فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)4%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362306 / ڈاؤنلوڈ: 6025
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

۳۔ اے کاش ایاس بن عبد اللہ معروف بہ ''الفجاة'' کو نہ جلایا ہوتا۔(۱)

نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اس زمانے کے مشہور شاعر محمد حافظ ابراہیم مصری جن کا انتقال ۱۳۵۱ھ میں ہوا اپنے قصیدے ''عمریہ'' میں خلیفہ دوم نے جو حضرت فاطمہ کی شان میں گستاخی اوراہانت کی اس کی ستائش کی ، وہ کہتا ہے۔

و قولةٍ لعلٍّ قالها عمرُ-----اکرمِ بسامعِها اعظم بملقیها

حرقتُ دارَک لا أبُقی علیک بها-----ان لم تبایعُ و بنتُ المصطفی فیها

ماکان غیرُ ابی حفص یفوه بها-----امام فارسِ عدنانٍ و حامیها(۲)

اس بات کو یاد کرو جو عمر نے علی ـسے کہاتھا: سننے والے کا احترام کرو اور کہنے والے کو محترم جانو ۔

عمر نے علی ـ سے کہا: اگر بیعت نہیں کرو گے تو تمہارے گھر کو جلادوں گا اور اس گھر میں رکنے کی اجازت نہیں دوں گا اوراس نے یہ بات اس وقت کہی کہ پیغمبر کی بیٹی گھر میں موجود تھیں۔یہ بات عمر کے علاوہ کوئی نہیں کہہ سکتا وہ بھی عدنان عرب اور اس کے حامیوں کے شہسوار کے مقابلے میں یہ شاعر عقل و خرد سے دور رہ کر وہ ظلم و فساد جس سے عرش الہی لرز جاتا ہے چاہتا ہے کہ خلیفہ کے اس عمل کو مفاخر میں شمار کرے کیا یہ افتخار کی بات ہے کہ پیغمبر کی بیٹی کا عمر کے نزدیک کوئی احترام نہیں تھا اور وہ صرف ابوبکر کی بیعت لینے کے اس خاطر پیغمبر کے گھر اور ان کی بیٹی کو جلادے؟!

اور یہ بات بھی عجیب ہے جسے عقد الفرید نے نقل کیا ہے جس وقت علی کو مسجد میں لائے تو خلیفہ نے ان سے کہا کہ کیا میری خلافت سے آپ ناراض ہیں؟ تو علی ـنے کہا: نہیں ۔ بلکہ میں نے خود عہد کیا تھا کہ رسول خدا کی رحلت کے بعد اپنے دوش پر ردا نہیں ڈالوں گا جب تک کہ قرآن کو جمع نہیں کرلوں گا اور اسی وجہ سے میں دوسروں سے پیچھے رہ گیا. اور پھر خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی(۳) جب کہ وہ خود اور دوسرے افراد

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۳ ص ۲۳۶، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۴۶۳

(۲) دیوان شاعر نیل ج۱ ص ۸۴

(۳) عقد الفرید ج۴ص ۲۶۰

۱۸۱

عائشہ سے نقل کرتے ہیں کہ چھ مہینے تک جب تک حضرت فاطمہ زندہ تھیں علی ـنے بیعت نہیں کیا اور ان کی شہادت کے بعد خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔(۱)

لیکن نہ صرف یہ کہ علی ـ نے بیعت نہیں کیا اور نہج البلاغہ کے خطبات آپ کی اس حقانیت پر گواہ ہیں، بلکہ وہ افراد بھی جن کے نام سے واقعہ سقیفہ کی تشریح کرتے وقت ہم آشنا ہوئے ہیں ان لوگوںنے بھی خلیفہ کی بیعت نہ کی، اور جناب سلمان جو حضرت علی کی ولایت کے سب سے بڑے حامی تھے ابوبکر کی خلافت کے بارے میں کہتے ہیں:

''خلافت کو ایسے شخص کے حوالے کیا کہ جو فقط تم سے عمر میں بڑا ہے اور پیغمبر کے اہلبیت کو نظر انداز کردیا حالانکہ اگر خلافت کو اس کے محور سے خارج نہ کرتے تو ہرگز اختلاف نہ ہوتا اور سبھی خلافت کے بہترین میوے (حق) سے بہرہ مند ہوتے۔(۲)

______________________

(۱) عقد الفرید ج۴ص ۲۶۰

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۶۹

۱۸۲

چوتھی فصل

حضرت علی علیہ السلام اور فدک

فدک کی اقتصادی اہمیت

سقیفہ کی الجھنیں خلیفہ کے انتخاب کی وجہ سے ختم ہوئیں اور ابوبکر نے خلافت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی. حضرت علی اپنے باوفا اصحاب کے ہمراہ حکومت کے جاہ و حشتم سے دور ہوگئے لیکن اپنی نوارنی فکروں اور عام لوگوں کے ذہنوں کی فکر و آگہی کے لئے اتحاد و اتفاق کی برقراری کے لئے حکومت کی مخالفت نہیں کی ، بلکہ قرآن کی تفسیر و تعلیمات اوراعلی مفاہیم ، صحیح فیصلوں اوراہل کتاب کے دانشمندوں کے ساتھ استدلال و احتجاجات وغیرہ اور اجتماعی و فردی خدمات انجام دینے لگے۔

امام تمام مسلمانوں کے درمیان سب سے زیادہ باکمال تھے اور کبھی بھی یہ ممکن نہ تھا کہ آپ کے دشمن آپ سے یہ کمالات چھین سکیں ، آپ پیغمبر کے چچازاد بھائی اور داماد، وصی ٔ بلافصل اور مجاہد نامدار، اور اسلام کے بڑے جانباز اورشہر علم پیغمبر کے دروازہ تھے، کسی بھی شخص میں اتنی ہمت نہیں جو اسلام میں ان کی سبقت اور آپ کے وسیع علم اور قرآن و حدیث، اصول و فروع دین اور آسمانی کتابوں پر تسلط کا انکار کرسکے، یا ان تمام فضائل کوان سے چھین سکے۔

ان فضائل کے علاوہ امام علیہ السلام کے پاس ایک ایسی چیز تھی جس کی وجہ سے ممکن تھا کہ آئندہ، خلفاء اس کی وجہ سے مشکل میں گرفتار ہوتے اور وہ اقتصادی و آمدنی جیسی قدرت تھی جو فدک کے ذریعے آپ کو حاصل ہو رہی تھی۔

اسی وجہ سے خلیفہ نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے چاہاکہ اس قدرت کو امام کے ہاتھوں سے لے لے، کیونکہ یہ امتیاز دوسرے امتیازات کی طرح نہ تھا جو امام کے ہاتھوں سے نہ لیا جاسکے(۱)

________________

(۱) اس بحث کی تفصیلات کو باب 'فدک غصب کرنے کا مقصد ''میں پڑھیں گے۔

۱۸۳

فدک کا جغرافیہ

بہترین اور آباد سرزمین جو خیبر کے قریب واقع ہے اور مدینے سے فدک کا فاصلہ تقریباً ۱۴۰ کیلو میٹرہے اورقلعہ خیبر کے بعد حجاز کے یہودیوں کے ٹھہرنے کی جگہ کے نام سے مشہور تھا اسی جگہ کو قریۂ ''فدک'' کہتے ہیں۔(۱) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہودیوں کے لشکر کو ''خیبر'' اور ''وادی القریٰ'' اور ''تیما'' میں شکست دینے کے بعدجب مدینہ کے شمال میں ایک بڑے خلاء کا احساس کیا تو اسے اسلام کے سپاہیوں سے پر کردیا اور اس سرزمین سے یہودیوں کی طاقت و قدرت کو ختم کرنے کے لئے جو کہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے خطرہ کا سبب اور اسلام کی مخالفت شمار ہوتی تھی ایک سفیر جس کا نام ''محیط'' تھااسے فدک کے سردار کے پاس بھیجا یوشع بن نون جو اس دیہات کا رئیس تھا اس نے صلح و آشتی کو جنگ پر ترجیح دیا اور وہاں کے رہنے والے اس بات پر راضی ہوگئے کہ ہر سال کا آدھا غلہ پیغمبر اسلام کو دیں گے اور اسلام کے پرچم تلے زندگی بسر کریں گے اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں نہیں کریں گے۔ اسلامی حکومت نے بھی ان کی حفاظت و سلامتی کی ذمہ داری قبول کرلی اسلامی قانون کے مطابق ہر وہ زمین جو جنگ و جدال کے ذریعے حاصل ہو وہ تمام مسلمانوں کی ملکیت ہوتی ہے ا ور اس کی ذمہ داری اور نظارت حاکم شرع کے ہاتھ میںہوتی ہے لیکن وہ زمینیں جو بغیر کسی حملہ اور جنگ کے مسلمانوں کو حاصل ہوں.وہ پیغمبر یا اس کے بعد کے امام کی ملکیت ہوتی ہیں اور جو قوانین و شرائط اسلام نے معین کئے ہیں الٰہی موارد میںصرف ہوتی ہیں ایک مورد یہ ہے کہ پیغمبراور امام اپنے قریبی افراد کی شرعی حاجتوں کو پورا کرنے اور ان کی عزت و آبرو کو محفوظ رکھنے کے لئے خرچ کریں۔(۲)

فدک، پیغمبراسلام(ص) کی طرف سے حضرت فاطمہ کو ہدیہ تھا

شیعہ محدثین و مورخین اور اہل سنت کے دانشمندوں کا ایک گروہ تحریر کرتا ہے:جب آیت( وآتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّه وَ الْمِسْکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْل ) (۳) نازل ہوئی اس وقت پیغمبر(ص) نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا کو بلایااور فدک کو ان کے

________________

(۱) معجم البلدان و مراصد الاطلاع میں ''مادۂ فدک'' کی طرف رجوع کریں۔

(۲) سورۂ حشر، آیت ۶ و ۷، فقہ کی کتابوںمیں باب جہاد بحث ''فیٔ'' میں اس کو بیان کیا گیا ہے۔

(۳) سورۂ اسرائ، آیت ۲۶، یعنی اپنے رشتہ داروں، مسکینوں، اور مفلسوں کے حق کو ادا کرو۔

۱۸۴

حوالے کیا(۱) اور اس مطلب کو پیغمبرکے ایک بزرگ صحابی ابوسعیدخدری نے نقل کیا ہے۔تمام مفسرین شیعہ و سنی کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت پیغمبر کے قریبی رشتہ داروںکی شان میں نازل ہوئی ہے اور آپ کی بیٹی ''ذا القربی'' کی بہترین مصداق ہیں، یہاں تک کہ جب شام کے ایک شخص نے حضرت علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام سے کہا کہ آپ اپنا تعارف کرائیے اس وقت آپ نے شامیوں کے سامنے اپنے کو پہچنوانے کے لئے اسی آیت کی تلاوت کی اور یہ مطلب مسلمانوں کے درمیان اتنا واضح و روشن تھاکہ اس شامی نے تصدیق کے طور پر سر کو ہلاتے ہوئے حضرت سے یہ کہا کہ آپ کی رسول اسلام سے قربت اور خاص رشتہ داری کی وجہ سے ہی خدا نے پیغمبر کو حکم دیا کہ آپ کے حق کو آپ کو دے دیں ''(۲)

خلاصہ یہ کہ یہ آیت حضرت فاطمہ زہرا اور ان کے فرزندوں کی شان میں نازل ہوئی ہے اور اس سلسلے میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے لیکن یہ بات کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت پیغمبر نے فدک کو اپنی بیٹی کو بطور ہدیہ دیاتھا یا نہیں تو اس بارے میں. تمام شیعہ محققین اور کچھ سنی محققین قائل ہیں کہ اس کو آپ نے اپنی بیٹی کو ہدیہ میں دیا تھا

______________________

(۱) مجمع البیان ج۳ ص ۴۱۱ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۶ ص ۲۶۸ الدر المنثورج۴ص ۱۷۷

(۲) الدر المنثور ج۴ ص ۱۷۶

۱۸۵

پیغمبراسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فدک اپنی بیٹی کو کیوں دیا؟

پیغمبراسلام اور آپ کے خاندان کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ لوگ کبھی بھی دنیا کے دلدادہ نہیں تھے اور جس چیز کی ان کی نظر میں وقعت نہیں رکھتی تھی وہ دنیا کی دولت تھی اس کے باوجودہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر نے فدک اپنی بیٹی کودے دیا اور اسے حضرت علی کے خاندان سے مخصوص کردیااب یہاں پر یہ سوال پیداہوتا ہے کہ آخر کیوں پیغمبر نے فدک فاطمہ زہرا کو دیااس سوال کے جواب کی کئی وجہیں ذکر ہوئی ہیں۔

۱۔ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد مسلمانوں کی تمام ذمہ داریاں حضرت علی علیہ السلام پر تھیں اور یہ مقام و منصب بہت سنگین اوراسکے لئے زیادہ دولت کی ضروررت تھی حضرت علی خلافت کے تمام امور کی دیکھ بھال فدک سے حاصل ہوئی آمدنی سے اچھے طریقے سے کرسکتے تھے، مگر لگتا ہے کہ خلفاء ،پیغمبر کی اس پیشنگوئی سے آگاہ ہوگئے تھے اسی لئے خلافت کی مسند پر بیٹھتے ہی فدک کو پیغمبر کے خاندان سےچھین لیا ۔

۲۔ خاندان پیغمبر جس میںمظہر کامل آپ کی بیٹی اور آپ کے دو نور چشم حضرت حسن اور حضرت حسین علیھما السلام تھے ضروری تھاکہ پیغمبر کی وفات کے بعد عزت کے ساتھ زندگی بسر کریں اور رسول اسلام کی عزت و شرافت وحیثیت اوران کا خاندان ہر طرح سے محفوظ رہے اسی مقصد کے تحت پیغمبر نے فدک اپنی بیٹی کو دیا تھا۔

۱۸۶

۳۔ پیغمبر اسلام یہ جانتے تھے کہ ایک گروہ حضرت علی سے اپنے دل میں کینہ رکھے ہوئے ہے کیونکہ ان کے بہت سے رشتہ دار و احباب مختلف جنگوں میں حضرت علی کی تلوار سے مارے گئے ہیں ان کے دلوں سے کینہ دور کرنے کا ایک راستہ یہ تھا کہ امام مالی امداد کر کے ان کی دلجوئی کریں ،ان کے دلوں کو اپنی طرف مائل کریں، اسی طرح بیواؤں اور مفلسوں اور لاچاروں کی مدد کریں اور اس طرح سے ان تمام موانع کو جو آپ کو خلافت سے قریب ہونے سے روک رہے تھے ان کو دور کریں پیغمبر اسلام (ص) اگرچہ ظاہری طور پر فدک حضرت زہرا کو دیا تھا لیکن اس کی درآمد کا اختیار صاحب ولایت کے ہاتھوں میں تھا. تاکہ اس کے ذریعے سے اپنی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرتے اور اسلام و مسلمین کے فائدے کے لئے خرچ کریں۔

فدک کی آمدنی

تاریخ پر نگاہ کرنے کے بعدیہ تینوں باتیں صحیح معلوم ہوتی ہیں کیونکہ فدک ایک سرسبز و شاداب زمین تھی جو حضرت علی علیہ السلام کے مقصد کی کامیابی کے لئے بہترین معاون ثابت ہوتی۔

مشہور مورخ حلبی اپنی کتاب سیرۂ حلبی میں لکھتے ہیں:

''ابوبکر مائل تھے کہ فدک پیغمبر کی بیٹی کے پاس رہے اور فاطمہ کی ملکیت کوانہوں نے ایک کاغذ پر لکھ دیا لیکن عمر نے فاطمہ کووہ توشہ دینے سے منع کردیا اور ابوبکر کی طرف رخ کر کے کہا : آئندہ تمہیں فدک کی آمدنی کی سخت ضرورت پڑے گی کیونکہ اگر مشرکین عرب مسلمانوں کے خلاف قیام کریں تو جنگ کے تمام اخراجات کو کہاں سے پورا کرو گے؟(۱)

اس جملے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ فدک کی آمدنی اس قدر تھی کہ دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے

______________________

(۱) سیرۂ حلبی ج۳ص ۴۰۰

۱۸۷

میں جو اخراجات ہوتے اس کو پورا کردیتی اسی وجہ سے ضروری تھا کہ پیغمبر اس اقتصادی قدرت کو حضرت علی کے اختیار میں دیدے۔

ابن ابی الحدید کہتے ہیں:

میں نے مذہب امامیہ کے ایک دانشورسے فدک کے بارے میں کہا: فدک کا علاقہ اتنا وسیع نہ تھا اور اتنی کم زمین کہ جس میں چند کھجور کے درخت کے علاوہ کچھ نہ تھا، لہذا مخالفین فاطمہ کے لئے اتنا اہم نہ تھا کہ اس کی لالچ کرتے، تو انھوں نے میرے جواب میں کہا کہ تم غلط کہہ رہے ہو، وہاں پر کھجور کے درخت آج کے درختوں سے کم نہ تھے اور مکمل طریقے سے اس حاصل خیز زمین سے خاندان پیغمبر کو استفاد ہ کرنے سے منع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ایسا نہ ہو کہ حضرت علی اس کی آمدنی سے خلافت کے خلاف قیام کریں اس لئے نہ صرف فاطمہ کو فدک سے محروم کیا بلکہ تمام بنی ہاشم او رعبد المطلب کے فرزندوں کو ان کے شرعی حقوق (خمس، غنیمت) سے بھی محروم کردیا۔

کیونکہ جو لوگ ہمیشہ اپنی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیںوہ کبھی جنگ و جدال کے خیال کو اپنی ذہن میں نہیں لاتے۔(۱)

امام موسیٰ بن جعفرعلیہ السلام فدک کے حدود و علاقہ کو اس حدیث میں معین کرتے ہیں: ''فدک کا رقبہ ایک سمت سے عدن اور دوسری طرف سے سمر قند اورتیسری طرف سے افریقہ اور چوتھی طرف سے بہت سے دریاؤںاورجزیروں اور جنگلوں سے ملتا ہے'(۲)

حقیقت میں فدک جو کہ خیبر کا جزء تھا اتنا وسیع و عریض نہ تھا بلکہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کا مقصد یہ تھا کہ صرف ہم سے فدک کو غصب نہیں کیا ہے بلکہ تمام اسلامی ممالک کی حکومت کو اتنی مقدار میں جتنی امام نے معین کئے ہیںاہلبیت سے چھین لیا گیا۔ پیغمبر اسلام (ص) نے فدک کو چوبیس ہزار دینار میں کرایہ پر دیدیا بعض حدیثوں میں ۷۰ ہزار دینار نقل ہوا ہے اور یہ فرق سالانہ آمدنی کی وجہ سے ہے۔

_____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ج۱۶ص ۲۳۶

(۲) بحار الانوار ج۴۸ ص ۱۴۴

۱۸۸

قطب الدین راوندی لکھتے ہیں:

جب معاویہ خلافت کی کرسی پر بیٹھا تواس نے فدک کو تین حصوں میں تقسیم کیا ایک تہائی مروان بن حکم اور ایک تہائی عمر بن عثمان اور ایک تہائی اپنے بیٹے یزید کو دیااور جب مروان خلیفہ بنا تو اس نے فدک کو اپنی جاگیر بنالیا(۱) اس طرح کی تقسیم سے واضح ہوتا ہے کہ فدک ایک اہم ترین سرزمین تھی جسے معاویہ نے تین آدمیوں میں تقسم کیا اور تینوں اس کے اہم رشتہ داروں میں سے تھے۔

جس وقت حضرت فاطمہ زہرا نے ابوبکر سے فدک کے سلسلے میں گفتگو کی اور اپنی بات کی صداقت کے لئے گواہوں کو ان کے پاس لے گئیںاس وقت انہوں نے پیغمبر کی بیٹی کے جواب میں کہا: فدک پیغمبر کا مال نہیں تھابلکہ مسلمانوں کا مال تھا جس کی آمدنی سے سپاہیوں کے اخراجات پورے ہوتے تھے اور دشمنوں سے جنگ کے لئے بھیجے جاتے تھے اور خدا کی راہ میں خرچ کرتے تھے۔(۲)

پیغمبر اسلام (ص ) فدک کی آمدنی سے سپاہیوں کو آمادہ کرتے تھے یا اسے بنی ہاشم اور درماندہ لوگوں میں تقسیم کرتے تھے اور یہ زمین خیبر کی ایسی زمینوں میں سے تھی جس کی آمدنی بہت زیادہ تھی جو سپاہیوں کے خرچ کے لئے کافی تھی۔

جب عمر نے چاپاکہ شبہہ جزیرہ کو یہودیوں سے خالی کرائیںتو ان لوگوں کو دھمکی دی کہ اپنی اپنی زمینوں کو اسلامی حکومت کے حوالے کرو اور اس کی قیمت لے لو اور فدک کو خالی کردو۔

پیغمبراسلام(ص) نے ابتدا سے ہی فدک میں رہنے والے افراد سے معاہدہ کیا تھا کہ آدھی زمین ان کے اختیار میں رہے گی اور بقیہ آدھی زمین کو رسول خدا کے حوالے کریںگے اسی وجہ سے خلیفہ نے ابن تیہان ،فروہ، حباب، اور زید بن ثابت کو فدک بھیجا تاکہ جتنی مقدار میں ان لوگوں نے غصب کیا تھا اس کی اجرت و قیمت معین ہونے کے بعد یہودیوں کو جو وہاں ساکن تھے ادا کریں ان لوگوں نے یہودیوں کا حصہ پچاس ہزار درہم معین کیا اور عمر نے اس رقم کو اس مال سے ادا کیا جو عراق سے حاصل ہوا تھا۔(۳)

_____________________

(۱) بحار الانوارج۱۶ص ۲۱۶

(۲) بحار الانوارج ۱۶ص ۲۱۴

(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۶ص ۲۱۱

۱۸۹

فدک غصب کرنے کا مقصد

پیغمبر اسلام کے دنیا پرست اصحاب کے لئے ابوبکر کی خلافت و جانشینی کامیابی کا پہلا زینہ تھا اور خزرج جو گروہ انصار کے سب سے زیادہ طاقتور افراد تھے دوسرے گروہ سے مخالفت کر کے داخلی جنگ سے پیچھے ہٹ گئے تھے اور بنی ہاشم نے جس کے رئیس حضرت علی علیہ السلام تھے ان علتوں کی بنا پر جس کا ہم نے ذکر کیاہے لوگوں کے سامنے حقیقت آشکار کرنے کے بعد گروہ بندی اور مسلحانہ قیام سے پرہیز کیا۔لیکن مدینہ میں صرف یہی کامیابی خلافت کے لئے کافی نہ تھی بلکہ مکہ کی حمایت بھی ضروری تھی لیکن بنی امیہ جس کا سرپرست ابوسفیان تھا ،جس کے پاس بہت زیادہ افراد تھے اس نے خلیفہ کی خلافت کو رسماً قبول نہیں کیا تھا، وہ لوگ اس بات کے منتظر تھے کہ ابوسفیان خلافت کی تائید کرے گا اور تمام احکامات و قوانین کو معین کرے گا۔

جب مکہ میں پیغمبر کے رحلت کی خبر پہونچی اس وقت مکہ کا حاکم عتاب بن اسید بن العاص تھا جس کی عمر ۲۰ سال تھی اس نے تمام لوگوں کو پیغمبر کے رحلت کی خبر سنائی لیکن خلافت و جانشینی کی خبر کے بارے میں لوگوں سے کچھ نہ کہا جب کہ دونوں واقع ایک ہی ساتھ آئے تھے اور دونوں کی خبر پھیل گئی تھی بہت بعید ہے کہ دونوں میں سے ایک واقعہ کی خبر مکہ پہونچے لیکن دوسرے واقعہ کی خبر مکہ نہ پہونچے مکہ کے اموی حاکم کی خاموشی کی علت صرف یہ تھی کہ وہ اپنے خاندان کے رئیس ابوسفیان کے نظریہ سے باخبر ہو جائے پھر اس کے نظریہ کے مطابق عمل کرے۔ان تمام حقایق کے پیش نظر، خلیفہ یہ بات جانتا تھا کہ اس کی حکومت مخالفین کے مقابلے میں بہت دنوں تک قائم نہیں رہ سکتی. لہذا ضروری تھاکہ مخالفوں کے عقائد و نظریات سے باخبر ہو تاکہ ان سے زیادہ عقائد و نظریات کو پیش کرے جس کی بنا پر ان کے عقائد و غیرہ کا اثر لوگوں کے دلوں پر نہ پڑے کیونکہ ایسی صورت میں حکومت کا بہت دنوں تک قائم رہنا بہت مشکل کام تھا۔

تمام لوگوں میں سے ایک با اثر شخص بنی امیہ کے عزیزوں کا رئیس ابوسفیان تھا اس کا نظریہ معلوم ہوسکتا تھا کیونکہ وہ ابوبکر کی حکومت کا مخالف تھااور جب اس نے سنا کہ ابوبکر نے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے تو اس نے اعتراض کیا ''مجھے ابوفضیل سے کیا مطلب؟'' یہ وہی تھا جو مدینہ میں داخل ہونے کے بعد حضرت علی اور عباس کے گھر گیا اوردونوں کو مسلحانہ قیام کے لئے دعوت دی اور کہا کہ ''میں مدینے کو سواروں اور سپاہیوں سے بھر دوں گا، تم لوگ اٹھو اور حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لو''

۱۹۰

ابوبکرنے اس کو خاموش کرنے اور اس کو خریدنے کے لئے جو مال و دولت ابوسفیان لے کر آیاتھا اسی کو دیدیااور ایک دینار تک اس میں سے نہ لیا، بلکہ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے بیٹے یزید (معاویہ کا بھائی) کو شام کی حکومت کے لئے منتخب کرلیا، جب ابوسفیان کو یہ خبر ملی کہ اس کے بیٹے کو حکومت ملی ہے تو فوراً اس نے کہا: ابوبکر نے صلۂ رحم کیاہے(۱) جب کہ اس سے پہلے ابوسفیان ابوبکر سے کسی بھی طرح کا رشتہ جوڑ نے کا قائل نہیں تھا۔

ابوسفیان کے علاوہ اور دوسرے افراد جن کا عقیدہ خریدا جارہا تھا ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ یہاں پر بیان نہیں ہوسکتاکیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں ابوبکر کی بیعت مہاجروں کی غیر موجودگی میں ہوئی تھی اور مہاجرین میں سے صرف تین آدمی موجود تھے خود خلیفہ اور ان کے دو ہمفکرو ہم خیال عمر اور ابوعبیدہ ،ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح سے بیعت لینے اور مہاجروں کواپنے گروہ میں شامل کرنے کی وجہ سے دوسرا گروہ ناراض ہو گا اس لئے ضروری تھا کہ خلیفہ ان کی ناراضگی کو دور کرے، اور انن سے رابطہ برقرار کرے اس کے علاوہ انصار خصوصاًقبیلہ خزرج والے جنہوں نے سقیفہ میں ہی ان کی بیعت نہیں کی تھی اور غم و غصہ کے عالم میں سقیفہ چھوڑ کر باہر آگئے تھے ان کو خلیفہ کی طرف سے محبت و الفت ملتی رہے۔

خلیفہ نے نہ صرف لوگوں کے عقائد کا سودا کیا بلکہ مال و دولت کو انصار کی عورتوں میں تقسیم کیا جب زید بن ثابت، بنی عدی کی ایک عورت کا حصہ اس کے گھر لایا تو اس محترم عورت نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ زید نے کہا: یہ تمہارا حصہ ہے اور خلیفہ نے تمام عورتوں کے درمیان تقسیم کیا ہے، عورت نے اپنی ذہانت سے سمجھ لیا یہ پیسہ رشوت دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے لہذا اس سے کہا: میرے دین کو خریدنے کے لئے رشوت دے رہے ہو؟ خدا کی قسم! اس کی طرف سے میں کوئی چیز نہیں لوں گی یہ کہہ کر اسے واپس کردیا۔(۱)

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱، ص ۱۳۳

۱۹۱

حکومت کے لئے مالی بحران

پیغمبر اسلام(ص) نے اپنی بیماری کے دوران ان تمام چیزوں کو جو آپ کے پاس تھا لوگوں میں تقسیم کردیاتھا بیت المال خالی تھاپیغمبر کے نمائندے آپ کی رحلت کے بعد بہت کم مال لے کر مدینہ واپس آئے یا اس کو متدین اور امین شخص کے ہاتھوں بھجوا دیا، لیکن یہ مختصر آمدنی (مال) اس حکومت کے لئے جو مخالفوں کے عقیدوں کا سودا کرنا چاہ رہی تھی بہت کم تھی۔

دوسری طرف اطراف کے قبیلے والے مخالفت کا پرچم اٹھائے تھے اور خلیفہ کے نمائندوں کو زکوٰة دینے سے منع کر رہے تھے اس وجہ سے حکومت اقتصادی مشکلا ت سے دوچار ہو رہی تھی ۔

اسی وجہ سے حاکم کے سامنے کوئی راہ نہ تھی مگر یہ کہ حکومت کے اخراجات کے لئے ادھر ادھر ہاتھ پھیلائے اور مال جمع کرے اور اس وقت فدک سے بہتر کوئی چیز نہ تھی، اور اس سلسلے میں پیغمبر سے حدیث کو نقل کیا جس کا تنہا راوی خود خلیفہ تھا(۱) اور فدک کو حضرت فاطمہ سے چھین لیا اور اس کی بے شمار آمدنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے خرچ کیا۔

عمر نے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ابوبکر سے کہا: کل تمہیں فدک کی بہت سخت ضرورت پڑے گی کیونکہ اگر مشرکین عرب مسلمانوں کے خلاف قیام کریں تو تم کہاں سے جنگ کے تمام اخراجات کو لاؤ پورا کرو گے۔(۲)

خلیفہ اور ان کے ہمفکروں کا عمل بھی اسی بات کی گواہی دیتا ہے ،کیونکہ جب حضرت فاطمہ نے ان سے فدک کا مطالبہ کیا تو جواب میں کہا: پیغمبر نے تمہاری زندگی کے اخراجات کا انتظام کردیا ہے اور اس کی بقیہ آمدنی کو مسلمانوں میں تقسیم کیا ہے اس لئے تم یہ سب لے کر کیا کرو گی؟

پیغمبر کی بیٹی نے فرمایا: میں بھی اپنے بابا کے عمل کی پیروی کروں گی اور بقیہ آمدنی کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کروں گی۔

______________________

(۱) وہ جعلی حدیث یہ ہے ''نحن معاشر الانبیاء لانورث'' یعنی ہم گروہ انبیاء میراث نہیں چھوڑتے ۔

(۲) سیرۂ حلبی ج۳ص ۴۰۰

۱۹۲

جب حضرت فاطمہ نے خلیفہ کو بے جواب کردیاتوانہوں نے کہا: میں بھی یہی کام انجام دوں گا جو تمہارے بابا نے انجام دیا ہے۔(۱)

اگر خلیفہ کا مقصد فدک کے تصرف و خرچ کرنے میں فقط حکم الہی کا جاری کرنا تھا اور فدک کی آمدنی میں سے پیغمبر کے اخراجات نکال کر مسلمانوں کے امور میں صرف کرنا تھا تو کیا فرق تھاکہ اس کام کو وہ انجام دے یا پیغمبر کی بیٹی یا اس کا شوہر انجام دیں جو نص قرآنی کے مطابق گناہوں اور نافرمانیوں سے پاک و منزہ تھا خلیفہ کا اس بات پر اصرار کرنا کہ فدک کی آمدنی ان کے اختیار میں ہو اس بات پر گواہ ہیں کہ ان کی نگاہیں اس آمدنی پر تھی تاکہ اس کے ذریعے اپنی حکومت کو مضبوط اوردیگر امور میں اسکو خرچ کریں۔

فدک غصب کرنے کی ایک اور وجہ

فدک غصب کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی ہے جیساکہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام کی اقتصادی طاقت کا ڈر تھا. امام کے اندر رہبری کے شرائط موجود تھے کیونکہ علم، تقوی، اورتابناک ماضی پیغمبر سے قرابت اور پیغمبر کا ان کے متعلق وصیت کرنا یہ ایسے حقائق ہیں جن سے انکار نہیں کرسکتے، اور جب بھی کوئی شخص ان شرائط کے ساتھ مالی طاقت و قدرت بھی رکھتا ہو اور چاہتاہو کہ خلافت کی ڈگمگاتی کرسی کو سہارا دے تو ایسا شخص بہت بڑے خطرے میں پڑ سکتا ہے ایسی صورت میں اگر حضرت علی کے تمام شرائط و امکانات کو غصب کرنا ممکن نہ ہو اور ان کی ذاتی چیزوں کو لینا ممکن نہ ہوتو بھی مگر حضرت علی کی اقتصادی طاقت کوتو غصب کرسکتے تھے اسی وجہ سے خاندان اور حضرت علی کے حالات کو ضعیف کرنے کے لئے فدک کوا س کے حقیقی مالک سے چھین لیا اور پیغمبر کے خاندان کو خلافت و حکومت کا محتاج بنادیا۔یہ حقیقت عمر او رخلیفہ کی گفتگو سے واضح ہوتی ہے انہوں نے ابوبکر سے کہا:

''لوگ دنیا کے بندے ہیں اور اس کے علاوہ ان کا ہدف بھی کچھ نہیں ہے تم خمس اور مال غنیمت کو علی سے لے لو فدک بھی ان کے ہاتھوں سے چھین لو اور جب لوگ انھیں خالی ہاتھ دیکھیں گے تو انھیں چھوڑ کر تمہاری طرف مائل ہو جائیں گے۔(۲)

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۳۱۶

(۲) ناسخ التواریخ جلد مربوط بہ حضرت زہرا(س)، ۱۲۲

۱۹۳

اس مطلب پر دوسرا گواہ یہ ہے کہ خلیفہ نے نہ صرف خاندان پیغمبر کو فدک سے محروم کیا بلکہ انھیںجنگ کے مال غنیمت میں سے پانچواںحصہ جو نص قرآن کے اعتبارسے خاندان پیغمبر کا حق تھا(۱) اس سے بھی محروم کردیا۔

اکثرمورخین کا خیال ہے کہ خلیفہ سے حضرت فاطمہ زہرا کا اختلاف صرف فدک کی وجہ سے تھا جب کہ آپ کا خلیفہ سے تین چیزوں کی بناپر اختلاف تھا۔

۱۔ فدک جو پیغمبر نے آپ کو دیا تھا۔

۲۔ وہ میراث جو پیغمبر اسلام نے آپ کے لئے چھوڑی تھی۔

۳۔ ذوی القربیٰ کا حصہ جو نص قرآنی کے مطابق غنائم کے خمس کا تعلق ان سے بھی تھا۔

عمر کا بیان ہے کہ جب فاطمہ نے فدک اورذوی القربیٰ کے حق کا خلیفہ سے مطالبہ کیا تو خلیفہ نے منع کردیا اور انھیں نہیں دیا۔

انس ابن مالک کہتے ہیں:

فاطمہ(س) خلیفہ کے پاس آئیں اور آیت خمس کی تلاوت کی جس میں پیغمبر کے رشتہ داروں کا حصہ معین تھا خلیفہ نے کہا: تم جو قرآن پڑھتی ہو میں بھی وہی قرآن پڑھتا ہوں میں ذو القربیٰ کا حق تمہیں ہرگز نہیں دوں گا بلکہ میںتمہاری کی زندگی کے تمام اخراجات برداشت کروں گا اور بقیہ مال کو مسلمانوں کے امور میں صرف کروں گا۔

فاطمہ (س)نے کہا: یہ حکم خدا نہیں ہے جب آیت خمس نازل ہوئی تو پیغمبر نے فرمایا: خاندان محمد کے تمام افراد کو بشارت ہو کہ خدا نے (اپنے فضل و کرم سے) ان لوگوں کو بے نیاز کردیاہے۔

خلیفہ نے کہا: میں عمر اور ابوعبیدہ سے مشورہ کروں گا اگر تمہارے بارے میں موافقت کی تو میں ذوی القربیٰ کا پورا حصہ تمہیں دیدوں گا۔جب ان دونوں سے سوال ہوا تو ان لوگوں نے خلیفہ کے نظریہ کی تائید کی ،فاطمہ کواس وقت بہت

___________________

(۱) سورۂ انفال، ''واعلموا انما غنمتم من شیئٍ فان لله خمسه و للرسول و لذی القربیٰ''

۱۹۴

زیادہ تعجب ہوا اور سمجھ گئیں کہ تینوں آپس میں مشورہ کرچکے ہیں۔(۱)

خلیفہ کا کام صرف نص کے مقابلے میں اجتہاد ہی نہ تھا ، قرآن کریم صراحةً اعلان کر رہاہے کہ مال غنیمت میں سے ایک حصہ پیغمبر کے عزیزوں کا ہے لیکن انہوں نے بہانہ بناتے ہوئے کہ اس سلسلے میں پیغمبر سے کچھ نہیں سنا ہے آیت کی تفسیر کی اور کہا: ''آل محمد کو ان کے خرچ کے برابر دیدو اور بقیہ مال کو اسلام کی راہ میں خرچ کرو''

یہ کوشش صرف اس لئے تھی کہ امام کے ہاتھ میں مال دنیا سے کچھ نہ رہے اورانھیں اپنا محتاج بنائیں تاکہ وہ حکومت کے خلاف اقدام نہ کرسکیں۔

شیعہ فقہ کی نظر میں،جانشین پیغمبر کے ذریعہ پہونچنے والی روایتوں کی رو سے ذوی القربٰی کا حصہ ان کی ذاتی ملکیت نہیں ہے اس لئے کہ قرآن نے ان کا جو حصہ معین کیا ہے وہ اس عنوان سے کہ بعد پیغمبر وہی مسلمانوں کے زعیم اور امام ہیں ،اور خمس کا نصف پہنچنے والا مال ان کے زیر نظر خرچ ہو

خلیفہ اس بات سے باخبر تھا کہ اگر حضرت فاطمہ زہرا ذی القربی کا حق مانگ رہی ہیں تو وہ اپنا حق نہیں مانگ رہی ہیں بلکہ وہ حصہ مانگ رہی ہیں جو شخص ذی القربی کے زمرے میں آتا ہے اسے دریافت کر کے مسلمانوں کے زعیم و رہبر کے عنوان سے مسلمانوں کے دینی موارد میں صرف کرے اور رسول اسلام کے بعد ایسا شخص سوائے حضرت علی کے کوئی اور نہیں ہے اور حضرت علی کو حصہ دینے کا مطلب یہ تھا کہ خلافت کو چھوڑ دینا اورامیر المومنین کی زعامت و رہبری کااعتراف کرنا تھا اسی وجہ سے ابوبکر نے فاطمہ سے مخاطب ہوکر کہا:

ذی القربیٰ کا حصہ تمہیں ہرگز نہیں دوں گا اور تمہاری زندگی کے اخراجات نکالنے کے بعد باقی تمام مال کو اسلام کی راہ میں خرچ کروں گا۔

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶ ص ۲۳۱۔ ۲۳۰۔

۱۹۵

فدک ہمیشہ مختلف گروہوں اور سیاستوں کا شکار

خلافت کے شروع کے ایام میں پیغمبر کی بیٹی کے باغ فدک کو غصب کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ حکومت کے خزانے کو مستحکم اور خلیفہ اصلی کو مال دنیا سے محروم کردیا جائے لیکن اسلامی حکومت کے بننے اور بڑی بڑی جنگوں میں فتح حاصل ہونے کے بعد حکومت کے پاس دولت و ثروت کا ریل پیل ہونے لگااور اب حکومت نے فدک کی آمدنی سے اپنے کو بے نیاز سمجھا دوسری طرف زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ خلفاء کی خلافت اسلامی معاشرہ میں اور محکم ہوگئی اور کسی کو بھی یہ گمان نہ تھا کہ حقیقی خلیفہ حضرت امیر المومنین فدک کی آمدنی سے خلیفہ کی مخالفت کریں گے اور ان کے مقابلے میں صف آرائی کریں گے۔

دوسرے خلفاء کے زمانے میں اگرچہ فدک کے غصب کرنے کی جو علت تھی یعنی خلافت کو مالی اعتبار سے مضبوط کرناوہ ختم ہوگئی تھی لیکن سرزمین فدک اور اس کی آمدنی پھر بھی سیاسی شخصیتوں اور خلیفہ وقت کی ملکیت تھی اور ان کی خاندان پیغمبر سے جیسی وابستگی ہوتی تھی اس لحاظ سے اس کے بارے میں نظریئے قائم کرتے تھے ،اگر ان کا قلبی رابطہ خاندان پیغمبر نہیں ہوتا تھا تو فدک کو حقیقی مالک (اہلبیت ) نہیں کرتے تھے اوراسے مسلمانوں کی اور حکومت کی جائیداد قرار دیتے تھے لیکن جن کو اہلبیت سے محبت ہوتی تھی یا وقت کا تقاضا تھا کہ اولاد فاطمہ کے ساتھ دلجوئی کی جائے وہ فدک کو اولاد فاطمہ کے حوالے کر دیتے تھے ،ایسا سلسلہ وقت تک رہتا تھا جب تک کہ بعد کے خلیفہ کی سیاست نہ بدلے۔اسی وجہ سے فدک کبھی ایک حالت پر نہیں رہا، بلکہ ہمیشہ مختلف گروہوں اور متضاد سیاستوں کا شکار رہا کبھی اپنے حقیقی مالکوں کی طرف واپس آتاتو کبھی بلکہ اکثر غصب کیا جاتا تھا۔

خلفاء کے زمانے سے حضرت علی کے زمانے تک فدک اپنی جگہ پر ثابت رہا اور اس کی آمدنی سے تھوڑا سا خاندان پیغمبر کی زندگی کے اخراجات کے طور پر دیا جاتا تھا اور باقی مال دوسرے عمومی مال کی طرح خلفاء کی نگرانی میں خرچ ہوتا تھا۔

لیکن جب معاویہ کے ہاتھ میں حکومت آئی تو اس نے فدک کو تین حصوں میں تقسیم کیا ، ایک حصہ مروان کو اور ایک حصہ عمر و بن عثمان بن عفان کو اور ایک حصہ اپنے بیٹے یزید کو دیا۔

فدک اسی طرح ایک کے بعد دوسرے کے ہاتھ میں جاتا رہا یہاں تک کہ جب مروان بن حکم کی حکومت آئی تو اس نے اپنی خلافت کے زمانے میں باقی دو حصوں کو ان لوگوں سے خرید لیا اور خود اپنا حصہ بنالیا اور پھر اسے اپنے بیٹے عبد العزیز کو دے دیا. اور اس نے بھی اپنے بیٹے عمر بن عبد العزیز کو دیدیا اس کے لئے بطور میراث چھوڑا۔

۱۹۶

جب عمر بن عبد العزیز کی خلافت آئی تو اس نے چاہا کہ بنی امیہ کے تمام بدنما دھبوں کو اسلامی معاشرہ کے دامن سے پاک کردے چنانچہ خاندان پیغمبر سے محبت کی وجہ سے سب سے پہلے جس چیز کو اس نے اس کے حقیقی مالک کو واپس کیا وہ فدک ہی تھا اس نے فدک کو حسن بن علی علیہ السلام کے حوالے کیا اور ایک روایت کے مطابق امام سجاد علیہ السلام کے حوالے کیا۔(۱)

اس نے مدینہ کے گورنر ابوبکر بن عمرو کے نام خط لکھا اور حکم دیا کہ فدک کو حضرت فاطمہ کے بچوں کو واپس کردے دھوکہ بازحاکم نے خط کا جواب دیتے ہوئے خلیفہ کو لکھا:

مدینے میں فاطمہ کی اولاد بہت زیادہ ہے اور ہر شخص اپنے گھر میں زندگی بسر کر رہا ہے میں فدک کو ان میں سے کس کو واپس کروں؟

عبد العزیز کے بیٹے نے جب حاکم کے خط کو پڑھا تو بہت ناراض ہوا اور کہا:

اگر میں تجھے گائے کو قتل کرنے کا حکم دوں تو تم بنی اسرائیل کی طرح کہو گے کہ اس گائے کا رنگ کیسا ہو جیسے ہی میرا خط تجھ تک پہونچے فوراً فدک کو فاطمہ کے ان بچوں میں تقسیم کردے جو علی کی اولاد ہیں۔

خلافت کے ٹکڑوں پر پلنے والے جو سب کے سب بنی امیہ کے ماننے والے تھے خلیفہ کی اس عدالت سے بہت سخت ناراض ہوئے اور کہا: تو نے اپنے اس عمل سے شیخین کو گناہگار ٹھہرایا ،زیادہ دن نہ گذرے تھے کہ عمر بن قیس اپنے لشکر کے ساتھ کوفہ سے شام پہونچا اور خلیفہ کے اس کام پر تنقید کرنے لگا۔

خلیفہ نے ان سب کے جواب میں کہا:

تم لوگ جاہل و نادان ہو جو کچھ مجھے یاد ہے تم لوگوں نے بھی اسے سنا ہے لیکن فراموش کردیاہے ،میرے استاد ابوبکر بن محمد عمر وبن حزم نے اپنے باپ سے اورانہوں نے اپنے جد سے نقل کیا ہے کہ

______________________

(۱) اس دوسرے احتمال کواگرچہ ابن ابی الحدید نے نقل کیا ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ عمر بن عبد العزیز ۹۹ھ میں خلیفہ ہوا جبکہ امام سجاد کی وفات ۹۴ھ میں ہو چکی تھی یہ ممکن ہے کہ محمد بن علی بن الحسین رہے ہوں اور لفظ محمد چھوٹ گیا ہو۔

۱۹۷

پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''فاطمہ میراٹکڑا ہے جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا اور جس نے اسے خوش کیا اس نے مجھے خوش کیا'' خلفاء کے زمانے میں فدک اموال عمومی اور حکومت کا حصہ تھا پھر وہ مروان تک پہونچا اور انھوں نے میرے باپ عبدالعزیز کے حوالے کیااور اپنے باپ کے انتقال کے بعدمجھے اور میرے بھائیوں کو بطور میراث حاصل ہوااور میرے بھائیوں نے اپنے حصوں کو مجھے بیچ دیا یا مجھے دیدیا اور میں نے حدیث رسول کے حکم سے زہرا کے بچوں کو واپس کردیا۔

عمر بن عبد العزیز کے انتقال کے بعد، آل مروان ایک کے بعد دوسرے حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے رہے اور سب نے عمر بن عبد العزیز کے برخلاف قدم اٹھایااور فدک مروان کے بیٹوں کی خلافت کے زمانے تک ان لوگوں کے تصرف میں تھااور پیغمبر کا خاندان اس کی آمدنی سے بالکل محروم تھا، بنی امیہ کی حکومت ختم ہونے کے بعد جب بنی عباس کی حکومت وجود میں آئی تو فدک کی خاص اہمیت تھی، بنی عباس کے پہلے خلیفہ ''سفاح'' نے فدک عبد اللہ بن حسن کو واپس کردیا اس کے بعد جب منصور آیا تو اس نے واپس لے لیا. منصور کے بیٹے مہدی نے اپنے باپ کی پیروی نہیں کی اور فدک کو حضرت زہراکے بچوں کو واپس کردیا مہدی کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے موسی اور ہارون جنھوں نے یکے بعد دیگرے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی فدک کو پیغمبر کے خاندان سے چھین لیا اور اپنے تصرف میں لے لیا یہاں تک کہ ہارون کے بیٹے مامون نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی۔

ایک دن مامون رد مظالم اور لوگوں کی شکایت وغیرہ سننے کے لئے رسماً بیٹھ گیااور جو خطوط مظلوموں نے لکھے تھے اس کی تحقیق کرنے لگا۔

سب سے پہلا خط جو اس کے ہاتھ میں تھا وہ ایسے شخص کا تھا جس نے اپنے کو حضرت فاطمہ کا وکیل و نمائندہ لکھا تھا اس نے خاندان پیغمبر کے لئے فدک واپس کرنے کا مطالبہ کیا تھا خلیفہ خط پڑھ کر رویا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اس نے حکم دیاکہ خط لکھنے والے کو بلایاجائے، کچھ دیر کے بعد خلیفہ کے محل میں ایک بوڑھا شخص لایا گیااور مامون سے فدک کے بارے میں بحث کرنے لگا ، تھوڑی ہی دیر مناظرہ ہوا تھا کہ مامون قانع ہوگیا اور حکم دیا کہ رسمی طور پر مدینے کے حاکم کو خط لکھو کہ فدک کو فاطمہ زہرا کے بچوں کو واپس کردے خط لکھا گیا اور خلیفہ نے اس پر مہر لگائی اور مدینہ بھیج دیا گیا۔خاندان پیغمبر کو فدک مل جانے سے شیعہ بہت خوش ہوئے اور دعبل خزاعی نے اس موقع پر ایک قصیدہ بھی کہا جس کا پہلا شعر یہ تھا:

۱۹۸

اصبح وجه الزمان قد ضحکا

برد مامون هاشم فدکا(۱)

زمانے کے چہرے پر خوشیوں کے آثار نظر آنے لگے کیونکہ مامون نے فدک کو بنی ہاشم کے بچوں (جو واقعی مالک تھے) کو واپس کردیا۔

حیرت انگیزوہ خط ہے جو مامون نے ۲۱۰ھ میں فدک کے سلسلے میں مدینہ کے حاکم قیم بن جعفر کو لکھا جسکا خلاصہ یہ ہے:

''امیر المومنین جس کی خدا کے دین اور خلافت اسلامی میں بہت زیادہ اہمیت ہے اور خاندان نبوت سے رشتہ داری کی بنا پر بہترین و شائستہ شخص ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ پیغمبر کی سنتوں کی رعایت کرے اور جو کچھ بھی انھوں نے دوسروں کودیا ہے اس کو ان کے حوالے کردے پیغمبر اسلام نے فدک فاطمہ زہرا کو دیا ہے اور یہ بات اتنی زیادہ واضح و روشن ہے کہ پیغمبر کے بیٹوں میں سے کسی نے بھی اس سلسلے میں اختلاف نہیں کیا ہے اور کسی نے اس سے زیادہ کا بھی دعوی نہیں کیا ہے کہ تصدیق کی ضرورت ہوتی''

اسی بنا پر امیر المومنین مامون نے مصلحت سمجھا کہ خدا کی مرضی حاصل ہونے اور عدالت جاری کرنے اور حق کو حقدار تک پہونچانے کے لئے فدک کو ان کے وارثوں کے حوالے کردے اور اس کے لئے حکم جاری کرے ، اسی لئے اس نے اپنے مشیروں اور کاتبوں کو حکم دیا کہ اس مطلب کو حکومتی رجسٹر میں تحریر کریں پیغمبر کے انتقال کے بعد جب بھی حج کی بجا آوری کے موقع پر یہ اعلان کیا گیا کہ جس شخص کا پیغمبر کے پاس صدقہ یا ہدیہ یا اور کوئی چیز ہو وہ مجھے مطلع کرے تو مسلمانوں نے اس بات کو قبول کرلیا تو پھر پیغمبر کی بیٹی کا کیا مقابلہ، ان کی بات کی تو یقیناتصدیق و تائید ہونا چاہئیے۔

امیر المومنین نے مبارک طبری کو حکم دیاکہ فدک کو تمام حدود و حقوق کے ساتھ فاطمہ کے وارثوں کو واپس کردو اور جو کچھ بھی فدک کے علاقے میں غلام، غلے اور دوسری چیزیں ہیں وہ سب محمد بن یحییٰ بن حسن بن زید بن علی بن الحسین اور محمد بن عبد اللہ بن حسن بن علی بن الحسین کو واپس کردو، تم جان لو یہ وہ فکر و نظر ہے

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۶ ص ۲۱۸۔ ۲۱۶۔

۱۹۹

جو امیر المومنین نے خدا سے الہام کے ذریعے حاصل کیا ہے اور خدا نے ان کو کامیاب کیا ہے کہ خدا اور پیغمبر سے توسل و تقرب کریں۔

اس مطلب کو جو افراد بھی تمہاری طرف سے کام کر رہے ہیں ان تک پہونچا دو اور فدک کی تعمیر و آبادی میں ترقی کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہو۔(۱)

فدک حضرت زہرا کے بچوں کے ہاتھ میں رہا یہاں تک کہ متوکل کو خلافت کے لئے منتخب کیا گیاوہ خاندان رسالت کا بہت سخت دشمن تھا لہذا فدک کو حضرت زہرا کے بچوں سے چھین لیا اور عبد اللہ بن عمر بازیار کی جاگیر قرار دیا۔

سرزمین فدک پر ۱۱ کھجور کے درخت تھے جنہیں خود پیغمبر اسلام نے اپنے مبارک ہاتھوں سے لگائے تھے لوگ حج کے زمانے میں ان درختوں کی کھجوروں کو بطور تبرک اور مہنگی قیمت پر خریدتے تھے جس سے خاندان نبوت کی شایان شان مدد ہوتی تھی۔

عبداللہ اس مسئلہ سے بہت زیادہ ناراض تھا لہذا ایک شخص کو جس کا نام بشیران تھا اسے مدینہ روانہ کیا تاکہ کھجور کے ان درختوں کو کاٹ دے، اس نے بھی شقاوت قلبی کے ساتھ اس کے حکم پر عمل کیا لیکن جب بصرہ پہونچا تو مفلوج ہو گیا۔

اس دور حکومت کے بعد فدک خاندان پیغمبر سے چھین لیا گیا اور پھرظالم حکومتوں نے وارثان زہرا کو فدک واپس نہیں کیا۔

______________________

(۱) فتوح البلدان ۴۱۔ ۳۹ تاریخ یعقوبی ج۳ ص ۴۸۔

۲۰۰

پانچویں فصل

مسئلہ فدک اور افکار عمومی

پیغمبر کی بیٹی کے اعتراض اور فدک کو غصب ہوئے چودہ صدیاں گذر گئیں مگر آج بھی بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ شاید اس واقعہ کا فیصلہ کرنا دشوار ہے ،کیونکہ اتنا عرصہ گذرنے کے بعد اگر قاضی فیصلہ کرنا چاہے تو فدک کے مسئلہ پر مکمل طریقے سے معلومات فراہم نہیں کرسکتا، اور نہ ہی ان تمام معلومات و شواہد کا دقت سے مطالعہ کرسکتا ہے کہ صحیح فیصلہ کرسکے، ممکن ہے اس واقعہ میں تحریف کردی گئی ہو اور اس کے مفہوم کو خلط ملط کردیا گیا ہو لیکن جو چیز اس مشکل چیز کو آسان کرسکتی ہے وہ یہ کہ قرآن مجید اور پیغمبر کی احادیث اور طرفین کے دعوے اور اختلاف کی طرف رجوع کیا جائے اور نئے انداز سے اس مسئلہ کو منظم کیا جائے اور اسی اساس پر اسلام کے بعض قطعی و محکم اور نہ بدلنے والے اصول کے ذریعے فیصلہ کیا جائے ہم یہاں اس کی وضاحت کر رہے ہیں۔

اسلام کے مسلم اصولوں میں سے ایک قانون یہ ہے کہ ہر وہ زمین جو بغیر جنگ اور بغیر فوجیوں کے غلبہ کے مسلمانوں کے ذریعے فتح ہو، وہ حکومت اسلامی کے اختیار میں ہوتی ہے اور عمومی مال میں اس کا شمار ہوتا ہے اور وہ رسول خدا کا حصہ ہوتی ہے۔

اس طرح کی زمینیں پیغمبر کی ذاتی ملکیتیں نہیں ہوتیں، بلکہ اسلامی حکومت سے مخصوص ہوتی ہیں جس کے رئیس پیغمبر اسلام ہوتے ہیں اور پیغمبر کے بعد اس شخص کے اختیار اورتصرف میں ہوںگی جو پیغمبر کی جگہ اور پیغمبر کی طرح مسلمانوں کے تمام امور کی ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لے، قرآن مجید نے اسلام کے اصلی قانون کو سورۂ حشر کی چھٹی اور ساتویں آیت میں بیان کیاہے

( وَمَا اَفَائ اﷲُ عَلَی رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا َوْجَفْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ خَیْلٍ وَلاَرِکَابٍ وَلَکِنَّ اﷲَ یُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَی مَنْ یَشَائُ وَاﷲُ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیر ومَا َفَائَ اﷲُ عَلَی رَسُولِهِ مِنْ اهْلِ الْقُرَی فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیل )

(تو) جو مال خدا نے اپنے رسول کو ان لوگوں سے بے لڑے دلوادیا اس میں تمہارا حق نہیں کیونکہ تم نے اس کے لئے کچھ دوڑ دھوپ تو کی نہیں ، نہ گھوڑوں سے نہ اونٹوں سے، مگر خدا اپنے پیغمبروں کو جس پر چاہتاہے غلبہ عطا فرماتا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے تو جو مال خدا نے اپنے رسول کودیہات والوں سے بے لڑے دلوا دیا ہے وہ خاص خدا اور رسول اور (رسول کے) قرابتداروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پردیسیوں کا ہے۔

۲۰۱

جو اموال پیغمبر کے اختیار میں تھے وہ دو طرح کا تھے:

۱۔ خصوصی

وہ اموال جو پیغمبر کے ذاتی تھے تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں ''پیغمبر کے خصوصی اموال'' کے نام سے تفصیل سے درج ہیں(۱) پیغمبر کی حیات طیبہ میں اس کا تصرف خود آپ کے ہاتھ میں تھا اور آپ کے بعد اسلام کے میراث کے مسائل کے مطابق آپ کے وارثوں تک منتقل ہونا چاہئے مگر یہ کہ ثابت ہو جائے کہ پیغمبر کے وارث آپ کے شخصی و ذاتی مال سے محروم تھے کہ اس صورت میں آپ کے مال کو بعنوان صدقہ لوگوں میں تقسیم ہونا چاہیئے یا اسلامی امور میں صرف ہونا چاہیئے آئندہ بحث میں ہم اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کریں گے اور ثابت کریں گے کہ میراث کے قانون کی رو سے پیغمبر کے وارثوں اور دوسروں کے وارثوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور وہ حدیث جو خلیفہ اول نے پیغمبر کی طرف نسبت دے کر پیغمبر کے وارثوں کو میراث سے محروم کیا ہے، اگر فرض کرلیں کہ وہ صحیح ہے تواسکے دوسرے معنی ہیں جس سے خلیفہ اوراراکین خلافت نے غفلت برتی۔

۲۔ خالصہ(۲)

وہ مال او روہ ملکیت جو حکومت اسلامی سے مخصوص ہوتی ہے اور پیغمبر اسلام مسلمانوں اور اسلام کے مفاد و مصلحت میں خرچ کرسکتے ہیںاصطلاح میں اسے ''خالصہ'' کہا جاتا ہے فقہ کی بحث میں ایک باب ''فئی'' کے نام سے ہے جو کتاب جہاد اور کبھی باب ''صدقات'' میں موردبحث قرار پاتا ہے لغت میں فئی کے معنی پلٹنے کے ہیں اور اس سے مراد وہ زمینیں ہیں جو بغیر قتل و غارت گری کے اسلامی حکومت کے تصرف

______________________

(۱) کشف الغمہ ج۲ص ۱۲۲۔

(۲)وہ چیز جو کسی کی جاگیر نہ ہو۔

۲۰۲

میں آئے اور اس میں رہنے والے افراد اسلامی قوانین کے مطابق حکومت اسلامی میں زندگی بسر کریں اور اس طرح کی زمینیں جو اسلام کے فوجیوں کی زحمت ومشقت اور ان کے حملے کئے بغیر حاصل ہوں وہ پیغمبر کے اختیار میں ہوتی ہیں اور اسلامی حکومت کا حق قرار پاتی ہیں اور اور مسلمان سپاہیوں کا اس میں حق نہیں ہوتا،ہے پیغمبر اسلام ان کی آمدنی کو مسلمانوں کے امور میں خرچ کرتے تھے اور کبھی مستحق افرادکو دیتے تھے اوراس سے اور زحمت و مشقت کے ذریعے حاصل شدہ مال سے اپنا خرچ چلا تے تھے ،پیغمبر جو ہدیہ وغیرہ دیتے تھے وہ اسی کی آمدنی سے دیتے تھے او رکبھی مال غنیمت سے حاصل شدہ خمس سے بھی دیتے تھے۔

بہتر ہے کہ اس طرح کی زمینوں کے سلسلے میں پیغمبر اسلام کے طور طریقے کاذکر کیا جائے۔

بنی نضیر ،یہودیوں کے تین طائفے سے مل کر بنے تھے، جو مدینے کے قریب میں زندگی بسر کررہے تھے جن کے پاس باغ اور زمینیں تھیں جس وقت پیغمبر نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو اوس و خزرج کے قبیلے والے آپ پر ایمان لائے، لیکن یہ تینوں طائفے اپنے دین پر باقی رہے پیغمبر اسلام نے عقدو پیمان کے ذریعے مدینے اور قرب و جوار میں رہنے والوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی بہت کوششیں کیں ،نتیجتاً تینوں طائفوںنے پیغمبر سے عہد کیا کہ مسلمانوں پر ہر طرح کے یلغارو حملے سے پرہیز کریں گے اور ان کے خلاف کبھی بھی قدم نہیں اٹھائیں گے ،مگر تینوں طائفوں نے یکے بعد دیگرے ظاہری اور پوشیدہ طور پر عہد شکنی کی اور ہر طرح کی خیانت اور اسلامی حکومت گرانے کی ہر طرح سے کوششیں اور سازشیں کیں یہاں تک کہ پیغمبر کے قتل سے بھی پرہیز نہیں کیا خلاصہ یہ کہ جب پیغمبر اسلام کسی کام کو انجام دینے کے لئے بنی نضیر کے محلہ میں گئے تو ان لوگوں نے پیغمبر کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور چاہا کہ آپ کو قتل کردیں، یہی وجہ تھی کہ پیغمبر نے ان تمام لوگوں کو مجبور کردیا کہ مدینہ چھوڑ کر چلے جائیں اور ان کی تمام زمینوں اور گھروں کو مہاجروں اور انصار کے بعض حاجت مندوں کے درمیان تقسیم کردیا۔(۱)

تاریخ اسلام میں ان لوگوں کا تذکرہ موجود ہے جنہوں نے اس سرزمین سے استفادہ کیاہے اور گھروں میں پناہ لی ہے علی ، ابوبکر ، عبد الرحمن بن عوف اوربلال مہاجرین میں سے او رانصار میں ابودجانہ ،

______________________

(۱)مجمع البیان ج۵ ص ۲۶۰ طبع صیدا اور تمام معتبر تاریخی و سیرت کی کتابیں۔

۲۰۳

سہل بن حنیف اور حارث بن صمہ تھے۔(۱)

سرزمین فدک اموال خالصہ میں سے تھی

محدثین و مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فدک اموال خالصہ (جو چیز کسی کی جاگیر نہ ہو) سے تھی، کیونکہ فدک وہ زمین ہے جو جنگ کرنے سے حاصل نہیں ہوئی، بلکہ جس وقت خیبریوں کی شکست کی خبرقریہ فدک میں پہونچی تو وہاں کے لوگ آمادہ ہوئے کہ پیغمبر سے صلح کریں اور فدک کی آدھی زمین پیغمبر کے حوالے کریں اوراس کے بدلے میں اپنے مذہبی امور میں مکمل طور پر آزاد رہیں اور حکومت اسلامی ان کے علاقے کی حفاظت کرے۔(۲)

اس مسئلہ میں علمائے اسلام میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا ہے اور پیغمبر کی بیٹی اور ابوبکر کے درمیان فدک کے متعلق ہونے والی گفتگو سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ طرفین نے فدک کے خالصہ ہونے کا اعتراف کیا تھا اور ان لوگوں کا اختلاف دوسری چیز میں تھا جس کی وضاحت بعد میں کریں گے۔

___________________

(۱) فتوح البلدان بلاذری ص ۲۷ ۳۱ ۳۴، مجمع البیان ج۵ ص ۲۶۰ سیرۂ ابن ہشام ج۳ ص ۱۹۴۔ ۱۹۳۔

(۲) مغازی واقدی ج۳ ص ۷۰۶سیرۂ ابن ہشام ج۳ ص ۴۰۸ فتح البلدان ۴۴۶۔ ۴۱، احکام القرآن جصاص ج۳ ص ۵۲۸ تاریخ طبری ج۳ ص ۹۷۔ ۹۵ ۔

۲۰۴

فدک، پیغمبر اسلام (ص)نے فاطمہ(س) کو دیا تھا

شیعہ علماء اور اہلسنت کے بعض محدثین اس بات پر متفق ہیں کہ جس وقت یہ آیت''و آت ذا القربیٰ حقه و المسکین و ابن السبیل '' نازل ہوئی تو پیغمبر نے فدک فاطمہ زہرا کو دیدیا۔

اور اس حدیث کی سند بزرگ صحابی ابوسعید خدری اور ابن عباس پر ختم ہوتی ہے اور اہلسنت کے بعض محدثین نے اس حدیث کو نقل کیا جس کی تفصیل یہ ہے۔

۱۔ جلال الدین سیوطی، متوفی ۹۱۱ھ اپنی مشہور و معروف تفسیر میں لکھتے ہیں :جب آیت ''و آت ذا القربیٰ ...'' نازل ہوئی تو پیغمبر نے فاطمہ کو بلایا اور انھیں فدک دیدیا۔

نیز لکھتے ہیں کہ اس حدیث کو بزرگ محدثین مثلاً بزاز و ابویعلی ،ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے معروف صحابی ابوسعید خدری سے نقل کیاہے۔

۲۰۵

نیز لکھتے ہیں کہ ابن مردویہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت پیغمبر نے فدک کو فاطمہ کی ملکیت قرار دیا۔(۱)

۲۔ علاء الدین علی بن حسام مشہور بہ متقی ہندی ، ساکن مکہ متوفی ۹۷۶ھ نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے۔(۲)

وہ کہتے ہیں : بزرگ محدثین مثلاً ابن النجار اور حاکم نے ا س حدیث کو اپنی تاریخ میں ابوسعید سے نقل کیا ہے۔

۳۔ ابواسحاق احمد بن محمد بن ابراہیم نیشاپوری مشہور بہ ثعلبی متوفی ۴۲۷ ھ یا ۴۳۷ھ نے اپنی تفسیر ''الکشف و البیان'' میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔

۴۔ مشہور مورخ بلاذری، متوفی ۲۷۹ھ نے مامون کا خط جو حاکم مدینہ کے نام لکھا تھا اسے نقل کیا ہے اس کا متن یہ ہے:

''و قد کان رسول الله صلی اللّٰه علیه وآله وسلم أعطی فاطمة فدک و تصدق بها علیها و کان ذالک أمراً معروفاً لااختلاف فیه بین آل رسول الله و لم تزل تدعیٰ'' (۳)

پیغمبر خدا نے سرزمین فدک فاطمہ کو دیا، اور یہ بات اتنی واضح و روشن ہے کہ پیغمبر کے قرابتداروں میں کبھی اختلاف نہیں ہوا اور وہ (فاطمہ) زندگی کے آخری لمحہ تک فدک کا دعویٰ کرتی رہیں۔

۵۔ احمد بن عبد العزیزجوہری مولف کتاب ''السقیفہ'' لکھتے ہیں:

جس وقت عمر بن عبد العزیز نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی سب سے پہلے جس غصبی چیز کو ان کے مالکوں کو واپس کیا وہ فدک تھا جس کو حسن بن حسن بن علی کو واپس کیا۔(۴)

_____________________

(۱) الدر المنثور ج۴ ص ۱۷۷، حدیث کا متن یہ ہے''لما نزلت هذه الآیة، و آت ذا القربیٰ حقه دعا رسول اللّه فاطمه و أعطاها فدک''

(۲) کنز العمال، باب صلۂ رحم، ج۲، ص ۱۵۷۔

(۳) فتوح البلدان، ۴۶، معجم البلدان، ج۴، ص ۲۴۰۔

(۴) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۲۱۶۔

۲۰۶

اس جملے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فدک صرف پیغمبر کی بیٹی کی ملکیت تھی۔

۶۔ ابن ابی الحدید نے فدک سے متعلق میں آیت کے شان نزول کو ابوسعید خدری سے نقل کیا ہے اگرچہ اس کو نقل کرتے وقت سید مرتضی کے کلام کو کتاب شافی سے لیا ہے لیکن اگر سید مرتضی کا کلام اس کے لئے مورد اعتماد نہ ہوتا تو حتماً اس پر تنقید کرتا۔اس کے علاوہ ، اپنی شرح نہج البلاغہ میں جس باب کو اس واقعہ سے مخصوص کیا ہے اور اپنے مدرسہ غربی بغداد کے استاد سے جو گفتگو کی ہے اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ وہ اس بات کا معتقد تھا کہ پیغمبر نے فدک اپنی بیٹی کو دیا تھا۔(۱)

۷۔ حلبی اپنی کتاب سیرۂ میں فدک کے بارے میں پیغمبر کی بیٹی کے دعوے اور گواہوں کے نام کو بیان کیا ہے ، وہ کہتے ہیں:

خلیفہ وقت نے فدک کی سند زہرا کے نام سے جاری کی لیکن عمر نے اسے لے کر پھاڑ دیا۔(۲)

۸۔ مسعودی اپنی کتاب ''مروج الذہب'' میں لکھتے ہیں: پیغمبر کی بیٹی نے ابوبکر سے فدک کے سلسلے میں گفتگو کی اور ان سے کہا کہ فدک مجھے واپس کردو. اور علی ، حسنین اورام ایمن کو بطور گواہ اپنے ساتھ لے گئیں۔(۳)

۹۔ یاقوت حموی لکھتا ہے:

فاطمہ ابوبکر کے پاس گئیں اور ان سے کہا کہ پیغمبر نے فدک مجھے دیا تھا خلیفہ نے گواہ طلب کیا...

(مزید آگے لکھتا ہے کہ) عمر (ابن عبد العزیز) کی خلافت کے دوران فدک پیغمبر کے وارثوں کو واپس کردیا گیاتھا کیونکہ اس وقت مسلمانوں کی مالی حالت بہت اچھی تھی۔(۴) سمہودی نے اپنی کتاب ''وفاء الوفائ'' میں فاطمہ زہرا کی ابوبکر سے گفتگو کو نقل کیا ہے اور کہاہے: علی او رام ایمن نے فاطمہ کے حق میں گواہی دیا اور دونوں نے کہا : پیغمبر نے اپنی زندگی میں ہی

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۲۶۸ اور ص ۲۸۴۔

(۲) سیرۂ حلبی، ج۳، ص ۴۰۰۔ ۳۹۹۔

(۳) مروج الذہب، ج۲، ص ۲۰۰۔

(۴) معجم البلدان، ج۴، ص ۲۳۸، مادۂ فدک۔

۲۰۷

فدک فاطمہ زہرا کو دیا تھا۔(۱) عمر بن عبد العزیز نے فدک خاندان زہرا کو واپس کردیاتھا۔(۲)

شام کے ایک شخص نے علی بن الحسین علیھما السلام(امام سجاد) سے ملاقات کی اور کہا کہ اپنا تعارف کرائیے، امام نے فرمایا: کیا تم نے سورۂ بنی اسرائیل میں اس آیت کو نہیں پڑھا ''و آت ذا القربیٰ'' اس شخص نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ رشتہ داری کی وجہ سے خدا نے پیغمبر کو حکم دیا کہ ان کے حق کو واپس کردو۔(۳)

شیعہ دانشوروں کے درمیان بہت سی بزرگ شخصیتیں مثلاً کلینی ، عیاشی اور شیخ صدوق نے اس آیت کے نزول کو پیغمبر کے قرابتداروں کے بارے میں ذکر کیا ہے اور بیان کیاہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد پیغمبر نے فدک اپنی بیٹی فاطمہ کو دیدیا تھا۔اس سلسلے میں محقق عالی قدر مرحوم سید ہاشم بحرینی نے ۱۱ حدیث بہترین اسناد کے ساتھ آئمہ معصومین علیھم السلام مثلاً امیر المومنین، امام زین العابدین، اما م جعفر صادق، امام موسٰی کاظم، اور امام علی رضا علیھم السلام سے نقل کیا ہے۔(۴)

جی ہاں، تقریباً تمام افراد کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت خاندان رسالت کے حق میں نازل ہوئی ہے لیکن یہ بات کہ آیت نازل ہونے کے بعد پیغمبر نے فدک اپنی بیٹی زہرا کو دیا تھا اسے شیعہ محدثین اور بعض بزرگان اہلسنت نے نقل کیا ہے۔

طرفین کی شناخت اور ان کے منصب کی شناخت اور اسی طرح اس مسئلے کی تحقیق و جستجو اوران کی اہمیت کا پہچاننا بہت ضروری ہے۔اس واقعہ میں شکایت اور دعویٰ کرنے والی پیغمبر اسلام کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا ہیں جن کا مقام و منزلت اور طہارت و عصمت سب پر عیاں ہے، اور جس سے شکایت کی جا رہی ہے حکومت کا رئیس، خلیفہ

_____________________

(۱) وفاء الوفاء ج۲ ص ۱۶۰۔

(۲) وفاء الوفاء ج۲ ص ۱۶۰۔

(۳) تفسیر برہان ج۲، ص ۴۱۹، یہ واقعہ تفصیلی ہے۔

(۴ ) تفسیر برہان ج۲، ۴۱۹۔

۲۰۸

وقت ابوبکر ہے جنہوںنے پیغمبر کے بعد حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لی ،کچھ گروہ خوف کے مار ے اور کچھ حرص و لالچ کی وجہ سے ان کے اردگرد جمع رہتے تھے۔پیغمبر کے انتقال کو دس دن سے زیادہ نہ گذرا تھا کہ حضرت زہرا کو خبر ملی کہ خلیفہ کے سپاہیوں نے ان کے کام کرنے والوں کو سرزمین فدک سے نکال دیا ہے اور تمام کام اپنے اختیار میں لے لیا ہے اسی وجہ سے ہاشم کی عورتوں کے ساتھ اپنا حق لینے کے لئے خلیفہ کے پاس گئیں پھر آپ کے اور ابوبکر کے درمیان اس طرح سے گفتگو کا آغاز ہوا۔

فاطمہ: فدک سے میرے مزدوروں کو کیوں نکالا اور کیوں مجھے میرے حق سے محروم کیا؟

خلیفہ: میں نے آپ کے والدسے سنا ہے کہ انبیاء اپنی چیز کو بطور میراث نہیں چھوڑتے۔

فاطمہ: میرے بابا نے فدک مجھے اپنی زندگی میں دیا تھا اور میں اپنے بابا کی زندگی ہی میں اس کی مالک تھی۔

خلیفہ: کیا اس بات پر آپ کے پاس کوئی گواہ ہے۔

فاطمہ: ہاں میرے پاس گواہ ہیں میرے گواہ علی اور ام ایمن ہیں۔

اور ان لوگوں نے حضرت زہرا کی درخواست پر فدک کی گواہی دی کہ پیغمبر کے زمانے ہی میں حضرت زہرا اس کی مالک تھیں۔

جب کہ بہت سے مورخین نے حضرت فاطمہ کے گواہ کے طور پر علی اور ام ایمن کا نام لیا ہے لیکن بعض حسن و حسین کو بھی شاہد کے طور پرذکر کیا ہے اس بات کو مسعودی(۱) اور حلبی(۲) نے بھی نقل کیا ہے بلکہ فخر رازی(۳) کہتے ہیں:

پیغمبر کے غلاموں میں سے ایک نے بھی حضرت زہرا کی حقانیت پر گواہی دیا لیکن ان کے نام کو نہیں تحریر کیا. لیکن بلاذری(۴) نے اس کے نام کو صراحت کے ساتھ لکھا ہے وہ کہتا ہے کہ پیغمبر کے اس غلام کا

______________________

(۱) مروج الذہب، باب آغاز خلافت عباسی۔

(۲) سیرۂ حلبی ج۳ ص ۴۰۔

(۳) تفسیر سورۂ حشر ، ج۸ ص ۱۲۵، بحار الانوار ج۸ ص ۹۳،منقول از کتاب خرائج سے منقول۔

(۴) فتوح البلدان ص ۴۳۔

۲۰۹

نام ''رباح'' تھا۔

تاریخی اعتبار سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دونوںباتیں آپس میں اختلاف نہیں ، کیونکہ مورخین کے نقل کرنے کے مطابق خلیفہ نے ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی کو مدعا ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں جانا ہے، (آئندہ اس سلسلہ میں بحث ہوگی)اس وجہ سے ممکن ہے پیغمبر کی بیٹی گواہ مکمل کرنے کے لئے حسنین اور رسول اسلام کے غلام کو لے کر آئی ہوں۔

شیعہ احادیث کے مطابق حضرت فاطمہ نے ان گواہوں کے علاوہ اسماء بنت عمیس کو بھی بطور گواہ پیش کیا، نیز ہماری حدیثوں میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اپنے ایک خط میں فدک کو حضرت زہرا کی ملکیت کی تصدیق کی ہے(۱) اور یقینا حضرت فاطمہ نے اس سے استناد کیا ہے۔

امیر المومنین علیہ السلام نے گواہی دینے کے بعد خلیفہ کو ان کی غلطی کی طرف انہیں متوجہ کیا کیونکہ انہوں نے اس سے گواہی طلب کیا جس کے تصرف میںفدک تھا اور مالک سے گواہی طلب کرنا اسلام کے قضاوت کے قانوان کے برخلاف ہے۔

اس لئے آپ نے خلیفہ کی طرف رخ کر کے فرمایا: وہ مال جو مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے اگر میں اس مال کا ادعا کروں تو تم گواہ کس سے طلب کروگے؟ مجھ سے گواہ مانگو گے کہ میں مدعی ہوں یا دوسرے شخص سے کہ مال اس کے تصرف میں ہے؟ خلیفہ نے کہا اس موقع پر میں تم سے گواہ طلب کروں گا۔

علی علیہ السلام نے فرمایا: کافی عرصے سے فدک ہمارے تصرف اور اختیار میں ہے اور یہ مسلمان جو کہہ رہے ہیں کہ فدک عمومی مال ہے تو وہ گواہ و ثبوت پیش کریں نہ یہ کہ ہم سے ثبوت و گواہ طلب کریں۔ خلیفہ امام کے منطقی جواب کو سن کر خاموش ہوگیا۔(۲)

______________________

(۱) بحار الانوار، ج۸، ص ۹۳ اور ۱۰۵، طبع کمپانی۔

(۲) احتجاج طبرسی، ج۱، ص ۱۲۲، طبع نجف ۔

۲۱۰

خلیفہ کے جوابات

خلیفہ نے جو حضرت زہرا کو جوابات دیئے تھے تاریخ نے اسے مختلف انداز سے نقل کیا ہے فدک کے مسئلہ کو مرتبہ حضرت زہرا نے چھیڑا ہے اور خلیفہ نے ہر مرتبہ طرح طرح کے جوابات دیئے ہیں ان کےدیئے ہوئے جوابات کو ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں۔:

۱۔ جب جناب زہرا (س)کے گواہوں نے ان کے حق میں گواہی دی توعمر اور ابوعبیدہ نے خلیفہ کے حق میں گواہی دی اور کہا کہ پیغمبر اسلام نے اپنے خاندان کے اخراجات کو نکال کر فدک کی باقی آمدنی کو مسلمانوں کے امور میں خرچ کیاتھا اگر فدک پیغمبر کی بیٹی کا حق تھا تو کیوں پیغمبر نے بقیہ اموال کو دوسرے امور میں خرچ کیا۔گواہوں کے متضاد بیانوں کی وجہ سے خلیفہ اٹھا اور سب کے بیانوں کو صحیح بتایا اور کہا دونوں طرف کے گواہ صحیح اور سچی بات کہہ رہے ہیں اور ہم نے سب کی گواہی کو قبول کیا ،علی اور ام ایمن بھی صحیح کہہ رہے ہیں اور عمر اور ابوعبیدہ بھی، کیونکہ فدک جو زہرا کے قبضہ میں تھا وہ پیغمبر کی ملکیت تھی جس کی آمدنی سے آپ اپنے خاندان کا خرچ چلاتے تھے اور اضافی مال کو مسلمانوں میں تقسیم کرتے تھے اس لئے میں بھی پیغمبر کی روش پر عمل کروں گا۔پیغمبر کی بیٹی نے فرمایا: میں بھی حاضر ہوں کہ باقی اموال کو اسلامی امور میں صرف کروں۔خلیفہ نے کہا: تمہارے بدلے ، میں یہ کام انجام دوں گا۔(۱)

۲۔ خلیفہ نے حضرت فاطمہ کے ان گواہوں کو جو اپنے حق کے ثابت کرنے کے لئے پیش کیا تھا قبول نہیں کیا اورکہا میں ہرگز ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی قبول نہیں کروں گا بلکہ ضروری ہے کہ دو مرد یاایک مرد اور دو عورتیں گواہی دیں۔(۲) شیعہ حدیث کے مطابق فاطمہ زہرا کے گواہوں پر تنقید کرنا بڑا دردناک المیہ ہے کیونکہ اس نے علی اور حسنین علیھم السلام کو اس نظر سے کہ فاطمہ کے شوہر اور حسنین ان کے بچے ہیں ان کی گواہی کو قبول نہیں کیا اور ام ایمن کی شہادت کو اس لئے قبول نہیں کیا کہ وہ زہرا کی کنیز تھیں، اور اسماء بنت عمیس کی گواہی کو اس لئے ٹھکرادیا کہ وہ جعفر ابن ابیطالب کی پہلے بیوی تھیں اور فاطمہ کو فدک واپس کرنے سے انکار کردیا۔(۳)

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶ ص ۲۱۶۔-------(۲) سیرۂ حلبی ج۲ ص ۴۰۰، فتوح البلدان ج۴۳ معجم البلدان ج۴ مادہ فدک

(۳) بحار الانوار ج۸ ص ۱۰۵۔

۲۱۱

۳۔ خلیفہ نے پیغمبر کی بیٹی کے پیش کئے ہوئے گواہوں کی گواہی کو قبول کرلیا اورایک سند ان کے نام تحریر کیا لیکن عمر کے اصرار کرنے پر اسے نظر انداز کر دیا۔

ابراہیم بن سعید ثقفی اپنی کتاب ''الغارات'' میں تحریر کرتے ہیں:

خلیفہ نے گواہی سننے کے بعد چاہا کیا کہ فدک فاطمہ زہرا کو واپس کردے چنانچہ کھال کے ایک ٹکڑے پر فدک کی سند کو حضرت فاطمہ کے نام لکھ دیا فاطمہ اس کے گھر سے باہر آئیں راستے میں عمر ملا اور تمام واقعات سے باخبر ہوا اور فاطمہ زہرا سے سند مانگی اور خلیفہ کے پاس آیا اور اعتراضاً کہا : تم نے فدک فاطمہ کو دیدیا جب کہ علی نے خود اپنے فائدے کے لئے گواہی دیا ہے اورام ایمن ایک عورت کے علاوہ کچھ نہیں ، پھر اس نے سند پر تھوکا اور اسے پھاڑ ڈالا۔(۱) یہ واقعہ خلیفہ کے نفس کی سلامتی کی حکایت کرنے کے بجائے اس کے ضعیف ہونے کی حکایت کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ اس کی قضاوت کتنی حد تک دوسرے کے مزاج کے تابع تھی۔

لیکن حلبی اس واقعہ کو دوسرے انداز سے نقل کرتا ہے وہ کہتا ہے:

خلیفہ نے فاطمہ (س)کی ملکیت کی تصدیق کی ، اچانک عمر وارد ہوا اور کہا: یہ نامہ کیسا ہے؟

اس نے کہا: اس نامہ میں، میں نے فاطمہ کی ملکیت کی تصدیق کیا ہے اس نے کہا: تمہیں فدک کی آمدنی کی ضرورت ہے کیونکہ اگر کل مشرکین عرب مسلمانوں کے خلاف جنگ کا اعلان کریں تو جنگ کے اخراجات کہاں سے پورا کرو گے؟ پھر اس نے نامہ لے کر پھاڑ دیا۔(۲)

فدک کے متعلق تحقیق اب یہاں اختتام کو پہونچی اور جس واقعے کو ہوئے چودہ سو سال گزر گئے اس کو منظم طریقے سے پیش کیا ہے اب یہ دیکھنا ہے کہ اسلام اپنے اصول و سنن کے اعتبار سے کس طرح اس واقعہ کا فیصلہ کرتا ہے۔

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۶ ص ۲۷۴۔

(۲) سیرۂ حلبی ج۳ ص ۴۰۰۔

۲۱۲

مسئلہ فدک کے بارے میں آخری فیصلہ

فدک کے سلسلے میں آخری فیصلہ اس کے بعد کی فصل میں پیش کیا جائیگا وہاں ہم ثابت کریں گے کہ

پیغمبر کی بیٹی کو فدک نہ دینا سب سے پہلی اور بڑی حق تلفی ہے جو اسلام کی قضاوت کی تاریخ میں درج ہے ہم یہاں چند نکات بیان کر رہے ہیں:

ہم نے پچھلی بحثوںمیں واضح اور روشن دلیلوں سے ثابت کردیاکہ''و آت ذا القربیٰ'' کی آیت نازل ہونے کے بعد پیغمبر نے فدک اپنی بیٹی کو دیدیا تھا اور اس سلسلے میں اہل سنت کے بہت سے دانشوروں کے علاوہ شیعہ علماء نے بھی اس مطلب کو صراحت سے بیان کیا ہے اور بزرگ محدثین مثلاًعیاشی، اربلی، اور سید بحرینی نے اس کے متعلق شیعہ احادیث کواپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے، بطور نمونہ یہاں ایک حدیث نقل کرتے ہیں:

صادق آل محمد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جب آیت''و آت ذا القربیٰ'' نازل ہوئی تو پیغمبر نے جبرئیل سے پوچھا: ''ذا القربیٰ سے مراد کون ہے؟ جبرئیل نے کہا: آپ کے قرابتدار، اس وقت پیغمبر نے فاطمہ اور ان کے بچوں کو بلایا اور فدک ان کو دیدیا اور فرمایا کہ خداوند عالم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ فدک تم لوگوں کو دیدوں۔(۱)

ایک سوال کا جواب

ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ سورۂ اسراء مکی سوروں میں سے ہے اور فدک ۷ھ میں مسلمانوں کے قبضے میں آئی تو جو آیت مکہ میں نازل ہوئی ہے وہ کس طرح اس واقعے کے حکم کو بیان کر رہی ہے جو کئی سال بعد رونما ہوا ہے؟

اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ مکی او رمدنی سورہ ہونے کا معیار یہ ہے کہ اگر اس سورہ کی اکثر آیتیں مکہ میں نازل ہوئیںتو وہ مکی سورہ ہے اوراگر اس سورہ کی اکثر آیتیں مدینہ میں نازل ہوئیں تو وہ مدنی سورہ ہے مگر کیونکہ بہت سے مکی سوروں میں مدنی آیتیں موجود ہیں

______________________

(۱) تفسیر عیاشی ج۲ ص ۲۸۷۔

۲۱۳

اسی طرح بہت سے مدنی سوروں میں مکی آیتیں موجود ہیں، تفسیروں اور آیت کے شان نزول کے مطالعہ کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے۔اس کے علاوہ خود آیت کے مفہوم سے واضح ہے کہ یہ آیت مدینے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ مکہ میں پیغمبر کے پاس اتنے امکانات موجود نہ تھے کہ رشتہ داروں اور غریبوں اور محتاجوں کا حق دیتے، اور مفسرین کے نقل کی بنا پر نہ صرف سورہ اسراء کی ۲۶ویں آیت مدینے میں نازل ہوئی بلکہ ۳۲ ۳۳ ۱۵۷ اور ۷۳ ویں تا ۸۱ ویں آیتیں بھی مدینے میں نازل ہوئیں ہیں(۱) اس لئے سورہ کے مکی ہونے اور آیت کے مدینے میں نازل ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

فدک سے متعلق دیگر باتیں

جب فدک کا مسئلہ بالکل واضح تھا تو پھر کیوں پیغمبر کی بیٹی کے حق میں فیصلہ نہیں ہوا؟گذشتہ فصل میںفدک کے متعلق معتبر حوالوں اور طرفین کی دلیلوں کو بیان کیا ہے اواور اب ضرورت ہے کہ اسکے بارے میں صحیح فیصلہ کیا جائےفدک کے مسئلہ کو جس عدالت میں بھی پیش کیا جائے اور جس منصف مزاج قاضی کی نگاہوں سے گذرے گا اس کا فیصلہ پیغمبر کی بیٹی کے ہی حق میں کرے گا اب ہم اس واقعہ کا تجزیہ کرتے ہیں۔

۱۔ خلیفہ کے ہم خیال افرادکی گفتگو سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان لوگوں کا فدک غصب کرنے کا مقصد اپنی خلافت اور حکومت کی بنیاد کو مخالفین کے مقابلے میں مضبوط کرنا تھا اور یہ بات کہ ''پیغمبر میراث نہیں چھوڑتے'' فقط ایک بہانہ تھا تاکہ فدک کا مسئلہ دینی مسئلہ شمار ہو جائے، اور اس دعوے کی دلیل یہ ہے کہ جب خلیفہ پر جناب فاطمہ کی گواہی اور دلیل اثر انداز ہوئی تو انہوں نے چاہا کہ فدک ان کو واپس کردیں چنانچہ انہوں نے حضرت فاطمہ کے نام سند لکھ دی لیکن اچانک عمر وارد ہوے اور جب اس خبر سے آگاہ ہوے تو انہوں نے خلیفہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اگر کل تمام عرب تمہاری حکومت کے خلاف قیام کریں تو جنگ کے اخراجات کہاں سے پورا کرو گے؟ پھر انہوں نے سند لیا اور پھاڑ ڈالا۔(۲)

______________________

(۱) الدر المنثور ج۴ ص ۱۷۷۔ ۱۷۶۔

(۲) سیرۂ حلبی ج۳ ص ۴۰۰ ،منقول از سبط ابن جوزی ۔

۲۱۴

یہ گفتگو فدک کے غصب کرنے کی علت کو واضح و آشکار کرتی ہے اور ہر طرح کے تاریخی خٰالیافیوں کی راہ کو مسدود کرتی ہے۔

۲۔ اسلامی محدثین اور مورخین نقل کرتے ہیں کہ جب یہ آیت ''و آت ذا القربیٰ...'' نازل ہوئی تو پیغمبر خدا (ص) نے فدک فاطمہ زہرا کودیا اور اس حدیث کی سند بزرگ صحابی ابوسعید خدری پر ختم ہوتی ہے ،کیا خلیفہ کے لئے لازم نہیں تھا کہ وہ ابوسعید خدری کو بلاتے اور ان سے اس کی حقیقت دریافت کرتے؟

ابو سعید گمنام آدمی نہیں تھے جنہیں خلیفہ نہیں پہچانتے تھے یا ان کی پاکیزگی کے بارے میں شک و تردید میں تھے۔

ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تاریخ اسلام کے موثق محدثین نے ابوسعید خدری پر جھوٹا الزام لگایا ہوگا کیونکہ اس سے ہٹ کر کہ حدیث کے نقل کرنے والے پاک و پاکیزہ ہیں ان کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جنہیں درو غ پر سازش کرنے کو عقل بعید سمجھتی ہے ۔

ابو سعید خدری ان میں تھے جن کی طرف حدیث کے سلسلے میں رجوع کیا جاتا تھا، اور بہت زیادہ ان سے حدیثیں نقل ہوئی ہیں اور ایک گروہ مثلا ابو ہارون عبدی اور عبد اللہ علقمہ جو خاندان رسالت کے دشمن تھے ،نے جب ابوسعید خدری کی طرف رجوع کیا تو خاندان رسالت سے عداوت سے باز آگئے۔(۱)

۳۔ اسلام اور دنیا کی قضاوت کے قانون کے مطابق اگر کوئی کسی ملکیت میں تصرف کرے تو وہ اس کا مالک شمار ہوگا، مگر یہ کہ ثابت ہو کہ وہ مالک نہیں ہے، اور جب بھی کوئی شخص کسی غیر کی ملکیت میں تصرف نہ رکھنے کے باوجود اسے اپنی ملکیت ہونے کا دعوی کرے اور وہ دوسرے کے تصرف میں ہو تو ضروری ہے کہ دو شاہد عادل اس کے مالک ہونے پر گواہی دیں، ورنہ عدالت تصرف کرنے والے کو اس کا مالک قرار دیتی ہے۔

اور یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ فدک کی سرزمین پیغمبر کی بیٹی کے تصرف میں تھی، جس وقت خلیفہ نے فدک پر قبضہ کرنے کا حکم جاری کیا اس وقت حضرت زہرا کے مزدور اس میں کام کر رہے تھے۔(۲)

______________________

(۱) قاموس الرجال ج۱۰ ص ۸۵۔ ۸۴۔

(۲)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶ص۲۱۱

۲۱۵

کئی سال تک جناب زہرا کا فدک میں تصرف کرنا اور اس میں مزدوروں کا رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ فدک آپ کی ملکیت تھی اسکے باوجود خلیفہ نے حضرت زہرا کے تصرف اور اصطلاحی طور پر ''ذوا لید'' ہونے کو نظر انداز کردیا تھا اور ان کے مزدوروں کو فدک سے نکال دیا۔

اور اس سے بھی بدتر یہ کہ خلیفہ بجائے تصرف نہ کرنے والوں سے گواہ و شاہد طلب کر نے کے حضرت فاطمہ زہرا سے جو کہ فدک پر تصرف کرتی تھی اور دوسرے کی ملکیت ہونے سے انکار کر رہی تھیں ،گواہ طلب کیا جب کہ اسلام کی قضاوت کا قانون یہ ہے کہ جو زبردستی اور جھوٹا ملکیت کا دعوی کر رہا ہو اس سے گواہ طلب کرے نہ یہ کہ مالک سے۔(۱)

امیر المومنین نے جیساکہ ہم نے پہلے بھی ذکر کیاہے کہ اسی وقت خلیفہ کو اس کی غلطی پر متوجہ کیا تھا۔(۲)

خود تاریخ، حضرت فاطمہ کے فدک میں تصرف کرنے کی گواہی دیتی ہے، امیر المومنین نے اپنے ایک خط میں بصرہ کے حاکم عثمان بن حنیف کو اس طرح لکھا :''ہاں آسمان نے چیزوں پر اپنا سایہ کیا تھاان میں سے صرف فدک ہمارے ہاتھ میں تھا''۔

ایک گروہ نے اسے لینے کی کوشش کی اور ایک گروہ نے (خود امام اور آپ کا خاندان) اس سے چشم پوشی کرلی اور خداوند عالم کتنا بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔(۳)

اب بھی ایک سوال باقی ہے وہ یہ کہ جب پیغمبر کی بیٹی کا اس میں تصرف تھا اور وہ دوسرے کی ملکیت ہونے سے انکار کر رہی تھیں اس وقت صرف آپ کا فریضہ یہ تھا کہ مدعی کے سامنے رسوا کرنے والی قسم کھاتیں ، پس جب خلیفہ نے ان سے گواہ طلب کیا تو کیوں شہزادی چند افراد کو بطور گواہ عدالت میں اپنے ساتھ لے گئیں؟

اور اگر یہ مان لیا جائے کہ شہزادی نے خلیفہ کے گواہ طلب کرنے سے پہلے گواہوں کو جمع کرلیا تھا، تو

______________________

(۱) البینة علی المدعی و الیمین علی المنکر۔

(۲) احتجاج طبرسی، ج۱، ص ۱۲۲۔

(۳) نہج البلاغہ عبدہ، نامہ ۴۰۔

۲۱۶

اس کی وجہ یہ تھی کہ فدک مدینہ کے نزدیک کوئی چھوٹی زمین یا چھوٹا علاقہ نہ تھا جو مسلمان اس کے مالک اور وکیل سے باخبر ہوتے، بلکہ مدینہ سے ۱۴۰ کیلو میٹر کے فاصلے پر تھا، شاید یہی وجہ رہی ہو کہ شہزادی کو اطمینان تھا کہ خلیفہ ملکیت اور تصرف ثابت کرنے کے لئے گواہ طلب کرے گا اسی لئے گواہوں کو جمع کرلیا تھا اور پھر عدالت میں پیش کیا۔

۴۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر کی بیٹی بہ حکم آیۂ تطہیر(۱) ہر طرح کے گناہ و معصیت سے محفوظ تھیںاور خلیفہ کی بیٹی عائشہ نے آیت کے شان نزول کو خاندان پیغمبر کے بارے میں نقل کیا ہے، اور اہلسنت کے دانشمندوں نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں آیت کے شان نزول کو حضرت فاطمہ(س) ،ان کے شوہر اور ان کے بچوں کے بارے میں نقل کیا ہے اور اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ آیت الٰہی کی شان میں نازل ہوئی ہے احمد بن حنبل اپنی کتاب ''مسند'' میں نقل کرتے ہیں:

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد جب بھی پیغمبر نماز صبح پڑھنے کے لئے اپنے گھر سے نکلتے اور حضرت زہرا کے گھر کے پاس سے گذرتے توکہتے تھے ''الصلاة'' پھر اس آیت کو پڑھتے تھے اور یہ سلسلہ چھ مہینے تک جاری رہا۔(۲)

ان تمام باتوںکے بعد، کیا یہ صحیح تھا کہ خلیفہ، پیغمبر کی بیٹی سے گواہ و شاہد طلب کرے؟ اور وہ بھی ایسی چیز میں جس میں زہرا کے علاوہ کوئی اور مدعی نہ تھا تنہا دعویدار خلیفہ تھا۔

کیا یہ خلیفہ کے لئے سزاوار تھا کہ جناب فاطمہ کی پاکیزگی کے بارے میں قرآن کی تصریح چھوڑ دے اور ان سے گواہ طلب کرے؟

ہم نہیں کہتے کہ قاضی نے اپنے علم کے مطابق عمل کیوں نہیں کیا، کیونکہ یہ درست ہے کہ علم ،گواہ سے زیادہ اہمیت و عظمت کا حامل ہے لیکن علم بھی گواہ کی طرح غلطی و اشتباہ کرتا ہے اگرچہ یقینی غلطی ظن و گمان سے کم ہوتی بلکہ ہمارایہ کہنا ہے کہ کیوں خلیفہ نے قرآن کی اس صراحت کو کہ جناب زہرا گناہوںاور خطائوں سے محفوظ ہیں کو چھوڑ دیا؟ اگر قرآن خصوصی طور پر زہرا کی ملکیت کو صراحت سے بیان کرتا تو کیا خلیفہ پیغمبر کی

______________________

(۱) سورۂ احزاب، آیت ۳۳انَّمَا یُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ َهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا

(۲) مسند احمد ج۳ ص ۲۹۵۔

۲۱۷

بیٹی سے گواہ طلب کرتا؟ حقیقتاً گواہ طلب نہیں کرتا کیونکہ وحی الہی کے مقابلے کوئی بھی بات سننے کے لائق نہیں ہوتی ہے۔

اسی طرح عدالت کے قاضی کو عصمت زہرا پر قرآنی تصریح ہونے کے بعد، حق نہیں تھا کہ وہ گواہ طلب کرے کیونکہ وہ آیت تطہیر کے اعتبار سے معصوم تھیں اور کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتی تھیں۔

ہم ابھی اس سلسلے میں بحث نہیں کریں گے کہ حاکم اپنے ذاتی علم پر عمل کرے یا نہ کرے، کیونکہ یہ ایک وسیع موضوع ہے اور فقہاء اسلام نے اس بارے میں کتاب قضا میں بحث کی ہے۔

اگر خلیفہ چاہتا تو مندرجہ ذیل دو آیتوں کے ذریعے مسئلہ فدک کو ختم کردیتا اور پیغمبر اسلام کی بیٹی کے حق میں رائے دیتا وہ دونوں آیتیں یہ ہیں:

۱۔ '( وَاذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ ) سورۂ نساء آیت ۵۸۔

اور جب لوگوں کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔

۲۔( وَمِمَّنْ خَلَقْنَا اُمَّة یَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ یَعْدِلُونَ ) سورۂ اعراف آیت ۱۸۱۔

او رہماری مخلوقات ہی سے وہ قوم بھی ہے جو حق کے ساتھ ہدایت کرتی ہے اور حق ہی کے ساتھ انصاف کرتی ہے۔

ان دو آیتوں کے حکم کے مطابق عدالت کے قاضی کے لئے ضروری ہے کہ ہمیشہ حق و عدالت کے ساتھ فیصلہ کرے، اس بنا پر جب پیغمبر کی بیٹی گناہوں سے پاک و منزہ تھیں او رکبھی بھی ان کی زبان پر جھوٹ جاری نہیں ہواتو لہذا ان کا دعوی کرنا عین حقیقت اور واقعی عدل تھا اور عدالت کو چاہیئے تھا کہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتی لیکن خلیفہ نے ان دو آیتوں کے بعد جو کہ اسلامی قضاوت کے اصولوں میں سے ہے کیوں فاطمہ زہرا کے حق میں فیصلہ نہیں کیا؟

بعض مفسرین کا احتمال یہ ہے کہ ان دو آیتوں سے مراد یہ ہے کہ قاضی (جج) پر لازم ہے کہ وہ قضاوت کے اصول و قوانین کی رعایت کرتے ہوئے صحیح اور عادلانہ فیصلہ کرے اگرچہ حقیقت میں عدالت کے خلافت ہی کیوں نہ ہو، لیکن یہ تفسیردرست نہیں ہے ،ان دونوں آیتوں سے مراد وہی ہے جسے ہم نے بیان کیا ہے۔

۲۱۸

۵۔ خلیفہ کی سوانح حیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بہت سے مواقع پر لوگوں کے دعووں کو بغیر دلیل کے قبول کیا ہے مثلاً جب علاء حضرمی کی طرف سے کچھ مال بیت المال کے نام پر مدینہ لایا گیا تو ابوبکر نے لوگوں سے کہا اگر پیغمبر کے پاس کسی کا مال ہے یا حضرت نے اس سے کچھ وعدہ کیا ہے تو وہ آئے اور اپنا مال لے جائے۔

جناب جابر خلیفہ کے پاس گئے اور کہا کہ پیغمبر(ص) نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمہاری فلاں مقدار میں مدد کروں گا اسی وقت ابوبکر نے انہیں تین ہزار پانچ سو (۳۵۰۰) درہم دیا۔

ابوسعید کہتا ہے جب ابوبکر کی طرف سے یہ اعلان ہوا تو کچھ لوگ ان کے پاس گئے اور ان سے درہم و دینار لئے کہ انھیں میں سے ایک ابوبشر مازنی تھا اس نے خلیفہ سے کہا کہ پیغمبر نے مجھ سے کہا تھا کہ جب بھی میرے پاس کوئی مال لے کر آئے گا تو تم میرے پاس آنا اس وقت ابوبکر نے اسے ایک ہزار چار سو (۱۴۰۰) درہم دیا۔(۱) اب سوال یہ ہے کہ خلیفہ نے کس طرح سے ہر مدعی کے دعوے کو قبول کرلیا اور ان سے گواہی طلب نہیں کیا، لیکن پیغمبر کی بیٹی کے مقابلے اپنی ضد پر اڑے رہے اور اس بہانہ سے کہ چونکہ ان کے پاس دلیل اور گواہ نہیں ہیں لہذاان کی بات کو قبول نہیں کیا؟ جو قاضی عمومی مال کے متعلق اتنا سخی ہے کہ پیغمبر کے احتمالی قرضوں اور وعدوں کا اس پر اتنا اثر ہوتا ہے کہ سائل کو فوراً ادا کردیتا ہے تو پھر جناب فاطمہ کے سلسلے میں اتنا کیوں بخل سے کام لے رہا ہے؟جس چیز نے خلیفہ کو پیغمبر کی بیٹی کی صداقت قبول کرنے پر روک دیا وہ وہی چیز ہے جسے ابن ابی الحدید نے اپنے استاد بزرگ اور بغداد کے مدرس علی بن الفار سے نقل کیا ہے وہ کہتا ہے:

میں نے اپنے استاد سے کہا کیا زہرا اپنے دعوے میں سچی تھیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔

میں نے کہا: کیا خلیفہ جانتا تھا کہ وہ ایک سچی عورت ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔

میں نے کہا : تو پھر خلیفہ نے ان کے پورے حق کو ان کے سپرد کیوں نہیں کیا؟

اس وقت استاد ہنسے اور بڑے اطمینان سے کہا:

______________________

(۱) صحیح بخاری، ج۳ ص ۱۸۰، طبقات ابن سعد ج۴ ص ۱۳۴۔

۲۱۹

اگر خلیفہ ان کی بات کو قبول کرلیتایہ سوچ کر کہ وہ ایک سچی عورت ہیں اور بغیر گواہ طلب کئے ہوئے فدک ان کے حوالے کردیتاتو آئندہ اپنی سچائی سے اپنے شوہر کے حق میں استفادہ کرتیں اور کہتیں کہ خلافت حضرت علی کا حق ہے اور اس وقت خلیفہ مجبور ہوتا کہ خلافت کو حضرت علی کے حوالے کرے کیونکہ انہیں (اپنے اس اقدام سے) وہ سچا مانتالہٰذا تقاضے اور مناظرے کا راستہ بند کرنے کے لئے انھیں ان کے مسلم حق سے محروم کر دیا۔(۱)

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۶، ص ۲۸۴۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809