احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)0%

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع) مؤلف:
زمرہ جات: متن احادیث

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

مؤلف: عالم اہل سنت ،علامہ جلال الدین سیوطی
زمرہ جات:

مشاہدے: 12275
ڈاؤنلوڈ: 3757

تبصرے:

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 59 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12275 / ڈاؤنلوڈ: 3757
سائز سائز سائز
احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)

مؤلف:
اردو

ا ڑ تیسویں حدیث :

اولاد فاطمہ جہنم میں نہیں جائے گی

اخرج البزار، و ابو یَعْلی،والعقیلی ، والطبرانی ،وابن شاهین ، عن ابن مسعود ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( ان فاطمة احصنت فرجها فحرم اﷲ ذریتها علی النار ))

بزار ، ابو یعلی(١) ،عقیلی(٢)، طبرانی اور ابن شاہین(٣) نے ابن مسعود(٤) سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا :چونکہ فاطمہ زہرا نے اپنے ستر او رپردہ کو محفوظ رکھا تو خدا نے( اس کی پاداش میں) ان کی ذریت پر آتش کو حرام قرار دیا ۔ (٥)

انتالیسویں حدیث :

فاطمہ اور ا ن کے دونوں بیٹے جہنم میں نہیں جائیں گے

اخرج الطبرانی ،عن ابن عباس ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لفاطمة : ((ان اﷲ غیر معذبک ولا ولدک ))

طبرانی نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول نے فاطمہ سے فرمایا : خدا تجھے اور تیری اولاد کو عذاب نہیں کرے گا۔ (٦)

چالیسویں حدیث :

کبھی گمراہ نہ ہونے کا آسان نسخہ

اخرج الترمذی وحسنه ،عن جابر ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( یا ایها الناس انی ترکت فیکم ما اخذتم به لن تضلوا :کتاب اﷲ و عترتی ))

ترمذی نے حسن سند کے ساتھ جابر سے نقل کیا ہے کہ رسول نے فرمایا :اے لوگو! میں تمھارے درمیان وہ چیز چھوڑ رہا ہوں کہ اس کے ہوتے ہوئے تم گمراہ نہ ہوگے ،وہ کتاب خدا اور میری عترت ہے ۔ (٧)

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

(١) ابو یعلی احمد بن علی بن مثنی بن یحی بن ہلال تمیمی صاحب کتاب المسند الکبیر ؛ موصوف ٢١٠ ھ میں پیدا ہوئے اور ٣٠٨ ھ میں وفات پاگئے دیکھئے : تذکرة الحفاظ ج٢،ص ٧٠٩ ، ٧٠٧

(٢) ابو جعفر محمد بن عمر و بن موسی بن حماد عقیلی حجازی صاحب کتاب الضعفاء ؛ آپ مسلمانوں کے بہت بڑے محدث اور ایک زحمت کش عالم دین تھے ، مکہ اور مدینہ میں زندگی گزارتے تھے ٣٢٢ ھ، بقیہ حالات زندگی ذیل کی کتابوں میں دیکھئے :

الوافی بالوفیات ج ٤،ص٢٩١۔تذکرة ا لحفاظ ١، ص ٨٣٣۔

(٣) ابو حفص عمر بن احمد بن عثمان بن احمد بغدادی واعظ معروف بہ ابن شاہین ؛

موصوف نے تقریباً ٣٣٠ کتابیں تالیف کی ہیں ، ان میں سے ایک کتاب تفسیر کبیر ہے جو ١٥٠٠ جزء پر مشتمل ہے ، آپ ٢٩٧ ھ میں پیدا ہوئے ،اور ٣٨٥ ھ میں وفات پائی ، بقیہ حالات زندگی ذیل کی کتابوں میں دیکھئے :

المنتظم ج ٧،ص ١٨٢ ۔ غایة النہایة ج١،ص ٥٨٨۔ لسان المیزان ج٤،ص ٢٨٣۔ تذکرة الحفاظ ج ١،ص ٩٩٠، ٩٨٧۔

(٤) ابو عبد الرحمن عبد اﷲ بن مسعود بن غافل بن حبیب ہذلی ؛ موصوف کا شمار بزرگ و قدیم صحابہ میں ہوتا ہے ، اور ابو نعیم کی روایت کے مطابق آپ چھٹے فردہیں جو سب سے پہلے اسلا م لائے ، آپ ہی وہ پہلے فرد ہیں کہ قرآن کو جہر( بلند آواز )میں پڑھا ، آپ رسول کے خدمت گزار ، امین اور رسول کے ہمراز تھے ، آپ کی ماں کانام ام عبد بنت عبد ود تھا ،اس لئے آپ کو ابن مسعود کے بجائے ام ابن عبد بھی کہا گیا ہے ، آپ نے دو ہجرتیں کیں ، ایک بار حبشہ اور ایک بار مکہ سے مدینہ ہجرت کی ، رسو ل کی وفات کے بعد آپ کوفہ میں بیت المال کے سرپست ہوئے ، لیکن حضرت عثمان کی حکومت کے زمانہ میں خلیفہ صاحب کے غیظ و غضب کا شکار ہوئے ،اور ، ٣٢ ھ میں مدینہ میں انتقال کرگئے ، اور اسی شب جنت البقیع میں دفن کردیا گیا

دیکھئے الاعلام ٤ ،ص ٢٨٠۔

(٥)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

زوائد مسند بزار ص ٢٨٠۔ حاکم؛المستدرک ج ٣،ص ١٥٢۔ محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص٤٨۔ کنز العمال ج ٦،ص٢١٩۔ ج١٢،ص ١١۔ الصواعق ا لمحرقة ص٢٣٢۔ نزل الابرار ص ٧٨۔ میزان الاعتدال ج ٣ ،ص ٢١٦۔ مجمع الزوائد ج٩،ص ٢٠٢۔ تاریخ بغداد ج٣،ص ٥٤۔ طبرانی ؛المعجم الکبیر ج١،ص ٢٤۔

طبرانی نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے :

(( ان فاطمة احصنت فرجها و ان اﷲ ادخلها با حصان فرجها و ذریتها الجنة ))

حضرت فاطمہ زہرا نے اپنا دامن پاک رکھا ، پس خدا نے ان کو اس کی جزا یہ عطا کی کہ انھیں اور ان کی اولاد کو جنت میں داخل کرے گا

(٦)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

کنز العمال ج ٣،ص١٦٥۔ منتخب کنزالعمال ج ٥،ص٩٧۔ الصواعق ا لمحرقة ص٢٢٣۔ نزل الابرار ص ٨٣۔ الدرة الیتیمة فی بعض فضائل السیدة العظیمة ص٢٨.

(٧)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوںمیں بھی پائی جاتی ہے :

کنز العمال ج١،ص٤٨۔ طبرانی ؛المعجم الکبیر ج١،ص ١٢٩۔ ترمذی؛ الجامع الصحیح (صحیح ترمذی شریف)

اکتالیسویں حدیث :

رسول کی شفاعت محبان اہل بیت سے مخصوص ہے

اخرج الخطیب فی تاریخه ،عن علی ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( شفاعتی لامتی من احب اهل بیتی))

خطیب بغدادی (١)اپنی تاریخ میں علی سے نقل کرتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : میری امت میں جومیرے اہل بیت کو دوست رکھے گا میری شفاعت اسی کے نصیب ہوگی ۔(٢)

بیالیسویں حدیث :

رسول خدا سب سے پہلے اپنے اہل بیت کی شفاعت کریں گے

اخرج الطبرانی ،عن ابن عمر ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( اول من اشفع له من امتی اهل بیتی ))

طبرانی نے عبد اﷲ ابن عمرسے نقل کیا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : سب سے پہلے جس کی میں شفاعت کروں گا وہ میرے اہل بیت ہوں گے ۔ (٣)

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

(١)ابو بکر احمد بن علی بن ثابت بن احمد بن مہدی بغدادی معروف بہ خطیب بغدادی ؛ موصوف ٣٩٢ ھ میں غزیة ( کوفہ اور بغداد کے درمیان ایک دیہات ) میں پیدا ہوئے ،آپ ٤٦٣ ھ کو وفات پاگئے، آپ کی بغدا دمیں ہی پرورش ہوئی ، علم دین کی تلاش میں مکہ ، بصرہ ، دینور،کوفہ اور دیگر شہروں کی جانب سفر کئے ، آپ ایک بہت بڑے عالم ، ادیب ، شاعر اور بیحد مطالعہ کے شوقین تھے ، آپ نے متعددکتابیں تالیف فرمائی ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں :

تاریخ بغداد ، الجامع ، الکفایہ ، اور المتفق والمفترق ۔

(٢) مذکورہ حدیث کو خطیب بغدادی نے اس طرح نقل کیا ہے :

''شفاعتی لامتی من احب اهل بیتی وهم شیعتی ''

میری شفاعت میری امت کے ان افراد کو شامل ہوگی جو میرے اہل بیت سے محبت کریںگے وہ میرے شیعہ ہیں

دیکھئے : کنز العمال ج ٦،ص٢١٧۔ الجامع الصغیر ج٢،ص ٤٩۔ ینابیع المودة ص ١٨٥۔

(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میںمیں بھی پائی جاتی ہے :

محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص٢٠۔ کنز العمال ج ٦،ص٢١٥۔ الصواعق ا لمحرقة ص١١١۔ مجمع الزوائد ج١،ص٢٨٠۔ مناوی ؛ فیض القدیر ج٢ص٩٠۔

تینتالیسویں حدیث:

رسول قیامت میں قرآن اور اہل بیت کے بارے میں باز پرس کریں گے

اخرج الطبرانی ،عن المطلب بن عبد اﷲ بن حنطب، عن ابیه؛ قال: خطبنا رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بالجحفه ، فقال: الست اولی بکم من انفسکم ؟ قالوا: بلی، یا رسول اﷲ ! قال: فانی سائلکم عن اثنین ، عن القرآن و عترتی ))

طبرانی نے عبد المطلب بن عبد اﷲ بن حنطب(١) سے انھوں نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے مقام جحفہ(٢) میں ہمارے درمیا ن خطبہ ارشاد فرمایا جس میں یہ کہا: کیا میں تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق تصرف نہیں رکھتا ؟ سب نے کہا : کیوں نہیں یا رسول اﷲ !آپ ہمارے نفوس پر اولی بالتصرف ہیں، رسول اسلام نے اس وقت فرمایا : میں( روز قیامت ) تم سے دو چیزوں کے بارے میں سوال کروں گا ( ایک ) قرآن اور (دوسری )میری عترت (٣) (کہ تم نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا تھا؟)

چوالیسویں حدیث :

قیامت میں چار چیزوں کے بارے میں سوال ہوگا

اخرج الطبرانی ،عن ابن عباس ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( لا تزول قدما عبد یوم القیامة حتی یسأل عن اربع ، عن عمره فیما افناه ، وعن جسده فیما ابلاه، وعن ماله فیما انفقه ، ومن این اکتسبه ، و عن محبتنا اهل البیت ))

طبرانی نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: روز قیامت کوئی بندۂ خدا ایک قدم بھی نہیں بڑھا سکے گا جب تک اس سے ان چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے گا:

١۔اپنی ساری عمر کس طرح صرف کی؟

٢۔اپنا جسم وبدن کہاں نابود کیا ؟

٣۔ مال کس راستے سے کمایا اور کس کام میں خرچ کیا ؟

٤۔ہم اہل بیت کی محبت کے بارے میں، کہ تھی یا نہیں ؟(٤)

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

(١) مطلب بن عبد اﷲ بن حنطب بن حارث بن عبید بن عمر بن مخزوم مخزومی قرشی ؛

موصوف جنگ بدر میں اسیر ہوئے اور پھر اسلام لے آئے ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں دیکھئے :

الاصابة ج٦،ص ١٠٤ ۔ تہذیب التہذیب ج ١٠،ص١٧٨۔ میزان التعدال ج٤،ص ١٢٩۔

(٢) جحفہ؛ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔

(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

مجمع الزوائد ج٥،ص١٩٥۔ اسد الغابة ج ٣،ص ١٤٧۔ ابو نعیم ؛ حلیة الاولیاء ج ١،ص ٦٤۔

ابو نعیم نے اس حدیث کو حضرت علی ـ سے اس طرح نقل کیا ہے :

ایها الناس ! الست اولی بکم من انفسکم ؟قالوا: بلی یا رسول اﷲ ، قال:فانی کائن لکم علی الحوض فرطاً وسائلکم عن اثنین ، عن القرآن و عترتی ))

اے لوگو ! کیا میں تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق تصرف نہیں رکھتا ؟ سب نے کہا : کیوں نہیں یا رسول اﷲ !آپ ہمارے نفوس پر اولی بالتصرف ہیں،تو رسول اسلام نے اس وقت فرمایا : میں تم سے پہلے حوض کوثر پر وارد ہوںگا او ر تم سے وہاں دو چیزوں کے بارے میں سوال کروںگا ،قرآن اور میری عترت

(٤)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوںمیں بھی پائی جاتی ہے :

کنز العمال ج٧،ص٢١٢۔ کفایہ الطالب ص ١٨٣۔ ہیثمی ؛ مجمع الزوائد ج١٠،ص٣٤٦۔

ہیثمی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : اس وقت لوگوں نے رسول سے کہا : آپ کی دوستی کی کیا شناخت ہے ؟ آپ نے اس وقت علی کے شانوں ہاتھ مارا ( یعنی اس کی دوستی میری دوستی کی علامت ہے )۔

پینتالیسویں حدیث :

سب سے پہلے اہل بیت رسول حوض کوثر پر واردہوں گے

اخرج الدیلمی ،عن علی ؛ قال:سمعت رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یقول:(( اول من یرد علیّ الحوض اهل بیتی ))

دیلمی(١) نے حضرت علی سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا : سب سے پہلے جو حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہو گا وہ میرے اہل بیت ہوں گے۔ (٢)

چھیا لیسویں حدیث :

اپنی اولاد کو تین باتوں کی تلقین کرو

اخرج الدیلمی ، عن علی ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( ادبوااولادکم علی ثلاث خصال: حب نبیکم ، حب اهل بیته ، وعلی قرائة القرآن ، فان حملة القرآن فی ظل اﷲ یوم لا ظل الا ظله مع انبیائه و اصفیائه ))

دیلمی نے حضرت علی سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا : اپنی اولاد کی ان تین عادتوں کے ذریعہ پرورش کرو( یعنی انھیں تین باتوں کی عادت ڈالو):اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت ، ان کے اہل بیت سے دوستی اور قرآن کریم کی تلاوت ،کیونکہ قرآن کے پڑھنے اور حفظ کرنے والے اس دن کہ جس دن سایہ الٰہی کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا لیکن یہ اس کے انبیاء اور اوصیا ء کے ساتھ(لطف الٰہی کے) سایہ تلے ہوںگے۔(٣)

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

(١)ابو شجاع شیر ویہ بن شہر دار بن فنا خسرو دیلمی ؛ آپ بہت بڑے حافظ اور محدث تھے ، آ پ کی تالیف کردہ کتابیں '' تاریخ ہمدان ، اور الفردوس '' ہیں ، آپ سے محمد بن فضل اسفرائنی اورشہر دار بن شیرویہ دیلمی نے روایات نقل کی ہیں ، ٥٠٩ ھ میں انتقال ہوا ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتاب میں ملاحظہ کریں:

تذکرة الحفاظ ج ٤،ص ١٢٥٩۔

(٢) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوںمیں بھی پائی جاتی ہے :

کنوز الحقائق ص ١٨٨ ۔ مجمع الزوائد ج٩، ص ١٣١۔ الفتاوی الحدیثیة ص ١٨۔ ینابیع المودة ص ٢٦٨۔ متقی ہندی ؛ کنزالعمال ج ٦،ص ١٧۔

متقی ہندی نے اس حدیث کواس طرح نقل کیا ہے :

(( اول من یرد علیّ الحوض اهل بیتی ومن احبنی من امتی ))

سب سے پہلے حوض کوثر پر میرے پاس میرے اہل بیت اور میری امت کے وہ لوگ جومجھ سے محبت کرتے ہیں وارد ہوںگے.

محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص ١٨

محب الدین طبری نے اس طرح نقل کیا ہے :

''یرد الحوض اہل بیتی ومن احبہم من امتی کہاتین''

میرے اہل بیت اور میری امت میں سے جو ان سے محبت کرتے ہیں وہ ان دو انگلیوں کی مانند( جوکہ ایک دوسرے سے با لکل متصل ہیں) حوض کوثر کے کنارے وارد ہوںگے.

(٣) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :

متقی ہندی ؛ کنزالعمال ج٨،ص ٢٧٨۔ مناوی ؛ فیض القدیر ج١ ص ٢٢٥۔ سیوطی ؛ الجامع الصغیر ج ١،ص ٢٤۔ نبہانی ؛ الفتح الکبیر جلد١ ، صفحہ ٥٩۔ الصواعق المحرقة صفحہ ، ١٠٣۔

سینتالیسویں حدیث :

جو محب اہل بیت ہوگا وہی پل صراط پر ثابت قدم رہے گا

اخرج الدیلمی ، عن علی ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( اثبتکم علی الصراط اشدکم حباً لاهل بیتی و اصحابی ))

دیلمی نے حضرت علی سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا : پل صراط پر تم لوگوں میں سے وہی زیادہ دیر تک ثابت قدم رہ سکتا ہے جو میرے اہل بیت اور(نیک کردار)اصحاب کو جتنا زیادہ چاہتا ہوگا۔ (١)

اڑتالیسویں حدیث :

سادات کے خدمت کرنے والے بخش دئے جائیں گے

اخرج الدیلمی ، عن علی ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( اربعة انا لهم شفیع یوم القیامة ، المکرم لذریتی ، والقاضی لهم الحوائج ، والساعی لهم فی امورهم ، عندما اضطروا الیه ، والمحب لهم بقلبه و لسانه )).

دیلمی نے حضرت علی سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا : روز قیامت چار قسم کے لوگ ایسے ہوں گے جن کی میں شفاعت کروں گا:

١۔جس نے میری ذریت (اولاد) کا اکرام و احترام کیا ۔

٢۔جس نے میری ذریت(اولاد) کی حاجت روائی کی ۔

٣۔جو میری ذریت کے مشکلات پر اس وقت ان کی مدد کرے جب وہ ان مشکلات میں حیران و پریشان ہوں۔

٤۔وہ جو ان سے دل و زبان سے محبت کرتا ہو۔ (٢)

انچاسویں حدیث:

آل محمد کو اذیت دینے والے سے خدا سخت غضبناک ہو تا ہے

اخرج الدیلمی ، عن ابی سعید ؛ قال:قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((اشتد غضب اﷲ علی من آذانی فی عترتی ))

دیلمی نے ابو سعید خدری سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا :خدا وند متعال اس پرسخت غضبناک ہوتا ہے جو میری عترت پر اذیت کے ذریعہ مجھے ستائے۔ (٣)

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

(١)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوںمیں بھی پائی جاتی ہے :

متقی ہندی ؛ کنزالعمال ج٦،ص٢١٦۔ الصواعق المحرقة صفحہ ، ١٨٥۔

کنوز الحقائق صفحہ٥ ۔

(٢)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوںمیں بھی پائی جاتی ہے :

متقی ہندی ؛ کنزالعمال ج٦،ص٢١٧ ،جلد ٨،صفحہ ١٥١۔ الصواعق المحرقة صفحہ ، ٢٣٧۔ مقتل الخوارزمی جلد ٢ صفحہ ٢٥۔محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی صفحہ ١٨۔

اس کتاب میں مذکورہ حدیث کوامام رضا سے نقل کیا گیاہے

(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوںمیں بھی پائی جاتی ہے :

مناوی ؛ فیض القدیر ج١، ص ٥١٥۔ الصواعق المحرقة صفحہ ١٨٤۔

پچاسویں حدیث:

چھ قسم کے لوگوں کو خدا برا جانتا ہے

اخرج الدیلمی ، عن ابی هریرة ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( ان اﷲ یبغض الآکل فوق شبعه ،والغافل عن طاعة ربه، والتارک لسنة نبیه ، والمخفر ذمته ، والمبغض عترة نبیه ، والموذی جیرانه ))

دیلمی نے ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلا م نے ان چھ قسم کے لوگوں کے بارے میں کہ جنھیں خدا بری نگاہ سے دیکھتا ہے ،ارشادفرمایا :

١۔ خدا اس شخص پر غضبناک ہوتا ہے جو شکم سیر ہونے کے باوجود کھانا کھائے ۔

٢۔اور جو اپنے پرور دگا ر کی اطاعت سے غافل رہے ۔

٣۔اور جو سنت رسول کو ترک کرے ۔

٤۔ اور جو عہد شکنی اور بیوفائی کرے ۔

٥۔ اورجوپنے نبی کی آل (عترت ) سے بغض رکھے۔

٦۔ اورجو اپنے پڑوسیوں کو ستائے ۔(١)

اکیاونویں حدیث :

نیک سادات تعظیم اور برے سادات در گزر کے مستحق ہیں

اخرج الدیلمی ، عن ابی سعید الخدری ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( اهل بیتی والانصار کرشی و عیبتی ، و موضع سرتی و امانتی ، فاقبلوا من محسنهم ، وتجاوزوا عن مسیئهم ))

دیلمی نے ابو سعید خدری سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا :میرے اہل بیت(سادات) اور انصار میرے قلب و جگر اور میرا ظرف ہیں ،لہٰذا ان میں سے جو نیک ہوں ان کا خیر مقدم(تعظیم) کرو اور ان میں سے جو برے (٢)ہو ان کو درگزر کرو۔ (٣)

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

(١)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتاب میں بھی نقل کی گئی ہے :

متقی ہندی ؛ کنزالعمال ج٩،ص١٩١۔

(٢) محترم قارئین! حدیث کا یہ جملہ کہ'' ان کے بروں سے دور رہو'' یہ انصار سے مربوط ہے ، ا ہل بیت(ع) سے نہیں، کیونکہ اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان برے افراد کا پایا جانا محال ہے ، یا پھر اہل بیت کے معنی میں وسعت دی جائے یعنی اہل بیت میں وہ تمام لوگ شریک ہوں جو رسول کے کسی نہ کسی طرح رشتہ دار ہوں ، اس صورت میں اس جملہ کا مفہوم صحیح ہوجائیگا ، لیکن یہ توجیہ اور تاویل صحیح نہیں ہے ، کیونکہ رسو ل کے اہل بیت میں شیعوں کے یہاں متفقہ طور پر اور اہل سنت کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ اہل بیت میں صرف اور صرف فاطمہ الزہرا اور بقیہ ائمہ معصومین(ع) ہیں مترجم

(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :

متقی ہندی ؛ کنزالعمال ج٩،ص١٩١۔الصواعق المحرقة ص ٢٢٥۔ الفصول المہمة ص ٢٧۔

باونویں حدیث :

فرزندان عبد المطلب پر کئے گئے احسان کا بدلہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دیں گے

اخرج ابو نعیم فی الحلیة ،عن عثمان بن عفان ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :((من اولی رجلاً من بنی عبد المطلب معروفاً فی الدنیا فلم یقدرالمطلبی علی مکافأته، فانا اُکافئه ،عنه یوم القیامة))

ابو نعیم(٢) نے اپنی کتاب حلیة الاولیاء میں عثمان بن عفان (٢)سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا : جو عبد المطلب کی اولاد میں سے کسی ایک کے ساتھ اس دنیا میں کوئی نیکی کرے گااور وہ (مطلبی)اس دنیا میں اس کا بدلہ ادا نہ کرسکا تو میں روز قیامت اس کا بدلا ادا کروں گا ۔ (٣)

تریپنویں حدیث :

قیامت میں اولاد عبد المطلب پر نیکی کا بدلہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دیں گے

اخرج الخطیب ،عن عثمان بن عفان ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( من صنع صنیعة الی احد من خلف عبد المطلب فی الدنیافعلیَّ مکافأتُه اذا لقینی ))

خطیب بغدادی نے عثمان بن عفان سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا :

جس نے عبد المطلب کی اولاد میں سے کسی ایک کے ساتھ اس دنیا میں کوئی نیکی کی ہے(اور وہ اس دنیا میں اس کا بدلہ ادا نہ کرسکا )توروز قیامت جب وہ مجھ سے ملاقات کر ے گا تو، اس کا بدلہ میرے اوپر واجب ہے۔ (٤)

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

(١) ابو نعیم احمد بن عبد اﷲ بن احمد بن اسحاق بن موسی بن مہران اصفہانی ؛ آپ کی پیدائش ٣٣٦ ھ میں ہوئی ، اور ٤٣٠ ھ میں وفات ہوئی ، آپ کے بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں ملاحظہ کریں :

تذکرة الحفاظ ج٣،ص١٠٩٨،١٠٩٢۔ البدایہ والنہایہ ج١٢،ص ٤٥،۔ طبقات سبکی ج٤،ص ١٨۔ میزان الاعتدال ج١، ص١١١۔ لسان المیزان ج١١،ص ٢٥١۔ وفیات الاعیان ج٣ ، ٥٢

(٢) عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس قرشی ؛ آپ ہجرت سے ٣٧ سال قبل شہر مکہ میں پیدا ہوئے ، اور بعثت کے کچھ سال کے بعد ہی اسلام قبول کیا ، اور ٣٢ ھ میں خلیفہ دوم حضرت عمر کے قتل کے بعد شوری کے ذریعہ جس کے افراد خلیفۂ دوم نے معین کئے تھے ، تخت خلافت پرجائے گزیں ہوئے ، آپ کی حکومت ان تمام فتوحات اور ثروت سے مالا مال اور سرشار تھی جو حضرت عمر کے زمانہ میں حاصل ہوئے تھے ،ان کے دور میں بہت سے شہر فتح ہو کر اسلامی مملکت کے جز بنے ، بہر حال عثمان کی سب سے بڑی خدمت یہ تھی کہ آپ نے قرآن جمع کیا ، آپ کی حکومت میں بنی امیہ نے اسلامی حکومت پر غلبہ حاصل کر لیا جس کی بنا پر نظام حکومت درہم برہم ہونا شروع ہوا ، اور ہر طرف فساد برپا ہونے لگا ، عام لوگ یہ دیکھ کر حضرت عثمان سے ناراض ہوگئے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ ٣٥ ھ میں قتل کردئے گئے ، اور آپ کے دور حکومت کا خاتمہ ہوا ، آپ کے بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میںملاحظہ کریں :

تذکرة الحفاظ ج١،ص١٠،٨۔الاصابة ج٤،ص ٢٧١، ٢٦٩۔

(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتاب میں بھی نقل کی گئی ہے :

کنز العمال ج ٦، ص ٢٠٣۔ ذخائر العقبی ص ١٩۔الصواعق المحرقة ص ١١١۔ فیض القدیر ج٦، ص ١٧٢۔

(٤)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتاب میں بھی نقل کی گئی ہے :

کنز العمال ج ٦، ص٢١٦۔الصواعق المحرقة ص١٨٥۔ینابیع المودة ص ٣٧٠.

چونویں حدیث :

اہل بیت پر کئے گئے احسان کا بدلہ قیامت میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دیں گے

اخرج ابن عساکر ،عن علی ؛ قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( من صنع الی احد من اهل بیتی یداً کافأته یوم القیامة ))

ابن عساکر نے علی سے نقل کیا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:جو میرے اہل بیت میں سے کسی ایک کے ساتھ کوئی نیکی کرے گا میں روز قیامت اس کا بدلہ ادا کروں گا ۔(١)

پچپنویں حدیث :

اہل بیت سے تمسک ذریعۂ نجات ہے

اخرج الباوردی عن ابی سعید ؛قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( انی تارک فیکم ما ان تمسکتم به لن تضلوا ، کتاب اﷲ سبب طرفه بید اﷲ، وطرفه بایدیکم ، وعترتی اهل بیتی ، وانهما لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض ))

باوردی(٢) نے ابو سعید خدری سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: تمھارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ ان سے اگر تم نے تمسک کیا تو تم کبھی گمراہ نہ ہوگے :وہ کتاب خدا ہے کہ جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس کا دوسرا سرا تمھارے ہاتھ میں ہے، اور دوسری میری عترت ہے جو میرے اہل بیت ہیں ،اوریہ دونوں چیزیں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوںگی،یہاں تک کہ یہ دونوں باہم حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہو ں گی۔(٣)

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

(١ ) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :

الصواعق المحرقة ص ١٨٥۔ فیض القدیر ج٦، ص ١٧٢۔ ذخائر العقبی ص ١٩۔متقی ہندی ؛ کنزالعمال ج٦،ص٢١٦۔

(٢) ابو محمد عبد اﷲ بن محمد بن عقیل باوردی ؛ آپ اصفہان کے رہنے والے تھے ، اور ابو بکر احمد بن سلمان نجار بغدادی سے حدیث نقل کرتے تھے

دیکھئے : سمعانی ؛ الانساب ج ٢،ص ٦٥۔

(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :

حلیة الاولیاء ج١،ص ٣٥٥۔ تاریخ بغداد ج ١٠ ص ١٧ ، ٦٦۔مجمع الزوائد ج ١٠، ص ٣٦٣۔ متقی ہندی ؛کنزالعمال ج٦،ص٢١٦۔ ج٧، ص ٢٢٥۔

متقی ہندی نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے :

(( یا ایها الناس ! انی تارک فیکم ما اخذتم به لن تضلوا بعدی ؛ امرین احدهما اکبر من الآخر ، کتاب اﷲ حبل ممدود ما بین السماء والارض ، وعترتی اهل بیتی ، وانهما لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض ))

رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: اے لوگو! تمھارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ ان سے اگر تم نے تمسک کیا تو تم گمراہ نہ ہوگے : ان میں سے ایک امر دوسرے سے اکبر ہے اوروہ کتاب خدا ہے کہ جو رسی کی مانند زمین و آسمان کے درمین کھینچی ہوئی ہے،(یعنی جس کا ایک سرا آسمان تک پہنچا ہوا ہے جو خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس کا دوسرا سرا زمین تک پہونچا ہوا ہے جو تمھارے ہاتھ میں ہے) اور دوسرے میری عترت ہے جو میرے اہل بیت ہیں ،اوریہ دونوں چیزیں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوںگی،یہاں تک کہ یہ دونوں باہم حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوںگی

چھپنویں حدیث :

کتاب خدا اور اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نجات امت کا وسیلہ ہیں

اخرج احمد والطبرانی ، عن زید بن ثابت ؛قال: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( انی تارک فیکم خلیفتین ، کتاب اﷲ حبل ممدود ما بین السماء والارض ، و عترتی اهل بیتی ، وانهما لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض ))

احمد اور طبرانی نے زید بن ثابت سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: تمھارے درمیان دوخلیفہ( جانشین) چھوڑ رہا ہوں ، ایک کتاب خدا ہے جو آسمان اور زمین کے درمیان (رسی کی مانند) کھینچی ہوئی ہے(یعنی خدا کی کتاب رسی کی مانند ہے کہ جس کا ایک سرا آسمان میںہے جو خدا کے ہاتھ میں ہے، اور دوسرا سرا زمین میں ہے جوتمھارے ہاتھ میں ہے) اور دوسرے میری عترت ہے جو میرے اہل بیت ہیں ،اوریہ دونوں چیزیں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگی،یہاں تک کہ یہ دونوں باہم حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں گی۔ (١)

ستاونویں حدیث :

چھ قسم کے لوگوں پر خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لعنت کی ہے

اخرج الترمذی و الحاکم ، والبیهقی فی'' شعب الایمان '' عن عائشة ؛ مرفوعاً: قال رسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(( ستة لعنتهم ولعنهم اﷲ و کل نبی مجاب : الزائد فی کتاب ﷲ ، والمکذب بقدر اﷲ ،والمتسلط بالجبروت ، فیعز بذالک من اذل اﷲ ، ویذل من اعز اﷲ ، والمستحل لحرام اﷲ، والمستحل من عترتی ما حرم اﷲ ، والتارک لسنتی ))

ترمذی ، حاکم اور بیہقی ( کتاب شعب الایمان میں مرفوع سند کے ساتھ)نے عائشہ (٢)سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا : چھ قسم کے لوگ ایسے ہیں جن پر میں نے ، خدا نے اور ہر مستجاب الدعوات نبی نے لعنت کی ہے، اور وہ یہ لوگ ہیں:

١۔ جو خدا کی کتاب میں زیادتی کرے ۔

٢۔ جوقضاء و قدر الٰہی کو جھٹلائے ۔

٣۔ جو حکومت پر جبراً قبضہ کرکے اس کے ذریعہ ان لوگوں کو کہ جن کو خدا نے ذلیل قرار دیا ہے عزت دے ، اور ان کو ذلیل کرے جنھیں خدا نے عزت بخشی ہے۔

٤۔ جو خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال سمجھے ۔

٥۔جو میری عترت کی اس عزت و حرمت کو( برباد کرنا ) حلال سمجھے جو انھیں خدا نے عطا کی ہے۔

٦۔جو میری سنت کو ترک کرے ۔(٣)

اسناد و مدار ک کی تحقیق :

(١)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :

کنزالعمال ج١،ص٤٤ ۔ا لمسند ج٥، ١٨١۔ ہیثمی ؛ مجمع الزوائد ج٩، ص ١٦٣۔

ہیثمی کہتے ہیں: اس حدیث کو احمد بن حنبل نے خوب اور جید سند کے سا تھ نقل کیا ہے

ابن حجر ؛ الصواعق المحرقة ص ١٣٦۔

ابن حجر کہتے ہیں : اس حدیث کو بیس سے زیادہ صحابیوں نے نقل کیا ہے.

(٢) ام المومنین حضرت عائشہ زوجہ ٔ رسو ل بنت ابی بکر بن ابی قحافہ ؛

آپ ہجرت کے دس سال قبل دنیا میںآئیں ، اور جنگ بدر کے بعد آپ کی شادی رسو ل خدا سے ہوئی ، اور ٣٥ ھ میں طلحہ اور زبیر کے ورغلانے پر ان کے ساتھ حضرت علی ـ کے مقابلہ میں جنگ جمل میں تشریف لائیں ! ام المومنین عائشہ سے محدثین نے تقریباً ٢٢١٠ حدیثیں نقل کی ہیں ، آپ کی وفات ٥٥ سال کی عمر میں ٧٥ ھ کو ہوئی ،اور ابو ہریرہ نے آپ پر نماز جنازہ پڑھی ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں ملاحظہ کریں :

الاصابة ج٨،ص ١٤١۔ تذکرة الحفاظ ج١،ص٢٩،٢٧۔

(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :

ینابیع المودة ص ٢٧٧ ۔کنز العمال ج٨، ص١٩١۔ خطیب تبریزی ؛ مشکاة المصابیح ص٥٧٣۔الجامع الصحیح ( ترمذی شریف )ج١،ص ٣٨۔حاکم؛ مستدرک الصحیحین ج١،ص ٣٦۔

حاکم اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : اس حدیث کے تمام اسناد صحیح ہیں ،میں تو اس کے راویوں کوکہیں سے ضعیف نہیں پاتا ہوں ، اگرچہ امام بخاری ور امام مسلم نے اس حدیث کو اپنی کتابوں میں نہیں نقل کیا ہے ! مستدرک میں ایک دوسری جگہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :یہ حدیث شرط بخاری کے مطابق صحیح ہے