظَرْتُ فَاِذَا لَیْسَ لِیْ مُعِیْن الّٰا اَهْلُ بَیْتِیْ فَضَنَنْتُ بِهِمْ عَنِ الْمَوْتِ وَ اغْضَیْتُ عَلٰی الْقَذٰیٰ وَ شَرِبْتُ عَلَی الشّٰجٰی وَ صَبَرْتُ عَلَی اَخْذِ الْکَظَمِ وَ عَلَی اَمرَّ مِنْ طَعْمِ الْعَلْقَمِ، نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۲۶ اور خطبہ نمبر ۲۱۲میں بھی ایساہی مضمون ہے۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180