احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)42%

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 59 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9587 / ڈاؤنلوڈ: 4192
سائز سائز سائز

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

اسم کتاب : احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

تالیف : عالم اہل سنت ،علامہ جلال الدین سیوطی

تحقیق و تصحیح: شیخ محمد کاظم فتلاوی وشیخ محمد سعید طریحی

ترجمہ : محمد منیر خان لکھیم پوری (ہندی)

پیشکش : معاونت فرہنگی ادارۂ ترجمہ

اصلاح : اخلاق حسین پکھناروی( ہندی)

کمپوزنگ: المرسل

ناشر : مجمع جہانی اہل البیت(ع)

طبع اول : ١٤٢٧ ھ۔ ٢٠٠٦ء

مطبع : لیلیٰ

تعداد : ٣٠٠٠

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اہل سنت والجماعت کے جلیل القدر عالم دین علامہ جلال الدین سیوطی کی گرانقدر کتاب ''احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت'' '(ع)فاضل جلیل عالیجناب مولانا محمد منیر خان لکھیم پوری ہندی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ و مقدمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت (ع)

مقد مہ :

١۔ کچھ اس رسالہ کے بارے میں

الحمد ﷲ وسلام علی عباده الذین اصطفی سیدنا رسول اﷲ(ص) وآله الامناء واللعنة الدائمة علی اعدائهم ومنکری فضائلهم من الآن الیٰ یوم لقاء اﷲ، وبعد: نَسُرُّ ان نقدم الیوم الی القراء الکرام اثرا نفیساً وکنزا ثمیناً فی فضائل اهل البیت ( وان کان فضائلهم لا تعد ولا تحصٰی کما شهدت به اعدائهم والفضل ما شهدت به الاعداء ).

اما بعد :

مفادحدیث ثقلین(١) کے مطابق نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلامی امت کی راہنمائی کیلئے دو گرانقدر چیزیں چھوڑیں : قرآن اور اہل بیت ،اگر مسلمانوں نے ان دونوں سے تا قیامت تمسک بر

____________________

(١)حدیث ثقلین وہ حدیث ہے جو علمائے اسلام کے نزدیک تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے ، یہاں تک اہل سنت کی مشہور و صحیح کتاب ''صحیح مسلم'' میں بھی زید بن ارقم سے نقل کی گئی ہے ،خود علامہ جلال الدین سیوطی نے اس کتاب میں اس کی جانب اشارہ کیا ہے ، جس کی تکمیل اسی کتاب کے حاشیہ میں کردی گئی ہے

قرار رکھا تو ہدایت یافتہ، اور اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑدیا تو پھر گمراہی اور ضلالت کے علاوہ کچھ نصیب نہ ہو گا ،لہٰذاحدیث کی رو سے تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایسی راہ اختیار کریں جوقرآن و اہل بیت پر منتہی ہوتی ہو ، یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کے مد نظرمسلمانوں کا ہر فرقہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اس بات کو ظاہر کرے کہ ہم ہی نبی کی مذکورہ حدیث پر عمل پیرا ہیں ، اگر قرآن

کی بات آتی ہے تو اپنے کو اہل قرآن بتاتا ہے اور اہل بیت کی بات آتی ہے تو ہر ایک کواس بات کا یقین کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہم ہی اہل بیت کے صحیح چاہنے والے ہیں ، لیکن حقیقت کیا ہے ؟ ا س کو وہی سمجھ سکتا ہے جو بصیرت اور انصاف کے ساتھ تمام ان فرق و مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرے جو اس بات کا دعوی کرتے ہیں ، اس وقت حقیقت اس کے سامنے عیاں ہو جائے گی ۔

چنانچہ مسلمانوں کے مختلف ِفرَق و مذاہب کے علماء نے اس بات کو ثابت کر نے کیلئے کہ ہمارا فرقہ ہی قرآن کے ساتھ اہل بیت کو مانتا ہے، اہل بیت کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے ،تاکہ ثابت کر سکیں کہ ہم اہل بیت سے دور نہیںہیں، ان میںامام احمد بن حنبل اورنسائی قابل ذکر ہیں جنھوں نے اہل بیت کے فضائل میں'' المناقب'' نامی کتابیں لکھیں ، اسی طرح شیخ ابی الحسن علی بن ابی الرحمن ، ابی علی محمد بن محمد بن عبیدا ﷲاور شیخ علی بن مؤدب بن شاکر کی کتابیں'' فضائل اہل بیت(ع)'' ہیں،اسی طرح ابی نعیم کی کتاب ''نزول القرآن فی مناقب اہل البیت (ع) '' یاجوینی حموی کی ''فرائد السمطین فی فضائل المرتضی والزہراء والسبطین '' نیز دار قطنی کی کتاب ''مسند زہرا ء ''یا ''مناقب خوارزمی''مناقب مغازلی ، جواہر العقدین سمہودی ، تذکرة الخواص علامہ سبط ابن جوزی ،الفصول ا لمہمہ؛ابن صباغ مالکی، ذخائر العقبی، محب الدین طبری ،نور الابصار ،شبلنجی ،ینابیع المودة،حافظ سلیمان ابن قندوزی،کوکب دری ، ملا صالح کشفی اورامام جلال الدین سیوطی وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں جنھوں نے اہل بیت کے فضائل سے متعدد صفحات کو مزین فرما کر محبت اہل بیت کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کی ، ان کے علاوہ بہت سے علمائے اہل سنت ایسے ہیں جنھوں نے خصوصیت سے اس موضوع پر کتاب نہیں لکھی ہے لیکن اپنی کتابوں کے اندر دوسرے مباحث کے ساتھ فضائل اہل بیت کو نقل کیا ہے ،مثلاً صواعق محرقہ؛ ابن حجر ہیثمی ، مجمع الزوائد ، ہیثمی ،اور طبرانی کی تینوں کتابیں'' المعاجم'' اسی طرح مناوی کی کتاب'' کنوز الدقائق'' اور دیگر کتابیں ان سب کتابوں میں اہل بیت کے فضائل نقل کئے گئے ہیں۔

قارئین کرام! زیر نظر کتاب'' احیاء ا لمیت بفضائل اہل بیت'' بھی اسی کوشش کا ایک سلسلہ ہے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ امام اہل سنت علامہ جلال الدین سیوطی نے اس کتاب کو لکھ کر پہل نہیں کی ہے بلکہ ان سے پہلے بھی علمائے اہل سنت اس موضوع سے متعلق متعددکتابیں لکھتے آئے ہیں ، جن سے آج بھی اسلامی کتب خانے پر ہیں ، البتہ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علامہ موصوف نے اپنے ذوق کے مطابق اہل بیت کے فضائل سے متعلق ٦٠ احادیث جمع کی ہیں،اور اس کتاب میں ان مدارک اور مآخذ پر اعتماد کیا ہے جو اہل سنت کے یہاں معتبر اور اصح مدرک مانے جاتے ہیں منجملہ:

صحاح ستہ اور سنن سعید بن منصور ،اسی طرح ابن منذر ، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ اور محمد بن جریر طبری کی کتب تفاسیراو ر طبرانی کی معجم کبیر و معجم اوسط ونیز عبد ابن حمید ، ابن ابی شیبہ اور مسدد وغیرہ کی کتابیں یا ابن عدی کی اکلیل اور ابن حبان کی صحیح و بیہقی کی شعب الایمان ، حکیم ترمذی کی نوادر الاصول ،خلاصہ یہ کہ تاریخ ابن عساکر، تاریخ بخاری ، تاریخ بغداد خطیب ،افراد دیلمی ، حلیة الاولیاء ابو نعیم اور تاریخ حاکم ، ان سب کتابوں میں اہل بیت کے فضائل نقل ہوئے ہیں،بہر کیف اگرچہ علامہ کی یہ کتاب حجم کے لحاظ سے ایک کتابچہ ہے لیکن مدرک اور منابع کے لحاظ سے بہت اہمیت رکھتی ہے،البتہ اس کی بیسویں حدیث میں عمر ابن خطاب کے ساتھ بنت علی ـ کی تزویج کاجو بیان آیا ہے وہ جز ء حدیث نہ ہو نے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہے ، کیونکہ اسے علمائے اہل تشیع اور محققین اہل سنت نے رد کیا ہے، بہر حال علامہ جلال الدین سیوطی کا یہ رسالہ کئی مرتبہ چھپ چکا ہے ، لاہورپاکستان میں ١٨٩٣ ء میں چند رسا لوں کی ضمن میں چھپا(١)

____________________

(١)قارئین کرام! جب یہ رسالہ ناچیز کے قلم سے ترجمہ ہوکرچھپنے کیلئے آمادہ تھا اس وقت ایک صاحب کے ذریعہ علم حاصل ہوا کہ ا س کا اردو ترجمہ فخر المحققین جناب نجم الحسن کراروی کے ہاتھوں پچھتر سال پہلے شائع ہو چکا ہے ، چنانچہ اس اطلاع کے ملتے ہی بندے نے اس کی اشاعت کو ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا اور اس تک و دو میں لگ گیا کہ آیا موصوف کا ترجمہ کیسا ہے ؟ بڑی تلاش و جستجو کے بعد یہ ترجمہ دستیاب ہواتو اس کو ملاحظہ کرنے کے بعد ا س بات کا اندزہ ہوا کہ مولانا موصوف نے اس میں صرف متن احادیث کا ترجمہ کیا ہے لیکن بندے نے جس کا ترجمہ کیا ہے اس میں شیخ محمد کاظم فتلاوی اورشیخ محمد سعید طریحی جیسے بزرگ اساتذہ کی تحقیق و تصحیح بھی شامل ہے جو ہمارے ترجمہ کو علامہ نجم الحسن صاحب کے ترجمہ کے مقابلہ میں ممتاز کرتی ہے ، نیز اس کے مقدمہ میں عقد ام کلثوم کے افسانہ پر سیر حاصل تحقیقی و تنقیدی بحث بھی شامل کردی گئی ہے

اسی طرح شہر فاس( مراقش) میں ١٣١٦ ھ میں چھپ چکا ہے، اور ایک مرتبہ جونپور ہندو ستان سے شائع ہوا، اسی طرح کتاب ''الاتحاف بحب الاشراف'' مؤلفہ عبد اﷲشبراوی، کے حاشیہ پر قاہرہ ١٣١٦ ہجری میں شائع ہوا ، پھر کتاب'' العقیلة الطاہرہ زینب بنت علی ''مؤلفہ احمد فہمی محمد، کے ساتھ ٢٣۔١٤ صفحات تک منظر عام پر آئی،لیکن افسوس کہ ان تمام ایڈیشنوںمیں اس کتاب کے بارے میں کوئی تحقیقی کام انجام نہیں دیا گیا تھا ، الحمد ﷲ شیخ محمد کاظم فتلاوی اورشیخ محمد سعید طریحی کی تحقیق و تصحیح کے بعد اب یہ کتاب اہل تحقیق کے لئے ایک دائرة المعارف کی حیثیت رکھتی ہے، آپ حضرات نے اس کے تمام اصلی اورمشابہ مدارک و منابع ذکر کرکے اس کتاب کی کمی کو دور کر دیا ہے ، نیز مناسب مقامات پر احادیث کے ناقلین کے مختصر حالات بھی قلمبند کردئے ہیں، بہر حال علامہ جلال الدین سیوطی کی یہ مختصر خدمت قابل قدر ہے ، اہل بیت کی شان والامیںآپ کے قلم سے اتنا ہی صفحہ قرطاس پر آجانا کافی اہمیت رکھتا ہے ۔

رسالہ کی تحقیق :

شیخ محمد طریحی نے کتاب احیا ء ا لمیت کے جن نسخوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تحقیق کی ہے ان میں ایک نسخہ پیر محمد شاہ لائبریری گجرات ہندوستان میں موجود ہے ، اور دیگر نسخے جن کو مد نظر رکھتے ہوئے

تحقیق کی ہے وہ ظاہریہ لائبریری دمشق شام میں موجود ہیں ، ان میں سے پہلے نسخہ کااندراج نمبر

٥٢٩٦ ہے، اور جن رسالوں کے ساتھ یہ شائع ہوا ہے ا ن کے صفحہ ١١٨ سے ١٢١ تک یہ مرقوم ہے ، اس کو ابراہیم بن سلمان بن محمد بن عبد العزیز الحنفی نے لکھا ہے ، اس کی تاریخ اختتام ٤شعبان المعظم١٠٧٦ھ ہے ۔

دوسرا نسخہ ،اوردیگر رسائل جو(١٤٧١)صفحات پر مشتمل ہیں ان کے ساتھ ٨٤ سے ٩١ صفحہ تک مشتمل ہے ، اور ان کا ناسخ : عثمان بن محمود بن حامد ہیں، جس کی سال اشاعت : ١١٨١ ھ ہے ۔

شیخ فتلاو ی نے بھی انھیں دو نسخوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تحقیق فرمائی ہے جو ظاہریہ لائبریری میں موجود ہیں ۔ (١)

____________________

(١)حق کے متلاشی حضرا ت کیلئے احیاء ا لمیت کا قدیم نسخہ جو ہندوستان اور دمشق شام سے چھپا ہے اس کی زیراکس کاپی اسی کتاب میں منسلک کردی گئی ہے مترجم

رسالہ کی وجہ تسمیہ :

علامہ موصوف سے قبل کسی بھی شخص نے اہل بیت کے فضائل سے متعلق اس نام کا انتخاب نہیں کیا ہے ، لیکن اس کے بعد علامہ صدیق حسن بن حسن بخاری کنوجی (یو،پی)ہندی ( ١٢٤٨ ہجری۔١٣٠٧ ھ۔ ١٨٣٢ ء ١٨٨٩ ء ) نے : ''احیاء ا لمیت بذکر مناقب اہل البیت '' نامی کتاب لکھی جو ابھی تک نہیں چھپی ہے، بہرحال علمائے لغت نے لفظ میت (با تشدید وجزم ) کے معنی میں اختلا ف کیا ہے ،چنانچہ استاد صبحی البصام نے اس بارے میں چند اقوال ذکر کے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ لفظ میت تشدید کے ساتھ ہو یا جزم کے ساتھ دونوں کے معنی ایک ہیں یعنی وہ شحص جو مر چکا ہو ، اسی قول کی تائید و تصدیق فراء ، خلیل اور ابوعمرو جیسے نحویوں کے قول سے بھی ہوتی ہے،لہٰذا اس نظریہ کے برخلاف صاحب'' القاموس'' اور صاحب'' تاج العروس'' کا قول صحیح نہیں ہے۔

٢۔ عقد ام کلثوم کا افسانہ

اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ جس قوم کی تاریخ صدیوں بعد لکھی جائے گی اس میں غلط واقعات، فرسودہ عقائد اور مہمل باتیں زر خرید راویوں کے حافظے سے صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوتے ہوتے حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں، کیونکہ ان حالات میں اکثر اصل واقعات نسخ ہو جاتے ہیں ، بلکہ اہل قلم کے کردار اور قلم کی رفتار پر وقتی مصلحتوں کی حکو مت ہوتی ہے، جس کی بنا پر ایسے ایسے افراد بھی غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں ،جن کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے مثلاً آپ علامہ جلال الدین سیوطی کو ہی لے لیجئے ، آپ کا علمائے اہل سنت کے محققین میں شمار ہوتا ہے، آپ نے نت نئے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے ، لیکن جب بیسویں حدیث کہ جس میں حضرت عمر کی بنت علی ـ سے شادی کاتذکرہ ہواہے، نقل کیا ،تو بغیر کسی تنقید و تبصرہ کئے گزر گئے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ اس واقعہ کو قبول کرتے تھے ، جبکہ آپ نے اس رسالہ کو اہل بیت(ع) کے فضائل و مناقب میں لکھا ہے،لیکن اس بات سے غافل رہے ہیں کہ اس روایت سے خاندان رسالتمآب کی توہین ہوتی ہے ، چنانچہ اہل تشیع اور محققین اہل سنت نے اسے رد فرمایا ہے، جیسے امام بیہقی ، دار قطنی اور ابن حجرمکی اپنی کتابوںمیں کہتے ہیں : یہ واقعہ غلط ہے ، کیونکہ حضرت علی نے اپنی صاحبزادیوں کو اپنے بھتیجوں سے منسوب کر رکھا تھا ، چنانچہ جب حضرت عمر ام کلثوم سے رشتہ لے کر گئے تو آپ نے کہا: ا ن کا رشتہ میں اپنے بھیتجوں سے طے کر چکا ہوں،یا امام ابن ماجہ اور ابن دائود کہتے ہیں: ام کلثوم دو تھیں ، ام کلثوم بنت راہب اور ام کلثوم بنت علی ان کی شادی محمد ابن جعفر طیار سے ہوئی ، اور ام کلثوم بنت راہب کے بارے میں تاریخ سے ثابت ہوا ہے کہ یہ عمر کی زوجیت میں تھیں ۔

بہر کیف قارئین کی معلومات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس مسئلہ پر اختصار کے طور پر یہاں روشنی ڈالتے ہیں تاکہ یہ بات یقینی طور پر ثابت ہوجائے کہ علامہ جلال الدین سیوطی کی ذکر کردہ روایت کذب پر محمول ہے ،اورعلامہ اس سلسلے میں ایک بے سروپا افواہ کے شکار ہوئے ہیں :

جناب ام کلثوم بنت علی ابن ابی طالب ـ کی عمر ابن خطاب سے شادی کا ہونا یا پھر خلیفہ کی منگنی ہونا، اس سلسلہ میں متعدد اقوال پائے جاتے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے :

١۔ بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ ام کلثوم حضرت علی ـ کی صاحبزادی نہیں تھیں بلکہ یہ ام کلثوم وہ ہیں جن کی حضرت نے پرورش کی تھی ۔

٢۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ شادی انجام کونہیں پہونچی تھی بلکہ عمر نے صرف شادی کرنے کی خواہش کی تھی جسے حضرت علی نے قبول نہیں کیا ۔

٣۔ بعض لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ عقد نکاح باقاعدہ ہوگیا تھا لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی جس کی بنا پر عمر نا مراد ہی دنیا سے رخصت ہوئے ۔

٤۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت علی ـ نے راضی و خوشی کے ساتھ ام کلثوم کی شادی خلیفہ سے کردی تھی اوررخصتی بھی ہوگئی تھی ۔

٥ ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت ـ نے خلیفہ کے جبر و اکرا ہ کی بناپر ام کلثوم کی شادی عمرکے ساتھ کر دی تھی ۔

اس کے علاوہ بھی بہت سے اقوال ہیں جو آیندہ مباحث کے ضمن میں آئیں گے۔

بعض اہل سنت بحث امامت میں اس واقعہ سے استدلال پیش کرتے ہیں کہ جناب ام کلثوم کی خلیفہ سے شادی ہونا اس با ت کو ظاہر کرتی ہے کہ امام علی ـ اور خلیفہ کے درمیا ن روابط بالکل ٹھیک ٹھاک تھے اور آپس میں کوئی رنجش نہیں تھی،بلکہ حضرت علی ـ حضر ت عمر کی خلافت کی تائید کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے عمر سے اپنی لڑکی بیاہ دی ، چنانچہ باقلانی نے اس واقعہ سے اسی بات کا استدلال کیا ہے !

مذکورہ واقعہ سے متعلق روایات

جن وجوہات جن کی بناپر یہ مسئلہ پیچید ہ سے پیچیدہ تر ہوتا گیا وہ یہ ہیں کہ شیعہ اور اہل سنت دونوں نے اس واقعہ کو اپنی حدیث کی کتابوں میں نقل کیا ہے ، البتہ اس واقعہ کو اہل سنت نے تفصیل اور بڑی شدو مدکے ساتھ نقل کیا ہے ،لیکن شیعوں نے اس کو یا تومجمل او رضعیف یا پھر اہل سنت سے حکایت یا الزام خصم کے طور پر نقل کیا ہے،جس سے بعض نا فہم اہل سنت کا دعوی ہرگز ثابت نہیں ہوتا ،بہر حال ہم یہاں ان روایات کو نقل کرکے جن میں اس مسئلہ کا بیان ہوا ہے تحقیق کرتے ہیں:

١ ۔ ابن سعد کہتے ہیں : عمر ابن خطاب نے ام کلثوم بنت علی ـ سے اس وقت شادی کی جبکہ ابھی وہ بالغ بھی نہیں ہوئی تھیں ،اور شادی کے بعد وہ عمر کے پاس ہی تھیں کہ عمر کا قتل ہوگیا ، اور آپ کے بطن سے دو بچے زید اور رقیہ نام کے پیدا ہوئے ۔(١)

٢۔ حاکم نیشاپوری اپنی سند کے ساتھ علی ابن حسین سے نقل کرتے ہیں: عمر ابن خطاب ام کلثوم بنت علی سے شادی کرنے کی غرض سے حضرت علی ـ کے پاس آئے ، اور اپنی خواہش کو حضرت کے سامنے پیش کیا ،حضرت علی ـ نے کہا : میں نے اس کواپنے بھتیجے عبد اﷲ ابن جعفر سے منسوب کیا ہوا ہے ، عمر نے کہا :آپ کو اس کی شادی میرے ساتھ ہی کرنا ہوگی، چنانچہ حضرت علی ـ نے جناب ام کلثوم کی شادی عمر سے کردی ، اس کے بعد عمر مہاجرین کے پاس آئے اور کہنے لگے : تم لوگ مجھے مبارک باد کیوںنہیں پیش کرتے ؟ سب نے پوچھا :کس بات کی مبارک بادی ؟ کہنے لگے : اس لئے کہ میں نے علی و فاطمہ کی بیٹی ام کلثوم سے شادی کی ہے ،اور میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: ہر سببی اور نسبی رشتہ روز قیامت منقطع ہوجائے گا سوائے میرے سببی اور نسبی رشتے کے ، اسی

____________________

(١)طبقات ابن سعد ج٨ ، ص ٤٦٢.

لئے میں چاہتا تھا کہ میرے اور رسول کے درمیان نسبی اور سببی رشتہ برقرار ہوجائے(اور وہ اب ہوگیاہے) ۔(١)

٣۔ بیہقی اپنی سند کے ساتھ علی ابن حسین سے نقل کرتے ہیں: حضرت عمرسے جب جناب ام کلثوم سے نکاح ہوگیا تو عمر مہاجرین کے پاس آ کر اپنے لئے تبریک کے طالب ہوئے اس لئے کہ انھوں نے سن رکھا تھا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے: ہر سببی اور نسبی رشتہ روز قیامت منقطع ہوجائے گا سوائے میرے سببی اور نسبی رشتے کے ، اسی لئے میں چاہتا تھا کہ میرے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان نسبی اور سببی رشتہ برقرار ہوجائے(اور وہ اب ہوگیاہے) ۔(٢)

اس واقعہ کو اہل سنت کے دیگر مؤرخین نے بھی اپنی کتابوںمیں لکھا ہے جیسے خطیب بغدادی ، ابن عبد البر ، ابن اثیر اور ابن حجر عسقلانی۔(٣)

تمام روایتوں کی جانچ پڑتال

١) امام بخاری او رمسلم نے اپنی مشہور اور مہم کتابوں میں ان روایتوں کے ذکر کرنے سے اجتناب کیا ہے ، چنانچہ بہت سی روایات ایسی ہیں جنھیں ان کتابوں میں نقل نہ ہونے کی وجہ سے ضعیف

قرار دیا گیاہے، لہٰذا اہل سنت کو ان روایات پر بھی غور کرنا ہوگا ۔

٢) جس طرح یہ حدیثیں صحاح ستہ میں نقل نہیں کی گئی ہیں ، اسی طرح یہ روایتیں اہل سنت کی دیگر مشہور کتابوں میں بھی نقل نہیں ہوئی ہیں جیسے مسند احمد بن حنبل ۔

ہر روایت کی جدا جدا سند کے لحا ظ سے چھان بین

حاکم نیشاپوری نے اس واقعہ کو صحیح جانا ہے ، لیکن ذہبی نے تلخیص المستدرک میں اس کی سند کو

____________________

(١) مستدرک حاکم جلد ٣ ، ص ١٤٢

(٢)بیہقی ؛ سنن کبری جلد ٧، ص ٦٣۔

(٣)تاریخ بغداد ، جلد ٦، ص ١٨٢۔ الاستیعاب ج ٤،ص ١٩٥٤۔ اسد الغابة جلد٥،ص ٦١٤۔ الاصابة جلد ٤، ص٤٩٢۔

منقطع قرار دیا ہے ، اسی طرح بیہقی نے اس کو مرسل کہا ہے ،نیز بیہقی نے دوسری سندوں کے ساتھ بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہے لیکن یہ سب سندیں ضعیف ہیں ۔

ابن سعد نے بھی''الطبقات الکبری '' میں اس کی سند کو مرسل نقل کیا ہے ، اور ابن حجر نے اصابہ

میں اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے جس میں عبد الرحمن بن زید بن اسلم ہے ، لیکن اہل سنت کے اکثر علمائے رجال نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے ۔(١)

اسی طرح اس سند میں عبد اﷲ بن وہب ہے جس کی تضعیف کی گئی ہے ۔(٢)

ابن حجر کہتے ہیں:یہ روایت دوسری سند کے ساتھ بھی نقل کی گئی ہے حس میں عطا خراسانی ہے لیکن اس کو امام بخاری اور ابن عدی نے ضعیف قرار دیا ہے۔(٣)

خطیب بغدادی نے دوسری روایت جس سند کے ساتھ نقل کی ہے اس میں احمد بن حسین صوفی ، عقبہ بن عامر جہنی اور ابراہیم بن مہران مروزی نظر آتے ہیں ان میں سے پہلے راوی کیلئے صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ یہ ضعیف ہے ، اور دوسرا راوی معاویہ کے لشکریوں میں سے تھا، اور تیسرا مہمل ہے ، اس تفصیل کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان روایتوں میں سے کوئی بھی روایت معتبر سند نہیں رکھتی ۔

____________________

(١) عقیلی ؛ الضعفاء ج ٢، ص ٣٣١ ۔ ابن عدی؛ الکامل فی الضعفاء ج ٧، ص ١٥٨١۔

(٢) ابن عدی؛ الکامل فی الضعفاء ج٥، ص٣٣٧۔

(٣)الکامل ج ٧ ، ص ٦٩ ۔

متون احادیث کی تفتیش

مختلف احادیث کے متون ملاحظہ کرنے کے بعد قابل اعتراض چند باتیں ظاہر ہوتی ہیں :

١۔ڈرانا اور دھمکانا

بعض روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خواستگاری تہدید کے ساتھ تھی ۔

ابن سعد نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی ـ نے عمر کے جواب میں فرمایا وہ ایک چھوٹی لڑکی ہے ،

لیکن عمر نے جواب دیا کہ خدا کی قسم آپ کو حق نہیں کہ مجھے اس کام سے روکیں ، میں اس کو جانتا ہوں کیوں نہیں تم اس کومیرے نکاح میں لاتے ؟(١)

ابن مغازلی عمر سے نقل کرتے ہیں کہ عمر نے کہا: قسم خدا کی مجھے اس شادی کے اصرار پر

کسی نے مجبور نہیں کیا مگر اس بنا پر کہ میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا۔(٢)

اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام نے بہت زیادہ اصرار کرنے پرا س کام کو مجبوراً انجام دیا ۔

٢۔ متن حدیث میں اضطراب و تزلزل

عقد ام کلثوم کے بارے میں جتنی روایتیں نقل کی گئی ہیں وہ اپنے متن اورمضمون کے لحاظ سے مضطرب و متزلزل نظر آتی ہیں ، اور یہ اضطراب و تزلزل ایسا ہے جو ان کو حجت اورمعتبر ہونے سے ساقط کررہا ہے ، مثلاً بعض روایتوں میں اس طرح وارد ہوا ہے: حضرت علی ـ خود اس عقد نکاح کے متولی تھے اور بعض میں آیا ہے کہ اس عقد کی ذمہ داری عباس کی حوالے تھی، اسی طرح بعض روایتوں میں آیا ہے کہ یہ عقد ڈرا اور دھمکا کے کیا گیا ، بعض میں ہے کہ امیر المومنین اس پر راضی تھے ، اسی طرح بعض روایتوں میں ہے کہ عمر ان سے بچہ دار بھی ہوئے، ان میں سے ایک بچہ کا نام زید تھا، بعض کہتے ہیں کہ عمر مباشرت کرنے سے پہلے ہی مر گئے تھے ، اسی طرح کچھ روایتوں میں ہے کہ زید بن عمر نے اپنے بعد اپنی نسل بھی چھوڑی ، بعض روایتوں میں آیا ے کہ زید بن عمر نے کوئی نسل نہیں چھوڑی ، بعض کہتے ہیں کہ زید اور ان کی ماں ماردئے گئے تھے ، بعض میں ہے کہ زید کے مرنے کے بعد ان کی ماں زندہ تھیں ، اسی طرح کچھ روایتوں میں ہے کہ عمر نے اس شادی میں چالیس ہزار درہم مہررکھا تھا ، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ چار ہزار درہم تھا ۔!!

اس کثرت سے روایتوں میں اختلاف کا پایا جانا ان کے ضعیف ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

____________________

(١)طبقات ابن سعد ج ٨، ص ٤٦٤ ۔

(٢)مناقب امام علی ص ١١٠۔

٣۔حضرت ام کلثوم اور عمر کے سن میں تناسب نہیں تھا

فقہاء حضرات بحث نکاح میں زوجین کا آپس میں کفو ہونا شرط جانتے ہیں چنانچہ اس چیز کو مد نظررکھتے ہوئے عمر اور ام کلثوم کے سن میں زمین وآسمان کا فرق نظر آتا ہے ، کیونکہ ٩ ھ میں

جناب ام کلثوم پیدا ہوئیں، اس طرح ان کی عمر ١٧ ہجری میں آٹھ یا نو برس ہوتی ہے جبکہ حضرت عمر

اس وقت ستاون سال کے ہو رہے تھے، چنانچہ ابن سعد کہتے ہیں : علی ـ نے عمر سے کہا میری لڑکی ابھی صغیرہ ہے ، (بعض روایتوں میں صبیہ کی لفظ آئی ہے ، جس کے معنی وہ بچی جو بہت چھوٹی ہو)(١) کیا حضرت علی ـ کو ام کلثوم کیلئے کوئی رشتہ دستیاب نہیں ہورہا تھا کہ ستاون سال کے بڈھے سے کردیا ؟!

٤۔ یہ ام کلثوم حضرت ابوبکر کی بیٹی تھی

بعض تاریخ سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر کی ایک لڑکی کا نام ام کلثوم تھا عمر نے اس سے شادی کرنے کی درخواست کی تھی جسے قبول کرلیا گیا تھا ، چونکہ ام کلثوم حضرت علی ـ کی بچی کا نام بھی تھا لہٰذا نام کی مشابہ ہونے کی وجہ سے بعض نافہم لوگوں نے اسے ام کلثوم بنت علی کی طرف منسوب کردیا ، چنانچہ ابن قتیبہ معارف میں لکھتے ہیں : جب عمر ام کلثوم بنت ا بی بکر سے شادی کرنے کی

درخواست عائشہ کی پاس لے کر گئے تو عائشہ نے اسے قبول کرلیا،لیکن ام کلثوم عمر کو پسند نہیں کرتی تھیں۔(٢)

حضرت ابو بکر کی طرح حضرت عائشہ اورحضرت عمر کے درمیان وسیع تعلقات کا قائم ہونااس احتمال کے قوی ہونے پر مزید دلالت کرتا ہے۔

عمر ی موصلی اور عمر رضا کحالہ نے بھی اس واقعہ کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔(٣)

____________________

(١)طبقات ابن سعد ج ٦ ،ص ٣١٢ ۔

(٢)ابن قتیبہ ؛ المعارف ص ١٧٥۔

(٣)عمر موصلی؛الروضة الفیحاء فی تواریخ النساء ص ٣٠٣۔ عمر رضا کحا لہ؛ اعلام النساء ج ٤ ،ص ٢٥٠۔

٥۔ جرول کی بیٹی ام کلثوم

بعض مؤرخین نے زید بن عمر کی ماں ام کلثوم بنت جرول خزاعی جانا ہے ، لہٰذا اسم کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ام کلثوم بنت علی لکھ دیا گیا ، چنانچہ طبری کہتے ہیں : زید اصغر اور عبیداﷲ(جو جنگ صفین میں معاویہ کے ساتھ مارے گئے) کی ماں ام کلثوم بنت جرول خزاعی تھی ، جس کے درمیان اسلام نے عمر سے جدائی کروادی تھی۔ (١)

اکثر مؤرخین ام کلثوم بنت جرول اور عمر کے درمیان شادی زمانہ جاہلیت میں جانتے ہیں ۔(٢)

٦۔ام کلثوم بنت عقبہ ابن معیط

بعض تاریخ سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ ام کلثوم بنت عقبہ بن معیط تھی۔

٧۔ ام کلثوم بنت عاصم

بعض تاریخ سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ ام کلثوم بنت عاصم تھی ۔

٨۔ام کلثوم بنت راہب

امام ابن ماجہ اور ابن دائود کے قو ل کے مطابق عمر کی شادی انھیں سے ہوئی تھی۔

٩۔عقد ام کلثوم شرعی معیارسے منافات رکھتاہے

عقد ام کلثوم سے متعلق روایات کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یا عمر شرعی مسائل سے بے خبر تھے یا پھر یہ واقعہ ہی جعلی اور گڑھا ہوا ہے ، جیسا کہ خطیب بغدادی نے نقل کیا ہے کہ قبل اس کے کہ عمرحضرت علی ـ سے ام کلثوم سے شادی کی درخواست کرتے حضرت نے ام کلثوم سے کہا : جاؤ اپنی زینت کرو اور خوب سج دھج کر آؤ ، جب وہ اپنا سنگار کرکے آئیں تو آپ نے ان کوعمر کے پاس بھیج دیا جب عمر نے ان کو دیکھا تو ان کی طرف لپکے اور اپنے ہاتھوں سے ان کی پنڈلیاں کھول دیں! اور کہنے

____________________

(١)تاریخ طبری ج ٣، ص ٢٦٩، کامل ابن اثیر ج ٣، ص ٢٨۔

(٢)الاعصابہ ج ٤، ص ٤٩١۔ صفوة الصفوة ص ١١٦۔ تاریخ المدینہ المنورة ج٢، ص ٦٥٩۔

لگے : اپنے بابا سے کہو میں راضی ہوں ، جب ام کلثوم حضرت علی ـ کے پاس آئیں توآپ نے کہا: عمر

نے کیا کہا؟ کہنے لگیں : جب عمر نے مجھے دیکھا تو اپنی طرف بلایا، اور جب میں ان کے نزدیک گئی تو میرے بوسے لینے لگے اور جب کھڑی ہوگئی تو میری پنڈلیا ں پکڑ لیں !

لا حول ولا قوة الا باﷲ ،اگر اس روایت کی تنقید کرنا مقصود نہ ہوتی تو ہم ہرگز ایسی رکیک اور توہین آمیز روایت نقل نہ کرتے، یہ واقعہ حضرت امیر المومنین ـ کی غیرت سے بالکل سازگاری نہیں رکھتا ، حضرت علی شادی سے پہلے کیسے اپنی لڑکی کا ہاتھ ایسے شخص کے حوالے کردیں گے جو شرعی حدود کی رعایت کرناجانتا ہی نہ ہو،اسی وجہ سے سبط ابن جوزی اس واقعہ کو اپنے جد صاحب''المنتظم'' سے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : یہ واقعہ بہت قبیح ہے ،اگرچہ میرے جد اس واقعہ کو نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی ـ نے شادی سے پہلے ام کلثوم کو عمر کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس کو دیکھ لیں لیکن عمر نے اس کو دیکھا تو اسکی شلوار کو اٹھاکر اس کی پنڈلیاں ہاتھوں سے مس کرنے لگے ، لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ اگر ام کلثوم کے علاوہ کوئی کنیز بھی ہوتی تب بھی خدا کی قسم یہ عمل قبیح اور خلاف شرع تھا ،کیونکہ تمام مسلمین کا اس پر اجماع ہے کہ غیر محرم عورت کامس کرنا ہرگز جائز نہیں ہے ، اور وہ بھی عمر ایسا کام کریں !!(١)

بعض روایتوں میں آیا ہے کہ جب ام کلثوم نے یہ کام کرتے دیکھا تو بہت ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں :اگر تو خلیفہ نہ ہوتا تو میں تیری ناک توڑ دیتی، اس وقت خلیفہ کے گھر سے باہر نکلیں اور اپنے باپ کے پاس آگئیں ، اور سارا ماجرہ بیان کیا اور کہنے لگیں: اے بابا جان آپ نے کس پست اور بد تمیز بڈھے کے پاس بھیج دیا تھا؟(٢)

١٠۔ یہ ام کلثوم بنت فاطمہ زہرا نہیں

اہل سنت والجماعت اس بات پر شدت سے اصرار کرتے ہیں کہ یہ ام کلثوم حضرت فاطمہ زہرا

____________________

(١)سبط ابن جوزی ؛ تذکرة الخواص ، ص ٢٨٨ ۔

(٢)اسد الغابة ج ٥، ص ٦١٤ ۔ الاصابة ج ٤، ص ٤٩٢ ۔ ذ ہبی؛تاریخ الاسلام ج ٤ ،ص ١٣٨ ۔

پهلی فصل

{صلوات کے بعض فوائد}

۱. صدائے خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر لبیک هے صلوات

پروردفار عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا هے:( ’’إِنَّ اَللّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى اَلنَّبِيِّ يا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلِيماً ) (۱) بیشک الله اور اس کے ملائکه رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات بھیجتے هیں تو اے صاحبان ایمان تم بھی صلوات بھیجتے رهو اور سلام کرتے رهو محمد و آل محمد علیهم السلام پر۔

سب سے پهلے اس چیز کو طے کرتے هیں که محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات کے معنی کیا هیں:

روایات میں اس امر کی تاکید ملتی هے که اگر خدا صلوات بھیجے تو اس کا مطلب رحمت هے، ملائکه بھجیں تو تذکیه هے، مومنین بھیجیں تو اس کا مطلب دعا هے۔

پس اگر خدا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات بھیجے تو اسکے معنی هیں که: خدایا همارے لئے محمدؐ و آل محمد علیهم السلام کے حقائق کو ظاهر کر اور انکے مراتب کو واضح کر۔

اور اگر ملائکه علیه السلام پر صلوات بھیجیں تو اس کے معنی هیں: محمدؐ و آل محمد علیهم السلام کے مراتب کی تقدیس و تذکیه؛ اور مومنین محمد ؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجیں تو اس کے معنی هیں:هم اپنی جگه سے بلند هو جائیں اور ان سے ملحق هو جائیں یعنی گویا یه کهتے هیں که خدایا میں محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجتا هوں تاکه میں ان کے ساتھ هو سکوں، انکی پیروی کر سکوں، انکے اخلاق و صفات سے مزین هو سکوں تاکه ظلمات و گمراهی سے باهر نکل سکوں؛ اس لئے که گمرای سے نجات محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات کے ذریعه سے ممکن هے۔

اگر هم قرآن مجید پر غور کریں تو پته چلے گا که خداوند عالم نے فرمایا هے:( یا ایها الذین آمنوا ) اے ایمان والو!؛ تو ه ان لوگوں کے لئے دعوت هے جو صفت ایمان سے متصف هو چکے هیں که وه اگر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حق کو ادا کرنا چاهتے هیں تو صلوات پڑھیں۔

لهذأ اب اگر کوئی انسان نماز میں یا نماز کے علاوه کسی اور مقام پر صلوات بھیجتا هے تو گویا وه صدائے پروردگار پر لبیک کهتا هے؛ اور اسی طرح سے خود نبی اور ملائکه اور ائمه معصومین علیهم السلام نے بھی صلوات کے سلسله میں مومنین کو کافی تاکید کی هے چونکه آخرت میں شرف و عزت اور مقام بلند و بالا صلوات کے ذریعه سے حاصل هوگا۔

بعض مومنین ایسے هیں که جو صلوات کے ذریعه سے آخرت میں ثواب کے متمنی هیں یا دنیا میں یه چاهتے هیں که انکی حاجتیں پوری هوجائیں اور انھیں رزق حاصل هو اور ان میں سے بعض وه هیں که جو اس غرض سے صلوات پڑھتے هیں که اس کے ذریعه سے حکم پروردگار عالم کا امتثال(انجام دهی) کیا جا سکے اور وه کسی بھی قسم کی جزا کے متمنی نهیں هیں۔

پس وه دعوت جو پروردگار عالم نے صلوات کے ذریعه سے دی هے، یا جو حکم پروردگار نے اس کے سلسله سے دیا هے جب وه پورا هوجائے اور اسے انجام دے دیا جائے تو پروردگار عالم بھی اپنے بندوں کو جزائے خیر سے نوازتا هے اور انکی حاجتوں کو پورا کرتا هے۔

جو آیت اوپر گذری هے اس میں بهت سے اسرار هیں اگر ان میں سے کچھ کو جاننا چاهیں تو احادیث و روایات ائمه معصومین علیهم السلام کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ ایک روایت میں هے که ایک شخص امام صأدق علیه السلام کی خدمت میں حاضر هوا اور آپ سے کها که قرآن مجید کهه رها هے که( ’’یسبحون اللیل والنهار لا یفترون ) (۲) ؛ دن رات اسکے تسبیح کرتے هیں اورسستی کا بھی شکار نهیں هوتے هیں اور دوسری آیت میں هے:’’( إِنَّ اَللّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى اَلنَّبِيِّ يا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلِيماً ) (۳) پس یه دونوں چیزیں کیسے ممکن هیں که فرشتے صبح و مساء تسبیح بھی کرتے رهتے هیں، ایک لمحه کے لئے تسبیح پروردگار سے غافل بھی نهیں هوتے، تسبیح ترک بھی نهیں کرتے اور محمد ؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھی بھیجتے هیں؟؟؟!!

تو امام صادق علیه السلام جواب دیتے هیں:’’جب پروردگار عالم نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خلق فرمایا تو فرشتوں کو حکم دیا که جتنا وقت صلوات بھیجنے میں لگتا هے اتنا میرے ذکر میں سے کم کرو ؛ پس اگر کوئی انسان نماز میں یه کهے که صل الله علی

محمد؛ تو گویا یه ایسا هے که اس نے کها هو ’’سبحان الله والحمد لله ولا اله الا الله والله اکبر ‘‘(۴)

ایک روایت یه بھی کی گئی هے که سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کسی نے پوچھا که اس آیت( ’’إِنَّ اَللّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى اَلنَّبِيِّ يا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلِيماً ) کا کیا مطلب هے۔؟؟؟

تو سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’یه شئ علم مکنون(مخفی علم) میں سے هے اور اگر تم اس کے بارے میں سوال نه کرتے تو میں بتاتا بھی نهیں، پروردگار عالم نے میرے لئے دو فرشتوں کو مقرر کیا هے که جب بھی مجھے کوئی مسلم یاد کرکے میرے اوپر صلوات بھیجتا هے تو وه دونوں فرشتے کهتے هیں که پروردگار تیری مغفرت کرے تو پروردگار اور اس کے دیگر فرشتے آمین کهتے هیں اور جب کسی مقام پر میرا تذکره هوتا هے اور کوئی میرے اوپر صلوات نهیں بھیجتا تو وه دونوں فرشتے کهتے هیں که خدا تیری مغفرت نه کرے تو خدا اور اسکے فرشتے آمین کهتے هیں۔(۵)

اور اسی طرح سے ایک روایت جناب علامه مجلسیؒ نے اپنی کتاب بحار میں امام صادق علیه السلام سے نقل فرمائی هے که امام علیه السلام اپنے آباء و اجدادسے اور وه امیرالمومنین علیه السلام سے نقل فرماتے هیں که مولائے کائنات علیه السلام نے اس یهودی کے جواب میں فرمایا جس نے آپ سے سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فضیلت تمام انبیاء پر دریافت کی؛ یهودی کهتا هے که پروردگار عالم نے جناب آدم علیه السلام کے لئے فرشتوں سے سجده کرایا تو مولائے کائنات علیه السلام نےفرمایاکه پروردگار نے سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بھی بهتر شئ عطاکی هے وه یه هے که پروردگار رب العزت نے خود سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات بھیجی هے اور فرشتوں کو حکم دیا هے که ان پر صلوات بھیجیں اور تمامی مخلوقات کو اس بات کا حکم دیا هے که ان کی ذات مقدسه پر قیامت تک صلوات بھیجیں ؛ پروردگار عالم نے فرمایا:( إِنَّ اَللّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى اَلنَّبِيِّ يا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلِيماً ) پس اگر کوئی بھی سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبه میں یا بعد وفات صلوات بھیجتا هے تو پروردگار عالم اس کے اوپر دس مرتبه صلوات بھیجتا هے اور هر صلوات کے بدله میں دس نیکیاں عطا کرتا هے اور اگر کوئی سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد ان پر صلوات بھیجتا هے تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کی خبر هوتی هے اور وه اس کو ویسی هی اس کے سلام کا جواب بھی

دیتے هیں اس لئے که پروردگار عالم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت کی دعا کو اس وقت تک قبول نهیں فرماتا جب تک که وه آپ پر صلوات نه بھیجیں لهذأ یه فضیلت تو اس سے بھی افضل و اعظم هے جو که جناب آدم علیه السلام کو دی گئی هے۔(۶)

۲. صلوات حسنات و درجات میں اضافه کا سبب هے

سوال یه هے که صلوات کے ذریعه سے حسنات و درجات میں اضافه کیسے هوتا هے؟

اس کے جواب میں هم یه کهه سکتے هیں که والله العالم هر ذکر کی یه خاصیت هوتی هے که جب بھی انسان اس ذکر کو بجالاتا هےتو اس کے درجات بلند هوتے هیں، حسنات میں اضافه هوتا هے اور اس طرح سے همارا محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجنا گویا ایسا هے جیسے هم خدا کی عباست کررهے هوں، اسکا ذکر کیا هو، اور حکم پروردگار عالم کو انجام دیا هو۔

ایک حدیث سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یوں نقل هوئی هےکه آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’اگر میرا امتی مجھ پر ایک مرتبه صلوات بھیجتا هے تو اس کے لئے دس( ۱۰) نیکیاں لکھی جاتی هیں اور دس گناه محو(مٹا) کر دیئے جاتےهیں۔‘‘

اسی طرح حضرت سے یه بھی روایت نقل کی گئی هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’جب میں شب معراج آسمان پر پهنچا تو میں نے ایک فرشته کو دیکھا که جس کے هزار هاتھ تھے اور هر هاتھ میں هزار انگلیاں تھیں جو که حساب و کتاب میں مشغول تھا تو میں نےجبرئیلؑ سے سوال کیا که یه فرشته کون هے؟ اور یه کیا شمار کر رها هے؟ تو جبرئیل نے جواب دیا که اس فرشته کو اس امر په مقرر کیا گیا هے که وه بارش کے قطرات کو شمار کرے که آسمان سے بارش کے کتنے قطرے زمین پر گرتے هیں۔پھر میں نے اس فرشته سے کها که: کیا تم جانتے هو که جب پروردگار رب العزت نے اس دنیا کو خلق فرمایا هے تب سے لیکر آج تک کتنے قطرے زمین پر گرے ؟ تو اس فرشته نے جواب دیا که یا رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس خدائے وحده لا شریک کی قسم جس نے حق کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس دنیا میں بھیجا هے آپ نے جو کها میں اس کو بھی جانتا هوں اور یه بھی جانتا هوں که کتنے قطرے آبادی میں گرے اور کتنے صحراء میں اور کتنے باغات میں گرے اور کتنے بنجر زمین پر اور کتنے قطرے قبروں (قبرستانوں) پر گرے هیں؛ تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: که مجھے اس فرشته کے حساب وکتاب اور اس کے حافظه پر تعجب هوا، فرشته کهتا هے یا رسول

اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یه حق هے که مجھے یه سب یاد هے اور میرے اتنے هاتھ اور اتنی انگلیاں هیں لیکن اس کے باوجود ایک چیز ایسی هے جس کے حساب سے میں عاجز هوں که میں اس کا حساب نهیں لگا سکتا، تو میں نے کها: وه کون سی چیز هے ؟ تو فرشه نے جواب دیا که جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے امتی کسی مقام پر جمع هوتے هیں اور(وهاں پر) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا تذکره کرتے هیں اور جیسے هی انکے سامنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نام آتا هے تو وه (سب مل کر) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی پر صلوات بھیجتے تو میں انکے ثوابکو شمار نهیں کر پاتا۔!‘‘(۷)

۳. صلوات تکمیل نماز کی باعث هے

یعنی جب تک نماز میں صلوات نه بھیجی جائے نماز مکمل نهیں هوتی۔

روایت میں اس طرح وارد هوا که محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات نماز کی تکمیل کا باعث(یعنی بغیر صلوات نماز نامکمل هے)؛ جس طرح سے روزه بغیر زکات(فطره) کے نامکمل هے اور اگر کوئی عمداً زکات فطره ادا نه کرے اس کا روزه قابل قبول نهیں هے اسی طرح سے محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات نماز کا اهم جزء هے که جسکی ادائگی کے بغیر نماز نامکمل هے، اس لئے که اگر کسی شخص نے نماز تو ادا کی لیکن عمداً محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات نه بھیجی تو گویا اس کی نماز هی نهیں هوئی؛ اور ایسی صورت میں نماز قابل قبول نهیں هے اور اس کی(صلوات) تاکید امام صادق علیه السلام کی اس روایت سے هوتی هے که آپ علیه السلام نے فرمایا:’’روزه زکات فطره کی ادائگی سے مکمل هوتا هے جس طرح نماز محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات سے مکمل هوتی هے، پس اگر کوئی شخص روزه رکھے اور عمداً زکات فطره ادا نه کرے تو اس کا روزه قابل قبول هی نهیں هے اسی طرح سے اگر کوئی نماز پڑھے اور عمداً محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات نه بھیجے تو اس کی نماز قابل قبول نهیں هے۔!‘‘(۸)

اور ایک روایت یوں بھی هے که امام زین العابدین علیه السلام سے کسی نے سوال که نماز کیسے مکمل هوتی هے تو آپ علیه السلام نے فرمایا: ’’محمد ؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات کے ذریعه۔‘‘(۹)

۴. صلوات سنگینی میزان کا باعث هے

روایات میں وارد هوا که میزان اعمال میں سب سے سنگین شئ جو هوگی وه محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات هوگی۔

ایک حدیث میں هے که: قیامت کے دن ایک شخص کو جهنم میں جانے کا حکم دیا جائگا تووه کهے گا که میری شفاعت کریں تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کهیں گے که اس کو دوباره میزان کی طرف لے جاؤ اور جب وه میزان کی طرف پلٹایا جائےگا تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میزان پر چونٹی جیسی کوئی شئ رکھیں گے اور وه شئ محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات هوگی اور اس کا میزان اس کی نیکیوں (محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات) کی بنا پر سنگین هو جائے گااور ایک آواز آئے گی فلاں شخص کامیاب هو گیا۔

اسی طرح سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایکی روایت نقل هوئی هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’میں روز قیامت میزان کے پاس هوں گا تاکه اگر کسی کے گناه اس کی نیکوں پر غالب آجائیں (یعنی گناه زیاده هوئے) تو میں اس کی نیکیوں میں صلوات کا اضافه کر دوں گا که جس سے اس کی نیکیاں اور حسنات زیاده هو جائیں گی اور اس صلوات کی وجه سے اسکے حسنات کا پلڑا وزنی هو جائے گا۔‘‘

ایک اور روایت میں سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےماه رمضان المبارک کے استقبال میں خطبه ارشاد فرمایا اور اس میں بیان کیا که:’’اگر کوئی شخص ماه رمضان میں میرے اوپر صلوات بھیجے گا تو جس دن(روز قیامت) تمام افراد کے میزان هلکے هوں گے ا دن اس کا میزان وزنی هوگا۔(یعنی جس دن لوگوں کے گناه انکے میزان میں زیاده هوں گے اس دن اس شخص کے میزان اعمال میں نیکیاں زیاده هوں گی اور اس کا نیکیوں والا پلڑا گنا ه والے پلڑے سے وزنی هوگا۔‘‘

۵. صلوات سب سے اٖفضل عمل هے

مستحب اعمال و اذکار کی فهرست بهت طولانی هے اور انھیں اذکار میں سے محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجنا بھی هے؛یهاں تک که روایات میں وارد هوا هے که هر جگه اور هر وقت صلوات بھیجا مستحب هے، یهاں تک که جب انسان گھر سے نکل رها هو یا داخل هو رها هو تو اس وقت بھی صلوات بھیجنا مستحب هے۔ اس لئے که جو امتیاز اور خصوصیت صلوات میں هے وه کسی ذکر میں نهیں هے۔

ایک روایت میں هے که ایک شخص طواف کر رها تھا اور اپنے طواف کو مکمل کرنے کے بعد امام علیه السلام کی خدمت میں حاضر هوا اور کهنے لگا که میں نے ذکر صلوات کے علاوه کوئی بھی ذکر ادا نهیں کیا تو امام علیه السلام نے فرمایا که کیا ذکر صلوات سے بھی افضل کوئی ذکر هے۔!

عبد السلام بن نعیم روایت نقل کرتے هیں که میں نے امام صادق علیه السلام سے کها که میں خانه خدا میں طواف کے لئے داخل هوا تو اس وقت سوائے ذکر صلوات کے مجھے کچھ اور یاد نهیں تھا تو امام علیه السلام نے فرمایا که تو سب سے افضل ذکر بجالایا هے۔

ایک عظیم مجتهد و مرجع جب فقهی بحث کے دوران اس حدیث سے گذرتے هیں تو کهتے هیں که اس حدیث کے سبب سے میں یه فتوی دیتا هوں که سب سے افضل عمل اور سب سے افضل ذکر اور سب سے افضل مستحب عمل، محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجنا هے اور یه ذکر اکسیر اعظم هے۔(۱۰)

اسی طرح ایک روایت سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سےنقل هوئی هے که جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’میں نے خواب میں دیکھا که میں اپنے چچا جناب حمزه بن عبد المطلبؑ اور اپنے بھائی جعفر بن ابی طالبؑ کے ساتھ هوں اور انکے سامنے ایک ظرف میں بیر رکھی تھی، کچھ دیر اس کو کھاتے رهے پھر وه بیر انگور میں تبدیل هو گئی اور اسے بھی کچھ دیر کھاتے رهے پھر هر انگور انکے لئے کھجور میں تبدیل هو گیا اور اسے بھی کچھ دیر تک کھاتے رهے تو میں انکے قریب گیا اور ن سے کها که آپ کو میرے بابا کا واسطه یه بتائیں که آپ نے کس عمل کو سب سے افضل پایا؟ تو انھوں نے کها که همارے آباء و اجداد آپ پر فدا هوں سب سے افضل عمل آپ پر صلوات بھیجنا هے، اور پانی پلانا اور محبت علی بن ابی طالب علیهما السلام۔‘‘(۱۱)

سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک روایت نقل هوئی هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مولائے کائنات علیه السلام سے فرمایا که:

’’اے علیؑ کیا آپ کو معلوم هے که جس رات میں آسمان پر گیا تو آپ کے بارے میں ملأ اعلی میں کیا سنا؟! اے علیؑ میں نے سنا که اهل آسمان خدا کو آپ کی قسم دے رهے تھے اور آپ کے واسطه اور وسیله سے اپنی حاجتوں کو طلب کر رهے تھے اور آپ کی محبت کے ذریعه سے تقرب الهی کے خواهاں تھے اور سب سے بهتر چیز جس کے ذریعه سے وه خدا کی عبادت کر رهے تھے وه همارے اور آپ کے اوپر صلوات تھی۔‘‘(۱۲)

اگر دیکھا جائے تو حقیقت میں یه حدیث کتنی عظیم هے اور اس کے ذریعه سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مولائے کائنات علیه السلام کی عظمت واضح هوتی هے، پس همارے لئے ضروری هے که هم مولائے کائنات علیه السلام کے ذریعه سے پروردگار رب العزت سے سوال کریں که پروردگار همیں مولاؑ کے شیعه اور موالی میں قرار دے۔

ایک اور روایت میں هے که ایک شخص نے امام صادق علیه السلام سے پوچھا که سب سے افضل عمل کیا هے؟ تو آپ نے فرمایا:’’محمدؐ و آل محمد علیهم السلامپر سو مرتبه نماز عصر کے بعد صلوات بھیجنا سب سے افضل عمل هے؛ اور جتنا زیاده صلوات پڑھ سکتے هو اتنا بهتر هے۔‘‘

هو سکتا هے کوئی یهاں پر یه کهے که افضل اعمال کو کیسے معین کیا جائے؛ اس لئے که ایسی روایتیں بهت سی هیں جس میں الگ الگ چیزوں کو افضل عمل بتایا گیا هے۔

مثلاً ایک حدیث میں رسول اسلام سے اس طرح منقول هے که سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’میری امت کا سب سے افضل عمل امام عصر علیه السلام کا انتظار هے۔‘‘(۱۳)

دوسری روایت میں سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس طرح سے نقل کیا گیا هے که ’’افضل عمل ورعحرام سے اجتناب) هے۔‘‘(۱۴) اور بعض روایتوں میں اس طرح سے نقل هے که ابن عباس نے سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا که افضل عمل کیا هے؟ تو سرکار نے جواب دیا جس میں سختی اور مشقت زیاده هو۔(۱۵) اسی طرح امام صادق علیه السلام سے روایت هے که جس میں آپ علیه السلام نے فرمایا:’’سب سے افضل عمل امام حسین علیه السلام کی زیارت هے۔‘‘(۱۶)

اور ایک روایت امام محمد تقی علیه السلام سے هے که جس میں آپ سے سوال کیا گیا که امام رضا علیه السلام کی زیارت افضل هے یا امام حسین علیه السلام کی؟ تو آپ نے فرمایا: میرے بابا کی زیارت زیاده با فضیلت هے اور وه اس لئے که ابو عبد الله الحسین علیه السلام کی زیارت تمامی لوگ کرتے هیں، لیکن میرے بابا کی زیارت فقط مخلص شیعه هی کرتے هیں(یا فقط خاص شیعه هی کرتے هیں)۔‘‘(۱۷)

تو اس کا جواب یه هے که یه سارے اختلافات جو حدیث میں موجود هیں ان سب کاتعلق خودِ اس عمل هے اور اس عمل سے هے جو اس شئ سے متعلق هے۔

مثلاً انتظار فرج که جسے افضل عمل بتایا گیا وه اس زمانه غیبت اما م علیه السلام میں عملی لحاظ سے (یعنی غیبت کے زمانه میں سب سے افضل عمل انتظار فرج هے) اور ورع کو سب سے افضل قرر دیا گیا هے اعمال کے نتائج کے لحاظ سے ، اس لئے که برے اعمال کا نتیجه بهت سخت هوگا۔

اور یه جوذکر هوا که جس عمل میں زیاده مشقت و دشواری هو وه زیاده با فضیلت هے تو وه اس لئے هے که انسانی اعمال کو مد نظر رکھتے هوئے کها گیا هے انسانی اعمال کی به نسبت جن اعمال میں مشقت زیاده هو وه افضل هے۔

اور امام حسین علیه السلام کی زیارت ان سب سے زیاده افضل هے کیوں که آپ اور آپکے اهلبیت کو بے دردی کے ساتھ شهید کیا گیا۔

اور زیارت امام رضا علیه السلام سید الشهداء کی زیارت سے اس وجه سے افضل هے چونکه امام حسین علیه السلام کی زیارت کرنے والے بهت لوگ هیں لیکن امام رضا علیه السلام کے زوّار کی تعداد کم هے تو ائمه معصومین علیهم السلام نے یه سوچا که لوگوں کو زیارت امام رضا علیه السلام کی طرف متوجه کریں۔

اور اس تحریر و بیان کے بعد یه بات واضح هو جاتی هے که کیا سبب هے که محمد ؐو آل محمدعلیهم السلام پر صلوات سب سے افضل و با فضیلت عمل هے اور وه سبب یه هے که صلوات سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اور انکے اهلبیت علیهم السلام سے رابطه هے، اس لئے که صلوات عبد و معبود کے درمیان ایک طرح کا رابطه هے، چونکه صلوات دعا و مناجات هے، هم صلوات میں کهتے هیں: اللهم، اوراس کی اصل هے ’’یا الله‘‘، اور اس کے معنی یه هوئے که پروردگار محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر رحمت نازل کر اور انکے ذکر کو بلند کر....

اور اس کے بعد محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات اس رابطه و محبت و ولاء کو ظاهر کرتی هے جو انسان اور محمدؐ و آل محمد علیهم السلام کے درمیان هے ، یعنی صلوات انسان کی محمدؐ و آل محمد علیهم السلام سے محبت و ولاء کی دلیل هے۔

۶. صلوات گناهوں کا کفاره هے

انسان چونکه معصوم نهیں هے لهذ گناه کرتا هے، پروردگار قهار کی معصیت کرتا رهتا هے لهذأ اس کے نامه اعمال میں گناه بهت هیں۔ اور هو سکتا هے که اتنے زیاده گناه هوں که جنکی تلافی انسان کے لئے ممکن نه هو، لیکن سب سے آسان و بهتر طریقه گناهوں کی معافی کا اور گناهوں کا کفاره محمدؐ و آل محمدعلیهم السلام پر صلوات هے۔

اور اس سلسله میں امام رضا علیه السلام سے روایت بھی موجود هے که اگر کوئی انسان گناهوں کے کفاره کے قدرت نه رکھتا هو تو زیاده سے زیاده محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجے، کیونکه صلوات گناهوں کو منهدم کر دیتی هے۔(۱۸)

اور اسی ضمن میں ایک روایت مولائے کائنات علیه السلام سے بھی هے که جس میں آپ نے فرمایا:’’که جتنی جلدی پانی آگ کو خاموش کردیتا هے اس سے بھی تیز صلوات گناهوں کو محو کردیتی هے۔‘‘(۱۹)

اور ایک روایت سرکار دو عالم سے بھی هے که جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’اگر کوئی شخص میرے اوپرایک مرتبه بھی صلوات بھیجتا هے تو اس کے گناه ختم هو جاتے هیں(یعنی ذره برابر بھی اس کے گناه باقی نهیں ره جاتے۔)‘‘(۲۰)

اسی طرح ایک دوسری روایت میں سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت هے که’’اگر کوئی انسان مجھ پر صبح میں دس مرتبه صلوات بھیجتا هے تو اس کے چالیس سال کے گناه معاف هو جاتے هیں۔‘‘(۲۱)

اور ایک دوسری روایت میں کچھ اس طرح سے ذکر هے که:’’اگر کسی شخص نے میری محبت میں دن میں تین مرتبه مجھ پر صلوات بھیجاتو پروردگار عالم کے اوپر اس کا حق یه هے که اس کے اس دن و رات کے گناهوں کو معاف کر دے۔‘‘(۲۲)

جناب محمد نوریؒ فرماتے هیں که بلاواسطه جناب شیخ زین الدین نے نقل کیا هے که میں نے خواب میں امام زین العابدین علیه السلام کو دیکھا تو زاد آخرت کے سلسله میں شکوه کیا که اس کا انتظام کیسے کیا جائے؟ توبه و استغفار کی توفیق کیسے حاصل هو ؟ اعمال صالحه کیسے بجا لائے جائیں؟ تو امام سجاد علیه السلام نے جواب دیا که تمهاری ذمه داری هے که تم زیاده سے زیاده صلوات پڑھو اور هم اس کا عوض قیامت کے دن تم کو عطا کریں گے۔(۲۳)

ایک بهترین واقعه

ایک خاتون کا انتقال هوا اور وه گنهگار تھی اور اس کی قبر میں اس پر عذاب هوتا هے، لیکن بعض اولیاء اور صلوات پڑھنے والے لوگ قبرستان میں داخل هوئے اور اس کی قبر تک پهنچے اور صلوات بھیجا’’اللهم صل محمد و علی آل محمد ‘‘،تو انھوں نے خواب میں اس خاتون کو دیکھا که وه یه خوش خبری دے رهی تھی که ولو یه که عذاب بهت هی سخت تھا لیکن جیسے هی محمدو آل محمد علیهم السلام کا ذکر هواتو نداء آئی که اب اس پر عذأب نه کرو؛ کیا محمد و آل محمد علیهم السلام کا ذکر نهیں هوا!؟(۲۴)

پس نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور انکے اهلبیت علیهم السلام تمام عالمین اور ساری بشریت کے لئے رحمت بن کر آئے هیں؛پس هم اپنی ولایت اور طاعت اهلبیت علیهم السلام سے اور انکے دشمنوں کی برأت کے ذریعه سے دنیا و آخرت میں کامیاب هوکر بارگاه رب العزت سے قریب هو سکتے هیں اور فقط اتنا هی نهیں هے بلکه وه صلوات که جسے هم محمد و آل محمد علیهم السلام پر بھجتے هیں پروردگار عالم نے اسے همارے گناهوں کا کفاره قراردیا هے اور اسے هماری طهارت کی دلیل بنائی هے جیسا که زیارت جامعه میں ذکر هے جو که امام علی نقی علیه السلام سے نقل هوئی هے...

پس همارے لئے ضروری هے که هم هر وقت اور هر جگه محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجیں۔

۷. صلوات محبت و قرب پروردگار اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کیئے هوئے سلام کے جواب کا ذریعه هے

صلوات انسان کی روحی طهارت کا سبب بھی هے، اور وه لوگ جو که پاک هیں وهی بارگاه خداوندی سے نزدیک هیں که پروردگار عالم نے فرمایا:( إِنَّ اَللّهَ يُحِبُّ اَلتَّوّابِينَ وَ يُحِبُّ اَلْمُتَطَهِّرِينَ ) (۲۵) خداوند توبه کرنے اور پاکیزه رهنے والوں کو دوست رکھتاهے۔

اور کتاب وسائل الشیعه میں امام علی نقی علیه السلام سے ایک روایت هے که آپ نے فرمایا:’’پروردگار عالم نے جناب ابراهیم علیه السلام کو خلیل اس لئے بنایا که وه محمد و آل محمد علیهم السلام پر بهت صلوات پڑھتے تھے۔‘‘(۲۶)

اور جناب عمار یاسر نقل فرماتے هیں که میں نے سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فرماتے سنا هے که ایک فرشته کو ان تمام مخلوقات کے اسماء دے دئے گئے هیں اور جب میں اس دنیا سے رخصت هو جاؤں گا تووه فرشته قیامت تک میری قبر پر هوگا، اور جب بھی کوئی مجھ پر صلوات پڑھے گا تو وه فرشته مجھے خبر دے گا که فلاں بن فلاں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایسے ایسے صلوات پڑھی هے ؛ اور میرے خدا نے اس بات کی ذمه داری لی هے که وه اس عبد پر هر صلوات کے بدلے دس مرتبه صلوات بھیجے(یعنی رحمت نازل کرے)؛(۲۷) اور جب بھی کوئی انسان سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سلام کرتا هے تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کا جواب دیتے هیں اور سرکار ختمی مرتبت کے سلام سے افضل کس کا سلام هوگا اوروه پروردگار کے سفیروں میں سب سے نزدیک ترین سفیر هیں۔

جیسا که ایک روایت محمد بن مروان سے نقل هوئی هے که امام صادق علیه السلام نے فرمایا:’’پروردگا ر عالم نے ظهیللنامی ایک فرشته قبر سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرمقرر کیا هے که جس کا کام یه هے که جب بھی تم میں سے کوئی انسان سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود و سلام بھیجتا هے تو وه فرشته سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کهتا هے که یا رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فلاں شخص نے آپ پر صلوات پڑھی هے اور سلام بھیجا هے تو امام علیه السلام کهتے هیں که نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کا جواب بھی دیتے هیں۔‘‘(۲۸)

۸. صلوات تاریکوں سے نکل کر نور کی طرف جانے کا ذریعه هے

بهت سی تاریکیاں ایسی هیں که جن میں انسان مبتلاء هے،گرفتار هے اور جس سے نجات بهت مشکل هے؛ مثلاً شیطانی افکار، برے اخلاق کی تاریکی،گناه کی تاریکی، اس لئے که انسان سے جب بھی کوئی گناه سرزد هوتا هے تو وه اس کے نامه اعمال کو سیاه کر دیتا هے اور اس کے دل کو بھی سیاه و تاریک کر دیتا هے؛ گویا انسان کا قلب ایک ورق کی مانند هے که انسان جتنا زیاده سےزیاده گناه کرتا هے وه ورق بھی اتنا هی سیاه هوتا جاتا هے۔

اور پروردگار عالم نے اپنے لطف و کرم و احسان سے همارے لئے ایک راسته ایسا بنایا هے که جس سے هم تاریکوں سے نکل سکتے هیں اور وه وسیله و راسته محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجنا هے۔

جیسا که ایک روایت وارد هوئی هے که جناب اسحاق بن فروغ سے امام صادق علیه السلام فرماتے هیں که’’سے اسحاق بن فروغ اگرکوئی شخص دس مرتبه محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجتا هے تو خدا اور اسکے فرشتے اس کے اوپر هزار مرتبه صلوات بھیجتے هیں که تم نے پروردگار عالم کا یه فرمان نهیں سنا( هُوَ اَلَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَ مَلائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ اَلظُّلُماتِ إِلَى اَلنُّورِ وَ كانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيماً ) (۲۹) وہی وہ ہے جو تم پر رحمت نازل کرتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی منزل تک لے آئے اور وہ صاحبان ایمان پر بہت زیادہ مہربان ہے۔

تو اس حدیث کا مطلب یه هے که محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجنے والے کی شان عظیم هے اور وه یه هے که خود خدا اور ملائکه صلوات بھیجتے هیں اور جس کے اوپر خدا صلوات بھیجے قطعاً اسے تاریکیوں سے باهر نکال دے گا۔

سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک حدیث هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’میرے اوپر زیاده سے زیاده صلوات پڑھو اس لئے که میرے اوپر صلوات قبر و صراط و جنت کا نور هے۔‘‘(۳۰)

اور ایک روایت میں هے که سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’اگر کوئی شخص میرے اوپر صلوات پڑھتا هے تو پروردگار اس

کے سر پر دائیں جانب، بائیں جانب اور اوپر، نیچے نور خلق فرماتا هے بلکه اس کے هر عضو کے لئے نور خلق کر دیتاهے۔‘‘(۳۱)

۹. صلوات نفاق کے خاتمه کی باعث هے

محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات کی ایک خصوصیت یه بھی هے که وه نفاق کو ختم کر دیتی هے، اس لئے که صلوات یعنی سرکاردوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اهلبیت علیهم السلام سے اعلان محبت و ولاء هے چونکه منافق یا صلوات نه پڑھے گا یا ایسی صلوات پڑھے گا جو فائده بخش نه هوگی (یعنی ایسی صلوات ناقص هوگی) اس لئے که وه یه نهیں چاهتا که نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل نبی علیهم السلام کا ذکر عام هو، لهذأ وه ان عظیم هستیوں پر صلوات نهیں بھیج سکتا اور اس سلسله میں سرکار ختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت بھی نقل هوئی هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’اپنی آوازوں کو صلوات کے وقت بلندکرو(یعنی بلند آواز سے صلوات پڑھو) چونکه یه عمل نفاق کو ختم کرتا هے۔‘‘(۳۲)

۱۰. صلوات شیطان سے دوری کی باعث هے

هر وه شئ شریر و قبیح که جس کا تعلق جن و انس سےهو وه شیطان هے اور قرآن و حدیث اهلبیت علیهم السلام میں زیاده تر اس لفظ کا استعمال ابلیس واعوان و انصار و ذریت ابلیس کے لئے هوا هے جو که انسان کے بدن میں خون کی طرح سے دوڑتا هے اور بهترین طریقه شیطان کو دور کرنے کا محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات هے۔

جیسا که سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا که ’’شیطان دو طرح کے هیں : ایک جن کا تعلق صنف جن سے هے جو که ذکر(لا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم ) کے ذریعه سے دور هوتاهے اور دوسرا وه هے که جس کا تعلق صنف انسان سے هے که جو محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجنے کے ذریعه سے دور هوتا هے۔‘‘(۳۳)

اسی طرح ایک اور روایت سرکار ختمی مرتبت سے هے که جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’واما نفثاته(یعنی شیطان)‘‘ کیا تم جانتے هو که قرآن مجید کے بعد همارے ذکر کے علاوه (یعنی هم پر صلوات کے علاوه )که جو زیاده شفاء بخش هو پروردگار عالم نے هم اهلبیت علیهم السلام کے ذکر کو شفاء بنایا هے اور هم پر صلوات کو گناهوں کے مٹانے کا ذریعه قرار دیا هے اور عیوب سے پاکیزگی اور حسنات میں اضافه کا سبب قرار دیا هے۔(۳۴)

۱۱. قیامت کے هول ناک مناظر سے نجات کا راسته هے صلوات

سرکاردوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت هے که’’اگر کسی شخص نے مجھ پر ایک هزار مرتبه صلوات پڑھا تو اس کے مرنے سے پهلے اسے جنت کی بشارت هوگی۔‘‘(۳۵)

ایک اور حدیث میں هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’روز قیامت حوض کوثر پر ایسی قوم بھی وارد هوگی که جسے میں فقط و فقط کثرت صلوات کے ذریعه سے جانوں گا۔‘‘(۳۶)

اور ایک حدیث میں اس طرح سے هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا که ’’جو شخص مجھ پر هزار مرتبه صلوات پڑھے گا پروردگار عالم جهنم کو اس پر حرام کر دے گا اور دنیا و آخرت میں قول حق پر ثابت قدم رکھے گا، اور اسی طرح سوال و جواب کی پریشانی سے بھی نجات دےگا، اور پروردگار عالم اسے جنت میں داخل کرے گا، اور اس نے جو صلوات پڑھی هے وه پانچ سو سال کے فاصله پر پل صراط پر نور بنکر آئے گی اور اس نے جتنی بھی صلوات پڑھی هوگی پروردگار عالم هر صلوات کے عوض میں اسے جنت میں ایک محل عطا فرمائےگا، خواه صلوات کم پڑھی هو یا زیاده۔(۳۷)

۱۲. صلوات سے انسان دنیا و آخرت میں ایمان پر باقی ره سکتا هے

چونکه انسان کسی بھی وقت اضطراب و تردید و کج فکری کا شکار هو سکتا هے جو که اسے راه حق سے منحرف کر دے گی، اس لئے که صفت اطمینان بهت هی مشقتوں کے بعد حاصل هوتی هے اور پھر سب سے بڑا مسئله اس پر ثابت قدم رهنا هے، اس

لئے که تاریخ میں ایسی بهت سی شخصیات گذری هیں که جن کی ابتدا تو ایمان پر تھی اور زندگی کے ابتدائی مراحل میں راه حق پر تھے لیکن ان کی زندگی کا خاتمه کفرو نفاق پر هوا، جیسا که طلحه و زبیر و سامری وغیره۔

تو اگر هم یه چاهتے هیں که همارے دل ایمان پر ثابت رهیں اور هم اس دنیا سے مومن اٹھیں تو همارے لئے ضروری هے که هم محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھیں تاکه اس کے ذریعه سے دنیاو آخرت میں خوشبخت هو سکیں۔

۱۳. صلوات باعث شفاعت هے

یعنی محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات روز قیامت شفاعت کا ذریعه هے۔

جیسا که امام محمد باقر علیه السلام سے روایت هے که جسے آپ نے اپنے آباء و اجداد سے اور انھوں نے سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کی که سرکارختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’اگر کوئی شخص یه چاهتا هے که میں قیامت میں اس کی شفاعت کروں اور وه مجھ سے توسل کرنا چاهتا هے تو اس کے لئے ضروری هے که میرے اهلبیت پر صوالت پڑھے اور انھیں خوش رکھے۔‘‘(۳۸)

اور چونکه سب سے پهلے اور سب سے افضل شافع روز جزاء سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی هے، چونکه پروردگار عالم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مقام شفاعت عطا کیا هے( ولسوف یعطیک ربک فترضی ) (۳۹) اور عنقریب تمهارا پروردگار تمهیں اس قدر عطا کرے گا که تم خوش هو جاؤ۔

اور ایسی بهت سی روایات هیں که جن سے یه معلو م هوتا هے که اهلبیت علیهم السلام روز قیامت گناهگار شیعوں کی شفاعت کریں گے۔

جیسا که امام صادق علیه السلام سے ایک روایت هے که جس میں آپؑ نے فرمایا:’’خدا کی قسم هم قیامت کے دن اپنے گناهگار شیعوں کی شفاعت کریں گے یهاں تک که دشمن یه دیکھ کر کهے گا( فما لنا من شافعین ولا صدیق حمیم ) ‘‘(۴۰)

ایسی هی ایک حدیث سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے هے که جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے:’’عسی أن یبعثک ربک مقاما محمودا‘‘ کے ضمن میں فرمایا که یه وه مقام هے که جس میں میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا(یعنی مراد شفاعت هے)۔

جس طرح سے حق شفاعت سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حاصل هے اسی طرح حق شفاعت اهلبیت عصمت و طهاعت علیهم السلام کو بھی حاصل هے جو که روز قیامت مخلوقات پر گواه هوں گے اس لئے که یه سب ایک هی نفس هیں اور سب کے نور کو پروردگار عالم نے اپنے نور سےخلق فرمایا هے۔

اور ان میں صدیقه طاهره حضرت فاطمة الزهراء سلام الله علیها کی ذات گرامی بھی هے۔

ممکن هے که یه سوال کیا جائے که کیسے صلوات محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر موجب شفاعت هے!

تو اس کا جواب یه هوگا که ذکر صلوات سب سے افضل و بهتر هدیه هے که جو هم اهلبیت عصمت و طهارت علیهم السلام کی خدمت میں پیش کر سکتے هیں اور یه وه ذوات مقدسه هیں که جو معدن(کان) کرم هیں اور صلوات پڑھنے والے کو جس وقت سخت ضرورت هوگی (قیامت کے دن) اس وقت یه حضرات اسکی مدد کریں گے۔

۱۴. صلوات باعث قبولیت دعا هے

اگر هم یه چاهتے هیں که هماری دعائیں قبول هوں تو همارے لئے ضروری هے که هم محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجیں که محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات اور ان کے واسطه سے گذشته قوموں کی دعائیں قبول هوئی هیں اور انشاء الله اس کی تفصیل آنے والے مباحث میں ذکر کئے جائیں گے۔

موالائے کائنات علی بن ابی طالب علیهما السلام سے ایک روایت هے که آپؑ نے فرمایا:’’اگر بارگاه خداوندی میں تمهاری کوئی حاجت هے تو پهلے سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات پڑھو پراپنی حاجت طلب کرو، اس لئے که پروردگار عالم سے بعید هے که ایک حاجت کو پورا کرد ے لیکن دوسری حاجت کو پورا نه کرے۔‘‘(۴۱)

اسی طرح ایک اور روایت مولائے متقیان حضرت علی علیه السلام سے هے که آپؑ نے فرمایا:’’کوئی بھی دعا آسمان تک نهیں پهنچ سکتی مگر یه که محمدؐ و آل محمدعلیهم السلام پر صلوات پڑھی جائے۔‘‘(۴۲) (یعنی بغیر صلوات کے دعا قبول نهیں هوسکتی)۔

ایک اور روایت اسی باب میں سرکار ختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’کوئی دعا ایسی نهیں هے جس دعا میں اور آسمان کے درمیان حجاب و مانع نه هو مگر یه که محمدؐ و آل محمدعلیهم السلام پر صلوات پڑھی جائے، جیسے هی صلوات پڑھی جائے گی وه حجاب اور مانع برطرف هو جائے گا اور اگر دعا کرنے والا صلوات نهیں پڑھتا تو اس کی دعا واپس هو جاتی هے(یعنی قبول نهیں هوگی۔)‘‘(۴۳)

ایک اور روایت صادق آل محمدؐ امام صادق علیه السلام سے هے که آپؑ نے فرمایا:’’ایک شخص سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر هوا اور کهنے لگا که یا رسول الله میری ایک تهائی دعا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےفرمایا که:خیر! پھر اس شخص نے کها که یا رسول الله میری نصف دعا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا میں فرمایا که یه تو اور اچھا هے(افضل هے)، پھر اس نے کها میری ساری دعا آپ کے لئے تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: پس پروردگار عالم تمهارے دنیوی و اخروی امور و حاجات کو پورا کرے گا، پھر راوی نے کها که یه بتائیں که کیسے اس نے اپنی دعا کو سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نام کردیا؟ تو امامؑ نے جواب دیا که جب تک وه صلوات نهیں پڑھ لیتا تھا کوئی دعا مانگتا هی نهیں تھا۔‘‘(۴۴)

ایک روایت اور امام صادق علیه السلام سے هے که آپؑ نے فرمایا رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’مجھے سوار کے پیاله کے مانند قرار نه دو اس لئے که سوار(مسافر) اپنے کوزے کو بھرتاهے اور جب چاهتاهے پی لیتا هے، بلکه مجھے اول دعا،وسط دعااورآخر دعا میں یاد رکھو۔‘‘(۴۵) (یعنی جب ضرورت پڑے فقط تب یاد نه کرو بلکه همیشه یاد رکھو۔)

اور بهت سے علماء اهلسنت نے بھی ایسی روایتیں نقل کی هیں جنکا مفهوم یه هے که دعا بغیر محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پرصلوات کے قبول نهیں هو سکتی۔

جیسا که ابن حجر نے اپنی کتاب صواعق محرقه میں صفحه نمر ۸۸ پر ؛

متقی هندی اپنی کتاب کنز العمال ج ۱ ، ص ۲۱۴ پر؛

قندوزی نے ینابیع المودة میں صفحه ۲۹۵ پر؛

اسی طرح اگر کوئی مراجعه کرنا چاهتا هے تو کتاب احقاق الحق جلد ۹ ، صفحه ۶۶۵ کی طرف رجوع کر سکتا هے۔

۱۵. صلوات سے حاجتیں پوری هوتی هیں

روایات میں هے که محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات کے ذریعه سے حاجتیں پوری هوتی هیں ۔

ایک حدیث میں سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا که اگر کوئی محمد ؐ و آل محمد علیهم السلام پر ایک مرتبه صلوات پڑھے گا تو اس کی سو( ۱۰۰) حاجتیں پوری هوں گی۔(۴۶)

اور ایک روایت هے که جس میں سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’اگر کسی کی کوئی ایسی حاجت هو که جوپوری نه هو رهی هو تو اس کے لئے ضروری هے که زیاده سے زیاده محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھے، اس لئے که صلوات سے هم و غم برطرف هوتے هیں، رزق میں اضافه هوتا هے اور حاجتیں پوری هوتی هیں۔‘‘(۴۷)

اور طلب حاجت کے سلسله سے امام زین العابدین علیه السلام سے ایک دعا صحیفه سجادیه میں هے که آپؑ نے فرمایا:’’اللهم صل علی محمد وآل محمد صلاة دائمة نامیة لا انقطاع لأبدها ولا منتهی لأمدها، واجعل ذلک عوناً لي و سبباً لنجاح طلبتي انّک واسع کریم .‘‘

اور کتاب تحفةالرضویه میں یوں ذکر هے هوا هے که:دعا(اللهم صل علی فاطمة و ابیها و بعلها وبنیها بعدد ما احاط به علمک و احصاه ) مجربات میں سے هے که اسے اگر روزانه ستر مرتبه پڑھا جائے تو حاجتیں پوری هوتی هیں اور مریضوں کی شفا کا باعث هے۔(۴۸)

اور اسی طرح علماء کے نزدیک یه بھی مجرب هے که وه اپنی حاجتوں کے لئے صلوات کی نذر مانتے هیں۔

۱۶. صلوات صحت و سلامتی کی باعث هے

اگر کوئی شخص یه چاهتا هے که روحی امراض جیسے که کفر و شرک و نفاق و حسد و فسادروحانی امراض جسمانی امراض سے زیاده نقصان ده و ضرر رساں هیں چونکه یه امراض انسان کو سعادت سے محروم کردیتے هیں) وغیره اور جسمانی امراض سے محفوظ رهے تو اسے چاهئے که محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھے۔

سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’اگر کوئی شخص ایک مرتبه صلوات پڑھتا هے تو پروردگار عالم اس پر عافیت و سلامتی کا دروازه کھول دیتا هے۔‘‘(۴۹)

سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک اور روایت هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’پروردگار عالم کے نزدیک سوال عافیت سے زیاده محبوب کوئی سوال نهیں هے۔‘‘(۵۰)

ایک اور حدیث میں آیا هے که کسی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دریافت کیا که لیلة القدر میں کس شئ کے لئے دعا کریں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا که پهلے عافیت کے لئے پھر قناعت کے لئے ۔(۵۱)

پس هر انسان کے لئے ضروری هے که پروردگار عالم سے دین و دنیا میں صحت و سلامتی کے لئے دعا کرے، اور اسی سبب سے صلوات ان اذکار میں سے هے جو که موجب عافیت و سلامتی هیں، اس لئے که مریض کا اهل بیت عصمت و طهارت علیهم السلام کا ذکر کرنا گویا جسمانی و روحانی طبیب سے رابطه کرنا هے اور بارگاه پروردگار میں توسل کرنا هے تاکه خدائے وحده لاشریک شفا عطار فرمائے اور اگر کوئی شخص خود معدن رحمت تک پهنچ جائے تو پروردگار اس کے لئے باب عافیت کو کھول دیتا هے۔

هم سب کی دعا بارگاه خداوندی میں هے که (یا ولی العافیة نسألک العافیة عافیة الدین و الدنیا والآخرة بحق محمد و عترته الطاهرة

۱۷. صلوات کے ذریعه سے بھولی هوئی چیزوں کو یاد کیا جاسکتا هے

گناهوں کا ارتکاب انسان کے قلب و دماغ پر منفی اثر ڈالتا هے؛ گناه انسان کے دل کو فاسد کردیتا هے اور جو که باعث جهالت و نسیان هے اور اس کے علاج کا بهترین طریقه محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھنا هے۔

امام حسن مجتبی علیه السلام سے ایک روایت هے که جسے آپؑ نے ایک شخص کے اس سوال(که انسان کیسے چیزوں کو بھول جاتا هے، اور کیسے چیزیں یاد آتی هیں؟!) کے جواب میں فرمایا:’’انسان کا دل ایک ظرف میں هے اور اس پر پرده پڑا هوا هے پس اگر کوئی انسان محمد و آل محمد علیهم السلام پر کامل و تام صلوات پڑھتاهے تو اس سے وه پرده هٹ جاتا هے اور انسان کا دل منور هو جاتا هے تو انسان بھولی هوئی چیزوں کو یاد کرلیتا؛ یا بھولی هوئی چیزیں انسان کو یاد آجاتی هیں اور اگر اس نے صلوات نهیں پڑھی یا ناقص صلوات پڑھی تو وه پرده اس ظرف سے نهیں هٹتا اور دل تاریک هوجاتا هے جو که اس شئ کا سبب هے که انسان کو جو چیزیں یاد بھی هوتی هیں وه اسے بھی بھول جاتا هے۔‘‘(۵۲)

۱۸. صلوات فقر سے نجات کی باعث هے

انسان کی زندگی میں فقر و تنگدستی سے بهت هی سخت امتحان هوتا هے جس سے انسان گذرتا هے اور حضرت علی علیه السلام نے فرمایا: (لو کان الفقر رجلا لقتلته ) که اگر فقر انسانی شکل میں هوتا تو میں اسے قتل کر دیتا۔

اور اس سے نجات کا راسته و طریقه محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات هے۔

ایک روایت سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے هے ایک شخص نے آپ سے فقر کا گلا و شکوه کیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا که اگر تو چاهتاهے که پروردگار عالم تجھے غنی بنا دے تو تیرے لئے ضروری هے که تو مجھ پر اور میرے آل علیهم السلام پر صلوات پڑھے۔(۵۳)

اور چونکه بات فقر و تنگدستی کی هو رهی هے تو مناسب سمجھتا هوں که ایک دعا فقر سے نجات اور قرض کی ادائگی کے لئے بیان کردوں اور وه دعا بهت هی مجرب هے اور اس دعا کے سلسله سے علماء و فضلاء کا تجربه بھی هے روایت یه هے:

امام محمد باقر علیه السلام نے اپنے اباو اجداد سے انھوں نے مولائے کائنات علیه السلام سے نقل فرمایا که آپؑ نے فرمایا:’’میرے اوپر قرض تھا اور میں نے سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس کا تذکره کیا تو سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا که یه کهو:(اللهم اغنني بحلالک عن حرامک و بفضلک عمن سواک )‘‘ که اگر مانند صبیر بھی قرض هوگا تو پروردگار عالم اسے ادا کر دیگا۔(۵۴) صبر یمن میں ایک پهاڑ کانام هے که جس سے بڑا اور عظیم کوئی پهاڑ نهیں هے۔

جناب شیخ بهائی ؒ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے هیں که ایک مرتبه میرے اوپر قرض بهت هو گیا تھا جو ڈیڑ هزار مثقال سونے سے بھی زیاده تھا اور جن لوگوں سے میں نے قرض لیا تھا وه بهت زیاده تقاضا کر رهے تھے یهاں تک که میں اسکی وجه سے اپنا دوسرا کام بھی نهیں کر پایا رها تھا، اور اداء دین کے سلسله سے میرے پاس کوئی راسته بھی نهیں تھا تو میں روز نماز صبح کے بعد اس دعا کو پڑھتا تھا اور بعض اوقات دوسری نمازوں کے بعد بھی پڑھتا تھا پھر کچھ هی وقت گذرا تھا که نه جانے کیسے وه قرض ادا هوگیا میں سوچ هی نهیں سکتا تھا۔

اور اس دعا کے سلسله سے جناب سید محسن امین قدس سره فرماتے هیں که جیسے مجھے اس دعا کے سلسله سے خبر هوئی تو میں نے اس کو نمازوں میں پڑھنا شروع کردیا تو بجز بعض اوقات کے خدا کے شکر سے مجھے کبھی بھی تنگی رزق کی شکایت نهیں هوئی۔

اور بعض علماء کهتے هیں یه دعا قرض کی ادائگی کے لئے بهت هی موثر هے، جب بھی اس دعا کو پڑھا میرا قرض ایک هفته سے پهلے پهلے ادا هوگیا، اور بعض علماء کا کهنا هے که میرا سوچنا یه هے که یه سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معجزات میں سے هے۔

۱۹. صلوات باعث رحمت الهی هے

جو بھی محمدؐ و آل محمد علیه السلام پر صلوات پڑھے گا رحمت خداوندی دنیا و آخرت میں اس کے شامل حال هوگی۔

جیسا که مولائے کائنات حضرت علی علیه السلام نے خطبه میں فرمایا که:’’شهادتین(اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمد اً رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )‘‘ کے ذریعه سے جنت میں جاؤ گے اور رحمت خداوندی شامل حال هوگی پس زیاده سے زیاده محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھو۔(۵۵)

۲۰. صلوات کے ذریعه خواب میں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، امام علیه السلام یا مرده کی زیارت هوگی

یعنی صلوات کے ذریعه خواب میں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور کسی امام علیه السلام کی یا کسی میت کی زیارت کی جاسکتی هے۔جناب سید محمد باقر اصفهانی نقل کرتے هیں که عالم و فاضل جناب محمد بن سعید فرماتے هیں که میں نے یه عهد کیا که میں هر شب سونے سے پهلے محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھوں گا تو میں نے ایک شب خواب میں دیکھا که رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے کمره میں داخل هوئے تو پورا کمره حضرت کے نور سے منور هوگیا۔ اور سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کهنے لگے که وه هونٹ کهاں هے جس سے مجھ پر اور میری آل علیهم السلام پر صلوات پڑھی جاتی هے میں اس کا بوسه لینا چاهیتا هوں؛ او ر سرکار نے بوسه لیا اور چلے گئے اور جب میں بیدار هوا تو دیکھا که کمره خوشبو سے معطر هے تو میں بهت خوش هوا اور تقریباً یه خوشبو آٹھ دن تک میرے کمره میں رهی اور لوگ تعجب کے ساتھ اسے محسوس کرتے تھے۔

اسی طرح سے اگر کوئی چاهتا هے که کسی میت سے خواب میں ملاقات کرے تو اس کا راسته بھی محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات هے۔

جیسا که ایک روایت جناب ابو هشام سے هے که نقل کرتے هیں که ایک شخص امام محمد تقی علیه السلام کی خدمت میں حاضر هوا اور کهنے لگا که میرے والد کا انتقال هو گیا هے اور وه کچھ مال(ترکه) چھوڑ کر گئے هیں لیکن هم کو پته نهیں هے که وه مال کهاں هے اور مولاؑ میں آپ کے شیعوں میں سے هوں اور میرا خانواده بڑا هے میری مدد کریں تو امام علیه السلام نے فرمایا: نماز عشاء کےبعد تین مرتبه محمدؐ و آل محمد علیه السلام پر صلوات پڑھنا تو تمهارے بابا خواب میں آکر تمهیں بتائیں گے که مال کهاں هے۔ تو شخص نے ویسا که کیا جیسا امامؑ نے فرمایا تھا اور اس نے خواب میں اپنے باپ کو دیکھا که اس سے کهه رهے هیں که اے بیٹا مال فلاں جگه پر رکھا هے اسے لے لو اور امام علیه السلام کو جاکر بتا دو که میں نے تمهیں بتا دیا، تو اس شخص نے مال لیا اور اور امام علیه السلام کو جاکر بتا بھی دیا اور کها:’’الحمد لله الذی اکرمک و اصطفاک ‘‘ یعنی ساری تعریفیں اس خدا کے لئے هیں که جس نے آپ کو منتخب کیا۔(۵۶)

اسی طرح یه حکایت کی گئی هے که اگر کوئی شخص برابر اس صلوات(اللهم صل علی محمد و آله وسلم کما تحب و ترضی ) کو پڑھے گا تو اس کے ذریعه سے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کرسکتا هے۔(۵۷)

صلوات کے فوائد بطور خلاصه

۱) پروردگار عالم صلوات پڑھنے والے کی احتیاج کو پورا کر دیتا هے۔

۲) غریبوں کے لئے صلوات بمقام صدقه هے۔

۳) صلوات سبب طهارت و تذکیه نفس هے۔

۴) صلوات مجلس کی برکت کی باعث هے ورنه وه مجلس و نشست قیامت کے دن اهل مجلس کے لئے بلاء و وبال هوگی جس میں صلوات نه پڑھی جائے۔

۵) اگر انسان سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذکر کے بعد صلوات پڑھے گا تو صفت بخل اس سے دور هوگی۔

۶) صلوات پڑھنے والے راه جنت پر گامزن هیں اور نه پڑھنے والے جنت کے راسته سے منحرف هیں۔

۷) صلوات پل صراط پر نور کا باعث هے۔

۸) صلوات پرھنے والا جفاکار نهیں هے، اور جو صلوات نهیں پڑھتا گویا اس نے سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جفا کیا۔

۹) صلوات پڑھنے والے کی تعریف پروردگار عالم زمین و آسمان والوں کے سامنے کرتا هے۔

۱۰) صلوات جنت میں باعث کثرت ازواج هے اور جنت میں اعلیٰ مقام کا باعث بھی هے۔

۱۱) صلوات عطش(پیاس) کو رفع کرنے والی هے۔

۱۲) ذکر صلوات بیس غزوات کے برابر هے، بلکه اس سے بھی کهیں زیاده بهتر هے۔

۱۳) صلوات علامت هے که صلوات پڑھنے والا سنت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عمل کرنے والا هے۔

۱۴) ثواب صلوات خود صلوات پڑھنے والے کو اور اس کی اولاد کو اور جس کے لئے صلوات ایصال کی جائے سب کو پهنچے گا۔

۱۵) بعض علماء کا کهنا هے که محمد و آل محمد علیهم السلام پرصلوات سے دس کرامتیں حاصل هوتی هیں:

۱) خود پروردگار صلوات بھیجتا هے؛

۲) سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی شفاعت کریں گے؛

۳) صلوات عمل ملائکه کی پیروی هے؛

۴) صلوات منافقین و کفار کی مخالفت هے؛

۵) صلوات سے گناه مٹا دیئے جاتے هیں؛

۶) صلوات کے ذریعه حاجتیں پوری هوتی هیں؛

۷) انسان کا ظاهر و باطن منور هوتا هے؛

۸) قیامت کے هولناک مناظرسے نجات حاصل هوگی؛

۹) جنت میں داخله کا باعث هے؛

۱۰) موجب سلام پروردگار هے۔

____________________

۱ سوره احزاب، آیه ۵۶

۲ سوره انبیاء آیه ۲۰

۳ سوره احزاب، آیه ۵۶

۴ جمال الاسبوع، ۲۳۶؛ البحار ۹۴؛ ۷۲؛۶۶؛ موالی الالی۲، ۳۶؛ ۹۷

۵ ؟؟؟؟؟ ورقه میں نهیں هے۔۔۔

۶ ارشاد القلوب، ج۲، ص۳۰۲

۷ منازل الآخرة، ص۱۱۶

۸ مناقب آل ابھی طالب(ع)۳، ۱۴۳

۹ وسائل باب۱۰، من ابواب اشهداء، حدیث۲

۱۰ جیسا که بعض لوگوں کا ماننا هے که اکسیر ایسا شربت هے که جس سے حیات طولانی هوتی هے۔(معجم)

۱۱ منازل الآخرة، ص۱۱۵

۱۲ آثار و برکات امیرالمومنین(ع)، ۲۳۸

۱۳ الامتثال النبویة، ج۱، ۱۴۱

۱۴ عیوان اخبار الرضا(ع)، ۲، ۲۶۶

۱۵ الامتثال النبویة، ج۱، ۱۴۰

۱۶ کامل الزیارات،ص ۱۵۹

۱۷ کامل الزیارت، ص۳۲۲

۱۸ ثواب الاعمال و عقاب، الاعمال، ۲۴۴

۱۹ مذکوره حواله،۴۶

۲۰ جامع الاخبار، ۶۹،ج۵،۶،۷

۲۱ ثواب الاعمال و عقاب الاعمال،۴۵

۲۲ منازل الآخرة،۱۱۴

۲۳ دار السلام،۲، ۱۲

۲۴ القطرة، ج۱، باب الصلاة علی النبی واآله

۲۵ البقرة۲۲۲

۲۶ وسائل الشیعه باب۹،من ابواب الذکر، حدیث۳

۲۷ مستدر الوسائل باب۱۱، من ابواب الذکر، حدیث۵

۲۸ جمال الاسبوع، ۱۶۰

۲۹ احزاب۴۳

۳۰ ثواب الاعمال و عقاب الاعمال،۴۷

۳۱ المستدرک، باب۳۲، من ابواب الذکر، حدیث۲۰

۳۲ الوسائل، باب۳۹، من ابواب الصلاة علی محمد و آل محمد علیهم السلام، حدیث۱

۳۳ المستدرک، باب۳۱، نب ابواب الذکر، حدیث۴۱

۳۴ المسدترک، باب۲۳، من ابواب فعل لمصروف، حدیث۱

۳۵ ثواب الاعمال و عقاب الاعمال،۴۷

۳۶ مذکور حواله،ص۴۵

۳۷ ثواب اعمال و عقاب الاعمال، ص۴۵

۳۸ وسائل الشیعه، باب۴۳، من ابواب الذکر، حدیث۵

۳۹ سوره ضحی،۵

۴۰ میزان الحکمة،۵،۱۲۲

۴۱ الوسائل، باب۳۶، من ابواب الدعا، حدیث۱۸

۴۲ ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ص۴۶

۴۳ مذکوره حواله،۴۷

۴۴ الوسائل، باب۳۶، من ابواب الدعاء، حدیث۴

۴۵ مذکوره حواله، حدیث۷

۴۶ ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ص۵۰

۴۷ مذکوره حواله،ص۵۰

۴۸ التحفة الرضویة، ص۲۰۲

۴۹ المستدرک، باب۳۱، من ابواب الذکر، حدیث۱۱

۵۰ میزان الاعمال،ج۶، ص۳۸۳

۵۱ منتهی الاعمال، ج۲، ص۴۸۰

۵۲ الوسائل،۳۷، باب من ابواب الصلوات علی محمدؐ وآل محمد، حدیث۱

۵۳ لالی الدنیا،۳ ص۴۳۶

۵۴ التحفة الرضویة،۳۰

۵۵ بحارالانوار، ج۹۴، ص۴۸

۵۶ دارالسلام، ج۱، ص۳۳۸

۵۷ مذکور حواله،ج۳، ص۱۱۶

پهلی فصل

{صلوات کے بعض فوائد}

۱. صدائے خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر لبیک هے صلوات

پروردفار عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا هے:( ’’إِنَّ اَللّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى اَلنَّبِيِّ يا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلِيماً ) (۱) بیشک الله اور اس کے ملائکه رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات بھیجتے هیں تو اے صاحبان ایمان تم بھی صلوات بھیجتے رهو اور سلام کرتے رهو محمد و آل محمد علیهم السلام پر۔

سب سے پهلے اس چیز کو طے کرتے هیں که محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات کے معنی کیا هیں:

روایات میں اس امر کی تاکید ملتی هے که اگر خدا صلوات بھیجے تو اس کا مطلب رحمت هے، ملائکه بھجیں تو تذکیه هے، مومنین بھیجیں تو اس کا مطلب دعا هے۔

پس اگر خدا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات بھیجے تو اسکے معنی هیں که: خدایا همارے لئے محمدؐ و آل محمد علیهم السلام کے حقائق کو ظاهر کر اور انکے مراتب کو واضح کر۔

اور اگر ملائکه علیه السلام پر صلوات بھیجیں تو اس کے معنی هیں: محمدؐ و آل محمد علیهم السلام کے مراتب کی تقدیس و تذکیه؛ اور مومنین محمد ؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجیں تو اس کے معنی هیں:هم اپنی جگه سے بلند هو جائیں اور ان سے ملحق هو جائیں یعنی گویا یه کهتے هیں که خدایا میں محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجتا هوں تاکه میں ان کے ساتھ هو سکوں، انکی پیروی کر سکوں، انکے اخلاق و صفات سے مزین هو سکوں تاکه ظلمات و گمراهی سے باهر نکل سکوں؛ اس لئے که گمرای سے نجات محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات کے ذریعه سے ممکن هے۔

اگر هم قرآن مجید پر غور کریں تو پته چلے گا که خداوند عالم نے فرمایا هے:( یا ایها الذین آمنوا ) اے ایمان والو!؛ تو ه ان لوگوں کے لئے دعوت هے جو صفت ایمان سے متصف هو چکے هیں که وه اگر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حق کو ادا کرنا چاهتے هیں تو صلوات پڑھیں۔

لهذأ اب اگر کوئی انسان نماز میں یا نماز کے علاوه کسی اور مقام پر صلوات بھیجتا هے تو گویا وه صدائے پروردگار پر لبیک کهتا هے؛ اور اسی طرح سے خود نبی اور ملائکه اور ائمه معصومین علیهم السلام نے بھی صلوات کے سلسله میں مومنین کو کافی تاکید کی هے چونکه آخرت میں شرف و عزت اور مقام بلند و بالا صلوات کے ذریعه سے حاصل هوگا۔

بعض مومنین ایسے هیں که جو صلوات کے ذریعه سے آخرت میں ثواب کے متمنی هیں یا دنیا میں یه چاهتے هیں که انکی حاجتیں پوری هوجائیں اور انھیں رزق حاصل هو اور ان میں سے بعض وه هیں که جو اس غرض سے صلوات پڑھتے هیں که اس کے ذریعه سے حکم پروردگار عالم کا امتثال(انجام دهی) کیا جا سکے اور وه کسی بھی قسم کی جزا کے متمنی نهیں هیں۔

پس وه دعوت جو پروردگار عالم نے صلوات کے ذریعه سے دی هے، یا جو حکم پروردگار نے اس کے سلسله سے دیا هے جب وه پورا هوجائے اور اسے انجام دے دیا جائے تو پروردگار عالم بھی اپنے بندوں کو جزائے خیر سے نوازتا هے اور انکی حاجتوں کو پورا کرتا هے۔

جو آیت اوپر گذری هے اس میں بهت سے اسرار هیں اگر ان میں سے کچھ کو جاننا چاهیں تو احادیث و روایات ائمه معصومین علیهم السلام کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ ایک روایت میں هے که ایک شخص امام صأدق علیه السلام کی خدمت میں حاضر هوا اور آپ سے کها که قرآن مجید کهه رها هے که( ’’یسبحون اللیل والنهار لا یفترون ) (۲) ؛ دن رات اسکے تسبیح کرتے هیں اورسستی کا بھی شکار نهیں هوتے هیں اور دوسری آیت میں هے:’’( إِنَّ اَللّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى اَلنَّبِيِّ يا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلِيماً ) (۳) پس یه دونوں چیزیں کیسے ممکن هیں که فرشتے صبح و مساء تسبیح بھی کرتے رهتے هیں، ایک لمحه کے لئے تسبیح پروردگار سے غافل بھی نهیں هوتے، تسبیح ترک بھی نهیں کرتے اور محمد ؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھی بھیجتے هیں؟؟؟!!

تو امام صادق علیه السلام جواب دیتے هیں:’’جب پروردگار عالم نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خلق فرمایا تو فرشتوں کو حکم دیا که جتنا وقت صلوات بھیجنے میں لگتا هے اتنا میرے ذکر میں سے کم کرو ؛ پس اگر کوئی انسان نماز میں یه کهے که صل الله علی

محمد؛ تو گویا یه ایسا هے که اس نے کها هو ’’سبحان الله والحمد لله ولا اله الا الله والله اکبر ‘‘(۴)

ایک روایت یه بھی کی گئی هے که سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کسی نے پوچھا که اس آیت( ’’إِنَّ اَللّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى اَلنَّبِيِّ يا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلِيماً ) کا کیا مطلب هے۔؟؟؟

تو سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’یه شئ علم مکنون(مخفی علم) میں سے هے اور اگر تم اس کے بارے میں سوال نه کرتے تو میں بتاتا بھی نهیں، پروردگار عالم نے میرے لئے دو فرشتوں کو مقرر کیا هے که جب بھی مجھے کوئی مسلم یاد کرکے میرے اوپر صلوات بھیجتا هے تو وه دونوں فرشتے کهتے هیں که پروردگار تیری مغفرت کرے تو پروردگار اور اس کے دیگر فرشتے آمین کهتے هیں اور جب کسی مقام پر میرا تذکره هوتا هے اور کوئی میرے اوپر صلوات نهیں بھیجتا تو وه دونوں فرشتے کهتے هیں که خدا تیری مغفرت نه کرے تو خدا اور اسکے فرشتے آمین کهتے هیں۔(۵)

اور اسی طرح سے ایک روایت جناب علامه مجلسیؒ نے اپنی کتاب بحار میں امام صادق علیه السلام سے نقل فرمائی هے که امام علیه السلام اپنے آباء و اجدادسے اور وه امیرالمومنین علیه السلام سے نقل فرماتے هیں که مولائے کائنات علیه السلام نے اس یهودی کے جواب میں فرمایا جس نے آپ سے سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فضیلت تمام انبیاء پر دریافت کی؛ یهودی کهتا هے که پروردگار عالم نے جناب آدم علیه السلام کے لئے فرشتوں سے سجده کرایا تو مولائے کائنات علیه السلام نےفرمایاکه پروردگار نے سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس بھی بهتر شئ عطاکی هے وه یه هے که پروردگار رب العزت نے خود سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات بھیجی هے اور فرشتوں کو حکم دیا هے که ان پر صلوات بھیجیں اور تمامی مخلوقات کو اس بات کا حکم دیا هے که ان کی ذات مقدسه پر قیامت تک صلوات بھیجیں ؛ پروردگار عالم نے فرمایا:( إِنَّ اَللّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى اَلنَّبِيِّ يا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلِيماً ) پس اگر کوئی بھی سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبه میں یا بعد وفات صلوات بھیجتا هے تو پروردگار عالم اس کے اوپر دس مرتبه صلوات بھیجتا هے اور هر صلوات کے بدله میں دس نیکیاں عطا کرتا هے اور اگر کوئی سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد ان پر صلوات بھیجتا هے تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کی خبر هوتی هے اور وه اس کو ویسی هی اس کے سلام کا جواب بھی

دیتے هیں اس لئے که پروردگار عالم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی امت کی دعا کو اس وقت تک قبول نهیں فرماتا جب تک که وه آپ پر صلوات نه بھیجیں لهذأ یه فضیلت تو اس سے بھی افضل و اعظم هے جو که جناب آدم علیه السلام کو دی گئی هے۔(۶)

۲. صلوات حسنات و درجات میں اضافه کا سبب هے

سوال یه هے که صلوات کے ذریعه سے حسنات و درجات میں اضافه کیسے هوتا هے؟

اس کے جواب میں هم یه کهه سکتے هیں که والله العالم هر ذکر کی یه خاصیت هوتی هے که جب بھی انسان اس ذکر کو بجالاتا هےتو اس کے درجات بلند هوتے هیں، حسنات میں اضافه هوتا هے اور اس طرح سے همارا محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجنا گویا ایسا هے جیسے هم خدا کی عباست کررهے هوں، اسکا ذکر کیا هو، اور حکم پروردگار عالم کو انجام دیا هو۔

ایک حدیث سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یوں نقل هوئی هےکه آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’اگر میرا امتی مجھ پر ایک مرتبه صلوات بھیجتا هے تو اس کے لئے دس( ۱۰) نیکیاں لکھی جاتی هیں اور دس گناه محو(مٹا) کر دیئے جاتےهیں۔‘‘

اسی طرح حضرت سے یه بھی روایت نقل کی گئی هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’جب میں شب معراج آسمان پر پهنچا تو میں نے ایک فرشته کو دیکھا که جس کے هزار هاتھ تھے اور هر هاتھ میں هزار انگلیاں تھیں جو که حساب و کتاب میں مشغول تھا تو میں نےجبرئیلؑ سے سوال کیا که یه فرشته کون هے؟ اور یه کیا شمار کر رها هے؟ تو جبرئیل نے جواب دیا که اس فرشته کو اس امر په مقرر کیا گیا هے که وه بارش کے قطرات کو شمار کرے که آسمان سے بارش کے کتنے قطرے زمین پر گرتے هیں۔پھر میں نے اس فرشته سے کها که: کیا تم جانتے هو که جب پروردگار رب العزت نے اس دنیا کو خلق فرمایا هے تب سے لیکر آج تک کتنے قطرے زمین پر گرے ؟ تو اس فرشته نے جواب دیا که یا رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس خدائے وحده لا شریک کی قسم جس نے حق کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس دنیا میں بھیجا هے آپ نے جو کها میں اس کو بھی جانتا هوں اور یه بھی جانتا هوں که کتنے قطرے آبادی میں گرے اور کتنے صحراء میں اور کتنے باغات میں گرے اور کتنے بنجر زمین پر اور کتنے قطرے قبروں (قبرستانوں) پر گرے هیں؛ تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: که مجھے اس فرشته کے حساب وکتاب اور اس کے حافظه پر تعجب هوا، فرشته کهتا هے یا رسول

اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یه حق هے که مجھے یه سب یاد هے اور میرے اتنے هاتھ اور اتنی انگلیاں هیں لیکن اس کے باوجود ایک چیز ایسی هے جس کے حساب سے میں عاجز هوں که میں اس کا حساب نهیں لگا سکتا، تو میں نے کها: وه کون سی چیز هے ؟ تو فرشه نے جواب دیا که جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے امتی کسی مقام پر جمع هوتے هیں اور(وهاں پر) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا تذکره کرتے هیں اور جیسے هی انکے سامنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا نام آتا هے تو وه (سب مل کر) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی پر صلوات بھیجتے تو میں انکے ثوابکو شمار نهیں کر پاتا۔!‘‘(۷)

۳. صلوات تکمیل نماز کی باعث هے

یعنی جب تک نماز میں صلوات نه بھیجی جائے نماز مکمل نهیں هوتی۔

روایت میں اس طرح وارد هوا که محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات نماز کی تکمیل کا باعث(یعنی بغیر صلوات نماز نامکمل هے)؛ جس طرح سے روزه بغیر زکات(فطره) کے نامکمل هے اور اگر کوئی عمداً زکات فطره ادا نه کرے اس کا روزه قابل قبول نهیں هے اسی طرح سے محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات نماز کا اهم جزء هے که جسکی ادائگی کے بغیر نماز نامکمل هے، اس لئے که اگر کسی شخص نے نماز تو ادا کی لیکن عمداً محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات نه بھیجی تو گویا اس کی نماز هی نهیں هوئی؛ اور ایسی صورت میں نماز قابل قبول نهیں هے اور اس کی(صلوات) تاکید امام صادق علیه السلام کی اس روایت سے هوتی هے که آپ علیه السلام نے فرمایا:’’روزه زکات فطره کی ادائگی سے مکمل هوتا هے جس طرح نماز محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات سے مکمل هوتی هے، پس اگر کوئی شخص روزه رکھے اور عمداً زکات فطره ادا نه کرے تو اس کا روزه قابل قبول هی نهیں هے اسی طرح سے اگر کوئی نماز پڑھے اور عمداً محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات نه بھیجے تو اس کی نماز قابل قبول نهیں هے۔!‘‘(۸)

اور ایک روایت یوں بھی هے که امام زین العابدین علیه السلام سے کسی نے سوال که نماز کیسے مکمل هوتی هے تو آپ علیه السلام نے فرمایا: ’’محمد ؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات کے ذریعه۔‘‘(۹)

۴. صلوات سنگینی میزان کا باعث هے

روایات میں وارد هوا که میزان اعمال میں سب سے سنگین شئ جو هوگی وه محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات هوگی۔

ایک حدیث میں هے که: قیامت کے دن ایک شخص کو جهنم میں جانے کا حکم دیا جائگا تووه کهے گا که میری شفاعت کریں تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کهیں گے که اس کو دوباره میزان کی طرف لے جاؤ اور جب وه میزان کی طرف پلٹایا جائےگا تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میزان پر چونٹی جیسی کوئی شئ رکھیں گے اور وه شئ محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات هوگی اور اس کا میزان اس کی نیکیوں (محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات) کی بنا پر سنگین هو جائے گااور ایک آواز آئے گی فلاں شخص کامیاب هو گیا۔

اسی طرح سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایکی روایت نقل هوئی هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’میں روز قیامت میزان کے پاس هوں گا تاکه اگر کسی کے گناه اس کی نیکوں پر غالب آجائیں (یعنی گناه زیاده هوئے) تو میں اس کی نیکیوں میں صلوات کا اضافه کر دوں گا که جس سے اس کی نیکیاں اور حسنات زیاده هو جائیں گی اور اس صلوات کی وجه سے اسکے حسنات کا پلڑا وزنی هو جائے گا۔‘‘

ایک اور روایت میں سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےماه رمضان المبارک کے استقبال میں خطبه ارشاد فرمایا اور اس میں بیان کیا که:’’اگر کوئی شخص ماه رمضان میں میرے اوپر صلوات بھیجے گا تو جس دن(روز قیامت) تمام افراد کے میزان هلکے هوں گے ا دن اس کا میزان وزنی هوگا۔(یعنی جس دن لوگوں کے گناه انکے میزان میں زیاده هوں گے اس دن اس شخص کے میزان اعمال میں نیکیاں زیاده هوں گی اور اس کا نیکیوں والا پلڑا گنا ه والے پلڑے سے وزنی هوگا۔‘‘

۵. صلوات سب سے اٖفضل عمل هے

مستحب اعمال و اذکار کی فهرست بهت طولانی هے اور انھیں اذکار میں سے محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجنا بھی هے؛یهاں تک که روایات میں وارد هوا هے که هر جگه اور هر وقت صلوات بھیجا مستحب هے، یهاں تک که جب انسان گھر سے نکل رها هو یا داخل هو رها هو تو اس وقت بھی صلوات بھیجنا مستحب هے۔ اس لئے که جو امتیاز اور خصوصیت صلوات میں هے وه کسی ذکر میں نهیں هے۔

ایک روایت میں هے که ایک شخص طواف کر رها تھا اور اپنے طواف کو مکمل کرنے کے بعد امام علیه السلام کی خدمت میں حاضر هوا اور کهنے لگا که میں نے ذکر صلوات کے علاوه کوئی بھی ذکر ادا نهیں کیا تو امام علیه السلام نے فرمایا که کیا ذکر صلوات سے بھی افضل کوئی ذکر هے۔!

عبد السلام بن نعیم روایت نقل کرتے هیں که میں نے امام صادق علیه السلام سے کها که میں خانه خدا میں طواف کے لئے داخل هوا تو اس وقت سوائے ذکر صلوات کے مجھے کچھ اور یاد نهیں تھا تو امام علیه السلام نے فرمایا که تو سب سے افضل ذکر بجالایا هے۔

ایک عظیم مجتهد و مرجع جب فقهی بحث کے دوران اس حدیث سے گذرتے هیں تو کهتے هیں که اس حدیث کے سبب سے میں یه فتوی دیتا هوں که سب سے افضل عمل اور سب سے افضل ذکر اور سب سے افضل مستحب عمل، محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجنا هے اور یه ذکر اکسیر اعظم هے۔(۱۰)

اسی طرح ایک روایت سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سےنقل هوئی هے که جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’میں نے خواب میں دیکھا که میں اپنے چچا جناب حمزه بن عبد المطلبؑ اور اپنے بھائی جعفر بن ابی طالبؑ کے ساتھ هوں اور انکے سامنے ایک ظرف میں بیر رکھی تھی، کچھ دیر اس کو کھاتے رهے پھر وه بیر انگور میں تبدیل هو گئی اور اسے بھی کچھ دیر کھاتے رهے پھر هر انگور انکے لئے کھجور میں تبدیل هو گیا اور اسے بھی کچھ دیر تک کھاتے رهے تو میں انکے قریب گیا اور ن سے کها که آپ کو میرے بابا کا واسطه یه بتائیں که آپ نے کس عمل کو سب سے افضل پایا؟ تو انھوں نے کها که همارے آباء و اجداد آپ پر فدا هوں سب سے افضل عمل آپ پر صلوات بھیجنا هے، اور پانی پلانا اور محبت علی بن ابی طالب علیهما السلام۔‘‘(۱۱)

سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک روایت نقل هوئی هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مولائے کائنات علیه السلام سے فرمایا که:

’’اے علیؑ کیا آپ کو معلوم هے که جس رات میں آسمان پر گیا تو آپ کے بارے میں ملأ اعلی میں کیا سنا؟! اے علیؑ میں نے سنا که اهل آسمان خدا کو آپ کی قسم دے رهے تھے اور آپ کے واسطه اور وسیله سے اپنی حاجتوں کو طلب کر رهے تھے اور آپ کی محبت کے ذریعه سے تقرب الهی کے خواهاں تھے اور سب سے بهتر چیز جس کے ذریعه سے وه خدا کی عبادت کر رهے تھے وه همارے اور آپ کے اوپر صلوات تھی۔‘‘(۱۲)

اگر دیکھا جائے تو حقیقت میں یه حدیث کتنی عظیم هے اور اس کے ذریعه سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مولائے کائنات علیه السلام کی عظمت واضح هوتی هے، پس همارے لئے ضروری هے که هم مولائے کائنات علیه السلام کے ذریعه سے پروردگار رب العزت سے سوال کریں که پروردگار همیں مولاؑ کے شیعه اور موالی میں قرار دے۔

ایک اور روایت میں هے که ایک شخص نے امام صادق علیه السلام سے پوچھا که سب سے افضل عمل کیا هے؟ تو آپ نے فرمایا:’’محمدؐ و آل محمد علیهم السلامپر سو مرتبه نماز عصر کے بعد صلوات بھیجنا سب سے افضل عمل هے؛ اور جتنا زیاده صلوات پڑھ سکتے هو اتنا بهتر هے۔‘‘

هو سکتا هے کوئی یهاں پر یه کهے که افضل اعمال کو کیسے معین کیا جائے؛ اس لئے که ایسی روایتیں بهت سی هیں جس میں الگ الگ چیزوں کو افضل عمل بتایا گیا هے۔

مثلاً ایک حدیث میں رسول اسلام سے اس طرح منقول هے که سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’میری امت کا سب سے افضل عمل امام عصر علیه السلام کا انتظار هے۔‘‘(۱۳)

دوسری روایت میں سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس طرح سے نقل کیا گیا هے که ’’افضل عمل ورعحرام سے اجتناب) هے۔‘‘(۱۴) اور بعض روایتوں میں اس طرح سے نقل هے که ابن عباس نے سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا که افضل عمل کیا هے؟ تو سرکار نے جواب دیا جس میں سختی اور مشقت زیاده هو۔(۱۵) اسی طرح امام صادق علیه السلام سے روایت هے که جس میں آپ علیه السلام نے فرمایا:’’سب سے افضل عمل امام حسین علیه السلام کی زیارت هے۔‘‘(۱۶)

اور ایک روایت امام محمد تقی علیه السلام سے هے که جس میں آپ سے سوال کیا گیا که امام رضا علیه السلام کی زیارت افضل هے یا امام حسین علیه السلام کی؟ تو آپ نے فرمایا: میرے بابا کی زیارت زیاده با فضیلت هے اور وه اس لئے که ابو عبد الله الحسین علیه السلام کی زیارت تمامی لوگ کرتے هیں، لیکن میرے بابا کی زیارت فقط مخلص شیعه هی کرتے هیں(یا فقط خاص شیعه هی کرتے هیں)۔‘‘(۱۷)

تو اس کا جواب یه هے که یه سارے اختلافات جو حدیث میں موجود هیں ان سب کاتعلق خودِ اس عمل هے اور اس عمل سے هے جو اس شئ سے متعلق هے۔

مثلاً انتظار فرج که جسے افضل عمل بتایا گیا وه اس زمانه غیبت اما م علیه السلام میں عملی لحاظ سے (یعنی غیبت کے زمانه میں سب سے افضل عمل انتظار فرج هے) اور ورع کو سب سے افضل قرر دیا گیا هے اعمال کے نتائج کے لحاظ سے ، اس لئے که برے اعمال کا نتیجه بهت سخت هوگا۔

اور یه جوذکر هوا که جس عمل میں زیاده مشقت و دشواری هو وه زیاده با فضیلت هے تو وه اس لئے هے که انسانی اعمال کو مد نظر رکھتے هوئے کها گیا هے انسانی اعمال کی به نسبت جن اعمال میں مشقت زیاده هو وه افضل هے۔

اور امام حسین علیه السلام کی زیارت ان سب سے زیاده افضل هے کیوں که آپ اور آپکے اهلبیت کو بے دردی کے ساتھ شهید کیا گیا۔

اور زیارت امام رضا علیه السلام سید الشهداء کی زیارت سے اس وجه سے افضل هے چونکه امام حسین علیه السلام کی زیارت کرنے والے بهت لوگ هیں لیکن امام رضا علیه السلام کے زوّار کی تعداد کم هے تو ائمه معصومین علیهم السلام نے یه سوچا که لوگوں کو زیارت امام رضا علیه السلام کی طرف متوجه کریں۔

اور اس تحریر و بیان کے بعد یه بات واضح هو جاتی هے که کیا سبب هے که محمد ؐو آل محمدعلیهم السلام پر صلوات سب سے افضل و با فضیلت عمل هے اور وه سبب یه هے که صلوات سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اور انکے اهلبیت علیهم السلام سے رابطه هے، اس لئے که صلوات عبد و معبود کے درمیان ایک طرح کا رابطه هے، چونکه صلوات دعا و مناجات هے، هم صلوات میں کهتے هیں: اللهم، اوراس کی اصل هے ’’یا الله‘‘، اور اس کے معنی یه هوئے که پروردگار محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر رحمت نازل کر اور انکے ذکر کو بلند کر....

اور اس کے بعد محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات اس رابطه و محبت و ولاء کو ظاهر کرتی هے جو انسان اور محمدؐ و آل محمد علیهم السلام کے درمیان هے ، یعنی صلوات انسان کی محمدؐ و آل محمد علیهم السلام سے محبت و ولاء کی دلیل هے۔

۶. صلوات گناهوں کا کفاره هے

انسان چونکه معصوم نهیں هے لهذ گناه کرتا هے، پروردگار قهار کی معصیت کرتا رهتا هے لهذأ اس کے نامه اعمال میں گناه بهت هیں۔ اور هو سکتا هے که اتنے زیاده گناه هوں که جنکی تلافی انسان کے لئے ممکن نه هو، لیکن سب سے آسان و بهتر طریقه گناهوں کی معافی کا اور گناهوں کا کفاره محمدؐ و آل محمدعلیهم السلام پر صلوات هے۔

اور اس سلسله میں امام رضا علیه السلام سے روایت بھی موجود هے که اگر کوئی انسان گناهوں کے کفاره کے قدرت نه رکھتا هو تو زیاده سے زیاده محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجے، کیونکه صلوات گناهوں کو منهدم کر دیتی هے۔(۱۸)

اور اسی ضمن میں ایک روایت مولائے کائنات علیه السلام سے بھی هے که جس میں آپ نے فرمایا:’’که جتنی جلدی پانی آگ کو خاموش کردیتا هے اس سے بھی تیز صلوات گناهوں کو محو کردیتی هے۔‘‘(۱۹)

اور ایک روایت سرکار دو عالم سے بھی هے که جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’اگر کوئی شخص میرے اوپرایک مرتبه بھی صلوات بھیجتا هے تو اس کے گناه ختم هو جاتے هیں(یعنی ذره برابر بھی اس کے گناه باقی نهیں ره جاتے۔)‘‘(۲۰)

اسی طرح ایک دوسری روایت میں سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت هے که’’اگر کوئی انسان مجھ پر صبح میں دس مرتبه صلوات بھیجتا هے تو اس کے چالیس سال کے گناه معاف هو جاتے هیں۔‘‘(۲۱)

اور ایک دوسری روایت میں کچھ اس طرح سے ذکر هے که:’’اگر کسی شخص نے میری محبت میں دن میں تین مرتبه مجھ پر صلوات بھیجاتو پروردگار عالم کے اوپر اس کا حق یه هے که اس کے اس دن و رات کے گناهوں کو معاف کر دے۔‘‘(۲۲)

جناب محمد نوریؒ فرماتے هیں که بلاواسطه جناب شیخ زین الدین نے نقل کیا هے که میں نے خواب میں امام زین العابدین علیه السلام کو دیکھا تو زاد آخرت کے سلسله میں شکوه کیا که اس کا انتظام کیسے کیا جائے؟ توبه و استغفار کی توفیق کیسے حاصل هو ؟ اعمال صالحه کیسے بجا لائے جائیں؟ تو امام سجاد علیه السلام نے جواب دیا که تمهاری ذمه داری هے که تم زیاده سے زیاده صلوات پڑھو اور هم اس کا عوض قیامت کے دن تم کو عطا کریں گے۔(۲۳)

ایک بهترین واقعه

ایک خاتون کا انتقال هوا اور وه گنهگار تھی اور اس کی قبر میں اس پر عذاب هوتا هے، لیکن بعض اولیاء اور صلوات پڑھنے والے لوگ قبرستان میں داخل هوئے اور اس کی قبر تک پهنچے اور صلوات بھیجا’’اللهم صل محمد و علی آل محمد ‘‘،تو انھوں نے خواب میں اس خاتون کو دیکھا که وه یه خوش خبری دے رهی تھی که ولو یه که عذاب بهت هی سخت تھا لیکن جیسے هی محمدو آل محمد علیهم السلام کا ذکر هواتو نداء آئی که اب اس پر عذأب نه کرو؛ کیا محمد و آل محمد علیهم السلام کا ذکر نهیں هوا!؟(۲۴)

پس نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور انکے اهلبیت علیهم السلام تمام عالمین اور ساری بشریت کے لئے رحمت بن کر آئے هیں؛پس هم اپنی ولایت اور طاعت اهلبیت علیهم السلام سے اور انکے دشمنوں کی برأت کے ذریعه سے دنیا و آخرت میں کامیاب هوکر بارگاه رب العزت سے قریب هو سکتے هیں اور فقط اتنا هی نهیں هے بلکه وه صلوات که جسے هم محمد و آل محمد علیهم السلام پر بھجتے هیں پروردگار عالم نے اسے همارے گناهوں کا کفاره قراردیا هے اور اسے هماری طهارت کی دلیل بنائی هے جیسا که زیارت جامعه میں ذکر هے جو که امام علی نقی علیه السلام سے نقل هوئی هے...

پس همارے لئے ضروری هے که هم هر وقت اور هر جگه محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجیں۔

۷. صلوات محبت و قرب پروردگار اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کیئے هوئے سلام کے جواب کا ذریعه هے

صلوات انسان کی روحی طهارت کا سبب بھی هے، اور وه لوگ جو که پاک هیں وهی بارگاه خداوندی سے نزدیک هیں که پروردگار عالم نے فرمایا:( إِنَّ اَللّهَ يُحِبُّ اَلتَّوّابِينَ وَ يُحِبُّ اَلْمُتَطَهِّرِينَ ) (۲۵) خداوند توبه کرنے اور پاکیزه رهنے والوں کو دوست رکھتاهے۔

اور کتاب وسائل الشیعه میں امام علی نقی علیه السلام سے ایک روایت هے که آپ نے فرمایا:’’پروردگار عالم نے جناب ابراهیم علیه السلام کو خلیل اس لئے بنایا که وه محمد و آل محمد علیهم السلام پر بهت صلوات پڑھتے تھے۔‘‘(۲۶)

اور جناب عمار یاسر نقل فرماتے هیں که میں نے سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فرماتے سنا هے که ایک فرشته کو ان تمام مخلوقات کے اسماء دے دئے گئے هیں اور جب میں اس دنیا سے رخصت هو جاؤں گا تووه فرشته قیامت تک میری قبر پر هوگا، اور جب بھی کوئی مجھ پر صلوات پڑھے گا تو وه فرشته مجھے خبر دے گا که فلاں بن فلاں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایسے ایسے صلوات پڑھی هے ؛ اور میرے خدا نے اس بات کی ذمه داری لی هے که وه اس عبد پر هر صلوات کے بدلے دس مرتبه صلوات بھیجے(یعنی رحمت نازل کرے)؛(۲۷) اور جب بھی کوئی انسان سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سلام کرتا هے تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کا جواب دیتے هیں اور سرکار ختمی مرتبت کے سلام سے افضل کس کا سلام هوگا اوروه پروردگار کے سفیروں میں سب سے نزدیک ترین سفیر هیں۔

جیسا که ایک روایت محمد بن مروان سے نقل هوئی هے که امام صادق علیه السلام نے فرمایا:’’پروردگا ر عالم نے ظهیللنامی ایک فرشته قبر سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرمقرر کیا هے که جس کا کام یه هے که جب بھی تم میں سے کوئی انسان سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود و سلام بھیجتا هے تو وه فرشته سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کهتا هے که یا رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فلاں شخص نے آپ پر صلوات پڑھی هے اور سلام بھیجا هے تو امام علیه السلام کهتے هیں که نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کا جواب بھی دیتے هیں۔‘‘(۲۸)

۸. صلوات تاریکوں سے نکل کر نور کی طرف جانے کا ذریعه هے

بهت سی تاریکیاں ایسی هیں که جن میں انسان مبتلاء هے،گرفتار هے اور جس سے نجات بهت مشکل هے؛ مثلاً شیطانی افکار، برے اخلاق کی تاریکی،گناه کی تاریکی، اس لئے که انسان سے جب بھی کوئی گناه سرزد هوتا هے تو وه اس کے نامه اعمال کو سیاه کر دیتا هے اور اس کے دل کو بھی سیاه و تاریک کر دیتا هے؛ گویا انسان کا قلب ایک ورق کی مانند هے که انسان جتنا زیاده سےزیاده گناه کرتا هے وه ورق بھی اتنا هی سیاه هوتا جاتا هے۔

اور پروردگار عالم نے اپنے لطف و کرم و احسان سے همارے لئے ایک راسته ایسا بنایا هے که جس سے هم تاریکوں سے نکل سکتے هیں اور وه وسیله و راسته محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجنا هے۔

جیسا که ایک روایت وارد هوئی هے که جناب اسحاق بن فروغ سے امام صادق علیه السلام فرماتے هیں که’’سے اسحاق بن فروغ اگرکوئی شخص دس مرتبه محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجتا هے تو خدا اور اسکے فرشتے اس کے اوپر هزار مرتبه صلوات بھیجتے هیں که تم نے پروردگار عالم کا یه فرمان نهیں سنا( هُوَ اَلَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَ مَلائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ اَلظُّلُماتِ إِلَى اَلنُّورِ وَ كانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيماً ) (۲۹) وہی وہ ہے جو تم پر رحمت نازل کرتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی منزل تک لے آئے اور وہ صاحبان ایمان پر بہت زیادہ مہربان ہے۔

تو اس حدیث کا مطلب یه هے که محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجنے والے کی شان عظیم هے اور وه یه هے که خود خدا اور ملائکه صلوات بھیجتے هیں اور جس کے اوپر خدا صلوات بھیجے قطعاً اسے تاریکیوں سے باهر نکال دے گا۔

سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک حدیث هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’میرے اوپر زیاده سے زیاده صلوات پڑھو اس لئے که میرے اوپر صلوات قبر و صراط و جنت کا نور هے۔‘‘(۳۰)

اور ایک روایت میں هے که سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’اگر کوئی شخص میرے اوپر صلوات پڑھتا هے تو پروردگار اس

کے سر پر دائیں جانب، بائیں جانب اور اوپر، نیچے نور خلق فرماتا هے بلکه اس کے هر عضو کے لئے نور خلق کر دیتاهے۔‘‘(۳۱)

۹. صلوات نفاق کے خاتمه کی باعث هے

محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات کی ایک خصوصیت یه بھی هے که وه نفاق کو ختم کر دیتی هے، اس لئے که صلوات یعنی سرکاردوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اهلبیت علیهم السلام سے اعلان محبت و ولاء هے چونکه منافق یا صلوات نه پڑھے گا یا ایسی صلوات پڑھے گا جو فائده بخش نه هوگی (یعنی ایسی صلوات ناقص هوگی) اس لئے که وه یه نهیں چاهتا که نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل نبی علیهم السلام کا ذکر عام هو، لهذأ وه ان عظیم هستیوں پر صلوات نهیں بھیج سکتا اور اس سلسله میں سرکار ختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت بھی نقل هوئی هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’اپنی آوازوں کو صلوات کے وقت بلندکرو(یعنی بلند آواز سے صلوات پڑھو) چونکه یه عمل نفاق کو ختم کرتا هے۔‘‘(۳۲)

۱۰. صلوات شیطان سے دوری کی باعث هے

هر وه شئ شریر و قبیح که جس کا تعلق جن و انس سےهو وه شیطان هے اور قرآن و حدیث اهلبیت علیهم السلام میں زیاده تر اس لفظ کا استعمال ابلیس واعوان و انصار و ذریت ابلیس کے لئے هوا هے جو که انسان کے بدن میں خون کی طرح سے دوڑتا هے اور بهترین طریقه شیطان کو دور کرنے کا محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات هے۔

جیسا که سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا که ’’شیطان دو طرح کے هیں : ایک جن کا تعلق صنف جن سے هے جو که ذکر(لا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم ) کے ذریعه سے دور هوتاهے اور دوسرا وه هے که جس کا تعلق صنف انسان سے هے که جو محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجنے کے ذریعه سے دور هوتا هے۔‘‘(۳۳)

اسی طرح ایک اور روایت سرکار ختمی مرتبت سے هے که جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’واما نفثاته(یعنی شیطان)‘‘ کیا تم جانتے هو که قرآن مجید کے بعد همارے ذکر کے علاوه (یعنی هم پر صلوات کے علاوه )که جو زیاده شفاء بخش هو پروردگار عالم نے هم اهلبیت علیهم السلام کے ذکر کو شفاء بنایا هے اور هم پر صلوات کو گناهوں کے مٹانے کا ذریعه قرار دیا هے اور عیوب سے پاکیزگی اور حسنات میں اضافه کا سبب قرار دیا هے۔(۳۴)

۱۱. قیامت کے هول ناک مناظر سے نجات کا راسته هے صلوات

سرکاردوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت هے که’’اگر کسی شخص نے مجھ پر ایک هزار مرتبه صلوات پڑھا تو اس کے مرنے سے پهلے اسے جنت کی بشارت هوگی۔‘‘(۳۵)

ایک اور حدیث میں هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’روز قیامت حوض کوثر پر ایسی قوم بھی وارد هوگی که جسے میں فقط و فقط کثرت صلوات کے ذریعه سے جانوں گا۔‘‘(۳۶)

اور ایک حدیث میں اس طرح سے هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا که ’’جو شخص مجھ پر هزار مرتبه صلوات پڑھے گا پروردگار عالم جهنم کو اس پر حرام کر دے گا اور دنیا و آخرت میں قول حق پر ثابت قدم رکھے گا، اور اسی طرح سوال و جواب کی پریشانی سے بھی نجات دےگا، اور پروردگار عالم اسے جنت میں داخل کرے گا، اور اس نے جو صلوات پڑھی هے وه پانچ سو سال کے فاصله پر پل صراط پر نور بنکر آئے گی اور اس نے جتنی بھی صلوات پڑھی هوگی پروردگار عالم هر صلوات کے عوض میں اسے جنت میں ایک محل عطا فرمائےگا، خواه صلوات کم پڑھی هو یا زیاده۔(۳۷)

۱۲. صلوات سے انسان دنیا و آخرت میں ایمان پر باقی ره سکتا هے

چونکه انسان کسی بھی وقت اضطراب و تردید و کج فکری کا شکار هو سکتا هے جو که اسے راه حق سے منحرف کر دے گی، اس لئے که صفت اطمینان بهت هی مشقتوں کے بعد حاصل هوتی هے اور پھر سب سے بڑا مسئله اس پر ثابت قدم رهنا هے، اس

لئے که تاریخ میں ایسی بهت سی شخصیات گذری هیں که جن کی ابتدا تو ایمان پر تھی اور زندگی کے ابتدائی مراحل میں راه حق پر تھے لیکن ان کی زندگی کا خاتمه کفرو نفاق پر هوا، جیسا که طلحه و زبیر و سامری وغیره۔

تو اگر هم یه چاهتے هیں که همارے دل ایمان پر ثابت رهیں اور هم اس دنیا سے مومن اٹھیں تو همارے لئے ضروری هے که هم محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھیں تاکه اس کے ذریعه سے دنیاو آخرت میں خوشبخت هو سکیں۔

۱۳. صلوات باعث شفاعت هے

یعنی محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات روز قیامت شفاعت کا ذریعه هے۔

جیسا که امام محمد باقر علیه السلام سے روایت هے که جسے آپ نے اپنے آباء و اجداد سے اور انھوں نے سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کی که سرکارختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’اگر کوئی شخص یه چاهتا هے که میں قیامت میں اس کی شفاعت کروں اور وه مجھ سے توسل کرنا چاهتا هے تو اس کے لئے ضروری هے که میرے اهلبیت پر صوالت پڑھے اور انھیں خوش رکھے۔‘‘(۳۸)

اور چونکه سب سے پهلے اور سب سے افضل شافع روز جزاء سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات گرامی هے، چونکه پروردگار عالم نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مقام شفاعت عطا کیا هے( ولسوف یعطیک ربک فترضی ) (۳۹) اور عنقریب تمهارا پروردگار تمهیں اس قدر عطا کرے گا که تم خوش هو جاؤ۔

اور ایسی بهت سی روایات هیں که جن سے یه معلو م هوتا هے که اهلبیت علیهم السلام روز قیامت گناهگار شیعوں کی شفاعت کریں گے۔

جیسا که امام صادق علیه السلام سے ایک روایت هے که جس میں آپؑ نے فرمایا:’’خدا کی قسم هم قیامت کے دن اپنے گناهگار شیعوں کی شفاعت کریں گے یهاں تک که دشمن یه دیکھ کر کهے گا( فما لنا من شافعین ولا صدیق حمیم ) ‘‘(۴۰)

ایسی هی ایک حدیث سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے هے که جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے:’’عسی أن یبعثک ربک مقاما محمودا‘‘ کے ضمن میں فرمایا که یه وه مقام هے که جس میں میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا(یعنی مراد شفاعت هے)۔

جس طرح سے حق شفاعت سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حاصل هے اسی طرح حق شفاعت اهلبیت عصمت و طهاعت علیهم السلام کو بھی حاصل هے جو که روز قیامت مخلوقات پر گواه هوں گے اس لئے که یه سب ایک هی نفس هیں اور سب کے نور کو پروردگار عالم نے اپنے نور سےخلق فرمایا هے۔

اور ان میں صدیقه طاهره حضرت فاطمة الزهراء سلام الله علیها کی ذات گرامی بھی هے۔

ممکن هے که یه سوال کیا جائے که کیسے صلوات محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر موجب شفاعت هے!

تو اس کا جواب یه هوگا که ذکر صلوات سب سے افضل و بهتر هدیه هے که جو هم اهلبیت عصمت و طهارت علیهم السلام کی خدمت میں پیش کر سکتے هیں اور یه وه ذوات مقدسه هیں که جو معدن(کان) کرم هیں اور صلوات پڑھنے والے کو جس وقت سخت ضرورت هوگی (قیامت کے دن) اس وقت یه حضرات اسکی مدد کریں گے۔

۱۴. صلوات باعث قبولیت دعا هے

اگر هم یه چاهتے هیں که هماری دعائیں قبول هوں تو همارے لئے ضروری هے که هم محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات بھیجیں که محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات اور ان کے واسطه سے گذشته قوموں کی دعائیں قبول هوئی هیں اور انشاء الله اس کی تفصیل آنے والے مباحث میں ذکر کئے جائیں گے۔

موالائے کائنات علی بن ابی طالب علیهما السلام سے ایک روایت هے که آپؑ نے فرمایا:’’اگر بارگاه خداوندی میں تمهاری کوئی حاجت هے تو پهلے سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر صلوات پڑھو پراپنی حاجت طلب کرو، اس لئے که پروردگار عالم سے بعید هے که ایک حاجت کو پورا کرد ے لیکن دوسری حاجت کو پورا نه کرے۔‘‘(۴۱)

اسی طرح ایک اور روایت مولائے متقیان حضرت علی علیه السلام سے هے که آپؑ نے فرمایا:’’کوئی بھی دعا آسمان تک نهیں پهنچ سکتی مگر یه که محمدؐ و آل محمدعلیهم السلام پر صلوات پڑھی جائے۔‘‘(۴۲) (یعنی بغیر صلوات کے دعا قبول نهیں هوسکتی)۔

ایک اور روایت اسی باب میں سرکار ختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’کوئی دعا ایسی نهیں هے جس دعا میں اور آسمان کے درمیان حجاب و مانع نه هو مگر یه که محمدؐ و آل محمدعلیهم السلام پر صلوات پڑھی جائے، جیسے هی صلوات پڑھی جائے گی وه حجاب اور مانع برطرف هو جائے گا اور اگر دعا کرنے والا صلوات نهیں پڑھتا تو اس کی دعا واپس هو جاتی هے(یعنی قبول نهیں هوگی۔)‘‘(۴۳)

ایک اور روایت صادق آل محمدؐ امام صادق علیه السلام سے هے که آپؑ نے فرمایا:’’ایک شخص سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر هوا اور کهنے لگا که یا رسول الله میری ایک تهائی دعا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نےفرمایا که:خیر! پھر اس شخص نے کها که یا رسول الله میری نصف دعا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا میں فرمایا که یه تو اور اچھا هے(افضل هے)، پھر اس نے کها میری ساری دعا آپ کے لئے تو سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: پس پروردگار عالم تمهارے دنیوی و اخروی امور و حاجات کو پورا کرے گا، پھر راوی نے کها که یه بتائیں که کیسے اس نے اپنی دعا کو سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نام کردیا؟ تو امامؑ نے جواب دیا که جب تک وه صلوات نهیں پڑھ لیتا تھا کوئی دعا مانگتا هی نهیں تھا۔‘‘(۴۴)

ایک روایت اور امام صادق علیه السلام سے هے که آپؑ نے فرمایا رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’مجھے سوار کے پیاله کے مانند قرار نه دو اس لئے که سوار(مسافر) اپنے کوزے کو بھرتاهے اور جب چاهتاهے پی لیتا هے، بلکه مجھے اول دعا،وسط دعااورآخر دعا میں یاد رکھو۔‘‘(۴۵) (یعنی جب ضرورت پڑے فقط تب یاد نه کرو بلکه همیشه یاد رکھو۔)

اور بهت سے علماء اهلسنت نے بھی ایسی روایتیں نقل کی هیں جنکا مفهوم یه هے که دعا بغیر محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پرصلوات کے قبول نهیں هو سکتی۔

جیسا که ابن حجر نے اپنی کتاب صواعق محرقه میں صفحه نمر ۸۸ پر ؛

متقی هندی اپنی کتاب کنز العمال ج ۱ ، ص ۲۱۴ پر؛

قندوزی نے ینابیع المودة میں صفحه ۲۹۵ پر؛

اسی طرح اگر کوئی مراجعه کرنا چاهتا هے تو کتاب احقاق الحق جلد ۹ ، صفحه ۶۶۵ کی طرف رجوع کر سکتا هے۔

۱۵. صلوات سے حاجتیں پوری هوتی هیں

روایات میں هے که محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات کے ذریعه سے حاجتیں پوری هوتی هیں ۔

ایک حدیث میں سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا که اگر کوئی محمد ؐ و آل محمد علیهم السلام پر ایک مرتبه صلوات پڑھے گا تو اس کی سو( ۱۰۰) حاجتیں پوری هوں گی۔(۴۶)

اور ایک روایت هے که جس میں سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’اگر کسی کی کوئی ایسی حاجت هو که جوپوری نه هو رهی هو تو اس کے لئے ضروری هے که زیاده سے زیاده محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھے، اس لئے که صلوات سے هم و غم برطرف هوتے هیں، رزق میں اضافه هوتا هے اور حاجتیں پوری هوتی هیں۔‘‘(۴۷)

اور طلب حاجت کے سلسله سے امام زین العابدین علیه السلام سے ایک دعا صحیفه سجادیه میں هے که آپؑ نے فرمایا:’’اللهم صل علی محمد وآل محمد صلاة دائمة نامیة لا انقطاع لأبدها ولا منتهی لأمدها، واجعل ذلک عوناً لي و سبباً لنجاح طلبتي انّک واسع کریم .‘‘

اور کتاب تحفةالرضویه میں یوں ذکر هے هوا هے که:دعا(اللهم صل علی فاطمة و ابیها و بعلها وبنیها بعدد ما احاط به علمک و احصاه ) مجربات میں سے هے که اسے اگر روزانه ستر مرتبه پڑھا جائے تو حاجتیں پوری هوتی هیں اور مریضوں کی شفا کا باعث هے۔(۴۸)

اور اسی طرح علماء کے نزدیک یه بھی مجرب هے که وه اپنی حاجتوں کے لئے صلوات کی نذر مانتے هیں۔

۱۶. صلوات صحت و سلامتی کی باعث هے

اگر کوئی شخص یه چاهتا هے که روحی امراض جیسے که کفر و شرک و نفاق و حسد و فسادروحانی امراض جسمانی امراض سے زیاده نقصان ده و ضرر رساں هیں چونکه یه امراض انسان کو سعادت سے محروم کردیتے هیں) وغیره اور جسمانی امراض سے محفوظ رهے تو اسے چاهئے که محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھے۔

سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’اگر کوئی شخص ایک مرتبه صلوات پڑھتا هے تو پروردگار عالم اس پر عافیت و سلامتی کا دروازه کھول دیتا هے۔‘‘(۴۹)

سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک اور روایت هے که آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:’’پروردگار عالم کے نزدیک سوال عافیت سے زیاده محبوب کوئی سوال نهیں هے۔‘‘(۵۰)

ایک اور حدیث میں آیا هے که کسی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دریافت کیا که لیلة القدر میں کس شئ کے لئے دعا کریں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا که پهلے عافیت کے لئے پھر قناعت کے لئے ۔(۵۱)

پس هر انسان کے لئے ضروری هے که پروردگار عالم سے دین و دنیا میں صحت و سلامتی کے لئے دعا کرے، اور اسی سبب سے صلوات ان اذکار میں سے هے جو که موجب عافیت و سلامتی هیں، اس لئے که مریض کا اهل بیت عصمت و طهارت علیهم السلام کا ذکر کرنا گویا جسمانی و روحانی طبیب سے رابطه کرنا هے اور بارگاه پروردگار میں توسل کرنا هے تاکه خدائے وحده لاشریک شفا عطار فرمائے اور اگر کوئی شخص خود معدن رحمت تک پهنچ جائے تو پروردگار اس کے لئے باب عافیت کو کھول دیتا هے۔

هم سب کی دعا بارگاه خداوندی میں هے که (یا ولی العافیة نسألک العافیة عافیة الدین و الدنیا والآخرة بحق محمد و عترته الطاهرة

۱۷. صلوات کے ذریعه سے بھولی هوئی چیزوں کو یاد کیا جاسکتا هے

گناهوں کا ارتکاب انسان کے قلب و دماغ پر منفی اثر ڈالتا هے؛ گناه انسان کے دل کو فاسد کردیتا هے اور جو که باعث جهالت و نسیان هے اور اس کے علاج کا بهترین طریقه محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھنا هے۔

امام حسن مجتبی علیه السلام سے ایک روایت هے که جسے آپؑ نے ایک شخص کے اس سوال(که انسان کیسے چیزوں کو بھول جاتا هے، اور کیسے چیزیں یاد آتی هیں؟!) کے جواب میں فرمایا:’’انسان کا دل ایک ظرف میں هے اور اس پر پرده پڑا هوا هے پس اگر کوئی انسان محمد و آل محمد علیهم السلام پر کامل و تام صلوات پڑھتاهے تو اس سے وه پرده هٹ جاتا هے اور انسان کا دل منور هو جاتا هے تو انسان بھولی هوئی چیزوں کو یاد کرلیتا؛ یا بھولی هوئی چیزیں انسان کو یاد آجاتی هیں اور اگر اس نے صلوات نهیں پڑھی یا ناقص صلوات پڑھی تو وه پرده اس ظرف سے نهیں هٹتا اور دل تاریک هوجاتا هے جو که اس شئ کا سبب هے که انسان کو جو چیزیں یاد بھی هوتی هیں وه اسے بھی بھول جاتا هے۔‘‘(۵۲)

۱۸. صلوات فقر سے نجات کی باعث هے

انسان کی زندگی میں فقر و تنگدستی سے بهت هی سخت امتحان هوتا هے جس سے انسان گذرتا هے اور حضرت علی علیه السلام نے فرمایا: (لو کان الفقر رجلا لقتلته ) که اگر فقر انسانی شکل میں هوتا تو میں اسے قتل کر دیتا۔

اور اس سے نجات کا راسته و طریقه محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات هے۔

ایک روایت سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے هے ایک شخص نے آپ سے فقر کا گلا و شکوه کیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا که اگر تو چاهتاهے که پروردگار عالم تجھے غنی بنا دے تو تیرے لئے ضروری هے که تو مجھ پر اور میرے آل علیهم السلام پر صلوات پڑھے۔(۵۳)

اور چونکه بات فقر و تنگدستی کی هو رهی هے تو مناسب سمجھتا هوں که ایک دعا فقر سے نجات اور قرض کی ادائگی کے لئے بیان کردوں اور وه دعا بهت هی مجرب هے اور اس دعا کے سلسله سے علماء و فضلاء کا تجربه بھی هے روایت یه هے:

امام محمد باقر علیه السلام نے اپنے اباو اجداد سے انھوں نے مولائے کائنات علیه السلام سے نقل فرمایا که آپؑ نے فرمایا:’’میرے اوپر قرض تھا اور میں نے سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس کا تذکره کیا تو سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا که یه کهو:(اللهم اغنني بحلالک عن حرامک و بفضلک عمن سواک )‘‘ که اگر مانند صبیر بھی قرض هوگا تو پروردگار عالم اسے ادا کر دیگا۔(۵۴) صبر یمن میں ایک پهاڑ کانام هے که جس سے بڑا اور عظیم کوئی پهاڑ نهیں هے۔

جناب شیخ بهائی ؒ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے هیں که ایک مرتبه میرے اوپر قرض بهت هو گیا تھا جو ڈیڑ هزار مثقال سونے سے بھی زیاده تھا اور جن لوگوں سے میں نے قرض لیا تھا وه بهت زیاده تقاضا کر رهے تھے یهاں تک که میں اسکی وجه سے اپنا دوسرا کام بھی نهیں کر پایا رها تھا، اور اداء دین کے سلسله سے میرے پاس کوئی راسته بھی نهیں تھا تو میں روز نماز صبح کے بعد اس دعا کو پڑھتا تھا اور بعض اوقات دوسری نمازوں کے بعد بھی پڑھتا تھا پھر کچھ هی وقت گذرا تھا که نه جانے کیسے وه قرض ادا هوگیا میں سوچ هی نهیں سکتا تھا۔

اور اس دعا کے سلسله سے جناب سید محسن امین قدس سره فرماتے هیں که جیسے مجھے اس دعا کے سلسله سے خبر هوئی تو میں نے اس کو نمازوں میں پڑھنا شروع کردیا تو بجز بعض اوقات کے خدا کے شکر سے مجھے کبھی بھی تنگی رزق کی شکایت نهیں هوئی۔

اور بعض علماء کهتے هیں یه دعا قرض کی ادائگی کے لئے بهت هی موثر هے، جب بھی اس دعا کو پڑھا میرا قرض ایک هفته سے پهلے پهلے ادا هوگیا، اور بعض علماء کا کهنا هے که میرا سوچنا یه هے که یه سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے معجزات میں سے هے۔

۱۹. صلوات باعث رحمت الهی هے

جو بھی محمدؐ و آل محمد علیه السلام پر صلوات پڑھے گا رحمت خداوندی دنیا و آخرت میں اس کے شامل حال هوگی۔

جیسا که مولائے کائنات حضرت علی علیه السلام نے خطبه میں فرمایا که:’’شهادتین(اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمد اً رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )‘‘ کے ذریعه سے جنت میں جاؤ گے اور رحمت خداوندی شامل حال هوگی پس زیاده سے زیاده محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھو۔(۵۵)

۲۰. صلوات کے ذریعه خواب میں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، امام علیه السلام یا مرده کی زیارت هوگی

یعنی صلوات کے ذریعه خواب میں نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور کسی امام علیه السلام کی یا کسی میت کی زیارت کی جاسکتی هے۔جناب سید محمد باقر اصفهانی نقل کرتے هیں که عالم و فاضل جناب محمد بن سعید فرماتے هیں که میں نے یه عهد کیا که میں هر شب سونے سے پهلے محمد و آل محمد علیهم السلام پر صلوات پڑھوں گا تو میں نے ایک شب خواب میں دیکھا که رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میرے کمره میں داخل هوئے تو پورا کمره حضرت کے نور سے منور هوگیا۔ اور سرکارصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کهنے لگے که وه هونٹ کهاں هے جس سے مجھ پر اور میری آل علیهم السلام پر صلوات پڑھی جاتی هے میں اس کا بوسه لینا چاهیتا هوں؛ او ر سرکار نے بوسه لیا اور چلے گئے اور جب میں بیدار هوا تو دیکھا که کمره خوشبو سے معطر هے تو میں بهت خوش هوا اور تقریباً یه خوشبو آٹھ دن تک میرے کمره میں رهی اور لوگ تعجب کے ساتھ اسے محسوس کرتے تھے۔

اسی طرح سے اگر کوئی چاهتا هے که کسی میت سے خواب میں ملاقات کرے تو اس کا راسته بھی محمدؐ و آل محمد علیهم السلام پر صلوات هے۔

جیسا که ایک روایت جناب ابو هشام سے هے که نقل کرتے هیں که ایک شخص امام محمد تقی علیه السلام کی خدمت میں حاضر هوا اور کهنے لگا که میرے والد کا انتقال هو گیا هے اور وه کچھ مال(ترکه) چھوڑ کر گئے هیں لیکن هم کو پته نهیں هے که وه مال کهاں هے اور مولاؑ میں آپ کے شیعوں میں سے هوں اور میرا خانواده بڑا هے میری مدد کریں تو امام علیه السلام نے فرمایا: نماز عشاء کےبعد تین مرتبه محمدؐ و آل محمد علیه السلام پر صلوات پڑھنا تو تمهارے بابا خواب میں آکر تمهیں بتائیں گے که مال کهاں هے۔ تو شخص نے ویسا که کیا جیسا امامؑ نے فرمایا تھا اور اس نے خواب میں اپنے باپ کو دیکھا که اس سے کهه رهے هیں که اے بیٹا مال فلاں جگه پر رکھا هے اسے لے لو اور امام علیه السلام کو جاکر بتا دو که میں نے تمهیں بتا دیا، تو اس شخص نے مال لیا اور اور امام علیه السلام کو جاکر بتا بھی دیا اور کها:’’الحمد لله الذی اکرمک و اصطفاک ‘‘ یعنی ساری تعریفیں اس خدا کے لئے هیں که جس نے آپ کو منتخب کیا۔(۵۶)

اسی طرح یه حکایت کی گئی هے که اگر کوئی شخص برابر اس صلوات(اللهم صل علی محمد و آله وسلم کما تحب و ترضی ) کو پڑھے گا تو اس کے ذریعه سے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کرسکتا هے۔(۵۷)

صلوات کے فوائد بطور خلاصه

۱) پروردگار عالم صلوات پڑھنے والے کی احتیاج کو پورا کر دیتا هے۔

۲) غریبوں کے لئے صلوات بمقام صدقه هے۔

۳) صلوات سبب طهارت و تذکیه نفس هے۔

۴) صلوات مجلس کی برکت کی باعث هے ورنه وه مجلس و نشست قیامت کے دن اهل مجلس کے لئے بلاء و وبال هوگی جس میں صلوات نه پڑھی جائے۔

۵) اگر انسان سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذکر کے بعد صلوات پڑھے گا تو صفت بخل اس سے دور هوگی۔

۶) صلوات پڑھنے والے راه جنت پر گامزن هیں اور نه پڑھنے والے جنت کے راسته سے منحرف هیں۔

۷) صلوات پل صراط پر نور کا باعث هے۔

۸) صلوات پرھنے والا جفاکار نهیں هے، اور جو صلوات نهیں پڑھتا گویا اس نے سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جفا کیا۔

۹) صلوات پڑھنے والے کی تعریف پروردگار عالم زمین و آسمان والوں کے سامنے کرتا هے۔

۱۰) صلوات جنت میں باعث کثرت ازواج هے اور جنت میں اعلیٰ مقام کا باعث بھی هے۔

۱۱) صلوات عطش(پیاس) کو رفع کرنے والی هے۔

۱۲) ذکر صلوات بیس غزوات کے برابر هے، بلکه اس سے بھی کهیں زیاده بهتر هے۔

۱۳) صلوات علامت هے که صلوات پڑھنے والا سنت نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عمل کرنے والا هے۔

۱۴) ثواب صلوات خود صلوات پڑھنے والے کو اور اس کی اولاد کو اور جس کے لئے صلوات ایصال کی جائے سب کو پهنچے گا۔

۱۵) بعض علماء کا کهنا هے که محمد و آل محمد علیهم السلام پرصلوات سے دس کرامتیں حاصل هوتی هیں:

۱) خود پروردگار صلوات بھیجتا هے؛

۲) سرکار دوعالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی شفاعت کریں گے؛

۳) صلوات عمل ملائکه کی پیروی هے؛

۴) صلوات منافقین و کفار کی مخالفت هے؛

۵) صلوات سے گناه مٹا دیئے جاتے هیں؛

۶) صلوات کے ذریعه حاجتیں پوری هوتی هیں؛

۷) انسان کا ظاهر و باطن منور هوتا هے؛

۸) قیامت کے هولناک مناظرسے نجات حاصل هوگی؛

۹) جنت میں داخله کا باعث هے؛

۱۰) موجب سلام پروردگار هے۔

____________________

۱ سوره احزاب، آیه ۵۶

۲ سوره انبیاء آیه ۲۰

۳ سوره احزاب، آیه ۵۶

۴ جمال الاسبوع، ۲۳۶؛ البحار ۹۴؛ ۷۲؛۶۶؛ موالی الالی۲، ۳۶؛ ۹۷

۵ ؟؟؟؟؟ ورقه میں نهیں هے۔۔۔

۶ ارشاد القلوب، ج۲، ص۳۰۲

۷ منازل الآخرة، ص۱۱۶

۸ مناقب آل ابھی طالب(ع)۳، ۱۴۳

۹ وسائل باب۱۰، من ابواب اشهداء، حدیث۲

۱۰ جیسا که بعض لوگوں کا ماننا هے که اکسیر ایسا شربت هے که جس سے حیات طولانی هوتی هے۔(معجم)

۱۱ منازل الآخرة، ص۱۱۵

۱۲ آثار و برکات امیرالمومنین(ع)، ۲۳۸

۱۳ الامتثال النبویة، ج۱، ۱۴۱

۱۴ عیوان اخبار الرضا(ع)، ۲، ۲۶۶

۱۵ الامتثال النبویة، ج۱، ۱۴۰

۱۶ کامل الزیارات،ص ۱۵۹

۱۷ کامل الزیارت، ص۳۲۲

۱۸ ثواب الاعمال و عقاب، الاعمال، ۲۴۴

۱۹ مذکوره حواله،۴۶

۲۰ جامع الاخبار، ۶۹،ج۵،۶،۷

۲۱ ثواب الاعمال و عقاب الاعمال،۴۵

۲۲ منازل الآخرة،۱۱۴

۲۳ دار السلام،۲، ۱۲

۲۴ القطرة، ج۱، باب الصلاة علی النبی واآله

۲۵ البقرة۲۲۲

۲۶ وسائل الشیعه باب۹،من ابواب الذکر، حدیث۳

۲۷ مستدر الوسائل باب۱۱، من ابواب الذکر، حدیث۵

۲۸ جمال الاسبوع، ۱۶۰

۲۹ احزاب۴۳

۳۰ ثواب الاعمال و عقاب الاعمال،۴۷

۳۱ المستدرک، باب۳۲، من ابواب الذکر، حدیث۲۰

۳۲ الوسائل، باب۳۹، من ابواب الصلاة علی محمد و آل محمد علیهم السلام، حدیث۱

۳۳ المستدرک، باب۳۱، نب ابواب الذکر، حدیث۴۱

۳۴ المسدترک، باب۲۳، من ابواب فعل لمصروف، حدیث۱

۳۵ ثواب الاعمال و عقاب الاعمال،۴۷

۳۶ مذکور حواله،ص۴۵

۳۷ ثواب اعمال و عقاب الاعمال، ص۴۵

۳۸ وسائل الشیعه، باب۴۳، من ابواب الذکر، حدیث۵

۳۹ سوره ضحی،۵

۴۰ میزان الحکمة،۵،۱۲۲

۴۱ الوسائل، باب۳۶، من ابواب الدعا، حدیث۱۸

۴۲ ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ص۴۶

۴۳ مذکوره حواله،۴۷

۴۴ الوسائل، باب۳۶، من ابواب الدعاء، حدیث۴

۴۵ مذکوره حواله، حدیث۷

۴۶ ثواب الاعمال و عقاب الاعمال، ص۵۰

۴۷ مذکوره حواله،ص۵۰

۴۸ التحفة الرضویة، ص۲۰۲

۴۹ المستدرک، باب۳۱، من ابواب الذکر، حدیث۱۱

۵۰ میزان الاعمال،ج۶، ص۳۸۳

۵۱ منتهی الاعمال، ج۲، ص۴۸۰

۵۲ الوسائل،۳۷، باب من ابواب الصلوات علی محمدؐ وآل محمد، حدیث۱

۵۳ لالی الدنیا،۳ ص۴۳۶

۵۴ التحفة الرضویة،۳۰

۵۵ بحارالانوار، ج۹۴، ص۴۸

۵۶ دارالسلام، ج۱، ص۳۳۸

۵۷ مذکور حواله،ج۳، ص۱۱۶


4

5

6

7