فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)9%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362237 / ڈاؤنلوڈ: 6023
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

جن پر عقلاء کا چلن ہوتا ہے مثلاًقبضہ کی مثال لے لیں عقلاء کے ہاں یہ قابض کی ملکیت کی علامت ہوتا ہے تو اب جہاں قبضہ ہو وہ وہاں قابض کی ملکیت کا حکم لگاتے ہیں لہذا جہاں انہیں اس کا یقین ہو وہاں مقام عمل میں اس پر آثار مرتب کر دیتے ہیں اور اسے خرید کرنا جائز سمجھتے ہیں او ر کہتے ہیں کہ فلاں چیز فلاں کی ملکیت ہے

خلاصہ یہ کہ خبر واحد کی حجیت میں بناء عقلاء کو ایک سند کی حیثیت حاصل ہے اس کے ہوتے ہوئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک عادل یہ خبر دے کہ معصوم علیہ السلام نے فلاں آیت کی تفسیر ایسے مفہوم کے ساتھ کی ہے جو خلاف ظاہر ہے یا وہ خود ظواہر کتاب ہوں کہ جن کے معتبر ہونے پر سوائے اس کے اور کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ عقلاء ان کلمات کے ظواہر پر عمل کرتے اور الفاظ وعبارات سے مقصود معانی کی تشخیص کیا کرتے ہیںپس اب جس طرح بناء عقلاء کے باب میں تمام ظواہر مطلقاًحجت ہوتے ہیں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ ظواہر عملی احکام میں سے کسی پر مشتمل ہو یانہ ہو،اسی طرح تمام وہ روایات جو باب تفسیر قرآن میں قول معصوم علیہ السلام کو نقل کرتی ہوں،وہ سب بھی حجت ہوتی ہیں اور ان میں اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایسی آیت کی تفسیر کو بیان کر رہی ہوں جو احکام عملیہ میں سے کسی پر مشتمل ہو یا ایسی آیت کی تفسیر جس کا احکام کے ساتھ کوئی ربط نہ ہولہذا اس دعویٰ کی کوئی گنجائش ہو یا ایسی آیت کی تفسیر جس کا احکام کے ساتھ کوئی ربط ہی نہ ہولہذا اس دعویٰ کی کوئی گنجائش نہیں کہ روایات فقط اس صورت میں حجت ہوتی ہیں جب کسی ایسی آیت کی تفسیر میں ہوں جن میں احکام کا بیان ہو بلکہ معتبر روایت باب تفسیر میں مطلقاً حجت ہوتی ہیں اور یہ ایک روشن حقیقت ہے۔

۲۔ اگر خبر واحد کی حجیت کی استناد ادلہ شرعیہ تعبدیہ کی طرف ہو تو وہاں بھی بظاہر عدم اختصاص ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ ان ادلہ شرعیہ میں سے کسی میں بھی”حجیة“ اور اس کے مشابہ عنوان دکھائی نہیں دیتا،تاکہ اس کی تفسیر میں اس منجزیت(وجہ نفاذ)اور معذریت(وجہ عذر) کا نام لیا جائے جو ان تکالیف کے باب میں ثابت ہوتی ہیں جن کا تعلق عمل کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ اگر آیتنَبَاء ْ ( اِن جَآء َکمُ فَاسِقُ بِنَبَاٍ فَتَبَّینُوا ) (حجرات:۶)

جب تمہیں ایک فاسق کوئی خبر سنائے تو اس کی تحقیق کرو۔

۲۲۱

کے مفہوم کے بارے میں تسلیم کر لیا جائے کہ اس سے خبر واحد کی حجیت ثابت ہو جاتی ہے، جبکہ خبر دینے والا ایک عادل شخص ہوتو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عادل کی خبر کی طرف استناد جائز ہوگا،اس کی تحقیق ضروری نہیں ہو گی او ر اس کی صداقت کی تفتیش لازم نہیں ہوگی۔ بلکہ اس کی بات بغیر تفتیش مان لی جائے گی تو پھر اس کو باب اعمال سے تعلق رکھنے والی خبر کے ساتھ مختص کرنا درست نہ ہوگا،بلکہ عادل کی خبرچاہے اعمال سے متعلق ہو یا کسی اور شے سے ماننا ہو گی اور وہ حجت ہو گی۔

البتہ اس صورت میں اختصاص کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں جب خبر کاارتباط شارع کے ساتھ ہو اور اس کی شارع کی طرف نسبت بحیثیت اس کے شارع ہونے کے ہو،لیکن اس سے بھی یہ مقام بحث خارج نہیں ہوتا،کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف استناد اور قرآن کریم سے اللہ تعالیٰ کی مراد کو تشخیص دینا،اگرچہ کسی آیت کے حکم کے متعلق نہ بھی ہو،بلکہ مواعظ،نصائح،قصص حکایت یا ایسے امور کے متعلق ہو کہ جن پر کتاب خدا دلالت کرتی ہےیہ استناد بھی ایک ایسا امر ہے جو لامحالہ شارع سے متعلق ہوتا ہےلہذا اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت دیتے ہوئے یہ کہنا جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ حضرت عیسیٰ قتل نہیں ہوئے اور نہ ہی پھانسی دیے گئے ہیں اگرچہ اس خبر کا تعلق باب تکالیف کے ساتھ بالکل نہیں ہے۔

خلاصہ یہ کہ باب تفسیر میں خبر واحد کے مطلقاً حجت ہونے میں کسی اشکال کی گنجائش نہیں ہے۔

ہاں جہاں تک کتاب الہی کے عمومات کو خبر واحد کے ذریعے تخصیص دینے کا تعلق ہے تو اس میں اختلاف ہے اور کئی ایک اقوال موجود ہیں جبکہ قرآن مجید کی کسی آیت کی خبر واحد کے ذریعے تنسیخ کرنا کسی طرح جائز نہیں اور اس پر اہل اسلام کا اتفاق ہےالبتہ یہ مسئلہ علم اصول فقہ میں تفصیل سے زیر بحث آتا ہے اور وہاں مرقوم ہے لہذا ہمیں یہاں اس سے سے بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہاں یہ یادر ہے کہ علمائے اہل سنت کا ایک گروہ خبر واحد سے قرآن کے عمومات کی تخصیص کے عدم جواز کا قائل ہے۔ اور خود اہل سنت میں بھی اس بارے میں اختلاف موجود ہے تاہم قائلین عدم جواز کے ادلہ کمزور اور واضح البطلا ن ہیں۔

۲۲۲

حکمِ عقل:

اس بات میں کوئی اشکال نہیں کہ عقل کا حکم قطعی اور ادراک جزی اصول تفسیر میں شامل ہے اور تفسیر کے لیے ایک بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے لہذاجب بھی حکم عقل قطعی طور پر ظاہر کتاب کے خلاف فیصلہ دے رہا ہو تو وہاں اس کو تسلیم کرنا پڑے گااور ظاہر کتاب کو اخذ نہیں کیا جائے گا،کیونکہ عقل کا حکم ہی کتاب خدا کی حجیت اور اس کے لانے والے اصول کی صداقت کو ظاہر کرنے والے معجزہ کی اساس ہے اسی عقل نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ قرآن ایک معجزہ اور عادت بشری سے ماوریٰ ہے جس کی مثل نہ تو پیش کی جاسکی اور نہ پیش کی جاسکتی ہے،عقل ہی وہ رسول باطنی ہے جس کے حکم اور اس کی وحی کی مخالفت جائز نہیں ہے۔

درحقیقت جب ظواہر کے خلاف حکم عقل قائم ہو گا توپھر عقل کا ادراک بالجزم اس ظاہر کی مخالفت کررہا ہو گاوہاں یہ حکم عقل حقیقت میں اس قرینہ لفظیہ کی منزل پر ہوتا ہے اور حقیقی معنی کے مراد ہونے سے منصرف کرنے اور معنی مجازی میں ظہور کے منعقد ہونے کا موجب بنتا ہےظہور کی حجیت میں یہ ضروری نہیں کہ وہ معنی حقیقی سے متعلق ہی ہو بلکہ ظہور حجت ہے خواہ وہ معنی مجازی میں ہی کیوں نہ ہو کیونکہ واضح ہے کہ قانونأصالةُ الحقیقة جو ظہورکے انعقاد کے تمام مواقع پر جاری ہوتی ہے وہ اصالةالظہور کی ہی ایک خاص قسم ہے اور کوئی فرق نہیں کہ ظہور معنی حقیقی میں قائم ہو جیسے کہ لفظ میں خلاف کا کوئی قرینہ موجود ہی نہ ہو اور خواہ وہ ظہور معنی مجازی میں قائم ہو۔

مثلاًکلام میں معنی حقیقی کے خلاف کا قرینہ موجود ہو تو معنی مجازی ہی ظاہر قرار پاجاتاہے یعنی”رَاَیْتْ اَسَداً“ کا ظہور معنی حقیقی میں قائم ہوتا ہے لیکن”رَایْتُ اَسَداً یَرْمِی“ کا ظہور معنی مجازی میں قائم ہےکیونکہ عرف میں سے اس سے مراد”رجل شجاع“ یعنی بہادر آدمی ہوتا ہےبغیر اس فرق کے کہ ہم یہ مان لیں کہ اس جملے کا ایک ہی ظہور ہوتا ہے جو جملے کے تمام ہونے کے بعد قائم ہوتا ہے بایں نظر کہ لفظ”اسد“ کا اپنے معنی حقیقی میں ظہور پیدا کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ جملہ تمام ہو جائے اور خلاف حقیقت مراد ہونے پر کوئی قرینہ قائم نہ ہو۔

۲۲۳

جب خلاف کا قرینہ موجود ہو تو وہاں اس کا ظہوربالکل ہوتا ہی نہیں بلکہ لفظ کا ظہور ابتداًء ہی معنی مجازی میں قائم ہو جاتا ہے یا ہم یہ تسلیم کریں کہ دو ظہور موجود ہوتے ہیں لفظ”الاسد“ کا ظہور اپنے معنی حقیقی میں اور لفظ”یرمی“ کا ظہورمعنی مجازی میں ہے لیکن چونکہ دوسرا ظہور زیادہ طاقتور ہوتا ہے،اس لیے وہ پہلے ظہور پر تقدم حاصل کرلیتا ہے اور در حقیقت دونوں لفظوں میں ہر لفظ اپنے اپنے حقیقی معنی میں ظاہر ہوتاہے لیکن ادھر قرینہ کا ظہور جو معنی مجازی میں قائم ہوتا ہے وہ معنی اول کے ساتھ مل کر قوی اور کامل ہو جاتا ہےان دونوں قولوں کے مطابق جملے کا ظہور معنی مجازی میں قائم ہوتا ہے یعنی اس مقام پررجل شجاع ہی مراد ہوگا۔

خلاصہ یہ کہ اصالةالظہور جو دراصل ارادہ جدیہ کا ارادہ استعمالیہ کے ساتھ تطابق اور کلام سے اس مفہوم کا مقصود واقعی ہونا ہے جس میں ظاہر لفظ دلالت کررہا ہویہ اصالةالظہور ہر دو صورتوں میں جاری ہوتی ہے اور دونوں میں کوئی بنیادی فرق برقرار نہیں ہوتااس قاعدے کے روشن ہونے کے بعد جب کبھی معلوم ہو کہ عقل کسی مقام پر کتاب خدا کے لفظوں کے ظاہری معنی کے خلاف حکم دے رہی ہے تو یہ حکم عقلی ایسے قرینہ قطعیہ متصلہ کا قائم مقام ہو گا جو اس بات کا موجب ہے کہ کلام کا ظہو ر فقط اسی مفہوم میں منعقد ہو جس کا حکم عقل دے رہی ہے اور اس کے خلاف نہ ہو۔

چنانچہ خداوند تعالیٰ کاارشاد:

( وَجَآءَ رَبُکَ وَالمَلَکُ صَفًا صَفًا ) (سورة فجر:آیت۲۲) (اور جب تیرا رب آیا اور فرشتے صف بستہ تھے)

اس کلا م کا ابتدائی ظہور تو یہ ہے کہ آنے والا بذات خود رب تعالیٰ ہےیہ مفہوم اللہ تعالیٰ کے مجسم ہونے کا مستلزم ہے،حالانکہ اس کا مجسم ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ عقل کا قطعی حکم ہے کہ جسمیت خداوند تعالیٰ کے لیے محال ہے کیونکہ تجسم کا لازمہ احتیاج ہے اور احتیاج واجب الوجودکی شان کے منافی ہے جب کہ واجب الوجود تو بالذات غنی ہوتا ہے اب یہ قطعی حکم عقلی اس امر کا موجب بنے گا کہ کلام کا ظہور اس معنی میں منعقد نہ ہو سکے کہ آنیوالا خود رب تعالیٰ ہے۔

۲۲۴

اسی طرح یہ آیت ہے:

( اَلَّرحمنُ عَلَی العَرشِ استَوٰی ) (سورہ طٰہٰ:آیت۵)

اس میں بھی خداوند تعالیٰ کا عرش پر محدود ہونا لازم آئے گا اس لیے اس کا ظہور ”اللہ تعالیٰ کے عرش پر بیٹھنے“میں منعقد نہ ہو گا کیونکہ عقل کے حکم کے خلاف ہے اور تما م ایسی آیات جن میں ابتدائی ظہور حکم عقل کے خلاف ہوتا ہے وہ اسی قبیل سے ہوں گی۔

ہماری اس بحث کے بعد یہ نکتہ روشن ہو گیا کہ جہاں حکم عقل اصول تفسیر میں سے ایک اصل ہے اور کتاب الہی کی آیات میں سے اللہ تعالیٰ کی مراد کو حاصل کرنے میں اس سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی، وہاں حکم عقل سابقہ دو امور سے مقدم حیثیت رکھتا ہے،عقل کے حکم کے سامنے ”ظہور اور قول معصوم“ہر دو کا راج نہیں چلتایہ ظہور پر اس لیے مقدم ہے کہ اگر خلاف ظہور پر حکم عقل موجود ہو تو ظہور منعقد ہی نہیں ہو سکتاکیونکہ اس کو ایک قرینہ قطعیہ کا مقام حاصل ہے۔

پھر قول معصوم پر اس کے تقدم کی وجہ یہ ہے کہ خود قول معصوم کی حجیت بھی حکم عقل تک منتہی ہوتی ہے اور وہ عقل ہی کے سہارے پر حجت ہوتا ہے لہذا کوئی بھی حقیقی قول معصوم قول عقل کے مخالف ہو نہیں سکتا اور اگر بظاہر کہیں یہ مخالفت نظر آئے تو وہاں سمجھ لینا چاہیے کہ دراصل یہ قول معصوم سے صادر ہی نہیں ہوایا معصوم کی مراد اس کے ظاہری معنی سے نہیں ہے پس جب حکم عقل کتابِ خدا کو اپنے ظاہری معنی سے روک لیتا اور خلاف ظاہر کی طرف موڑ دیتا ہے تو اس کا ایک روایت کو ظاہری معنی سے موڑ کر خلاف ظاہر کی طرف لے جانا بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔

ہماری ان معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ تفسیر کی بنیاد ان تین امور پر استوار ہو سکتی ہے

۱۔ ظاہر ۲۔ قول ۳۔ حکم عقل

۲۲۵

باب تفسیر میں ان تین کے علاوہ کسی دیگر شے کی طرف استناد جائز نہیں ہےہاں باب الظواہر میں قضیہ کے صغریٰ کا اطمینان کر لینا ضروری ہے یعنی وہ ظہور کہ جس کا مرجع ارادہ استعمالیہ ہوتا ہے،کیونکہ واضح ہے کہ دونوں ارادوں کا تطابق ارادہ استعمالیہ کی تشخیص اور لفظ کے مدلول کے بارے میں تسلی کر لینے کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا۔

اب یہ طے کرنا پڑ ے گا کہ کسی شخص کے لیے ارادہ استعمالیہ کی تشخیص کا طریقہ یہ ہو گاعربی زبان سے مکمل طور پر آشنانہ ہو اور خود اہل زبان بھی نہ ہو جبکہ ادھر کسی مفسر یا کسی لغوی (زبان شناس) کے قول پر بھروسہ کرنا بھی جائز نہیں کیونکہ ان دونوں کا قول نہ مفید یقین ہوتا ہے اور نہ ہی مفید اطمینان مگر(عرفی طور پر یہی علم کہلاتا ہے)لیکن ان دونوں کے قول کے حجت ہونے پر کسی قسم کی کوئی دلیل موجود نہیں،پس نتیجہ یہی ہے کہ اس وقت تک کسی کی تفسیر کی طرف رجوع کرنے کا کوئی فائدہ مرتب نہ ہو سکے گا،جب تک اس سے یقین حاصل نہ ہو یا یقین کے قائم مقام کوئی صورت بن سکےبایں معنی کہ وہ کسی معنی میں لفظ کے ظہور کا موجب بن جائے یعنی معلوم ہو جائے کہ ارادہ استعمالیہ کے ساتھ یہی معنی متکلم کی مراد ہے۔

۲۲۶

علوم تفسیر

عُلومِ قرآن

ڈاکٹر سید عبدالوہاب طالقانی

علوم قرآن سے کیا مرادہے؟

علوم قرآن کو دوحصّوں میں تقسیم کیاجاتا ہے:

اولاً۔ وہ علوم جو قرآن سے ماخوذ ہیں اور جنہیں آیاتِ قرآن میں تحقیق اور جستجوسے حاصل کیا جاتا ہے انہیں”علوم فی القرآن" کہتے ہیں۔

ثانیاً۔ وہ علوم جنہیں فہم القرآن کے لئے مقدمہ کے طور پر سیکھا جاتاہے انہیںعلوم لِلْقُرآن کہتے ہیں۔

علوم فی القرآن :

قاضی ابو بکر بن عربی نے”قانون التَاویل“ میں قرآن سے ماخوذ علوم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے

(۱) توحید

(۲) تذکیر

(۳) احکام

۲۲۷

اس کتاب میں مخلوقات سے آگاہی۔ اسماء صفات اور خالق سے آشنائی کو علم توحید قرار دیا گیاہے۔ بہشت کا وعدہ اور دوزخ کی وعید کو علم تزکیراورتمام مباح امور، یعنی شرعی احکام اور اُن کے نفع و نقصانات کے بیان کو علم احکام محسوب کیا گیا ہے۔ کتاب میں علم توحید کے لئے اس آیت کو بطور مثال پیش کیا گیاہے( وَاِلٰهُکم اِلٰه وَّاحِد ) (۱) اس میں توحیدِذات افعال اور صفات پوشیدہ ہیں علم تذکیر کے لئے( وَ ذَ کّرِ’ فَانِّ الذِّکریٰ تنفع المومنین ) کی مثال دی گئی ہے اور تیسرے علم لئے( وَاَنٍ اَحْکُمْ بینهم) کو شاہد کے طور پر لایا گیا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہفاتحة الکتاب کو اسی لئے”امّ الکتاب" کہا جاتاہے کہ اس میں تینوں اقسام توحید،تذکیر،اور احکام کا ذکر موجود ہے۔

مثلاًسورہ کی ابتدا سے لے کر یوم الّدین تک توحید ہے( اِیّاکَ نَعبدُ وَایاکَ نَسْتَعِین ) عبودیت اور احکام میں اطاعت سے متعلق ہے۔( اِهدِناَالصِّراطَ المُستَقیِم ) سے لیکر آخر تک میں تذکیر کا ذکر ہے۔

اَبُوالْحَکَمْ اِبْنِ برّجان ” ارشاد“ میں تحریر کرتے ہیں سارا قرآن تین علوم پر مشتمل ہے اسماء اللہ اور اسکی صفات کا علم،نبّوت اور اس کے استدلال و براھین کا علم، علم تکلیف (شرعی احکامات)

محمد بن جریر طبری کہتے ہیں: قرآن تین علوم پر مشتمل ہے توحید،اخبار اور دیانات اسی لئے پیغمبر خدا نے فرمایا ہے( قُل هُواَاللهُ اَحَدْ ) قرآن کے برابر ہے چونکہ یہ سورت سراسر توحید ہے۔

عُلوم الِقُرآن

کلی طور پر وہ علوم جو آیات کے فہم و ادراک کے اور کلام خدا کے معانی کو سمجھنے کے لئے،قرآن سے پہلے مقدمةً سیکھے جاتے ہیں اُنہیں علوم قرآن کہتے ہیںاس تحریر میں ہمارا مقصود یہی علوم اور منابع ہیں کیونکہ قرآن پیغمبر اسلام کا ایک ابدی معجزہ ہے جو درج ذیل موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہےاخبار، قصص،حِکم، موعظہ،وعدہ،وعید،امر،نہی،تنذیر،تہذیب قلوب، تسکین نفوس، ارشاد، مطالعہ فطرت، وسیع کائنات میں غوروفکر۔

۲۲۸

قرآن مجید فصیح عربی زبان میں نازل کیاگیا ہے

( وَانِّهٰ لَتنزیلُ رَبّ العالِمین نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الاَمینً وعَلیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الُمنْذِرینَ بلِسٰانٍ عَرَ بیٍ مُّبِین )

تحقیق یہ قرآن عالمین کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جبرئیل کے توسط سے اسے تمہارے قلب پر نازل کیا گیاتاکہ تم اس کے مواعظ اور حکمتوں کو لوگوں کے لئے بیان کرو۔ یہ قرآن فصیح عربی زبان میں ہے۔

لیکن جیسا کہ عربی زبان کا طریقہ ہے قرآن بھی حقیقت و مجاز، تصریح اور کنایہ ایجازو تشبیہ و تمثیل اور امثال سے پُرہےمعارف قرآن کے طالب مجبور ہیں کہ وہ بلاغت و فصاحت کے علوم کو اچھی طرح سیکھیں کیونکہ الہی کلام کے اعجاز سے آگاہی متعلقہ امور سے مکمل واقفیت کے بغیرہرگز ممکن نہیں ہے ؟ہرگز نہیںمعرفت قرآن کے مقدمات سے آگاہی جس قدر زیادہ ہوگیکلام الہی کی روح اور گہرائی سے آگاہی بھی اسی قدر زیادہ ہو گی۔

قرآن کریم میں آیات متشابہ موجود ہیں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:

( هُوَالَّذی اَنزَلَ علیک اَلکِتَاب منه آیَات’‘ محُّکَمٰاتٌ هُنَّ اُمُّ ا’لکِتَاب وَاُخَرُمُتَشٰابِهاٰت فَاَمّااَّلَذِین فِی قُلُوبِهم زیغُ فَیَتَّبعُونَ مَاتَشَابَه منهُ اَبْتغَاءَ الفِتَنة وَابتغاءَ تاوِیله وَماَیعلم ُ تَاوِیلَه اِلاَالله وَالَّراسَخونَ فیِ العلم یَقُولُون آمَنّابِه کُلّ مِن عندرَبّناٰ وَماَیَذَّکَّرُ اِلاّاُو لُوالاَلباٰب )

(وہی خدا ہے کہ جس نے تم پر کتاب نازل کی اس کتاب میں بعض آیات محکم ہیں جو کہ کتاب خداکی دیگر آیات کے لئے اصل اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہیںبعض متشابہ ہیں پس جن کے دل باطل کی طرف مائل ہیں وہ متشابہ کے پیچھے جاتے ہیں تاکہ اس میں تاویل کر کے شُبہ اور فتنہ وفساد پیدا کریںحالانکہ انکی تاویل سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم سب محکم اور متشابہ پر جو ہمارے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے ایمان لائے ہیں اور سوائے صاحبان عقل کے کوئی بھی اس حقیقت کو نہیں جانتا۔ قرآنی معارف کے طالِب حضرات کو چاہیے کہ وہ مشکلات کے وقت پیغمبر خدا اور آلِ رسول کی طرف رجوع کریں قرآن کی لغات اور معانی سے متعلق اُن سے سوال کریں

۲۲۹

حضرت عمرنے ایک دفعہ منبر پر کھڑے ہو کر آیت( وَفاَ کِهَةً وَاَباًّ ) کی تلاوت کی اور کہافاکِهَة کو جانتا ہوں لیکن نہیں جانتا کہاَبّاًّ سے کیا مراد ہے ؟۔

بزرگ صحابی اور حبرالامةابن عباس فرماتے ہیں کہ میں فاطرالسموات کا مطلب نہیں جانتا تھا ایک دفعہ دو عرب جھگڑتے ہوئے میرے پاس آئےوہ ایک کنویں سے متعلق جھگڑ رہے تھے اُن میں سے ایک نے کہا”افطرتها" یعنیابتدیتها یعنی سب سے پہلے میں نے کنواں کھودا ہے اس وقت میں اس کے معانی سے آگاہ ہوا۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دوسرے افراد مخصوصاً غیر عرب لوگوں کو تفسیر کی اور معانی ومطالب سمجھنے کی ضرورت نہیں ہےایسے علوم شناخت قرآن کے لئے ضروری ہیںجب مقدماتی علوم سے انسان اچھی طرح آگاہ اور باخبر ہو جائے تو وہ قرآن کے اندر پوشیدہ علوم کی بھی کماحقہ معرفت حاصل کرسکتا ہے۔

علوم قرآن پرپہلی کتاب

علوم قرآن پر صدر اسلام سے ہی مستقل طور پر کتابیں تدوین ہوئی ہیں فہرست نویس علماء انہیں ضبط تحریر میں لائے ہیںابن ندیم نے ” الفہرست“ میں تفصیل کے ساتھ مولفین کے اسماء کا ذکر کیا ہے۔

ہم یہاں پر ” الفہرست“ سے صرف عناوین کو نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

۱۔ تسمیة الکتب المصنفة فی تفسیر القرآن

۲۔ فی الغات القرآن

۳۔ الکتب المولّفہ فی معانی القرآن ومشکلہ و مجازہ

۴۔ فی القرات

۲۳۰

۵۔ الکتب المولِّفَہ فی غریب القرآن

۶۔ فی لاٰماٰت القرآن

۷۔ فی النَقط و الشَکل للقرآن

۸۔ وقف التمام

۹۔ فی الوقف والابتداء ا فی القرآن

۱۰۔ فی مُتشابہ القرآن

۱۱۔ فی اختلاف المصاحف

۱۲_ اجزاء القرآن

۱۳۔ فیما اتفقت الفاظِہِ و معانِیہِ فی القرآن

۱۴۔ من فضائل القرآن

۱۵۔ الکتب المولفة فی ھِجاء المصحف

۱۶۔ مقطوع القرآن و موصولہ

۱۷۔الکتب الموٴلِّفة فی عَدَدِ آیِ القرآن

۱۸۔ ناسخ القرآن و منسوخہ

۲۳۱

۱۹۔ الکتبالمولفَةِ فی الْهٰاآتِ ورُجُوعِهٰا

۲۰۔ نزول القرآن

۲۱۔ احکام القرآن

۲۲۔ معانی شتّٰی من القرآن

لیکن ہمارے پیش نظر اس طرح کی کُتب نہیں ہیں بلکہ ہماری مراد وہ کتاب ہے جو” الاتقان والبرهان“ کی طرح تمام علوم قرآن کو اپنے اندر لئے ہوئے ہوہم یہاں پر علوم قرآن سے متعلق سب سے پہلی جامع کتاب کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ حاجی خلیفہ نے ابوالقاسم محمد بن حبیب نشاپوری (متوفی ۲۴۵) کی کتاب” التَّنبیه عَلیَ فضلِ علوم القرآن“ کا ذکر کیاہے۔ چونکہ اس کا کوئی نسخہ ہماری دسترس میں نہیں ہے لہذا معلوم نہیں ہے کہ ان کی عبارت میں ” علوم القرآن“ سے مراد وہی ہے جو ہمارے مد نظر ہے یا کہ کوئی اور مسئلہ اُن کے پیش نظر تھا۔ مذکورہ بالا کتاب سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر ہم عبدالعظیم زُرقانی کے قول کی طرف توجہ کریں تو یہ واقعاً قابل غور ہے وہ کہتے ہیں۔ ” میں نے مصر کے دارالکتب میں” البُرهان فی علوم القرآن“ کے نام سے ایک کتاب دیکھی اس کے مصنف علی بن ابراہیم بن سعید المشہور صوفی ( متوفی ۳۲۰) ہیں کتاب اصل میں تیس اجزاء پر مشتمل تھی لیکن وہاں پندرہ اجزاء سے زیادہ موجود نہ تھے وہ بھی غیر مرتب تھے۔ ایضاح المکنون میں” الشامل فی علوم القرآن" نامی کتاب کا تذکرہ ملتا ہے جو ابوبکر محمد بن یحییٰ صولی (متوفی۳۳۰) نے لکھی ہے مذکورہ کتاب چونکہ دسترس میں نہیں ہے لہذا مطمن نہیں ہوا جا سکتاکہ علم القرآن سے مراد وہ مصطلح علم ہے جو کہ ہمارے پیش نظر ہے یانہیں۔ سیوطی نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں” وَمن المصنّفاّت فی مثل هذا النَمطَ“ کے ذیل میں چند کتب اور ان کے مولفین کے نام نقل کیے ہیں جن میں آخری کتاب” البرهان فی مشکلات القرآن“ ہے جس کے مصنّف کا نام ابوالمعالٰی عزیزی بن عبدالملک المعروف شَیذَلہ (متوفی۴۹۴) ہے۔

۲۳۲

ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن جوزی بغدادی (متوفی ۵۹۴) نے ایک کتاب” فُنُونُ الافنانِ فیِ عُلُومِ القُرآن" اور ایک دوسری کتاب” المُجتبیٰ فی علوم تتعلق باالقرآن" کے نام سے لکھی ہے۔

سیوطی اور حاجی خلیفہ نے صرف فنون الافنان کو ابن جوزی سے نقل کیا ہے لیکن زرقانی نے دونوں کتابوں کو دارالکتب مصریہ کے مخطوطات کا جُز قرار دیا ہے اور انہیں ابن جوزی کی تالیفات قرار دیا ہے۔

ساتویں صدی میں علم الدین سخاوی (متوفی۶۴۱) نے” جمال القُرّاء" تالیف کی ہے کتاب کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب علوم قرات سے متعلق تھی اور قراءِ قرآن کے لئے لکھی گئی تھی۔

سیوطی نے سخاوی تذکرہ کے بعد ایک کتاب بنام” المُرشِدُ الوَجیز فیِ ماَیَتَعلّقُ بالقرآنِ العَزِیز“ کا ذکر کیا ہے جو ابو شامہ (متوفی ۶۶۵) کے تالیف شدہ ہے وہ کہتے ہیں جو کچھ علوم القرآن سے متعلق لکھا گیا ہے اس میں سے بہت کم حصہ کا یہاں تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان کی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ علوم القران کے حوالے سے علم الدین سخاوی کی کتاب”جمال القّراء“ ان کے ماخذ اور مصادر میں شامل ہوتی ہے کی حیثیت رکھی تھی۔

آٹھویں صدی میں بدر الدّین زرکشی (متوفی ۷۹۴) نے معروف کتاب” البُرهان فی علوم القرآن" تالیف کی اسکی متعدد اشاعتیں موجود ہیں

یہ کتاب جلال الدین سیوطی کی الاتقان کے مصادر میں سے ہے۔ کیونکہ دونوں کتابوں البرھان، الاتقان مطالب اور متون کے تقابل اور جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیوطی نے زرکشی کا نام لئے بغیر بہت سارے مطالب کو اُس سے اقتباس کیا ہے وہ در حقیقت ذرکشی سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ نیز اسی صدی میں محمد بن سلیمان کا فیجی ( متوفی ۸۷۹) نے ایک کتاب علوم القرآن کے حوالے سے لکھی جو بقول سیوطی کے بے مثال کتاب تھی۔

۲۳۳

نویں صدی میں، میں قاضی القضاة جلال الدین بُلقینی (متوفی ۸۲۴) نے ایک کتاب ” مواقع العلوم من مواقع النجوم" تحریر کی ہے جس کے بارے میں امام جلال الدین سیوطی کہتے ہیں:

”فرایته تالیِفاً لِطَیفاً ومجموعاً ظَریفاً ذَا تَر تیبٍ وَ تقرِیرٍ وتنوِیعٍ وَتحبیرٍ"

سیو طی نے محمد بن سلیمان کا فیجی کو جلال الدین بلقینی پر مقدم رکھا ہے اس کی وجہ شاید یہی ہو گی کہ وہ چودہ سال کا فیجی کی شاگردی میں ہے اور وہ اس طرح استاد کے احترام حق کا ادا کرنا چاہتے تھے۔ دسویں صدی میں یا نویں صدی کے آخر میں جلال الدین سیّوطی (متوفی ۹۱۱) نے ”الاتقان“ لکھی۔

اب ہم قارئین محترم کے سامنے علوم قرآن سے متعلق ان کتب کی فہرست رکھیں گے جو اب بھی معتبر کتب خانوں میں موجود ہیں:

۱۔ الاتقان فی علوم القرآن

جلال الدین سیوطی (۸۴۹۹۱۱)مطبع المشہد الحسینی ( ۱۳۸۷ء) ۴جلد قاھرہ

۲۔ الاحسان فی علوم القرآن

جمال الدین ابوعبداللہ محمدبن احمد بن سعید عقیلہ مکی حنفی (۹۳۰ھ) ایضاح المکنون، ج۳/ص۳۲

۳۔ البیان فی علوم القرآن

ابو عامر فضل بن اسماعیل جُرجانی (کشف الظنون ج ۱/ص۲۶۳)

۴۔ بدایع البرھان فی علوم القرآن

محمدآفندی ارنیری (۱۶۰ھ) ایضاح المکنون (ج۱/ص۱۷۰)

۲۳۴

۵۔ البرھان فی علوم القرآن

محمد بن عبداللہ ابن بہادر زرکشی (۷۴۵۷۹۴)تحقیق محمدابوالفضل ابراہیم قاھرہ عیسٰی البابی الحلبی۴جلد ۱۹۵۷

۶۔ بحوث حول علوم القرآن

شیخ محمد جواد محتصر سعیدی نجفی نجف مطبعة الآداب جلد ۳۴۷صفحات

۷۔ البیان فی تفسیر القرآن

آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی

۸۔ التاج المرصّع بجواھر القرآن والعلوم

طنطاوی جوھریقاھرہ المکتبہ التجاریہ (۱۹۳۳م)

۹۔ البیان فی علوم القرآن

محمد علی صابونی(پروفیسر شریعت کالج مکہ عصر حاضر کے علماء میں سے ہیں) بیروت دارالعلم ۱۳۹۰ھ (۲۰۲ص)

۱۰۔ التبیان لبعض المباحث المتعلقہ بالقرآن علی طریق الاتقان

شیخ محمد طاہر بن صالح بن احمد جزایری دمشقی، دمشق ۲۸۸ ص

۱۱۔ التمھید فی علوم القرآن

محمد ھادی معرفت محقق معاصر قم ۳جلد مہر پریس قم۱۳۹۶ ھ

۲۳۵

۱۲۔ ا لتنبیہ علی فضل علو م القرآن

ابوالقاسم محمد بن حبیب نیشاپوری (۲۴۵)کشف الظنون، ج ۱/ص۴۸۹

۱۳۔ جلاء الاذھان فی علوم القرآن

معین الدین محمدالکہف، ۱۲۹۲ ہجری، ۱۵۰ ص

۱۴۔ الشامل فی علوم القرآن

ابوبکر محمدبن یحییٰ صولی وفات ۳۳۵ئھ، ایضاح المکنون، ج۲/ص۳۹

۱۵۔ علوم القرآن

محمد جواد جلال مطبوعہ بصرہ

۱۶۔ علوم القرآن

احمد عادل کمال تاریخ۱۹۵۱

۱۷۔ عنوان البیان فی علوم البیان

محمد حسنین مخلوق العدوی قاہرہ مطبعة المعاھد ۱۳۴۴

۱۸۔ الفرقدان النیران فی بعض ا لمباحث المتعلقة بالقرآن

محمد سعید بابی دمشقی دمشق۱۳۲۹

۲۳۶

۱۹۔ فنون الافنان فی علوم القرآن

ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن جوزی بغدادی وفات ۵۹۷ھ، کشف الظنون، ج۲ص۱۲۹۲

۲۰۔ قانون تفسیر

حاجی سیدعلی کمال دزفولی انتشارات کتب خانہ صدر ناصر خسرو۔ تہران ا جلد

۲۱۔ القرآن علومہ و تاریخہ

حاجی شیخ محمد رضاحکیمی حائری مطابع دارالقس

۲۲۔ القرآن علومہ فی مصر

۲۰۔ ۳۵۸، دکتر عبداللہ خورشیدی بری دارالمعارف مصر

۲۳۔ الآالی الحسان فی علوم القرآن

موسی شاہین قاہرہ مطبعة دارالتالیف ۱۹۶۸، میلادی، ۴۷۱ص

۲۴۔ لمحات فی علوم القرآن واتّجاھات التفسیر

محمد الصّباغ المکتب الاسلامی

۲۵۔ مباحث فی علوم القرآن

دکتر صبحی صالح علمائے معاصر استادبیروت یونیورسٹی (دمشق۱۹۵۸)

۲۶۔ المختار من کتاب الاتقان

۲۳۷

جلال الدین عبدالرحمن بن ابو بکرقاہرہ دارالفکرالعربی ۱۹۶۰م

۲۷۔ المدھش فی علوم القرآن

ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمدابن علی جوزی بغدادی فقیہ حنبلی وفات۵۹۷ھ، بغدادمطبعة الآداب تصحیح محمد بن طاہر سماری (۱۳۴۸ھ)

۲۸۔ مذکرّہ علوم القرآن

احمد احمد علی مصر( ۱۳۷۰ھ)

۲۹۔ معارج العرفان فی علوم القرآن

سید احمد حسین امروھی وفات ۱۳۲۸ھ، مراد آباد ۱۹۱۸م

۳۰۔ المعجزةالکبریٰ القرآن

نزولہ، کتابتہ،جمعہ،اعجازہ،جدلہ،علومہ،تفسیرہ

محمد ابوزھرہ دارالفکر العربی

۳۱۔ مفتاح علوم القرآن

حاجی شیخ غلام رضا فقیہ خراسانی یذدی، یزد۱۳۶۵ھ

۳۲۔ مقدمتان فی علوم القرآن

۲۳۸

یہ کتاب خود دو کتب پر مشتمل ہے کتاب المبانی کے مولف معلوم نہ ہو سکا اور دوسری کتاب کے مولف کا نام ابن عطیہ ہے اور اس کی تصحیح معروف مستشرق آرتھر جعفری نے کی ہے۔ قاہرہ مطبعةالسنہ المحمدیہ ۱۹۰۴ئم

۳۳۔ مناھل العرفان فی علوم القرآن

محمد عبدالعظیم زرقانی مصری، قاہرہ داراحیاء الکتب العربیہ۱۹۶۶م، ۲جلد

۳۴۔ منہج الفرقان فی علوم القرآن

شیخ محمد علی سلامہ بحوالہ مباحث فی علوم القرآن و مناھل العرفان

۳۵۔ الموسوی القرآنیہ

ابراہیم ابیاری و عبدا لصبور مزروق قاہرہموٰسسہ سجلّ العرب ۶جلد

۳۶۔ موجز علوم القرآن

دکتر داؤد عطّار موسسہ اعلمی بیروت

نوٹ:۱ متقّدمین کی چند کتب مثلاً قطب شیرازی کی کتب، زرکشی کی البرھان اور سیوطی کی الاتقان کا مختصراً ذکر آچکا ہے لہذا یہاں تکرار نہیں کیا گیا ہے

۲ بہت سی تفاسیریاتجوید کی کتب کے لئے علوم قرآن کی اصطلاح استعمال ہوتی ہےلیکن ہم نے اس فہرست میں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر : الامام الحافظ ابوالقاسم محمد بن احمد بن جزی الکلبی الغُرناطیکی کتاب التسہیل لعلوم التنزیل چار جلدوں میں تفسیر قرآن ہے چونکہ مصنّف نے مقدمہ میں علوم قرآن کے بعض مطالب بیان کئے ہیں لہذا اس کتاب کے لئے استعمال کیا ہے۔

۲۳۹

اسی طرح مخزن الاسرار فی علوم القرآن بانوی ایرانی کی تالیف ہے یہ ۱۶ جلدوں میں تفسیر ہے۔ جس کا ہم نے تذکرہ نہیں کیا۔

اسی طرح ستر البیان فی علم القرآن،حسن بیگلری کی تحریر کردہ کتاب ہے جو علم تجوید سے متعلق ہے اس کا تذکرہ کتب تجوید کی فہرست میں ہونا چاہیے۔

علوم قرآن کی اصطلاح

علومِ قرآن کی اصطلاح اور اسکی تقسیم بندی

صدر اسلام ہی سے اہل علم ودانش صحابہ تابعین اور تبع تابعین علوم قرآن میں سے کسی ایک یا چند علوم میں مہارت رکھتے تھے اورانہوں نے خاص موضوعات میں تحریریں اور کتب یادگار چھوڑی ہیںمثلاً ابو عبید قاسم بن سلام (متوفی۲۲۴) نے بقول ابن ندیم کے درج ذیل کتب تحریر کی ہیںغریب القرآن، معانی القرآن،القرائات،کتاب عدد آی القران، کتاب ناسخ ومنسوخ اور فضائل القرآن یہ تمام موضوعات اصطلاحاً علوام القرآن کہلاتے ہیں۔

ابن ندیم نے ابن کامل کے حالاتِ زندگی بیان کرتے ہوئے انہیں ” احمد المشہورین فی علوم القرآن“ قرار دیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ چوتھی صدی اور ابن ندیم کے زمانہ سے ہی علوم قرآنی کی اصطلاح رائج رہی ہے البرھان فی علوم القرآن اور الاتقان میں بنیادی طور پر انہیں علوم پر بحث کی گئی ہے۔ متقدمین نے اپنے ذوق اور سلیقہ کے مطابق علوم قرآن کی تقسیم بندی کی ہےمثلاً جلال الدین سیوطی نے نزول قرآن کو رات دن،سردی و گرمی،سفرحضروغیرہ میں تقسیم کر کے علوم قرآن کی ۸۰ اقسام بیان کی ہیں۔ نے علامہ قطب الدین شیرازی (متوفی۶۴۸) نے علوم قرآن کو بارہ موضوعات میں تقیسم کیا ہے متقدمین کے نظریات سے آگا ہی حاصل کرنے کے لئے ہم قطب الدین شیرازی کی آراء و نظریات کا یہاں پر تذکرہ کریں گے۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

ابن زمعہ نے انہیں زمین پر گرادیا،اور کہا جاتا ہے کہ جحوم ،عثمان کے غلام نے انہیں اٹھایا اور پھر بہت تیز ز مین پر اس طرح سے گرایا کہ ان کے دانت ٹوٹ گئے اس وقت حضرت علی نے اعتراض کیا اور کہا :صرف ولید کی شکایت پر تم پیغمبر کے صحابی پر یہ ظلم کررہے ہو؟

با لآخر امام عبداللہ کو اپنے گھر لے گئے لیکن عثمان نے اسے مدینہ سے باہر نکلنے پر پابندی لگادی وہ مدینے ہی میں رہے یہاں تک کہ ۳۲ ھ میں ( عثمان کے قتل ہونے سے ۳ سال پہلے) اس دنیا سے کوچ کر گئے۔(۱)

عبداللہ بن مسعود جب بستر بیماری پر تھے تو ان کے دوست و احباب ان کی عیادت کے لئے آئے ، ایک دن عثمان نے بھی ان کی عیادت کی اور دونوں کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ درج ذیل ہے :

عثمان : کس چیز کی وجہ سے فکرمند ہو ؟

عبداللہ : اپنے گنا ہوںکی وجہ سے۔

عثمان : کیا چاہتے ہو ؟

عبد اللہ : خدا کی وسیع ترین رحمت۔

عثمان: تمہارے لئے طبیب کا انتظام کروں ۔

عبداللہ : حقیقی طبیب نے بیمار کیاہے۔

عثمان: حکم دیدوں کہ تمہاری سابقہ پنشن ادا کردی جائے (۲سال سے ان کی پنشن روک دی گئی تھی)۔

عبداللہ: جس دن مجھے ضرورت تھی اس دن تم نے منع کردیا تھا اور آج جب کہ مجھے ضرورت نہیں ہے دینا چاہتے ہو؟

عثمان : ( یہ مال ) تمہا رے بچوں اور وارثوں تک پہونچے گا۔

عبداللہ : خدا ان لوگوں کو رزق دینے والاہے ۔

______________________

(۱) ۔حلیتہ الاولیاء ج ۱ ص۱۳۸۔

۳۲۱

عثمان: خدا سے میرے لئے استغفار کرو۔

عبداللہ: خدا سے یہی چا ہونگا کہ میرا حق تجھ سے لے لے۔

جب عبداللہ نے اپنے کو موت سے قریب پایا تو عماراور ایک روایت کی بنا پر زبیر کو اپنا وصی قرار دیا کہ عثمان کو میرے جنازے پر نماز نہ پڑھنے دینا ،یہی وجہ تھی کہ رات میں نماز جنازہ ہوئی اور دفن کر دیئے گئے،عثمان جب اس واقعہ سے با خبر ہوے توعمار سے پوچھا کہ کیوں عبداللہ کے مرنے کی خبر مجھے نہیں دی ، عمار نے کہا انہوں نے وصیت کیا تھا کہ تم ان کی لاش پر نماز نہ پڑھو، زبیر نے عثمان اور عمار کی گفتگو سننے کے بعد اس شعر کو پڑھا۔

لاعرفنک بعدا لمو ت تندبنی

وفی حیاتی ما زودتنی زادی

میں تجھے دیکھ رہا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد مجھ پر رو رہا ہے ، حالانکہ جب میں زندہ تھا تو نے میرا حق ادا نہیں کیا ۔

جناب عبداللہ بن مسعود پیغمبر کے جلیل القدر صحابی اور بزرگ قاریوں میں سے تھے اور جن کے بارے میں حضرت امیرالمومنین نے فرمایا تھا کہ''علم القر آن وعلم السنة ثم انتهی وکفی به علماً'' (۱)

ان پر ایسا ظلم وستم کرنا حقیقت میں بغیر کسی عکس العمل کے نہ تھا ، جب خلافت ایسے برے کام انجام دے تو لوگوں کے درمیان بدبینی اور انتقام لینے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اگر اس عمل کی تکرار کی وجہ سے لوگوں میں حکومت کے خلاف بغاوت اور انقلاب لانے کی فکر پیدا ہو جائے گی اور جو چیز نہیں ہو نی چاہیئے وہ ہو جاتی ہے ۔

______________________

(۱)یعنی:قرآن و سنت کو سیکھا اور آخر تک پہنچایا یا ان کے لئے یہی کافی ہے،انساب ج۵،ص۳۶۔تاریخ ابن کثیرج۷ص۱۶۳

۳۲۲

۲۔عمار یاسر پر ظلم وستم

یہ صرف عبداللہ بن مسعود نہ تھے جو خلیفہ کی بے توجہی کا نشانہ بنے ،بلکہ عمار یاسر بھی ان کے ظلم و ستم کانشانہ بنے ، ان پر ظلم وستم اور اہانت کی وجہ یہ تھی کہ خلیفہ نے بیت المال کے بعض زیورات کو اپنے

اہل وعیال کے لئے مخصوص کردیا تھا ، اور جب لوگ یہ دیکھ کر بہت غصہ ہوئے تو وہ اپنے دفاع اور صفائی کے لئے منبر پر گئے اور کہا: مجھے جس چیز کی بھی ضرورت ہوگی بیت المال سے لونگا ، اور ان لوگوں کو سخت سزا دوں گا (جو اعتراض کریں گے) علی نے خلیفہ کا جواب دیتے ہوئے کہا: تمہیںاس کام سے رو کا جائے گا۔

عمار نے کہا : خدا کی قسم میں وہ پہلا شخص ہوں جسے اس کی وجہ سے سزا دی جائے گی اس وقت عثمان نے تند لہجہ میں کہا ، اے بڑے پیٹ والے میرے سامنے تمہاری یہ ہمت ؟اسے پکڑ لو ، انھیں پکڑ لیا گیا اور اتنا مارا کی حالت غیر ہو گئی عمار کے دوستوں نے انہیں پیغمبر کی بیوی ام سلمہ کے گھر پہونچایا ، جب انہیں ہوش آیا تو کہا .خدا کا شکر یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ مجھ پر ظلم وستم ہوا ہے جب عائشہ کو اس واقعہ کی خبر ملی تو انہوں نے پیغمبر کا بال ،لباس اور نعلین باہر نکالا اور کہا ابھی پیغمبر کا بال ،لباس ، اور نعلین پرانا نہیں ہوا ہے اور عثمان نے ان کی سنت کو نظر انداز کردیا ہے عثمان عائشہ کی باتیں سن کر بہت غصہ ہوے مگر انہیں کوئی جواب نہیں دیا ۔

۳۲۳

ام سلمہ نے پیغمبر کے بزرگ ساتھی کی خوب تیما داری کی اور قبیلئہ بنی مخزوم کے افراد جو عمار کے ہم خیال تھے ام سلمہ کے گھر آتے جاتے تھے، یہ بات عثمان کو بہت بری لگی اور انہوں نے اعتراض کیا ، ام سلمہ نے عثمان کو پیغام بھجوایا : تم خود لوگوں کو اس کام پر مجبور کرتے ہو۔(۱)

ابن قتیبہ نے اپنی کتاب'' الا ما مة والسیا سة '' میں عمار پر ظلم و ستم کے واقعہ کو دوسری طرح نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :پیغمبر کے تمام صحابی ایک جگہ جمع ہوئے اور خلیفہ وقت کے نام خط لکھا اور اس میں ان کے ظلم وستم اور کمزوریوں کے بارے میںیہ تحریر کیا ۔

۱۔خلیفہ نے چندچیزوں میں پیغمبر کی سنت اور شیخین کی مخالفت کی ہے ۔

۲۔ افریقہ سے آئے ہوئے مال غنیمت کو ، جو کہ رسول اور ان کے اہلبیت (ع ) اور یتیموں اور مسکینوں کا حق تھا ، مروان کے سپرد کردیا ۔

۳۔عثمان نے اپنی بیوی نائلہ اور اپنی بیٹی کے لئے مدینے میں سات گھر بنوائے۔

۴۔ مروان نے بیت المال کی رقم سے مدینہ میں بہت سے ''قصر '' بنوائے ۔

۵۔ عثمان نے تمام سیا سی امور امویوںکے سپرد کر دیا تھا اور مسلمانوں کے تمام امور کی دیکھ بھال

______________________

(۱)انساب ج۵ ص۴۸

۳۲۴

ایسے نوجوان کے ہاتھ میں دے رکھی تھی جس نے ہر گز رسول خدا کو نہ دیکھا تھا۔

۶۔ کوفہ کے حاکم ولید بن عتبہ نے شراب پی کر مستی کے عالم میں صبح کی نماز چاررکعت پڑھائی اور پھر ما مو مین کو مخاطب کرکے کہاہے کہ اگر تم لوگ راضی ہو تو کچھ اور رکعتوں میں اضافہ کروں ۔

۷۔ ان تمام چیزوں کے باوجود ، عثمان نے ولید پر شراب پینے کی حد جاری نہیں کی ۔

۸۔ مہا جروانصار کو چھوڑ دیا ہے اور ان سے مشورہ وغیرہ نہیں کرتا۔

۹۔بادشاہوں کی طرح مدینے کے اطراف کی تمام زمینوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے ۔

۱۰۔ وہ لوگ جنہوں نے ہر گز پیغمبر کے زمانے کو درک نہیں کیا تھا اور نہ کبھی جنگ میں شرکت کی تھی اور نہ اس وقت ہی دین کا دفاع کررہے ہیں ، انہیں بہت زیادہ مال ودولت دیا اور بہت زیادہ زمین ان کے نام کردی ہے ، اس کے علاوہ بھی بہت سی خلاف ورزیاں ہیں ۔

ایک گروہ جس میں دس آدمی شامل تھے ان کے توسط سے یہ خط لکھا گیا لیکن عکس العمل کی وجہ سے لوگوںنے اس پر دستخط نہیں کیا اوراسے عمار کے حوالے کیا کہ عثمان تک پہونچا دیں، وہ عثمان کے گھر آئے اس وقت مروان اور بنی امیہ کے دوسرے گروہ عثمان کے اردگرد بیٹھے تھے، عمار نے خط عثمان کے حوالے کیا خلیفہ خط پڑھنے کے بعد لکھنے والو ں کے نام سے باخبر ہوگیا لیکن وہ سمجھ گیا کہ ان میں سے کوئی بھی ڈر کے مارے ان کے گھر نہیں آیا ہے یہی وجہ تھی کہ انہوں نے عمار کو مخاطب کر کے کہا: میرے ساتھ تمہاری جرأت بہت بڑھ گئی ہے مروان نے خلیفہ سے کہا: اس کالے غلام نے لوگوں کو تمہارے خلاف بھڑکایا ہے اگر اسے قتل کردیا گویا تم نے اپنا اوردوسروں کا بدلہ لے لیا ہے۔

۳۲۵

عثمان نے کہا: اسے مارو۔

سب نے انھیں اتنا مارا کہ بہت زیادہ زخمی ہوگئے اور حالت غیر ہوگئی، پھر اسی حالت میں انھیں گھر سے باہر پھینک دیا گیا۔

ام سلمہ پیغمبر کی بیوی اس واقعہ سے باخبر ہوئیں اور انھیں اپنے گھر لے آئیں ۔ قبیلۂ بنی مغیرہ کے لوگ جوعمار کے ہم فکر و خیال تھے اس واقعہ سے بہت زیادہ ناراض ہوئے۔ جب خلیفہ نماز ظہر پڑھنے کے لئے مسجد میں آئے ا س وقت ہشام بن ولید نے عثمان سے کہا: اگر عمار ان زخموں کی وجہ سے مر گئے تو بنی امیہ کے ایک شخص کو قتل کر ڈالوں گا۔

عثمان نے جواب میںکہا: تم ایسا نہیں کر سکتے۔

اس وقت علی کی طرف متوجہ ہوے دونوں کے درمیان سخت لہجہ میں گفتگو ہوئی۔ یہاں گفتگو طولانی ہونے کی وجہ سے ہم نقل کرنے سے پرہیز کر رہے ہیں۔(۱)

پانچویں وجہ، بزرگ شخصیتوں کو جلا وطن کرنا

پیغمبر اسلام (ص)کے بہت سے صحابی اور دوست جو امت کے درمیان حسن سلوک اور تقوے میں بہت مشہور تھے ان کو عثمان نے کوفہ سے شام اورشام سے ''حمص'' اور مدینہ سے ''ربذہ'' کی طرف جلا وطن کردیا۔

تاریخ اسلام کا یہ باب بہت ہی دردناک باب ہے اور اس کا مطالعہ کرنے والا ایک ظالم و ستمگر حکومت و خلافت کا احساس کرتا ہے اورہم اس باب میں چند کی طرف مختصرا ً اشارہ کریں گے اور چونکہ تقریباً سبھی لوگ ابوذر کی جلا وطنی سے باخبر ہیں(۲) لہذا ان کے حالات نقل نہیں کریں گے اور عثمان کی خلافت کے زمانے میںجودوسرے بزرگ جو جلا وطن ہوئے ہیں ان کے حالا ت قلمبند کر رہے ہیں۔

______________________

(۱) الامامة و السیاسة، ج۱، ص ۲۹۔

(۲) شخصیتہای اسلامی شیعہ، ج۱، ص ۸۔

۳۲۶

مالک اشتر اور ان کے ساتھیوں کی جلاوطنی

جیسا کہ بیان ہوچکاہے خلیفۂ سوم نے لوگوں کے دبائو کی بنا پر کوفہ کے بدترین حاکم و لید بن عتبہ کو حاکم کے منصب سے معزول کر کے سعید بن عاص اموی کو کوفہ کا حاکم بنادیا اور اسے حکم دیا کہ قرآن کے قاریوں اور مشہور و معروف افراد کے ساتھ اچھا روابط رکھے، یہی وجہ تھی کہ کوفہ کے نئے حاکم کی مالک اشتر اوران کے دوستوںکے ساتھ اوراسی طرح صوحان کے بیٹے زید اور صعصعہ کے ساتھ نشست و گفتگو ہوتی تھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوفہ کے حاکم نے مالک اشتر اوران کے ہمفکروں کو خلیفہ کا مخالف جانااورا س سلسلے میں اس نے خلیفہ سے خفیہ طور پر خط و کتابت کی اور اپنے خط میں لکھا :

مالک اشتر اور ان کے ساتھی قرآن مجید کے قاری ہیں لیکن میں ان کی موجودگی میں اپنا فریضہ انجام نہیں دے سکتا ، خلیفہ نے حاکم کوفہ کو جواب دیا کہ اس گروہ کو جلاوطن کر کے شام بھیج دو، اور اسی کے ساتھ مالک اشتر کو بھی خط لکھا : تم اپنے دل میں کچھ ایسی باتیں چھپائے ہو کہ اگر اس کو ظاہر کیا تو تمھاراخون بہانا حلا ل ہو جائے گا اور مجھے ہرگز اس بات کی امید نہیں ہے کہ تم اس خط کو دیکھنے کے بعد اپنے مشن سے دور ہو جائو گے مگر یہ کہ تم پر سخت بلا و مصیبت نازل ہو، جس کے بعد تمہاری زندگی ختم ہو جائے ، جیسے ہی میرا خط تمہارے پاس پہونچے فوراً شام کی طرف چلے جانا۔

جب خلیفہ کا خط کوفہ کے حاکم کے پاس پہونچا تو اس نے دس آدمیوں پر مشتمل گروہ جس میں کوفہ کے صالح اور متدین افراد تھے ، جلاوطن کر کے شام بھیج دیا جن کے درمیان مالک اشتر کے علاوہ صوحان کے بیٹے زید و صعصعہ اور کمیل بن زیاد نخعی ، حارث عبد اللہ حمدانی وغیرہ جیسی اہم شخصیتیں شامل تھیں۔

۳۲۷

قرآن کریم کے قاریوں اور بہادر و توانا خطیبوں اور متقیوں کے اس گروہ نے شام کے حاکم معاویہ کی زندگی کو بھی عذاب بنادیا تھا اور قریب تھا کہ وہاں کے افراد شام کے حاکم او رخلافت عثمان کے خلاف انقلاب برپا کردیں، لہذا معاویہ نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس گروہ کا شام میں موجود رہنا خلافت کے لئے خطرہ کا باعث ہے اس نے اپنے خط میں لکھا :

''تم نے ایسے گروہ کو شام میں جلاوطن کر کے بھیجا ہے کہ جس نے ہمارے شہر و دیار میں ہنگامہ اور جوش و خروش پیدا کردیا ہے، میں ہرگز مطمئن نہیں ہوں کہ شام بھی کوفہ کی طرح مشکلات میں گرفتار نہ ہو، اور شامیوں کی فکر صحیح و سالم اور استحکام کو خطرہ و مشکل نہ ہو ، معاویہ کے خط سے خلیفہ کے اندر خوف پیدا ہو گیا، خلیفہ نے جواب میں لکھا کہ اس گروہ کو حمص (شام کا ایک دوردراز پسماندہ علاقہ) جلاوطن کر کے بھیج دو۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ خلیفہ نے ارادہ کیا کہ اس گروہ کو دوبارہ کوفہ بھیج دے لیکن سعید بن عاص حاکم کوفہ نے خلیفہ کو اس چیز سے منع کردیا اور اسی وجہ سے وہ لوگ حمص جلاوطن ہوئے۔(۱)

جو لوگ خلیفۂ سوم کے نمائندوں کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے ایک شہر سے دوسرے شہر جلا وطن ہوئے

ان کا جرم یہ تھا کہ وہ لوگ حق بات اور خلافت کے نمائندوں پر تنقید کیا کرتے تھے وہ لوگ یہ چاہتے تھے کہ خلیفہ بھی سیرت پیغمبر پر چلے۔

خلیفہ کے شایان شان یہ تھا کہ کوفہ کے حاکم کی بات سننے کے بجائے کچھ امین اور سچے افراد کو کوفہ بھیجتے، تاکہ وہ حقیقت کا پتہ لگاتے اورایسے اہم کام میں صرف ایک نمائندہ کی بات پر اکتفا نہ کرتے۔

______________________

(۱)الانساب ج۵ ص ۴۳۔ ۳۹؛ اس کی تفصیل تاریخ طبری ج۳ ص ۳۶۸۔ ۳۶۰؛ (حادثہ کا سال ۳۳ھ) میں بیان ہوئی ہے۔

۳۲۸

جلاوطن ہونے والے افراد کون تھے؟

۱۔ مالک اشتر: اس عظیم شخصیت کا نام ہے جس نے پیغمبر (ص)کے زماکو درک کیا تھا اور کسی ایک مورخ نے ، ان کے خلاف ایک جملہ بھی نہیں لکھا ہے، اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے بیان میں ان کی اس طرح سے تعریف و توصیف کی ہے کہ آج تک کسی کی بھی اس طرح تعریف نہیں کی ۔(۱)

جب مالک اشتر کی وفات کی خبر امام کو ملی بہت زیادہ غمگین ہوئے اور کہا:

''و ما مالک؟ لوکان من جبل لکان فنداً و لو کان من حجر لکان صلداً أما و الله لیهدن موتک عالماً و لیفرحن عالماً علی مثل مالک فلیبک البواکی و هل موجود کمالک''؟ (۲)

کیا تم جانتے ہو کہ مالک کیسا آدمی تھا؟ اگر وہ پہاڑ تھا تو اس کی سب سے بلند چوٹی تھا (کہ اس پر سے پرندے پرواز نہیں کرسکتے) اور اگر وہ پتھر تھا تو بہت سخت پتھر تھا اے مالک تمہاری موت نے ایک دنیا کو غمگین اوردوسری دنیا کو خوشحال کردیا، مالک پر رونے والوں کی طرح گریہ کرو۔ کیا مالک کے جیسا کوئی موجود ہے؟

۲۔ زید بن صوحان: ان کی شخصیت کے بارے میں بس اتنا ہی کافی ہے کہ ابوعمر واپنی کتاب ''استیعاب'' میں لکھتا ہے۔

''یہ اپنے قبیلے کے بہت ہی با فضیلت، بزرگ اور دیندار تھے ،جنگ قادسیہ میں اپنا ایک ہاتھ قربان کرچکے تھے اور جنگ جمل میں امام علی کے رکاب میں جام شہادت نوش کیا۔(۳)

______________________

(۱) نہج البلاغہ، نامہ ۳۸،''فقد بعثت الیکم عبداً من عباد الله لاینام ایام الخوف...''

(۲)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۶ ص۷۷ (۳) استیعاب ج۱ ص ۱۹۷۔

۳۲۹

خطیب بغدادی لکھتا ہے: زید راتوں کو عبادت کرتے اوردن کو روزہ رکھتے تھے۔(۱)

۳۔ صعصعہ: زید کے بھائی صعصعہ بھی آپ ہی کی طرح بزرگ و باعظمت اور دیندار تھے۔

۴۔ عمر وبن حمق خزاعی: پیغمبر کے خاص صحابیوں میں سے تھے اور آپ کی بہت سی حدیثیں یاد کئے ہوئے تھے، انھوں نے جب رسول اسلام کو دودھ سے سیراب کیا تھا تو رسول اسلام نے ان کے لئے دعا کی تھی اور فرمایا تھا خداوند ااسے اس کی جوانی سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرما۔(۲)

ان افراد کی آشنائی سے ہمیں دوسرے جلاوطن افراد کی شناسائی ہوتی ہے، کیونکہ بحکم ''الانسان علی دین خلیلہ'' یہ سب کے سب ایک ہی فکر و نظر رکھتے تھے اور متحد تھے اور خلیفہ وقت کی غلط روش اور اس کے کارندوں پر ہمیشہ تنقید و اعتراض کیا کرتے تھے ان تمام افراد کی زندگی کے حالات اور ان کے علمی ، سیاسی اور معنوی مقامات کا تذکرہ کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ بحث طولانی ہو جائے گی، لہذا اپنی گفتگو کو مختصر کر رہے ہیں اور دوسرے افراد جو جلاوطن ہوئے ہیں ان کی اہم خصوصیات کو بیان کر رہے ہیں۔

کعب بن عبدہ نے اپنی دستخط کے ساتھ خلیفہ سوم کو خط لکھا اوراس میں کوفہ کے حاکم وقت کے برے کاموں کی شکایت لکھی، اورخط کوابو ربیعہ کے حوالے کیا، جس وقت قاصد نے خط ،عثمان کے سپرد کیا فوراً اسے گرفتار کرلیا گیا۔ عثمان نے کعب کے تمام ہمفکروں کو جنھوںنے (بغیر دستخط کے) اجتماعی طور پر خط لکھا تھا اورابو ربیعہ کودیا تھا اس سے پوچھا لیکن اس نے ان لوگوں کا نام بتانے سے انکار کیا ۔ خلیفہ نے قاصد کو سزا دینے کے لئے کہا: لیکن علی علیہ السلام نے اسے اس کام سے روک دیا ۔ پھر عثمان نے اپنے کوفہ کے حاکم سعد بن العاص کو حکم دیا کہ کعب کو ۲۰ تازیانے مارو جائے اور اسے رے جلاوطن کر کے بھیج دو۔(۳)

عبدالرحمن بن حنبل جمحی، پیغمبر کے صحابی کو مدینہ سے خیبر کی طرف جلاوطن کر دیا گیا ، ان کا جرم یہ تھا کہ خلیفہ کے عمل پر ، یعنی وہ مال غنیمت جوافریقہ سے آیاتھا اوراسے مروان کو دیدیا، اعتراض کیا تھا اوراس سلسلے میں یہ شعر بھی کہا تھا۔

______________________

(۱) معارف ابن قتیبہ ص ۱۷۶۔

(۲) تاریخ بغداد ج۸ ص ۴۳۹۔

(۳) انساب ج۵ ص ۴۳۔ ۴۱؛ تاریخ طبری ج۳ ص ۳۷۳۔ ۳۷۲۔

۳۳۰

و اعطیت مروان خمس الغنیمة

آثرته و حمیت الحمیٰ

مال غنیمت کا ۱۵ حصہ مروان کودیدیا اوراسے دوسروں پر مقدم سمجھا اور اپنے رشتہ داروں کی حمایت کی یہ مرد مجاہد جب تک عثمان زندہ رہا خیبر میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔(۱)

______________________

(۱) تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۵۰۔

۳۳۱

دوسری فصل

مقدمہ کا واقعہ اورعثمان کا قتل

پانچ عوامل کا عکس العمل

جو پانچ وجہیں ہم نے بیان کیں ان کی وجہ سے تمام اسلامی مملکتوں سے اعتراضات ہونے لگے اور خلیفہ اور اس کے تمام نمائندوں پر الزامات لگنے لگے ان تمام لوگوں پر یہ الزام لگایا گیا کہ سب کے سب صحیح اسلامی راستے سے منحرف ہوگئے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ صحابیوں اور مسلمانوں نے ہمیشہ خلیفہ سے درخواست کیا کہ اپنی روش کو بدل دیں یا یہ کہ مسند خلافت سے دور ہو جائیں۔

اس مخالفت و اعتراض کی عظمت اس وقت ظاہر ہوگی جب ہم بعض اعتراض کرنے والوں کے نام اور ان کی گفتگو سے آشنا ہوں ۔

۱۔ امیر المومنین علیہ السلام نے عثمان کے طور طریقہ پر بہت زیادہ گفتگو کی ہے، چاہے وہ قتل سے پہلے ہو یا قتل کے بعد ۔ انہی میں سے ایک یہ ہے جو امام کا خلیفہ کے کاموں سے متعلق یہ نظریہ ہے جس دن آپ نے مہاجرین کے فرزندوں کو شامیوں کے ساتھ جنگ کرنے کی دعوت دی، تو آپ نے فرمایا:

''یَا أَبْنَاء الْمُهٰاجِرِیْنَ انفروا علی ائمة الکفر و بقیة الاحزاب و اولیاء الشیطان انفروا الی من یقاتل علی دم حمّال الخطایا فو اللّهِ الذی فلق الحبة و برأ النسمة انه لیحمل خطایا هم الی یوم القیامة لاینقص من اوزارهم شیئاً'' (۱)

اے مہاجرین کے بیٹو! کفر کے سرداروں اور شیطان کے باقی بچے ہوئے دوستوں اور گروہوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے اٹھ جاؤ تاکہ اس کو قتل کرسکو جس کی گردن پر بہت سے گناہ ہیں ( یعنی عثمان کو قتل کیا ہے) اس خدا کی قسم کہ جس نے دانہ کو شگافتہ اورانسان کو پیدا کیا وہقیامت تک دوسروں کے گناہوں کو اپنے ذمہ لیتا رہے گا جب کہ دوسروں کے گناہوں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا۔

___________________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۲، ص ۱۹۴، (طبع جدید)

۳۳۲

امام نے اپنی خلافت کے دوسرے دن ایک تقریر کے دوران فرمایا:

''ألا ان کل قطیع أقطعها عثمان و کل مال أعطاه من مال الله فهو مردود فی بیت المال'' (۱)

ہر وہ زمین جسے عثمان نے دوسروں کو دیدیا ہے اورہر وہ مال جو خدا کے مال میں سے ہے اور وہ کسی کو دیا ہے ضروری ہے کہ وہ بیت المال کو واپس کیا جائے۔

امام کا یہ کلام اوردوسرے کلام خلیفہ کے کاموں کو روشن کرتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ واضح و ہ کلمات ہیں جو آپ نے خطبہ شقشقیہ میں بیان کیا ہے۔

''الی ان قام ثالث القوم نافجاً حضنیه، بین نثیله و معتلفه ،و قام معه بنو أبیه یخضمون مال الله خضم الابل نبتة الربیع'' (۲)

(غرض اس قوم کا تیسرا آدمی پیٹ پھیلائے اپنے گوبر اور چارے کے درمیان کھڑا ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے بھائی بند کھڑے ہوئے جو خدا کا مال اس طرح خوش ہو کرکھارہے تھے جیسے اونٹ موسم بہار کی گھاس خوش ہوہو کر کھاتاہے ، رضوی )

۲۔ پیغمبراسلام کی بیوی ،نے سب سے زیادہ عثمان کے کاموں کو غلط بتاتی تھیں، جب عمار پر عثمان کی طرف سے ظلم و ستم ہوا اور عائشہ کو اس کی خبر ملی تو پیغمبر کے لباس اور نعلین کو باہر لائیں اور کہا کہ ابھی پیغمبر کا لباس اور جوتیاںپرانی نہیں ہوئی ہیں تم نے ان کی سنت کو فراموش کردیاہے۔

ان دنوں جب مصریوں اورکچھ صحابیوںنے عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا تھا اس وقت عائشہ مدینہ چھوڑ کر خدا کے گھر کی زیارت کے لئے روانہ ہوگئیں جب کہ مروان بن حکم، زید بن ثابت او رعبد الرحمن بن عتاب نے عائشہ سے درخواست کی تھی کہ اپنا سفر ملتوی کردیں کیونکہ مدینہ میں ان کے رہنے کی وجہ سے ممکن ہے کہ عثمان کے سر سے یہ بلا ٹل جائے۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۱۴۔

(۲) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۳۔

۳۳۳

عائشہ نے نہ صرف ان کی درخواست کو ٹھکرا دیا، بلکہ کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ کاش تمہارے اور تمہارے دوست جن کی تم مدد کر رہے ہو، کے پیر میں پتھر ہوتا تو تم دونوں کو دریا میں ڈال دیتی، یا اسے ایک بوریہ میں رکھ کردریا میں ڈال دیتی۔(۱)

عثمان کے بارے میں عائشہ کی باتیں اس سے کہیں زیادہ ہیں جنہیں ہم نے پیش کیا ہے۔بس اتنا کافی ہے کہ جب تک وہ عثمان کے قتل اور علی کی بیعت سے باخبر نہ تھیں مستقل عثمان پر اعتراض و تنقید کر رہی تھیں، لیکن جب حج کے اعمال سے فارغ ہوئیں او رمدینہ کا سفر کیا اوردرمیان راہ ''سرف'' نامی مقام پر عثمان کے قتل او ربیعت علی سے باخبر ہوئیں تو فوراًنظریہ کو بدل دیااور کہا کاش آسمان میرے سر پر گرجاتا، یہ جملہ کہا اور لوگوں سے کہا کہ مجھے مکہ واپس لے چلو کیونکہ خدا کی قسم عثمان مظلوم ماراگیا ہے اور میں اس کا بدلہ لوں گی۔(۲)

۳۔ عبدالرحمن بن عوف بھی عثمان پر اعتراض کرنے والوں میں سے ہیں وہ ایسا شخص ہے کہ چھ آدمیوں پر مشتمل شوریٰ میں عثمان کی کامیابی اسی کے مکرو فریب سے ہوئی تھی۔جس وقت عثمان نے اپنے تعہد کو جو سنت پیغمبر اور شیخین کی روش پر چلنے کے لئے کیا تھا اس کو توڑ ڈالا ،تو لوگوں نے عبد الرحمن پر اعتراض کیا اور کہا یہ سب خرابیاں تمہاری وجہ سے ہیں تو اس نے جواب میں کہا مجھے اس بات کی امید نہ تھی کہ نوبت یہاں تک پہونچ جائے گی، اب میں اس سے کبھی گفتگو نہیں کروں گا اور پھر عبد الرحمن نے اس دن سے آخر دم تک عثمان سے بات نہیں کی، یہاں تک کہ جب عثمان، عبد الرحمن کی حالت بیماری میں عیادت کرنے آئے تو اس وقت عبد الرحمن نے خلیفہ کی طرف سے اپنے چہرے کو موڑ لیا اور ان سے بات نہیں کی ۔(۳)

جی ہاں، وہ افراد جنہوںنے خلیفہ کے خلاف اعتراضات کئے اورا ن کے قتل کے مقدمات فراہم کئے بہتر ہے ان کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے جن کا ذکر کیا ہے دو اہم چیزوں کا ذکر کرنا مناسب ہے وہ یہ کہ طلحہ و زبیر سب سے زیادہ ان پر اعتراض کرتے تھے ، بہرحال ، لوگوں کا نام اور مخالفین کی گفتگو ؤں اور خلیفہ کو ان کے منصب سے گرانے والے افراد کے نام کے لئے تاریخی کتابوں کی طرف رجوع کریں، کیونکہ ہمارا مقصد عثمان کی خلافت کی معزولی کو بیان کرنا نہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ لوگوں نے حضرت علی کے ہاتھ پر کیسے بیعت کی؟

______________________

(۱)الانساب ج۵ ص ۴۸۔----(۲) تاریخ طبری ج۳ ص ۴۷۷۔------(۳) انساب الاشراف، ج۵، ص ۴۸۔

۳۳۴

عثمان کے گھر کا محاصرہ

شورش کی پانچوں عوامل نے اپنا کام کر دکھایا او رعثمان کا اپنے نقائص اورخلافت پر اعتراض سے بے توجہی سبب بنی کہ اس وقت کے اسلام کے اہم مراکز، مثلاً کوفہ، بصرہ اور مصر کچھ لوگ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر اور خلیفہ کو کتاب الہی اور سنت پیغمبر و سیرت شیخین کی مخالفت سے روکنے کے لئے مدینہ روانہ ہوں کہ مدینے میں رہنے والے اپنے ہمفکروں کے ساتھ کوئی راہ حل تلاش کریں خلیفہ توبہ کریں اور حقیقی اسلام کی طرف پلٹیں، یا مسند خلافت سے دور ہو جائیں۔

بلاذری اپنی کتاب ''انساب الاشراف'' میں لکھتے ہیں:

۳۴ ھ میں خلیفہ کی سیاست سے مخالفت کرنے والے تین شہروں کوفہ ، بصرہ اور مصر سے مسجد الحرام میں جمع ہوئے اور عثمان کے کاموں پر گفتگو کرنے لگے۔ اور سب نے ارادہ کیا کہ خلیفہ کے برے کاموں پر گواہ و شاہد بن کر اپنے اپنے شہر واپس جائیں اور جو لوگ اس سلسلے میں ان کے ہم خیال ہیں ان سے گفتگو کریں ، اور آئندہ سال انہی دنوں میں ملاقات کریں اور خلیفہ کے بار ے میں کوئی فیصلہ کریں۔ اگر وہ اپنے غلط کاموں سے باز آجائیں تو اس کے حال پر چھوڑ دیں، لیکن اگر باز نہ آئے تو اسے اس منصب سے الگ کردیں۔

اسی وجہ سے دوسرے سال (۳۵ ھ) میںمالک اشتر کی سرداری میں کوفہ سے ایک ہزار کا لشکر، حُکیم بن جبلَّہ عبدی کی سرداری میں بصرہ سے ڈیڑھ سو آدمیوں کا لشکر ، کنانہ بن بشر سکونی تجیبی اورعمر اور بدیل خزاعی کی سرپرستی میں مصر سے چار سو یا اس سے زیاد ہ افراد کا لشکر مدینہ میں داخل ہوا۔ اور مہاجر و انصار کے بہت سے افراد جو خلیفہ کے طریقہ کے مخالف تھے وہ بھی ان سے ملحق ہو گئے۔(۱)

______________________

(۱) الغدیر، ج۹، ص ۱۶۸۔

۳۳۵

مسعودی لکھتاہے:

چونکہ عبد اللہ بن مسعود، عمار یاسرا ور محمد بن ابی بکر، خلیفہ کی نظر میں بے توجہی کا شکار تھے، قبیلۂ ''بنی زُھر'' عبد اللہ کی حمایت میں اور ''بنی مخزوم'' عمار کی حمایت میں اور تیم، محمد بن ابی بکر کی وجہ سے اور ان تین گروہوں کے علاوہ دوسرے افراد بھی انقلابیوں کے ساتھ مل گئے اور خلیفہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔

مصریوں نے خلیفہ کو جوخط لکھا اس کا مضمون یہ ہے:

اما بعد: خداوند عالم کسی قوم کی حالت کونہیں بدلتا مگر یہ کہ وہ خود اس کو بدل ڈالیں، خدا کے واسطے، خدا کے لئے، پھر خدا کے واسطے آخرت میں اپنے حصہ کو فراموش نہ کرو ، خدا کی قسم، ہم لوگ خدا کے لئے غضبناک ہوتے ہیں اور خدا ہی کے لئے خوشحال ہوتے ہیں، ہم اپنی اپنی تلواروں کواپنے کاندھوں سے اتار کر زمین پر نہیں رکھیں گے جب تک تمہارے سچے توبہ کی خبر ہم تک نہ پہونچ جائے یہی ہمارا پیغام ہے۔(۱)

______________________

(۱) مروج الذہب ج۳ ص ۸۸ طبع بیروت سال ۱۹۷۰۔

۳۳۶

مخالفوں کے سامنے خلیفہ کا تعہد

گھر کا محاصرہ سبب بنا خلیفہ اپنے کاموں پر سنجیدگی سے سوچیںاور محاصرہ ختم کرنے کی سبیل نکالیںلیکن وہ شورش کی تہ سے آگاہ نہیں تھے اور معاشرے کے اچھے لوگوں کو برے لوگوں کے درمیان تشخیص نہیں دے پارہے تھے،انہوں نے گمان کیا کہ شاید مغیرہ بن شعبہ یا عمرو عاص کے وسیلے سے یہ ناگہانی بلا ٹل جائے گی، اس وجہ سے اس نے ان دونوں کو انقلابیوں کی آگ خاموش کرنے کے لئے گھر کے باہر بھیجا، جب انقلابی لوگوں نے ان منحوس چہروں کو دیکھا توان کے خلاف نعرے لگانے لگے ۔ اور مغیرہ سے کہا: اے فاسق و فاجر واپس جا واپس جا ، اور عمرو عاص سے کہا: اے خدا کے دشمن واپس چلا جا کہ تو امین و ایماندار نہیں ہے اس وقت عمر کے بیٹے نے خلیفہ سے حضرت علی کی عظمت کے بار ے میں بتایا اور کہا کہ صرف وہی اس شورش کی آگ کو خاموش کرسکتے ہیںلہٰذا خلیفہ نے حضرت سے درخواست کی کہ اس گروہ کو کتاب خدا اور سنت پیغمبر کی دعوت دیجئے ۔امام نے اس کی درخواست کو اس شرط پر قبول کیا کہ جن چیزوں کی میں ضمانت لوں خلیفہ اس پر عمل کرے، علی علیہ السلام نے ضمانت لی کہ خلیفہ، کتاب خدا اور سنت پیغمبر پر

عمل کریں انقلابیوں نے حضرت علی علیہ السلام کی ضمانت قبول کرلیا اور وہ سب آنحضرت کے ساتھ عثمان کے پاس آئے اور ان کی سخت مذمت کی انہوں نے بھی ان لوگوں کی باتوں کو قبول کرلیا اور یہ طے پایا کہ عثمان تحریری طور پر تعہد دیں۔

چنانچہ تعہد نامہ اس طرح سے لکھا گیا:

''یہ خط خدا کے بندے امیر المومنین عثمان کی طرف سے ان لوگوں کے نام ہے جن لوگوں نے ان پر تنقید کی ہے ، خلیفہ نے یہ عہد کیا ہے کہ خدا کی کتاب اور پیغمبر کی سنت پر عمل کرے گا، محروموں کی مدد کرے گا ڈرے اور سہمے افراد کو امان دیں گے، جلاوطن کئے ہوئے لوگوں کو ان کے وطن واپس بلائے گا، اسلامی لشکر کو دشمنوں کی سرزمین پر نہیں روکے گا، ...علی علیہ السلام مسلمانوں اور مومنوں کے حامی ہیں اور عثمان پر واجب ہے کہ اس تعہد پر عمل کرے''۔

۳۳۷

زبیر ، طلحہ، سعد وقاص، عبد اللہ بن عمر، زید بن حارث، سہل بن حنیف، ابو ایوب وغیرہ نے گواہ کے طور پر اس تعہد نامہ کے نیچے دستخط کئے یہ خط ذیقعدہ ۳۵ھ میں لکھا گیا اور ہر گروہ کو اسی مضمون کا خط ملا اوروہ اپنے اپنے شہر واپس چلا گیا اس طرح خلیفہ کے گھر کا محاصرہ ختم ہوگیا اور لوگ آزادانہ طور پر آنے جانے لگے۔(۱)

انقلابیوں کے چلے جانے کے بعد، امام نے دوبارہ خلیفہ سے ملاقات کی اوران سے کہا: تم پر ضروری ہے کہ تم لوگوں سے بات کرو تاکہ وہ لوگ تمہاری باتوں کو سنیں اور تمہارے حق میں گواہی دیں، کیونکہ انقلاب کی آواز تمام اسلامی ملکوں تک پہونچ چکی ہے اور بعید نہیں کہ دوسرے شہروں سے پھر کئی گروہ مدینہ پہونچ جائیں اور پھر دوبارہ تم مجھ سے درخواست کرو کہ میں ان سے بات کروں۔ خلیفہ کوحضرت علی کی صداقت پر پورا بھروسہ تھا لہٰذا گھر سے باہر آئے اوراپنے بے جا کاموں کی وجہ سے شرمندگی کا اظہار کیا۔

امام نے اتحاد مسلمین اور مقام خلافت کی عظمت کے لئے بہت بڑی خدمت انجام دی، اگر عثمان اس کے بعد حضرت علی کی ہدایت و رہنمائی پر عمل کرتے تو کوئی بھی واقعہ ان کے ساتھ پیش نہ آتا، لیکن افسوس خلیفہ ارادے کے ضعیف اور بے جا بولنے والے تھے اور ان کو مشورہ دینے والے حقیقت شناس اور سچے نہ

______________________

(۱) الانساب ج۵ ص ۶۲۔

۳۳۸

تھے اور مروان بن حکم جیسے افراد نے ان کی عقل و دور اندیشی کو چھین لیا تھا لہذا مصریوں کے چلے جانے کے بعد خلیفہ نے مروان کے شدید اصرار پر بہت ہی غیر شائستہ فعل انجام دیا، عثمان نے چاہاکہ مصریوں کے ساتھ اپنی ملاقات کودوسرے انداز سے پیش کریں اوراس طرح سے بیان کریںکہ مدینہ سے مصر شکایتیں پہونچی تھیںاور وہ لوگ یہاں تحقیق کرنے کے لئے آئے تھے اور جب ان لوگوں نے دیکھا کہ تمام شکایتیں بے اساس ہیں تو وہ لوگ اپنے وطن واپس چلے گئے۔

جب یہ بات لوگوں نے خلیفہ کی زبان سے سنی تو مخالفین کی طرف سے اعتراض و تنقیدہونے لگی، سب ان سے کہہ رہے تھے کہ خدا سے ڈرو! توبہ کرو! اعتراض اتنا شدید تھا کہ خلیفہ نے دوسری مرتبہ پھر اپنی باتیں واپس لے لیں، اور قبلہ کی طرف دونوں ہاتھ بلند کیا اور کہا:

''پروردگارا! میں پہلا وہ شخص ہوں جو تیرے پاس واپس آؤں گا''(۱)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۳ ص ۳۸۵، طبع اعلمی بیروت۔

۳۳۹

انقلابیوں کے سرداروں کو قتل کرنے کا حکم دینا

قریب تھا کہ مصریوں کی آفت جائے کیونکہ وہ لوگ مدینے سے مصر کی طرف روانہ ہوچکے تھے لیکن راستے میں ''ایلہ'' نامی مقام پر لوگوں نے عثمان کے غلام کو دیکھا کہ مصر کی طرف جارہا ہے، ان لوگوں کو شک ہوا کہ شاید وہ عثمان کا خط لے کر مصرکے حاکم عبداللہ بن ابی سرح کے پاس جا رہا ہے اسی وجہ سے اس کے سامان کی تلاشی لینے لگے، اس کے پانی کے برتن میں سے رانگے (قلع) کا ایک پائپ نکلا جس کے اندر خط رکھا تھا ،خط میں حاکم مصر کو خطاب کرتے ہوئے لکھا تھا جیسے ہی عمر و بن بدیل مصر میں داخل ہو اسے قتل کردینا، اور کنانہ ، عروہ، اور ابی عدیس کے ہاتھوں کو کاٹ دینا اور اسی طرح خون میں تڑپتاہوا چھوڑ دینا اور پھر ان لوگوں کو پھانسی پر چڑھا دینا۔ خط دیکھنے کے بعد مصری اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے، اور سب کے سب آدھے ہی راستے سے مدینہ واپس آگئے۔ اور علی علیہ السلام سے ملاقات کی اور انھیں خط دکھایا ۔ علی علیہ السلام خط لے کر عثمان کے گھر آئے اور اسے دکھایا عثمان نے قسم کھا کر کہا کہ یہ تحریر ان کے کاتب کی اور مہر انہی کی ہے لیکن وہ اس سے بے خبر ہیں، حقیقت میں بات یہی تھی کہ خلیفہ اس خط سے بالکل بے خبر تھے اور ان کے ساتھیوں مثلاً مروان بن حکم کا کام تھا خلیفہ کی مہر حمران بن ابان کے پاس تھی کہ اس کے بصرہ جانے کے بعد مہر مروان کے پا س تھی۔(۱) مصریوں نے خلیفہ کے گھر کا دوبارہ محاصرہ کرلیااور ان سے ملاقات کرنے کو کہا اور جب لوگوں نے عثمان کودیکھا تو اس سے پوچھا: کیا تم نے اس خط کو لکھا ہے؟ عثمان نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہے، گروہ کے نمائندہ نے کہا: اگر ایسا خط تمہاری اطلاع کے بغیر لکھا گیا ہے تو تم خلافت اور مسلمانوں کے امور کی ذمہ داری لینے کے لائق نہیں ہو، لہٰذا جتنی جلدی ہو خلافت سے کنارہ کشی اختیار کر لو، خلیفہ نے کہا کہ خدا نے جو لباس میرے بدن پر ڈالا ہے اسے میں ہرگز اتار نہیں سکتا، مصریوں کے انداز گفتگو نے بنی امیہ کو ناراض کردیا ، لیکن بجائے اس کے کہ اصلی علت کو بیان کریں، علی کے علاوہ انھیں کوئی اور نظر نہیں آیا اور مصریوں کی طرف سے مقام خلافت پرہونے والی جسارت کا الزام ان پر لگایا، امام نے ان لوگوں کوتیز ڈانٹا اور کہا کیا تم نہیں جانتے کہ اس وادی میں میرے پاس کوئی اونٹ نہیں ہے یعنی مرا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے اس وقت کہا:

______________________

(۱) مروج الذہب ج۲ ص ۳۴۴۔

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809