فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)4%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362278 / ڈاؤنلوڈ: 6024
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

دسویں فصل

حضرت علی علیہ السلام اور خلیفۂ دوم کوسیاسی مشورے

امام علی علیہ السلام کا سب سے بڑا مقصد اسلام کی نشر و اشاعت اور مسلمانوں کی عزت و آبرو کومحفوظ کرنا تھا۔ اسی بنا پر اگرچہ آپ اپنے کو پیغمبر کا برحق جانشین مانتے تھے اور آپ کی عظمت و برتری دوسروں پر واضح و آشکار تھی، اس کے باوجود جب بھی خلافت مشکل میں گرفتار ہوتی تھی تو آپ بلند ترین افکار اور عالی ترین نظروں سے اسے حل کردیتے تھے، اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ امام نے خلیفہء دوم کے زمانے میں مشورے اور بہت زیادہ سیاسی، اجتماعی اور علمی مشکلوں کو حل کیا ہے ،بہت سی جگہیں جہاں پر عمر نے سیاسی مسئلوں میں حضرت علی کی رہنمائیوں سے استفادہ کیا ہے ان میں سے سے چند چیزوں کو ذکر کر رہے ہیں۔

ایران فتح کرنے کے متعلق مشورہ

۱۴ھ میں قادسیہ کی سرزمین پر اسلام کی فوج او رایرانی فوج کے درمیان زبردست جنگ ہوئی اور مسلمانوں کو کامیابی نصیب ہوئی اورایرانی فوج کا کمانڈر رستم فرّخ زاد، اور اس کے لشکر کے کچھ افراد قتل کردیئے گئے اور پورے عراق پر مسلمانوں کا سیاسی اور فوجی تسلط ہوگیا اور مدائن جو ساسانی بادشاہوں کی حکومت کا مرکز تھا مسلمانوں کے قبضے میں ہوگیا او رایرانی فوج کے سپہ سالار پیچھے ہٹ گئے۔

ایران کے فوجی سپہ سالاروں اور مشیروں کواس بات کا خوف تھا کہ کہیںایسا نہ ہو کہ اسلام کی فوج دھیرے دھیرے بڑھتی رہے اور پورے ملک کو اپنے قبضے میں لے لے، ا س خطرناک حملے کے مقابلے کے لئے پارسی بادشاہ ، یزدگرد (ایرانی بادشاہ)نے فیروزان کی سپہ سالانی میں ایک لاکھ پچاس ہزار سپاہیوں کی فوج بنائی تاکہ ہر طرح کے حملے سے مقابلہ کریں اور اگر حالات سازگار ہوں تو خود حملہ کردیں۔

(عمار یاسر کے بقول) اسلام کی فوج کا سپہ سالار سعد وقاص ، جس کی کوفہ پر حکومت تھی اس نے عمر کو خط لکھا اور اسے حالات سے باخبر کیا کہ کوفہ کی فوج جنگ کرنے کے لئے تیار ہے اور قبل اس کے کہ دشمن ان پر حملہ کریں وہ لوگ دشمن پر رعب و دبدبہ بٹھانے کے لئے جنگ شروع کردیں۔

۲۸۱

خلیفہ مسجد میں گئے اور تمام بزرگ صحابیوں کو جمع کیااوران لوگوں کواپنے ارادے سے باخبر کیا کہ میں مدینہ چھوڑ رہا ہوں اور کوفہ اور بصرہ کے درمیان قیام کروں گا تاکہ وہاں رہ کر فوج کی رہبری کروں ۔ اس وقت طلحہ کھڑا ہوا اور خلیفہ کے اس اقدام کی تعریف کی اور ایسی تقریر کی جس کے ایک ایک لفظ سے چاپلوسی کی بو آرہی تھی۔

عثمان بھی اپنی جگہ سے اٹھے اور انہوں نے نہ صرف خلیفہ کے مدینہ چھوڑ نے کی تعریف کی بلکہ خلیفہ سے کہا کہ شام اور یمن کی فوج کے پاس خط لکھو کہ وہ لوگ اس جگہ کو چھوڑ دیں اور تم سے آکر مل جائیں اور تم اتنے زیادہ سپاہیوں کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرسکتے ہو۔ اس وقت حضرت علی علیہ السلام اپنی جگہ سے اٹھے اور دونوں نظریوں پر تنقید کی اور فرمایا: ''وہ سرزمین جو محنت و مشقت اور ابھی ابھی مسلمانوں کے تصرف میں آئی ہے اس کا اسلام کی فوج سے خالی رہنا صحیح نہیں ہے اگر یمن اور شام کے مسلمانوں کو وہاں سے ہٹا دو گے تو ممکن ہے حبشہ کی فوج یمن اور روم کی فوج شام کواپنے قبضے میں کرلیں، اور مسلمانوں کی اولادیں اورعورتیں جو یمن اور شام میں زندگی بسر کر رہی ہیں مصیبتوں میں گرفتار ہو جائیں۔ اور اگر مدینے کو چھوڑ کر چلے گئے تو اطراف و جوانب کے عرب اس موقع سے فائدہ اٹھائیں گے اورایسا فتنہ پیدا کردیں گے جس کا نقصان اس فتنہ سے زیادہ ہوگا جس کے مقابلے کے لئے جارہے ہو۔ اور (امور سلطنت) میں حاکم کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو مہروں میں ڈوروں کی۔ جو انھیں ایک جگہ ملا کر رکھتا ہے پس اگر ڈورا ٹوٹ جائے تو سب مہرے بکھر جائیں گے اور پھر کبھی سمٹ نہ سکیں گے اگر تو اسلامی فوج کے سپاہیوں کی کمی کی بنا پر فکر مند ہے تو مسلمان جو ایمان رکھتے ہیں سپرد کردیں ،تیری مثال چکی کی اس لکڑی کی ہے جو بیچ میں رہتی ہے اور جنگ کی چکی کو اسلام کے سپاہیوں کے ذریعے انجام دے، جنگ کے میدان میں تمہارا جانا دشمنوں کی جرأت میں اضافہ کا سبب ہوگا، کیونکہ وہ لوگ یہ فکر کرتے ہیں کہ تم اسلام کے پیشوا و حاکم ہو اور تمہارے علاوہ مسلمانوں کا کوئی رہبر نہیں ہے اور اگر اس کودرمیان سے اٹھالیں تو ان لوگوںکی مشکل حل ہو جائے گی اور یہ فکر، ان کے جنگ کی حرص اور کامیابی حاصل کرنے کا باعث بنے گی۔(۱) خلیفہ امام کی بات سننے کے

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۴۴، تاریخ طبری ج۴ ص ۲۳۸۔ ۲۳۷، تاریخ کامل ج۳ ص ۳، تاریخ ابن کثیر ج۷ ص ۱۰۷، بحار الانوارج۹ ص ۵۰۱مطبوعہ کمپانی۔

۲۸۲

بعد جنگ پر جانے سے باز آگیا اور کہا یہ رائے و ارادہ علی کا ارادہ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ان کے حکم کی پیروی کروں۔(۱)

بیت المقدس فتح کرنے کے بارے میں مشورہ

بیت المقدس فتح کرنے کے سلسلے میں عمر نے حضرت علی علیہ السلام سے مشورہ کیا اور حضرت کے حکم کی پیروی کی۔

مسلمانوں کو شام فتح کئے ہوئے صرف ایک مہینہ گزرا تھا اوران لوگوں کا ارادہ تھا کہ بیت المقدس کی طرف چڑھائی کریں، اسلامی فوج کے علمبردار ابوعبیدہ جرّاح اور معاذ بن جبل تھے۔

معاذ نے ابوعبیدہ سے کہا: خلیفہ کو خط لکھو اور بیت المقدس کی طرف چڑھائی کے متعلق سوال، کرو ابو عبیدہ نے خط لکھا، خلیفہ نے مسلمانوں کے سامنے خط پڑھااوران لوگوں سے مشورہ طلب کیا۔

امام ـ نے عمر کو شوق و رغبت دلایاکہ اپنے سپہ سالاروں کو خط لکھو کہ بیت المقدس کی طرف بڑھتے رہیں اور بیت المقدس فتح کرنے کے بعد ٹھہر نہ جائیں بلکہ سرزمین قیصر میں داخل ہوں اور اس بات سے مطمئن رہیں کا کامیابی انھیں ہی ملے گی کیونکہ پیغمبر نے اس فتح و کامرانی کی خبر دی ہے۔

خلیفہ نے فوراً قلم و کاغذ منگایا اور ابوعبیدہ کو خط لکھا اوراسے جنگ جاری رکھنے اور بیت المقدس کی طرف بڑھنے کا حکم اور رغبت دلایا اور لکھا کہ پیغمبر کے چچازاد بھائی نے مجھے بشارت دی ہے کہ بیت المقدس تمہارے ہاتھوں سے فتح ہوگا۔(۲)

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۴۴، تاریخ طبری ج۴ ص ۲۳۸۔ ۲۳۷، تاریخ کامل ج۳ ص ۳، تاریخ ابن کثیر ج۷ ص ۱۰۷، بحار الانوارج۹ ص ۵۰۱مطبوعہ کمپانی۔

(۲)ثمرة الاوراق، حاشیهٔ المستطرف میں، تحقیق: تقی الدین حموی ج۲ ص ۱۵، مطبوعہ مصر ۱۳۶۸ھ۔

۲۸۳

تاریخ اسلام کی ابتدا

ہر قوم کی ایک ابتدائی تاریخ ہوا کرتی ہے جس میں لوگ اپنے تمام واقعات و حادثات کو پرکھتے ہیں، مسیحی قوم کی تاریخ کا آغاز حضرت عیسیٰ کی ولادت سے ہوتا ہے اور اسلام سے پہلے عربوں کی تاریخ ''عام الفیل'' سے شمار ہوتی تھی، بعض قوموں کی تاریخ کاآغاز عمومی ہوتا ہے اور بعض قومیں حادثات وغیرہ سے اپنی تاریخ کو یاد کرتی ہیں مثلاً قحط والا سال، جنگ کا سال، وغیرہ۔

عمر کی خلافت کے تیسرے سال تک مسلمانوں کی کوئی تاریخ نہیں تھی جسے خطوط اور تمام قرارداداورحکومت کے امور اس تاریخ سے مخصوص ہوتے، تو پھر ان خطوط کا کیا کہنا جو فوج کے سپہ سالاروں کے لئے لکھا جاتا تھا اورتمام خطوط میں صرف مہینوں کا نام لکھا جاتا تھا، لیکن تاریخی سال کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا تھا، یہ کام اسلامی نظام میں نقص کے علاوہ خط موصول کرنے والوں کے لئے بھی مشکلیں ایجاد کر رہا تھا کیونکہ ممکن تھا کہ دو مختلف حکم سپہ سالار کے پاس یا حاکم وقت کے پاس پہونچے اور راستے کی دوری اور خطوط میں تاریخ درج نہ ہونے کی وجہ سے وہ نہیں جان پائیں کہ پہلے کون سا خط لکھا گیا ہے۔خلیفہ نے تاریخ اسلام کی ابتدا اور اس کے تعیین کے لئے پیغمبر کے تمام صحابیوں کو جمع کیا لوگوںنے اپنے اپنے حساب سے نظریہ پیش کیا بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ پیغمبر اسلام کی ولادت کی تاریخ سے اسلامی تاریخ کا آغاز ہو اور بعض لوگوں نے کہا کہ عید بعثت (۲۷ رجب معراج پیغمبر) سے تاریخ کی ابتدا ہو ، انھیں انہی نظریوں میں حضرت علی علیہ السلام نے بھی اپنا نظریہ پیش کیا کہ جس دن پیغمبر اسلام نے سرزمین شرک کو چھوڑا اور سرزمین اسلام پر قدم رکھا اسی سے اسلامی تاریخ کا آغاز کیا جائے، عمر نے تمام نظریوں میں سے حضرت علی علیہ السلام کے نظریہ کو پسند کیااور پیغمبر اسلام کی ہجرت کو تاریخ اسلام کی ابتدا قرار دیا اوراسی دن سے تمام خطوط، سندیں، اور حکومت کے دفاتر وغیرہ میں ہجری سال لکھا جانے لگا۔(۱) بے شک یہ بات صحیح ہے کہ ولادت پیغمبر یا پیغمبر کی بعثت ایک بڑا واقعہ ہے لیکن ان دونوں دنوں میں اسلام لوگوں کی آنکھوں کے سامنے اجاگر نہ تھا، پیغمبر کی ولادت کے دن اسلام کا وجود نہیں تھا اور پیغمبر کی بعثت کے دن اسلام کا کوئی قانون و قاعدہ نہ تھا، لیکن ہجرت کے دن کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی طاقت و قدرت اور کامیابی اور اسلامی حکومت کی تشکیل کا دن تھا اور اس دن پیغمبر نے سرزمین شرک کو چھوڑا تھا اور مسلمانوں کے لئے اسلامی وطن بنایا تھا۔

______________________

(۱) تاریخ یعقوبی ج۱ ص ۱۲۳، تاریخ طبری ج۲ ص ۲۵۳، کنز العمال ج۵ص ۲۴۴، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۱۳ مطبوعہ مصر۔

۲۸۴

خلیفۂ دوم کے زمانے میں لوگ صرف حضرت علی کی طرف رجوع کرتے تھے

پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت کے بعد مختلف قوم و ملت میں اسلام پھیلنے کی وجہ سے مسلمان نئے مسائل سے روبرو ہوا جس کا حکم قرآن مجید اور پیغمبر کی حدیث میں موجود نہیں تھا، کیونکہ احکام وفروعات سے مربوط آیتیں محدود ہیں، اورتھیں واجبات و محرمات سے متعلق پیغمبر اسلام کی جو حدیثیں امت کے درمیان موجود تھیں ان کی تعداد چار سو سے زیادہ نہیں تھی(۱) یہی وجہ ہے کہ مسلمان بہت سے مسئلوں کے حل کے لئے جس کے بارے میں قرآنی نص اور حدیث پیغمبر وارد نہیں ہوئی ہے مشکلوں میں گرفتار ہوئے۔

ان مشکلوں نے ایک گروہ کو اس بات پر مجبور کردیا کہ وہ ان مسئلوں میں اپنی عقل او رائے پر عمل کریں اورغیر صحیح معیاروں کے ذریعے اس مسئلہ کا حکم معین کریں۔ اس گروہ کو ''اصحاب رائے'' کہتے ہیں، وہ لوگ کتاب و سنت سے قطعی اور شرعی دلیل سے استناد کرنے کے بجائے موضوعات کا مطابق مصالح و مفاسد کے حل نکالتے تھے اور ظن و گمان کے ذریعے خدا کے حکم کو معین کرتے تھے اور اسی کے مطابق فیصلہ دیتے تھے۔

خلیفۂ دوم نے بہت سی جگہوں پر نص کے مقابلے میں خود اپنی رائے پر عمل کیا ہے اور وہ جگہیں آج بھی تاریخ کے صفحات پر درج ہیں لیکن اصحاب کی رائے کے متعلق انداز دوسرا تھا ان کے بارے میں کہتے ہیں۔

''صاحبان رائے'' پیغمبر اسلام کی سنتوں کے دشمن ہیں وہ لوگ پیغمبر کی حدیث کو یاد نہیں کرسکتے تھے اسی لئے اپنی رائے کے مطابق فتوی دیتے تھے ، خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا، آگاہ ہو جاؤ کہ ہم پیروی کرتے ہیں خود سے کوئی کام نہیں کرتے اور ہم تابع ہیں بدعت نہیں کرتے، ہم لوگ پیغمبر کی حدیثوں پر عمل کریں گے اور گمراہ نہیں ہوں گے''

______________________

(۱) رشید رضا، مولف: المنار اپنی کتاب ''الوحی المحمدی'' دوسرا ایڈیشن، ص ۲۲۵، پر لکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کی تمام حدیثیں جو فروع اور احکام سے متعلق ہمارے پاس ہیںان میں سے اگر تکر ار ہوئی حدیث کو حذف کردیا جائے تو چار سو سے زیادہ نہیں ہونگی۔ اور یہ احتمال دینا کہ پیغمبر کی حدیثیں اس سے زیادہ ہیں اور ہم تک نہیں پہونچی ہیں یہ ضعیف ہے لہذا پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد جتنی حدیثیں امت کے پاس موجود ہیںاتنی ہی یا اس سے کچھ زیادہ ہیں۔

۲۸۵

جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ عمر نے نص کے مقابلے میں اپنی رائے پر عمل کیا ہے اور بہت سی جگہوں پر دلیل نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے خود اپنی رائے اور نظریہ پر عمل کیا لیکن بہت سے مقامات پر باب علم پیغمبر حضرت امیر المومنین کی طرف رجوع کیا۔ پیغمبر اسلام(ص) کے فرمان کے مطابق حضرت امیر المومنین علیہ السلام پیغمبر کے علوم کا خزانہ اور احکام خداوندی کے وارث تھے اور قیامت تک جن چیزوں کی امت کو ضرورت ہوگی ان تمام چیزوں کے کے جاننے والے تھے اورامت پیغمبر میں ان سے بڑا عالم کوئی نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ سیکڑوں مقام پر جن میں سے کچھ جگہوں کو تاریخ نے اپنے دامن میں جگہ دی خلیفۂ دوم نے امام کے علوم سے استفادہ کیا ہے اور اس کی زبان پر ہمیشہ یہ جملہ یا اس سے مشابہ جملہ ورد رہتا تھا۔

''عجزت النسائُ ان یلدنَ مثلَ علی بن ابی طالب''

عورتیں اس بات سے عاجز ہیں کہ علی جیسی شخصیت کو پیدا کرسکیں۔

''اللهم لا تبقنی لمعضلة لیس لها ابن ابی طالب ''

خداوندا! مجھے ایسی مشکل میں گرفتار نہ کرنا جس کے حل کے لئے علی بن ابی طالب نہ ہوں۔

(وہ جگہیں جہاں پر عمر نے اپنی رائے و نظریہ پر نص کے مقابلے میں عمل کیا ہے) اس میں سے کچھ جگہوں کو بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں۔

۱۔ ایک شخص نے عمر سے اپنی بیوی کے بارے میں شکایت کیا کہ شادی کے چھٹے مہینے بعد ہی اسے بچہ ہوا ہے عورت نے بھی اس بات کو قبول کرلیااور کہا کہ شادی سے پہلے میرا کسی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ خلیفہ نے حکم دیدیا کہ اس عورت کو سنگسار کردیاجائے ، لیکن امام نے حد جاری کرنے سے منع کردیا اور فرمایا کہ قرآن کی نظر میںعورت چھ مہینے کے عرصہ میں بچہ پیدا کرسکتی ہے کیونکہ آیت میں حمل اوردودھ پلانے کی کل مدت ۳۰ مہینہ معین ہوئی ہے۔

( .وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ) (۱)

اور اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کے دودھ بڑھائی کی (کل مدت) تیس مہینہ ہے۔

______________________

(۱) سورۂ احقاف، آیت ۱۵۔

۲۸۶

قرآن کی دوسری آیت میں صرف دودھ پلانے کی مدت دو سال بیان ہوئی ہے۔

( وَفِصَالُهُ فِیْ عَامَیْنِ ) (۱) اور اس کے دودھ بڑھانے کی مدت دو سال ہے۔

اگر تیس مہینے سے دو سال کم کریں تو حمل کے لئے چھ مہینہ کی مدت باقی رہے گی۔عمر نے ا مام ـ کے منطقی کلام سننے کے بعد کہا:''لولا علی لهلک عمر'' (۲)

۲۔ خلیفۂ دوم کی عدالت میں یہ ثابت ہوا کہ پانچ آدمیوں نے عفت کے منافی عمل انجام دیا ہے خلیفہ نے تمام آدمیوں کے بارے میں ایک ہی فیصلہ کیا ، لیکن امام نے ان کے حکم کو باطل قرار دیدیا اور فرمایا کہ ان لوگوںکے بارے میں تحقیق و جستجو کی جائے اگر ان کے حالا ت مختلف ہوںگے تو کہ خدا کا حکم بھی مختلف ہوگا۔تحقیق و جستجو کے بعد امام نے فرمایا:

ان میں سے ایک کو قتل کرادو، دوسرے کو سنگسار کرادو، تیسرے کو سو کوڑے مارو ، چوتھے کو پچاس کوڑے لگائواور پانچویں کو نصیحت کرو۔

خلیفہ نے جب امام کا مختلف فیصلہ سنا تو بہت تعجب ہوا اور امام سے اس کا سبب دریافت کیا ، تو امام ـ نے فرمایا:

پہلا شخص کافر ذمی ہے اور کافر ذمی کی جان اس وقت تک محترم ہے جب تک احکام ذمی پر عمل کرے، لیکن اگر احکام ذمی کی رعایت نہ کرے تو اس کی سزا قتل ہے اوردوسرے نے عورت شوہر دار سے زنا کیا ہے۔ اور اسلام میں اس کی سزا سنگسار کرنا ہے اور تیسرا شخص کنوارا ہے جس نے اپنے کو گناہوں سے آلودہ کیا ہے اس کی سزا سو تازیانہ ہے چوتھا شخص غلام ہے اور اس کی سزا آزاد شخص کی آدھی سزا کے برابر ہے اور پانچواں شخص پاگل ہے۔(۳)

اس وقت خلیفہ نے کہا:''لاعشتُ فی امةٍ لست فیها یا ابا الحسن!''

میں ایسے لوگوں کے درمیان نہ رہوں جن میں اے ابو الحسن آپ نہ ہوں۔

______________________

(۱) سورۂ لقمان، آیت ۱۴۔

(۲) مناقب شہر ابن آشوب ج۱ ص ۴۹۶، بحار ج۴۰ ص ۳۳۲۔

(۳) شیخ طوسی تہذیب ج۱۰ ص ۵۰احکام زنا حدیث ۱۸۸۔

۲۸۷

۳۔ ایک غلام جس کے پیر میں زنجیر بندھی تھی کہیں جارہا تھا، دو آدمیوں کے درمیان ا س کے وزن کے متعلق اختلاف ہوگیا اور ان میں سے ہر ایک یہ کہہ رہا تھا کہ اگر اس کی بات صحیح نہ ہوگی تو اس کی زوجہ کو تین طلاق والی ہو جائیگی ۔ دونوں غلام کے مالک کے پاس آئے اور اس سے کہا کہ زنجیر کو کھول دے، تاکہ اس کو وزن کریں اس نے کہا: میں اس کے وزن سے آگاہ نہیں ہوں اور میں نے نذر بھی کی ہے کہ اس کی زنجیر کو نہیں کھولوں گا مگر یہ کہ اس کے وزن کا صدقہ دوں۔

اس مسئلہ کو خلیفہ کے پاس پیش کیا گیا، انہوں نے حکم دیا کہ اس وقت غلام کا مالک زنجیر کھولنے سے معذور ہے لہذا یہ دونوں اپنی اپنی بیویوں سے جدا ہوجائیں ، ان لوگوںنے خلیفہ سے گذارش کی کہ اس مسئلہ کو حضرت علی کے سامنے پیش کیا جائے، امام نے فرمایا: زنجیر کے وزن سے آگاہی بہت آسان ہے۔ اس وقت آپ نے حکم دیا کہ ایک بڑا طشت لایا جائے او رغلام سے کہا کہ اس کے بیچ میں کھڑا ہو جائے، پھر امام نے زنجیر کو نیچے کردیا اور اس میں ایک دھاگا باندھا اور طشت کو پانی سے بھر دیا۔ پھر زنجیر کو اس تاگے کے ذریعے اوپر کھینچنا شروع کیا یہاں تک کہ پوری زنجیر پانی سے باہر آگئی اس وقت حکم دیا کہ زنجیر کو دھاگے کے ذریعہ اوپر کھینچیں تاکہ وہ پانی سے اوپر آجائے۔ پھر فرمایا کہ طشت کو ٹوٹے پھوٹے لوہوں سے بھر دو تاکہ پانی اپنی اصلی جگہ تک آجائے اور آخر میں فرمایا کہ ان ٹوٹے ہوئے لوہوں کو کھینچیں کیونکہ اس کا وزن وہی زنجیر کا وزن ہے اور اس طریقے سے تینوں افراد کی مشکل حل ہوگئی۔(۱)

۴۔ ایک عورت جنگل میں پیاسی تھی اور تشنگی نے اس پر سخت غلبہ کیا مجبوراً اس نے ایک چرواہے سے پانی مانگا اس نے اس شرط پر پانی دینے کا وعدہ کیا کہ عورت خود کو اس کے حوالے کرے، خلیفۂ دوم نے اس عورت کے حکم کے متعلق امام سے مشورہ کیا حضرت نے فرمایا: کہ عورت اس کو انجام دینے میں مجبور تھی اور مضطر و مجبور پر کوئی حکم نہیں ہے۔(۲)

یہ واقعہ اور اسی طرح کے دوسرے واقعات ، جن میں سے بعض کو بیان کیا ہے یہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ امام اسلام کے مکمل قوانین سے باخبر تھے جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں اور خلیفہ ان چیزوں سے بے خبر تھے۔

______________________

(۱) شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ ج۳ ص ۹۔

(۲) سنن بیہقی ج۸ ص ۲۳۶، ذخائر العقبیٰ ص ۸۱، الغدیر ج۶ص ۱۲۰۔

۲۸۸

۵۔ ایک پاگل عورت نے عفت کے خلاف عمل کیا، خلیفہ نے اسے مجرم قراردیا لیکن امام نے اسے پیغمبر اسلام کی ایک حدیث یاد دلاتے ہوئے عورت کو آزاد کردیا اور حدیث یہ ہے تین لوگوں سے حکم اٹھالیا گیا ہے جس میں سے ایک دیوانہ ہے یہاں تک کہ وہ اچھا ہو جائے۔(۱)

۶۔ایک حاملہ عورت نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کواسی حالت میں سنگسار کرد یں امام نے حد جاری کرنے سے منع کیا اور فرمایا کہ تم اس کی جان لینے کا حق رکھتے ہو نہ کہ اس بچے کی جو کہ اس کے پیٹ میں ہے۔(۲)

۷۔ کبھی کبھی امام مشکلوں کو حل کرنے کے لئے نفسیاتی اصولوں سے استفادہ کرتے تھے، ایک دن ایک عورت نے اپنے بیٹے سے بیزاری ظاہر کی اوراس کی ماں ہونے سے انکار کردیا اور اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ابھی کنواری ہے جب کہ اس نوجوان کا اصرار تھا کہ یہ میری ماں ہے خلیفہ نے حکم دیا کہ اس کی طرف غلط نسبت دینے کی وجہ سے نوجوان کو تازیانہ مارا جائے۔ جب اس واقعہ کی خبر امام کو ملی تو امام نے اس عورت اور اس کے رشتہ داروں کو بلایا تاکہ اس عورت کی شادی ان میں سے جس سے بھی چاہیں کردیں اور ان لوگوںنے بھی حضرت علی کو اپنا وکیل بنادیا۔ امام نے اسی نوجوان کی طرف رخ کر کے کہا: میں نے اس عورت کا عقد تمہارے ساتھ پڑھا اور اس کی مہر ۴۸۰ درہم ہے پھر ایک تھیلی نکالی جس میں اتنا ہی درہم تھا اور عورت کے حوالے کیا اور اس جوان سے کہا: اس عورت کا ہاتھ پکڑو اور پھر میرے پاس نہ آنا، مگر یہ کہ شادی وغیرہ کے آثار تمہاری شکل و صورت سے ظاہر ہوں۔

عورت نے جب یہ کلام سنا تو چیخ اٹھی اور کہا:''الله ، الله هو النار، هو و الله ابنی!'' یعنی خدا کی پناہ، خدا کی پناہ، اس کا نتیجہ آگ ہے خدا کی قسم یہ میرا بیٹا ہے پھر اس نے انکار کرنے کی وجہ کو تفصیل سے بیان کیا۔(۳)

______________________

(۱) مستدرک حاکم ج۲ ص ۹۵، الغدیر ج۶ ص ۱۰۲۔

(۲) ذخائر العقبیٰ ص ۸۰، الغدیرج۶ ص ۱۱۰۔

(۳) کشف الغمہ ج۱ ص ۳۳، بحار الانوار ج۴۰ ص ۲۷۷۔

۲۸۹

گیارہویں فصل

عثمان اور معاویہ کی علمی مشکلات کا حل کرنا

امام کا علمی اور فکری میدان میں مدد کرنا صرف ابوبکر وعمر کی خلافت تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ آپ سرپرست اوردین کے حامی و دلسوز کے عنوان سے اسلام اور مسلمانوں کی خلافت کے مختلف دور میں علمی اور سیاسی مشکلوں کو حل کرتے تھے۔ انہی میں سے تیسرے خلیفہ نے بھی امام کے بلند ترین افکار او ران کی عظیم و آگاہانہ رہنمائیوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔

یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ عثمان نے امام کی رہنمائیوں سے استفادہ کیا تھا بلکہ تعجب کا مقام یہ ہے کہ معاویہ نے بھی امام سے بغض و عداوت رکھنے کے باوجود اپنے علمی اور فکری مشکلوں کے حل کے لئے امام کی طرف دست سوال بڑھایاتھا اور کچھ لوگوں کو خفیہ طور پر امام کے پاس بھیجا تاکہ بعض مسئلوں کا جوا ب امام ـ سے دریافت کریں۔

مثلاً کبھی کبھی روم کا حاکم، معاویہ سے کچھ چیزوں کے بارے میں سوال کرتا تھا اور اس سے جواب طلب کرتا تھا ۔ معاویہ اپنی عزت و آبرو بچانے کے لئے (چونکہ اس نے اپنے کو مسلمانوں کا خلیفہ کہا تھا) کچھ لوگوں کو حضرت علی کے پاس بھیجتا تھا تاکہ وہ کسی بھی صورت سے ان سے ان سوالوں کے جوابات حاصل کر کے معاویہ کے پا س لے آئیں۔

خلیفۂ سوم اور معاویہ نے جو اپنی علمی مشکلات کے رفع کے لئے امام ـ کی طرف رجوع کیا ان کے چند نمونے ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں۔

۱۔ اسلام میںعورتوں کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اگر مرد اپنی بیوی کو طلاق دے اورعورت کا عدہ ختم ہونے سے پہلے ہی شوہر مر جائے تو عورت دوسرے وارثوں کی طرح شوہر کی میراث کی حقدار ہے کیونکہ جب تک عدہ ختم نہ ہو اس وقت تک شوہر و بیوی کا رشتہ برقرار ہے۔

عثمان کی خلافت کے زمانے میں ایک شخص کی دو بیویاں تھیں ایک بیوی انصار میں سے تھی اور دوسری بنی ہاشم میں سے ،کسی وجہ سے مرد نے اپنی بیوی کو جوانصار سے تھی طلاق دیدیا اور کچھ دنوں کے بعد اس کا انتقال ہوگیا انصار والی عورت خلیفہ کے پاس گئی اور کہا ابھی میرا عدہ ختم نہیں ہوا ہے

۲۹۰

مجھے میری میراث چاہئیے عثمان فیصلہ کرنے سے معذور ہوگئے لہذا اس معاملے کو امام کے پاس بھیجا حضرت نے فرمایا کہ اگر انصار والی عورت یہ قسم کھا کر کہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد تین مرتبہ حائض نہیں ہوئی ہے تو وہ اپنے شوہر سے میراث لے سکتی ہے۔

عثمان نے ہاشمی عورت سے کہا: یہ فیصلہ تمھارے پسر عم علی نے کیا ہے۔ اور میں نے اس سلسلے میں کوئی رائے نہیں دی ہے۔

اس نے جواب دیا: میں علی کے فیصلے پر راضی ہوں۔ وہ قسم کھائے اور میراث لے لے۔(۱)

محدثین اہلسنت نے اس واقعے کو دوسرے انداز سے لکھا ہے جن کی عبارتیں شیعہ فقہا کے فتووں سے متفق نہیں ہیں۔(۲)

۲۔ جس شخص نے فریضہ ٔ حج یا عمرہ کے لئے احرام باندھا ہے ا سکو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خشکی میں رہنے والے جانور کا شکار کرے ،قرآن کریم کا اس سلسلے میں ارشاد ہے:( وَحُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًاً ) (۳) جب تم احرام کی حالت میں ہو تو خشکی میں رہنے والے جانور کا شکار کرنا تم پر حرام ہے، لیکن اگر وہ شخص جو حالت احرام میں نہ ہو اور خشکی میں رہنے والے جانور کا شکار کرے تو کیا حالت احرام میں رہنے والا شخص اس کا گوشت کھا سکتا ہے؟ یہ وہی مسئلہ ہے جس میں خلیفۂ سوم نے امام کے نظریہ کی پیروی کی ہے، اس کے پہلے خلیفہ کی نظریہ تھی کہ حالت احرام میں رہنے والا غیر محرم کے شکار کئے ہوئے جانور کا گوشت کھا سکتا ہے اتفاق سے وہ خود بھی حالت احرام میں تھے کہ اور کچھ لوگوں اسی طرح کے گوشت سے کھانا تیار کر کے ان کو دعوت دی تھی اور یہ اس میں جانا چاہتے تھے ،جب امام نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا تب ان کا نظریہ بدلا۔

ان سے حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام(ص) کا ایک واقعہ بیان کیا جس سے وہ مطمئن ہوگئے، واقعہ یہ تھاکہ پیغمبر اسلام (ص)جب حالت احرام میں تھے تو کچھ لوگ ان کے لئے بھی

_______________________

(۱) مستدرک الوسائل ج۳ ص ۱۶۶۔

(۲) کنز العمال ج۳ ص ۱۷۸، ذخائر العقبیٰ ص ۸۰۔

(۳) سورۂ مائدہ آیت ۹۶۔

۲۹۱

اسی طرح کی غذا لے کر آئے، حضرت نے فرمایا: میں حالت احرام میں ہوں، یہ کھانا ایسے لوگوں کو دیدو جو حالت احرام میں نہ ہوں۔جس وقت امام نے اس واقعہ کو نقل کیا اس وقت بارہ آدمیوں نے تائید کرتے ہوئے اس کی گواہی دی ، پھر علی علیہ السلام نے فرمایا: رسول اسلام نے نہ صرف ہمیں اس طرح کے گوشت کھانے سے منع کیا ہے بلکہ پرندوں کے انڈے یا شکار ہوئے پرندوں کے گوشت سے بھی منع کیاہے۔(۱)

۳۔ اسلام کے مسلّم عقائد میں سے ہے کہ کافر پر مرنے کے بعد سخت عذاب ہوگا،عثمان کی خلافت کے زمانے میں ایک شخص نے اس اصل اسلامی عقیدہ پر اعتراض کرنے کے لئے ایک کافر کی کھوپڑی نکالی اسے خلیفہ کے پاس لے گیا اور کہا: اگر کافر مرنے کے بعد آگ میں جلے گا تو اس کھوپڑی کو بھی گرم ہونا چاہیئے جب کہ میں اس کے بدن پر ہاتھ مس کرتا ہوں پھر بھی مجھے کوئی حرارت محسوس نہیں ہوتی! خلیفہ اس کا جواب دینے سے عاجز ہوگئے اور امام کی طرف رجوع کیا، امام نے معترض کو جواب دیا اور فرمایا کہ ایک لوہا (جس سے آگ نکالتے ہیں ) اور ایک پتھر (جس سے آگ نکلتی ہے) لایا جائے اور پھر دونوں کو آپس میں ٹکرایا اس سے شعلہ نکلااس وقت آپ نے فرمایا: میں لوہے او رپتھر پر ہاتھ پھیر رہاہوں مگر حرارت کا احساس نہیں ہوتا جب کہ دونوں حرارت رکھتے ہیں اور خاص حالات کی وجہ سے اپنا کام کر تے، یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے کہ قبر میں کافر کا عذاب بھی ایسا ہو۔

خلیفہ امام کا جواب سن کر بہت خوش ہوے اور کہا :''لولا علی لهلک عثمان'' (۲)

وہ مواردجہاں معاویہ نے امام کی طرف رجوع کیا ہے۔

اسلامی تواریخ نے سات مقامات کا ذکر کیا ہے جہاں معاویہ نے حضرت علی علیہ السلام کے سامنے دست سوال پھیلایا ہے اور اپنی شرمندگی اورندامت کو علم امام ـ کے وسیلے سے دور کیاہے۔

اُذینہ کہتے ہیں: ایک شخص نے معاویہ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا، معاویہ نے کہا: اس

موضوع کے متعلق علی سے سوال کرو۔ سائل نے کہا: میں نہیں چاہتاکہ ان سے پوچھوں،میں چاہتا ہوں کہ تم سے سوال کروں۔

______________________

(۱) کنز العمال ج۳ ص ۵۳، مستدرک الوسائل ج۲ ص ۱۱۹۔

(۲) الغدیر ج۸ ص ۲۱۴ منقول از کتاب عاصمیزین الفتی فی شرح سورهٔ هل أتی

۲۹۲

اس نے کہا کیوں تم ایسے شخص سے سوال نہیں کرنا چاہتے جس کے بارے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کہا ہے: ''علی سے میری نسبت ایسی ہی ہے جیسی موسیٰ کی ہارون سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے''، عمر نے اپنی مشکلوں کو امام کے سامنے پیش کرتے تھے۔(۱) جب امام کی شہادت کی خبر معاویہ تک پہونچی تو اس نے کہا: ''فقہ وعلم مرگیا'' معاویہ کے بھائی نے اس سے کہا: تمہاری یہ بات شام کے لوگ تمہاری زبان سے نہ سنیں۔(۲) ان مقامات کی فہرست جہاں پر معاویہ نے حضرت علی سے مدد طلب کی ہے۔(۳)

۱۔ ایسے شخص کے بارے میں حکم معلوم کرنا جو بہت دنوں سے قبروں کو کھود کر کفنوں کو چراتا تھا۔

۲۔ ایسے شخص کے بارے میں حکم معلوم کرنا جس نے کسی کو قتل کردیا اور اس کا دعویٰ تھاکہ میں نے اسے ایسی حالت میں قتل کیا ہے جب کہ وہ میری بیوی کے ساتھ زنا کررہا تھا۔

۳۔ دو آدمیوں کا ایک لباس کے سلسلے میں اختلاف ہوگیا اس میں سے ایک شخص نے دو گواہ پیش کیا کہ یہ مال اس کا ہے او ردوسرے کا دعویٰ تھا کہ اس نے کسی اجنبی سے یہ لباس خریدا ہے۔

۴۔ ایک شخص نے ایک لڑکی سے شادی کی لیکن لڑکی کے باپ نے اس لڑکی کے بجائے دوسری لڑکی کو اس کے حوالے کیا۔

۵۔ حاکم روم نے کچھ سوالات ، کہکشاں، قوس و قزح وغیرہ کے بارے میں معاویہ سے کیا تھا اوراس نے کسی اجنبی کو عراق بھیجا تاکہ ان تمام سوالوں کے جوابات علی سے دریافت کرے۔

۶۔ روم کے حاکم نے دوبارہ اسی طرح کے سوالات معاویہ سے پوچھے اور اپنا جزیہ (ٹیکس) اداکرنے کی یہ شرط رکھی کہ سوالوں کے صحیح جوابات دے۔

۷۔ تیسری مرتبہ پھرروم کی جانب سے کچھ سوالات معاویہ کی طرف پہونچے اور ان کے جوابات طلب کئے عمر و عاص نے کسی نہ کسی بہانے سے ان تمام سوالوں کے جوابات امام سے حاصل کرلئے۔

______________________

(۱) ذخائر العقبیٰ ص ۷۹۔-----(۲) الاستیعاب ج۲ ص ۴۲۶۔-----(۳) علی و الخلفاء ، ص ۳۲۴۔ ۳۱۶۔

۲۹۳

بارہویں فصل

حضرت علی علیہ السلام کی سماجی خدمات

خلافت سے حضرت علی علیہ السلام کوکی محرومیت کا زمانہ ،مسلمانوںکے سارے امور سے کنارہ کشی کا زمانہ نہیں تھا،اس دور میں آپ نے بہت زیادہ علمی اور سماجی خدمات انجام دیںجن کی مثال تاریخ کے صفحات پر کسی اور کے لئے نہیں ملتی حضرت علی علیہ السلام ان سے نہیں تھے جو معاشرے کے مسائل اور ضروریات کو صرف ایک نظر اور وہ بھی خلافت کی نظر سے دیکھتے ،اور وہ سوچتے کہ جب خلافت چھن گئی توساری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائوں گا ،اس کے باوجود نہ کہ آپ کو سیاسی رہبری سے محروم کر دیا گیا تھابہت ساری ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھے اور اس وصیت کی تاسی کرتے ہوئے جس کوجناب یعقوب نے اپنے فرزندوں سے کی تھی(۱) مختلف طریقوں سے سماج کی خدمت کی۔خلفاء ثلاثہ کے زمانے میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی اہم ترین خدمتیں یہ تھیں:

۱۔علماء یہود و نصاری کےعلمی حملےکےمقابلے میں اسلام کے مقدس عقائد اوراصول کی حفاظت اور ان کے شبہات کے جوابات دینا۔

۲۔ خلافت کے مشکل مسائل کی راہنمائی اور صحیح ہدایت کرنا ، خصوصاً قضاوت کے مسائل کا حل کرنا۔

۳۔سماجی خدمات انجام دینا، ان میں کچھ بہت اہم ہیںجن کو ذیل میں ذکر کر رہے ہیں۔

۱۔ فقیروں او ریتیموں کی خبر گیری

اس بارے میں پر صرف اسی آیت کا ذکر کرنا کافی ہے( الَّذِینَ یُنفِقُونَ َمْوَالَهُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلاَنِیَةً ً ) (۲) (جو لوگ رات کو، دن کو چھپا کے یا دکھا کے ]خدا کی راہ میں[ خرچ کرتے ہیں)تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اگرچہ یہ آیت پیغمبر اسلام (ص)کے زمانے میں حضرت علی کی سماجی خدمات کو بیان کرتی ہے

______________________

(۱) قرآن کریم (سورۂ یوسف، آیت ۶۷) کے مطابق حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں سے وصیت کی کہ جب شہر مصر میں داخل ہوں تو ایک دروازے سے داخل نہ ہوں بلکہ مختلف دروازوں سے وارد ہوں۔----(۲) سورۂ بقرہ، آیت ۲۷۴۔

۲۹۴

لیکن یہ اس خدمت کا سلسلہ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد بھی جاری تھا۔ اور حضرت ہمیشہ یتیموں اور فقیروں کی خبر گیری کیا کرتے تھے اور آپ زندگی کے آخری لمحے تک فقیروں پر انفاق کرتے رہے۔ اس سلسلے کے بہت سے شواہدتاریخ کے دامن میں آج بھی موجود ہیں جن کی تفصیل یہاں پر ممکن نہیں ہے۔

۲۔ غلاموں کو آزاد کرنا

اسلام میں مستحب مئوکد ہے کہ غلاموں کو آزاد کیا جائے رسول اسلام (ص)سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

''من اعتقَ عبداً مومناً اعتقَ اللّهُ العزیزُ الجبارِ بکل عضوٍ عضواً له من النار'' (۱)

اگر کوئی شخص ایک مومن غلام کو آزاد کرے تو خداوند عزیز و جبار اس غلام کے بدن کے ہر حصے کے مقابلے میں آزاد کرنے والے کے بدن کے حصے کو جہنم کی آگ سے آزاد کرے گا۔

حضرت علی علیہ السلام دوسرے تمام فضائل و خدمات کی طرح اس سلسلے میں بھی سب سے آگے تھے اور اپنی مزدوری کی اجرت سے (نہ کہ بیت المال سے) ہزاروں غلاموں کو خریدا اور آزاد کیا۔

امام جعفر صادق نے اس حقیقت کی گواہی دی ہے اور فرمایاہے:

''ان علیاً اعتق الفَ مملوک من کد یده'' (۲)

علی (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھوں سے جمع کی ہوئی رقم سے ہزار غلاموں کو آزاد کیاتھا۔

______________________

(۱) روضۂ کافی ج۲ ص ۱۸۱۔

(۲) فروغ کافی ج۵ ص ۷۴، بحار الانوار ج۴۱ ص ۴۳۔

۲۹۵

۳۔ زراعت او ردرخت کاری

پیغمبر اسلام (ص)کے زمانے میں اور ان کے بعد حضرت علی علیہ السلام کا ایک مشغلہ کھیتی باڑی اورپیڑ پودھے لگانا تھا، حضرت نے اس ذریعے سے بہت ہ خدمتیں انجام دی تھیںاور لوگوں پر خرچ کیا تھا، اس کے علاوہ بہت سی جائدادیں جنہیں خود آباد کیا تھا وقف کیا تھا۔امام جعفر صادق اس بارے میں فرماتے ہیں کہ''کان امیر المومنین یضرب بالمرِّ و یستخرج الارضین'' (۱)

حضرت امیر المومنین بیلچہ چلاتے تھے اور زمین کے دل سے چھپی ہوئی نعمتوں کو نکالتے تھے۔

اسی طرح آپ ہی سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: خدا کی نظر میں زراعت سے زیادہ محبوب کوئی کام نہیں ہے۔

(۲) ایک شخص نے حضرت علی کے پاس ایک وسق(۳) خرمے کی گٹھلی دیکھی اس نے پوچھا یاعلی ان خرمے کی گٹھلیوں کوجمع کرنے کا کیا مقصد ہے؟

آپ نے فرمایا: یہ تمام کے تمام خدا کے حکم سے خرمے کے پیڑ میں تبدیل ہو جائیں گے۔راوی کہتا ہے کہ امام نے ان گٹھلیوں کو زمین میں دبا دیا کچھ دنوں کے بعد وہاں کھجور کا باغ تیار ہوگیا اورامام نے اسے وقف کردیا۔(۴)

۴۔ چھوٹی نہریں کھودنا

عرب جیسی تپتی اور سوکھی زمین میں نہریں بنانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔

امام جعفرصادق فرماتے ہیں: پیغمبر اسلام (ص)نے انفال(۵) میں سے ایک زمین کو حضرت علی کے حوالے کیا اور امام نے وہاں نہر کھودی جس کا پانی اونٹ کی گردن کی طرح فوارہ کے ساتھ نکل رہا تھا۔

______________________

(۱) فروغ کافی، ج۵، ص ۷۴، بحار الانوار، ج۴۱، ص ۴۳۔----(۲) بحار الانوار ج۳۲ ص ۲۰۔

(۳) ایک وسق ساٹھ صاع کے برابر اور ہر صاع ایک من ہے۔ (ایرانی من تین کلو کاہوتاہے ۔رضوی)

(۴) مناقب ابن شہر آشوب ج۱ ص ۳۲۳، بحار الانوار ج۶۱ ص ۳۳۔

(۵) وہ زمینیں جو بغیر جنگ و جدال کے مسلمانوں نے حاصل کی ہوں جس میں کچھ انفال نبوت سے مخصوص ہے اور رسول اسلام(ص) نے اسے اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں خرچ کرتے تھے۔

۲۹۶

فرمایا: یہ نہر خانۂ کعبہ کے زائرین اورجو لوگ یہاں سے گزریں گے ان کے لئے وقف ہے ،کسی کو حق نہیں ہے کہ اس کا پانی بیچے اور میرے بچے اسے میراث میں نہیں لیں گے۔(۱)

آج بھی مدینہ سے مکہ جاتے وقت راستے میں ایک علاقہ ہے جسے ''بئر علی'' کہتے ہیں امام نے وہاں پر کنواں کھودا تھا ۔

امام جعفر صادق کے بعض ارشادات سے استفادہ ہوتا ہے کہ امیر المومنین نے مکہ اور کوفہ کے راستوں میں بہت سے کنویں کھودے تھے۔(۲)

۵۔ مسجدوں کی تعمیر کرنا

مسجدوں کی تعمیر اور تاسیس کرنا خدا اور آخرت پر ایمان رکھنے کی علامت ہے ،اور امام نے بہت سی مسجدیں بنائی تھیںجن جس میں سے کچھ مسجدوں کا نام تاریخ نے درج کیا ہے اور وہ یہ ہیں:

مدینہ میں مسجد الفتح ، قبر جناب حمزہ کے پاس، کوفہ، میقات ،بصر ہ میں مسجدیں۔(۳)

۶۔ مکان و جائداد کا وقف کرنا

حدیث و تاریخ کی متعدد کتابوں میں حضرت علی علیہ السلام کے موقوفات کے نام تحریر ہیں ،ان موقوفات کی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ معتبرمئورخین کے نقل کرنے کے مطابق ان کی سالانہ آمدنی ۴۰ ہزار دینار تھی جو تمام محتاجوں اور فقیروں پر خرچ ہوتی تھی ۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اتنی زیادہ آمدنی کے باوجود حضرت امیر اپنے اخراجات کے لئے تلوار بیچنے پر مجبور ہو گئے تھے۔(۴)

جی ہاں، کیوں علی علیہ السلام نے ان موقوفات میں سے کچھ اپنے لئے باقی نہ رکھا؟ کیا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہیں فرمایا ہے ''جو شخص بھی اس دنیا سے اٹھ جائے تو مرنے کے بعد اسے کوئی چیز فائدہ نہیں پہونچاتی مگر یہ کہ اس نے تین چیزیں چھوڑی ہوں، نیک اور صالح اولاد جواس کے لئے استغفار کرے، سنت حسنہ جو

________________

(۱) فروغ کافی، ج۷، ص ۵۴۳، وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص ۳۰۳۔

(۲،۳) مناقب ، ج۱، ص ۳۲۳، بحار الانوار، ج۴۱، ص ۳۲۔

(۴) کشف المحجہ ، ص ۱۲۴، بحار الانوار، ج۴۱، ص ۴۳۔

۲۹۷

لوگوں کے درمیان رائج ہو، نیک کام جس کا اثر اس کے مرنے کے بعد بھی باقی رہے۔(۱) حضرت علی علیہ السلام کے وقف نامے اسلام میں احکام وقت کے لئے ایک منبع و مدرک ہونے کے علاوہ ، آپ کی سماجی خدمات پر ٹھوس ثبوت ہیں۔ان وقف ناموںسے آگاہی پیدا کرنے کیلئے وسائل الشیعہ، ج۱۳کتاب الوقوف و الصدقات کی طرف رجو ع کیجیئے۔

_____________________

(۱) وسائل الشیعہ ج۱۳ ص ۲۹۲۔

۲۹۸

پانچواں حصہ

حضرت علی ـکی خلافت کے زمانے کے واقعات

پہلی فصل

حضرت علی ـکی خلافت کی طرف مسلمانوں کے رجحان کی علت

امام علی علیہ السلام کی زندگی کے چار اہم حصوں کے واقعات کو ہم بیان کرچکے ہیں اس وقت امام علی علیہ السلام کی زندگی کے پانچویں حصے کا ذکر کر رہے ہیں، زندگی کا وہ حصہ جس میں آپ منصب خلافت و رہبری پر فائز ہوئے. اور اس دور ان آپ بہت سے رونما ہونے والے واقعات اور نشیب و فراز سے دوچار ہوئے. ان تمام واقعات کی تشریح و توضیح ہم سے ممکن نہیں ہے، اس لئے ہم مجبور ہیں کہ گذشتہ بحثوں کی طرح ان واقعات بہت زیادہ اہم ہیں صرف انہیں بیان کریں۔

اس فصل میں سب سے پہلی بحث، مہاجرین وانصار کی ہے کہ انھوں نے کس وجہ سے امام کو اپنا رہبر اور خلیفہ مانا، وہ رغبت جو خلفاء ثلاثہ کے سلسلے میں بے مثال تھی اور بعد میں بھی اس جیسی دیکھنے کو نہ ملی ،پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد امام کے دوست بہت اقلیت میں تھے اور مہا جرین و انصار میں سے مومن و صالح افراد کے علاوہ کوئی بھی آپ کی خلافت کا خواہاں نہیں تھا لیکن خلافت اسلامی کے ۲۵سال گذرجانے کے بعد تاریخ نے ایسی کروٹ بدلی کہ تمام لوگوں کی نظریںعلی کے علاوہ کسی پرنہ تھیں ۔ عثمان کے قتل کے بعد تمام مسلمان شور وولولہ اور تیز آواز کے ساتھ امام ـ کے دروازے پر جمع ہو گئے اور بیعت کے لئے بہت زیادہ اصرارکرنے لگے۔

اس رجحان کی وجہ کو خلیفہ سوم کی خلافت کے زمانے کے تلخ واقعات میں معلوم کیا جاسکتا ہے ایسے واقعات جو خود ان کے قتل کا سبب بنا اور مصری اور عراقی انقلابیوں کو اس بات پرمجبور کیا کہ جب تک اسلامی خلیفہ کا کام تمام نہ ہو جائے اپنے وطن واپس نہیں جا ئیں ۔

۲۹۹

عثمان کے خلاف قیام کرنے کی علت

عثمان کے خلاف اقدام کرنے کی اصلی وجہ ،عثمان کا اموی خاندان سے خاص لگائو اور الفت تھی ۔ وہ خود اسی خاندان کی ایک فرد تھے ،وہ اس نجس و ناپاک خاندان کی عزت واکرام کے علاوہ کتاب وسنت کی بے حرمتی کرنے میں اپنے پہلے کے دو خلیفوں سے بھی آگے تھے ۔

ان کے اس مزاج اور خاندان امیہ سے لگائو سے ہر ایک واقف تھا،جس وقت خلیفئہ دوم نے شوریٰ کے عہد ہ داروں کا انتخاب کیا عثمان پر تنقید کرتے ہوئے کہا.

میں دیکھ رہا ہوں کہ قریش نے تمہیں اپنا رہبر چن لیا ہے اور تم نے بنی امیہ ۔اور بنی ابی معط ۔ کو لوگوں پر مسلط کر دیا ہے اور بیت المال کو انہی لوگوں سے مخصوص کردیا ہے اس وقت عرب کے خطرناک گروہ تم پر حملہ کریں گے

۳۰۰

اور تمہیں گھر کے اندر قتل کردیں گے۔(۱)

بنی امیہ جو عثمان کے مزاج سے واقف تھے انہوں نے شوریٰ کی طرف سے منتخب ہونے کے بعد ان کو اپنے حصار میں لے لیا اور زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ اسلامی منصب اور مقام ان کے درمیان تقسیم ہوگیا اور ان لوگوںکی جرأت اس حدتک بڑھ گئی کہ ابو سفیان قبرستان احد گیااور پیغمبر اسلام کے چچا جناب حمزہ کی قبر پر جو ابو سفیان سے جنگ کرتے وقت شہید ہوئے تھے ،ٹھوکرمار کر کہا'' ابو یعلی ،اٹھو اور دیکھو کہ جس چیز کے لئے تم نے ہم سے جنگ کی تھی اب وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے''۔

خلیفہ سوم کی خلافت کے ابتدائی دنوں میں بنی امیہ کے افرادایک جگہ پر جمع ہوئے ابو سفیان ان کی طرف متوجہ ہوا اور کہا:

اس وقت جب کہ خلافت قبیلہ تیم اور عدی ۔کے بعد تمہارے ہاتھوں تک پہونچی ہے ہوشیار رہو کہ خلافت تمہارے خاندان سے باہر نہ جائے ،اور اسے ایک کے بعددوسرے تک پہونچاتے رہو کیونکہ خلافت کا مقصد حکومت اور رہبری کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور جنت و جہنم کا وجود نہیں ہے۔(۲)

ابوسفیان کی اس بات نے خلیفہ کی شخصیت کو سخت مجروح کیا، جو لوگ وہاں پر حاضر تھے انہوں نے

اس کو چھپانے کی پوری کوشش کی لیکن آخر کار حقیقت نے اپنا کام کر دیکھایا۔مسلمانوں کے خلیفہ کے لئے سزاوار یہ تھاکہ وہ ابو سفیان کی خبر لیتے اور مرتد کی حد اس پر جاری کرتے .لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے نہ یہ کہ ایسا نہیں کیا بلکہ اکثر ابو سفیان پر لطف ِ کرم کی بارش کی اور بہت زیادہ مال غنیمت بطور تحفہ بھیجا رہا۔

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۸۷۱

(۲)الاستیعاب ج۲ص۶۹۰

۳۰۱

بغاوت کی علت

خلیفہ دوم نے جس شوریٰ کا انتخاب کیا تھا اس شوری کے ذریعے ۳ محرم ۲۴ھ کو عثمان منصب خلافت کے لئے منتخب ہوگئے اور ۱۲سال حکومت کرنے کے بعد ۱۸ذی الحجہ ۳۵ھ کو مصر اور عراق کے انقلابیوں اورمہاجروانصار کے بعض گروہ کے ہاتھوں قتل ہوے ،اسلام کے معتبر مورخین نے عثمان کے قتل ہونے اور مسلمانوں کے بغاوت کی علت کو اپنی اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے، اگر چہ بعض مئورخین نے، مقام خلافت کے احترام میں ان واقعات کے رونما ہونے کی علت کی وضاحت کرنے سے پرہیز کیاہے، درج ذیل وجہوں کو بغاوت کی بنیاد اور مسلمانوں کے بعض خطرناک گروہوں کے حملہ کرنے کی علت کہا جا سکتا ہے ۔

۱۔حدود الہی کا جاری نہ ہونا

۲۔بنی امیہ کے درمیان بیت ا لمال کا تقسیم ہونا۔

۳۔اموی حکومت کی تشکیل اور اسلامی منصبوں پرغیر شائستہ افراد کا تقرر۔

۴۔پیغمبر اسلام کے بعض صحابہ کو مصیبت و تکلیف دینا جو خلیفہ اور ان کے دوستوں پر تنقید کرتے تھے۔

۵۔پیغمبر کے بعض صحابیوں کوشہربدر کرنا جو خلیفہ کی نظر میں ان کے لئے مضرتھے ۔

پہلی وجہ ۔حدود الہی کا جاری نہ ہونا

۱۔خلیفہ نے اپنے مادری بھائی ولید بن عتبہ کو کوفہ کا گورنر معین کیا وہ ایسا شخص تھا جس کے بارے میں قرآن مجید نے دو جگہوں پر اس کے فسق وفجور اور اسلامی احکام سے سرکشی وبغاوت کا تذکرہ کیاہے۔(۱)

______________________

(۱)شرح ابن ابی الحدید ج۲قدیم ایڈیشن ص۱۰۳،

۳۰۲

آیت :( َاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِنْ جَائَکُمْ فَاسِق بِنَبٍَ فَتَبَیَّنُوا ) ( حجرات۶)وآیت( َفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُونَ ) (سجدہ۱۸)تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ دونوں آیتیں اسی کے بارے میںنازل ہوئی ہیں.اور دوسری آیت نازل ہونے کے بعد حسان بن ثابت نے یہ اشعار کہا۔

انزل الله فی الکتاب العزیر

فی علی وفی الولید قرآنا

فتبینواالولید اذذاک فاسقاً

وعلی مبوء صدق ایمانا

فا سق کی نگاہ میں جو چیز قابل اہمیت نہیں ہے وہ حدود الہی اور اعلی مقام و منصب کی رعایت نہ کر نا ہے اس زمانے کے حاکم سیاسی امور کی دیکھ بھال کے علاوہ جمعہ وجماعت کی نمازبھی پڑھاتے تھے، یہ نالائق حاکم (ولید) نے نشے کی حالت میںنماز صبح کو چاررکعت پڑھا دیا ،اور محراب تک کو نجس کر دیا وہ نشے میں اتنا مد ہوش تھا کہ لوگوں نے اس کے ہاتھ سے انگو ٹھی اتار لی اور اسے احساس تک نہ ہوا۔

کوفہ کے لوگ شکایت کرنے کے لئے مدینہ روانہ ہوئے اور اس واقعہ کی تفصیل خلیفہ کے سامنے پیش کی لیکن افسوس کہ خلیفہ نے نہ یہ کہ صرف ان کی شکایت نہ سنی بلکہ ان لوگوں کو دھمکی بھی دی اور کہا : کیاتم نے دیکھا ہے کہ میرے بھائی نے شراب پیا ہے ؟ ان لوگوںنے جواب دیا .ہم نے اس کو شراب پیتے ہوئے تو نہیں دیکھا لیکن اسے مستی کے عالم میں دیکھاہے اور اس کے ہاتھوں سے انگوٹھی اتار لی مگر وہ متوجہ نہیں ہوااس واقعہ کے گواہ کچھ مومن وغیور افراد بھی تھے ان لوگوں نے حضرت علی اور عائشہ کو اس واقعہ سے آگاہ کیا ۔ عائشہ جو عثمان سے سخت ناراض تھیں ، انہوں نے کہا عثمان نے خدا کے احکام کو ترک کر دیا ہے اور گواہوں کو دھمکی دی ہے ۔

امیر المومنین نے عثمان سے ملاقات کی اور خلیفہ دوم کی وہ بات جوانہوں نے شوری کے دن ان کے بارے میں کہی تھی انہیں یاد دلایا اور کہا ،بنی امیہ کے بیٹوں کو لوگوں پر مسلط نہ کرو اور تمہارے لئے ضروری ہے کہ ولید کوگورنری کے منصب سے معزول کردو اور اس پر حد الہی جاری کرو،

۳۰۳

طلحہ اور زبیرہ نے بھی ولید کے منتخب ہونے پر اعتراض کیا اور خلیفہ سے کہا کہ اس کو تازیانہ لگایا جائے خلیفہ نے تمام لوگوں کی باتوں سے مجبور ہو کر سعیدبن العاص کو جو بنی امیہ کے شجرئہ خبیثہ سے تھا کوفہ کی گورنری کے لئے منتخب کیا ،جب وہ کوفہ میں داخل ہوا تواس نے محراب ومنبر اور دارالامامہ کو پاک کرایا اور ولید کو مدینہ بھیج دیا ۔صرف ولید کو معزول کرنے سے ہی لوگ راضی نہ ہوئے بلکہ لوگوںکایہ کہنا تھا کہ خلیفہ کو چاہئیے کہ جو سزا اسلام نے شراب پینے والے کے لئے معین کی ہے اپنے بھائی پروہ جاری کریں ،عثمان چونکہ اپنے بھائی کو بہت چاہتے تھے لہٰذا اسنہوںنے اُسے قیمتی لباس پہنایا اور اسے ایک کمرے میں بیٹھا دیا تا کہ مسلمانوں میں کوئی ایک شخص اس پر حد الہی جاری کرے ،جو لوگ مائل تھے کہ اس پر حد جاری کریں ولید نے انھیں دھمکی دی تھی بالآخر امام علی نے تازیانہ اپنے ہاتھ میں لیا اور بغیر تاخیر کے اس پر حد جاری کی اور اس کی دھمکی اور ناراضگی کی کوئی پروا ہ نہ کی۔(۱)

۲۔ انسان کی اجتماعی زندگی کا ایک رکن عادلانہ قانون کی حکومت ہے تا کہ معاشرے کے تمام لوگوں کی جان ومال وعزت و آبرو کی حفاظت ہو سکے،اور اس سے بھی زیا دہ اہم قانون کا جاری کرنا ہے اور قانون گزار ، قانون کو جاری کرتے وقت دوست ودشمن اور اپنے اورپرائے کو نہ دیکھے اس صورت میں قانون عملی جامہ پہنے گا اور پورے طور پر عدالت سامنے آئے گی۔

الہی نمائندوں نے خدا کے قوانین کو بغیر کسی ڈرا ورخوف کے جاری کیا اور کبھی بھی انسانی الفت ومحبت ، رشتہ داری ، مادی منفعت سے متأ ثر نہیں ہوئے ،پیغمبر اسلام نے خود اسلامی قانون کوسب سے پہلے جاری کیا،اور اس آیت کے واضح وروشن مصداق تھے( وَلَا یَخَافُوْنَ لَومَةلَائِمٍ ) (۲) فاطمہ مخزومی جس نے چوری کی تھی اسکے بارے میں آپ کا ایک چھوٹا جملہآپ کی اجتماع عدالت پر واضع و روشن دلیل ہے۔فاطمہ مخزومی ایک مشہور ومعروف عورت تھی جس کی چوری پیغمبر کے سامنے ثابت ہو گئی تھی اور یہ طے پایا کہ عدالت کا حکم اس پر جاری ہو ،ایک گروہ نے اس پر قانون نہ جاری کرنے کی کوشش کی اور اسامہ بن زید کو پیغمبر کے پاس بھیجا تا کہ اس مشہور ومعروف عورت کا ہاتھ کا ٹنے سے پیغمبر کو منع کرے ، رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بات سے بہت سخت ناراض ہوئے اور فرمایا۔

_____________________

(۱)۱۔مسنداحمدج۱ص۱۴۲،سنن بیہقی ج۸ص۳۱۸،اسدالغابہ ج۵ص۹۱،کامل ابن اثیرج۴۲۳۔ الغدیر ج۸ ص۱۷۲ منقول الانساب بلاذری ج۵ص۳۳ سے ماخوذ.

(۲)سورئہ مائدہ،۵۴

۳۰۴

خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی ایسا کرے تو میں حکم خدا کو جاری کروں گا اور حکم خدا کے مقا بلے میں فاطمہ مخدومی اور فاطمہ محمدی دونوں برابر ہیں۔(۱)

پچھلی امتوں کی سب سے بڑی بدبختی یہ تھی کہ جب بھی ان کے درمیان کوئی بڑا شخص چوری کرتا تھا تو اسے معاف کردیتے تھے اور اس کی چوریوں کو نظر انداز کردیتے تھے ،لیکن اگر کوئی عام آدمی چوری کرتا تھا توفوراً اس پرحکم الہی جاری کرتے تھے ۔

پیغمبراسلام(ص) نے امت اسلامی کی اس طرح سے تربیت کی ،لیکن آپ کے انتقال کے بعد دھیرے دھیرے اسلامی معاشرے میں قوانین کے جاری کرنے میں رخنہ پڑ گیا ،خصوصاًخلیفہ دوم کے زمانے میں عرب اور غیر عرب، حسب ونسب، ایک گروہ کا دوسرے گروہ کے مقابلے میں وجود میں آیا لیکن اس حد تک نہیں تھا کہ انقلاب اور شورش برپا ہو ، عثمان کی خلافت کے زمانے میں اسلامی قانون کے اجراء میں تبعیض شباب پر تھی ،اور یہی چیز لوگوں کی نارا ضگی کا سبب بنی اور لوگ خلیفہ اور ان کے اطرافیوں سے متنفر ہو گئے ۔

مثلاً. خلیفہ دوم ایک ایرانی بنام ابو لولو جو مغیرہ بن شعبہ کا غلام تھا کے ہاتھوں مارے گئے تھے قتل کرنے کی علت کیا تھی یہاںپر بیان کرنا مقصود نہیں ہے، ہم نے اس کا تذکرہ '' علی اور شوریٰ ''میں عمر کے قتل ہونے کی علت میںبیان کیا ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلیفہ کے قتل کا مسلئہ اسلامی عدالت سے حل کرنا چاہیئے تھا اور اس کے قاتل اور محرک افراد (اگر محرک تھے) کو اسلامی قاعدہ اور قانون کے مطابق سزا دینی چاہیئے تھی لیکن یہ بات صحیح نہیں تھی کہ خلیفہ کے بیٹے یا اس کے رشتہ دار اس کے قاتل کو سزادیں یا اسے قتل کریں چہ جائیکہ کہ قا تل کے رشتہ دار وں اور دوستوں تک کو سزا دیں یا قتل کریں ، بغیر اس کے کہ خلیفہ کے قتل میں شامل ہونا ثابت ہواور بغیر سزا کے انھیں قتل کردیں ،

لیکن افسوس کہ خلیفہ کے قتل کے بعد یا ان کے حالت احتضار ہی میں خلیفہ کے بیٹے عبیداللہ نے دو بے گناہوں (ہرمزان اور ابولولو کی بیٹی جفینہ)کو اس الزام میں کہ اس کے باپ کے قتل کرنے میں شامل تھے قتل کر ڈالا اور اگر صحابیوں سے ایک صحابی نے اس کے ہاتھ سے تلوار نہ لی ہوتی اور اسے نہ روکا

______________________

(۱)۔الاستیعاب ج۴ ۳۷۴

۳۰۵

ہوتا تو مدینہ میں جتنے بھی قیدی تھے انھیں قتل کر ڈالتا۔عبید اللہ کے اس جرم نے مدینہ میں تلا طم برپا کردیا ،اور مہاجرین وانصارنے عثمان سے بے حداصرار کیا کہ اسے سزا دیں .اور ابولٔولوکی بیٹی اور بہو کو انکے خون کا بدلہ اس سے لیں۔(۱)

خودحضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اصرار کیا کہ عبیدا للہ کو سزادو ، اور خلیفہ سے کہا :بے گناہوں کو قتل کرنے کا انتقام عبیداللہ سے لو ،کہ وہ کتنے بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ہے اور بے گناہ مسلمانوں کو قتل کیا ہے ،لیکن جب عثمان کی طرف سے مایوس ہو گئے اس وقت آپ نے عبیداللہ کو مخاطب کرکے کہا :اگر کسی دن تو میرے ہاتھو ں میں آگیا تومیں تجھے ہرمزان کے بدلے میں قتل کردوںگا۔(۲)

عبید اللہ کو سزادلانے اور عثمان کی بے توجہی کی وجہ سے اعتراض روز بروز بڑھتا رہا اوراب بھی ابولولو کی بیٹی اور ہرمزان کے ناحق خون بہالوگوں کے درمیان جوش وخروش تھا ،خلیفہ نے جب خطرہ محسوس کیا تو عبیداللہ کو حکم دیا کہ مدینہ سے کوفہ کی طرف چلا جائے اور بہت وسیع زمین اس کے حوالے کر دی اور اس جگہ کا ،کویفة ابن عمر(عمر کے بیٹے کا چھوٹا کوفہ)نام رکھا۔

______________________

(۱)طبقات ابن سعد ج۵ص۱۷(طبع بیروت)۔

(۲)انساب بلاذ ر:ی ج ۵ ص ۲۴۔

۳۰۶

بے جاعذر

مسلمان تاریخ لکھنے والوں نے خلیفہ سوم اور ان کے ہم فکروں کے دفاع میں معذوری کوپیش کیا ہے جو بچگانہ معذوری کے مانند ہے ہم یہا ں پر ان میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔

۱۔جب عثمان نے عبیداللہ کے بارے میں عمروعاص سے مشورہ کیا تو عمر و عاص نے کہا کہ ، ہرمزان کاقتل اس وقت ہوا جب مسلمانوں کا حاکم کوئی اور شخص تھا اور مسلمانوں کی ذمہ داری تمہارے ہا تھوں میں نہ تھی اور اس طرح تم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی ،اس عذرکا جواب واضح ہے:

الف:۔مسلمانوں کے ہر حاکم وسرپرست پر لازم ہے کہ مظلوم کا حق ظالم سے دلوائے ،چاہے وہ ظالم اس کی حکومت کے زمانے میں ظلم کرے یا دوسرے شخص کی حکومت کے زمانے میں ظلم کرے ،کیونکہ حق ثابت اور پائیدار ہوتا ہے اورزمانہ کاگزرنا اور حاکم کا بدلنا ہر گز فریضہ کو نہیں بدلنا۔

ب:۔وہ حاکم کہ جن کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا خود انہوں نے اس واقعہ کی تفتیش کا حکم دیا تھا،جب خلیفہ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی کہ آپ کے بیٹے عبیداللہ نے ہرمزان کو قتل کر ڈالاہے تو انہوں نے اس قتل کی وجہ پوچھی ،لوگوں نے کہا یہ بات مشہور ہے کہ ہرمزان نے ابو لولو کو حکم دیا تھا کہ تمہیں قتل کردے خلیفہ نے کہا :

میرے بیٹے سے پوچھو ،اگر اس کے پاس کوئی گواہ ہے تو میرا خون ہرمزان کے خون کے برابر ہے لیکن اگر اس کے بر عکس ہے

۳۰۷

تو اس کو قتل کردیا جائے۔(۱)

کیا بعد میں آنے والے خلیفہ پر واجب نہیں تھا کہ اپنے پہلے کے خلیفہ کے حکم کو جاری کرے؟کیونکہ عمرکے بیٹے کے پاس نہ کوئی گواہ تھا کہ ہرمزان اس کے باپ کے قتل میں شریک، اور نہ ہی ہرمزان نے ابو لولو کو قتل کرنے کاحکم دیا تھا ۔

۲۔یہ بات صحیح ہے کہ ہرمزان اور ابولولوکی چھوٹی بیٹی کا خون ناحق بہایا گیا لیکن اگر مقتول کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کے خون کا ولی مسلمانوں کاخلیفہ اور امام ہے، اسی وجہ سے عثمان نے اس مقام ومنصب سے خوب استفادہ کیا اور قاتل کو آزاد چھوڑ دیا اور اس کے گناہوں کو معاف کردیا۔(۲)

اس عذر کی بھی پچھلے عذر کی طرح کوئی اہمیت نہیں ہے ، اس لئے کہ ہرمزان ،قارچ(ککر متاّ) کی طرح نہ تھا جو زمین سے اگاتھااور اس کا کوئی وارث ورشتہ دار نہ تھا۔مورخین نے لکھا ہے کہ وہ ایک زمانے تک شوشتر کا حاکم تھا۔(۳)

اور ایسی شخصیت بغیر وارث کے نہیں ہوسکتی اس بنا پر خلیفہ کا فریضہ یہ تھا کہ اس کے وارث کو تلاش کرتے اور تمام کاموں کی ذرمہ داریاں اس کے سپرد کرتے۔

اس کے علاوہ اگر ہم فرض کر لیں کہ اس کا کو ئی وارث نہیں تھا تو ایسی صورت میں اس کا تمام حق، مال مسلمانوں کا حق تھا اور جب تمام مسلمان اس کے قتل بخش دیتے اس وقت خلیفہ اس کے قصاص کو نظر انداز کردیتے ،لیکن افسوس کہ واقعہ اس کے بر خلاف تھا اورمولف طبقات کے نقل کرنے کے مطابق چند افراد کے علاوہ تمام مسلمان عبیداللہ سے قصاص کا مطالبہ کررہے تھے ۔(۴)

______________________

(۱)۔سنن بیہقی (چاپ آفیست )ج۸ص۶۱۔

(۲)۔سنن بیہقی (چاپ آفست)ج۸ص۶۱۔

(۳) قاموس الرجال ج۹ص۳۰۵۔

(۴)طبقات ابن سعد ج۵ص۱۷۔

۳۰۸

امیر المومنین نے بہت سختی سے عثمان سے کہا ،اقد الفاسق فانّه' أتیٰ عظیماًًقتل مسلما ًبل اذنب ۔(۱)

اور جس وقت خلیفہ نے عبیداللہ کو آزادکرنا چاہاتوامام علی نے فوراً اعتراض کیا اور کہا :خلیفہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جو مسلمان کا حق ہے اسے نظرانداز کردے۔(۲) اس کے علاوہ ، اہل سنت کی فقہ کے مطابق ، امام اور اسی طرح دوسرے اولیاء (مثل باپ اورماں) کویہ حق حاصل ہے کہ قاتل کو قتل کریں یا اس سے دیت لیں ،لیکن ہرگز اسے معاف کرنے کا حق نہیں رکھتے۔(۳)

۳۔ اگر عبیداللہ قتل ہو جاتا تو مسلمانوں کے دشمن خوشحال ہو تے کہ کل ان کاخلیفہ ماراگیا اور آج اس کے بیٹے کو مارڈالاگیا۔(۴)

یہ عذر بھی قرآن و سنت کی نظر میں بے وقعت ہے کیونکہ ایسے اثرورسوخ رکھنے والے شخص کا قصاص مسلمانوں کے افتخار کا باعث تھا اور عملی طور پر یہ ثابت کردیتا کہ ان کاملک ،قانون وعدالت کا ملک ہے، اور خلاف ورزی کرنے والے چاہے جس مقام ومنصب پر ہوں قانون کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں اور ان کامقام و منصب عدالت جاری کر تے وقت مانع نہیں ہوتا۔

دشمن اس وقت خوشحال ہوتا جب وہ دیکھتا ہے کہ حاکم ورہبر قوانین الہی کا مذق اڑارہے ہیں ، اور اپنی خواہشات کو حکم الہی پرمقدم کر رہے ہیں ۔

۴۔کہتے ہیں کہ ہر مزان، خلیفہ کو قتل کر نے میں شامل تھا کیونکہ عبدالرحمن بن ابو بکر نے گواہی دی کہ ابو لولو اور ہرمزان اور جفین کو ہم نے آپس میں آہستہ آہستہ بات کرتے ہوئے دیکھا اور جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو ایک خنجر زمین پر گر ا جس میں دو نوک تھے ،اور اس کا دستہ بیچ میں تھا ،اور خلیفہ بھی اسی خنجر سے قتل ہوا۔(۵)

______________________

(۱)انساب بلاذری ج۵ص۲۴۔

(۲)قاموس الرجال ج۹ ص۳۰۵منقول از شیخ مفید

(۳)الغدیر ج۸(طبع نجف)(بدائع الصنایع ملک العلماء حنفی سے گفتگو)

(۴)تاریخ طبری ج۵ص۴۱

(۵)تاریخ طبری ج۲ص۴۲

۳۰۹

اسلامی عدالت میں اس عذر کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے، کیونکہ اس سے ہٹ کر کہ گواہی دینے والا ایک شخص ہے ایسے لوگوں کاایک جگہ ہونا جو مدتوں سے دوست رہے ہوں اور ان میں سے ایک لڑکی ہو ،خلیفہ کے قتل کرنے پر گواہ نہیں بن سکتا شاید ہرمزان نے اس وقت خلیفہ کو قتل کرنے سے منع کیا ہو کیا صرف وہم وگمان کے ذریعے دوسروں کا خون بہایا جاسکتا ہے ؟ اور کیا اس طرح کی گواہی اور ثبوت کسی بھی عدالت میں قابل قبول ہے ؟جی ہاں تمام بے جا عذر سبب بنے کہ ہرمزان کا قاتل لمبے عر صے تک آزادانہ زندگی گزارے،لیکن امام علی نے اس سے کہا تھا کہ اگر کسی دن تم میرے قبضے میں آگئے تو تم سے ہرمزان کا قصاص ضرور لیں گے۔(۱) جس وقت امام نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ،عبیداللہ کوفہ سے شام بھاگ گیا، امام نے فرمایا ،اگر آج بھاگ گیا ہے تو ایک نہ ایک دن ضرور ہاتھ آئے گا ،زیا دہ زمانہ نہیں گزرا تھا کہ جنگ صفین میں حضرت علی کے ہاتھوں یا مالک اشتر یا عماریاسر (بہ اختلاف تاریخ ) کے ہاتھوں قتل ہوا۔

دوسری وجہ، بنی امیہ کے درمیان بیت المال کا تقسیم ہونا

پیغمبر اسلام(ص) کی خلافت وجانشینی ایک مقدس واعلیٰ مقام ہے جسے تمام مسلمان نبوت ورسالت کے منصب کے بعد سب سے اہم مقام سمجھتے ہیں ،اور ان لوگوں کا اختلاف صرف مسئلہ خلافت کے بارے میں ہے کہ خلیفہ کا انتخاب خدا کی طرف سے ہونا چاہئیے یا لوگ خود خلیفہ کا انتخاب کریں، ان لوگوں کے درمیان اختلاف یہ نہ تھا کہ مقام خلافت کا رتبہ بڑھ جائے اور اسلامی خلافت کی موقعیت کو اہم شمار کریں .اسی مقام خلافت کے احترام کی وجہ سے امیر المو منین ـ نے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے خلیفہ سوم سے یہ کہا:

''وانی انشدک االلّه ان لا تکون امام هذه الامةالمقتول،فانه کان یقال یقتل فی هذه الامةامام یفتح علیها القتل والقتال الی یوم القیامة'' (۲)

______________________

(۱)انساب بلاذری ج۵،ص۲۴۔

(۲)نہج البلاغہ عبدہ خطبہ۱۵۹۔

۳۱۰

میں تجھے خدا کی قسم دیتاہوں کہ اس امت کے مقتول پیشواکی طرح نہ ہونا،کیونکہ کہا جاتا تھاکہ اس امت کا پیشوا مارا جائے گا جس کے قتل کی وجہ سے قیامت تک کے لئے قتل وغارت گری کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ،

مہاجرین و انصار اوردیگر مسلمانوں کے درمیان اسلامی خلافت اور خلیفہ مسلمین کی عظمت ورفعت کے باوجود اسلام کی دوسری بزرگ شخصیتیں مختلف جگہوں سے مدینہ آگئیں ،اور مہاجرین و انصار کی مددسے خلیفہ سوم کو قتل کرکے پھر اپنے اپنے شہر واپس چلی گئیں۔

عثمان کے خلاف شورش وانقلاب کی ایک دو وجہیں نہیں تھیں، انقلاب لانے کی ایک وجہ حدود الہی کا جاری نہ ہوناتھا جس کا تذکرہ ہم مختصر اً کر چکے ہیں اور دوسری وجہ جس پر ہم بحث کر رہے ہیں یعنی خلیفہ کا اپنے رشتہ داروں کو بے حساب بیت المال سے مددکرنا اور ان کا خرچ دینا تھا ،اگر چہ تاریخ نے ان تمام چیزوں کو نہیں لکھا ہے یہاں تک کہ طبری نے بھی کئی مرتبہ اس بات کو صراحت سے کہا ہے ، میں اکثر لوگوں کے تحمل نہ کرنے کی وجہ سے بعض اعتراض کو جومسلمانوں نے خلیفہ کے خلاف کیئے تھے ،تحریر نہیں کیا ہے(۱) لیکن وہی چیز یں جنہیں تاریخ نے لکھا ہے ، بیت المال سے متعلق عثمان کے کردار کوبخوبی واضح وروشن کرتا ہے ۔مسلمانوں کے بیت المال کی ملکیتیں اور دوسرے سامان جو انہوں نے اپنے اعزہ واحباب کو دیئے تھے ،وہ بہت زیادہ تھے جن میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کررہے ہیں۔

عثمان نے فدک کے علاقہ کو جو مدتوں حضرت زہرا اور خلیفہ اول کے درمیان مورد بحث تھا مروان کو دیدیا اور یہ ملکیت ایک کے بعد ایک مروان کی اولادوں میں منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیزنے اسے حضرت زہرا کی اولاد وں کو واپس کردیا۔

پیغمبر اسلام کی بیٹی نے کہا تھاکہ میرے بابا نے فدک مجھے دیا تھا ،لیکن ابو بکر کا یہ دعوی تھا کہ یہ صدقہ ہے اور دیگر صدقوں کی طرح یہ بھی محفوظ رہے اور اس کی آمدنی مسلمانوں کے امور میں خرچ ہو بہر حال کسی بھی صورت سے عثمان کا مروان کوفدک دینا صحیح نہیں تھا ،بہت سے مورخین نے عثمان کی اس حرکت پر ان کو

______________________

(۱)تاریخ طبری ج۵ص۱۰۸و۱۱۳ و۲۳۲۔

۳۱۱

آڑے ہاتھ لیا اور سب نے یہی لکھا کہ'' تمام لوگوں نے جو ان پر اعتراض ہوئے یہ ہے کہ انہوں نے فدک کو جو رسول اسلام کا صدقہ تھا مروان کودیدیا ''(۱) اے کاش خلیفہ اسی پر اکتفاء کرتے اور اپنے چچا زاد بھائی اور داماد کو اس کے علاوہ کچھ اور نہ دیتے،لیکن افسوس کہ اموی خاندان کے ساتھ خلیفہ کی الفت و محبت ولگائو کی کوئی حدنہ تھی ،انہوں نے اتنے ہی پر اکتفانہیں کیا بلکہ ۲۷ ہجری میں اسلامی فوج نے افریقہ سے بہت زیادہ مال غنیمت جمع کیا تھا جس کی قیمت تقریباً ڈھائی میلین (۲۵لاکھ ) دینار تھی اس کا پانچواں حصہ (۵لاکھ ) جسے قرآن کریم نے خمس کے چھ موارد میں تقسیم کیا ہے بغیر کسی دلیل کے اپنے داماد مروان کو دیدیا، اور اس طرح سے انہوں نے سب سے مخالفت مول لی ،چنانچہ بعض شعراء نے بعنوان اعتراض یہ شعر کہا(۲)

وأعطیت مروان خمس العبا

د ظلماًلهم وحمیت الحمی(۳)

وہ خمس جو خدا کے بندوں سے مخصوص ہے بغیر کسی دلیل کے مروان کو دیدیا اور اپنے رشتہ داروں کا خیال کیا۔

بیت المال کے بارے میں اسلام کا نظریہ

ہر عمل ایک ونظریہ کی حکایت کرتا ہے، خلیفہ کاعمل اس بات کی حکایت کرتاہے کہ وہ بیت المال کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے اور ہدیہ و تحفہ وغیرہ دینے کو صلئہ رحمی اور رشتہ داروں کی خدمت کرنا جانتے تھے۔اب یہ دیکھنا ہے کہ بیت المال چاہے مال غنیمت ہو یازکات کی طرح دوسرے اموال کے بارے میں اسلام کا نظریہ کیا ہے یہاں ہم پیغمبر اسلام(ص) اورامیر المومنین کے چند اقوال کو پیش کررہے ہیں ۔

۱۔پیغمبر اسلام (ص)مال غنیمت کے بارے میں فرماتے ہیں

للّه خمسه واربعة اخماس للجیش (۴)

______________________

(۱)ابن قتیبہ دینوری ،معارف ص۸۴۔---(۲)سورئہ انفال آیت ۴۱۔----(۳)سنن بیہقی ج۶ص۳۲۴۔

(۴)سنن بیہقی ج۶ ص۳۲۴۔

۳۱۲

اس میں سے پانچواں خدا کا حصہ اور باقی ۴۵لشکر اسلام کا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ خدا س سے بے نیاز ہے کہ وہ اپنے لئے حصہ معین کرے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس ۵/ ۱کو ایسے کاموں میں خرچ کیا جائے جن میں خدا کی مرضی شامل ہو ۔

۲۔جب پیغمبر اسلام نے معاذبن جبل کو یمن روانہ کیا توانہیں حکم دیا کہ لوگوں سے کہنا۔

''ان اللّه قدفرض علیکم صدقة اموالکم نوخذ من اغنیاء کم فتردّالی فقراء کم'' (۱)

خدا وند عالم نے تم پر زکواة واجب کی ہے جو تمہارے مالداروں سے لی جائے گی اور فقیروں کے درمیان تقسیم کی جائے گی۔

۳۔ امیر المومنین نے اپنے مکہ کے حاکم کو لکھا :

جو کچھ خدا کا مال تمہارے پاس جمع ہوا ہے اس کا حساب وکتاب کرو اور اسے کثیر العیال اور بھوکوں کو دیدو ، اور اس بات کا خیال رہے کہ وہ یقینافقیروں اور محتاجوں کو ملے ۔

تاریخ میں ہے کہ دو عورتیں دو نژاد کی ایک عرب اور دوسری آزادکردہ ،مولائے کائنات کے پاس آئیں اور دونوں نے حاجت پیش کی ،امام نے ہر ایک کو ۴۰ درہم کے علاوہ کھانے پینے کا سامان دیا نژادوہ عورت جو عرب سے نہیں تھی اس نے اپنا حصہ لیا اور چلی گئی لیکن عرب عورت نے جاہلیت کی فکر رکھنے کے وجہ سے امام سے کہاکیا آپ مجھے اتنی ہی مقدار میں دیں گے جتنا غیر عرب کو دیا ہے ؟امام ـ نے جواب میں کہا ، میں خد ا کی کتاب قرآن میں اسماعیل کے بیٹوں کی اسحاق کے بیٹوں پر فضیلت وبرتر ی نہیں دیکھتا؟(۲)

ان حدیثوں اور صراحتوں کے ہوتے ہوئے اور یہ کہ خلیفہ اول ودوم کا طریقہ خلیفہ سوم سے علیحدہ تھا اس کے باوجود عثمان نے اپنی پوری خلافت کے درمیان بہت زیا دہ تحفے وہدیہ لوگوں کو دیئے کہ کسی بھی صورت میں اس کی توجیہہ نہیں کی جاسکتی ۔

اگر ان ہدیوں اورکو ان نیک لوگوںکو دیا جاتاجن کی گذشتہ زندگی اسلام کے لئے باعث افتخار تھی ،تو

______________________

(۱)الاموال ص۵۸۰۔

(۲)نہج البلاغہ نامہ ۶۷۔

۳۱۳

اتنی ملامت نہیں ہوتی ، لیکن افسوس کہ وہ گروہ لایق فضل وکرم قرار پایا جس کی اسلام میں کوئی فضیلت نہیں تھا۔

مروان بن حکم حضرت امیر المومنین کا سخت ترین دشمن تھا ، جس وقت اس نے حضرت علی سے اپنی بیعت توڑی اور جنگ جمل میں گرفتار ہوا اور امام حسین کی شفاعت کرنے سے آزاد ہوا ،تو امام کے بیٹوں نے امام سے کہا ، مروان دوسری مرتبہ پھر آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرے گا ، امام نے فرمایا ۔

مجھے اس کی بیعت کی ضرورت نہیں ہے کیا عثمان کے قتل کے بعد اس نے میرے ہاتھوں پر بیعت نہیں کیا؟ اس کی بیعت یہودیوں کی بیعت کی طرح ہے جو مکروفریب اور بے وفائی میں بہت مشہور ہیں، اگر خود اپنے ہاتھوں پر بیعت کرے تودوسرے دن مکرو فریب کے ساتھ اسے توڑ دے گا اس کے لئے حکومت چھوٹی چیز ہے جیسے کتا خود اپنی ناک چاٹتاہے،وہ چاربچوں کاباپ ہے اور امت مسلمہ کواس سے اور اس کے بچوں سے ایک روز شدید جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔(۱)

______________________

(۱)سنن بیہقی ج۶ص۳۴۸۔

۳۱۴

تیسری وجہ، اموی حکومت کی تشکیل

عثمان کے خلاف شورش کی تیسری وجہ ،اسلام کے حساس مر کزوں پر امویوں کی ظالمانہ حکومت تھی وہ بھی ایسی حکومت جو بچے اور بوڑھے کو نہیں جانتی تھی اور خشک وتر کو جلا دیتی تھی ، اصل بات یہ تھی کہ خلیفہ سوم کو بنی امیہ سے بہت ہی زیاوہ الفت ومحبت تھی اور رشتہ دارکی محبت کو ٹ کوٹ کر بھری تھی ، اپنے رشتہ داروں کی اس درخواست کی تکمیل کے لئے کہ ایک اموی حکومت تشکیل دی جائے عقل وخرد ، مسلمانوں کی مصالح و مفاسداور اسلام کے قوانین کی عثمان کی نظر میںکوئی اہمیت نہیں تھی اور بنی امیہ سے بیحد محبت کی وجہ سے بہت زیادہ غلط انجام پاتے تھے ۔

اس بات کی بھی یاددہانی ضروری ہے کہ ان کی محبت سارے مسلمانوں سے نہ تھی بلکہ ان کی محبت کا ربط صرف اپنے رشتہ داروں سے تھا ، اور دوسرے افراد ان کے غیظ وغضب سے امان میں نہیں تھے ،یعنی شجرئہ اموی سے بے شمار محبت کی وجہ سے ابوذر ،عمار ،عبداللہ بن مسعود وغیرہ پر بہت خشمگین رہتے تھے ، جس وقت ابو ذر کو ایسی سرزمین جہاں آب ودانہ نہ تھا یعنی ، ربذہ بھیجا اور اس عظیم مجاہد نے وہاں تڑپ تڑپ کر جان دیدی ،اس وقت ان کی محبت جوش میں نہ آئی جس وقت عمار خلافت کے بکے ہوئے کارمندوںکے لات گھونسوں سے زخمی ہوئے اوراور بے ہوش ہوگئے، خلیفہ پر ذرہ برابربھی اثر نہ ہوا ۔

۳۱۵

خلیفہ کا خاندان ،بنی ابی معیط ،کے ساتھ لگائو چھپنے والا نہیں تھا،یہاں تک کہ خلیفہ دوم نے بھی اس بات کا احساس کرلیا تھاتبھی تو انہوں نے ابن عباس سے کہا تھا :

''لوولیها عثمان لحمل بنی ابی معیط علی رقاب الناس ولو فعلها لقتلوه'' (۱)

اگر عثمان خلافت کی با گ ڈور اپنے ہاتھ میں لے گا تو ابی معیط ،کے بیٹوں کو لوگوں پرمسلط کردے گا اور اگر اس نے ایسا کیا تو لوگ اسے قتل کردیں گے۔

جس و قت عمر نے شوری تشکیل دینے کا حکم دیا اور اس میں عثمان کو بھی داخل کیا توان کی طرف رخ کرکے کہا ، اگر خلافت تمہارے ہاتھوں میں آجائے تو اس وقت خدا سے خوف کھانا اور ابی معیط کی آل کولوگوں پرمسلط نہ کرناجب عثمان نے ولید بن عتبہ کو کوفہ کاگورنر بنایا،توامیرالمومنین اور طلحہ وزبیرنے عمر کی بات یاد دلائی اور عثمان سے کہا :

''الم یوصک عمرالا تحمل آل بنی محیط وبنی امیه علی رقاب الناس ؟'' (۲)

کیا عمر نے تم کو نصیحت نہیں کی تھی کہ آل بنی محیط اور بنی امیہ کو لوگوں پر مسلط نہ کرنا؟

لیکن ہوا وہی کے سارے معیار ان کی مکمل محبت و غالب ہو گئی ،اور اسلام کے تمام حساس واہم مرا کز امویوں کے ہاتھوں میں آگئے ،اور ایساہوا کہ ایک گروہ قدرت و حکو مت میں مست اور دوسرا گروہ مال جمع کرنے میں مشغول ہو گیا جب کہ نزدیک اور دورکے علاقے کے مسلمان خلیفہ کے رشتہ داروں کو غرامت دینے والے تھے ۔

حقیقت میں عثمان نے خاندان بنی امیہ کے بوڑھے شخص ،ابو سفیان کی پیروی کی جو عثمان کے خلیفہ منتخب ہونے والے دن ان کے گھر آیا ورجب اس نے دیکھا کہ وہاں سب کے سب بنی امیہ سے ہیں تواس

______________________

(۱) انساب بلاذری ج۵،۱۶۔

(۲)انساب بلاذری ج۵ص۳۰۔

۳۱۶

نے کہا کہ خلافت کویکے بعد دیگرے اپنے ہی ہاتھوں میں رکھنا۔(۱)

ابو موسی اشعری یمنی کوفہ کا حاکم تھا، اور یہ چیز خلیفہ کے ساتھیوں کے لئے برداشت کے قابل نہیں تھاکہ ایک غیر اموی شخص اس عہدے پرفائز ہو ،یہی وجہ تھی کہ شبل بن خالد نے ایک خصوصی جلسہ میں جس میں سب کے سب اموی تھے کہا:کیوں اتنی زیادہ زمین ابو موسی اشعری کو دیدیا ہے ؟،خلیفہ نے کہا :تمہاری نظر میں کون بہتر ہے ؟شبل نے عبداللہ بن عامر کی طرف اشارہ کیا ،اس وقت اس کی عمر سولہ سال سے زیادہ نہ تھی ۔(۲)

اسی فکر کا نتیجہ تھا کہ حاکم کوفہ سعید بن عاص اموی نے منبر سے اعلان کیا تھا کہ عراق قریش کے جوانوں کی چراگاہ ہے۔

اگر حکومت عثمان میں کام کرنے والوں کی فہرست کو تاریخ کے اوراق سے نکالا جائے تو اس وقت خلیفہ سوم کی بات کی تصدیق ہو جائے گی کہ نے کہا تھا ۔

''لو ان بیدی مفاتیح الجنّة لاعطیتهابنی امیه حتی ید خلوامن اخرهم'' (۳)

اگر جنت کی کنجی میرے ہاتھوں میں ہوتی تو اسے بنی امیہ کو دیدیتا تاکہ بنی امیہ کی آخری فردبھی جنت میں داخل ہوجائے۔

اسی بے جااور بے حساب محبت کا نتیجہ تھا کہ لوگ خلیفہ کے حاکموں کے ظلم وستم اور حکومت کے سیاسی رہنمائوں کے ظلم و جبر سے عاجز ہو گئے تھے اور خلیفہ کے خلاف ایسی مخالفتیں معاشرے میں پروان چڑھنے لگیں جنہوں نے عثمان کی خلافت اور ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا ۔

عثمان کی خلافت کے زمانے میںگورنروں کے سلسلے میں صرف کوفہ اور مصر میں جو تبدیلیاں دیکھنے کو آئیں وہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان کی سیاست یہ تھی کہ سارے امور امویوں کے ہاتھوں میں ہوں۔

______________________

(۱)استیعاب ج۲ص۶۹۰۔

(۲) تاریخ طبری ۔کامل ابن اثیر۔ انساب بلاذری ۔

(۳)مسند احمد بن جنل ج۱ص۶۲۔

۳۱۷

جس وقت خلیفہ نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ،مغیرہ بن شعبہ کوکوفہ کی گورنری سے معزول کرکے سعد وقاص کو اس کی جگہ پر منصوب کردیا ،اس مورد میںبظاہر اچھا کام کیاکیونکہ سعد وقاص کا مقام ومر تبہ جو کہ فاتح عراق تھا .مغیرہ بن شعبہ سے جونا زیبا اور غلط کاموں میں مشہور تھابہت بلند تھا بلکہ اس کا ان سے مقابلہ نہیں تھا ،لیکن حقیقت میں سعدوقاص کو منصوب کرنے کا مقصد کچھ دوسرا تھا کیونکہ ایک سال کے بعد انہوں نے سعد وقاص کو ہٹا کر اپنے مادری بھائی ولید بن عتبہ بن ابی معیط کو کوفہ کا گورنر بنا دیا ،۲۷ ہجری میں عمروعاص کو مصر سے جزیہ لینے کی ذمہ داری سے ہٹا کر اپنے رضاعی بھائی عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو مصر میں جزیہ لینے کے لئے معین کردیا،۳۰ ہجری میں ابو موسی اشعری کو ،جو خلیفہ دوم کے زمانے سے بصرہ کا حاکم تھا ،معزول کر کے اپنے ماموں زاد بھائی عبداللہ بن عامر جو بالکل نوجوان (۱۶سال کا)تھا بصرہ کا حاکم بنا دیا ۔(۱)

یہ تمام موارد جوذ کر ہوئے ہیں اس بات کی علامت ہیں کہ عثمان کی ہمیشہ یہی کو شش تھی کہ ایک اموی حکومت تشکیل پاجائے ۔

چوتھی وجہ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابہ پر ظلم وستم

عثمان کے خلاف شورش و بغاوت کی چوتھی وجہ پیغمبر کے صحابہ کی بے حرمتی تھی ،جو خود عثمان کی طرف سے یا ان کی طرف سے معین کئے ہوئے شخص کے ہاتھوں انجام ہوتی تھی ، اس سلسلے میں یہاںصرف دو نمونے پیش کر رہا ہوں ۔

۱۔ عبداللہ بن مسعود پر ظلم وستم

عبداللہ بن مسعود پیغمبر اسلام (ص)کے بزرگ صحابی تھے، تاریخ اسلام میں جن کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے اور صحابہ کے بارے میں جو کتابیں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں انکے حالات پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوی ایمان والے اورقرآن کی تعلیم کے ذریعے معارف اسلامی کی اشاعت میں کوشاں رہتے تھے۔(۲)

______________________

(۱)تاریخ طبری ۔کامل ابن اثیر ،انساب بلاذری۔

(۲)استیعاب ج۱،ص۳۷۳،اصابہ ج۲،۳۶۹،اسد الغابہ۔

۳۱۸

وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر مسجدالحرام میں اور قریش کی انجمن کے سامنے بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کی ، تا کہ خدا کے کلام کو قریش کے اندھے دلوں تک پہنچائیں ،جی ہاں دو پہر کے وقت جب قریش کے سردار جمع ہوکر تبا دلہ خیال کررہے تھے ،کہ اچانک عبداللہ نے'' مقام ابراہیم''کے سامنے کھڑے ہو کر بلند آواز میں سورئہ رحمن کی چند آیتوں کی تلاوت کی ، قریش نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا ، ابن ام عبد ، کیا کہہ رہا ہے ؟ ایک نے کہا جو قرآن محمد پر نازل ہواہے اسے ہی پڑھ رہا ہے، اس وقت سب کے سب اٹھے اور عبداللہ پر سب وشتم اور ان کے چہرے پر طمانچہ مارکر ان کی آواز کو خاموش کردیا ، عبد اللہ زخمی چہرے کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آگئے، لوگوں نے ان سے کہا ،تم سے ہمیں اس بات کا خوف تھا ، عبداللہ نے ان کے جواب میں کہا دشمنان خدا آج کی طرح کبھی بھی میری نگاہ میں اتنے ذلیل وحقیر نہ تھے ،اور پھر کہا کہ اگر تم لوگ راضی ہو تو میں کل پھر اسی کام کو دوبارہ کروں! ان لوگوں نے کہا جس چیز کو وہ پسند نہیں کرتے اس کو جتنا انہوں نے سن لیا بس وہ ہی کافی ہے(۲) یہ اس صحابی کے تابناک زندگی کے خوشنمااوراق ہیں جس نے اپنی عمر کو جوانی کی ابتداء سے مسلمانوں کو قرآن سکھانے اور توحید کا درس دینے میں صرف کیا تھااور وہ ا ن چھ افراد میں سے ہے جن کے بارے میں ذیل کی آیت نازل ہوئی ۔(۲)

( وَلاَتَطْرُدْ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَیْئٍ وَمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْهِمْ مِنْ شَیْئٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَکُونَ مِنْ الظَّالِمِینَ ) (انعام۵۲)

اور (اے رسول) جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار سے اس کی خوشنودی کی تمنا میں دعائیں مانگا کرتے ہیں ان کو اپنے پاس سے نہ دھتکارو، نہ ان کے (حساب و کتاب کی) جوابدہی تمہارے ذمہ ہے اور نہ تمہارے (حساب و کتاب کی) جوابدہی کچھ ان کے ذمہ ہے تاکہ تم انھیں (اس خیال سے) دھتکار بتاؤ تو تم ظالموں (کے شمار) میں ہو جاؤ گے۔

______________________

(۱)سیرئہ ابن ہشام ج۱،ص۳۳۷۔

(۲)تفسیر ی طبری ج۷،ص۱۲۸،مستدرک حاکم نیشا پوری ج۳،ص۳۱۹۔

۳۱۹

عبداللہ کی عظمت کے بارے میں اس سے زیادہ تاریخ نے بیان کیا ہے حق تو یہ ہے کہ یہاں تفصیل سے بیان کیا جاتا لیکن جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ ایسے مومن اور خدمت گزار صحابی جس کی خطا صرف یہ تھی کہ اس نے کوفہ کے حاکم ولیدبن عتبہ کا ساتھ نہیں دیا تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوا ۔

سعدو قاص کوفہ کا حاکم تھا عثمان نے اسے اس منصب سے ہٹادیا اور اپنے رضاعی بھائی ولید بن عتبہ کو ان کی جگہ معین کردیا ، ولید نے کوفہ میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بیت المال کو اپنے قبضہ میں لے لیا اسکی کنجی عبداللہ بن مسعود کے پاس تھی ،عبداللہ نے کنجی دینے سے انکار کردیا ولید نے اس کی خبر عثمان کو بھیجی ،عثمان نے عبداللہ بن مسعود کے نام خط لکھا اور ولید کو بیت المال کی کنجی نہ دینے پر ملامت کیا، عبداللہ نے خلیفہ کے خوف وڈر کی وجہ سے کنجی حاکم کی طرف پھینک دی اور کہا:

کیسا دن آگیا کہ سعد وقاص کو ان کے منصب سے دور کر دیا گیا اور ان کی جگہ پر ولید بن عتبہ کو منصوب کردیا گیا ،خدا کا کلام سچا ہے بہترین حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رہنمائی وہدا یت ہے، ان کے لئے بدترین امورانکی نئی باتیں ہیں جن کا اسلام نے حکم نہیں دیا ہے جو چیز بھی شرعی نہ ہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا نتیجہ جہنم ہے ۔

عبداللہ نے یہ با تیں کہیں اور چونکہ عثمان نے انھیں مدینہ بلایا تھا لہذا مدینے کی طرف روانہ ہو گئے کوفہ کے لوگ ان کے ارد گرد جمع ہو ے اور مدد کر نے کا وعدہ کیا انہوں نے کہا خلیفہ کی اطاعت مچھ پر فرض ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میں وہ پہلا شخص بنوں جو فتنہ وفساد کا دروازہ کھولتا ہے وہ جیسے ہی مدینہ میں داخل ہوے سیدھے مسجد گئے اوروہاں خلیفہ کو منبر پرمصروف گفتگو پایا ۔

بلاذری لکھتے ہیں : جب عثمان کی نگاہ عبداللہ بن مسعود پر پڑی تو وہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوے اور کہا ابھی ابھی تمہارے درمیان ایک بد بودار جانور آیا ہے وہ جاندار جو خود اپنی غذا پر چلتا ہے اور اس پر قے کر کے اسے خراب کردیتا ہے۔

عبداللہ نے جیسے ہی یہ سنا جواب دیا ،کہ میں ایسا نہیں ہوں بلکہ میں پیغمبر کا صحابی،جنگ بدر کا سپاہی اور بیعت الرضوان ،میں بیعت کرنے والا ہوں ۔ اس وقت عائشہ نے اپنے کمرے سے فریا د بلند کی ،عثمان ! کیوں پیغمبر کے صحا بی کی توہین کررہے ہو؟چہ می گوئیاں شروع ہو گئیں شروآفت سے بچنے کیلئے عبداللہ کو خلیفہ کے حکم سے مسجد سے باہر نکال دیا گیا۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809