احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)0%

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

مؤلف: عالم اہل سنت ،علامہ جلال الدین سیوطی
زمرہ جات:

مشاہدے: 11539
ڈاؤنلوڈ: 2814

تبصرے:

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 59 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11539 / ڈاؤنلوڈ: 2814
سائز سائز سائز
احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

مؤلف:
اردو

ساتویں حدیث :

کتاب خدا اور اہل بیت تا بہ حوض کوثر ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے

اخرج عبد بن حُمَید ،فی مسنده ،عن زید بن ثابت ؛ قال: قال رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((انی تارک فیکم ما ان تمسکتم به بعدی لن تضلوا،کتاب اﷲ و عترتی اهل بیتی ، و انهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض ))

عبد بن حمید (١)اپنی مسند میں زید بن ثابت (٢)سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے لوگو! میں تمھارے درمیان وہ چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم نے اس سے تمسک کیا تو میرے بعد گمراہ نہ ہوگے ،اور وہ کتاب خدا اور میری عترت ہے جو میرے اہل بیت ہیں ،اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہونگے یہاںتک کہ یہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہونگے۔(٣)

آٹھویں حدیث :

حدیث ثقلین

اخرج احمد ،وابو یَعْلی ، عن ابی سعید الخُدری ان رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال:((انی اوشک ان ادعی فاجیب،و انی تارک فیکم الثقلین ،کتاب اﷲ، وعترتی اهل بیتی و ان اللطیف الخبیر خبَّرنی انهما لن یفترقاحتی یرداعلیّ الحوض،فانظرواکیف تخلفونی فیهما))

احمداورابو یعلی(٤) نے ابی سعید خدری (٥)سے نقل کیا ہے کہ حضرت رسالتمآب نے اپنے (اصحاب کو مخاطب قرار دیتے ہوئے )فرمایا : مجھے عنقریب بلایا جائے گا اور میں چلا جاؤں گا، چنانچہ میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں:(ایک) کتاب خدا اور(دوسری) میری عترت، جو میرے اہل بیت ہیں ،اور بیشک خدائے لطیف و خبیر نے مجھے آگاہ فرمایا ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوںگی یہاںتک کہ یہ میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوںگی،پس میں دیکھتا ہوں کہ میرے بعد تم ان کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتے ہو،اور ان سے کیا سلوک کرتے ہو؟(٦)

اسناد و مدارک کی تحقیق :

(١) ابو محمد بن عبد بن حمید بن نصر کشی؛ آپ سمرقند کے دیہات'' کش'' کے باشندہ ہیں ، موصوف نے عبد الرزاق بن ہمام ، ابو دائود اور طیالسی و دیگر محدثین سے روایت نقل کرتے تھے ، امام بخاری، مسلم اور ترمذی نے بھی آپ سے روایات نقل فرمائی ہیں ، آپ کا شمار ثقہ اور ان علماء میں ہوتاہے جنھوں نے حدیث ،اور تفسیر میں کتابیں تالیف کیں ، بہر کیف آپ کی وفات ٢٤٩ ھ میں ہوئی ،آپ کے حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں دیکھئے :

تہذیب التہذیب ج ٦،ص٤٥٧، ٤٥٥۔ رجال قیسرانی ص ٣٣٧۔ شذرات الذہب ج٢ ، ص ١٢٠۔ تذکرة الحفاظ ج ٢، ص ٥٣٤۔ طبقات الحفاظ سیوطی ج٢، ص٤۔

(٢) ابو سعید زید بن ثابت بن ضحاک انصاری خزرجی ؛ موصوف کاتبین وحی میںسے تھے ،آپ کی ٤٥ ھ میں وفات ہوئی ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں دیکھئے :

الاصابة جلد١، ص ٥٦٢، ٥٦١۔ الاستیعاب جلد١، ص ٥٥٤، ٥٥١۔ تذکرة الحفاظ جلد٣، ص ٢٣، ٢٢۔

(٣) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے :

مسند عبد بن حمید (قلمی نسخہ، ظاہریہ لائبریری دمشق). کنز العمال جلد ١، ص ١٦٦۔ العقد الفرید جلد ٢،ص ١١١۔

(٤)حافظ ابو یعلی احمد بن علی بن مثنی بن یحی بن عیسی بن ہلال تمیمی موصلی ؛ آ پ ہی محدث الجزیرہ اور کتاب المسند الکبیر کے مؤلف ہیں، آپ ٢١٠ ھجری میں شہر موصل عراق میں پیدا ہوئے، اور ٣٠٧ ھ میں وفات پائی ، آپ نے احمد بن حاتم بن طویل ، یحی بن معین اور دوسرے لوگوں سے روایتیں سنی اور پھر انھیں نقل کیاہے ، آ پ کی مشہور کتاب المسند الکبیر ہے ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں دیکھئے :

معجم البلدان جلد٥، ص ٢٢٥۔ شذرات الذہب جلد ٢،ص ٢٥٠۔ تذکرة الحفاظ جلد٢، ص٧٠٩، ٧٠٧۔

(٥)ابو سعید سعد بن مالک بن سنان بن عبید انصاری خزرجی مدنی خدری؛ آپ کی ہجرت کے تین سال قبل پیدائش ہوئی ،اور ٧٢ ھ میں وفات ہوگئی ، آپ رسول کے ان صحابہ میں سے تھے ، جوآپ کے ساتھ اکثر ساتھ رہا کرتے تھے،آپ نے بیعت الشجرہ میں شرکت کی ،اور ١٢ غزووں میں رسول اسلام کے ہم رکاب جنگ کی ، آپ کے باپ شہدائے احد سے تھے ، آپ سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں تقریباً ٥٢ حدیثیں نقل کی گئی ہیں ،بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں دیکھئے :

حلیة الاولیاء ج ١ ،ص ٢٩٩۔الاصابة ج٢، ص ٨٦، ٨٥۔ الاستیعاب ج ٤، ص ٨٩، ۔ تذکرة الحفاظ ج١، ص٤٤۔

(٦) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

مسند احمد بن حنبل ج ٢ ، ص ٧١۔ مسند ابو یعلی ج ١ ،ص ٣٨٧۔

(یہ قلمی نسخہ ہے جو ظاہریہ لائبریری دمشق میں موجود ہے).

معجم طبرانی ج١،ص ١٢٩۔ ( قلمی نسخہ ) کنز العمال ج١، ص ١٨٦، ١٦٧۔ طبقات ابن سعد ج٢ ،ص ١٩٤ ۔ ذخائر العقبی ص ١٦۔

نویں حدیث :

اگر رسول کے دوستدار ہونا چاہتے ہو تو اہل بیت سے محبت کرو

اخرج الترمذی وحسنه و الطبرانی ،عن ابن عباس؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((احبوا ﷲ لما یغذوکم به من نعمه ، واحبونی لحب اﷲ، واحبوا اهل بیتی لحبی ))

ترمذی (حسن سند کے ساتھ )اور طبرانی نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اے لوگو!خدا کو دوست رکھو کیونکہ وہ تمھیں اپنی نعمتوں سے شکم سیر اور آسودہ کرتا ہے ، اور مجھے بھی خدا کیلئے دوست رکھو،اور میری محبت کے واسطے میرے اہل بیت سے محبت کرو ۔ (١)

د سویں حدیث:

اہل بیت کی بارے میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خیال رکھو

اخرج البخاری ،عن ابی بکر الصدیق ؛ قال:((ارقبوا محمداًرسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی اهل بیته ))

اما م بخاری(٢) حضرت ابو بکر صدیق(٣) سے نقل کرتے ہیں : رسول اسلام کا ان کے اہل بیت(٤) کے بارے میں پورا پورا لحاظ اور پاس رکھو۔

اسناد و مدارک کی تحقیق :

(١)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

الجامع الصحیح ج٢ ،ص ٣٠٨، باب ''مناقب اہل بیت''

(ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث سند کے اعتبار سے حسن اور غریب ہے).

معجم الکبیر للطبرانی ج ١ ،ص ١٢٥۔ ج ٣، ص ٩٣۔

سیوطی نے اس کتاب کے علاوہ تفسیردرمنثور میںترمذی، طبرانی ،حاکم اور بیہقی سے اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔

مستدرک الحاکم ج٢،ص ١٤٩۔ کنز العمال ج ٦، ص ٣١٦۔ منتخب کنز العمال ج٥، ص ٩٣۔ جامع الاصول ابن اثیر ج٩، ص١٥٤۔جلد ١٠، ص ١١٠۔ تاریخ ج ٤،ص ١٥٩۔ اسد الغابة ج٢، ص١٢۔ذخائر العقبی ص ١٨۔ مسترک الصحیحین ج٣،ص ١٥٠۔ میزان الاعتدال ج٢، ص ٤٣ ۔ مشکاة المصابیح ص ٥٧٣۔ نزل الابرار ص ٣٤۔ ینابیع المودة ص ١٩٢ و ٢٧١ ۔

(٢)ابو عبد اﷲ محمد بن اسمٰعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بدرزبہ بخاری حنفی ؛ موصوف ١٩٤ ھ میں متولد ہوئے، اور ٢٥٦ میں قریہ ٔ خرتنگ سمرقندمیں وفات پائی ، آپ کی مشہور کتاب الجامع الصحیح ( صحیح بخاری)ہے ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ ج ٢ ص ٥٥٧ ،٥٥٥۔ تاریخ بغداد ج ٢،ص ١٦۔ الجرح والتعدیل ج٣،ص ١٩١۔ وفیات الاعیان ج٣،ص ٥٧٦۔ شذرات الذہب ج٢،ص ١٣٤۔ جامع الاصول ج١، ص ١٨٦، ١٨٥۔

(٣) ابو بکر عبد اﷲ بن عثمان قرشی تمیمی صحابی ؛ آپ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یار غار اور بزرگ صحابی میں سے تھے، آپ کا نام زمانہ ٔ جاہلیت میں عبد العزی یا عبد اللات تھا ، لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد عبد اﷲ رکھ دیا گیا ، موصوف ہی نے رسول کی وفات کی بعد زمام خلافت کو سنبھالا ، اور اپنی حکومت میں عراق اور فلسطین کے اطراف کو جو ابھی تک اسلامی حکومت کے بالکل کنٹرول میں نہیں تھے، ان کو فتح کیا،اور دو سال کچھ کم حکومت کرنے کے بعد ٦٣ سال کی عمر میں ١٣ھ میں وفات پائی ،بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ ج ١، ص٥ـ٢. الاصابة ج ٤،ص ١٠٤، ٩٧۔

(٤) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :

صحیح بخاری ج ٣، ص ٢٥١، باب ''مناقب قرابة الرسول'' طبری ؛ ذخائر العقبی ص ١٨۔ کنزالعمال ج ٧،ص ١٠٦۔ الصواعق المحرقة ص ٢٢٨۔ در منثور ج ٦،ص ٧۔

کاش خلیفہ اول حضرت ابوبکر اس حدیث کے مضمون پر عمل کرتے جسے خود انھوں نے نقل کیا ہے!! حضرت ابو بکر کا اہل بیت کے ساتھ کیا رویہ تھا ،اس سلسلے میں کتاب النص والاجتہاد ، مؤلفہ سید شرف الدین، فصل اول نمبر ١ ۔٧۔ ٨۔٩ دیکھئے

گیارہویں حدیث :

دشمن اہل بیت جہنم کی ہوا کھائے گا

اخرج الطبرانی ، والحاکم ،عن ابن عباس ؛قال:قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((یا بنی عبد المطلب انی قد سأ لت اﷲ لکم ثلاثاً ، ان یثبّت قلوبکم و ان یُعلم جاهلکم، ویهدی ضالکم ، و سأ لته ان یجعلکم جوداء نجداء رحماء ، فلو ان رجلاً صفن بین الرکن والمقام فصلی و صام ثم مات وهو مبغض لاهل بیت محمد(ص) دخل النار ))

طبرانی اور حاکم ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا : اے بنی عبد المطلب !میں نے خدا سے تمھارے لئے تین چیزیں طلب کی ہیں ،(اول) یہ کہ وہ تمھارے دلوں کو ثابت قدم رکھے ،(دوم) یہ کہ تمھارے جاہلوں کو تحصیل علم کی توفیق عطاکرے ،(سوم یہ کہ)تم میں سے جو راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں ان کی ہدایت فرمائے،اور میں نے خدا سے چاہا ہے کہ وہ تم کو سخی ،دلیر اور باہمی رحم و کرم کا خو گر بنائے،(کیونکہ یہ طے ہو چکا ہے کہ ) جو شخص رکن و مقام(١) کے درمیان نمازیں ادا کرے ،اور روزے رکھے (اور اپنی ساری عمر اسی طرح گزار دے ) لیکن اگر وہ بغض اہل بیت لے کر مرا تو وہ جہنم میں جائے گا ۔(٢)

اسناد و مدارک کی تحقیق :

(١) یہ مسجد الحرام میں دو مقدس مقام کے نام ہیں

(٢) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

المعجم الکبیر ج ٣، ص ١٢١۔ حاکم ؛مستدرک الصحیحین ج٣، ص ١٤٨۔

حاکم اس حدیث کو ابن عباس سے مرفوع سند کے ساتھ نقل کرنے کے بعدکہتے ہیں :یہ حدیث بشرط مسلم صحیح ہے

مجمع الزوائد ج٩، ص ١٧١۔ منتخب کنز العمال ج ٥ ، ص ٣٠٦۔ تاریخ بغداد ٣، ص ١٢٢۔ الصواعق المحرقة ص ١٤٠۔ محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص ١٨۔

محب الدین طبری نے اس حدیث کو اپنی مذکورہ کتاب میں اختصار کے طور پر نقل کیا ہے ،اور کہتے ہیں : یہ حدیث ملا قاری نے اپنی کتاب '' السیرة '' میں نقل کیا ہے

ملاقاری ؛ کتاب السیرة ۔ دیلمی ؛ مسند الفردوس ( قلمی نسخہ لالہ لی لائبریری )

دیلمی نے اس حدیث کو ابن عباس سے اس طرح نقل کیا ہے :

(( لو ان رجلاً صفن قدمیه بین الرکن والمقام و صام وصلی ثم لقی اﷲ مبغضاً لآل محمد دخل النار ))

پس جو شخص رکن و مقام کے درمیان کھڑے کھڑے روزے اورنمازیں ادا کرے، (اور اپنی ساری عمر اسی طرح گزار دے ) لیکن اگر بغض اہل بیت لے کر مرا تو وہ جہنم میں جائے گا

بارہویں حدیث :

بنی ہاشم کا بغض باعث کفر ہے

اخرج الطبرانی ،عن ابن عباس ؛قال:قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((بغض بنی هاشم والانصار کفر ، وبغض العرب نفاق))

طبرانی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : بنی ہاشم(١) اورانصارسے بغض رکھنا باعث کفر ہے ،اور عرب (لوگوں )سے دشمنی رکھنا موجب نفاق ہے۔(٢)

تیرھویں حدیث :

اہل بیت سے بغض رکھنے والا منافق ہے

اخرج ابن عدی ، فی'' الاکلیل'' عن ابی سعید الخدری ؛ قال :قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((من ابغضنا اهل البیت فهومنافق ))

ابن عدی (٣)کتاب اکلیل میں ابی سعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : جو اہل بیت سے بغض اور دشمنی رکھتا ہے وہ منافق ہے ۔(٤)

چودھویں حدیث:

اہل بیت کا دشمن یقیناً جہنم میں جائے گا

اخرج ابن حبّان فی صحیحه، والحاکم ، عن ابی سعید الخدری ؛ قال :قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((والذی نفسی بیده لا یبغضنا اهلَ البیت رجل الا ادخله اﷲ النارَ))

ابن حبان(٥) (اپنی صحیح میں) اور حاکم، ابی سعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام نے فرمایا:قسم اس ذات کی جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے ،جو اہل بیت کو دشمن رکھے گا خدا یقیناً اسے جہنم میں داخل کرے گا ۔(٦)

اسناد و مدارک کی تحقیق:

(١)مذکورہ حدیث محل اشکال معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ نص قرآن سے متعارض ہے، اس لئے کہ انسان کی فضیلت تقوی اور اس کے کردار سے ہوتی ہے، علاوہ اس کے خو درسول اسلام نے متعدد مقامات پر فرمایا ہے کہ عرب کو عجم پر اور قرشی کو حبشی پر کوئی فضیلت نہیں ہے، فضیلت صرف تقوی الٰہی سے ہوتی ہے ، احتمال قوی ہے کہ یہ حدیث اس زمانہ میں گڑھی گئی کہ جب ذات پات اور نژاد پرستی کا دور دورہ تھا ، ورنہ اس حدیث کے مطابق ابو لہب کو جو بنی ہاشم سے تھا دیگر مسلمانوں پر فوقیت حاصل ہوجائیگی جبکہ اس کے بارے میں قرآن کی نص ہے کہ وہ جہنمی ہے !لیکن اہل بیت کی فضیلت خاندان پرستی کی بنا پر نہیں ہے، ان کی فضیلت ان کی ذاتی لیا قت، شرافت اور کرامت کی بناپر ہے .مترجم

(٢) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی منقول ہے :

مجمع الزوائد ج ٢، ص ١٧٢ ۔ کنز العمال ج ٦،ص ٢٠٤۔

(٣) ابو احمد عبد اﷲ بن عدی جرجانی مشہور بہ ابن قطان؛ موصوف کی پیدائش ٢٧٧ ھ میں جرجان میں ہوئی، اور ٣٦٥ ھ میں چل بسے ، آپ بہت بڑے محدث، فقیہ اور علم رجال کے ماہرعالم تھے ، آپ نے طلب علم میں مختلف شہروں کا سفر کیا ، آپ کی بعض کتابیں یہ ہیں :

الکامل ، المعجم ، الانتصار اوراسماء الصحابة

موصوف کے حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں دیکھئے:

تذکرة الحفاظ ج ٣ ص٩٤٠ لسان المیزان ج١،ص ٦۔ اللباب ج١،ص ٢١٩۔ شذرات الذہب ج٣،ص٥١۔

(٤)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

ذخائر العقبی

( اس حدیث کو اس کتاب میںمناقب احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے)

مناوی؛ کنوز الحقائق ص١٣٤۔ ینابیع المودة ص ٤٧۔سیوطی در منثور ج٦، ص٧۔

مذکورہ حدیث بعض نسخوں میں اس طرح وارد ہوئی ہے :

من ابغض اہل البیت فہو منافق

جوبھی اہل بیت سے د شمنی رکھے وہ منافق ہے

(٥) ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد بن حبا ن تمیمی بستی؛ موصوف ٢٧٠ ھ میں متولد ہوئے ، اور سیستان میں ٣٥٤ ھ میں وفات پائی ، آپ علم فقہ، حدیث ، طب ،نجوم اور لغت میں کافی دست رس رکھتے تھے ، آپ سمر قند کے قاضی بھی تھے ، آ پ نے متعددکتابیں تالیف کی ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں : ا لمسند الصحیح ، الضعفاء اور التاریخ آپ شہر نیشاپور ، بخارہ ،نسا اور سیستان میں قیام پذیر رہے ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتاب میںدیکھئے :

تذکرة الحفاظ ج ٣ ،ص ٩٢٤، ٩٢٠.

(٦) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

ہیثمی ؛ الظمان الی زوائد ابن حبان ص ٥٥٥

( ہیثمی نے اس کتاب میں لفظ اہل البیت حذف کردیاہے )

ا لصواعق ا لمحرقة ص ٢٣٧، ابن حجر۔

حاکم؛ مستدرک ا لصحیحین ج٣، ص ١٥٠.

حاکم کہتے ہیں: یہ حدیث بشرط صحیح مسلم صحیح ہے

سیوطی ؛ ا لخصائص الکبری ج ٢،ص ٢٦٦۔ در منثور ج٦، ص ٢١٨۔

اورسیوطی کہتے ہیں: یہ حدیث احمد بن حنبل ، حاکم اور ابن حبان نے ابو سعید خدری سے نقل کی ہے

پندرھویں حدیث:

اہل بیت سے بغض و حسد رکھنے والا حوض کوثر سے دھتکارا جائے گا

اخرج الطبرانی ،عن الحسن بن علی رضی اﷲ عنهما انه قال لمعاویة بن خدیج: یا معاویه بن خدیج! ایاک و بغضنا ، فان رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال: ((لا یبغضنا احد ، ولا یحسدنا احد الا ذید یوم القیامة عن الحوض بسیاط من نار ))

طبرانی حسن بن علی(١) سے نقل کرتے ہیں کہ امام حسن نے معاویہ بن خدیج کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا:اے معاویہ بن خدیج(٢) !ہمارے بغض سے اجتناب کر،کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : جو بھی ہم سے بغض اور حسد کرے گا اسے روز قیامت آتشیں کوڑوں سے دھتکار کے بھگادیاجائے گا ۔ (٣)

سولھویں حدیث:

عترت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حق کو اعتراف نہ کرنے والا منافق ، حرامی اور ولد الحیض ہوگا

اخرج ابن عدی، والبیهقی فی ''شعب الایمان ''عن علی ؛ قال: قال رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((من لم یعرف حق عترتی والانصار فهو لاحد ی ثلاث ، اما منافق ، واما لزنیة ، واما لغیر طهوریعنی حملته امه علی غیر طهر.))

ابن عدی اور بیہقی(٤) ]اپنی کتاب شعب الایمان میں[ نے علی سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جو میری عترت اور انصار کے حق کو نہ پہنچانے وہ تین حالتوں سے خالی نہیں :یا وہ منافق ہوگا ، یا زنا زادہ یا پھر اس کانطفہ ایام عادت میںاستقرار پایا ہوگا ( یعنی اس کی ماں کے رحم میں اس کا نطفہ اس وقت قائم ہوا ہو جب اس کی ماں حیض کی حالت میں ہو )۔ ( ٥)

گزشتہ اسناد و مدارک کی تحقیق:

(١)ابو محمد اما م حسن مجتبی ابن علی ابی طالب (ع) ہاشمی؛ آپ کی ولادت با سعادت١٥ رمضان ٢ ھ میں ہوئی، اور ٥٠ ھ میں معاویہ کے بہکانے پر آپ کی بیوی جعدہ نے آپ کو زہر دیدیا، جس کی بناپرآپ کی شہادت واقع ہوگئی ، آپ کی اور امام حسین ـ کی ہی شان میں رسول اسلام نے فرمایا :

''الحسن والحسین سیدا شباب اهل الجنة ''

حسن اور حسین جوانان حنت کے سردار ہیں ، بہر حال حضرت علی ـ کی شہادت کے بعد عراق کے لوگوں نے امام حسن ـ کی بیعت کی، بیعت کے بعد حضرت امام حسن ـ معاویہ بن ابی سفیان سے اس کی سر کشی کی بنا پر نبرد آزما ہوئے، لیکن آپ کے لشکر والوں نے آپ کے ساتھ دھوکہ دیا، اور معاویہ کی دولت کے چال میں آکر وہ حضرت ہی کے مقابلہ میں آگئے ، جسکی وجہ سے ناگز یر ہوکر امام حسن ـ نے معاویہ سے صلح کی ، اور مدینہ پلٹ آئے ، آپ کے حالات زندگی متعدد کتابوں نقل کئے گئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں :

فی رحاب ائمة اہل البیت ج ٢ ، ص ٤٦۔ حلیة الاولیاء ج ٢ ، ص ٤٥ ، ٣٩۔ الاستیعاب ج١، ص ٣٩٤، ٣٨٣۔ الاصابة ج ٢، ص ١٣، ١١۔

(٢)معاویہ بن خدیج بن عقبہ سکونی کندی ؛ موصوف کا معاویہ بن ابو سفیان کے قریب مشاوروں میں شمار ہوتا ہے ، اور بغض اہل بیت میں بہت زیادہ شہر ت رکھتے تھے ، چنانچہ علامہ مدائنی ابو طفیل سے اس طرح نقل کرتے ہیں :

ایک مرتبہ امام حسن ـ نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا : کیا تم معاویہ بن خدیج کو پہنچانتے ہو ؟ اس نے کہا :ہاں ، تو امام نے کہا : اب جب بھی تم اسے دیکھو تو مجھے خبر کرنا ، پس اس صحابی نے معاویہ بن خدیج کو عمر وبن حریث کے گھر سے نکلتا ہوادیکھا، تو اس نے امام سے کہا : یہی معاویہ بن خدیج ہے ، حضرت نے اس کو بلایا اور کہا :

انت شاتم علیا ً عند ابن آکلة الاکباد ؟!

تو ہی ہندہ جگر خوار کے بیٹے کے نزدیک میرے باپ علی کو گالی دیتا ہے:

((واﷲ لئن وردت الحوض ولا ترده لترینه مشمرا عن ساقیه حاسراً عن ذراعیه یذود عنه المنافقین ))

خدا کی قسم جب تو روز قیامت حوض کوثر کے کنارے پہنچے گا ، تو پتہ چلے گا کہ تو ہرگز وہاں سے نہیں گزر سکے گا، اور وہاں علی ـ کو دیکھے گا کہ وہ اپنی آستینوں اور پائجامہ کو سمیٹے منافقین کیلئے با لکل آمادہ کھڑے ہیں ،اور منافقوں کو پکڑ پکڑ کرحوض کوثر سے دور کررہے ہیں

مزید معلومات کیلئے دیکھئے :

فی رحاب ائمہ اہل البیت جلد ٣، ص ٢٨۔ ٧٢.

(٣) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی منقول ہے :

طبرانی ؛ المعجم ا لکبیر جلد١، ص١٢٤،وص ١٣٢(قلمی نسخہ ،ظاہریہ لائبریری دمشق سوریہ) مجمع الزوائد جلد ٩،ص ١٧٢۔ کنزالعمال ج لد٦، ص ٢١٨۔ منتخب کنز العمال جلد٥، ص ٩٤۔ درمنثور جلد ٦،ص ٧۔

طبرانی نے مذکورہ حدیث کے ضمن میں ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:

ابو مسلم عبد الٰہ بن عمر و واقفی کشی چند واسطے کے بعد معاویہ بن خدیج سے نقل کرتے ہیں: ایک مرتبہ یزید بن معاویہ نے مجھے(معاویہ بن خدیج) بلایا اور حضرت امام حسن کی بیٹی یا آپ کی بہن سے اپنا رشتہ طے کرنے کیلئے بھیجا ، جب اس چیز کو میں نے امام حسن سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا : ''انا قوم لا نزوج نسائنا حتی نستامرهن فاتها '' ہم وہ لو گ ہیں جو اپنی بیٹیوں کی شادی کسی سے نہیں کرتے مگر ان سے مشورہ کرنے کے بعد ، لہٰذا تو خود اس کے پاس جا اور اپنے مطلب کو بیان کر ،معاویہ بن خدیج امام کی بات کو سن کر آپ کی دختر کے پاس گیا ،اور اپنے مطلب کو بیان کیا ، تو اس باعفت دختر نے فرمایا : خدا کی قسم میں یہ کام ہرگز نہیں کر سکتی ، اس لئے کہ اگر یہ کام انجام پا گیا تو تیرا دوست (یزید ) فرعون ہو گا جو بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا ، اور پھر ان کی لڑکیوں کو قیدی بنا لیتا تھا ، میں (معاویہ بن خدیج ) یہ سن کر بہت پشیمان ہوا ،اور امام کے پاس آکر عرض کیا : آپ نے ایسی لڑکی کے پاس بھیجا تھا جو نہایت زیرک اور لا جواب خطیب ہے ، وہ تو امیر المومنین معاویہ کے بیٹے کو فرعون کہہ رہی ہے! اس وقت امام نے فرمایا :

یا معاویه بن خدیج! ایاک و بغضنا ، فان رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال: ((لا یبغضنا احد ، ولا یحسدنا احد الا ذید یوم القیامة عن الحوض بسیاط من نار))

اے معاویہ بن خدیج !ہمارے بغض سے اجتناب کر،کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :

جو بھی ہم سے بغض اور حسد کرے گا اسے روز قیامت آتشی ںنیزوں سے دھتکار کے بھکادیا جائیگا

(٤)ابو بکر احمد بن حسین بن علی بن موسی خسرو جردی بیہقی ؛ موصوف ٣٨٤ ھ میں متولد ہوئے، اور ٤٥٨ ھ میں وفات پائے ، آپ کی جملہ کتابوں میں سے حسب ذیل کتابیں یہ ہیں :

ا لسنن ، الآثار ، شعب الایمان اور دلا ئل النبوة

موصوف کے حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے :

تذکرة الحفاظ ج٣، ١١٣٥، ١١٣٢۔ الاعلام ج ١، ص ١١٣۔

(٥) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی منقول ہے :

کنز العمال جلد ٦،ص ٢١٨۔ منتخب کنزالعمال ج ٥، ص٩٤۔ الفصول المہمة ص ٢٧۔ الصواعق المحرقة ص ٢٣١۔

سترھویں حدیث:

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آخری ارشاد : میرے اہل بیت کے بارے میں میرا پاس رکھنا

اخرج الطبرانی فی الاوسط ، عن ابن عمر ؛ قال: ((آخر ما تکلم به رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : ((اخلفونی فی اهل بیتی )).

طبرانی کتاب'' المعجم الاوسط '' میں ابن عمر (١)سے نقل کرتے ہیں : رسول اکرم نے آخری وقت ( جب آپ دنیا سے رخصت ہورہے تھے ) جس جملہ کو ارشاد فرمایا وہ یہ تھا : اہل بیت کے بارے میں تم میرا لحاظ رکھنا ۔(٢)

اٹھارہویں حدیث:

بے حب اہل بیت تمام اعمال بیکار ہیں

اخرج الطبرانی فی الاوسط،عن الحسن بن علی رضی اﷲ عنهما؛ ان رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال: ((الزموامودتنا اهل البیت فانه من لقی اﷲ وهو یودنا دخل الجنة بشفاعتنا،والذی نفسی بیده لاینفع عبداً عمله الا بمعرفة حقنا ))

طبرانی کتاب'' المعجم الاوسط ''میں علی سے نقل کرتے ہیں کہ رسول نے فرمایا:ہم اہل بیت کی محبت و مودت کی گرہ ( اپنے دلوں میں )مضبوط باندھ لو ،اور اسے اپنے اوپر لازم قرار دے لو، کیونکہ جو بھی ہماری محبت لے کر مرے گا وہ ہماری شفاعت سے جنت میں داخل ہوگا ،( اور بلا شک جس کے دل میں ہماری محبت نہ ہوگی وہ جہنم میں جائے گا ) قسم اس ذات کی جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے ، کسی کا کوئی عمل فائدہ مند نہیں ہوگا مگر ہمارے حق کی معرفت کے ساتھ ۔ (٣)

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

(١) ابو عبد الرحمن عبد اﷲ بن عمر بن الخطاب ؛ موصوف ہجرت کے دس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے، اور ٧٣ ھ میں مکہ میں وفات پاگئے ، صاحبان کتب صحاح ستہ نے آپ سے اپنی کتابوں میں ٢٦٣٠ حدیثیںنقل فرمائی ہیں ، آپ کے بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے :

الاصابة ج ٤،ص ١٠٩،١٠٧۔ تذکرة الحفاظ ج ١ ، ص ٤٠ ، ٣٧۔

(٢) مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں نقل کی گئی ہے :

ہیثمی ؛مجمع الزوائد ج ٩، ص ١٤٦۔

اس حدیث کو ہیثمی نے اس کتاب میں طبرانی سے نقل کیا ہے

الصواعق المحرقة ص ٩٠۔ نبہانی بیرونی؛ الشرف ا لمؤبد

(٣) مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں نقل کی گئی ہے :

ہیثمی ؛مجمع الزوائد ج ٩، ص١٧٢۔

اس حدیث کو ہیثمی نے طبرانی کی کتاب معجم اوسط سے اس کتاب میں نقل کیا ہے

ا لصواعق المحرقةص ٢٣٠۔

انیسویں حدیث :

اہل بیت کا دشمن بروز قیامت یہودی محشور ہوگا

اخرج الطبرانی فی الاوسط ،عن جابر بن عبدا ﷲ رضی اﷲ عنه؛ قال: خطبنا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فسمعته وهو یقول :(( ایها الناس من ابغضنا اهل البیت حشره اﷲ تعالی یوم القیامة یهودیاً ))

طبرانی'' المعجم الاوسط ''میں جابر بن عبد اﷲ(١) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام نے ( ایک دن ) خطبہ دیا جس میں آپ کومیںنے یہ فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! جس نے اہل بیت سے بغض رکھا خدا روز قیامت اسے یہودی محشور کرے گا ۔(٢)

بیسویں حدیث:

جو بنی ہاشم کو دوست نہ رکھے وہ مؤمن نہیں

اخرج الطبرانی فی الاوسط ،عن عبداﷲ بن جعفر؛ قال:سمعت رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول:((یا بنی هاشم ، انی قد سألت اﷲ لکم ان یجعلکم نجداء رحماء ، وسألته ان یهدی ضالکم ، و یؤمن خائفکم ، ویشبع جائعکم ، والذی نفسی بیده لا یؤمن احد حتی یحبکم بحبی ، اترجون ان تدخلوا الجنة بشفاعتی ولا یرجوها بنو عبد المطلب))

طبرانی المعجم الاوسط میں عبد اﷲ بن جعفر (٣)سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام سے میں نے سنا کہ آپ نے فرمایا : اے بنی ہاشم!میں نے خدا سے تمھارے لئے (چند چیزوں کو چاہا ہے): یہ کہ وہ تمھیں شجاع قرار دے ، اورباہمی رحم وکرم کا خوگر بنائے، یہ کہ جو تم میں بھٹک جائے اس کی راہنمائی فرمائے ،اور جو تم میں خائف اور کمزور ہوں ان کو امن و امان میں رکھے ، جو بھوکے ہوں انھیں شکم سیر کرے، اس ذات کی قسم جسکے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے ،کوئی بھی شخص سچا مسلمان اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ میرے واسطے سے تم سے محبت نہ کرے ،اے لوگو! کیا تم یہ سوچ سکتے ہو کہ تم میری شفاعت کے ذریعہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ، اور بنی عبد المطلب یہ امیدہ نہ رکھیں!(یہ ہرگز نہیں ہو سکتا بلکہ وہ میری شفاعت کے تمھاری بنسبت زیادہ حقدار ہیں ) (٤).

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

(١)ابو عبد اﷲ جابر بن عبد اﷲ بن عمر انصاری سلمی ؛ آپ کا شما ر رسول کے جلیل القدر صحابیوں ، اور موثق راویوں میں ہوتا ہے ، آپ ہجرت سے بیس سال قبل پیدا ہوئے ، آپ عقبہ ٔ ثانیہ میں اپنے باپ کے ساتھ رسول کی خدمت میں مشرف ہوئے،حالانکہ اس وقت آپ بہت چھوٹے تھے ، امام بخاری نقل کرتے ہیں: جنگ بدر میں جناب جابر کے ذمہ پانی کا اٹھانا، اور اس کا بند و بست کرنا تھا ، اس کی بعد آپ نے ١٨ جنگوں میں رسول کے ساتھ شرکت کی ، اور کلبی کے نقل کے مطابق آپ نے جنگ صفین میں حضرت علی کی طرف سے شرکت کی ،بہرحال آپ کا شمار بہت اچھے حفاظ احادیث میں سے ہوتا ہے،چنانچہ آپ کی طرف ایک صحیفہ بھی منسوب ہے جس کے سلسلہ ٔرواة میں پہلا فرد سلیمان بن قیس یشکری ہے ، آپ آخری عمر میںنابینا ہوگئے تھے ، اور آپ نے ٧٤ ھ میں ٩٤ سال کی عمر میں مدینہ میں وفات پائی ، آپ کے حالات زندگی کے مطالعہ کیلئے مندرجہ کتابیں دیکھئے:

الاستیعاب ج ١،ص ٢٢٠، ٢١٩۔ طبقات ابن سعد ج٥، ص ٤٦٧۔ تہذیب التہذیب ج٤ ،ص ٢١٤۔اسد الغابة ج١ ص ٣٥٨، ٣٥٦۔

(٢)مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں نقل کی گئی ہے :

ہیثمی ؛ مجمع الزوائد ج ٩، ص١٧٢۔

ہیثمی نے اس حدیث کو اس کتاب میں طبرانی سے نقل کیا ہے)

ابن حجر عسقلانی ؛ لسان المیزان ،ج ٣،ص ١٠۔

(٣)عبد اﷲ بن جعفر بن ابی طالب ہاشمی قرشی ؛ آپ رسول اسلام کے خاص صحابی ، تھے ماں کانام اسماء بنت عمیس تھا ، ہجرت کے پہلے سال آپ کی ولادت حبشہ کی سر زمین پر ہوئی ،آپ ہی مسلمان کے پہلے وہ فرز ند تھے جس کی پیدائش حبشہ میں ہوئی ، اس کے بعد آپ اپنے باپ کی ساتھ مدینہ آئے ، اور حدیث رسول کو حفظ کرنے کے بعد نقل کرنے لگے ، اور بعد میں بصرہ ، کوفہ اور شام میں سکونت اختیار کی ، اور اپنے نہایت جود وسخاوت کی بناپر سخی و کریم جیسے القا ب سے مشہور ہوئے ، آپ نے جنگ صفین میں حضرت علی ـ کی طرف سے ایک ممتاز لشکری کی حیثیت سے جنگ میں شرکت کی ، اور ٩٠ سال کی عمر میں ٩٠ ھ میں شہر مدینہ میں وفات پائی

(٤)مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں نقل کی گئی ہے :

ہیثمی؛مجمع الزوائد ج ٩، ص١٧٠۔

ہیثمی نے اس حدیث کو اس کتاب میں طبرانی سے نقل کیا ہے.

کنز العمال ج٦،ص ٢٠٣۔حاکم؛ مستدرک الصحیحین ج٣،ص ١٤٨۔

(حاکم کہتے ہیں: یہ حدیث شرط مسلم کے اعتبار سے صحیح ہے

الصواعق المحرقة ص ١٤٠۔