احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)0%

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

مؤلف: عالم اہل سنت ،علامہ جلال الدین سیوطی
زمرہ جات:

مشاہدے: 11549
ڈاؤنلوڈ: 2829

تبصرے:

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 59 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11549 / ڈاؤنلوڈ: 2829
سائز سائز سائز
احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

مؤلف:
اردو

پہلی حدیث(١) :

رسول کے قرابتداروں کی مودت ہی اجر رسالت ہے

اخرج سعید بن منصور فی سننہ ، عن سعید بن جبیر، فی قولہ تعالی :

( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلَّاالْمُوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی ) قال:قربی رسول اﷲ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .

سعید بن منصور (٢)نے اپنی سنن میں سعید بن جبیر (٣)سے آیۂ مودت:

( قل لااسئلکم علیه اجراًالاالمودة فی القربی )

(اے رسول !تم ان سے کہہ دو کہ میں اس (تبلیغ رسالت )کا اپنے قرابتداروں کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا)(٤)کی تفسیرمیں نقل کیا ہے کہ'' القربی'' سے مراد؛رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قرابتدار ہیں ۔(٥)

اسناد ومدارک کی تحقیق:

(١)محترم قارئین! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ علمائے اہل سنت کی اصطلاح میں قول ، فعل اورتقریر رسول کو حدیث کہا جاتا ہے ، اسی طرح رسول کے خَلقی اور خُلقی اوصاف نیز صحابہ اور تابعین کے کلام کو بھی اہل سنت کے یہاں حدیث کہا گیا ہے

ڈاکٹرنورالدین عتر؛ منہج النقد،ص ٢٧۔ دکتر صبحی الصالح؛علوم الحدیث ومصطلحہ،ص ٤٢٦۔

لیکن شیعہ علماء کی اصطلاح میں حدیث وہ کلام ہے جو معصوم کے فعل ، قول اور تقریرکی حکایت کرے

سید حسن الصدر الکاظمی ؛نہایة الد رایة،ص٨٠۔شیخ عبد اﷲ مامقانی ؛مقباس الہدایہ فی علم الدرایة جلد١،ص٥٩۔

(٢)ابو عثمان سعید بن منصور بن شعبہ ٔ خراسانی یا طالقانی؛ آپ جوزجان میں متولد ہوئے، اور بلخ میں پرورش پائی،اور آپ نے دیگر ممالک کی طرف متعددسفر کیا ، آخر کار مکہ میں سکونت اختیار کی ،اور یہیں ٢٢٧ ھ میں وفات پائی ،امام مسلم نے ان سے روایت نقل کی ہے ، ان سے مروی احادیث کتب صحاح ستہ میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرةالحفاظ ،جلد١، ص ٤١٧،٤١٦۔ تاریخ البخاری ،جلد ٢ ، ص ٤٧٢۔ الجرح والتعدیل جلد ١ ، ص٦٨۔ مختصر تاریخ دمشق ،جلد ٦، ص ١٧٥۔تہذیب التہذیب جلد ٣ ، ص ٨٩ ، ٩٠.

(٣)ابو محمد سعید بن جبیر بن ہشام اسدی والبی؛آپ ٤٦ ھ میں پیدا ہوئے ،اور ٩٥ھ میں ٤٩ سال کے سن میں حجاج بن یوسف ثقفی کے ہاتھوں قتل ہوئے،آپ کی شہادت کے بعد ابن جبیر نے عبد اﷲ بن عباس اور عبد اﷲ بن عمر کی شاگردی اختیار کی ، یہ جملہ تابعین میں بہت ہی بلند پایہ کے عالم دین شمار کئے جاتے ہیں ، اور انھیںتفسیر قرآن لکھنے والے گروہ میں قدیم ترین مفسر قرآن مانا جاتا ہے، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرةالحفاظ ،جلد١، ص ٧٧،٧٦۔ طبقات ابن سعد جلد ٦،ص٢٦٧،٢٥٦۔ الجرح والتعدیل جلد ١ ، ص٩۔تہذیب التہذیب جلد ٤ ، ص١٤،١١.

(٤) سورہ ٔ شوری آیت ٢٣

(٥)مذکورہ حدیث کو درج ذیل علمائے اہل سنت نے بھی نقل کیا ہے:

سیوطی ؛ تفسیردر منثور ج ٦ ، ص٧.حسکانی ؛ شواہد التنزیل جلد٢، ص ١٤٥. حاکم؛مستدرک الصحیحین جلد٣ ، ص ١٧٢. ابن حجر ؛ صواعق محرقة ص ١٣٦۔ طبری ؛ ذخائر العقبی ص٩۔

دوسری حدیث :

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قرابتدار کون لو گ ہیں ؟

اخرج ابن المنذر،و ابن ابی حاتم،و ابن مَرْدَوَیْه ، فی تفاسیرهم ، والطبرانی فی المعجم الکبیر ، عن ابن عباس ؛لما نزلت هذه الآیة :( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلَّاالْمُوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی ) قالوا : یا رسول اﷲ! من قرابتک هولاء الذین وجبت علینا مودتُهم ؟ قال:(( علی وفاطمة وولداهما))

ترجمہ:۔ابن منذر (١)ابن ابی حاتم (٢)اور ابن مردویہ (٣)نے اپنی تفاسیر میں اور طبرانی (٤)نے اپنی کتاب'' المعجم الکبیر ''میں ابن عباس (٥)سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت:

( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْراً اِلَّاالْمُوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی )

نازل ہوئی تولوگوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا : یا رسول اﷲ ! آپ کے وہ قرابتدار کون لوگ ہیں جن کی محبت ہمارے اوپر فرض کی گئی ہے؟

تورسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ علی، (٦)فاطمہ (٧) اور ان کے دونوں بیٹے ( امام حسن اور امام حسین ) ہیں۔ (٨)

اسناد ومدارک کی تحقیق:

(١) ابو بکر محمد بن ابراہیم ابن منذر نیشاپوری ؛ آپ بہت بڑے حافظ ، فقیہ ، مجتہد اور مسجد الحرام کے پیش اما م تھے، آپ کی مشہور کتابیں : المبسوط فی الفقیہ ،الاشراف فی اختلاف العلماء اور کتاب الاجماع ہیں،آپ ٢٤٣ ھ میں متولد ہوئے اور ٣١٨ ھ میں اﷲ کو پیارے ہوگئے ،آپ کے بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ جلد ٢ ، ص ٧٨٣ ، ٧٨٢۔ کتاب طبقات الشافعیہ جلد ٢، ص ١٠٨ ، ١٠٢ ۔ کتاب الاعلام جلد ٦ ، ص ١٨٤۔شذرات الذہب جلد٢، ص ٢٨٠۔

(٢)ابو محمد عبد الرحمن بن ابی حاتم محمدبن ادریس بن منذر تمیمی حنظلی رازی؛

آپ ٢٤٠ھ میں شہر''رَےْ '' میں پیدا ہوئے اور ٣٢٧ ھ میں اسی شہر میںدنیا سے گزر گئے ، آپ کا اپنے زمانے کے مشہور محدثین میں شمار ہوتا تھا ،اور آ پ نے علم حدیث کو اپنے وا لد محترم اور فن جرح وتعدیل کے ماہر جناب ابو ذرعہ جیسے اساتذہ سے سیکھا ، اسی طرح آپ کا شمار علم قرائت کے مشہور علماء میں ہوتا تھا ، علم دین کی تلاش میں آپ نے مکہ ، دمشق ،مصر، اصفہان اور دیگر شہروں کی جانب متعدد سفر کئے ،بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ جلد٢ ، ص٨٣٢ ، ٨٢٩۔ کتاب طبقات الشافعیہ جلد ٢،ص ٣٢٨، ٣٢٤ ۔شذرات الذہب جلد٢، ص٣٠٩،٣٠٨۔ فوات الوفیات جلد١ ص ٥٤٣ ، ٥٤٢۔ طبقات الحنابلہ جلد ٢، ص ٥٥۔ لسان المیزان جلد ٣، ص ٤٣٢ ، ٤٣٣۔

المیزان جلد ٣، ص ٤٣٢۔ مرآة الجنان جلد ٣، ص ٢٨٩۔

(٣)ابو بکر بن ا حمد موسی بن مردویہ بن فورک اصفہانی؛ آپ ہی تفسیر ابن مردویہ،تاریخ ابن مردویہ ''و چند دیگر کتابوں کے مؤ لف ہیں،آپ کا شمار اپنے معاصر محدثین، مؤرخین ، مفسرین اور علم جغرافیہ کے جاننے والوں میںہوتا ہے ، آ پکی پیدائش ٣٢٤ ھ میں اور وفات ٤١٠ ھ میں ہوئی،بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ جلد ٢، ص ١٠٥١۔١٠٥٠۔ اخبار اصفہان جلد ١، ص ١٦٨۔ المنتظم جلد ٣، ص ٢٩٤۔

(٤)ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر لخمی شامی طبرانی ؛ آپ ٢٦٠ ھ میں شہر عکا میں متولد ہوئے ، اور سوسال کی عمر میں ٣٦٠ ھ میں شہر اصفہان میں انتقال کرگئے، آپ نے حدیث رسول کی تلاش میں حجاز ، یمن ، ایران اور الجزیرہ وغیرہ کے متعدد سفرکئے ، آپ کی اہم کتابیں یہ ہیں :المعجم الکبیر ، المعجم الاوسط اور المعجم الصغیر ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرةالحفاظ جلد ٣، ص ٩١٨،٩١٢۔ ذکراخبار اصفہان جلد ١، ص ٣٢٥۔ میزان الاعتدال جلد ٢، ص ١٩٠ ۔ النجوم الزاہرة جلد٤، ص ٥٩۔الاعلام جلد ٣، ص ١٨١۔ لسان المیزان جلد ٢، ص٧٤۔

(٥)ابو العباس عبد اﷲ بن عباس بن عبد المطلب قرشی ہاشمی؛ آپ حبر امت، جلیل القدر صحابی تھے ،آپ ہجرت کے تین سال پہلے دنیا میں آئے ، رسول اسلام نے دعا فرمائی تھی کہ خدا ان کو دین اسلام کا فقیہ قرار دے ، اور علم تاویل عطا فرمائے ، صحاح ستہ کے مؤلفین نے سولہ سو ساٹھ ]١٦٦٠[ حدیثیں اپنی کتب صحاح میں ان سے نقل کی ہیں ، موصوف نے جنگ صفین اور جنگ جمل میں حضرت علی ـ کی طرف سے شرکت کی تھی ، اور واحدی کے قول کے مطابق آپ کی وفات ٧٢ سال کی عمر میں ٦٨ ھ میں شہر طائف میں ہوئی ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

وفیات الاعیان جلد ٣، ص ٦٣ ، ٦٢۔ الاصابة جلد٤ ، ص ٩٤ ،٩٠ ۔ جوامع السیرة ص ٢٧٦۔ تذکرة الحفاظ جلد ١، ص ٤٢٥۔ العقد الثمین جلد ٥، ص١٩٠۔ نکت الہمیان ص ١٨٠ ۔ تاریخ دمشق جلد٦، ص ٢٦٠۔ الاعلام ج ٤، ص ٢٢٨۔ لسان المیزان جلد ٣ ص ٧٣۔

(٦)ابو الحسن علی بن ابی طالب بن عبد المطلب(ع)؛ آپ کی ولادت بعثت سے دس سال قبل مکہ میں ہوئی، اور آغوش رسالت میں پرورش پائی،کتاب'' الاصابہ'' میں ابن حجر کے قول کے مطابق آپ ہی پہلے وہ فرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ،(اظہار اسلام کیا )آپ نے سوائے جنگ تبوک کے اسلام کی تما م مشہور جنگوں میں شرکت فرمائی، کیونکہ اس جنگ میں آپ مدینہ میں رسول کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے قیام پذیر رہے ، آپ کے بیشمارفضائل ہیں ، چنانچہ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں:

جتنے فضائل و مناقب علی ـکے لئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل ہوئے ہیں اس مقدار میں کسی بھی صحابی کیلئے نقل نہیں ہوئے ہیں،آپ کی شہادت ٢١ رمضان المبارک ٤٠ ھ میں ہوئی، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:

الاصابة جلد ٤، ص ٢٧١، ٢٦٩۔ تذکرة الحفاظ جلد١ ، ص ١٢ ، ١٠۔ حلیة الاولیاء جلد ١، ص ٧٨، ٦١۔ الاستیعاب جلد ٢ص ٤٦١۔ اسد الغابة جلد ٤، ص ٢٩٢۔

(٧) آپ ہی سیدة نساء العالمین ، حسنین کی مادر گرامی ، جناب خدیجہ کی لخت جگراوررسول اسلام کی دختر نیک اختر ہیں،آپ خدا کے نبی کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز تھیں ،آپ کی ذات سے رسول کی نسل چلی ، بعض اقوال کی بنا پر آپ کی ولادت با سعادت ؛ ٢٠ جمادی الثانیہ بروز جمعہ،بعثت سے دوسال قبل شہر مکہ میں ہوئی ، البتہ شیخ کلینی اور ابن شہر آشوب نے شہزادی کی تاریخ ولادت کو بعثت سے پانچ سال قبل حضرت امام جعفر صادق ـ سے نقل فرمائی ہے، اور یہی مشہور بھی ہے ، اور امام جعفر صادق ـ کے نقل کے مطابق آپ کے شہادت ٣ جمادی الثانیہ ١١ ھ میں ہوئی.دیکھئے:

کتاب اعیان الشیة جلد ٢، ص ٣٢٠،٢٧١.

(٨)اس حدیث کو اہل سنت کے مشہورو جلیل القدر علماء نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے، چنانچہ حسب ذیل کتابیںدیکھئے:

سیوطی ؛ در منثور جلد٦، ص٧.

( سیوطی نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے ابن عباس سے اس حدیث کو نقل کیا ہے ).

طبرانی المعجم الکبیر ؛جلد ١ ،ص ١٢٥.(قلمی نسخہ، ظاہریہ لائبریری، دمشق سوریہ )

ابن حجرہیثمی ؛ مجمع الزوائد جلد ٩، ص ١١٨۔محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص ٢٥۔

محب الدین طبری کہتے ہیں : اس حدیث کو احمد بن حنبل نے اپنی اپنی کتاب'' المناقب'' میں نقل کیا ہے.

ابن صباغ مالکی ؛ الفصول المہمةص ٢٩.

ابن صباغ نے بغوی سے مرفوع سند کے ساتھ ابن عباس سے اس حدیث کونقل کیا ہے.

قرطبی ؛ا لجامع لاحکام القرآن جلد١٦، ص ٢٢،٢١.

قرطبی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: اس حدیث میں دو بیٹوں سے مراد رسول اسلام کے دونوں نواسے حسنین ہیں جو جوانان جنت کے سردار ہیں

تفسیر کشاف جلد ٢، ص ٣٣٩۔ اسعاف الراغبین ص ٢٠٥۔ ارشاد العقل السلیم جلد١، ص ٦٦٥. حلیة الاولیاء جلد ٣ ، ص ٢٠١ ۔ مسند امام احمد بن حنبل جلد ١ ، ص ٢٢٩۔ شواہد التنزیل جلد ٢، ص ٣٠ و ص ١٥٠۔ تفسیر طبری جلد ٢٥ ، ص ١٧۔ تفسیر ابن کثیر جلد ٤ ، ١١٢۔ الصواعق المحرقة ص ١٠١۔ نزل الابرار ص ٣١۔ ینابیع المودة ص ٢٦٨. الغدیر جلد ٣، ص ١٢٧.

تیسری حدیث :

حسنہ سے مراد آل محمد کی محبت ہے

اخرج ابن ابی حاتم،عن ابن عباس فی قوله تعالی:( وَمَنْ یَقْتَرِف حَسَنَةً ) قال : ((المودة لآل محمد )).

ابن ابی حاتم نے ابن عباس سے اس آیہومن یقترف حسنة :اور جو شخص بھی ایک نیکی حاصل کرے گاہم اس کے لئے اس کی خوبی میں اضافہ کردیں گے )(١)کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ آیت میں ''حسنة ''سے مراد آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مودت ہے ۔(٢)

چوتھی حدیث :

ایمان کا دار و مدار آل محمدد کی محبت ومودت پر ہے

اخرج احمد ، والتِّرمذی و صححه ،والنسائی والحاکم ،عن المطلب بن ربیعة ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((واﷲلا یدخل قلب امریء مسلم ایمان حتی یحبکم ﷲ ولقرابتی ))

احمد ،(٣)ترمذی (٤)( صحیح سند کے ساتھ )، نسائی (٥)اور حاکم(٦) نے مطلب بن ربیعہ (٧)سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

قسم بخدا کسی بھی مسلم مرد کے دل میںاس وقت تک'' ایمان''(٨) داخل ہی نہیں ہو سکتا جب تک وہ خدا کی رضایت اور میری قرابتدار ی کی وجہ سے تم (اہل بیت) کو دوست نہ رکھے ۔ (٩)

اسناد ومدارک کی تحقیق:

(١)سورہ شوری آیت ٢٣.

(٢)مذکورہ حدیث علمائے اہل سنت کی دیگر کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے ، چنانچہ مندرجہ ذیل کتابیں ملاحظہ فرمائیں:

سیوطی ؛ تفسیر در منثور جلد ٦ ، ص ٧۔ تفسیر کشاف جلد ٣، ص ٤٦٨۔ الفصول المہمة ص٢٩۔ الجامع لا حکام القرآن جلد ١٦ ،ص ٢٤۔

قرطبی مذکورہ آیت کی تفسیرمیں کہتے ہیں : اقتراف کے معنی حاصل اور اکتساب کرنے کے ہیں جس کا مادہ قرف بمعنی کسب ہے،اور اقتراف بمعنی اکتساب آیا ہے

الصواعق المحرقة ص ١٠١۔ الشواہد التنزیل جلد ٢ ،ص ١٤٧۔ فضائل الخمسة ج ٢، ص ٦٧۔

(٣)ابو عبد اﷲ احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال ذہلی شیبانی مروزی بغدادی ؛ آپ ١٦٤ھ میں پیدا ہوئے، اور ٧٧ سال گزار کر ٢٤١ھ میں شہر بغداد میں چل بسے ، آپ کو اہل سنت کے فقہی چاروں اماموں میں سے ایک جلیل القدر امام کے طور پر مانا اور پہنچانا جاتاہے ، آپ ایک بلند پایہ کے حافظ اور محدث تھے ،یہاں تک کہ دس لاکھ حدیثیں آ پ کو یاد تھیں، آ پ کی اہم ترین کتاب ''المسند'' ہے، آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میںنقل کی گئی ہے :

شذرات الذہب ، جلد ٢ ، ص ٩٨ ،٩٦. تذکرة الحفاظ ج ٢ ، ص ٤٤٢، ٤٤١.

(٤)ابو عیسی محمد بن عیسی بن سورہ بن موسی بن ضحاک سلمی ترمذی ؛ آپ جلیل القدر محدث، نابینااور امام بخاری کے خاص شاگرد تھے ،آپ ٢١٠ ھ میں پیدا ہوئے، اور ٢٧٩ ھ میں شہر ترمذ میں گزر گئے ، اشتیاق علم میں خراسان ، عراق ، اوردیگر شہروں وغیرہ کا سفر کیا ، آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں نقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ جلد ٢ ، ص ٤٣٥ ، ٤٣٣۔ شذرات الذہب جلد٢، ص٣٠٩،٣٠٨۔ وفیات الاعیان جلد١ ص٦١٦۔ میزان الاعتدال ج ٣، ص ١١٧۔لباب ابن اثیر ج ١، ص ١٧٤۔ مرآة الجنان جلد ٢، ص ١٩٣۔ النجوم الزاہرہ ج ٣، ص٧١۔ تہذیب التہذیب ج ٩، ص ٣٨٧۔

(٥)ابوعبد الرحمن احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر النسائی؛ آپ ٢١٥ ھ میں شہر نسائ(خراسان کا ایک شہر) میں متولد ہوئے ،اور ٣٠٣ ھ میں ٨٨سال کے سن میں فلسطین میں وفات پائی ،کہا جاتا ہے کہ آ پ کے جنازے کو فلسطین سے مکہ لاکر وہاں دفن کیا گیا ، آپ اشتیاق علم میں خراسان ، عراق ، حجاز ، شام اور مصر کے علماء کی خدمت میں گئے، اور ان سے حدیث کے بارے میں کسب فیض کیا ،آ پ کا بزرگ علمائے محدثین میں شمار ہوتا ہے ، آپ ایک مدت تک مصر میں قیام پذیر رہے ، اس کے بعد دمشق میں سکونت اختیار کی ، آ پ کی مشہور کتابیں'' السنن اور الخصائص'' ہیں ،آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں نقل کی گئی ہے :

طبقات الشافعیةج ٣، ص ١٦، ١٤۔ شذرات الذہب جلد٢، ص٢٤١،٢٣٩۔ وفیات الاعیان جلد١ ص٢٥۔ مرآة الجنان جلد ٢، ص٢٤۔ تہذیب التہذیب ج١٠، ص٣٦۔

(٦)حاکم ابو عبد اﷲ محمد بن محمد بن حمد ویہ بن نعیم طہمانی نیشاپوری ؛ آپ ٣١٢ھ میں پیدا ہوئے، او ر ٤٠٥ ھ میں وفات ہوئی ، آپ علم کے اشتیاق میں ٢٠ سال کے سن سے ہی عراق چلے گئے تھے، اس کے بعد خراسان اور ماورای النہر سفرکیا ، آپ ایک مدت تک شہر نسا ء کے قاضی رہے ، لیکن بعد میں اس عہدے سے استعفا ء دیدیا ،بہر حال آپ متعدد مرتبہ آل بویہ کی حکومت میں اہم منصب پر فائز رہے، آپ سے دار قطنی ، بیہقی اور دیگر بڑے محدثین نے روایتیں نقل کی ہیں،آپ کی مشہور کتابیں یہ ہیں : مستدرک الصحیحین ،اور المدخل الی العلم الصحیح ،اورآپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں نقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ ج ٣ ، ص ١٠٤٩، ١٠٤٥۔ وفیات الاعیان ج ٤، ص ٤٠٨۔ اعلام المحدثین ٣٢٤۔

(٧) آپ مطلب بن ربیعہ بن حرث بن عبد المطلب بن ہاشم ہاشمی یعنی ربیعہ (بن حرث) اور ام الحکم( بنت زبیر بن عبد المطلب) کے بیٹے ہیں ،آپ نے رسول اور علی سے احادیث نقل کی ہیں ، اور جن لوگوں نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں وہ یہ حضرات ہیں : خود آپ کے بیٹے عبد اﷲ اور عبد بن حرث بن نوفل ہیں ، علمائے انساب نے آپ کو مطلب کے نام سے یاد کیا ہے حالانکہ بعض محدثین آپ کو عبد المطلب کے نام سے جانتے ہیں ، آپ پہلے مدینہ میں پھر شام میں رہنے لگے ، اور یہیں ٦٢ ھ میں وفات پائی ، آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میں نقل کی گئی ہے:

الاصابة جلد ٤ ، ص١٩١۔ نیز جلد ٦، ص ١٠٤۔ الاستیعاب جلد ٣، ص ٤١٣۔

(٨)مذکورہ حدیث نقل کئے گئے حوالوں کے بعض نسخوں میں کلمہ ایمان نہیں آیا ہے لہٰذا اس صورت میں حدیث کے معنی اس طرح ہوںگے : خدا کسی مسلمان کے دل میں داخل نہیں ہوگا جب تک کہ تم کو خدا کیلئے اور میری قرابت کی خاطر دوست نہ رکھے

(٩) مذکورہ حدیث کو امام احمد بن حنبل نے اپنی تمام اسناد کے ساتھ اس طرح نقل کیا ہے: ایک مرتبہ جناب عبا س یعنی رسول کے چچا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آئے، اور کہنے لگے: یا رسول اﷲ! کچھ مقامات پر میں نے دیکھا کہ قریش آپس میں باتیں کررہے تھے ،لیکن جب میں وہاں پہنچا تو وہ سب خاموش ہوگئے ،یہ سنکر رسول بہت نا راض ہوئے اور فرمایا:

((واﷲ لا یدخل قلب امری مسلم ایمان حتی یحبکم ﷲ ولقرابتی ))

المسند جلد ٣، ص٢١٠،حدیث نمبر :١٧٧۔ ترمذی؛ الجامع الصحیح ج ٣، ص ٣٠٥ ، ٣٠٤۔ باب مناقب عباس ابن عبد المطلب.

(ترمذی کہتے ہیں :یہ حدیث صحیح ہے). سیوطی ؛ الدر المنثور ج ٦ ،ص ٧۔(سیوطی نے اس حدیث کو آیہ مودت کے ذیل میں نقل کیا ہے) طبری ؛ ذخائر العقبی ص ٢٩ ۔ متقی ہندی ؛کنزالعمال ج ٦، ص ٢١٨۔ خطیب تبریزی ؛مشکاة المصابیح ج ٣، ص ٢٥٩ ، ٢٥٨۔

پانچویں حدیث :

اہل بیت کے بارے میں خدا کا لحاظ کرو

اخرج مسلم ، والترمذی والنسائی ،عن زید بن ارقم ؛ ان رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال:(( اذکرکم اﷲ فی اهل بیتی ))

مسلم (١)، ترمذی اور نسائی نے زید بن ارقم (٢)سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے ارشاد فرمایا : اے میری امت والو! میں تم کو اپنے اہل بیت کے بارے میں خدا کو یاد دلاتا ہوں ،(ان کا خیال رکھنا کیونکہ میں قیامت میں تم سے ان کے بارے میں سوال کروں گا اگر تم نے ان سے نیکی کی تو خدا کی رحمت تمھارے شامل حال ہوگی اور اگر تم نے انھیں ستایا تو اس کے عذاب سے ڈرو،اقتباس از احادیث ) (٣)

چھٹی حدیث:

کتاب خدا اور اہل بیت سے تمسک ضروری ہے

اخرج الترمذی و حسنه ، والحاکم ،عن زید بن ارقم ؛قال: قال رسولﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((انی تارک فیکم ماان تمسکتم به لن تضلوا بعدی ،کتاب اﷲ ، وعترتی اهل بیتی و لن یفترقاحتی یرداعلیّ الحوض،فانظرواکیف تخلفونی فیهما))

ترمذی ( حسن سند کے ساتھ)اور حاکم نے زید بن ارقم سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا:اے لوگو! میں تمھارے درمیان وہ چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم نے اس سے تمسک کیا تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے، اور وہ کتاب خدا اور میری عترت ہے، جو میرے اہل بیت ہیں ،اور دیکھو !یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز ہر گز جدا نہ ہوںگے یہاںتک کہ یہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوںگے،(لہٰذااچھی طرح اور خوب سمجھ بوجھ لو! )تم میرے بعد ان کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتے ہو،اور ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہو ؟ (٤)

اسناد ومدارک کی تحقیق:

(١) آپ کا پورا نام ابو الحسین مسلم بن حجاج قشیری نیشاپوری ہے آپ ٢٠٢ھ (یا٢٠٦)میں متولد ہوئے ، او ر ٢٦١ ھ میں (دیہات)نصر آباد ،ضلع نیشاپور میں وفات ہوئی ،آپ نے بغداد کے کئی مرتبہ سفر کئے ، آپ بہت بڑے محدث اور عالم دین تھے ، آپ کی مشہور کتاب الجامع الصحیح (صحیح مسلم )ہے، اورآپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میںنقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ ج ٢، ص ١٥٠۔طبقات الحنابلہ ص٢٤٦۔ مرآة الجنان ج ٢ ص١٧٤۔ وفیات الاعیان ج٢، ص١١٩۔ تاریخ بغداد ج ٣، ص ١٠٠۔بستان المحدثین ص ١٠٤۔

(٢) زید بن ارقم بن زید انصاری خزرجی؛ ذہبی نے آپ کو بیعت رضوان والوں میں شمار کیا ہے ، موصوف نے تقریباً ١٧ غزووں(جنگوں) میںرسول اسلام کے ساتھ شرکت کی ، اور جنگ صفین میں حضرت علی کی طرف سے شرکت فرمائی ، او ر ٦٦ ھ میں جناب مختار کے دور حکومت کوفہ میں وفات پائی ،آپ کی سوانح عمری درج ذیل کتابوں میںنقل کی گئی ہے :

تذکرة الحفاظ ج١، ص ٤٥۔الاصابة ج ٣،ص ٢١۔ الاستیعاب ج ١ص ٥٦٦،٥٧٨۔

(٣)مذکورہ حدیث کو سیوطی نے اس جگہ اختصار کے ساتھ نقل کی ہے، لیکن امام مسلم نے اس حدیث کوتفصیل کے ساتھ اس طرح نقل کیا ہے:

حدثنی یزید بن حیان؛ قال:انطلقت اناوحُصَین بن سَبْرَةوعمر بن مسلم، الی زید بن ارقم،فلمّا جلسناالیه، قال له حُصَین: یازید !لقد لقیت خیرا کثیرا، رأیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، وسمعت حدیثه،وغزوت معه،و صلیت خلفه، لقد لقیت یا زیدُ !خیرا کثیرا،ً حدثنا یا زید! ما سمعت من رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، قال یابن اخی:واللّٰه لقد کَبِرت سنی،وقَدُمَ عهدی،و نسیت بعض الذی أعِی من رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه، فماحدّثتُکم فاقبلوا،ومالا،فلاتکلفونیه ثم قال:قام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللّٰه یوما فینا خطیباًبِمائٍ یُدْعیٰ خماًبین مکة و المدینة، فحَمِد اللّٰه َو اَثْنیٰ علیه و وعظ و ذکَّر،ثم قال: اَما بعدُ :الَاَ یا ایها الناس! فانما انا بشر یوشک ان یأتِیَ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ربی، فاُجیب،و اَنَا تاَرِک فِیْکُمُ ثَقَلَیْن اَوَّلُهُماَ کتاَبُ اللّٰه ،فِیْهِ الهُدیٰ وَ النُّورُ فَخُذُوا بکِتاَب اللّٰهِ وَاسْتَمْسِکُوُاْ به، فَحَث بِکِتاَبِ اللّٰه وَ رَغَّبَ فِیْهِ، ثم قاَلَ: وَ اَهْلُ بَیْتیِ اُذَکِّرُکُمُ اللّٰه فی اَهْلِ بَیتْیِ اُذَکِّرُ کُمُ اللّٰه فیِ اَهْلِ بَیْتیِ اُذَکِرُکُمُ اللّٰه فِی اَهْلِ بَیْتی ثلَاَثا،فقال له حصین :و من اهل بیته؟ یازید !أَلَیس نسائُه من اهل بیته؟ قال: نسائه من اهل بیته، و لکن اهل بیته من حُرِم الصّدقة بعده ،قال :و من هم؟ قال: هم آلُ عَلی ،وآل عقیل، و آل جعفر،وآل عباس، قال: کل هٰؤلاء حُرِم الصدقةُ،قال: نعم.''

مسلم نے روایت کی ہے کہ یزید بن حیاَّن کہتے ہیں: ایک مرتبہ میںاور حُصَین بن سبرہ اور عامربن مسلم، زید بن ارقم کے پاس گئے، اور زید بن ارقم کی مجلس میں بیٹھ گئے، اور حصین زید سے اس طرح گفتگو کرنے لگے:''اے زید بن ارقم !تو نے خیر کثیر کو حاصل کیا ہے، کیو نکہ تورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیدار سے مشرف ہو چکا ہے، اور حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی گفتگو سے فیض حاصل کرچکاہے، اور تونے رسول کے ساتھ جنگوں میں شرکت کی، اور حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھی، اس طرح تو نے خیر کثیر کو حاصل کیا ہے، لہٰذا جو تونے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے اسے ہمارے لئے بھی نقل کر!زید بن ارقم کہتے ہیں: اے برادر زادہ !اب تو میں بوڑھا ہوگیا ہوں، اور میری عمر گزر چکی ہے، چنانچہ بہت کچھ کلام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میںفراموش کرچکا ہوں، لہٰذا جو بھی کہہ رہا ہوں اسے قبول کرلینا،اور جہاں سکوت کرلوں تو اصرار نہ کرنا،اس کے بعد زید بن ارقم کہتے ہیں: ایک روز رسول اسلام مکہ اور مدینہ کے درمیان میدان غدیر خم میں کھڑے ہوئے، اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا، اور بعد از حمد و ثنا و موعظہ و نصیحت فرمایا: اے لوگو !میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں لہٰذا ممکن ہے کہ موت کا فرشتہ میرے سراغ میں بھی آئے ،اور مجھے موت سے ہم کنار ہونا پڑے ،(لیکن یہ یاد رکھو) یہ دو گرانقدر امانتیں میں تمہارے درمیان چھوڑے جا رہا ہوں، ان میں سے پہلی کتاب خدا ہے جو ہدایت کرنے والی اور روشنی دینے والی ہے، لہٰذا کتاب خدا کا دامن نہ چھوٹنے پائے اس سے متمسک رہو، اور اس سے بہرہ مند رہو، اس کے بعد آپ نے فرمایا:

اے لوگو!دوسری میری گرانقدر امانت میرے اہل بیت ہیں ،اور میرے اہل بیت کے بارے میں خدا سے خوف کرنا ،اور ان کو فراموش نہ کرنا (یہ جملہ تین مرتبہ تکرار کیا).

زید نے جب تمام حدیث بیان کردی، تو حصین نے پوچھا: اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کون ہیں جن کے بارے میں اس قدر سفارش کی گئی ہے؟ کیا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں اہل بیت میں داخل ہیں؟

زید ابن ارقم نے کہا: ہاں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں بھی اہل بیت میں ہیں مگر ان اہل بیت میں نہیں جن کی سفارش رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرمارہے ہیں، بلکہ یہ وہ اہل بیت ہیں جن پر صدقہ حرام ہے

حصین نے پوچھا : وہ کون حضرات ہیں جن پر صدقہ حرام ہے؟

زید بن ارقم نے کہا :وہ اولاد علی ، فرزندان عقیل و جعفر و عباس ہیں!

حصین نے کہا: ان تمام لوگوں پر صدقہ حرام ہے ؟ زید نے کہا: ہاں.

عرض مترجم: اس حدیث کو مسلم نے متعدد اسناد کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کیا ہے لیکن افسوس کہ حدیث کا وہ جملہ جو غدیر خم سے متعلق تھاحذف کردیا ہے، حالانکہ حدیث غدیر کے سینکڑوں راویوں میں سے ایک راوی زید بن ارقم ہیںجو یہ کہتے تھے :''اس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : خدا وند متعال میرا اور تمام مومنین کا مولا ہے، اس کے بعد علی کے ہاتھ کو پکڑا اور فرمایا :جس کا میں مولا ہوں یہ علی اس کے مولا و آقا ہیں، خدایا ! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ، اور جو اس کو دشمن رکھے تو اس کو دشمن رکھ ''

البتہ زید بن ارقم نے اپنے عقیدہ کے لحاظ سے اہل بیت کے مصداق میں بھی فرق کر دیا ہے، حالانکہ خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اہل بیت سے مراد آیۂ تطہیر اور آیۂ مباہلہ کے ذیل میں بیان فرما دیا تھا.

یہ روایت مندرجہ ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے:

مسند احمد بن حنبل ج ٤، ص ٤٦٧ ،٤٦٦۔ کنزالعمال ج ١، ص ١٥٩، ١٥٨۔ سیوطی؛ در منثور ج٦،ص٧۔

(مذکورہ حدیث سیوطی نے اس کتاب میںترمذی اور مسلم سے نقل کی ہے).

اکلیل ص ١٩٠۔ القول الفصل ج ١،ص٤٨٩۔ عین المیزان ص ١٢ فتح البیان ج٧، ص ٢٧٧۔

(٤)مذکورہ حدیث کو ترمذی نے باب مناقب اہل بیت میں نقل کیا ہے ، اور حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: یہ حدیث حسن اور غریب ہے

دیکھئے : الجامع الصحیح(ترمذی شریف) ج ٢ ، ص٣٠٨۔

البتہ حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع سے واپس ہوئے تو غدیر خم کے مقام پرٹھہر نے کا حکم دیا اور کہا یہاں سائبان لگایا جائے، پھر فرمایا:

کانی قد دعیت فاجبت،انی تارک فیکم الثقلین احدهمااکبر من الآخر کتاب اﷲ ، وعترتی، فانظرواکیف تخلفونی فیهما،و لن یفترقاحتی یرداعلیّ الحوض،ثم قالصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :ان اﷲ عز وجل مولای و انا مولی کل مومن ،ثم اخذ بید علی فقال:صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ''من کنت مولاه فهذاولیه، اللّهم وال من والاه وعاد من عاداه.

گویا میرے لئے خدا کی طرف سے دعوت ہونے والی ہے جسے مجھے یقیناً قبول کرنا ہوگا،میں تمھارے درمیا ن دو گرانقدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں، ان میں سے ایک؛ د وسرے سے اکبر ہے(یعنی ایک ثقل اکبر ہے اور دوسری ثقل اصغر) اوریہ کتاب خدا ہے اور میری عترت ، پس دیکھو کہ تم میرے بعد کیا ان کے ساتھ سلوک کرتے ہو، یعنی ان کا احترام کرتے ہو یا نہیں ؟ یقیناً وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے،اور میرے پاس حوض کوثر پروارد ہونگے،اس وقت فرمایا :بیشک میرا مولااور سر پرست خدا ہے، اور میں تمام مومنین کا مولا ہوں ، پھر علی ـ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اس کا ولی اور آقا علی ہے اے میرے خدا !تو دوست رکھ اسکو جو علی کو دوست رکھے ، اور دشمن رکھ اس کو جو علی کو دشمن رکھے

حاکم اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : مذکورہ حدیث شرط شیخین(بخاری اور مسلم) کی روشنی میں صحیح ہے

ایک وضاحت :

امام بخاری اور مسلم نے اپنی کتابوں میں مخصوص شرائط کے ساتھ حدیثوں کونقل کیا ہے،ممکن ہے ایک حدیث ان حضرات کے نزدیک صحت( اور صحیح ہونے)کے شرائط پر نہ اترے لیکن دوسرے محدثین کے نزدیک صحیح ہو ،یا ان کے نزدیک کوئی حدیث صحیح ہو لیکن دوسروں کی نزدیک ضعیف ہو، اور نیز خود ان حضرات کے درمیا ن بھی حدیث کے شرائط صحت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، چنانچہ مسلم نے احادیث کو تین حصوں پر تقسیم کیا ہے :

١۔ وہ احادیث جن کے راوی اعتقاد کے اعتبارسے درست اور نقل روایت میں متقن ہوں،اور ان کی روایتوں میں نہ کسی قسم کی فاحش غلطی اور نہ ہی ان روایتوں کے اندر کوئی شدید اختلاف پایا جاتاہو

٢۔وہ احادیث جن کے راوی حفظ اور اتقان میں پہلے درجہ تک نہ پہنچیں

٣۔وہ احادیث جن کے راوی اکثر محدثین کے نزدیک کذب بیانی میں متہم ہوں

مسلم نے اپنی کتاب میں مذکورہ تیسرے طبقے سے روایت نقل نہیں کی ہے

امام بخاری کی شرط صحت کے بارے میں حافظ ابو الفضل بن طاہر کہتے ہیں :

احادیث کے تمام راوی موثق ہوں ، اور ان کی وثاقت تمام محدثین کے نزدیک متفق علیہ ہونے کے ساتھ ان کی سند بھی متصل ہو ، نیز سند مشہور صحابہ میں سے کسی ایک تک منتہی ہوتی ہو

حافظ ابو بکر حازمی کہتے ہیں : شرط صحت بخاری کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کے تمام اسناد متصل ہوں ، اور راوی مسلمان اور صادق ہو، اور ان میں کسی طرح کی خیانت اور غش نہ پائی جائے ، اور عادل ، حافظہ قوی اورعقیدہ سالم ہو،نیزہر قسم کے اشتباہات سے دور ہو ں

مزید معلومات کیلئے حسب ذیل کتابیں دیکھئے :

صحیح مسلم ج ١، ص٢ ۔فتح ا لباری شرح صحیح ا لبخاری ج ١، ص٧۔ مترجم.

نسائی نے بھی مذکورہ حدیث کو الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے ،اور حدیث کے آخر میں یہ جملہ بھی نقل کیا ہے کہ زید سے جب کسی نے دریافت کیا کہ کیا تم نے اس حدیث کو خود اپنے کانوں سے سنا ہے ؟تو انھوں نے کہا: ایسا کوئی فردنہیں جو اس سائبان کے نیچے ہواور اس نے اس حدیث کو نہ سنا ہو

قارئین کرام !مذکورہ کتابوں کے علاوہ درج ذیل کتابوں میں بھی یہ حدیث نقل کی گئی ہے :

کنزالعمال ج ١،ص ١٥٤۔ذخائر العقبی باب فضائل اہل بیت ۔ مسند احمد بن حنبل ، ج ٣ ، ص ١٧و ج٤ص ٣٦٦۔ سنن بیہقی ج ٢، ص ١٤٨، ج ٧،ص ٣٠ .سنن دارمی ج ٢ ،ص ٤٣١۔ مشکل الآثار ج ٤، ص ٣٦٨۔ اسد الغابة ج ٢، ص ١٢ ۔ مستدرک الصحیحین ج ٣،ص ١٠٩و ص ١٤٨۔ مجمع الزوائد جلد ١،ص ١٦٣۔و جلد ١٠، ص ٣٦٣۔ طبقات ابن سعد جلد ٢، ص ٢ ۔ حلیة الاولیاء جلد ١ ،ص٣٥٥۔ تاریخ بغداد جلد ٨، ص ٤٤٢۔ الصواعق المحرقة ص ٧٥۔ الریاض النضرة جلد٢، ص ١٧٧ ۔ نزل الابرار ص ٣٣۔ینابیع المودة، ص ٣١۔ مصابیح السنة ص ٢٠٥۔ جامع الاصول جلد١ ،ص ١٨٧۔ المواہب اللدنیة جلد٧، ص ٧۔