فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 368374 / ڈاؤنلوڈ: 6244
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

معاویہ چاہتا تھا کہ توحید اور وحدانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے راہ توحید کے بزرگ جانثار، کہ جس کی قربانیوں اور فداکاریوں کے صدقے میں توحید کے درخت نے لوگوں کے دلوں میں وحدانیت کی بنیاد رکھی اور اس کے اثرات مرتب ہوگئے ،ایسی شخصیت پر تنقید کرے اور اسے برا او رناسزا کہے،.

سعدوقاص باطنی طور پر امام کے دشمنوں میں سے تھا اور آپ کے معنوی مقامات اور ظاہری افتخارات سے حسد کرتا تھا۔ جس دن عثمان مصریوں کے ہجوم کی وجہ سے قتل ہوئے سب لوگوںنے تہہ دل سے امیر المومنین کو خلافت اور زعامت کے لئے انتخاب کیا. سوائے چند افراد کے جنھوں نے آپ کی بیعت کرنے سے انکار کردیا تھاکہ سعد وقاص بھی انھیں میں سے ایک تھا.جب عمار نے اسے حضرت علی کی بیعت کے لئے دعوت دی تو اس نے بہت خراب جواب دیا.عمار نے اس واقعے کو ا مام کی خدمت میں عرض کیا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: حسد نے اس کو میری بیعت اور میرا ساتھ دینے سے روک دیا ہے۔

سعد ،امام علیہ السلام کا اتنا سخت مخالف تھا کہ ایک دن خلیفۂ دوم نے شورائے خلافت تشکیل دینے کا حکم دیا اور شوری کے چھ آدمیوں کا خود انتخاب کیا اور سعد وقاص او ر عبد الرحمن بن عوف، سعد کا چچازاد بھائی اور عثمان کا بہنوئی، کو شوری کے عہدہ داروں میں قرار دیا. شوری کے علاوہ دوسرے افراد نے بڑی باریک بینی سے کہا کہ عمر، شوری تشکیل دیکر کہ جس میں سعد و عبد الرحمن جیسے افراد بھی شامل ہیں ، چاہتا ہے کہ تیسری مرتبہ خلافت کو حضرت علی کے ہاتھوں سے چھین لے اور آخر میں نتیجہ بھی یہی ہواکہ جس کی پیشنگوئی ہوئی تھی۔

سعد نے ،امام علیہ السلام سے عداوت و دشمنی رکھنے کے باوجود جب دیکھا کہ معاویہ، علی ـ کو برے اور نازیبا الفاظ سے یاد کر رہا ہے تو تلملا اٹھا اور معاویہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

مجھے اپنے تخت پر بٹھاکر میرے سامنے علی کو برا کہتا ہے ؟ خدا کی قسم اگر ان تین فضیلتوں میں سے جو علی کے پاس تھیں ایک بھی فضیلت میرے پاس ہوتی تواس سے بہتر ہوتی کہ وہ ساری چیزیں جن پر سورج کی کرنیں پڑتی ہیں میری ملکیت میں ہوتیں ۔

۱۔ جس دن پیغمبر نے مدینے میں اسے اپنا جانشین بنایا اور خود جنگ تبوک پرچلے گئے اور علی سے اس طرح فرمایا: تمہاری نسبت مجھ سے ایسی ہی ہے جیسے ہارون کو موسی سے تھی سوائے اس کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

۱۰۱

۲۔ جس دن نصارائے نجران کے ساتھ مباہلہ تھا تو پیغمبر نے علی ، فاطمہ، حسن و حسین کا ہاتھ پکڑا اور کہا: پروردگارا یہی میرے اہلبیت ہیں۔

۳۔ جس دن مسلمانوں نے یہودیوں کے اہم ترین قلعہ خیبر کے بعض حصوں کو فتح کیا تھا لیکن قلعہ ''قموص'' جو سب سے بڑا قلعہ اور یہودیوں کا سب سے بڑا مرکز تھا آٹھ دن تک اسلامی فوج کے محاصرے میں تھا اور اسلام کے مجاہدین میں اسے فتح کرنے اور کھولنے کی صلاحیت نہ تھی، اور رسول اسلام کے سر میں اتنا شدید درد تھا کہ وہ بہ نفس نفیس جنگ میں حاضر نہیں ہوسکتے تھے تاکہ فوج کی سپہ سالاری اپنے ہاتھوں میں لیتے، روزانہ آپ عَلَم کو لیتے اور فوج کے بزرگوں کو دیتے تھے اور وہ سب کے سب بغیر نتیجہ کے واپس آجاتے تھے .ایک دن عَلَم کو ابوبکر کے ہاتھ میںدیا پھر دوسرے دن عمر کو دیا لیکن دونوں کسی شجاعت کا مظاہرہ کئے بغیر رسول خدا کی خدمت میں واپس آگئے. اسی طرح سلسلہ چلتا رہا ،اس طرح کی ناکامی پیغمبر خدا کے لئے بہت سخت تھی، لہٰذا آپ نے فرمایا:

''کل میں علم ایسے شخص کودوں گا جو ہرگز جنگ کرنے سے فرار نہیں کرے گا اوردشمن کو اپنی پیٹھ نہیں دکھائے گا اور اس کو خدا اور رسول خدا دوست رکھتے ہوںگے اور خداوند عالم اس قلعہ کو اس کے ہاتھوں سے فتح کرائے گا''

۱۰۲

جب پیغمبر کی بات کو حضرت علی سے نقل کیا گیا تو آپ نے خدا کی بارگاہ میں عرض کیا''اَلَلَّهُمَّ لٰامُعْطِیْ لِمٰا مَنَعْتَ وَ لٰامٰانِعَ لِمٰا اَعْطَیْتَ'' یعنی پروردگارا، جو کچھ عطاکرے گا اسے کوئی لینے والا نہیں ہے اور جو کچھ تو نہیں دے گا اس کا دینے والا کوئی نہ ہوگا۔

(سعد کا بیان ہے) جب سورج نکلا تو اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کے خیمے کے اطراف میں جمع ہوگئے تاکہ دیکھیں کہ یہ افتخار رسول کے کس صحابی کو نصیب ہوتا ہے جب پیغمبر خیمے سے باہر آئے سب سر اٹھا اٹھا کر ان کی طرف دیکھنے لگے میں (سعد)پیغمبر کے بغل میں کھڑا تھا کہ شاید ا س افتخار کا مصداق میں بن جاؤں، اور شیخین سب سے زیادہ خواہشمند تھے کہ یہ افتخار ان کو نصیب ہوجائے .اسی اثناء میںپیغمبر نے پوچھا علی کہاں ہیں؟ لوگوں نے حضرت سے کہا: وہ آشوب چشم کی وجہ سے آرام کر رہے ہیں. پیغمبر کے حکم سے سلمہ بن اکوع حضرت علی کے خیمے میں گئے اور ان کے ہاتھ کو پکڑکر پیغمبر کی خدمت میں لائے. پیغمبر نے ان کے حق میں دعا کی اور آپ کی دعا ان کے حق میں مستجاب ہوئی اس وقت پیغمبر نے اپنی زرہ حضرت علی کو پہنایا،ذو الفقار ان کی کمر میں باندھا اور علم ان کے ہاتھوںمیں دیااور فرمایا کہ جنگ کرنے سے پہلے اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا، اور اگر یہ قبول نہ کریں تو ان تک یہ پیغام دینا کہ اگر وہ چاہیں تو اسلام کے پرچم تلے جز یہ دیں اور اسلحہ اتار کر آزادانہ زندگی بسر کریں. اور اپنے مذہب پر باقی رہیں. اور اگر کسی چیز کو قبول نہ کریں تو پھر ان سے جنگ کرنا ،اور جان لو کہ جب بھی خداوند عالم تمہارے ذریعے کسی کی راہنمایی کرے اس سے بہتر یہ ہے کہ سرخ بالوں والے اونٹ تمہارا مال ہوں او رانھیں خدا کی راہ میں خرچ کردو۔(۱)

سعد بن وقاص نے ان واقعات کو جن کو میں نے تفصیل سے بیان کیا ہے مختصر طور پر بیان کیا اور احتجاج کے طور پر معاویہ کی مجلس ترک کری۔

______________________

(۱) صحیح بخاری ج۵ ص ۲۳۔ ۲۲، صحیح مسلم ج۷ ص ۱۲۰، تاریخ الخمیس ج۲ ص ۹۵، قاموس الرجال ج۴ ص ۳۱۴منقول از مروج الذہب

۱۰۳

خیبر میں اسلام کی تابناک کامیابی

اس مرتبہ بھی مسلمانوں نے حضرت امیر المومنین کی جانثاریوں کے طفیل عظیم الشان کامیابی و فتح حاصل کرلیا. یہی وجہ ہے کہ امام کو ''فاتح خیبر'' کہتے ہیں. جب امام ایک گروہ کے ساتھ جو آپ کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا قلعہ کے پاس پہونچے تو آپ نے علم کو زمین (پتھر) میں نصب کردیا، اس وقت قلعہ میں موجود تمام سپاہی باہر چلے گئے. مرحب کا بھائی حارث نعرہ لگاتا ہوا حضرت علی کی طرف دوڑا اس کا نعرہ اتنا شدید تھا کہ جو سپاہی حضرت علی کے ہمراہ تھے وہ پیچھے ہٹ گئے او رحارث نے بھوکے شیر کی طرح حضرت علی پر حملہ کیا لیکن کچھ ہی دیر گزری ہو گی کہ اس کا بے جان جسم زمین پر گرپڑا۔

بھائی کی موت نے مرحب کو بہت زیادہ متاثر کیا، وہ اپنے بھائی کا بدلہ لینے کے لئے حضرت علی کے سامنے میدان میں آیا، وہ اسلحوں سے لیس تھا. لوہے کی بہترین زرہ اور پتھر کاخود اپنے سر پر رکھے تھا اورایک اور خود اس کے اوپر سے پہن رکھا تھا، دونوں طرف سے رجز پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا. اسلام و یہودی کے دو بہادروں کی تلوار اور نیزے کی آواز نے دیکھنے والوں کے دلوں میں عجیب وحشت ڈال رکھی تھی اچانک اسلام کے جانباز کی برق شرر بار تلوار مرحب کے سر سے داخل ہوئی اور اس کو دو ٹکڑے کرتے

ہوئے زمین پر گرادیا. یہودی بہادرکا جو مرحب کے پیچھے کھڑے تھا وہ بھاگ گیا اور وہ گروہ جو حضرت علی سے مقابلہ کرنا چاہتا تھا ان لوگوںنے فرداً فرداً جنگ کیا اور سب کے سب ذلت کے ساتھ قتل ہوگئے۔

اب وہ وقت آپہونچا کہ امام قلعہ میں داخل ہوں مگر بند در وازہ امام اور سپاہیوں کے لئے مانع ہوا غیبی طاقت سے آپ نے باب خیبر کو اپنی جگہ سے اکھاڑا اور سپاہیوں کے داخل ہونے کے لئے راستہ ہموار کردیااور اس طرح سے فساد و بربریت کے آخری گھرکو اجاڑ دیا اور مسلمانوں کو اس شر یر اور خطرناک عناصر جو ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے دل میں رکھتے یا رکھے ہیں آسودہ کردیا۔(۱)

______________________

(۱) محدثین اور سیرت لکھنے والوں نے فتح خیبر کی خصوصیات اور امام کے قلعہ میں داخل ہونے اور اس واقعہ کے دوسرے حادثات کو بہت تفصیل سے لکھا ہے دلچسپی اور تفصیلات کے خواہشمند افرادان کتابوں کی طرح مراجعہ کریں جو سیرت پیغمبر پر لکھی گئی ہیں۔

۱۰۴

امیر المومنین ـ کی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نسبت

ابھی ہم نے حضرت علی کی تین فضیلتوں میں سے ایک فضیلت جو سعد بن وقاص نے معاویہ کے سامنے بیان کی تھی کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے، اس لئے بہتر ہے کہ باقی ان دو فضیلتوں کو بھی بطور خلاصہ بیان کردیں۔

تمام افتخارات میں سے ایک افتخار امام کے لئے یہ بھی ہے کہ تمام جنگوں میں آپ پیغمبر کے ساتھ ساتھ اور ہمیشہ لشکر کے علمبردار رہے سوائے جنگ تبوک کے ، کیونکہ آپ پیغمبر کے حکم سے مدینہ میں موجودتھے اور پیغمبر اسلام منافقوں کے ارادے سے باخبر تھے کہ میرے مدینے سے نکلنے کے بعد یہ لوگ مدینہ پر حملہ کریں گے .اسی وجہ سے آپ نے حضرت علی سے فرمایا: تم میرے اہلبیت اور رشتہ داروں اور گروہ مہاجرین کے سرپرست ہو. او رمیرے اور تمہارے علاوہ اس کام کے لئے کوئی دوسرا لیاقت نہیں رکھتا۔

حضرت علی کے مدینے میں قیام کی وجہ سے منافقوں کے ارادوں پر پانی پھر گیا، لہٰذا منافقوں نے ہر جگہ یہ افواہ اڑا دی کہ پیغمبراور حضرت علی کے درمیان کشیدگی ہے اور حضرت علی نے راستے کی دوری اور شدید گرمی کی وجہ سے خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے دوری اختیار کرلی ہے۔

ابھی پیغمبر مدینے سے زیادہ دور نہیں ہوئے تھے کہ یہ خبر پورے مدینہ میں پھیل گئی، امام علی ـ

ان کی تہمت کا جواب دینے کے لئے پیغمبر کی خدمت میں پہونچے اور حضرت سے پورا ماجرا بیا ن کیا. پیغمبر نے اپنے اس تاریخی جملے(کہ جس کی سعد بن وقاص نے خواہش کی تھی کہ کاش اس کے بارے میں کہا جاتا) سے حضرت کو تسلی دی اور فرمایا:

۱۰۵

''اما ترضی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسیٰ الا انه لا نبی بعدی''

کیا تم راضی نہیں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے ایسے ہی ہے جیسے ہارون کی نسبت موسی سے تھی؟ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(۱)

اس حدیث ، جسے دانشمندوں کی اصطلاح میں، حدیث ''منزلت'' کہتے ہیں،نے تمام وہ منصب جو ہارون کے پاس تھے حضرت علی کے لئے ثابت کردیا سوائے نبوت کے کیونکہ نبوت کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔

یہ حدیث اسلام کی متواتر حدیثوں میں سے ایک ہے جسے محدثین اور مؤرخین نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے:۔

حضرت علی کی تیسری عظیم فضیلت جسے سعد بن وقاص نے بیان کیا ہے وہ پیغمبر کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ تھا، ان لوگوں نے پیغمبر سے مسیحیت کے باطل عقیدوں کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد بھی اسلام قبول نہیں کیا لیکن مباہلہ کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کردیا۔

مباہلہ کا وقت آیا پیغمبر نے اپنے اعزاء میں سے صرف چار آدمیوں کا انتخاب کیا تاکہ اس تاریخی واقعے میں شرکت کریں اور یہ چار افراد سوائے حضرت علی اور آپ کی بیٹی فاطمہ اور حسن و حسین کے کوئی اور نہ تھا. کیونکہ تمام مسلمانوں کے درمیان ان سے زیادہ کوئی پاک و پاکیزہ اورایمان میں محکم نہیں تھا۔

پیغمبر اسلام میدان مباہلہ میں عجب شان سے آئے اپنی آغوش میں امام حسین کو لئے ہوئے تھے، ایک ہاتھ سے امام حسن کی انگلیاں پکڑے تھے اور فاطمہ اور حضرت علی آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے وہاںپہونچنے سے پہلے اپنے ہمراہیوں سے کہا میں جب بھی دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا۔

______________________

(۱) سیرۂ ابن ہشام ج۲ ص ۵۲۰، بحارالانوار ج۲۱ ص ۲۰۷، مرحوم شرف الدین نے اپنی کتاب ''المراجعات'' میں اس حدیث کے تمام ماخذ کو ذکر کیا ہے۔

۱۰۶

پیغمبر کا نوارانی چہرہ اور چار افراد کا چہرہ جن میںتین آپ کے شجرہ مقدس کی شاخیں تھیں، نے ایسا ولولہ پیدا کردیا کہ نجران کے عیسائی مبہوت ہوگئے عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری نے کہا کہ میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگریہ بددعا کردیں تو یہ بیابان بھڑکتے ہوئے جہنم میں تبدیل ہو جائے اور یہ عذاب وادی نجران تک پہنچ جائے لہٰذا انھوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کردیااور جزیہ دینے پر راضی ہوگئے۔

عائشہ کہتی ہیں:

مباہلہ کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چار ہمراہیوں کواپنی کالی عبا کے دامن میں چھپایا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( اِنَّمٰا یُرِیْدُاللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْراً )

زمخشری کہتے ہیں:

مباہلہ کا واقعہ اور اس آیت کا مفہوم یہ دونوں اصحاب کساء کی فضیلت پر بہت بڑے گواہ ہیں اور مذہب اسلام کی حقانیت پر ایک اہم سند اور زندہ مثال شمار ہوتے ہیں۔(۱)

______________________

(۱) کشاف ج۱ ص ۲۸۲۔ ۲۸۳، تفسیر امام رازی ج۲ ص ۴۷۱۔ ۴۷۲

۱۰۷

آٹھویں فصل

دشمنوں کے ساتھ انصاف سے پیش آنا

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :'' علی ـ احکام خداوندی کے جاری کرنے میں بہت زیادہ غور و فکر اور سختی سے عمل کرتے تھے اور ہرگز ان کی زندگی میں چاپلوسی اور خوشامدی کا دخل نہیں تھا''

جو لوگ اپنی زندگی میں پاکیزہ مقصد کی تلاش میں رہتے ہیںوہ دن رات اس کی تلاش و جستجو کرتے رہتے ہیں، اور ان چیزوں کے مقابلے میں جو ان کے ہدف کی مخالف ہوں ان سے بے توجہ بھی نہیں رہتے ہیں. یہ لوگ ہدف تک پہونچنے میں جو راستہ طے کرتے ہیں اس میں بعض محبت و الفت کرنے والے ملتے ہیں تو بعض عداوت و دشمنی کرتے ہیں. پاک دل ا ور روشن ضمیر ان کی عدالت پختہ گیری پر فریفتہ ہوئے ہیں لیکن غافل اورغیر متدین افراد ان کی سختی اور عدالت سے ناراض ہوتے ہیں۔

وہ لوگ جو اچھے اور برے کام انجام دیتے ہیں اور مسلمان اور غیر مسلمان کوایک ہی صف میں رکھتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ کسی کی مخالفت مول لیں ایسے لوگ کبھی مذہبی اور بامقصد نہیں ہوسکتے کیونکہ تمام طبقوں کے ساتھ اتحاد و دوستی، منافقت اور دو رخی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت کے زمانے میں ایک شخص نے اپنے علاقہ کے حاکم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ تمام طبقے کے لوگ اس سے راضی ہیں. امام نے فرمایا: لگتا ہے کہ وہ شخص عادل نہیں ہے کیونکہ تمام لوگوں کا راضی ہونا اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ وہ منافق اور صحیح فیصلہ کرنے والا نہیں ہے ورنہ تمام لوگ اس سے راضی نہ ہوتے۔

امیر المومنین علیہ السلام ان لوگوں میں سے ان ہیں جو صلح و آشتی کرنے والوں سے مہر و محبت اور پاکیزہ و صاف دلوں کو بلندی عطا کرتے تھے اوراسی کے مقابلے میں غیظ و غضب کی آگ میں جلنے والوں اور قانون توڑنے والوںکو انھیں کے سینے میں ڈال دیاکرتے تھے۔

۱۰۸

امام عدالت کی رعایت اور کا اصول و قوانین پر سختی سے عمل کرنا صرف آپ کی حکومت کے زمانے سے مخصوص نہیں ہے اگرچہ بہت سے مؤرخین اور مقررین جب امام کی پاکیزگی اور عدالت کے متعلق گفتگو کرتے ہیںتو اکثر آپ کی حکومت کے دوران رونماہونے والے واقعات پر بھروسہ کرتے ہیں .کیونکہ آپ کی حکومت کے زمانے میں یہ عظیم انسانی فضیلت بہت زیادہ رائج تھی، مگر امام کا عدالت و انصاف اور قوانین پر سختی سے عمل پیرا ہونا رسول اسلام کے زمانے سے ہی ہر خاص و عام کی زبان پر تھا، اس بنا پر وہ لوگ جو امام کی عدالت و انصاف کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے گاہے بہ گاہے پیغمبر سے حضرت علی کی شکایت کرتے تھے اور ہمیشہ پیغمبر اس کے برعکس کہتے تھے اورکہتے تھے علی قانون الہی کے اجراء میں کسی کی رعایت نہیں کرتا.

زمانہ پیغمبر میں آپ سے متعلق چند واقعات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں اور ہم یہاں بطور مثال دوواقعات کو نقل کر رہے ہیں:

۱۔ ۱۰ ھ میں جب پیغمبر اسلام نے خانہ خدا کی زیارت کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت علی کو مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ ''یمن'' بھیج دیا پیغمبر نے حضرت علی کو حکم دیا تھا کہ جب یمن سے واپس آئیں تو وہ کپڑے جسے نجران کے عیسائیوں نے مباہلہ کے دن دینے کا دعدہ کیاتھااسے اپنے ہمراہ لائیں اور اسے آپ کے پاس پہونچا دیں، آپ کو ماموریت انجام دینے کے بعد معلوم ہوا کہ پیغمبر خانۂ کعبہ کی زیارت کے لئے روانہ ہوگئے ہیں اس لئے آپ نے راستے کو کو بدل دیا اور مکہ کی جانب روانہ ہوگئے. آپ نے مکہ کے راستے کو بہت تیزی کے ساتھ طے کیا ،تاکہ جلدسے جلد پیغمبر کے پاس پہونچ جائیں .اسی وجہ سے ان تمام کپڑوں کواپنے لشکر کے ایک سپہ سالار کے حوالے کردیا اور اپنے سپاہیوں سے الگ ہوگئے اور مکہ سے نزدیک پیغمبر کے پاس پہونچ گئے. پیغمبر اپنے بھائی کے دیدار سے بہت زیادہ خوشحال ہوئے اور جب احرام کے لباس میں دیکھا تو آپ سے احرام کی نیت کے متعلق حضرت علی نے جواب دیا: میں نے احرام پہنتے وقت کہا تھا خدایا میں اسی نیت پر احرام باندھ رہا ہوں جس نیت پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احرام باندھا ہے۔

حضرت علی نے اپنے یمن اور نجران کے سفر اور وہ کپڑے جو لے کر آئے تھے ،سے پیغمبر کو مطلع کیا اور پھر پیغمبر کے حکم سے اپنے سپاہیوں کے پاس واپس چلے گئے تاکہ دوبارہ ان کے ساتھ مکہ واپس جائیں۔جب امام اپنے سپاہیوں کے پاس پہونچے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کے جانشین سپہ سالار نے تمام کپڑوں کو سپاہیوں کے درمیان تقسم کردیا ہے اور تمام سپاہیوں نے ان کپڑوں کو احرام بنا کر پہن لیا ہے حضرت علی اپنے سپہ سالار کے اس عمل پر بہت سخت ناراض ہوئے اور اس سے کہا: ان کپڑوں کو رسول خدا کے سپرد کرنے سے پہلے تم نے کیوں سپاہیوں میں تقسیم کردیا؟ اس نے جواب دیاکہ آپ کے سپاہیوں نے بہت اصرار کیا کہ میں کپڑے کو ان لوگوں کے درمیان بطور امانت تقسیم کردوں او رحج کی ادائیگی کے بعد سب سے واپس لے لوں۔

۱۰۹

حضرت علی نے اس کی بات کو قبول نہیں کیااور کہا کہ تمہیں یہ اختیا رنہیں تھا. پھر آپ نے حکم دیا کہ تمام تقسیم ہوئے کپڑوں کو جمع کرو، تاکہ مکہ میں پیغمبر کے سپردکریں۔(۱)

وہ گروہ جنھیں عدالت و انصاف اورمنظم و مرتب رہنے سے تکلیف ہوتی ہے وہ ہمیشہ تمام امور کو اپنے اعتبار سے جاری کروانا چاہتے ہیں وہ لوگ پیغمبر کی خدمت میں آئے اور حضرت علی کے نظم و ضبط اور سخت گیری کی شکایت کی، لیکن وہ لوگ اس نکتہ سے بے خبر تھے کہ اس طرح سے قانون شکنی اور بے جاخلاف ورزی ایک بڑی قانون شکنی اور خلاف ورزی شمار ہوتی ہے۔

حضرت علی کی نظر میں ایک گناہگار شخص (خصوصاً وہ گناہگار جو اپنی لغزشوں کو بہت چھوٹاتصور کرے) اس سوار کی طرح ہے جو ایک سرکش او ربے لگام گھوڑے پر سوار ہو. تو یقینا وہ گھوڑا اپنے سوار کو گڑھوں اور پتھروں پر گرا دے گا۔(۲)

امام علیہ السلام کا مقصد اس تشبیہ سے یہ ہے کہ کوئی بھی گناہ چاہے جتنا ہی چھوٹا کیوںنہ ہواگر اس کو نظر انداز کردیا جائے تو دوسرے گناہوں کواپنے ساتھ لاتا ہے اور جب تک انسان کو گناہ کا مرتکب نہیں کردیتا اور آگ میں نہیں ڈال دیتا اس سے دوری اختیار نہیں کرپاتا. اسی وجہ سے انسان کے لئے ضروری ہے کہ شروع سے ہی اپنے کو گناہوں سے محفوظ رکھے. اور اسلامی اصول و قوانین کی معمولی مخالفت سے پرہیز کرے۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو حضرت علی کے تمام کام اور ان کی عدالت سے مکمل طور پر باخبرتھے، اپنے کسی ایک صحابی کو بلایا اور اس سے کہا کہ شکایت کرنے والوں کے پاس جاؤ اور میرے اس پیغام کو ان تک پہونچادو۔

______________________

(۱) بحار الانوار ج۲۱ ص ۳۸۵

(۲)أَلَا وَ اِنَّ الْخَطٰایَا خَیْل شَمْس حَمَل عَلَیْهَا اَهْلُهَا وَخَلَعَتْ لِجَمْهٰا فَتَقَحَّمَتْ بِهِمْ فِیْ النّٰار نہج البلاغہ خطبہ ۱۴.

'' علی کی برائی کرنے سے باز آجاؤ کیونکہ وہ خدا کے احکام کو جاری کرنے میں بہت سخت ہے اور اس کی زندگی میں ہرگز چاپلوسی اور خوشامد نہیں پائی جاتی۔

۱۱۰

۲۔ خالدبن ولید قریش کا ایک بہادر سردار تھا. اس نے ۷ھ میں مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت کی اور مسلمانوں کے ساتھ رہنے لگا .مگر اس کے پہلے کہ وہ قوانین الہی پر عمل پیرا ہوتا، اسلام کی نو بنیاد حکومت کو گرانے کے لئے قریش کی طرف سے جتنی بھی جنگیںہوئیں اس میں شریک رہا. یہ وہی شخص تھا جس نے جنگ احد میں مسلمانوں پر رات میں چھپ کر حملہ کیا اور ان کی فوج کی پشت سے میدان جنگ میں وارد ہوا. او راسلام کے مجاہدوں پر حملہ کیا .اس شخص نے اسلام لانے کے بعد بھی حضرت علی سے عداوت و دشمنی کو فراموش نہیں کیا او رامام کی قدرت و طاقت و بہادری سے ہمیشہ حسد کرتا رہا پیغمبر اسلام کی شہادت کے بعد خلیفہ وقت سے حضرت علی کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی، لیکن کسی علت کی بنا پر کا میاب نہ ہوسکا۔(۱)

احمد بن حنبل اپنی کتاب مسند میں تحریر کرتے ہیں:

پیغمبر اسلام نے حضرت علی کو اسی گروہ کے ساتھ کہ جس میں خالد بھی موجود تھا یمن بھیجا، اسلام کی فوج سے یمن کے ایک مقام پر قبیلۂ بنی زید سے جنگ ہوئی اور دشمنوں پر کامیابی حاصل کرلی اور کچھ مال غنیمت ہاتھ لگا. امام نے عدالت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مال غنیمت تقسیم کردیا اور یہ روش خالد بن ولید کی رضایت کے برخلاف تھی. اس نے پیغمبر اسلام او رحضرت علی کے درمیان سوء تفاہم پیدا کرنے کے لئے خط لکھا اور اسے بریدہ کے حوالے کیاتاکہ جتنی جلدی ممکن ہو پیغمبر تک پہونچا دے۔

بریدہ کہتا ہے:

میں بہت تیزی کے ساتھ مدینہ پہونچا اور اس نامہ کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالے کیا، حضرت نے اس نامہ کو اپنے کسی ایک صحابی کو دیا تاکہ وہ پڑھے اور جب وہ نامہ پڑھ چکا تو میں نے اچانک پیغمبر کے چہرے پر غیظ و غضب کے آثاردیکھا۔

بریدہ کہتا ہے کہ میں اس طرح کا خط لاکر بہت شرمندہ ہوا او رعذر خواہی کے لئے کہا کہ خالد کے حکم

______________________

(۱) اس واقعہ کی تشریح زندگانی امیر ا لمومنین کے چوتھے حصے میں آئی ہے جو حصہ مخصوص ہے امام کی زندگی کے حالات پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد سے۔

۱۱۱

سے میں نے یہ کام کیا ہے اور میرا اس کے حکم کی پیروی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

وہ کہتا ہے کہ جب میں خاموش ہوگیا تو کچھ دیر کے لئے سکوت طاری رہا. اچانک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس خاموشی کو توڑا اور فرمایا:

علی ـ کے بارے میں بری باتیں نہ کہو'' فَاِنَّه مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْهُ وَ هُوَ وَلِیَّکُمْ بَعْدِیْ'' (وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے بعد تمہارے ولی و حاکم ہیں)

بریدہ کہتا ہے کہ میں اپنے کئے پر بہت نادم تھا چنانچہ رسول خدا سے استغفار کی درخواست کی. ،پیغمبر نے کہا جب تک علی نہ آئیںاور اس کے لئے رضایت نہ دیں میں تیرے لئے استغفار نہیں کروں گا. اچانک حضرت علی پہونچے اور میں نے ان سے درخواست کی کہ پیغمبر سے میری سفارش کردیں کہ وہ میرے لئے استغفار کریں۔(۱)

اس روداد کی وجہ سے بریدہ نے اپنی دوستی کو خالد سے ختم کرلیا اور صدق دل سے حضرت علی سے محبت کرنے لگا اور پیغمبر کی رحلت کے بعد اس نے ابوبکر کی بیعت بھی نہ کی اور ان بارہ آدمیوں میں سے ایک تھا جنھوں نے ابوبکر کے اس عمل پر اعتراض کیااورانھیں خلیفہ تسلیم نہیں کیا.(۲)

______________________

(۱) اسد الغابہ ج۱ ص ۱۷۶، والدرجات الرفیعہ ص ۴۰۱

(۲) رجال مامقانی ج۱ ص ۱۹۹منقول از احتجاج

۱۱۲

نویں فصل

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مخصوص نمائندہ و سفیر

''حضرت علی نے خدا کے حکم سے سورۂ برائت اور وہ مخصوص حکم جو بت پرستی کو جڑ سے اکھاڑ نے کے لئے تھا حج کے موقع پر تمام عرب قبیلے کے سامنے پڑھا ،اور اس کا م کے لئے پیغمبر کی جگہ اور جانشینی کا منصب حاصل کیا''۔تاریخ اسلام اس بات کی حکایت کرتی ہے کہ جس دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی رسالت کا اعلان کیا اسی دن اپنی رسالت کے اعلان کے بعد فوراً علی کی خلافت و جانشینی کا اعلان کیا۔پیغمبر اسلام نے اپنی رسالت کے تیس سالہ دور میں کبھی کنایہ کے طور پر توکبھی اشارے کے ذریعے اور کبھی واضح طور پر امت کی رہبری اور حکومت کے لئے حضرت علی کی لیاقت و شائستگی کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا اور جن لوگوں کے متعلق ذرہ برابر بھی یہ احتمال پایا جاتا تھا کہ وہ پیغمبر کے بعد حضرت علی کی مخالفت کریں گے ان کو نصیحت کرتے رہے اور انھیں عذاب الہی سے ڈراتے رہے۔تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جب قبیلۂ بنی عامر کے رئیس نے پیغمبر سے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں آپ کے قوانین کا بہت سختی سے دفاع کروں گا بشرطیکہ آپ اپنے بعد حکومت کی ذمہ داری مجھے سونپ دیں تو پیغمبر نے اس کے جواب میں فرمایا: ''الامر الی اللہ یضعہ حیث شائ''(۱)

یعنی یہ خدا کے اختیار میں ہے وہ جس شخص کو بھی اس کا م کے لئے منتخب کرے وہی میرا جانشین ہوگا. جس وقت حاکم یمامہ نے بھی قبیلۂ بنی عامر کے رئیس کی طرح سے پیغمبر سے خواہش ظاہر کی، اس وقت بھی پیغمبر کو بہت برالگااور آپ نے اس کے سینے پر ہاتھ سے مارا۔(۲) اس کے علاوہ بھی پیغمبر اسلام نے متعدد مقامات پر مختلف عبارتوں کے ذریعے حضرت علی ـکو اپنی جانشینی کے عنوان سے پہچنوایا ہے اور اس طرح امت کو متنبہ و متوجہ کیا ہے کہ خدا نے حضرت علی ـکو ہمارا وصی اور خلیفہ منتخب کیا ہے اور اس کام میں پیغمبر کو کوئی اختیار نہیں ہے. نمونہ کے طور پر چند موارد یہاں پر ذکر کر رہے ہیں:

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۸ ص ۸۴، تاریخ ابن اثیر ج۲ ص ۶۵

(۲) طبقات ابن سعد ج۱ ص ۲۶۲

۱۱۳

۱۔ آغاز بعثت میں ، جب خدا نے پیغمبر کو حکم دیا کہ اپنے اعزا و احباب اور رشتہ داروں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیںتو آپ نے اسی جلسہ میں حضرت علی کو اپنے بعد اپنا وصی و خلیفہ قرار دیا۔

۲۔ جب پیغمبر اسلام جنگ تبوک کے لئے روانہ ہوئے تو اپنے سے حضرت علی کی نسبت کو بیان کیا یعنی وہ نسبت جو ہارون کو موسی سے تھی وہی نسبت میرے اور علی ـکے درمیان ہے اور جتنے منصب ہارون کے پاس تھے سوائے نبوت کے ، وہ سب منصب علی ـ کے پاس بھی ہیں۔

۳۔ بریدہ اور دوسری اسلامی شخصیتوں سے کہا کہ علی ـمیرے بعد سب سے بہترین حاکم ہے۔

۴۔ غدیر خم کے میدان میں اور ۸۰ ہزار ( یا اس سے زیادہ) کے مجمع میں حضرت علی کو ہاتھوں پر بلند کر کے لوگوں کو پہچنوایا اور لوگوں کو اس مسئلے سے آگاہ کیا۔

اس کے علاوہ اکثر مقامات پر پیغمبر نے سیاسی کاموں کو حضرت علی کے سپرد کردیا اور اس طرح سے اسلامی معاشرہ کے ذہنوں کو حضرت علی کی حکومت کی طرف مائل کیا. مثال کے طور پر درج ذیل واقعہ کا تجزیہ کرتے ہیں۔

۲۰ سال سے زیادہ عرصہ گزر ا ہوگا کہ شرک اور دوگانہ پرستی کے بارے میں اسلام کا نظریہ حجاز کی سرزمین اور عرب کے مشرک قبیلوں تک پہونچ گیا تھا او ر بتوں اور بت پرستوں کے بارے میں ان میں سے اکثر اسلامی نظریئے سے واقف ہو گئے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ بت پرستی بزرگوں کے باطل عمل کی پیروی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ،اور ان کے باطل خدا اتنے ذلیل و خوار ہیں کہ صرف دوسروں کے امور انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے ضرر کو بھی اپنے سے دور نہیں کرسکتے اور نہ خود کو ہی نفع پہونچا سکتے ہیں ،اور اس طرح کے عاجز و مجبور خدا تعریف و خضوع کے لائق نہیں ہیں۔

دوسرا گروہ جس نے صدق دل اور بیدار ضمیر کے ساتھ پیغمبر کے کلام کو سنا تھا انھوںنے اپنی زندگی میں کافی مستحکم تبدیلیاں پیدا کرلی تھیں، اور بت پرستی چھوڑ کر خدا کی وحدانیت کو قبول کرلیا تھا خصوصاً جس وقت پیغمبر نے مکہ فتح کیا اور مذہبی مقررین کو موقع مل گیا کہ وہ آزادی سے اسلام کی تبلیغ و نشر و اشاعت کریں تو کچھ لوگوں نے بتوں کو توڑ ڈالا او رتوحید کی آواز حجاز کے اکثر مقامات پر گونج اٹھی۔

۱۱۴

لیکن متعصب اور بیوقوف لوگ جنھیں اپنی دیرینہ عادتوں کے ختم کرنے میں بہت دشواری تھی وہ کشمکش کے عالم میں تھے اور اپنی بری عادتوں سے باز نہ آئے اور خرافات و بدبختی کی پیروی کرتے رہے۔اب وہ وقت آگیا تھا کہ پیغمبر اسلام ہر طرح کی بت پرستی اور غیر انسانی کاموںکو اپنے سپاہیوں کے ذریعے ختم کردیں. اور طاقت کے ذریعے بت پرستی کو جو معاشرے کو برباد اور اجتماعی و اخلاقی اعتبار سے فاسد کر رہے ہیں اور حریم انسانیت کے لئے کل بھی نقصان دہ تھے (اور آج بھی ہیں) اسے جڑ سے اکھاڑ دیں اور خدا اور اس کے رسول سے بیزاری و دوری کو منیٰ کے میدان میںعید قربان کے دن اس عظیم و بزرگ اجتماع میں جس میں حجاز کے تمام افراد جمع ہوتے ہیں اعلان کریں. اور خود پیغمبر یا کوئی اور سورۂ برائت کے پہلے حصے کو جس میں خدا اور پیغمبر کی مشرکوں سے بیزاری کا تذکرہ ہے اس بڑے مجمع میں پڑھے اور بلند ترین آواز سے حجاز کے بت پرستوں میں اعلان کرے کہ چار مہینے کے اندر اپنی وضعیت کو معین کریں کہ اگر مذہب توحیدکو قبول کرلیں تو مسلمانوں کے زمرے میں شامل ہوجائیں گے اور دوسروں کی طرح یہ لوگ بھی اسلام کے مادی اور معنوی چیزوں سے بہرہ مند ہو ئیں گے لیکن اگر اپنی دشمنی او رہٹ دھرمی پر باقی رہے تو چار مہینہ گزرنے کے بعد جنگ کے لئے آمادہ رہیں اور یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ جہاں بھی گرفتار ہوئے قتل کردیئے جائیں گے۔سورۂ برائت اس وقت نازل ہوا جب پیغمبر نے حج میں نہ جانے کا ارادہ کرلیا تھا کیوں کہ گذشتہ سال جو فتح مکہ کا سال تھا مراسم حج میں شرکت کیا تھا او رارادہ کیا تھا کہ آئندہ سال کہ جسے بعد میں ''حجة الوداع'' کہا جائے گا اس حج میں شرکت کریں. اس لئے ضروری تھا کہ کسی کو خدا کا پیغام پہونچانے کے لئے منتخب کریں .سب سے پہلے آپ نے ابوبکر کو بلایا اور سورۂ برائت کے ابتدائی کچھ حصے کی تعلیم دی ا ور انھیں چالیس آدمیوں کے ساتھ مکہ روانہ کیا تاکہ عید قربان کے دن لوگوں کے سامنے ان آیتوں کو پڑھیں۔ابوبکر ابھی مکہ کے راستے ہی میں تھے کہ اچانک وحی الہی کا نازل ہوئی اور پیغمبر کو حکم ہوا کہ اس پیغام کو خود یا جو آپ سے ہو وہ لوگوں تک پہونچائے ، کیونکہ ان دو کے علاوہ کوئی اور اس پیغام کے پہونچانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔(۱) اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ شخص جو وحی کے اعتبار سے پیغمبر کے اہلبیت میں سے ہے اور اتنی شائستگی و لیاقت رکھتا ہے وہ کون ہے؟

_____________________________

(۱)''لٰایُوَدَّیْهٰا عَنْکَ اِلّٰا اَنْتَ اَوْ رَجُل مِنْکِ'' اور بعض روایتوں میں اس طرح ہے ''او رجل من اہل بیتک'' سیرۂ ابن ہشام ج۴ ص ۵۴۵ وغیرہ

۱۱۵

تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو بلایا اور انھیں حکم دیا کہ مکہ کی طرف روانہ ہو جاؤ اور ابوبکر سے راستے میں ملاقات کرو اوران سے آیات برائت کو لے لو اور ان سے کہہ دو کہ اس کام کی انجام دہی کے لئے وحی الہی نے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ ان آیتوں کو یا خود یا ان کے اہلبیت کی ایک فرد لوگوں کو پڑھ کر سنائے، اس وجہ سے یہ ذمہ دار یمجھے سونپی گئی ہے .حضرت علی، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اونٹ پر سوار ہوکر جابر اور آپ کے دوسرے صحابیوں کے ہمراہ مکہ کے لئے روانہ ہوگئے اور حضرت کے پیغام کوابوبکر تک پہونچایا ،انھوں نے بھی (سورۂ برائت کی) آیتوں کو حضرت علی کے سپرد کردیا۔امیر المومنین علیہ السلام مکہ میں داخل ہوئے اور ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو جمرۂ عقبہ کے اوپر کھڑے ہوکر بلند آواز سے سورۂ برائت کی تیرہ آیتوں کی تلاوت کی، اور چار مہینے کی مہلت جو پیغمبر نے دی تھی بلند آواز سے تمام شرکت کرنے والوں کے گوش گزار کیا. تمام مشرکین سمجھ گئے کہ صرف چار مہینے کی مہلت ہے جس میں ہمیں اسلامی حکومت کے ساتھ اپنے رابطے کو واضح کرناہے .قرآن کی آیتیں اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیغام نے مشرکین کی فکروں پر عجیب اثر ڈالا اورابھی چار مہینہ بھی مکمل نہ ہوا تھا کہ مشرکین نے جوق در جوق مذہب توحید کو قبول کرلیا اورابھی دسویں ہجری بھی تمام نہ ہوئی تھی کہ پورے حجاز سے شرک کا خاتمہ ہوگیا۔

بے جا تعصب

جب ابوبکر اپنی معزولی سے باخبر ہوئے تو ناراضگی کے عالم میں مدینہ واپس آگئے اور گلہ و شکوہ کرنے لگے اور پیغمبر اسلام سے مخاطب ہوکر کہا: مجھے آپ نے اس کام (آیات الہی کے پہونچانے اور قطعنامہ کے پڑھنے) کے لئے لائق و شائستہ جانا، مگر زیادہ دیرنہ گزری کہ آپ نے مجھے اس مقام و منزلت سے دور کردیا، کیا اس کے لئے خدا کی طرف سے کوئی حکم آیا ہے؟ پیغمبر نے شفقت بھرے انداز سے فرمایا کہ وحی الہی کا نمائندہ آیا اور اس نے کہا : میرے یا وہ شخص جو مجھ سے ہے کے علاوہ کوئی اوراس کام کی صلاحیت نہیں رکھتا۔(۱) بعض متعصب مؤرخین جو حضرت علی کے فضائل کے تجزیہ و تحلیل میں بہت زیادہ منحرف ہوئے ہیں ، ابوبکر کے اس مقام سے معزول ہونے اور اسی مقام پر حضرت علی کے منصوب ہونے کی اس طرح سے توجیہ کی ہے کہ ابوبکر شفقت و مہربانی کے مظہر اور حضرت علی بہادری و شجاعت کے مظہر تھے

______________________

(۱) روح المعانی ج۱۰ تفسیر سورۂ توبہ ص ۴۵

۱۱۶

اورالہی پیغام کے پہونچانے اور قطعنامہ کے پڑھنے میں بہادر دل اور قدرت مند روح کی ضرورت تھی اور یہ صفات حضرت علی کے اندر بہت زیادہ پائے جاتے تھے۔یہ توجیہ: ایک بے جا تعصب کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ اس کے پہلے بیان ہوچکا ہے کہ پیغمبر نے اس عزل و نصب کی علت کی دوسرے انداز سے تفسیر کی ہے اور فرمایا ہے کہ اس کام کے لئے میرے اور وہ شخص جو مجھ سے ہے کے علاوہ کوئی بھی صلاحیت نہیں رکھتا۔ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس واقعہ کا دوسرے طریقے سے تجزیہ کیاہے ،وہ کہتا ہے کہ عرب کا یہ دستور تھا کہ جب بھی کوئی چاہتا تھا کہ کسی عہد و پیمان کو توڑ دے تو اس نقض (عہد و پیمان کے توڑنے) کو خود وہ شخص یا اسی کے رشتہ داروں میں سے کوئی ایک شخص انجام دیتا ہے ورنہ عہد و پیمان خود اپنی جگہ پر باقی رہتا ہے اسی وجہ سے حضرت علی اس کام کے لئے منتخب ہوئے۔اس توجیہ کا باطل ہونا واضح ہے کیونکہ پیغمبر اسلام کا حضرت علی کے بھیجنے کا اصلی مقصد آیتوں کی تلاوت اور قطعنامہ کا پہونچانا اور عہد و پیمان کا توڑنا نہیں تھا بلکہ سورۂ توبہ کی چوتھی آیت میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے اپنے عہد و پیمان پر مکمل عمل کیا ہے ان کا احترام کرو اور عہد و پیمان کی مدت تک اس کو پورا کرو۔(۲)

اس بنا پر اگر عہد کا توڑنا بھی عہد توڑنے والوں کے بہ نسبت اس کام میں شامل تھا تو مکمل طور پر جزئی حیثیت رکھتاہے جب کہ اصلی ہدف یہ تھا کہ بت پرستی ایک غیر قانونی امر اور ایک ایسا گناہ جو قابل معاف نہیں ہے، اعلان ہو۔اگر ہم چاہیں کہ اس واقعہ کا غیر جانبدارانہ فیصلہ کریں تو ضروری ہے کہ یہ کہا جائے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاحکم الہی سے یہ ارادہ تھا کہ اپنی زندگی میں ہی حضرت علی کو سیاسی مسائل اور حکومت اسلامی سے مربوط مسئلوں میں آزاد رکھیں. تاکہ تمام مسلمان آگاہ ہو جائیں اور خورشید رسالت کے غروب ہونے کے بعد سیاسی اور حکومتی امور میں حضرت علی کی طرف رجوع کریں اور جان جائیں کہ پیغمبر اسلام کے بعد ان تمام امور میں حضرت علی سے زیادہ شائستہ کوئی نہیں ہے کیونکہ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خدا کی طرف سے تنہاوہ شخص جومشرکین مکہ سے امان میں رہنے کے لئے منصوب ہوا وہ حضرت علی تھے ،کیونکہ یہ چیز حکومتی امور سے متعلق ہے۔مگر (ہاں) جن مشرکوں سے تم نے عہد و پیمان کیا تھا پھر ان لوگوں نے بھی کچھ تم سے (وفائے عہد میں) کمی نہیں کی. اور نہ تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد کی ہو تو ان کے عہد و پیمان کو جتنی مدت کے واسطے مقرر کیا ہے پورا کردو خدا پرہیزگاروں کو یقینا دوست رکھتا ہے۔

______________________

(۲)''الا الذین عاهدتم من المشرکین ثم لم ینقضوکم شیئاً و لم یظاهروا علیکم احداً فأتمُّوا الیهم عهدهم الی مدتهم ان الله یحب المتقین''

۱۱۷

دسویں فصل

مسلمانوں کے لئے آئندہ کا لائحہ عمل

دین اسلام کی تحریک کی مخالفت قریش والوں سے بلکہ تمام بت پرستوں کے ساتھ شبہ جزیرہ سے شروع ہوئی .وہ لوگ اس آسمانی مشعل کو خاموش کرنے کے لئے مختلف قسم کے مکرو فریب اور سازشیں کرتے رہے، لیکن جتنا بھی کوشش کرتے تھے ناکام ہی رہتے، ان سب کی آخری خواہش یہ تھی کہ رسالتمآب کے بعد اس تحریک کی بنیادوں کو ڈھادیں. اور انھیں کی طرح وہ لوگ جو پیغمبر سے پہلے زندگی بسر کر رہے تھے ان کو بھی ہمیشہ کے لئے خاموش کردیں۔(۱)

قرآن مجید نے اپنی بہت سی آیتوں میں ان کی سازشوں اورکھیلے جانے والے کھیلوں کو بیان کیاہے بت پرستوں کی فکروں کو جو انھوں نے پیغمبر کی موت کے سلسلے میں کیا تھا اسے اس آیت میں بیان کیا ہے ارشاد قدرت ہے:

( ام تأمُرُهُمْ أَحلَامُهِمْ بِهٰذَا أَمْ هُمْ قوْمُ طٰاغُونَ ) (۲)

کیا (تم کو) یہ لوگ کہتے ہیں کہ (یہ) شاعر ہیں (اور) ہم تو اس کے بارے میں زمانے کے حوادث کا انتظار کر رہے ہیں تو تم کہہ دو کہ (اچھا) تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں، کیا ان کی عقلیں انھیں یہ (باتیں) بتاتی ہیں یا یہ لوگ سرکش ہی ہیں؟

اس وقت ہمیں اس سے بحث نہیں ہے کہ دشمنوں کی تمام سازشیں ایک کے بعد ایک کس طرح ناکام ہوگئیں اور دشمن کے اندر اتنی صلاحیت نہ رہی کہ پھیلتے ہوئے اسلام کو روک سکے، بلکہ اس وقت ہمیں اس مسئلہ کی طرف توجہ کرنا ہے کہ پیغمبر کے بعد کس طرح سے اس اسلام کو دوام عطا ہو؟ اس طرح سے کہ پیغمبر کے بعد اسلام کی یہ تحریک رک نہ جائے یا گزشتہ کی طرح عقب ماندگی کا شکار نہ ہو جائے. یہاں پر دو صورتیںہیںاور ہم دونوں صورتوںکے متعلق بحث کریں گے:

______________________

(۱) ورقہ ابن نوفل کی طرح، کہ جس نے عیسائیوں کی بعض کتابوں کا مطالعہ کیا اور بت پرستی کے مذہب کو چھوڑ کر خود عیسائی بن گیا۔

(۲) سورۂ طور، آیت ۳۲۔ ۳۰

۱۱۸

۱۔ امت اسلامیہ کے ہر فرد کی فکر و عقل اس مرحلہ تک پہونچ جائے کہ پیغمبر اسلام کے بعد بھی اسلام کی نئی بنیاد کی تحریک کی اسی طرح رہبری کریں جیسے عہد رسالت میں کیا ہے، اور اسے ہر طرح کی مشکلات سے بچائیں اورامت او ربعد میں آنے والی نسلوں کو صراط مستقیم (سیدھے راستے) کی طرف ہدایت کریں۔

پیغمبر اسلام کے بعد امت کی رہبری کا دارومدار ایسے افراد نے اپنے ذمہ لے لیا تھا کہ افسوس اکثر افراداس کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے. اس وقت یہاں اس سلسلے میں بحث نہیں کرنا ہے لیکن اتنی بات ضرور کہناہے کہ تمام طبیعتوں اور ایک امت کے دل کو گہرائیوں سے بدلنا ایک دن، دو دن یا ایک سال ، یا دس سال کا کام نہیں ہے او رانقلاب لانے والا کہ جس کی آرزو یہ ہوتی ہے کہ اپنی تحریک کو ہر زمانے کے لئے پایداری او ردوام بخش دے وہ مختصر سی مدت میں اس کام کو انجام نہیں دے سکتا۔

انقلاب کا ہمیشہ باقی رہنا اور لوگوں کے دلوں میں اس طرح رچ بس جانا، انقلاب لانے والے کے مرنے کے بعدبھی اس کی تحریک ایک قدم بھی پیچھے نہ رہے اور پرانے رسم و رواج اور آداب و اخلاق دو بارہ واپس نہ آجائیں اور اس تحریک کو چلانے کے لئے ایسے اہم افراد یا شخص کی ضرورت ہے جو اس تحریک کی باگ ڈور سنبھالے اورہمیشہ اس کی حفاظت کرے اور معاشرے میں مسلسل تبلیغ کر کے غیر مطلوب چیزوں سے لوگوں کو دور کھے تاکہ ایک نسل گزر جائے اور نئی نسل ابتداء سے اسلامی اخلاق و آداب کی عادت کرلے اور آنے والی نسلوں تک برقرار رکھے۔

تمام آسمانی تحریکوں کے درمیان اسلامی تحریک کی ایک الگ خصوصیت ہے اور اس تحریک کو بقا اور دوام بخشنے کے لئے ایسے اہم افراد کی ضرورت تھی. کیونکہ مذہب اسلام ایسے افراد کے درمیان آیاجو پوری دنیا میں سب سے پست تھے اور اجتماعی اور اخلاقی نظام کے اعتبار اور انسانیت کے ہر طرح کی ثقافت سے محروم تھے، مذہبی چیزوں میں حج کے علاوہ جسے اپنے بزرگوں سے میراث میں پایا تھا کسی اور چیز سے آشنا نہ تھے۔جناب موسی و عیسی کی تعلیمات نے ان پر کوئی اثر نہ کیا تھا ،حجاز کے اکثر لوگ اس کی خبر نہیں رکھتے تھے، جب کہ جاہلیت کے عقائد اور رسومات ان کے دلوں میں مکمل طریقے سے رسوخ کرچکے تھے اور روح و دل سے انھیں چاہتے تھے۔ممکن ہے کہ ہر طرح کی مذہبی طبیعت ایسی ملتوں کے درمیان بہت جلد اپنا اثر پیدا کرلے مگر اس کے باقی رکھنے اوراسے دوام و پائداری بخشنے کے لئے ان کے درمیان بہت زیادہ تلاش و کوشش کی ضرورت ہے تاکہ ان لوگوں کو ہر طرح کے انحرافات اور پستی سے بچائے۔

۱۱۹

جنگ احد اور حنین کے رقت آمیز اور دل ہلا دینے والے واقعات اور مناظر کہ جس میں تحریک کو بڑھا وا دینے والے عین جنگ کے وقت پیغمبر کو چھوڑ کر چلے گئے تھے اور انھیں میدان جنگ میں تنہا چھوڑ دیا تھا یہ اس بات کے گواہ ہیں کہ پیغمبر کے صحابی ایمان و عقل کی اس منزل پر نہ تھے کہ پیغمبر تمام امور کی ذمہ داری ان کے سپرد کرتے اور دشمن کے اس آخری حربہ کو جس میں وہ پیغمبر کی موت کے امیدوار تھے اسے ختم کرتے۔

جی ہاں. اگر امت کی رہبری کو خود امت کے سپرد کرتے تب بھی صاحب رسالت کے نظریات کو حاصل نہیں کرسکتے تھے بلکہ ضروری تھا کہ کوئی اور فکر کی جائے کہ جس کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں۔

۲۔ تحریک کی بقا و پایداری کے لئے بہترین راستہ تو یہ تھا کہ خداوند عالم کی طرف سے ایک شائستہ شخص، جو تحریک کے اصول و فروع پر عقیدہ و ایمان میں پیغمبر کی طرح ہو تاکہ امت کی رہبری کے لئے اس شخص کا انتخاب ہوتا، تاکہ مستحکم ایمان او روسیع علم جو کہ خطا و لغزش سے پاک ہو اس امت کی رہبری کو اپنے ہاتھوں میں لیتا اور ہمیشہ کے لئے اسے دوام بخشتا۔

یہ وہی بات ہے جس کے صحیح و محکم کا مذھب تشیع ادعا کرتا ہے اور اکثر تاریخیں اس بات پر گواہ ہیں کہ پیغمبر اسلام نے ''حجة الوداع'' کی واپسی پر ۱۸ ذی الحجہ ۱۰ ھ کو اس اہم مشکل کی گرہ کو کھول دیاتھا اور خدا کی طرف سے اپنا وصی و جانشین معین کر کے اسلام کی بقا و استمرار کا انتظام کردیاتھا۔

امامت کے بارے میں دو نظریے

شیعہ دانشمندوں کی نظر میں خلافت ایک الہی منصب ہے جو خداوند عالم کی طرف سے امت اسلامی کے شائستہ اور عقلمند شخص کو دیا جاتا ہے .امام اور نبی کے درمیان واضح اور وشن فرق یہ ہے کہ پیغمبر شریعت لے کر آتا ہے اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور وہ صاحب کتاب ہوتا ہے ،جب کہ امام اگرچہ ان چیزوں کا حقدار نہیں ہے لیکن حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے علاوہ دین کی ان چیزوں کا بیان اور تشریح کرنے والا ہوتاہے جو پیغمبر وقت کی کمی یا حالات کے صحیح نہ ہونے کی بنا پر اسے بیان نہیں کرپاتا، اور ان تمام چیزوں کے بیان کو اپنے وصیوں کے ذمہ کردیتاہے .اس بنا پر شیعوں کی نظر میں خلیفہ صرف حاکم وقت اور اسلام کا ذمہ دار، قوانین کا جاری کرنے والا اور لوگوں کے حقوق کا محافظ اور ملک کی سرحدوں کا نگہبان ہی نہیں ہوتا، بلکہ مذہبی مسائل اور مبہم نکات کا واضح او رروشن کرنے والا ہوتا ہے اور ان احکام و قوانین کومکمل کرنے والا ہوتا ہے جو کسی وجہ سے دین کی بنیاد رکھنے والا بیان نہیں کرپاتا ہے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

والوں كو اٹھائے گا؟

لوگوں نے كہا '' جى ہاں'' ہم شہادت ديتے ہے''_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' خدايا گواہ رہنا'' بيشك ميں دوسرے جہان ميں جانے اور حوض كوثر كے كنارے پہنچنے ميں تم پر سبقت لے جاؤں گا _ اور تم حوض پر ميرے پاس حاضر ہوگے _ وہاں ستاروں كى تعداد ميں چاندى كے جام اور پيالے ہوں گے _ ديكھنا يہ ہے كہ تم ميرے بعد ان دو گراں بہا چيزوں سے كيا سلوك كرتے ہو جو ميں تمہارے درميان چھوڑے جارہا ہوں؟

مجمع ميں سے ايك شخص نے بلند آواز سے كہا '' اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ دو گراں قدر چيزيں كيا ہيں؟ فرمايا جو بزرگ ہے وہ كتاب خدا ہے جو تمہارے درميان اللہ كى مضبوط رسى ہے اور دوسرے ميرے اہل بيتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عترت ہيں _ خدائے مہربان اور عالم نے مجھے بتايا ہے كہ يہ دونوں ہر گز ايك دوسرے سے الگ نہيں ہوں گے يہاں تك كہ حوض (كوثر) پر ميرے پا س پہنچيں گے قرآن و عترت سے آگے نہ بڑھنا اور ان دونوں كى پيروى سے منہ نہ موڑنا ورنہ ہلا ك ہوجاؤ گے_

اس كے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علي(ع) كے ہاتھ كو پكڑا اور اتنا بلند كيا كہ دونوں كى بغل كى سفيدى نماياں ہوگئي اور لوگوں نے ان كو ديكھا اور پہچانا_

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اے لوگو اہل ايمان پر خود ان سے زيادہ حقدار كون ہے؟'' لوگوں نے كہا '' خدا اور اس كا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہتر جانتا ہے _'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا:

''بيشك خدا ہمارا مولا ہے اور ميں مومنين كا مولا ہوں اور مومنين كے نفسوں سے اولى اور زيادہ حقدار ہوں _ لہذا جس كا ميں مولا ہوں على (ع) اس كے مولا ہيں _(۹) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۲۶۱

نے اس بات كو تين بار اور حنبلى حضرات كے پيشوا ، احمد بن حنبل كے قول كے مطابق چار بار تكرار فرمايا اس كے بعددعا كے لئے ہاتھ بلند كركے فرمايا

'' بارالہا تو اس كو دوست ركھ جو اسے (علي) دوست ركھے اور اس كو دشمن ركھ جو اس سے دشمنى كرے اس سے محبت فرما جو اس (على (ع) ) سے محبت كرئے اور اس كو مبغوض قرار دے جو اس (على (ع) ) سے بغض كرئے، اس كے دوستوں كى مدد فرما او رجو اس كو رسوا كرے اسے ذليل فرما اور اسے حق كا مدار و محور قرار دے ''(۱۰)

پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرماياكہ'' حاضرين غائبين تك يہ پيغام پہنچاديں'' ابھى مجمع پراگندہ بھى نہيں ہوا تھا كہ جبرئيل امين ، وحى الہى لے كر آپہنچے اور آيہ كريمہ '( اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الاسلام دينا ً ) (۱۱) نازل ہوئي_

'' آج ميں نے تمہارے دين كو كامل كرديا ، تم پر اپنى نعمتيں تمام كرديں اور تمہارے لئے دين اسلام كو پسند كر ليا ہے ''_اس موقعہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا: دين كے كمال ، نعمت كے اتمام اور ميرى رسالت و على كى ولايت پر خداوند متعال ك-ے راضى ہوجانے كے پر مسرت موقعہ پر ، '' اللہ اكبر'' (اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بلند آواز سے تكبير كہي) اس كے بعد مسلمانوں نے على ابن ابيطالب(ع) كو امير المومنين كے عنوان سے مبار ك باد دى اور سب سے پہلے ابوبكر و عمر ، حضرت على (ع) كى پاس آئے اور كہا '' مبارك ہو مبارك ہو ، اے ابوطالب (ع) كے بيٹے آج سے آپ(ع) ہمارے اور تمام مومنين كے مولا ہوگئے ''_

پھر شاعر انقلاب اسلام ، حسان بن ثابت نے كہا يارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اگر جازت ہو تو ميں اس سلسلہ ميں كچھ اشعار پڑھوں _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا خدا كى بركت سے پڑھو_ اور حسان نے فى البديہہ واقعہ غدير خم كو

۲۶۲

اشعار ميں بيان كيا _ ہم يہاں ان كے اشعار ميںسے تين شعر نقل كررہے ہيں _

يناديهم يوم الغدير نبيّهُم

بخُم فَاسْمَع بالرّسول مناديا

فقال لهم: قم يا على فَانَّني

رضيتك من بعدى اماما ً ''و هاديا''

فمن كنت مولاه فهذا وليّه

فكونوا له اتباعَ صدْق مواليّا

يعنى غدير كے دن پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں كو آواز دى ، كيا آواز رسا تھى على (ع) سے فرمايا كہ اٹھو ميںنے تمہيں اپنے بعد لوگوں كى ہدايت اور امامت كے لئے منتخب كيا _

ميں جس كا مولا ہوں على اس كے ولى ہيں ، لہذا از روئے صدق و راستى ان كے پيرو اور دوست بن كر رہو _(۱۲)

۲۶۳

سوالات

۱_ كو ن سى تاريخ كو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع كے لئے تشريف لے گئے؟

۲_ غدير كے دن مسلمانوں كا كتنا مجمع تھا؟

۳_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قافلہ روكنے كا حكم كيوں ديا؟

۴_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدير كے دن حضرت على (ع) كے بارے ميں كيا فرمايا؟

۵_ غدير كے واقعہ كے بعد كون سى آيت نازل ہوئي؟

۲۶۴

حوالہ جات

۱_مغازى واقدى ج ۳ص ۱۰۸۹ _سيرت ابن ہشام ج ۴ص۲۴۸_

۲_اہل سنت كى چند دوسرى كتابوں ميں اس طرح لكھا ہے كہ ''نبى اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تم علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے كيا چاہتے ہو؟علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھ سے ہيں اور ميں ان سے ہوں اور وہ ميرے بعد ہر مومن كے ولى وسرپرست و صاحب اختيار ہيں _ ترمذى ج ۵ ص ۶۳۲_ مستدرك حاكم ج ۳ص ۱۱۰_۱۱۱_البداية والنہاية ج ۷ ص ۳۴۵_اسد الغابہ ج ۴ ص ۱۰۷_۱۰۸ _ مسند احمد ابن حنبل ج ۵ ص ۳۵۶_سيرت ابن ہشام ج ۴ ص ۲۵۰ ، تاريخ طبرى ج ۳ ص ۱۴۹

۳_ يہ تقرير سيرت كى مختلف كتابوں ميں دو طريقوں سے نقل كى گئي ہے ايك '' عرفہ ميں تقرير'' كے عنوان سے اور دوسرى '' منى ميں تقرير'' كے عنوان سے تفصيلات كيلئے رجوع كريں: مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۱۰۳_سيرت ابن ہشام ج۴ _ تاريخ يعقوبى ج۲ ص ۱۱۰ طبرى ج ۳ ص ۱۵۰_

۴_ مغازى واقدى ميں '' اياس بن ربيعة بن حارث '' ذكر ہوا ہے_

۵_انّى تَاركٌ فيْكُمُ الثَّقَلَيْن كتَاب اللَّه وَ عتْرَتى انْ تَمَسَّكْتُمَْ بهما لَنْ تَضّلُوا _ يہ عبارت اہل سنت كى جن معتبر كتابوں ميں مختصر انداز سے ذكر كى گئي ہے ان ميں سے چند كے نام مندرجہ ذيل ہيں _ صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۲ _ سنن ترمذى ج ۲ ص ۳۰۷_ سنن دارمى ج ۲ ص ۱۴و۱۷و۲۶و۵۹_ خصائص نسائي ص ۳۰_مستدرك حاكم ج ۳ ص ۱۰۹_ كفاية الطالب ج ۱ ص ۱۱_ طبقات ابن سعد ج ۴ ص ۸ _ عقد الفريد ج ۲ ص ۳۲۶و ۱۵۸_ اسد الغا بة ج ۲ ص ۱۲_ حلية الاوليا ج ۱ ص ۳۵۵_ تذكرة الخواص ص ۳۳۲_ منتہى الارب _ مصابيح السنة ج ۲ ص ۲۰۵_۲۰۶

۶_ سيرت ابن ہشام ج ۳،۴، ص ۶۰۳ _تاريخ يعقوبى ج ۲ ص ۱۱۰ _ مغازى واقدى ج ۳ ص ۱۱۰۳_ طبرى ج ۳ ص ۱۵۰ _

۷_( يَا اَيُّهَا الرَّسُولُ بَلّغْ مَا اُنْزلَ الَيْكَ منْ رَّبّكَ وَ انْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رسَالَتَهُ وَ اللّهُ يَعْصمُكَ منَ النّاس انَّ اللّهَ لاَ يَهْدى الْقَوْمَ الْكَافريَْن ) (مائدہ/۶۸)

۲۶۵

۸_مكہ اور مدينہ كے راستہ ميں جحفہ ايك بيابان ہے جہاں غدير خم واقع ہے يہاں سے ہر كارواں جدا ہو كر اپنے ديار كى طرف چلا جاتا ہے_

۹_من كنت مولاه فهذا على مولاه

۱۰_اللّهُمَّ وَالَ مَنْ وَالاهُ وَ عَاد مَنْ عَادَاهُ وَاَحَبّ مَنْ اَحَبَّهُ وَ اَبْغض مَنْ اَبْغَضَهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهْ وَ اْخْذُلْ مَنْ خَذََلَه وَ اَدْر الْحَقَ مَعَهُ حَيْثُ دَار _

۱۱_ سورہ مائدہ آيت ۳

۱۲_ الغدير ج ۱ ص ۹تا ۱۲_ تفسير الميزان ج ۶ ص ۵۳ تا ۵۹ _ علامہ امينى مرحوم نے گيارہويں جلدپر مشتمل اپنى عظيم اور تحقيقى كتاب الغدير ميں حديث غدير كو ايك سو دس اصحاب كى زبانى نقل كيا ہے نيز آپ نے غدير كے بارے ميں اہل سنت كے محدثين ومورخين كے اقوال كو ذكر فرمايا ہے_ يہ بھى ياد دلانا ضرورى ہے كہ يہ كتاب فارسى زبان ميں ترجمہ ہو گئي ہے _

۲۶۶

سولہواں سبق

شورشيں

اسود عنسى كا واقعہ

يمن ميں انقلابى بغاوت

مسيلمہ كذاب كا واقعہ

جھوٹے پيغمبر كى طرف ميلان كا سبب ''قومى تعصب''

جھوٹوں كا انجام

رحلت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وقت كے حالات كا تجزيہ

لشكر اسامہ كى روانگي

اہل بقيع كے مزار پر

واقعہ قرطاس يا نامكمل تحرير

ناتمام نماز

وداع پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

يہ نور ہرگز نہيں بجھے گا

سوالات

۲۶۷

شورشيں

حجة الوداع سے واپسى كے بعد تھكن كى شدت كى بناپر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چند دنوں تك بيمار رہے اس دوران آپ كى تھكاوٹ اور طبيعت كى ناسازى كى خبر چاروں طرف پھيل گئي اور موقعہ كى تلاش اور فائدہ كے چكر ميں رہنے والے افراد نے پيغمبرى كا دعوى كرديا_'' مسيلمہ كذاب'' نے يمامہ اور نجد ميں خود كو پيغمبر اور'' رحمان اليمامة ''كہا _ ''اسود عنسي'' نے يمن ميں خود كو پيغمبر كہا اور شورش كا آغاز كرديا_ اس كے علاوہ'' سجاح ''نامى عورت اور'' طليحہ'' نامى ايك شخص نے بھى اس طرح كے دعوى سے لوگوں كو دھوكہ دينا شروع كرديا _ اس فتنہ كى جڑيں بہت پھيلى ہوئي تھيں ان دھوكہ بازوں نے قومى اور قبائلى تعصب سے فائدہ اٹھا يا اور ايك جماعت كو اپنے گرد جمع كرليا اور جب ان كو قدرت حاصل ہوگئي تو اپنى حكومت و سلطنت كو وسعت دينے لگے_

اسود عنْسيّ كا واقعہ

نمونہ كے طور پر اَسوَد عنسى كا واقعہ پيش ہے جس كو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ناسازگارى طبع كى خبر نے نبوت كے لالچ ميں ڈال ديا اس نے يمن ميں زمانہ جاہليت كے طور طريقوں اور رسوم

۲۶۸

كو كتب عتيق كے قوانين كے ساتھ ملاكر ايك نئے نقطہ خيال كى بنياد ركھى وہ ايك كاہن اور شعبدہ باز تھا جو الٹى سيدھى باتوں كو مسجعّ اور مقفّى بنا كر اس طرح پيش كرتا كہ جو بھى سنتا بد دل ہو جا تا _ جنگجوئي ميں بڑا سنگدل اور چالاك تھا_ظلم و ستم ميں لوگوں كى جان و مال كى پروا نہيں كرتا تھا_

اَسوَدعنسيّ نے اپنے سپاہيوں كے ساتھ چند دنوں ميں نجران پر قبضہ كرليا اور بلافاصلہ يمن كے دار السلطنت صنعا ء پر حملہ كرديا_'' شہر ابن باذام''(۱) ايرانى جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كى طرف سے آزادہ شدہ اور اس علاقہ پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم سے حكومت كرتے تھے ، انہوں نے لشكر تيار كيا تا كہ اسود كے راستہ كو روك ليں ليكن شورشيوں كے فورى حملہ كى بنا پر شہر ابن باذام كا لشكر ، اسود كے لشكر كا كچھ نہ كر سكا اور شہر ابن باذام اس حملہ ميں شہيد ہو گئے_

اسود عنسيّ كامياب اور كاميابى سے مغرور ہو كر صنعاء ميں داخل ہوا _ اعرابى جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھى دوبارہ اسود كے ہاتھوں اسلام سے خارج ہونے لگے گروہ در گروہ قبائل نے اس كى بيعت كرلى اور خود كو اس كے حوالہ كرديا _ تھوڑى ہى مدت ميں اسود نے تمام يمن ، طائف، بحرين اور حدود عدن پر تسلط جماليا _ان علاقوں ميں باقى ماندہ مسلمانوں نے بھى خوف سے سكوت اختيار كر ليا _اسود نے شہر ابن باذام كى بيوى ''آزاد '' كو زبردستى اپنى بيوى بناليا_(۲)

يمن ميں انقلابى بغاوت

بستر علالت ہى سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدعيان نبوت كے ساتھ جنگ كے لئے نمائندے بھيجنا اورخط لكھنا شروع كيئے_(۳)

۲۶۹

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك خط ميں يمن كے ايرانى ، سركردہ افراد كو حكم ديا كہ دين مقدس اسلام كے دفاع كےلئے قيام كريں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيغام كو دينداورں ، با حميت و غيرت مند افراد تك پہنچائيں اور كوشش كريں كہ فساد كى جڑ اَسود عنسى كو خفيہ يا آشكار ا طور پر ختم كيا جا سكے_(۴)

يمن كے آزاد ايرانيوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كے مطابق اسلام پر باقى رہ جانے والے قبائل كو اپنے ساتھ تعاون كے لئے بلايا اورجب يہ معلوم ہواكہ اسود اور سپہ سالار لشكر قيس ميں اختلاف ہے تو انہوں نے قيس كے سامنے نہايت خاموشى سے اس موضوع كو پيش كيا اور اس طرح سپہ سالار لشكر كو اپنے ساتھ ملاليا_(۵)

اسود كے قصركے اندرونى معلومات حاصل كرنے كے لئے ''آزاد'' سے رابطہ قائم كيا گيا جو شہر ابن باذام كى بيوى اور اسود كے تصرف ميں تھي_

'' آزاد'' ايك آزادى پسند، شير دل، مؤمنہ اور باعزت خاتون تھيں ان لوگوں كى مدد كى لئے اٹھ كھڑى ہوئيں اور مفيد و قيمتى راہنمائيوں كے ذريعہ انھوں نے مومنين كو اسود كے قتل پر آمادہ كيا _ قصر مكمل طور پر نگہبانوں كى نگرانى ميں تھا_ '' آزاد'' كى راہنمائي ميں ايك سرنگ كے ذريعہ جو اَسوَد عنسى كے كمرہ ميں پہنچتى تھى رات كو جب وہ نيم خوابيدگى كے عالم ميں تھا ، انقلابى مومنين نے حملہ كرديا _ فيروز نے اس كا سر زور سے ديوار سے ٹكرا ديا اور اس كى گردن مروڑدى _اسود كى آواز وحشى گائے كى طرح بلند ہوئي آزاد نے فوراً ايك كپڑا اس كے منہ ميں ٹھونس ديا _ پہرہ دارمحل كے اندر ہونے والى چيخ پكار سے مشكوك ہوگئے اور كمرہ كى پشت سے انہوں نے پوچھا كہ خيريت تو ہے؟ '' آزاد'' نے نہايت اطمينان سے جواب ديا _'' كوئي بات نہيں ہے پيغمبر پر وحى آرہى ہے'' اس طرح انقلابى مومنين اپنى مہم ميں كامياب ہوئے اور پيغمبرى كے جھوٹے دعويدار كو دوزخ ميں پہنچا ديا_دوسرے دن صبح

۲۷۰

مسلمانوں نے اسلامى نعرے لگائے اور كلمہ شہادتين زبان پر جارى كيا _ اَشْہَدُ اَنْ لاَ الہَ الاَّ اللّہ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمّدا رَسُولُ اللّہ _ اور اعلان كيا كہ لوگو اَسوَ د ايك جھوٹے شخص سے زيادہ كچھ نہ تھا اس كے بعد اس كا سر لوگوں كى طرف پھينك ديا _

شہر ميں ايك ہنگامہ شروع ہوگيا اور قصر كے نگہبانوں نے اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محل كو لوٹ ليا اور جو كچھ اس ميں تھالے كر فرار ہوگئے _ اس وقت مسلمانوں نے آواز دى كہ نماز كے لئے لوگ صف بستہ ہوجائيں اور پھر نماز كے لئے لوگ كھڑے ہوگئے_(۶)

جس رات اَسوَد مارا گيا اسى رات وحى كے ذريعہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو معلوم ہوگيا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا'' كل رات ايك مبارك خاندان سے ايك مبارك شخص نے عنسى كو قتل كرديا'' لوگوں نے پوچھا ''وہ كون تھا''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _ فيروز تھا _فيروز كامياب رہے_(۷)

مسيلمہ كذاب كا واقعہ

يمامہ ميں مسيلمہ كذاب نے بھى پيغمبرى كا دعوى كركے اپنا ايك گروہ بناليا اورفتنہ پردازى ميں مشغول ہوگيا _ وہ كوشش كرتا تھا كہ بے معنى سخن گوئي كے ذريعہ قرآن سے معارضہ كرے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابھى سفر حج سے لوٹے تھے كہ دو افراد مسيلمہ كذاب كا خط آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس لے كر پہنچے _ اس ميں لكھا تھا '' مسيلمہ خدا كے رسول كى طرف سے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے رسول كے نام '' ميں پيغمبرى ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا شريك ہوں آدھى زمين قريش سے متعلق ہے اور آدھى مجھ سے، ليكن قريش عدالت سے كام نہيں ليتے _(۸)

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت ناراض ہوئے اور مسيلمہ كے نامہ بروں سے فرمايا '' اگر تم سفير اور قاصد

۲۷۱

نہ ہو تے تو ميں تمہارے قتل كا حكم ديديتا_ تم لوگ كس طرح اسلام سے جدا ہو كر ايك تہى مغز آدمى كے پيرو ہوگئے_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حكم ديا كہ مسيلمہ كو بہت سخت جواب لكھا جائے _ ''خدائے رحمن و رحيم كے نام سے محمد رسول اللہ كى طرف سے دروغ گو مسيلمہ كى طرف_ سلام ہو ہدايت كى پيروى كرنے والوں پر ، زمين ،خدا كى ملكيت ہے اور وہ اپنے صالح بندوں ميں سے جس كو چاہتا ہے زمين كا وارث قرار ديتا ہے اور نيك انجام پرہيزگاروں كے لئے ہے_(۹)

جھوٹے پيغمبر كى طرف ميلان كا سبب ''قومى تعصب''

طبرى كا بيان ہے كہ ايك شخص يمامہ گيا اور پوچھا مسيلمہ كہاں ہے؟

لوگوں نے كہا كہ '' پيغمبر خدا كہو''

اس شخص نے كہا '' نہيں ميں پہلے اس كو ديكھوں گا''

جب اس نے مسيلمہ كو ديكھا تو كہا كہ '' تو مسيلمہ ہے''؟

'' ہاں''

كيا تمہارے اوپر فرشتہ نازل ہوتا ہے؟

ہاں ،اور اس كا نام رحمن ہے_

نور ميں آتا ہے يا ظلمت ميں؟

مسيلمہ نے كہا '' ظلمت ميں''

اس شخص نے كہا كہ ميں گواہى ديتا ہوں كہ تو جھوٹا ہے اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سچے ہيں ليكن ميں رَبيعہ كے جھوٹے كو مُضر (حجاز) كے سچّے سے زيادہ دوست ركھتا ہوں_(۱۰)

۲۷۲

جھوٹوں كا انجام

نبوت كى جھوٹى دعويدار سجاح كے ساتھ مسيلمہ نے شادى كرلى _(۱۱) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد لشكر اسلام نے اس كى سركوبى كى اور اس كے قتل كے بعد اس كى جھوٹى نبوت كى بساط اُلٹ گئي_(۱۲)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ ميں مدعيان نوبت ميں طُلَيحہ نامى ايك شخص تھا جو قبيلہ طيّ، اَسد اور قبيلہ غطفان ميں ظاہر ہوا_ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبيلہ بنى اسد ميں اپنے نمائندوں كو پيغام بھيجا كہ اس كے خلاف قيام كريں _ وہ لوگ اس پر حملہ آور ہوئے اور وہ فرار كر گيا_(۱۳) اس طرح رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تدبير سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كے آخرى دنوں ميں يا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد جھوٹے پيغمبروں كى بساط الٹ دى گئي_

رحلت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وقت كے حالات كا تجزيہ

بيمارى سے نسبتاً افاقہ كے كچھ ہى دنوں بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوبارہ عليل ہوئے _ ہر چند كہ تمام جزيرة العرب، حكومت اسلامى كے زير اثر تھا ليكن ايك طرف پيغمبرى كے جھوٹے دعويداروں نے سر اٹھا ركھا تھا اور بہت سے قبائل كے رؤساء كہ جن كے دلوں ميں ابھى تك اسلام كى جڑيں مضبوط نہيں ہوئيں تھيں_ اپنے سابقہ امتيازات سے ہاتھ دھو بيٹھے تھے جو كہ ان پر دشوار تھا_ وہ پيغمبرى كے جھوٹے دعويداروں سے مل كر شورش پر آمادہ ہوگئے_ دوسرى طرف موقعہ كى تلاش ميں رہنے والے منافقين كا مكمل پلا ننگ كے ساتھ يہ ارادہ تھا كہ اسلام كے عظيم رہبر كى آنكھ بند ہوتے ہى حكومت اسلامى پر قبضہ كرليں اور اس كو امامت وولايت كے صحيح راستہ سے منحرف كرديں_

۲۷۳

بہر حال ، رہبر اسلام كى رحلت ،شورشيوں اور مرتدين كے حوصلوں كى تقويت كاموجب ہوتى ، دوسرا اہم موضوع يہ كہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كے سلسلہ ميں كھينچا تانى كے نتيجہ ميں امت اسلامى كے درميان بہت بڑا شگاف پيدا ہوجاتاجوايك بہت بڑا خطرہ ثابت ہوتا _روم ايسى بڑى طاقت بھى انتظار ميں تھى كہ جزيرة العرب پر حملہ كركے اسلام كى جڑكو كاٹ دے _ فتنے اٹھ چكے تھے اندرونى و بيرونى تحريكيں اور سازشيں اسلام كى بنيادوں كو چيلنج كررہى تھى _

لشكر اسامہ كى روانگي

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اندرونى سازشوں كے خاتمہ اور خارجى تحريكوں كى سركوبى كے لئے لشكر اسامہ كى تشكيل اور روانگى كا حكم صادر فرمايا _ سپاہيوں كى حوصلہ افزائي كے لئے اپنے ہاتھوں سے پرچم بنا كر ۱۷ يا۱۸ سالہ جوان اسامہ كے سپرد كيا اور سپہ سالار معين فرمايا_(۱۴) اس بہادر نوجوان نے اس لشكر كى كمان سنبھالى جو عالمى استكبار سے جنگ كے لئے آمادہ تھا_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسامہ كو حكم ديا كہ اپنے باپ كى شہادت گاہ كى طرف روانہ ہو جاؤ اور جانے ميں جلدى كرو _ صبح كو نہايت تيزى سے ناگہانى طور پر دشمن پر حملہ كردو_(۱۵) پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں سے كہا كہ لشكر اسامہ ميں شركت كريں اور جتنى جلد ى ہو سكے روانگى كے لئے تيار ہو جائيں_

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے مقاصد ميں سے ايك مقصد يہ تھا كہ سازشوں كا تانابانا بننے والے ، لشكر كے ساتھ مدينہ سے خارج ہوجائيں تا كہ شہر سازشيوں كے وجود سے خالى ہوجائے اور امير المومنين على (ع) كى خلافت كے راستہ ميں ركاوٹ نہ بنيں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جوان سال اسامہ كا

۲۷۴

انتخاب بھى اس لئے فرمايا تھا كہ اولاً: آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يہ بتانا چاہتے تھے كہ ذمہ دارياں شخصيت اور لياقت كى بناپر ہوتى ہيں نہ كہ سن و سال اور موہوم شرافتوں كى بناپر، تا كہ آئندہ لوگ حضرت على (ع) كو يہ كہہ كر خلافت سے الگ نہ كر سكيں كہ وہ جوان ہيں _ثانياً: اسامہ كے والد زيدابن حارثہ روميوں كے ساتھ جنگ كرتے ہوئے شہيد ہوئے تھے اس لئے ان ميں روميوں كے خلاف جنگ كرنے كا زيادہ جذبہ تھا اور سپہ سالارى كا عہدہ سونپ دينے كے بعد عملى طور پر ان كى دلجوئي بھى ہو جاتى _

اسامہ نے مدينہ كے قريب مقام '' جرُف'' ميں پڑاؤ ڈال ديا_ بزرگ صحابہ اور مہاجرين سب كے سب اسامہ كے لشكر كے سپاہى اور ان كى ماتحتى ميں تھے _ يہ بات ان ميں سے بعض كےلئے بڑى سخت تھى انہوں نے اعلانيہ طور پر اسامہ كى سپہ سالارى پر اعتراض كيا كہ بزرگوں كى سپہ سالارى كے لئے نوجوان كو كيوں منصوب كيا گيا؟ لشكر كى روانگى ميں عملى طور پر خلاف ورزياں ہوئيں چند دنوں تك لشكر ركا رہا _ مخالفت كر نيوالوں نے لشكر كى روانگى ميں كوتاہى كى اوراپنے بے ہودہ مقاصد كو انجام دينے كے لئے روانگى ميں تاخير كرائي_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بستر علالت پر سمجھ ليا كہ لشكر گاہ سے لشكر كى روانگى كو روكنے كےلئے لوگ كيا كررہے ہيں ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بستر سے اٹھے اور بخار نيز غيظ و غضب كے عالم ميں مسجد ميں تشريف لائے خدا كى حمد كے بعد فرمايا '' اے لوگو ميں لشكر كى روانگى ميں دير ہونے سے بہت ناراض ہوں گويا اسامہ كى سپہ سالارى تم ميں سے ايك گروہ كے اوپر گراں گذرى اور تم نے اعتراضات شروع كرديئےم اس سے پہلے بھى ان كے باپ كى سپہ سالارى پراعتراض كررہے تھے ، خدا كى قسم اس كا باپ سپہ سالارى كے لئے مناسب تھا اور وہ خود بھى

۲۷۵

مناسب ہے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر واپس آگئے اور ہر اس صحابى سے جو آپ كو ديكھنے كے لئے آتا تھا فرماتے: '' لشكر اسامہ كو روانہ كرو''(۱۶)

ليكن سازشيں اس سے بالاتر تھيں يہاںتك كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _'' جو لشكر اسامہ سے روگردانى كرے اس پر خدا كى لعنت ہو''(۱۷)

اہل بقيع كے مزار پر

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شديد بيمارى كے عالم ميں حضرت علىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (۱۸) كا سہارا لئے قبرستان بقيع كى طرف چلے، اصحاب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پيچھے پيچھے روانہ ہوئے جب بقيع كے قبرستان ميں پہنچے تو فرمايا:'' ميں مامور ہوں كہ خداوند عالم سے اہل بقيع كے لئے طلب مغفرت كروں ''_پھر فرمايا'' اے زير خاك آرام كرنے والو تم پر ميرا سلام ہو، تم اطمينان و مسرت سے آرام كرو كہ تمھارا زمانہ ان لوگوں كے زمانہ سے زيادہ آسودہ ہے _ فتنے اندھيرى رات كے ٹكٹروں كى طرح بڑھ آئے ہيں '' پھر فرمايا '' على (ع) ہر سال جبرئيل (ع) ميرے پاس قرآن كو ايك مرتبہ پيش كرتے تھے اور اس سال دو بار انہوں نے پيش كيا اس لئے كہ ميرا وقت قريب آگيا ہے''(۱۹)

واقعہ قرطاس يا نا مكمل تحرير

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى زندگى كے آخرى دن تھے ، جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آنكھيں كھوليں تو اپنے بستر كے ارد گرد چند اصحاب كو ديكھا جن كو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كے مطابق اس وقت لشكر اسامہ كے

۲۷۶

ساتھ ہونا چاہيئے تھا_ امت ميں اختلاف كى روك تھام كے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا _'' كاغذ اور دوات لاؤ تا كہ ميں تمہارے لئے ايك چيز لكھ دوں كہ اس كے بعد گمراہ نہ ہوگے ''_ ان ميں سے ايك صاحب نے چاہا كہ اٹھ كر قلم دوات لے آئيں ليكن جناب عمر نے اظہار خيال فرمايا '' يہ ( پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب اشارہ)ہذيان بك رہے ہيں ، قرآن تمہارے پاس ہے اور كتاب آسمانى ہمارے لئے كافى ہے '' ايك گروہ نے عمر كا ساتھ ديا اور كچھ لوگوں نے ان كى مخالفت كى ، شور و غل بر پا ہوا _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' اٹھو اور ميرے گھر سے نكل جاؤ''_(۲۰)

ناتمام نماز

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى علالت كے دوران ايك دن حضرت بلال نے اذان دى اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر و دروازہ پر آكر آواز دى '' نماز خدا تمہارے اوپر رحمت نازل كرے'' _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہت زيادہ بيمارتھے اس وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا كہ '' لوگوں كو كوئي نماز پڑھا دے اس لئے كہ ميں بيمار ہوں''_ عائشےہ نے كہا كہ ابوبكر كو تلاش كرو اور حفصہ نے كہا عمر كو لاؤ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دونوں كى باتيں سنيں اور دونوں بيويوں سے كہا '' ان باتوں سے خود كو روكو كہيں تم ان عورتوں كى طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے يوسف كو گمراہ كرنا چا ہا تھا''_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شديد بيمارى كے عالم ميں اٹھے ، علي(ع) اور فضل بن عباس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دونوں شانوں كو سہارا دے ركھا تھا ، مسجد ميں تشريف لائے ، ابوبكر كو محراب ميں ديكھا كہ نماز كے لئے كھڑے ہوگئے ہيں ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہاتھ سے اشارہ كيا كہ ہٹ جاؤ_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے ان كى نماز كومكمل نہ ہونے ديا اور دوبارہ نہايت مختصر نماز كا اعادہ كيا _ جب آپ-صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم گھر تشريف لے گئے تو ابوبكر ،

۲۷۷

عمر اور دوسرے افراد كو بلوا بھيجا جب يہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس آئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے پوچھا كہ '' لشكر اسامہ كے ساتھ كيوں نہيں گئے؟ انہوں نے جواب ديا '' ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تجديد بيعت كے لئے لوٹ آئے اور ہم نے يہ نہيں چاہا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيمارى كى خبر دوسروں سے پوچھيں''(۲۱) _

وداع پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بيمارى نے شدت اختيار كرلى ، فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بستر كے پاس بيٹھى ہوئي باپ كے نورانى اور ملكوتى چہرہ كو ديكھ رہى تھيں _جس پر بخار كى شدت كى بنا پر پسينہ كے قطرے جھلملار ہے تھے، جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوطالب عليہ السلام كا شعر جو پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بارے ميں تھا پڑھا _

وَاْبيَضُ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بوجهه

ثمال اليتامى عصمة للارامل

يعنى : روشن چہرہ اس چہرہ كى آبرومندى كے وسيلہ سے بارش طلب كى جاتى ہے جو يتيموں كى پناہ گاہ اور بيوہ عورتوں كى نگہدار ى كرنے والا ہے _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آنكھيں كھوليں اور فرمايا، بيٹى ، شعر نہ پڑھو ، قرآن پڑھو :

( وَ مَا مُحَمّد الاَ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مَنْ قَبْله الرُّسُل اَفانْ مَاتَ اَوقُتل انْقَلَبْتُمْ عَلَى اَعْقابكُمْ وَ مَنْ يَنْقَلبْ عَلَى عَقبَيْه فَلَنْ يَضُرَّ اللّهَ شَيْئاً وَ سَيَجْزى اللّهُ الشَّاكريْنَ ) (۲۲)

'' محمد نہيں ہيں مگر پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ، ان سے پہلے بھى بہت سے پيغمبر گزر چكے ہيں تو كيا اگر

۲۷۸

انكا انتقال ہوجائے يا قتل كرديئےائيں توكيا تم اپنے گزشتہ لوگوں كے عقائد كى طرف پلٹ جاؤ گے ؟ اور جو اپنے گزشتگان كے آئين كى طرف پلٹ جائے گا وہ خدا كو كوئي نقصان نہيں پہنچائے گا _ خدا شكر كرنے والوں كو نيك جزاء دے گا''_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آہستہ سے حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا كے كان ميں كوئي بات كہى آپ(ع) نے گريہ شروع كيا _ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى بيٹى كى تكليف برداشت نہ كر سكے اور دوبارہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان(ع) كے كان ميں كوئي بات كہى تو جناب فاطمہ چپ ہوگئيں اور مسكرانے لگيں _

بعد ميں جب لوگوں نے جناب فاطمہ (ع) سے سوال كيا كہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ(ع) سے كيا كہا تھا كہ پہلى بار آپ(ع) روئيں اور دوسرى بار مسكرائيں ؟ آپ(ع) نے جواب ديا '' پہلى بار آنحضرت سے رحلت كى خبر سنى تو مغموم ہوگئي دوسرى بار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بشارت دى كہ اے فاطمہ ميرے اہل بيت (ع) ميں سے تم سب سے پہلے مجھ سے ملوگى اس پر ميں بشاش ہوگئي_(۲۳)

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى حيات كے آخرى لمحوں ميں على عليہ السلام كو بلايا اور فرمايا '' علي(ع) ميرا سر اپنى آغوش ميں لے لو كہ امر خدا آن پہنچا ہے''_

اے على (ع) جب ميں اس دنيا ميں نہ رہوں تو مجھے غسل دينا اور پہلى بار مجھ پر نماز پڑھنا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا سر علي(ع) كى گود ہى ميں تھا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحمت بارى سے جا ملے _

يہ عظيم حادثہ ۲۸/صفر ۱۱ ہجرى بروز پير بمطابق ۲۸ مئي ۶۳۲ ء كورونما ہوا(۲۴) _ ليكن مورخين اہل سنت كے مطابق پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت ۱۲ ربيع الاول سنہ ۱۱ ھ ق(۲۵) بمطابق ۱۰ جون سنہ ۶۳۲كو ہوئي_

حضرت على (ع) نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے پاكيزہ جسم كو غسل ديا، كفن پہنا يا اور نماز پڑھى اس عالم

۲۷۹

ميں كہ آنسو آپ(ع) كى آنكھوں سے رواں تھے اور فرمايا _

'' ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اے اللہ كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بيشك آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مرنے سے وحى كا سلسلہ منقطع ہو گيا ''_

وہ چيز جو دوسرے پيغمبروں كى موت كے بعد منقطع نہيں ہوئي ( يعنى نبوت و احكام الہى اور آسمانى خبريں) اگر آپ صبر كا حكم نہ ديتے اور نالہ و فغاں سے منع نہ فرماتے تو ميں آپ (ع) كے فراق ميں اتنا روتا كہ ميرے اشكوں كا سرچشمہ خشك ہو جاتا _(۲۶)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كى خبر نہايت تيزى سے مدينہ ميں پھيل گئي ، علي(ع) جب غسل و كفن ميں مشغول تھے اس وقت ايك گروہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جانشين كا مسئلہ حل كرنے كے لئے سقيفہ(۲۷) ميں الجھ رہا تھا _غسل دينے كے بعد پہلے علي(ع) نے نمازپڑھى پھر مسلمان دستہ دستہ آتے گئے اور نماز پڑھتے گئے ، پھر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كو مسجد كے پہلو ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے گھر ميں دفن كرديا گيا_(۲۸)

يہ نور ہرگز نہيں بجھے گا

پيغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دار بقاء كى طرف روانہ ہوگئے ، ليكن يہ نور نہ تو گل ہوا ہے اور نہ ہوگا_آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا آئين مشعل ہدايت كى طرح بشر كے لئے تاريك راستوں ميں راہنما ہے اور كروڑوں ، اربوں انسان صديوں سے اسے آئين كے پيرو ہيں_

آج بھى روزانہ ايك ارب سے زيادہ مسلمان سارى دنيا ميں كروڑوں بار '' اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمدرسول اللہ '' كى آواز گلدستہ اذان سے سن رہے ہيں اور بے پناہ محبت كے ساتھ اس آواز كے دلبر با ترنم كو اپنى زبان پر جارى كرتے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) پر درود بھيجتے

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809