فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362329 / ڈاؤنلوڈ: 6025
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

فدک کے مسئلہ میں کوئی ابہام نہیں تھا

ان تمام واضح اور روشن دلیلوں کے بعد، کیوں اور کس دلیل سے فدک کے بارے میں صحیح فیصلہ نہیں کیا گیا؟ خلیفۂ مسلمین کے لئے ضروری ہے کہ امت کے حقوق کی حفاظت اور ان کے منافع کی حمایت کرے، اگر حقیقت میں فدک عمومی مال میں سے تھا اور پیغمبر نے اسے وقتی طور پر اپنے خاندان کی ایک فرد کو دیا تھا تو ضروری تھا کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے رہبر کو دیدیا جاتا، تاکہ اس کے زیر نظر مسلمانوں کے صحیح امور میں خرچ ہوتا، اور یہ ایسی بات ہے جس پر سبھی متفق ہیں لیکن قوم کے حقوق کی حفاظت اور لوگوں کے عمومی منافع کی حمایت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی شخص کی فردی آزادی اورذاتی ملکیت کو نظر انداز کردیا جائے اور لوگوں کے ذاتی مال کو عمومی مال کے طور پر جمع کیا جائے اور پھر اسے عمومی مال قرار دیا جائے۔

اسلامی قانون جس طرح سے اجتماعی چیزوں کو محترم جانتا ہے اسی طرح کسی کے ذاتی و شخصی مال کو جو شرعی طریقے سے حاصل ہو اسے بھی محترم سمجھتا ہے ،اور خلیفہ جس طرح سے عمومی اموال کی حفاظت میں کوشاں رہتا ہے اسی طرح لوگوں کے ذاتی مال اور حقوق کی جن کا اسلام نے حکم دیاہے ان کی بھی حفاظت کرتا رہے کیونکہ جس طرح عمومی مصالح کی رعایت کے بغیر عمومی مال کو کسی شخص کو دینا لوگوں کے حقوق کے ساتھ ناانصافی ہے ، اسی طرح کسی کی ذاتی ملکیت کو جواسلامی قانون کے اعتبار سے مالک ہے اس سے چھین لینا لوگوں کے حقوق سے نا انصافی ہے اگر پیغمبر کی بیٹی کا اپنی ملکیت فدک کے بارے میں دعوی کرنا

قانون قضاوت کے مطابق تھا اور اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے گواہوں کو جمع کیا تھا اور عدالت کے قاضی کی نظر میں مسئلہ فدک میں کوئی نقص نہ تھا تو ایسی صورت میں قاضی کا صحیح نظریہ دینے سے پرہیز کرنا یا حقیقت مسئلہ کے برخلاف نظریہ پیش کرنا لوگوں کی مصلحتوں کے خلاف اقدام کرنا ہے اور یہ ہے ایسا سنگین جرم جس کی اسلامی قانون میں سخت مذمت کی گئی ہے۔

مسئلہ فدک کا بعض حصہ اس بات پر شاہد ہے کہ ا سکے اندر نقص نہ تھا اور اسلام کے قضائی قانون کی بنیاد پر خلیفہ پیغمبر کی بیٹی کے حق میں اپنا نظریہ پیش کرسکتا تھا، کیونکہ :

پہلے یہ کہ، مورخین کے نقل کے مطابق جیسا کہ گذر چکا ہے خلیفہ نے حضرت زہرا کی طرف سے گواہ پیش کرنے کے بعدچاہا کہ فدک کو اس کے حقیقی مالک کو واپس کردے اور اسی وجہ سے انہوں نے ایک کاغذ پر فدک کو حضرت زہرا کی ملکیت قرار دے کر ان کے سپرد کردیا، لیکن جب عمر اس بات سے آگاہ ہوے تو خلیفہ پر غصہ ہوئے اور نامہ لے کر پھاڑ ڈالا۔

۲۲۱

اگر حضرت زہرا کے گواہ ،مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہ تھے ،اور فدک کی سند میں کوئی کمی تھی تو خلیفہ کبھی بھی ان کے حق میںرائے نہیں دیتا اور حقیقی طور پر ان کی ملکیت کی تصدیق نہ کرتا۔

دوسرے یہ کہ ، جن لوگوں نے پیغمبر کی بیٹی کی حقانیت پر گواہی دی تھی وہ یہ افراد تھے:

۱۔ حضرت امام امیر المومنین ۔

۲۔ حضرت امام حسن ۔

۳۔ حضرت امام حسین ۔

۴۔ رباح، پیغمبر کا غلام۔

۵۔ ام ایمن۔

۶۔ اسماء بنت عمیس۔

کیا ان افراد کی گواہی حضرت زہرا کے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں تھی؟

اگر فرض کریں کہ حضرت زہرا اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے سوائے حضرت علی اور ام ایمن کے کسی کو عدالت میں نہیں لائیں تو کیا ان دو افراد کی گواہی ان کے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہ تھی؟

ان دو گواہوں میں سے ا یک گواہ حضرت امیر المومنین ـ ہیں کہ جن کی عصمت و طہارت پر آیت تطہیر کی مہر لگی ہوئی ہے اور پیغمبر کے فرمان کے مطابق ''علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے اور وہ حق کا محور ہیں اور حق انہی کے اردگرد طواف کرتا ہے'' ان تمام چیزوں کے باوجو دخلیفہ نے امام کی گواہی کو یہ بہانہ بنا کر قبول نہیں کیا کہ ضروری ہے کہ دو آدمی یا ایک آدمی اور دو عورتیں گواہی دیں۔

تیسرے یہ کہ، اگر خلیفہ نے حضرت زہرا کی گواہی اس لئے قبول نہیں کیا کہ تعداد معین افراد سے کم تھی تو ایسی صورت میں قضاوت اسلام کا قانون یہ ہے کہ وہ مدعی سے قسم کا مطالبہ کرے کیونکہ اسلامی قوانین میں مال و دولت اور قرض کے مسئلوں میں ایک گواہ کی گواہی کو قسم کے ساتھ قبول کرکے فیصلہ کرسکتے ہیں ،تو پھر خلیفہ نے اس قانون کے جاری کرنے سے کیوں پرہیز کیا اور جھگڑے کو ختم نہیں کیا؟

۲۲۲

چوتھے یہ کہ، خلیفہ نے ایک طرف حضرت زہرا کی گفتگو اور ان کے گواہوں (حضرت علی اور ام ایمن) کی تصدیق کی اور دوسری طرف عمر او رابوعبیدہ کی (ان لوگوں نے گواہی دیا تھا کہ پیغمبر نے فدک کی آمدنی کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا تھا) تصدیق کی۔ اور پھر فیصلہ کرنے کے لئے اٹھے او رکہا کہ سب کے سب صحیح اور سچے ہیں، کیونکہ فدک عمومی مال میں سے تھا اور پیغمبر اس کی آمدنی سے اپنے خاندان کی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے اور باقی اموال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرتے تھے جب کہ ضروری تھا کہ خلیفہ عمر او رابوعبیدہ کی گفتگو پر سنجیدگی سے غور کرتے کیونکہ ان دونوں نے یہ گواہی نہیں دی تھی کہ فدک عمومی مال میں سے تھا بلکہ صرف اس بات کی گواہی دی تھی کہ پیغمبر نے بقیہ اموال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کیا تھا، اور یہ بات حضرت زہرا کے مالک ہونے کے ذرہ برابر بھی مخالف نہ تھی کیونکہ پیغمبر اسلام کواپنی بیٹی کی طرف سے اجازت تھی کہ بقیہ اموال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیں۔

خلیفہ کا وقت سے پہلے فیصلہ اورفدک لینے کا اس کا باطنی رجحان سبب بنا کہ خلیفہ ان دونوں کی اس گواہی کے بہانے کہ پیغمبر اسلام بقیہ مال مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرتے تھے حضرت زہرا کی ملکیت ہونے سے انکار کردے جب کہ ان دونوں کی گواہی پیغمبر کی بیٹی کے دعوے کے مخالف نہیں تھی۔

اہمبات یہ کہ خلیفہ نے حضرت فاطمہ زہرا(س) سے وعدہ کیا تھا کہ فدک کے سلسلے میں ہمارا طریقہ وہی رہے گا جو پیغمبر کا طریقہ تھا اگر حقیقت میں فدک عمومی مال میں سے تھا تو پھر کیوں انہوں نے حضرت زہرا سے رضایت چاہی؟ اور اگر ذاتی ملکیت تھی یعنی پیغمبر کی بیٹی کی ملکیت تھی تو اس طرح کا وعدہ جب کہ مالک اپنی ملکیت سپردکرنے سے ا نکار کرے اس میں تصرف کے جواز باعث نہیں بن سکتا۔

ان تمام چیزوں کے علاوہ اگر فرض کریں کہ خلیفہ کے پاس یہ اختیارات نہیں تھے مگر وہ مہاجرین اور انصار سے رائے مشورہ اور ان کی رضایت حاصل کرنے کے بعد فدک پیغمبر کی بیٹی کے حوالے کرسکتا تھا، توکیوں انہوں نے یہ کام نہیں کیا اور حضرت زہرا کے شعلہ ور غضب کا اپنے کو مستحق قرار دیا؟

۲۲۳

پیغمبر کی زندگی میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیاتھا اور پیغمبر نے مسلمانوں کی رضایت کو حاصل کر کے مشکل کو حل کردیاتھا جنگ بدر میں پیغمبر کا داماد ابو العاص (جو پیغمبر کی پروردہ بیٹی زینب کا شوہر تھا:مترجم) گرفتار ہوا تو مسلمانوں نے اس کے علاوہ اس کے ستر افراد کو بھی گرفتار کرلیا، پیغمبر کی طرف سے اعلان ہوا کہ جن کے رشتہ دار گرفتار ہوئے ہیں وہ کچھ رقم دے کر اپنے اسیروں کو آزاد کرسکتے ہیں۔ ابو العاص ایک شریف انسان اور مکہ کا تاجر تھا او رزمانہ جاہلیت میں اس کی شادی پیغمبر کی پروردہ بیٹی سے ہوئی تھی، لیکن بعثت کے بعد اپنی بیوی کے برخلاف اسلام قبول نہیں کیا اور جنگ بدر میں مسلمانوں کے مقابلے میں شریک ہوااور گرفتار ہوگیا اس کی بیوی ان دنوں مکہ میں تھی زینب نے اپنے شوہر کی رہائی کے لئے اپنے اس ہار کو فدیہ قرار دیا جو آپ کی(پرورش کرنے والی ) ماں خدیجہ نے شادی کی رات دیا تھا جب پیغمبر کی نظر زینب کے ہار پر پڑی تو بہت زیادہ گریہ کیا اور ان کی ماں خدیحہ کی فدا کاری و قربانی یاد آگئی جنھوں نے سخت مشکلات کے زمانے میں آپ کی مدد کی تھی اور اپنی تمام دولت کو اسلام کی کامیابی و ترقی کے لئے خرچ کیا تھا۔

پیغمبر اسلام (ص) عمومی اموال کے احترام کی رعایت کرنے کے لئے اپنے صحابیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: یہ ہار تمہارا ہے اور اس پر تمہارا ہی اختیار ہے اگر دل چاہے تو اس ہار کو واپس کردو اور ابوالعاص کو بغیر فدیہ لئے ہوئے رہا کردو آپ کے صحابیوں نے آپ کی درخواست کو قبول کرلیا۔

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:(۱)

''میں نے زینب کے واقعہ کو اپنے استاد ابوجعفر بصری علوی کے سامنے پڑھا تو انھوں نے اس کی

______________________

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱۴، ص ۱۶۱۔

۲۲۴

تصدیق کی اور کہا:کیا فاطمہ کی عظمت و منزلت زینب سے زیادہ نہ تھی ؟کیا بہتر نہیں تھا کہ خلیفہ فاطمہ کو فدک واپس کر کے ان کے قلب کو خوشحال کردیتا؟اگرچہ فدک تمام مسلمانوں کا مال تھا۔

ابن ابی الحدید مزید لکھتے ہیں:

میں نے کہا کہ فدک اس روایت کے مطابق کہ ''گروہ انبیاء بطور میراث کچھ نہیں چھوڑتے'' مسلمانوں کا مال تھا تو کس طرح ممکن تھا کہ مسلمانوں کا مال حضرت زہرا کو دیدیتے؟

استاد نے کہا: کیا زینب کا وہ ہار جو اس نے اپنے شوہر ابوالعاص کی رہائی کے لئے بھیجا تھا وہ مسلمانوں کا مال نہ تھا؟ میں نے کہا:

پیغمبر صاحب شریعت تھے اور تمام امور کے نفاذ او راجراء کا حکم ان کے ہاتھوں میںتھا لیکن خلفاء کے پاس یہ اختیار نہیں تھا۔

استاد نے میرے جواب میں کہا: میں یہ نہیں کہتا کہ خلفاء زبردستی مسلمانوں سے فدک چھین لیتے اور فاطمہ کے ہاتھوں میں دیدیتے، بلکہ میراکہنا یہ ہے کہ کیوں حاکم وقت نے فدک دینے کے لئے مسلمانوں کو راضی نہیں کیا؟ کیوں پیغمبر کی طرح نہ اٹھے اوران کے اصحاب کے درمیان نہیں کہا کہ اے لوگو! زہرا تمہارے نبی کی بیٹی ہیں وہ چاہتی ہیں کہ پیغمبر کے زمانے کی طرح فدک کا نخلستان (کھجور کا باغ) ان کے ہاتھ میں رہے کیا تم لوگ خود اپنی مرضی سے راضی ہو کہ فدک فاطمہ کے حوالے کردیا جائے ؟

آخر میں ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:

ہمارے پاس استاد کی باتوں کا جواب نہ تھا اور صرف بطور تائید کہا: ابوالحسن عبد الجبار بھی خلفاء کے بارے میں ایساہی اعتراض رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ اگرچہ ان کاطور طریقہ شرع کے مطابق تھا لیکن جناب زہرا کا احترام اور ان کی عظمت کا پاس و لحاظ نہیں رکھا گیا ۔

۲۲۵

چھٹیں فصل

کیاانبیاء میراث نہیں چھوڑتے؟

اس بارے میں قرآن کا نظریہ

ابوبکر نے پیغمبر کی بیٹی کو میراث نہ دینے کے لئے ایک حدیث کا سہارالیاجس کا مفہوم خلیفہ کی نظر میں یہ تھا کہ پیغمبران خدا بطور میراث کوئی چیز نہیں چھوڑ تے اور ان کی وفات کے بعد ان کی چھوڑی ہوئی چیزیں صدقہ ہوتی ہیں۔ قبل اس کے کہ اس حدیث کے متن کو نقل کریں جس سے خلیفہ نے استناد کیا ہے، ضروری ہے کہ اس مسئلے کو قرآن سے حل کریں کیونکہ قرآن مجید حدیث صحیح کو حدیث باطل سے پہچاننے کا بہترین ذریعہ ہے اور اگر قرآن نے اس موضوع کی تصدیق نہیں کیا تو اس حدیث کو (اگرچہ ابوبکر ناقل ہوں) صحیح حدیث شمار نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے من گھڑت او رباطل حدیث شمار کیاجائے گا۔

قرآن کریم کی نظر میں اور اسلام میں میراث کے احکام کی روسے پیغمبروں کی اولاد یا ان کے وارثوں کو مستثنیٰ کرنا قانون میراث کے مطابق غیر منطقی بات ہے اور جب تک قطعی دلیل ان آیات ارث کو تخصیص نہ دے میراث کے تمام قوانین تمام افراد کو کہ انہی میں پیغمبر کی تمام اولادیں اور وارثین ہی شامل ہیں۔

اس جگہ سوال کرنا چاہیئے کہ کیوں پیغمبر کی اولاد میراث نہیں لے سکتی؟ ان کی رحلت کے بعد ان کا گھر اور تمام زندگی کے اسباب ان سے کیوں لے لیا جائے؟ آخر پیغمبر کے وارث کس گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد تمام لوگ گھر سے باہر نکال دیئے جائیں؟

اگرچہ پیغمبر کے وارثوں کو میراث سے محروم کرنا عقلا بعید ہے لیکن اگر وحی کی طرف سے قطعی اور صحیح دلیل موجود ہو کہ تمام انبیاء کوئی چیز بعنوان میرا ث نہیں چھوڑتے اور ان کا ترکہ عمومی مال شمار ہوتا ہے تو ایسی صورت میں''اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا'' حدیث کو قبول کریں گے اور غلط فہمی کو دور کردیں گے او رمیراث سے مربوط آیتوں کو صحیح حدیث کے ذریعے تخصیص دیں گے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ کیا اس طرح کی حدیثیں پیغمبر سے وارد ہوئی ہیں؟

۲۲۶

وہ حدیث جو خلیفہ نے نقل کی ہے اس کو پہچاننے کے لئے بہترین راستہ یہ ہے کہ حدیث کے مفہوم کو قرآن کی آیتوں سے ملائیں اگر قرآن کے مطابق ہو تو قبول کریں گے اور اگر قرآن کے مطابق نہ ہوتو اسے رد کردیں گے۔ جب ہم قرآنی آیتوں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں ملتا ہے کہ قرآن نے دو جگہوں پر پیغمبر کی اولادکی میراث کا تذکرہ کیاہے اور ان کے میراث لینے کو ایک مسلّم حق بیان کیا ہے وہ آیتیں جو اس مطلب کو بیان کرتی ہیں یہ ہیں:

۱۔ یحییٰ نے زکریا سے میراث پائی

( وَانِّی خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَرَائِی وَکَانَتْ امْرَاتِی عَاقِرًا فَهَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا یَرِثُنِی وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا ) (سورۂ مریم، آیت ۵، ۶)

اور میں اپنے (مرنے کے) بعد اپنے وارثوں(چچا زاد بھائیوں) سے ڈرجاتا ہوں(کہ مبادا دین کو برباد کریں) اور میری بی بی (ام کلثوم بنت عمران) بانجھ ہے پس تو مجھ کو اپنی بارگاہ سے ایک جانشین (فرزند) عطا فرما، جو میری او ریعقوب کی نسل کی میراث کا مالک ہو اور اسے میرے پروردگار او را س کو اپنا پسندیدہ بنا۔

اس آیت کو ا گر ہر اس شخص کے سامنے پڑھایا جائے جو لڑائی جھگڑوں سے دور ہو تو وہ یہی کہے گا کہ حضرت زکریا نے خداوند عالم سے ایک بیٹا طلب کیا تھا جو ان کا وارث ہو کیونکہ ان کو اپنے دوسرے وارثوں سے خطرہ اور خوف محسوس ہو رہا تھا اور آپ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کی دولت و ثروت ان لوگوں تک پہونچے، وہ کیوں خوف محسوس کر رہے تھے اس کی وضاحت بعد میں کریں گے۔

آیت میں ''یرثنی'' سے مراد میراث میں سے مال لینا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لفظ مال کی وراثت کے علاوہ دوسری چیزوں میں استعمال نہیں ہوتا مثلاً نبوت اور علوم کا وارث ہونا، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک دوسرے والے معنی کے ساتھ کوئی قرینہ موجود نہ ہو اس وقت تک یہ مال سے میراث لینا مراد ہوگا نہ کہ علم اور نبوت سے میراث لینا۔(۱)

_____________________

(۱) جی ہاں، کبھی کبھی یہی لفظ کسی خاص قرینے کی وجہ سے میراث علم میں استعمال ہوتا ہے مثلا''ثم اورثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا'' (فاطر، آیت ۳۲) یعنی ہم نے اس کتاب کو اس گروہ سے جس کو نے چنا ہے ان کو میراث میں دیا، یہاں پر لفظ ''کتاب'' واضح و روشن قرینہ ہے کہ یہاں مال میں میراث مراد نہیں ہے بلکہ قرآن کے حقائق سے آگاہی کی میراث مراد ہے۔

۲۲۷

یہاں ہم ان قرینوں کو پیش کر رہے ہیں جو اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ''یرثنی و یرث من آل یعقوب'' سے مراد مال میں میراث ہے نہ کہ علم و نبوت میں میراث لینا۔

۱۔ لفظ ''یرثنی'' اور ''یرث'' سے یہ ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہی مال میں میراث ہے نہ کہ غیرمیں، اور جب تک اس کے برخلاف کوئی قطعی دلیل نہ ہو جب تک اس کو اس معنی سے خارج نہیں کرسکتے، اگر آپ قرآن میں اس لفظ کے تما م مشتقات کو غور سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ لفظ پورے قرآن میں (سوائے سورۂ فاطر آیت ۳۲ کے) مال میں وراثت کے متعلق استعمال ہوا ہے اور یہ خود بہترین دلیل ہے کہ ان دو لفظوں کو اس کے اسی معروف و مشہور معنی میں استعمال کریں۔

۲۔ نبوت اور امامت خداوند عالم کا فیض ہے جو مسلسل مجاہدت ، فداکاری اور ایثار کے ذریعے باعظمت انسان کو نصیب ہوتا ہے اور یہ فیض بغیر کسی ملاک کے کسی کو دیا نہیں جاتا اس لئے یہ قابل میراث نہیں ہے بلکہ ایک ایسے باعظمت و مقدس گروہ میں ہے کہ ملاک نہ ہونے کی صورت میں ہرگز کسی کو دیا نہیں جاتا اگرچہ پیغمبر کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔یہی وجہ تھی کہ زکریا نے پروردگار عالم سے بیٹے کی درخواست نہیں کی جو نبوت و رسالت کا وارث ہو اور اس بات کی تائید قرآن مجید میں ہے کہ:

( اَللهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَه ) (۱)

خداوند عالم سب سے زیادہ جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔

۳۔ حضرت زکریا نے صرف خدا سے بیٹے کی تمنا ہی نہیں کی بلکہ کہا کہ پروردگار اسے میرا پاک و پاکیزہ اور پسندیدہ وارث قرار دے اگر اس سے مراد مال میں میراث ہو تو صحیح ہے کہ حضرت زکریا اس کے حق میں دعا کریں کہ ''و اجعلہ رب رضیاً'' (خدایا) اسے مورد پسند قرار دے ۔کیونکہ ممکن ہے کہ مال کا وارث کوئی غیر سالم شخص ہو، لیکن اگر اس سے مراد نبوت و رسالت کا وارث ہو، تو اس طرح سے دعا کرنا صحیح نہیں ہوگا اور یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ہم خدا سے دعا کریں کہ خدایا ایک علاقہ کے لئے پیغمبر بھیج دے اور اسے پاک و مورد پسند قرار دے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ

______________________

(۱) سورۂ انعام ، آیت ۱۲۴۔

۲۲۸

ایسی دعا پیغمبر کے بارے میں جو خداوند عالم کی جانب سے مقام رسالت و نبوت پر فائز ہو باطل ہو جائے گی۔

۴۔ حضرت زکریا اپنی دعا میں کہتے ہیں کہ ''میں اپنے عزیزوں اور چچازاد بھائیوں سے خوف محسوس کرتا ہوں'' لیکن ابتدا میں زکریا کے ڈرنے کی کیا وجہ تھی؟

کیا انھیں اس بات کا خوف تھا کہ ان کے بعد رسالت و نبوت کا منصب ان نا اہلوں تک پہونچ جائے گا اسی لئے انھوں نے اپنے لئے خدا سے ایک بیٹے کی تمنا کی؟ یہ احتمال بالکل بے جا ہے کیونکہ خداوند عالم نبوت و رسالت کے منصب کو ہرگز نااہلوں کو نہیں دیتا کہ ان کو اس بات کا خوف ہو۔ یا حضرت زکریا کو اس بات کا ڈر تھا کہ ان کے بعد دین اور اس کے قوانین ختم ہو جائیں گے اور ان کی قوم الگ الگ گروہوں میں ہو جائے گی؟ اس طرح کا خوف بھی انھیں نہیں تھا کیونکہ خداوند عالم اپنے بندوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی اپنی ہدایت کے فیض سے محروم نہیں کرتا اور مسلسل اپنی حجت ان کی رہبری کے لئے بھیجتا ہے اور ان لوگوں کو بھی بغیر رہبر کے نہیں چھوڑتا۔

اس کے علاوہ اگر مراد یہی تھی تو ایسی صورت میں زکریا کو بیٹے کی دعا نہیں کرنی چاہئیے تھی، بلکہ صرف اتنا ہی کافی تھا کہ دعا کرتے کہ پروردگار ا ان لوگوں کے لئے پیغمبر بھیج دے (چاہے ان کی نسل سے ان کا وارث ہو چاہے دوسرے کی نسل سے) تاکہ ان کو جاہلیت کے دور سے نجات دیدے حالانکہ زکریا نے وارث کے نہ ہونے پر خوف محسوس کیا۔

دو سوالوں کا جواب

مورد بحث آیت کے سلسلے میں دواعتراض ذکر ہوا ہے جس کی طرف اہلسنت کے بعض دانشمندوں نے اشارہ کیا ہے یہاں پر ہم دونوں سوالوں کا جائزہ لے رہے ہیں

الف: حضرت یحییٰ اپنے والد کے زمانے میں منصب نبوت پر فائز ہوئے لیکن ہرگز ان کے مال سے میراث نہیں لی کیونکہ اپنے والد سے پہلے ہی شہید ہوگئے اس لئے ضروری ہے کہ لفظ ''یرثنی'' کو نبوت میں وارث کے عنوان سے تفسیر کریں نہ کہ مال میں وراثت سے۔

۲۲۹

جواب:

ہر حالت میں اس اعتراض کا جواب دینا ضروری ہے چاہے اس سے مراد مال کا وارث ہو یا نبوت کا وارث ہو، چونکہ نبوت میں وارث ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے باپ کے بعد منصب نبوت پر فائز ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کی تفسیر میں دونوں نظریوں پر اشکال ہوا ہے اور تفسیر، مال میں وارث ہونے سے مخصوص نہیں ہے لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ یحییٰ کا زکریا سے میراث پانا صرف ان کی دعاؤں کی وجہ سے نہ تھا بلکہ ان کی دعا صرف یہ تھی کہ خداوند عالم انھیں صالح بیٹا عطا کرے اور بیٹے کی تمنا کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ زکریا کا وارث بنے، خدا نے ان کی دعا کو قبول کرلیا اگرچہ حضرت زکریا نے جو اس بیٹے کی تمنا کی اس مقصد (یحییٰ کا ان سے میراث لینا) میں کامیاب نہ ہوئے۔

مورد بحث آیت میں تین جملے استعمال ہوئے ہیں جن کی ہم وضاحت کر رہے ہیں:

( فَهَبْ لِیْ مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا ) پروردگارا! مجھے ایک بیٹا عطا کر۔

( یَرِثُنِی وَ یَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوْب ) میرا اور یعقوب کے خاندان کا وارث ہو۔

''وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیّاً'' پروردگارا! اسے مورد پسند قرار دے۔ان تین جملوں میں پہلا اور تیسرا جملہ بطور درخواست استعمال ہوا ہے جو حضرت زکریا کی دعا کو بیان کرتاہے یعنی انھوں نے خدا سے یہ دعا کی کہ مجھے لائق و پسندیدہ بیٹا عطا کر، لیکن غرض اور مقصد یا دوسرے لفظوں میں علت غائی، مسئلہ وراثت تھا۔جب کہ مسئلہ وراثت دعا کا جزء نہ تھا اور جس چیز کی جناب زکریا نے خدا سے دراخواست کی تھی وہ پوری ہوگئی اگرچہ ان کی غرض و مقصد پورا نہ ہوا او ران کا بیٹا ان کے بعد موجود نہ رہا کہ ان کے مال یا نبوت کا وراث ہوتا۔(۱) وراثت جزء دعا نہ تھی بلکہ امید تھی جو اس درخواست پر اثر انداز ہوئی، اس بات پر بہترین گواہیہ ہے کہ دعا کی عبارت اور زکریا کی درخواست دوسرے سورہ میں اس طرح وارد ہوئی ہے ،اور وہاں پر اصلاً وراثت کا تذکرہ نہیں ہے۔

______________________

(۱) بعض قاریوں نے '' یرثنی '' کو جزم کے ساتھ پڑھا ہے اور اسے جواب یا '' ھَب ''(کہ جو صیغہ امر ہے) کی جزا جانا ہے یعنی'' ان تهب ولیاً یرثنی '' اگر بیٹا عطا کرے گا تو وہ میرا وارث ہوگا۔

۲۳۰

( هُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِی مِنْ لَدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً انَّکَ سَمِیعُ الدُّعَاء ) (۱)

اس وقت زکریا نے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں دعا کی پروردگارا! مجھے اپنی جانب سے ایک صالح اور پاکیزہ بیٹا عطا فرما اور تو اپنے بندوں کی دعا کو سننے والا ہے۔ اب آپ اس آیت میں ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ اس درخواست میں وراثت دعا کا حصہ نہیں ہے بلکہ درخواست میں پاکیزہ نسل کا تذکرہ ہے اور سورۂ مریم میں ''ذریت'' کی جگہ پر لفظ ''ولیاً'' اور ''طیبة'' کی جگہ پر لفظ ''رضیاًّ'' استعمال ہوا ہے۔

ب: مورد بحث آیت میں ضروری ہے کہ زکریا کا فرزند دو آدمیوں سے میراث لے ایک زکریا سے دوسرے یعقوب کے خاندان سے جیسا کہ ارشاد قدرت ہے: ''یرثنی و یرث من آل یعقوب'' یعقوب کے خاندان کی تمام وراثت ، نبوت کی وراثت کا حصہ نہیں بن سکتی۔

جواب: آیت کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ زکریا کا فرزند، خاندان یعقوب کے تمام افراد کا وارث ہو ، بلکہ آیت کا مفہوم لفظ ''مِن'' سے جو کہ تبعیض کا فائدہ دیتی ہے ،یہ ہے کہ اس خاندان کے بعض افراد سے میراث حاصل کرے نہ کہ تمام افراد سے، اور اس بات کے صحیح ہونے کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی ماں سے یعقوب کے خاندان کے کسی فرد سے میراث حاصل کریں. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس یعقوب سے مراد کون ہے کیا وہی یعقوب بن اسحاق مراد ہیں یا کوئی دوسرا فی الحال مشخص نہیں ہے۔

۲: سلیمان نے داؤد سے میراث پائی

( وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُود ) (۲)

سلیمان نے داؤد سے میراث پائی۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ سلیمان نے مال و سلطنت کو حضرت داؤد سے بطور میراث حاصل کیا اور یہ خیال کرنا کہ اس سے مراد علم کا وارث ہونا تھا دولحاظ سے باطل ہے۔

______________________

(۱) سورۂ آل عمران، آیت ۳۸۔------(۲) سورۂ نمل، آیت ۱۶۔

۲۳۱

۱۔ اصطلاح میں کلمہ ''ورث'' کے معنی مال سے میراث لینا ہے اور علم کی وراثت مراد لینا تفسیر کے برخلاف ہے جو قرینہ قطعی کے بغیر صحیح نہیں ہوگا۔

۲۔ چونکہ اکتسابی علم استاد سے شاگرد کی طرف منتقل ہوتا ہے اور مجازاً یہ کہنا صحیح ہے کہ '' فلاں شخص اپنے استاد کے علم کا وارث ہے'' لیکن مقام نبوت اور علوم الہی وہبی ہیں اور اکتسابی اور موروثی نہیں ہیں اور خدا جسے چاہتا ہے اسے عطا کرتاہے لہٰذا وراثت کی تفسیر اس طریقے کے علوم و معارف اور مقامات او رمنصبوں سے اس وقت تک صحیح نہیں ہے جب تک قرینہ موجود نہ ہو کیونکہ بعد میں آنے والے پیغمبر نے نبوت اور علم کو خدا سے لیا ہے نہ کہ اپنے والد سے۔

اس کے علاوہ اس آیت سے پہلے والی آیت میں خداوند عالم داؤد اور سلیمان کے بارے میں فرماتا ہے:

( وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًا وَقَالاَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی فَضَّلَنَا عَلَی کَثِیرٍ مِنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِینَ ) (۱)

اور اس میں شک نہیں کہ ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا اوردونوں نے (خوش ہو کر) کہا خدا کا شکر جس نے ہم کو اپنے بہتیرے ایماندار بندوں پر فضیلت دی۔

کیا آیت سے یہ ظاہر نہیں ہے کہ خداوند عالم نے دونوں کو علم و دانش عطا کیا او رسلیمان کا علم وہبی تھا نہ کہ موروثی؟

سورۂ نمل اور سورۂ مریم کی آیتوں کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شریعت الہی کا پچھلے پیغمبروں کے بارے میں یہ ارادہ نہیں تھا کہ ان کی اولادیںان کی میراث نہ لیں، بلکہ ان کی اولادیں بھی دوسرں کی اولادوں کی طرح ایک دوسرے سے میراث حاصل کریں۔یہی وجہ ہے کہ صریحی طور پر وہ آیتیں جو یحییٰ اور سلیمان کی اپنے والد سے میراث لینے کے متعلق ہیں انہیں حضرت فاطمہ نے اپنے خطبہ میں جو آپ نے پیغمبر کے بعد مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا تھا بیان کیا اور ان دونوں آیتوں سے استناد کرتے ہوئے اس فکر کے غلط ہونے پر استدلال کیا اور فرمایا:

______________________

(۱) سورۂ نمل، آیت ۱۵۔

۲۳۲

''هذا کتاب الله حکماً عدلاً و ناطقاً فصلاً یقول ''یرثنی و یرث من آل یعقوب '' و ورث سلیمان داؤد'' (۱)

یہ کتاب خدا حاکم اور عادل و گویا ہے اور بہترین فیصلہ کرنے والی ہے جس کا بیان یہ ہے کہ (یحییٰ نے) مجھ (زکریاسے) اور یعقوب کے خاندان سے میراث پائی (پھر کہا) سلیمان نے داؤد سے میراث پائی۔

______________________

(۱) احتجاج طبرسی، ج۱، ص ۱۴۵، (مطبوعہ نجف اشرف)

۲۳۳

پیغمبر(ص) سے منسوب حدیث

گذشتہ بحث میں قرآن کی آیتوں نے یہ ثابت کردیا کہ پیغمبروں کے وارث ،پیغمبروں سے میراث پاتے تھے اور ان کے بعد ان کی چھوڑی ہوئی چیزیں (میراث) غریبوں اور محتاجوں میں بعنوان صدقہ تقسیم نہیں ہوتی تھیں، اب اس وقت ہم ان روایتوں کی تحقیق کریں گے جنہیں اہلسنت کے علماء نے نقل کیا ہے اور خلیفہ اول کے اس عمل کی توجیہ کی ہے جو انھوں نے حضرت زہرا کو ان کے باپ کی میراث لینے سے محروم کردیاتھا۔

ابتدا میں ہم ان حدیثوں کو نقل کررہے ہیں جو حدیث کی کتابوںمیں وارد ہوئی ہیں پھر ان کے معنٰی کو بیان کریں گے ۔

۱۔'' نَحْنُ مَعَاشِرُا لْاَنْبِیَائِ لَانُوْرِثُ ذَهْبًا وَلَا فِضَّةً وَلَا اَرْضًا وَلَا عِقَاراً وَلَا دَاراً وَلٰکِنَّا نُوَرِّثُ الْاِیْمَانَ وَالْحِکْمَةَ وَالْعِلْمَ وَالسُّنَّةَ''

ہم گروہ انبیاء سونا، چاندی، زمین اور گھر وغیرہ بطور میراث نہیں چھوڑتے، بلکہ ہم ایمان ، حکمت ، علم او رحدیث بعنوان میراث چھوڑتے ہیں۔

۲۔'' اِنَّ الْاَنْبِیَائَ لَایُوْرثون''

بے شک انبیاء کوئی چیز بھی بعنوان میراث نہیں چھوڑتے (یا ان کی چیزیں میراث واقع نہیں ہوتیں)

۳۔'' اِنَّ النَّبِیَّ لَایُوْرثُ''

بے شک پیغمبر کوئی چیز میراث نہیں چھوڑتے (یا میراث واقع نہیں ہوتی)

۴۔'' لَانُوْرث، مَا تَرَکْنَاه صَدْقَةً''

ہم کوئی چیز میراث نہیں چھوڑتے بلکہ جو چیز ہمارے بعد باقی رہتی ہے وہ صدقہ ہے۔

۲۳۴

یہ ان تمام حدیثوں کی اصلی عبارتیں ہیں جنھیں اہلسنت نے نقل کیا ہے خلیفہ اول نے حضرت زہرا کو ان کے باپ کی میراث نہ دینے کے لئے چوتھی حدیث کا سہارا لیا، اس سلسلے میں پانچویں حدیث بھی ہے جسے ابوہریرہ نے نقل کیا ہے لیکن چونکہ معلوم ہے کہ ابوہریرہ صاحب نے یہ حدیث گڑھی ہے جیسا کہ (خود ابوبکر جوہری کتاب ''السقیفہ'' کے مولف نے اس حدیث کے متن کی غرابت کا اعتراف کیا ہے)(۱)

اس لئے ہم نے اسے نقل کرنے سے پرہیز کیا ہے اب ہم ان چاروں حدیثوں کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔

پہلی حدیث کے سلسلے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس حدیث سے مراد یہ نہیں ہے کہ انبیاء کوئی چیز میراث میں نہیں چھوڑتے ، بلکہ مراد یہ ہے کہ پیغمبروں کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی عمر کو سونے چاندی ، مال و دولت کے جمع کرنے میں خرچ کریں اور اپنے وارثوں کے لئے مال و دولت چھوڑیں اور ان کی جو یادگاریں باقی ہیں وہ سونا چاندی نہیں ہیں، بلکہ علم و حکمت اور سنت ہیں،اسکا مطلب یہ نہیں کہ اگر پیغمبرنے اپنی پوری زندگی لوگوں کی ہدایت و رہبری میں صرف کی اور تقوی اور زہد کے ساتھ زندگی بسر کی تو ان کے انتقال کے بعد اس حکم کی بناء پر کہ پیغمبر کوئی چیز بطور میراث میں نہیں چھوڑتے، ان کے وارثوں سے فورا ان کا ترکہ لے کر صدقہ دیدیں۔

واضح لفظوں میں اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ پیغمبروں کی امتیں یا ان کے ورثاء ا س بات کے منتظر نہ رہیں کہ وہ اپنے بعد مال ودولت بطور میراث چھوڑیں گے، کیونکہ وہ لوگ اس کا م کے لئے نہیں آئے تھے،بلکہ وہ اس لئے بھیجے گئے تھے کہ لوگوں کے درمیان دین و شریعت، علم و حکمت کو پھیلائیں اور انہی

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۶ ص ۲۲۰۔

۲۳۵

چیزوں کو اپنی یادگار چھوڑیں، شیعہ دانشمندوں نے اسی مضمون میں ایک حدیث امام صادق سے نقل کی ہے اور یہ اس بات پر گواہ ہے کہ پیغمبر کا مقصد یہی تھا۔

امام جعفر صادق فرماتے ہیں:

''انَّ الْعُلَمَائَ وَرَثَةُ الْاَنْبِیَائِ َوذَالِکَ اَنَّ الْاَنْبِیَائَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِرْهَماً وَلَادِیْنَاراً وَاِنَّمَا وُرِثُوْا اَحٰادِیْثَ مِنْ اَحَادِیْثِهِمْ'' (۱)

علماء انبیاء کے وارث ہیں کیونکہ پیغمبروں نے درہم و دینار ورثہ میں نہیں چھوڑا ہے بلکہ (لوگوں کے لئے) اپنی حدیثوں میں سے حدیث کو یادگار چھوڑا ہے

اس حدیث اور اس سے مشابہ حدیث کامراد یہ ہے کہ پیغمبروں کی شان مال کو جمع کر کے میراث میں چھوڑ نا نہیں ہے ،بلکہ ان کی عظمت و شان کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی امت کے لئے علم و ایمان کو بطور میراث چھوڑیں، لہذا یہ تعبیر اس بات کو ثابت نہیں کرتی کہ اگر پیغمبر کوئی چیز میراث میں چھوڑ دیںتو ضروری ہے کہ ان کے وارثوں سے لے لیا جائے۔اس بیان سے یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ دوسری اور تیسری حدیثوں کا مقصد بھی یہی ہے اگرچہ مختصر اور غیر واضح نقل ہوئی ہیں۔ حقیقت میں جو پیغمبر نے فرمایا: وہ صرف ایک ہی حدیث ہے جس میں کتر بیونت کر کے مختصرا نقل کیا گیا ہے ۔اب تک ہم نے شروع کی تین حدیثوں کی بالکل صحیح تفسیر کی ہے اوران کے قرآن سے اختلافات کو جو پیغمبروں کی اولادوں کے وارث ہونے بتاتاہے، اسے برطرف کردیا۔

مشکل چوتھی حدیث میں ہے، کیونکہ مذکورہ توجیہ اس میں جاری نہیں ہوگی،کیونکہ حدیث میں صراحتاً موجود ہے کہ پیغمبریا پیغمبروں کا ترکہ صدقہ کے عنوان سے لے لینا چاہئے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس حدیث کا مقصد یہی ہے کہ یہ حکم تمام پیغمبروں کے لئے ہے تو اس صورت میں اس کا مفہوم قرآن کے مخالف ہوگا اور پھر معتبر نہیں ہو گی، اور اگر اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکم صرف پیغمبر اسلام کے لئے نافذ ہے اور تمام پیغمبروں کے درمیان صرف وہ اس خصوصیت کے

______________________

(۱)مقدمۂ معالم ص۱ منقول از کلینی ۔

۲۳۶

حامل ہیں، تو ایسی صورت میں اگرچہ کلی طور پر قرآن مجید کے مخالف نہیں ہے، لیکن قرآن مجید کی متعدد آیتوں کے مقابلے میں عمل کرنا خصوصاً میراث اور اس کے وارثوں کے درمیان تقسیم کرنا، جو کلی و عمومی ہے پیغمبر اسلام کو بھی شامل کرتی ہے بشرطیکہ یہ حدیث اس قدر صحیح و معتبر ہو کہ ان قرآنی آیتوں کی تخصیص کردے، لیکن افسوس کہ یہ حدیث کہ جس پر خلیفہ اول نے اعتماد کیا ہے اس قدر غیر معتبر ہے جس کوہم یہاںبیان کر رہے ہیں۔

۱۔ پیغمبر کے صحابیوں میں سے کسی نے بھی اس حدیث کو نقل نہیں کیا ہے اور صرف اس کو نقل کرنے میں خلیفہ اول فردفرید ہیں۔

اور ہم نے جو یہ کہا ہے کہ حدیث نقل کرنے میں صرف وہی ہیں تو یہ غلط عبات نہیں ہے بلکہ یہ مطلب تاریخ کے دامن میں تحریر ہے اور مسلمات میں سے ہے چنانچہ ابن حجر نے تنہا اس حدیث کے نقل کرنے کی بنا پر ان کی اعلمیت کا اعتراف کیا ہے۔(۱)

جی ہاں، صرف تاریخ میں جو چیز بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اور عباس کے درمیان پیغمبر کی میراث کے بارے میں جواختلاف تھا۔(۲) عمر نے دونوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے اسی حدیث کا سہارا لیا جسے خلیفہ اول نے نقل کیا تھا اور اس مجمع میں سے پانچ لوگوںنے اس کے صحیح ہونے پر گواہی دی۔(۳) ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:

پیغمبر کی رحلت کے بعد صرف ابوبکر نے اس حدیث کو نقل کیا تھا ،ان کے علاوہ کسی نے اس

حدیث کو نقل نہیں کیا اور کبھی کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ مالک بن اوس نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ البتہ، عمر کی خلافت کی زمانے میں بعض مہاجرین نے اس کے صحیح ہونے کی گواہی دی ہے۔(۴)

______________________

(۱) صواعق محرقہ ص ۱۹۔

(۲) حضرت علی علیہ السلام کا عباس سے اختلاف جس طرح سے اہلسنت کی کتابوں میں نقل ہوا ہے وہ محققین شیعہ کی نظر میں غیر قابل قبول ہے۔

(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶ ص ۲۲۹، صواعق محرقہ ص ۲۱۔

(۴) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۶ ص ۲۲۷۔

۲۳۷

ایسی صورت میں کیا یہ صحیح ہے کہ خلیفہ جو کہ خود بھی مدعی ہے ایسی حدیث کو بطور گواہ پیش کرے کہ اس زمانے میں اس کے علاوہ کسی کو بھی اس حدیث کی اطلاع نہ ہو؟

ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ قاضی فیصلہ کرتے وقت اپنے علم پر عمل کرسکتا ہے اوراپنے کینہ اپنے علم و آگاہی کی بنیاد پر فیصلہ کرے، اور چونکہ خلیفہ نے اس حدیث کو پیغمبر سے سنا تھا لہٰذااپنے علم کی بنیادپر اولاد کی میراث کے سلسلے میں جو آیتیں ہیں انہیں تخصیص دیدیں،اور پھر اسی اساس پر فیصلہ کریں، لیکن افسوس، خلیفہ کامتضادکردار اور فدک دینے میں کشمکش کا شکار ہونا اور پھر دوبارہ فدک واپس کرنے سے منع کرنا (جس کی تفصیل گذر چکی ہے) اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ انہیں حدیث کے صحیح ہونے پر یقین و اطمینان نہ تھا۔

اس بناء پر ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ خلیفہ نے پیغمبر کی بیٹی کو ان کے باپ کی میراث نہ دینے میں اپنے علم کے مطابق عمل کیا ہے اور قرآن مجیدکی آیتوں کو اس حدیث سے جو پیغمبر سے سنا تھا مخصوص کردیا ہے؟

۲۔اگر خداوند عالم کا پیغمبر کے ترکہ کے بارے یہ حکم تھا کہ ان کا مال عمومی ہے اور مسلمانوں کے امور میں صرف ہو، تو کیوں پیغمبر نے اپنے تنہا وارث سے یہ بات نہیں بتائی؟ کیا یہ بات معقول ہے کہ پیغمبر اپنی بیٹی سے اس حکم الہی کو جو خود ان سے مربوط تھا پوشیدہ رکھیں؟ یا یہ کہ ان کو باخبر کردیں مگر وہ اسے نظر انداز کردیں؟

نہیں ۔ یہ ایساہرگز ممکن نہیں ہے ،کیونکہ پیغمبرکی عصمت اور آپ کی بیٹی کا گناہ سے محفوظ رہنا اس چیز کے لئے مانع ہے کہ اس طرح کا احتمال ان کے بارے میں دیا جائے؛ بلکہ ضروری ہے کہ حضرت فاطمہ کے انکار کواس بات پر گواہ سمجھیں کہ ان چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ حدیث ان لوگوںکی من گھڑت ہے جن لوگوں نے سیاسی طور پر یہ ارادہ کیا کہ پیغمبر کے حقیقی وراث کو ان کے شرعی حق سے محروم کردیں۔

۳۔ وہ حدیث جس کو خلیفہ نے نقل کیا تھا اگر واقعاً وہ صحیح تھی تو پھر کیوں فدک مختلف سیاستوںکا شکار رہااور ہر نئے خلیفہ اپنے دوران حکومت میںمتضاد کردار اداکیا؟ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فدک خلفاء کے زمانے میں ایک آدمی کے پاس نہ تھا کبھی فدک ان کے حقیقی مالکوں کو واپس کیا گیا تو کبھی حکومت کے قبضے میں رہا، بہرحال ہر زمانے میں فدک ایک حساس مسئلہ اور اسلام کے

۲۳۸

پیچیدہ مسائل کے طور پر تھا۔(۱) جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ عمر کی خلافت کے دور میں فدک علی علیہ السلام اور عبا س کو واپس کر دیا گیا تھا(۲) خلافت عثمان کے زمانے میں مروان کی جاگیر تھا معاویہ کے خلافت کے دور میں اور امام حسن بن علی کی شہادت کے بعد فدک تین آدمیوں کے درمیان (مروان، عمر وبن عثمان، یزید بن معاویہ) تقسیم ہوا پھر مروان کی خلافت کے دوران تمام فدک اسی کے اختیار میں تھا اور مروان نے اسے اپنے بیٹے عبد العزیز کو دے دیا، اور خود اس نے بھی اپنے بیٹے عمر کے نام ہبہ کردیا۔عمر بن عبد العزیز نے اپنی حکومت کے زمانے میں حضرت زہرا کی اولادوں کے حوالے کردیا اور جب یزید بن عبدالملک نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو فدک کو حضرت فاطمہ کے بچوں سے واپس لے لیا اور کافی عرصے تک بنی مروان کے خاندان میں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں جاتارہایہاں تک کہ ان کی حکومت کا زمانہ ختم ہوگیا۔

بنی عباس کی خلافت کے زمانے میں بھی فدک مختلف لوگوں کے پاس رہا، ابو العباس سفاح نے اسے عبد اللہ بن حسن بن علی کے حوالے کردیا، ابو جعفر منصور نے اسے واپس لے لیا ، مہدی عباسی نے اسے اولاد فاطمہ کو واپس کردیا موسی بن مہدی اوراس کے بھائی نے اسے واپس لے لیا یہاں تک خلافت مامون تک پہونچی اور اس نے فدک اس کے حقیقی مالک کو واپس کردیا اور جب متوکل خلیفہ ہوا تواس نے فدک کو اس کے حقیقی مالک سے چھین لیا۔(۳) اگر پیغمبر کے فرزندوں کو پیغمبر کے ترکہ سے محروم کرنے والی حدیث صحیح اور مسلّم ہوتی تو فدک کبھی بھی دربدر کی ٹھوکر نہ کھاتی۔

۴۔ پیغمبر اسلام نے فدک کے علاوہ دوسری چیزیں بھی ورثہ میں چھوڑیں، لیکن خلیفہ اول نے تمام

______________________

(۱) اس سلسلے میں مزید معلومات کے لئے کتاب الغدیر مطبوعہ نجف ج۷ ص ۱۵۶ تا ۱۹۶ ، پڑھ سکتے ہیں۔

(۲) یہ عبارت امام ـ کی اس نامہ سے سازگار نہیں ہے جو آپ نے عثمان بن حنیف کو لکھا تھا آپ وہاں لکھتے ہیں:''کانت فی ایدنا فدک من کل ما اظلته السماء فشحت علیها نفوس قوم و سخت عنها نفوس قوم آخرین و نعم الحکم لله'' یعنی وہ چیز جس پر آسمان نے اپنا سایہ کیا ہے اس میں سے صرف فدک میرے اختیار میں ہے جب کہ بعض گروہ نے اسے لالچ کی نگاہ سے دیکھا اور دوسری گروہ نے اسے نظر انداز کردیاواہ کیاخوب ہے خدا کا فیصلہ۔

(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶ ص ۲۱۷۔ ۲۱۶۔

۲۳۹

ورثے میں سے صرف فدک کو ہی زبردستی چھین لیا اور باقی تمام مال رسول خدا کی بیویوں کے گھر میں موجود تھا اور بالکل اسی طرح ان کے ہاتھوں میں باقی رہا اور خلیفہ نے کبھی بھی ان کی طرف رخ نہیں کیا اور کسی کو بھی اس کے لئے نہ بھیجا کہ جاکر گھروں کے حالات معلوم کرے کہ کیا وہ خود پیغمبر کی ملکیت ہے یا حضرت نے اپنی زندگی ہی میں اپنی بیویوں کو دیدیا تھا۔

ابوبکر نے نہ یہ کہ اس سلسلے میں تحقیق نہیں کیا بلکہ پیغمبر کے جوار میں دفن ہونے کے لئے اپنی بیٹی عائشہ سے اجازت مانگی ،کیونکہ وہ اپنی بیٹی کو پیغمبر کا وارث مانتے تھے۔

انہوں نے نہ یہ کہ ازدواج پیغمبر کے گھروںکو نہیں لیا بلکہ رسول خدا کی انگوٹھی، عمامہ، تلوار، سواری، لباس وغیرہ جو حضرت علی کے ہاتھ میں تھے توواپس نہیں لیا اورا س سلسلے میں کبھی کوئی گفتگو بھی نہیں کی۔

ابن ابی الحدید معتزلی اس تبعیض کودیکھ کر اتنا مبہوت ہوگئے کہ وہ چاہتے تھے کہ خود اپنی طرف سے اس کی توجیہ کریں لیکن ان کی توجیہ اتنی بے اساس اور غیر معقول ہے کہ وہ نقل اورتنقید کے لائق نہیں ہے(۱)

کیا میراث سے محروم ہونا صرف پیغمبر کی بیٹی سے مخصوص تھا ،یاان میں تمام ورثاء بھی شامل تھے، یا اصلاً محرومیت کی بات ہی نہ تھی صرف سیاسی مسئلہ تھا اور وہ یہ کہ حضرت فاطمہ زہرا کو ان کی میراث سے محروم کردیا جائے؟

۵۔ اگر شریعت اسلامی میں پیغمبر کے وارثوں کا ان کی میراث سے محروم ہونا یقینی امر تھا تو کیوں پیغمبر کی بیٹی نے جن کی عصمت پر آیت تطہیر کا پہرہ ہے اپنے شعلہ ور خطبہ میں اس طرح فرمایا:

''یابن ابی قحافة أفی کتاب الله ان ترث أباک و لاارث ابی؟ لقد جئت شیئاً فریاًّ افعلی عمد ترکتم کتاب الله فنبذتموه وراء ظهورکم و و زعمتم ان لا خطَّ لی و لاارث من ابی و لارحم بیننا؟ افخصّکم الله بآیة اخرج ابی منها ام هل تقولون: ان اهل ملتین لایتوارثان؟ او لست أنا و ابی من اهل ملة واحدة ام أنتم اعلم بخصوص القرآن و عمومه من ابی و ابن عمّی؟ فدونکها مخطومة مرحولة تلقاک یوم حشرک

_____________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶ ص۲۶۱۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

تاریخ دہراتی ہے

یہ واقعہ بذات خود بے مثال نہیں ہے بلکہ جنگ صفین میں کم وبیش اس طرح کا واقعہ ہوا ہے جس میں بعض کی طرف ہم اشارہ کررہے ہیں۔

۱۔ نعیم بن صہیب بَجلی عراقی قتل ہوا اس کاچچازاد بھائی نعیم بن حارث بَجلی جو شام کی فوج میں تھا ، اس نے معاویہ سے اصرار کیا کہ اپنے چچازاد بھائی کی لاش کو کپڑے سے چھپادے، لیکن اس

نے اجازت نہیں دی اور بہانہ بنایا کہ اسی گروہ کے خوف سے عثمان کو رات میں دفن کیا گیا لیکن بَجلی شامی نے کہا یا تو یہ کام انجام پائے گایا تجھے چھوڑ دوں گا اور علی کے لشکر میں شامل ہوجاؤں گاآخرکار معاویہ نے اسے اجازت دی کہ اپنے چچا زاد بھائی کے جناز ے کو دفن کردے۔(۱)

۲۔ قبیلۂ ازد کے دو گروہ آمنے سامنے تھے ان دونوں قبیلوں میں سے ایک قبیلے کے سردار نے کہا سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ایک ہی قبیلہ کے دو گروہ ایک دوسرے سے مقابلے کے لئے آمادہ ہیں۔ خدا کی قسم، ہم اس جنگ میں اپنے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ پیر کاٹنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر سکتے اور اگر یہ کام انجام نہ دیا تو ہم نے اپنے رہبر اور قبیلے کی مدد نہیں کی، اور اگر انجام دیں تو اپنی عزت کو برباد اور اپنی زندگی کی لو کو خاموش کردیا ہے۔( ۲)

۳۔ شامیوں میں سے ایک نے میدان ِ میں قدم رکھا اور جنگ کی دعوت دی ،عراق کا ایک شخص اس سے مقابلہ کرنے کے لئے مید ان میں آیا اور دونوںنے زبردست حملے کئے بالآخر عراقی نے شامی کی گردن پکڑی اور اسے زور سے زمین پرپٹک دیا اور اس کے سینے پر بیٹھ گیا جس وقت اس نے خودشامی کے چہرے سے نقاب اور سر سے ٹوپی اتاری تو دیکھا کہ اس کا اپنا بھائی ہے! اس نے امام علیہ السلام کے دوستوں سے کہا کہ امام علیہ السلام سے کہو کہ اس مشکل کو حل کریں۔ امام علیہ السلام نے حکم دیا کہ اُسے آزاد کردو لہٰذا اس نے آزاد کردیا اس کے باوجود وہ دوبارہ معاویہ کی فوج میں شامل ہوگیا۔(۳)

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۲۵۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۰۷۔ تاریخ طبری ج ۳جزئ۶، ص۱۴،کامل ابن اثیرج ۳ص۱۵۴۔---(۲) وقعہ صفین ص۲۶۲۔ تاریخ طبری ج ۳،جزئ۶، ص۱۵۔شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵،ص۲۰۹۔---(۳)وقعہ صفین ص۲۷۲۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۱۵۔

۶۰۱

۴۔ معاویہ کی فوج سے ایک شخص بنام ''سوید'' میدان میں آیا اور مقابلے کے لئے للکارا امام علیہ السلام کی فوج سے قیس میدان میں آئے، جب دونوں نزدیک ہوئے تو ایک دوسرے کو پہچان گئے اور دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے رہبر و پیشوا کی طرف آنے کی دعوت دی، قیس نے امام علیہ السلام سے اپنی محبت و ایمان کو اپنے چچازاد بھائی سے بیان کیااور کہا،وہ خدا کہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اگر ممکن ہوتا تو اس تلوار سے اس سفید خیمے(معاویہ کا خیمہ) پر اتنا زبردست حملہ کرتا کہ صاحب خیمہ کا کوئی آثار باقی نہ رہتا۔(۱)

شمر بن ذی الجوشن امام علیہ السلام کی رکاب میں

تعجب کی بات (ایسی حیرت و تعجب جس کی کوئی انتہاء نہیں ہے) یہ ہے کہ شمر جنگ صفین میں امام علیہ السلام کے ہمراہ تھا، اور میدان جنگ میں''ادھم''نام کے ایک شامی نے اس کی پیشانی پر سخت ضربت لگائی جس سے اس کی ہڈی ٹوٹ گئی،وہ بھی بدلہ لینے کے لئے اٹھا اور شامی پر تلوار سے زبردست حملہ کیا، مگر کوئی فائدہ نہ ہوا، شمر اپنی توانائی واپس کرنے کے لئے اپنے خیمے میں پانی پیا اور ہاتھ میں نیزہ لے لیا پھر میدان میں آگیا اس نے دیکھا کہ شامی اسی طریقے سے اپنی جگہ پر کھڑا ہے، اس نے شامی کو مہلت نہ دی اور اپنا نیزہ اس کے اوپر اس طرح مارا کہ وہ گھوڑے سے زمین پر گر گیا اور اگر فوج شام سے لوگ اسکی مدد کو نہ پہونچتے تو اسے قتل کردیتا اس وقت شمر نے کہا یہ نیزہ کی مار اس حملہ کے مقابلے میں ہے۔(۲)

______________________

(۱)وقعہ صفین ص۲۶۸۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۱۳۔

(۲)تاریخ طبری ج ۳جزئ۶، ص۱۸۔شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۱۳۔

۶۰۲

شہادت پر فخر و مباہات

شہادت اور اللہ تعالیٰ سے عشق و محبت پر مومنین اور قیامت پر ایمان و اعتقاد رکھنے والے ہی افتخار کرتے ہیں اورمقد س مقصد کے تحت جنگ کرتے ہیں اور یہ افتخار اور فخرو مباہات ایک ایسی ثقافت ہے جو دوسری قوموں میں نہیں ، شہادت سے عشق و محبت قیام و جہاد کے لئے ایک بہترین محرّک اور علت ہے، شہید اپنی چند روزہ زندگی کو ابدی زندگی سے اسی عقیدے کی بنا پر تبدیل کرتا ہے اور پھر وہ اپنے مقصد کے پیش نظر کسی کو نہیں پہچانتا ہے۔

جنگ صفین کے زمانے میں ایک دن فوج شام کے قبیلۂ بنی اسد کا ایک بہادر سپاہی میدان میں آیا اور جنگ کے لئے بلایا عراقی فوجی اس بہادر کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے اچانک ایک ضعیف شخص بنام''مقطّع عامری'' اٹھا تاکہ بنی اسد کے اس شخص سے لڑنے کے لئے میدان میںجائے،لیکن جب امام علیہ السلام متوجہ ہوئے تو اسے میدان جنگ میں جانے سے منع کردیا، ادھر اس شامی بہادر کیهَلْ مِنْ مبارز کی بلند آواز نے لوگوں کے کانوں کوبہرا کر دیا تھا۔ ادھر ہر مرتبہ و ہ ضعیف جو شہادت کا عاشق تھا اپنی جگہ سے مقابلے کے لئے اٹھتا تھا لیکن امام اُسے منع کردیتے تھے، اس ضعیف نے عرض کیا اے میرے مولا، اجازت دیجیے کہ اس جنگ میں شرکت کروں تا کہ شہید ہو جاؤں اور بہشت کی طرف جاؤں یا اسے قتل کردوںاور اس کے شرّ سے آپ کو امان دوں ، امام علیہ السلام نے اس مرتبہ اسے اجازت دی اور اس کے حق میں دعا کی۔

۶۰۳

اس دلیر اور بہادر کے عاشقانہ حملے نے اس بہادر شامی کے دل میں ایسا رعب پیدا کر دیا کہ اسے بھاگنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ اور اتنا دور ہوگیا کہ خود کو معاویہ کے خیمے کے پاس پہونچا دیا لیکن اس بوڑھے مجاہد نے اس کا وہاں تک پیچھا کیا اور جب اس کو نہ پایا تو اپنی جگہ پر وآپس آگیا۔ اور جب علی علیہ السلام کی شہادت ہوگئی اور لوگوں نے معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کی تو معاویہ نے مقطّع عامری کو تلاش کرایا اور اسے اپنے پاس بلایا،مقطّع جب کہ پیری اور ضعیفی کی زندگی بسر کر رہے تھے معاویہ کے پاس آئے۔

معاویہ:بھائی ، اگر تم ایسی حالت میں(بہت بڑھاپا اور ضعیفی میں ) میرے پاس نہ آئے ہوتے تو ہرگز میرے ہاتھ سے نہ بچتے (یعنی قتل کردیتا)

عامری:میں تجھے خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ مجھے قتل کردے اور ایسی ذلت کی زندگی سے مجھے نجات دیدے اور خدا کی ملاقات سے نزدیک کردے۔

معاویہ: میں ہرگز تمھیں قتل نہیں کروں گا بلکہ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔

عامری: تیری حاجت کیا ہے؟

معاویہ: میری حاجت ہے کہ میں تمھارا بھائی بنوں۔

عامری: میں خدا کے لئے تجھ سے پہلے ہی جدا ہوچکا ہوں اور اسی حالت پر باقی ہوں تاکہ خدا وند عالم قیامت کے دن ہم لوگوں کو اپنے پاس بلائے اور ہمارے اور تمھارے درمیان فیصلہ کرے۔

معاویہ: اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو۔

عامری: میں نے اس سے آسان درخواست کو ٹھکرادیا تو پھر یہ درخواست کہا ں (قبول کرسکتا ہوں)

معاویہ: مجھ سے کچھ مال لے لو۔

۶۰۴

عامری: مجھے تمھارے مال کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)

ایک فوجی حکمت عملی

دسویں دن یا اس کے بعد جب کہ عراقیوں اور شامیوں کی سواروںکے درمیان گھمسان کی

جنگ ہو رہی تھی، امام علیہ السلام کی فوج کے ایک ہزار آدمیوں کا شامیوں نے محاصرہ کر لیا اور ان لوگوں کا رابطہ آپ سے منقطع ہوگیا اس وقت امام علیہ السلام نے بلند آواز سے فرمایا، کیا کوئی نہیں ہے جو خدا کی رضاخریدے اور اپنی دنیا کو آخرت کے بدلے بیچ دے؟ عبدالعزیز کا لے گھوڑے پر سوار اور زرہ پہنے ہوئے آنکھ کے علاوہ بدن کا کوئی حصّہ نظر نہیں آرہا تھا امام علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا آپ جو بھی حکم دیں گے اسے انجام دوںگا، امام علیہ السلام نے اس کے لئے دعا کی اور کہا: فوج شام پر حملہ کرو اور خود کو گھیرے ہوئے لوگوں تک پہونچا دو اور جب ان کے پاس پہونچنا تو کہنا کہ امیر المومنین نے تمھیںسلام کہا ہے اور کہا ہے کہ تم لوگ اس طرف سے تکبیر کہو اور ہم اس طرف سے تکبیر کہتے ہیں اور تم لوگ اس طرف سے اور ہم اس طرف سے حملہ کریں تاکہ محاصرہ کو ختم کردیںاور تم لوگوں کو آزادی مل جائے۔

امام علیہ السلام کے بہادر سپاہی نے فوج شام پرزبردست حملہ کیا اور اپنے کو محاصرہ ہوئے لوگوں تک پہونچایااور امام علیہ السلام کا پیغام پہونچایا، لوگ امام علیہ السلام کا پیغام سن کر بہت خوش ہوئے اور اس وقت تکبیر و تہلیل کی آوازاور دونوں طرف سے جنگ شروع ہوگئی اور محاصرہ ختم ہوگیا اور محاصرہ ہوئے لوگ امام علیہ السلام کے لشکرسے مل گئے۔ شامیوں کے آٹھ سو لوگ مارے گئے اورجو بچے وہ پیچھے ہٹ گئے اور جنگ وقتی طور پر رک گئی۔(۲)

_______________________________

(۱)۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۲۴،۲۲۳۔ وقعہ صفین ص ۲۷۸۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۴۳۔ وقعہ ٔ صفین ص ۳۰۸۔

۶۰۵

شدیدجنگ کے دوران سیاسی ہتھکنڈے

امور جنگ کے ماہرین نے امام علی علیہ السلام کی فوج کے اجتماعی حملے کو ابتدأ ہی میں دیکھ کر یہ

سمجھ گئے تھے کہ جنگ میں اما م کے لشکر کو کامیابی ملے گی، کیونکہ وہ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ہر دن جنگ کے حالات امام علیہ السلام کے حق میں جارہے ہیں اور معاویہ کی فوج نابودی اور موت کی طرف جا رہی ہے۔ یہ کامیابی ان علتوں کی بنأ پر تھی جس میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں:

۱۔ سب سے بڑے سردار کی شائستہ اور مدّبرانہ رہبری ،یعنی حضرت علی علیہ السلام ،اور اسی صحیح نظام ِ رہبری کی وجہ سے معاویہ کی فوج تقریباً اما م کے لشکر سے دوگنی تھی، قتل ہوئی (جنگ صفین کے واقعات نقل کرنے کے بعد دونوں فوج کے مرنے والوں کی تعداد تحریر کی جائے گی)

۲۔ امام علیہ السلام کی بے مثال شجاعت و بہادری کہ دنیا نے آج تک ایسا بہادر نہیں دیکھا، ایک دشمن کے قول کے مطابق، علی علیہ السلالم نے کسی بھی بہادر سے مقابلہ نہیں کیا مگر یہ کہ زمین کو اس کے خون سے سیراب کردیااس سور ما کی بنا پر عراقیوں کے سامنے سے بڑے بڑے شر ہٹا لئے گئے اور دشمنوں کے دل میں زبردست رعب بیٹھ گیا اور میدان جنگ میں ٹھہرنے کے بجائے بھاگنے کو ترجیح دیا۔

۳۔ امام علیہ السلام کی فوج کا آنحضرت کی فضیلت،خلافت،تقویٰ اور امامت برحق پر ایمان وعقیدہ رکھنا، جن لوگوں نے نص الہٰی کو رہبری کا ملاک سمجھااور جنہوں نے انصارو مہاجرین کے انتخاب کو معیار خلافت جانا، وہ سب کے سب امام علیہ السلام کے پرچم تلے حق و عدالت کے ساتھ باطل و سرکش سے جنگ کرنے آئے تھے، جب کہ معاویہ کی فوج کی حالت کچھ اورہی تھی،اگرچہ کچھ خلیفہ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے معاویہ کے ساتھ آئے تھے اور ان کے لئے تلوار چلا رہے تھے مگر بہت زیادہ لوگ مادیت کی لالچ اور دنیا طلبی کے لئے اس کے ہمراہ آئے تھے اور ان میں سے بعض گروہ امام علیہ السلام سے دیر ینہ بغض وعداوت کی وجہ سے یہاں آئے تھے اور یہ حقیقت کسی بھی مؤرخ سے پوشیدہ نہیں ہے۔

۴۔ امام علیہ السلام کی فوج میں مشہور و معروف اور امت اسلامیہ کی محبوب شخصیتوں کا موجود ہونا، وہ عظیم شخصیتیں جنہوں نے پیغمبر اسلام (ص)کے ہمرکاب ہو کر بدر، اُحد ،حنین میں جنگیں کی تھیں اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی سچائی اور پاکیزگی پر گواہی دی تھی،

۶۰۶

ان لوگوں میں چند کا نام قابل ذکر ہے مثلاً عمار یاسر، ابوایوب انصاری،قیس بن سعد، حُجر بن عدی اور عبد اللہ بن بدیل ، جنہوں نے معاویہ کی فوج کے بہت سے خود غرض لیکن سادہ لوح سپاہیوں کے دل میں شک و تردید پیدا کر دی تھی، یہ علتیں اور دوسری چیزیں سبب بنیں کہ معاویہ اور اس کی دوسری عقل عمرو عاص نے اپنی شکست کو قطعی سمجھااور اس سے بچنے کے لئے سیاسی حربے چلنے لگا تاکہ امام علیہ السلام کی فوج کی کامیابی کو کسی بھی صورت سے روک سکے، اور وہ سیاسی حربہ، علی علیہ السلام کی فوج کے سرداروں سے خط و کتابت اور ان لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے اور امام کی فوج میں تفرقہ و اختلاف کرنے کا تھا۔

۱۔ جنگ صفین میں امام علیہ السلام کی فوج میںسب سے وفادار ربیعہ والے تھے اگرچہ قبیلۂ مُضَر والے اپنی جگہ سے ہٹ گئے لیکن قبیلہ ربیعہ والے پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پر موجو د رہے. جب امام علیہ السلام کی نظر ان کے پرچموں پر پڑی تو آپ نے پوچھا کہ یہ پرچم کس کے ہیں لوگوں نے کہا یہ پرچم ربیعہ کے ہیں اس وقت آپ نے فرمایا:''هِیَ رایات عَصَمَ اللّٰه أهلهاو صبَّر هم و ثبّتَ اَقْدامهم'' (۱)

''یعنی یہ سب خدا کے پرچم ہیں خدا ان کے مالکوں کی حفاظت کرے اور انہیں صبر عطا کرے اور یہ ثا بت قدم رہیں''

امام علیہ السلام کو خبر ملی کہ اسی قبیلے کا ایک سردار خالد بن معمّر، معاویہ سے قریب ہوگیا ہے اور اس کے اور معاویہ کے درمیان ایک خط یا متعد د خطوط لکھے جاچکے ہیں تو امام علیہ السلام نے فوراً اس کواور قبیلہ ربیعہ کے بزرگوں کو طلب کیا اور ان سے فرمایا:اے قبیلہ ربیعہ کے لوگو ،تم لوگ میرے چاہنے والے اور میری آواز پر لبیک کہنے والے ہو، مجھے خبر ملی ہے کہ تمھارے سرداروں میں سے کسی ایک نے معاویہ کے ساتھ خط و کتابت کی ہے اور پھر خالد کی طرف نگاہ کی اور کہا : اگر تمھارے متعلق جو باتیں ہم تک پہونچی ہیں اگر وہ سچی ہیں تو میں تمھیں بخش دوں گا اور امان دوں گا لیکن شرط یہ ہے کہ عراق اور حجاز یا ہر وہ جگہ جہاںپر معاویہ کی حکومت و قدرت نہیں ہے وہاں جا کر زندگی بسر کرو اور اگر وہ چیزیں جو تمھارے متعلق ہم تک پہونچی ہیں جھوٹی ہیں تو ہمارے دھڑکتے ہوئے دل کواپنی مطمٔن قسم کے ذریعے آرام پہونچاؤ،اس نے اسی وقت سب

______________________

(۱)تاریخ طبری ج ۳جزء ۶ ص۱۹،۸۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۲۶،۲۲۵۔

۶۰۷

کے سامنے قسم کھائی کہ ہرگز ایسا نہیں ہے اس کے دوستوں نے کہا اگر یہ بات سچی ہوگی تو اسے قتل کردیں گے اور انہیں میں سے ایک شخص زید بن حفصہ نے امام علیہ السلام سے کہا خالد کی قسم پر آپ کوئی چیز بطور ضمانت رکھئے تاکہ آپکے ساتھ خیانت نہ کرے(۱)

تمام قرأین سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام علیہ السلام کی فوج میں وہ معاویہ کی طرف سے خصوصی نمائندہ تھا اور کامیابی کے وقت یہاں تک کہ اس موقع پر کہ عنقریب تھا کہ لوگ معاویہ تک پہونچیں اور اس کے خیمے میں اسے گرفتار کرلیں ،خالد نے فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا اور پھر اپنے کام کی توجیہ پیش کرنے لگا اس سلسلے میں چند باتوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔

امام علیہ السلام نے میسرہ قبیلہ ربیعہ کے سپرد کیا تھا اور اس کی سرداری عبداللہ ابن عباس کے ہاتھوں میں تھی، امام علیہ السلام کا میسرہ معاویہ کے میمنہ کے مقابلے میں تھا اور اس کی ذمہ داری شام کی مشہور ترین شخصیتیں ذوالکلاع حمیری اورعبیداللہ بن عمر کے ہاتھوں میں تھی قبیلہ حمیر، ذوالکلاع کی سرداری میں اور عبید اللہ نے سواروں اور پیادوں کے ساتھ امام علیہ السلام کے میسرہ پر شدید حملہ کیا لیکن زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوا دوسرے حملے میں عبیداللہ بن عمر فوج کے بالکل آگے کھڑا ہوا اور شامیوں سے کہا عراق کے اس گروہ نے عثمان کو قتل کیا ہے اگر ان لوگوں کو شکست دیدیا تو تم نے انتقام لے لیا اور علی کو نابود کردیا ۔ اس حملے میں بھی ربیعہ کے لوگوں نے ثابت قدم رہتے ہوئے اپنا دفاع کیا اور کمزوروناتواں لوگوں کے علاوہ کوئی بھی پیچھے نہ ہٹا۔

امام علیہ السلام کی فوج کے تیز بین لوگوں نے بتا دیاکہ جس وقت خالد نے امام علیہ السلام کی فوج کے کچھ لوگوں کو پیچھے ہوتے دیکھا تو وہ بھی ان کے ساتھ پیچھے ہونے لگا اور چاہا کہ اپنے اس عمل سے امام کی فوج کے ثابت قدم سپاہیوں کو پیچھے ہٹنے کے لئے آمادہ کرے لیکن جب اس نے ان لوگوں کی ثابت قدمی دیکھی تو فوراً ان لوگوں کی طرف واپس چلا گیا اور اپنے فعل کی توجیہ کرنے لگا اور کہا: میرے پیچھے ہٹنے کا مطلب یہ تھا کہ جو لوگ بھاگ رہے تھے ان کو تم لوگوں کی طرف واپس پلٹا دوں۔(۲)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج ۳جزء ۶ ص۱۹،۸۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۲۶،۲۲۵۔

(۲)تاریخ طبری ج ۳ جز ۶ ص ۱۹۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۵۶

۶۰۸

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں :

اسلامی مؤرخین مثلاً کلبی اور واقدیمی کا نظریہ ہے کہ خالد نے جان بوجھ کر دوسرے حملے میں پیچھے ہٹنے کا حکم دیا تھا تاکہ میسرہ میں امام کی فوج شکست کھاجائے کیونکہ معاویہ نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اگر امام کی فوج پر اس نے کامیابی حاصل کرلی تو جب تک خالد زندہ رہے گا خراسان کی گورنری اسے دے دے گا۔(۱)

ابن مزاحم لکھتے ہیں :

معاویہ نے خالد سے وعدہ کیا تھا کہ اگر اس جنگ میں کامیابی ملی تو خراسان کی گورنری اس کے ہاتھ میں ہوگی، خالد معاویہ کے دھوکہ میں آگیا مگراس کی آرزو پوری نہ ہوسکی کیونکہ جب معاویہ نے حکومت کی ذمہ داری سنبھالی تو اسے خراسان کاگورنر تو بنادیا لیکن اس سے پہلے کہ معین شدہ جگہ پر پہونچتا آدھے ہی راستے میں ہلاک ہوگیا۔(۲)

شام کی فوج عبید اللہ ابن عمر کے وجود پر افتخار کرتی تھی اور کہتی تھی کہ پاکیزہ کا بیٹا ہمارے ساتھ ہے اور عراقی محمد بن ابو بکرپرافتخار کرتے تھے اور اسے طیب بن طیب(اچھا اور اچھے کا بیٹا) کہتے تھے۔

جی ہاں، بالآخرشام کی فوج حمیرا اور امام کی فوج ربیعہ کے درمیان زبردست جنگ کی وجہ سے دونوں طرف کے بہت زیادہ افراد مارے گئے اور سب سے کم نقصان یہ تھا کہ امام علیہ السلام کی فوج سے پانچ سو سپاہی جب کہ وہ سر سے پیر تک اسلحوں سے لیس تھے اور ان کی آنکھوں کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا میدان جنگ میں آئے اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں معاویہ کی فوج کے سپاہی ان سے مقابلے کے لئے میدان میں آئے پھر دونو ں گروہوں کے درمیان زبردست جنگ ہوئی اور دونوں فوجوں میں سے کوئی ایک بھی اپنی چھاؤنی میں واپس نہیں گیا اور سب کے سب مارئے گئے۔

دونوں فوجوں کے دور ہوتے وقت سروں کے ٹیلوں میں سے ایک سر نیچے گرا جسے''تل الجماجم'' کہتے ہیں، اور اسی جنگ میں ذوالکلاع جو معاویہ کا سب سے بڑا محا فظ تھا اور قبیلۂ حمیر کو معاویہ

_______________________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ ص ۲۲۸

(۲) وقعہ صفین ص ۳۰۶

۶۰۹

کی جان کی حفاظت کے لئے آمادہ کرتا تھا خندف نامی شخص کے ہاتھوں ماراگیا اور حمیریان کے درمیان عجیب خوف وہراس پیدا ہوگیا۔(۱)

۲۔ عبید اللہ بن عمر نے جنگ کے شدید ترین لمحات میں شیطنت اور تفرقہ ایجاد کرنے کے لئے کسی کو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا اور ان سے ملاقات کرنے کی درخواست کی امام حسن علیہ السلام نے امام کے حکم سے اس سے ملاقات کی، گفتگو کے دوران عبید اللہ نے امام حسن علیہ السلام سے کہا ، تمھارے باپ نے پہلے بھی اور اس وقت بھی قریش کا خون بہایا ہے کیا تم اس بات کے لئے آمادہ ہو کہ ان کے جانشین بنو، اور تمھیں مسلمانوں کے خلیفہ کے عنوان سے پہچنوائیں؟امام علیہ السلام نے بہت تیز اس کے سینہ پر ہاتھ مارا اور اس وقت علم امامت کے ذریعے عبید اللہ کے ذلت سے مارے جانے کی اُسے خبر دی اور کہا آج یا کل تو مارا جائے گا۔ آگاہ ہوجا کہ شیطان نے تیرے بُرے کام کو تیری نظر میں خوبصورت بنا کر دکھایا ہے، راوی کہتا ہے کہ وہ اسی دن یا دوسرے دن چار ہزار سبز پوش سپاہیوں کے ساتھ میدان میں آیا اور اسی دن قبیلہ ہمدان سے تعلق رکھنے والے ہانی بن خطاب کے ہاتھوں مارا گیا۔(۲)

۳۔معاویہ نے اپنے بھائی عتبہ بن سفیان کوجو فصیح وبلیغ تقریر کرنے والا تھا اپنے پاس بلایا اور کہاکہ اشعث بن قیس کے ساتھ ملاقات کرو، اور اسے صلح اور سازش کے لئے دعوت دو، وہ امام علیہ السلام کی فوج میں آیا اور بلند آواز سے پکارا ، لوگو اشعث کو خبرکردو کہ معاویہ کی فوج کا ایک شخص تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہے، اس نے کہاکہ اس کا نام پوچھو اور جب سے خبر دی کہ وہ عتبہ بن سفیان ہے تو کہا وہ جو ان خوش کلام ہے اس سے ملاقات کرنا چاہیے عتبہ نے جب اشعث سے ملاقات کی تو اس سے کہا:اگر معاویہ علی کے علاوہ کسی اور سے ملاقات کرتاتو تم سے کرتاکیونکہ تم عراقیوں اوریمنیوں میں سب سے بزرگ ہو اور عثمان کے داماد اور اس کے زمانے میں حاکم تھے تم اپنے کو علی کی فوج کے دوسرے سپہ سالاروں سے برابری نہ کرو، کیونکہ اشتر وہ ہے جس نے عثمان کو قتل کیا اور عدی حاتم وہ ہے جس نے لوگوں کو قتل عثمان پر ورغلایا اور سعید بن قیس وہی ہے جس کی دیت ،امام علی نے اپنے ذمہ لی ہے اور شریح اور زحربن قیس خواہشات نفس کے علاوہ کوئی دوسری چیز

______________________

(۱) وقعہ صفین ص ۳۰۶-------(۲) وقعہ صفین ص ۲۹۷ ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ ص ۲۳۳ ۔

۶۱۰

کی فکر نہیں کرتے تم نے نمک حلالی کرتے ہوئے عراق والوں کا دفاع کیا اور تعصب کی وجہ سے شامیوں سے جنگ کیا ، خدا کی قسم ،کیا تم جانتے ہو کہ ہمارا اور تمھارا کام کہا ں تک پہونچ چکا ہے ، میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ علی کو چھوڑ دو اور معاویہ کی مدد کرو، میں تجھے اس راہ کو اختیار کرنے کی دعوت دے رہا ہوں جس میں میرا اور تمھار ا دونوں کا فائدہ ہے۔

تاریخ کابیان ہے کہ اشعث، خفیہ طور پر معاویہ سے رابطہ رکھے تھا اور موقع کی تلاش میں تھا کہ جیسے بھی ممکن ہو جنگ کی کامیابی کو معاویہ کی طرف موڑ دے، اس نے پہلے تو اپنے جواب میں امام علیہ السلام کی تعریف کی اور عتبہ کی گفتگو کو ایک ایک کرکے رد کیا، لیکن آخر میں جنگ کو ختم کرنے کے لئے اشارة موافقت کر لی اور کہا تم لوگ مجھ سے زیادہ زند گی گزارنے اور باقی رہنے میں محتاج نہیں ہو میں اس سلسلے میں فکر کروں گا اور خدا نے چاہا تو اپنے نظریہ کا اعلان کروں گا۔

جب عتبہ معاویہ کے پاس واپس پہونچا اور اس سے پورا ماجرا بیان کیا تو معاویہ بہت خوش ہواور کہا اس نے اپنی نظر میں صلح کا اعلان کردیاہے۔(۱)

۴۔ معاویہ نے عمر و عاص سے کہا، علی کے بعد سب سے مشہور و معروف شخضیت ابن عباس کی ہے اگر وہ کوئی بات کہے تو علی اس کی مخالفت نہیں کریں گے، ، جتنی جلدی ہو کوئی تدبیرکروکیونکہ یہ جنگ ہم لوگوں کو ختم کردیگی، ہم ہرگز عراق نہیں پہونچ سکتے مگر یہ کہ شام کے لوگ نابود ہوجائیں ۔

عمر و عاص نے کہا: ابن عباس دھوکہ نہیں کھا سکتے اگر اس کو دھوکہ دے دیا تو علی کو بھی دھوکہ دے سکتے ہو، معاویہ کے بے حد اصرار پر عمر و عاص نے ابن عباس کو خط لکھا اور خط کے آخر میں کچھ شعر بھی

لکھا، جب عمروعاص نے اپنا خط اور اپنا کہا ہواشعر معاویہ کو دکھایا تو معاویہ نے کہا''لاٰ أریٰ کتابک علیٰ رقّةِ شعرِک'' یعنی تیراخط تیرے شعر کے پائے کا نہیں ہے!

دھوکہ بازوں کے سردار نے اس خط اور اشعار میں ابن عباس اور ان کے خاندان کی تعریف اور مالک اشتر کی برائی کی تھی اور آخر میں یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر جنگ ختم ہوگئی تو ابن عباس شوریٰ کے ایک ممبر ہوگے جس کے ذریعے سے امیر اور خلیفہ معین ہوگا، جب یہ خط ابن عباس کو ملا تو انہوں نے امام علیہ السلام کو

______________________

( ۱)وقعہ صفین ص۴۰۸ ۔

۶۱۱

دکھایا اس وقت امام نے فرمایا۔ خدا وند عالم عاص کے بیٹے کو موت دے، کیسا دھوکہ دینے والا خط ہے جتنی جلدی ہو اس کاجواب لکھو اور اس کے شعر کے جواب کے لئے اپنے بھائی سے شعر لکھواؤ کیونکہ وہ شعر کہنے میں ماہرہے۔

ابن عباس نے خط کے جواب میں لکھا:

میں نے عربوں کے درمیان تجھ جیسا بے حیا نہیں دیکھا اپنے دین کو بہت کم قیمت میں بیچ دیا اور دنیا کو گناہگاروں کی طرح بہت بڑی سمجھا، اور ریاکاری کے ذریعے تقویٰ نمایاںکرتا ہے، اگر تو چاہتا ہے کہ خدا کو راضی کرے ،تو سب سے پہلے مصر کی حکومت کی ہوس اپنے دل سے نکال دے اور اپنے گھر واپس چلاجا، علی اور معاویہ ایک جیسے نہیں ہیں جس طرح سے عراق اور شام کے لوگ برابر نہیں ہیں، میں نے خدا کی مرضی چاہی ہے اور تو نے مصر کی حکومت ، اور پھر ان اشعار کو جو ان کے بھائی فضل نے عمر وعاص کے اشعار کے وزن پر کہے تھے اس خط میں لکھا اور امام علیہ السلام کو خط دکھا یا ۔ امام علیہ السلام نے کہا اگر وہ عقلمند ہوگاتو تمھارے خط کا جواب نہیں دے گا۔

جب عمرو عاص کو خط ملا تو اس نے معاویہ کو دکھایا اور کہا تو نے مجھے خط کی دعوت دی لیکن نہ تجھے کوئی فائدہ ہوا اور نہ مجھے فائدہ ہوا، معاویہ نے کہا: علی اور ابن عباس کا دل ایک ہی جیسا ہے اوردونوں عبدالمطلب کے بیٹے ہیں۔(۱)

۵۔ جب معاویہ نے احساس کیا کہ علی کے سپاہی پہلے سے کچھ زیادہ آمادہ ہوگئے ہیں اور محاصرہ تنگ ہوگیا ہے اورقریب ہے کہ،شکست کھا جائیں تو اس نے خود براہ راست ابن عباس کو خط لکھا اور یا د دلایا کہ یہ جنگ بنی ہاشم اور بنی امیہ کے درمیان بغض وعداوت کی بھڑکتی ہوئی چنگاری ہے اور انہیں اس کام کے انجام سے ڈرایا، اس خط میں اس نے ابن عباس کو لالچ دلائی اور کہا : اگر لوگ تمھارے ہاتھ پر بیعت کریں تو ہم بھی تمھار ی بیعت کرنے کے لئے تیار ہیں۔

جب ابن عباس کو خط ملا تو آپ نے ٹھوس او ر دندان شکن جواب معاویہ کو لکھا ، ایسا جواب کہ معاویہ اپنے

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص۴۱۴۔۴۱۰ (تھوڑے فرق کے ساتھ اور دونوں خطوط کے اشعارکے بغیر)۔ الامامة السیاسةج۱ص۹۹۔۹۸

۶۱۲

خط لکھنے پربہت شرمندہ ہوا اور کہا یہ خود میر ے کام کا نتیجہ ہے اب ایک سال تک اُسے خط نہیں لکھوں گا۔(۱)

عمار اور باغی گروہ

یاسر کا گھرانہ اسلام کے عظیم گھرانے میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے آغاز اسلام میں ہی پیغمبر اسلام (ص)کی دعوت پر لبیک کہا اور اس راہ میں زبردست مصائب و آلام برداشت کیایہاں تک کہ یاسر اور ان کی بیوی سمیہ نے خدا کی راہ میں ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کے ظلم و ستم سے اپنی جان دیدی۔

ان دونوں کے جوان بیٹے عمار مکہ کے جوانوں کی سفارش اور نئے قوانین سے ظاہری اظہار بیزاری کرنے سے نجات پاگئے خداوند عالم نے عمار کے اس فعل کو اس آیت میںقرار دیا ہے:

( اِلّٰا مَنْ اُکرِ ه و قلبُه مطمئن بالایمان ) (سورۂ نحل آیت ۱۰۶)

مگر وہ شخص کہ جو (کفر کہنے پر) مجبور ہوجائے جب کہ اس کا قلب ایمان سے مطمئن ہے۔

جس وقت عمار کے واقعات اور ان کے کفر ظاہر کرنے کی خبر پیغمبر (ص)کو ملی تو آپ نے فرمایا: ہرگزنہیں بلکہ عمار کا پورا وجود ایمان سے سرشار ہے اور توحید ان کے گوشت و خون میں رچ بس گئی ہے اسی وقت عمار وہاں پہونچ گئے جب کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے آنسوؤں کو صاف کیااور کہا کہ اگر دوبارہ ایسی مشکل پیش آئے تو اظہار برائت کرنا۔(۲) صرف یہی ایک آیت نہیں ہے جو اس بزرگ صحابی کی شان میں نازل ہوئی بلکہ مفسرین نے دواور آیتوں کو لکھا ہے جو ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے(۱) وہ پیغمبر اسلام کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آپ کے ہم رکاب رہے اور تمام غزوات اور بعض سریوں میں شرکت کی اور پیغمبر(ص)کے انتقال کے بعد، اگرچہ خلافت ِوقت سے راضی نہ تھے مگر خلافت کی مدد کرنے میں اگر اسلام کا فائدہ ہوتا تو مدد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے۔پیغمبر اسلام (ص)نے مدینہ آنے کے بعد سب سے پہلے جو کام انجام دیا وہ مسجد کی تعمیر تھی، عمار

_______________________________

(۱)آیتیںاَمّنْ هو ٰقانتٔ آنأ اللیل ساجد اوقائماً یحذرالآخرة (زمر، ۹)ولا تطرد الذین ید عون ربّهم بالغداوة والعشی ۔ اس سلسلے میں تفسیر قرطبی۔کشاف۔درالمنثور۔تفسیررازی کی طرف رجوع کریں۔----(۲)وقعہ صفین ص۲۱۶۔۲۱۴ ۔ الامامة السیاسة ج۱ص۱۰۰

۶۱۳

نے مسجد بنانے میں سب سے زیادہ زحمت برداشت کی اکیلے کئی لوگوں کا کام انجام دیتے تھے ، اسلام سے عشق سبب بناکہ لوگ انہیں ان کی طاقت سے زیادہ کام لیں، ایک دن عمار نے ان لوگوں کی پیغمبر سے شکایت کی اور کہا ان لوگوںنے مجھے مار ڈالا ہے، پیغمبر اسلام(ص)نے اپنا تاریخی بیان دیا جو تمام حاضرین کے دل میں اتر گیا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''انک لن تموتَ حتیٰ تقتُلک الفئة الباغیةُ النّٰا کِبَةُعنِ الحقّ یکونُ آخِر زادِک من الدّنیٰا شَر بةُلَبن'' (۱)

''تمھیں اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک تجھے باغی اور حق سے منحرف گروہ قتل نہ کرے دنیا میں تمہارا آخری رزق ایک پیالہ دودھ ہے''۔

یہ بات پیغمبر (ص)کے تما م صحابیوں میں پھیل گئی اور پھر ایک سے دوسروں تک منتقل ہو گئی، اسی دن تمام مسلمانوں کی نظر میں عمار ایک خاص مقام کے حامل ہوگئے پیغمبر اسلام (ص)نے مختلف مواقع پر بھی آپ کی تعریف کی، جنگ صفین میں امام علیہ السلام کی فوج میں عمار کے شامل ہونے کی خبر نے معاویہ کی دھوکہ کھائی ہوئی فوج کے دلوں کو لرزا دیا، اور بعض لوگ اس بات کی تحقیق کرنے لگے۔

______________________

(۱)یہ حدیث جس میں پیغمبر(ص)نے غیب کی خبر دی ہے محدثین اور مؤرخین نے اسے نقل کیا ہے اور سیوطی نے اپنی کتاب خصائص میں اس کے تو اتر کی تصریح کی ہے ،اور مرحوم علامہ امینی نے الغدیر(ج۹ص۲۲،۲۱) میں اس کی سندوں کو ذکر کیا ہے ۔ تاریخ طبری ج ۳ جزء ۶ص۲۱۔ کامل ابن اثیرج ۳، ص۱۵۷ کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

۶۱۴

عمار کی تقریر

جب عمار نے چاہا کہ میدان جنگ میں جائیں تو امام علیہ السلام کے دوستوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اسطرح سے گفتگو شروع کی:اے خدا کے بندو ، ایسی قوم سے جنگ کرنے کے لئے اٹھو ، جو ایسے شخص کے خون کا بدلہ لینا چاہتی ہے جس نے خود اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور خدا کی کتاب کے خلاف حکم دیا اور اسے صالح گروہ ، نہی عن المنکر اور امر با لمعروف کرنے والوں نے قتل کیا ہے لیکن وہ گروہ جس کی دنیا اس کے قتل کی وجہ سے خطرے میں پڑگئی تھی، ان لوگوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ کیوں اسے قتل کر دیاتو اس کا جواب دیاگیا کہ وہ اپنے برے کاموں کی وجہ سے مارا گیاہے، ان لوگوں نے کہا عثمان نے کوئی برا کام نہیں کیا ہے جی ہاں! ان لوگوں کی نظر میں عثمان نے براکام انجام نہیں دیا ، تمام دینار ان کے ہاتھ میں تھے وہ سب کھا گئے اور ہضم کرگئے ، وہ عثمان کے خون کا بدلہ لینا نہیں چاہتے بلکہ وہ دنیا کی لذتوں سے آشنا ہیں اور اسے دوست رکھتے ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اگر ہمارے ہاتھوں گرفتار ہوئے تو دنیا کی وہ لذ ت و آرام و آسایش سے محروم ہوجائیں گے۔

بنی امیہ کا خاندان اسلام قبول کرنے میں آگے نہ تھا کہ وہ رہبری کے لایق ہوتا، انہوں نے لوگوں کو دھوکہ دیا اور ''ہمارا ا مام مظلوم مارا گیا'' کا نعرۂ لگایا تا کہ لوگوںپر ظلم و ستم کے ساتھ حکومت و سلطنت کرے، یہ ایک ایسا بہانہ ہے جو ان لوگوں کی طرف سے ہواہے جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں اور اگر ایسا دھوکہ اور فریب انجام نہ دیتے تو دو آدمی بھی ان کی بیعت نہ کرتے اور ان کی

۶۱۵

مددکے لئے نہ اٹھتے۔(۱)

عمار تقریر ختم کرنے کے بعد میدان میں آئے اور ان کے ساتھی بھی انکے پیچھے پیچھے تھے، جب عمر و عاص کے خیمے پر نگاہ پڑی تو بلند آوا ز سے کہا تو نے اپنے دین کو مصر کی حکومت کے بدلے بیچ دیا ،لعنت ہو تجھ پر یہ پہلی مرتبہ تو نے اسلام پر وار نہیں کیاہے، اور جب آپ کی نگاہ عبید اللہ بن عمر کے خیمے پر پڑی تو پکار کر کہا: خدا تجھے نابو د کرے تو نے اپنے دین کو خدا اور اسلام کے دشمن کی دنیا کے بدلے بیچ دیا ہے، اس نے جواب دیا میں شہید مظلوم کے خون کا بدلہ لینا چاہتا ہوں عمار نے کہا تو جھوٹ بول رہا ہے خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ تو ہرگز خدا کی مرضی نہیں چاہتا اگر تو آج مارا نہ گیا تو کل ضرور مارا جائے گا، سوچ لے کہ اگر خدا وند عالم اپنے بند وں کو ان کی نیت کے مطابق جزاء و سزا دے تو تیری نیت کیاہے(۲)

اس وقت جب کہ ان کے چاروں طرف علی علیہ السلام کے دوست جمع تھے، کہا خدا وندا تو جانتا ہے کہ اگر مجھے معلوم ہو کہ تیری مرضی اس میں ہے کہ اس دریا میں کود جاؤ ںتو کود جاؤنگا اگر مجھے معلوم ہو کہ تیر ی مرضی اس میں ہے کہ تلوار کی نوک کو اپنے سینہ پر رکھوں اور اتنا جھکوں کہ پشت کے پار ہو جائے تو میں اس سے بھی دریغ نہیں کرونگا، خدا یا میں جانتا ہو ں اور مجھے آگا ہ بھی کیا ہے کہ آج کے دن وہ کام جس سے تو سب سے زیادہ راضی ہوگا وہ اس گروہ کے ساتھ جہاد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اگر مجھے معلوم ہو تا کہ

_______________________________

(۱) کامل ابن اثیرج ۳ ص۱۵۷ ۔ وقعہ صفین ص۳۱۹۔ تاریخ طبری ج ۳ جزء ۶ص۲۱

(۲) وقعہ صفین ص۳۳۶۔ اعیان الشیعہ ج۱ ص۴۹۶ مطبوعہ بیروت لبنان۔

۶۱۶

اس عمل کے علاوہ کوئی اور کام ہے تو اس کو ضرور انجام دیتا۔(۱)

_______________________________

( ۱) تاریخ طبری ج ۳ جزء ۶،ص۲۱ ۔ کامل ابن اثیرج ۳ ص۱۵۷ ۔ وقعہ صفین ص۳۲۰۔

۶۱۷

امام کی فوج میں عمار کے ہونے کا اثر

عمار کی شخصیت اور اسلام میں ان کی خدمات ایسی چیز نہ تھی جو اہل شام سے پوشیدہ ہوتی۔ ان کے بارے میں پیغمبر اسلام کی حدیث شہرت پاچکی تھی اور جو چیز شام کے لوگوں سے کچھ پوشیدہ تھی وہ اما م علیہ السلام کی فوج میں عمار کا شریک ہونا تھا، جب عمار کی امام علیہ السلام کی فوج میں احتمالاً شرکت کی خبر معاویہ کے فوج میں پھیلی تو جو لوگ معاویہ کی جھوٹی اور مسموم تبلیغ کی وجہ سے اس کی فوج میں داخل ہوئے تھے وہ چھان بین کرنے لگے ، انھی میں سے ایک یمن کی مشہور و معروف شخصیت ذوالکلاع کی تھی جس نے حمیر ی قبیلے کے بہت سے آدمیوں کو معاویہ کے لشکر میں شامل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، اب اس کے دل میں حقانیت کا نور چمک گیا وہ چاہتا تھا کہ حقیقت کو پالے، لہٰذا اس نے ارادہ کیا کہ ابونوح کے ساتھ ، جو کہ حمیر قبیلے کا سردار تھااور کوفہ میں رہتا تھا اور اس وقت امام علیہ السلام کی فوج میں شامل تھا اس سے ملاقات کرے، اسی لئے ذوالکلاع نے معاویہ کی فوج میں سب سے آگے کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا :میں ابو نوح حمیری جو کلاع قبیلے کا ہے سے بات کرناچاہتا ہوں ۔

ابونوح یہ آواز سن کر اس کے سامنے آیا اور کہا،تم کون ہوں،اپنا تعارف کراؤ؟

ذوالکلاع : میں ذوالکلاع ہوں میر ی التجا ہے کہ میر ے پاس آؤ۔

ابونوح :میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں جو تنہا تمھارے پاس آؤں ،مگر اپنے گروہ کے ہمراہ جو میرے اختیا ر میں ہے ۔

ذوالکلاع : تم خدا اور اس کے رسول اور ذوالکلاع کی پنا ہ میں ہو، میں چاہتا ہوں کہ تم سے ایک موضوع کے سلسلے میںگفتگو کرو ں،لہٰذا تم اکیلے میرے پاس آؤ،اور میں بھی تنہا تمھار ے پاس آؤنگا اور دونوں صفوں کے درمیان گفتگو کریں ، دونوں اپنی اپنی صف سے نکلے اور صفوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری ہوا۔

ذوالکلاع : میں نے تمھیں اس لئے بلایا ہے کہ میں نے پہلے (عمربن خطاب کے زمانے میں)

عمرو عاص سے ایک حدیث سنی ہے ۔

ابونوح : وہ حدیث کیا ہے؟

ذوالکلاع : عمروعاص نے کہا کہ رسول ِ خدا (ص)نے فرمایا ہے کہ ! اہل عراق اور اہل شام ایک دوسرے کے مقابلے میں جمع ہونگے، حق اور ہدایت کرنے والا ایک طرف ہے اور عمار بھی اسی طرف ہوگا۔

۶۱۸

ابونوح : خدا کی قسم عمار ہمارے ساتھ ہیں۔

ذوالکلاع : کیا ہم سے جنگ کا مکمل ارادہ ہے

ابونوح : ہاں کعبہ کے رب کی قسم ! کہ وہ تمھارے ساتھ جنگ کے لئے ہم سے زیادہ مصر ہیں اور خود میرا ارادہ یہ ہے کہ کاش تم سب لوگ ایک آدمی ہوتے اور میں سب کا سر کاٹ دیتا اور سب سے پہلے میں تمھارا سر قلم کرتا جب کہ تو میرا چچا زاد بھائی ہے۔

ذوالکلاع : کیوں ایسی آرزو تمھار ے دل میں ہے جب کہ میں نے اپنی رشتہ داری کو ختم نہیں کیا اورتمہیں اپنی قوم کا سب سے قریبی شخص جانااور میں نہیں چاہتا کہ تمھیں قتل کروں۔

ابونوح : خدا نے اسلام کی وجہ سے ایک رشتہ ختم کردیا ہے اور جو افراد دور تھے ان کو قریبی عزیز بنا دیا تم نے اور تمھارے دوستوں نے ہمارے سا تھ معنوی رشتہ کو ختم کر دیا ہے ہم حق پر ہیںاور تم باطل پر ہو سردارِکفر اور اور اس کے لشکر کی مدد کر رہے ہو۔

ذوالکلاع : کیا تم شام کی فوج کے درمیان میرے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہو؟ میں تمھیں امان دے رہا ہوں کہ اس راہ میں قتل نہیں کئے جاؤ گے او ر نہ تجھ سے کوئی چیز لی جائے گی۔ اور نہ بیعت کے لئے مجبور ہوگے بلکہ مقصد یہ ہے کہ عمروعاص کو آگاہ کردو کہ عمار، امام علی علیہ السلام کے لشکر میں موجود ہیں۔شاید خداوند عالم دونوں لشکروں کے درمیان صلح و آشتی کا ماحول پیدا کردے۔

ابونوح :میں تمھارے اور تمھارے دوستوں کے مکر و فریب سے خوف محسوس کر رہا ہوں۔

ذواکلاع :میں اپنی بات کا ضامن ہوں۔

ابونوح نے آسمان کی طرف رخ کرکے کہا ، خدا یا تو بہتر جانتا ہے کہ ذوالکلاع نے مجھے امان دیا ہے اور جو کچھ میرے دل میں ہے تو اس سے باخبر ہے ، میر ی حفا ظت فرما، اتنا کہنے کے بعد ذوالکلاع کے ساتھ معاویہ کی فوج کی طرف گئے اور جب عمروعاص اور معاویہ کے خیمے کے پاس پہونچے تو دیکھا کہ دونوں ،لوگوں کو جنگ کے لئے تیار کر رہے ہیں۔

ذوالکلاع نے عمرو عاص کو متوجہ کر تے ہوئے کہا کیا تو ایک سچے اور عقلمند انسان سے عمار یاسر کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہے؟

۶۱۹

عمروعاص : یہ کون آدمی ہے؟

ذوالکلاع نے ابونوح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ میرا چچا زادبھائی اورکوفہ کا رہنے والا ہے، عمرو عاص نے ابونوح سے کہا میں تمھارے چہرے پر ابوتراب کی نشانیاں دیکھ رہا ہوں۔

ابونوح : میرے چہرے پرمحمد (ص)اور ان کے دوستوں کی نشانیاں ہیں اور تیرے چہرے پر ابوجہل و فرعون کی نشانیاں ہیں۔ اس وقت معاویہ کی فوج کا ایک سردار ابوالاعور اٹھا اور اپنی تلوار کھینچ کر کہاکہ اس جھوٹے کے چہرے پر ابوتراب کی نشانیاں ہیں میں اس کو قتل کروں گا، اس میںکیسے اتنی جرأت پیدا ہو گئی کہ ہمارے درمیان ہوتے ہوئے بھی ہمیں گالی دے رہا ہے۔

ذوالکلاع نے کہا: خدا کی قسم ، اگر تم نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو میں تجھے تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔ یہ میرا چچازاد بھائی ہے اور میری امان میں وہ اس صف میں داخل ہوا ہے، میں اسے اس لئے لایا ہوںکہ تم لوگ عمار کے بارے میں سوال کرو کہ جس کے متعلق مستقل جنگ و جدال کررہے ہو۔

عمر وعاص : میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ سچ بولنا کیاعمار یا سر تمھاری فوج میں ہیں۔

ابونوح : میں جواب نہیں دوں گا مگر یہ کہ اس سوال کی وجہ سے آگاہ ہو جاؤں ، جب کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بہت دوست ہمارے ساتھ ہیںاور سب کے سب تمھارے ساتھ جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔

عمرو عاص :میں نے پیغمبر (ص)سے سنا ہے کہ عمار کو ظالم وستمگر گروہ قتل کرے گا اور عمار کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ حق سے دور ہو ں جہنم کی آگ ان پرحرام ہے۔

ابونوح :اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں و اللہ وہ ہمارے ساتھ اور وہ تم لوگوں سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہیں۔

عمر وعاص : وہ ہم سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں؟!

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809