فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیة اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 302010
ڈاؤنلوڈ: 4165

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 302010 / ڈاؤنلوڈ: 4165
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یہی وجہ ہے کہ جب انقلابیوں نے عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا اور معاویہ کو اس کی خبر ملی تو اس نے کوئی مدد نہ کی تاکہ جتنی جلدی ہو عثمان کا سایہ اس کے سر سے دور ہوجائے اور وہ اپنی آرزو تک پہونچ جائے، ایسا شخص کبھی بھی امام ـ کی دعوت کو قبول نہیں کرتا ، بلکہ اس سے اپنے فائدے اور امام ـ کے نقصان کے لئے استفادہ کرتا، تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ خلیفۂ وقت نے معاویہ سے مدد طلب کی مگر اس نے حالات آگاہی کے باوجود بھی ان کی مدد کے لئے قدم نہ بڑھایا۔

امیر المومنین ـ نے اپنے ایک خط میں معاویہ کو لکھا ''تم نے عثمان کی اس وقت مدد کی جب مدد کرنے میں تیرا فائدہ تھا اور اس دن تم نے اسے ذلیل و خوار کردیا کہ جس دن مدد کرنے میں صرف اس کا فائدہ تھا''(۱)

امیر المومنین ـ پھر اپنے ایک خط میں معاویہ کو لکھتے ہیں کہ ''خدا کی قسم ، تمہارے چچا زاد بھائی کو تمہارے علاوہ کسی نے قتل نہیں کیا اور مجھے امیدہے کہ تجھے اس کے گناہوں کی طرح اس سے ملحق کردوں''۔(۲)

ابن عباس اپنے خط میں معاویہ کو لکھتے ہیں ''تمھیں عثمان کے مرنے کا انتظار تھا۔تو اس کی بربادی کا خواہاں تھا۔تونے اس کی مدد کرنے سے لوگوں کو منع کردیا اس کا خط اور مدد کی درخواست اور استغاثہ کی آواز تجھ تک پہونچی لیکن تونے کوئی توجہ نہ دی، جب کہ تو جانتا تھا کہ جب تک لوگ اسے قتل نہ کرلیں نہیں چھوڑیں گے، وہ قتل کردیا گیا اور جب کہ تو بھی یہی چاہتا تھا۔ اگر عثمان مظلوم قتل ہواتو سب سے بڑا ظلم کرنے والا تو تھا۔

کیا ایسی حالت میں جب کہ وہ ہمیشہ عثمان کی موت یا اس کے قتل کا انتظار کر رہا تھا تاکہ اپنی آرزو کو پہونچ جائے، وہ امام ـ کی دعوت کو قبول کرتا؟ اور جو موقع اسے بہت ہی مشکلوں سے حاصل ہوا تھا، اسے گنوا دیتا؟

______________________

(۱) نہج البلاغہ نامہ ۳۷۔

(۲) العقد الفرید، ج۲، ص ۲۲۳۔

۳۶۱

پانچویں فصل

خلافت، معاویہ کی دیرینہ آرزو

گذشتہ دلیلوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ معاویہ جیسوں کو خلافت کے امور سے معزول کردینا نہ صرف پرہیزگاری کا تقاضا تھا بلکہ دور اندیشی، مستقبل ، سیاست و درایت اور بہت کم نقصان کے تحمل کا تقاضا تھا اور امام ـ کی راہ صحیح ترین راہ تھی جو ایک واقعے میں سیاستمدار منتخب کرسکتا تھا اور معاویہ کے ساتھ نرمی و مدارا کرنے میں زیادہ نقصان کے سوا کچھ نہ تھا۔

اگر ابن عباس نے امام ـ سے کہا کہ اپنے دیرینہ دشمن کے ساتھ ہمدردی کریں تو ان کایہ مشورہ عاقلانہ نہ تھا اور اگر عرب کا معروف و مشہور سیاستمدار مغیرہ بن شعبہ نے امام ـ کو جو مشورہ دیا کہ معاویہ کو اس کے منصب سے معزول نہ کردیں اور پھر دوسرے دن اس کے برعکس نظریہ پیش کیا اور کہا کہ مصلحت اسی میں ہے کہ اسے اس کے منصب سے معزول کردیں ،تو معلوم نہ ہوسکا کہ مغیرہ ان دونوں نظریوں میں سے کس میں سچا تھا۔

نادان افراد جو یہ سوچتے ہیںکہ معاویہ کو اس کے مقام پر باقی رکھنے میں علی کے لئے فائدہ تھا انہیں معلوم ہونا چاہیئے چونکہ امام ـ ان افراد میں سے تھے جو حق کی پیروی کو ہر چیز پر مقدم رکھتے تھے نتیجے کی فکر کئے بغیر، اور سیاسی اورفوجی نقصان کے محاسبہ کے بغیر معاویہ کو معزول کرنے کا حکم صادر فرمایا ، وہ لوگ معاویہ کے بدترین ارادے اور خلافت تک پہونچنے کی اس کی دیرینہ خواہش جس کی کوشش خلیفہ سوم کے زمانے ہی سے شروع ہو چکی تھی اور عثمان کے قتل کے بعداور امام کی طرف سے معزولی کا حکم پہنچنے سے پہلے تمام جگہوں پر اس کا خط بھیجنا ایسے مسائل ہیں جن سے آگاہ نہیں ہیںاور انھوں نے قضیہ کوسطحی نظر سے دیکھا ہے۔

یہاں کچھ تاریخی ثبوت پیش کر رہے ہیں جواس بات پر شاہد ہیں کہ معاویہ کا مقصدایک ظاہری اسلامی حکومت کے سوا کچھ نہ تھا اور اگر امام ـ شام کی حکومت اس کے سپرد کردیتے تو وہ صرف اسی پر قناعت نہ کرتا بلکہ اس سے سوء استفادہ بھی کرتا۔

۱۔ خلیفہ کے قتل کے بعد، نعمان بن بشیر عثمان کی بیوی کا خط اور اس کا خونی پیراہن لے کر شام کے لئے روانہ ہوا او رمدینہ کے حالات سے باخبر کیا، معاویہ منبر پر گیا اور عثمان کے پیراہن کو ہاتھ میں لے کر لوگوں کو دیکھا یااور عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے لوگوں کو دعوت دی۔ لوگ خلیفہ کے خونی پیراہن کو دیکھ کر رونے لگے اور کہا تم اس کے چچا زاد بھائی اور اس کے شرعی طور پر ولی ہو، ہم لوگ بھی تمہاری ہی طرح اس کے خون کا بدلہ لینا چاہتے ہیں پھر اسے شام کا امیر مان کر اس کے ہاتھوں پر بیعت کر لی۔

۳۶۲

معاویہ نے شام میں رہنے والی بزرگ شخصیتوں کے حالات جاننے کے لئے چند لوگوں کو بھیجا اور شہر حمص کے با اثر شخص شرحبیل کندی کے پاس خط لکھااور اس سے درخواست کی کہ شام کے حاکم کے عنوان سے میری بیعت کرے۔ اس نے جواب میں لکھا ''تم بہت بڑی غلطی کت مرتکب ہو رہے ہو تم مجھ سے درخواست کرتے ہو کہ بعنوان حاکم شام تیری بیعت کروں، خلیفہ سابق کے خون کا انتقام صرف وہ لے سکتا ہے جو خلیفہ مسلمین ہو نہ کہ کسی ایک علاقہ کا امیر، اس وجہ سے میںتمہیں خلیفۂ مسلمین سمجھ کر بیعت کر رہا ہوں''۔

جب شرحبیل کا خط معاویہ کے پاس پہونچا تو وہ بہت خوش ہوا، اور تمام لوگوں کے سامنے اس کے خط کو پڑھا اور پھر ان لوگوں سے خلیفۂ مسلمین کے عنوان سے بیعت لی، پھر علی سے خط و کتابت کا سلسلہ شروع کردیا۔(۱)

تاریخ کا یہ حصہ اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ خلافت قبول کرنے کے لئے معاویہ کا مزاج اس قدر آمادہ تھا کہ صرف شہر حمص کے اثر و رسوخ رکھنے والے شخص کی بیعت پر اس نے خود کو خلیفۂ مسلمین قرار دیا اور شام میں اپنی خلافت کا اعلان کردیا اور بجائے اس کے کہ انقلابیوں خصوصاً مہاجرین و انصار کی حضرت علی کے ہاتھوں پر بیعت کی فکر کرتا خود اپنی بیعت کرائی۔ گویااس نے کئی سال سے اپنے لئے زمین ہموار کرلی تھی کہ صرف ایک مرتبہ میں بیعت کی بات کر کے لوگوں سے بیعت حاصل کرلی۔

۲۔ جب معاویہ کو اس بات کی خبر ملی کہ مدینہ کے لوگوںنے حضرت علی کے ہاتھ پر بیعت کرلی تو قبل اس کے کہ امام ـ کا خط اس کے پاس پہونچتا اس نے دو خط ، ایک زبیر اور دوسرا طلحہ کے نام لکھا۔ اور دونوں کوعراق کے دو بڑے شہروں یعنی کوفہ اور بصرہ پر قبضہ کرنے کے لئے ترغیب دلائی۔ اس نے زبیر کو اس طرح خط لکھا ''میں نے شام کے لوگوں سے تمہارے لئے بیعت لے لی ہے لہٰذا جتنی جلدی ہو کوفہ اور

______________________

(۱) الامامة والسیاسة، ج۱، ص ۶۹۔ ۱۰۔

۳۶۳

بصرہ پر حکومت کرنے کے لئے اپنے کو آمادہ کرلو اور میں نے تمہارے بعد طلحہ کی بیعت لی جتنی جلد ہوسکے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے قیام کرو اور لوگوں کو اس کام کی دعوت دو''۔

زبیر خط کا مضمون پڑھ کر بہت خوش ہوا اور طلحہ کو اس سے باخبر کیا اوردونوںنے کہ امام ـ کے خلاف قیام کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔

معاویہ نے دوسرا خط طلحہ کے نام لکھا ، جس کا مضمون زبیر کے خط سے بالکل الگ تھا اس نے خط میں لکھا کہ ''میں نے خلافت کو تم دونوں کے لئے ہموار کیاہے تم میں جو بھی چاہے خلافت کو ایک دوسرے کے حوالے کرے اور اس کے مرنے کے بعد دوسرا شخص خلیفئہ مسلمین بن جائے گا۔(۱)

اس میں کوئی شک نہیں کہ طلحہ و زبیر کو خلافت اور کوفہ و بصرہ پر قبضہ کرنے کے لئے برانگیختہ کرنے کا مقصد صرف امام ـ کی حکومت کو ضعیف و کمزور کرنا اور اپنی حکومت کو شام میں مضبوط کرناتھا تاکہ امام ـ کے چاہنے والوں میں اختلاف ہو جائے اور ان دونوں کی مدد سے حکومت کی باگ ڈور کو حضرت علی کے ہاتھوں سے لے لے۔ اور اگر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیاتو طلحہ و زبیر (پیغمبر کے یہ دو سادہ لوح او ردنیا طلب صحابی) پر کامیابی پانا آسان ہو جائے گا۔

۳۔ معاویہ نے ابتدائے خلافت اور جنگ صفین ختم ہونے سے پہلے امام ـ سے درخواست کی کہ شام اور مصر کی حکومت کو آزادانہ طور پر مجھے سونپ دیں اور ان دو علاقوں کا جزیہ اس کے اختیار میں ہو اور امام کے بعد وہ مسلمانوں کا خلیفہ ہو، اس کی وضاحت و تشریح اس طرح ہے:امام ـ نے اپنی خلافت کے آغاز ہی میں عظیم شخص جریر بجلی کو خط دے کر شام روانہ کیا اس خط میں لکھا تھا :

''وہ گروہ جس نے ابوبکر و عمر وعثمان کی بیعت کی تھی اس نے ہمارے ہاتھوں پر بھی بیعت کی ہے، لہذا مہاجرین و انصار کی میرے ہاتھوں پر بعنوان خلیفہ بیعت کے بعد کسی کو بھی دوسرا خلیفہ منتخب کرنے کا حق نہیں ہے چاہے وہ بیعت کے وقت مدینہ میں موجود ہو یا نہ ہو''۔جریر امام کا خط لیکر شام پہونچے اور خط معاویہ کے سپرد کیا لیکن وہ جواب دینے میںتذبذب میں پڑ گیا

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، ج۱، ص ۷ ۔

۳۶۴

اور عقبہ اور عمر و عاص جیسے افراد کے ساتھ مشورہ کیا اور بالآخر امام ـ کے قاصد سے اپنے دل کی باتیں کہیں کہ اگر علی شام اور مصر کو نظر انداز کردیں اور وہاں کی آمدنی کو اس کے سپردکردیں تو ایسی صورت میں وہ انھیں خلیفہ تسلیم کرلے گا۔

امام ـ کے سفیر نے معاویہ کے نظریہ کو امام ـ کے سامنے پیش کیا امام ـنے اس کے جواب میں کہا کہ معاویہ چاہتا ہے کہ میری بیعت نہ کرے او راپنے مقصد کو پہونچ جائے اور وقت گزارنے اور اپنے مقصد کی کامیابی کے لئے شام اور مصر کی حکومت کو مضبوط کرلے اس بنا پر اگر اس نے بیعت کرلیا تو ٹھیک ہے ورنہ فوراً شام کو چھوڑ دے اور جتنی جلدی ہو میرے پاس آجائے۔(۱)

امام ـ کے اس جواب سے واضح ہوتا ہے کہ اس درخواست سے معاویہ کا مقصد یہ تھا کہ علی کی بیعت اور اطاعت اس پر واجب نہ ہو اور وہ ایک آزاد حاکم کی طرح دو بزرگ و عظیم شہروں پر حکومت کرے اور اس کے حساب و کتاب اور اس کے ساتھیوں کے متعلق امام ـ کوئی مداخلت نہ کریں، خدا جانتاہے کہ اس کے بعد اور ان دونوں شہروں پر مستحکم و مضبوط قبضہ کرنے کے بعد معاویہ امام ـ کی حکومت کو گرانے کے لئے کیا کیا تدبیریں کرتا، اس کے علاوہ یہ وہی دو سر داری ہے جسے عقل و شریعت میں سے کوئی بھی قبول نہیں کرتی اور حکومت اسلامی کے دو ٹکڑوں میں بٹنے کے سوا کوئی اور نتیجہ نہیں نکلتا۔

اس بات پر واضح دلیل کہ معاویہ خلافت کا خواہاں تھا نہ کہ امام ـ کی نمائندگی، مولا کا ایک جملہ ہے جس کو آپ نے اپنے خط میں اس کے لئے تحریر کیا تھا۔

وَ اَعْلَمْ یَا مُعٰاوِیَةَ اِنَّکَ مِنْ الطُّلَقَائِ الَّذِیْنَ لَا تَحِلُّ لَهُمْ الْخِلَافَةَ وَ لَا تُعْهَدُ مَعَهُمُ الْاَمَانَةَ وَ لَا تُعْرضُ فِیْهِم الشُّوْرَیٰ ۔(۲)

اے معاویہ جان لے، تو آزادشدہ لوگوں میں سے ہے اور ان لوگوں کے لئے خلافت جائز نہیں ہے اور ان کے بیعت کرنے سے کسی کی خلافت ثابت نہیں ہوتی اور شوریٰ کی نمائندگی کا بھی حق نہیں رکھتے۔

______________________

(۱) الامامة و السیاسة ، ج۱، ص ۸۷۔

(۲) ''طلقائ'' یا آزادہ شدہ وہ لوگ ہیں جنہیں فتح مکہ کے موقع پر پیغمبر نے معاف کردیا تھا۔

۳۶۵

قاتلان عثمان کے نام بہانہ

بہترین دلیل اس بات پر کہ معاویہ خلافت کا متمنی تھایہ ہے کہ اس نے امام ـ کی حکومت کے زمانے میں تمام چیزوں سے زیادہ عثمان کے قاتلوں کے بارے میں گفتگوکی تھی اور علی علیہ السلام سے کہاتھا کہ ان کو ہمارے حوالے کریں تاکہ ثابت ہو جائے کہ امام ان سے مرتبط نہیں تھے۔وہ خوب جانتا تھا کہ عثمان کے قاتلوں میں ایک یا دو شخص شامل نہیں ہیں کہ امام ـ انھیں گرفتار کر کے اس کے حوالے کردیں کیونکہ حملہ کرنے والوں میں مدینے کے لوگ بھی شامل تھے اور بہت زیادہ تعداد میں مصر اور عراق کے افراد شامل تھے جنھوں نے خلیفہ کے گھر کا محاصرہ کیا تھا اور انھیں قتل کیا تھا اور ایسے گروہ کی شناخت بہت مشکل کام ہے خود معاویہ بھی اس مشکل کو سب سے زیادہ جانتا تھااور اس کا مقصد تمام حملہ کرنے والوں کو گرفتار کرنا تھا نہ کہ جن لوگوںنے خلیفہ کو قتل کیا تھا۔اس کے علاوہ اس واقعہ کی چھان مسلمانوں کے خلیفہ کی ذمہ داری ہے نہ کہ خلیفہ کے کئی واسطوں سے چچازاد بھائی کی اور امام ـ کا خلیفہ کے قاتلوں کو معاویہ کے حوالے کرنا خود معاویہ کی خلافت کوقبول کرناتھا۔

امام ـ نے اپنے ایک خط میں معاویہ کو لکھا :

''عثمان کے قاتلوں کے بارے میں بہت زیادہ اصرار کر رہے ہو، اگر تم اپنی بے جا رائے سے باز آجاؤ تو میں تمہارے اور دوسروں کے ساتھ خداکی کتاب کے مطابق پیش آؤں لیکن جو چیز تم چاہتے ہو (شام کو تمہارے حوالے کرنا) اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ بچے کو پستان مادر سے دھوکہ دیا جائے۔امام ـ ایک اور خط میں معاویہ کو لکھتے ہیں :

''جس چیز کو توبڑی خواہش و آرزو سے طلب کر رہا ہے تو جان لے کہ یہ چیز آزاد شدہ لوگوں تک نہیں پہونچے گی کہ وہ مسلمانوں کا رہبر ہو اور اسی طرح ان کو یہ بھی حق نہیں ہے کہ خلافت کی شوری کے ممبر منتخب ہوں''۔عثمان کے خون کا بدلہ اور قاتلوں کو گرفتار کر کے اس کے حوالے کرنا صرف اور صرف ایک بہانہ تھا اور معاویہ اس کی آڑ میں خلافت و زعامت پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ اس مسئلہ پر سب سے واضح و روشن دلیل یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت ہوگئی اور معاویہ نے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی جس چیز کے بارے میں اس نے کوئی بحث نہ کی وہ عثمان کے خون کا بدلہ اور اس کے قاتلوں کی گرفتاری تھی۔ یہاں تک کہ جب عثمان کی بیٹی نے معاویہ کا دامن پکڑ کر کہا کہ میرے باپ کے قاتلوں سے ان کے خون کا بدلہ لو تو اس نے کہا : یہ کام میرے بس میں نہیں ہے اور تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ تم خلیفہ مسلمین کی بھتیجی رہو۔

۳۶۶

چھٹی فصل

ناکثین سے جنگ (جنگ جمل)

مہاجرین و انصار میں سے پیغمبر کے صحابیوں کا امام ـ کی بیعت کے لئے ہجوم کرنااور حق و عدالت کی حکومت کو واپس لانے کی درخواست کرنا یہ سبب بنا کہ امام ـ امور حکومت کو اپنے ہاتھوں میں لیں تاکہ اسلامی قوانین اور سنت کے مطابق لوگوں کے ساتھ پیش آئیں۔

امام ـ کے بیت المال تقسیم کرنے کی روش دیکھ کر ایک گروہ بہت ناراض ہوا وہ گروہ جو ہمیشہ عدالت اور سنت حسنہ کے احیاء سے ناراض ہو وہ تبعیض اور خواہشات نفسانی اور بے جا آرزؤں اور غیر محدود آرزؤں کے ماننے والے ہوتے ہیں۔

امام ـ اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں تین سرکش گروہوں سے روبرو ہوئے جن کی سرکشی حد سے بڑھی ہوئی تھی اور ان کی آرزو صرف عثمان کی حکومت کی طرح فضا بنانا اور بے جا تحفہ و اخراجات اور اسراف کرنا اور معاویہ اور پچھلی حکومت کے معین کردہ حاکموں کی طرح نالائق افراد کی حکومت کو مضبوط بنانی تھی۔

ان جنگوں میں مسلمانوں کا خون بہایا گیا، پیغمبر کے صحابیوں کا گروہ جو بدرو احدکی جنگوں میں بھی تھا یعنی تاریخ اسلام کے حساس موقعوں پر پیغمبر کی رکاب میں رہ کر تلواریں چلائی تھیں اس مرتبہ وہ لوگ پیغمبر کے اصلی اور سچے جانشین کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے اور امام ـ کے اہداف کی ترقی کی خاطر اپنی جان کو اسلام کی راہ میں قربان کردیا۔

اس کے علاوہ ، امام ـ کا قیمتی وقت جو لوگوںکی تربیت ،امت کی ہدا یت اور اسلامی معارف و تعلیم میںصرف ہوتا وہ ان تینوں گروہوںکے دفع کرنے میں صرف ہوگیا جو امام ـ کے مقدس ہدف کے خلاف تھا اور بالآخر قبل اس کے کہ امام ـ اپنے مقصد تک پہونچتے یعنی ہمیشہ کے لئے ایک ایسی حکومت قائم کرتے جو اسلام کے اصولوں اور سنتوں پر قائم ہوتی ،آپ کی حکومت کا سورج پانچ سال نوارانی شعاعیں بکھیر نے کے بعد غروب ہوگیا اور آپ کی شہادت کے بعد حکومت اسلامی موروثی سلطنت میں تبدیل ہوگئی اور بنی امیہ اور بنی عباس کی اولادیںایک کے بعد ایک اس پر قابض ہوتی گئیں اور مومنین کے دلوںمیں حکومت اسلامی ایک آرزو بن کر رہ گئی۔

وہ تین گروہ یہ تھے:

۳۶۷

۱: ناکثین ''یا عہد و پیمان توڑنے والا گروہ''

اس گروہ کے سردار خصوصاً طلحہ اور زبیرنے جو پیغمبر کی بیوی عائشہ کے احترام کی آڑمیں اور بنی امیہ کی بے انتہا مدد کی وجہ سے صرف اس لئے کہ امام ـ کی حکومت میں ان کے اختیارات بہت کم ہوگئے تھے، بہادر سپاہیوں کا ایک بڑا لشکر کوفہ و بصرہ پر قبضہ جمانے کے لئے تیار کیا اور خود بصرہ پہونچ بصرہ پر قبضہ کر لیا۔ امام ـ بھی اپنا لشکر لے کر گئے اور پھر دونوں گروہوں میں جنگ شروع ہوئی اور طلحہ و زبیر اس جنگ میںمارے گئے اور ان کی فوج بھاگ گئی اور کچھ قیدی بنالئے گئے اور بعد میں امام ـ نے انھیں معاف کردیا۔

۲ : قاسطین ''یا ظالمین اور حقیقت سے دور رہنے والا گروہ''

اس گروہ کا سردار معاویہ تھا جس نے مکر و فریب اوردھوکہ دینے والی باتوں سے دو سال، بلکہ امام ـ کی عمر کے آخری لمحہ تک آپ کو مشکلات سے دوچار کرتا رہا، عراق و شام کے وسط میں امام اور اس کے درمیان جنگ صفین ہوئی جس میں ہزاروں مسلمانوں کا خون بہا لیکن امام ـ اپنے آخری مقصد تک نہ پہونچ سکے اگرچہ معاویہ شام میں نظروں سے گرگیا۔

۳: مارقین ''یا دین سے خارج ہونے والا گروہ''

یہ افراد، گروہ ''خوارج'' میں سے ہیں یہ لوگ جنگ صفین کے آخری مرحلے تک امام ـ کے ہمراہ تھے اور حضرت کی طرف سے جنگ کر رہے تھے ، لیکن معاویہ کے دھوکہ دینے والے کاموں کی وجہ سے یہ لوگ امام کے خلاف شورش کرنے لگے اور ایک تیسرا گروہ بنایا جو معاویہ اور امام دونوںکے خلاف تھا ،اور اسلام ومسلمین اور امام ـ کی حکومت کے لئے دونوں گروہوں سے زیادہ خطرناک تھا ،اس گروہ سے امام ـ کا مقابلہ ''نہروان'' نامی جگہ پر ہوا او رامام نے ان کو مار بھگایااور قریب تھا کہ دوسری مرتبہ شام سے فساد و سرکشی کی جڑ کو ختم کرنے کے لئے خود کوآمادہ کریں کہ خوارج میں سے ایک شخص حملہ آور ہوا اور آپ نے جام شہادت نوش فرمایا اور انسانیت نے پیغمبر کے بعد ایک شریف اور عزیز ترین شخص اور اسلام کی بہترین و شائستہ فرد کو کھو دیا اور اسلامی عدالت کی حکومت کا چاند حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور تک کے لئے بدلی میں چلا گیا۔

۳۶۸

امام ـ ان جان لیوا حادثوں کے رونما ہونے کے پہلے ہی سے ان کے بارے میں آگاہ تھے، اسی وجہ سے عثمان کے قتل کے بعدجب انقلابی ،امام ـ کے گھر پر جمع ہوئے اور آپ سے درخواست کی کہ اپنے ہاتھوں کو بڑھائیں تاکہ بیعت کریں تو آپ نے فرمایا:

''دَعَوْنِیْ وَ التَّمَسُّوْا غَیْرِیْ فَاِنَّا مُسْتَقْبِلُوْنَ اَمْرًا لَهُ وُجُوْهٍ وَ اَلْوَانُ لَا تَقُوْمُ لَهُ الْقُلُوبِ وَ لٰا تَثْبُتَ عَلَیْهِ الْعُقُولِ'' (۱) مجھے چھوڑ دو کسی دوسرے کے پاس جاؤ کیونکہ ہمیں مختلف حوادث کا سامنا ہے ایسے حوادث جن سے دل ٹکڑے ہوجائیں گیاور عقلیں انہیں برداشت کرنے سے قاصر ہیں ان حوادث سے آگاہ ہونے کا ایک منبع خود پیغمبر اسلام کا ان چیزوں کے بارے میں خبر دینا تھااسلامی محدثین نے پیغمبر اسلام(ص) کا ایک قول نقل کیا ہے کہ آپ نے علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے:''یاعلی تقاتل الناکثین و القاسطین والمارقین'' (۲)

اے علی تم عہد و پیمان توڑ نے والوں ، ظالموں اور دین سے منحرف ہونے والوں کے ساتھ جنگ کرو گے۔

یہ حدیث مختلف طریقوں سے حدیث و تاریخ کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے مگر سب کا مفہوم ایک ہے،ان جنگوں کی تفصیل پہلے بیان ہو چکی ہے۔

صرف حضرت علی علیہ السلام ہی ان جان لیوااو رتاسف بار حادثوں سے آگاہ نہ تھے بلکہ ناکثین کے سرداروں (جسے تاریخ ''اصحاب جمل'' کے نام سے جانتی ہے) نے بھی حضرت رسول خدا سے اپنے اور حضرت علی کے درمیان جنگ ہونے کے متعلق سنا تھا اور پیغمبر نے زبیر اور عائشہ کواس سلسلے میں بہت سخت تاکیدکی تھی، لیکن افسوس کہ باطل حکومت سے محبت کی وجہ سے یہ مادی اموال پر فریفتہ ہوگیا اور دنیا کی لالچ میں اس طرح ضم ہوگیا کہ واپسی کی کوئی امیدباقی نہ رہی اور وہ راستہ اختیار کیا جس میں گناہ اور خدا کا غضب تھا۔ جنگ جمل کے حادثہ کے بارے میں پیغمبر اسلام کے بیان کو مناسب موقع پر پیش کریں گے ۔

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۳، ص ۱۵۶۔

(۲) مستدرک الوسائل، ج۳، ص ۱۴۰۔

۳۶۹

بہت زیادہ تعجب کا مقام ہے کہ اسلام کے پروان چڑھنے کے دوران اور اس وقت جب کہ حق اپنے محور پر واپس آگیا اور حکومت کی باگ ڈور ایسے شخص کے ہاتھوں میں اگئی جسے ابتداء خلقت ہی میں پیشوائی و رہبری کے لئے منتخب کیا گیاتھا اور اس بات کی امید تھی کہ اس زمانے میں اسلامی زندگی میں عظیم معنوی اور مادی ترقی مسلمانوں کو نصیب ہوگی اور اسلامی حکومت مکمل طور پر امام ـ کے ہاتھوں میں دوبارہ واپس آجائے تاکہ آپ کی حکومت آئندہ کے لئے بہترین نمونہ عمل ہوسکے۔ ایک گروہ امام ـ کی مخالفت کے لئے آمادہ ہوا اور علم جنگ امام ـ کے خلاف بلند کیا ۔امام ـ نے اپنے ایک خطبہ میں اس سلوک پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے فرمایا:

''فَلَمَّا نَهَضْتُ بِالْاَمْرِ نَکَثَتْ طَائِفَة وَ مَرَقَتْ أُخْریٰ وَ قَسَطَ آخَرُوْنَ کَأَنَّهُمْ لَمْ یَسْمَعُوا کَلاَم اللّٰه حَیْثُ یَقُولُ: تِلْکَ الدَّارُ الْآَخِرَةِ نَجْعَلُهَا لَلَّذِیْنَ لَایُرِیْدُوْنَ عُلُواً فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِسَاداً وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْن'' ۔(۱)

جب تمام امور کو میں نے اپنے ہاتھوں میں لیااس وقت کچھ لوگوں نے میری بیعت سے منہ موڑ لیا اور کچھ گروہ قوانین الہی سے خارج ہوگئے اور بعض گروہ حق کی راہ سے دور ہوگئے ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں نے خدا کے کلام کو نہیں سنا کہ ارشاد قدرت ہے کہ آخرت ان لوگوں کے لئے ہمیشگی کا گھر ہے جو سرکش نہ ہوں اور زمین پر فساد برپانہ کریں۔ جی ہاں، خدا کی قسم۔ ان لوگوںنے خدا کے کلام کو سنا اور انھیں یاد بھی تھا لیکن ان کی آنکھوں میں دنیا کی چمک دمک سما گئی تھی اور اس کی چمک نے انھیں دھوکہ میں ڈال رکھا۔

_____________________

(۱) نہج البلاغہ، خطبہ ۴۔

۳۷۰

بچہ گانہ عذر

عہد و پیمان توڑ نے والا گروہ یعنی طلحہ و زبیر اور ان کے چاہنے والوں نے باوجود اس کے کہ امام ـ کے ہاتھوں پر دن کے اجالے میں بیعت کیا تھا ،اور مہاجرین و انصار اور لوگوں کے ہجوم نے انھیں بیعت کے لئے آمادہ کیا تھا۔ اور جب مخالفت کا پرچم بلند کیا تو اس بات کا دعویٰ کرنے لگے کہ ہم نے زبانی اور ظاہری طور پر بیعت کی تھی اور دل کی گہرائیوں سے علی کی حکومت کو قبول نہیں کیا تھا۔امام ـ اپنی ایک تقریر میں ان کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

''فَقَدْ أَقَرَّ بِالْبَیْعَةِ وَ ادّعَی الْوَلِیْجَةَ فَلْیَأتِ عَلَیْهَا بِأَمْرٍ یُعْرَفُ وَ اِلَّا فَلْیَدْخُل فِیْمَا خَرَجَ مِنْهُ'' ۔(۱)

انھوں نے خود اپنی بیعت کا اعتراف کیا لیکن اب ان کا دعویٰ ہے کہ باطنی طور پر ہم اس کے مخالف تھے وہ لوگ اس بات پر شاہد و گواہ پیش کریں یا یہ کہ اپنی بیعت پر باقی رہیں۔

نفاق و منافقت

طلحہ و زبیر امام ـ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ ہم نے آپ کی بیعت اسلئے کی کہ آپ کی رہبری میں شریک رہیں۔ امام نے ان کی شرط کو جھوٹی قرار دیا اور کہا تم لوگوں نے میری بیعت کی تاکہ مشکل کے وقت میری مدد کرو۔(۲) ابن قتیبہ نے اپنی کتاب ''خلفائ'' میں امام ـ اور ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کو نقل کیا ہے وہ کہتا ہے کہ ان لوگوں نے حضرت علی کی طرف رخ کر کے کہا کیاآپ جانتے ہیں کہ ہم نے کس بنیاد پر آپ کی بیعت کی ہے؟امام نے فرمایا: ہاں میں جانتا ہوں ، تم نے ہماری اطاعت کی وجہ سے بیعت کی ہے اسی طرح جس طرح تم نے ابوبکر و عمر کی اطاعت کے لئے بیعت کیا تھا۔زبیر کو یہ گمان تھا کہ امام ـ عراق کی حاکمیت کو اس کے حوالے کردیں گے اور اسی طرح طلحہ یہ سوچ رہا تھا کہ یمن کی حکومت اس کے حوالے کردیں گے(۳) لیکن بیت المال تقسیم کرنے کی رو ش اور دوسرے اسلامی شہروں کی رہبری اور مسلمانوں کے امور کے لئے دوسرے افراد کو بھیجنے کی وجہ سے ان کی آرزوئیں خاک میں مل گئیں، لہذا ارادہ کرلیا کہ مدینہ سے بھاگ جائیں اور امام ـ کی مخالفت کرنا شروع کردیں۔مدینہ چھوڑ نے سے پہلے زبیر نے قریش کے عمومی مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کیا ہماری یہی سزا ہے؟

______________________

(۱) نہج البلاغہ کلمات قصار شمارہ ۱۹۸۔----(۲) نہج البلاغہ خطبہ۸۔------(۳) تاریخ خلفاء طبع مصر، ج۱، ص ۴۹۔

۳۷۱

ہم نے عثمان کے خلاف قیام کیا اور اس کے قتل کا زمینہ فراہم کیا جب کہ علی گھر میں بیٹھے تھے اور جب حکومت کی ذمہ داری قبول کی تو کام کی ذمہ داری دوسروں کو سونپ دی۔(۱)

______________________

(۱) تاریخ خلفاء طبع مصرج۱ ص ۴۹۔

۳۷۲

ناکثین کے قیام کرنے کی علت

جب طلحہ و زبیر امام ـ کی حکومت میں کسی بھی شہر میں منصوب نہ ہوئے اور اس سے مایوس و ناامید ہوئے اور دوسری طرف معاویہ کی جانب سے دونوں کے پاس ایک ہی مضمون کا خط پہونچا جس میں اس نے ان دونوں کو ''امیر المومنین'' کے خطاب سے نوازا تھا اور لکھا تھا کہ شام کے لوگوں سے تم لوگوں کے لئے بیعت لے لی ہے اور تم لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو کوفہ و بصرہ شہر پر قبضہ کرلو، اس سے پہلے کہ ابوطالب کا لال ان دونوں پر مسلط ہو اور ہر جگہ ان لوگوں کا نعرہ یہ ہو کہ ہم لوگ عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتے ہیں اور لوگوں کو اس کے خون کا بدلہ لینے کے لئے دعوت کردیں۔

یہ دونوں سادہ لوح صحابی معاویہ کا خط پڑھ کر دھوکہ کھا گئے اور چاہا کہ مدینہ سے مکہ جائیں اور وہاں لوگوں کو تربیت دیںاور انہیں جنگ کے لئے آمادہ کریں۔ وہ لوگ معاویہ کے امور کو اجراء کرنے کے لئے امام کے پاس گئے اور کہا: آپ نے عثمان کی ستمگری کو ولایت و حکومت جیسے امور میں مشاہدہ کیا ہے اور آپ نے یہ بھی دیکھا کہ اس کی نگاہ میں بنی امیہ کے علاوہ کسی کی کوئی اہمیت نہ تھی ،اب جب کہ خدا نے آپ کو منصب خلافت پر فائز کیا ہے ہم لوگوں کو کوفہ و بصرہ کا حاکم معین کیجئے۔ امام نے فرمایا: جو کچھ خدا نے تمہیں عطاکیاہے اس پر راضی رہو تاکہ میں اس موضوع کے متعلق فکر کروں ، یہ با ت جان لو کہ میں ان لوگوں کو حکومت کے لئے منتخب کروں گا جن کے دین اور امانت پر مجھے اطمینان اور ان کی طینت سے واقف ہوں گا۔

دونوں یہ کلام سن کر پہلے سے بھی زیادہ مایوس ہوگئے امام ـ نے ان کا امتحان لیا اان دونوں کو معلوم ہو گیا کہ آپ ان دونوں پر اعتماد نہیں رکھتے لہذا ان دونوںنے بات کو بدلتے ہوئے کہا کہ آپ اجازت دیجئے کہ ہم عمرہ کرنے کے لئے مدینہ سے مکہ جائیں ۔ امام ـ نے فرمایا عمرہ کی آڑ میں تمہارا ہدف کچھ اور ہے ان لوگوںنے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ عمرہ کے علاوہ ہماراکوئی اور مقصد نہیں ہے۔

۳۷۳

امام ـ نے فرمایا: تم لوگ دھوکہ اور بیعت توڑ نے کی فکر میں ہو، ان لوگوں نے پھر قسم کھائی اور دوبارہ امام ـ کی بیعت کی جب وہ دونوں امام ـ کے گھر سے نکلے تو امام نے حاضرین جلسہ سے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ دونوں فتنہ کی وجہ سے قتل ہوں گے ان میں سے بعض لوگوں نے کہا انھیں سفر پر جانے سے منع کردیجئے امام نے کہا قسمت کا لکھا اور خدا کا وعدہ پورا ہوکر رہے گا۔

ابن قتیبہ لکھتے ہیں:

دونوںعلی کے گھر سے نکل کر قریش کے پاس آئے اور ان لوگوں سے کہا یہ ہم لوگوں کا اجر تھا جو علی نے ہمیں دیا ہے ہم نے عثمان کے خلاف قیام کیااور اس کے قتل کا زمینہ فراہم کیاجب کہ علی اپنے گھر میں بیٹھے تھے اور اب جب منصب خلافت پر بیٹھ گئے تو دوسروں کو ہم لوگوں پر ترجیح دے رہے ہیں۔

اگرچہ طلحہ و زبیر نے امام ـ کے گھر میں شدیدقسمیں کھائی تھیں لیکن مدینہ سے نکلنے کے بعد مکہ کے راستے میں جس سے بھی ملاقات ہوئی حضرت علی کے ہاتھوں پر بیعت کرنے سے انکارکیا۔(۱)

______________________

(۱)تاریخ طبری ج۳ ص ۱۶۳؛ الامامة و السیاسة ج۱ ص ۴۹؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱ ص ۲۳۲۔ ۲۳۱۔

۳۷۴

عائشہ کا مدینہ کے نیم راہ سے مکہ واپس جانا

اس کے پہلے ہم بیان کرچکے ہیں کہ جب عراقی اور مصری انقلابیوںکی طرف سے عثمان کے گھر کا محاصرہ ہوا تو عائشہ مدینہ سے حج کرنے مکہ چلی گئیں اور مکہ ہی میں تھیں کہ عثمان کے قتل ہونے کی خبر سنی لیکن اس بات کی خبر نہ ملی کہ عثمان کے قتل کے بعد خلافت کسے ملی، اسی وجہ سے ارادہ کیا کہ مکہ چھوڑ کر مدینہ کا سفر کریں۔ مکہ سے واپس آتے وقت ''سرف'' نامی مقام پر ایک شخص سے جس کا نام ام ابن کلاب تھا ملاقات ہوئی تو اس سے مدینہ کے حالات معلوم کئے اس نے کہا ۸۰ دن تک خلیفہ کا گھر محاصرہ میں تھا اور پھر انھیں قتل کردیا گیاپھر لوگوں نے چند دن کے بعد علی کے ہاتھ پر بیعت کی۔

جب عائشہ نے سنا کہ مہاجرین و انصار دونوں نے علی کے ہاتھ پر بیعت کی ہے توانہیں سخت تعجب ہوا اور کہا: اے کاش آسمان میرے سرپر گر جاتا، پھرانہوں نے حکم دیا کہ میری سواری کو مکہ کی طرف موڑ دو جب کہ عثمان کے متعلق انہوں نے اپنے نظریہ کو بدل دیا تھا انہوں نے کہا خدا کی قسم، عثمان مظلوم قتل کیا گیاہے اور میں اس کے قاتلوں سے ضرور انتقام لوں گی۔

خبر دینے والا شخص عائشہ کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ آپ وہ پہلی فرد تھیں جس نے لوگوں سے کہا تھا کہ عثمان کافر ہوگیا ہے اور اس کی شکل و صورت یہودی کی طرح ہے اسے ضرور قتل کردیا جائے۔

اب کیا ہوگیا ہے کہ اپنے پہلے نظریہ کو بدل دیا؟ انہوں نے ایسا جواب دیا گویا کوئی تاریکی میں تیر رہا کریں، عثمان کے قاتلوں نے پہلے اس سے توبہ کرائی پھر اسے قتل کیااور عثمان کے بارے میںسبھی نے کچھ نہ کچھ کہا اور ہم نے بھی کہا لیکن میرا یہ آخری کلام میرے پہلے کلام سے بہتر ہے ۔ابن کلاب نے عائشہ کے اس رویہ کو دیکھ کر اشعار کہے جن میں سے کچھ اشعار کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں :''تم نے خلیفہ کے قتل کا حکم دیا اور پھر ہم سے کہا کہ وہ خدا کے دین سے خارج ہوگیا ہے، یہ بات حقیقت ہے کہ ہم نے اسے قتل کرنے میں تمہارے حکم کی پیروی کی ہے اس وجہ سے ہمارے نزدیک اس کا قاتل وہ شخص ہے جس نے اس کے قتل کا حکم دیا ہے(گویا قاتل خود عائشہ ہیں)''۔

عائشہ مسجد الحرام کے سامنے اپنی سواری سے اتریں اور حجر اسماعیل کے پاس گئیں اور وہاں ایک پردہ لٹکایا ۔ لوگ ان کے ارد گرد جمع ہوگئے اور انہوں نے لوگوں سے خطاب کیا کہ اے لوگو عثمان کو ناحق قتل کیاگیا ہے اور میں اس کے خون کا بدلہ لوں گی۔(۱)

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۳، ص ۱۷۲۔

۳۷۵

امام ـ کے مخالفوں کا مرکز

عثمان کے قتل اور امام ـ کی بیعت کے بعد مکہ کی سرزمین حضرت علی کے مخالفوں کا مرکز شمار ہونے لگی اور جو لوگ علی کے مخالف تھے وہ ان کے فیصلوں سے بہت خوفزدہ تھے خاص کر عثمان کے معین کردہ حاکم وغیرہ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ امام ان لوگوں کو ان کے مقام سے معزول کر رہے ہیں اور جو ان لوگوںنے خیانتیں کی ہیں ان کی وجہ سے انھیں اپنی عدالت میں طلب کر رہے ہیں۔ سب کے سب حرم کی حرمت کا خیال کرتے ہوئے مکہ میں پناہ لئے ہوئے تھے اور جنگ جمل کا نقشہ تیار کرنے میں مشغول ہو گئے تھے۔

جنگ جمل کے اخراجات

جنگ جمل کے خرچ کو عثمان کے حاکموںنے دیاتھا جسے انھوں نے عثمان کی حکومت کے زمانے میں

بیت المال کو غارت کر کے بہت زیادہ مال و ثروت جمع کرلیا تھا اور ان لوگوںکا ہدف یہ تھا کہ علی کی تازہ اور جوان حکومت کو سرنگوںکردیں تاکہ پھر گذشتہ کی طرح حالات پیدا ہوجائیں۔

جن لوگوں نے جنگ جمل کے سنگین خرچ کو برداشت کیاتھا ان میں سے کچھ لوگوں کے نام یہ ہیں:

۱: عبد اللہ بن ابی ربیعہ، صنعا (یمن کے ایک شہر کا نام) کا حاکم جو عثمان کی طرف سے منصوب تھا، وہ صنعا سے عثمان کی مدد کرنے کے لئے نکلا اور جب آدھے راستے میں اسے عثمان کے قتل کی خبر ملی تو وہ مکہ چلا گیا اور جب اس نے سنا کہ عائشہ عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے لوگوں کو دعوت دے رہی ہیں تو مسجد میں داخل ہوا اورتخت پر بیٹھ گیااور بلند آواز سے کہا جو شخص بھی عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اس جنگ میں شرکت کرنا چاہتاہے میں اس کے خرچ کو برداشت کروں گا اس طرح اس نے بہت زیادہ لوگوں کو جنگ میں جانے کے لئے جمع کرلیا۔

۳۷۶

۲: یعلی بن امیہ ، عثمان کی فوج کاایک سردار، اس نے عبداللہ کی پیروی کرتے ہوئے اس راہ میں بہت زیادہ مال خرچ کیااس نے چھ سو اونٹ خریدے(۱) اور مکہ کے باہر جنگ پر جانے کے لئے آمادہ کیے او رایک گروہ کو اس پر سوار کیا اوردس ہزار دینار ان لوگوںکودیئے۔

جب امام ـ یعلی کے اس خرچ وبخشش سے آگاہ ہوئے تو فرمایا: امیہ کے بیٹے کے پاس دس ہزار دینار کہاں سے آئے؟ سوائے اس کے کہ اس نے بیت المال سے چوری کیاہو؟ خدا کی قسم اگر وہ اور ابی ربیعہ کا بیٹا مجھے مل جائے تو اس کی ساری دولت جمع کر کے بیت المال میں واپس ڈال دوں گا۔(۲)

۳: عبد اللہ بن عامر، بصرہ کا حاکم، بہت زیادہ مال و دولت لے کر بصرہ سے مکہ بھاگ گیا تھا یہ وہی شخص ہے جس نے بصرہ پر قبضہ کرنے کا نقشہ تیار کیا تھا اور طلحہ و زبیر اور عائشہ کو اس شہر پر قبضہ کرنے کی ترغیب دلائی

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۳، ص ۱۶۶۔

(۲) الجمل ص ۱۲۴۔ ۱۲۳؛ بنا ء بر نقل ابن قتیبہ (خلفاء ص ۵۶) اس نے ۶۰ ہزار دینار زبیر اور ۴۰ ہزار دینار طلحہ کو دیا تھا۔

۳۷۷

تھی۔(۱)

مکہ میں عثمان کے بھاگے ہوئے تمام گورنر ایک جگہ جمع ہوگئے اور عبداللہ بن عمر اور اس کا بھائی عبید اللہ اور اسی طرح مروان بن حکم اورعثمان کے بیٹے اس کے غلام اور بنی امیہ کے کچھ گروہ بھی ان لوگوں سے ملحق ہوگئے۔(۲)

ان سب باتوںکے باوجود، اس گروہ کی دعوت پر (جب کہ انھیں سبھی پہچانتے تھے) مکہ اور مکہ کے راستوں میں سے کسی نے بھی امام ـ کی مخالفت کا اظہار نہیں کیا۔ اس وجہ سے یہ لوگ مجبور ہو گئے کہ اس فوج کے ساتھ جو عثمان کے دور حکومت کے معزول گورنروں اور بنی امیہ کے خرچ پر بنائی گئی تھی،ایک معنوی سہارا بھی ہو ،لہذا یہی وجہ ہے کہ وہ اعرابی جو اس راستے میں زندگی بسر کر رہے تھے ان کے دینی احساسات کو برانگیختہ کرنے کے لئے عائشہ اور حفصہ کو دعوت دی تاکہ اس گروہ کی معنوی رہبری کی ذمہ داری لیں اور لوگوں کے ساتھ بصرہ کی طرف روانہ ہو جائیں ۔

یہ بات صحیح ہے کہ عائشہ نے مکہ میں قدم رکھتے ہی علی علیہ السلام کے خلاف آواز بلند کی تھی لیکن ہرگز اپنے نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوئی نقشہ تیار نہیں کیا تھا۔ اور ہرگز ان کے ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ فوج کی رہبری کریں گی اور بصرہ جائیںگا، لہذا جب زبیر نے اپنے بیٹے عبد اللہ کو (جو عائشہ کا بھانجا تھا) عائشہ کے گھر بھیجا تاکہ عائشہ کو جنگ کے لئے اور بصرہ جانے کے لئے آمادہ کرے تو انہوں نے عبد اللہ کا جواب دیتے ہوئے کہا : میں نے ہرگز لوگوں کو جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا میں مکہ صرف اس لئے آئی تھی کہ لوگوں کو یہ اطلاع دوں کہ ان لوگوں کا امام کس طرح مارا گیاہے اور ایک گروہ نے خلیفہ سے توبہ کرایاپھر اسے قتل کردیا تاکہ لوگ اس کے خلاف قیام کریں ان لوگوںنے خلیفہ پر حملہ کیا اورانھیں قتل کردیااور بغیر کسی رائے مشورے کے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی ۔عبد اللہ نے کہا: اس وقت جب تمہارا نظریہ علی اور عثمان کے قاتلوں کے بارے میں یہ ہے تو پھرکیوں علی کی مخالفت میں مدد اور کمک کرنے کے

______________________

(۱) الجمل ص ۱۲۱۔

(۲) الامامة والسیاسة، ج۱، ص ۵۵؛ تاریخ طبری، ج۳، ص ۱۶۶۔

۳۷۸

لئے یہاں بیٹھی ہو؟ جب کہ مسلمانوں کے بعض گروہوں نے علی کی مخالفت میں جنگ کرنے کا اعلان کردیاہے عائشہ نے جواب دیا:تھوڑی دیر صبر کرو تاکہ میں اس مسئلے میں تھوڑا سا غور و فکر کروں۔ عبداللہ نے ان کی باتوں سے اس کی رضایت کا احساس کیا۔ لہذا جب اپنے گھر واپس آیاتو زبیر اور طلحہ سے کہا کہ ام المومنین نے ہماری درخواست کو قبول کرلیاہے اور اپنی بات کو مستحکم کرنے کے لئے دوسرے دن پھر عائشہ کے پاس گیااور انہیں مکمل اور قطعی طور پر راضی کر کے واپس آگیااور اس بات کے اعلان کے لئے ایک منادی سے مسجد او ربازار میں طلحہ و زبیر کے ساتھ عائشہ کی روانگی کا اعلان کرا دیا۔ اور اس طرح سے علی کی مخالفت میں قیام او ربصرہ پر قبضہ کرنے کا خیال قطعی اور یقینی ہوگیا۔(۱)

طبری نے مکہ سے خارج ہونے والوں کی ندا کی عبارت کو اس طرح نقل کیاہے:

''خبر دار ہو جاؤ کہ ام المومنین (عائشہ) اور طلحہ و زبیر بصرہ کے لئے روانہ ہو رہے ہیں جو شخص بھی چاہتا ہے کہ اسلام کو عزیز رکھے اور ان لوگوں کے ساتھ جنھوںنے مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھا ہے جنگ کرے، اور وہ شخص جو یہ چاہتاہے کہ عثمان کے خون کا بدلہ لے وہ اس گروہ کے ساتھ چلنے کو تیار ہو جائے۔ اور جس شخص کے پاس سواری اور سفر کے اخراجات نہیں ہیںتو ان کی سواری اور سفر کا خرچ ہمارے پاس ہے''۔(۲)

سیاست کے کھلاڑی دینی الفت و عطوفت کو برانگیختہ کرنے کے لئے پیغمبر کی دوسری بیوی حفصہ کے پاس گئے، انہوں نے کہا: ہم عائشہ کے پیرو ہیں ۔ جب وہ سفر کے لئے آمادہ ہیں تو میں بھی ان کے ساتھ چلنے کو تیار ہوں، لیکن جب وہ جانے کے لئے تیار ہوئیں تو ان کے بھائی عبد اللہ نے انہیں روک دیااور حفصہ نے عائشہ کے پاس پیغام بھیجا کہ، میرے بھائی نے تمہارے ساتھ جانے سے مجھے روک دیا ہے۔

______________________

(۱) الجمل، ص ۱۲۳۔

(۲) تاریخ طبری، ج۳، ص ۱۶۷۔

۳۷۹

ساتویں فصل

ناکثین کی گرفتاری کے لئے امام ـ کا خاکہ

امیر المومنین علیہ السلام نے اپنی حکومت کے ابتدائی دور میں سب سے پہلے جس کا م کو انجام دیا وہ یہ تھا کہ اسلامی معاشرے کو ایسے خود غرض حاکموں سے پاک کردیں جو مسلمانوں کے بیت المال کو اپنی جاگیر سمجھ بیٹھے ہیں بیت المال کے اہم حصہ کو خزانہ کے طور پر اپنے پاس ذخیرہ کرلیاہے اور دوسرے حصہ کو اپنے شخصی امور میں خرچ کرتے ہیں اور ہر شخص اپنے اپنے شہروں اورعلاقوںمیں خود مختار و آزاد حاکم بنا بیٹھا ہے او رغارتگری کرتاہے ان میں سب کا سردار ابوسفیان کا بیٹا معاویہ ہے جو خلیفۂ دوم کے زمانے سے اس بہانہ سے کہ وہ قیصر کا پڑوسی ہے قیصری محلوں میں ناز و نعمت میں غرق تھا او رجو بھی اس کے خلاف کچھ کہتا اسے فوراً جلا وطن یا ختم کردیا جاتاتھا۔

جب شام کے خود غرض حاکم کی سرکشی کی خبر امام ـ کو ملی تو آپ نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ چاہا کہ معاویہ کی سرکشی کا پوری طرح سے جواب دیں،ابھی اسی فکر میں تھے کہ اچانک حارث بن عبد المطلب کی بیٹی ام الفضل کا خط ایک معتبر قاصد کے ہمراہ امام ـ کے پاس پہونچا اور امام ـ کو خبر دی کہ طلحہ و زبیر نے آپ کی بیعت توڑ دی او روہ لوگ بصرہ کی طرف روانہ ہوگئے ہیں۔(۱)

خط ملنے کے بعد امام ـ کا ارادہ بدل گیا اور یہ خط سبب بنا کہ امام ـ جس گروہ کو لیکر شام جانا چاہتے تھے اسے بصرہ لے جائیں تاکہ عہد و پیمان توڑ نے والوں کو درمیان راہ ہی گرفتار کرلیں اور فتنہ کو جڑ سے ختم کردیں ،اس وجہ سے عباس کے ایک بیٹے ''تمام'' کو مدینہ کا حاکم اور دوسرے بیٹے ''قثم'' کو مکہ کا حاکم معین کیا۔(۲) اور سات سو آدمیوں(۳) فداکاروں کو مدینہ سے بصرہ کی طرف روانہ کیا جب ''ربذہ'' پہونچے تو معلوم ہوا کہ عہد و پیما ن تو ڑنے والوںنے پہلے ہی اپنی گرفتاری کا احتمال پیش کیا تھا اور پہچان کے لہذا کچھ

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۵ ص ۱۶۷، طبع مصر ۔

(۲) تاریخ طبری ج۵ ص ۱۶۹، طبع مصر ۔

(۳) الامامة والسیاسة، ص ۵۱، بناء بر نقل طبری ، ج۵، ص ۱۶۹ ان کی تعداد ۹ سو افراد پر مشتمل تھی۔

۳۸۰