فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362075 / ڈاؤنلوڈ: 6018
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۳۵۶،۳۵۹،نمبر۱۱۲۵،۱۱۳۰،اشاعت اوّل۔

۲۔ حافظ ابن عساکر، کتاب تاریخ دمشق، جلد۲،صفحہ۳۴۴،۴۴۲،باب امیر المومنین کے حالات، حدیث۸۵۲،۹۵۸، اشاعت دوم(شرح محمودی)۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور، جلد۶،صفحہ۳۷۹،اشاعت دوم، صفحہ۴۲۴۔

۴۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، جلد۱،صفحہ۱۵۵، باب۳۱۔

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، صفحہ۲۴۵،باب۶۲۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة ، صفحہ۳۶۱۔

۷۔ بلاذری، کتاب النساب الاشراف، ج۲ص۱۱۳حدیث۵۰،اشاعت اوّل بیروت

۸۔ شبلنجی ،کتاب نورابصار، صفحہ۷۰،۱۰۱۔

۹۔ خوارزمی، کتاب مناقب امیر المومنین ،حدیث۱۱،صفحہ۶۲۔

پندرہویں آیت

پیغمبر کی صداقت پر قرآن ایک روشن دلیل ہے اور علی ایک سچے گواہ ہیں

( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِه کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَامًا وَّرَحْمَةً )

”کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل پر ہو اور اُس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ آتا ہو جو اُسی کا جزو ہو(سورئہ ہود:آیت۱۷)

۴۱

تشریح

اس آیت شریفہ کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ کون(مَنْ) سے مرادجناب رسول خدا

فضائل علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں ۔۳

کی ذات مبارک ہے اور روشن دلیل(بَینَہ)سے مرادقرآن مجید ہے اور (نبوت کے) گواہ صادق(شاہد) سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔بعض مفسرین نے شاہد سے مراد جبرئیل علیہ السلام کو لیا ہے اور بعض نے َیَتْلُوْهُ کو مادّہ تلاوت سے قرأ ت کے معنی میں لیا ہے نہ کہ اس معنی میں کہ ایک کے بعد دوسرے کا آنا۔ انہوں نے شاہد سے مراد زبان رسول اللہ لی ہے۔ لیکن بہت سے اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے شاہد سے مراد سچے مومنین لئے ہیں اور سچے مومن کی تصویر علی علیہ السلام کو لیا ہے اور اس ضمن یں بڑی اہم روایات کو بیان کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک یہاں بیان کی جاتی ہیں:

(ا)۔ سیوطی نے کتاب جمع الجوامع اور تفسیر الدرالمنثور میں یہ روایت بیان کی ہے:

حَدَّثْنَا عبادُ بنُ عَبْدِاللّٰهِ الاَ سَدِی قال:سَمِعْتُ عَلِیَّ بنَ ابی طالبٍ وَهُوَ یَقُولُ:مٰا أَحَدٌ مِنْ قُرَیْشٍ اِلَّا وَقَدْ نَزَلَتْ فیهِ آیةٌ وآیتانِ فَقٰالَ لَهُ رَجُلٌ:وَمٰانَزَلَ فِیْکَ یٰااَمِیْرَالمومنینَ؟قٰالَ:فَغَضِبَ ثُمَّ قٰالَ: اَمٰاوَاللّٰهِ لَولَمْ یَسْأَلْنِیْ عَلٰی رُووسِ الْقَوْمِ مٰاحَدَّ ثْتُکَ،ثُمَّ قال:هَلْ تَقْرَأُ سورةَ هودٍ؟ ثُمَّ قَرَاءَ: ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) رسولُ اللّٰه عَلٰی بَینةٍ مِنْ رَبَّهِ وَاَنَاالشّٰاهِدُ مِنْهُ ۔

”عباد بن عبداللہ اسدی کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں کہ قریش کے سرداروں میں کوئی نہیں مگر اُس کے بارے میں ایک یا دو آیتیں نازل ہوئی ہوں۔ پس ایک شخص نے سوال کیا:یا امیر المومنین ! آپ کے بارے میں کونسی آیت نازل ہوئی ہے۔ آپ(اُس شخص کے جہل یا عداوت کی وجہ سے) غضبناک ہوئے اور کہا کہ اگر دوسرے لوگ موجود نہ ہوتے تو میں تمہارے سوال کا جواب نہ دیتا۔ اُس وقت آپ نے فرمایا : کیا تم نے سورئہ ہود پڑھی ہے؟ اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:

( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) ”اور فرمایا کہ پیغمبر روشن دلیل یعنی قرآن مجید (بَینَةٍ) رکھتے تھے اور میں گواہ تھا“۔

۴۲

(ب)۔ کچھ مفسرین اس روایت کو نقل کرتے ہیں:

عَنْ انس(فی قَولِه تعالٰی) ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُط“قَالَ هُوَرسولُ اللّٰهِ ”وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) قَالَ هُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب، کَانَ وَاللّٰهِ لِسَانَ رَسُولِ اللّٰهِ ۔

”انس بن مالک سے اس آیت کی تفسیر سے متعلق روایت کی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ آیت کے اس حصہ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه ) سے مراد پیغمبر اسلام کی ذات مبارک ہے اور( یَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) سے مرادعلی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ خدا کی قسم! یہ(علی کا نام)رسول اللہ کی زبان پر تھا“۔

(ج)۔ تفسیر برہان، جلد۲،صفحہ۲۱۳پر یہ روایت بیان کی گئی ہے:

امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس آیت میں ”شاہد“ سے مراد امیرالمومنین علی علیہ السلام ہیں اور اُن کے یکے بعد دیگرے جانشین ہیں۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی، کتاب جمع الجوامع، جلد۲،صفحہ۶۸،حدیث۴۰۷،۴۰۸ اور ج۳،ص۳۲۴۔

۲۔ حافظ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۴۲۰،حدیث۹۲۸۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب ۶۲،صفحہ۲۳۵۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، حدیث۳۸۶،جلد۱،صفحہ۲۷۷۔

۵۔ ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب امیرالمومنین ، حدیث۳۱۸،صفحہ۲۷۰۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۲۶،صفحہ۱۱۵۔

۷۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال، جلد۱،صفحہ۲۵۱،اشاعت اوّل۔

۸۔ طبری اپنی تفسیر میں جلد۱۵،صفحہ۲۷۲،شمارہ۱۸۰۴۸۔

۹۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں، جلد۲،صفحہ۲۳۹۔

۴۳

سولہویں آیت

علی صدیق اکبر اورشہید فی سبیل اللہ ہیں

( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ وَالشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَنُوْرُهُمْْ )

”اور جو لوگ اللہ پر اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی تو اپنے پروردگارکے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ اُن کا اجر اور اُن کا نور اُن ہی کیلئے ہوگا“(سورئہ حدید،آیت۱۹)

تشریح

اس میں کوئی شک نہیں کہ سچائی اور راست گوئی ایسی صفت ہے جو انسان کو اعلیٰ مقام تک پہنچادیتی ہے۔ ہمیں یہ صفت حضرت علی کے وجود پاک میں روز روشن کی طرح نظر آتی ہے۔

اگرچہ اہل سنت میں خلیفہ اوّل ہی صدیق کے طور پر مشہور ہیں لیکن بہت سی روایات جو اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں نقل کی ہیں، اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ صفت سچائی اور راست گوئی ہر لحاظ سے مکمل طور پر حضرت علی علیہ السلام کے وجود پاک میں نظر آتی ہے۔ چند روایات ذیل پرتوجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اِبْنِ عباس فِی قَوْلِه تعٰالٰی ( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ ) قال صدیقُ هَذِه الْاُمَّةِ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب هُوَ الصِّدِّ یقُ الْاَکْبَرُ وَالْفَارُوْقُ الْاَعْظَمُ

”ابن عباس سے روایت ہے کہ اس آیت شریفہ( وَالَّذیْ نَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّ یْ قُوْن ) کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ اس اُمت کے صدیق علی ابن ابی طالب ہیں۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام صدیق اکبر بھی ہیں اور فاروق(حق اور باطل کو جدا کرنے والا) اعظم بھی“۔

۴۴

(ب)۔عَنْ عبدالرحمٰنِ بن ابی لیلٰی عَنْ اَبِیْهِ قٰالَ رسولُاللّٰهِ اَلصِّدِّیْقُوْنَ ثَلاٰ ثَةٌ: حَبِیبُ النَّجَّارِ، مومِنُ آلِ یٰسِینَ وَحِزْبِیْلُ مُومِنُ آلِ فِرْعَوْنَ وَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطالِبٍ وَهُوَ اَفْضَلُهُمْ

”عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تین افراد صدیق ہیں اور وہ ہیں:حبیب نجار، مومن آل یاسین اور حزبیل مومن آل فرعون اور علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور علی علیہ السلام اُن سب سے افضل ہیں“۔

(ج)۔عَنْ عُبادِ بنِ عَبْداللّٰهِ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیّاً علیه السلام یقولُ: أَ نَا الصِّدِّیقُ الْاَکْبَرُ لَایقُولُهَا بَعْدِیْ اِلَّا کَذَّابٌ وَلَقَدْ صَلَّیْتُ قَبْلَ النَّاسِ سَبْعَ سِنِیْنَ ۔

”عباد بن عبداللہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں ہی صدیق اکبر ہوں اور میرے بعد کوئی بھی اپنے آپ کو صدیق اکبر نہیں کہلا سکتا لیکن سوائے جھوٹے اور کذاب کے اور میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی(یعنی سب سے پہلے خدا اور اُس کے رسول پر میں ایمان لایا)“۔

(د)۔ اسی طرح سب علمائے اہل سنت مثلاً حافظ ابی نعیم، ثعلبی، حافظ بن عساکر، سیوطی اور دوسرے بہت سے مفسرین سورئہ توبہ آیت۱۱۹( اِتَّقُوااللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْن ) میں ابن عباس اور دوسروں سے بھی روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ”الصادقین“ سے مراد علی ہیں ۔ روایت اس طرح سے ہے:

عَنْ ابنِ عباس فِی قوله تعٰالٰی ( اِتَّقُواللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ ) قَالَ نَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَامُ خٰاصَّةً“

”ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آیت صرف علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۲۸۲،حدیث۸۱۲،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین ، صفحہ۲۴۶،۲۴۷، حدیث۲۹۶۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۶اور باب۲۴،صفحہ۱۲۳۔

۴۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل۔

۴۵

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۴۲،صفحہ۱۴۶۔

۶۔ نسائی، کتاب خصائص امیرالمومنین ، حدیث۶،صفحہ۳۸۔

۷۔ سیوطی ،کتاب اللئالی المصنوعہ، باب فضائل علی ، جلد۱،صفحہ۱۶۰۔

۸۔ احمد بن حنبل، کتاب الفضائل، باب فضائل امیر المومنین ،حدیث۱۱۷،صفحہ۷۸۔

۹۔ حافظ المزی،کتاب تہذیب الکمال، ترجمہ العلاء بن صالح، جلد۴،صفحہ۱۹۳۔

سترہویں آیت

اللہ تعالیٰ نے علی کے وسیلہ سے پیغمبر کی مدد کی

( هُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْنَیٰٓاَ یُّهَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُومِنِیْنَ )

”وہ وہی ہے جس نے اپنی امداد سے اور مومنین کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی تھی۔

اے نبی! تمہارے لئے اللہ اور مومنین میں سے جو تمہارا اتباع کرتے ہیں، وہی کافی ہیں ہیں“۔(سورئہ انفال: آیات۶۲،۶۴)۔

تشریح

کچھ مفسرین نے ان آیات کے ضمن میں خصوصاً آیت :۶۴کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب یہودیوں کے قبائل بنی قریظہ اور بنی نضیر کے کچھ افراد پیغمبر اسلام کی خدمت میں مکروفریب سے حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ” اے پیغمبر خدا! ہم حاضر ہیں کہ آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی پیروی کریں اور مدد کریں“۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے کہہ رہا ہے کہ ہرگز کسی غیر پر اعتماد نہ کریں بلکہ اللہ اور وہ مومنین جو آپ کی اتباع کرتے ہیں، آپ کے لئے کافی ہیں، انہی پر اعتماد کریں(تفسیر تبیان، جلد۵،صفحہ۱۵۲)۔

۴۶

اہل سنت اور شیعہ علماء کی کثیر تعداد روایات لکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ ان دو آیتوں میں مومنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ اگرچہ دوسرے مومنین بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن ان آیتوں کے مصداق(پوری طرح آیت کے مطابق) علی ابن ابی طالبعلیہما السلام ہیں۔ پیغمبر اسلام نے ہمیشہ تمام مشکلات اور سخت حالات میں علی علیہ السلام کے وجود مقدس پر فخر کیا۔ ذیل میں لکھی گئی دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبِیْ هُریرةِ قَالَ: قال رسولُ اللّٰه رَأَیْتُ لَیْلَةً اُسْرِیَ بِی اِلَی السَّمٰاءِ عَلَی الْعَرْشِمَکْتُوْباً: لَااِلٰهَ اِلّٰا أَنَا وَحْدِیْ لَا شَرِیْکَ لِیْ وَمحمدًعَبْدِی وَرَسُوْلِی اَیَّدْتُهُ بِعَلیٍّ(قال)فَذٰلِکَ قَوْلُهُ ( هُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْن ) ۔

”ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ شب معراج میں نے دیکھا کہ عرش پر لکھا ہوا تھا :’میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں تنہا اور لاشریک ہوں اور محمد میرا بندہ اور میرا رسول ہے اور میں نے علی کے ذریعے سے اپنے رسول کی مدد کی ہے اور اس آیت شریفہ( هُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْنَ ) میں بھی اسی طرف اشارہ ہے“۔

(ب)۔ حافظ حسکانی جو اہل سنت کے نامور عالم ہیں، کتاب شواہد التنزیل میں روایت نقل کرتے ہیں جو معتبر اسناد کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے والد بزرگوارحضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔ انہوں نے اس آیت( یٰٓاَ یُّهَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُومِنِیْنَ ) کی تفسیرمیں فرمایا کہ یہ آیت علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے جو ہمیشہ رسول اللہ کے مددگار و حامی و ناصر رہے ہیں۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں حدیث۹۲۶، باب احوال امیرالمومنین ، ج۲،ص۴۱۹

۲۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۴۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۳،صفحہ۲۱۶،اشاعت دوم، صفحہ۱۹۹۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ۲۹۹،جلد۱،صفحہ۲۲۳اور اشاعت اوّل میں جلد۱،صفحہ۲۳۰،شمارہ۳۰۵۔

۴۷

۵۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، باب مناقب علی علیہ السلام، جلد۹،صفحہ۱۲۱۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۲۳،صفحہ۱۰۹ اور باب۲ص۲۱

۷۔ ذہبی، میزان الاعتدال، ج۱،ص۲۶۹،حدیث۱۰۰۶اور ص۵۳۰،ج۱،شمارہ۱۹۷۷۔

۸۔ المحب الطبری، کتاب ریاض النضرہ، جلد۲،صفحہ۱۷۲۔

۹۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال،جلد۶،صفحہ۱۵۸، اشاعت اوّل۔

اٹھارہویں آیت

حضرت علی کا بغض اور دشمنی شقاوت قلب، نفاق اور انسان کی بدبختی کا باعث ہے

( وَلَوْنَشَآءُ لَاَرَیْنَکَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِیْمٰهُمْوَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ )

”اور اگر ہم چاہیں تو ہم اُن لوگوں کو تمہیں دکھلا دیں پھر تم اُن لوگوں کو اُن کی علامتوں سے پہچان لو اور تم اُن کو اُن کی بات کے لہجے سے ضرور پہچان لوگے“۔(سورئہ محمد، آیت:۳۰)۔

تشریح

اس آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر اسلام کومنافقین کی اور شقاوت قلبی رکھنے والے انسانوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے :”اگر ہم چاہیں تو ہم تمہیں اُن کی شناخت کروادیں گے“ تاکہ صرف اُن کی چال ڈھال اور قیافہ دیکھنے سے ہی اُن کو پہچا ن لو۔ اس کے علاوہ اُن کے لہجہ و کلام سے بھی پہچان سکتے ہو کہ اُن کے ناپاک دلوں میں کیا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن کے بولنے کا انداز کیا تھا کہ پروردگار نے اُس کو منافقین کے پہچاننے کا ایک اہم طریقہ بتایا۔اس ضمن میں اہل سنت اور شیعہ علماء نے جو روایات بیان کی ہیں، اُن پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ منافقین کے دلوں میں حضرت علی علیہ السلام کیلئے شدید دشمنی اور کینہ پایا جاتا تھا۔

۴۸

البتہ وہ اپنی اس دشمنی اور کینہ کو رسول اللہ کی زندگی میں واضح طور پر ظاہر نہیں کرتے تھے۔ شاید وہ اس میں اپنی بھلائی اور فائدہ نہیں دیکھتے تھے ۔ اس لئے وہ موقع بہ موقع رسول اللہ اور مسلمانوں کے پاس آکر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بدگوئی کرتے تھے اور تنقید کرتے تھے۔ اُن کی اس چال کا مقصد صرف حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کے درمیان کمزور کرنا اور اُن کی محبوبیت کو کم کرنا تھا۔

لیکن خدائے بزرگ نے یہ آیت نازل کرکے اُن کے مکروفریب کو باطل کردیا اور اُن کے ناپاک چہروں کو سب کے سامنے آشکار کردیا۔ اس ضمن میں دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبی سعیدُالخَدْری فِی قوله عزوجل”وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ“ قال بِبُغْضِهِمْ عَلَیّاً عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ اس آیت’( وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ ) کی تفسیر میں فرمایاکہ یہ علی کی دشمنی اور بغض کی وجہ سے ہے(یعنی دشمنی علی اُن کی زبان سے ظاہر ہوجاتی ہے)“۔

(ب)۔ درج ذیل روایت کو اکثر مفسرین نے اس آیت کی بحث کے دوران ذکر کیا ہے اور رسول اکرم کے خاص صحابہ کی زبان سے بیان کی گئی ہے جیسے ابی سعید اور دوسروں نے نقل کیا ہے:

کُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِیْنَ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ بِبُغْضِهِمْ عَلِیّاً ۔

”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو اُن کی علی علیہ السلام سے دشمنی کے سبب پہچانتے تھے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۱۷۸،حدیث۸۸۳،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،ج۲، ص۴۲۱،حدیث۹۲۹،باب احوال علی ،اشاعت۲

۳۔ گنجی شافعی،کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۵۔

۴۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیرالمومنین ، حدیث۳۵۹،۳۶۲،صفحہ۳۱۵۔

۵۔ سیوطی، تفسیر المدرالمنثور، جلد۶،صفحہ۷۴اورتاریخ الخلفاء،صفحہ۱۷۰۔

۴۹

۶۔ ابن عمر یوسف بن عبداللہ، کتاب استیعاب، جلد۳،صفحہ۱۱۰۔

۷۔ بلاذری، انساب الاشراف، جلد۲،صفحہ۹۶،حدیث۱۹،اشاعت اوّل از بیروت۔

۸۔ متقی ہندی کنزالعمال، جلد۱،صفحہ۲۵۱،اشاعت اوّل اور اسی طرح احمد بن حنبل ۔

کتاب فضائل میں اور ابن اثیر کتاب جامع الاصول میں، طبری کتاب ریاض النضرہ میں اور بہت سے دوسرے۔

اُنیسویں آیت

علی صالح المو منین ہیں

( وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ )

”اور اگر تم دونوں ہمارے رسول کے برخلاف ایک دوسرے کے پشت و پناہ بنو تو اللہ ، جبرئیل اور صالح مومنین اُس کے مددگار ہیں“۔(سورئہ تحریم:آیت۴)

تشریح

یہ نکتہ توجہ طلب ہے کہ اگرچہ کلمہ”صالح المومنین“ اپنے اندر وسیع تر معنی رکھتا ہے اور تمام صالح مومنین اور پرہیز گار اس میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن مومن کامل اور اکمل ترین انسان کون ہے؟اس کے لئے ہمیں روایات سے مدد لینا ہوگی اور روایات کو دیکھنا ہوگا۔ تحقیق کرنے پر بڑی آسانی سے ہم منزل تک پہنچ جائیں گے ۔ شیعہ علماء سے منقول روایات کے علاوہ اہل سنت نے بھی بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ ان سب سے یہی پتہ چلتا ہے کہ متذکرہ بالا آیت میں صالح مومنین سے مراد ذات مقدس امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ یہاں ہم چند ایک روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

(ا)۔عَنْ اَسماءِ بنتِ عُمَیس قٰالَتْ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ یَقْرَأُ هٰذِهِ الآیَة:وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ، قَالَ صَالِحُ المُومِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْطَالِب ۔

۵۰

”اسماء بنت عمیس روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے پیغمبر اسلام سے یہ آیت سنی( وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلٰهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ ) آیت پڑھنے کے بعد پیغمبر خدا نے فرمایا کہ صالح المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں“۔

(ب)۔عَنْ السُّدی عَن ابنِ عَبَّاس، فِی قَولِه عَزَّوَجَلَّ’وَصَالِحُ المُومِنِیْنَ قَالَ:هُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِب ۔

”سدی، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کہ جس میں صالح المومنین کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

(ج)۔عَنْ مُجٰاهِد فی قَولِهِ تَعٰالٰی:”وَصَالِحُ المُومِنِیْنَ“ قَالَ: صَالِحُ المُومِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِب ۔

”مجاہد سے روایت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس کلام میں جہاں صالح المومنین کا تذکرہ ہے، وہاں صالح المومنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۹۸۴ اور ۹۸۵،جلد۲،صفحہ۲۵۷۔

۲۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، باب۶۷،جلد۱،صفحہ۳۶۳۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۲۴۴اور اشاعت دیگر صفحہ۲۶۹،۲۷۰۔

۴۔ ابن مغازلی، مناقب امیر المومنین میں، حدیث۳۱۶،صفحہ۲۶۹،اشاعت اوّل۔

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایت الطالب میں، باب۳۰،صفحہ۱۳۷۔

۶۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال میں،حدیث لا شی، جلد۱،صفحہ۲۳۷، اشاعت اوّل۔

۷۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۴۲۵، اشاعت دوم، حدیث۹۳۲،۹۳۳۔

۸۔ ابن حجر فتح الباری میں، جلد۱۳،صفحہ۲۷۔

۵۱

بیسویں آیت

قیامت کے دن لوگوں سے ولایت علی کے بارے میں سوال کیا جائے گا

( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ )

”اور ان کو ٹھہرا ؤ کہ ابھی ان سے سوالات کئے جائیں گے“۔(سورئہ صافات:آیت۲۴)

تشریح

سورئہ مبارکہ صافات کے ایک حصہ میں جہاں پروردگار قیامت اور اس کے متعلقہ مسائل اور عذاب عظیم جو مشرکین اور گمراہوں کے انتظار میں ہے، کے بارے میں بیان فرماتا ہے، اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) سے اپنے تمام فرشتوں اور ملائکہ کو اُس دن دوسرے احکام کے ساتھ یہ اہم حکم دے گا اور وہ حکم یہ ہوگا کہ اے میرے فرشتو ! ان کو روک لو ، ابھی ان سے سوال کیا جائیگا۔

لوگوں کے اس سوال پر کہ قیامت والے دن اس آیت کے مطابق کونسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے مختلف جواب دئیے ہیں۔ کچھ نے کہا ہے کہ توحید کے بارے میں سوال کیا جائے گا، کچھ نے کہا ہے کہ اُس دن لوگوں سے بدعتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو وہ دنیا میں چھوڑ گئے، کچھ اوروں نے مختلف دیگر چیزوں کا ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ جوابات آیت کے مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اہل سنت اور شیعہ کتب میں بہت سی روایات موجود ہیں جن کے مطابق باقی اہم سوالوں کے علاوہ جو مجرموں سے پوچھے جائیں گے، ولایت علی ابن ابی طالب کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔ اس مطلب کی وضاحت کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبِیْ سعید خدری، عَنْ النبی فی قوله تعالٰی ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) قال: عَنْ وِلَایَةَ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِب ۔

”ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) ک ی تفسیر میں فرمایا کہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

۵۲

(ب)۔وَرَوِیٰ اَبُوالْاَحْوَضِ عَنْ أَبی اسحٰاقِ فی قولِهِ تعٰالٰی: ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) قَالَ یَعنی مِنْ وِلَایَةِ عَلِیِّ ابنِ اَبِی طَالِب اِنَّهُ لَا یَجُوْزُ اَحَدُالصِّرَاطَ اِلَّا وَبِیَدِهِ بَرَاةً بِوِلَایةِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب ۔

”ابو احوض، ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس آیہ شریفہ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) کی تفسیر میں کہا کہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائیگااور مزید کہا:”اِنَّهُ لَا یَجُوْزُ اَحَدُالصِّرَاطَ اِلَّا وَبِیَدِهِ بَرَاةً بِوِلَایَةِ عَلِی“ ’ کسی کو پل صراط سے گزرنے کا حق حاصل نہ ہوگا مگر وہ جس کے ہاتھ میں ولایت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کا پروانہ ہوگا‘۔

(ج)۔عَنْ اِبْنِ عباس فِی قولِه عَزَّوَجَلَّ ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْن ) قَالَ:عَنْ وِلَایةِ علی ابنِ ابی طالب ۔

”ابن عباس سے اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْن ) کي باري م یں روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب۴،جلد۱،صفحہ۷۹۔

۲۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ۷۸۷،جلد۲،صفحہ۱۰۶،اشاعت اوّل۔

۳۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال، باب حال علی بن حاتم، ج۳،ص۱۱۸،شمارہ۵۸۰۲۔

۴۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۴۷۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۳۷،صفحہ۱۳۳اور اسی کتاب میں

باب مناقب ،صفحہ۲۸۲،حدیث۵۱۔

۶۔ خوارزمی، کتاب مناقب، باب۱۷،صفحہ۱۹۵۔

۷۔ ہیثمی، کتاب صواعق المحرقہ، صفحہ۸۹اور کتاب لسان المیزان،جلد۴،صفحہ۲۱۱۔

۸۔ ابن جوزی، کتاب تذکرة الخواص، باب دوم، صفحہ۲۱۔

۵۳

اکیسویں آیت

اللہ تعالیٰ نے جنگوں اور مشکلات میں مسلمانوں کی مدد علی کے وسیلہ سے کی

( وَرَدَّاللّٰهُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْابِغَیْظِهِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًاوَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَالَوَکَانَ اللّٰهُ قَوِیًّا عَزِیْزًا )

”اور اُن لوگوں کو جو کافر ہوگئے تھے، اللہ نے اُن کے غصے ہی کی حالت میں لوٹا دیا کہ وہ کسی مراد کو نہ پہنچیں اور اللہ نے مومنوں پر لڑائی کی نوبت ہی نہ آنے دی اور اللہ صاحب قوت اور صاحب غلبہ ہے“۔(سورئہ احزاب: آیت۲۵)۔

تشریح

یہ آیت سورئہ احزاب سے ہے جس کی کچھ دوسری آیتیں جنگ خندق(جنگ احزاب) کے متعلق ہیں۔ جنگ خندق ایسی جنگ ہوئی ہے جس میں مسلمانوں کو کامیابی معجزانہ طور پر نصیب ہوئی اور بغیر کسی وسیع قتل و غارت کے کفار شکست خوردہ اور مایوس ہوکر مدینہ کے محاصرے کو توڑ کر ناکام واپس اپنے علاقوں کی طرف چلے گئے۔اس میں مدد غیبی کی ایک شکل تو قدرت کی طرف سے زبردست طوفان اور سخت ترین سرد ہوائیں چلیں جس نے کفار کے حوصلے پست کردئیے ۔ اُن کے دلوں میں خدائی طاقت کا رعب اور ڈر بیٹھ گیا اور دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام نے اُن کے طاقتور ترین پہلوان اور جنگجو یعنی عمر بن عبدود پر وہ کاری ضرب لگائی کہ وہ نیست و نابود ہوگیا۔ اس سے کفار کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا اور وہ مایوسی میں تبدیل ہوگئیں۔ کفارکے بڑے بڑے سرداروں کے حوصلے پست ہوگئے۔

اس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کی فداکاری اور کارکردگی اتنی اہمیت کی حامل تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:

”لَمُبارِزَةُ عَلِی ابنِ ابی طالب لِعُمروبنِ عَبدُوَدیَومَ الْخَنْدَقِاَفْضَلُ مِنْ اَعْمٰالِ اُمَّتِیْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰامَةِ“

”حضرت علی علیہ السلام کی جنگ خندق میں ایک ضربت میری تمام اُمت کی قیامت تک کی عبادت سے افضل ہے“۔

حاکم، کتاب المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۳۲۔

شیخ سلیمان قندوزی، ینابیع المودة، باب۲۳،صفحہ۱۰۹اور باب۴۶،ص۱۶۱اوربہت سے دوسرے۔

۵۴

اب اس آیت کی تفسیر میں چند ایک روایات بیان کی جارہی ہیں جو توجہ طلب ہیں:

(ا)۔عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ اِنّه کَانَ یَقْرَاُ هٰذِهِ الآیة”وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَالَ“ بِعَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”عبداللہ بن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ وہ یہ آیت

( وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال )

تلاوت فرمارہے تھے اور اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام کی ذات مقدس کو لے رہے تھے“۔

(ب)۔عَنْ عبداللّٰهِ بن مسعود قَالَ: لَمَّا قَتَلَ عَلِیٌّ عمروبن عَبْدُوَدْ یَوْمَ الْخَنْدَقِ، اَنْزَلَ اللّٰهُ تعالٰی:”وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال“بِعَلِیٌّ ۔

”عبداللہ بن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے جنگ خندق میں عمربن عبدود کو ہلاک کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت

( وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال )

حضرت علی علیہ السلام (کے عمل) کی خاطر نازل فرمائی“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی کتاب شواہد التنزیل میں، شمارہ۶۲۹،جلد۲،صفحہ۳۔

۲۔ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، باب حال امیرالمومنین ، شمارہ۹۲۷،جلد۲،صفحہ۴۲۰،

اشاعت دوم(شرح محمودی)۔

۳ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، شمارہ۴۱۴۹،جلد۲،صفحہ۳۸۰۔

۴۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۴۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب۲۳،صفحہ۱۰۸اور باب۴۶،ص۱۶۱۔

۶۔ سیوطی تفسیر الدالمنثور میں، جلد۵،صفحہ۲۰۹۔

۵۵

بائیسویں آیت

علی اورفاطمہ علم و معرفت کے دریائے بیکراں ہیںاور حسن و حسین اُن کے انتہائی قیمتی موتی ہیں

( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِبَیْنَهُمَابَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِفَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَآ تُکَذِّبٰنِیَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلو وَالْمَرْجَانُ )

”اُس نے دودریا بہادئیے، وہ باہم ملتے ہیں اور اُن دونوں کے مابین پردہ ہے کہ ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کرسکتا۔پھر تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ اُن دونوں سے موتی اور مونگا برآمد ہوتے ہیں“۔(سورئہ رحمٰن:آیات۱۹تا۲۱)۔

تشریح

وہ افراد جو قرآن اور علوم قرآن سے واقف ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کتاب آسمانی اپنے اندر معنی کا سمندر رکھتی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک آیت بعض اوقات چند معنی رکھتی ہو اور بعض اوقات بیسیوں معنی رکھتی ہو جبکہ اُن کا ہر معنی اپنی جگہ قابل توجہ اور اہمیت کا حامل ہو اور وہ ایک دوسرے سے ٹکراؤ بھی نہ رکھتے ہوں۔مثال کے طور پر یہ چند آیات جو سورئہ رحمٰن سے ہیں اوراوپر بیان کی گئی ہیں، اس طرح کی آیات ہیں جن کے مختلف معنی نکل سکتے ہیں۔

وہ لوگ جو ان آیات کو ظاہری اعتبار سے دیکھتے ہیں تو اُن کے اذہان میں یہی معنی آتے ہیں کہ کرئہ ارض کے بڑے بڑے دریا اور سمندر جو اس کے تین چوتھائی حصے پر پھیلے ہوئے ہیں اور اُن کے اندر بڑے بڑے قیمتی گوہر اور معدنیات موجود ہیں، یہ خدائے بزرگ کی طرف سے عظیم نعمتیں ہیں۔ یہ سب ،انسان کو غوروفکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ دیکھیں کہ خدا نے انسان کیلئے کس طرح یہ دریااور سمندر پھیلائے اور اُن میں بیش بہا نعمتیں پیدا کیں۔ لیکن ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ ان آیات کے دوسرے مطالب ہیں جو مقصود خالق ہیں۔

۵۶

روایات اور اطلاعات جو اسلامی تاریخ میں موجود ہیں، اُن کو بغور دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان آیات سے دو عظیم ہستیوں کا تعارف کروانا مقصود ہے۔ وہ ہستیاں جو علم و معرفت اور کمال کے دریائے بیکراں ہیں اور ان سے ملنے والے دو قیمتی موتی حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ہیں۔توضیح کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں:

عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰه عنه فی قوله تعالٰی ( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن ) قال:علی و فاطمه ،( بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ ) اَلنّبی،( یَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلو وَالْمَرْجَانُ ) قال:اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْن علیهماالسلام ۔

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ تفسیر( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن ) سے مراد علی علیہ السلام اور فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں۔”بَیْ نَھُمَابَرْزَخٌ لَّایَبْغِ یٰن“ سے مراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے(پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات جناب علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے درمیان وہ واسطہ ہے جس سے یہ صحیح بندگی خدا اور اُس کی عبودیت کے لئے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح اُن کی ذات گرامی سے خود بھی فیض یاب ہوتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے بطور نمونہ اُن کی رہنمائی اور ہدایت کا باعث بنتے ہیں)۔( یَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلووَالْمَرْجَانُ ) سے مراد امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام ہیں۔

یہ قابل توجہ بات ہے کہ درج بالا روایت کو علمائے اہل سنت نے دوسرے صحابہ سے بھی نقل کیا ہے اور شیعہ علماء نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے اور یہ روایت بجائے خود بہت اہمیت کی حامل ہے۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۱۵۸اور دوسری اشاعت میں ج۶،ص۱۴۲

۲۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل ، حدیث۹۱۹،ج۲،ص۲۰۹،اشاعت اوّل،ج۲،

صفحہ۲۱۲،اشاعت دوم۔

۳۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین ، صفحہ۳۳۹،حدیث ۳۹۰۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۳۹،صفحہ۱۳۸۔

۵۷

۵۔ ثعلبی، تفسیر ثعلبی میں جلد۴،صفحہ۲۸۹۔

۶۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب ”مانزل من القرآن فی علی “،اس آیت کی تشریح میں۔

۷۔ شبلنجی، کتاب نورابصار میں، صفحہ۱۰۱۔

۸۔ خوارزمی، کتاب مقتل الحسین ، صفحہ۱۱۲۔

۹۔ کراجکی، کتاب کنزالفوائد میں، صفحہ۳۶۶۔

تئیسویں آیت

علی اور اہل بیت سے محبت نیکی ہے اور ان سے بغض گناہ ہے

( مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرٌ مِّنْهَا وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍاٰمِنُوْنَ وَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعَْمَلُوْنَ )

”جو شخص کوئی نیکی لے کر آئے گا پس اُس کیلئے اس کا عوض اس سے بہتر موجود ہے اور وہ اُس دن خوف سے امن میں ہوں گے اور جو بدی لے کر آئے گا وہ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے، جو کچھ تم کرتے تھے، اُسی کا بدلہ تمہیں ملے گا“(سورئہ نمل:آیت۸۹اور۹۰)

تشریح

اس آیت میں دو الفاظ یعنی”حَسَنَةِ“ اور”سَيِّئَةِ“ استعمال ہوئے ہیں۔آیت کا اصلی مقصد بھی انہی کو سمجھانا ہے کہ نیکی اور بدی اصل میں کہتے کسے ہیں کیونکہ اس کا انسان کی مادّی اور روحانی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

”حَسَنَةِ“ اور”سَيِّئَةِ“ ، یہ دوالفاظ اس آیت میں اور قرآن کی دیگر آیات میں استعمال ہوئے ہیں۔ان الفاظ کے مفہوم اور معنی نہایت وسیع ہیں مثلاً”حَسَنَةِ“ میں تمام نیک اور پسندیدہ اعمال شامل ہیں اور ان میں سرفہرست خدا پر ایمان، اُس کے پیغمبر پر ایمان اور حضرت علی علیہ السلام اور آئمہ علیہم السلام کی ولایت پر ایمان ہے اور”سَيِّئَةِ“ میں تمام قبیح اور ناپسندیدہ اعمال شامل ہیں جو انسان کو خدا اور اُس کے رسول

۵۸

اور اُس کے اولیائے حق کے خلاف سرکشی پر ابھارتے ہیں اور یہ ”حَسَنَة“کی مکمل ضد ہے۔ لیکن ان کلمات کی تفاسیر اور تعابیر جو ہم تک آئمہ معصومین کے ذریعے سے پہنچی ہیں اور جسے بہت سے علمائے اہل سنت اور شیعہ نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے، کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ”حَسَنَة“ سے مراد قبول ولایت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور اُن کی اولاد ہیں اور ”سَےئَة“ سے مرادعدم قبول ولایت علی اور اولاد علی ہے۔درج ذیل روایت میں اسی بات کی تفسیر ہے:

عَنْ ابی عبدِاللّٰهِ الجَدَلِی قال: قٰال لی علی علیه السلام:اَلٰا اُنَبِّئُکَ بِالْحَسَنَةِ الَّتِی مَنْ جٰاءَ بِهٰااَدْخَلَهُ اللّٰهُ الجَنَّةَ وَبِالسَّيّئَةِ الَّتِی مَنْ جٰاءَ بِهٰااَکَبَّهُ اللّٰهُ فِی النّٰارِوَلَمْ یُقْبَلُ لَه عَمَلاً؟ قُلْتُ بلٰی ثُمَّ قَرَأَ(امیرالمومنین) مَنْ جٰاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرُ مِنْهٰاوَهُمْ مِنْ فَزَعِ یَومَئِذٍآمِنُوْنَ وَمَنْ جٰاءَ بالسَّيّئَةِ فَکُبَّتْ وَجُوْهَهُمْ فِی النَّارِهَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ثُمَّ قٰالَ: یٰا أَبٰاعَبْدِاللّٰهِ، اَلْحَسَنَةُ حُبُّنٰاوَالسَّيِّئَةُ بُغْضُنَا

”ابو عبداللہ جدلی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:’کیا میں تجھے اُس نیک عمل کی خبر نہ دوں کہ جو کوئی اُس کو انجام دے گا، پروردگار اُس کو بہشت میں داخل کرے گا اور کیا تجھے اُس بدعمل کی خبر نہ دوں کہ اُسے جو کوئی انجام دے گا، پروردگار اُسے جہنم میں پھینکے گااور اُس کاکوئی دوسراعمل بھی قبول نہ ہوگا‘۔

میں نے عرض کی:’ہاں مولا! میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اس سے باخبرکریں‘۔ حضرت علی علیہ السلام نے پھر یہ آیت پڑھی:

مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرٌ مِّنْهَا وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍاٰمِنُوْنَوَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِهَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلَُوْنَ

پھر فرمایاحَسَنَةہم اہل بیت سے محبت ہے اورسَےئَة اہل بیت سے بغض و دشمنی ہے۔اسی طرح بعض دوسری روایات میں آیاہے کہ آپ نے اس بارے میں فرمایا:

”اَلْحَسَنَةُ مَعْرِفَةُ الْوِلَایَةِ وَحُبُّنٰا اَهْلِ الْبَیْتِ وَالسِّيِّئَةُ اِنْکَارُ الْوِلَایَةِ وَبُغْضُنَا اَهْلَ الْبَیْتِ“ ۔

”حَسَنَة یعنی معرفت ولایت علی علیہ السلام اورہم اہل بیت سے محبت ہے اور سَّےئَة یعنی انکار ولایت علی علیہ السلام اور ہم اہل بیت سے بغض و دشمنی ہے“۔

۵۹

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب۶۱،جلد۲،صفحہ۲۹۹۔

۲۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۵۸۲،۵۸۷،ج۱،ص۴۲۶،۴۲۸

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۲۴،صفحہ۱۱۳۔

۴۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں، جلد۲۔

۵۔ الحنینی کتاب خصائص الوحی المبین، صفحہ۱۲۸۔

۶۔ رشید الدین، مناقب آل علی ، جلد۲،صفحہ۲۲۵،عنوان درجات علی عند قیام الساعة۔

چوبیسویں آیت

اللہ تعالیٰ علی کے وسیلہ سے کفارو مشرکین سے انتقام لیتا ہے

( فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ )

”پس اگر تم کو ہم لے جائیں گے تو ہم اُن سے بھی ضرور ہی بدلہ لینے والے ہیں“۔

(سورئہ زخرف:آیت۴۱)۔

تشریح

سورئہ مبارکہ زخرف میں اللہ تعالیٰ کفار کی حرکتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے پیغمبر کی تسلی اور سکون کی خاطر فرمارہا ہے کہ کفار کی چالوں کی وجہ سے اسلام کے مستقبل کے بارے میں بالکل پریشان نہ ہوں کیونکہ اگر وہ کفر، ظلم اور انتقام جوئی کو ترک نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ بھی یقینا اُن سے انتقام لے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بشری زندگی کے مختلف زمانوں میں اپنے قابل دید اور ناقابل دید لشکروں سے کفار، منافق اور مشرکوں سے انتقام لیتا رہا ہے اور اُن کوسزائیں دیتا رہا ہے اور یہ عمل اُس کیلئے کوئی مشکل نہیں کیونکہ اُس کی ذات

( فَعَّالٌ لِمٰا یُرِیْد )

”وہ جو چاہتا ہے ، کرتا ہے“۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

ابن زمعہ نے انہیں زمین پر گرادیا،اور کہا جاتا ہے کہ جحوم ،عثمان کے غلام نے انہیں اٹھایا اور پھر بہت تیز ز مین پر اس طرح سے گرایا کہ ان کے دانت ٹوٹ گئے اس وقت حضرت علی نے اعتراض کیا اور کہا :صرف ولید کی شکایت پر تم پیغمبر کے صحابی پر یہ ظلم کررہے ہو؟

با لآخر امام عبداللہ کو اپنے گھر لے گئے لیکن عثمان نے اسے مدینہ سے باہر نکلنے پر پابندی لگادی وہ مدینے ہی میں رہے یہاں تک کہ ۳۲ ھ میں ( عثمان کے قتل ہونے سے ۳ سال پہلے) اس دنیا سے کوچ کر گئے۔(۱)

عبداللہ بن مسعود جب بستر بیماری پر تھے تو ان کے دوست و احباب ان کی عیادت کے لئے آئے ، ایک دن عثمان نے بھی ان کی عیادت کی اور دونوں کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ درج ذیل ہے :

عثمان : کس چیز کی وجہ سے فکرمند ہو ؟

عبداللہ : اپنے گنا ہوںکی وجہ سے۔

عثمان : کیا چاہتے ہو ؟

عبد اللہ : خدا کی وسیع ترین رحمت۔

عثمان: تمہارے لئے طبیب کا انتظام کروں ۔

عبداللہ : حقیقی طبیب نے بیمار کیاہے۔

عثمان: حکم دیدوں کہ تمہاری سابقہ پنشن ادا کردی جائے (۲سال سے ان کی پنشن روک دی گئی تھی)۔

عبداللہ: جس دن مجھے ضرورت تھی اس دن تم نے منع کردیا تھا اور آج جب کہ مجھے ضرورت نہیں ہے دینا چاہتے ہو؟

عثمان : ( یہ مال ) تمہا رے بچوں اور وارثوں تک پہونچے گا۔

عبداللہ : خدا ان لوگوں کو رزق دینے والاہے ۔

______________________

(۱) ۔حلیتہ الاولیاء ج ۱ ص۱۳۸۔

۳۲۱

عثمان: خدا سے میرے لئے استغفار کرو۔

عبداللہ: خدا سے یہی چا ہونگا کہ میرا حق تجھ سے لے لے۔

جب عبداللہ نے اپنے کو موت سے قریب پایا تو عماراور ایک روایت کی بنا پر زبیر کو اپنا وصی قرار دیا کہ عثمان کو میرے جنازے پر نماز نہ پڑھنے دینا ،یہی وجہ تھی کہ رات میں نماز جنازہ ہوئی اور دفن کر دیئے گئے،عثمان جب اس واقعہ سے با خبر ہوے توعمار سے پوچھا کہ کیوں عبداللہ کے مرنے کی خبر مجھے نہیں دی ، عمار نے کہا انہوں نے وصیت کیا تھا کہ تم ان کی لاش پر نماز نہ پڑھو، زبیر نے عثمان اور عمار کی گفتگو سننے کے بعد اس شعر کو پڑھا۔

لاعرفنک بعدا لمو ت تندبنی

وفی حیاتی ما زودتنی زادی

میں تجھے دیکھ رہا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد مجھ پر رو رہا ہے ، حالانکہ جب میں زندہ تھا تو نے میرا حق ادا نہیں کیا ۔

جناب عبداللہ بن مسعود پیغمبر کے جلیل القدر صحابی اور بزرگ قاریوں میں سے تھے اور جن کے بارے میں حضرت امیرالمومنین نے فرمایا تھا کہ''علم القر آن وعلم السنة ثم انتهی وکفی به علماً'' (۱)

ان پر ایسا ظلم وستم کرنا حقیقت میں بغیر کسی عکس العمل کے نہ تھا ، جب خلافت ایسے برے کام انجام دے تو لوگوں کے درمیان بدبینی اور انتقام لینے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اگر اس عمل کی تکرار کی وجہ سے لوگوں میں حکومت کے خلاف بغاوت اور انقلاب لانے کی فکر پیدا ہو جائے گی اور جو چیز نہیں ہو نی چاہیئے وہ ہو جاتی ہے ۔

______________________

(۱)یعنی:قرآن و سنت کو سیکھا اور آخر تک پہنچایا یا ان کے لئے یہی کافی ہے،انساب ج۵،ص۳۶۔تاریخ ابن کثیرج۷ص۱۶۳

۳۲۲

۲۔عمار یاسر پر ظلم وستم

یہ صرف عبداللہ بن مسعود نہ تھے جو خلیفہ کی بے توجہی کا نشانہ بنے ،بلکہ عمار یاسر بھی ان کے ظلم و ستم کانشانہ بنے ، ان پر ظلم وستم اور اہانت کی وجہ یہ تھی کہ خلیفہ نے بیت المال کے بعض زیورات کو اپنے

اہل وعیال کے لئے مخصوص کردیا تھا ، اور جب لوگ یہ دیکھ کر بہت غصہ ہوئے تو وہ اپنے دفاع اور صفائی کے لئے منبر پر گئے اور کہا: مجھے جس چیز کی بھی ضرورت ہوگی بیت المال سے لونگا ، اور ان لوگوں کو سخت سزا دوں گا (جو اعتراض کریں گے) علی نے خلیفہ کا جواب دیتے ہوئے کہا: تمہیںاس کام سے رو کا جائے گا۔

عمار نے کہا : خدا کی قسم میں وہ پہلا شخص ہوں جسے اس کی وجہ سے سزا دی جائے گی اس وقت عثمان نے تند لہجہ میں کہا ، اے بڑے پیٹ والے میرے سامنے تمہاری یہ ہمت ؟اسے پکڑ لو ، انھیں پکڑ لیا گیا اور اتنا مارا کی حالت غیر ہو گئی عمار کے دوستوں نے انہیں پیغمبر کی بیوی ام سلمہ کے گھر پہونچایا ، جب انہیں ہوش آیا تو کہا .خدا کا شکر یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ مجھ پر ظلم وستم ہوا ہے جب عائشہ کو اس واقعہ کی خبر ملی تو انہوں نے پیغمبر کا بال ،لباس اور نعلین باہر نکالا اور کہا ابھی پیغمبر کا بال ،لباس ، اور نعلین پرانا نہیں ہوا ہے اور عثمان نے ان کی سنت کو نظر انداز کردیا ہے عثمان عائشہ کی باتیں سن کر بہت غصہ ہوے مگر انہیں کوئی جواب نہیں دیا ۔

۳۲۳

ام سلمہ نے پیغمبر کے بزرگ ساتھی کی خوب تیما داری کی اور قبیلئہ بنی مخزوم کے افراد جو عمار کے ہم خیال تھے ام سلمہ کے گھر آتے جاتے تھے، یہ بات عثمان کو بہت بری لگی اور انہوں نے اعتراض کیا ، ام سلمہ نے عثمان کو پیغام بھجوایا : تم خود لوگوں کو اس کام پر مجبور کرتے ہو۔(۱)

ابن قتیبہ نے اپنی کتاب'' الا ما مة والسیا سة '' میں عمار پر ظلم و ستم کے واقعہ کو دوسری طرح نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :پیغمبر کے تمام صحابی ایک جگہ جمع ہوئے اور خلیفہ وقت کے نام خط لکھا اور اس میں ان کے ظلم وستم اور کمزوریوں کے بارے میںیہ تحریر کیا ۔

۱۔خلیفہ نے چندچیزوں میں پیغمبر کی سنت اور شیخین کی مخالفت کی ہے ۔

۲۔ افریقہ سے آئے ہوئے مال غنیمت کو ، جو کہ رسول اور ان کے اہلبیت (ع ) اور یتیموں اور مسکینوں کا حق تھا ، مروان کے سپرد کردیا ۔

۳۔عثمان نے اپنی بیوی نائلہ اور اپنی بیٹی کے لئے مدینے میں سات گھر بنوائے۔

۴۔ مروان نے بیت المال کی رقم سے مدینہ میں بہت سے ''قصر '' بنوائے ۔

۵۔ عثمان نے تمام سیا سی امور امویوںکے سپرد کر دیا تھا اور مسلمانوں کے تمام امور کی دیکھ بھال

______________________

(۱)انساب ج۵ ص۴۸

۳۲۴

ایسے نوجوان کے ہاتھ میں دے رکھی تھی جس نے ہر گز رسول خدا کو نہ دیکھا تھا۔

۶۔ کوفہ کے حاکم ولید بن عتبہ نے شراب پی کر مستی کے عالم میں صبح کی نماز چاررکعت پڑھائی اور پھر ما مو مین کو مخاطب کرکے کہاہے کہ اگر تم لوگ راضی ہو تو کچھ اور رکعتوں میں اضافہ کروں ۔

۷۔ ان تمام چیزوں کے باوجود ، عثمان نے ولید پر شراب پینے کی حد جاری نہیں کی ۔

۸۔ مہا جروانصار کو چھوڑ دیا ہے اور ان سے مشورہ وغیرہ نہیں کرتا۔

۹۔بادشاہوں کی طرح مدینے کے اطراف کی تمام زمینوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے ۔

۱۰۔ وہ لوگ جنہوں نے ہر گز پیغمبر کے زمانے کو درک نہیں کیا تھا اور نہ کبھی جنگ میں شرکت کی تھی اور نہ اس وقت ہی دین کا دفاع کررہے ہیں ، انہیں بہت زیادہ مال ودولت دیا اور بہت زیادہ زمین ان کے نام کردی ہے ، اس کے علاوہ بھی بہت سی خلاف ورزیاں ہیں ۔

ایک گروہ جس میں دس آدمی شامل تھے ان کے توسط سے یہ خط لکھا گیا لیکن عکس العمل کی وجہ سے لوگوںنے اس پر دستخط نہیں کیا اوراسے عمار کے حوالے کیا کہ عثمان تک پہونچا دیں، وہ عثمان کے گھر آئے اس وقت مروان اور بنی امیہ کے دوسرے گروہ عثمان کے اردگرد بیٹھے تھے، عمار نے خط عثمان کے حوالے کیا خلیفہ خط پڑھنے کے بعد لکھنے والو ں کے نام سے باخبر ہوگیا لیکن وہ سمجھ گیا کہ ان میں سے کوئی بھی ڈر کے مارے ان کے گھر نہیں آیا ہے یہی وجہ تھی کہ انہوں نے عمار کو مخاطب کر کے کہا: میرے ساتھ تمہاری جرأت بہت بڑھ گئی ہے مروان نے خلیفہ سے کہا: اس کالے غلام نے لوگوں کو تمہارے خلاف بھڑکایا ہے اگر اسے قتل کردیا گویا تم نے اپنا اوردوسروں کا بدلہ لے لیا ہے۔

۳۲۵

عثمان نے کہا: اسے مارو۔

سب نے انھیں اتنا مارا کہ بہت زیادہ زخمی ہوگئے اور حالت غیر ہوگئی، پھر اسی حالت میں انھیں گھر سے باہر پھینک دیا گیا۔

ام سلمہ پیغمبر کی بیوی اس واقعہ سے باخبر ہوئیں اور انھیں اپنے گھر لے آئیں ۔ قبیلۂ بنی مغیرہ کے لوگ جوعمار کے ہم فکر و خیال تھے اس واقعہ سے بہت زیادہ ناراض ہوئے۔ جب خلیفہ نماز ظہر پڑھنے کے لئے مسجد میں آئے ا س وقت ہشام بن ولید نے عثمان سے کہا: اگر عمار ان زخموں کی وجہ سے مر گئے تو بنی امیہ کے ایک شخص کو قتل کر ڈالوں گا۔

عثمان نے جواب میںکہا: تم ایسا نہیں کر سکتے۔

اس وقت علی کی طرف متوجہ ہوے دونوں کے درمیان سخت لہجہ میں گفتگو ہوئی۔ یہاں گفتگو طولانی ہونے کی وجہ سے ہم نقل کرنے سے پرہیز کر رہے ہیں۔(۱)

پانچویں وجہ، بزرگ شخصیتوں کو جلا وطن کرنا

پیغمبر اسلام (ص)کے بہت سے صحابی اور دوست جو امت کے درمیان حسن سلوک اور تقوے میں بہت مشہور تھے ان کو عثمان نے کوفہ سے شام اورشام سے ''حمص'' اور مدینہ سے ''ربذہ'' کی طرف جلا وطن کردیا۔

تاریخ اسلام کا یہ باب بہت ہی دردناک باب ہے اور اس کا مطالعہ کرنے والا ایک ظالم و ستمگر حکومت و خلافت کا احساس کرتا ہے اورہم اس باب میں چند کی طرف مختصرا ً اشارہ کریں گے اور چونکہ تقریباً سبھی لوگ ابوذر کی جلا وطنی سے باخبر ہیں(۲) لہذا ان کے حالات نقل نہیں کریں گے اور عثمان کی خلافت کے زمانے میںجودوسرے بزرگ جو جلا وطن ہوئے ہیں ان کے حالا ت قلمبند کر رہے ہیں۔

______________________

(۱) الامامة و السیاسة، ج۱، ص ۲۹۔

(۲) شخصیتہای اسلامی شیعہ، ج۱، ص ۸۔

۳۲۶

مالک اشتر اور ان کے ساتھیوں کی جلاوطنی

جیسا کہ بیان ہوچکاہے خلیفۂ سوم نے لوگوں کے دبائو کی بنا پر کوفہ کے بدترین حاکم و لید بن عتبہ کو حاکم کے منصب سے معزول کر کے سعید بن عاص اموی کو کوفہ کا حاکم بنادیا اور اسے حکم دیا کہ قرآن کے قاریوں اور مشہور و معروف افراد کے ساتھ اچھا روابط رکھے، یہی وجہ تھی کہ کوفہ کے نئے حاکم کی مالک اشتر اوران کے دوستوںکے ساتھ اوراسی طرح صوحان کے بیٹے زید اور صعصعہ کے ساتھ نشست و گفتگو ہوتی تھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوفہ کے حاکم نے مالک اشتر اوران کے ہمفکروں کو خلیفہ کا مخالف جانااورا س سلسلے میں اس نے خلیفہ سے خفیہ طور پر خط و کتابت کی اور اپنے خط میں لکھا :

مالک اشتر اور ان کے ساتھی قرآن مجید کے قاری ہیں لیکن میں ان کی موجودگی میں اپنا فریضہ انجام نہیں دے سکتا ، خلیفہ نے حاکم کوفہ کو جواب دیا کہ اس گروہ کو جلاوطن کر کے شام بھیج دو، اور اسی کے ساتھ مالک اشتر کو بھی خط لکھا : تم اپنے دل میں کچھ ایسی باتیں چھپائے ہو کہ اگر اس کو ظاہر کیا تو تمھاراخون بہانا حلا ل ہو جائے گا اور مجھے ہرگز اس بات کی امید نہیں ہے کہ تم اس خط کو دیکھنے کے بعد اپنے مشن سے دور ہو جائو گے مگر یہ کہ تم پر سخت بلا و مصیبت نازل ہو، جس کے بعد تمہاری زندگی ختم ہو جائے ، جیسے ہی میرا خط تمہارے پاس پہونچے فوراً شام کی طرف چلے جانا۔

جب خلیفہ کا خط کوفہ کے حاکم کے پاس پہونچا تو اس نے دس آدمیوں پر مشتمل گروہ جس میں کوفہ کے صالح اور متدین افراد تھے ، جلاوطن کر کے شام بھیج دیا جن کے درمیان مالک اشتر کے علاوہ صوحان کے بیٹے زید و صعصعہ اور کمیل بن زیاد نخعی ، حارث عبد اللہ حمدانی وغیرہ جیسی اہم شخصیتیں شامل تھیں۔

۳۲۷

قرآن کریم کے قاریوں اور بہادر و توانا خطیبوں اور متقیوں کے اس گروہ نے شام کے حاکم معاویہ کی زندگی کو بھی عذاب بنادیا تھا اور قریب تھا کہ وہاں کے افراد شام کے حاکم او رخلافت عثمان کے خلاف انقلاب برپا کردیں، لہذا معاویہ نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس گروہ کا شام میں موجود رہنا خلافت کے لئے خطرہ کا باعث ہے اس نے اپنے خط میں لکھا :

''تم نے ایسے گروہ کو شام میں جلاوطن کر کے بھیجا ہے کہ جس نے ہمارے شہر و دیار میں ہنگامہ اور جوش و خروش پیدا کردیا ہے، میں ہرگز مطمئن نہیں ہوں کہ شام بھی کوفہ کی طرح مشکلات میں گرفتار نہ ہو، اور شامیوں کی فکر صحیح و سالم اور استحکام کو خطرہ و مشکل نہ ہو ، معاویہ کے خط سے خلیفہ کے اندر خوف پیدا ہو گیا، خلیفہ نے جواب میں لکھا کہ اس گروہ کو حمص (شام کا ایک دوردراز پسماندہ علاقہ) جلاوطن کر کے بھیج دو۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ خلیفہ نے ارادہ کیا کہ اس گروہ کو دوبارہ کوفہ بھیج دے لیکن سعید بن عاص حاکم کوفہ نے خلیفہ کو اس چیز سے منع کردیا اور اسی وجہ سے وہ لوگ حمص جلاوطن ہوئے۔(۱)

جو لوگ خلیفۂ سوم کے نمائندوں کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے ایک شہر سے دوسرے شہر جلا وطن ہوئے

ان کا جرم یہ تھا کہ وہ لوگ حق بات اور خلافت کے نمائندوں پر تنقید کیا کرتے تھے وہ لوگ یہ چاہتے تھے کہ خلیفہ بھی سیرت پیغمبر پر چلے۔

خلیفہ کے شایان شان یہ تھا کہ کوفہ کے حاکم کی بات سننے کے بجائے کچھ امین اور سچے افراد کو کوفہ بھیجتے، تاکہ وہ حقیقت کا پتہ لگاتے اورایسے اہم کام میں صرف ایک نمائندہ کی بات پر اکتفا نہ کرتے۔

______________________

(۱)الانساب ج۵ ص ۴۳۔ ۳۹؛ اس کی تفصیل تاریخ طبری ج۳ ص ۳۶۸۔ ۳۶۰؛ (حادثہ کا سال ۳۳ھ) میں بیان ہوئی ہے۔

۳۲۸

جلاوطن ہونے والے افراد کون تھے؟

۱۔ مالک اشتر: اس عظیم شخصیت کا نام ہے جس نے پیغمبر (ص)کے زماکو درک کیا تھا اور کسی ایک مورخ نے ، ان کے خلاف ایک جملہ بھی نہیں لکھا ہے، اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے بیان میں ان کی اس طرح سے تعریف و توصیف کی ہے کہ آج تک کسی کی بھی اس طرح تعریف نہیں کی ۔(۱)

جب مالک اشتر کی وفات کی خبر امام کو ملی بہت زیادہ غمگین ہوئے اور کہا:

''و ما مالک؟ لوکان من جبل لکان فنداً و لو کان من حجر لکان صلداً أما و الله لیهدن موتک عالماً و لیفرحن عالماً علی مثل مالک فلیبک البواکی و هل موجود کمالک''؟ (۲)

کیا تم جانتے ہو کہ مالک کیسا آدمی تھا؟ اگر وہ پہاڑ تھا تو اس کی سب سے بلند چوٹی تھا (کہ اس پر سے پرندے پرواز نہیں کرسکتے) اور اگر وہ پتھر تھا تو بہت سخت پتھر تھا اے مالک تمہاری موت نے ایک دنیا کو غمگین اوردوسری دنیا کو خوشحال کردیا، مالک پر رونے والوں کی طرح گریہ کرو۔ کیا مالک کے جیسا کوئی موجود ہے؟

۲۔ زید بن صوحان: ان کی شخصیت کے بارے میں بس اتنا ہی کافی ہے کہ ابوعمر واپنی کتاب ''استیعاب'' میں لکھتا ہے۔

''یہ اپنے قبیلے کے بہت ہی با فضیلت، بزرگ اور دیندار تھے ،جنگ قادسیہ میں اپنا ایک ہاتھ قربان کرچکے تھے اور جنگ جمل میں امام علی کے رکاب میں جام شہادت نوش کیا۔(۳)

______________________

(۱) نہج البلاغہ، نامہ ۳۸،''فقد بعثت الیکم عبداً من عباد الله لاینام ایام الخوف...''

(۲)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۶ ص۷۷ (۳) استیعاب ج۱ ص ۱۹۷۔

۳۲۹

خطیب بغدادی لکھتا ہے: زید راتوں کو عبادت کرتے اوردن کو روزہ رکھتے تھے۔(۱)

۳۔ صعصعہ: زید کے بھائی صعصعہ بھی آپ ہی کی طرح بزرگ و باعظمت اور دیندار تھے۔

۴۔ عمر وبن حمق خزاعی: پیغمبر کے خاص صحابیوں میں سے تھے اور آپ کی بہت سی حدیثیں یاد کئے ہوئے تھے، انھوں نے جب رسول اسلام کو دودھ سے سیراب کیا تھا تو رسول اسلام نے ان کے لئے دعا کی تھی اور فرمایا تھا خداوند ااسے اس کی جوانی سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرما۔(۲)

ان افراد کی آشنائی سے ہمیں دوسرے جلاوطن افراد کی شناسائی ہوتی ہے، کیونکہ بحکم ''الانسان علی دین خلیلہ'' یہ سب کے سب ایک ہی فکر و نظر رکھتے تھے اور متحد تھے اور خلیفہ وقت کی غلط روش اور اس کے کارندوں پر ہمیشہ تنقید و اعتراض کیا کرتے تھے ان تمام افراد کی زندگی کے حالات اور ان کے علمی ، سیاسی اور معنوی مقامات کا تذکرہ کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ بحث طولانی ہو جائے گی، لہذا اپنی گفتگو کو مختصر کر رہے ہیں اور دوسرے افراد جو جلاوطن ہوئے ہیں ان کی اہم خصوصیات کو بیان کر رہے ہیں۔

کعب بن عبدہ نے اپنی دستخط کے ساتھ خلیفہ سوم کو خط لکھا اوراس میں کوفہ کے حاکم وقت کے برے کاموں کی شکایت لکھی، اورخط کوابو ربیعہ کے حوالے کیا، جس وقت قاصد نے خط ،عثمان کے سپرد کیا فوراً اسے گرفتار کرلیا گیا۔ عثمان نے کعب کے تمام ہمفکروں کو جنھوںنے (بغیر دستخط کے) اجتماعی طور پر خط لکھا تھا اورابو ربیعہ کودیا تھا اس سے پوچھا لیکن اس نے ان لوگوں کا نام بتانے سے انکار کیا ۔ خلیفہ نے قاصد کو سزا دینے کے لئے کہا: لیکن علی علیہ السلام نے اسے اس کام سے روک دیا ۔ پھر عثمان نے اپنے کوفہ کے حاکم سعد بن العاص کو حکم دیا کہ کعب کو ۲۰ تازیانے مارو جائے اور اسے رے جلاوطن کر کے بھیج دو۔(۳)

عبدالرحمن بن حنبل جمحی، پیغمبر کے صحابی کو مدینہ سے خیبر کی طرف جلاوطن کر دیا گیا ، ان کا جرم یہ تھا کہ خلیفہ کے عمل پر ، یعنی وہ مال غنیمت جوافریقہ سے آیاتھا اوراسے مروان کو دیدیا، اعتراض کیا تھا اوراس سلسلے میں یہ شعر بھی کہا تھا۔

______________________

(۱) معارف ابن قتیبہ ص ۱۷۶۔

(۲) تاریخ بغداد ج۸ ص ۴۳۹۔

(۳) انساب ج۵ ص ۴۳۔ ۴۱؛ تاریخ طبری ج۳ ص ۳۷۳۔ ۳۷۲۔

۳۳۰

و اعطیت مروان خمس الغنیمة

آثرته و حمیت الحمیٰ

مال غنیمت کا ۱۵ حصہ مروان کودیدیا اوراسے دوسروں پر مقدم سمجھا اور اپنے رشتہ داروں کی حمایت کی یہ مرد مجاہد جب تک عثمان زندہ رہا خیبر میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔(۱)

______________________

(۱) تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۵۰۔

۳۳۱

دوسری فصل

مقدمہ کا واقعہ اورعثمان کا قتل

پانچ عوامل کا عکس العمل

جو پانچ وجہیں ہم نے بیان کیں ان کی وجہ سے تمام اسلامی مملکتوں سے اعتراضات ہونے لگے اور خلیفہ اور اس کے تمام نمائندوں پر الزامات لگنے لگے ان تمام لوگوں پر یہ الزام لگایا گیا کہ سب کے سب صحیح اسلامی راستے سے منحرف ہوگئے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ صحابیوں اور مسلمانوں نے ہمیشہ خلیفہ سے درخواست کیا کہ اپنی روش کو بدل دیں یا یہ کہ مسند خلافت سے دور ہو جائیں۔

اس مخالفت و اعتراض کی عظمت اس وقت ظاہر ہوگی جب ہم بعض اعتراض کرنے والوں کے نام اور ان کی گفتگو سے آشنا ہوں ۔

۱۔ امیر المومنین علیہ السلام نے عثمان کے طور طریقہ پر بہت زیادہ گفتگو کی ہے، چاہے وہ قتل سے پہلے ہو یا قتل کے بعد ۔ انہی میں سے ایک یہ ہے جو امام کا خلیفہ کے کاموں سے متعلق یہ نظریہ ہے جس دن آپ نے مہاجرین کے فرزندوں کو شامیوں کے ساتھ جنگ کرنے کی دعوت دی، تو آپ نے فرمایا:

''یَا أَبْنَاء الْمُهٰاجِرِیْنَ انفروا علی ائمة الکفر و بقیة الاحزاب و اولیاء الشیطان انفروا الی من یقاتل علی دم حمّال الخطایا فو اللّهِ الذی فلق الحبة و برأ النسمة انه لیحمل خطایا هم الی یوم القیامة لاینقص من اوزارهم شیئاً'' (۱)

اے مہاجرین کے بیٹو! کفر کے سرداروں اور شیطان کے باقی بچے ہوئے دوستوں اور گروہوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے اٹھ جاؤ تاکہ اس کو قتل کرسکو جس کی گردن پر بہت سے گناہ ہیں ( یعنی عثمان کو قتل کیا ہے) اس خدا کی قسم کہ جس نے دانہ کو شگافتہ اورانسان کو پیدا کیا وہقیامت تک دوسروں کے گناہوں کو اپنے ذمہ لیتا رہے گا جب کہ دوسروں کے گناہوں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا۔

___________________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۲، ص ۱۹۴، (طبع جدید)

۳۳۲

امام نے اپنی خلافت کے دوسرے دن ایک تقریر کے دوران فرمایا:

''ألا ان کل قطیع أقطعها عثمان و کل مال أعطاه من مال الله فهو مردود فی بیت المال'' (۱)

ہر وہ زمین جسے عثمان نے دوسروں کو دیدیا ہے اورہر وہ مال جو خدا کے مال میں سے ہے اور وہ کسی کو دیا ہے ضروری ہے کہ وہ بیت المال کو واپس کیا جائے۔

امام کا یہ کلام اوردوسرے کلام خلیفہ کے کاموں کو روشن کرتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ واضح و ہ کلمات ہیں جو آپ نے خطبہ شقشقیہ میں بیان کیا ہے۔

''الی ان قام ثالث القوم نافجاً حضنیه، بین نثیله و معتلفه ،و قام معه بنو أبیه یخضمون مال الله خضم الابل نبتة الربیع'' (۲)

(غرض اس قوم کا تیسرا آدمی پیٹ پھیلائے اپنے گوبر اور چارے کے درمیان کھڑا ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے بھائی بند کھڑے ہوئے جو خدا کا مال اس طرح خوش ہو کرکھارہے تھے جیسے اونٹ موسم بہار کی گھاس خوش ہوہو کر کھاتاہے ، رضوی )

۲۔ پیغمبراسلام کی بیوی ،نے سب سے زیادہ عثمان کے کاموں کو غلط بتاتی تھیں، جب عمار پر عثمان کی طرف سے ظلم و ستم ہوا اور عائشہ کو اس کی خبر ملی تو پیغمبر کے لباس اور نعلین کو باہر لائیں اور کہا کہ ابھی پیغمبر کا لباس اور جوتیاںپرانی نہیں ہوئی ہیں تم نے ان کی سنت کو فراموش کردیاہے۔

ان دنوں جب مصریوں اورکچھ صحابیوںنے عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا تھا اس وقت عائشہ مدینہ چھوڑ کر خدا کے گھر کی زیارت کے لئے روانہ ہوگئیں جب کہ مروان بن حکم، زید بن ثابت او رعبد الرحمن بن عتاب نے عائشہ سے درخواست کی تھی کہ اپنا سفر ملتوی کردیں کیونکہ مدینہ میں ان کے رہنے کی وجہ سے ممکن ہے کہ عثمان کے سر سے یہ بلا ٹل جائے۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۱۴۔

(۲) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۳۔

۳۳۳

عائشہ نے نہ صرف ان کی درخواست کو ٹھکرا دیا، بلکہ کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ کاش تمہارے اور تمہارے دوست جن کی تم مدد کر رہے ہو، کے پیر میں پتھر ہوتا تو تم دونوں کو دریا میں ڈال دیتی، یا اسے ایک بوریہ میں رکھ کردریا میں ڈال دیتی۔(۱)

عثمان کے بارے میں عائشہ کی باتیں اس سے کہیں زیادہ ہیں جنہیں ہم نے پیش کیا ہے۔بس اتنا کافی ہے کہ جب تک وہ عثمان کے قتل اور علی کی بیعت سے باخبر نہ تھیں مستقل عثمان پر اعتراض و تنقید کر رہی تھیں، لیکن جب حج کے اعمال سے فارغ ہوئیں او رمدینہ کا سفر کیا اوردرمیان راہ ''سرف'' نامی مقام پر عثمان کے قتل او ربیعت علی سے باخبر ہوئیں تو فوراًنظریہ کو بدل دیااور کہا کاش آسمان میرے سر پر گرجاتا، یہ جملہ کہا اور لوگوں سے کہا کہ مجھے مکہ واپس لے چلو کیونکہ خدا کی قسم عثمان مظلوم ماراگیا ہے اور میں اس کا بدلہ لوں گی۔(۲)

۳۔ عبدالرحمن بن عوف بھی عثمان پر اعتراض کرنے والوں میں سے ہیں وہ ایسا شخص ہے کہ چھ آدمیوں پر مشتمل شوریٰ میں عثمان کی کامیابی اسی کے مکرو فریب سے ہوئی تھی۔جس وقت عثمان نے اپنے تعہد کو جو سنت پیغمبر اور شیخین کی روش پر چلنے کے لئے کیا تھا اس کو توڑ ڈالا ،تو لوگوں نے عبد الرحمن پر اعتراض کیا اور کہا یہ سب خرابیاں تمہاری وجہ سے ہیں تو اس نے جواب میں کہا مجھے اس بات کی امید نہ تھی کہ نوبت یہاں تک پہونچ جائے گی، اب میں اس سے کبھی گفتگو نہیں کروں گا اور پھر عبد الرحمن نے اس دن سے آخر دم تک عثمان سے بات نہیں کی، یہاں تک کہ جب عثمان، عبد الرحمن کی حالت بیماری میں عیادت کرنے آئے تو اس وقت عبد الرحمن نے خلیفہ کی طرف سے اپنے چہرے کو موڑ لیا اور ان سے بات نہیں کی ۔(۳)

جی ہاں، وہ افراد جنہوںنے خلیفہ کے خلاف اعتراضات کئے اورا ن کے قتل کے مقدمات فراہم کئے بہتر ہے ان کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے جن کا ذکر کیا ہے دو اہم چیزوں کا ذکر کرنا مناسب ہے وہ یہ کہ طلحہ و زبیر سب سے زیادہ ان پر اعتراض کرتے تھے ، بہرحال ، لوگوں کا نام اور مخالفین کی گفتگو ؤں اور خلیفہ کو ان کے منصب سے گرانے والے افراد کے نام کے لئے تاریخی کتابوں کی طرف رجوع کریں، کیونکہ ہمارا مقصد عثمان کی خلافت کی معزولی کو بیان کرنا نہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ لوگوں نے حضرت علی کے ہاتھ پر کیسے بیعت کی؟

______________________

(۱)الانساب ج۵ ص ۴۸۔----(۲) تاریخ طبری ج۳ ص ۴۷۷۔------(۳) انساب الاشراف، ج۵، ص ۴۸۔

۳۳۴

عثمان کے گھر کا محاصرہ

شورش کی پانچوں عوامل نے اپنا کام کر دکھایا او رعثمان کا اپنے نقائص اورخلافت پر اعتراض سے بے توجہی سبب بنی کہ اس وقت کے اسلام کے اہم مراکز، مثلاً کوفہ، بصرہ اور مصر کچھ لوگ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر اور خلیفہ کو کتاب الہی اور سنت پیغمبر و سیرت شیخین کی مخالفت سے روکنے کے لئے مدینہ روانہ ہوں کہ مدینے میں رہنے والے اپنے ہمفکروں کے ساتھ کوئی راہ حل تلاش کریں خلیفہ توبہ کریں اور حقیقی اسلام کی طرف پلٹیں، یا مسند خلافت سے دور ہو جائیں۔

بلاذری اپنی کتاب ''انساب الاشراف'' میں لکھتے ہیں:

۳۴ ھ میں خلیفہ کی سیاست سے مخالفت کرنے والے تین شہروں کوفہ ، بصرہ اور مصر سے مسجد الحرام میں جمع ہوئے اور عثمان کے کاموں پر گفتگو کرنے لگے۔ اور سب نے ارادہ کیا کہ خلیفہ کے برے کاموں پر گواہ و شاہد بن کر اپنے اپنے شہر واپس جائیں اور جو لوگ اس سلسلے میں ان کے ہم خیال ہیں ان سے گفتگو کریں ، اور آئندہ سال انہی دنوں میں ملاقات کریں اور خلیفہ کے بار ے میں کوئی فیصلہ کریں۔ اگر وہ اپنے غلط کاموں سے باز آجائیں تو اس کے حال پر چھوڑ دیں، لیکن اگر باز نہ آئے تو اسے اس منصب سے الگ کردیں۔

اسی وجہ سے دوسرے سال (۳۵ ھ) میںمالک اشتر کی سرداری میں کوفہ سے ایک ہزار کا لشکر، حُکیم بن جبلَّہ عبدی کی سرداری میں بصرہ سے ڈیڑھ سو آدمیوں کا لشکر ، کنانہ بن بشر سکونی تجیبی اورعمر اور بدیل خزاعی کی سرپرستی میں مصر سے چار سو یا اس سے زیاد ہ افراد کا لشکر مدینہ میں داخل ہوا۔ اور مہاجر و انصار کے بہت سے افراد جو خلیفہ کے طریقہ کے مخالف تھے وہ بھی ان سے ملحق ہو گئے۔(۱)

______________________

(۱) الغدیر، ج۹، ص ۱۶۸۔

۳۳۵

مسعودی لکھتاہے:

چونکہ عبد اللہ بن مسعود، عمار یاسرا ور محمد بن ابی بکر، خلیفہ کی نظر میں بے توجہی کا شکار تھے، قبیلۂ ''بنی زُھر'' عبد اللہ کی حمایت میں اور ''بنی مخزوم'' عمار کی حمایت میں اور تیم، محمد بن ابی بکر کی وجہ سے اور ان تین گروہوں کے علاوہ دوسرے افراد بھی انقلابیوں کے ساتھ مل گئے اور خلیفہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔

مصریوں نے خلیفہ کو جوخط لکھا اس کا مضمون یہ ہے:

اما بعد: خداوند عالم کسی قوم کی حالت کونہیں بدلتا مگر یہ کہ وہ خود اس کو بدل ڈالیں، خدا کے واسطے، خدا کے لئے، پھر خدا کے واسطے آخرت میں اپنے حصہ کو فراموش نہ کرو ، خدا کی قسم، ہم لوگ خدا کے لئے غضبناک ہوتے ہیں اور خدا ہی کے لئے خوشحال ہوتے ہیں، ہم اپنی اپنی تلواروں کواپنے کاندھوں سے اتار کر زمین پر نہیں رکھیں گے جب تک تمہارے سچے توبہ کی خبر ہم تک نہ پہونچ جائے یہی ہمارا پیغام ہے۔(۱)

______________________

(۱) مروج الذہب ج۳ ص ۸۸ طبع بیروت سال ۱۹۷۰۔

۳۳۶

مخالفوں کے سامنے خلیفہ کا تعہد

گھر کا محاصرہ سبب بنا خلیفہ اپنے کاموں پر سنجیدگی سے سوچیںاور محاصرہ ختم کرنے کی سبیل نکالیںلیکن وہ شورش کی تہ سے آگاہ نہیں تھے اور معاشرے کے اچھے لوگوں کو برے لوگوں کے درمیان تشخیص نہیں دے پارہے تھے،انہوں نے گمان کیا کہ شاید مغیرہ بن شعبہ یا عمرو عاص کے وسیلے سے یہ ناگہانی بلا ٹل جائے گی، اس وجہ سے اس نے ان دونوں کو انقلابیوں کی آگ خاموش کرنے کے لئے گھر کے باہر بھیجا، جب انقلابی لوگوں نے ان منحوس چہروں کو دیکھا توان کے خلاف نعرے لگانے لگے ۔ اور مغیرہ سے کہا: اے فاسق و فاجر واپس جا واپس جا ، اور عمرو عاص سے کہا: اے خدا کے دشمن واپس چلا جا کہ تو امین و ایماندار نہیں ہے اس وقت عمر کے بیٹے نے خلیفہ سے حضرت علی کی عظمت کے بار ے میں بتایا اور کہا کہ صرف وہی اس شورش کی آگ کو خاموش کرسکتے ہیںلہٰذا خلیفہ نے حضرت سے درخواست کی کہ اس گروہ کو کتاب خدا اور سنت پیغمبر کی دعوت دیجئے ۔امام نے اس کی درخواست کو اس شرط پر قبول کیا کہ جن چیزوں کی میں ضمانت لوں خلیفہ اس پر عمل کرے، علی علیہ السلام نے ضمانت لی کہ خلیفہ، کتاب خدا اور سنت پیغمبر پر

عمل کریں انقلابیوں نے حضرت علی علیہ السلام کی ضمانت قبول کرلیا اور وہ سب آنحضرت کے ساتھ عثمان کے پاس آئے اور ان کی سخت مذمت کی انہوں نے بھی ان لوگوں کی باتوں کو قبول کرلیا اور یہ طے پایا کہ عثمان تحریری طور پر تعہد دیں۔

چنانچہ تعہد نامہ اس طرح سے لکھا گیا:

''یہ خط خدا کے بندے امیر المومنین عثمان کی طرف سے ان لوگوں کے نام ہے جن لوگوں نے ان پر تنقید کی ہے ، خلیفہ نے یہ عہد کیا ہے کہ خدا کی کتاب اور پیغمبر کی سنت پر عمل کرے گا، محروموں کی مدد کرے گا ڈرے اور سہمے افراد کو امان دیں گے، جلاوطن کئے ہوئے لوگوں کو ان کے وطن واپس بلائے گا، اسلامی لشکر کو دشمنوں کی سرزمین پر نہیں روکے گا، ...علی علیہ السلام مسلمانوں اور مومنوں کے حامی ہیں اور عثمان پر واجب ہے کہ اس تعہد پر عمل کرے''۔

۳۳۷

زبیر ، طلحہ، سعد وقاص، عبد اللہ بن عمر، زید بن حارث، سہل بن حنیف، ابو ایوب وغیرہ نے گواہ کے طور پر اس تعہد نامہ کے نیچے دستخط کئے یہ خط ذیقعدہ ۳۵ھ میں لکھا گیا اور ہر گروہ کو اسی مضمون کا خط ملا اوروہ اپنے اپنے شہر واپس چلا گیا اس طرح خلیفہ کے گھر کا محاصرہ ختم ہوگیا اور لوگ آزادانہ طور پر آنے جانے لگے۔(۱)

انقلابیوں کے چلے جانے کے بعد، امام نے دوبارہ خلیفہ سے ملاقات کی اوران سے کہا: تم پر ضروری ہے کہ تم لوگوں سے بات کرو تاکہ وہ لوگ تمہاری باتوں کو سنیں اور تمہارے حق میں گواہی دیں، کیونکہ انقلاب کی آواز تمام اسلامی ملکوں تک پہونچ چکی ہے اور بعید نہیں کہ دوسرے شہروں سے پھر کئی گروہ مدینہ پہونچ جائیں اور پھر دوبارہ تم مجھ سے درخواست کرو کہ میں ان سے بات کروں۔ خلیفہ کوحضرت علی کی صداقت پر پورا بھروسہ تھا لہٰذا گھر سے باہر آئے اوراپنے بے جا کاموں کی وجہ سے شرمندگی کا اظہار کیا۔

امام نے اتحاد مسلمین اور مقام خلافت کی عظمت کے لئے بہت بڑی خدمت انجام دی، اگر عثمان اس کے بعد حضرت علی کی ہدایت و رہنمائی پر عمل کرتے تو کوئی بھی واقعہ ان کے ساتھ پیش نہ آتا، لیکن افسوس خلیفہ ارادے کے ضعیف اور بے جا بولنے والے تھے اور ان کو مشورہ دینے والے حقیقت شناس اور سچے نہ

______________________

(۱) الانساب ج۵ ص ۶۲۔

۳۳۸

تھے اور مروان بن حکم جیسے افراد نے ان کی عقل و دور اندیشی کو چھین لیا تھا لہذا مصریوں کے چلے جانے کے بعد خلیفہ نے مروان کے شدید اصرار پر بہت ہی غیر شائستہ فعل انجام دیا، عثمان نے چاہاکہ مصریوں کے ساتھ اپنی ملاقات کودوسرے انداز سے پیش کریں اوراس طرح سے بیان کریںکہ مدینہ سے مصر شکایتیں پہونچی تھیںاور وہ لوگ یہاں تحقیق کرنے کے لئے آئے تھے اور جب ان لوگوں نے دیکھا کہ تمام شکایتیں بے اساس ہیں تو وہ لوگ اپنے وطن واپس چلے گئے۔

جب یہ بات لوگوں نے خلیفہ کی زبان سے سنی تو مخالفین کی طرف سے اعتراض و تنقیدہونے لگی، سب ان سے کہہ رہے تھے کہ خدا سے ڈرو! توبہ کرو! اعتراض اتنا شدید تھا کہ خلیفہ نے دوسری مرتبہ پھر اپنی باتیں واپس لے لیں، اور قبلہ کی طرف دونوں ہاتھ بلند کیا اور کہا:

''پروردگارا! میں پہلا وہ شخص ہوں جو تیرے پاس واپس آؤں گا''(۱)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۳ ص ۳۸۵، طبع اعلمی بیروت۔

۳۳۹

انقلابیوں کے سرداروں کو قتل کرنے کا حکم دینا

قریب تھا کہ مصریوں کی آفت جائے کیونکہ وہ لوگ مدینے سے مصر کی طرف روانہ ہوچکے تھے لیکن راستے میں ''ایلہ'' نامی مقام پر لوگوں نے عثمان کے غلام کو دیکھا کہ مصر کی طرف جارہا ہے، ان لوگوں کو شک ہوا کہ شاید وہ عثمان کا خط لے کر مصرکے حاکم عبداللہ بن ابی سرح کے پاس جا رہا ہے اسی وجہ سے اس کے سامان کی تلاشی لینے لگے، اس کے پانی کے برتن میں سے رانگے (قلع) کا ایک پائپ نکلا جس کے اندر خط رکھا تھا ،خط میں حاکم مصر کو خطاب کرتے ہوئے لکھا تھا جیسے ہی عمر و بن بدیل مصر میں داخل ہو اسے قتل کردینا، اور کنانہ ، عروہ، اور ابی عدیس کے ہاتھوں کو کاٹ دینا اور اسی طرح خون میں تڑپتاہوا چھوڑ دینا اور پھر ان لوگوں کو پھانسی پر چڑھا دینا۔ خط دیکھنے کے بعد مصری اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے، اور سب کے سب آدھے ہی راستے سے مدینہ واپس آگئے۔ اور علی علیہ السلام سے ملاقات کی اور انھیں خط دکھایا ۔ علی علیہ السلام خط لے کر عثمان کے گھر آئے اور اسے دکھایا عثمان نے قسم کھا کر کہا کہ یہ تحریر ان کے کاتب کی اور مہر انہی کی ہے لیکن وہ اس سے بے خبر ہیں، حقیقت میں بات یہی تھی کہ خلیفہ اس خط سے بالکل بے خبر تھے اور ان کے ساتھیوں مثلاً مروان بن حکم کا کام تھا خلیفہ کی مہر حمران بن ابان کے پاس تھی کہ اس کے بصرہ جانے کے بعد مہر مروان کے پا س تھی۔(۱) مصریوں نے خلیفہ کے گھر کا دوبارہ محاصرہ کرلیااور ان سے ملاقات کرنے کو کہا اور جب لوگوں نے عثمان کودیکھا تو اس سے پوچھا: کیا تم نے اس خط کو لکھا ہے؟ عثمان نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہے، گروہ کے نمائندہ نے کہا: اگر ایسا خط تمہاری اطلاع کے بغیر لکھا گیا ہے تو تم خلافت اور مسلمانوں کے امور کی ذمہ داری لینے کے لائق نہیں ہو، لہٰذا جتنی جلدی ہو خلافت سے کنارہ کشی اختیار کر لو، خلیفہ نے کہا کہ خدا نے جو لباس میرے بدن پر ڈالا ہے اسے میں ہرگز اتار نہیں سکتا، مصریوں کے انداز گفتگو نے بنی امیہ کو ناراض کردیا ، لیکن بجائے اس کے کہ اصلی علت کو بیان کریں، علی کے علاوہ انھیں کوئی اور نظر نہیں آیا اور مصریوں کی طرف سے مقام خلافت پرہونے والی جسارت کا الزام ان پر لگایا، امام نے ان لوگوں کوتیز ڈانٹا اور کہا کیا تم نہیں جانتے کہ اس وادی میں میرے پاس کوئی اونٹ نہیں ہے یعنی مرا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے اس وقت کہا:

______________________

(۱) مروج الذہب ج۲ ص ۳۴۴۔

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809