فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362084 / ڈاؤنلوڈ: 6018
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۳۵۶،۳۵۹،نمبر۱۱۲۵،۱۱۳۰،اشاعت اوّل۔

۲۔ حافظ ابن عساکر، کتاب تاریخ دمشق، جلد۲،صفحہ۳۴۴،۴۴۲،باب امیر المومنین کے حالات، حدیث۸۵۲،۹۵۸، اشاعت دوم(شرح محمودی)۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور، جلد۶،صفحہ۳۷۹،اشاعت دوم، صفحہ۴۲۴۔

۴۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، جلد۱،صفحہ۱۵۵، باب۳۱۔

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، صفحہ۲۴۵،باب۶۲۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة ، صفحہ۳۶۱۔

۷۔ بلاذری، کتاب النساب الاشراف، ج۲ص۱۱۳حدیث۵۰،اشاعت اوّل بیروت

۸۔ شبلنجی ،کتاب نورابصار، صفحہ۷۰،۱۰۱۔

۹۔ خوارزمی، کتاب مناقب امیر المومنین ،حدیث۱۱،صفحہ۶۲۔

پندرہویں آیت

پیغمبر کی صداقت پر قرآن ایک روشن دلیل ہے اور علی ایک سچے گواہ ہیں

( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِه کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَامًا وَّرَحْمَةً )

”کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل پر ہو اور اُس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ آتا ہو جو اُسی کا جزو ہو(سورئہ ہود:آیت۱۷)

۴۱

تشریح

اس آیت شریفہ کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ کون(مَنْ) سے مرادجناب رسول خدا

فضائل علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں ۔۳

کی ذات مبارک ہے اور روشن دلیل(بَینَہ)سے مرادقرآن مجید ہے اور (نبوت کے) گواہ صادق(شاہد) سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔بعض مفسرین نے شاہد سے مراد جبرئیل علیہ السلام کو لیا ہے اور بعض نے َیَتْلُوْهُ کو مادّہ تلاوت سے قرأ ت کے معنی میں لیا ہے نہ کہ اس معنی میں کہ ایک کے بعد دوسرے کا آنا۔ انہوں نے شاہد سے مراد زبان رسول اللہ لی ہے۔ لیکن بہت سے اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے شاہد سے مراد سچے مومنین لئے ہیں اور سچے مومن کی تصویر علی علیہ السلام کو لیا ہے اور اس ضمن یں بڑی اہم روایات کو بیان کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک یہاں بیان کی جاتی ہیں:

(ا)۔ سیوطی نے کتاب جمع الجوامع اور تفسیر الدرالمنثور میں یہ روایت بیان کی ہے:

حَدَّثْنَا عبادُ بنُ عَبْدِاللّٰهِ الاَ سَدِی قال:سَمِعْتُ عَلِیَّ بنَ ابی طالبٍ وَهُوَ یَقُولُ:مٰا أَحَدٌ مِنْ قُرَیْشٍ اِلَّا وَقَدْ نَزَلَتْ فیهِ آیةٌ وآیتانِ فَقٰالَ لَهُ رَجُلٌ:وَمٰانَزَلَ فِیْکَ یٰااَمِیْرَالمومنینَ؟قٰالَ:فَغَضِبَ ثُمَّ قٰالَ: اَمٰاوَاللّٰهِ لَولَمْ یَسْأَلْنِیْ عَلٰی رُووسِ الْقَوْمِ مٰاحَدَّ ثْتُکَ،ثُمَّ قال:هَلْ تَقْرَأُ سورةَ هودٍ؟ ثُمَّ قَرَاءَ: ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) رسولُ اللّٰه عَلٰی بَینةٍ مِنْ رَبَّهِ وَاَنَاالشّٰاهِدُ مِنْهُ ۔

”عباد بن عبداللہ اسدی کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں کہ قریش کے سرداروں میں کوئی نہیں مگر اُس کے بارے میں ایک یا دو آیتیں نازل ہوئی ہوں۔ پس ایک شخص نے سوال کیا:یا امیر المومنین ! آپ کے بارے میں کونسی آیت نازل ہوئی ہے۔ آپ(اُس شخص کے جہل یا عداوت کی وجہ سے) غضبناک ہوئے اور کہا کہ اگر دوسرے لوگ موجود نہ ہوتے تو میں تمہارے سوال کا جواب نہ دیتا۔ اُس وقت آپ نے فرمایا : کیا تم نے سورئہ ہود پڑھی ہے؟ اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:

( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) ”اور فرمایا کہ پیغمبر روشن دلیل یعنی قرآن مجید (بَینَةٍ) رکھتے تھے اور میں گواہ تھا“۔

۴۲

(ب)۔ کچھ مفسرین اس روایت کو نقل کرتے ہیں:

عَنْ انس(فی قَولِه تعالٰی) ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُط“قَالَ هُوَرسولُ اللّٰهِ ”وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) قَالَ هُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب، کَانَ وَاللّٰهِ لِسَانَ رَسُولِ اللّٰهِ ۔

”انس بن مالک سے اس آیت کی تفسیر سے متعلق روایت کی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ آیت کے اس حصہ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه ) سے مراد پیغمبر اسلام کی ذات مبارک ہے اور( یَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) سے مرادعلی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ خدا کی قسم! یہ(علی کا نام)رسول اللہ کی زبان پر تھا“۔

(ج)۔ تفسیر برہان، جلد۲،صفحہ۲۱۳پر یہ روایت بیان کی گئی ہے:

امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس آیت میں ”شاہد“ سے مراد امیرالمومنین علی علیہ السلام ہیں اور اُن کے یکے بعد دیگرے جانشین ہیں۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی، کتاب جمع الجوامع، جلد۲،صفحہ۶۸،حدیث۴۰۷،۴۰۸ اور ج۳،ص۳۲۴۔

۲۔ حافظ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۴۲۰،حدیث۹۲۸۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب ۶۲،صفحہ۲۳۵۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، حدیث۳۸۶،جلد۱،صفحہ۲۷۷۔

۵۔ ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب امیرالمومنین ، حدیث۳۱۸،صفحہ۲۷۰۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۲۶،صفحہ۱۱۵۔

۷۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال، جلد۱،صفحہ۲۵۱،اشاعت اوّل۔

۸۔ طبری اپنی تفسیر میں جلد۱۵،صفحہ۲۷۲،شمارہ۱۸۰۴۸۔

۹۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں، جلد۲،صفحہ۲۳۹۔

۴۳

سولہویں آیت

علی صدیق اکبر اورشہید فی سبیل اللہ ہیں

( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ وَالشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَنُوْرُهُمْْ )

”اور جو لوگ اللہ پر اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی تو اپنے پروردگارکے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ اُن کا اجر اور اُن کا نور اُن ہی کیلئے ہوگا“(سورئہ حدید،آیت۱۹)

تشریح

اس میں کوئی شک نہیں کہ سچائی اور راست گوئی ایسی صفت ہے جو انسان کو اعلیٰ مقام تک پہنچادیتی ہے۔ ہمیں یہ صفت حضرت علی کے وجود پاک میں روز روشن کی طرح نظر آتی ہے۔

اگرچہ اہل سنت میں خلیفہ اوّل ہی صدیق کے طور پر مشہور ہیں لیکن بہت سی روایات جو اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں نقل کی ہیں، اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ صفت سچائی اور راست گوئی ہر لحاظ سے مکمل طور پر حضرت علی علیہ السلام کے وجود پاک میں نظر آتی ہے۔ چند روایات ذیل پرتوجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اِبْنِ عباس فِی قَوْلِه تعٰالٰی ( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ ) قال صدیقُ هَذِه الْاُمَّةِ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب هُوَ الصِّدِّ یقُ الْاَکْبَرُ وَالْفَارُوْقُ الْاَعْظَمُ

”ابن عباس سے روایت ہے کہ اس آیت شریفہ( وَالَّذیْ نَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّ یْ قُوْن ) کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ اس اُمت کے صدیق علی ابن ابی طالب ہیں۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام صدیق اکبر بھی ہیں اور فاروق(حق اور باطل کو جدا کرنے والا) اعظم بھی“۔

۴۴

(ب)۔عَنْ عبدالرحمٰنِ بن ابی لیلٰی عَنْ اَبِیْهِ قٰالَ رسولُاللّٰهِ اَلصِّدِّیْقُوْنَ ثَلاٰ ثَةٌ: حَبِیبُ النَّجَّارِ، مومِنُ آلِ یٰسِینَ وَحِزْبِیْلُ مُومِنُ آلِ فِرْعَوْنَ وَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطالِبٍ وَهُوَ اَفْضَلُهُمْ

”عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تین افراد صدیق ہیں اور وہ ہیں:حبیب نجار، مومن آل یاسین اور حزبیل مومن آل فرعون اور علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور علی علیہ السلام اُن سب سے افضل ہیں“۔

(ج)۔عَنْ عُبادِ بنِ عَبْداللّٰهِ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیّاً علیه السلام یقولُ: أَ نَا الصِّدِّیقُ الْاَکْبَرُ لَایقُولُهَا بَعْدِیْ اِلَّا کَذَّابٌ وَلَقَدْ صَلَّیْتُ قَبْلَ النَّاسِ سَبْعَ سِنِیْنَ ۔

”عباد بن عبداللہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں ہی صدیق اکبر ہوں اور میرے بعد کوئی بھی اپنے آپ کو صدیق اکبر نہیں کہلا سکتا لیکن سوائے جھوٹے اور کذاب کے اور میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی(یعنی سب سے پہلے خدا اور اُس کے رسول پر میں ایمان لایا)“۔

(د)۔ اسی طرح سب علمائے اہل سنت مثلاً حافظ ابی نعیم، ثعلبی، حافظ بن عساکر، سیوطی اور دوسرے بہت سے مفسرین سورئہ توبہ آیت۱۱۹( اِتَّقُوااللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْن ) میں ابن عباس اور دوسروں سے بھی روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ”الصادقین“ سے مراد علی ہیں ۔ روایت اس طرح سے ہے:

عَنْ ابنِ عباس فِی قوله تعٰالٰی ( اِتَّقُواللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ ) قَالَ نَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَامُ خٰاصَّةً“

”ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آیت صرف علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۲۸۲،حدیث۸۱۲،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین ، صفحہ۲۴۶،۲۴۷، حدیث۲۹۶۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۶اور باب۲۴،صفحہ۱۲۳۔

۴۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل۔

۴۵

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۴۲،صفحہ۱۴۶۔

۶۔ نسائی، کتاب خصائص امیرالمومنین ، حدیث۶،صفحہ۳۸۔

۷۔ سیوطی ،کتاب اللئالی المصنوعہ، باب فضائل علی ، جلد۱،صفحہ۱۶۰۔

۸۔ احمد بن حنبل، کتاب الفضائل، باب فضائل امیر المومنین ،حدیث۱۱۷،صفحہ۷۸۔

۹۔ حافظ المزی،کتاب تہذیب الکمال، ترجمہ العلاء بن صالح، جلد۴،صفحہ۱۹۳۔

سترہویں آیت

اللہ تعالیٰ نے علی کے وسیلہ سے پیغمبر کی مدد کی

( هُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْنَیٰٓاَ یُّهَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُومِنِیْنَ )

”وہ وہی ہے جس نے اپنی امداد سے اور مومنین کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی تھی۔

اے نبی! تمہارے لئے اللہ اور مومنین میں سے جو تمہارا اتباع کرتے ہیں، وہی کافی ہیں ہیں“۔(سورئہ انفال: آیات۶۲،۶۴)۔

تشریح

کچھ مفسرین نے ان آیات کے ضمن میں خصوصاً آیت :۶۴کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب یہودیوں کے قبائل بنی قریظہ اور بنی نضیر کے کچھ افراد پیغمبر اسلام کی خدمت میں مکروفریب سے حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ” اے پیغمبر خدا! ہم حاضر ہیں کہ آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی پیروی کریں اور مدد کریں“۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے کہہ رہا ہے کہ ہرگز کسی غیر پر اعتماد نہ کریں بلکہ اللہ اور وہ مومنین جو آپ کی اتباع کرتے ہیں، آپ کے لئے کافی ہیں، انہی پر اعتماد کریں(تفسیر تبیان، جلد۵،صفحہ۱۵۲)۔

۴۶

اہل سنت اور شیعہ علماء کی کثیر تعداد روایات لکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ ان دو آیتوں میں مومنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ اگرچہ دوسرے مومنین بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن ان آیتوں کے مصداق(پوری طرح آیت کے مطابق) علی ابن ابی طالبعلیہما السلام ہیں۔ پیغمبر اسلام نے ہمیشہ تمام مشکلات اور سخت حالات میں علی علیہ السلام کے وجود مقدس پر فخر کیا۔ ذیل میں لکھی گئی دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبِیْ هُریرةِ قَالَ: قال رسولُ اللّٰه رَأَیْتُ لَیْلَةً اُسْرِیَ بِی اِلَی السَّمٰاءِ عَلَی الْعَرْشِمَکْتُوْباً: لَااِلٰهَ اِلّٰا أَنَا وَحْدِیْ لَا شَرِیْکَ لِیْ وَمحمدًعَبْدِی وَرَسُوْلِی اَیَّدْتُهُ بِعَلیٍّ(قال)فَذٰلِکَ قَوْلُهُ ( هُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْن ) ۔

”ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ شب معراج میں نے دیکھا کہ عرش پر لکھا ہوا تھا :’میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں تنہا اور لاشریک ہوں اور محمد میرا بندہ اور میرا رسول ہے اور میں نے علی کے ذریعے سے اپنے رسول کی مدد کی ہے اور اس آیت شریفہ( هُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْنَ ) میں بھی اسی طرف اشارہ ہے“۔

(ب)۔ حافظ حسکانی جو اہل سنت کے نامور عالم ہیں، کتاب شواہد التنزیل میں روایت نقل کرتے ہیں جو معتبر اسناد کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے والد بزرگوارحضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔ انہوں نے اس آیت( یٰٓاَ یُّهَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُومِنِیْنَ ) کی تفسیرمیں فرمایا کہ یہ آیت علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے جو ہمیشہ رسول اللہ کے مددگار و حامی و ناصر رہے ہیں۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں حدیث۹۲۶، باب احوال امیرالمومنین ، ج۲،ص۴۱۹

۲۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۴۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۳،صفحہ۲۱۶،اشاعت دوم، صفحہ۱۹۹۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ۲۹۹،جلد۱،صفحہ۲۲۳اور اشاعت اوّل میں جلد۱،صفحہ۲۳۰،شمارہ۳۰۵۔

۴۷

۵۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، باب مناقب علی علیہ السلام، جلد۹،صفحہ۱۲۱۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۲۳،صفحہ۱۰۹ اور باب۲ص۲۱

۷۔ ذہبی، میزان الاعتدال، ج۱،ص۲۶۹،حدیث۱۰۰۶اور ص۵۳۰،ج۱،شمارہ۱۹۷۷۔

۸۔ المحب الطبری، کتاب ریاض النضرہ، جلد۲،صفحہ۱۷۲۔

۹۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال،جلد۶،صفحہ۱۵۸، اشاعت اوّل۔

اٹھارہویں آیت

حضرت علی کا بغض اور دشمنی شقاوت قلب، نفاق اور انسان کی بدبختی کا باعث ہے

( وَلَوْنَشَآءُ لَاَرَیْنَکَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِیْمٰهُمْوَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ )

”اور اگر ہم چاہیں تو ہم اُن لوگوں کو تمہیں دکھلا دیں پھر تم اُن لوگوں کو اُن کی علامتوں سے پہچان لو اور تم اُن کو اُن کی بات کے لہجے سے ضرور پہچان لوگے“۔(سورئہ محمد، آیت:۳۰)۔

تشریح

اس آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر اسلام کومنافقین کی اور شقاوت قلبی رکھنے والے انسانوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے :”اگر ہم چاہیں تو ہم تمہیں اُن کی شناخت کروادیں گے“ تاکہ صرف اُن کی چال ڈھال اور قیافہ دیکھنے سے ہی اُن کو پہچا ن لو۔ اس کے علاوہ اُن کے لہجہ و کلام سے بھی پہچان سکتے ہو کہ اُن کے ناپاک دلوں میں کیا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن کے بولنے کا انداز کیا تھا کہ پروردگار نے اُس کو منافقین کے پہچاننے کا ایک اہم طریقہ بتایا۔اس ضمن میں اہل سنت اور شیعہ علماء نے جو روایات بیان کی ہیں، اُن پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ منافقین کے دلوں میں حضرت علی علیہ السلام کیلئے شدید دشمنی اور کینہ پایا جاتا تھا۔

۴۸

البتہ وہ اپنی اس دشمنی اور کینہ کو رسول اللہ کی زندگی میں واضح طور پر ظاہر نہیں کرتے تھے۔ شاید وہ اس میں اپنی بھلائی اور فائدہ نہیں دیکھتے تھے ۔ اس لئے وہ موقع بہ موقع رسول اللہ اور مسلمانوں کے پاس آکر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بدگوئی کرتے تھے اور تنقید کرتے تھے۔ اُن کی اس چال کا مقصد صرف حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کے درمیان کمزور کرنا اور اُن کی محبوبیت کو کم کرنا تھا۔

لیکن خدائے بزرگ نے یہ آیت نازل کرکے اُن کے مکروفریب کو باطل کردیا اور اُن کے ناپاک چہروں کو سب کے سامنے آشکار کردیا۔ اس ضمن میں دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبی سعیدُالخَدْری فِی قوله عزوجل”وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ“ قال بِبُغْضِهِمْ عَلَیّاً عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ اس آیت’( وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ ) کی تفسیر میں فرمایاکہ یہ علی کی دشمنی اور بغض کی وجہ سے ہے(یعنی دشمنی علی اُن کی زبان سے ظاہر ہوجاتی ہے)“۔

(ب)۔ درج ذیل روایت کو اکثر مفسرین نے اس آیت کی بحث کے دوران ذکر کیا ہے اور رسول اکرم کے خاص صحابہ کی زبان سے بیان کی گئی ہے جیسے ابی سعید اور دوسروں نے نقل کیا ہے:

کُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِیْنَ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ بِبُغْضِهِمْ عَلِیّاً ۔

”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو اُن کی علی علیہ السلام سے دشمنی کے سبب پہچانتے تھے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۱۷۸،حدیث۸۸۳،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،ج۲، ص۴۲۱،حدیث۹۲۹،باب احوال علی ،اشاعت۲

۳۔ گنجی شافعی،کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۵۔

۴۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیرالمومنین ، حدیث۳۵۹،۳۶۲،صفحہ۳۱۵۔

۵۔ سیوطی، تفسیر المدرالمنثور، جلد۶،صفحہ۷۴اورتاریخ الخلفاء،صفحہ۱۷۰۔

۴۹

۶۔ ابن عمر یوسف بن عبداللہ، کتاب استیعاب، جلد۳،صفحہ۱۱۰۔

۷۔ بلاذری، انساب الاشراف، جلد۲،صفحہ۹۶،حدیث۱۹،اشاعت اوّل از بیروت۔

۸۔ متقی ہندی کنزالعمال، جلد۱،صفحہ۲۵۱،اشاعت اوّل اور اسی طرح احمد بن حنبل ۔

کتاب فضائل میں اور ابن اثیر کتاب جامع الاصول میں، طبری کتاب ریاض النضرہ میں اور بہت سے دوسرے۔

اُنیسویں آیت

علی صالح المو منین ہیں

( وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ )

”اور اگر تم دونوں ہمارے رسول کے برخلاف ایک دوسرے کے پشت و پناہ بنو تو اللہ ، جبرئیل اور صالح مومنین اُس کے مددگار ہیں“۔(سورئہ تحریم:آیت۴)

تشریح

یہ نکتہ توجہ طلب ہے کہ اگرچہ کلمہ”صالح المومنین“ اپنے اندر وسیع تر معنی رکھتا ہے اور تمام صالح مومنین اور پرہیز گار اس میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن مومن کامل اور اکمل ترین انسان کون ہے؟اس کے لئے ہمیں روایات سے مدد لینا ہوگی اور روایات کو دیکھنا ہوگا۔ تحقیق کرنے پر بڑی آسانی سے ہم منزل تک پہنچ جائیں گے ۔ شیعہ علماء سے منقول روایات کے علاوہ اہل سنت نے بھی بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ ان سب سے یہی پتہ چلتا ہے کہ متذکرہ بالا آیت میں صالح مومنین سے مراد ذات مقدس امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ یہاں ہم چند ایک روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

(ا)۔عَنْ اَسماءِ بنتِ عُمَیس قٰالَتْ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ یَقْرَأُ هٰذِهِ الآیَة:وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ، قَالَ صَالِحُ المُومِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْطَالِب ۔

۵۰

”اسماء بنت عمیس روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے پیغمبر اسلام سے یہ آیت سنی( وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلٰهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ ) آیت پڑھنے کے بعد پیغمبر خدا نے فرمایا کہ صالح المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں“۔

(ب)۔عَنْ السُّدی عَن ابنِ عَبَّاس، فِی قَولِه عَزَّوَجَلَّ’وَصَالِحُ المُومِنِیْنَ قَالَ:هُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِب ۔

”سدی، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کہ جس میں صالح المومنین کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

(ج)۔عَنْ مُجٰاهِد فی قَولِهِ تَعٰالٰی:”وَصَالِحُ المُومِنِیْنَ“ قَالَ: صَالِحُ المُومِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِب ۔

”مجاہد سے روایت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس کلام میں جہاں صالح المومنین کا تذکرہ ہے، وہاں صالح المومنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۹۸۴ اور ۹۸۵،جلد۲،صفحہ۲۵۷۔

۲۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، باب۶۷،جلد۱،صفحہ۳۶۳۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۲۴۴اور اشاعت دیگر صفحہ۲۶۹،۲۷۰۔

۴۔ ابن مغازلی، مناقب امیر المومنین میں، حدیث۳۱۶،صفحہ۲۶۹،اشاعت اوّل۔

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایت الطالب میں، باب۳۰،صفحہ۱۳۷۔

۶۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال میں،حدیث لا شی، جلد۱،صفحہ۲۳۷، اشاعت اوّل۔

۷۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۴۲۵، اشاعت دوم، حدیث۹۳۲،۹۳۳۔

۸۔ ابن حجر فتح الباری میں، جلد۱۳،صفحہ۲۷۔

۵۱

بیسویں آیت

قیامت کے دن لوگوں سے ولایت علی کے بارے میں سوال کیا جائے گا

( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ )

”اور ان کو ٹھہرا ؤ کہ ابھی ان سے سوالات کئے جائیں گے“۔(سورئہ صافات:آیت۲۴)

تشریح

سورئہ مبارکہ صافات کے ایک حصہ میں جہاں پروردگار قیامت اور اس کے متعلقہ مسائل اور عذاب عظیم جو مشرکین اور گمراہوں کے انتظار میں ہے، کے بارے میں بیان فرماتا ہے، اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) سے اپنے تمام فرشتوں اور ملائکہ کو اُس دن دوسرے احکام کے ساتھ یہ اہم حکم دے گا اور وہ حکم یہ ہوگا کہ اے میرے فرشتو ! ان کو روک لو ، ابھی ان سے سوال کیا جائیگا۔

لوگوں کے اس سوال پر کہ قیامت والے دن اس آیت کے مطابق کونسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے مختلف جواب دئیے ہیں۔ کچھ نے کہا ہے کہ توحید کے بارے میں سوال کیا جائے گا، کچھ نے کہا ہے کہ اُس دن لوگوں سے بدعتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو وہ دنیا میں چھوڑ گئے، کچھ اوروں نے مختلف دیگر چیزوں کا ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ جوابات آیت کے مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اہل سنت اور شیعہ کتب میں بہت سی روایات موجود ہیں جن کے مطابق باقی اہم سوالوں کے علاوہ جو مجرموں سے پوچھے جائیں گے، ولایت علی ابن ابی طالب کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔ اس مطلب کی وضاحت کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبِیْ سعید خدری، عَنْ النبی فی قوله تعالٰی ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) قال: عَنْ وِلَایَةَ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِب ۔

”ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) ک ی تفسیر میں فرمایا کہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

۵۲

(ب)۔وَرَوِیٰ اَبُوالْاَحْوَضِ عَنْ أَبی اسحٰاقِ فی قولِهِ تعٰالٰی: ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) قَالَ یَعنی مِنْ وِلَایَةِ عَلِیِّ ابنِ اَبِی طَالِب اِنَّهُ لَا یَجُوْزُ اَحَدُالصِّرَاطَ اِلَّا وَبِیَدِهِ بَرَاةً بِوِلَایةِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب ۔

”ابو احوض، ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس آیہ شریفہ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) کی تفسیر میں کہا کہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائیگااور مزید کہا:”اِنَّهُ لَا یَجُوْزُ اَحَدُالصِّرَاطَ اِلَّا وَبِیَدِهِ بَرَاةً بِوِلَایَةِ عَلِی“ ’ کسی کو پل صراط سے گزرنے کا حق حاصل نہ ہوگا مگر وہ جس کے ہاتھ میں ولایت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کا پروانہ ہوگا‘۔

(ج)۔عَنْ اِبْنِ عباس فِی قولِه عَزَّوَجَلَّ ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْن ) قَالَ:عَنْ وِلَایةِ علی ابنِ ابی طالب ۔

”ابن عباس سے اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْن ) کي باري م یں روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب۴،جلد۱،صفحہ۷۹۔

۲۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ۷۸۷،جلد۲،صفحہ۱۰۶،اشاعت اوّل۔

۳۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال، باب حال علی بن حاتم، ج۳،ص۱۱۸،شمارہ۵۸۰۲۔

۴۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۴۷۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۳۷،صفحہ۱۳۳اور اسی کتاب میں

باب مناقب ،صفحہ۲۸۲،حدیث۵۱۔

۶۔ خوارزمی، کتاب مناقب، باب۱۷،صفحہ۱۹۵۔

۷۔ ہیثمی، کتاب صواعق المحرقہ، صفحہ۸۹اور کتاب لسان المیزان،جلد۴،صفحہ۲۱۱۔

۸۔ ابن جوزی، کتاب تذکرة الخواص، باب دوم، صفحہ۲۱۔

۵۳

اکیسویں آیت

اللہ تعالیٰ نے جنگوں اور مشکلات میں مسلمانوں کی مدد علی کے وسیلہ سے کی

( وَرَدَّاللّٰهُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْابِغَیْظِهِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًاوَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَالَوَکَانَ اللّٰهُ قَوِیًّا عَزِیْزًا )

”اور اُن لوگوں کو جو کافر ہوگئے تھے، اللہ نے اُن کے غصے ہی کی حالت میں لوٹا دیا کہ وہ کسی مراد کو نہ پہنچیں اور اللہ نے مومنوں پر لڑائی کی نوبت ہی نہ آنے دی اور اللہ صاحب قوت اور صاحب غلبہ ہے“۔(سورئہ احزاب: آیت۲۵)۔

تشریح

یہ آیت سورئہ احزاب سے ہے جس کی کچھ دوسری آیتیں جنگ خندق(جنگ احزاب) کے متعلق ہیں۔ جنگ خندق ایسی جنگ ہوئی ہے جس میں مسلمانوں کو کامیابی معجزانہ طور پر نصیب ہوئی اور بغیر کسی وسیع قتل و غارت کے کفار شکست خوردہ اور مایوس ہوکر مدینہ کے محاصرے کو توڑ کر ناکام واپس اپنے علاقوں کی طرف چلے گئے۔اس میں مدد غیبی کی ایک شکل تو قدرت کی طرف سے زبردست طوفان اور سخت ترین سرد ہوائیں چلیں جس نے کفار کے حوصلے پست کردئیے ۔ اُن کے دلوں میں خدائی طاقت کا رعب اور ڈر بیٹھ گیا اور دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام نے اُن کے طاقتور ترین پہلوان اور جنگجو یعنی عمر بن عبدود پر وہ کاری ضرب لگائی کہ وہ نیست و نابود ہوگیا۔ اس سے کفار کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا اور وہ مایوسی میں تبدیل ہوگئیں۔ کفارکے بڑے بڑے سرداروں کے حوصلے پست ہوگئے۔

اس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کی فداکاری اور کارکردگی اتنی اہمیت کی حامل تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:

”لَمُبارِزَةُ عَلِی ابنِ ابی طالب لِعُمروبنِ عَبدُوَدیَومَ الْخَنْدَقِاَفْضَلُ مِنْ اَعْمٰالِ اُمَّتِیْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰامَةِ“

”حضرت علی علیہ السلام کی جنگ خندق میں ایک ضربت میری تمام اُمت کی قیامت تک کی عبادت سے افضل ہے“۔

حاکم، کتاب المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۳۲۔

شیخ سلیمان قندوزی، ینابیع المودة، باب۲۳،صفحہ۱۰۹اور باب۴۶،ص۱۶۱اوربہت سے دوسرے۔

۵۴

اب اس آیت کی تفسیر میں چند ایک روایات بیان کی جارہی ہیں جو توجہ طلب ہیں:

(ا)۔عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ اِنّه کَانَ یَقْرَاُ هٰذِهِ الآیة”وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَالَ“ بِعَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”عبداللہ بن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ وہ یہ آیت

( وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال )

تلاوت فرمارہے تھے اور اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام کی ذات مقدس کو لے رہے تھے“۔

(ب)۔عَنْ عبداللّٰهِ بن مسعود قَالَ: لَمَّا قَتَلَ عَلِیٌّ عمروبن عَبْدُوَدْ یَوْمَ الْخَنْدَقِ، اَنْزَلَ اللّٰهُ تعالٰی:”وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال“بِعَلِیٌّ ۔

”عبداللہ بن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے جنگ خندق میں عمربن عبدود کو ہلاک کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت

( وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال )

حضرت علی علیہ السلام (کے عمل) کی خاطر نازل فرمائی“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی کتاب شواہد التنزیل میں، شمارہ۶۲۹،جلد۲،صفحہ۳۔

۲۔ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، باب حال امیرالمومنین ، شمارہ۹۲۷،جلد۲،صفحہ۴۲۰،

اشاعت دوم(شرح محمودی)۔

۳ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، شمارہ۴۱۴۹،جلد۲،صفحہ۳۸۰۔

۴۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۴۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب۲۳،صفحہ۱۰۸اور باب۴۶،ص۱۶۱۔

۶۔ سیوطی تفسیر الدالمنثور میں، جلد۵،صفحہ۲۰۹۔

۵۵

بائیسویں آیت

علی اورفاطمہ علم و معرفت کے دریائے بیکراں ہیںاور حسن و حسین اُن کے انتہائی قیمتی موتی ہیں

( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِبَیْنَهُمَابَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِفَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَآ تُکَذِّبٰنِیَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلو وَالْمَرْجَانُ )

”اُس نے دودریا بہادئیے، وہ باہم ملتے ہیں اور اُن دونوں کے مابین پردہ ہے کہ ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کرسکتا۔پھر تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ اُن دونوں سے موتی اور مونگا برآمد ہوتے ہیں“۔(سورئہ رحمٰن:آیات۱۹تا۲۱)۔

تشریح

وہ افراد جو قرآن اور علوم قرآن سے واقف ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کتاب آسمانی اپنے اندر معنی کا سمندر رکھتی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک آیت بعض اوقات چند معنی رکھتی ہو اور بعض اوقات بیسیوں معنی رکھتی ہو جبکہ اُن کا ہر معنی اپنی جگہ قابل توجہ اور اہمیت کا حامل ہو اور وہ ایک دوسرے سے ٹکراؤ بھی نہ رکھتے ہوں۔مثال کے طور پر یہ چند آیات جو سورئہ رحمٰن سے ہیں اوراوپر بیان کی گئی ہیں، اس طرح کی آیات ہیں جن کے مختلف معنی نکل سکتے ہیں۔

وہ لوگ جو ان آیات کو ظاہری اعتبار سے دیکھتے ہیں تو اُن کے اذہان میں یہی معنی آتے ہیں کہ کرئہ ارض کے بڑے بڑے دریا اور سمندر جو اس کے تین چوتھائی حصے پر پھیلے ہوئے ہیں اور اُن کے اندر بڑے بڑے قیمتی گوہر اور معدنیات موجود ہیں، یہ خدائے بزرگ کی طرف سے عظیم نعمتیں ہیں۔ یہ سب ،انسان کو غوروفکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ دیکھیں کہ خدا نے انسان کیلئے کس طرح یہ دریااور سمندر پھیلائے اور اُن میں بیش بہا نعمتیں پیدا کیں۔ لیکن ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ ان آیات کے دوسرے مطالب ہیں جو مقصود خالق ہیں۔

۵۶

روایات اور اطلاعات جو اسلامی تاریخ میں موجود ہیں، اُن کو بغور دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان آیات سے دو عظیم ہستیوں کا تعارف کروانا مقصود ہے۔ وہ ہستیاں جو علم و معرفت اور کمال کے دریائے بیکراں ہیں اور ان سے ملنے والے دو قیمتی موتی حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ہیں۔توضیح کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں:

عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰه عنه فی قوله تعالٰی ( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن ) قال:علی و فاطمه ،( بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ ) اَلنّبی،( یَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلو وَالْمَرْجَانُ ) قال:اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْن علیهماالسلام ۔

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ تفسیر( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن ) سے مراد علی علیہ السلام اور فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں۔”بَیْ نَھُمَابَرْزَخٌ لَّایَبْغِ یٰن“ سے مراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے(پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات جناب علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے درمیان وہ واسطہ ہے جس سے یہ صحیح بندگی خدا اور اُس کی عبودیت کے لئے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح اُن کی ذات گرامی سے خود بھی فیض یاب ہوتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے بطور نمونہ اُن کی رہنمائی اور ہدایت کا باعث بنتے ہیں)۔( یَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلووَالْمَرْجَانُ ) سے مراد امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام ہیں۔

یہ قابل توجہ بات ہے کہ درج بالا روایت کو علمائے اہل سنت نے دوسرے صحابہ سے بھی نقل کیا ہے اور شیعہ علماء نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے اور یہ روایت بجائے خود بہت اہمیت کی حامل ہے۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۱۵۸اور دوسری اشاعت میں ج۶،ص۱۴۲

۲۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل ، حدیث۹۱۹،ج۲،ص۲۰۹،اشاعت اوّل،ج۲،

صفحہ۲۱۲،اشاعت دوم۔

۳۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین ، صفحہ۳۳۹،حدیث ۳۹۰۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۳۹،صفحہ۱۳۸۔

۵۷

۵۔ ثعلبی، تفسیر ثعلبی میں جلد۴،صفحہ۲۸۹۔

۶۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب ”مانزل من القرآن فی علی “،اس آیت کی تشریح میں۔

۷۔ شبلنجی، کتاب نورابصار میں، صفحہ۱۰۱۔

۸۔ خوارزمی، کتاب مقتل الحسین ، صفحہ۱۱۲۔

۹۔ کراجکی، کتاب کنزالفوائد میں، صفحہ۳۶۶۔

تئیسویں آیت

علی اور اہل بیت سے محبت نیکی ہے اور ان سے بغض گناہ ہے

( مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرٌ مِّنْهَا وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍاٰمِنُوْنَ وَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعَْمَلُوْنَ )

”جو شخص کوئی نیکی لے کر آئے گا پس اُس کیلئے اس کا عوض اس سے بہتر موجود ہے اور وہ اُس دن خوف سے امن میں ہوں گے اور جو بدی لے کر آئے گا وہ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے، جو کچھ تم کرتے تھے، اُسی کا بدلہ تمہیں ملے گا“(سورئہ نمل:آیت۸۹اور۹۰)

تشریح

اس آیت میں دو الفاظ یعنی”حَسَنَةِ“ اور”سَيِّئَةِ“ استعمال ہوئے ہیں۔آیت کا اصلی مقصد بھی انہی کو سمجھانا ہے کہ نیکی اور بدی اصل میں کہتے کسے ہیں کیونکہ اس کا انسان کی مادّی اور روحانی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

”حَسَنَةِ“ اور”سَيِّئَةِ“ ، یہ دوالفاظ اس آیت میں اور قرآن کی دیگر آیات میں استعمال ہوئے ہیں۔ان الفاظ کے مفہوم اور معنی نہایت وسیع ہیں مثلاً”حَسَنَةِ“ میں تمام نیک اور پسندیدہ اعمال شامل ہیں اور ان میں سرفہرست خدا پر ایمان، اُس کے پیغمبر پر ایمان اور حضرت علی علیہ السلام اور آئمہ علیہم السلام کی ولایت پر ایمان ہے اور”سَيِّئَةِ“ میں تمام قبیح اور ناپسندیدہ اعمال شامل ہیں جو انسان کو خدا اور اُس کے رسول

۵۸

اور اُس کے اولیائے حق کے خلاف سرکشی پر ابھارتے ہیں اور یہ ”حَسَنَة“کی مکمل ضد ہے۔ لیکن ان کلمات کی تفاسیر اور تعابیر جو ہم تک آئمہ معصومین کے ذریعے سے پہنچی ہیں اور جسے بہت سے علمائے اہل سنت اور شیعہ نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے، کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ”حَسَنَة“ سے مراد قبول ولایت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور اُن کی اولاد ہیں اور ”سَےئَة“ سے مرادعدم قبول ولایت علی اور اولاد علی ہے۔درج ذیل روایت میں اسی بات کی تفسیر ہے:

عَنْ ابی عبدِاللّٰهِ الجَدَلِی قال: قٰال لی علی علیه السلام:اَلٰا اُنَبِّئُکَ بِالْحَسَنَةِ الَّتِی مَنْ جٰاءَ بِهٰااَدْخَلَهُ اللّٰهُ الجَنَّةَ وَبِالسَّيّئَةِ الَّتِی مَنْ جٰاءَ بِهٰااَکَبَّهُ اللّٰهُ فِی النّٰارِوَلَمْ یُقْبَلُ لَه عَمَلاً؟ قُلْتُ بلٰی ثُمَّ قَرَأَ(امیرالمومنین) مَنْ جٰاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرُ مِنْهٰاوَهُمْ مِنْ فَزَعِ یَومَئِذٍآمِنُوْنَ وَمَنْ جٰاءَ بالسَّيّئَةِ فَکُبَّتْ وَجُوْهَهُمْ فِی النَّارِهَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ثُمَّ قٰالَ: یٰا أَبٰاعَبْدِاللّٰهِ، اَلْحَسَنَةُ حُبُّنٰاوَالسَّيِّئَةُ بُغْضُنَا

”ابو عبداللہ جدلی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:’کیا میں تجھے اُس نیک عمل کی خبر نہ دوں کہ جو کوئی اُس کو انجام دے گا، پروردگار اُس کو بہشت میں داخل کرے گا اور کیا تجھے اُس بدعمل کی خبر نہ دوں کہ اُسے جو کوئی انجام دے گا، پروردگار اُسے جہنم میں پھینکے گااور اُس کاکوئی دوسراعمل بھی قبول نہ ہوگا‘۔

میں نے عرض کی:’ہاں مولا! میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اس سے باخبرکریں‘۔ حضرت علی علیہ السلام نے پھر یہ آیت پڑھی:

مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرٌ مِّنْهَا وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍاٰمِنُوْنَوَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِهَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلَُوْنَ

پھر فرمایاحَسَنَةہم اہل بیت سے محبت ہے اورسَےئَة اہل بیت سے بغض و دشمنی ہے۔اسی طرح بعض دوسری روایات میں آیاہے کہ آپ نے اس بارے میں فرمایا:

”اَلْحَسَنَةُ مَعْرِفَةُ الْوِلَایَةِ وَحُبُّنٰا اَهْلِ الْبَیْتِ وَالسِّيِّئَةُ اِنْکَارُ الْوِلَایَةِ وَبُغْضُنَا اَهْلَ الْبَیْتِ“ ۔

”حَسَنَة یعنی معرفت ولایت علی علیہ السلام اورہم اہل بیت سے محبت ہے اور سَّےئَة یعنی انکار ولایت علی علیہ السلام اور ہم اہل بیت سے بغض و دشمنی ہے“۔

۵۹

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب۶۱،جلد۲،صفحہ۲۹۹۔

۲۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۵۸۲،۵۸۷،ج۱،ص۴۲۶،۴۲۸

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۲۴،صفحہ۱۱۳۔

۴۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں، جلد۲۔

۵۔ الحنینی کتاب خصائص الوحی المبین، صفحہ۱۲۸۔

۶۔ رشید الدین، مناقب آل علی ، جلد۲،صفحہ۲۲۵،عنوان درجات علی عند قیام الساعة۔

چوبیسویں آیت

اللہ تعالیٰ علی کے وسیلہ سے کفارو مشرکین سے انتقام لیتا ہے

( فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ )

”پس اگر تم کو ہم لے جائیں گے تو ہم اُن سے بھی ضرور ہی بدلہ لینے والے ہیں“۔

(سورئہ زخرف:آیت۴۱)۔

تشریح

سورئہ مبارکہ زخرف میں اللہ تعالیٰ کفار کی حرکتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے پیغمبر کی تسلی اور سکون کی خاطر فرمارہا ہے کہ کفار کی چالوں کی وجہ سے اسلام کے مستقبل کے بارے میں بالکل پریشان نہ ہوں کیونکہ اگر وہ کفر، ظلم اور انتقام جوئی کو ترک نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ بھی یقینا اُن سے انتقام لے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بشری زندگی کے مختلف زمانوں میں اپنے قابل دید اور ناقابل دید لشکروں سے کفار، منافق اور مشرکوں سے انتقام لیتا رہا ہے اور اُن کوسزائیں دیتا رہا ہے اور یہ عمل اُس کیلئے کوئی مشکل نہیں کیونکہ اُس کی ذات

( فَعَّالٌ لِمٰا یُرِیْد )

”وہ جو چاہتا ہے ، کرتا ہے“۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

اور تمہیں گھر کے اندر قتل کردیں گے۔(۱)

بنی امیہ جو عثمان کے مزاج سے واقف تھے انہوں نے شوریٰ کی طرف سے منتخب ہونے کے بعد ان کو اپنے حصار میں لے لیا اور زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ اسلامی منصب اور مقام ان کے درمیان تقسیم ہوگیا اور ان لوگوںکی جرأت اس حدتک بڑھ گئی کہ ابو سفیان قبرستان احد گیااور پیغمبر اسلام کے چچا جناب حمزہ کی قبر پر جو ابو سفیان سے جنگ کرتے وقت شہید ہوئے تھے ،ٹھوکرمار کر کہا'' ابو یعلی ،اٹھو اور دیکھو کہ جس چیز کے لئے تم نے ہم سے جنگ کی تھی اب وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے''۔

خلیفہ سوم کی خلافت کے ابتدائی دنوں میں بنی امیہ کے افرادایک جگہ پر جمع ہوئے ابو سفیان ان کی طرف متوجہ ہوا اور کہا:

اس وقت جب کہ خلافت قبیلہ تیم اور عدی ۔کے بعد تمہارے ہاتھوں تک پہونچی ہے ہوشیار رہو کہ خلافت تمہارے خاندان سے باہر نہ جائے ،اور اسے ایک کے بعددوسرے تک پہونچاتے رہو کیونکہ خلافت کا مقصد حکومت اور رہبری کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور جنت و جہنم کا وجود نہیں ہے۔(۲)

ابوسفیان کی اس بات نے خلیفہ کی شخصیت کو سخت مجروح کیا، جو لوگ وہاں پر حاضر تھے انہوں نے

اس کو چھپانے کی پوری کوشش کی لیکن آخر کار حقیقت نے اپنا کام کر دیکھایا۔مسلمانوں کے خلیفہ کے لئے سزاوار یہ تھاکہ وہ ابو سفیان کی خبر لیتے اور مرتد کی حد اس پر جاری کرتے .لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انہوں نے نہ یہ کہ ایسا نہیں کیا بلکہ اکثر ابو سفیان پر لطف ِ کرم کی بارش کی اور بہت زیادہ مال غنیمت بطور تحفہ بھیجا رہا۔

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۱۸۷۱

(۲)الاستیعاب ج۲ص۶۹۰

۳۰۱

بغاوت کی علت

خلیفہ دوم نے جس شوریٰ کا انتخاب کیا تھا اس شوری کے ذریعے ۳ محرم ۲۴ھ کو عثمان منصب خلافت کے لئے منتخب ہوگئے اور ۱۲سال حکومت کرنے کے بعد ۱۸ذی الحجہ ۳۵ھ کو مصر اور عراق کے انقلابیوں اورمہاجروانصار کے بعض گروہ کے ہاتھوں قتل ہوے ،اسلام کے معتبر مورخین نے عثمان کے قتل ہونے اور مسلمانوں کے بغاوت کی علت کو اپنی اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے، اگر چہ بعض مئورخین نے، مقام خلافت کے احترام میں ان واقعات کے رونما ہونے کی علت کی وضاحت کرنے سے پرہیز کیاہے، درج ذیل وجہوں کو بغاوت کی بنیاد اور مسلمانوں کے بعض خطرناک گروہوں کے حملہ کرنے کی علت کہا جا سکتا ہے ۔

۱۔حدود الہی کا جاری نہ ہونا

۲۔بنی امیہ کے درمیان بیت ا لمال کا تقسیم ہونا۔

۳۔اموی حکومت کی تشکیل اور اسلامی منصبوں پرغیر شائستہ افراد کا تقرر۔

۴۔پیغمبر اسلام کے بعض صحابہ کو مصیبت و تکلیف دینا جو خلیفہ اور ان کے دوستوں پر تنقید کرتے تھے۔

۵۔پیغمبر کے بعض صحابیوں کوشہربدر کرنا جو خلیفہ کی نظر میں ان کے لئے مضرتھے ۔

پہلی وجہ ۔حدود الہی کا جاری نہ ہونا

۱۔خلیفہ نے اپنے مادری بھائی ولید بن عتبہ کو کوفہ کا گورنر معین کیا وہ ایسا شخص تھا جس کے بارے میں قرآن مجید نے دو جگہوں پر اس کے فسق وفجور اور اسلامی احکام سے سرکشی وبغاوت کا تذکرہ کیاہے۔(۱)

______________________

(۱)شرح ابن ابی الحدید ج۲قدیم ایڈیشن ص۱۰۳،

۳۰۲

آیت :( َاَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا ِنْ جَائَکُمْ فَاسِق بِنَبٍَ فَتَبَیَّنُوا ) ( حجرات۶)وآیت( َفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لاَیَسْتَوُونَ ) (سجدہ۱۸)تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ دونوں آیتیں اسی کے بارے میںنازل ہوئی ہیں.اور دوسری آیت نازل ہونے کے بعد حسان بن ثابت نے یہ اشعار کہا۔

انزل الله فی الکتاب العزیر

فی علی وفی الولید قرآنا

فتبینواالولید اذذاک فاسقاً

وعلی مبوء صدق ایمانا

فا سق کی نگاہ میں جو چیز قابل اہمیت نہیں ہے وہ حدود الہی اور اعلی مقام و منصب کی رعایت نہ کر نا ہے اس زمانے کے حاکم سیاسی امور کی دیکھ بھال کے علاوہ جمعہ وجماعت کی نمازبھی پڑھاتے تھے، یہ نالائق حاکم (ولید) نے نشے کی حالت میںنماز صبح کو چاررکعت پڑھا دیا ،اور محراب تک کو نجس کر دیا وہ نشے میں اتنا مد ہوش تھا کہ لوگوں نے اس کے ہاتھ سے انگو ٹھی اتار لی اور اسے احساس تک نہ ہوا۔

کوفہ کے لوگ شکایت کرنے کے لئے مدینہ روانہ ہوئے اور اس واقعہ کی تفصیل خلیفہ کے سامنے پیش کی لیکن افسوس کہ خلیفہ نے نہ یہ کہ صرف ان کی شکایت نہ سنی بلکہ ان لوگوں کو دھمکی بھی دی اور کہا : کیاتم نے دیکھا ہے کہ میرے بھائی نے شراب پیا ہے ؟ ان لوگوںنے جواب دیا .ہم نے اس کو شراب پیتے ہوئے تو نہیں دیکھا لیکن اسے مستی کے عالم میں دیکھاہے اور اس کے ہاتھوں سے انگوٹھی اتار لی مگر وہ متوجہ نہیں ہوااس واقعہ کے گواہ کچھ مومن وغیور افراد بھی تھے ان لوگوں نے حضرت علی اور عائشہ کو اس واقعہ سے آگاہ کیا ۔ عائشہ جو عثمان سے سخت ناراض تھیں ، انہوں نے کہا عثمان نے خدا کے احکام کو ترک کر دیا ہے اور گواہوں کو دھمکی دی ہے ۔

امیر المومنین نے عثمان سے ملاقات کی اور خلیفہ دوم کی وہ بات جوانہوں نے شوری کے دن ان کے بارے میں کہی تھی انہیں یاد دلایا اور کہا ،بنی امیہ کے بیٹوں کو لوگوں پر مسلط نہ کرو اور تمہارے لئے ضروری ہے کہ ولید کوگورنری کے منصب سے معزول کردو اور اس پر حد الہی جاری کرو،

۳۰۳

طلحہ اور زبیرہ نے بھی ولید کے منتخب ہونے پر اعتراض کیا اور خلیفہ سے کہا کہ اس کو تازیانہ لگایا جائے خلیفہ نے تمام لوگوں کی باتوں سے مجبور ہو کر سعیدبن العاص کو جو بنی امیہ کے شجرئہ خبیثہ سے تھا کوفہ کی گورنری کے لئے منتخب کیا ،جب وہ کوفہ میں داخل ہوا تواس نے محراب ومنبر اور دارالامامہ کو پاک کرایا اور ولید کو مدینہ بھیج دیا ۔صرف ولید کو معزول کرنے سے ہی لوگ راضی نہ ہوئے بلکہ لوگوںکایہ کہنا تھا کہ خلیفہ کو چاہئیے کہ جو سزا اسلام نے شراب پینے والے کے لئے معین کی ہے اپنے بھائی پروہ جاری کریں ،عثمان چونکہ اپنے بھائی کو بہت چاہتے تھے لہٰذا اسنہوںنے اُسے قیمتی لباس پہنایا اور اسے ایک کمرے میں بیٹھا دیا تا کہ مسلمانوں میں کوئی ایک شخص اس پر حد الہی جاری کرے ،جو لوگ مائل تھے کہ اس پر حد جاری کریں ولید نے انھیں دھمکی دی تھی بالآخر امام علی نے تازیانہ اپنے ہاتھ میں لیا اور بغیر تاخیر کے اس پر حد جاری کی اور اس کی دھمکی اور ناراضگی کی کوئی پروا ہ نہ کی۔(۱)

۲۔ انسان کی اجتماعی زندگی کا ایک رکن عادلانہ قانون کی حکومت ہے تا کہ معاشرے کے تمام لوگوں کی جان ومال وعزت و آبرو کی حفاظت ہو سکے،اور اس سے بھی زیا دہ اہم قانون کا جاری کرنا ہے اور قانون گزار ، قانون کو جاری کرتے وقت دوست ودشمن اور اپنے اورپرائے کو نہ دیکھے اس صورت میں قانون عملی جامہ پہنے گا اور پورے طور پر عدالت سامنے آئے گی۔

الہی نمائندوں نے خدا کے قوانین کو بغیر کسی ڈرا ورخوف کے جاری کیا اور کبھی بھی انسانی الفت ومحبت ، رشتہ داری ، مادی منفعت سے متأ ثر نہیں ہوئے ،پیغمبر اسلام نے خود اسلامی قانون کوسب سے پہلے جاری کیا،اور اس آیت کے واضح وروشن مصداق تھے( وَلَا یَخَافُوْنَ لَومَةلَائِمٍ ) (۲) فاطمہ مخزومی جس نے چوری کی تھی اسکے بارے میں آپ کا ایک چھوٹا جملہآپ کی اجتماع عدالت پر واضع و روشن دلیل ہے۔فاطمہ مخزومی ایک مشہور ومعروف عورت تھی جس کی چوری پیغمبر کے سامنے ثابت ہو گئی تھی اور یہ طے پایا کہ عدالت کا حکم اس پر جاری ہو ،ایک گروہ نے اس پر قانون نہ جاری کرنے کی کوشش کی اور اسامہ بن زید کو پیغمبر کے پاس بھیجا تا کہ اس مشہور ومعروف عورت کا ہاتھ کا ٹنے سے پیغمبر کو منع کرے ، رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس بات سے بہت سخت ناراض ہوئے اور فرمایا۔

_____________________

(۱)۱۔مسنداحمدج۱ص۱۴۲،سنن بیہقی ج۸ص۳۱۸،اسدالغابہ ج۵ص۹۱،کامل ابن اثیرج۴۲۳۔ الغدیر ج۸ ص۱۷۲ منقول الانساب بلاذری ج۵ص۳۳ سے ماخوذ.

(۲)سورئہ مائدہ،۵۴

۳۰۴

خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی ایسا کرے تو میں حکم خدا کو جاری کروں گا اور حکم خدا کے مقا بلے میں فاطمہ مخدومی اور فاطمہ محمدی دونوں برابر ہیں۔(۱)

پچھلی امتوں کی سب سے بڑی بدبختی یہ تھی کہ جب بھی ان کے درمیان کوئی بڑا شخص چوری کرتا تھا تو اسے معاف کردیتے تھے اور اس کی چوریوں کو نظر انداز کردیتے تھے ،لیکن اگر کوئی عام آدمی چوری کرتا تھا توفوراً اس پرحکم الہی جاری کرتے تھے ۔

پیغمبراسلام(ص) نے امت اسلامی کی اس طرح سے تربیت کی ،لیکن آپ کے انتقال کے بعد دھیرے دھیرے اسلامی معاشرے میں قوانین کے جاری کرنے میں رخنہ پڑ گیا ،خصوصاًخلیفہ دوم کے زمانے میں عرب اور غیر عرب، حسب ونسب، ایک گروہ کا دوسرے گروہ کے مقابلے میں وجود میں آیا لیکن اس حد تک نہیں تھا کہ انقلاب اور شورش برپا ہو ، عثمان کی خلافت کے زمانے میں اسلامی قانون کے اجراء میں تبعیض شباب پر تھی ،اور یہی چیز لوگوں کی نارا ضگی کا سبب بنی اور لوگ خلیفہ اور ان کے اطرافیوں سے متنفر ہو گئے ۔

مثلاً. خلیفہ دوم ایک ایرانی بنام ابو لولو جو مغیرہ بن شعبہ کا غلام تھا کے ہاتھوں مارے گئے تھے قتل کرنے کی علت کیا تھی یہاںپر بیان کرنا مقصود نہیں ہے، ہم نے اس کا تذکرہ '' علی اور شوریٰ ''میں عمر کے قتل ہونے کی علت میںبیان کیا ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلیفہ کے قتل کا مسلئہ اسلامی عدالت سے حل کرنا چاہیئے تھا اور اس کے قاتل اور محرک افراد (اگر محرک تھے) کو اسلامی قاعدہ اور قانون کے مطابق سزا دینی چاہیئے تھی لیکن یہ بات صحیح نہیں تھی کہ خلیفہ کے بیٹے یا اس کے رشتہ دار اس کے قاتل کو سزادیں یا اسے قتل کریں چہ جائیکہ کہ قا تل کے رشتہ دار وں اور دوستوں تک کو سزا دیں یا قتل کریں ، بغیر اس کے کہ خلیفہ کے قتل میں شامل ہونا ثابت ہواور بغیر سزا کے انھیں قتل کردیں ،

لیکن افسوس کہ خلیفہ کے قتل کے بعد یا ان کے حالت احتضار ہی میں خلیفہ کے بیٹے عبیداللہ نے دو بے گناہوں (ہرمزان اور ابولولو کی بیٹی جفینہ)کو اس الزام میں کہ اس کے باپ کے قتل کرنے میں شامل تھے قتل کر ڈالا اور اگر صحابیوں سے ایک صحابی نے اس کے ہاتھ سے تلوار نہ لی ہوتی اور اسے نہ روکا

______________________

(۱)۔الاستیعاب ج۴ ۳۷۴

۳۰۵

ہوتا تو مدینہ میں جتنے بھی قیدی تھے انھیں قتل کر ڈالتا۔عبید اللہ کے اس جرم نے مدینہ میں تلا طم برپا کردیا ،اور مہاجرین وانصارنے عثمان سے بے حداصرار کیا کہ اسے سزا دیں .اور ابولٔولوکی بیٹی اور بہو کو انکے خون کا بدلہ اس سے لیں۔(۱)

خودحضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اصرار کیا کہ عبیدا للہ کو سزادو ، اور خلیفہ سے کہا :بے گناہوں کو قتل کرنے کا انتقام عبیداللہ سے لو ،کہ وہ کتنے بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ہے اور بے گناہ مسلمانوں کو قتل کیا ہے ،لیکن جب عثمان کی طرف سے مایوس ہو گئے اس وقت آپ نے عبیداللہ کو مخاطب کرکے کہا :اگر کسی دن تو میرے ہاتھو ں میں آگیا تومیں تجھے ہرمزان کے بدلے میں قتل کردوںگا۔(۲)

عبید اللہ کو سزادلانے اور عثمان کی بے توجہی کی وجہ سے اعتراض روز بروز بڑھتا رہا اوراب بھی ابولولو کی بیٹی اور ہرمزان کے ناحق خون بہالوگوں کے درمیان جوش وخروش تھا ،خلیفہ نے جب خطرہ محسوس کیا تو عبیداللہ کو حکم دیا کہ مدینہ سے کوفہ کی طرف چلا جائے اور بہت وسیع زمین اس کے حوالے کر دی اور اس جگہ کا ،کویفة ابن عمر(عمر کے بیٹے کا چھوٹا کوفہ)نام رکھا۔

______________________

(۱)طبقات ابن سعد ج۵ص۱۷(طبع بیروت)۔

(۲)انساب بلاذ ر:ی ج ۵ ص ۲۴۔

۳۰۶

بے جاعذر

مسلمان تاریخ لکھنے والوں نے خلیفہ سوم اور ان کے ہم فکروں کے دفاع میں معذوری کوپیش کیا ہے جو بچگانہ معذوری کے مانند ہے ہم یہا ں پر ان میں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔

۱۔جب عثمان نے عبیداللہ کے بارے میں عمروعاص سے مشورہ کیا تو عمر و عاص نے کہا کہ ، ہرمزان کاقتل اس وقت ہوا جب مسلمانوں کا حاکم کوئی اور شخص تھا اور مسلمانوں کی ذمہ داری تمہارے ہا تھوں میں نہ تھی اور اس طرح تم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوگی ،اس عذرکا جواب واضح ہے:

الف:۔مسلمانوں کے ہر حاکم وسرپرست پر لازم ہے کہ مظلوم کا حق ظالم سے دلوائے ،چاہے وہ ظالم اس کی حکومت کے زمانے میں ظلم کرے یا دوسرے شخص کی حکومت کے زمانے میں ظلم کرے ،کیونکہ حق ثابت اور پائیدار ہوتا ہے اورزمانہ کاگزرنا اور حاکم کا بدلنا ہر گز فریضہ کو نہیں بدلنا۔

ب:۔وہ حاکم کہ جن کے زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا خود انہوں نے اس واقعہ کی تفتیش کا حکم دیا تھا،جب خلیفہ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی کہ آپ کے بیٹے عبیداللہ نے ہرمزان کو قتل کر ڈالاہے تو انہوں نے اس قتل کی وجہ پوچھی ،لوگوں نے کہا یہ بات مشہور ہے کہ ہرمزان نے ابو لولو کو حکم دیا تھا کہ تمہیں قتل کردے خلیفہ نے کہا :

میرے بیٹے سے پوچھو ،اگر اس کے پاس کوئی گواہ ہے تو میرا خون ہرمزان کے خون کے برابر ہے لیکن اگر اس کے بر عکس ہے

۳۰۷

تو اس کو قتل کردیا جائے۔(۱)

کیا بعد میں آنے والے خلیفہ پر واجب نہیں تھا کہ اپنے پہلے کے خلیفہ کے حکم کو جاری کرے؟کیونکہ عمرکے بیٹے کے پاس نہ کوئی گواہ تھا کہ ہرمزان اس کے باپ کے قتل میں شریک، اور نہ ہی ہرمزان نے ابو لولو کو قتل کرنے کاحکم دیا تھا ۔

۲۔یہ بات صحیح ہے کہ ہرمزان اور ابولولوکی چھوٹی بیٹی کا خون ناحق بہایا گیا لیکن اگر مقتول کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کے خون کا ولی مسلمانوں کاخلیفہ اور امام ہے، اسی وجہ سے عثمان نے اس مقام ومنصب سے خوب استفادہ کیا اور قاتل کو آزاد چھوڑ دیا اور اس کے گناہوں کو معاف کردیا۔(۲)

اس عذر کی بھی پچھلے عذر کی طرح کوئی اہمیت نہیں ہے ، اس لئے کہ ہرمزان ،قارچ(ککر متاّ) کی طرح نہ تھا جو زمین سے اگاتھااور اس کا کوئی وارث ورشتہ دار نہ تھا۔مورخین نے لکھا ہے کہ وہ ایک زمانے تک شوشتر کا حاکم تھا۔(۳)

اور ایسی شخصیت بغیر وارث کے نہیں ہوسکتی اس بنا پر خلیفہ کا فریضہ یہ تھا کہ اس کے وارث کو تلاش کرتے اور تمام کاموں کی ذرمہ داریاں اس کے سپرد کرتے۔

اس کے علاوہ اگر ہم فرض کر لیں کہ اس کا کو ئی وارث نہیں تھا تو ایسی صورت میں اس کا تمام حق، مال مسلمانوں کا حق تھا اور جب تمام مسلمان اس کے قتل بخش دیتے اس وقت خلیفہ اس کے قصاص کو نظر انداز کردیتے ،لیکن افسوس کہ واقعہ اس کے بر خلاف تھا اورمولف طبقات کے نقل کرنے کے مطابق چند افراد کے علاوہ تمام مسلمان عبیداللہ سے قصاص کا مطالبہ کررہے تھے ۔(۴)

______________________

(۱)۔سنن بیہقی (چاپ آفیست )ج۸ص۶۱۔

(۲)۔سنن بیہقی (چاپ آفست)ج۸ص۶۱۔

(۳) قاموس الرجال ج۹ص۳۰۵۔

(۴)طبقات ابن سعد ج۵ص۱۷۔

۳۰۸

امیر المومنین نے بہت سختی سے عثمان سے کہا ،اقد الفاسق فانّه' أتیٰ عظیماًًقتل مسلما ًبل اذنب ۔(۱)

اور جس وقت خلیفہ نے عبیداللہ کو آزادکرنا چاہاتوامام علی نے فوراً اعتراض کیا اور کہا :خلیفہ کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جو مسلمان کا حق ہے اسے نظرانداز کردے۔(۲) اس کے علاوہ ، اہل سنت کی فقہ کے مطابق ، امام اور اسی طرح دوسرے اولیاء (مثل باپ اورماں) کویہ حق حاصل ہے کہ قاتل کو قتل کریں یا اس سے دیت لیں ،لیکن ہرگز اسے معاف کرنے کا حق نہیں رکھتے۔(۳)

۳۔ اگر عبیداللہ قتل ہو جاتا تو مسلمانوں کے دشمن خوشحال ہو تے کہ کل ان کاخلیفہ ماراگیا اور آج اس کے بیٹے کو مارڈالاگیا۔(۴)

یہ عذر بھی قرآن و سنت کی نظر میں بے وقعت ہے کیونکہ ایسے اثرورسوخ رکھنے والے شخص کا قصاص مسلمانوں کے افتخار کا باعث تھا اور عملی طور پر یہ ثابت کردیتا کہ ان کاملک ،قانون وعدالت کا ملک ہے، اور خلاف ورزی کرنے والے چاہے جس مقام ومنصب پر ہوں قانون کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں اور ان کامقام و منصب عدالت جاری کر تے وقت مانع نہیں ہوتا۔

دشمن اس وقت خوشحال ہوتا جب وہ دیکھتا ہے کہ حاکم ورہبر قوانین الہی کا مذق اڑارہے ہیں ، اور اپنی خواہشات کو حکم الہی پرمقدم کر رہے ہیں ۔

۴۔کہتے ہیں کہ ہر مزان، خلیفہ کو قتل کر نے میں شامل تھا کیونکہ عبدالرحمن بن ابو بکر نے گواہی دی کہ ابو لولو اور ہرمزان اور جفین کو ہم نے آپس میں آہستہ آہستہ بات کرتے ہوئے دیکھا اور جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو ایک خنجر زمین پر گر ا جس میں دو نوک تھے ،اور اس کا دستہ بیچ میں تھا ،اور خلیفہ بھی اسی خنجر سے قتل ہوا۔(۵)

______________________

(۱)انساب بلاذری ج۵ص۲۴۔

(۲)قاموس الرجال ج۹ ص۳۰۵منقول از شیخ مفید

(۳)الغدیر ج۸(طبع نجف)(بدائع الصنایع ملک العلماء حنفی سے گفتگو)

(۴)تاریخ طبری ج۵ص۴۱

(۵)تاریخ طبری ج۲ص۴۲

۳۰۹

اسلامی عدالت میں اس عذر کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے، کیونکہ اس سے ہٹ کر کہ گواہی دینے والا ایک شخص ہے ایسے لوگوں کاایک جگہ ہونا جو مدتوں سے دوست رہے ہوں اور ان میں سے ایک لڑکی ہو ،خلیفہ کے قتل کرنے پر گواہ نہیں بن سکتا شاید ہرمزان نے اس وقت خلیفہ کو قتل کرنے سے منع کیا ہو کیا صرف وہم وگمان کے ذریعے دوسروں کا خون بہایا جاسکتا ہے ؟ اور کیا اس طرح کی گواہی اور ثبوت کسی بھی عدالت میں قابل قبول ہے ؟جی ہاں تمام بے جا عذر سبب بنے کہ ہرمزان کا قاتل لمبے عر صے تک آزادانہ زندگی گزارے،لیکن امام علی نے اس سے کہا تھا کہ اگر کسی دن تم میرے قبضے میں آگئے تو تم سے ہرمزان کا قصاص ضرور لیں گے۔(۱) جس وقت امام نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ،عبیداللہ کوفہ سے شام بھاگ گیا، امام نے فرمایا ،اگر آج بھاگ گیا ہے تو ایک نہ ایک دن ضرور ہاتھ آئے گا ،زیا دہ زمانہ نہیں گزرا تھا کہ جنگ صفین میں حضرت علی کے ہاتھوں یا مالک اشتر یا عماریاسر (بہ اختلاف تاریخ ) کے ہاتھوں قتل ہوا۔

دوسری وجہ، بنی امیہ کے درمیان بیت المال کا تقسیم ہونا

پیغمبر اسلام(ص) کی خلافت وجانشینی ایک مقدس واعلیٰ مقام ہے جسے تمام مسلمان نبوت ورسالت کے منصب کے بعد سب سے اہم مقام سمجھتے ہیں ،اور ان لوگوں کا اختلاف صرف مسئلہ خلافت کے بارے میں ہے کہ خلیفہ کا انتخاب خدا کی طرف سے ہونا چاہئیے یا لوگ خود خلیفہ کا انتخاب کریں، ان لوگوں کے درمیان اختلاف یہ نہ تھا کہ مقام خلافت کا رتبہ بڑھ جائے اور اسلامی خلافت کی موقعیت کو اہم شمار کریں .اسی مقام خلافت کے احترام کی وجہ سے امیر المو منین ـ نے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے خلیفہ سوم سے یہ کہا:

''وانی انشدک االلّه ان لا تکون امام هذه الامةالمقتول،فانه کان یقال یقتل فی هذه الامةامام یفتح علیها القتل والقتال الی یوم القیامة'' (۲)

______________________

(۱)انساب بلاذری ج۵،ص۲۴۔

(۲)نہج البلاغہ عبدہ خطبہ۱۵۹۔

۳۱۰

میں تجھے خدا کی قسم دیتاہوں کہ اس امت کے مقتول پیشواکی طرح نہ ہونا،کیونکہ کہا جاتا تھاکہ اس امت کا پیشوا مارا جائے گا جس کے قتل کی وجہ سے قیامت تک کے لئے قتل وغارت گری کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ،

مہاجرین و انصار اوردیگر مسلمانوں کے درمیان اسلامی خلافت اور خلیفہ مسلمین کی عظمت ورفعت کے باوجود اسلام کی دوسری بزرگ شخصیتیں مختلف جگہوں سے مدینہ آگئیں ،اور مہاجرین و انصار کی مددسے خلیفہ سوم کو قتل کرکے پھر اپنے اپنے شہر واپس چلی گئیں۔

عثمان کے خلاف شورش وانقلاب کی ایک دو وجہیں نہیں تھیں، انقلاب لانے کی ایک وجہ حدود الہی کا جاری نہ ہوناتھا جس کا تذکرہ ہم مختصر اً کر چکے ہیں اور دوسری وجہ جس پر ہم بحث کر رہے ہیں یعنی خلیفہ کا اپنے رشتہ داروں کو بے حساب بیت المال سے مددکرنا اور ان کا خرچ دینا تھا ،اگر چہ تاریخ نے ان تمام چیزوں کو نہیں لکھا ہے یہاں تک کہ طبری نے بھی کئی مرتبہ اس بات کو صراحت سے کہا ہے ، میں اکثر لوگوں کے تحمل نہ کرنے کی وجہ سے بعض اعتراض کو جومسلمانوں نے خلیفہ کے خلاف کیئے تھے ،تحریر نہیں کیا ہے(۱) لیکن وہی چیز یں جنہیں تاریخ نے لکھا ہے ، بیت المال سے متعلق عثمان کے کردار کوبخوبی واضح وروشن کرتا ہے ۔مسلمانوں کے بیت المال کی ملکیتیں اور دوسرے سامان جو انہوں نے اپنے اعزہ واحباب کو دیئے تھے ،وہ بہت زیادہ تھے جن میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کررہے ہیں۔

عثمان نے فدک کے علاقہ کو جو مدتوں حضرت زہرا اور خلیفہ اول کے درمیان مورد بحث تھا مروان کو دیدیا اور یہ ملکیت ایک کے بعد ایک مروان کی اولادوں میں منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیزنے اسے حضرت زہرا کی اولاد وں کو واپس کردیا۔

پیغمبر اسلام کی بیٹی نے کہا تھاکہ میرے بابا نے فدک مجھے دیا تھا ،لیکن ابو بکر کا یہ دعوی تھا کہ یہ صدقہ ہے اور دیگر صدقوں کی طرح یہ بھی محفوظ رہے اور اس کی آمدنی مسلمانوں کے امور میں خرچ ہو بہر حال کسی بھی صورت سے عثمان کا مروان کوفدک دینا صحیح نہیں تھا ،بہت سے مورخین نے عثمان کی اس حرکت پر ان کو

______________________

(۱)تاریخ طبری ج۵ص۱۰۸و۱۱۳ و۲۳۲۔

۳۱۱

آڑے ہاتھ لیا اور سب نے یہی لکھا کہ'' تمام لوگوں نے جو ان پر اعتراض ہوئے یہ ہے کہ انہوں نے فدک کو جو رسول اسلام کا صدقہ تھا مروان کودیدیا ''(۱) اے کاش خلیفہ اسی پر اکتفاء کرتے اور اپنے چچا زاد بھائی اور داماد کو اس کے علاوہ کچھ اور نہ دیتے،لیکن افسوس کہ اموی خاندان کے ساتھ خلیفہ کی الفت و محبت ولگائو کی کوئی حدنہ تھی ،انہوں نے اتنے ہی پر اکتفانہیں کیا بلکہ ۲۷ ہجری میں اسلامی فوج نے افریقہ سے بہت زیادہ مال غنیمت جمع کیا تھا جس کی قیمت تقریباً ڈھائی میلین (۲۵لاکھ ) دینار تھی اس کا پانچواں حصہ (۵لاکھ ) جسے قرآن کریم نے خمس کے چھ موارد میں تقسیم کیا ہے بغیر کسی دلیل کے اپنے داماد مروان کو دیدیا، اور اس طرح سے انہوں نے سب سے مخالفت مول لی ،چنانچہ بعض شعراء نے بعنوان اعتراض یہ شعر کہا(۲)

وأعطیت مروان خمس العبا

د ظلماًلهم وحمیت الحمی(۳)

وہ خمس جو خدا کے بندوں سے مخصوص ہے بغیر کسی دلیل کے مروان کو دیدیا اور اپنے رشتہ داروں کا خیال کیا۔

بیت المال کے بارے میں اسلام کا نظریہ

ہر عمل ایک ونظریہ کی حکایت کرتا ہے، خلیفہ کاعمل اس بات کی حکایت کرتاہے کہ وہ بیت المال کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے اور ہدیہ و تحفہ وغیرہ دینے کو صلئہ رحمی اور رشتہ داروں کی خدمت کرنا جانتے تھے۔اب یہ دیکھنا ہے کہ بیت المال چاہے مال غنیمت ہو یازکات کی طرح دوسرے اموال کے بارے میں اسلام کا نظریہ کیا ہے یہاں ہم پیغمبر اسلام(ص) اورامیر المومنین کے چند اقوال کو پیش کررہے ہیں ۔

۱۔پیغمبر اسلام (ص)مال غنیمت کے بارے میں فرماتے ہیں

للّه خمسه واربعة اخماس للجیش (۴)

______________________

(۱)ابن قتیبہ دینوری ،معارف ص۸۴۔---(۲)سورئہ انفال آیت ۴۱۔----(۳)سنن بیہقی ج۶ص۳۲۴۔

(۴)سنن بیہقی ج۶ ص۳۲۴۔

۳۱۲

اس میں سے پانچواں خدا کا حصہ اور باقی ۴۵لشکر اسلام کا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ خدا س سے بے نیاز ہے کہ وہ اپنے لئے حصہ معین کرے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس ۵/ ۱کو ایسے کاموں میں خرچ کیا جائے جن میں خدا کی مرضی شامل ہو ۔

۲۔جب پیغمبر اسلام نے معاذبن جبل کو یمن روانہ کیا توانہیں حکم دیا کہ لوگوں سے کہنا۔

''ان اللّه قدفرض علیکم صدقة اموالکم نوخذ من اغنیاء کم فتردّالی فقراء کم'' (۱)

خدا وند عالم نے تم پر زکواة واجب کی ہے جو تمہارے مالداروں سے لی جائے گی اور فقیروں کے درمیان تقسیم کی جائے گی۔

۳۔ امیر المومنین نے اپنے مکہ کے حاکم کو لکھا :

جو کچھ خدا کا مال تمہارے پاس جمع ہوا ہے اس کا حساب وکتاب کرو اور اسے کثیر العیال اور بھوکوں کو دیدو ، اور اس بات کا خیال رہے کہ وہ یقینافقیروں اور محتاجوں کو ملے ۔

تاریخ میں ہے کہ دو عورتیں دو نژاد کی ایک عرب اور دوسری آزادکردہ ،مولائے کائنات کے پاس آئیں اور دونوں نے حاجت پیش کی ،امام نے ہر ایک کو ۴۰ درہم کے علاوہ کھانے پینے کا سامان دیا نژادوہ عورت جو عرب سے نہیں تھی اس نے اپنا حصہ لیا اور چلی گئی لیکن عرب عورت نے جاہلیت کی فکر رکھنے کے وجہ سے امام سے کہاکیا آپ مجھے اتنی ہی مقدار میں دیں گے جتنا غیر عرب کو دیا ہے ؟امام ـ نے جواب میں کہا ، میں خد ا کی کتاب قرآن میں اسماعیل کے بیٹوں کی اسحاق کے بیٹوں پر فضیلت وبرتر ی نہیں دیکھتا؟(۲)

ان حدیثوں اور صراحتوں کے ہوتے ہوئے اور یہ کہ خلیفہ اول ودوم کا طریقہ خلیفہ سوم سے علیحدہ تھا اس کے باوجود عثمان نے اپنی پوری خلافت کے درمیان بہت زیا دہ تحفے وہدیہ لوگوں کو دیئے کہ کسی بھی صورت میں اس کی توجیہہ نہیں کی جاسکتی ۔

اگر ان ہدیوں اورکو ان نیک لوگوںکو دیا جاتاجن کی گذشتہ زندگی اسلام کے لئے باعث افتخار تھی ،تو

______________________

(۱)الاموال ص۵۸۰۔

(۲)نہج البلاغہ نامہ ۶۷۔

۳۱۳

اتنی ملامت نہیں ہوتی ، لیکن افسوس کہ وہ گروہ لایق فضل وکرم قرار پایا جس کی اسلام میں کوئی فضیلت نہیں تھا۔

مروان بن حکم حضرت امیر المومنین کا سخت ترین دشمن تھا ، جس وقت اس نے حضرت علی سے اپنی بیعت توڑی اور جنگ جمل میں گرفتار ہوا اور امام حسین کی شفاعت کرنے سے آزاد ہوا ،تو امام کے بیٹوں نے امام سے کہا ، مروان دوسری مرتبہ پھر آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرے گا ، امام نے فرمایا ۔

مجھے اس کی بیعت کی ضرورت نہیں ہے کیا عثمان کے قتل کے بعد اس نے میرے ہاتھوں پر بیعت نہیں کیا؟ اس کی بیعت یہودیوں کی بیعت کی طرح ہے جو مکروفریب اور بے وفائی میں بہت مشہور ہیں، اگر خود اپنے ہاتھوں پر بیعت کرے تودوسرے دن مکرو فریب کے ساتھ اسے توڑ دے گا اس کے لئے حکومت چھوٹی چیز ہے جیسے کتا خود اپنی ناک چاٹتاہے،وہ چاربچوں کاباپ ہے اور امت مسلمہ کواس سے اور اس کے بچوں سے ایک روز شدید جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔(۱)

______________________

(۱)سنن بیہقی ج۶ص۳۴۸۔

۳۱۴

تیسری وجہ، اموی حکومت کی تشکیل

عثمان کے خلاف شورش کی تیسری وجہ ،اسلام کے حساس مر کزوں پر امویوں کی ظالمانہ حکومت تھی وہ بھی ایسی حکومت جو بچے اور بوڑھے کو نہیں جانتی تھی اور خشک وتر کو جلا دیتی تھی ، اصل بات یہ تھی کہ خلیفہ سوم کو بنی امیہ سے بہت ہی زیاوہ الفت ومحبت تھی اور رشتہ دارکی محبت کو ٹ کوٹ کر بھری تھی ، اپنے رشتہ داروں کی اس درخواست کی تکمیل کے لئے کہ ایک اموی حکومت تشکیل دی جائے عقل وخرد ، مسلمانوں کی مصالح و مفاسداور اسلام کے قوانین کی عثمان کی نظر میںکوئی اہمیت نہیں تھی اور بنی امیہ سے بیحد محبت کی وجہ سے بہت زیادہ غلط انجام پاتے تھے ۔

اس بات کی بھی یاددہانی ضروری ہے کہ ان کی محبت سارے مسلمانوں سے نہ تھی بلکہ ان کی محبت کا ربط صرف اپنے رشتہ داروں سے تھا ، اور دوسرے افراد ان کے غیظ وغضب سے امان میں نہیں تھے ،یعنی شجرئہ اموی سے بے شمار محبت کی وجہ سے ابوذر ،عمار ،عبداللہ بن مسعود وغیرہ پر بہت خشمگین رہتے تھے ، جس وقت ابو ذر کو ایسی سرزمین جہاں آب ودانہ نہ تھا یعنی ، ربذہ بھیجا اور اس عظیم مجاہد نے وہاں تڑپ تڑپ کر جان دیدی ،اس وقت ان کی محبت جوش میں نہ آئی جس وقت عمار خلافت کے بکے ہوئے کارمندوںکے لات گھونسوں سے زخمی ہوئے اوراور بے ہوش ہوگئے، خلیفہ پر ذرہ برابربھی اثر نہ ہوا ۔

۳۱۵

خلیفہ کا خاندان ،بنی ابی معیط ،کے ساتھ لگائو چھپنے والا نہیں تھا،یہاں تک کہ خلیفہ دوم نے بھی اس بات کا احساس کرلیا تھاتبھی تو انہوں نے ابن عباس سے کہا تھا :

''لوولیها عثمان لحمل بنی ابی معیط علی رقاب الناس ولو فعلها لقتلوه'' (۱)

اگر عثمان خلافت کی با گ ڈور اپنے ہاتھ میں لے گا تو ابی معیط ،کے بیٹوں کو لوگوں پرمسلط کردے گا اور اگر اس نے ایسا کیا تو لوگ اسے قتل کردیں گے۔

جس و قت عمر نے شوری تشکیل دینے کا حکم دیا اور اس میں عثمان کو بھی داخل کیا توان کی طرف رخ کرکے کہا ، اگر خلافت تمہارے ہاتھوں میں آجائے تو اس وقت خدا سے خوف کھانا اور ابی معیط کی آل کولوگوں پرمسلط نہ کرناجب عثمان نے ولید بن عتبہ کو کوفہ کاگورنر بنایا،توامیرالمومنین اور طلحہ وزبیرنے عمر کی بات یاد دلائی اور عثمان سے کہا :

''الم یوصک عمرالا تحمل آل بنی محیط وبنی امیه علی رقاب الناس ؟'' (۲)

کیا عمر نے تم کو نصیحت نہیں کی تھی کہ آل بنی محیط اور بنی امیہ کو لوگوں پر مسلط نہ کرنا؟

لیکن ہوا وہی کے سارے معیار ان کی مکمل محبت و غالب ہو گئی ،اور اسلام کے تمام حساس واہم مرا کز امویوں کے ہاتھوں میں آگئے ،اور ایساہوا کہ ایک گروہ قدرت و حکو مت میں مست اور دوسرا گروہ مال جمع کرنے میں مشغول ہو گیا جب کہ نزدیک اور دورکے علاقے کے مسلمان خلیفہ کے رشتہ داروں کو غرامت دینے والے تھے ۔

حقیقت میں عثمان نے خاندان بنی امیہ کے بوڑھے شخص ،ابو سفیان کی پیروی کی جو عثمان کے خلیفہ منتخب ہونے والے دن ان کے گھر آیا ورجب اس نے دیکھا کہ وہاں سب کے سب بنی امیہ سے ہیں تواس

______________________

(۱) انساب بلاذری ج۵،۱۶۔

(۲)انساب بلاذری ج۵ص۳۰۔

۳۱۶

نے کہا کہ خلافت کویکے بعد دیگرے اپنے ہی ہاتھوں میں رکھنا۔(۱)

ابو موسی اشعری یمنی کوفہ کا حاکم تھا، اور یہ چیز خلیفہ کے ساتھیوں کے لئے برداشت کے قابل نہیں تھاکہ ایک غیر اموی شخص اس عہدے پرفائز ہو ،یہی وجہ تھی کہ شبل بن خالد نے ایک خصوصی جلسہ میں جس میں سب کے سب اموی تھے کہا:کیوں اتنی زیادہ زمین ابو موسی اشعری کو دیدیا ہے ؟،خلیفہ نے کہا :تمہاری نظر میں کون بہتر ہے ؟شبل نے عبداللہ بن عامر کی طرف اشارہ کیا ،اس وقت اس کی عمر سولہ سال سے زیادہ نہ تھی ۔(۲)

اسی فکر کا نتیجہ تھا کہ حاکم کوفہ سعید بن عاص اموی نے منبر سے اعلان کیا تھا کہ عراق قریش کے جوانوں کی چراگاہ ہے۔

اگر حکومت عثمان میں کام کرنے والوں کی فہرست کو تاریخ کے اوراق سے نکالا جائے تو اس وقت خلیفہ سوم کی بات کی تصدیق ہو جائے گی کہ نے کہا تھا ۔

''لو ان بیدی مفاتیح الجنّة لاعطیتهابنی امیه حتی ید خلوامن اخرهم'' (۳)

اگر جنت کی کنجی میرے ہاتھوں میں ہوتی تو اسے بنی امیہ کو دیدیتا تاکہ بنی امیہ کی آخری فردبھی جنت میں داخل ہوجائے۔

اسی بے جااور بے حساب محبت کا نتیجہ تھا کہ لوگ خلیفہ کے حاکموں کے ظلم وستم اور حکومت کے سیاسی رہنمائوں کے ظلم و جبر سے عاجز ہو گئے تھے اور خلیفہ کے خلاف ایسی مخالفتیں معاشرے میں پروان چڑھنے لگیں جنہوں نے عثمان کی خلافت اور ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیا ۔

عثمان کی خلافت کے زمانے میںگورنروں کے سلسلے میں صرف کوفہ اور مصر میں جو تبدیلیاں دیکھنے کو آئیں وہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان کی سیاست یہ تھی کہ سارے امور امویوں کے ہاتھوں میں ہوں۔

______________________

(۱)استیعاب ج۲ص۶۹۰۔

(۲) تاریخ طبری ۔کامل ابن اثیر۔ انساب بلاذری ۔

(۳)مسند احمد بن جنل ج۱ص۶۲۔

۳۱۷

جس وقت خلیفہ نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ،مغیرہ بن شعبہ کوکوفہ کی گورنری سے معزول کرکے سعد وقاص کو اس کی جگہ پر منصوب کردیا ،اس مورد میںبظاہر اچھا کام کیاکیونکہ سعد وقاص کا مقام ومر تبہ جو کہ فاتح عراق تھا .مغیرہ بن شعبہ سے جونا زیبا اور غلط کاموں میں مشہور تھابہت بلند تھا بلکہ اس کا ان سے مقابلہ نہیں تھا ،لیکن حقیقت میں سعدوقاص کو منصوب کرنے کا مقصد کچھ دوسرا تھا کیونکہ ایک سال کے بعد انہوں نے سعد وقاص کو ہٹا کر اپنے مادری بھائی ولید بن عتبہ بن ابی معیط کو کوفہ کا گورنر بنا دیا ،۲۷ ہجری میں عمروعاص کو مصر سے جزیہ لینے کی ذمہ داری سے ہٹا کر اپنے رضاعی بھائی عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو مصر میں جزیہ لینے کے لئے معین کردیا،۳۰ ہجری میں ابو موسی اشعری کو ،جو خلیفہ دوم کے زمانے سے بصرہ کا حاکم تھا ،معزول کر کے اپنے ماموں زاد بھائی عبداللہ بن عامر جو بالکل نوجوان (۱۶سال کا)تھا بصرہ کا حاکم بنا دیا ۔(۱)

یہ تمام موارد جوذ کر ہوئے ہیں اس بات کی علامت ہیں کہ عثمان کی ہمیشہ یہی کو شش تھی کہ ایک اموی حکومت تشکیل پاجائے ۔

چوتھی وجہ، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابہ پر ظلم وستم

عثمان کے خلاف شورش و بغاوت کی چوتھی وجہ پیغمبر کے صحابہ کی بے حرمتی تھی ،جو خود عثمان کی طرف سے یا ان کی طرف سے معین کئے ہوئے شخص کے ہاتھوں انجام ہوتی تھی ، اس سلسلے میں یہاںصرف دو نمونے پیش کر رہا ہوں ۔

۱۔ عبداللہ بن مسعود پر ظلم وستم

عبداللہ بن مسعود پیغمبر اسلام (ص)کے بزرگ صحابی تھے، تاریخ اسلام میں جن کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے اور صحابہ کے بارے میں جو کتابیں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں انکے حالات پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوی ایمان والے اورقرآن کی تعلیم کے ذریعے معارف اسلامی کی اشاعت میں کوشاں رہتے تھے۔(۲)

______________________

(۱)تاریخ طبری ۔کامل ابن اثیر ،انساب بلاذری۔

(۲)استیعاب ج۱،ص۳۷۳،اصابہ ج۲،۳۶۹،اسد الغابہ۔

۳۱۸

وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر مسجدالحرام میں اور قریش کی انجمن کے سامنے بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کی ، تا کہ خدا کے کلام کو قریش کے اندھے دلوں تک پہنچائیں ،جی ہاں دو پہر کے وقت جب قریش کے سردار جمع ہوکر تبا دلہ خیال کررہے تھے ،کہ اچانک عبداللہ نے'' مقام ابراہیم''کے سامنے کھڑے ہو کر بلند آواز میں سورئہ رحمن کی چند آیتوں کی تلاوت کی ، قریش نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا ، ابن ام عبد ، کیا کہہ رہا ہے ؟ ایک نے کہا جو قرآن محمد پر نازل ہواہے اسے ہی پڑھ رہا ہے، اس وقت سب کے سب اٹھے اور عبداللہ پر سب وشتم اور ان کے چہرے پر طمانچہ مارکر ان کی آواز کو خاموش کردیا ، عبد اللہ زخمی چہرے کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آگئے، لوگوں نے ان سے کہا ،تم سے ہمیں اس بات کا خوف تھا ، عبداللہ نے ان کے جواب میں کہا دشمنان خدا آج کی طرح کبھی بھی میری نگاہ میں اتنے ذلیل وحقیر نہ تھے ،اور پھر کہا کہ اگر تم لوگ راضی ہو تو میں کل پھر اسی کام کو دوبارہ کروں! ان لوگوں نے کہا جس چیز کو وہ پسند نہیں کرتے اس کو جتنا انہوں نے سن لیا بس وہ ہی کافی ہے(۲) یہ اس صحابی کے تابناک زندگی کے خوشنمااوراق ہیں جس نے اپنی عمر کو جوانی کی ابتداء سے مسلمانوں کو قرآن سکھانے اور توحید کا درس دینے میں صرف کیا تھااور وہ ا ن چھ افراد میں سے ہے جن کے بارے میں ذیل کی آیت نازل ہوئی ۔(۲)

( وَلاَتَطْرُدْ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَیْئٍ وَمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْهِمْ مِنْ شَیْئٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَکُونَ مِنْ الظَّالِمِینَ ) (انعام۵۲)

اور (اے رسول) جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار سے اس کی خوشنودی کی تمنا میں دعائیں مانگا کرتے ہیں ان کو اپنے پاس سے نہ دھتکارو، نہ ان کے (حساب و کتاب کی) جوابدہی تمہارے ذمہ ہے اور نہ تمہارے (حساب و کتاب کی) جوابدہی کچھ ان کے ذمہ ہے تاکہ تم انھیں (اس خیال سے) دھتکار بتاؤ تو تم ظالموں (کے شمار) میں ہو جاؤ گے۔

______________________

(۱)سیرئہ ابن ہشام ج۱،ص۳۳۷۔

(۲)تفسیر ی طبری ج۷،ص۱۲۸،مستدرک حاکم نیشا پوری ج۳،ص۳۱۹۔

۳۱۹

عبداللہ کی عظمت کے بارے میں اس سے زیادہ تاریخ نے بیان کیا ہے حق تو یہ ہے کہ یہاں تفصیل سے بیان کیا جاتا لیکن جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ ایسے مومن اور خدمت گزار صحابی جس کی خطا صرف یہ تھی کہ اس نے کوفہ کے حاکم ولیدبن عتبہ کا ساتھ نہیں دیا تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوا ۔

سعدو قاص کوفہ کا حاکم تھا عثمان نے اسے اس منصب سے ہٹادیا اور اپنے رضاعی بھائی ولید بن عتبہ کو ان کی جگہ معین کردیا ، ولید نے کوفہ میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بیت المال کو اپنے قبضہ میں لے لیا اسکی کنجی عبداللہ بن مسعود کے پاس تھی ،عبداللہ نے کنجی دینے سے انکار کردیا ولید نے اس کی خبر عثمان کو بھیجی ،عثمان نے عبداللہ بن مسعود کے نام خط لکھا اور ولید کو بیت المال کی کنجی نہ دینے پر ملامت کیا، عبداللہ نے خلیفہ کے خوف وڈر کی وجہ سے کنجی حاکم کی طرف پھینک دی اور کہا:

کیسا دن آگیا کہ سعد وقاص کو ان کے منصب سے دور کر دیا گیا اور ان کی جگہ پر ولید بن عتبہ کو منصوب کردیا گیا ،خدا کا کلام سچا ہے بہترین حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رہنمائی وہدا یت ہے، ان کے لئے بدترین امورانکی نئی باتیں ہیں جن کا اسلام نے حکم نہیں دیا ہے جو چیز بھی شرعی نہ ہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا نتیجہ جہنم ہے ۔

عبداللہ نے یہ با تیں کہیں اور چونکہ عثمان نے انھیں مدینہ بلایا تھا لہذا مدینے کی طرف روانہ ہو گئے کوفہ کے لوگ ان کے ارد گرد جمع ہو ے اور مدد کر نے کا وعدہ کیا انہوں نے کہا خلیفہ کی اطاعت مچھ پر فرض ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میں وہ پہلا شخص بنوں جو فتنہ وفساد کا دروازہ کھولتا ہے وہ جیسے ہی مدینہ میں داخل ہوے سیدھے مسجد گئے اوروہاں خلیفہ کو منبر پرمصروف گفتگو پایا ۔

بلاذری لکھتے ہیں : جب عثمان کی نگاہ عبداللہ بن مسعود پر پڑی تو وہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوے اور کہا ابھی ابھی تمہارے درمیان ایک بد بودار جانور آیا ہے وہ جاندار جو خود اپنی غذا پر چلتا ہے اور اس پر قے کر کے اسے خراب کردیتا ہے۔

عبداللہ نے جیسے ہی یہ سنا جواب دیا ،کہ میں ایسا نہیں ہوں بلکہ میں پیغمبر کا صحابی،جنگ بدر کا سپاہی اور بیعت الرضوان ،میں بیعت کرنے والا ہوں ۔ اس وقت عائشہ نے اپنے کمرے سے فریا د بلند کی ،عثمان ! کیوں پیغمبر کے صحا بی کی توہین کررہے ہو؟چہ می گوئیاں شروع ہو گئیں شروآفت سے بچنے کیلئے عبداللہ کو خلیفہ کے حکم سے مسجد سے باہر نکال دیا گیا۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809