فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362196 / ڈاؤنلوڈ: 6022
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

چوتھا حصہ:

امیر المومنین(ع) کی خلافت پر

حدیث منزلت کی دلالت

۶۱

حدیث منزلت اور خلافت علی(ع)کا واضح بیان

گزشتہ مطالب سے معلوم ہوا کہ حدیث منزلت امیر المومنین(ع) کے لئے متعدد ایسے مقامات و منزلتوں کو ثابت کرتی ہے کہ جن میں سے ہر ایک کا لازمہ آپ(ع) کی امامت و خلافت ہے ۔ یہاں اس بارے میں بات کی جا رہی ہے کہ لوازم سے ہٹ کر یہ حدیث بلاواسطہ اور صراحتاً بھی آپ(ع) کے لئے پیغمبر اکرم(ص) کی خلافت و جانشینی کے مقام کو ثابت کرتی ہے۔ بنا بر ایں یہ حدیث واضح اور کھلے لفظوں میں آپ(ع) کی خلافت پر دلالت کرتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جناب ہارون(ع)کے مقامات میں سے ایک آپ(ع) کا حضرت موسیٰ کا جانشین ہونا تھا۔ خدا وند متعال ، حضرت موسیٰ کی زبان سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے ہارون(ع) سے یوں فرمایا:

’’اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِیلَ الْمُفْسِدِینَ ۔میری قوم میں میرا جانشین بنے رہو ،ان کے امور کی اصلاح کرو اور مفسدین کی پیروی نہ کرو۔‘‘(۱؎)

____________________

اعراف: ۱۴۲

۶۲

پیغمبر(ص) کی جانشینی، فضائل کی اوج

بغیر کسی شک وشبہ کے کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر(ص) کی خلافت و جانشینی کے لئے قابلیت اور صلاحیت کا ہونا ضروری ہے اس طرح کہ جانشین ، آنحضرت(ص) کی جگہ پر بیٹھ سکے اوران کی غیر موجودگی میں تمام امور اورذمہ داریوں کو بخوبی انجام دے؛ کیونکہ وہ پیغمبر(ص) کی جگہ پر بیٹھا ہوا ہے۔ آپ(ص) کا جانشین ، آپ(ص) کی خالی جگہ کو پر کرنے کے لئے ہے ، اس رو سے لازم ہے کہ وہ پیغمبر(ص) کے ساتھ کوئی تناسب رکھتا ہو تاکہ اس کام سے عہدہ برآ ہو سکے۔

جانشین پیغمبر(ص) کے لئے ضروری ہے کہ فضائل و کمالات میں بلندی پر ہو تاکہ یہ بلند مقام ، اس سے جڑ سکے، اور ایسی صلاحیت کا حامل ہو کہ پیغمبر(ص) کی جگہ اس کو بٹھانا عقل و منطق کی رو سے کوئی بعید کام شمار کیا نہ ہو ؛ کیونکہ یہ واضح ہے کہ کسی ایسے شخص کو کسی کی جگہ بٹھایا جائے جو اس کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، اس کے امور کو بخوبی انجام نہیں دے سکتا ہو اور دونوں کے درمیان کوئی تناسب ہی نہ ہو تو ایسا کیا جانا ، عقل وحکمت سے بعید کام ہے۔

۶۳

قابلیت کا ظہور

اب سوال یہ ہے کہ جناب موسیٰ نے ایسی صلاحیت اپنے بھائی ہارون میں دیکھی تھی اور ہارون کو اس قابل سمجھتے تھے کہ ان کی اپنی غیر موجودگی میں آپ کا جانشین بن جائے ؟ اور کیا ہارون اس مقام کی اہلیت رکھتے تھے یا نہیں؟

جب خدا وند متعال نے اس خلافت کی تائید فرمائی اور قرآن مجید میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے تو قطعا ایسی صلاحیت ہارون(ع) میں دیکھی ہوگی۔

دلچسپ بات یہ کہ حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون کو کسی قید وشرط کے بغیر اپنا خلیفہ قرار دیا ہے:’’اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی‘‘ میری قوم میں میرا جانشین بنے رہو ۔یعنی جناب ہارون ان تمام مسئولیتوں میں ، جوحضرت موسیٰ کے ذمے تھیں ، آپ کے جانشین اور قائم مقام ہیں۔

بنا بر ایں حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی کو ، اگرچہ کوہ طور پر جانے کی قلیل مدت کے لئے ہی سہی، اپنا جانشین مطلق قرار دیا ؛ یعنی ہارون(ع) تمام حالتوں میں موسیٰ کا جانشین ہے اور انہوں نے بھی حضرت موسیٰ کی طرح روحانی کمالات اور معنوی مقامات کے درجات کو طے کیا ہے اس لئے اس مقام کے حامل ہو سکتے ہیں۔ ایک جملے میں اگر کہا جائے تو یہ کہ حضرت ہارون(ع) ، خدا کا وہ مورد پسند شخص ہے جسے خدا نے اسی مقام کے لئے لائق انتخاب کیا ہے۔

اگر وہ اس مقام کے حامل ہیں تو جب بھی موسیٰ غائب ہوں انہی کو خلیفہ اور جانشین ہونا چاہئے ، خواہ ان کی کی زندگی میں ہو یا ان کی وفات کے بعد۔

۶۴

یہ اتنا اہم نہیں ہے کہ ہارون(ع) نے کتنے روز خلافت کی؛ بلکہ اہم یہ ہے کہ وہ اس مقام کے لئے قابلیت و صلاحیت رکھتا ہے۔ کیونکہ جب حضرت موسیٰ کے بارے میں یہ طے ہو گیا کہ آپ خدا سے مناجات کرنے کوہ طور جائیں گے تو یہ طے تھا کہ مناجات ۰ روز پر مشتمل ہوگی ؛ لیکن ۰ دن اس پر اضافہ ہو گئے ۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اگر موسیٰ نے ہارون کو شروع ہی سے صرف ۰ دنوں کے لئے خلیفہ قرار دیا تھا تو اضافہ کئے گئے دس دنوں میں وہ کس طرح اس مقام پر باقی رہے؟

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہارون(ع) کی خلافت فقط تیس روز پر مشتمل نہ تھی؛ بلکہ ہر اس وقت کہ جب موسیٰ غائب ہوں وہ خلیفہ ہوں گے؛ یہاں تک کہ اگر آپ(ع) کی غیبت اس چالیس روز سے زیادہ بھی ہوتی۔

اس رو سے حدیث منزلت کے تحت پیغمبر اکرم(ص) کی نسبت امیر المومنین(ع) ایسی منزلت رکھتے ہیں یعنی رسول خدا(ص) کی نیابت و خلافت آپ(ع) کے لئے ثابت ہو جاتی ہے اور آنحضرت(ص) کی غیر موجودگی میں فقط آپ(ع) ہی کو جانشین ہونا چاہئے۔

جی ہاں!اس حدیث سے بخوبی استفادہ ہوتا ہے کہ خدا وند متعال نے امیر المومنین(ع) کو اس مقام کے لئے انتخاب کیا ہے اور اللہ تعالیٰ ، آپ(ع) کو اس مقام کا لائق سمجھتا ہے۔

مختصر یہ کہ مقام خلافت ، کوئی سریع الزوال منصب نہیں ہے ؛ بلکہ قرب الٰہی کے درجات اور روحانی مقامات میں سے ہے کہ جو ضروری صلاحیتوں اور رضائے الٰہی کا محتاج ہے۔

۶۵

بلا شرط فرمان برداری

خلافت کا اثر و نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں پر تمام امور میں بغیر کسی قید وشرط کے امیر المومنینؑ کی اطاعت کرنا اور ہمیشہ آپ(ع) کے فرامین پر کان دھرنا واجب ہے۔اور آپ(ع) کی اس اطاعت اور بدون قید وشرط فرمان برداری کا لازمہ یہ ہے کہ آپ(ع) امامت و ولایت عامہ کے حامل ہوں۔

ممکن ہے کوئی یہ گمان کرے کہ ہارون کی بے چون و چرا اطاعت کا واجب ہونا اس لحاظ سے تھا کہ وہ پیغمبر تھے نہ کہ اس لحاظ سے کہ وہ موسیٰ کے جانشین تھے بنا بر ایں اطاعت مطلقہ کا واجب ہونا خلافت کے آثار میں سے نہیں ہے؛ اور چونکہ امیر المومنین(ع) ، پیغمبر نہیں اس لئے یہ اثر آپ(ع) کے لئے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

یہ اشکال اگرچہ بعض علمائے اہل سنت نے اپنی کتب میں ذکر کیا ہے؛ لیکن یہ ایک فضول اور غلط توہم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

اس مطلب کی وضاحت یہ ہے کہ اگر بلا چون وچرا اطاعت کا واجب ہونا ، خلافت کے نہیں بلکہ نبوت کے آثار میں سے ہے تو پہلے تین خلفا کی اطاعت بھی واجب نہیں ہے؛ کیونکہ وہ بھی تو پیغمبر نہیں تھے اور امیر المومنین(ع) کی اطاعت بھی خلیفہ چہارم ماننے کے سبب واجب نہیں کہ آپ(ع) بھی پیغمبر نہیں فقط جانشین پیغمبر ہیں۔

۶۶

حدیث منزلت اور علمائے اہل سنت کا نظریہ

اس ضمن میں جو کتب لکھی گئی ہیں ان میں اہل سنت کے علماء اور دانشمندوں نے تصریح کردی ہے کہ یہ حدیث حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت پر دلالت کرتی ہے۔

بطور نمونہ ایک کتاب ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ہے جو شیعہ اثنا عشری کے ردّ میں لکھی گئی ہے۔ اس کا مصنف اعتراف کرتا ہے کہ حدیث منزلت حضرت علی(ع) کی خلافت کو ثابت کرتی ہے؛ بلکہ بات اس سے بڑھ گئی ہے، کہتا ہے :کوئی بھی اس حدیث کی دلالت کا انکار نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ ناصبی و دشمن اہل بیت ہو اور اہل سنت ہرگز ایسے لوگوں سے راضی نہیں ہیں۔(۱؎)

ہماری بات یہاں خلافت بلافصل ثابت کرنے میں ہے یعنی پیغمبر(ص) کے بعد بلافاصلہ آپ(ع) ہی آنحضرت(ص) کے جانشین ہیں؛ لیکن اس حدیث سے اصل خلافت کا اثبات ایسی بات ہے جس سے انکار ممکن نہیں مگر یہ کہ کسی ناصبی یا دشمن علی(ع) سے۔ جیسا کہ تحفہ اثنا عشریہ کے مصنف نے اس مطلب کی تصریح کی ہے ۔ اور حدیث کی دلالت کو اسی حد تک قبول کیا ہے۔

اس کے باوجود اہل سنت کی کتب احادیث اور ان کی شروحات سے مراجعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ خلافت و ولایت پر اس حدیث کی اصل دلالت کو ہی قبول نہیں کرتے اور اس میں مناقشہ کرتے ہیں، یعنی وہی کام کرتے ہیں جس کی نسبت تحفہ اثنا عشریہ کے مصنف نے ناصبیوں اور دشمنان اہل بیت کی طرف دی ہے۔

____________________

۱۔ تحفۃ الاثنا عشریہ: ۲۱۰

۶۷

بطور نمونہ اگر حافظ بن حجر عسقلانی کی فتح الباری ، حافظ نووی کی شرح صحیح مسلم اور المرقاۃ فی شرح المشکاۃ سے رجوع کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اس حدیث کی شرح و تفسیر میں امامت وولایت پر اس کی دلالت پر اشکال کرتے ہیں ؛ یعنی تحفہ اثنا عشریہ کی وہی بات جو ہم پہلے نقل کر چکے ہیں۔

اب شرح صحیح مسلم میں نووی کی باتوں پر توجہ کریں ۔ اس کی عین عبارت یااسی طرح کی عبارت اہل سنت کے مذکورہ لکھاریوں نے اپنی مذکورہ کتب میں نقل کی ہے۔

نووی کا بیان ہے:یہ حدیث پیغمبراکرم (ص) کے بعد، علی(ع)کی جانشینی پر کوئی دلالت نہیں کرتی؛ کیونکہ پیغمبر(ص) نے یہ جملہ اس وقت فرمایا کہ جب آپ(ص) ، علی(ع) کو مدینہ میں اپنی جگہ چھوڑ کر تبوک کی طرف جا رہے تھے۔

نووی یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ حدیث ایک خاص مورد میں بیان ہوئی ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ ہارون(ع) ، علی(ع) کی جس سے تشبیہ دی گئی ہے ، موسیٰ کے بعد خلیفہ نہ تھے ؛ بلکہ وہ موسیٰ کی زندگی میں ہی دنیا سے چل بسے ۔ تاریخ نگاروں کے نزدیک جو بات مشہور ہے اس کے مطابق ہارون(ع) نے حضرت موسیٰ کی وفات سے چالیس سال قبل رحلت فرمائی۔ کہتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ نے اپنے پروردگار کی میقات کی جانب مناجات کے لئے جانا چاہا تو ہارون(ع) کو اپنا جانشین بنایا ۔ پس یہ خلافت و جانشینی ایک خاص محدودے میں ایک خاص واقعے سے متعلق ، موقت جانشینی ہے ، ہماری بحث ’’خلافت و جانشینی ‘‘ پر اس کی کوئی دلالت نہیں ہے۔(۱؎)

____________________

۱۔شرح صحیح مسلم، نووی: ۱۵//۱۷۴

۶۸

سچ بتائیے !فیصلہ کیجئے!کیا ناصبی کے علاوہ کوئی ایسی بات کر سکتا ہے ؟ ایسی بات کہ کوئی بھی شخص یہاں تک تحفہ اثنا عشریہ کا مصنف بھی اس کی نسبت اپنی طرف دینا نہیں چاہتا، اسی لئے اس نے ناصبیوں کی طرف نسبت دی ہے۔

البتہ ہم ابن تیمیہ اور شیعہ عقائد کو رد کرنے والے دوسرے افراد کی باتیں بھی نقل کریں گے اور ان کی عبارتوں کے مخصوص حصوں کو لکھیں گے تاکہ معلوم ہوجائے کہ ناصبی کون لوگ ہیں ۔ اس وقت آپ پہلے سے زیادہ ناصبیوں کے بارے میں آشنا ہو جائیں گے۔

اب تک یہ بیان ہوا کہ حدیث منزلت کس طرح صراحت سے امیر المومنین(ع) کی خلافت و امامت اور ولایت پر دلالت رکھتی ہے کہ صاحب تحفہ اثنا عشریہ بھی اس دلالت کا منکر نہیں ہے ؛ لیکن آخر میں کہتا ہے :طرف مقابل سے پورا نزاع اور جھگڑا پیغمبر(ص) کے بعد بلا فصل امامت کے بارے میں ہے۔

۶۹

پانچواں حصہ:

حدیث منزلت کو رد کرنے کی علمی کوششیں

۷۰

حدیث منزلت کو ردّ کرنے کی کوششیں

گزشتہ مباحث میں سند اور متن کے لحاظ سے حدیث منزلت کی تحقیق کی۔ اس حصے میں علمی اشکالات اور ان کوششوں کی تحقیق کریں گے جو اس حدیث کو رد کرنے کے لئے اہل تسنن کی طرف سے کی گئی ہیں۔ ان اعتراضات اور اشکالات کو ہم دو مرحلوں میں ذکر کریں گے:

علمی اشکالات

ہم حدیث منزلت کے بارے میں ہر اشکال اور اعتراض قبول کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ وہ علمی بنیادوں پر مشتمل ہوں اور مناظرہ و گفتگو کے بارے میں بیان شدہ قواعد پر مبنی ہوں۔

اس حدیث کی دلالت پر کئے گئے اشکالات بطور خلاصہ تین اشکالات میں سمٹ جاتے ہیں:

پہلا اشکال :مدعا پر حدیث کا دلالت نہ کرنا

مخالفین کے پہلے اشکال کا ماحصل یہ ہے:

اس حدیث سے عمومی طور پر یہ استفادہ نہیں کیا جا سکتا کہ علی(ع) ہر جہت سے ہارون(ع) کی شبیہ ہیں؛ کیونکہ ان دونوں میں فقط ایک جہت سے شباہت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم اس بات کو بھی قبول نہیں کرتے کہ علی(ع) ، رسول اللہ (ص) کے لئے ہر مقام اور منزل پر وہی حیثیت رکھتے ہوں جو موسیٰ کے لئے ہارون کی حیثیت تھی۔

۷۱

دوسرا اشکال :خلافت کی محدودیت

اس حدیث سے جو خلافت و جانشینی ثابت ہوتی ہے وہ ایک موقتی خلافت ہے جو کسی خاص تقاضے کے مطابق ، محدود وقت کے لئے تھی۔ وہی زمانہ کہ جس میں پیغمبر(ص) زندہ تھے ، اور ہارون(ع) کی خلافت بھی اس وقت سے مربوط تھی جب حضرت موسیٰ اپنے رب سے مناجات کرنے گئے تھے ۔

اس مطلب کی تائید موسیٰ کی زندگی میں ہارون کے انتقال کر جانے سے بھی ہوتی ہے۔ اس بنا پر ہم کس خلافت کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں؟

تیسرا اشکال :خلافت صرف جنگ تبوک کے وقت سے مخصوص تھی

یعنی یہ کہ حدیث منزلت جنگ تبوک کے وقت صادر ہوئی ہے ۔ جب پیغمبر(ص) مدینہ سے باہر تبوک کی طرف جارہے تھے علی(ع) کو اس لئے مدینہ چھوڑ گئے تھے کہ اپنے شخصی اور گھریلو امور کو سنبھالے اور مدینہ میں رہ جانے والوں کے امور کی تدبیر کرے ۔ اس بنا پر یہ حدیث ، کہ جو ایک معین واقعہ میں بیان ہوئی ہے ، اسی مورد کے لئے خاص ہو جائے گی۔

۷۲

پہلے اشکال کا جواب

اس اشکال کا خلاصہ یہ تھا کہ ہارون(ع) سے علی(ع) کی شباہت تمام مقامات و منزلتوں میں نہیں ہے اور یہ شباہت ایسی عمومیت نہیں رکھتی جو ہارون کے تمام مقامات و منزلتوں کو شامل ہو جائے۔

اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ اس حدیث میں دو ایسی عبارتیں ہیں جو اس کے معنی کو واضح کر دیتی ہیں:

ا۔’’انت منّی بمنزلة هارون‘‘

اس عبارت میں اسم جنس’’منزلة‘‘ علم’’هارون ‘‘ کی طرف اضافہ ہوا ہے۔

۲ ۔استثنا :’’الّا انّه لا نبیّ بعدی‘‘

اس استثنا کے ذریعے نبی اکرم(ص) نے ان تمام مقامات میں سے ، کہ جو امام(ع) کو حاصل ہیں ، فقط نبوت کو خارج کر دیا ہے۔ یہی استثنا بتاتا ہے کہ حضرت ہارون(ع) متعدد مقامات کے حامل تھے ان میں سے ایک مقام سے علی(ع) کو الگ رکھا گیا ہے۔

اصول فقہ ، بلاغت اور ادبیات کی کتب میں اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ’’استثنا ، عموم کا معیار اور ملاک ہے ؛ یعنی جب کسی جملے میں استثنا آئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جملے میں عمومیت پائی جاتی ہے اور اس کا حکم سب کو شامل ہے جن میں سے فقط ایک مورد کو الگ کیا گیا ہے۔

اسی طرح ان کتب میں اس بات کی بھی تصریح ہے کہ ’’اسم جنس مضاف‘‘الفاظ عموم میں سے ہے۔ کیا اس کے باوجود بھی کوئی اشکال باقی رہ جاتا ہے؟

۷۳

اس بنا پر اس حدیث میں’’بمنزلة هارون‘‘ اسم جنس مضاف اور صیغہ عموم میں سے ہے۔ اسی طرح استثناء کا جملہ بھی عموم کے وجود کی دلیل ہے ؛ یعنی امیر المومنین(ع) پیغمبری کے سوا تمام مقامات اور منزلتوں میں حضرت ہارون کی طرح ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حدیث تمام منابع میں اسی کیفیت کے ساتھ نقل ہوئی ہے ؛ یعنی یہی دو قرائن حدیث کے تمام متون میں موجود ہیں۔’’انت منّی بمنزلة هارون‘‘ اور’’الّا انّه لا نبیّ بعدی‘‘

لہٰذا اس حدیث سے پیغمبر(ص) کی مراد عموم نہ ہونے کا کوئی احتمال باقی نہیں رہتااور حدیث اپنے مطلب میں صراحت کی حامل ہے؛ لہٰذا پہلا اشکال سرے سے ہی باطل ہو جاتا ہے۔

اہل فن کا نظریہ

ابن حاجب علم اصول اور عربی ادبیا ت کے بزرگوں اور پیشواوں میں سے ہے وہ اپنی کتاب مختصر الاصول میں ، جس کی بہت سی شرحیں لکھی جا چکی ہیں اور حوزات علمیہ کی درسی کتب میں شامل رہی ہے ، یوں لکھتا ہے:

محققین کے نزدیک جو صیغے عموم کے لئے وضع کئے گئے ہیں وہ مند رجہ ذیل ہیں: اسم شرط، اسم استفہام، موصولات، وہ جمع جس پر الف لام عہدنہ ہو بلکہ الف لام جنس داخل ہو اور خود اسم جنس جو الف لام یا اضافہ کے ذریعے معرفہ ہو گیا ہو۔(۱؎)

____________________

۱۔ المختصر( بیان المختصر۲) :۱۱۱

۷۴

وہ محققین جو زیادہ مدارک و ماخذ کے خواہاں ہیں وہ ادبی کتب سے ،جیسے جلال الدین سیوطی کی کتاب ’’الاشباہ و النظائر‘‘اور ’’الکافیہ فی علم النحو‘‘ با شرح محقق جامی کہ جو’’ الفوائد الضیائیہ ‘‘کے نام سے مشہور ہے، رجوع کر سکتے ہیں ۔ یہ کتاب بھی حالیہ وقتوں میں حوزات علمیہ میں پڑھائی جاتی رہی ہے۔

اصولی کتب میں سے قاضی بیضاوی کی کتاب ’’المنہاج ‘‘اور اسی پر لکھی گئی شرحوں کی طرف مراجعہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ’’فواتح الرحموت فی شرح مسلم الثبوت‘‘ کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ یہ کتاب ، اصول فقہ میں اہل تسنن کی معتبر اور مشہور کتب میں سے ہے۔

علم بلاغت کی کتب میں سے تفتازانی کی کتب’’ المطوّل فی شرح التلخیص‘‘ اور’’مختصر المعانی فی شرح التلخیص‘‘ دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ دونوں کتابیں بھی حوزات میں پڑھائی جاتی ہیں۔ اسی طرح اصول فقہ، نحو اور بلاغت کے موضوع پر لکھی گئی کتابیں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

استثناء کے بارے میں بھی اصول فقہ کے تمام علمائے ما سلف نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ عموم کی موجودگی کا معیار استثناء کا وجود ہے۔

یہ بات قاضی بیضاوی کی کتاب ’’منھاج الوصول الی علم الاصول‘‘ اور اس پر لکھی گئی شرحوں میں مرقوم ہے۔ جیسا کہ ’’شرح ابن امام الکاملیہ‘‘ اور دوسری شرحوں میں ہے۔

۷۵

بنا بر ایں ہر وہ مقام ،جہاں پر استثناء صحیح ہو اور حکم افراد خاص میں محصور نہ ہو تو وہ عام ہوگا اور حدیث منزلت میں بھی استثناء پایا جاتا ہے۔

ہاں ! اگر کوئی یہ کہے کہ یہ حدیث صرف غزوۂ تبوک سے مختص ہے ؛ لہٰذا اس کی عمومیت سے صرف نظر کرنا چاہئے ؛ کیونکہ جب تخصیص کی کوئی دلیل یا شاہد نہ ہو تو پھر لفظ، عموم پر دلالت نہیں کرے گا۔ اس بنا پر حدیث منزلت صرف یہ بیان کر پائے گی کہ علی(ع) کی جانشینی ، مدینے میں باقی رہنے والوں کے لئے تھی تاکہ آپ(ع) بچوں، عورتوں اور ضعیفوں کے امور کی دیکھ بھال کریں، جیسا کہ ابن تیمیہ کا یہی نظریہ ہے، اسکے علاوہ حدیث سے کچھ ثابت نہیں ہوتا۔

واضح ہے کہ یہ اشکال اور دعویٰ دونوں صحیح نہیں ہیں؛ کیونکہ ، ہم بعد میں بھی بیان کریں گے ، حدیث منزلت غزوہ تبوک کے علاوہ دوسرے مواقع پر بھی رسول اکرم (ص) سے روایت ہو چکی ہے۔

ایک اشکال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ استثناء جب استثنائے متصل ہو تو اپنے سابق جملے کی عمومیت پر دلالت کرتا ہے ؛ جبکہ یہاں استثناء ، منقطع ہے ؛ کیونکہ حدیث میں جو کچھ استثناء ہوا ہے وہ ایک جملہ خبریہ ہے اور جملہ خبریہ کا استثناء، استثنائے متصل ہو ہی نہیں ہو سکتا۔

اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ بیان کردہ مطالب ، علمی بحثیں ہیں کہ جن سے حقائق کے متلاشی افراد کسی حد تک آشنا ہوں گے۔یہ اشکال دیکھنے میں بہت خوبصورت اور زیبا ہے۔ اگر یہ صحیح ہو تو پھر استثناء کی موجودگی کے ذریعے حدیث کی عمومیت پر استدلال کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اس اشکال کو صاحب تحفۃ الاثنا عشریہ نے ذکر کیا ہے۔(۱؎)

____________________

۱۔ تحفۃ الاثنا عشریہ: ۲۱۱

۷۶

لیکن جب ہم حدیث کے مختلف متون کو ملاحظہ کرتے ہیں تو ان میں سے بعض متون میں’’الَّا‘‘ کے بعد جملہ خبریہ کی بجائے صرف’’النّبوّة‘‘ موجود ہے۔

اسی عبارت کے ساتھ نقل ہونے والی حدیث یا احادیث کی اسناد صحیح ہیں؛ جیسا کہ ابن کثیر دمشقی نے اپنی تاریخی کتاب’’البدایة والنهایة‘‘ میں اس حدیث کی سند کے صحیح ہونے کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔(۱؎)

اس کے علاوہ اہل سنت کے ہاں یہ مسلم بات ہے کہ علم اصول اور بلاغت کی رو سے استثناء میں ’’اصل اولی‘‘ استثنائے متصل ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس اصل سے دستبردار ہونا اس وقت تک صحیح نہیں ہے جب تک کوئی دلیل یا قرینہ نہ ہو۔

صاحب تحفۃ الاثنا عشریہ ، جملہ خبریہ کی صورت میں آنے والے استثناء کو قرینہ بنا کر اس ’’اصل اولی ‘‘سے دستبردار ہونا چاہتا ہے؛ لیکن ہم نے جوابا ً کہا ہے کہ بعض متون میں یہ مستثنیٰ جملہ خبریہ کی صورت میں نہیں ؛ بلکہ اسم ہے۔

استثناء میں ’’ اصل اولی‘‘ استثنائے متصل ہونا ہے نہ کہ منقطع ہونا، اس سلسلے میں علمائے اہل سنت کی تعبیرات اور تصریحات سے آشنائی کے لئے حوزہ علمیہ میں پڑھائی جانے والی کتاب’’المطوّل‘‘ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔(۲؎)

نیز اصول بزدوی کی شرح میں لکھی گئی شیخ عبد العزیز بخاری کی کتاب ’’کشف الاسرار‘‘ سے بھی مراجعہ کیا جا سکتا ہے جو اہل سنت کے اصولی مصادر میں سے ہے۔(۳؎)

____________________

۱۔ البدایہ و النہایہ: ۷/ ۳۴۰

۲۔المطوّل: ۲۰۴۔۲۲۴

۳۔ کشف الاسرار: ۳/ ۱۷۸

۷۷

اس کے علاوہ ابن حاجب بھی ’’مختصر الاصول‘‘ میں اسی مطلب کی تصریح کی ہے۔(۱؎) یہاں تک کہ اگر حدیث کی شرحوں کی طرف رجوع کیا جائے تو اس حدیث کے شارحین یہ تصریح کرتے نظر آئیں گے کہ یہ استثناء ، منقطع نہیں؛ متصل ہے۔ بطور نمونہ’’ارشاد الساری‘‘ (۲؎) میں قسطلانی کا بیان اور’’فیض القدیر فی شرح الجامع الصغیر‘‘ بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

____________________

۱۔مختصر(بیان مختصر۲) : ۲۴۶

۲۔ارشاد الساری :۶/ ۱۱۷۔ ۱۱۸

۷۸

ان نکات کو پیش نظر رکھنے سے پہلا اعتراض اور اشکال ختم ہو جائے گا اور حدیث منزلت سے تمام مقامات اور منزلتیں ثابت ہوں گی؛ البتہ مذکورہ تمام مباحث، فنی اور تخصصی مباحث ہیں جن پر خصوصی توجہ دینے اور زیادغور کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے قواعد اورمخصوص علمی اصطلاحات پر مسلط ہونا چاہئے۔

دوسرے اشکال کا جواب

اس اشکال کا خلاصہ یہ تھا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زندگی کے ایک خاص واقعے میں حضرت علی(ع) کو اپنا جانشین قرار دیا ہے؛ جس طرح حضرت موسیٰ نے جناب ہارون کو اپنی زندگی میں جانشین قرار دیا تھا۔ جناب ہارون ، حضرت موسیٰ سے پہلے رحلت کر گئے؛ اس لحاظ سے حدیث منزلت ،اس خلافت و امامت پر دلالت ہی نہیں کررہی جو ہمارا محل نزاع ہے۔

اہل سنت کے بہت سے بڑے بڑے علماء نے یہی اشکال پیش کیا ہے؛ جن میں سے ابن حجر عسقلانی، قسطلانی و قاری؛ نیز ان کے متکلمین نے بھی اپنی کتابوں میں یہی اشکال نقل کیا ہے۔

اس اشکال کا جواب دو صورتوں میں دیا جا سکتا ہے:

پہلی صورت:

جناب ہارون(ع) کے بیان کردہ مقامات اور منزلتیں متعدد تھیں جن میں سے ہر ایک کے ذریعے حضرت علی(ع) کی خلافت و جانشینی کا پتہ چلتا تھا؛ مثلا: لوگوں کے امور کی اصلاح کے لئے پیغمبر اکرم (ص) کے شریک کار ہونا یا آپ(ع) کی عصمت وغیرہ، اور یہ مقامات کسی معین اور مشخص زمانے تک ہرگز محدود نہیں رہے ہیں۔

۷۹

دوسری صورت:

ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ خلافت ، ایک روحانی اور معنوی مقام ہے ۔ جب ہم کہتے ہیں: فلاں شخص خلیفہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شائستگی اور صلاحیت کے ایسے درجے پر پہنچ گیا ہے کہ اس مقام و خلافت کے اہل ہوگیا ہے۔ خلافت پیغمبر دراصل ، خلافت خدا ہے اور مقام الٰہی کی جانشینی کے لئے خود خلیفہ کے اندر شائستگی اور اہلیت کا پایا جانا ضروری ہے۔

پیغمبر اکرم (ص) کے خلیفہ اور جانشین کے لئے ضروری ہے کہ وہ علمی حوالے سے آنحضرت(ص) کے ہم پلہ ہو ؛ تاکہ ان کی غیر موجودگی میں لوگوں کی ہدایت کی کر سی پر بیٹھ سکے۔ قرآن کی تاویل اور بطون سے آشنا ہو ؛ تاکہ لوگوں کو اسی طرح قرآن بیان کرے جس طرح پیغمبر اکرم (ص) بیان کرتے تھے ،اور قرآن کے معارف و اسرار سے پردہ اٹھائے۔

مختصر یہ کہ پیغمبر اکرم (ص) کا خلیفہ وہی شخص ہوگا جو آنحضرت (ص) کی غیر موجودگی میں اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان واسطہ بنے؛ کیونکہ حضور اکرم (ص) کی رحلت کے ساتھ اگرچہ نبوت کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے ؛ لیکن آسمان سے رابطہ کبھی منقطع نہیں ہوتا؛ لہٰذا کوئی ایسا شخص ضرور ہونا چاہئے جس پر ہر سال ، شب قدر میں روح اور فرشتے نازل ہوں اور تمام امور کو اس کے سامنے پیش کیا جائے۔

ایسی شخصیت کے لئے مطلوبہ شرائط کا حامل ہونا ضروری ہے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اس کو منتخب کرے۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

ابن زمعہ نے انہیں زمین پر گرادیا،اور کہا جاتا ہے کہ جحوم ،عثمان کے غلام نے انہیں اٹھایا اور پھر بہت تیز ز مین پر اس طرح سے گرایا کہ ان کے دانت ٹوٹ گئے اس وقت حضرت علی نے اعتراض کیا اور کہا :صرف ولید کی شکایت پر تم پیغمبر کے صحابی پر یہ ظلم کررہے ہو؟

با لآخر امام عبداللہ کو اپنے گھر لے گئے لیکن عثمان نے اسے مدینہ سے باہر نکلنے پر پابندی لگادی وہ مدینے ہی میں رہے یہاں تک کہ ۳۲ ھ میں ( عثمان کے قتل ہونے سے ۳ سال پہلے) اس دنیا سے کوچ کر گئے۔(۱)

عبداللہ بن مسعود جب بستر بیماری پر تھے تو ان کے دوست و احباب ان کی عیادت کے لئے آئے ، ایک دن عثمان نے بھی ان کی عیادت کی اور دونوں کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ درج ذیل ہے :

عثمان : کس چیز کی وجہ سے فکرمند ہو ؟

عبداللہ : اپنے گنا ہوںکی وجہ سے۔

عثمان : کیا چاہتے ہو ؟

عبد اللہ : خدا کی وسیع ترین رحمت۔

عثمان: تمہارے لئے طبیب کا انتظام کروں ۔

عبداللہ : حقیقی طبیب نے بیمار کیاہے۔

عثمان: حکم دیدوں کہ تمہاری سابقہ پنشن ادا کردی جائے (۲سال سے ان کی پنشن روک دی گئی تھی)۔

عبداللہ: جس دن مجھے ضرورت تھی اس دن تم نے منع کردیا تھا اور آج جب کہ مجھے ضرورت نہیں ہے دینا چاہتے ہو؟

عثمان : ( یہ مال ) تمہا رے بچوں اور وارثوں تک پہونچے گا۔

عبداللہ : خدا ان لوگوں کو رزق دینے والاہے ۔

______________________

(۱) ۔حلیتہ الاولیاء ج ۱ ص۱۳۸۔

۳۲۱

عثمان: خدا سے میرے لئے استغفار کرو۔

عبداللہ: خدا سے یہی چا ہونگا کہ میرا حق تجھ سے لے لے۔

جب عبداللہ نے اپنے کو موت سے قریب پایا تو عماراور ایک روایت کی بنا پر زبیر کو اپنا وصی قرار دیا کہ عثمان کو میرے جنازے پر نماز نہ پڑھنے دینا ،یہی وجہ تھی کہ رات میں نماز جنازہ ہوئی اور دفن کر دیئے گئے،عثمان جب اس واقعہ سے با خبر ہوے توعمار سے پوچھا کہ کیوں عبداللہ کے مرنے کی خبر مجھے نہیں دی ، عمار نے کہا انہوں نے وصیت کیا تھا کہ تم ان کی لاش پر نماز نہ پڑھو، زبیر نے عثمان اور عمار کی گفتگو سننے کے بعد اس شعر کو پڑھا۔

لاعرفنک بعدا لمو ت تندبنی

وفی حیاتی ما زودتنی زادی

میں تجھے دیکھ رہا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد مجھ پر رو رہا ہے ، حالانکہ جب میں زندہ تھا تو نے میرا حق ادا نہیں کیا ۔

جناب عبداللہ بن مسعود پیغمبر کے جلیل القدر صحابی اور بزرگ قاریوں میں سے تھے اور جن کے بارے میں حضرت امیرالمومنین نے فرمایا تھا کہ''علم القر آن وعلم السنة ثم انتهی وکفی به علماً'' (۱)

ان پر ایسا ظلم وستم کرنا حقیقت میں بغیر کسی عکس العمل کے نہ تھا ، جب خلافت ایسے برے کام انجام دے تو لوگوں کے درمیان بدبینی اور انتقام لینے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اگر اس عمل کی تکرار کی وجہ سے لوگوں میں حکومت کے خلاف بغاوت اور انقلاب لانے کی فکر پیدا ہو جائے گی اور جو چیز نہیں ہو نی چاہیئے وہ ہو جاتی ہے ۔

______________________

(۱)یعنی:قرآن و سنت کو سیکھا اور آخر تک پہنچایا یا ان کے لئے یہی کافی ہے،انساب ج۵،ص۳۶۔تاریخ ابن کثیرج۷ص۱۶۳

۳۲۲

۲۔عمار یاسر پر ظلم وستم

یہ صرف عبداللہ بن مسعود نہ تھے جو خلیفہ کی بے توجہی کا نشانہ بنے ،بلکہ عمار یاسر بھی ان کے ظلم و ستم کانشانہ بنے ، ان پر ظلم وستم اور اہانت کی وجہ یہ تھی کہ خلیفہ نے بیت المال کے بعض زیورات کو اپنے

اہل وعیال کے لئے مخصوص کردیا تھا ، اور جب لوگ یہ دیکھ کر بہت غصہ ہوئے تو وہ اپنے دفاع اور صفائی کے لئے منبر پر گئے اور کہا: مجھے جس چیز کی بھی ضرورت ہوگی بیت المال سے لونگا ، اور ان لوگوں کو سخت سزا دوں گا (جو اعتراض کریں گے) علی نے خلیفہ کا جواب دیتے ہوئے کہا: تمہیںاس کام سے رو کا جائے گا۔

عمار نے کہا : خدا کی قسم میں وہ پہلا شخص ہوں جسے اس کی وجہ سے سزا دی جائے گی اس وقت عثمان نے تند لہجہ میں کہا ، اے بڑے پیٹ والے میرے سامنے تمہاری یہ ہمت ؟اسے پکڑ لو ، انھیں پکڑ لیا گیا اور اتنا مارا کی حالت غیر ہو گئی عمار کے دوستوں نے انہیں پیغمبر کی بیوی ام سلمہ کے گھر پہونچایا ، جب انہیں ہوش آیا تو کہا .خدا کا شکر یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ مجھ پر ظلم وستم ہوا ہے جب عائشہ کو اس واقعہ کی خبر ملی تو انہوں نے پیغمبر کا بال ،لباس اور نعلین باہر نکالا اور کہا ابھی پیغمبر کا بال ،لباس ، اور نعلین پرانا نہیں ہوا ہے اور عثمان نے ان کی سنت کو نظر انداز کردیا ہے عثمان عائشہ کی باتیں سن کر بہت غصہ ہوے مگر انہیں کوئی جواب نہیں دیا ۔

۳۲۳

ام سلمہ نے پیغمبر کے بزرگ ساتھی کی خوب تیما داری کی اور قبیلئہ بنی مخزوم کے افراد جو عمار کے ہم خیال تھے ام سلمہ کے گھر آتے جاتے تھے، یہ بات عثمان کو بہت بری لگی اور انہوں نے اعتراض کیا ، ام سلمہ نے عثمان کو پیغام بھجوایا : تم خود لوگوں کو اس کام پر مجبور کرتے ہو۔(۱)

ابن قتیبہ نے اپنی کتاب'' الا ما مة والسیا سة '' میں عمار پر ظلم و ستم کے واقعہ کو دوسری طرح نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :پیغمبر کے تمام صحابی ایک جگہ جمع ہوئے اور خلیفہ وقت کے نام خط لکھا اور اس میں ان کے ظلم وستم اور کمزوریوں کے بارے میںیہ تحریر کیا ۔

۱۔خلیفہ نے چندچیزوں میں پیغمبر کی سنت اور شیخین کی مخالفت کی ہے ۔

۲۔ افریقہ سے آئے ہوئے مال غنیمت کو ، جو کہ رسول اور ان کے اہلبیت (ع ) اور یتیموں اور مسکینوں کا حق تھا ، مروان کے سپرد کردیا ۔

۳۔عثمان نے اپنی بیوی نائلہ اور اپنی بیٹی کے لئے مدینے میں سات گھر بنوائے۔

۴۔ مروان نے بیت المال کی رقم سے مدینہ میں بہت سے ''قصر '' بنوائے ۔

۵۔ عثمان نے تمام سیا سی امور امویوںکے سپرد کر دیا تھا اور مسلمانوں کے تمام امور کی دیکھ بھال

______________________

(۱)انساب ج۵ ص۴۸

۳۲۴

ایسے نوجوان کے ہاتھ میں دے رکھی تھی جس نے ہر گز رسول خدا کو نہ دیکھا تھا۔

۶۔ کوفہ کے حاکم ولید بن عتبہ نے شراب پی کر مستی کے عالم میں صبح کی نماز چاررکعت پڑھائی اور پھر ما مو مین کو مخاطب کرکے کہاہے کہ اگر تم لوگ راضی ہو تو کچھ اور رکعتوں میں اضافہ کروں ۔

۷۔ ان تمام چیزوں کے باوجود ، عثمان نے ولید پر شراب پینے کی حد جاری نہیں کی ۔

۸۔ مہا جروانصار کو چھوڑ دیا ہے اور ان سے مشورہ وغیرہ نہیں کرتا۔

۹۔بادشاہوں کی طرح مدینے کے اطراف کی تمام زمینوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے ۔

۱۰۔ وہ لوگ جنہوں نے ہر گز پیغمبر کے زمانے کو درک نہیں کیا تھا اور نہ کبھی جنگ میں شرکت کی تھی اور نہ اس وقت ہی دین کا دفاع کررہے ہیں ، انہیں بہت زیادہ مال ودولت دیا اور بہت زیادہ زمین ان کے نام کردی ہے ، اس کے علاوہ بھی بہت سی خلاف ورزیاں ہیں ۔

ایک گروہ جس میں دس آدمی شامل تھے ان کے توسط سے یہ خط لکھا گیا لیکن عکس العمل کی وجہ سے لوگوںنے اس پر دستخط نہیں کیا اوراسے عمار کے حوالے کیا کہ عثمان تک پہونچا دیں، وہ عثمان کے گھر آئے اس وقت مروان اور بنی امیہ کے دوسرے گروہ عثمان کے اردگرد بیٹھے تھے، عمار نے خط عثمان کے حوالے کیا خلیفہ خط پڑھنے کے بعد لکھنے والو ں کے نام سے باخبر ہوگیا لیکن وہ سمجھ گیا کہ ان میں سے کوئی بھی ڈر کے مارے ان کے گھر نہیں آیا ہے یہی وجہ تھی کہ انہوں نے عمار کو مخاطب کر کے کہا: میرے ساتھ تمہاری جرأت بہت بڑھ گئی ہے مروان نے خلیفہ سے کہا: اس کالے غلام نے لوگوں کو تمہارے خلاف بھڑکایا ہے اگر اسے قتل کردیا گویا تم نے اپنا اوردوسروں کا بدلہ لے لیا ہے۔

۳۲۵

عثمان نے کہا: اسے مارو۔

سب نے انھیں اتنا مارا کہ بہت زیادہ زخمی ہوگئے اور حالت غیر ہوگئی، پھر اسی حالت میں انھیں گھر سے باہر پھینک دیا گیا۔

ام سلمہ پیغمبر کی بیوی اس واقعہ سے باخبر ہوئیں اور انھیں اپنے گھر لے آئیں ۔ قبیلۂ بنی مغیرہ کے لوگ جوعمار کے ہم فکر و خیال تھے اس واقعہ سے بہت زیادہ ناراض ہوئے۔ جب خلیفہ نماز ظہر پڑھنے کے لئے مسجد میں آئے ا س وقت ہشام بن ولید نے عثمان سے کہا: اگر عمار ان زخموں کی وجہ سے مر گئے تو بنی امیہ کے ایک شخص کو قتل کر ڈالوں گا۔

عثمان نے جواب میںکہا: تم ایسا نہیں کر سکتے۔

اس وقت علی کی طرف متوجہ ہوے دونوں کے درمیان سخت لہجہ میں گفتگو ہوئی۔ یہاں گفتگو طولانی ہونے کی وجہ سے ہم نقل کرنے سے پرہیز کر رہے ہیں۔(۱)

پانچویں وجہ، بزرگ شخصیتوں کو جلا وطن کرنا

پیغمبر اسلام (ص)کے بہت سے صحابی اور دوست جو امت کے درمیان حسن سلوک اور تقوے میں بہت مشہور تھے ان کو عثمان نے کوفہ سے شام اورشام سے ''حمص'' اور مدینہ سے ''ربذہ'' کی طرف جلا وطن کردیا۔

تاریخ اسلام کا یہ باب بہت ہی دردناک باب ہے اور اس کا مطالعہ کرنے والا ایک ظالم و ستمگر حکومت و خلافت کا احساس کرتا ہے اورہم اس باب میں چند کی طرف مختصرا ً اشارہ کریں گے اور چونکہ تقریباً سبھی لوگ ابوذر کی جلا وطنی سے باخبر ہیں(۲) لہذا ان کے حالات نقل نہیں کریں گے اور عثمان کی خلافت کے زمانے میںجودوسرے بزرگ جو جلا وطن ہوئے ہیں ان کے حالا ت قلمبند کر رہے ہیں۔

______________________

(۱) الامامة و السیاسة، ج۱، ص ۲۹۔

(۲) شخصیتہای اسلامی شیعہ، ج۱، ص ۸۔

۳۲۶

مالک اشتر اور ان کے ساتھیوں کی جلاوطنی

جیسا کہ بیان ہوچکاہے خلیفۂ سوم نے لوگوں کے دبائو کی بنا پر کوفہ کے بدترین حاکم و لید بن عتبہ کو حاکم کے منصب سے معزول کر کے سعید بن عاص اموی کو کوفہ کا حاکم بنادیا اور اسے حکم دیا کہ قرآن کے قاریوں اور مشہور و معروف افراد کے ساتھ اچھا روابط رکھے، یہی وجہ تھی کہ کوفہ کے نئے حاکم کی مالک اشتر اوران کے دوستوںکے ساتھ اوراسی طرح صوحان کے بیٹے زید اور صعصعہ کے ساتھ نشست و گفتگو ہوتی تھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوفہ کے حاکم نے مالک اشتر اوران کے ہمفکروں کو خلیفہ کا مخالف جانااورا س سلسلے میں اس نے خلیفہ سے خفیہ طور پر خط و کتابت کی اور اپنے خط میں لکھا :

مالک اشتر اور ان کے ساتھی قرآن مجید کے قاری ہیں لیکن میں ان کی موجودگی میں اپنا فریضہ انجام نہیں دے سکتا ، خلیفہ نے حاکم کوفہ کو جواب دیا کہ اس گروہ کو جلاوطن کر کے شام بھیج دو، اور اسی کے ساتھ مالک اشتر کو بھی خط لکھا : تم اپنے دل میں کچھ ایسی باتیں چھپائے ہو کہ اگر اس کو ظاہر کیا تو تمھاراخون بہانا حلا ل ہو جائے گا اور مجھے ہرگز اس بات کی امید نہیں ہے کہ تم اس خط کو دیکھنے کے بعد اپنے مشن سے دور ہو جائو گے مگر یہ کہ تم پر سخت بلا و مصیبت نازل ہو، جس کے بعد تمہاری زندگی ختم ہو جائے ، جیسے ہی میرا خط تمہارے پاس پہونچے فوراً شام کی طرف چلے جانا۔

جب خلیفہ کا خط کوفہ کے حاکم کے پاس پہونچا تو اس نے دس آدمیوں پر مشتمل گروہ جس میں کوفہ کے صالح اور متدین افراد تھے ، جلاوطن کر کے شام بھیج دیا جن کے درمیان مالک اشتر کے علاوہ صوحان کے بیٹے زید و صعصعہ اور کمیل بن زیاد نخعی ، حارث عبد اللہ حمدانی وغیرہ جیسی اہم شخصیتیں شامل تھیں۔

۳۲۷

قرآن کریم کے قاریوں اور بہادر و توانا خطیبوں اور متقیوں کے اس گروہ نے شام کے حاکم معاویہ کی زندگی کو بھی عذاب بنادیا تھا اور قریب تھا کہ وہاں کے افراد شام کے حاکم او رخلافت عثمان کے خلاف انقلاب برپا کردیں، لہذا معاویہ نے خلیفہ کو خط لکھا کہ اس گروہ کا شام میں موجود رہنا خلافت کے لئے خطرہ کا باعث ہے اس نے اپنے خط میں لکھا :

''تم نے ایسے گروہ کو شام میں جلاوطن کر کے بھیجا ہے کہ جس نے ہمارے شہر و دیار میں ہنگامہ اور جوش و خروش پیدا کردیا ہے، میں ہرگز مطمئن نہیں ہوں کہ شام بھی کوفہ کی طرح مشکلات میں گرفتار نہ ہو، اور شامیوں کی فکر صحیح و سالم اور استحکام کو خطرہ و مشکل نہ ہو ، معاویہ کے خط سے خلیفہ کے اندر خوف پیدا ہو گیا، خلیفہ نے جواب میں لکھا کہ اس گروہ کو حمص (شام کا ایک دوردراز پسماندہ علاقہ) جلاوطن کر کے بھیج دو۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ خلیفہ نے ارادہ کیا کہ اس گروہ کو دوبارہ کوفہ بھیج دے لیکن سعید بن عاص حاکم کوفہ نے خلیفہ کو اس چیز سے منع کردیا اور اسی وجہ سے وہ لوگ حمص جلاوطن ہوئے۔(۱)

جو لوگ خلیفۂ سوم کے نمائندوں کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے ایک شہر سے دوسرے شہر جلا وطن ہوئے

ان کا جرم یہ تھا کہ وہ لوگ حق بات اور خلافت کے نمائندوں پر تنقید کیا کرتے تھے وہ لوگ یہ چاہتے تھے کہ خلیفہ بھی سیرت پیغمبر پر چلے۔

خلیفہ کے شایان شان یہ تھا کہ کوفہ کے حاکم کی بات سننے کے بجائے کچھ امین اور سچے افراد کو کوفہ بھیجتے، تاکہ وہ حقیقت کا پتہ لگاتے اورایسے اہم کام میں صرف ایک نمائندہ کی بات پر اکتفا نہ کرتے۔

______________________

(۱)الانساب ج۵ ص ۴۳۔ ۳۹؛ اس کی تفصیل تاریخ طبری ج۳ ص ۳۶۸۔ ۳۶۰؛ (حادثہ کا سال ۳۳ھ) میں بیان ہوئی ہے۔

۳۲۸

جلاوطن ہونے والے افراد کون تھے؟

۱۔ مالک اشتر: اس عظیم شخصیت کا نام ہے جس نے پیغمبر (ص)کے زماکو درک کیا تھا اور کسی ایک مورخ نے ، ان کے خلاف ایک جملہ بھی نہیں لکھا ہے، اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے بیان میں ان کی اس طرح سے تعریف و توصیف کی ہے کہ آج تک کسی کی بھی اس طرح تعریف نہیں کی ۔(۱)

جب مالک اشتر کی وفات کی خبر امام کو ملی بہت زیادہ غمگین ہوئے اور کہا:

''و ما مالک؟ لوکان من جبل لکان فنداً و لو کان من حجر لکان صلداً أما و الله لیهدن موتک عالماً و لیفرحن عالماً علی مثل مالک فلیبک البواکی و هل موجود کمالک''؟ (۲)

کیا تم جانتے ہو کہ مالک کیسا آدمی تھا؟ اگر وہ پہاڑ تھا تو اس کی سب سے بلند چوٹی تھا (کہ اس پر سے پرندے پرواز نہیں کرسکتے) اور اگر وہ پتھر تھا تو بہت سخت پتھر تھا اے مالک تمہاری موت نے ایک دنیا کو غمگین اوردوسری دنیا کو خوشحال کردیا، مالک پر رونے والوں کی طرح گریہ کرو۔ کیا مالک کے جیسا کوئی موجود ہے؟

۲۔ زید بن صوحان: ان کی شخصیت کے بارے میں بس اتنا ہی کافی ہے کہ ابوعمر واپنی کتاب ''استیعاب'' میں لکھتا ہے۔

''یہ اپنے قبیلے کے بہت ہی با فضیلت، بزرگ اور دیندار تھے ،جنگ قادسیہ میں اپنا ایک ہاتھ قربان کرچکے تھے اور جنگ جمل میں امام علی کے رکاب میں جام شہادت نوش کیا۔(۳)

______________________

(۱) نہج البلاغہ، نامہ ۳۸،''فقد بعثت الیکم عبداً من عباد الله لاینام ایام الخوف...''

(۲)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۶ ص۷۷ (۳) استیعاب ج۱ ص ۱۹۷۔

۳۲۹

خطیب بغدادی لکھتا ہے: زید راتوں کو عبادت کرتے اوردن کو روزہ رکھتے تھے۔(۱)

۳۔ صعصعہ: زید کے بھائی صعصعہ بھی آپ ہی کی طرح بزرگ و باعظمت اور دیندار تھے۔

۴۔ عمر وبن حمق خزاعی: پیغمبر کے خاص صحابیوں میں سے تھے اور آپ کی بہت سی حدیثیں یاد کئے ہوئے تھے، انھوں نے جب رسول اسلام کو دودھ سے سیراب کیا تھا تو رسول اسلام نے ان کے لئے دعا کی تھی اور فرمایا تھا خداوند ااسے اس کی جوانی سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرما۔(۲)

ان افراد کی آشنائی سے ہمیں دوسرے جلاوطن افراد کی شناسائی ہوتی ہے، کیونکہ بحکم ''الانسان علی دین خلیلہ'' یہ سب کے سب ایک ہی فکر و نظر رکھتے تھے اور متحد تھے اور خلیفہ وقت کی غلط روش اور اس کے کارندوں پر ہمیشہ تنقید و اعتراض کیا کرتے تھے ان تمام افراد کی زندگی کے حالات اور ان کے علمی ، سیاسی اور معنوی مقامات کا تذکرہ کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ بحث طولانی ہو جائے گی، لہذا اپنی گفتگو کو مختصر کر رہے ہیں اور دوسرے افراد جو جلاوطن ہوئے ہیں ان کی اہم خصوصیات کو بیان کر رہے ہیں۔

کعب بن عبدہ نے اپنی دستخط کے ساتھ خلیفہ سوم کو خط لکھا اوراس میں کوفہ کے حاکم وقت کے برے کاموں کی شکایت لکھی، اورخط کوابو ربیعہ کے حوالے کیا، جس وقت قاصد نے خط ،عثمان کے سپرد کیا فوراً اسے گرفتار کرلیا گیا۔ عثمان نے کعب کے تمام ہمفکروں کو جنھوںنے (بغیر دستخط کے) اجتماعی طور پر خط لکھا تھا اورابو ربیعہ کودیا تھا اس سے پوچھا لیکن اس نے ان لوگوں کا نام بتانے سے انکار کیا ۔ خلیفہ نے قاصد کو سزا دینے کے لئے کہا: لیکن علی علیہ السلام نے اسے اس کام سے روک دیا ۔ پھر عثمان نے اپنے کوفہ کے حاکم سعد بن العاص کو حکم دیا کہ کعب کو ۲۰ تازیانے مارو جائے اور اسے رے جلاوطن کر کے بھیج دو۔(۳)

عبدالرحمن بن حنبل جمحی، پیغمبر کے صحابی کو مدینہ سے خیبر کی طرف جلاوطن کر دیا گیا ، ان کا جرم یہ تھا کہ خلیفہ کے عمل پر ، یعنی وہ مال غنیمت جوافریقہ سے آیاتھا اوراسے مروان کو دیدیا، اعتراض کیا تھا اوراس سلسلے میں یہ شعر بھی کہا تھا۔

______________________

(۱) معارف ابن قتیبہ ص ۱۷۶۔

(۲) تاریخ بغداد ج۸ ص ۴۳۹۔

(۳) انساب ج۵ ص ۴۳۔ ۴۱؛ تاریخ طبری ج۳ ص ۳۷۳۔ ۳۷۲۔

۳۳۰

و اعطیت مروان خمس الغنیمة

آثرته و حمیت الحمیٰ

مال غنیمت کا ۱۵ حصہ مروان کودیدیا اوراسے دوسروں پر مقدم سمجھا اور اپنے رشتہ داروں کی حمایت کی یہ مرد مجاہد جب تک عثمان زندہ رہا خیبر میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔(۱)

______________________

(۱) تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۵۰۔

۳۳۱

دوسری فصل

مقدمہ کا واقعہ اورعثمان کا قتل

پانچ عوامل کا عکس العمل

جو پانچ وجہیں ہم نے بیان کیں ان کی وجہ سے تمام اسلامی مملکتوں سے اعتراضات ہونے لگے اور خلیفہ اور اس کے تمام نمائندوں پر الزامات لگنے لگے ان تمام لوگوں پر یہ الزام لگایا گیا کہ سب کے سب صحیح اسلامی راستے سے منحرف ہوگئے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ صحابیوں اور مسلمانوں نے ہمیشہ خلیفہ سے درخواست کیا کہ اپنی روش کو بدل دیں یا یہ کہ مسند خلافت سے دور ہو جائیں۔

اس مخالفت و اعتراض کی عظمت اس وقت ظاہر ہوگی جب ہم بعض اعتراض کرنے والوں کے نام اور ان کی گفتگو سے آشنا ہوں ۔

۱۔ امیر المومنین علیہ السلام نے عثمان کے طور طریقہ پر بہت زیادہ گفتگو کی ہے، چاہے وہ قتل سے پہلے ہو یا قتل کے بعد ۔ انہی میں سے ایک یہ ہے جو امام کا خلیفہ کے کاموں سے متعلق یہ نظریہ ہے جس دن آپ نے مہاجرین کے فرزندوں کو شامیوں کے ساتھ جنگ کرنے کی دعوت دی، تو آپ نے فرمایا:

''یَا أَبْنَاء الْمُهٰاجِرِیْنَ انفروا علی ائمة الکفر و بقیة الاحزاب و اولیاء الشیطان انفروا الی من یقاتل علی دم حمّال الخطایا فو اللّهِ الذی فلق الحبة و برأ النسمة انه لیحمل خطایا هم الی یوم القیامة لاینقص من اوزارهم شیئاً'' (۱)

اے مہاجرین کے بیٹو! کفر کے سرداروں اور شیطان کے باقی بچے ہوئے دوستوں اور گروہوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے اٹھ جاؤ تاکہ اس کو قتل کرسکو جس کی گردن پر بہت سے گناہ ہیں ( یعنی عثمان کو قتل کیا ہے) اس خدا کی قسم کہ جس نے دانہ کو شگافتہ اورانسان کو پیدا کیا وہقیامت تک دوسروں کے گناہوں کو اپنے ذمہ لیتا رہے گا جب کہ دوسروں کے گناہوں سے کچھ بھی کم نہ ہوگا۔

___________________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۲، ص ۱۹۴، (طبع جدید)

۳۳۲

امام نے اپنی خلافت کے دوسرے دن ایک تقریر کے دوران فرمایا:

''ألا ان کل قطیع أقطعها عثمان و کل مال أعطاه من مال الله فهو مردود فی بیت المال'' (۱)

ہر وہ زمین جسے عثمان نے دوسروں کو دیدیا ہے اورہر وہ مال جو خدا کے مال میں سے ہے اور وہ کسی کو دیا ہے ضروری ہے کہ وہ بیت المال کو واپس کیا جائے۔

امام کا یہ کلام اوردوسرے کلام خلیفہ کے کاموں کو روشن کرتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ واضح و ہ کلمات ہیں جو آپ نے خطبہ شقشقیہ میں بیان کیا ہے۔

''الی ان قام ثالث القوم نافجاً حضنیه، بین نثیله و معتلفه ،و قام معه بنو أبیه یخضمون مال الله خضم الابل نبتة الربیع'' (۲)

(غرض اس قوم کا تیسرا آدمی پیٹ پھیلائے اپنے گوبر اور چارے کے درمیان کھڑا ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے بھائی بند کھڑے ہوئے جو خدا کا مال اس طرح خوش ہو کرکھارہے تھے جیسے اونٹ موسم بہار کی گھاس خوش ہوہو کر کھاتاہے ، رضوی )

۲۔ پیغمبراسلام کی بیوی ،نے سب سے زیادہ عثمان کے کاموں کو غلط بتاتی تھیں، جب عمار پر عثمان کی طرف سے ظلم و ستم ہوا اور عائشہ کو اس کی خبر ملی تو پیغمبر کے لباس اور نعلین کو باہر لائیں اور کہا کہ ابھی پیغمبر کا لباس اور جوتیاںپرانی نہیں ہوئی ہیں تم نے ان کی سنت کو فراموش کردیاہے۔

ان دنوں جب مصریوں اورکچھ صحابیوںنے عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا تھا اس وقت عائشہ مدینہ چھوڑ کر خدا کے گھر کی زیارت کے لئے روانہ ہوگئیں جب کہ مروان بن حکم، زید بن ثابت او رعبد الرحمن بن عتاب نے عائشہ سے درخواست کی تھی کہ اپنا سفر ملتوی کردیں کیونکہ مدینہ میں ان کے رہنے کی وجہ سے ممکن ہے کہ عثمان کے سر سے یہ بلا ٹل جائے۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۱۴۔

(۲) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۳۔

۳۳۳

عائشہ نے نہ صرف ان کی درخواست کو ٹھکرا دیا، بلکہ کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ کاش تمہارے اور تمہارے دوست جن کی تم مدد کر رہے ہو، کے پیر میں پتھر ہوتا تو تم دونوں کو دریا میں ڈال دیتی، یا اسے ایک بوریہ میں رکھ کردریا میں ڈال دیتی۔(۱)

عثمان کے بارے میں عائشہ کی باتیں اس سے کہیں زیادہ ہیں جنہیں ہم نے پیش کیا ہے۔بس اتنا کافی ہے کہ جب تک وہ عثمان کے قتل اور علی کی بیعت سے باخبر نہ تھیں مستقل عثمان پر اعتراض و تنقید کر رہی تھیں، لیکن جب حج کے اعمال سے فارغ ہوئیں او رمدینہ کا سفر کیا اوردرمیان راہ ''سرف'' نامی مقام پر عثمان کے قتل او ربیعت علی سے باخبر ہوئیں تو فوراًنظریہ کو بدل دیااور کہا کاش آسمان میرے سر پر گرجاتا، یہ جملہ کہا اور لوگوں سے کہا کہ مجھے مکہ واپس لے چلو کیونکہ خدا کی قسم عثمان مظلوم ماراگیا ہے اور میں اس کا بدلہ لوں گی۔(۲)

۳۔ عبدالرحمن بن عوف بھی عثمان پر اعتراض کرنے والوں میں سے ہیں وہ ایسا شخص ہے کہ چھ آدمیوں پر مشتمل شوریٰ میں عثمان کی کامیابی اسی کے مکرو فریب سے ہوئی تھی۔جس وقت عثمان نے اپنے تعہد کو جو سنت پیغمبر اور شیخین کی روش پر چلنے کے لئے کیا تھا اس کو توڑ ڈالا ،تو لوگوں نے عبد الرحمن پر اعتراض کیا اور کہا یہ سب خرابیاں تمہاری وجہ سے ہیں تو اس نے جواب میں کہا مجھے اس بات کی امید نہ تھی کہ نوبت یہاں تک پہونچ جائے گی، اب میں اس سے کبھی گفتگو نہیں کروں گا اور پھر عبد الرحمن نے اس دن سے آخر دم تک عثمان سے بات نہیں کی، یہاں تک کہ جب عثمان، عبد الرحمن کی حالت بیماری میں عیادت کرنے آئے تو اس وقت عبد الرحمن نے خلیفہ کی طرف سے اپنے چہرے کو موڑ لیا اور ان سے بات نہیں کی ۔(۳)

جی ہاں، وہ افراد جنہوںنے خلیفہ کے خلاف اعتراضات کئے اورا ن کے قتل کے مقدمات فراہم کئے بہتر ہے ان کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے جن کا ذکر کیا ہے دو اہم چیزوں کا ذکر کرنا مناسب ہے وہ یہ کہ طلحہ و زبیر سب سے زیادہ ان پر اعتراض کرتے تھے ، بہرحال ، لوگوں کا نام اور مخالفین کی گفتگو ؤں اور خلیفہ کو ان کے منصب سے گرانے والے افراد کے نام کے لئے تاریخی کتابوں کی طرف رجوع کریں، کیونکہ ہمارا مقصد عثمان کی خلافت کی معزولی کو بیان کرنا نہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ لوگوں نے حضرت علی کے ہاتھ پر کیسے بیعت کی؟

______________________

(۱)الانساب ج۵ ص ۴۸۔----(۲) تاریخ طبری ج۳ ص ۴۷۷۔------(۳) انساب الاشراف، ج۵، ص ۴۸۔

۳۳۴

عثمان کے گھر کا محاصرہ

شورش کی پانچوں عوامل نے اپنا کام کر دکھایا او رعثمان کا اپنے نقائص اورخلافت پر اعتراض سے بے توجہی سبب بنی کہ اس وقت کے اسلام کے اہم مراکز، مثلاً کوفہ، بصرہ اور مصر کچھ لوگ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر اور خلیفہ کو کتاب الہی اور سنت پیغمبر و سیرت شیخین کی مخالفت سے روکنے کے لئے مدینہ روانہ ہوں کہ مدینے میں رہنے والے اپنے ہمفکروں کے ساتھ کوئی راہ حل تلاش کریں خلیفہ توبہ کریں اور حقیقی اسلام کی طرف پلٹیں، یا مسند خلافت سے دور ہو جائیں۔

بلاذری اپنی کتاب ''انساب الاشراف'' میں لکھتے ہیں:

۳۴ ھ میں خلیفہ کی سیاست سے مخالفت کرنے والے تین شہروں کوفہ ، بصرہ اور مصر سے مسجد الحرام میں جمع ہوئے اور عثمان کے کاموں پر گفتگو کرنے لگے۔ اور سب نے ارادہ کیا کہ خلیفہ کے برے کاموں پر گواہ و شاہد بن کر اپنے اپنے شہر واپس جائیں اور جو لوگ اس سلسلے میں ان کے ہم خیال ہیں ان سے گفتگو کریں ، اور آئندہ سال انہی دنوں میں ملاقات کریں اور خلیفہ کے بار ے میں کوئی فیصلہ کریں۔ اگر وہ اپنے غلط کاموں سے باز آجائیں تو اس کے حال پر چھوڑ دیں، لیکن اگر باز نہ آئے تو اسے اس منصب سے الگ کردیں۔

اسی وجہ سے دوسرے سال (۳۵ ھ) میںمالک اشتر کی سرداری میں کوفہ سے ایک ہزار کا لشکر، حُکیم بن جبلَّہ عبدی کی سرداری میں بصرہ سے ڈیڑھ سو آدمیوں کا لشکر ، کنانہ بن بشر سکونی تجیبی اورعمر اور بدیل خزاعی کی سرپرستی میں مصر سے چار سو یا اس سے زیاد ہ افراد کا لشکر مدینہ میں داخل ہوا۔ اور مہاجر و انصار کے بہت سے افراد جو خلیفہ کے طریقہ کے مخالف تھے وہ بھی ان سے ملحق ہو گئے۔(۱)

______________________

(۱) الغدیر، ج۹، ص ۱۶۸۔

۳۳۵

مسعودی لکھتاہے:

چونکہ عبد اللہ بن مسعود، عمار یاسرا ور محمد بن ابی بکر، خلیفہ کی نظر میں بے توجہی کا شکار تھے، قبیلۂ ''بنی زُھر'' عبد اللہ کی حمایت میں اور ''بنی مخزوم'' عمار کی حمایت میں اور تیم، محمد بن ابی بکر کی وجہ سے اور ان تین گروہوں کے علاوہ دوسرے افراد بھی انقلابیوں کے ساتھ مل گئے اور خلیفہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔

مصریوں نے خلیفہ کو جوخط لکھا اس کا مضمون یہ ہے:

اما بعد: خداوند عالم کسی قوم کی حالت کونہیں بدلتا مگر یہ کہ وہ خود اس کو بدل ڈالیں، خدا کے واسطے، خدا کے لئے، پھر خدا کے واسطے آخرت میں اپنے حصہ کو فراموش نہ کرو ، خدا کی قسم، ہم لوگ خدا کے لئے غضبناک ہوتے ہیں اور خدا ہی کے لئے خوشحال ہوتے ہیں، ہم اپنی اپنی تلواروں کواپنے کاندھوں سے اتار کر زمین پر نہیں رکھیں گے جب تک تمہارے سچے توبہ کی خبر ہم تک نہ پہونچ جائے یہی ہمارا پیغام ہے۔(۱)

______________________

(۱) مروج الذہب ج۳ ص ۸۸ طبع بیروت سال ۱۹۷۰۔

۳۳۶

مخالفوں کے سامنے خلیفہ کا تعہد

گھر کا محاصرہ سبب بنا خلیفہ اپنے کاموں پر سنجیدگی سے سوچیںاور محاصرہ ختم کرنے کی سبیل نکالیںلیکن وہ شورش کی تہ سے آگاہ نہیں تھے اور معاشرے کے اچھے لوگوں کو برے لوگوں کے درمیان تشخیص نہیں دے پارہے تھے،انہوں نے گمان کیا کہ شاید مغیرہ بن شعبہ یا عمرو عاص کے وسیلے سے یہ ناگہانی بلا ٹل جائے گی، اس وجہ سے اس نے ان دونوں کو انقلابیوں کی آگ خاموش کرنے کے لئے گھر کے باہر بھیجا، جب انقلابی لوگوں نے ان منحوس چہروں کو دیکھا توان کے خلاف نعرے لگانے لگے ۔ اور مغیرہ سے کہا: اے فاسق و فاجر واپس جا واپس جا ، اور عمرو عاص سے کہا: اے خدا کے دشمن واپس چلا جا کہ تو امین و ایماندار نہیں ہے اس وقت عمر کے بیٹے نے خلیفہ سے حضرت علی کی عظمت کے بار ے میں بتایا اور کہا کہ صرف وہی اس شورش کی آگ کو خاموش کرسکتے ہیںلہٰذا خلیفہ نے حضرت سے درخواست کی کہ اس گروہ کو کتاب خدا اور سنت پیغمبر کی دعوت دیجئے ۔امام نے اس کی درخواست کو اس شرط پر قبول کیا کہ جن چیزوں کی میں ضمانت لوں خلیفہ اس پر عمل کرے، علی علیہ السلام نے ضمانت لی کہ خلیفہ، کتاب خدا اور سنت پیغمبر پر

عمل کریں انقلابیوں نے حضرت علی علیہ السلام کی ضمانت قبول کرلیا اور وہ سب آنحضرت کے ساتھ عثمان کے پاس آئے اور ان کی سخت مذمت کی انہوں نے بھی ان لوگوں کی باتوں کو قبول کرلیا اور یہ طے پایا کہ عثمان تحریری طور پر تعہد دیں۔

چنانچہ تعہد نامہ اس طرح سے لکھا گیا:

''یہ خط خدا کے بندے امیر المومنین عثمان کی طرف سے ان لوگوں کے نام ہے جن لوگوں نے ان پر تنقید کی ہے ، خلیفہ نے یہ عہد کیا ہے کہ خدا کی کتاب اور پیغمبر کی سنت پر عمل کرے گا، محروموں کی مدد کرے گا ڈرے اور سہمے افراد کو امان دیں گے، جلاوطن کئے ہوئے لوگوں کو ان کے وطن واپس بلائے گا، اسلامی لشکر کو دشمنوں کی سرزمین پر نہیں روکے گا، ...علی علیہ السلام مسلمانوں اور مومنوں کے حامی ہیں اور عثمان پر واجب ہے کہ اس تعہد پر عمل کرے''۔

۳۳۷

زبیر ، طلحہ، سعد وقاص، عبد اللہ بن عمر، زید بن حارث، سہل بن حنیف، ابو ایوب وغیرہ نے گواہ کے طور پر اس تعہد نامہ کے نیچے دستخط کئے یہ خط ذیقعدہ ۳۵ھ میں لکھا گیا اور ہر گروہ کو اسی مضمون کا خط ملا اوروہ اپنے اپنے شہر واپس چلا گیا اس طرح خلیفہ کے گھر کا محاصرہ ختم ہوگیا اور لوگ آزادانہ طور پر آنے جانے لگے۔(۱)

انقلابیوں کے چلے جانے کے بعد، امام نے دوبارہ خلیفہ سے ملاقات کی اوران سے کہا: تم پر ضروری ہے کہ تم لوگوں سے بات کرو تاکہ وہ لوگ تمہاری باتوں کو سنیں اور تمہارے حق میں گواہی دیں، کیونکہ انقلاب کی آواز تمام اسلامی ملکوں تک پہونچ چکی ہے اور بعید نہیں کہ دوسرے شہروں سے پھر کئی گروہ مدینہ پہونچ جائیں اور پھر دوبارہ تم مجھ سے درخواست کرو کہ میں ان سے بات کروں۔ خلیفہ کوحضرت علی کی صداقت پر پورا بھروسہ تھا لہٰذا گھر سے باہر آئے اوراپنے بے جا کاموں کی وجہ سے شرمندگی کا اظہار کیا۔

امام نے اتحاد مسلمین اور مقام خلافت کی عظمت کے لئے بہت بڑی خدمت انجام دی، اگر عثمان اس کے بعد حضرت علی کی ہدایت و رہنمائی پر عمل کرتے تو کوئی بھی واقعہ ان کے ساتھ پیش نہ آتا، لیکن افسوس خلیفہ ارادے کے ضعیف اور بے جا بولنے والے تھے اور ان کو مشورہ دینے والے حقیقت شناس اور سچے نہ

______________________

(۱) الانساب ج۵ ص ۶۲۔

۳۳۸

تھے اور مروان بن حکم جیسے افراد نے ان کی عقل و دور اندیشی کو چھین لیا تھا لہذا مصریوں کے چلے جانے کے بعد خلیفہ نے مروان کے شدید اصرار پر بہت ہی غیر شائستہ فعل انجام دیا، عثمان نے چاہاکہ مصریوں کے ساتھ اپنی ملاقات کودوسرے انداز سے پیش کریں اوراس طرح سے بیان کریںکہ مدینہ سے مصر شکایتیں پہونچی تھیںاور وہ لوگ یہاں تحقیق کرنے کے لئے آئے تھے اور جب ان لوگوں نے دیکھا کہ تمام شکایتیں بے اساس ہیں تو وہ لوگ اپنے وطن واپس چلے گئے۔

جب یہ بات لوگوں نے خلیفہ کی زبان سے سنی تو مخالفین کی طرف سے اعتراض و تنقیدہونے لگی، سب ان سے کہہ رہے تھے کہ خدا سے ڈرو! توبہ کرو! اعتراض اتنا شدید تھا کہ خلیفہ نے دوسری مرتبہ پھر اپنی باتیں واپس لے لیں، اور قبلہ کی طرف دونوں ہاتھ بلند کیا اور کہا:

''پروردگارا! میں پہلا وہ شخص ہوں جو تیرے پاس واپس آؤں گا''(۱)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۳ ص ۳۸۵، طبع اعلمی بیروت۔

۳۳۹

انقلابیوں کے سرداروں کو قتل کرنے کا حکم دینا

قریب تھا کہ مصریوں کی آفت جائے کیونکہ وہ لوگ مدینے سے مصر کی طرف روانہ ہوچکے تھے لیکن راستے میں ''ایلہ'' نامی مقام پر لوگوں نے عثمان کے غلام کو دیکھا کہ مصر کی طرف جارہا ہے، ان لوگوں کو شک ہوا کہ شاید وہ عثمان کا خط لے کر مصرکے حاکم عبداللہ بن ابی سرح کے پاس جا رہا ہے اسی وجہ سے اس کے سامان کی تلاشی لینے لگے، اس کے پانی کے برتن میں سے رانگے (قلع) کا ایک پائپ نکلا جس کے اندر خط رکھا تھا ،خط میں حاکم مصر کو خطاب کرتے ہوئے لکھا تھا جیسے ہی عمر و بن بدیل مصر میں داخل ہو اسے قتل کردینا، اور کنانہ ، عروہ، اور ابی عدیس کے ہاتھوں کو کاٹ دینا اور اسی طرح خون میں تڑپتاہوا چھوڑ دینا اور پھر ان لوگوں کو پھانسی پر چڑھا دینا۔ خط دیکھنے کے بعد مصری اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے، اور سب کے سب آدھے ہی راستے سے مدینہ واپس آگئے۔ اور علی علیہ السلام سے ملاقات کی اور انھیں خط دکھایا ۔ علی علیہ السلام خط لے کر عثمان کے گھر آئے اور اسے دکھایا عثمان نے قسم کھا کر کہا کہ یہ تحریر ان کے کاتب کی اور مہر انہی کی ہے لیکن وہ اس سے بے خبر ہیں، حقیقت میں بات یہی تھی کہ خلیفہ اس خط سے بالکل بے خبر تھے اور ان کے ساتھیوں مثلاً مروان بن حکم کا کام تھا خلیفہ کی مہر حمران بن ابان کے پاس تھی کہ اس کے بصرہ جانے کے بعد مہر مروان کے پا س تھی۔(۱) مصریوں نے خلیفہ کے گھر کا دوبارہ محاصرہ کرلیااور ان سے ملاقات کرنے کو کہا اور جب لوگوں نے عثمان کودیکھا تو اس سے پوچھا: کیا تم نے اس خط کو لکھا ہے؟ عثمان نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہے، گروہ کے نمائندہ نے کہا: اگر ایسا خط تمہاری اطلاع کے بغیر لکھا گیا ہے تو تم خلافت اور مسلمانوں کے امور کی ذمہ داری لینے کے لائق نہیں ہو، لہٰذا جتنی جلدی ہو خلافت سے کنارہ کشی اختیار کر لو، خلیفہ نے کہا کہ خدا نے جو لباس میرے بدن پر ڈالا ہے اسے میں ہرگز اتار نہیں سکتا، مصریوں کے انداز گفتگو نے بنی امیہ کو ناراض کردیا ، لیکن بجائے اس کے کہ اصلی علت کو بیان کریں، علی کے علاوہ انھیں کوئی اور نظر نہیں آیا اور مصریوں کی طرف سے مقام خلافت پرہونے والی جسارت کا الزام ان پر لگایا، امام نے ان لوگوں کوتیز ڈانٹا اور کہا کیا تم نہیں جانتے کہ اس وادی میں میرے پاس کوئی اونٹ نہیں ہے یعنی مرا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہے اس وقت کہا:

______________________

(۱) مروج الذہب ج۲ ص ۳۴۴۔

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809