فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیة اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 301974
ڈاؤنلوڈ: 4163

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 301974 / ڈاؤنلوڈ: 4163
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

فنعم الحکم الله و الزعیم محمد و الموعد القیامة و عند الساعة یخسر المبطلون'' (۱)

اے قحافہ کے بیٹے ! کیا کتاب خدا میں ایسا ہے کہ تو اپنے باپ سے میراث حاصل کرے اور میں اپنے باپ کی میراث سے محروم رہوں؟ تو نے تو عجیب بات کہی ہے کیا تو نے جان بوجھ کر خدا کی کتاب کو چھوڑ دیا ہے اور اسے نظر انداز کردیا ہے اور یہ خیال کیا کہ میں اپنے بابا کی میراث حاصل نہیں کروں گی اورہمارے اور ان کے درمیان خونی رشتہ نہیں ہے؟ کیا خدا نے اس سلسلے میں تمہارے لئے کوئی مخصوص آیت نازل کی ہے اور اس آیت میں میرے بابا کو وراثت کے قانون سے محروم کردیا ہے یا یہ کہو کہ دو مذہب کے ماننے والے ایک دوسرے سے میراث نہیں لیتے؟ کیا ہم اور ہمارے بابا ایک مذہب کے ماننے والے نہیں ہیں؟ کیا تم قرآن کی تمام عام و خاص چیزوں میں میرے بابا اور ان کے چچازاد بھائی (علی ابن ابیطالب )سے زیادہ معلومات رکھتے ہو؟ لے اس مرکب کو جو مہار و زین کے ساتھ ہے جو قیامت کے دن تمہارے روبرو ہوں گے ، واہ کیا خداوند عالم کا فیصلہ ہے اور کیا بہتر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رہبری ہے میرا اور تمہارا وعدہ قیامت کے دن کے لئے ہے اور قیامت کے دن باطل عقیدے والے خسارے میں ہوں گے۔

کیا یہ صحیح ہے کہ اس شعلہ ور خطبہ کے بعد ہم یہ احتمال دیں کہ وہ حدیث جس کا ہم نے ذکر کیا تھا وہ صحیح اور محکم تھی؟ یہ کیسا قانون ہے کہ جو صرف پیغمبر کی بیٹی اور پیغمبر کے چچازاد بھائی سے مربوط ہو اور وہ اس خبر سے بے خبر ہوں اور ایک غیر معمولی انسان جس کا حدیث سے کوئی رابطہ و واسطہ نہ ہو اس سے باخبر ہو؟!

اس بحث کے آخر میں چندنکتوں ذکر کرنا ضروری ہے۔

الف: حضرت فاطمہ کا حاکم وقت سے چار چیزوں میں اختلاف تھا۔

۱۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی میراث۔

۲۔ فدک، جسے پیغمبر نے اپنی زندگی ہی میں فاطمہ کو دیدیا تھا ،اورعربی زبان میں اسے ''نِحلہ'' کہتے ہیں۔

______________________

(۱) احتجاج طبرسی ج ۱ ص۱۳۸مطبوعہ نجف اشرف، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶ ص ۲۵۱۔

۲۴۱

۳۔ قرابتداروں کا حصہ، جس کا تذکرہ سورۂ انفال کی آیت نمبر ۴۱ میں ہوا ہے۔

۴۔ حکومت اور ولایت ۔

حضرت زہرا(س) کے خطبوں اور احتجاجوں میں ان چاروں امور کی طرف اشارہ ہوا ہے اسی وجہ سے کبھی لفظ میراث اور کبھی لفظ نحلہ استعمال ہوا ہے ۔ابن ابی الحدید نے(شرح نہج البلاغہ ج۱۶، ص ۲۳۰) اس سلسلے میں تفصیلی بحث کی ہے۔

ب بعض شیعہ علماء مثلاً مرحوم سید مرتضی نے حدیث ''لانورث ماترکناہ صدقة'' کی ایسی تفسیر کی ہے جو حضرت فاطمہ کے میراث پانے کے منافی نہیں ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ لفظ ''نورث'' صیغہ معروف ہے اور ''ما'' موصول اس کا مفعول ہے اور لفظ ''صدقہ'' حال یا تمیز ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، ایسی صورت میں حدیث کا معنی یہ ہوگا جو چیز بھی صدقہ کے عنوان سے چھوڑی جائے گی اسے میراث نہیں کہیں گے اور یہ بات واضح ہے کہ جو چیز پیغمبر کی زندگی میں صدقہ ہو گی وہ میراث نہیں بن سکتی،اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہرگز کوئی چیز میراث کے طور پر نہیں چھوڑتے۔

لیکن یہ تفسیر بھی اشکال سے خالی نہیں ہے کیونکہ یہ بات صرف پیغمبر سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان جو اپنی زندگی میں کچھ مال وقف یا صدقہ کرے وہ میراث میں شمار نہیں ہوگا اور ہرگز اس کی اولادوں کو نہیں ملے گا چاہے پیغمبر ہو یا کوئی اور شخص ہو۔

ج: پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پارۂ جگر کے تمام کلام چاہے وہ شعلہ ور خطبۂ ہو ، چاہے خلیفہ وقت سے بحث و مباحثہ ہو ، ان سب سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ ان حالات سے بہت سخت ناراض تھیں او راپنے مخالفین پر سخت غضبناک تھیں اور جب تک زندہ رہیں ان سے راضی نہ ہوئیں۔

۲۴۲

حضرت فاطمہ زہرا (س) کا غضبناک ہونا

اس سے پہلے ہم بیان کر چکے ہیں کہ پیغمبر کی بیٹی کا ابوبکر سے احتجاج و مناظرہ کرنا بے نتیجہ رہا اور فدک حضرت زہرا کے ہاتھوں سے لے لیا گیا اور آپ دنیا سے بھی رخصت ہوگئیں مگر خلیفہ سے ناراض تھیں اور یہ بات تاریخی اعتبار سے اس قدر واضح و روشن ہے کہ اس کا انکار کرنا ممکن نہیں ہے اہلسنت کے مشہور محدث بخاری کہتے ہیں:جب خلیفہ نے پیغمبر کی طرف حدیث کی نسبت دے کر فاطمہ کو فدک لینے سے روک دیاتو آپ خلیفہ پر غضبناک ہوئیں اور پھر ان سے گفتگو نہیں کیا یہاں تک کہ اس دنیا کوالوداع کہہ دیا۔(۱) ابن قتیبہ اپنی کتاب ''الامامة والسیاسة'' ج۱ ص ۱۴ پر تحریر کرتے ہیں:

''عمر نے ابوبکر سے کہا چلو فاطمہ کے پاس چلیں کیونکہ ہم نے انھیں ناراض کردیا ہے وہ لوگ حضرت زہرا کے گھر آئے اور اندر آنے کی اجازت مانگی لیکن آپ نے اجازت نہیں دی یہاں تک کہ حضرت علی کے ذریعے سے گھر میں داخل ہوئے لیکن زہرا نے ان دونوں سے منھ پھیر لیا اور سلام کاجواب تک نہ دیا۔انھوں نے بہت منت و سماجت کی اور یہ بھی بیان کیا کہ ہم نے فدک انھیں کیوں نہیں دیا زہرا نے ان کے جواب میں کہا: میں تمہیں خدا کی قسم د ے کر کہتی ہوں کہ کیا تم نے پیغمبر سے نہیں سنا تھا کہ فاطمہ کی رضایت میری رضایت ہے اور اس کو غضبناک کرنا مجھے غضبناک کرنا ہے فاطمہ میری بیٹی ہے جو شخص بھی اُسے دوست رکھے گا گویا اس نے مجھے دوست رکھا اورجس نے اسے راضی کیا گویا اس نے مجھے راضی کیا اور جس نے بھی زہرا کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیاہے؟ اس وقت دونوں (عمر اور ابوبکر) نے اس بات کی تصدیق کی کہ ہاں پیغمبر سے ہم نے یہ باتیں سنی تھیں۔

زہرا سلام اللہ علیھافرماتی ہیں: میں خدا اور فرشتوں کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے غضبناک کیاہے اور مجھے ناراض کیا ہے اور جب ہم پیغمبر سے ملاقات کریں گے تو تم دونوں کی شکایت کریں گے۔

ابوبکر نے کہا: میں تمہارے اور پیغمبر کے غضبناک ہونے پر خدا سے مانگتا ہوں، اس وقت خلیفہ رونے لگے اور کہا کہ خدا کی قسم میں ہر نماز کے بعد تمہارے لئے دعا کروں گا یہ کہنے کے بعد روتے ہوا

______________________

(۱) صحیح بخاری باب فرض الخمس ج۵ ص ۵ و کتاب غزوات باب غزوات خیبر ج۶ ص ۱۹۶ اس باب میں کہتے ہیں: اپنے باپ کے انتقال کے بعد فاطمہ چھ مہینہ زندہ تھیںاور جب آپ کی شہادت ہوگئی تو آپ کے شوہر نے شب کی تاریکی میں دفن کیا اور ابوبکر کو خبر بھی نہ دی۔

۲۴۳

حضرت زہرا کے گھر سے باہر نکل گئے لوگ ان کے چاروں طرف جمع ہوگئے انہوں نے کہا:

تم میں سے ہر شخص اپنے اہل و عیال کے ساتھ خوشی سے شب وروز بسر کر رہا ہے اور تم لوگوں نے مجھے ایسے کام میں لگا دیا ہے میں تمہاری بیعت کا محتاج نہیں ہوں مجھے منصب خلافت سے معزول کردو۔(۱)

اسلامی محدثین نے متفقہ طور پر اس حدیث کو پیغمبر اسلام سے نقل کیا ہے:

''فاطمه بضعة منی فمن أغضبها أغضبنی'' (۲)

فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا۔

''فسلام الله علیها یوم ولدت و یوم ماتت و یوم تبعث حیَّةً''

(اللہ کا سلام ہو ان پر جس دن وہ پیدا ہوئیں اور جس دن انہوں نے وفات پائی اور جس دن اس دنیا سے اٹھائی جائیں گی)

______________________

(۱) جاحظ نے اپنے رسائل ص ۳۰۰ پر بہترین کلام اس سلسلے میں ذکر کیا ہے قارئین مزید معلومات کے لئے رجوع کرسکتے ہیں۔

(۲) اس حدیث کے حوالوں کے لئے الغدیر ج۷ ص ۲۳۵۔ ۲۳۲، مطبوعہ نجف کی طرف رجوع کریں۔

۲۴۴

ساتویں فصل

حضرت علی علیہ السلام اور شوریٰ

پیغمبر اسلام کے انتقال کے بعد خلفاء ثلاثہ کا انتخاب ایک طریقے سے نہیں ہوا بلکہ خلفاء ثلاثہ میں سے ہر ایک خلیفہ الگ الگ طریقے سے منتخب ہوا، مثلا ابوبکر انصار کے ذریعے چنے گئے جن کی تعدا د سقیفہ بنی ساعدہ میں بہت زیادہ تھی او رمہاجرین سے زبردستی اور اختیاری دونوں صورتوں سے بیعت لی گئی، اور عمر کوابوبکر نے رہبری کے لئے منتخب کیا اور عثمان اس شوریٰ کے ذریعے منتخب ہوئے جس میں کل چھ آدمی تھے اور اس کمیٹی کو دوسرے خلیفہ نے بنایا تھا۔

خلیفہ منتخب کرنے کے یہ مختلف طریقے اس بات پر گواہ ہیں کہ خلافت انتخابی امر نہیں تھا اور پیغمبر کی جانب سے کوئی ایسا حکم جاری نہ ہوا تھا کہ لوگ امام کا انتخاب کرلیں ورنہ پیغمبر کے انتقال کے بعد خلفاء کا مختلف طریقوں سے منتخب ہونا جو آپس میں ایک دوسرے سے مشابہت بھی نہیں رکھتے تھے وہ چن لئے جائیں اور پیغمبر کا حکم نظر انداز کردیا جائے، اور تمام لوگ اپنی زبانوں پر تالے لگالیں اور اس طرح کے انتخابات پر کوئی اعتراض نہ کریں۔

یہ اختلاف اس بات پر گواہ ہے کہ اسلام میں رہبری اور امامت کا مرتبہ خدا کی جانب سے ایک انتصابی منصب ہے لیکن افسوس اس قوم کے بزرگوں نے اس مسئلے میں بھی، دوسرے مسائل کی طرح پیغمبر کی حدیثوں کو نظر انداز کر دیا ہے اور لوگوںکو یہ راہ دکھادی کہ امت کا رہبر خود امت ہی منتخب کرے اور چونکہ لوگوں کے ذریعے رہبر کا انتخاب ایک نئی چیز تھی اور اس روش کے ایجاد کرنے والوں کو کوئی تجربہ نہ تھا لہٰذا رہبر کا مختلف طریقوں سے انتخاب کیا گیا۔

۲۴۵

ابوبکر نے حقِ نمک ادا کردیا

ابوبکر کو مسند خلافت پر بیٹھانے کے لئے عمر نے بہت زیادہ کوششیں کیں اور اس کام سے ان کا مقصد یہ تھا کہ ابوبکر کے مرنے کے بعد خلافت ان کے حق میں آئے کیونکہ وہ ابوبکر سے کچھ چھوٹے تھے امام علی علیہ السلام نے ابتدائے میںہی عمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

''اچھی طرح اس کی مدد کرو کہ تمھیں ہی اس کا فائدہ ملے گا آج اس کے لئے بہترین راہ ہموار کرو تا کہ کل تمہیں واپس مل جائے''۔(۱) ابوبکر نے بھی نمک حرامی نہیں کی، بیماری کے عالم میں جب کہ وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے عثمان کو بلایا اور انہیں حکم دیا کہ لکھو:''یہ عبد اللہ بن عثمان کا عہد نامہ(۲) مسلمانوں کے لئے ہے جو دنیا کی زندگی کے آخری لمحات اور آخرت کے پہلے گام پر ہے اس وقت میں جب کہ مومن بہترین کام اور نیک چیزوں کی فکر میںہے اور کافر حالت تسلیم میں ہے۔ابھی خلیفہ کا کلام یہیں پر پہونچا تھا کہ بے ہوش ہوگئے، عثمان نے یہ سوچ کر کہ وصیت نامہ مکمل ہونے سے پہلے خلیفہ مرگئے ہیں لہٰذا عہد نامہ کو خود اپنی طرف سے لکھ ڈالا، پھر آگے لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے بعد خطّاب کے بیٹے کو جانشین قرار دیا ہے۔

کچھ ہی دیر گذری تھی کہ خلیفہ کو ہوش آگیا اورعثمان نے جو کچھ ا ن کی طرف سے لکھا تھا اس کو پڑھ کر سنایا ابوبکر نے عثمان سے پوچھا: تم نے میری وصیت کو کس طرح لکھا؟ انہوں نے جواب دیا: میں جانتا تھا کہ آپ اس کے علاوہ کچھ اورنہیں لکھیں گے۔اگر یہ واقعہ صرف نمائش کے لئے ہو تب بھی ہم یہی کہیں گے کہ عثمان بھی عمر کے منتخب ہونے میں شامل تھے اور انہوں نے ایک خاص طریقے سے اپنے ارادے کو ظاہر کردیا۔مدتوں بعد وہ وقت آپہونچا کہ عمر نے حق کو پہچانا اور عثمان کو اپنے بعد کے لئے خلیفہ منتخب کردیااور حق نمک ادا کر دیا۔

______________________

(۱) الامامة و السیاسہ ج۱ ص ۱۲، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معنزلی ج۲ ص ۵، اسی مضمون سے ملتے ہوئے مضمون کے متعلق امیر المومنین نے خطبہ شقشقیہ (نہج البلاغہ کا تیسرا خطبہ) میں فرمایا ہے ''لشد ماتشطرا ضرعیہا''

(۲) ابوبکر کا نام ہے ۔ الامامة و السیاسہ ج۱ص ۸۸۔

۲۴۶

نژاد پرستی اور طبقاتی نظام

اسلام کااہم افتخار ، جو آج بھی اپنی طرف محروم اور مظلوم ترین افراد کو جذب کررہاہے ہر طرح کی تبعیض اور قوم پرستی سے لوگوںکو دور رکھنا ہے اور اس کا ایک ہی شعار ہے کہ تم میں سب سے عظیم شخص وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔

پیغمبر اسلام کے زمانے میں حکومت کے سپاہیوں اور کام کرنے والوں کی کوئی معقول و معین تنخواہیں نہیں تھیں اور ان کی ضروریات زندگی مال غنیمت سے پوری ہوتی تھیں وہ مال جو مسلمان مشرکوں سے جنگ کر کے حاصل کرتے تھے اس میں سے پانچواں حصہ نکالنے کے بعد سپاہیوں کے درمیان تقسیم ہوتا تھا اور مال غنیمت تقسیم ہوتے وقت تبعیض یا حسب و نسب یا پیغمبر کا رشتہ دار کی رعایت نہیں کی جاتی تھی۔

خلیفہ اول کے زمانے میں بھی یہی طریقہ رائج تھا ،لیکن خلیفہ دوم کے زمانے میں یہ دستور تبدیل ہوگیا ،اسلام کے روزبروز ترقی کرنے کا سبب یہ ہوا کہ خلیفہ وقت نے سپاہیوں اور کام کرنے والوں کی تنخواہوں کے لئے ایک خاص بندوبست کیا ،لیکن افسوس کہ تنخواہ معین کرتے وقت معیار و میزان بجائے یہ کہ تقوی و پرہیزگاری، سیاسی و نظامی آگاہی، سابقہ خدمت وغیرہ ہو یا کم سے کم اسلام کو معیار قرار دیا جائے، حسب و نسب اور نژاد پرستی کو معیار قرار دیا گیا۔

اس اہم موضوع میں عرب کے سپاہی عجم کے سپاہیوں پر، عرب قحطان عرب عدنان پر، عرب مضر عرب ربیعہ پر، قریش غیر قریش پر، اور بنی ہاشم بنی امیہ پر مقدم تھے، اور پہلے گروہ والوں کی تنخواہ دوسرے گروہ والوں سے زیادہ تھی، مشہور مورخین مثلاً ابن اثیر، یعقوبی اورجرجی زیدان، نے اپنی اپنی تاریخ میں حکومت اسلامی کے سپاہیوں اور سرکاری نوکروںکی مختلف تنخواہوں کے اختلاف کو ذکر کیا ہے۔(۱) تنخواہوں کی رقموں کا مختلف ہونا تعجب خیز ہے مشہور و معروف مالدار عباس بن عبد المطلب کا سالانہ وظیفہ ۱۲ ہزار درہم تھا جب کہ ایک مصری سپاہی کا سالانہ وظیفہ۳۰۰ درہم سے زیادہ نہ تھا۔

پیغمبر اسلام کی ہر ایک بیوی کا سالانہ وظیفہ ۶ ہزار درہم تھا جب کہ یمن کے ایک سپاہی کا سالانہ

______________________

(۱) تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۰۶، کامل ابن اثیر ج۲ ص ۱۶۸، تاریخ جرجی زیدان ترجمۂ جواہر الکلام ج۱ ص ۱۵۹ کے بعد ۔

۲۴۷

وظیفہ ۴۰۰ درہم بھی نہ تھا ، معاویہ اور اس کے باپ ابوسفیان کا سالانہ وظیفہ ۵ ہزار درہم تھا جب کہ مکہ کے ایک عام شخص جس نے ہجرت نہیں کیا تھا اس کا سالانہ وظیفہ ۶ سو درہم تھا خلیفہ نے اس عمل ''نژاد پرستی'' کو جسے قرآن اور رسول اسلام نے ممنوع قرار دیا تھا دوبارہ زندہ کردیا اوراسلامی معاشرے کو اختلاف اور طبقہ بندی میں گرفتار کردیا۔

زیادہ دن نہ گذرے تھے کہ اسلامی معاشرے میں زبردست اختلاف پیدا ہوگیا اور سیم و جواہر کی تلاش و جستجو کرنے والے اور دنیا پرست خلیفہ کی حمایت کے زیر نظر سیم و زر کی تلاش میں نکل پڑے اور محنت و مشقت کرنے والوں اور مزدوروں پر ظلم و زیادتی کا زمانہ شروع ہوگیا۔

خلیفہء وقت نے حاکموں اور دنیا پرستوں مثلا سعد وقاص،عمر و عاص، ابوہریرہ، جیسے مالداروں کا مال پہلے ہی جمع کرلیا تھا اور ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہے کہ طبقاتی نظام اس سے زیادہ نہ پھیلے، لیکن افسوس چونکہ ان کا سب سے پہلا اقتصادی قدم غلط اور بے بنیاد اور بے وجہ برتری پر قائم تھا لہذا ان کا مال جمع کرنا سود مند ثابت نہ ہوااور آئندہ کے رہبر کے تعیین کوجو ذاتاً نژاد پرست تھے آسان کردیا اوران کی نژاد پرستی کو اور مضبوط کردیا۔

اس دور کے دولت مند افراد نے مالدار ہونے کی وجہ سے غلاموں کو خریدا اور انھیں کام کرنے میں آزاد کردیا اور مجبور کیا کہ خود اپنی زندگی کی ضروریات کو بھی پورا کریں اور روزانہ یا ہر مہینے اپنے اپنے مالکوں کو کچھ رقم ادا کریں بیچارے غلام، صبح سے شام تک محنت کرتے اور اپنی جان کو گنواتے تھے تاکہ تعیین شدہ رقم مالک کو ادا کرسکیں۔

خلیفہ سے ایک ایرانی کاریگر کی فریاد

فیروز ایرانی، جو ابو لؤلؤ کے نام سے مشہور ہے، مغیرہ بن شعبہ کا غلام تھا، وہ اپنی زندگی کی ضروریات پورا کرنے کے بعد مجبور تھا کہ روزانہ دو درہم مغیرہ کو ادا کرے، ایک دن بازار میں ابو لؤ لؤ کی نگاہ خلیفہء دوم پر پڑی اس نے فریاد کی اور کہا: مغیرہ نے جو چیز مجھ پر معین کی ہے وہ میرے لئے بہت مشکل ہے ، خلیفہ چونکہ اس کے کام سے آگاہ تھے لہٰذاانہوں نے پوچھا: تم کیا کام جانتے ہو؟

۲۴۸

اس نے جواب دیا: بڑھئی ، نقاشی اور لوہار کا کام۔

خلیفہ نے بڑی بے توجہی سے کہا، اس کام کے مقابلے میں یہ رقم زیادہ نہیں ہے۔

میں نے سنا ہے کہ تم ایک ایسی چکی بنا سکتے ہو جو ہوا کے ذریعے چلے کیا تم ایسی ہی چکی میرے لئے بنا سکتے ہو؟

فیروز جو خلیفہ کی باتیں سن کر بہت زیادہ غیظ میںتھا اشارتاًانہیں قتل کی دھمکی دی اور اس کا جواب دیا کہ میں تمہارے لئے ایسی چکی بناؤں گا جس کی دنیا میں کوئی مثال نہ ہوگی خلیفہ ایرانی کاریگر کی اس جسارت سے بہت ناراض ہوئے اور جو شخص ان کے ہمراہ تھا اس سے کہا: اس ایرانی غلام نے مجھے قتل کی دھمکی دی ہے۔

وہ اپنی خلافت کے آخری دنوں میں اس بات سے آگاہ تھے کہ اسلامی معاشرے کا مزاج بہت آلودہ ہوگیا ہے اور ظلم و ستم بہت تیزی سے پھیل رہا ہے لہٰذا انہوں نے لوگوں سے وعدہ کیاکہ اگر میں زندہ بچ گیا تو ایک سال لوگوں کے درمیان رہ کر ان کی مشکلات کو حل کروں گا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بہت سی شکایتیں ان تک نہیں پہونچتی ہیں، ڈاکٹر علی وردی کے نقل کرنے کے مطابق خلیفۂ دوم نے کہا:

''میرا تبعیض اور بعض کو بعض پر مقدم کرنے کا مقصد صرف تالیف قلوب تھا (لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنا یا اسلام کی طرف مائل کرنا) اگر میں آنے والے نئے سال تک زندہ رہا تو تمام لوگوں کے درمیان مساوات قائم کروں گا اور تبعیض کو تمہارے درمیان سے ختم کردوں گا اور کالے ، گورے، عرب، عجم سب کو مساوی قرار دوں گا جیساکہ ابوبکر اور پیغمبر نے کیا تھا''۔(۱)

مگر خلیفہ زندہ نہ رہے اور موت نے ان کے اور ان کی آرزؤں کے درمیان فاصلہ پیدا کردیا اور فیروز کے خنجر نے ان کی زندگی کا خاتمہ کردیا، لیکن خلیفۂ سوم نے ان کے طبقاتی نظام کوکو اور بھی زیادہ کردیا اور اسلامی حکومت کو کینہ پروروں کی آماجگاہ قرار دیدیا۔

فیروز کا خنجرمزدوروںکے غیظ و غضب کی علامت تھا اگر خلیفہ فیروز ایرانی کے ہاتھوں قتل نہ ہوتے تو آنے والے دنوں میں بہت زیادہ خنجر ان کی طرف بڑھتے۔ہمارے مورخین و مقررین یہ تصور کرتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں طبقاتی اختلاف اور نژار پرستی

______________________

(۱) نقش وعاظ در اسلام ص ۸۴۔

۲۴۹

کی بنیاد عثمان کی حکومت میں پڑی ہے جب کہ عثمان کے زمانے میں نژاد پرستی عروج پرتھی اور سبب بنی کہ لوگوں نے ہر طرف سے ان کی حکومت کے خلاف قیام کیا ، لیکن اس کی بنیاد یہی خلیفہ دوم کے زمانے میں رکھی گئی۔

جی ہاں، پیغمبر اسلام کے بعد سب سے پہلے جس نے اس آگ کو روشن کیا اور اس کا دھواں خود اس کی اور دوسروں کی آنکھوں میں گیا وہ خلیفۂ دوم تھے وہ ہمیشہ کہتے تھے:

بہت غلط کام ہے کہ عرب ایک دوسرے کو قید کریں جب کہ خداوند عالم نے عجم کی وسیع و عریض سرزمین کو اسیروں کے لئے بنایا ہے۔(۱) اور اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی شریعت میںتصرف کیا اور کہا:

عجمیوں کی اولادا سوقت اپنی اپنی میراثیں لے سکتی ہیں جب وہ عرب کی زمین پر پیدا ہوئی ہوں۔(۲)

ان کی نژادپرستی کی علامت یہ ہے کہ انہوں نے عجم کو مدینہ میں رہنے کی اجازت نہیں دی اور اگر فیروز مغیرہ کا غلام مدینے میں زندگی بسر کر رہا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے پہلے سے اجازت لی تھی۔(۳)

یہ تبعیض اور اسی طرح کی دوسری چیزیں سبب بنیں کہ خلیفہ تین ایرانیوں فیروز ، شاہزادہ ہرمزان او ر جفینہ جو ابو لؤلؤ کی بیٹی تھی ،کی سازش سے اپنی جان کھو بیٹھیں ، وہ فیروز کے خنجر سے زخمی ہوئے اور تین دن کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

خٰیال کیا جاتا تھا کہ خلیفہ حق کی راہ سے ہٹنے کا چونکہ تلخ مزہ چکھ ہی لیا ہے لہٰذا اس حساس وقت میں جب کہ ان کی زندگی کا چراغ خاموش ہونے والا ہے صحیح فکر کریں گے اور خطرناک ذمہ داری کو قبول نہیں کریں گے اور مسلمانوں کے لئے بہترین و شائستہ رہبر کا انتخاب کریں گے

لیکن افسوس کہ انہوں نے ایسے حالات میں ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جس کے ذریعے سے اسلامی

______________________

(۱) تاریخ جرجی زیدان ج۴ ص ۳۵۔

(۲) النص والاجتہاد ص ۶۰ ، اجتہاد نص کے مقابلے میں (مترجم) ص ۲۷۵۔

(۳) مروج الذہب ج۱ ص ۴۲۔

۲۵۰

معاشرہ کا بہترین و شائستہ رہبرسے محروم ہوجانا یقینی تھااور اس کے ذریعے قوم پرست شخص کا،کہ بقول خلیفہء دوم ، اگر حکومت کی باگ ڈور کواپنے ہاتھوں میں لے لے تو اپنے رشتہ داروں کو لوگوں کے کاندھوں پر سوار کرے گا، منتخب ہونا مسلم تھا۔

ان تمام مسائل سے آگاہی کے بعد ایک کمیٹی بنانے کا حکم دیدیا، وہ شوریٰ (کمیٹی) جس کے متعلق امام علیہ السلام فرماتے ہیں: ''فیا للہ و للشوریٰ'' (خطبۂ شقشقیہ) (بھلا خدا کے لئے مجھے شوریٰ سے کیا واسطہ ،مترجم)

بغیر کسی شوری کے طرف داری کے تمام واقعات کو یہاں نقل کر رہے ہیں اور پھر اس تاریخی واقعہ کے بارے میںجس نے بہت زیادہ تلخی اور ناکامی کو جنم دیا جو سبب بنا کہ بنی امیہ سو سال تک اسلامی حکومت پر قابض رہیں اوراس کے بعد بنی عباس کو بھی اسے اپنی جاگیر بنالیں،فیصلہ کریں گے۔

شوریٰ کاانتخاب

خلیفہء دوم کا آخری وقت تھا اوران کو خود بھی اس بات کا احساس ہو رہا تھا کہ وہ زندگی کے آخری لمحات میں ہیں ۔ہر طرف سے پیغامات آرہے تھے کہ اپنا جانشین منتخب کیجیئے، عائشہ نے حذیفہ کے بیٹے عبداللہ کے ذریعے پیغام بھیجا کہ محمد کی امت کو بغیر چرواہے کے نہ چھوڑو اور جلد سے جلد اپنا جانشین منتخب کرو، کیونکہ میں فتنہ و فساد سے بہت ڈرتی ہوں۔(۱)

عمر کے بیٹے نے بھی اپنے باپ سے یہی باتیں کہیں اور کہا: اگر تم اپنے گلہ کے چرواہے کو بلاؤ تو کیا تم اس بات کو پسند نہیں کروگے کہ وہ واپس جانے تک کسی کو اپنا جانشین قرار دے، تاکہ بکریوں کے جھنڈ کو بھیڑیوں سے محفوظ رکھے؟ اور جو لوگ خلیفہ کی عیادت کرنے آئے تھے ان لوگوں نے بھی اسی بات کو خلیفہ سے کہا، بلکہ بعض نے تو یہاں تک کہا کہ اپنے بیٹے عبد اللہ کو اپنا جانشین بنا دیجیئے، خلیفہ اپنے بیٹے عبداللہ کی بے لیاقتی سے باخبر تھے لہٰذا عذر خواہی کرتے ہوئے کہا کہ خاندان خطاب کے لئے بس یہی کافی ہے کہ ایک آدمی خلافت کی ذمہ داری کو سنبھالے، پھر انہوں نے کہا کہ وہ چھ افراد جن سے پیغمبر اسلام مرتے دم راضی تھے ان کو بلایاجائے، تاکہ مسلمانوں کا خلیفہ منتخب کرنے کی ذمہ داری ان کے حوالے کی جائے، وہ چھ افراد یہ

______________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۲۲۔

۲۵۱

ہیں: علی ـ ، عثمان، طلحہ، زبیر، سعد وقاص، عبدالرحمن بن عوف۔ جب یہ لوگ خلیفہ کے قریب پہونچے تو خلیفہ نے غصہ کے عالم میں ان کی طرف دیکھا اور کہا تم لوگ ضرور چاہتے ہو کہ میرے بعد اس حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لو، پھر اس نے حضرت علی کے علاوہ ہر ایک سے گفتگو کی اور دلیلوں کا ذکر کرتے ہوئے ان میں سے کسی ایک کو بھی خلافت کے منصب کے لئے شائستہ نہیں جانا، پھر اس وقت انہوں نے حضرت علی کی طرف دیکھا اور حضرت کی پوری زندگی میں اس نے کوئی ضعیف پہلو سوائے اس کے کہ آپ شوخ مزاج ہیں نہیں پایا اور کہا کہ اگر یہ حکومت کی باگ ڈور سنبھالیں تو لوگوں پر حق اور واضح حقیقت کے ساتھ رہبری کریں گے۔

اور آخر میں عثمان سے مخاطب ہوکر کہا کہ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ قریش نے تمہیں خلافت کے لئے منتخب کرلیاہے اور تم نے بنی امیہ اور بنی ابی معیط کو لوگوں پر مسلط کردیا ہے اور بیت المال کو ان کے لئے مخصوص کردیا ہے اور اس وقت عرب کے مخالف گروہ تم پر حملہ آور ہوں گے اور تمہیں تمہارے گھر کے اندر ہی قتل کردیں گے، پھر مزید کہاکہ اگر یہ واقعہ رونما ہو تو میری بات کو یاد کرنا۔پھر انہوں نے شوریٰ کے اراکین کی طرف دیکھا اور کہا اگر تم لوگ ایک دوسرے کی مدد کرو گے تو خلافت کے درخت کا پھل تم اور تمہارے بچے کھائیں گے، لیکن اگر آپس میں ایک دوسرے سے حسد کیا اورایک دوسرے کی مخالفت کی تو معاویہ اس خلافت کو تم سے چھین لے گا۔

جب عمر کی گفتگو ختم ہوگئی تو انہوں نے محمد بن مسلمہ کو بلایا اور اس سے کہا کہ جب مجھے دفن کر کے واپس آنا تو پچاس مسلح افراد کے ساتھ ان چھ افراد کو خلافت کے لئے دعوت دینا اور سب کو ایک گھر میں جمع کرنا اور مسلح افراد کو دروازے پر حفاظت کے لئے کھڑا کرنا تاکہ یہ آپس میں کسی ایک کو خلافت کے لئے منتخب کرلیں اگر ان میں سے پانچ لوگوں نے موافقت کیا اورایک آدمی نے مخالفت کیا تو اسے قتل کردینا اوراگر چار لوگوں نے موافقت کی اور دو آدمیوںنے مخالفت کی تو ان دونوں کو قتل کردینا اور اگر یہ گروہ دو حصوں میں برابر برابر تقسیم ہوجائے تو فیصلہ اس گروہ کے حق میں ہوگا جس میں عبد الرحمن ہو اس وقت ان تین افراد جو کہ موافق ہیں انھیں خلافت کی دعوت دینا اور اگر موافقت نہ ہوں تو دوسرے گروہ کو قتل کردینا اور اگر تین دن گذر جائے اور شوریٰ کے درمیان صحیح نظریہ حاصل نہ ہو تو ان چھ آدمیوں کو قتل کرنا اور مسلمانوں کو آزادی دیدینا تاکہ آئندہ وہ اپنا رہبر و خلیفہ منتخب کرلیں۔

۲۵۲

جب لوگ عمر کو دفن کر کے واپس آئے تو محمد بن مسلمہ نے پچاس سپاہیوں کو جو ہاتھوں میں ننگی تلواریں لئے تھے ان کے ہمراہ شوریٰ کے چھ افراد کو ایک گھر میں جمع کیا اور پھر ان لوگوں کو عمر کے حکم سے باخبر کیا، سب سے پہلے جو چیز سامنے آئی وہ یہ کہ طلحہ جن کا رابطہ مولائے متقیان حضرت علی سے اچھا نہ تھا عثمان کی طرف چلا گیا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ علی علیہ السلام اورعثمان کے ہوتے ہوئے کوئی بھی اسے خلافت کے لئے منتخب نہیں کرے گا، لہذا بہتر ہے کہ عثمان کی موافقت میں اس کی طرف چلا جائے تاکہ علی کی موافقت نہ کرسکے، طلحہ اور حضرت علی کے درمیان مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ وہ بھی ابوبکر کی طرح قبیلۂ تیم سے تھا کیونکہ ابوبکر کے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد قبیلہ بنی تیم اور خاندان بنی ہاشم کے درمیان روابط خراب ہو گئے تھے اور یہ اختلاف بہت دنوں تک باقی رہا۔

زبیر حضرت علی کا پھوپھی زاد بھائی اور علی علیہ السلام اس کے ماموں زاد بھائی تھے، چونکہ وہ آپ کا رشتہ دار تھا لہٰذاامام کی طرف آگیا اور سعد وقاص عبد الرحمن کی طرف چلا گیا کیونکہ وہ دونوں قبیلہ زہرہ سے تھے نتیجتاً شوری کے عہدہ داروں میں سے صرف تین آدمی باقی بچے اور ان میں سے ہر ایک کے پاس دو ووٹ تھے اور کامیابی اس کے لئے تھی جس کی طرف ان تینوں میں سے ایک آدمی مائل ہو۔

اس وقت عبد الرحمن، حضرت علی اور عثمان کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ تم میں سے کون ہے جو اپنا حق دوسرے کودیدے ؟

دونوں خاموش رہے اورکوئی جواب نہ دیا، عبد الرحمن نے پھر کہا میں تم لوگوں کو گواہ بنا کر اپنے کو خلافت کے اس مسئلہ سے دور کرتا ہوں تاکہ تم میں سے کسی ایک کو خلافت کا حقدار بنائوں۔

پھر حضرت علی کی طرف متوجہ ہو کر کہتا ہے میں تمہاری بیعت کروںگا اور تم خدا کی کتاب اور سنت پیغمبر پر عمل کرنا او رشیخین کی سیرت کی پیروی کرنا۔

حضرت علی نے اس کی آخری شرط کو قبول نہیں کیا اور کہا میں تمہاری بیعت کو قبول کروں گا مگر شرط یہ ہے کہ کتاب خدا اور سنت پیغمبر اور اپنے علم واجتہاد کے مطابق عمل کروں۔

جب عبدالرحمن نے علی کا منفی جواب سنا تو عثمان کو مخاطب کر کے وہی باتیں دہرائیں ، عثمان نے فوراً جواب دیا، ہاں ، میں قبول کرتاہوں۔

۲۵۳

اس وقت عبدالرحمن نے اپنا ہاتھ عثمان کے ہاتھ پر رکھا اوراسے امیر المومنین کہہ کر سلام کیا اور اس جلسہ کا نتیجہ مسلمانوں کو جو گھر کے باہر منتظر تھے سنایاگیا۔

شورٰی کے اس جلسہ کانتیجہ ایسا نہ تھا جس سے حضرت ابتدا سے واقف نہ تھے ،یہاں تک کہ ابن عباس نے بھی شوری کے جلسہ کی کاروائی سننے کے بعد حضرت کی خلافت سے محرومی کو تیسری مرتبہ اعلان کیا تھا لہذا جب عوف کے بیٹے نے عثمان کے ہاتھ پر بیعت کر کے بہترین نقش پیش کیا اس وقت حضرت علی نے عبد الرحمن کو مخاطب کر کے کہا :

تم نے اس امید کے ساتھ کہ عثمان آخر وقت میں خلافت تمہارے حوالے کردیں گے اس کو منتخب کیا جس طرح سے عمر نے بھی ابوبکر کو چنا تھا مگر مجھے امید ہے کہ خداوند عالم تم دونوں کے درمیان سخت اختلاف پیدا کردے گا۔

مورخین نے لکھا ہے کہ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ عوف کے بیٹے اورعثمان کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی اور ایک دوسرے سے رابطہ منقطع ہوگیایہاں تک کہ عبدالرحمن کا انتقال ہوگیا۔(۱)

یہ خلیفہ دوم کی شوریٰ (چھ آدمیوں کی کمیٹی) کے واقعہ کاخلاصہ تھا ،اس کے پہلے کہ ہم تاریخ اسلام کے اس واقعہ پر اپنا نظریہ پیش کریں حضرت علی علیہ السلام کے نظریات کوبیان کرر ہے ہیں امام علی علیہ السلام خطبہ شقشقیہ (نہج البلاغہ کا تیسرا خطبہ) میں ارشاد فرماتے ہیں :

''حتی اذا مضی لسبیله جعلها فی جماعةِ زعمَ انی احدُهم فیا للّه و للشوری! متی اِعترضَ الریبُ فیَّ مع الاولِ منهم حتی صرتُ اقرنُ الی هذهِ النظائرِ، لکنی اسففتُ اِذ اُسفّوا و طرتُ اذ طاروا فصغی رجل منهم لِضِغنِهِ و مالَ الآخرُ لصِهرِهِ مع هن و هن''

جب عمر کا انتقال ہوا توخلافت کو شوری کے حوالے کردیااور یہ خیال کیا کہ میں بھی اسی شوری کا ایک فرد ہوں خدایا اس شوری کے متعلق تجھ سے مدد چاہتا ہوں۔ کب میری حقانیت کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیااس وقت جب میں ابوبکر کے ساتھ تھا یہاں تک کہ آج میں ان لوگوںکی صف میں لاکر کھڑا کردیا گیا

______________________

(۱) شوری کے متعلق تمام معلومات شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۱۸۸۔ ۱۸۵ سے تلخیص کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔

۲۵۴

ہوں؟ لیکن مصلحت کی وجہ سے میں نے ان کی موافقت کردی اور شوریٰ میں شریک ہوا، لیکن اسی شوری کے ایک ممبر نے مجھ سے کینہ رکھنے کی وجہ سے میری کھلم کھلا مخالفت کی اور خلیفہ سے رشتہ داری کی وجہ سے اس کے پاس چلا گیا اور دو افراد وہ جن کا نام لینا بھی برا ہے (طلحہ اور زبیر)

نہج البلاغہ میں عمر کی شوری کے متعلق اس سے زیادہ اور مطالب نہیں ہیں مگر قارئین کی معلومات کے لئے ان کے جرائم اور جنایت ظلم و بربریت، ان کی بدترین سازشوں اور خلیفہ کی خود غرضیوں سے لوگوں کو باخبر کرنے کے لئے چند نکتے یہاں بیان کر رہے ہیں۔

عمر کی شورٰی پر ایک نظر

اس تجزیہ میں حساس اوراہم مسئلوں کا ذکر کریں گے اور جزئی او رغیر مہم نکات سے پرہیز کریں گے۔

۱۔ مختلف گروہوں نے خلیفۂ دوم سے جو یہ گذارش کی کہ اپنا جانشین منتخب کیجیئے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام لوگوں نے فطری طور پر یہ درک کیا کہ مسلمانوں کے خلیفہ کے لئے ضروری ہے کہ اپنی زندگی میں اسلامی معاشرہ کے لئے اپنا جانشین معین کرے ،کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو ممکن ہے پورے معاشرے میں فتنہ و فساد برپا ہو جائے(۱) اور اس راہ میں بہت زیادہ خون بہایا جائے، اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل سنت کے دانشمند کس طرح سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پیغمبر نے اپنی زندگی میں اپنا جانشین معین نہیں کیا؟

۲۔ خلیفہ کا جانشین معین کرنے کے لئے حکم دینا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام کے انتقال کے بعد شوریٰ کی حکومت تشکیل دینا بے بنیاد تھا اور اس طرح کے کسی حکم کا وجود نہ تھا ورنہ کس طرح ممکن ہے کہ شوریٰ بنانے سے متعلق پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صریحی حکم کے ہوتے ہوئے خلیفہ دوم کے جانشین منتخب کرنے کی پیشنہاد کی جائے؟

______________________

(۱)لاتَدَعْ امةَ محمدٍ بلاراعٍ استخلف علیهم و لاتدعْهم بعدَک هملا فانی اخشی علیهم الفتنة ، الغدیر ج۷ ص ۱۳۳ مطبوعہ بیروت، منقول ازالامامة والسیاسة ج۱ ص ۲۲ ۔

۲۵۵

حکومت شوریٰ یا اس سے ہٹ کرکہ امام کا تعین خداوند عالم کی طرف سے بہترین شیوۂ حکومت ہے جس کو انسان منتخب کرسکتا ہے ایک ایسا امر ہے جو آج تمام لوگوں کی زبانوں پر ہے اور اس کے ماننے والے بہت بڑھا چڑھا کر اس کی تعریف کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ثابت کریں کہ اسلام میں حکومت کی اساس یہی ہے (یعنی یہی اصلی حکومت ہے) اور پیغمبر کی یہی حکومت شوری ہے اورتعجب کی بات تو یہ ہے کہ تاریخ اسلام میں اس طرح کی حکومت کا کوئی وجود نہیں ہے۔

کیاہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر کے دوست واصحاب سب نے غلطی اور اشتباہ کیا ہے اور پیغمبر کے حکم کو نظر انداز کردیا ہے؟

۳۔ عمر نے لوگوں کی درخواست کا جواب دیتے ہوئے کہا:

''اگر ابوعبیدہ زندہ ہوتا تو اس کو میں اپنا جانشین منتخب کرتا کیونکہ میں نے پیغمبر سے سناہے کہ وہ اس امت کا امین ہے اور اگر سالم، ابوحذیفہ کا مولا زندہ ہوتا تو میں اسے اپنا جانشین بناتا، کیونکہ میں نے پیغمبر سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: وہ خدا کا دوست ہے''۔وہ ایسے وقت میں بجائے اس کے کہ زندوں کی فکر کرتے مردوں کی فکر میں غرق تھاکہ یہ مردہ پرستی کے ساتھ ساتھ ان لوگوں سے بے توجہی کی علامت ہے جو ان کے زمانے میں زندہ تھے۔بہرحال، اگر ابوعبیدہ اور سالم کے انتخاب کا ملاک و معیار یہ تھا کہ پیغمبر نے ان لوگوں کو امت کا امین اور خدا کا دوست کہا تھا،تو پھر عمر نے ابوطالب کے بیٹے کو کیوں یاد نہیں کیا؟ جن کے بارے میں پیغمبر نے فرمایا:

''عَلِیّ مَعَ الْحَقِّ وَالْحَقُّ مَعَ عَلِیٍّ'' (۱) یعنی علی حق کے ساتھ اور حق علی کے ساتھ ہے۔

حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات اوران کے طیب و طاہر مزاج، ان کے بے نظیر فیصلوں اوران کی بہادری ، کتاب و سنت پر ان کا علم وغیرہ سے وہ دوسروں سے زیادہ باخبر تھے پھر کیوں انہوں نے حضرت علی کا نام نہیں لیااور مردوں کو یاد کرنے لگے جن کا مشغلہ دوسروں کے ساتھ کینہ اور بغض و حسد کے علاوہ کچھ اور نہ تھا؟

______________________

(۱) یہ حدیث محدثین اہل سنت سے بطور متواتر نقل ہوئی ہے۔ الغدیر ج۳ ص ۱۵۹۔ ۱۵۶، مطبوعہ نجف اور ص ۱۸۰۔ ۱۷۶، مطبوعہ بیروت کی طرف مراجعہ کریں۔

۲۵۶

۴۔ اگر امامت کا مقام اور منصب ایک الہی مقام اور رسالت کے فرائض کو آگے بڑھانا ہے تو امام کو پہچاننے کے لئے نص الہی کا پابند ہونا چاہئے، اور اگر مقام امامت ، مقام اجتماعی ہے تو اس کی پہچان کے لئے ضروری ہے کہ عمومی افکار کی طرف رجوع کیا جائے، لیکن امام کا انتخاب اس شوریٰ کے ذریعے جس کے ممبران خود اپنی طرف سے خلیفہ نے معین کئے ہوں، نہ نص کی پیروی ہے اورنہ ہی افکار عمومی کا احترام اگر ضروری ہے کہ آنے والے خلیفہ کا انتخاب خود موجودہ خلیفہ کرے تو پھر اس کام کو چھ آدمیوں پر مشتمل شوریٰ کے حوالے کیوں کیا۔

اہل سنت کے نظریہ کے مطابق ضروری ہے کہ امام اجتماع امت یااہل حل و عقد کے ذریعے منتخب ہو اور آنے والے خلیفہ کی نظر کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن نہیں معلوم کیوں وہ لوگ اس کام کو صحیح جانتے ہیں اور چھ نفری شوری کی تائید کو لازم الاجراء سمجھتے ہیں۔

اگر امام کو منتخب کرنا خود امت کاحق اور لوگوں کے اختیار میں ہے تو خلیفہ وقت نے کس دلیل سے اس چیز کو لوگوں سے سلب کرلیا، اور شوریٰ کے حوالے کردیا جس کے ممبران کو خود اس نے معین کیا تھا؟

۵۔ کسی بھی طریقے سے بہ بات واضح نہیں ہے کہ شوریٰ کے ممبران کی تعداد صرف چھ آدمیوں میں کیوں منحصر تھی، اگر ان لوگوں کو منتخب کرنے کی علت یہ تھی کہ رسول خدا(ص) انتقال کے وقت ان لوگوں سے راضی تھے، تو یہی ملاک و معیار عمار ، حذیفہ یمانی، ابوذر ، مقداد، ابیّ بن کعب وغیرہ پر بھی ثابت ہوتا ہے۔

مثلاً پیغمبر (ص)نے عمار کے بارے میں فرمایا:

''عمارُ مع الحقِ والحقُ معه یدور معه اینما دار'' (۱)

عمار حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے جہاں بھی وہ جاتے ہیں حق ان کے ساتھ جاتا ہے اور ابوذر کے بارے میں فرماتے ہیں۔

______________________

(۱) الغدیر ج۹ ص ۲۵ مطبوعہ نجف۔

۲۵۷

''ما اظلت الخضرائُ و لا اقلت الغبرائُ علی ذی لهجة اصدق من ابی ذر'' (۱)

زمین نے کسی ایسے کا بار نہیں اٹھایا اور آسمان نے کسی ایسے پر سایہ نہیں کیا جو ابوذر سے زیادہ سچا ہو۔

ایسے باصفات حضرات کے وجود کے بعد کیوں عمر نے ان کو شوریٰ کے ممبران میں شامل نہیں کیا، اور ایسے افراد کو منتخب کیا جن میں سے اکثر حضرت علی علیہ السلام کے مخالف تھے ان میں سے صرف ایک شخص حضرت علی علیہ السلام کا چاہنے والا تھا اور وہ زبیر تھے اور باقی چار لوگ امام کے سخت مخالف تھے اگرچہ زبیر بھی آخر میں مولائے کائنات کے لئے مضر ثابت ہوئے، کیونکہ زبیرجو ان دنوں خود کو حضرت علی کا اپناہمعا ومثل نہیں سمجھتے تھے اور آپ کے ساتھ تھے لیکن آخر میں قتل عثمان کے بعد خلافت کا دعوی کرنے لگے۔اگر شوریٰ کے لئے چنے جانے کا معیار جنگ بدر واحد میں شریک ہونااور مہاجر ہونا تھا تو یہ معیار تو دوسروں پر بھی صادق آتا تھا،تو پھر ان کے درمیان سے کیوں اس گروہ کے لئے لوگوں کو منتخب نہیں کیا گیا؟

۶۔ خلیفہ کا یہ دعوی تھا کہ ہم نے ان لوگوں کو شوریٰ کے لئے اس لئے منتخب کیا ہے کہ پیغمبر اسلام انتقال کے وقت ان سے راضی تھے، جب کہ خود انہوں نے شوریٰ کے ممبران کے بارے میں طلحہ کو دوسرے انداز سے پہچنوایا تھا، اور ان سے کہا تھا کہ تم نے آیت حجاب نازل ہوتے وقت ایسی بات کہی تھی کہ پیغمبر تجھ پر غضبناک ہوئے تھے اور وفات کے دن تک تم سے ناراض تھے۔

اب خود فیصلہ کریں کہ ان دونوں نظریوں میں سے کس کو قبول کیا جائے؟

خلیفہ نے شوریٰ کے ممبران کے انتقاد میں ایسی باتیں کہیں کہ جن میں سے اکثر خلافت کیا شوری کا ممبر ہونے کی صلاحیت کے بھی منافی تھی، مثلاً زبیر کے بارے میں کہا کہ تم ایک دن انسان، اور ایک دن شیطان ہو، کیا ممکن ہے کہ ایسا شخص شورائے خلافت میں شریک ہواور مسلمانوں کا خلیفہ قرار پائے؟ اور اگر ایسا ہوتا کہ وہ شوریٰ کے جلسے کے وقت شیطانی نیت رکھ کر جلسہ میں شریک ہوتا تو اس کی شیطانی فکر کا نتیجہ کیا ہوتا؟

اور انہوں(عمر) نے عثمان کے بارے میں کہا: اگر تم خلیفہ بنے تو بنی امیہ کو لوگوں پر مسلط کردو گے و

______________________

(۱) محدثین فریقین نے اس حدیث کو متفقہ طور پر نقل کیا ہے اور ہم نے اپنی کتاب ''شخصیتہائے اسلامی شیعہ'' ص ۲۲۰، میں اس کے حوالے کو نقل کیا ہے۔

۲۵۸

.... ایسا شخص جو اس قسم کی طینت رکھتا ہو اور رشتہ داری کی بناء پر حق سے منحرف ہوجائے تو کیا یہ شخص شورائے خلافت کے ممبر بننے کی لیاقت و صلاحیت رکھتا ہے؟ یا امت کے لئے خلیفہ کا تعیین کرے؟

۷۔ خلیفہ کو یہ علم کیسے ہوا کہ عثمان کو خلافت کے لئے چنا جائے گا اور اپنی قوم کو لوگوں پر مسلط کرے گا اور ایک دن وہ آئے گا جب لوگ اس کے خلاف قیام کریں گے؟ (اور پھر ان سے یہ بھی کہا کہ اس موقع پر مجھے یاد کرنا)۔

خلیفہ نے یہ فراست و دانائی یاغیب کی باتوں کو کہاں سے حاصل کیا تھا؟ کیااس کے علاوہ کچھ اورہے کہ انہوں نے خلافت کے لئے شوریٰ کے ممبران کا اس طرح انتخاب کیاتھا کہ عثمان کا خلافت کے لئے منتخب ہوجانااور علی کو حتماً خلافت سے محروم ہو جانا یقینی تھا۔

۸۔ عمر بے شمار کوششوں کے باوجود امام علی علیہ السلام کی زندگی میں کوئی عیب تلاش نہ کرپائے اور ایسی گفتگو کی کہ بعد میںعمرو عاص نے اسے بہانہ بنایااور کہا علی شوخ مزاج تھے۔(۱)

عمر نے حضرت کے کشادہ سینے اور معاف کرنے اورامور مادی کو حضرت کی طرف سے ناچیز شمار کرنے کو شوخ مزاجی سے تعبیر کیا ہے وہ چیز جو ایک رہبر کے پاس ہونا ضروری ہے وہ یہ کہ حق کے اجراء کرنے اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنے میں مصمم ارادہ رکھتا ہو اور حضرت علی اس خصوصیت کی اعلیٰ مثال تھے او رخود خلیفہ دوم نے اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تم نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو لوگوں کی واضح و آشکار حق کے ساتھ رہبری کرو گے۔ ۹۔ عمر نے عبد الرحمن بن عوف کو کیوں معیار قرار دیا اور کہا کہ اگر دونوں کی رائے مساوی ہو تو اس گروہ کو مقدم کرنا جس میں عبد الرحمن بن عوف ہو؟

ممکن ہے یہ کہا جائے کہ خلیفہ کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ مساوی رائے ہونے کی صورت میں ضروری تھا کہ اس مشکل کو حل کیا جائے اور خلیفہ نے عبد الرحمن کو یہ فیصلہ کا حق دے کر اس مشکل کو برطرف کردیا۔

______________________

(۱) امام ـ نے اس تہمت کو عمرو عاص سے نقل کیا ہے اوراس طرح سے جواب دیا ہے.''عجباً لابنِ النابغة یزعُم ُلاهلِ الشامِ ان فیَّ دُعابة و ان امرؤُ تلعابة... لقد قال باطلا و نطق آثما ، نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۸۲۔

۲۵۹

اس کا جواب بالکل واضح ہے کیونکہ عبدالرحمن بن عوف کو فیصلہ کرنے کا حق دینا عثمان کی کامیابی کو مستحکم کرنے کے علاوہ کچھ اور نہ تھا کیونکہ عبد الرحمن عثمان کا بہنوئی تھا لہذا فیصلہ کرتے وقت اپنی رشتہ داری کو کبھی فراموش نہیں کرے گا ،یہاں تک کہ اگر فرض بھی کرلیں کہ وہ اچھا انسان تھاتب بھی رشتہ داری کا اثر نہ چاہتے ہوئے بھی پڑ جاتاہے۔

عمر اس مشکل کو برطرف کرنے کے لئے دوسرے گروہ کی رائے کو فیصلہ کن رائے قرار دے سکتے تھے کہہ سکتے تھے کہ اگردونوں گروہ ایک ہی رائے پر متفق ہوں۔ تو آخری رائے ان لوگوں کی ہوگی جس رائے سے پیغمبر کے پاکیزہ اصحاب راضی ہوں، نہ کہ عبدالرحمن کی رائے جو کہ عثمان کا بہنوئی اور سعد وقاص کا عزیزتھا۔

۱۰۔ عمر نے جب کہ وہ درد کی وجہ سے بے حال تھے وہاں پر موجود افراد سے کہا کہ میرے بعد تم لوگ آپس میں اختلاف نہ کرنا اور تفرقہ بازی سے پرہیز کرنا کیونکہ اگر تم نے ایساکیاتو معاویہ خلافت کو لے لیگا اور تم سے حکومت کو چھین لے گا،اسکے باوجود عبدالرحمٰن کی رائے کو فیصلہ کن قرار دیا جو عثمان کا رشتہ دار تھا، عثمان اور معاویہ بنی امیہ کے نجس درخت کے دو پھل ہیں اور عثمان کی خلافت معاویہ کی حکومت کے لئے استحکام کا باعث بنی تھی ۔

اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ خلیفہ کبھی حاکموں کے اموال کو لے کر ان کو ان کے منصب سے معزول کردیتاتھا مگر کبھی بھی معاویہ کی حکومت میں دخل اندازی نہیں کی اور اسے مال جمع کرنے اور شام میں اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیاتھا، جب کہ یہ جانتا تھا کہ وہ ایک عام حاکم کی طرح (حاکموں کی روش کے مطابق) اپنے فرائض کوانجام نہیں دیتا ہے اور اس کا دربار، قیصر و کسریٰ کے نمائندوں سے کم نہیں ہے۔

کیا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ایک پلاننگ تھی اور اس کام کا مقصد بنی امیہ کے لئے زمینہ فراہم کرنا تھا جو اسلام آنے سے پہلے سے ہی بنی ہاشم کے خونی دشمن تھے؟ جی ہاں، ان کا مقصد یہ تھا کہ اگر بنی ہاشم مرکز اسلام ''مدینہ'' میں ایک طاقت بن کر ابھرے اور لوگ ان کے ماننے والے ہوگئے تو ایک بیرونی طاقتور حکومت ہمیشہ ان کے لئے مزاحمت کا سبب ہوگی، چنانچہ ایساہوا بھی۔

۱۱۔ عمر نے اپنی عجز و انکساری ظاہر کرتے ہوئے کہا: میرے بیٹے عبداللہ کورائے نہ دینا کیونکہ اس کے اندر اتنی بھی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اپنی عورت کو طلاق دے سکے، ان تمام چیزوں کے باوجود اسے شوری کا مشاور قرار دیا

۲۶۰