قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت44%

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 180

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56342 / ڈاؤنلوڈ: 4199
سائز سائز سائز
قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

سے سوال کرو اور اس کی محبت کے وسیلے سے اس کی طرف رخ کرو، اور دوسرے لوگوں سے مدد طلب کرنے کے لئے قرآن کو وسیلہ قرار نہ دو، اس لئے کہ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہونے کا اس جیسا کوئی وسیلہ نہیں ہے، اور یاد رکھو! کہ وہ ایسا شفیع ہے جس کی شفاعت مقبول ہے اور ایسا بولنے والا ہے جس کی بات تصدیق شدہ ہے، جس کے لئے قرآن روز قیامت شفاعت کردے اس کے حق میں شفاعت قبول ہے اور جس کا عیب قرآن روز قیامت بیان کردے اس کا عیب تصدیق شدہ ہے''۔

اس کے بعد حضرت قرآن سے لوگوں کی جدائی کے خطرے کو گوش گزار فرماتے ہیں، پھر ان کو اس آسمانی کتاب کی پیروی اور اسے فکر و عمل میں نمونہ قرار دینے کی طرف دعوت دیتے ہیں:

''یُنَادِی مُنَادٍ یَومَ الْقِیَامَةِ أََلاَ إنّ کُلَّ حَارِثٍ مُبْتَلیٰ فِی حَرثِهِ وَ عَاقِبَةِ عَمَلِهِ غَیرَ حَرَثَةِ القُرآنِ فَکُونُوا مِن حَرَثَتِهِ وَأََتْبَاعِهِ وَ اسْتَدِلُّوهُ عَلٰی رَبِّکُم وَ اسْتَنْصِحُوهُ عَلٰیٰ أََنْفُسِکُمْ وَ اتَّهِمُوْا عَلَیهِ آرَائَکُمْ وَاسْتَغِشُّوْا فِیهِ أََهْوَائَکُمْ'' ۱

جس وقت قیامت برپا ہوگی اور خلائق حساب و کتاب اور جزا و سزا کے لئے کھڑے ہوں گے اس وقت ایک منادی ندا دے گا اور اہل قیامت کو اس حقیقت کی خبر دے گا کہ:

(۱)نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۷۵۔

۶۱

''ہاں اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ آج ہر کھیتی کرنے والا اپنی کھیتی اور اپنے عمل کے آثار و نتائج اور محصول وانجام میں مبتلاہے، لیکن جو لوگ اپنے دل میں قرآن کا بیج بونے والے تھے یعنی دنیا میں اپنے عقائد واعمال قرآن کے احکام و ہدایات کی بنیاد پر قائم رکھے تھے صرف وہی لوگ کامیاب ہیں، لہٰذا تم لوگ انھیں لوگوں میں اور قرآن کی پیروی کرنے والوں میں شامل ہو جاؤ، اسے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں رہنما بناؤ اور اس سے اپنے نفسوں کے بارے میں نصیحت حاصل کرو اور اپنے خیالات کو متہم قرار دو اور اپنی خواہشات کو فریب خوردہ تصور کرو''۔

تنبیہ و آگاہی

ہر موجود و مخلوق منجملہ اس کے انسان کی زندگی اور حیات ایک محدود چیز ہے۔ یہ زندگی ایک خاص نقطۂ زمان (ولادت) سے شروع ہوتی ہے اور ایک خاص نقطۂ زمان میں موت کے ذریعہ ختم ہو جاتی ہے۔ انسان اس محدود زمانہ میں مسلسل متحرک اور ہست و بود کی حالت میں ہے، اور اس کی شخصیت مختلف شکلیں اور صورتیںاختیار کرتی رہتی ہے۔ انسان کی شخصیت جو کہ اس کے عقائد و نظریات سے ابھر کر وجود میں آتی ہے اس کے اعمال و کردار کا مصدر و منشأ ہوتی ہے۔ انسان کے اعمال و کردار بھی روز قیامت مجسم ہو جائیں گے اور ہر شخص اپنے اعمال کے آثار و نتائج دیکھ رہا ہوگا۔

۶۲

لیکن جو بات یہاں پر قابل توجہ ہے، یہ ہے کہ جب تک انسان اس دنیا سے کوچ نہیں کرتا ہر لمحہ اپنے عقائد و افکار اور اعمال و کردار کا محاسبہ کر کے اپنے ماضی کا جبران اور اس کی اصلاح کرسکتا ہے اور اپنی تقدیر کے رخ کو دنیوی اوراخروی سعادت و کامیابی کی طرف موڑ سکتا ہے۔ کتنے ہی انسان ایسے ہیں جوایک لمحہ میں سنبھل گئے اور ایک حقیقی توبہ و انابت کے ذریعے اپنے اندھیرے گھپماضی کو روشن و سعادتمند مستقبل سے بد ل دیا اور سینکڑوں سال کے راستے کوایک رات میں طے کرلیا، اس لئے کہ: معرفت کا ہر لمحہ عمر جاودانی ہے

لیکن یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ماضی کے محاسبہ، جبران، اصلاح اور تدارک کا امکان فقط اس دنیا میں ہے اوراس دنیا ئے فانی سے رحلت اور موت کے بعد اصلاح و تدارک کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔

اگر انسان عالم دنیا میںاپنے اعمال و کردار کو قرآن اور الٰہی احکام و معارف کی بنیاد پر قائم رکھے اور حضرت علی ـ کے ارشاد کے مطابق قرآن کی بنیاد پر کھیتی کرنے والا ہو تو وہ عالم آخرت میں ان کے آثار و محصول سے فیضیاب اور خوش ہوگا۔

عمل اور اصلاح کا موقع صرف دنیا میں پایا جاتا ہے اور عالم آخرت اصلاح و تدارک کی جگہ نہیںہے:''اَلْیَومَ عَمَل وَ لاحِسَاب وَ غَداً حِسَاب وَ لاعَمَل'' ۱

آج عمل کا دن ہے حساب کا نہیں، اور کل کا دن، حساب کا ہے عمل کا نہیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ جو کہ دنیا و آخرت کی حقیقت کے عالم، ان کے درمیان رابطے سے آشنا اور مسلمانوں کے خیر خواہ و دلسوز ہیں، ارشاد فرماتے ہیں:

(۱)بحار الانوار، ج۳۲، ص ۳۵۴۔

۶۳

''فَکُوْنُوْا مِنْ حَرَثَةِ الْقُرآن'' یعنی اگر سعادت کے طلبگار ہو تو اپنی کھیتی قرآن کے بابرکت کشت زار میں قرار دو، ان لوگوںمیں ہو جاؤ جو کہ اس آسمانی کتاب کے حیات بخش احکام و ہدایات پرعمل کر کے اپنی دنیا و آخرت کو آباد کرتے ہیں، قرآن کریم کو نمونہ قرار دو تاکہ کبھی نقصان و خسارہ نہ اٹھاؤ۔

قرآن کی تاثیر اور کامیابی کا راز

ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہر اسکیم، دستور العمل اور سیاست کی کامیابی کے لئے خصوصاً تربیتی، ثقافتی اور اجتماعی مسائل کے متعلق تین بنیادی شرطوں کا ہونا ضروری ہے:

۔ اسکیم اور دستور العمل کا ملحوظ خاطر مقصد تک پہنچنے کے لئے درست اور صحیح ہونا۔

۔ اسکیم اور اس کے دستور العمل پر ایمان و اعتقاد رکھنا۔

۔ اسکیم میں ذکر شدہ احکام اور دستور العمل کی بنیاد پر عمل کرنا۔

واضح ہے کہ اگر تینوں شرطوں میں سے کوئی ایک شرط بھی نہیں پائی جائے گی تواس اسکیم اور دستور العمل کی افادیت جیسا کہ چاہئے ظاہر نہ ہوگی اور ملحوظ خاطر مقصد حاصل نہ ہوگا۔

۶۴

یہ بات ہم سب کہتے ہیں کہ قرآن خدا کا کلام اور ہم مسلمانوں کی زندگی کا دستور العمل ہے۔ لیکن اس بات کا صرف کہنا اور ظاہری اقرار کافی نہیںہے، اقرار و اظہار اس صورت میں قرآن اور اس کے حیات بخش احکام پر ایمان سمجھا جائے گا جبکہ قلبی اعتقاد و یقین کی غمّازی کرے اور انسان روح و دل کی گہرائی سے قرآن اور اس کے حیات بخش دستورات و ہدایات پر ایمان رکھتا ہو اور الٰہی ارشادات و پیغامات کے سامنے سراپا تسلیم ہو۔ ایسے ہی ایمان و یقین اور اعتقاد کے ساتھ معاشرہ کی ہدایت میں قرآن کی افادیت کی شرط کا، یعنی قرآن کے حیات بخش دستورات و ہدایات کی بنیاد پر عمل کا تحقق ہوتا ہے۔

قرآن کریم فرماتا ہے:

(ذٰلِکَ الْکِتَابُ لارَیبَ فِیهِ هُدیً لِلمُتَّقِینَ٭ الَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِالغَیْبِ وَ یُقِیمُونَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّارَزَقنٰهُم یُنفِقُونَ ٭ وَ الَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِمَا أُنزِلَالیکَ وَ مَا أُنزِلَ مِن قَبلِکَ وَ بِالآخِرَ ةِ هُم یُوقِنُونَ ٭ أُولٰئِکَ عَلٰی هُدیً مِن رَّبِّهِم وَ أُولٰئِکَ هُمُ المُفْلِحُونَ)۱

یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیںہے، یہ صاحبان تقویٰ اور پرہیزگار لوگوں کے لئے ہدایت ہے، جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں، پابندی سے پورے اہتمام کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ ان تمام باتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جنھیں (اے رسول) ہم نے آپ پر اور آپ سے پہلے والوں پر نازل کیا ہے اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت کے حامل ہیں اور فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں۔

البتہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ایمان کے بہت سے درجے ہیں اور اسلامی معاشرہ

(۱)سورۂ بقرہ، آیت ۲ تا ۵۔

۶۵

اس صورت میںاپنے مشکلات پر قابو اور دشمنوں پر غلبہ حاصل کر کے عزت و عظمت کا امیدوار اور قرآن کریم کی لفظوں میں دنیوی واخروی فلاح و کامیابی کا امیدوار ہوسکتا ہے جبکہ معاشرہ کے ثقافتی عہدہ دار افراد، دینی حکومت اور قرآن کے احکام و ہدایات پر تہ دل سے ایمان و اعتقاد رکھتے ہیں، نہ یہ کہ دین اور لوگوں کے دینی کلچر کی صرف کچھ باتوں سے استفادہ کر کے جاہ و منصب حاصل کرنے کے لئے اپنے کو قرآن کا معتقد ظاہر کریں۔

قرآن کریم میں ان لوگوں کو جو کہ الٰہی احکام و ہدایات پر ایمان نہیں رکھتے اور صرف مسلمانوں کو فریب دینے اوراپنے دنیوی مقاصد تک پہنچنے کے لئے ایمان کا اظہار کرتے ہیں، منافقین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس گروہ کی ظاہری ، باطنی او رعملی خصوصیات قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں بیان ہوئی ہیں۔

بہرحال جس نکتہ پر ہم یہاں تاکید کر رہے ہیں، یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں کہ قرآن کے ا حکام و ہدایات کی بنیاد پر زندگی بسر کریں اور یہ آسمانی کتاب ہم لوگوں کو سعادتمندبنائے تو لازم ہے کہ تمام لوگ خصوصاً معاشرہ کے ثقافتی امور کے عہدہ دار افراد قرآن پر ایمان و اعتقاد رکھتے ہوں اور اس الٰہی کتاب کے سامنے حضرت ابراہیم ـ کے مانند سراپا تسلیم ہوں، یعنی قرآن کے حیات بخش احکام و ہدایات کو بغیر کسی چون و چرا کے قبول کرتے ہوں۔

۶۶

حضرت ابراہیم ، قرآن کریم میں تسلیم و بندگی کا نمونہ

قرآن کریم الٰہی احکام و اوامر کے سامنے حضرت ابراہیم ـ کے سراپا تسلیم ہونے کے واقعہ کو تسلیم و رضا کا نمونہ بیان کرتا ہے نیز مشکلات کے مقابلہ آپ کی کامیابی اور مشرکین پر غلبہ کا راز، خداوند متعال پر توکل، ایمان اور صبر و استقامت کو بتاتا ہے اور ہم سے چاہتا ہے کہ ہم امر خدا اور قرآن کریم کے بارے میں ایسے ہی ایمان و اعتقاد کے حامل ہوں اور عملاً الٰہی احکام جاری کرنے میں حضرت ابراہیم ـ کی طرح ثابت قدم ہوں۔

ہم یہاں حضرت ابراہیم ـ کا واقعہ اپنے فرزند حضرت اسماعیل ـ کو ذبح کرنے کے سلسلہ میں خداوند متعال کا حکم بجا لانے کے متعلق مختصر طور پر بیان کر رہے ہیں تاکہ اسی کے ضمن میں توحیدی مکتب فکر میں خدا محوری اور حق پرستی کی روح کو واضح کر کے قرآن اور اس کے احکام کے بارے میں اپنی کمیوں کودیکھیں اور اس کی روشنی میں عزیز قارئین کو معاشرہ کے اصلی مشکلات سے آشنا کریں۔

قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ تقدیر الٰہی میںایسا تھا کہ حضرت ابراہیم ـ سو سال لاولد رہیںاور مسلسل ناامیدی کے ساتھ طویل انتظار کے بعد صاحب اولاد ہوںاور یہ آپ کی دیرینہ تمنا پوری ہو، فطری بات ہے کہ ہر انسان زندگی میں ایک نیک بیٹے کی تمنا رکھتا ہے اور فرزند صالح کے وجود کواپنے وجود کی بقا سمجھتا ہے۔

۶۷

حضرت اسماعیل ـ کی ولادت کے بعد حضرت ابراہیم ـ خداوند متعال کی طرف سے مامور ہوئے کہ اپنے بیٹے کوان کی مادر گرامی کے ساتھ مکہ کی سرزمین پر لے جائیں تاکہ سخت سے سخت حالات میں ایسی وادی میں تنہا چھوڑ دیں کہ جہاں آب و حیات کے آثار بالکل دکھائی نہیں دیتے پھر حکم الٰہی بجالانے کی خاطر سرزمین مکہ کو ترک کردیں، ایک مدت کے بعد واپسی کے وقت جبکہ آپ کا بیٹا بڑا ہوگیا اور ایک ایسا باادب اور خوبصورت جوان نظر آرہا ہے کہ جس کے جمال زیبا کو دیکھ کر ہر انسان کی آنکھ چوندھیا جاتی ہے اور جس کا پھول جیسا مکھڑا باپ کے تمام ہم و غم کو بھلا دیتا ہے نیز جدائی اور مشکلات کے رنج کو دور کردیتا ہے، ایسا سپوت کہ جس میں نبوت کی صلاحیت نمایاں ہے اس سے کمال عشق و محبت کی حالت میں اچانک آپ کو خواب میں وحی ہوتی ہے کہ تم اپنے فرزند کو راہ خدا میں قربان کردو۔

۶۸

سچ مچ مناسب ہے کہ خدا، قرآن اور احکام الٰہی پر اپنے ایمان و اعتقاد اور خدا کے سامنے اپنے مراتب تسلیم کو حضرت ابراہیم ـ کے ایمان اور مرتبۂ تسلیم و رضا کے ساتھ تولیں تاکہ اس فاصلہ کو بہتر طور سے سمجھ سکیں جو ہمارے اور ان چیزوں کے درمیان ہے جو قرآن اور خداوند متعال ہم سے چاہتا ہے اور دینی اعتقاد کی بنیاد پر ایمان وعمل کی تقویت کے لئے پہلے سے زیادہ آمادہ ہو جائیں۔ اگر جبرئیل ایسا حکم ہم آپ کو دیتے، جو کہ اپنے ہی ہاتھ سے اپنے فرزند کی قربانی پر مبنی ہے وہ بھی بیداری میں نہ کہ خواب میں، تو ہم اس کے سننے کی تاب نہ رکھتے تو بھلا پھر یہ کیسے ممکن ہوتا کہ اپنے بیٹے کی قربانی میں الٰہی فرمان و حکم کو عملی جامہ پہنائیں، لیکن حضرت ابراہیم ـ بے دھڑک فوراً حکم الٰہی کو بجالانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور بغیر اس کے کہ وحی شدہ حکم کے صحیح ہونے میں شک و شبہہ کریں کہ آیا کون سی مصلحت بے گناہ بیٹے کو ذبح کرنے میں ہے؟ اس بات کو اپنے بیٹے سے پیش کرتے ہیں:

(فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ اِنِّی أَریٰ فِی الْمَنَامِ اَنِّی أَذبَحُکَ فَاْنظُرْ مَاذَا تَرَیٰ قَالَ یَا أَََبَتِ افْعَلْ مَاتُؤمَرْ سَتَجِدُنِ اِن شَائَ اللّٰهُ مِنَ الصَّابِرِینَ)۱

(۱)سورۂ صافات، آیت ۱۰۲۔

۶۹

(پھر جب وہ فرزند اپنے باپ کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہوگیا تو انھوں نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمھیں ذبح کر رہا ہوں، اب تم بتاؤ کہ تمھارا کیا خیال ہے فرزند نے جواب دیا کہ بابا جو آپ کو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے)

حضرت ابراہیم ـ فرماتے ہیں کہ: میں نے خواب میںدیکھا ہے کہ تمھیں راہ خدا میں ذبح کر رہا ہوں، تمھاری مرضی کیا ہے؟ حضرت ابراہیم ـ کا ایمان و تسلیم اس مرتبہ پر ہے، اب بیٹے کے ایمان و تسلیم کا مرتبہ دیکھئے اور خدا اور اپنے باپ کے حکم کے سامنے بیٹے کی اطاعت کو ملاحظہ فرمائیے، اسی طرح ان انسانوں کے اخلاص وایمان سے کہ قلم و بیان جن کے وصف سے عاجز ہے حیرت کیجئے اور اپنے کو مسلمان کہنے میں احتیاط و ہوشیاری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیئے۔

حضرت اسماعیل ـ جیسے فرزند کہ جنھوں نے امر خدا کے سامنے تسلیم و رضا کا سبق اپنے باپ سے حاصل کیا تھا، اظہار موافقت سے بڑھ کر ایک جواب کے ذریعے اپنے باپ کو حکم الٰہی پر عمل کرنے میں تشویق دلاتے ہیں کہ خدانخواستہ حکم خدا چھوٹ نہ جائے۔

نیز حضرت اسماعیل ـ بغیر اس کے کہ اپنے ذبح ہونے کے فلسفہ کے متعلق سوال کریں اور بغیر اس کے کہ باپ کواپنی ذمہ داری انجام دینے کے متعلق سوچنے پر مجبور کریں، اپنے بابا سے کہتے ہیں:(یَا أََبَتِ افْعَلْ مَاتُؤْمَرْ سَتَجِدُنِ ِنْ شَائَ اللّٰهُ مِنَ الصَّابِرِینَ) ۱ اے بابا اپنے فریضہ کوانجام دیجئے، ان شاء اللہ آپ مجھے صابر اور

(۱)سورۂ صافات، آیت ۱۰۲۔

۷۰

ثابت قدم پائیں گے۔ البتہ عظیم انسان تمام فرائض اور بڑی سے بڑی ذمہ داری کے پورا کرنے میں خداوند متعال سے مدد چاہتے ہیں اور اس پر توکل کر کے قدم اٹھاتے اور تمام کاموں میں اس سے کمک اور مدد طلب کرتے ہیں اور نہایت ادب کے ساتھ اس طرح اظہار کرتے ہیں کہ اگر خدا چاہے اور اگر وہ مدد کرے تو میں فلاں کام کو انجام دوں گا۔

خداوند متعال حضرت ابراہیم ـ کی جھلک اور اپنے سامنے سراپا تسلیم ہونے کی حالت کو خود ابراہیم کی زبان مبارک سے اس طرح بیان فرماتا ہے:

(اِنِّ وَجَّهْتُ وَجْهي لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرْضَ حَنِیفاً وَ مَا أَنَا مِنَ المُشْرِکِینَ)۱

میرا رخ (خالص ایمان کے ساتھ) پوری طرح اس خدا کی طرف ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں باطل سے کنارہ کش ہوں اور ہرگز مشرکوں میں سے نہیںہوں۔

ہمیں چاہئے کہ خدا اور قرآن کے بارے میں حضرت ابراہیم ـ کے اعتقاد و ایمان کے مانند اعتقاد و ایمان رکھیں، اسی صورت میں قرآن کریم سے استفادہ کی دوسری بنیادی شرط یعنی قرآن کی ہدایات کی بنیاد پر معاشرہ کی ہدایت ہوسکے گی۔

اس بنا پر قرآن کا وجود، پختہ ایمان اوردلی اعتقاد کے بغیر ہرگز انسان اور معاشرہ کو سعادتمند نہیں بنائے گا، البتہ یہ بات بھی واضح ہے کہ ایمان و اعتقاد کے علاوہ جو چیز

ہدایت قرآن کی اسکیم اور دستور العمل کو وجود بخشتی ہے وہ تیسری شرط کا پایا جانا ہے یعنی فردی و اجتماعی زندگی میں قرآن کے احکام و ہدایات اور اس کے حیات بخش دستور العمل کو وجود میں لانا اور ان پر عمل کرنا۔

(۱)سورۂ انعام، آیت ۷۹۔

۷۱

دوسری فصل

قرآن کی تفہیم و تفسیر

اصلی مشکل

گزشتہ فصل کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم ہدایت الٰہی کی کتاب ہے اور ہم سب کا فریضہ ہے کہ اس پر ایمان رکھیں، فردی و اجتماعی زندگی میں اس کے احکام پر عمل کر کے اور اسے نمونہ قرار دے کر اپنی زندگی اور معاشرہ کو قرآن کی ہدایات کی بنیاد پر قائم کریں تاکہ دنیا اور آخرت میں سعادتمند اور کامیاب ہوجائیں۔

اب ہم یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ اس بات کے باوجود کہ قرآن، فردی و اجتماعی بیماریوں کا یہ نسخۂ شافیہ مسلمانوں کے معاشروں میں، منجملہ ان کے ہمارے انقلابی اور اسلامی معاشرہ میں موجود ہے لیکن پھر بھی ہم کیوں اسی طرح بعض مشکلات خصوصاً ثقافتی مشکلات سے دوچار ہیں؟

ممکن ہے گزشتہ مطالب سے استفادہ کرتے ہوئے جواب میں کہا جائے کہ چونکہ قرآن اور اس کے نجات بخش احکام پر کماحقّہ عمل نہیں ہوتا۔ یہ جواب اگرچہ صحیح سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے بعد اس سے بھی بڑھ کر بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں قرآن پر عمل کماحقّہ نہیں کیا جاتا؟

حقیقت میں وہ کون سے عوامل و اسباب ہیں کہ جن کی بنا پر قرآن کا رنگ معاشرہ میں پھیکا پڑ جاتا ہے اور دھیرے دھیرے لوگ قرآن، دینی ثقافت و مکتب فکر اور الٰہی اقدار سے جدا ہو جاتے ہیں؟

۷۲

چونکہ موضوع بحث ''قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں'' ہے، لہٰذا ہم مذکورہ سوال کواس طرح پیش کرسکتے ہیں کہ حضرت علی ـ ہمارے معاشرہ کی اصلی مشکل کس چیز میں سمجھتے ہیں اور اس کے حل کے لئے کس راستہ کی نشاندہی فرماتے ہیں؟

اس سوال کے جواب اور اس سلسلہ میں حضرت علی ـ کے ارشاد کی توضیح کے لئے ہم پہلے ایک مقدمہ پیش کرتے ہیں پھر اصل بحث شروع کریں گے۔ جیسا کہ پچھلی فصل میں بیان کیا گیا خدا اوردستورات الٰہی پر ایمان اور اوامر خدا کے سامنے سراپا تسلیم ہونا، قرآن کریم کی رہنمائیوں سے فیضیاب ہونے اور ہدایت کی سب سے بڑی اصل شرط ہے۔

حضرت ابراہیم ـ کے مانند ایمان و یقین اور تسلیم و رضا کو روح و جان کے اندر سرایت کرنا چاہئے تاکہ شیطانی جالوں سے محفوظ رہیں۔ معرفت کے ''مَشعر'' میں ایسے سنگریزے اکٹھا کرنا چاہئے کہ قرآن کی طرف رجوع کے وقت ''نفس امارہ کے شیطان'' کو ان سنگریزوں سے ''رمی'' کریں۔

ہمیں چاہئے کہ نفسانی خواہشات کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں اور کلام خدا کو نفسانی خواہشات پر مقدم رکھیںاور نفس کو قرآن کریم کے سمجھنے میں خود پسندی اور کج فکری سے باز رکھیں تاکہ قرآن کریم کو سمجھنے اور آیات الٰہی کی طرف رجوع کے وقت خطا و غلطی سے دو چار نہ ہوں، اس لئے کہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص کسی بھی نیت اور کسی بھی روش کے ساتھ قرآن کو سمجھنا چاہے تو اس سے صحیح استفادہ کرسکتا ہو۔

۷۳

ایک جملہ میں، اگر ہم نے خدا کی بندگی کو قبول کر لیا ہے تو لازم ہے کہ اپنے کو پوری طرح اس کے حوالے کردیں اوردل کو خدا کے ارادہ و مشیت کے سپرد کردیں اور تمام وجود کے ساتھ یقین و اعتقاد رکھیں کہ خدا اپنے بندوں سے بہتر ان کی مصلحتوں کو جانتا ہے اور اپنے بندوں کی صلاح اور نفع کے علاوہ امر و نہی نہیں کرتا۔

صرف ایسے ہی اعتقاد و ایمان کے ساتھ اس کتاب الٰہی کے صحیح سمجھنے اور اس کے حیات بخش ہدایات سے فیضیاب ہونے کا امکان انسانوں کے لئے حاصل ہوسکتا ہے۔

اس بنا پر ہدایت الٰہی سے فیضیاب ہونے کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی بنیادی شرط ہر طرح کی کج فکری اور خود پسندی سے پرہیز کرنے اور تسلیم و رضا کی روح رکھنا ہے۔

ماہر ڈاکٹر اس نسخہ میں جو کہ وہ اپنے بیمار کے لئے لکھتا ہے، کچھ دواؤں کے استعمال کو لازم قرار دیتا ہے اور کچھ غذائیں کھانے کو تجویز کرتا ہے اور ایسی دوا اور غذا کھانے سے منع کرتا ہے جو کہ علاج اور شفا کو تاخیر میں ڈال دیتی ہے یا جس سے شفا کا امکان نہیں رہ جاتا، لیکن کیا ڈاکٹر کے تمام حکم بیمار کی خواہشات کے مطابق ہوتے ہیں؟

ممکن ہے بیمار، بعض تجویز شدہ دواؤں کو نہایت رغبت کے ساتھ استعمال کرے اور بعض ممنوع غذاؤں سے شوق کے ساتھ پرہیز کرے، لیکن اکثر مریض کی خواہشات ڈاکٹر کے حکم اور تجویز سے میل نہیں کھاتیں۔ کبھی کبھی مریض اچار اور کھٹائی کھانے کی شدید خواہش رکھتا ہے لیکن ڈاکٹر اچار اور کھٹائی کے استعمال کو بیمار کے لئے زہر قاتل سمجھتا ہے۔

۷۴

ایسے مواقع پر ممکن ہے بیمار اس چیز کی شدید رغبت کے زیر اثر ڈاکٹر کی تشخیص میں شک کرے اور اس کو کھانے کے لئے اپنی طرف سے توجیہیں گڑھے، البتہ انسان جسمانی بیماریوں کے موقع پر اپنی صحت و سلامتی کی نہایت خواہش کی بنا پر بہت کم ڈاکٹر کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اکثر کوشش کرتا ہے کہ ان کو اپنی شخصی خواہشات پر ترجیح دے اور معالج ڈاکٹر کے احکام پر کامل طور سے عمل کرے، لیکن روحانی امراض کے موقع پر ایسے انسان کم نہیں ہیں جو کہ اپنی نفسانی خواہشات کو قضاوت و فیصلہ کا معیار قرار دیتے ہیں اور باطل کج فکریوں، نادرست ذہنیتوں اور غلط خواہشات کی بنیاد پر دین و احکام الٰہی کی تفسیر و توضیح کرنے لگتے ہیں۔

واضح ہے کہ ایسی روح کے ساتھ قرآن اور دین کا صحیح سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ حتی اگر یہ بھی فرض کرلیا جائے کہ کوئی شخص واقعاً دین و قرآن کو صحیح سمجھنا چاہتا ہے اور ہر طرح کے فریب اور دوسروں کے گمراہ کرنے کا ارادہ اس کے بارے میں محال ہو، تب بھی وہ دین و قرآن کو صحیح نہیں سمجھ سکتا چونکہ وہ خود پسندی، کج فکری اور غلط ذہنیت کے ساتھ قرآن و دین کو سمجھنا چاہتا ہے، خود پسندی، کج فکری، غلط ذہنیتوں اور نفسانی خواہشات کی تاثیر کو اس کے آیات و روایات کے سمجھنے میں کالعدم نہیں سمجھا جاسکتا۔

البتہ ان افراد کی داستان، جو کہ دیدہ و دانستہ، علم و آگاہی کے ساتھ اور جان بوجھ کر لوگوں کو فریب دینے اور دینی تہذیب و ثقافت کو نابود کرنے کے لئے ''مختلف قرائتوں'' کے نام سے دینی احکام و دستورات میں تحریف کرتے ہیں، ایک جداگانہ داستان ہے کہ جس کو اپنی جگہ پر بیان کریں گے اور اس مخالف دین تفکر کے اسباب و علل کو نہج البلاغہ کی روشنی میں تحقیق کے ساتھ مختصر طور پر ذکر کریں گے۔ اب ہم دیکھیں کہ قرآن کی طرف رجوع اور اس کے احکام و ہدایات کو سمجھنے کا صحیح راستہ حضرت علی ـ کی نظر میں کیا ہے؟

۷۵

حضرت علی ـ کی وصیت قرآن کے متعلق

امیر المومنین حضرت علی ـ کا وہ نورانی بیان، جس میں عالم قیامت، روز محشر، اس دن پیروان قرآن کے اپنے اعمال سے راضی ہونے اور قرآن سے روگردانی کرنے والوں کو عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر دی ہے، اس میں لوگوں کو اس طرح وصیت فرماتے ہیں:''فَکُونُوا مِنْ حَرَثَةِ الْقُرآنِ وَ اَتْبَاعِهِ'' ۱ قرآن کی بنیاد پر اپنے اعمال کی کھیتی کرنے والے اور اس کے پیرو ہو جاؤ، ''وَ استَدِلُّوہُ عَلیٰ رَبِّکُم'' قرآن کو اپنے پروردگار پر دلیل و گواہ قرار دو، خدا کو خود اسی کے کلام سے پہچانو! اوصاف پروردگار کو قرآن کے وسیلہ سے سمجھو! قرآن ایسا رہنما ہے جو خدا کی طرف تمھاری رہنمائی کرتا ہے۔ اس الٰہی رہنما سے اس کے بھیجنے والے (خدا) کی معرفت کے لئے استفادہ کرو اور اس خدا پر جس کا تعارف قرآن کرتا ہے ایمان لاؤ۔

وَاسْتَنْصِحُوهُ عَلٰی أَنفُسِکُمْ، اے لوگو! تم سب کو ایک خیر خواہ اور مخلص کی ضرورت ہے تاکہ ضروری موقعوں پر تمھیں نصیحت کرے، قرآن کو اپنا ناصح اور خیر خواہ قرار دو اور اس کی خیر خواہانہ نصیحتوں پر عمل کرو، اس لئے کہ قرآن ایسا ناصح اور دلسوز ہے جو ہرگز تم سے خیانت نہیں کرتا ہے اور سب سے زیادہ اچھی طرح سے صراط مستقیم کی طرف تمھاری ہدایت کرتا ہے۔

اس بنا پر حضرت علی ـ مسلمانوں اور دنیا و آخرت کی سعادت کے مشتاق لوگوں کو

(۱)نہج البلاغہ، خطبہ ۱۷۵۔

۷۶

وصیت فرماتے ہیں کہ قرآن کو اپنا رہنما قرار دیں اور اس کی مخلصانہ نصیحتوں پر کان دھریں، اس لئے کہ (إنّ هٰذَا الْقُرآنَ یَهْدِْ لِلَّتِي هي أَقوَمُ وَ یُبَشِّرُ المُؤمِنِینَ الَّذِینَ یَعمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُم أَجرًا کَبِیراً) ۱

''بے شک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے''۔

جو نکتہ یہاں پر قابل تاکید ہے، یہ ہے کہ اس آیۂ شریفہ کے مضمون پر ایمان و اعتقاد رکھنا دل و جان سے لازم ہے، اس لئے کہ جب تک کہ قرآن کے متعلق ایسا ایمان و اعتقاد انسان کی روح پر حاکم نہ ہو او رجب تک انسان اپنے کو کامل طور سے خدا کے اختیار میں نہ دے اور اپنے کو کج فکری، خود پسندی اور نفسانی خواہشات سے پاک و صاف نہ کرے ہر لمحہ ممکن ہے شیطانی وسوسوں کے جال میں پھنس جائے اور گمراہ ہو جائے، پھر جب بھی قرآن کی طرف رجوع کرے گا تو ناخواستہ طور پر قرآن میں بھی ایسے مطالب اور آیات ڈھونڈے گا جو کہ اس کی نفسانی خواہشات سے میل کھاتے ہوں۔

واضح ہے کہ قرآن کے تمام احکام و دستورات انسان کے نفسانی خواہشات اور حیوانی میلانات کے موافق نہیںہیں۔ انسان اپنی طبیعت کے مطابق خواہشات رکھتا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ قرآن بھی اس کی خواہش کے مطابق ہو، اس بنا پر فطری بات ہے کہ جہاں قرآن انسان کے حیوانی و نفسانی خواہشات کے برخلاف بولے گا انسان اس

(۱)سورۂ اسرائ، آیت ۹۔

۷۷

سے ذرا سا بھی خوش نہ ہوگا اور جہاں آیات قرآن اس کی نفسانی خواہشات کے موافق ہوں گی وہ کشادہ روئی کے ساتھ ان کا استقبال کرے گا۔

البتہ یہ تمام فعل و انفعالات اور تاثیر و تاثرات اس کے اندر ہی اندر مخفی طور پر انجام پائیں گے لیکن اس کے آثار انسان کے اقوال و افعال میں ظاہر ہوں گے، لہٰذا عقل اس بات کو واجب و لازم قرار دیتی ہے کہ قرآن کی طرف رجوع سے پہلے، انسان اپنے ذہن کو ہر طرح کی خود پسندی اور کج فکری سے پاک و صاف کر لے اور اپنے تمام نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس سے منھ موڑ لے تاکہ ایک خدا پسند اور خدا پرست روح کے ساتھ قرآنی مکتب میں قدم رکھے، اس صورت میں انسان زانوئے ادب تہ کرتا ہے اور نہایت شوق و رغبت کے ساتھ الٰہی معارف کو قبول کرتا ہے۔

تفسیر بالرائے

واضح ہے کہ نفسانی خواہشات سے ہاتھ اٹھانا او رالٰہی احکام اور قرآنی معارف کے سامنے سراپا تسلیم ہونا نہ صرف ایک آسان کام نہیں ہے، بلکہ جو لوگ عبودیت و بندگی کی قوی روح کے حامل نہیں ہیں ان کے لئے نفسانی خواہشات سے چشم پوشی کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے، اسی وجہ سے اسے جہاد اکبر بھی کہا جاتا ہے۔

۷۸

معلوم ہوتا ہے کہ تفسیر بالرائے کا روحی اور نفسیاتی محرّک یہیں سے پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف انسان بندگی کی روح کمزور ہونے کے سبب اپنی نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کو چھوڑ نہیں سکتا اور دوسری طرف شیطان اس حالت سے مناسب فائدہ حاصل کرتا ہے اور شیطانی وسوسوں سے کام لیتا ہے کہ ایسے انسان کے فکر و ذہن کو قرآن ودین سے غلط تفسیر کی طرف موڑ دے اور اسے گمراہ کردے۔

خصوصاً اگر یہ شخص اجتماعی اور سماجی لحاظ سے ثقافتی مرتبہ کا حامل ہو، شیطان کا وسوسہ، اس کی کوشش اور اس قسم کھائے ہوئے دشمن کی حرص ایسے انسان کے منحرف اور گمراہ کرنے میں سینکڑوں گنا بڑھ جاتی ہے اس لئے کہ شیطان جانتا ہے کہ ایسے انسان کو منحرف کرنے سے ایک گروہ کودین سے منحرف کردے گا کہ وہ گروہ ممکن ہے اس انسان کی باتیں سنتا اور مانتا ہو۔ایسے لوگ نہ کم تھے اور نہ ہیں جو کہ تہذیب نفس اور روح کی پاکیزگی کے بغیر، خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ، قرآن کی طرف رجوع کرنے سے پہلے فتویٰ صادر کرتے ہیں اور بغیر اس کے کہ تھوڑی سی بھی علمی صلاحیت اور ضرورت بھر مہارت رکھتے ہوں، اظہار نظر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن بھی ہمارا ہی نظریہ رکھتا ہے۔

واضح سی بات ہے کہ ایسے انسان اپنے نفسانی خواہشات اور باطل افکار و نظریات پر دینی اور قرآنی رنگ چڑھانے کے لئے مجمل آیات اور بحسب ظاہرمبہم سے مبہم آیات سے تمسک کرتے ہیں۔

۷۹

بدیہی ہے کہ ایسی روحی، خود پسندی اور کج فکری کی حالت سے نہ صرف قرآن کے صحیح سمجھنے کے لئے کوئی ضمانت باقی نہیں رہ جاتی، بلکہ فطری طور پر غلط فہمی اور حق سے منحرف ہونے کا راستہ بھی کھل جاتا ہے۔

قرآن کی اس طرح کی تفسیر و فہم کو دینی مکتب فکر میں تفسیر بالرائے سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دین و قرآن کے ساتھ سب سے زیادہ برے قسم کا معاملہ اور برتاؤ سمجھا جاتا ہے۔

قرآن دین اور آیات الٰہی کے ساتھ اس طرح کے برتاؤ کو استہزاء (مذاق) سمجھتا ہے اور صریحی طور پر اس سے منع کرتا ہے:

(وَ لاتَتَّخِذُوْا آیاتِ اللّٰهِ هُزُواً وَ اذْکُرُوْا نِعمَةَ اللّٰهِ عَلَیکُمْ وَ مَاأَنزَلَ عَلَیکُمْ مِنَ الْکِتَابِ وَ الْحِکمَةِ یَعِظُکُمْ بِهِ وَ اتَّقُوْا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰهَ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیمٍ)۱

یعنی ''خبردار! آیات الٰہی کو مذاق نہ بناؤ اور خدا کی نعمت کو یاد کرو اور اس نے کتاب و حکمت کو تمھاری نصیحت کے لئے نازل کیا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یاد رکھو! کہ وہ ہر شے کا جاننے والا ہے''۔

جیسا کہ اس کے پہلے اشارہ کیا گیا کہ وہ لوگ قرآن کریم کی ہدایت سے فیضیاب ہوتے ہیں جو اس پر ایمان و اعتقاد رکھتے ہوں، اور جو لوگ خود پسندی اور کج فکری کے ساتھ اس بات پر آمادہ ہو جاتے ہیں کہ اپنی نفسانی خواہشات کے لئے دینی اور قرآنی توجیہیں گڑھیں اور اپنی رائے سے کلام خدا کی تفسیر و توجیہ کریں، وہ خدا پر ایمان رکھنے سے بے بہرہ ہیں۔

یہاں پر مناسب ہے کہ اس سلسلہ میں چند روایتوں پر توجہ کریں:

قال رسول اللّٰه ۖ : قال اللّٰه جلّ جلاله: مَا آمَنَ بِی مَن فَسَّرَ بِرَأیِهِ کَلامِی'' ۲ پیغمبر ، خداوند متعال کا قول نقل فرماتے ہیں کہ خدا فرماتا ہے: وہ شخص ہرگز مجھ

(۱)سورۂ بقرہ، آیت ۲۳۱۔

(۲)توحید صدوق ، ص ۶۸۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

انہی روایتوں سے استناد کرکے ابن حجر نے عبد اللہ اور عبید اللہ کے صحابی ہونے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ان کی مصاحبت پر استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے :

ہم نے بارہا کہا ہے کہ اس زمانے میں رسم یہ تھی کہ صحابی کے علاوہ کسی اور کو حاکم و سپہ سالار معین نہیں کیا جاتا تھا۔

وہ سیف کی روایتوں سے اس مطلب کو بھی حاصل کرکے لکھتا ہے :

ابو بکر نے ان دونوں کو مرتدوں جنگ میں سپہ سالاری کا عہدہ سونپا اور '' جرش'' کی حکومت اسے دی۔

اس طرح یہ روایات سیف کے ذریعہ اسلامی مصادر میں داخل ہوئی ہیں ۔

فرزندان ثور کے افسانہ کے راوی

سیف اپنے جعل کئے ہوئے ثور کے بیٹوں کے افسانوں کو مندرجہ ذیل اپنے ہی جعلی راویوں کی زبانی نقل کیا ہے۔

١۔ سہل بن یوسف نے

٢۔ یوسف بن سہل سے ، اس نے

٣۔ عبید بن صخر سے

٤۔ مستنیر بن یزید

٥۔ عروة بن غزیہ

ان افسانوں کی اشاعت کرنے والے ذرائع

١۔ طبری نے اپنی تاریخ کبیر میں ، اور درج ذیل علماء نے اس سے نقل کیا ہے

٢۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں ۔

٣۔ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں

٤۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں

۱۲۱

٥۔ میر خواند نے اپنی کتاب '' روضة الصفا '' میں

٦۔ سمعانی نے '' انساب'' میں ۔

٧۔ ابن اثیر نے سمعانی سے نقل کرکے ''لباب'' میں

٨۔ ابن عبد البر نے '' استیعاب '' میں ۔

٩۔ ابن اثیر نے ا'' اسد الغابہ '' میں استیعاب سے نقل کرکے ۔

١٠۔ ذہبی نے '' تجرید'' میں ، '' اسد الغابہ '' سے نقل کرکے۔

١١۔ ابن حجر نے سیف کی '' فتوح'' سے اور '' استیعاب '' سے نقل کرے '' اصابہ '' میں ۔ لیکن '' تصبیر '' میں سند کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

١٢۔ ابن ماکولا نے سیف سے نقل کرکے '' اکمال'' میں ۔

١٣۔ ١٤۔ اور ان سے فیروز آبادی اور زبیدی نے بالترتیب ' ' قاموس '' اور اس کی شرح '' تاج العروس'' میں نقل کیا ہے ۔ اس کے علاوہ میر خواند نے کتاب '' روضة الصفا '' طبع ، تہران ، خیام (٢ ٦٠) میں ۔

مصادر و مآخذ

عکاشہ کے حالات اور اس کی حدیث

١۔ '' تاریخ طبری '' ( ١ ١٨٥٢ ، ١٨٥٣، ١٨٥٤، اور ٢٠٠)

٢۔ '' تاریخ ابن اثیر'' ( ٢ ٢٥٥)

٣۔ تاریخ ابن کثیر ( ٦ ٣٠٧)

٤۔ '' ابن خلدون'' ( ٢ ٢٦٣، ٢٧٥۔ ٢٧٧)

٥۔ '' استیعاب '' ابن عبد البر ( ٢ ٥٠٩) نمبر : ٢١٥٠ طبع حیدر آباد

٦۔ '' اسد الغابہ '' ابن اثیر (٤ ٢)

٧۔ '' تجرید ذہبی'' ( ١ ٣١٨)

۱۲۲

٨۔ '' انساب سمعانی '' لفظ '' غوثی '' ( ٤١٣)

٩۔ '' اکمال '' ( ص٩٦)

عبد اللہ بن ثور کے حالات :

١۔ '' تاریخ طبری'' ( ١ ١٩٩٧، ١٩٩٨، ٢١٣٦)

٢۔ '' اصابہ'' ابن حجر ( ٢ ٢٧٧) نمبر :٦٥٩٧

چھوٹا خط رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گماشتوں اورگورنروں کے نام:

١۔ خلیفہ بن خیاط ( ١ ٦٣)

٢۔ '' تاریخ اسلام '' ذہبی ( ٢ ٢)

٣۔ لفظ '' غوثی'' '' تحریر المشتبہ '' ذہبی ( ١ ٤٨٩)

٤۔ '' تبصیر المشتبہ '' ابن حجر ( ٣ ١٠٣٤)

۱۲۳

پانچواں حصہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچی

*٣٥۔ وبرة بن یحنس،خزاعی۔

*٣٦۔ اقرع بن عبد اللہ ، حمیری

*٣٧۔ جریر بن عبد اللہ حمیری

*٣٨۔صلصل بن شرحبیل

*٣٩۔ عمرو بن محجوب عامری

*٤٠۔ عمر وبن خفاجی ، عامری

*٤١۔ عمرو بن خفاجی عامری

*٤٢۔ عوف ورکانی۔

*٤٣۔ عویف زرقانی

*٤٤۔ قحیف بن سلیک ھالکی

*٤٥۔ عمرو بن حکم قضاعی

*٤٦۔ امرؤ القیس ( بنی عبد اللہ سے )

۱۲۴

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچی اور گورنر

طبری نے سیف سے نقل کرکے لکھا ہے کہ پہلا شخص جس نے طلیحة بن خویلد کی بغاوت کی خبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہنچائی، وہ بنی مالک میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گماشتہ اور کارندہ'' سنان بن ابی سنان'' تھا۔

وہ ایک دوسری روایت میں لکھتا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس خبر کے سننے کے بعد ، اپنی طرف سے ایک ایلچی کو یمن میں مقیم چند سرکردہ ایرانیوں کے پاس بھیجا اور انھیں لکھا کہ طلیحہ کا مقابلہ کرنے کے لئے اٹھیں اور تمیم و بنی قیس کے لوگوں پر مشتمل ایک فوج کو منظم کرکے ان کی حوصلہ افزائی کریں تا کہ وہ طلیحہ سے جنگ کرنے کیلئے اٹھیں انہوں نے اس حکم کی اطاعت کی اور اس طرح مرتدوں کیلئے ہر طرف سے راستہ بند کیا گیا۔

پیغمبری کا مدعی، '' اسود'' پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات میں ہی مارا گیا اور طلیحہ و مسیلمہ بھی پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے محاصرہ میں پھنس گئے ۔

بیماری کی وجہ سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جو درد و تکلیف ہورہی تھی، وہ بھی آپ کیلئے فرمان الٰہی کی اطاعت اور دین کی حمایت کرنے میں رکاوٹ نہ بنی اور آنحضرت نے اسی حالت میں مندرجہ ذیل افراد کو پیغام رسانی کا فریضہ انجام دینے کیلئے اپنے ایلچیوں کے طور پر روانہ فرمایا:

١۔ وبرة بن یحنس کو '' فیروز ، جشیش دیلمی اور دازویہ استخری '' کے پاس بھیجا۔

٢۔ جریر بن عبد اللہ کو ایلچی کے طور پر '' ذی الکلاع اور ذی ظلیم '' کے ہاں روانہ فرمایا۔

٣۔ اقرع بن عبد اللہ حمیری نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پیغام '' ذی رود '' اور '' ذی مران '' کو پہنچایا۔

٤۔ فرات بن حیان عجلی کو ایلچی کے طور پر '' ثمامۂ آثال '' بھیجا۔

٥۔ زیاد بن خنظلہ تمیمی عمری کو '' قیس بن عاصم'' اور '' زبر قان بن بدر '' سے ملاقات کرنے کی مموریت عطا فرمائی۔

٦۔ صلصل بن شرجیل کو سبرة بن عنبری ، وکیع دارمی، عمرو بن محجوب عامری عمرو بن محجوب عامری اور بنی عمرو کے عمرو بن خفاجی کے پاس بھیجا۔

۱۲۵

٧۔ ضرار بن ازور اسدی کو بنی صیدا کے عوف زرقانی ، سنان اسدی غنمی اور قضاعی دئلی کے ہاں جانے پرممورکیا۔

٨۔نعیم بن مسعود اشجعی کو ذی اللحیہ اور ابنمسیمصہجبیری سے ملاقات کرنے کی ذمہ داری سونپی۔

ابن حجر کی اصابہ میں '' صفوان بن صفوان '' کے حالات کی تشریح کے ضمن میں سیف کی روایت یوں ذکر ہوئی ہے:

صلصل بن شرحبیل کو ۔۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ۔۔ اپنے ایلچی کے طور پر اسے صفوان بن صفوان تمیمی اور وکیع بن عدس دارمی وغیرہ کے پاس بھیجا اور انھیں مرتدوں سے جنگ کرنے کی دعوت اور ترغیب دی۔

تاریخی حقائق پر ایک نظر

تاریخ نویسوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان تمام ایلچیوں اور پیغام رسانوں کا نام درج کیا ہے جنھیں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مختلف بادشاہوں ، قبیلہ کے سرداروں اور دیگر لوگوں کے پاس بھیجا تھا۔لیکن ان کے ہاں کسی صورت میں مذکورہ افراد کا نام اور ان کے پیغام رسانی کے موضوع کا ذکر نہیں ہوا ہے۔

'' ابن خیاط'' نے اپنی تاریخ میں ، پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے بارے میں بحث کے دوران لکھا ہے :

١۔ عثمان بن عفان کو حدیبیہ کے سال مکہ کے باشندوں کے پاس۔

٢۔ عمرو بن امیہ صمری کو ایک تحفہ کے ساتھ مکہ ، ابو سفیان بن حرب کے پاس۔

٣۔ عروة بن مسعود ثقفی کو طائف ، اپنے خاندان کے پاس۔

٤۔ جریر بن عبد اللہ کو یمن ، ذی کلاع اور ذی رعین کے پاس۔

٥۔ وبر بن یحنس کو یمن میں ایرانی سرداروں کے پاس۔

٦۔ خبیب بن زید بن عاصم ۔۔ کو مسیلمہ کذاب کے پاس جو مسیلمہ کے ہاتھوں قتل ہوا ۔۔

٧۔ سلیط بن سلیط کو یمامہ کے باشندوں کے پاس۔

٨۔ عبد اللہ بن خدافہ سہمی کو بادشاہ ایران کسریٰ کے پاس۔

٩۔ دحیة بن خلیفہ کلبی کو قیصر ، روم کے بادشاہ کے پاس۔

۱۲۶

١٠۔ شجاع بن ابی وہب اسدی کو، حارث بن ابی شمّر غسانی یا جبلة بن ایہم کے پاس

١١۔ حاطب بن ابی بلتعہ کو مقوقس ، اسکندریہ کے حکمران کے پاس

١٢۔ عمروبن امیہ ضمری کو نجاشی حبشہ کے پاس۔

اس طرح خلیفہ بن خیاط ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان ایلچیوں اور پیغام رسانوں کا نام اپنی کتاب میں لیتا ہے جنہیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مختلف علاقوں اور شخصیتوں کے پاس بھیجا ہے ۔ لیکن ان میں سیف کے خلق کردہ ایلچیوں کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔

سیف کی حدیث میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آٹھ ایلچیوں کے نام لئے گئے ہیں جنہوں نے مختلف بیس شخصیتوں سے ملاقات کی ہے ۔ ان پیغام رسانوں اور پیغام حاصل کرنے والوں کے مجموعہ میں سیف کے دس جعلی صحابی بھی نظر آتے ہیں جن کے بارے میں ہم الگ الگ بحث کریں گے۔

پینتیسواں جعلی صحابی وبرة بن یحنس

سیف کی روایتوں کے مطابق تاریخ طبری میں آیا ہے کہ وہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آٹھ ایلچیوں میں سے ایک ہے ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی حیات کے آخری ایام میں بیماری کے دوران ١١ ھ میں یمن میں مقیم ایرانی سرداروں سے ملاقات کرنے کیلئے اسے ممور کیاہے۔

وبرہ ان سرداروں کیلئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خط ساتھ لے گیا ، جس میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں امر فرمایا تھا کہ '' اسود'' کے خلاف جنگ کرکے اسے قتل کر ڈالیں اور تاکید فرمائی تھی کہ اسود کو قتل کیا جائے ، چاہے مکر و فریب اور جنگ وخونریزی کے ذریعہ ہی سہی۔

وبرہ ، یمن میں '' دا زویۂ فارسی '' کے پاس پہنچتا ہے ، سر انجام '' فیروز'' اور ''جشیش دیلمان'' کی ساتھ ایک نشست تشکیل دیتے ہیں اور '' قیس بن عبد یغوث '' ۔۔ جوبقول سیف اسود کی سپاہ کا سپہ سالار اعظم تھا۔۔ سے سازش کرکے '' اسود '' کو قتل کرنے میں اس کی موافقت حاصل کرتے ہیں ۔

۱۲۷

یہ لوگ رات کے اندھیرے میں '' اسود'' کے گھر میں جمع ہوکر اسے قتل کر ڈالتے ہیں ۔ طلوع فجر ہوتے ہی ''جشیش'' یا '' وبرہ '' نماز کیلئے اذان دیتا ہے اور '' وبرة '' کی امامت میں فجر کی نماز پڑھی جاتی ہے۔

اپنی مموریت کو انجام دینے کے بعد ''وبرہ'' ابو بکر کے پاس مدینہ پلٹتا ہے۔

کتاب '' استیعاب '' اور '' اصابہ'' میں یہ داستان سیف سے نقل ہوئی ہے اور اس نے ضحاک بن یربوع سے اس نے ماہان سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔

مذکورہ دو کتابوں میں '' وبرة بن یحنس'' کے بارے میں طبری سے نقل کرکے سیف کی روایتیں اس مختصر سند اور اس تفاوت کے ساتھ درج ہوئی ہیں کہ تاریخ طبری میں '' وبرہ'' '' ازدی '' ہے جبکہ مذکورہ دو کتابوں میں '' خزاعی '' ذکر ہوا ہے۔

سیف کی احادیث میں وبرہ کی داستان یہی تھی جو اوپر ذکر ہوئی ۔ ہاں جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حقیقی صحابی تھا ، اس کا نام '' وبر بن یحنس کلبی '' تھا ، اس کے بارے میں یوں بیان ہوا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ١٠ ھ میں '' وبر '' کو مموریت دے کر ایرانی سرداروں کے پاس یمن بھیجا۔ '' وبر '' وہاں پر '' نعمان بن بزرج'' سے ملا اور کچھ لوگوں نے اس کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔ ''نعمان بن بزرج'' نے '' وبر '' سے روایت کی ہے: کہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے وبر سے فرمایا تھا کہ صنعا میں داخل ہونے کے بعد '' ضبیل '' کے اطراف صنعا میں واقع پہاڑ میں واقع مسجد میں نماز پڑھنا۔

نقل کیا گیا ہے کہ اس کا بیٹا '' عطاء '' پہلا شخص تھا جس نے یمن میں قرآن مجید کو اکٹھا کرنے کا کام شروع کیاتھا۔

ابن حجر نے اپنی کتاب ''' اصابہ '' میں '' وبر بن یحنس'' کی زندگی کے حالات نمبر ٩١٠٥ کے تحت اور سیف کی تخلیق '' وبرة بن یحنس '' کے حالات بھی نمبر ١٩٠٩ کے تحت درج کئے ہیں ۔

یہاں پر ابن اثیر غلط فہمی کا شکار ہوا ہے ۔ اس نے اس خیال سے کہ یہ دونوں ایک ہی شخص ہیہیں ، دو خبروں کو یکجااپنی کتاب '' اسد الغابہ '' میں لکھا ہے :

۱۲۸

''وبر'' اور کہا گیا ہے '' وبرة بن یحنس'' خزاعی ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضور آپ کی فرمائشات سن رہا تھا ۔ نعمان بن بزرج نے اس سے روایت کی ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا ہے : جب ''ضبیل'' کے اطراف میں واقع صنعاء کی مسجد میں پہنچنا تو وہاں پر نماز پڑھنا۔

ان مطالب کو تین مصادر نے ذکر کیا ہے ۔ ابو عمر کہتا ہے کہ یہ وہ شخص ہے جسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''داذویہ '' ، فیروز دیلمی'' اور '' جشیش دیلمی '' کے پاس اپنے ایلچی کے طور پر بھیجا تھا تا کہ پیغمبری کے مدعی ''اسود عنسی'' کو قتل کر ڈالیں ( ابن اثیر کی بات کا خاتمہ )

ابن اثیر نے غلطی کی ہے کیونکہ نعمان نے مسجد صنعاء میں جس شخص کے نماز پڑھنے کے بارے میں روایت کی ہے وہ '' کلبی ''ہے۔

اور جسے سیف نے خلق کرکے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچی کے طور پر اسود کو قتل کرنے کیلئے یمن بھیجا ہے وہ ''خزاعی'' یا '' ازدی'' ہے۔

بعید نہیں کہ ابن اثیر کی غلط فہمی کا سرچشمہ یہ ہو کہ اس نے سیف کی اس حدیث کو ابن عبد البر کی کتا ب استیعاب سے مختصر علامت '' ب'' سے نقل کیا ہے لیکن '' وبر کلبی '' کی داستان کو ابن مندہ کی کتاب '' اسماء الصحابہ '' سے مختصر علامت '' د'' سے اور ابو نعیم کی کتاب '' معرفة الصحابہ ' سے مختصر علامت ''ع'' سے نقل کیا ہو۔

اسی لئیابن اثیر نے دو داستانوں کو آپس میں ملا کر اسے ایک شخص کے بارے میں درج کیا ہے۔

اس افسانہ میں سیف کے مآخذکی تحقیق

'' وبرة بن یحنس'' کی داستان کے بارے میں سیف کے راوی اور مآخذ جو تاریخ طبری میں درج ہوئے ہیں حسب ذیل ہیں :

١۔ مستنیز بن یزید نے عروة بن غزیہ دثینی سے ۔ یعنی سیف کے ایک جعلی کردہ راوی نے سیف ہی کی تخلیق دوسرے راوی سے روایت کی ہے ، ہم نے اس مطلب کی وضاحت کتاب '' عبدا للہ بن سبا'' کی دوسری جلد میں کی ہے ۔

٢۔ سہل ، سیف کا ایک اور راوی ہے کہ جس کا تعارف انصار میں سے یوسف سلمی کے بیٹے کے طور پر کیا گیا ہے ۔ ہم نے اپنی کتاب '' رواةمختلقون '' میں اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

۱۲۹

ابن عبد البر کی کتاب '' استیعاب '' اور ابن حجر کی کتاب '' اصابہ '' میں '' وبرہ'' کے بارے میں سیف کی روایت کی سند حسب ذیل ہے ۔

'' ضحاک بن یرع''کہ ہم نے اسی کتاب میں ابو بصیرہ کے حالات کی تشریح میں کہا ہے کہ ہمیں شک ہے کہ وہ بھی سیف کا جعل کردہ اور اس کا خیالی راوی ہے۔

داستان کی حقیقت

سیف کے علاوہ دیگر روایتوں میں آیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' قیس بن ھبیرہ'' کو '' اسود'' کے ساتھ جنگ کرنے کی مموریت عطافرمائی اور حکم دیا کہ یمن میں مقیم ایرانیوں سے رابطہ قائم کرکے اس کام میں ان سے مدد حاصل کرے ۔

قیس پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کو نافذ کرنے کیلئے راہی صنعاء ہوا اور وہاں پر اپنے آپ کو اسود کا حامی اور مرید جتلایا ۔ نتیجہ کے طور پر اسود اس کے صنعاء میں داخل ہونے میں رکاوٹ نہیں بنا اس طرح وہ قبائل مذحج ، ہمدان اور دیگر قبائل کی ایک جماعت لے کر صنعاء میں داخل ہوا۔

قیس نے صنعا میں داخل ہونے کے بعد مخفیانہ طور پر فیروزنامی ایرانی سردار سے رابطہ قائم کیا ، جس نے پہلے ہی اسلام قبول کیا تھا۔ اس کے بعد اس کے ہمرا ہ'' داذویہ '' سے ملاقات کی اور اس کی تبلیغ کی وجہ سے سر انجام دازویہ نے بھی اسلام قبول کیا ۔ اس کے بعد داذویہ نے اپنے مبلغین کو ایرانیوں کے درمیان یمن بھیجا اور انھیں اسلام کی دعوت دی، انہوں نے بھی اسلام قبول کیا اور اسود کو قتل کرنے میں ان کی مدد کی۔

کچھ مدت کے بعد قیس اور اس کی دو ایرانی بااثر شخصیتوں نے اسود کی بیوی کو اپنے پروگرام سے آگاہ کیا اور اس سلسلے میں اسکی موافقت حاصل کی تا کہ اسود کا کام تمام کرسکیں ۔

اس پروگرام کے تحت ایک دن وہ لوگ پو پھٹتے ہی نگہبانوں سے بچ کر اچانک اسود کے گھر میں داخل ہوئے اور اس پر حملہ کیا، فیروز نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا ، قیس نے اس کے سرکو تن سے جدا کرکے شہر کے دروازہ پر لٹکا دیا اور نماز کیلئے اذان دی اور اذاں کے آخر میں بلند آواز میں کہا کہ '' اسود جھوٹا اور خدا کا دشمن ہے '' ۔

اس طرح صنعاء کے باشندے اسود کے قتل کئے جانے کی خبر سے آگاہ ہوئے ۔

۱۳۰

داستان کی حقیقت اور افسانہ کا موازنہ

سیف کی روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی طرف سے چند ایلچیوں کو یمن میں مقیم ایرانی سرداروں اور بزرگوں اور اسی طرح اسود کی فوج کے سپہ سالار '' قیس بن عبد یغوث'' کے پاس روانہ کیا، اور حکم دیا کہ یہ لوگ اسود کو قتل کرکے اس کا خاتمہ کردیں ۔

یہ لوگ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حکم بجالاتے ہیں ۔ اسود کو قتل کرنے کے بعد '' جشیش'' یا '' وبرہ'' اذان دیتا ہے اور '' وبرہ'' کی امامت میں نماز جماعت پڑھی جاتی ہے ۔

جبکہ سیف کے علاوہ دیگر روایتوں میں آیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' قیس بن ھبیرہ'' کو '' اسود '' کو قتل کرنے کی مموریت عطا فرمائی ہے اور اس نے یمن میں مقیم ایرانی سرداروں کی مدد سے '' اسود '' کو قتل کیا ہے ۔ قیس نے '' اسود'' کے سر کو شہر کے دروازے پر لٹکانے کے بعد خود نما زکیلئے اذان دی ہے۔

جیسا کہ معلوم ہے سیف نے حقائق کو بدل کر داستان کے مرکزی کردار یعنی قیس کے باپ کا نام '' ھبیرہ'' سے تغیر دیکر ''عبد یغوث '' بتایا ہے ۔

اسی طرح اپنے جعلی صحابی کو '' وبر بن یحنس کلبی'' کا ہم نام یعنی '' وبرة بن یحنس'' ازدی خلق کیا ہے اور سیف کا یہ کام نیا نہیں ہے کیونکہ وہ حقیقی صحابیوں کے ہم نام صحابی جعل کرنے میں ید طولیٰ رکھتا ہے جس طرح اس نے اپنے خزیمہ کو '' خزیمة بن ثابت انصاری ذی شہادتین '' کے ہم نام اور اپنے ' سماک بن خُرشۂ انصاری کو '' سماک بن خُرشۂ انصاری '' معروف بہ ابی دجانہ کا ہم نام خلق کیا ہے ۔

۱۳۱

افسانۂ وبرہ کے مآخذ

سیف نے '' وبرہ '' کے افسانہ کے راویوں کا حسبِ ذیل صورت میں نام لیا ہے :

١۔ مستنیر بن یزید نے

٢۔ عروة بن غزیہ سے ۔ یہ دونوں سیف کے خلق کردہ ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

٣۔ ' ' ضحاک بن یربوع'' ہم نے کہا کہ اس کے بارے میں ہم مشکوک ہیں کہ اسے سیف نے جعل کیا ہے یا نہیں ۔

'' وبرہ '' کے افسانہ کو نقل کرنے والے علما:

١۔ طبری نے اپنی تاریخ میں ۔ بلا واسطہ سیف سے نقل کرکے ۔

٢۔ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں ، طبری سے نقل کرکے۔

٣۔ ابن عبد البر نے '' استیعاب '' میں سیف سے بلاواسطہ نقل کرکے ۔

٤۔ ابن حجر نے '' اصابہ'' میں براہ راست سیف سے نقل کرکے ۔

مصادر و مآخذ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کی روایت

١۔ '' تاریخ طبری'' ( ١٧٩٩١١)

٢۔ '' اصابہ'' ( ٢ ١٨٢) صفوان کے حالات کے ضمن میں ۔

٣۔ '' تاریخ ابن خیاط'' ( ١۔ ٦٢ ۔٦٣) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایلچیوں کے نام میں نئی سطر سے ''وبرة بن یحنس'' کے بارے میں سیف کی روایات:

١۔'' تاریخ طبری'' ( ١٧٩٨١، ١٨٥٦، ١٨٥٧، ١٨٦٢، ١٨٦٤ ، ١٨٦٧، اور ١٩٨٤ )

٢۔'' استیعاب ''طبع حیدر آبار دکن ( ٢ ٦٠٦)

٣۔ '' اصابہ '' ( ٣ ٥٩٤)

۱۳۲

'' وبر بن یحنس '' کلبی کی داستان :

١۔ '' تاریخ طبری '' (١ ١٧٦٣)

٢۔ '' اصابہ '' ابن حجر ( ٣ ٥٩٣)

٣۔ '' اسد الغابہ '' ابن اثیر ( ٥ ٨٣)

اسود عنسی کی داستان

١۔ '' فتوح البلدان '' بلاذری ( ١ ١٢٥۔ ١٢٦)

٢۔ '' عبدا للہ بن سبا'' دوسری جلد۔

۱۳۳

چھتیس اور سینتیس ویں جعلی اصحاب اقرع بن عبدا للہ حمیری اور جریر بن عبد اللہ حمیری

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حمیری ایلچی :

سیف نے '' اقرع'' اور '' جریر'' عبدا للہ حمیری کے دوبیٹے خلق کئے ہیں تاریخ طبری میں سیف سے نقل کرکے دو روایتوں کے مطابق ان دو بھائیوں کی داستان یوں آئی ہے :

١۔ طبری نے ١١ ھ کے حوادت کے ضمن میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفراء کے بارے میں بیان ہوئی روایت۔۔ جس کا ذکر اس حصہ کے شروع میں ہوا۔۔ میں یوں کہا ہے :

اس کے علاوہ جریر بن عبدا للہ کو ایلچی کے طور پر'' ذی کلاع'' اور ''ذی ظلیم '' کے پاس بھیجا اور اقرع بن عبد اللہ حمیری کو '' ذی رود '' اور '' ذی مران '' سے ملاقات کرنے کی مموریت دی۔

اس کے علاوہ پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد یمانیوں کے ارتداد کے بارے میں لکھتا ہے :

پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض ایلچی گراں قیمت خبروں کے ساتھ ۔۔ خلافت ابو بکر کے دوران ۔۔ مدینہ پلٹے ، ان میں عبد اللہ حمیری کے بیٹے جریر اور اقرع اور وبرة بن یحنس بھی تھے۔ ابو بکر بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح مرتدوں اور دین سے منحرف ہوئے لوگوں سے لڑتے رہے یہاں تک کہ اسامہ بن زید شام کی جنگ سے واپس آیا جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ ، یہ دو خبریں من جملہ ان خبروں میں سے ہیں جسے سیف نے دونوں بھائیوں کے بارے میں ایک ساتھ لکھا ہے اور طبری نے انھیں ١١ ھ کے ضمن میں درج کیا ہے ۔

٢۔ طبری نے '' فتح نہاوند '' کی خبر کو ٢١ ھ کے حوادث و روداد کے ضمن میں لکھا ہے :

جب مسلمان نہاوند پہنچے تو سپہ سالار اعظم نعمان بن مقرن نے حکم دیا کہ ساز و سامان کے ساتھ وہیں پڑاؤ ڈالیں ۔

نعمان کھڑے ہوکر کام کی نگرانی کررہا تھا اور فوجی خیمے لگانے میں مصروف تھے کہ کوفہ کے سرداروں اور اشراف نے نعمان کی خدمت کرنے کیلئے آگے بڑھ کر اس کیلئے ایک خیمہ نصب کیا ۔ سپہ سالار اعظم کیلئے خیمہ نصب کرنے کا کام کوفہ کے چودہ سردار اشراف نے انجام دیا ان میں یہ افراد تھے : جریر بن عبد اﷲ حمیری ، اقرع بن عبد اللہ حمیری اور جریر بن عبد اللہ بجلی اور آج تک خیمہ نصب کرنے والے ایسے لوگ دکھائی نہیں دئے ہیں

۱۳۴

صرف ان دو خبروں میں طبری نے سیف بن عمر سے نقل کرکے دو جعلی حمیری بھائیوں کا نام ایک ساتھ لیا ہے ۔

لیکن تاریخ طبری میں سیف کی دوسری روایتوں میں ایک ایسی خبر موجود ہے جس میں تنہا جریر کا نام لیا گیا ہے اور اس کے بھائی اقرع کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ ذیل میں ملاحظہ ہو :

جریر بن عبد اللہ حمیری

صلح ناموں کا معتبر گواہ :

حیرہ کے بعد والے حوادث اور رودادوں کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے طبری لکھتا ہے :

'' حیرہ کے باشندوں کے ساتھ خالدبن ولید کی صلح کے بعد '' قس الناطف '' ١ کاسردار اور حاکم '' صلوبا بن نسطونا'' خالد کی خدمت میں حاضر ہوا ور '' بانقیا '' اور '' بسما'' کے بعض حصے اور ان دو جگہوں سے مربوط دریائے فرات کے کنارے پر واقع کھیتی کی زمینوں کے سلسلے جو آپ فرات سے سیراب ہوئے تھے اور دس ہزار دینار یعنی فی نفر چار درہم ۔۔ بادشاہ ایران کو ادا کرنے والی رقم سے زیادہ ۔۔ ٹیکس ادا کرکے صلح کی ۔ سر انجام اس کے اور سپہ سالار اعظم کے درمیان صلح نامہ لکھا گیا اور جریر بن عبد اللہ حمیری نے اس کی تائید کرکے گواہی دی۔

اس صلح نامہ کے آخر میں جو تاریخ لکھی گئی ہے وہ '' ماہ صفر ١٢ ھ '' ہے اس روایت کے بعد طبری ایک دوسری روایت میں لکھتا ہے :

____________________

١۔'' قس الناطف '' کوفہ کے نزدیک دریائے فرات کے مشرق میں واقع ہے اور بانقیا اور بسما بھی کوفہ کے اطراف میں تھے ۔معجم البلدان

۱۳۵

'' صلوبا بن بصبہری '' اور '' نسطونا '' نے '' خالد '' کے ساتھ '' فلالیج '' سے'' ہر مزگرد '' ١ کے درمیان شہروں اور زمینون کے بارے میں ، صلح نامہ کی رقم کے علاوہ بیس لاکھ کی رقم پر صلح نامہ پر دستخط کئے اس صلح نامہ کا گواہ جریر بن عبد اللہ حمیری تھا ۔

سیف کہتا ہے کہ اس کے بعد خالد بن ولید نے اپنے کارگزار معین کردئے اور فتح شدہ علاقوں میں مسلح فوج کو معین کردیا ۔ اس کے گماشتوں اور گزار میں ایک '' جرید بن عبد اللہ حمیری '' تھا جو خالد کی طرف سے نمائندہ کی حیثیت سے '' بانقیا '' اور '' بسما'' کا ممور قرار پایا۔

طبری ، سیف سے نقل کر کے ایک اور روایت میں لکھتا ہے :

خالد کے کارگزار خراج ادا کرنے والوں کو درج ذیل صورت میں رسید دیتے تھے :

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

یہ ورقہ بعنوان رسید ہے ان افراد کیلئے جنہوں نے یہ رقم یا یہ مقدا رجزیہ ، جسے خالد نے صلح کی بنیاد قرار دیاتھا ، ادا کیا ہے ۔ خالد اور تمام مسلمان اس شخص کا سختی سے مقابلہ کریں گے جو صلح نامہ میں مقرر شدہ جزیہ کی رقم ادا کرنے میں کسی قسم کی تبدیلی لائے گا ۔ اس بنا پر جو امان تمہیں دی گئی ہے اور جو صلح تمہارے ساتھ ہوئی ہے ، پوری طاقت کے ساتھ برقرار ہے اور ہم بھی ا س کے اصولوں پر پابند رہیں گے۔

اس رسید کے آخر میں جن چند اصحاب سے خالد نے دستخط لئے تھے جوحسب ذیل تھے :

____________________

١۔ ہر مزگرد عراق میں ایک شہر تھا جو عمر کی خلافت کے زمانے میں مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا ہے ۔

۱۳۶

ہشام ، جابر بن طارق ، جریر بن عبد اللہ اور

طبری ، سیف سے نقل کرکے ایک اور روایت میں لکھتا ہے :

'' فلالیج'' اور اسکے دور ترین شہروں اور علاقوں کے تمام لوگوں کو خالد نے مسلمان بنانے اور وہاں کے لوگوں کو اپنی اطاعت میں لانے کے بعد علاقۂ حیرہ کی حکومت '' جریر بن عبد اللہ حمیری '' کو سونپی ۔

جریر ، مصیخ کی جنگ میں :

مصیخ کی داستان کے ضمن میں طبری نے لکھتا ہے :

اس اچانک حملہ میں ، حتی عبد العزی بن ابی رہم نمری بھی جرید بن عبد اللہ کے ہاتھوں مارا گیا ۔ '' عبد العزی ، اوس بن مناة'' کا بھائی تھا ۔ وہ دشمن کی سپاہ میں تھا، لیکن اسلام لایا تھا ، اسلام لانے کے سلسلے میں ابو بکر کی طرف سے ایک تائید نامہ بھی اپنے پاس رکھتاتھا لیکن وہ اس برق آسا حملہ میں جرید بن عبداللہ کے ہاتھوں مارا گیا جبکہ اس شب وہ اس طرح پڑھ رہا تھا :

جس وقت اچانک حملہ ہوا ، میں نے کہا اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خدا !تو پاک و منزہ ہے ۔

میرا اللہ جس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے جو تمام زمینوں اور انسانو ں کا پیدا کرنے والا اور ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے ۔ ١

اسی طرح طبری ، سیف سے نقل کرکے حدیث جسر ۔۔ جسر ابو عبید ۔۔ میں ١٣ ھ کے حوادت

____________________

١۔ اسی کتاب کی پہلی جلد ( فارسی ) ( ١ ١٥٦ ۔ ١٥٧) ملاحظہ ہو۔

۱۳۷

کے ضمن میں کہتا ہے :

یرموک کی جنگ اور جسر کی داستان کے درمیان چالیس دن رات کا فاصلہ تھا ۔ جس شخص نے خلیفہ عمر ۔۔ کو یرموک کی فتح کی نوید دی وہ جریر بن عبد اللہ حمیری تھا۔

یہاں اور آنے والی بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اپنے صحابی '' جریر '' کو ایسا خلق کیا ہے کہ خالد بن ولید '' حیرہ '' کی فتح کے بعد اسے اپنے ساتھ شام لے جاتا ہے ۔

جریر ، ہرمزان کا ہم پلہ

طبری نے '' رامہرمز ، شوش اور شوشتر '' کی فتح کے موضوع کے بارے میں ١٧ ھ کے واقعات کے ضمن میں سیف سے نقل کرکے یوں ذکرکیا ہے :

خلیفۂ عمر نے ''سعد وقاص'' کو لکھا کہ فوری طور پر ایک عظیم فوج کو ''نعمان بن مقرن'' کی کمانڈ میں اہواز بھیجدے اور جریر بن عبدا ﷲ حمیری و جریر بن عبد اللہ بجلی اور کوہرمزان سے مقابلہ کرنے کیلئے ممور کرے تا کہ اس کا کام تمام کردیں ۔

طبری'سیف سے نقل کرکے '' حیرہ کی روداد اور خالد بن ولید اور '' قس الناطف '' کے سردار کے درمیان صلح نامہ کے موضوع کے ضمن میں لکھتا ہے :

اس صلح نامہ کے آخر میں لکھی گئی تاریخ '' ٢٠'' ماہ صفر ١٢ھ ہے ۔

طبری سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

خطوط کے آخر میں تاریخ لکھنے والے پہلے شخص عمر تھے اور وہ بھی ١٦ ھ میں ان کی خلافت کے ڈھائی سال گزرنے کے بعد ، تاریخ کی یہ قید امیر المؤمنین علی بن ابیطالب کی مشورت اور راہنمائی سے انجام پائی ہے ۔

اس کے بعد طبری اسی موضوع کی وضاحت میں لکھتا ہے :

عمر نے لوگوں کو جمع کرکے ان سے پوچھا : کس دن کو تاریخ کا آغاز قرار دیں ؟ امیر المؤمنین علی نے فرمایا: اس دن کو جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت فرمائی اور دیار شرک کو ترک فرمایا ۔

۱۳۸

عمر نے اسی نظریہ کو منظور کرکے اسی پر عمل کیا ۔

طبری سے جو مطالب ہم نے نقل کئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کا موضوع اور اس کے خطوط و عہد ناموں کے آخر میں درج کرنے کا رواج ١٦ ھ تک نہیں تھا اور اس وقت تک خطوط اور عہد ناموں کے آخر میں تاریخ نہیں لکھی جاتی تھی لہذا ١٦ ھ سے پہلے والے جتنے بھی خطوط اور عہد ناموں پر تاریخ لکھی گئی ہوگی ، وہ جعلی ہیں جیسے سیف کا وہ عہد نامہ جسے اس نے ١٢ ھ کے ماہ صفر میں لکھنے کی نسبت خالد بن ولید سے دی ہے ۔

'' اقرع'' اور ''جریر'' کے افسانوں کی تحقیق

سیف نے اقرع و جریر کے بارے میں اپنے افسانہ کے راویوں کا یوں تعارف کیا ہے:

١۔'' محمد'' اس نام کی پانچ بار تکرار کی ہے اور اسے محمد بن عبد اللہ بن سواد کہا ہے ۔

٢۔ '' مہلب '' اس کا نام دوبار ذکر کیا ہے اور اسے مہلب بن عقبہ اسدی کہا ہے۔

اس کے علاوہ درج ذیل ناموں میں سے ہر نام ایک بار ذکر ہوا ہے ۔

٣۔ غصن بن قاسم

٤۔ ابن ابی مکنف

٥۔ زیاد بن سرجس احمری

٦۔ سہل بن یوسف سلمی انصاری

۱۳۹

ہم نے بارہا کہا ہے کہ یہ سب سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

مذکورہ راویوں کے علاوہ سیف نے اشارہ اور ابہام کی صورت میں چند دیگر راویوں کا نام بھی لیا ہے کہ جنہیں پہچاننا ممکن نہیں ہے ، جیسے کہ کہتا ہے :

بنی کنانہ کے ایک شخص سے ! ، یہ شخص کون ہے ؟!

یا یہ کہتا ہے :

عمرو سے کون سا عمرو؟ اسی کے مانند

تاریخی حقائق اور سیف کا افسانہ

یہ حقیقت ہے کہ اصحاب کے درمیان '' جریر بن عبد اللہ بجلی '' نام کا ایک صحابی موجود تھا (۱) نقل کیا گیا ہے کہ خلیفہ عمر نے حکم دیا کہ اس کا قبیلہ نقل و حرکت کرے اور جریرنے ان (عمر ) کے سپہ سالار کی حیثیت سے عراق کی جنگوں میں شرکت کی ہے ۔

____________________

١۔ہم نے اس جریر کو ، مؤرخین کی روش کے مطابق کہ ''جس کسی نے اسلام لاکر پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا ہے ، اسے صحابی کہتے ہیں '' ، صحابی کہا ہے

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180