قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت22%

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 180

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56358 / ڈاؤنلوڈ: 4204
سائز سائز سائز
قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی ایک کی موت کا وقت آجاتا ہے تو کہتا ہے : میرے رب مجھے واپس کر دے شاید جو میں نے ترک کیا ہے اس کے بدلے عمل صالح انجام دے لوں، ایسا نہیں ہے ! یہ ایک بات ہے جو وہ اپنی زبان پر جاری کرتاہے ! اوران کے پیچھے قیامت تک کے لئے برزخ ہے۔

کلمات کی تشریح:

۱۔''یتوفّی'': مکمل اور تمام دریافت کرتا ہے، یعنی خدا وند عالم یا ملک الموت اس کی جان مکمل طور پرلے لیتے ہیں ،سوتے وقت بھی ایسا ہوتا ہے جب آدمی کی قوت ادراک اور بعض حواس کام نہیں کرتے جیسے کہ اس کی روح قبض کرلی گئی ہو۔

۲۔ ''حمیم'': کھولتا ہو اپانی ۔

۳۔''تصلےة جحیم'': جہنم میں کھولتے ہوئے پانی سے جلانا۔

۴۔'' برزخ'': دوچیز کے درمیان حد اور مانع ۔

انسان اس مرحلہ میں دنیاوی زند گی کی تمامیت اور اپنے تمام اعضاء کی موت کا احساس کرتا ہے لیکن اس کے بعد کی شناخت کے لئے بجزاخبار انبیاء کوئی وسیلہ نہیں رکھتا ، لہٰذا اگر انبیاء کی تصدیق کی ہے اوران پر اور وہ جو کچھ خدائی صفات اور شریعت الٰہی بیان کئے ہیںان سب پر ایمان رکھتاہے تو و ہ عا لم ا خرت اور اس کے مختلف مراحل پر بھی ایمان لے آئے گا ، عالم آخرت کے بار ے میں جو کہا گیا ہے اس کا، عالم دنیا میں جو دیکھا اور پہچانا ہے اس سے مقائسہ ممکن نہیں ہے ، کیونکہ ہمارے وسائل محدود اور اس دنیاوی زندگی سے مخصوص ہیں لیکن آخرت کے بارے میں انبیاء کی خبروں کی بررسی و تحقیق کا،جیسا کہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کوئی عملی راستہ نہیں ہے۔

منجملہ وہ روایات جو آخرت اور زندگی کے آخری لحظات کے بارے میں ہمیں ملی ہیں ان میں سے ایک روایت وہ ہے جو امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :

''من مات ولم یحجّ حجّة الاِسلام دُونما مانع یمنعهُ فلیمُت ان شاء یهودیاً أو نصرانیا ً''( ۱ )

جس کسی کو موت آجائے اور وہ بغیر کسی قابل قبول عذر کے اپنا واجب حج ترک کردے تو اسے اختیار ہے چاہے تو یہودی مرے چاہے تو نصرانی۔

____________________

(۱)ثواب الاعمال ، باب '' حج ترک کرنے والے کی سزا '' حدیث ۲.

۸۱

۴۔

قبر میں انسان کی جزا

جن چیزوں سے ميت کو قبر میں سامنا ہوگاان سے روائی کتابیں بھری پڑی ہیں: دو مامور فرشتوں کے عقائد سے متعلق سوال( ۱ ) سے لے کر حسن سلوک اور بد سلو کی نیز اپنی زندگی کی ہر حرکت و سکون کے آثار دیکھنے تک او ر یہ کہ قبر ميت کے لئے جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا آگ کے گڈھوں میں سے ایک گڈھا ہے۔( ۲ ) اورجو کوئی چغل خوری کرے یا پیشاب کرتے وقت نجاست کی پرواہ نہ کرے قبر میں عذاب سے دوچار ہوگا( ۳ ) اور جس کا اخلاق اچھا ہو گا قبر میں داخل ہونے کے وقت سے لیکر قیامت میں حساب وکتاب کے آخری مرحلہ تک اچھی جزا پاتا رہے گا۔( ۴ ) اور جو کوئی اپنا رکوع صحیح انجام دے قبر میں اس پر کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہوگا۔( ۵ )

____________________

(۱)سفینة البحار میں مادئہ '' نکر'' ملاحظہ ہو

(۲) سفینة البحار میں مادئہ '' قبر'' ملاحظہ ہو۔

(۳) ثواب الاعمال ،صدوق ، ص ۲۹۵ ، ح ۱ ؛صحیح مسلم ، کتاب الطہارة ، باب'' الدلیل علی نجاسة البول'' ص ۲۴۰۔ ۲۴۱ ؛ سنن دارمی ، کتاب الطہارة ، سنن ابی داؤد ، کتاب الطھارة ، باب'' الاستبراء من البول'' ج ۱ ، ص ۳۴ ، ۳۵ ؛ سنن ابن ماجہ ، کتاب الطہارة ، باب''ا التشدید فی البول'' ج۱ ، ص ۱۲۴ ، ۱۲۵ ؛ مسند احمد ، ج۱ ، ص ۲۲۵ ، ج۵ ،ص۴۶۶اور ۴۱۷ اور ۴۱۹ ؛صحیح بخاری ، کتاب الوضو، باب ''من الکبائران لا یستر من بولہ'' ج۱، ص۶۴، کتاب الادب ، باب الغیبة ج۸ ، ص ۲۰ اورباب ''النمیمة من الکبائر''ج۸ ، ص۲۱ ۔

(۴)ثواب الاعمال ، ص۱۸۰،باب'' برادر مومن کو خوش کرنے کا ثواب''

(۵)سفینة البحار ، مادئہ ''رکع''

۸۲

۵۔

انسان اور محشر میں اس کی جزا

الف: صور پھونکنے کے وقت

محشر کے دن کاآغازحساب وکتاب کے لئے صور پھونکتے ہی ہو جائے گا ،''صور''عربی لغت میں شاخ کے مانند ایک چیز ہے، اسمیں پھونک مارتے ہیں تو اس سے آواز نکلتی ہے خداوند سبحان فرماتا ہے:

( و نفخ فی الصور فصعق مَن فی السماوات و مَن فی اِلٔاّرض الّا مَن شاء ﷲ ُ ثُّم نُفخَ فیه أخریٰ فا ذا هم قِیام ینظُرُون ) ( ۱ )

اورصور پھونکا جائے گا پس زمین وآسمان کے درمیان جتنے لوگ ہیں سب مر جائیں گے جزان لوگوں کے جنھیں خدا چاہے ،پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا اچانک سب یک بارگی اٹھ کھڑے ہوں گے جیسے کہ انتظار میں ہوں۔

''صعق'': یہاں پر ایک ایسی آواز ہے جس کااثر موت ہے حدیث میں ''نفخ'' کے لئے ایک تفسیر بیان ہوئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: صوردو مرتبہ پھونکا جائے گا:

پہلی مرتبہ:

پہلی مرتبہ جب اسرافیل صور پھونکیں گے اور تمام زمین وآسمان کے موجودات مر جائیں گے سوائے ان لوگوں کے جنھیں خدا چاہے حاملان عرش ، جبرائیل ، میکائیل اورعزرائیل اِس کے بعد خدا وند عالم ملک الموت سے کہے گا: کون باقی بچا ہے؟ کہیں گے: خدایا !ملک الموت ،جبرائیل ، میکائیل اور حاملان عرش کے علاوہ اور

____________________

(۱)زمر ۶۸

۸۳

کوئی باقی نہیں بچا، خداوند عالم فرمائے گا : جبرائیل اور میکا ئیل سے کہو: مر جائیں اوران کی روح قبض کرلی جائے ، اس کے بعد ملک الموت سے کہے گا :کون بچا ہے ؟ ملک الموت جواب دیں گے: خدا یا ! ملک الموت اور حاملان عرش کے علاوہ کوئی باقی نہیں ہے! کہے گا : حاملان عرش سے کہو مر جائیں اوران کی روح قبض کر لی جائے اسکے بعد فرمائے گا :اے ملک الموت اب کون بچا ہے؟عرض کریں گے: ملک الموت کے علاوہ کوئی نہیں بچا ہے، ارشاد قدرت ہوگا : تم بھی مر جاؤ، ملک الموت بھی مر جائے گا،اب خدا وند ذوالجلال آواز دے گا :

( ''لمن الملک الیوم ) ٫٫آج کس کی حکومت ہے''؟

جب کوئی جواب نہیں دے گا،تواُس وقت خدا وند ذوالجلال خود ہی اپنا جواب دیتے ہوئے فرمائے گا:

( ''ﷲ الواحدِ القهار٫٫ ) خدا وندیکتاو قہار کی حکومت ہے''۔( ۱ )

اُس کے بعد جب چاہے گا دوبارہ صور پھونکے گا جیسا کہ خود ہی فرماتا ہے: پھر دوبارہ صور پھو نکے گا اچانک سب کے سب ا ٹھ کھڑے ہوں گے جیسے کہ انتظار میں ہوں۔( ۲ )

دوسری مرتبہ:

خداوند عالم ا س کے بارے میں ارشاد فرماتاہے:

۱۔( ونفخ فی الصور فجمعنا هم جمعاً )

صورپھونکا جائے گاتوہم سب کو اکٹھا کریں گے۔( ۳ )

۲۔( و یوم ینفخُ فی الصور ففزعَ مَن فی السمواتِ و مَن فی الٔرض الّا من شاء ﷲ و کلّ أتوهُ ٰاخرین ) ( ۴ )

جس دن صور پھونکا جائے گا آسمان و زمین کے رہنے والے سب کے سب وحشت کے دریا میں غرق ہوںگے، جز ان کے جنھیں خد ا چاہے گا اور سب کے سب خضو ع کے ساتھ سرجھکائے اس کے حضور میں حاضر ہوں گے۔

۳۔( ونفخ فی الصورفاِذا هم من الأجداث الیٰ ربهم ینسلون)(قالوا یاویلنا مَن بعثنا من )

____________________

(۱) مومن ۱۶ (۲)الدر المنثور سیوطی ،۵ ۳۳۶، ۳۳۷؛ و بحار بہ نقل از کافی وغیرہ ۶ ۳۲۶، ۳۲۷ ۔(۳)کہف ۹۹ (۴)نمل ۸۷

۸۴

( مرقد نا هذاماوعد الرحمن وصدق المرسلون)( ان کانت الّا صیحة ًواحدةً فاذاهم جمیع لدینا محضرون)(فالیومَ لا تُظلم نفس شیئاًً ولا تُجزونَ اِلّاما کُنتم تعملون ) ( ۱ )

صور پھونکا جائے گا ، نا گاہ وہ لوگ اپنی قبروں سے ا ٹھ کرتیزی کے ساتھ اپنے ربّ کی طرف دوڑ یں گے اور کہیں گے ہم پر وائے ہو! کس نے ہمیں ہماری آرام گاہ سے اٹھاد یا ؟ یہ وہی ہے جس کا خدا وند رحمن نے وعدہ کیا تھا اورا س کے فرستادہ افراد نے سچ کہا تھا ،یہ روداد ایک چیخ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کہ ناگہاں سب کے سب ہمارے پاس حاضر ہوں گے،آج کے دن کسی پر ذرہ برابربھی ستم نہیں ہو گا اور تم نے جو عمل کیا ہے اس کے علاوہ تمہیںکوئی پاداش اور جزا نہیں دی جائے گی۔

اور نیز اس سلسلہ میں کہ تمام انسانوں کو اکٹھا کریگا، فرمایا:

۱۔( وحشرناهم فلم نُغا درمنهم أحداً ) ( ۲ )

اورہم ان سب کواٹھا ئیں گے اوران میں سے کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔

۲۔( یوم ینفخ فی الصورونحشرالمجرمین یومئذٍ زرقاً ) ( ۳ )

جس دن صور پھو نکاجائے گا اور مجرموں کو نیلے جسم کے سا تھ ( بدرنگ صورت میں ) اس دن جمع کریں گے۔

۳۔( یوم نحشر المتقین الیٰ الرحمن وفداً ) ( ۴ )

جس دن پرہیز گاروں کو ایک ساتھ خدا وند رحمن کے حضور میں محشور کریں گے۔

کلمات کی تشریح

ا ۔''داخرین'': ذلت اور رسوائی کے ساتھ۔

۲۔''أجداث'': قبریں۔

۳۔''ینسلون'': جدا ہوں گے ، قبروں سے تیزی کے ساتھ باہر آئیں گے

۴۔''زرقاً'': زَرَق یا اَزْرَق کی جمع ہے، نیلے پن کے معنی میں

۵۔ ''وفداً: وفد ھیئت'' اور اس گروہ کا نام ہے جو پاداش اور جزا حاصل کرنے یا کسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر حاکم کے پاس جاتے ہیں۔

____________________

(۱)یس ۵۱، ۵۴(۲) کہف ۴۷ (۳) طہ ۱۰۲(۴)مریم ۸۵

۸۵

ب:روز قیامت کے مناظر کے بارے میں

خدا وندعالم روز قیامت کا اس طرح تعارف کراتا ہے:

۱۔(( أنّهم مبعوثون، لیومٍ عظیمٍ، یومَ یقومُ الناسُ لربِّ العالمینَ ) ( ۱ )

وہ لوگ مبعوث ہو ں گے ،عظیم دین میں ، جس دن لوگ خدا وند عالم کے حضور میں کھڑے ہوں گے۔

۲۔( یوم یقومُ الرّ وُحُ و الملا ئکة ُ صفّاً لا یتکلمون الا منَ اذنَ لهُ الرحمنُ وقال صواباً ) ۔( ۲ )

جس دن روح اور فرشتے ایک صف میں کھڑے ہوں گے اور کوئی بھی سوائے اس کے جسے خدا وند رحمن اجازت دے اور درست کہے نہیں بولے گا۔

۳۔( وخلق ﷲ السمٰوات والأرض با لحق ولتجزیٰ کُلّ نفسٍ بما کسبت وهم لا یظلمون ) ( ۳ )

اور خدا وند عالم نے آسمان اور زمین کو بر حق خلق کیا ہے تا کہ ہر شخص کو اس کے کاموں کی جزا دی جائے اوران پر ظلم وستم نہیں ہو گا ۔

۴۔( وکل انسانٍ الزمناه طائره فی عنقه ونخرج له یوم القیامةِ کتاباً یلقاه منشوراًاقراکتابک کفیٰ بنفسک الیوم علیک حسیباً ) ( ۴ )

اورہم نے انسان کے نامۂ اعمال کوا س کی گردن میں آویزاں کر دیا ہے اور قیامت کے دن اس کے لئے ایک کتاب باہر نکا لیں گے کہ وہ اسے اپنے سامنے کھلا ہوا دیکھے گا!اس سے کہا جائے گا اپنی کتاب (نامہ اعمال) پڑھو! اتنا ہی کافی ہے کہ آج کے دن خود اپنا محاسبہ کر نے والے رہو۔

۵۔(( کل امة تدعیٰ الی کتا بها الیوم تجزون ما کنتم تعملون)( هذا کتابُنا ینطقُ علیکم بالحق انا کُنا نستنسخ ما کنتم تعملون)( وبدٰالهم سیئاتُ ماعملوا و حاق بهم ما کانوا به یستهزون)( وقیل الیوم ننسا کم کما نسیتم لقائَ یومکم هذا ومأوا کم النارُومالکم من ناصرین)(ذلکم بانکم اتخذ تم آیاتِ ﷲ هزواًوغر تکم الحیاة الدنیا فا لیوم )

____________________

(۱)مطففین ۴،۶(۲)نباء ۳۸(۳)جاثیہ ۲۲ (۴) اسراء ۱۳، ۱۴

۸۶

( لایخرجون منها ولاهم يُستعتبونَ ) ( ۱ )

ہر امت کواس کی کتاب کی طرف دعوت دی جائے گی ،آج جو تم نے اعمال انجام دئیے ہیں ہم اس کی جزا دیں گے ، یہ ہماری کتاب ہے جو تم سے حق کے ساتھ گفتگو کرتی ہے، تم جو کچھ انجام دیتے ہو ہم لکھ لیتے اور جو انھوں نے برائیاں انجام دی ہیں آشکار ہو جائیں گی اور جس چیز کا مذاق اڑایا ہے وہی انھیں اپنے احاطہ میں لے لیگا اوران سے کہا جائے گا آج ہم تم کو فراموش کر دیں گے جس طرح تم نے اس دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا ، تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہے اور کوئی تمہارا مدد گار نہیں ہے، یہ اس وجہ سے ہے کہ تم نے آیات الٰہی کا مذاق اڑایا اور دنیاوی زندگی نے تمھیں فریب دیا ! آج وہ لوگ نہ دوزخ سے باہر آئیں گے اور نہ ان کا عذر قبول ہوگا ۔

۶( ( فا ما من اوتی کتابه بیمینه فیقول هاوم اقرء وا کتابیه)(وأما من أوتی کتابه بشماله فیقول یا لیتنی لم أوت کتا بیهولم أدرما حسا بیه ) ( ۲ )

پس جس کواس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا آؤ ہمارا نامہ اعمال پڑھو اور جسے ا س کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جا ئے گا وہ کہے گا : اے کاش! میرا نامہ اعمال کبھی میرے ہاتھ میں نہ دیا جاتا اور میں اپنے حساب کو نہ جانتا ۔

۷۔( فأما من أوتی کتابه بیمینه ) ( فسوف یحا سب حساباً یسیراً)( وأما من اوتی کتا به و راء ظهره)(فسوف ید عوا ثبو راً ) ( ۳ )

پس جس کوا س کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا عنقر یب اس کا حساب آسانی سے ہو جائے گا ، لیکن جسکا نامہ اعمال اس کے پیچھے سے دیا جائے گا عنقر یب وہ ہلا کت کی فر یاد اور واویلا کرے گا۔

۸۔( و لایحسبن الذین یبخلو ن بما آتاهم ﷲ من فضله هوخیراً لهم بل هو شر لهم سیطوّ قون ما بخلوا به یوم القیا مة ) ( ۴ )

جو لوگ بخل اور کنجوسی سے کام لیتے ہیں اور جو خدا وند عالم نے انھیں اپنے فضل سے دیا ہے اسے خرچ نہیں کرتے ، وہ خیال نہ کریں کہ یہ کام ان کے نفع میں ہے ، بلکہ ان کے لئے بُرا ہے ،عنقریب قیامت کے دن جس چیز کے بارے میں بخل کیا ہے وہ ان کی گردن کا طوق بن جائے گا ۔

____________________

(۱)جاثیہ۲۸ ، ۲۹ ،۳۳، ۳۵(۲)حاقہ ۱۹، ۲۶ (۳) انشقاق۷ ، ۱۱(۴)آل عمران ۱۸۰

۸۷

۹۔( و یوم یقوم الا شهاد)( یوم لا ینفع الظا لمین معذ ر تهم ) ( ۱ )

جس دن گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے ، اس دن ظالموں کوان کی معذرت فائدہ نہیں دے گی۔

۱۰۔( و یوم نبعث فی کلّ اُمّة شهیداً علیهم من أنفسهم وجئنا بک شهیداً علیٰ هٰولائِ ) ( ۲ )

جس دن ہم ہر امت میں انھیں میں سے ان پر ایک گواہ لا ئیں گے اور تم کو (اے پیغمبر!)ان پر گواہ قرار دیں گے۔

۱۱۔( حتّیٰ اِذا ماجاؤها شهد علیهم سمعهم و ابصار هم وجلو دهم بما کانوا یعملون)( و قالوا لجلود هم لم شهد تم علینا قالوا أنطقنا ﷲ الذی أنطق کلّ شییئٍ ) ( ۳ )

جب اس تک پہنچیں گے توان کے کان ،ان کی آنکھیں اور ان کی جلدیںان کے کرتوت کی گواہی دیں گی ، وہ لوگ اپنی جلدوں سے کہیں گے : کیوںہمارے برخلاف گواہی دی ؟ جواب دیں گی : جس خدا نے ہرموجود کو قوت گویائی عطا کی اسی نے ہمیں بھی گویائی دی ہے ۔

کلمات کی تشریح

۱۔''طائرہ'':اس کے اچھے اور بُرے عمل سے کنایہ ہے۔

۲۔''ثبور'': ہلاکت، ید عو ثبوراً، یعنی ہلاکت کی فریادکرتاہے۔

۳۔''سیطوّ فون'': ان کی گردن میں طوق ڈال دیں گے، یعنی واجب حقوق کے ادا نہ کرنے پر سانپ کی صورت میں بخل ان کی گردن میں مجسم ہو جائے گا۔

۴۔''الشھید والا شھاد'':شہید یعنی وہ قاطع گواہ جو بدل نہ سکے اور''اشھاد'''' شاہد'' کی جمع ہے اس سے مراد انبیاء اوران کے ہمراہی ہیں جو اپنی امت پر گواہی دیں گے اور جو بھی انسان سے صادر ہونے والے اعمال پر گواہ ہو۔

قیامت کے دن اعمال کے آثار کے بارے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے:

۱۔''أطوَ لُکم قنوتاً فی دار الدنیا أطوَلُکم راحةً یوم القیا مة فی الموقف ''( ۴ )

جو لوگ دار دنیا میں قنوت (نماز)کے اعتبار سے جتنا طولانی ہوں گے وہ آخرت میں حساب کے وقت

____________________

(۱)غافر۵۱(۲)نحل ۸۹(۳)فصلت ۲۰،۲۱ (۴)ثواب الاعمال،ص۵۵

۸۸

اتنا ہی ز یادہ مطمئن ہوں گے ۔

۲۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اِذا سجد أحد کم فلیباشر بکفیه الأرض لعلّ یصرف عنه الغل یوم القیامة'' ( ۱ )

جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تواسے چاہئیے کہ اپنی ہتھیلیوں کو زمین سے چسپاں کرے تاکہ روز قیامت کی تشنگی کا اس کو سامنا نہ ہو ۔

۳۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے کے آپ نے فرمایا:

(مَن بغی علیٰ فقیرٍ أو تطاول علیه و استحقره حشره ﷲ یوم القیامة مثل الذرة علیٰ صورة رجل ید خُلُ النار )( ۲ )

جو کوئی کسی فقیر پر ظلم کرے یااس پر فخر ومباہات کرے اوراُسے حقیر و معمولی سمجھے خدا وند عالم اسے قیامت کے دن انسانی شکل میں چیونٹی کے مانند جہنم میں داخل کرے گا۔

۴۔حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''ان المتکبر ین یجعلون فی صورة الذر یتوطأ بهم الناس حتیٰ یفرغ ﷲ منالحساب'' ( ۳ )

متکبرین قیامت کے دن چیونٹی کی شکل میں ہوں گے اور لوگ ان کے او پر سے راستہ طے کریں گے یہاں تک کہ خدا وند عالم حساب و کتاب سے فارغ ہو جائے۔

____________________

(۱)ثواب الاعمال،ص۵۵۔۵۷.

(۲) ثواب الاعمال،ص ۳۳۵، باب ''اعمال کی سزائیں''

(۳)ثواب الاعمال،ص۲۶۵

۸۹

۶۔

انسان اور جنت و جہنم میں اس کی جزا

خدا وندعالم انسان کو عالم آخرت میں اس کے اعمال کے مطابق جو اس نے اس دنیاوی زندگی میں انجام دئیے ہیں اوراس عا لم میں اس کے سامنے مجسم ہوں گے بہشتی نعمتوں کے ذریعہ جزا اور عذاب جہنم کے ذریعہ سزا دے گا ، جیسا کہ اس کے بارے میں خود ہی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

۱۔( اِنّ ﷲ ید خل الذین آمنو ا وعملو االصالحات جنّٰاتٍ تجری من تحتها الأنهار ) ( ۱ )

خداوندعالم ایمان لانے والوںاورعمل صالح انجام دینے والوں کو بہشت کے باغوں میں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی داخل کرے گا۔

۲۔( ومَن عمل صالحاً من ذکر أو أنثیٰ وهو مؤمن فأولئک یدخلون الجنة یرزقون فیها بغیرِ حساب ) ( ۲ )

جو کوئی بھی عمل صالح انجام دے خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہو، وہی لوگ بہشت میں جائیں گے اوراس میں بے حساب رزق پائیں گے۔

۳( من یعمل سوء اً یجز به و لا یجد له من دونِ ﷲ وليّا و لا نصیراً و من یعمل من الصّا لحات من ذکرٍ أو أنثیٰ و هو مؤمن فأولئک ید خلونَ الجنة و لا يُظلمونَ نقیراً )

جو شخص بُرے کام کریگا اسے اس کی سزا ملے گی اور خدا کے علاوہ کسی کو ولی اور یاور نہیں پائے گا اور اگر کوئی اعمال صالحہ انجام دے گا ، خواہ عورت ہو یامرد ، جب کہ وہ مومن بھی ہو وہ جنت میں جائے گا اوراس پر ادنیٰ ظلم بھی نہیں ہوگا۔( ۳ )

۴۔( و یوم القیا مة تری الذین کذبوا علیٰ ﷲ وجوههم مسو دّة الیس فی جهنم مثویً للمتکبرین

____________________

(۱)حج۲۳

(۲)مومن۴۰

(۳)نسائ۱۲۳،۱۲۴

۹۰

ووفّیت کلّ نفسٍ ما عملت)(...وسیق الذین اِتّقواربّهم اِلی الجنةِ زمراً ) ( ۱ )

جن لوگوں نے خدا کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے انھیں دیکھو گے کہ ان کے چہرے قیامت کے دن سیاہ ہوں گے،آیا متکبر ین کے لئے جہنم میں کوئی ٹھکانہ نہیں ہے؟ اور جس نے جو بھی عمل انجام دیا ہے بغیر کسی کم وکاست کے اسے دیا جائے گا اور جن لوگوں نے تقوائے الٰہی اختیار کیا ہے وہ جوق در جوق بہشت میں لے جائے جائیںگے۔

۵۔( الذین آمنوا بآ یا تنا و کانوا مسلمین أدخلوا الجنة انتم وأزواجکم تحبرون ) ( ۲ )

جو لوگ ہماری آیات پر ایمان لائے اور مسلمان بھی ہیں(اُن سے کہا جائے گا)تم اور تمہاری بیویاں جنت میں خوش وخرم داخل ہو جاؤ۔

۶۔( وتلک الجنة التی أورثتموها بما کنتم تعملون ِأن المجر مین فی عذاب جهنم خا لدون وما ظلمنا هم و لکن کانوا هم الظّا لمین ) ( ۳ )

اوریہ وہ بہشت ہے جس کے تم اپنے اعمال کی جزا کے طور پر وارث ہو گے،(لیکن) گناہ کاروں کے لئے جہنم کا عذاب ابدی ٹھکانہ ہے... ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا ہے بلکہ وہ خود ظالم تھے ۔

۷۔( و الذین یکنزون الذهب والفضّة ولا يُنفقونها فی سبیل ﷲ فبشّرهم بعذابٍ ألیمٍ یوم یحمیٰ علیها فی نارجهنم فتکویٰ بها جبا ههم و جنو بُهُم و ظهو رُ هم هذا ما کنزتم لأنفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون ) ( ۴ )

جو لوگ سونا چاندی ذخیرہ کرتے ہیں لیکن اسے راہ خدا میں انفاق نہیں کرتے انھیں درد ناک عذاب کی بشارت دیدو! جس دن انھیں جہنم کی آگ میں گرم کرکے ان کے چہروں ، پہلووں اور پشتوں کو داغا جائے گا (اورا ن سے کہیں گے )یہ وہی چیز ہے جس کا تم نے اپنے لئے خود ہی ذخیرہ کیا ہے ! لہٰذا جو تم نے جمع کیا ہے اسکا مزہ چکھو۔

شیخ صدوق نے اپنی سند کے ساتھ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :

''اربعة یؤذون أهل النار علی ما بهم من الأ ذی ینادون بالویل و الثبور: رجل علیه تا بوت من حجر فِانه مات وفی عنقه أموال الناس لم یجد لها فی نفسه ادائً ولا مخلصاً ورجل یجرأ معاء ه ،فأ نه کان لا یبالی أین أصاب البول جسده ورجل یسیل فوه قیحاً و دماً، فأنه

____________________

(۱) زمر۶۰ ،۷۰ ،۷۳(۲) زخرف ۶۹، ۷۰(۳)زخرف۷۲، ۷۴، ۷۶.(۴)توبہ۳۴، ۳۵

۹۱

کان یحاکی فینظر کل کلمةٍخبیثةٍ فیفسدُ بها و یحاکی بها و رجل یأکل لحمه،فأنه کان یأ کل لحوم الناس بالغیبة و یمشی بالنمیمة'' ( ۱ )

چار گروہ ایسے ہیں کہ جب عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو آہ وواویلا اور دہائی کا شور مچائیں گے جس سے اہل جہنم کو اذیت ہوگی۔

۱۔ایک وہ شخص جس پر پتھر کا تابوت ہو گا کیونکہ وہ ایسی حالت میں دنیا سے گیا ہے کہ لوگوں کے اموال و مال حقوق اس کی گردن پر تھے جن کے نیز ادا کرنے اور ان سے چھٹکارا پانے کا ارادہ بھی نہیں رکھتا تھا ۔

۲۔وہ شخص جو اپنی آنتیں خود گھسیٹتا پھرے گا وہ ایسا آدمی ہے جو بدن کے کسی حصّہ پر پیشاب کے لگ جانے کی پرواہ نہیں کرتا ۔

۳۔ وہ شخص جس کے منھ سے پیپ اور خون جاری ہوگا ، اس لئے کہ وہ ان کے اوران کے منھ سے بُری باتیںلیکر دوسروں کے سامنے بیان کرتا تھا اور فتنہ وفساد برپا کرتا تھا۔

۴۔وہ شخص جواپنا گوشت کھائے گا ،وہ ایسا شخص ہے جو لوگوں کا گوشت غیبت اور چغلی کر کے کھاتا تھا۔

خدا وند متعال جنت اور جہنم کے متعدد دروازوں کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( واِنّ للمتقین لحسن مآبٍجناتِ عدنٍ مفتحةً لهم الأبواب ) ( ۲ )

پرہیز گاروں کا انجام بخیر ہے، جاوداںبہشتی باغات جس کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔

ابلیس سے خطاب کرتے ہوئے (اس پر خدا کی لعنت ہو) فرمایا:

( اِنّ عبادی لیس لک علیهم سلطان اِلاّمن أتبعک من الغاوین و اِنّ جهنم لموعدهم أجمعین،لهاسبعةُ ابوابٍ لکل بابٍ منهم جزء مقسوم ) ( ۳ )

تو کبھی ہمارے بندوں پر مسلط نہیں ہوپائے گا، سوائے ان گمراہوں کے جو تیری پیر وی کریں اور جہنم ان سب کا ٹھکانہ اور وعدہ گاہ ہے،جس کے سات دروازے ہیں اور ہر دروازے کے لئے ان میں سے ایک معین گروہ تقسیم ہوا ہے۔

کلمات کی تشریح:

۱۔''نقیر'': خرمے کی گٹھلی کی پشت پر معمولی نشیب اور نقطہ کو کہتے ہیں کہ ہلکی اور بے ارزش چیزوں

____________________

(۱)عقاب الاعمال ص ۲۹۵ ،۲۹۶(۲)ص۴۹،۵۰. (۳)حجر ۴۲، ۴۴.

۹۲

کی اس سے مثال دیتے ہیں۔

۲۔''مثوی'' : استقرارو اقامت کی جگہ، ٹھکانہ وغیرہ۔

۳۔'' زمرا ً '': گروہ گروہ، زُمَر ، زُمْرہ کی جمع ہے فوج اور گروہ کے معنی ہے۔

۴۔'' مآب'' : باز گشت، عاقبت ، انجام ۔

۵۔''جنات عدن'' : سکون و اطمینان کی جنتیں.

روایات میں آیات کی تفسیر

مذکورہ آیات کی تفسیر سے متعلق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور جہنم کے سات ، بعض در، دوسرے در سے بہتر ہیں۔( ۱ )

حضرت امام علی سے ایک روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

کیا تمھیں معلوم ہے کہ جہنم کے دروزے کیسے ہیں ؟ راوی کہتا ہے کہ ہم نے کہا : انھیں دروازوں کے مانندہیں، فرما یا نہیں ، بلکہ اس طرح ہیں: اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھا اوراُسے کھول دیا ،یعنی جہنم کے دروازے خود جہنم کے مانند ایک دوسرے پر سوار ہیں اور تفسیر قر طبی میں آیا ہے،اس کے بعض دروازے بعض دروازوں پر ہیں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ! ہر طبقے والے اپنے اسی طبقے میں ہیں۔( ۲ )

نیز رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے '' جزء مقسوم''کی تفسیر میں فرمایا:جہنم کے در وزوںمیں سے ہر در وازے کے لئے اہل جہنم کا ایک معین گروہ تقسیم ہو ا ہے کہ ہر گروہ جواپنے کرتوت کے مطابق عذاب میں مبتلاہو گا۔( ۳ )

آخر میں ہم بعض احادیث کا ذکر کر کے بحث کو تمام کریں گے جو گزشتہ آیات کی تشریح کر رہی ہیں اور اعمال کے نتائج اجمال واختصار اور بسط و تفصیل سے بیان کر رہی ہیں اس ۔

۱۔اصو ل کافی میں حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو کسی مومن کو راضی و خوشنود کرے خدا وند عزوجل اس خوشنودگی سے ایسی مخلوق پیدا کرے گا جو اس کے

____________________

(۱) تفسیر سیوطی ،الدرالمنثور ج۴ ،ص ۹۹، ۱۰۰، (۲)اس آیت کی تفسیر کے لئے تفسیر مجمع البیان ، تفسیر قرطبی و سیوطی کی جانب مراجعہ کیجئے.(۳) تفسیر سیوطی ،الدرالمنثور ج۴ ،ص ۹۹.

۹۳

مرنے کے وقت اس سے ملاقات کرے گی ا وراس سے کہے گی: اے خدا کے ولی! تجھے مبارک ہو کہ تو خداوندعالم کی کرامت اور اس کی رضاوخو شنودگی کے ساتھ ہے، پھر وہ اس کے ساتھ ہمیشہ رہے گی یہا ں تک کے قبر میں جاتے وقت اسے یہی خوشخبری دے گی اور جب محشور ہوگا تب بھی اس کے دیدار کو جائے گی ،اس کے پاس رہے گی یہاں تک کہ سخت اور ہولناک میں ہمیشہ اسے نوید دے گی اوراس کا دل شاد کرتی رہے گی، پھر وہ شخص اس سے

کہے گا : تجھ پر خدا کی رحمت ہو تو کون ہے ؟ کہے گی:''میں وہی خوشی ہوں جو تو نے فلاں شخص کو عطاکی تھی''( ۱ )

۲۔بحار میں جناب صدوق کی ''معانی الاخبار'' سے حضرت امام جعفر صادق سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا:

جو کسی مومن کا غم غلط کرے اوراس کے رنج کو دور کرے خداوند عالم آخرت میں اس کے رنج و غم کو دور کرے گا اور وہ ٹھنڈے دل کے ساتھ خوش حال قبر سے باہر آئے گا اور جو کسی مومن کو گرسنگی اور بھوک سے نجات دے خدا وند عالم اسے بہشت میں میوے کھلائے گا اور جو کوئی اسے پانی پلائے خدا وند عالم اسے جنت کے مہر شدہ جام پانی سے سیراب کرے گا۔( ۲ )

۳۔ حضرت امام ابو الحسن سے اصول کافی میں روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

روئے زمین پر خدا کے کچھ ایسے بندے ہیں جو ہمیشہ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرتے رہتے ہیں ،وہ لوگ روز قیامت آسودہ خاطر اور خوشحال افراد میں سے ہوںگے ، ہاں اگر کوئی کسی مومن کو خوش کرے تو خدا وندعالم قیامت کے دن اس کا دل شاد کرے گا۔( ۳ )

۴۔اصول کافی میں حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

کوئی مسلمان کسی مسلمان کی ضرورت پوری نہیں کر تا مگر یہ کہ خدا وندعالم اسے آواز دیتا ہے تیری جزا مجھ پر ہے اور بہشت کے علاوہ کسی چیز پر تیرے لئے راضی نہیںہوں۔( ۴ )

۵ ۔جناب صدوق نے ثواب الاعمال میں معروف بن خر ّبوذ کا قول نقل کیا ہے کہ اس نے کہا، میں نے امام باقر ـ کو فرماتے ہوے سناہے:

''جو مومن بھی دنیا میں پریشانی اور مشکلات میں گرفتار ہو اور بوقت مشکل '' انا للہ و انا الیہ راجعون'' کہے ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جا ئیں گے! خدا وند عالم اس کے تمام گزشتہ گناہ بخش دے گا ،

____________________

(۱)اصول الکافی ج۲ص۱۹۱،ح۱۲ (۲)بحار ج۶ ،ص ۳۵۵(۳)اصول کافی ج۶ ، ص ۱۹۷ ،ح۶ (۴)اصول کافی ج۱ ، ص۱۹۴ ،ح۷

۹۴

سوائے ان گناہان کبیرہ کے جو جہنم کا باعث ہوں اور فرمایا: جب بھی کوئی اپنی آئندہ عمر میں کسی مصیبت کویاد کرے اور کلمہ استر جاع ''انا للہ و انا الیہ راجعون''کہے اور خدا کی حمد کرے خدا وندعالم اس کے وہ تمام گناہ جو کلمہ استر جاع اوّل اورکلمئہ استرجاع دوم کے فاصلہ میں انجام د یئے ہیں بخش دے گا سوائے گناہان کبیرہ کے''۔( ۱ )

۶۔ بحارالانوار میں امام جعفر صادق سے اور انھوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ذکر کیا ہے کہ خدا وند عالم فرماتا ہے:

'' کسی بندہ کو بہشت میں ا س وقت تک داخل نہیں کروں گا جب تک کہ ا سے جسمانی تکالیف میں مبتلا نہ کردوں، اگر یہ بلا اور مصیبت اس کے گناہوں کے کفارہ کی حد میں ہے تو ٹھیک ہے ، ورنہ کسی جابر و ظالم کواس پر مسلط کر دوںگا اگراس سے اس کے گناہ دھل گئے تو اسی پر اکتفاء کروں گا ورنہ اس کی روزی کو تنگی میں میں قراردوں گا تاکہ اس کے گناہ دھل جائیں اگراگراس سے دھل گئے تو ٹھیک ورنہ موت کے وقت اس پر اتنی سختی کروں گا کہ میرے پاس بے گناہ اورپاک و صاف ا ئے پھراسے اسوقت بہشت میں داخل کروں گا...۔( ۲ )

۷۔صیح بخاری میں ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:

''کوئی مسلمان ایسا نہیںہے جو مصیبت میں مبتلا ہو اور خدااُس کے گناہوں کو ختم نہ کر دے جیسے کہ درخت سے پتے جھڑتے ہیں''( ۳ )

۸۔ایک دوسری روایت میں ہے : کسی مسلمان پر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر یہ کہ خدا وند عا لم اسکے گناہوں کا کفارہ قرار دیتاہے خواہ وہ ایک خراش ہی کیوں نہ ہو۔( ۴ )

۹۔صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں مذکور ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''کوئی مسلمان ایسا نہیںہے جس کوکانٹے کی خراش یااس سے سخت تر کوئی چیز پہنچے مگر یہ کہ خدا وند عالم

اس کے گناہوں کو اسی طرح جھاڑ دے گا جیسے درخت سے پتے جھڑتے ہیں''۔( ۵ )

۱۰۔صحیح بخاری اور مسنداحمدمیں ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''کسی مسلمان کو کوئی رنج و غم، دشواری، دردو مرض ، مصیبت و اندوہ، یااذیت و آزار،آسیب و گزند حتی کا خراش تک نہیں پہنچتی مگر یہ کہ خداوند عالم ا سے ا سکے گناہوں کا کفّارہ قراردیتا ہے''( ۶ )

____________________

(۱)بحارجلد۸۲ ، ص۱۲۷، ۱۲۸ بہ نقل از ثواب ا لاعمال ص۲۳۴ (۲)بحار ج۶ ، ص ۱۷۲ ۔ بہ نقل ازکتاب التمحیص.(۳)صحیح بخاری کتاب المرضی، باب :'' شدة المرض'' (۴)صحیح بخاری ج۳ ، ص ۳، کتاب المرضی، باب : ''ماجاء فی کفا رة المرض''(۵)صحیح بخاری ج۳، ص۳، کتاب المرضی، باب:''شدة المرض''صحیح مسلم،کتاب البر و الصلة والادب، باب'' ثواب المو من فیما یصیبہ ''(۶)صحیح بخاری ج۳، ص۲، کتاب المرضی باب:''ما جاء فی کفارة المرض'' .مسند احمد ج۳، ص ۱۸۰.

۹۵

۷۔

صبر وتحمل کی جزا

جس طرح خدا وندعالم نے انسان کے ہر عمل کے لئے دنیوی جزا اور اخروی پاداش رکھی ہے اسی طرح مصائب و آلام پر انسان کے صبر و تحمل کیلئے دنیاوی جزا اور اخروی پاداش مقرر کی ہے، امام علی ـنے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''الصبر ثلاثة صبر عند المصیبة، و صبر علی الطاعة و صبر عند المعصیة'' ( ۱ )

صبر و شکیبائی کی تین قسمیں ہیں:

۱۔مصیبت کے وقت صبر کرنا ۔

۲۔ اطاعت میں استقامت و پائیداری۔

۳۔ معصیت کے مقابل صبر کا مظاہرہ کرنا۔

خدا وند عالم سورہ ٔاعراف میں فرماتا ہے:

''بنی اسرائیل کو اس وجہ سے جزا دی ہے کہ انھوں نے دنیاوی زندگی میں صبر وشکیبائی کا مظاہرہ کیا''۔

( واورثنا القوم الذین کانوا یستضعفون مشارق الأرض و مغاربها التی بارکنا فیها و تمت کلمت ربّک الحسنی علی بنی اِسرائیل بما صبروا ودمّرنا ما کان یصنع فرعون و قومه و ما کانوا یعر شون ) ( ۲ )

مشرق ومغرب کی سر زمینوں کو جس میں ہم نے برکت دی ہے مستضعف قوم (بنی اسرائیل) کومیراث میں دیدیا اور تمہارے رب کا اچھا وعدہ بنی اسرائیل سے ان کے صبر و استقامت کے مظاہرے کے نتیجہ میں

____________________

(۱)بحار ، ج ۸۲ ،ص ۱۳۹، مسکن الفؤاد کے حوالے سے.

(۲)اعراف ۱۳۷.

۹۶

پورا ہوا اور فرعون اور فرعون کی قوم والے جو کچھ بنا رہے تھے ان کو اور ان کی اونچی اونچی عمارتوں کو مسمار کر دیا ۔

نیز صبر کی سہ گانہ اقسام کی پاداش کے بارے میں فرماتا ہے۔

۱۔( ولنبلو نّکم بشیئٍ من الخوف والجوع و نقصٍ من الأموال و الأ نفس و الثمرات و بشّرالصا برین الذین اذا أصابتهم مصیبة قالوا اِنّا لله و اِنّا اِلیه را جعون اولآء ک علیهم صلوات من ربّهم و رحمة و اولاء ک هم المهتدون ) ( ۱ )

یقینا ہم تمھیں خوف، بھوک، جان ومال اور پھلوں کی کمی کے ذریعہ آزمائیں گے اور بشارت دیدو ان صبرکرنے والوں کو کہ جب کوئی مصیبت ان پر پڑتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اوراسی کی طرف ہماری بازگشت ہے، ان ہی لوگوں پرپروردگار کا درودو رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

۲( لیس البرّ ان تولّوا وجوهکم قبل المشرق و المغرب و لکنّ البر من آمن بﷲ و الیوم الآ خر و الملا ئکة و الکتاب والنبیيّن و أتی المال علیٰ حبه ذوی القربیٰ و المساکین و ابن السبیل و السائلین و فی الرّقاب وأقام الصّلاة وآتی الزکاة و الموفون بعهد هم اذا عاهدوا والصابرین فی البأ ساء و الضرّاء و حین البأس اولئک الذین صدقوا و أولآء ک هم المتقون ) ( ۲ )

نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہروں کومغرب اور مشرق کی طرف کرلو،بلکہ نیکی اور نیک کردار وہ ہے جو خدا ،روز قیامت ، فرشتوں ، کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لائے ہو اور باوجود اس کے کہ اسے خود مال کی سخت ضرورت ہے، اپنے رشتہ داروں ، یتیموں، مسکینوں،ابن سبیل، سائلوں اور غلاموں پر انفاق کرے،نماز قائم کرتا ہو اور زکوة دیتا ہو، نیز وہ لوگ جو عہد وپیمان کرتے ہیں اور اپنے عہد کو وفا کرتے ہیںاور محرومیوں، بیماریوںاور جنگ کے موقع پر ثبات قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ لوگ ایسے ہیں جو سچ کہتے ہیں اور یہی لوگ متقی اور پرہیز گار ہیں!

سورۂ بقرہ کی مذکورہ آیات کا خلاصہ یہ ہوا کہ پرہیز گار، نیک وصالح اور ہدایت یافتہ یہ وہ لوگ ہیںجو اچھے اور شائستہ عمل انجام دیتے ہیںاور صبر کے تینوں اقسام سے آراستہ اور مالامال ہیں۔

طاعت و مصیبت پر صبرکرنے کے منجملہ نمونے اور مصادیق میں سے اذیت وآزار اورتمسخر واستہزا پر مؤمنین کا خدا پر ایمان لانے کی وجہ سے صبر و شکیبائی اختیار کرنا جیسا کہ خدا وند عالم اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

____________________

(۱)بقرہ ۱۵۵، ۱۵۷

(۲)بقرہ ۱۷۷.

۹۷

۱۔( اِنّه کان فریق من عبادی یقولون ربنا آمنّا فاغفرلنا وأرحمنا وأنت خیر الرّاحمین فأ تخذ تموهم سخريّا حتیٰ أنسوکم ذکری وکنتم منهم تضحکون انی جزیتهم الیوم بها صبروا أنّهم هم الفائزون ) ( ۱ )

بتحقیق ہمارے بندوں کا ایک گروہ کہتا ہے: خداوند ا! ہم ایمان لائے پس تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر کیونکہ تو سب سے اچھا رحم کرنے والا ہے،تم نے ان کا مسخرہ کیااور مذاق اڑایا یہاں تک کہ انھوں نے تمھیں میرے ذکر سے غافل کر دیا اور تم لوگ اسی طرح مذاق اڑاتے رہے ، ہم نے آج ان کے صبرو استقامت کی وجہ سے انھیں جزا دی ہے،یقینا وہ لوگ کامیاب ہیں ۔

۲۔( الذین اتینا هم الکتاب من قبله هم به یؤمنون و اذا یتلیٰ علیهم قالوا آمنّا به اِنّه الحق من ربّنا اِنّا کنا من قبله مسلمین أولائک یؤتون اَجرهم مر تین بما صبروا و یدرأون با لحسنة السّيّئة و مِمّا رزقنا هم ینفقون واِذا سمعوا اللّغو اعرضوا عنه و قالوا لنا أعمالنا ولکم أعمالکم سلام علیکم لانبتغی الجاهلین ) ( ۲ )

وہ لوگ جنھیں ہم نے قرآن سے پہلے آسمانی کتاب دی اس پر ایمان لاتے ہیں اور جب ان پر تلاوت ہوتی ہے تو کہتے ہیں ہم یہ اس پر ایمان لائے، یہ سب کا سب حق ہے اور ہمارے رب کی طرف سے ہے اور ہم اس سے پہلے بھی مسلمان تھے ، ایسے لوگ اپنے صبر و استقامت کی بنا پردومرتبہ جزا دریافت کرتے ہیں اور نیکیوں سے بُرائیوں کو دور کرتے ہیں، جوکچھ ہم نے انھیں روزی دی ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں اور جب کبھی بیہودہ اور لغو بات سنتے ہیںتواس سے روگردانی کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے، تم پر سلام کہ ہم جاہلوں کو دوست نہیں رکھتے۔

۳۔خدا وند عالم نے سورۂ رعد میں نماز قائم کرنے والوں اور صابروں کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا:

( و الذین صبروا ابتغاء وجه ربهم ؤقامو االصلاة و أنفقوامِمّارزقنا هم سراً و علا نيةً و یدرء ون بالحسنة السیئة أولآئک لهم عقبیٰ الدار)(جنات عدنٍ ید خلونها و من صلح من آبائهم وأزواجهم وذر يّا تهم و الملا ئکة یدخلون علیهم من کل بابٍ سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار ) ( ۳ )

____________________

(۱)مومنون ۱۰۹، ۱۱۱

(۲)قصص ۵۲، ۵۵.

(۳)رعد ۲۲۔۲۴

۹۸

اور جو خدا کی مرضی حاصل کرنے کے لئے صبر وشکیبائی کا مظاہرہ کرتے ہیںاور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ انھیں ہم نے روزی دی ہے اس میں سے آشکارا اور پوشیدہ طور پر انفاق کرتے ہیں اور نیکیوں کے ذریعہ بُرائیوں کودور کرتے ہیں ، اس دنیا یعنی عقبیٰ کا نیک انجام صرف ان سے مخصوص ہے دائمی اور جاوید بہشتوں میں اپنے نیک اور صالح آباء و اجداد،بیویوں اور فرزند وں کے ساتھ رہیں گے اور فرشتے ہر در سے ان پر داخل ہو کر کہیں گے:تم پر سلام ہو کہ تم نے صبر کا مظاہرہ کیا!اور کتنا اچھا ہے اس دنیا کاانجام!

کلمات کی تشریح:

۱۔''یعرشون'': اوپرلے جاتے ہیں،یہاں پر اس سے مراد وہ محکم اور مضبوط عمارتیں ہیں جنھیں فرعونیوں نے اپنی املاک میں بنائی تھیں۔

۲۔''البأ س و الباسآئ'': سختی اور ناخوشی اور جنگ یہاں پر باساء سے مراد سختی اورناخوشی ہے اور (بأس) سے مراد جنگ کا موقع ہے۔

۳۔''یدرؤن، ید فعون'': دور کرتے ہیں اور اپنے سے ہٹاتے ہیں۔

روایات میں صابروں کی جزا

بحار میں اپنی سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق ـسے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

جب نامۂ اعمال کھو لا جائے گا اور اعمال تولنے کے لئے میزان قائم ہوگی تو مصیبتوں کا سامنا کرنے والے صابروں کے لئے نہ اعمال تولنے کا ترازو ہوگا اور نہ ہی ان کے اعمال نامے کھولے جائیںگے ! اور اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( اِنّما یوفیّٰ الصابرون ٔاجر هم بغیرحساب )

صابروں کو ان کے صبر کی بے حساب جزا ملے گی۔( ۱ )

نیز بحار میں اپنی سند سے امام زین العابدین سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) بحارج ۸۲ ، ص ۱۴۵ا ور زمر ۱۰.

۹۹

''جب خدا وند عالم تمام اولین وآخرین کوجمع کرے گا ،تو ایک منادی ندا کرے گا : کہاں ہیں صبر کرنے والے تاکہ بے حساب بہشت میں داخل ہوں ؟کچھ سرفراز اور ممتاز لوگ اٹھیں گے ، فرشتے ان کے پاس جاکر کہیں گے : اے اولاد آدم کہاں جارہے ہو ؟ کہیں گے : بہشت کی طرف : کہیں گے: حساب سے پہلے ہی؟کہیں گے ہاں، پھر وہ لوگ سوال کریں گے تم لوگ کون ہو؟کہیں گے صابرین! پھر وہ کہیں گے : تمہارا صبر کس طرح کا تھا ؟ جواب دیں گے :اطاعت الٰہی میں ثابت قدم اوراس کی معصیت سے ہم نے خود کو اس وقت تک بچایا جب تک کہ خدا نے ہمیں موت نہ دیدی اور روح نہ قبض کر لی ، فرشتے کہیں گے:تم ویسے ہی ہو جیسا کہ تم نے کہا، جنت میں داخل ہو جاؤ کیو نکہ اچھا کام کر نے والوں کی جزا بھی بہت اچھی ہوتی ہے۔( ۱ )

اور شیخ صدوق ثواب الاعمال میں اپنی سند کے ساتھ امام محمد باقر ـسے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو شخص دنیا سے اندھا جا ئے ، جبکہ اس نے خدا کے لئے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا ہو اور محمد و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چاہنے والا ہو تو وہ خدا سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس پر کوئی حساب نہ ہوگا''۔( ۲ )

یہ سب اس جزا کے نمونے ہیں جسے انسان غم واندوہ پر صبر کر نے یا عمل کی بنیاد پر دریافت کر ے گاآیندہ بحث میں خدا کی مدداو رتوفیق سے اس بات کی تحقیق و بر رسی کر یں گے کہ اعمال کے نتیجے کس طرح سے میراث بن جاتے ہیں۔

____________________

(۱)بحار : ج،۲۸، ص ۱۳۸.

(۲)ثواب الاعمال،ص ۶۱ اور ۲۳۴.

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

۱۔ فوجی فتنہ

اسلام اور مسلمانوں کے مقابلہ میں دشمنوں کا ایک عام ہتھکنڈا علنی اور ظاہری جنگ و مبارزہ ہے یعنی وہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ مسلمان ممالک او ران کے افراد پر فوجی حملہ اور ان کو قتل و غارت کر کے اپنے مقاصد تک پہنچیں۔

اس صورت میں اگر چہ ممکن ہے کہ وہ کچھ مسلمانوں کو شہید کردیں اور اسلامی ملک کے لئے نقصانات کا سبب بنیں، لیکن وہ اس طرح اپنے مقاصد تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے اور نہ صرف مسلمان راہ دین میں قتل ہونے سے نقصان نہیں اٹھاتے بلکہ اپنے دین و اعتقاد میں اور زیادہ محکم و راسخ ہو جاتے ہیں۔ دینی مکتب فکر میں اس دنیا کی زندگی کا مقصد، برحق دینی اعتقادات او رعبادت و بندگی کے سائے میں انسان کا تکامل اور قرب الٰہی کی منزل تک پہنچنا ہے کہ جس کی معراج کا جلوہ، راہ خدا میں شہادت کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔

دشمنوں کی اس اسٹراٹجی ( strategy ) اور لشکر کشی کے مقابلہ میں قرآن کا موقف بھی یہ ہے کہ:(وَ قَاتِلُوهُم حَتَّیٰ لاتَکُونَ فِتنَة وَ یَکُونَ الدِّینُ کُلُّهُ لِلّٰهِ) ۱ تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے اور سارا دین صرف اللہ کے لئے رہ جائے۔

اس جنگ میں مسلمانوں کا نعرہ بھی یہ ہے کہ:(هَل تَرَبَّصُونَ بِنَا ِلاَّ ِحْدَیٰ الحُسنَیَینِ وَ نَحنُ نَتَرَبَّصُ بِکُم أَن یُّصِیبَکُمُ اللّٰهُ بِعَذَابٍ مِن عِندِهِ أَو بِأَیدِینَا فَتَرَبَّصُوا إنّا مَعَکُم مُتَرِبِّصُونَ) ۲ (اے رسول !) آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم ہمارے لئے دو نیکیوں (کامیابی اور شہادت) میں سے ایک کے علاوہ انتظار کر رہے ہو اور ہم تمھارے بارے میں اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ خدا اپنی طرف سے یا ہمارے ہاتھوں سے تمھیں عذاب میں مبتلا کردے لہذا اب عذاب کا انتظار کرو ہم بھی تمھارے ساتھ انتظار کر رہے ہیں۔

(۱) سورۂ انفال، آیت ۳۹ ۔

(۲)سورۂ توبہ، آیت ۵۲ ۔

۱۴۱

۲۔ ثقافتی فتنہ

اسلام اور مسلمانوں سے مقابلہ کے لئے دشمنوں کا دوسرا اہم ہتھکنڈا، ثقافتی اور فکری کام ہیں کہ ان میں سے اہم یہ ہے کہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے انھیں شبہات میں مبتلا کرنا ہے۔

واضح ہے کہ جو ہتھکنڈے اور آلات و وسائل اس قسم کے حملہ میں استعمال کئے جاتے ہیں، وہ نیز اس کے طریقے اور نتائج فوجی حملہ سے بالکل مختلف ہیں۔ اگر فوجی حملہ میں دشمن ترقی یافتہ اسلحوں کے ساتھ مسلمانوں کے جسم کوپاش پاش کرنے اور قتل و غارت کے لئے میدان میں آتا ہے تو دوسری قسم میں قلم اور بیان کے اسلحوں کے ساتھ کوشش کرتا ہے کہ ان کے افکار و عقائد کو گمراہ اور فاسد کردے۔ اگر فوجی حملہ میں دشمن پوری سنگدلی کے ساتھ مسلمان سپاہیوں سے روبرو ہوتا ہے تو ثقافتی حملہ میں خوشروئی، دلسوزی اور خیر خواہی کی صورت میں وارد ہوتا ہے۔ اگر فوجی حملہ میں مسلمان واضح طور پر دشمن کو پہچانتے ہیں تو ثقافتی حملہ میں دشمن شناسی کوئی آسان کام نہیں ہے۔

اگر فوجی حملہ میں دشمن زمین کے اندر بارودی سرنگیں بچھا کر او رنت نئے ترقی یافتہ جنگی اسلحوں کو استعمال کر کے کوشش کرتا ہے کہ خاکی جسموں کو نابود کردے تو ثقافتی حملہ میں اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ شیطانی جال بچھا کر اور بے بنیاد شبہے پیش کرکے روحوں اور فکروں کو چھین لے اور انسانوں کو اندر سے کھوکھلا کر کے انھیں اپنے منافع کی طرف کھینچ لائے۔

۱۴۲

اگر فوجی حملہ میں دشمن طاقت رکھتا ہے کہ صرف چند مسلمان مجاہدین کو پست مادی دنیا سے خارج کردے تو ثقافتی حملہ میں شیاطین گھات میں بیٹھے ہیں تاکہ مسلمان قوم کے عظیم سرمائے ان معصوم جوانوں کو، جو کہ دینی علوم و معارف سے کافی آگاہی نہیں رکھتے، گمراہی اور بے دینی کے گڑھے میں ڈھکیل دیں۔ اگرچہ دشمن اس دین ستیز ہتھکنڈے سے بھی کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکیں گے اور مسلمان قوم خصوصاً مسلمان تعلیم یافتہ جوانوں کا طبقہ، کہ جس نے فوجی حملوں میں بھی کامیابی اور سرفرازی حاصل کی ہے، اس بات سے زیادہ ہوشیار ہے کہ دشمن کے فوجی میدان کو ثقافتی حملہ کے میدان میں بدلنے سے غافل رہے، لیکن قرآن کریم نے ثقافتی حملہ کے میدان میں مسلمانوں کی شکست کے عظیم خطرے اور اس سے پیدا ہونے والے آثار و نتائج کے ناقابل تلافی ہونے کی طرف توجہ دلائی ہے اور اس بارے میں مسلمانوں کو تنبیہ کر کے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام قوتوں کے ساتھ دین اور خدا کے دشمنوں کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوں۔

ثقافتی حملہ کے متعلق قرآن کی تنبیہ

چونکہ فوجی حملہ کے برخلاف ثقافتی حملہ کے برے نتائج و خطرات لوگوں کے دینی افکار و اعتقادات کو متأثر کرتے ہیں اور غفلت کی صورت میں مسلمانوں کی دنیا و آخرت کی سعادت نیز انسانیت خطرے میں پڑجاتی ہے، لہذا قرآن بھی حد سے زیادہ حساسیت کے ساتھ اسے قابل توجہ قرار دیکر اس سے ہوشیار کرتا ہے۔

مسلمان اہل فہم و بصیرت پر یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ظاہری جنگ اور فوجی فتنہ کے محاذ پر شکست کے آثار و نتائج، بہ نسبت ثقافتی حملہ سے غفلت کے آثار و نتائج کے بہت کم ہیں، اس لئے کہ فوجی حملہ میں مسلمانوں کی چند دنوں کی زندگی معرض خطر میں پڑتی ہے لیکن ثقافتی فتنہ اور حملہ میں دین و عقائد او رمسلمانوں کی دنیا و آخرت کی سعادت نہایت خطرے سے دو چار ہوجاتی ہے۔

۱۴۳

اسی وجہ سے قرآن نے بھی ''دین میں فتنہ اور ثقافتی حملہ'' کو فوجی چڑھائی سے زیادہ بڑا سمجھ کر مسلمانوں کو اس سے غفلت کرنے سے ڈرایا ہے اور فوجی جنگ اور فتنہ کی اہمیت اور اس کے خطرے کو ثقافتی حملہ کے مقابلہ میں کم سمجھا ہے۔

قرآن کریم فرماتا ہے:(وَ اقْتُلُوهُم حَیثُ ثَقِفتُمُوهُم وَ أَخرِجُوهُم مِن حَیثُ أَخرَجُوکُم وَ الفِتنَةُ أَشَدُّ مِنَ القَتلِ) ۱ اور ان مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کردو اور جس طرح انھوں نے تم کو آوارہ وطن کردیا ہے تم بھی انھیں نکال باہر کردو اور فتنہ پردازی تو قتل سے بھی بدتر ہے۔

البتہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن اور دینی ثقافت کے مخالفین، صدر اسلام اور آیات قرآن کے نزول کے زمانہ میں زیادہ تر جنگ کے میدانوں میں ظاہری مقابلوں اور فوجی حملوں کے ساتھ اس بات کے درپے تھے کہ اسلام اور مسلمین کو نابود کردیں، لیکن ان سب کے باوجود قرآن کی حساسیت اور تشویش دینی اور ثقافتی فتنہ کے خطرے کے متعلق فوجی حملے کے خطرے سے زیادہ ہے۔

قرآن فرماتا ہے:(وَالفِتنَةُ أکبَرُ مِنَ القَتلِ) ۲ فتنہ (فکر شرک) اور اس کا

گناہ فوجی حملہ اور قتل و غارت سے زیادہ خطرناک ہے کہ ثقافتی فتنہ کے زیادہ خطرناک ہونے کی دلیل اس سے پہلے واضح طور سے بیان کی گئی۔

(۱)سورۂ بقرہ، آیت ۱۹۱ ۔

(۲)سورۂ بقرہ، آیت ۲۱۷ ۔

۱۴۴

شرک نئے بھیس میں

عقیدۂ شرک نے عقیدۂ توحید کے مقابلہ میں ہمیشہ پوری تاریخ میں بعض بشر کے افکار کو اپنے قبضہ میں رکھا ہے۔ جن لوگوں نے خدا کی بندگی قبول کرنے اور خالق کائنات کے سامنے تسلیم سے روگردانی کی ہے اور جو لوگ اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں لگے رہے ہیں وہ دوسرے لوگوں کے دین حق قبول کرنے سے ناخوش ہوکر مختلف طریقوں سے اس سے روکتے رہے ہیں۔

واضح بات ہے کہ عقیدۂ شرک کے طرفدار ہر زمانے میں اس زمانے کے افکار کے مطابق کوئی طریقہ اختیار کر تے ہیں اور مناسب ہتھکنڈے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے انتخاب کرتے ہیں۔ لہذا صدر اسلام میں اس لحاظ سے کہ عقیدۂ شرک بت پرستی کی شکل میں ظاہر تھا، شرک کے سرغنے اور جو لوگ بندگی ِخدا اوردین حق کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھے وہ پتھر اور لکڑی کے بنے ہوئے بتوں کی تبلیغ کرتے تھے اور انسانوں کو وحدانیت قبول کرنے سے روکتے تھے۔ ان کارستانیوں کی اصل وجہ بھی یہ تھی کہ دین اور توحیدی ثقافت و مکتب فکر کی حاکمیت کی صورت میں ان کے نفسانی خواہشات پورا کرنے کی گنجائش باقی نہ رہ جاتی۔

آج بھی عقیدۂ شرک کی تبلیغ ماڈرن طریقے سے اور علمی نظریہ کی صورت میں مختلف مجامع میں کی جا رہی ہے۔ اگر صدر اسلام میں صرف بتوں اور معبودوں کی پوجا کی جاتی تھی اور دنیا پرست انسان لوگوں کے افکار کو بے حس کرنے کے لئے ان کی تبلیغ کرتے تھے، تو آج عقیدۂ شرک کے طرفدار اس کوشش میں ہیں کہ انسانوں کی تعداد کے برابر خیالی بت تراش کر انسانوں کی فکر و عقل کو خداوند متعال سے پھیر کر شیطانی اوہام، خیالات او روسوسوں کی طرف موڑ دیں۔

۱۴۵

ہم دیکھتے ہیں کہ ''سیدھے راستوں اور دین کی مختلف قرائتوں'' کے نظریہ کا بھی یہی حال ہے، جیسا کہ اس کے عنوان ہی سے معلوم ہوتا ہے، اس نظریہ سے مراد یہ ہے کہ ہر شخص جوبات بھی خدا اور دین کے متعلق دینی کتابوں سے سمجھے اسی کو اسے چاہئے کہ اپنے اعتقاد و عمل کی بنیاد قرار دے، کیونکہ وہی حق اور عین واقعیت ہے۔

اس بنا پر انسانوں کی تعداد اور خدا و دین کے متعلق ان کی مختلف فکروں کے اعتبار سے بہت سے فردی اور خصوصی خدا اور ادیان بن جاتے ہیں۔

واضح ہے کہ یہ بات روح توحید سے جو کہ ''لا الہ الا اللہ'' کے نعرہ میں جلوہ گر ہے، تضاد رکھتی ہے اور بالکل اس کے مقابلہ میں قرار پاتی ہے۔

بہرحال چونکہ انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ حساس موضوع یعنی توحید و شرک کا مسئلہ، کہ اس کی دنیا و آخرت کی سعادت اسی سے تعلق رکھتی ہے، درمیان میں ہے، ضروری ہے کہ انسان اپنے عقائد و افکار پر نظر ثانی اور غور و فکر کرے، اپنے عقائد و افکار کو قرآن اور اہلبیت کے علوم کی کسوٹی پر پرکھے اور ہوا و ہوس سے دور رہ کر منطق و عقل سلیم کے ساتھ اپنے عقائد و افکار کی اصلاح کرے او رخود کو گمراہی کے گڑھے میں گرنے سے نجات دے۔

البتہ خود شکنی اور ہوائے نفس پر غلبہ حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت نبی اکرم نے اسے جہاد اکبر سمجھا ہے، خصوصاً اگر انسان ایسی حالت میں ہو کہ شیاطین اور دشمنان توحید و اسلام اس کی تشویق کریں اور اپنے سیاسی اور سامراجی مقاصد تک پہنچنے اور اسلام کا مقابلہ کرنے کے لئے اسے ایک عالمی شخصیت بنانے کا لالچ دیں۔

اگر چہ ایسی حالت میں انسان کا سنبھل جانا او رجہاد اکبر کے میدان میں قدم رکھنا نیز شیاطین اور د شمنان اسلام کے وعدوں اور دھمکیوں کو خاطر میں نہ لانا ایک انوکھا اور معجزنما کام ہے لیکن ناممکن نہیںہے۔ تاریخ میں ایسے افراد کم نہیں ہیں جو کہ ایک لحظہ میں سنبھل گئے اور اپنے کو نفسانی خواہشات اور جنی اور انسی شیطانوں کے جال سے چھڑا کر ہلاکت سے نجات حاصل کرلی اور توحید کی آغوش میں واپس آگئے۔

۱۴۶

''دین میں فتنہ'' واقع ہونے کے متعلق قرآن کی پیشین گوئی

قرآن کریم نے مسلمانوں کو سعادت و تکامل تک پہنچنے کے راستوں کی نشاندہی کی ہے اور ایک ایسے روشن چراغ کے مانند جو کبھی خاموش نہیں ہوسکتا، ہدایت کا صراط مستقیم حقیقت کے طلبگار انسانوں کو دکھایا ہے۔

حضرت محمد مصطفی نے بھی شرک و کفر کے گردو غبار کو انسانیت کے چہرے سے صاف کیا اور امید و کامیابی کا بیج حقیقت کے پیاسے انسانوں کے دل و جان میں بوکر اسے بارور اور پرثمر بنایا نیز حکومت کو توحید کی بنیاد پر قائم کیا۔

اس درمیان ایسے انسان کم نہ تھے جو کہ مصلحت اندیشی کے لحاظ سے مسلمان ہوتے تھے اور ان کا ایمان زبان کے مرحلہ سے آگے نہیں بڑھتا تھا نیز توحید ان کے دلوں میں جگہ نہ پاتی تھی۔

ظاہر سی بات ہے کہ ایسے لوگ جو کہ اپنے نفسانی خواہشات کو خدا کی رضا اور پیغمبر کے احکام پر مقدم رکھیں، جو کہ باطن میں اسلام اور پیغمبر کے دشمن تھے، وہ پیغمبر کے زمانۂ حیات میں مصلحت نہیں دیکھتے تھے کہ آشکار اور علانیہ مخالفت کے لئے اٹھیں، نیز حکومت الٰہی کو گرانے، امام معصوم کی مخالفت اور لوگوں کو ائمۂ معصومین (ع) کی رہبری سے محروم کرنے کا نقشہ برملا کریں۔ لہذا یہ شیطان اور دنیا پرست انسان اس بات کے منتظر تھے کہ پیغمبر دنیا سے گزر جائیں تو پھر اپنے منحوس منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں۔

قرآن کریم اس سازش کو پیش نظر رکھ کر ہوشیار کرتا ہے:(أحَسِبَ النَّاسُ أَن یُّترَکُوا أَن یَّقُولُوا آمَنَّا وَ هُم لایُفتَنُونَ) ۱ کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور وہ فتنہ میں مبتلا نہیں ہوں گے؟ ایک دن امیر ا لمومنین حضرت علی ـ قرآن کریم کے بارے میں ارشاد فرما رہے تھے اور لوگوں کواس الٰہی حبل المتین کے محور پر جمع رہنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کی دعوت دے رہے تھے اور اہل سعادت و شقاوت کو جنت و جہنم کی خبر دے رہے تھے کہ ایک شخص نے اٹھ کر فتنہ کے متعلق سوال کیا اور حضرت سے خواہش کی کہ اس بارے میں حضرت پیغمبر کا ارشاد بیان فرمائیے۔

(۱) سورۂ عنکبوت، آیت ۲ ۔

۱۴۷

حضرت نے جواب میں فرمایا: جب خداوند متعال نے اس آیۂ کریمہ(أَحَسِبَ النَّاسُ...) کو نازل فرمایا اور لوگوں کودین میں فتنہ واقع ہونے اور نہایت بڑے امتحان سے خبردار کیا، تو میں نے سمجھا کہ یہ فتنہ پیغمبر کی وفات کے بعد ہوگا۔

میں نے پیغمبر سے سوال کیا کہ یہ فتنہ جو کہ دین میں واقع ہوگا اور خداوند متعال نے جس کی خبر دی ہے کون سا فتنہ ہے؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے؟

تو پیغمبر نے فرمایا کہ: میری امت میرے بعد فتنہ سے دوچار ہوگی۔

یہاں پر اس بات سے قبل کہ پیغمبر اپنی وفات کے بعد کے فتنوں کی قسموں کو بیان کریں، حضرت علی ـ اس خوف سے کہ کہیں راہ خدا میں شہادت کی کامیابی سے محروم ہو جائیں حضرت پیغمبر اسلام کو جنگ احد کی یاد دلاتے ہیں اور عرض کرتے ہیں: یقینا آپ کو یاد ہے کہ جنگ احد میں عالم اسلام کی کیسی بڑی بڑی شخصیتوں (مثلاً حضرت حمزہ سید الشہداء وغیرہ) نے سبقت حاصل کر لی تھی اور شہادت کی عظیم کامیابی پر فائز ہوئے اور میرے اور راہ خدا میں شہادت (اولیائے الٰہی کے اس معشوق) کے درمیان جدائی ہوگئی اور یہ جدائی مجھے بہت گراں لگی۔

آپ کو یاد ہے کہ آپ نے مجھے میری تمنا حاصل ہونے کی بشارت دی اور فرمایا: راہ خدا میں شہادت تمھیں ملنے والی ہے اور میں اسی طرح شہادت کے انتظار میں ہوں۔

یا رسول اللہ! آیا وہ فتنہ جو کہ آپ کے بعد واقع ہوگا میری شہادت تک پہنچے گا؟

پیغمبر نے جواب میں فرمایا کہ ہاں تم اپنی تمنا کو پہنچو گے۔

۱۴۸

پھر پیغمبر امیر المومنین سے پوچھتے ہیں کہ جس وقت تم ایسے فتنے سے دوچار ہوگے تو تم کہاں تک صبر کرو گے؟

حضرت نے فرمایا: یا رسول اللہ! یہاں صبر کی جگہ نہیں ہے، بلکہ یہ ان امور میں سے ہے کہ اس پر شکر کرتا ہوں اور اسے اپنے لئے بشارت و خوشخبری سمجھتا ہوں۔

اس وقت حضرت پیغمبر اکرم ان فتنوں کے گوشوں کی طرف اشارہ فرماتے ہیں جو کہ دین میں واقع ہوں گے اور لوگوں کو ان سے ہوشیار کرتے ہیں۔

پیغمبر کے بعد فتنوں کی پیشین گوئی

حضرت پیغمبر اسلام حضرت علی ـ کو حضرت کی تمناپوری ہونے اور شہادت کی بشارت سے متعلق اطمینان دلانے کے بعد حضرت سے خطاب فرماتے ہیں اور ان فتنوں کی قسموں کو بیان فرماتے ہیں جو کہ دنیا پرست افراد کے ہاتھوں دین میں واقع ہوں گے۔

آنحضرت اپنے ارشاد میں فتنہ کی تین اہم قسموں کو بیان فرماتے ہیں:

''یَاعَلِیُّ! إنّ الْقَومَ سَیُفتَنُونَ بِاَموَالِهِم وَ یَمُنُّونَ بِدِینِهِم عَلٰی رَبِّهِم وَ یَتَمَنَّونَ رَحمَتَهُ وَ یَأمَنُونَ سَطوَتَهُ یَستَحِلُّونَ حَرَامَهُ بِالشُّبهَاتِ الْکَاذِبَةِ وَ الأَهوَائِ السَّاهِیَةِ، فَیَستَحِلُّونَ الْخَمرَ بِالنَّبِیذِ وَ السُّحتَ بِالهَدِیَّةِ وَ الرِّبَا بِالبَیعِ''۱

اے علی! عنقریب لوگوں کو ان کے اموال کے ذریعہ آزمایا جائے گا اور وہ اپنے

دین کے ذریعہ اپنے رب پر احسان رکھیں گے اور اس کی رحمت کی تمنا کریں گے اور خود کو اس کے غلبہ سے محفوظ سمجھیں گے جھوٹے شبہات اور بیہودہ خواہشوں کے سبب حرام کو حلال قرار دیں گے اور شراب کو آبِ جو، رشوت کو تحفہ اور سود کو تجارت قرار دیکر حلال سمجھ لیں گے۔

(۱) بحار الانوار، ج۳۲، ص ۲۴۱ ۔

۱۴۹

۱۔ مالی فتنہ

سب سے پہلا مسئلہ کہ حضرت پیغمبر اکرم جس کی طرف اشارہ فرماتے ہیں، اموال میں فتنہ ہے۔ جو لوگ اسلامی فقہ سے آگاہ ہیں ان پر پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام کے عملی احکام کا ایک عظیم حصہ اموال، کسب و اکتساب، تجارت اور اقتصادی امور سے متعلق ہے۔

اسلام میں لوگوں کے حقوق کی طرف سب سے زیادہ اور اچھی طرح شارع مقدس نے توجہ دی ہے۔

خرید و فروش اور کسب و تجارت کے وہ اصول و ضوابط اور قواعد و احکام کہ شرع مقدس نے مسلمانوں کے لئے جن کی پابندی کو لازم قرار دیا ہے وہ ایسے اصول و قواعد ہیں جو کہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کے حقیقی مصالح کی بنیاد پر تشریع اور نافذ کئے گئے ہیں تاکہ لوگ ان پر عمل کر کے سالم زندگی اور دنیوی و اخروی سعادت سے بہرہ مند ہوں۔ چونکہ معاشرہ میں سب سے زیادہ اقتصادی روابط بیع و شراء اور خرید و فروخت کی بنیاد پر انجام پاتے ہیں، اجتماعی زندگی کا وجود و قوام اور انسانوں کے درمیان تعلق و تعاون ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کرنے میں لین دین اور معاملات پر ا ستوار ہے او ردوسری طرف انسان کے اندر حرص اور لالچ کے جذبہ کی وجہ سے سودی معاملات جو کہ اسلام کی نظر میں سب سے زیادہ منفور اور بدترین قسم کے معاملات ہیں جو کہ لوگوں کے درمیان رائج رہے ہیں، لہذا قرآن نے سودی معاملات اور سودی لین دین سے شدت کے ساتھ منع کیا ہے۔

۱۵۰

قرآن کا لہجہ اس کام سے منع کرنے کے متعلق نہایت سخت ہے یہاں تک کہ اسے خداوند متعال سے جنگ کے مانند سمجھتا ہے:(فَاِن لَّم تَفعَلُوا فَأذَنُوا بِحَربٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُولِهِ) ۱ اگر تم نے سودی معاملات سے ہاتھ نہیں کھینچا تو سمجھ لو کہ خدا اور اس کے رسول سے اعلان جنگ کیا ہے۔

حضرت پیغمبر اکرم فرماتے ہیں کہ: میرے بعد لوگ اپنے اقتصادی روابط اور اموال میں فتنہ سے دوچار ہوں گے اور ربا (سود) کی حرمت کے متعلق قرآن کے صریحی حکم کو نظر انداز کردیں گے اور خرید و فروخت کے بہانے سے، بیہودہ حیلوں کے ذریعہ سود کھائیں گے۔

۲۔ اعتقادی فتنہ

جس بات کی ہر ایک عقلمند انسان اپنے تمام وجود کے ساتھ تصدیق کرتا ہے اور تصدیق کے بعد اسے اس کے لوازم کا پابند ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم تمام انسان خدا کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں۔ خداوند متعال ہی نے عالم کو خلق کیا ہے او رہم کو وجود کی

(۱) سورۂ بقرہ، آیت ۲۷۹ ۔

۱۵۱

نعمت سے بہرہ مند کیا ہے اور اس لئے کہ ہم انسان تکامل و سعادت تک پہنچیں اپنے بہترین بندوں کو آسمانی کتابوں کے ساتھ بھیج کر اپنی نعمت کو ہم پر تمام کردیا ہے۔

دین و ہدایت کا شکر و سپاس، جو کہ نعمت وجود کے بعد سب سے بڑی الٰہی نعمت ہے، خدا کی بندگی اور عبودیت قبول کرنے کے علاوہ تحقق نہیں پیدا کرسکتا کہ یہ بھی انسان کے حق میں سب سے زیادہ بلند مرتبہ سمجھا جاتا ہے۔

دوسری طرف خداوند متعال ہی انسانوں پر احسان کرتا ہے کہ اس نے اپنی نعمت ان کے حق میں تمام کی ہے اور ان کے پاس ہدایت ودین حق کو بھیجا ہے۔ سچ ہے کہ کتنے کم ہیں ایسے لوگ جو کہ اپنی ناقدری اور بے وقعتی کو پہچانتے ہیں اور خدا کی عظمت اور ان نعمتوں کی بزرگی کو سمجھتے ہیں جو انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں او ر اپنے حق میں خدا کے لطف و کرم کو درک کرتے ہیں۔

سچ ہے کہ کتنی بری اور ناپسند بات ہے اور کتنی بڑی ناشکری ہے کہ نادان انسان خدا پر احسان جتائے کہ اس نے اس کی ہدایت و رہنمائی کو قبول کیا ہے، وہ اس بات سے غافل ہے کہ خدا نے خود ہم پر احسان کیا ہے اس لئے کہ اس نے ہم کو دین حق کی ہدایت کی ہے۔

قرآن کریم حضرت پیغمبر اکرم کو خطاب کر کے فرماتا ہے:(یَمُنُّونَ عَلَیکَ أَن أَسلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَیَّ اِسلامَکُم بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلیَکُم أن هَدَاکُم لِلاِیمَانِ) ۱ یہ لوگ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ اسلام لے آئے ہیں تو

(۱) سورۂ حجرات، آیت ۱۷ ۔

۱۵۲

آپ کہہ دیجئے کہ ہمارے اوپر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو یہ خدا کا احسان ہے کہ اس نے تم کو ایمان لانے کی ہدایت دیدی ہے۔

یہ تم پر واجب و لازم ہے کہ بندگی ، اطاعت اور عبادت کے ساتھ اس حق کو شائستہ طور سے ادا کرو، نہ یہ کہ ایمان لانے کے بہانے سے اپنے کو صاحب حق سمجھو او رخداوند متعال سے تقاضا کرو۔

اس بنا پر دینی مکتب فکر میں اصل، خدا کے سامنے تسلیم، بندگی اور عبودیت ہے، نہ کہ خدا کے سامنے انانیت اورتکبر ۔

حضرت پیغمبر اکرم خدا کے سامنے تسلیم و بندگی کے جذبہ کے بجائے انانیت، تکبر اور استکباری جذبہ رکھنے کو دین میں فتنہ کا ایک مظہر بتاتے ہیں۔

آنحضرت فرماتے ہیں: میرے بعد دین میں فتنے کے مظاہر میں سے ایک مظہر یہ ہوگا کہ لوگ بجائے اس کے کہ دین و ہدایت کی نعمت پر خدا کے شکر گزار ہوں اور دین حق کی خاطر اس کے ممنون ہوں، خود خدا پر احسان جتائیں گے کہ دین کو قبول کیا ہے، اپنے کو صاحب حق اور خدا کا قرضخواہ سمجھیں گے اور خدا سے (قرض کا تقاضا کرنے کے مانند) جزا اور رحمت کی امید رکھیں گے اسی طرح ایمان لانے کے عوض (متکبرانہ طریقے سے) اپنے کو کسی بھی طرح کی سزا کا مستحق نہ سمجھیں گے، اگرچہ خداوند متعال کوئی بھی جزا و سزا، بغیر دلیل کے کسی بندے کو نہیں دیتا، لیکن پیغمبر اکرم ایسا جذبہ رکھنے کو ''دین میں فتنہ'' سمجھتے ہیں، اس لئے کہ ایسا جذبہ رکھنے والے جس وقت دینی احکام کی پابندی ان کے نفسانی خواہشات کے موافق نہیں ہوتی تو آسانی کے ساتھ غلط توجیہیں کر کے خود کو اور دوسروں کو فریب دینے لگتے ہیں۔

اس بنا پر خدا کے سامنے ایسا استکباری اور متکبرانہ جذبہ رکھنا، دین کی حقیقت اوراسلام کی روح (کہ صرف دین خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ہے) کے موافق نہیں ہے۔

۱۵۳

۳۔ جھوٹی توجیہیں خطرناک ترین فتنہ

دین میں سب سے زیادہ خطرناک فتنہ، کہ جس نے پیغمبر کو بھی تشویش میں رکھا اور پیغمبر نے اسے حضرت علی ـ سے بیان کرتے ہوئے اس سے ہوشیار کیا تھا، وہ دین میں تحریف کی سازش اور اس کا فتنہ نیز منزل اعتقاد میں الٰہی محرمات کو حلال کرنا ہے۔ اگر چہ منزل عمل میں احکام شریعت کی رعایت نہ کرنا اور پروردگار کی خدائی کے سامنے استکباری جذبہ رکھنا بہت بڑا گناہ ہے، لیکن اس سے زیادہ خطرناک یہ ہے کہ انسان اپنے دین مخالف اعمال اور گناہوں کے لئے غلط اور جھوٹی توجیہیں گڑھنے لگے اور اپنے نفسانی خواہشات پر دین و شریعت کا رنگ چڑھانے لگے۔

اس صورت میں شیطان تمام قوتوں کے ساتھ مسلمان نما دنیا پرستوں کی مدد کے لئے دوڑ پڑتا ہے تاکہ احکام دین کی تحریف اور شبہات پیدا کرنے میں ان کی مدد کرے۔

حضرت پیغمبر اکرم فرماتے ہیں فتنہ پرور افراد اپنے نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے غلط افکار و تخیلات، جھوٹی توجیہات اور شبہات کے ذریعہ اس بات کے درپے ہیں کہ الٰہی محرمات کو حلال کردیں اور دین خدا کے ساتھ کھلواڑ کریں۔

جس بات کی یاد دہانی ضروری ہے اور حضرت پیغمبر اکرم بھی فتنوں اور فتنہ پروروں کے سامنے حضرت علی ـ کے فریضہ کے بیان میں جس بات کی طرف توجہ دیتے ہیں، وہ ایسی فتنہ انگیزیوں کے باقی رہنے کا مسئلہ ہے جو کہ امام زمانہ حضرت صاحب الامر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور تک جاری رہے گا۔ جو کچھ پیغمبر اکرم نے شراب کو اس بہانے حلال کرنے کے عنوان سے کہ شراب وہی حلال کشمش ہے، یا رشوت کو تحفہ اور ہدیہ کے بہانے سے حلال سمجھنے، اور سود خواری کو خرید و فروخت کے بہانے حلال سمجھنے کو بیان کیا ہے، وہ صرف ان فتنوں کے چند نمونے ہیں جو کہ دین میں واقع ہوں گے، نہ یہ کہ یہ مسئلہ فقط انھیں چیزوں میں منحصر ہے۔

۱۵۴

آج بھی ایسے افراد مسلمانوں کے درمیان پائے جاتے ہیں جو ظاہری طور سے مسلمان ہیں اور ہرگز اپنے کو اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں سمجھتے، لیکن باطنی اور روحی لحاظ سے وہ ایسے نہیں ہیں کہ احکام الٰہی کو تہ دل اور رغبت کے ساتھ قبول کریں۔

یہ لوگ جن میں سے بعض اجتماعی حیثیتوں کے بھی حامل ہیں ایک طرف مغربی ثقافت اور مکتب فکر سے متأثر ہو کر خود باختگی کا شکار ہوگئے ہیں اور اپنی دینی شخصیت سے فاصلہ اختیار کرلئے ہیں، اور دوسری طرف ان کی معلومات دین کے معارف کے متعلق ناکافی ہیں۔حالانکہ ان لوگوں میں دین کے خصوصی مسائل کے متعلق اظہار نظر کی تھوڑی سی بھی صلاحیت نہیں ہے۔ بس مسند قضاوت پر بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی کبھی دشمنان دین کی تشویق اور شیطان کے وسوسوں سے متاثر ہو جاتے ہیں اور شعوری یا لاشعوری طور پر ایسی باتیں کہتے ہیں جو اسلام کے دائرہ سے خارج ہو جانے اور انکار دین کا باعث ہوتی ہیں۔

مثال کے طور پر اگر کوئی کہے کہ اسلام کے قوانین صدر اسلام اور اس زمانہ کے لوگوں سے مخصوص ہیں اور اس کے احکام صدر اسلام کے معاشروں کے مناسب اور موافق تھے، لیکن زمانۂ حال اور اکیسویں صدی میں قرآن اور احکام اسلام معاشرہ کی رہبری کے لئے کافی نہیں ہیں لہذا اس کے احکام کو انسانوں کی صوابدید اور پسند کے مطابق تبدیل کرنا چاہئے، یا کوئی شخص یہ کہے کہ اکیسویں صدی کے لوگ اپنے زمانہ کے مطابق ایک نبی و پیغمبر کے محتاج ہیں، ایسی باتیں اگر چہ انکار دین کے معنی میں سمجھی جاتی ہیں، لیکن خود یہ باتیں پہلے درجہ میں دین و احکام دین کی صحیح شناخت نہ رکھنے کی نشانی ہیں۔

ضروری ہے کہ ایسے افکار و نظریات کے حامل افراد اظہار نظر اور زبان کھولنے سے پہلے صحیح طور سے اپنی بات کے معنی اور ان کے لوازم و نتائج پر توجہ دیں۔ اس صورت میں شاید ایسی باتیں کہنے سے پرہیز کریں کہ جن سے ''دین میں فتنہ'' کی بو آتی ہے، اور خود کو دشمنان اسلام و قرآن اور شیطان کے جال سے چھڑا لیں۔

۱۵۵

عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ماحول کو تاریک کرنا

جو کچھ اب تک بیان کیا گیا اس سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ دین و قرآن کے دشمنوں کے ہتھکنڈے اور وسائل فوجی حملہ اور فتنہ میں، ثقافتی یلغار اور فکری حملہ اور فتنہ کے ہتھکنڈوں سے بالکل مختلف ہیں۔ کہا گیا کہ وہ لوگ فوجی حملہ کے برخلاف فکری فتنہ جاری رکھنے میں آشکارا طور پر انکار دین اور لوگوں کے دینی مکتب فکر کی مخالفت کا موقف ظاہر نہیں کرتے اور علانیہ طور سے اپنے قلبی اعتقادات کو ظاہر نہیں کرتے۔ کیونکہ اس صورت میں جو لوگ ان کی باتیں سنتے ہیں وہ ان کی باتوں میں غور و فکر کر کے یا ان کو قبول کر لیتے ہیں یا ان کے بطلان کو سمجھ جاتے ہیں اور ہر حال میں ان کے باطل عقائد کو قبول کرنے کی صورت میں جو گمراہی آجاتی ہے وہ علم و آگاہی کی بنیاد پر ہوتی ہے اور یہ جو کچھ ہوا ہے اسے فتنہ کا نام نہیں دیا جاسکتا کیونکہ فریب اور افکار میں تحریف کے ذریعہ گمراہ نہیں کیا گیا ہے۔

جو کچھ آج ہمارے معاشرہ میں ثقافتی فتنہ کے عنوان سے پایا جاتا ہے اور قرآن اور دینی مکتب فکر کے دشمن پوری کوشش کے ساتھ فکری حملہ کے ذریعہ اس کو انجام دے رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ معاشرہ کے ثقافتی اور فکری ماحول کو اس طرح آشفتہ اور تیرہ و تار بنادیں کہ لوگ خصوصاً طالب علم جوان طبقہ، حق و باطل کی تشخیص کی قدرت کھو بیٹھے اور لاشعوری طور پر ان کے باطل اور گمراہ کن افکار و اعتقادات کے جال میں پھنس جائے۔

واضح سی بات ہے کہ اگر ایک ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ فکری انحراف سے دوچار ہو جائے تو اس معاشرہ کے عام لوگوں کے انحراف اور گمراہی کا میدان بھی ہموار ہو جاتا ہے کہ''اِذَا فَسَدَ الْعَالِمُ فَسَدَ الْعَالَمُ'' جب عالم فاسد و گمراہ ہو جاتا ہے تو سارا عالم فاسد و گمراہ ہو جاتا ہے۔

۱۵۶

اس بنا پر مذکورہ ثقافتی فتنہ کہ جس سے پیغمبر اکرم نے خبردار کیا ہے، وہ ان خطرناک ترین امور میں سے ہے جو کہ لوگوں کی دنیا و آخرت کی سعادت کو خطرے میں ڈالتا ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ ایسے خطروں سے مقابلے کے لئے اسلامی حکومت کو چاہئے کہ حقائق دین بیان کرنے اور قرآن کے مکتب فکر اور معارف کو نشر کرنے کی قدرت کے اعتبار سے اتنی قوی ہو، اور پرائمری (مکتب) سے لیکر کالج اور یونیورسٹی تک کے تعلیمی نظام نیز ملک کے تمام ثقافتی مراکز کو اپنی دقیق نظارت کے تحت رکھے اتنا کہ اسلام کے دشمن اور بدخواہ افراد ثقافتی اور فکری ماحول کو پرآشوب کر کے دوسروں کو گمراہ کرنے پر قادر نہ ہوں۔

دوسری طرف علمائے دین کا اہم ترین فریضہ بھی لوگوں کی ہدایت و اصلاح کرنا (خصوصاً معاشرہ کے جوان طبقہ کی اصلاح اور ہدایت جو کہ دینی معارف اور قرآنی علوم سے کافی آشنائی نہیں رکھتے) اور ثقافتی فتنہ کا مقابلہ کرنا ہے۔

یہ دینی علماء کا فریضہ ہے کہ توضیح و تفصیل کے ساتھ عوام او رجوان نسل کو ثقافتی اوراعتقادی خطروں سے اور دشمنان دین کی سازش سے آگاہ کریں اور انھیں شیطانی جالوں سے بچائیں۔ اور یہ دیندار لوگ ہی ہیں جو کہ باعمل دینی علماء کی حمایت و نصرت کے ساتھ معاشرہ کی ہدایت کے لئے اہم اور بڑے فرائض کے انجام دینے میں ان کا ساتھ دے سکتے ہیں۔

جیسا کہ کتاب کے شروع میں بیان کیا تھا اب ہم اس حصہ میں حضرت علی ـ کی نظر سے نہج البلاغہ میں مذکورہ دینی ثقافت اور مکتب فکر کے مخالفین کے علل و مقاصد کو ذکر کر تے ہیں۔ پہلے ہم حضرت علی ـ کی نظر سے مذکورہ افراد کا تعارف کرائیں گے پھر بحث کو دینی مکتب فکر اور قرآنی تعلیمات و احکام کی مخالفت میں ان افراد کے علل و مقاصد کو بیان کر کے ختم کردیں گے۔

۱۵۷

دینی معارف میں تحریف کرنے والے حضرت علی ـ کی نظر میں

امیر المومنین حضرت علی ـ ان لوگوں کو جو حقائق دین میں تحریف کرنا اور لوگوں کی دینی تہذیب و ثقافت کو برباد کرنا چاہتے ہیں، عالم نما جاہل کہتے ہیں۔

حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں:''وَ آخَرُ قَد تُسَمَّی عَالِمًا لَیسَ بِهِ'' ۱ قرآن کے سچے پیرووں کے مقابل ایک دوسرا گروہ بھی ہے جو کبھی کبھی معاشرہ کے درمیان عالم و دانشور تصور کیا جاتا ہے، اس نے اپنا نام عالم رکھ لیا ہے حالانکہ اسے علم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

ایسے لوگ حقیقت سے خالی اورعاریتی عناوین سے سوء استفادہ کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ممکن ہے یہ سوال قارئین کے سامنے آئے کہ تو پھر جو کچھ یہ لوگ علمی اور دینی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں وہ کیا ہے؟ وہ لوگ جو اپنی باتوں کو دین و قرآن سے ماخوذ قرار دیتے ہیں ان کو حضرت علی ـ جواب دیتے ہیں:''فَاقْتَبَسَ جَهَائِلَ مِن جُهَّالٍ'' ۲ یہ لوگ جو کچھ دین سے اپنے اخذ شدہ مفاہیم اور علمی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں اور دین کی مختلف قرائتوں کے بہانے سے دین پر اپنے باطل عقائد لادنا چاہتے ہیں، وہ ایسی جہالتیں ہیں جو کہ دوسرے جاہل و نادان انسانوں سے لی گئی ہیں اور وہ انھیں دینی معارف اور علمی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں۔

شاید آپ کو تعجب ہو کہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ جہل و نادانی کو دوسروں سے حاصل کرتے ہیں؟ دوسروں سے جہل و نادانی کے حاصل کرنے کے کیا معنی ہیں؟ اس بات کے لئے کہ ہم حضرت علی ـ کے کلام کے ا عجاز سے واقف ہوں اور حق سے منحرف افراد

(۱) نہج البلاغہ ، خطبہ ۸۶ ۔

(۲)نہج البلاغہ ، خطبہ ۸۶ ۔

۱۵۸

کے مقابل اصلاح و ہدایت سے متعلق اپنی ذمہ داری سے زیادہ سے زیادہ آشنا ہوں، دوسروں کی ان جہالتوں او رنادانیوں سے جو آج علمی سوغاتوں کے نام سے بیان کی جارہی ہیں، عالم نما جاہلوں کے اقتباس کے ایک نمونہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

آج کل مغرب میں یہ فلسفی فکر رائج ہے کہ حصول علم انسان کے لئے نا ممکن ہے اور انسان کو چاہئے کہ ہر چیز میں شک کرتاہو اور ہرگز کسی چیز کے بارے میں یقین پیدا نہ کرے۔

اس نظریہ کے طرفدار معتقد ہیں کہ اگر کوئی شخص کہے کہ میں کسی مطلب اور بات کا یقین رکھتا ہوں تو یہ اس کی نافہمی اور حماقت کی نشانی ہے، اس لئے کہ کسی چیز کا علم ممکن ہی نہیں ہے۔

وہ لوگ اس شک و جہل پر بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ علم و دانش اور عقل مندی کی علامت یہ ہے کہ انسان کسی مطلب کا ، خواہ دینی ہو یا غیر دینی، یقین نہ کرے۔ ایسی اٹکل پچو باتیں تقریباً ایک سو سال سے اہل یورپ کے درمیان چھڑی ہوئی ہیں اور اس سے پہلے شکّاکین کی فکری بنیاد رہی ہیں۔

آج کل ہمارے معاشرہ میں بھی کچھ لوگ ان کی جاہلانہ باتوں کومبنیٰ قرار دیکر اسی بات کے درپے ہیں کہ لوگوں کے دینی معتقدات میں شک و شبہہ پیدا کر کے، اس بہانے سے کہ ہم کسی چیز کے متعلق یقینی معرفت نہیں حاصل کرسکتے، ان کو اپنے دینی اعتقادات میں

(۱) شکّاکین: قدیم یونان میں حکماء کا ایک گروہ تھا، جو اس بات کا قائل تھا کہ تجربہ سے ماوراء کسی بھی چیز کا علم محال ہے اور کسی امر میں قطعی رائے اور حکم کا اظہار نہیں کرنا چاہئے اور تمام امور کو شک و شبہہ کے ساتھ دیکھنا چاہئے (مترجم)۔

۱۵۹

سست اور کمزور کردیں اور اپنے نفسانی خواہشات اور مقاصد کو عملی جامہ پہنائیں۔

نرالی بات یہ ہے کہ وہ لوگ ان باتوں کو علمی مطالب کے نام سے بیان کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارے بافہم اور نکتہ سنج لوگ ان کو قبول کرلیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ پوری تاریخ میں ایسے شیطان صفت انسانوں کے وجود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:''فَاقْتَبَسَ جَهَائِلَ مِن جُهَّالٍ وَ أََضَالِیلَ مِن ضُلَّالٍ'' ۱ وہ لوگ ایک گمراہ او رجاہل گروہ سے جاہلانہ اور گمراہ کن باتیں لے لیتے ہیں اور ان کو علمی مطالب کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔ ان کی علمی بات یہ ہے کہ ہر چیز میں شک کرنا چاہئے اور بشر کو کسی چیز میں علم و یقین نہیں پیدا کرنا چاہئے، دینی امور میں ہر شخص جو بھی سمجھتا ہے وہی حق ہے، اس لئے کہ اصلاً کوئی حق و باطل وجود نہیں رکھتا، حق و باطل کے لئے ہر شخص کی ذاتی سمجھ کے علاوہ کوئی معیار نہیں پایا جاتا۔

''وَ نَصَبَ لِلنَّاسِ اَشْرَاکاً مِن حَبَائِلَ غُرُورٍ وَ قَولِ زُورٍ'' ۲ اس گمراہ و نادان گروہ اور عالم نما جاہلوںنے مکر و فریب اور جھوٹی باتوں کے جال بچھا دیئے ہیں اور لوگوں کو اپنے گمراہ کن اقوال و اعمال سے فریب دیتے ہیں۔

''قَد حَمَلَ الْکِتَابَ عَلٰی آرَائِهِ'' ۳ یہ لوگ قرآن کریم کی تفسیر اپنی رائے سے کرتے ہیں اور اس کی آیات کو اپنے افکار و خیالات پر حمل کرتے ہیں اور حق کو اپنے نفسانی میلانات و خواہشات کے مطابق قرار دیتے ہیں۔

(۱) نہج البلاغہ، خطبہ ۸۶ ۔

(۲)گزشتہ حوالہ ، خطبہ ۸۶ ۔

(۳)گزشتہ حوالہ ، خطبہ ۸۶ ۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180