قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت33%

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 180

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 180 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 56270 / ڈاؤنلوڈ: 4189
سائز سائز سائز
قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نام کتاب : قرآن نہج البلاغہ کے آئینہ میں

مولف : آی ت اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ

مترجم: ہادی حسن فیضی ہندی

تصحیح : کلب صادق خان اسدی

نظر ثانی: سید شجاعت حسین رضوی

پیشکش: معاونت فرہنگی ،ادارۂ ترجمہ

کمپوزنگ : ابو النورین

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت (ع)

طبع اول : ۱۴۲۷ھ ۲۰۰۶ ء

تعداد : ۳۰۰۰

مطبع : لیلا

۱

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفی غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۲

اگرچہ رسول اسلام کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے،

خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

۳

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتو رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علّام آیة اللہ محمد تقی مصباح یزدی کی گرانقدر کتاب'' قرآن در آئینۂ نہج البلاغہ'' کو فاضل جلیل مولانا ہادی حسن فیضی ہندی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۴

مقدمہ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ وَ الصَّلٰوةُ وَ السَّلامُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ آلِهِ الطَّاهِرِیْنَ.

اگر چہ ہم معتقد ہیں کہ قرآن کریم انسانوں کے لئے خدا کا عظیم ترین ہدیہ اور مسلمانوں کے پاس حضرت نبی اکرم کی نہایت قیمتی میراث ہے، لیکن امت اسلامیہ کو جس شائستہ طریقہ سے اس عظیم میراث سے استفادہ کرنا چاہئے تھا اس طرح اس نے استفادہ نہیں کیا اور نہ کر رہی ہے۔

اسلامی معاشرہ نبی اکرم کی وفات کے بعد اس الٰہی حبل متین سے تمسک کرنے سے محروم رہا ہے، جبکہ آنحضرت نے اس بات پر بہت زیادہ تاکید کی تھی کہ ثقل اکبر کے عنوان سے قرآن کی طرف رجوع اور اس پر عمل کرنا، اور ثقل اصغر کے عنوان سے اہلبیت (ع) سے قرآن کے علوم کو حاصل کرنا واجب ہے۔

نتیجہ میں اسلامی معاشرہ اپنے اس اصلی مرتبہ تک نہیں پہنچ سکا جس کی قرآن مجید نے اسے بشارت دی ہے اور فرمایا ہے:(وَ أَنتُمُ الأَعْلَوْنَ ِنْ کُنتُمْ مُؤمِنِینَ) ۱

........ ............ ....

(۱)سورۂ آل عمران، آیت ۱۳۹۔

۵

(اور تم بلند ہو اگر مومن ہو) ۔ اور آج ہمیں اس تلخ حقیقت کا اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اسلامی معاشرہ قرآن کی حقیقت اور علوم اہلبیت سے دور رہنے کے سبب ناقابل تلافی نقصان سے دو چار ہوا ہے۔

لیکن قرآن کی حقیقت سے مسلمانوں کی دوری اور اس آسمانی گوہر اور خدائی عطیہ کے متروک ہونے کے باوجود کبھی کبھی قرآن کے ظاہر نے مسلمانوں کے درمیان بہت رواج پایا ہے۔

تمام مسلمان قرآن کو ایک مقدس اور آسمانی کتاب سمجھتے ہیں جو کہ شب قدر میں پیغمبر کے قلب مبارک پر نازل ہوا ہے، عہد حاضر میں قرآن کو بہترین کاغذ پر چھاپا جاتا ہے اس کو سنہری جلد سے مزیّن کیا جاتا ہے، اس کی تلاوت کی جاتی ہے، اس کو حفظ کیا جاتا ہے اور اس کے ظاہر سے اخذ کئے گئے علوم جیسے تجوید وغیرہ میں مہارت حاصل کرنا مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت میں بہت اہم سمجھا جاتا ہے، چنانچہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ قرآن کریم کے حفظ و قرائت کے مقابلے کا پروگرام اسلامی ممالک میں عالمی پیمانے پر منعقد ہوتا ہے اور یہ بہت اچھی بات ہے۔

البتہ اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ تمام اسلامی ممالک میں قرآن کریم کا رونق پانا بھی بڑی حد تک حضرت امام خمینی اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کا مرہون منت ہے، اس لئے کہ حضرت امام خمینی نے جب حرمین شریفین کے نظم و نسق کے متعلق یہ پیغام دیا کہ ان کا انتظام تمام اسلامی ممالک کے ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی کے ہاتھ میں ہونا چاہئے، تو سعودی حکومت اسی وقت سے حرمین شریفین کی تعمیر و توسیع میں مشغول ہوئی اور ساتھ ہی قرآن کی نشر و اشاعت اور اس کو حاجیوں کے درمیان تقسیم کرنے کا کام شروع کیا تاکہ اس کے ذریعے اپنے کو اسلام و قرآن کا بڑا مبلغ ثابت کرسکے اور ایران کی طرف مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روک سکے۔

۶

بہرحال، قرآن کے ظاہر پر توجہ دینا اور اس کی حقیقت سے دور رہنا، ان عظیم المیوں میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے اسلامی معاشروں کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ واضح سی بات ہے کہ جب تک مسلمان قرآن کے ظاہر کے ساتھ اس کے باطن کی طرف توجہ نہیں دیں گے اور قول کے ساتھ عمل کی منزل میں نہیں آئیں گے، اس وقت تک وہ قرآن سے ہدایت نہیں لے سکیں گے۔

اس کتاب میں نبی اکرم کی وفات کے بعد قرآن و عترت سے مسلمانوں کے دور ہو جانے کے عوامل و اسباب کو بیان نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس میں قرآن مجید کی حقیقت کو نہج البلاغہ اور خود قرآن کریم کی نظر سے بیان کیا گیا ہے، تاکہ قاری، قرآن کو امیر المؤمنین کی نظر سے پہچانے اور اس کی عظمت سے آشنا ہو اور مخالفین کے بعض شبہوں کو ان کے جواب کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ آخر میں قرآن ناطق حضرت علی ـ کی زبان سے، اس طرح کے شبہات پیش کرنے کے شیطانی اسباب و علل بھی بیان ہوئے ہیں۔

اس بات کا ذکر کردینا ضروری ہے کہ یہ کتاب آیة ا... مصباح یزدی دام ظلہ العالی کی ان چند تقریروں کا مجموعہ ہے جو آپ نے اور ہجری شمسی کے ماہ رمضان میں قم میں کی تھیں، ہم نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ جو مطالب استاد موصوف نے بیان کئے ہیں ان میں کسی قسم کی رد و بدل اور کمی و بیشی نہ ہو نیز تقریر کو تحریر سے قریب کرنے کی کوشش کی گئی ہے لہٰذا واضح سی بات ہے کہ تحریر اور ترتیب و تنظیم کی عام باریکیاں مکمل طور پر اس کتاب میں دکھائی نہیں دیتیں۔

آخر میں ہم محقق معظم جناب حجة الاسلام محمدی صاحب کے شکر گزار ہیں کہ موصوف نے اس کتاب کی تدوین کی، نیز جناب حجة الاسلام نادری صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے تنظیم و ترتیب کا کام انجام دیا ہے اور خداوند منان کی بارگاہ میں ان دونوں حضرات کے لئے مزید توفیقات کی دعا کرتے ہیں۔

ناشر

ادارۂ تعلیم و تحقیق امام خمینی

۷

پہلی فصل

دینی معاشرہ میںقرآن کا مرتبہ

انسان کے اختیار میں صرف قرآن آسمانی کتاب ہے

قرآن کے بارے میں جو کچھ نہج البلاغہ میں ذکر ہوا ہے ، اگر اسے بیان کریں تو گفتگو کا سلسلہ طویل ہو جائے گا۔ کیونکہ امام علی ـ نے نہج البلاغہ کے بیس سے زیادہ خطبوں میں قرآن اور اس کے مرتبہ کا تعارف کرایا ہے اور کبھی کبھی نصف خطبہ سے زیادہ قرآن کے مرتبہ، مسلمانوں کی زندگی میں اس کے اثر اور اس آسمانی کتاب کے بارے میں مسلمانوں کے فریضہ سے مخصوص کیا ہے۔ ہم یہاں پر قرآن کریم سے متعلق نہج البلاغہ کی صرف بعض تعریفوں کی توضیح پر اکتفا کرتے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی ـ ویں خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

''وَ کِتَابُ اللّٰهِ بَینَ اَظْهُرِکُمْ نَاطِق لایَعْییٰ لِسَانُه''

یعنی قرآن تمھارے سامنے اور تمھاری دسترس میں ہے۔ دوسرے ادیان کی آسمانی کتابوں جیسے حضرت موسیٰ ـ اور حضرت عیسیٰ ـکی کتابوں کے برخلاف، قرآن تمھارے اختیار میں ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ امتوں میں خصوصاً بنی اسرائیل کے یہودیوں میں مقدس کتاب عام لوگوں کے اختیار میں نہیں تھی، بلکہ توریت کے صرف چند نسخے علماء یہود کے پاس تھے اور تمام لوگوں کے لئے توریت کی طرف رجوع کرنے کا امکان نہیں پایا جاتا تھا۔

حضرت عیسیٰ ـ کی آسمانی کتاب کی حالت تو اس سے بھی زیادہ تشویشناک تھی اور ہے، اس لئے کہ جو کتاب آج انجیل کے نام سے عیسائیوں کے درمیان پہچانی جاتی ہے، یہ وہ کتاب نہیں ہے جو حضرت عیسیٰ ـ پر نازل ہوئی تھی۔ بلکہ یہ ان مطالب کا مجموعہ ہے جن کو کچھ افراد نے جمع کیا ہے اور وہ اناجیل اربعہ (چار انجیلوں) کے نام سے مشہور ہیں ۔

۸

اس بنا پر گزشتہ امتوں کی دسترس آسمانی کتابوں تک نہیں تھی، لیکن قرآن مجید کی حالت اس سے مختلف ہے۔ قرآن مجید کے نزول کی کیفیت اور نبی اکرم کی طرف سے اس کی قرائت و تعلیم کا طریقہ ایسا تھا کہ لوگ اسے سیکھ سکتے تھے اور اس کی آیتیں حفظ کرسکتے تھے اور قرآن مکمل طور پر ان کی دسترس میں تھا اور ہے۔

اس آسمانی کتاب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ خداوند متعال نے امت اسلام پر احسان کیا ہے اور قرآن کریم کو ہر طرح کے خطرہ سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری خود لی ہے۔ اس کے علاوہ حضرت نبی اکرم مسلمانوں کے یاد کرنے اور آیات الٰہی کی حفاظت کا اس قدر اہتمام کرتے تھے کہ رسول خدا ہی کے زمانہ میں بہت سے مسلمان حافظ قرآن ہوگئے تھے اور نازل ہونے والی آیات کے نسخے اپنے پاس رکھتے تھے وہ بتدریج ان کو یاد کرتے تھے، بہرحال ان نسخوں سے نسخہ برداری کے ذریعہ یا ایک حافظ سے دوسرے حافظ کی طرف سینہ در سینہ نقل کے ذریعے قرآن کریم تمام لوگوں کے پاس ہوتا تھا۔

حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:''کِتَابُ اللّٰهِ بَینَ اَظْهُرِکُمْ'' کتاب خدا تمھارے درمیان ہے، تمھاری دسترس میں ہے۔''نَاطِق لایَعییٰ لِسَانُه'' اس جملہ پر تاکید کرنا ضروری ہے۔

حضرت علی فرماتے ہیں: ''یہ کتاب گویا (بولنے والی) ہے اور اس کی زبان کند نہیں ہوتی، بولنے سے تھکتی نہیں ہے نیزکبھی اس میں لکنت نہیں ہوتی، وہ ایسی عمارت ہے جس کے ستون گر نہیں سکتے اور ایسی کامیاب ہے کہ جس کے دوست شکست نہیں کھا سکتے۔

۹

قرآن کا بولنا

حضرت امام علی ـ نہج البلاغہ میںایک طرف قرآن کے اوصاف کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ: یہ کتاب، کتاب ناطق ہے، خود بولتی ہے، بولنے سے تھکتی نہیں، اپنی بات اور اپنا مطلب خود واضح طور سے بیان کرتی ہے۔اور دوسری طرف، ارشاد فرماتے ہیں : یہ قرآن ناطق نہیں ہے، اسے قوت نطق و گویائی دینی چاہئے اور میں ہی ہوں جو اس قرآن کو تمھارے لئے گویا کرتا ہوں ۔ اور بعض عبارتوں میں اس طرح آیا ہے : ''قرآن، صَامِت نَاطِق'' قرآن صامت بھی ہے اور ناطق بھی ۔ اس بات کے صحیح معنی کیا ہیں؟

معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعبیر اس آسمانی کتاب سے متعلق دو مختلف نظریوں کو بیان کر رہی ہے کہ ایک نظر یہ کی رو سے قرآن ایک مقدس کتاب ہے جو کہ خاموش ہے اور ایک گوشہ میں رکھی ہوئی ہے، نہ وہ کسی سے بولتی ہے اور نہ کوئی اس سے ارتباط رکھتا ہے، اور

(۱)نہج البلاغہ، خطبہ ۱۴۷، یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس کتاب میں نہج البلاغہ سے دیئے گئے تمام حوالے ، نہج البلاغۂ فیض الاسلام کی بنیاد پر ہیں۔

۱۰

دوسرے نظریہ کے لحاظ سے قرآن ایک گویا (بولنے والی) کتاب ہے جس نے تمام انسانوں کو اپنا مخاطب قرار دیا ہے اور ان کو اپنی پیروی کی دعوت دی ہے اور اپنے پیروؤں کو سعادت و نیک بختی کی خوشخبری دی ہے۔

واضح ہے کہ وہ قرآن جس کی صفت صرف تقدس ہو اور بس، جس کی آیتیں صرف کاغذ کے صفحوں پرنقش ہوں اور مسلمان اس کا احترام کرتے ہوں، اس کو چومتے ہوں اور اس کو اپنے گھر کی بہترین جگہ پر محفوظ رکھتے ہوں اور کبھی کبھی محافل و مجالس میں اس کی حقیقت اور اس کے معانی کی طرف توجہ کئے بغیر اس کی تلاوت کرتے ہوں۔ اگر اس نگاہ سے قرآن کو دیکھیں تو قرآن ایک صامت (خاموش) کتاب ہے جو کہ محسوس آواز کے ساتھ نہیں بولتی، جو شخص ایسا نظریہ قرآن کے متعلق رکھے گا وہ ہرگز قرآن کی بات نہ سن سکے گا اور قرآن کریم اس کی مشکل کو حل نہیں کرے گا۔

اس بنا پر ہمارا فریضہ ہے کہ ہم دوسرے نظریئے کو اپنائیں، یعنی قرآن کو ضابطۂ حیات سمجھیں، اور خدائے متعال کے سامنے اپنے اندر تسلیم و رضا کی روح پیدا کر کے خود کو قرآن کریم کی باتیں سننے کے لئے آمادہ کریں کہ قرآن کی باتیں زندگی کا دستور ہیں اسی صورت میں قرآن، ناطق اور گویا ہے، انسانوں سے بات کرتا ہے اور تمام شعبوں میں ان کی رہنمائی کرتا ہے۔

اس توضیح کے علاوہ جو کہ ہم نے قرآن کے صامت و ناطق ہونے کے متعلق بیان کی ہے، اس کے اس سے بھی زیادہ عمیق معنی پائے جاتے ہیں اور وہی معنی حضرت علی ـ کے مد نظر تھے اور ان ہی معنی کی بنیاد پر آپ نے فرمایا ہے کہ قرآن صامت ہے اور اسے ناطق و گویا کرنا چاہئے اور یہ میں ہوں جو کہ قرآن کو تمھارے لئے گویا کرتا ہوں۔

۱۱

اب ہم قرآن کے صامت و ناطق ہونے کی توضیح دوسرے معنی کے اعتبار سے (یعنی حقیقت میں اس کے حقیقی معنی کی توضیح) پیش کر رہے ہیں:

اگرچہ قرآن کریم خداوند متعال کا کلام ہے اور اس کلام الٰہی کی حقیقت اور اس کے صادر اور نازل ہونے کا طریقہ ہمارے لئے قابل شناخت نہیں ہے، لیکن اس وجہ سے کہ اس کے نزول کا مقصد انسانوں کی ہدایت ہے، اس کلام الٰہی نے اس قدر تنزل کیا ہے کہ لفظوں، جملوں اور آیتوں کی صورت میں انسان کے لئے پڑھنے اور سننے کے قابل ہوگیا، لیکن اس کے باوجود ایسا بھی نہیں ہے کہ اس کی تمام آیتوں کے مضامین عام انسانوں کے لئے سمجھنے اور دسترس میں رکھنے کے قابل ہوں اور لوگ خود نبی اکرم اور ائمۂ معصومین (ع) (جو کہ راسخون فی العلم ہیں) کی تفسیر و توضیح کے بغیر آیتوں کے مقاصد تک پہنچ سکیں۔

مثال کے طور پرشرعی احکام و مسائل کے جزئیات کی تفصیل و توضیح قرآن میں بیان نہیںہوئی ہے، اسی طرح قرآن کریم کی بہت سی آیتیں مجمل ہیں اور توضیح کی محتاج ہیں۔ اس بنا پر قرآن بہت سی جہتوں سے ''صامت'' ہے، یعنی عام انسان اس کو ایسے شخص کی تفسیر و توضیح کے بغیر نہیں سمجھ سکتے جو غیب سے ارتباط رکھتا ہے اور خدائی علوم سے آگاہ ہے۔

۱۲

پیغمبر اور قرآن کی توضیح و تفسیر

نبی اکرم کے فرائض میں سے ایک فریضہ یہ بھی ہے کہ وہ امت کے لئے، آیات الٰہی کی توضیح و تفسیر فرمائیں۔

قرآن کریم پیغمبر کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:(وَ أَنزَلنَا اِلیَکَ الذِّکرَ لِتُبَیِّنَ لِلنِّاسِ مَا نُزِّلَالیهِم) ۱ ہم نے قرآن کو آپ پر نازل کیا اور آپ کا فریضہ ہے کہ لوگوں کے لئے قرآن کی تلاوت کریں اور ان کے سامنے اس کے معارف کو بیان کریں، جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ قرآن کلام الٰہی ہے اور اس نے بہت تنزل کیا ہے یہاں تک کہ الفاظ و آیات کی صورت میں آگیا ہے اور مسلمانوں کے اختیار میں ہے، پھر بھی اس کے معارف اتنے عمیق اور گہرے ہیں کہ عام انسانوں کے لئے قابل فہم نہیں ہیں۔ لہٰذا قرآن اس اعتبار سے عام انسانوں کے لئے صامت ہے اور نبی اکرم اور ائمۂ معصومین (ع) کی تفسیر کا محتاج ہے ۔اسی بنا پر خداوند متعال پیغمبر کو مخاطب کر کے فرما رہا ہے: ''ہم نے قرآن کو آپ پر نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اس کی تفسیر و توضیح فرمائیں''۔

اس بنا پر قرآن کی آیتوں کی ایک خاص تفسیر ہے جس کا علم نبی اکرم اور ائمۂ معصومین (ع) کے پاس ہے، ان حضرات نے بھی قرآن کے معارف کو مسلمانوں کے اختیار میں دیا اور قرآن کے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا۔ لہٰذا قرآن اس اعتبار سے ناطق ہے اور نبی اکرم اور ائمۂ معصومین (ع) نے قرآن کے معارف کو بیان فرمایا، لیکن یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن اپنی بات مخاطب کی پسند سے بہتر بیان کرتا ہے، خواہ انسان کے دل کی خواہش کے موافق ہو یا مخالف ۔ نیز شیطان نما انسانوں کو یہ حق نہیں ہے

(۱)سورۂ نحل، آیت ۴۴۔

۱۳

کہ قرآن پر اپنی خواہشوں کو لادیں اور اپنی رائے سے کلام الٰہی کی تفسیر کریں ،اس کے متعلق ہم آئندہ تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔

قرآن کے صامت و ناطق ہونے کی بنا پر حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:''نَاطِق لا یَعییٰ لِسَانُه'' ۱ قرآن ایسا بولنے والا ہے کہ بولنے سے تھکتا نہیں، وہ اپنے پیغام لوگوں تک پہنچاتا ہے اور مسلمانوں پر حجت تمام کرتاہے۔

لہذا حضرت علی ـ مذکورہ جملہ میں قرآن کا تعارف اس طرح کراتے ہیں :

کلام الٰہی، قرآن تمھارے درمیان ہے اور ہمیشہ فصیح و بلیغ اور گویا زبان سے فلاح و نجات کی طرف بلاتا ہے، اپنے پیروؤں کو سعادت و کامیابی کی خوشخبری دیتا ہے اور اپنی ذمہ داری پورا کرنے سے نہیں تھکتا ۔

خطبہ میں حضرت علی ـ قرآن کے متعلق اس طرح ارشاد فرماتے ہیں:

''ذٰلِکَ الْقُرآنُ فَاسْتَنْطِقُوهُ وَ لَن یَّنطِقَ وَ لٰکِنْ أُخْبِرُکُمْ عَنْهُ، أَلا إنّ فِیهِ عِلْمَ مَا یَأتِی، وَ الْحَدِیثَ عَنِ الْمَاضِیْ، وَ دَوَائَ دَائِکُم، وَ نَظْمَ مَا بَینَکُمْ''،

ہاں! یہ قرآن ہے، پس اس سے چاہو کہ تم سے بولے اس حال میں کہ ہرگز قرآن (نبی اور ائمۂ معصومین (ع) کی تفسیر کے بغیر) نہیں بولے گا۔ تمھیں چاہئے کہ نبی اکرم اور ائمۂ معصومین (ع) کی زبان کے ذریعے قرآن کے معارف سے آشنا ہو اور قرآن کے علوم کو انھیں سے دریافت کرو۔

(۱)نہج البلاغہ، خطبہ ۱۴۳۔

۱۴

قرآن الٰہی علوم و معارف کا ایسا سمندر ہے کہ اس گہرے اور اتھاہ سمندر میں غواصی اور اس کے انسان ساز موتیوں کا حصول فقط انہی حضرات کا نصیب ہے جو عالم غیب سے ارتباط رکھتے ہیں، خداوند متعال نے بھی لوگوں سے یہی چاہا ہے کہ نبی اکرم اور ائمۂ معصومین (ع) کے دامن سے متمسک ہو کر، علوم اہلبیت سے استفادہ کر کے اور ان حضرات کی ہدایت و رہنمائی سے قرآن کے بلند معارف حاصل کریں، اس لئے کہ قرآن کے علوم اہلبیت کے پاس ہیں۔ نتیجہ میں ان حضرات کی بات قرآن کی بات ہے، اور جب ایسا ہے تو نبی اکرم اور اہلبیت (ع) قرآن ناطق ہیں۔

مذکورہ بنیاد پر حضرت علی ـ فرماتے ہیں:''ذٰلِکَ الْقُرآنُ فَاسْتَنْطِقُوْهُ وَ لَن یَّنْطِقَ '' یہ قرآن ہے اور دیکھو! تم امام معصوم کی تفسیر و توضیح کے بغیر قرآن سے استفادہ نہیں کرسکتے، یہ امام معصوم ـ ہی ہے جو تمھارے لئے قرآن کی تفسیر بیان کرتا ہے اور تمھیں قرآن کے علوم و معارف سے آگاہ کرتا ہے۔

حضرت علی ـ اس مقدمہ کو بیان کر کے قرآن کو ایک دوسرے زاویئے سے قابل توجہ قرار دیتے ہیں اور لوگوں کو قرآن کی طرف رجوع اور اس میں تدبر اور تفکر کی دعوت دیتے ہیں، حضرت فرماتے ہیں کہ امام معصوم ـ ہی قرآن کے علوم و معارف کو مسلمانوں کے لئے بیان کرتا ہے اور خود قرآن نہیں بولتا اور لوگ خود بھی قادر نہیں ہیں کہ براہ راست الٰہی پیغاموں کو حاصل کریں، تو اب:أُخْبِرُکُمْ عَنْهُ ، میں تمھیں قرآن سے آگاہ کرتا ہوں اور قرآن کے علوم و معارف کی تمھیں خبر دیتا ہوں، جان لو! کہ جو کچھ تمھاری ضرورت کی چیزیں ہیں وہ سب قرآن کریم میں موجود ہیں،أَلا إنّ فِیْهِ عِلْمَ مَا یأتِی وَ الْحَدِیثَ عَنِ الْمَاضِی وَ دَوَائَ دَائِکُمْ وَ نَظْمَ بَینِکُمْ، گزشتہ و آئندہ کا علم قرآن میں ہے اور تمھارے درد کی دوا اور تمھارے تمام امور کا نظم و نسق قرآن میں ہے، یہ تم پر لازم ہے کہ قرآن کریم اور علوم اہلبیت سے استفادہ کر کے اپنے امور کو منظم کرو!

۱۵

دو نکتوں کی یاد دہانی

ـ:قرآن کریم مسلمانوں اور اس آسمانی کتاب کے پیروؤں کے لئے ایک ا ہم تاریخی سند ہے چونکہ قرآن تاریخی واقعات بیان کرتا ہے، نیز گزشتہ قوموں اور ملتوں کے افکار و عقائد اور ان کے حالات اور ان کے طرز زندگی کو بیان کرتا ہے، (اس لئے) سب سے زیادہ معتبر تاریخی سند ہے اس کے مقابل ان تاریخی حالات اور کتابوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے جو کہ قرآنی سند نہیں رکھتیں، اگر چہ تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہوں، لہٰذا گزشتہ افراد کے حالات ، انبیاء اور گزشتہ قوموں کے واقعات کو قرآن سے سننا چاہئے اور ان سے نصیحت حاصل کرنی چاہئے۔

ہمارا فریضہ ہے کہ قرآن سے رجوع کر کے، پچھلی قوموں اور ملتوں کی داستان زندگی کا مطالعہ کر کے ان سے درس عبرت حاصل کریں، اپنی زندگی کو حق کی بنیاد اور صحیح روش پر سنواریں۔

ـ:قرآن کریم اس بات کے علاوہ کہ گزشتہ قوموں کی تاریخ ہمارے لئے نقل کرتا ہے اور ان حوادث کو بیان کر کے جو ان قوموں میں رونما ہوئے تھے ، ہم کو ان کی زندگی کے ماحول میں پہنچا دیتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ ہم ان سے درس عبرت لیں، وہ آئندہ کی بھی خبر دیتا ہے۔ واضح ہے کہ آئندہ اور مستقبل کے متعلق علمی اور یقینی بات کہنا خداوند متعال اور ان (معصوم) افراد کے علاوہ جو اس کے اذن سے آئندہ کی خبر رکھتے ہیں، کسی اور کا کام نہیں ہے ۔خدا کے لئے ماضی، حال، مستقبل کوئی معنی نہیں رکھتے اور وہ آئندہ کے متعلق خبر دے سکتا ہے، وہی ہے جو اپنے بندوں کے لئے راستے کو واضح و روشن کرسکتا ہے کہ کیسے چلیں تاکہ سعادت تک پہنچ جائیں۔ یہ قرآن کریم ہے جو کہ گزشتہ و آئندہ کی خبر دیتا ہے اور انسانوں کو ان کے ماضی و مستقبل سے آگاہ کرتا ہے، لہٰذا حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:''أَلا إنّ فِیهِ عِلْمَ مَا یَأتِیْ وَ الْحَدِیثَ عَنِ الْمَاضِیْ'' آگاہ ہو جاؤ! کہ مستقبل اور ماضی کا علم قرآن کریم میں ہے۔

۱۶

زندگی میں قرآن کا اثر

امیر المومنین حضرت علی ـ تمام مشکلات کا حل قرآن کو بتاتے ہیں اور اس کے بارے میں فرماتے ہیں:''وَ دَوَائَ دَائِکُمْ وَ نَظمَ مَا بَینَکُمْ'' تمھارے درد کی دوا، تمھارے مشکلات کا حل اور تمھارے امور کے نظم و نسق کا ذریعہ قرآن ہے۔ قرآن ایسی شفا بخش دوا ہے جو تمام امراض کا علاج ہے اور قرآن کے ذریعے تمام درد و الم دور ہو جاتے ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ اس شفا بخش نسخہ کو پڑھیں، اس کا غور و خوض کے ساتھ مطالعہ کریں اور تمام فردی و اجتماعی مشکلات اوردردوں کے علاج کے طریقے سے آگاہ ہوں۔

یہ بات واضح ہے کہ درد کے احساس اور مشکل کو پہچاننے سے پہلے دوا بتانا فطری اصول سے خارج ہے، اس لئے کہ پہلے فردی اوراجتماعی دردوں کو پہچاننا چاہئے اور قرآن کی آیات کریمہ کے مطالعہ اور ان میں غور و خوض کے ذریعہ ان دردوں سے آگاہ ہونا چاہئے، پھر اس شفا بخش نسخہ سے استفادہ کر کے ان کا علاج کرنا چاہئے۔

آج ہمارے معاشرہ اور سماج میںبہت سے مشکلات پائے جاتے ہیں خواہ وہ فردی ہوں یا اجتماعی، اور ان مشکلات کا حل سبھی چاہتے ہیں اور باوجودیکہ مختلف شعبوں میں بہت سی ترقیاں ہوئی ہیں، لیکن بہت ساری مشکلیں باقی رہ گئی ہیں، ذمہ دار افراد ہمیشہ اس کوشش میں ہیں کہ کسی صورت سے ان کو حل کریں۔

حضرت علی ـ اس خطبہ میں فرماتے ہیں:''وَ دَوَائَ دَائِکُم وَ نَظمَ مَا بَینَکُمْ'' قرآن تمھارے دردوں اور مشکلوں کے علاج کا نسخہ ہے، اور خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:''وَ دَوَائً لَیسَ بَعدَهُ دَائ'' یعنی قرآن ایسی دوا ہے کہ جس کے بعد کوئی درد باقی نہیں رہ جاتا۔

۱۷

ہر چیز سے پہلے جس بات پر توجہ رکھنا لازم ہے، وہ حضرت علی ـ کے ارشاد پر ایمان رکھنا ہے، یعنی ہمیں پوری طرح سے اعتقاد و یقین رکھنا چاہئے کہ ہمارے درد اور مشکلات کا صحیح علاج خواہ وہ فردی ہوں یا اجتماعی، قرآن میں ہے۔

ہم سب اس بات کا اقرار کرتے ہیں، لیکن ایمان و یقین کے مرتبوں کے اعتبار سے ہم سب مختلف ہیں، اگر چہ ایسے بھی افراد ہیں جو بھر پور طریقہ سے ایمان و یقین رکھتے ہیں کہ اگر قرآن کی طرف توجہ دیں اور اس کی ہدایتوں پر عمل کریں، تو قرآن تمام بیماریوں کا بہترین شفا بخش نسخہ ہے، لیکن ایسے افراد بہت کم ہیں، شاید ہماری مشکلات کی ایک بڑی وجہ ایمان کی کمزوری ہو اور یہ چیز اس بات کا سبب بنی ہے کہ بہت سے مشکلات لاینحل ہی رہیں ۔ کبھی کبھی کچھ لوگ لاعلمی یا کج فکری کی بنا پر ممکن ہے یہ گمراہ کن نظریہ پیش کریں کہ باوجودیکہ قرآن ہمارے پاس ہے اور ہم اس کی پیروی کے دعویدار ہیں لیکن کیوں ہماری مشکلات حل نہیں ہوئیں اور لوگ اسی طرح اقتصادی مشکلات سے دو چار ہیں، جیسے مہنگائی اور کرنسی کے ہلکا ہونے سے ،نیز فردی، اجتماعی، اخلاقی اور ثقافتی مشکلات سے رنج اٹھارہے ہیں؟ اس سوال کے جواب کے لئے یہاں پر ہم چند توضیحات بیان کر رہے ہیں۔

۱۸

قرآن، کلی طور پر راہنمائی کرتا ہے

یہ بات معقول نہیں معلوم ہوتی کہ کوئی شخص یہ امید رکھے کہ قرآن مسائل کو حل کرنے والی کتاب کی طرح تمام فردی و اجتماعی درد اور مشکلات کوایک ایک کر کے بیان کرے اورپھر ترتیب کے ساتھ ان کے حل کے طریقہ کی وضاحت کرے۔ قرآن کا سرو کار انسان کی ابدی سرنوشت سے ہے اور قرآن کا مقصد دنیا و آخرت میں انسان کی فلاح و نجات ہے۔ اسی لحاظ سے قرآن کریم ہمیںاصلی اور کلی راستوں کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان پر چل کر ہم کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ کلی خطوط اور راستے ایسے چراغ ہیں جو چلنے اور آگے بڑھنے کی سمت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس بات کی طرف بھی توجہ رکھنی چاہئے کہ دنیا و آخرت میں سعادت و کامیابی حاصل کرنے کے لئے، مشکلات کو برطرف کرنے کے لئے، ترقی یافتہ اور اسی کے ساتھ ساتھ دینی او ر اسلامی معاشرہ کے تحقق کے لئے خداوند متعال نے دو وسیلے انسان کے اختیار میں قرار دیئے ہیں:()دین ()عقل۔

قرآن انسانی تکامل و ترقی کے اصلی خطوط اور شاہراہوں کو روشن کرتا ہے اور اسلامی سماج کا فریضہ ہے کہ تفکر و تدبر کے ذریعہ اور انسانی علمی تجربوں سے استفادہ کر کے قرآن کے بلند مقاصد کے تحقق کا مقدمہ فراہم کرے، نہ صرف قرآن دوسروں (حتی غیر مسلمین) کے علمی تجربوں سے استفادہ کو منع نہیں کرتا، بلکہ علم کوالٰہی امانت سمجھتا ہے اور مسلمانوں کو اس کے سیکھنے کی تشویق کرتا ہے۔

۱۹

نبی اکرم علوم حاصل کرنے کے بارے میں مسلمانوں کی ترغیب و تشویق کے لئے ارشاد فرماتے ہیں: ''اُطْلُبُوْا العِلمَ وَ لَو بِالصِّیْنِ'' ۱ علم حاصل کرو اور دوسروں کے علمی تجربوں سے استفادہ کرو اگر چہ اس مقصد کے پورا کرنے کے لئے دور دراز اور طولانی راستے طے کرنا پڑیں۔

البتہ آج عالمی رابطے بہت ہی سمٹ گئے ہیں اور استکباری ممالک اور سامراجی قوتیں مختلف حیلوں سے اور طرح طرح کی ٹکنالوجی اور اقتصادی سازوسامان سے نیز کلی طور سے انسان کے علمی تجربوں کے نتیجہ میں ایجاد ہونے والے تمام آلات و وسائل کے ذریعے اس بات کی کوشش کر رہی ہیں کہ ایسے سامراجی رابطوں کو قوی بنایا جائے جن کے ذریعہ دوسروں پر تسلط پالیا جائے، لیکن ہمارا فریضہ ہے کہ نہایت ذہانت و ہوشیاری سے اور اپنے اسلامی و قرآنی مقاصد سے ذرہ برابر پیچھے ہٹے بغیر، مختلف شعبوں میں انسانی علوم کے نتائج سے لوگوں کے اقتصادی حالات کی بہتری اور معاشی مشکلات کو برطرف کرنے کے لئے استفادہ کریں۔

(۱)بحار الانوار، ج۱، ص۱۷۷۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

پانچويں فصل: تقصير

يہ عمرہ كے واجبات ميں سے پانچواں ہے _

مسئلہ ۳۱۱_ سعى كو مكمل كرنے كے بعد تقصير واجب ہے اور اس سے مراد ہے سر، داڑھى يا مونچھوں كے كچھ بالوں كا كاٹنا يا ہاتھ يا پاؤں كے كچھ ناخن اتارنا _

مسئلہ ۳۱۲_ تقصير ايك عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت واجب ہے جو احرام كى نيت ميں ذكر ہوچكى ہيں_

مسئلہ ۳۱۳_ عمرہ تمتع سے مُحل ہونے كيلئے سر كا منڈانا تقصير سے كافى نہيںہے بلكہ اس سے محل ہونے كيلئے تقصير ہى ضرورى ہے پس اگر تقصير سے

۱۴۱

پہلے سرمنڈا لے تو اگر اس نے جان بوجھ كر ايسا كيا ہو تو نہ فقط يہ كافى نہيں ہے بلكہ سرمنڈانے كى وجہ سے اس پر ايك بكرى كا كفارہ دينا بھى واجب ہے ليكن اگر اس نے عمرہ مفردہ كيلئے احرام باندھا ہو تو حلق اور تقصير كے درميان اسے اختيار ہے _

مسئلہ ۳۱۴_ عمرہ تمتع كے احرام سے مُحل ہونے كيلئے بالوں كو نوچنا تقصير سے كافى نہيں ہے بلكہ اس سے محل ہونے كيلئے تقصير ہى ضرورى ہے جيسے كے گزرچكا ہے پس اگر تقصير كى بجائے اپنے بالوں كو نوچے تو اگر اسے جان بوجھ كر انجام دے تو نہ فقط يہ كافى نہيں ہے بلكہ اس پر بال نوچنے كا كفارہ بھى ہوگا _

مسئلہ ۳۱۵_ اگر حكم سے لاعلمى كى وجہ سے تقصير كى بجائے بالوں كو نوچے اور حج كو بجالائے تو اس كا عمرہ باطل ہے اور جو حج بجالايا ہے وہ حج افراد واقع ہوگا اور اس وقت اگر اس پر حج واجب ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اعمال حج ادا كرنے كے بعد عمرہ مفردہ بجالائے پھر آئندہ سال عمرہ تمتع اور حج

۱۴۲

بجالائے اور يہى حكم ہے اس بندے كا جو حكم سے لاعلمى كى وجہ سے تقصير كے بدلے اپنے بال مونڈ دے اور حج بجالائے _

مسئلہ ۳۱۶_ سعى كے بعد تقصير كى انجام دہى ميں جلدى كرنا واجب نہيں ہے _

مسئلہ ۳۱۷_ اگر جان بوجھ كر يا لاعلمى كى وجہ سے تقصير كو ترك كر كے حج كا احرام باندھ لے تو اقوى يہ ہے كہ اس كا عمرہ باطل ہے اور اس كا حج حج افراد ہوجائيگا اور احوط وجوبى يہ ہے كہ حج كے بعد عمرہ مفردہ كو بجالائے اور اگر اس پر حج واجب ہو تو آئندہ سال عمرہ اور حج كا اعادہ كرے _

مسئلہ ۳۱۸_ اگر بھول كر تقصير كو ترك كردے اور حج كيلئے احرام باندھ لے تو اس كا احرام ، عمرہ اور حج صحيح ہے اور اس پر كوئي شے نہيں ہے اگر چہ اسكے لئے ايك بكرى كا كفارہ دينا مستحب ہے بلكہ احوط اس كا ترك نہ كرنا ہے _

مسئلہ ۳۱۹_ عمرہ تمتع كى تقصير كے بعد اس كيلئے وہ سب حلال ہوجائيگا جو

۱۴۳

حرام تھا حتى كہ عورتيں بھى _

مسئلہ ۳۲۰_ عمرہ تمتع ميں طواف النساء واجب نہيں ہے اگر چہ احوط يہ ہے كہ رجاء كى نيت سے طواف النساء اور اسكى نماز كو بجالائے ليكن اگر اس نے عمرہ مفردہ كيلئے احرام باندھا ہو تو اس كيلئے عورتيں حلال نہيںہوںگى مگر تقصير يا حلق كے بعد طواف النساء اور نماز طواف كو بجالانے كے بعد اور اس كا طريقہ اور احكام طواف عمرہ سے مختلف نہيں ہيں كہ جو گزرچكا ہے _

مسئلہ ۳۲۱_ ظاہر كى بناپر ہر عمرہ مفردہ اور ہر حج كيلئے الگ طور پر طواف النساء واجب ہے مثلا اگر دو عمرہ مفردہ بجالائے يا ايك حج اور عمرہ مفردہ بجالائے تو اگر چہ اس كيلئے عورتوں كے حلال ہونے ميں ايك طواف النساء كا كافى ہونا بعيد نہيں ہے مگر ان ميں سے ہر ايك كيلئے الگ طواف النساء واجب ہے _

۱۴۴

دوسرا حصہ:

اعمال حج كے بارے ميں

۱۴۵

پہلى فصل :احرام

يہ حج كے واجبات ميں سے پہلا واجب ہے _ شرائط ، كيفيت ، محرمات، احكام اور كفار ات كے لحاظ سے حج كا احرام عمرہ كے احرام سے مختلف نہيںہے مگر نيت ميں پس اسكے ساتھ اعمال حج كو انجام دينے كى نيت كريگا اور جو كچھ عمرہ كے احرام كى نيت ميں معتبر ہے وہ سب حج كے احرام كى نيت ميں بھى معتبر ہے اور يہ احرام نيت اور تلبيہ كے ساتھ منعقد ہوجاتا ہے پس جب حج كى نيت كرے اور تلبيہ كہے تو اس كا احرام منعقد ہوجائيگا _ ہاں احرام حج بعض امور كے ساتھ مختص ہے جنہيں مندرجہ ذيل مسائل كے ضمن ميں بيان كرتے ہيں :

۱۴۶

مسئلہ ۳۲۲_ حج تمتع كے احرام كا ميقات مكہ معظمہ ہے اور افضل يہ ہے كہ حج تمتع كا احرام مسجدالحرام سے باندھے اور مكہ معظمہ كے ہر حصے سے احرام كافى ہے حتى كہ وہ حصہ جو نيا بنايا گيا ہے _ ليكن احوط يہ ہے كہ قديمى مقامات سے احرام باندھے ہاں اگر شك كرے كہ يہ مكہ كا حصہ ہے يا نہيں تو اس سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے _

مسئلہ ۳۲۳_ واجب ہے كہ نوذى الحج كو زوال سے پہلے احرام باندھے اس طرح كہ عرفات ميں وقوف اختيارى كو پاسكے اور اسكے اوقات ميں سے افضل ترويہ كے دن( آٹھ ذى الحج) زوال كا وقت ہے _ اور اس سے پہلے احرام باندھنا جائز ہے بالخصوص بوڑھے اور بيمار كيلئے جب انہيں بھيڑ كى شدت كا خوف ہو _ نيز گزرچكا ہے كہ جو شخص عمرہ بجالانے كے بعد كسى ضرورت كى وجہ سے مكہ سے خارج ہونا چاہے تو اس كيلئے احرام حج كو مقدم كرنا جائز ہے _

مسئلہ ۳۲۴_ جو شخص احرام كو بھول كر عرفات كى طرف چلاجائے تو اس

۱۴۷

پر واجب ہے كہ مكہ معظمہ كى طرف پلٹے اور وہاں سے احرام باندھے اور اگر وقت كى تنگى يا كسى اور عذر كى وجہ سے يہ نہ كرسكتا ہو تو اپنى جگہ سے ہى احرام باندھ لے اور اس كا حج صحيح ہے اور ظاہر يہ ہے كہ جاہل بھى بھولنے والے كے ساتھ ملحق ہے _

مسئلہ ۳۲۵_ جو شخص احرام كو بھول جائے يہاں تك كہ حج كے اعمال مكمل كرلے تو اس كا حج صحيح ہے _ اور حكم سے جاہل بھى بھولنے والے كے ساتھ ملحق ہے اور احوط استحبابى يہ ہے كہ لاعلمى اور بھولنے كى صورت ميں آئندہ سال حج كا اعادہ كرے _

مسئلہ ۳۲۶: جو شخص جان بوجھ كر احرام كو ترك كردے يہاں تك كہ وقوفبالعرفات اور وقوف بالمشعر كى فرصت ختم ہوجائے تو اس كا حج باطل ہے _

مسئلہ ۳۲۷_ جس شخص كيلئے اعمال مكہ كو وقوفين پر مقدم كرنا جائز ہو اس پر واجب ہے كہ انہيں احرام كى حالت ميں بجالائے پس اگر انہيں بغير احرام كے بجالائے تو احرام كے ساتھ ان كا اعادہ كرنا ہوگا _

۱۴۸

دوسرى فصل :عرفات ميں وقوف كرنا

يہ حج كے واجبات ميں سے دوسرا واجب ہے اور عرفات ايك مشہور پہاڑ ہے كہ جسكى حد عرنہ ، ثويہ اور نمرہ كے وسطسے ليكر ذى المجاز تك اور ما زمين سے وقوف كى جگہ كے آخر تك اور خود يہ حدود اس سے خارج ہيں_

مسئلہ ۳۲۸_ وقوف بالعرفات عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت واجب ہے كہ جو احرام كى نيت ميں گزرچكى ہيں_

مسئلہ ۳۲۹_ وقوف سے مراد اس جگہ ميں صرف حاضر ہونا ہے چاہے سوار ہو يا پيدل يا ٹھہرا ہوا_

مسئلہ ۳۳۰_ احوط يہ ہے كہ نوذى الحج كے زوال سے غروب شرعى

۱۴۹

(نماز مغرب كا وقت) تك ٹھہرے اور بعيد نہيں ہے كہ اسے زوال كے اول سے اتنى مقدار مؤخر كرنا جائز ہو كہ جس ميں نماز ظہر ين كو انكے مقدمات سميت اكٹھا ادا كيا جاسكے_

مسئلہ ۳۳۱_ مذكورہ وقوف واجب ہے ليكن اس ميںسے ركن صرف وہ ہے جس پر وقوف كا نام صدق كرے اور يہ ايك ياد و منٹ كے ساتھ بھى ہوجاتا ہے اگر اس مقدار كو بھى اپنے اختيار كے ساتھ ترك كردے تو حج باطل ہے اور اگر اتنى مقدار وقوف كرے اور باقى كو ترك كردے يا وقوف كو عصر تك مؤخر كردے تو اس كا حج صحيح ہے اگرچہ جان بوجھ ايسا كرنے كى صورت ميں گناہ گار ہے _

مسئلہ ۳۳۲_ غروب سے پہلے عرفات سے كوچ كرنا حرام ہے پس اگر جان بوجھ كر كوچ كرے اور عرفات كى حدود سے باہر نكل جائے اور پلٹے بھى نہ تو گناہ گار ہے اورايك اونٹ كا كفارہ دينا واجب ہے ليكن اس كا حج صحيح ہے اور اگر اونٹ كا كفارہ دينے سے عاجز ہو تو اٹھارہ روزے ركھے اور احوط

۱۵۰

يہ ہے كہ اونٹ كو عيد والے دن منى ميں ذبح كرے اگر چہ اسے منى ميں ذبح كرنے كا معين نہ ہونا بعيد نہيں ہے اور اگر غروب سے پہلے عرفات ميں پلٹ آئے تو كفارہ نہيں ہے _

مسئلہ ۳۳۳_ اگر بھول كر يا حكم سے لاعلمى كى وجہ سے غروب سے پہلے عرفات سے كوچ كرے تو اگر وقت گزرنے سے پہلے متوجہ ہوجائے تو اس پر واجب ہے كہ پلٹے اور اگر نہ پلٹے تو گناہ گارہے ليكن اس پر كفارہ نہيں ہے ليكن اگر وقت گزرجانے كے بعد متوجہ ہو تو اس پر كوئي شے نہيں ہے _

۱۵۱

تيسرى فصل :مشعرالحرام ( مزدلفہ) ميں وقوف كرنا

يہ حج كے واجبات ميں سے تيسرا ہے اور اس سے مراد غروب كے وقت عرفات سے مشعر الحرام كى طرف كوچ كرنے كے بعد اس مشہور جگہ ميں ٹھہرنا ہے_

مسئلہ ۳۳۴_ وقوف بالمشعر عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت معتبر ہے جو احرام كى نيت ميں ذكر ہوچكى ہيں_

مسئلہ ۳۳۵_ واجب وقوف كا وقت دس ذى الحج كو طلوع فجر سے طلوع آفتاب تك ہے اوراحوط يہ ہے كہ عرفات سے كوچ كرنے كے بعد رات كو وہاں پہنچ كر وقوف كى نيت كے ساتھ وہاں وقوف كرے _

۱۵۲

مسئلہ ۳۳۶_ مشعر ميں طلوع فجر سے ليكر طلوع آفتاب تك باقى رہنا واجب ہے ليكن ركن اتنى مقدار ہے جسے وقوف كہا جائے اگر چہ يہ ايك يا دو منٹ ہو _اگر اتنى مقدار وقوف كرے اور باقى كو جان بوجھ كر ترك كردے تو اس كا حج صحيح ہے اگر چہ فعل احرام كا مرتكب ہوا ہے ليكن اگر اپنے اختيار كے ساتھ اتنى مقدار وقوف كو بھى ترك كردے تو اس كا حج باطل ہے _

مسئلہ ۳۳۷_ عورتوں ، بچوں، بوڑھوں ،كمزوروں اور صاحبان عذر_ جيسے خوف يا بيماري_ كيلئے اتنى مقدار وقوف كرنے كے بعد كہ جس پر وقوف صدق كرتا ہے عيد كى رات مشعر سے منى كى طرف كوچ كرنا جائز ہے اسى طرح وہ لوگ جو ان كے ہمراہ كوچ كرتے ہيں اور انكى احوال پرسى كرتے ہيں جيسے خدام اور تيمار دارى كرنے والے _

تنبيہ : وقوفين ميں سے ايك يادونوں كو درك كرنے كے اعتبار سے اور اختياراً يا اضطراراً جان بوجھ كر، لاعلمى سے يا بھول كر فرداً يا تركيباً بہت سارى تقسيمات ہيں كہ جو مفصل كتابوں ميں مذكور ہيں_

۱۵۳

چوتھى فصل :كنكرياں مارنا

يہ حج كے واجبات ميں سے چوتھا اور منى كے اعمال ميں سے پہلا ہے _ دس ذى الحج كو جمرہ عقبہ ( سب سے بڑا) كوكنكرياں مارناواجب ہے _

كنكرياں مارنے (رمي) كى شرائط

كنكرياں مارنے (رمي) ميں چند چيزيں شرط ہيں :

اول: نيت اپنى تمام شرائط كے ساتھ جيسے كہ احرام كى نيت ميں گزرچكا ہے_

دوم: يہ كہ رمى اسكے ساتھ ہو جسے كنكرياں كہا جائے پس نہ اتنے

۱۵۴

چھوٹے كے ساتھ صحيح ہے كہ وہ ريت ہو اور نہ اتنے بڑے كے ساتھ كہ جو پتھر ہو _

سوم : يہ كہ رمى عيدوالے دن طلوع آفتاب اورغروب آفتاب كے درميان ہو البتہ جس كيلئے يہ ممكن ہو _

چہارم: يہ كہ كنكرياں جمرے كو لگيں پس اگر نہ لگے يا اسے اسكے لگنے كا گمان ہو تو يہ شمار نہيں ہوگى اور اسكے بدلے دوسرى كنكرى مارنا واجب ہے اور اس كا لگے بغير صرف اس دائرے تك پہنچ جانا جو جمرے كے اردگرد ہے كافى نہيں ہے_

پنجم: يہ كہ رمى سات كنكريوں كے ساتھ ہو

ششم: يہ كہ پے در پے كنكرياں مارے پس اگر ايك ہى دفعہ مارے تو صرف ايك شمار ہوگى چاہے سب جمرے كو لگ جائيں يا نہ _

مسئلہ ۳۳۸_ جمرے كو رمى كرنا جائز ہے اس پر لگے ہوئے سيمنٹ سميت_ اسى طرح جمرہ كے نئے بنائے گئے حصے پر رمى كرنا بھى جائز ہے

۱۵۵

البتہ اگر عرف ميں اسے جمرہ كا حصہ شمار كيا جائے_

مسئلہ ۳۳۹_ اگر متعارف قديمى جمرہ كے آگے اور پيچھے سے كئي ميٹر كا اضافہ كر ديں تو اگر بغير مشقت كے سابقہ جمرہ كو پہچان كر اسے رمى كرنا ممكن ہو تو يہ واجب ہے ورنہ موجودہ جمرہ كى جس جگہ كو چاہے رمى كرے اور يہى كافى ہے _

مسئلہ ۳۴۰_ ظاہر يہ ہے كہ اوپر والى منزل سے رمى كرنا جائز ہے اگرچہ احوط اس جگہ سے رمى كرنا ہے جو پہلے سے متعارف ہے_

كنكريوں كى شرائط:

كنكريوں ميں چند چيزيں شرط ہيں :

اول : يہ كہ وہ حرم كى ہوں اور اگر حرم كے باہر سے ہوں تو كافى نہيں ہيں_

دوم: يہ كہ وہ نئي ہوں كہ جنہيں پہلے صحيح طور پر نہ ماراگيا ہو اگرچہ گذشتہ سالوں ميں _

۱۵۶

سوم: يہ كہ مباح ہوں پس غصبى كنكريوں كا مارنا جائز نہيں ہے اور نہ ان كنكريوں كا مارنا جنہيں كسى دوسرے نے جمع كيا ہو اسكى اجازت كے بغير ہاں كنكريوں كا پاك ہونا شرط نہيں ہے _

مسئلہ ۳۴۱_ عورتيں اور كمزور لوگ _ كہ جنہيں مشعر الحرام ميں صرف وقوف كا مسمى انجا م دينے كے بعد منى كى طرف جانے كى اجازت ہے اگر وہ دن كو رمى كرنے سے معذور ہوں تو ان كيلئے رات كے وقت رمى كرنا جائز ہے بلكہ عورتوں كيلئے ہر صورت ميں رات كے وقت رمى كرنا جائز ہے البتہ اگروہ اپنے حج كيلئے رمى كر رہى ہوں يا ان كا حج نيابتى ہو ليكن اگر عورت صرف رمى كيلئے كسى كى طرف سے نائب بنى ہو تو رات كے وقت رمى كرنا صحيح نہيں ہے اگر چہ دن ميں رمى كرنے سے عاجز ہو بلكہ نائب بنانے والے كيلئے ضرورى ہے كہ وہ ايسے شخص كو نائب بنائے جو دن كے وقت رمى كر سكے اگر اسے ايسا شخص مل جائے _اور ان لوگوں كى ہمراہى كرنے والا اگر وہ خود معذور ہو تو اس كيلئے رات كے وقت رمى كرنا جائز ہے ورنہ اس پر واجب

۱۵۷

ہے كے دن وقت رمى كرے _

مسئلہ ۳۴۲ _ جو شخص عيد والے دن رمى كرنے سے معذور ہے اس كيلئے شب عيد يا عيد كے بعد والى رات ميں رمى كرنا جائز ہے اور اسى طرح جو شخص گيارہويں يا بارہويں كے دن رمى كرنے سے معذور ہے اسكے لئے اسكى رات يا اسكے بعد والى رات رمى كرنا جائز ہے _

پانچويں فصل :قربانى كرنا

يہ حج كے واجبات ميں سے پانچواں اورمنى كے اعمال ميں سے دوسرا عمل ہے

مسئلہ ۳۴۳_ حج تمتع كرنے والے پر قربانى كرنا واجب ہے اور قربانى تين جانوروں ميں سے ايك ہوگى اونٹ ، گائے اور بھيڑ بكرى اور ان جانوروں ميں مذكر اور مونث كے درميان فرق نہيں ہے اور اونٹ افضل ہے اورمذكورہ جانوروں كے علاوہ ديگر حيوانات كافى نہيں ہيں_

مسئلہ ۳۴۴_ قربانى ايك عبادت ہے كہ جس ميں ان تمام شرائط كے ساتھ نيت شر ط ہے كہ جو احرام كى نيت ميں گزر چكى ہيں_

۱۵۸

مسئلہ ۳۴۵_ قربانى ميں چند چيزيں شرط ہيں :

اول: سن: اونٹ ميں معتبر ہے كہ وہ چھٹے سال ميں داخل ہو اور گائے ميں معتبر ہے كہ وہ تيسرے سال ميں داخل ہو احوط وجوبى كى بناپر_ اور بكرى گائے كى طرح ہے ليكن بھيڑ ميں معتبر ہے كہ وہ دوسرے سال ميں داخل ہو احوط وجوبى كى بناپر _مذكورہ حد بندى چھوٹا ہونے كى جہت سے ہے پس اس سے كمتر كافى نہيں ہے ليكن بڑا ہونے كى جہت سے تو مذكورہ حيوانات ميںسے بڑى عمر والا بھى كافى ہے _

دوم : صحيح و سالم ہونا

سوم: يہ كہ بہت دبلا نہ ہو

چہارم: يہ كہ اسكے اعضا پورے ہوں پس ناقص كافى نہيں ہے جيسے خصى اور يہ وہ ہے كہ جسكے بيضے نكال ديئےائيں ہاں جسكے بيضے كوٹ ديئے جائيں وہ كافى ہے مگر يہ كہ خصى كى حد كو پہنچ جائے _ اور دم كٹا ، كانا ، لنگڑا ، كان كٹا اور جس كا اندر كا سينگ ٹوٹا ہوا ہو وہ كافى نہيںہے _ اسى طرح اگر

۱۵۹

پيدائشےى طور پر ايسا ہو تو بھى كافى نہيںہے پس دہ حيوان كافى نہيں ہے كہ جس ميں ايسا عضو نہ ہو جو اس صنف كے جانوروں ميںعام طور پر ہوتا ہے اس طرح كے اسے اس ميں نقص شمار كيا جائے _

ہاں جس كا باہر كا سينگ ٹوٹا ہوا ہو وہ كافى ہے ( باہر كا سينگ اندر والے سينگ كے غلاف كے طور پر ہوتا ہے ) اور جسكا كان پھٹا ہوا ہو يا اسكے كان ميں سوراخ ہو اس ميں كوئي حرج نہيںہے _

مسئلہ ۳۴۶_ اگر ايك جانور كو صحيح و سالم سمجھتے ہوئے ذبح كرے پھر اس كے مريض يا ناقص ہونے كا انكشاف ہو تو قدرت كى صورت ميں دوسرى قربانى كو ذبح كرنا واجب ہے _

مسئلہ ۳۴۷_ احوط يہ ہے كہ قربانى جمرہ عقبہ كو كنكرياں مارنے سے مؤخر ہو _

مسئلہ ۳۴۸_ احوط وجوبى يہ ہے كہ اپنے اختيار كے ساتھ قربانى كو روز عيد سے مؤخر نہ كرے پس اگر جان بوجھ كر ، بھول كر يا لاعلمى كى وجہ سے كسى

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180