فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)4%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 361691 / ڈاؤنلوڈ: 6016
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

یہی وجہ ہے کہ جب انقلابیوں نے عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا اور معاویہ کو اس کی خبر ملی تو اس نے کوئی مدد نہ کی تاکہ جتنی جلدی ہو عثمان کا سایہ اس کے سر سے دور ہوجائے اور وہ اپنی آرزو تک پہونچ جائے، ایسا شخص کبھی بھی امام ـ کی دعوت کو قبول نہیں کرتا ، بلکہ اس سے اپنے فائدے اور امام ـ کے نقصان کے لئے استفادہ کرتا، تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ خلیفۂ وقت نے معاویہ سے مدد طلب کی مگر اس نے حالات آگاہی کے باوجود بھی ان کی مدد کے لئے قدم نہ بڑھایا۔

امیر المومنین ـ نے اپنے ایک خط میں معاویہ کو لکھا ''تم نے عثمان کی اس وقت مدد کی جب مدد کرنے میں تیرا فائدہ تھا اور اس دن تم نے اسے ذلیل و خوار کردیا کہ جس دن مدد کرنے میں صرف اس کا فائدہ تھا''(۱)

امیر المومنین ـ پھر اپنے ایک خط میں معاویہ کو لکھتے ہیں کہ ''خدا کی قسم ، تمہارے چچا زاد بھائی کو تمہارے علاوہ کسی نے قتل نہیں کیا اور مجھے امیدہے کہ تجھے اس کے گناہوں کی طرح اس سے ملحق کردوں''۔(۲)

ابن عباس اپنے خط میں معاویہ کو لکھتے ہیں ''تمھیں عثمان کے مرنے کا انتظار تھا۔تو اس کی بربادی کا خواہاں تھا۔تونے اس کی مدد کرنے سے لوگوں کو منع کردیا اس کا خط اور مدد کی درخواست اور استغاثہ کی آواز تجھ تک پہونچی لیکن تونے کوئی توجہ نہ دی، جب کہ تو جانتا تھا کہ جب تک لوگ اسے قتل نہ کرلیں نہیں چھوڑیں گے، وہ قتل کردیا گیا اور جب کہ تو بھی یہی چاہتا تھا۔ اگر عثمان مظلوم قتل ہواتو سب سے بڑا ظلم کرنے والا تو تھا۔

کیا ایسی حالت میں جب کہ وہ ہمیشہ عثمان کی موت یا اس کے قتل کا انتظار کر رہا تھا تاکہ اپنی آرزو کو پہونچ جائے، وہ امام ـ کی دعوت کو قبول کرتا؟ اور جو موقع اسے بہت ہی مشکلوں سے حاصل ہوا تھا، اسے گنوا دیتا؟

______________________

(۱) نہج البلاغہ نامہ ۳۷۔

(۲) العقد الفرید، ج۲، ص ۲۲۳۔

۳۶۱

پانچویں فصل

خلافت، معاویہ کی دیرینہ آرزو

گذشتہ دلیلوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ معاویہ جیسوں کو خلافت کے امور سے معزول کردینا نہ صرف پرہیزگاری کا تقاضا تھا بلکہ دور اندیشی، مستقبل ، سیاست و درایت اور بہت کم نقصان کے تحمل کا تقاضا تھا اور امام ـ کی راہ صحیح ترین راہ تھی جو ایک واقعے میں سیاستمدار منتخب کرسکتا تھا اور معاویہ کے ساتھ نرمی و مدارا کرنے میں زیادہ نقصان کے سوا کچھ نہ تھا۔

اگر ابن عباس نے امام ـ سے کہا کہ اپنے دیرینہ دشمن کے ساتھ ہمدردی کریں تو ان کایہ مشورہ عاقلانہ نہ تھا اور اگر عرب کا معروف و مشہور سیاستمدار مغیرہ بن شعبہ نے امام ـ کو جو مشورہ دیا کہ معاویہ کو اس کے منصب سے معزول نہ کردیں اور پھر دوسرے دن اس کے برعکس نظریہ پیش کیا اور کہا کہ مصلحت اسی میں ہے کہ اسے اس کے منصب سے معزول کردیں ،تو معلوم نہ ہوسکا کہ مغیرہ ان دونوں نظریوں میں سے کس میں سچا تھا۔

نادان افراد جو یہ سوچتے ہیںکہ معاویہ کو اس کے مقام پر باقی رکھنے میں علی کے لئے فائدہ تھا انہیں معلوم ہونا چاہیئے چونکہ امام ـ ان افراد میں سے تھے جو حق کی پیروی کو ہر چیز پر مقدم رکھتے تھے نتیجے کی فکر کئے بغیر، اور سیاسی اورفوجی نقصان کے محاسبہ کے بغیر معاویہ کو معزول کرنے کا حکم صادر فرمایا ، وہ لوگ معاویہ کے بدترین ارادے اور خلافت تک پہونچنے کی اس کی دیرینہ خواہش جس کی کوشش خلیفہ سوم کے زمانے ہی سے شروع ہو چکی تھی اور عثمان کے قتل کے بعداور امام کی طرف سے معزولی کا حکم پہنچنے سے پہلے تمام جگہوں پر اس کا خط بھیجنا ایسے مسائل ہیں جن سے آگاہ نہیں ہیںاور انھوں نے قضیہ کوسطحی نظر سے دیکھا ہے۔

یہاں کچھ تاریخی ثبوت پیش کر رہے ہیں جواس بات پر شاہد ہیں کہ معاویہ کا مقصدایک ظاہری اسلامی حکومت کے سوا کچھ نہ تھا اور اگر امام ـ شام کی حکومت اس کے سپرد کردیتے تو وہ صرف اسی پر قناعت نہ کرتا بلکہ اس سے سوء استفادہ بھی کرتا۔

۱۔ خلیفہ کے قتل کے بعد، نعمان بن بشیر عثمان کی بیوی کا خط اور اس کا خونی پیراہن لے کر شام کے لئے روانہ ہوا او رمدینہ کے حالات سے باخبر کیا، معاویہ منبر پر گیا اور عثمان کے پیراہن کو ہاتھ میں لے کر لوگوں کو دیکھا یااور عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے لوگوں کو دعوت دی۔ لوگ خلیفہ کے خونی پیراہن کو دیکھ کر رونے لگے اور کہا تم اس کے چچا زاد بھائی اور اس کے شرعی طور پر ولی ہو، ہم لوگ بھی تمہاری ہی طرح اس کے خون کا بدلہ لینا چاہتے ہیں پھر اسے شام کا امیر مان کر اس کے ہاتھوں پر بیعت کر لی۔

۳۶۲

معاویہ نے شام میں رہنے والی بزرگ شخصیتوں کے حالات جاننے کے لئے چند لوگوں کو بھیجا اور شہر حمص کے با اثر شخص شرحبیل کندی کے پاس خط لکھااور اس سے درخواست کی کہ شام کے حاکم کے عنوان سے میری بیعت کرے۔ اس نے جواب میں لکھا ''تم بہت بڑی غلطی کت مرتکب ہو رہے ہو تم مجھ سے درخواست کرتے ہو کہ بعنوان حاکم شام تیری بیعت کروں، خلیفہ سابق کے خون کا انتقام صرف وہ لے سکتا ہے جو خلیفہ مسلمین ہو نہ کہ کسی ایک علاقہ کا امیر، اس وجہ سے میںتمہیں خلیفۂ مسلمین سمجھ کر بیعت کر رہا ہوں''۔

جب شرحبیل کا خط معاویہ کے پاس پہونچا تو وہ بہت خوش ہوا، اور تمام لوگوں کے سامنے اس کے خط کو پڑھا اور پھر ان لوگوں سے خلیفۂ مسلمین کے عنوان سے بیعت لی، پھر علی سے خط و کتابت کا سلسلہ شروع کردیا۔(۱)

تاریخ کا یہ حصہ اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ خلافت قبول کرنے کے لئے معاویہ کا مزاج اس قدر آمادہ تھا کہ صرف شہر حمص کے اثر و رسوخ رکھنے والے شخص کی بیعت پر اس نے خود کو خلیفۂ مسلمین قرار دیا اور شام میں اپنی خلافت کا اعلان کردیا اور بجائے اس کے کہ انقلابیوں خصوصاً مہاجرین و انصار کی حضرت علی کے ہاتھوں پر بیعت کی فکر کرتا خود اپنی بیعت کرائی۔ گویااس نے کئی سال سے اپنے لئے زمین ہموار کرلی تھی کہ صرف ایک مرتبہ میں بیعت کی بات کر کے لوگوں سے بیعت حاصل کرلی۔

۲۔ جب معاویہ کو اس بات کی خبر ملی کہ مدینہ کے لوگوںنے حضرت علی کے ہاتھ پر بیعت کرلی تو قبل اس کے کہ امام ـ کا خط اس کے پاس پہونچتا اس نے دو خط ، ایک زبیر اور دوسرا طلحہ کے نام لکھا۔ اور دونوں کوعراق کے دو بڑے شہروں یعنی کوفہ اور بصرہ پر قبضہ کرنے کے لئے ترغیب دلائی۔ اس نے زبیر کو اس طرح خط لکھا ''میں نے شام کے لوگوں سے تمہارے لئے بیعت لے لی ہے لہٰذا جتنی جلدی ہو کوفہ اور

______________________

(۱) الامامة والسیاسة، ج۱، ص ۶۹۔ ۱۰۔

۳۶۳

بصرہ پر حکومت کرنے کے لئے اپنے کو آمادہ کرلو اور میں نے تمہارے بعد طلحہ کی بیعت لی جتنی جلد ہوسکے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے قیام کرو اور لوگوں کو اس کام کی دعوت دو''۔

زبیر خط کا مضمون پڑھ کر بہت خوش ہوا اور طلحہ کو اس سے باخبر کیا اوردونوںنے کہ امام ـ کے خلاف قیام کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔

معاویہ نے دوسرا خط طلحہ کے نام لکھا ، جس کا مضمون زبیر کے خط سے بالکل الگ تھا اس نے خط میں لکھا کہ ''میں نے خلافت کو تم دونوں کے لئے ہموار کیاہے تم میں جو بھی چاہے خلافت کو ایک دوسرے کے حوالے کرے اور اس کے مرنے کے بعد دوسرا شخص خلیفئہ مسلمین بن جائے گا۔(۱)

اس میں کوئی شک نہیں کہ طلحہ و زبیر کو خلافت اور کوفہ و بصرہ پر قبضہ کرنے کے لئے برانگیختہ کرنے کا مقصد صرف امام ـ کی حکومت کو ضعیف و کمزور کرنا اور اپنی حکومت کو شام میں مضبوط کرناتھا تاکہ امام ـ کے چاہنے والوں میں اختلاف ہو جائے اور ان دونوں کی مدد سے حکومت کی باگ ڈور کو حضرت علی کے ہاتھوں سے لے لے۔ اور اگر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیاتو طلحہ و زبیر (پیغمبر کے یہ دو سادہ لوح او ردنیا طلب صحابی) پر کامیابی پانا آسان ہو جائے گا۔

۳۔ معاویہ نے ابتدائے خلافت اور جنگ صفین ختم ہونے سے پہلے امام ـ سے درخواست کی کہ شام اور مصر کی حکومت کو آزادانہ طور پر مجھے سونپ دیں اور ان دو علاقوں کا جزیہ اس کے اختیار میں ہو اور امام کے بعد وہ مسلمانوں کا خلیفہ ہو، اس کی وضاحت و تشریح اس طرح ہے:امام ـ نے اپنی خلافت کے آغاز ہی میں عظیم شخص جریر بجلی کو خط دے کر شام روانہ کیا اس خط میں لکھا تھا :

''وہ گروہ جس نے ابوبکر و عمر وعثمان کی بیعت کی تھی اس نے ہمارے ہاتھوں پر بھی بیعت کی ہے، لہذا مہاجرین و انصار کی میرے ہاتھوں پر بعنوان خلیفہ بیعت کے بعد کسی کو بھی دوسرا خلیفہ منتخب کرنے کا حق نہیں ہے چاہے وہ بیعت کے وقت مدینہ میں موجود ہو یا نہ ہو''۔جریر امام کا خط لیکر شام پہونچے اور خط معاویہ کے سپرد کیا لیکن وہ جواب دینے میںتذبذب میں پڑ گیا

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، ج۱، ص ۷ ۔

۳۶۴

اور عقبہ اور عمر و عاص جیسے افراد کے ساتھ مشورہ کیا اور بالآخر امام ـ کے قاصد سے اپنے دل کی باتیں کہیں کہ اگر علی شام اور مصر کو نظر انداز کردیں اور وہاں کی آمدنی کو اس کے سپردکردیں تو ایسی صورت میں وہ انھیں خلیفہ تسلیم کرلے گا۔

امام ـ کے سفیر نے معاویہ کے نظریہ کو امام ـ کے سامنے پیش کیا امام ـنے اس کے جواب میں کہا کہ معاویہ چاہتا ہے کہ میری بیعت نہ کرے او راپنے مقصد کو پہونچ جائے اور وقت گزارنے اور اپنے مقصد کی کامیابی کے لئے شام اور مصر کی حکومت کو مضبوط کرلے اس بنا پر اگر اس نے بیعت کرلیا تو ٹھیک ہے ورنہ فوراً شام کو چھوڑ دے اور جتنی جلدی ہو میرے پاس آجائے۔(۱)

امام ـ کے اس جواب سے واضح ہوتا ہے کہ اس درخواست سے معاویہ کا مقصد یہ تھا کہ علی کی بیعت اور اطاعت اس پر واجب نہ ہو اور وہ ایک آزاد حاکم کی طرح دو بزرگ و عظیم شہروں پر حکومت کرے اور اس کے حساب و کتاب اور اس کے ساتھیوں کے متعلق امام ـ کوئی مداخلت نہ کریں، خدا جانتاہے کہ اس کے بعد اور ان دونوں شہروں پر مستحکم و مضبوط قبضہ کرنے کے بعد معاویہ امام ـ کی حکومت کو گرانے کے لئے کیا کیا تدبیریں کرتا، اس کے علاوہ یہ وہی دو سر داری ہے جسے عقل و شریعت میں سے کوئی بھی قبول نہیں کرتی اور حکومت اسلامی کے دو ٹکڑوں میں بٹنے کے سوا کوئی اور نتیجہ نہیں نکلتا۔

اس بات پر واضح دلیل کہ معاویہ خلافت کا خواہاں تھا نہ کہ امام ـ کی نمائندگی، مولا کا ایک جملہ ہے جس کو آپ نے اپنے خط میں اس کے لئے تحریر کیا تھا۔

وَ اَعْلَمْ یَا مُعٰاوِیَةَ اِنَّکَ مِنْ الطُّلَقَائِ الَّذِیْنَ لَا تَحِلُّ لَهُمْ الْخِلَافَةَ وَ لَا تُعْهَدُ مَعَهُمُ الْاَمَانَةَ وَ لَا تُعْرضُ فِیْهِم الشُّوْرَیٰ ۔(۲)

اے معاویہ جان لے، تو آزادشدہ لوگوں میں سے ہے اور ان لوگوں کے لئے خلافت جائز نہیں ہے اور ان کے بیعت کرنے سے کسی کی خلافت ثابت نہیں ہوتی اور شوریٰ کی نمائندگی کا بھی حق نہیں رکھتے۔

______________________

(۱) الامامة و السیاسة ، ج۱، ص ۸۷۔

(۲) ''طلقائ'' یا آزادہ شدہ وہ لوگ ہیں جنہیں فتح مکہ کے موقع پر پیغمبر نے معاف کردیا تھا۔

۳۶۵

قاتلان عثمان کے نام بہانہ

بہترین دلیل اس بات پر کہ معاویہ خلافت کا متمنی تھایہ ہے کہ اس نے امام ـ کی حکومت کے زمانے میں تمام چیزوں سے زیادہ عثمان کے قاتلوں کے بارے میں گفتگوکی تھی اور علی علیہ السلام سے کہاتھا کہ ان کو ہمارے حوالے کریں تاکہ ثابت ہو جائے کہ امام ان سے مرتبط نہیں تھے۔وہ خوب جانتا تھا کہ عثمان کے قاتلوں میں ایک یا دو شخص شامل نہیں ہیں کہ امام ـ انھیں گرفتار کر کے اس کے حوالے کردیں کیونکہ حملہ کرنے والوں میں مدینے کے لوگ بھی شامل تھے اور بہت زیادہ تعداد میں مصر اور عراق کے افراد شامل تھے جنھوں نے خلیفہ کے گھر کا محاصرہ کیا تھا اور انھیں قتل کیا تھا اور ایسے گروہ کی شناخت بہت مشکل کام ہے خود معاویہ بھی اس مشکل کو سب سے زیادہ جانتا تھااور اس کا مقصد تمام حملہ کرنے والوں کو گرفتار کرنا تھا نہ کہ جن لوگوںنے خلیفہ کو قتل کیا تھا۔اس کے علاوہ اس واقعہ کی چھان مسلمانوں کے خلیفہ کی ذمہ داری ہے نہ کہ خلیفہ کے کئی واسطوں سے چچازاد بھائی کی اور امام ـ کا خلیفہ کے قاتلوں کو معاویہ کے حوالے کرنا خود معاویہ کی خلافت کوقبول کرناتھا۔

امام ـ نے اپنے ایک خط میں معاویہ کو لکھا :

''عثمان کے قاتلوں کے بارے میں بہت زیادہ اصرار کر رہے ہو، اگر تم اپنی بے جا رائے سے باز آجاؤ تو میں تمہارے اور دوسروں کے ساتھ خداکی کتاب کے مطابق پیش آؤں لیکن جو چیز تم چاہتے ہو (شام کو تمہارے حوالے کرنا) اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ بچے کو پستان مادر سے دھوکہ دیا جائے۔امام ـ ایک اور خط میں معاویہ کو لکھتے ہیں :

''جس چیز کو توبڑی خواہش و آرزو سے طلب کر رہا ہے تو جان لے کہ یہ چیز آزاد شدہ لوگوں تک نہیں پہونچے گی کہ وہ مسلمانوں کا رہبر ہو اور اسی طرح ان کو یہ بھی حق نہیں ہے کہ خلافت کی شوری کے ممبر منتخب ہوں''۔عثمان کے خون کا بدلہ اور قاتلوں کو گرفتار کر کے اس کے حوالے کرنا صرف اور صرف ایک بہانہ تھا اور معاویہ اس کی آڑ میں خلافت و زعامت پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ اس مسئلہ پر سب سے واضح و روشن دلیل یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت ہوگئی اور معاویہ نے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی جس چیز کے بارے میں اس نے کوئی بحث نہ کی وہ عثمان کے خون کا بدلہ اور اس کے قاتلوں کی گرفتاری تھی۔ یہاں تک کہ جب عثمان کی بیٹی نے معاویہ کا دامن پکڑ کر کہا کہ میرے باپ کے قاتلوں سے ان کے خون کا بدلہ لو تو اس نے کہا : یہ کام میرے بس میں نہیں ہے اور تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ تم خلیفہ مسلمین کی بھتیجی رہو۔

۳۶۶

چھٹی فصل

ناکثین سے جنگ (جنگ جمل)

مہاجرین و انصار میں سے پیغمبر کے صحابیوں کا امام ـ کی بیعت کے لئے ہجوم کرنااور حق و عدالت کی حکومت کو واپس لانے کی درخواست کرنا یہ سبب بنا کہ امام ـ امور حکومت کو اپنے ہاتھوں میں لیں تاکہ اسلامی قوانین اور سنت کے مطابق لوگوں کے ساتھ پیش آئیں۔

امام ـ کے بیت المال تقسیم کرنے کی روش دیکھ کر ایک گروہ بہت ناراض ہوا وہ گروہ جو ہمیشہ عدالت اور سنت حسنہ کے احیاء سے ناراض ہو وہ تبعیض اور خواہشات نفسانی اور بے جا آرزؤں اور غیر محدود آرزؤں کے ماننے والے ہوتے ہیں۔

امام ـ اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں تین سرکش گروہوں سے روبرو ہوئے جن کی سرکشی حد سے بڑھی ہوئی تھی اور ان کی آرزو صرف عثمان کی حکومت کی طرح فضا بنانا اور بے جا تحفہ و اخراجات اور اسراف کرنا اور معاویہ اور پچھلی حکومت کے معین کردہ حاکموں کی طرح نالائق افراد کی حکومت کو مضبوط بنانی تھی۔

ان جنگوں میں مسلمانوں کا خون بہایا گیا، پیغمبر کے صحابیوں کا گروہ جو بدرو احدکی جنگوں میں بھی تھا یعنی تاریخ اسلام کے حساس موقعوں پر پیغمبر کی رکاب میں رہ کر تلواریں چلائی تھیں اس مرتبہ وہ لوگ پیغمبر کے اصلی اور سچے جانشین کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے اور امام ـ کے اہداف کی ترقی کی خاطر اپنی جان کو اسلام کی راہ میں قربان کردیا۔

اس کے علاوہ ، امام ـ کا قیمتی وقت جو لوگوںکی تربیت ،امت کی ہدا یت اور اسلامی معارف و تعلیم میںصرف ہوتا وہ ان تینوں گروہوںکے دفع کرنے میں صرف ہوگیا جو امام ـ کے مقدس ہدف کے خلاف تھا اور بالآخر قبل اس کے کہ امام ـ اپنے مقصد تک پہونچتے یعنی ہمیشہ کے لئے ایک ایسی حکومت قائم کرتے جو اسلام کے اصولوں اور سنتوں پر قائم ہوتی ،آپ کی حکومت کا سورج پانچ سال نوارانی شعاعیں بکھیر نے کے بعد غروب ہوگیا اور آپ کی شہادت کے بعد حکومت اسلامی موروثی سلطنت میں تبدیل ہوگئی اور بنی امیہ اور بنی عباس کی اولادیںایک کے بعد ایک اس پر قابض ہوتی گئیں اور مومنین کے دلوںمیں حکومت اسلامی ایک آرزو بن کر رہ گئی۔

وہ تین گروہ یہ تھے:

۳۶۷

۱: ناکثین ''یا عہد و پیمان توڑنے والا گروہ''

اس گروہ کے سردار خصوصاً طلحہ اور زبیرنے جو پیغمبر کی بیوی عائشہ کے احترام کی آڑمیں اور بنی امیہ کی بے انتہا مدد کی وجہ سے صرف اس لئے کہ امام ـ کی حکومت میں ان کے اختیارات بہت کم ہوگئے تھے، بہادر سپاہیوں کا ایک بڑا لشکر کوفہ و بصرہ پر قبضہ جمانے کے لئے تیار کیا اور خود بصرہ پہونچ بصرہ پر قبضہ کر لیا۔ امام ـ بھی اپنا لشکر لے کر گئے اور پھر دونوں گروہوں میں جنگ شروع ہوئی اور طلحہ و زبیر اس جنگ میںمارے گئے اور ان کی فوج بھاگ گئی اور کچھ قیدی بنالئے گئے اور بعد میں امام ـ نے انھیں معاف کردیا۔

۲ : قاسطین ''یا ظالمین اور حقیقت سے دور رہنے والا گروہ''

اس گروہ کا سردار معاویہ تھا جس نے مکر و فریب اوردھوکہ دینے والی باتوں سے دو سال، بلکہ امام ـ کی عمر کے آخری لمحہ تک آپ کو مشکلات سے دوچار کرتا رہا، عراق و شام کے وسط میں امام اور اس کے درمیان جنگ صفین ہوئی جس میں ہزاروں مسلمانوں کا خون بہا لیکن امام ـ اپنے آخری مقصد تک نہ پہونچ سکے اگرچہ معاویہ شام میں نظروں سے گرگیا۔

۳: مارقین ''یا دین سے خارج ہونے والا گروہ''

یہ افراد، گروہ ''خوارج'' میں سے ہیں یہ لوگ جنگ صفین کے آخری مرحلے تک امام ـ کے ہمراہ تھے اور حضرت کی طرف سے جنگ کر رہے تھے ، لیکن معاویہ کے دھوکہ دینے والے کاموں کی وجہ سے یہ لوگ امام کے خلاف شورش کرنے لگے اور ایک تیسرا گروہ بنایا جو معاویہ اور امام دونوںکے خلاف تھا ،اور اسلام ومسلمین اور امام ـ کی حکومت کے لئے دونوں گروہوں سے زیادہ خطرناک تھا ،اس گروہ سے امام ـ کا مقابلہ ''نہروان'' نامی جگہ پر ہوا او رامام نے ان کو مار بھگایااور قریب تھا کہ دوسری مرتبہ شام سے فساد و سرکشی کی جڑ کو ختم کرنے کے لئے خود کوآمادہ کریں کہ خوارج میں سے ایک شخص حملہ آور ہوا اور آپ نے جام شہادت نوش فرمایا اور انسانیت نے پیغمبر کے بعد ایک شریف اور عزیز ترین شخص اور اسلام کی بہترین و شائستہ فرد کو کھو دیا اور اسلامی عدالت کی حکومت کا چاند حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور تک کے لئے بدلی میں چلا گیا۔

۳۶۸

امام ـ ان جان لیوا حادثوں کے رونما ہونے کے پہلے ہی سے ان کے بارے میں آگاہ تھے، اسی وجہ سے عثمان کے قتل کے بعدجب انقلابی ،امام ـ کے گھر پر جمع ہوئے اور آپ سے درخواست کی کہ اپنے ہاتھوں کو بڑھائیں تاکہ بیعت کریں تو آپ نے فرمایا:

''دَعَوْنِیْ وَ التَّمَسُّوْا غَیْرِیْ فَاِنَّا مُسْتَقْبِلُوْنَ اَمْرًا لَهُ وُجُوْهٍ وَ اَلْوَانُ لَا تَقُوْمُ لَهُ الْقُلُوبِ وَ لٰا تَثْبُتَ عَلَیْهِ الْعُقُولِ'' (۱) مجھے چھوڑ دو کسی دوسرے کے پاس جاؤ کیونکہ ہمیں مختلف حوادث کا سامنا ہے ایسے حوادث جن سے دل ٹکڑے ہوجائیں گیاور عقلیں انہیں برداشت کرنے سے قاصر ہیں ان حوادث سے آگاہ ہونے کا ایک منبع خود پیغمبر اسلام کا ان چیزوں کے بارے میں خبر دینا تھااسلامی محدثین نے پیغمبر اسلام(ص) کا ایک قول نقل کیا ہے کہ آپ نے علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے:''یاعلی تقاتل الناکثین و القاسطین والمارقین'' (۲)

اے علی تم عہد و پیمان توڑ نے والوں ، ظالموں اور دین سے منحرف ہونے والوں کے ساتھ جنگ کرو گے۔

یہ حدیث مختلف طریقوں سے حدیث و تاریخ کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے مگر سب کا مفہوم ایک ہے،ان جنگوں کی تفصیل پہلے بیان ہو چکی ہے۔

صرف حضرت علی علیہ السلام ہی ان جان لیوااو رتاسف بار حادثوں سے آگاہ نہ تھے بلکہ ناکثین کے سرداروں (جسے تاریخ ''اصحاب جمل'' کے نام سے جانتی ہے) نے بھی حضرت رسول خدا سے اپنے اور حضرت علی کے درمیان جنگ ہونے کے متعلق سنا تھا اور پیغمبر نے زبیر اور عائشہ کواس سلسلے میں بہت سخت تاکیدکی تھی، لیکن افسوس کہ باطل حکومت سے محبت کی وجہ سے یہ مادی اموال پر فریفتہ ہوگیا اور دنیا کی لالچ میں اس طرح ضم ہوگیا کہ واپسی کی کوئی امیدباقی نہ رہی اور وہ راستہ اختیار کیا جس میں گناہ اور خدا کا غضب تھا۔ جنگ جمل کے حادثہ کے بارے میں پیغمبر اسلام کے بیان کو مناسب موقع پر پیش کریں گے ۔

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۳، ص ۱۵۶۔

(۲) مستدرک الوسائل، ج۳، ص ۱۴۰۔

۳۶۹

بہت زیادہ تعجب کا مقام ہے کہ اسلام کے پروان چڑھنے کے دوران اور اس وقت جب کہ حق اپنے محور پر واپس آگیا اور حکومت کی باگ ڈور ایسے شخص کے ہاتھوں میں اگئی جسے ابتداء خلقت ہی میں پیشوائی و رہبری کے لئے منتخب کیا گیاتھا اور اس بات کی امید تھی کہ اس زمانے میں اسلامی زندگی میں عظیم معنوی اور مادی ترقی مسلمانوں کو نصیب ہوگی اور اسلامی حکومت مکمل طور پر امام ـ کے ہاتھوں میں دوبارہ واپس آجائے تاکہ آپ کی حکومت آئندہ کے لئے بہترین نمونہ عمل ہوسکے۔ ایک گروہ امام ـ کی مخالفت کے لئے آمادہ ہوا اور علم جنگ امام ـ کے خلاف بلند کیا ۔امام ـ نے اپنے ایک خطبہ میں اس سلوک پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے فرمایا:

''فَلَمَّا نَهَضْتُ بِالْاَمْرِ نَکَثَتْ طَائِفَة وَ مَرَقَتْ أُخْریٰ وَ قَسَطَ آخَرُوْنَ کَأَنَّهُمْ لَمْ یَسْمَعُوا کَلاَم اللّٰه حَیْثُ یَقُولُ: تِلْکَ الدَّارُ الْآَخِرَةِ نَجْعَلُهَا لَلَّذِیْنَ لَایُرِیْدُوْنَ عُلُواً فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِسَاداً وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْن'' ۔(۱)

جب تمام امور کو میں نے اپنے ہاتھوں میں لیااس وقت کچھ لوگوں نے میری بیعت سے منہ موڑ لیا اور کچھ گروہ قوانین الہی سے خارج ہوگئے اور بعض گروہ حق کی راہ سے دور ہوگئے ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں نے خدا کے کلام کو نہیں سنا کہ ارشاد قدرت ہے کہ آخرت ان لوگوں کے لئے ہمیشگی کا گھر ہے جو سرکش نہ ہوں اور زمین پر فساد برپانہ کریں۔ جی ہاں، خدا کی قسم۔ ان لوگوںنے خدا کے کلام کو سنا اور انھیں یاد بھی تھا لیکن ان کی آنکھوں میں دنیا کی چمک دمک سما گئی تھی اور اس کی چمک نے انھیں دھوکہ میں ڈال رکھا۔

_____________________

(۱) نہج البلاغہ، خطبہ ۴۔

۳۷۰

بچہ گانہ عذر

عہد و پیمان توڑ نے والا گروہ یعنی طلحہ و زبیر اور ان کے چاہنے والوں نے باوجود اس کے کہ امام ـ کے ہاتھوں پر دن کے اجالے میں بیعت کیا تھا ،اور مہاجرین و انصار اور لوگوں کے ہجوم نے انھیں بیعت کے لئے آمادہ کیا تھا۔ اور جب مخالفت کا پرچم بلند کیا تو اس بات کا دعویٰ کرنے لگے کہ ہم نے زبانی اور ظاہری طور پر بیعت کی تھی اور دل کی گہرائیوں سے علی کی حکومت کو قبول نہیں کیا تھا۔امام ـ اپنی ایک تقریر میں ان کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

''فَقَدْ أَقَرَّ بِالْبَیْعَةِ وَ ادّعَی الْوَلِیْجَةَ فَلْیَأتِ عَلَیْهَا بِأَمْرٍ یُعْرَفُ وَ اِلَّا فَلْیَدْخُل فِیْمَا خَرَجَ مِنْهُ'' ۔(۱)

انھوں نے خود اپنی بیعت کا اعتراف کیا لیکن اب ان کا دعویٰ ہے کہ باطنی طور پر ہم اس کے مخالف تھے وہ لوگ اس بات پر شاہد و گواہ پیش کریں یا یہ کہ اپنی بیعت پر باقی رہیں۔

نفاق و منافقت

طلحہ و زبیر امام ـ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ ہم نے آپ کی بیعت اسلئے کی کہ آپ کی رہبری میں شریک رہیں۔ امام نے ان کی شرط کو جھوٹی قرار دیا اور کہا تم لوگوں نے میری بیعت کی تاکہ مشکل کے وقت میری مدد کرو۔(۲) ابن قتیبہ نے اپنی کتاب ''خلفائ'' میں امام ـ اور ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کو نقل کیا ہے وہ کہتا ہے کہ ان لوگوں نے حضرت علی کی طرف رخ کر کے کہا کیاآپ جانتے ہیں کہ ہم نے کس بنیاد پر آپ کی بیعت کی ہے؟امام نے فرمایا: ہاں میں جانتا ہوں ، تم نے ہماری اطاعت کی وجہ سے بیعت کی ہے اسی طرح جس طرح تم نے ابوبکر و عمر کی اطاعت کے لئے بیعت کیا تھا۔زبیر کو یہ گمان تھا کہ امام ـ عراق کی حاکمیت کو اس کے حوالے کردیں گے اور اسی طرح طلحہ یہ سوچ رہا تھا کہ یمن کی حکومت اس کے حوالے کردیں گے(۳) لیکن بیت المال تقسیم کرنے کی رو ش اور دوسرے اسلامی شہروں کی رہبری اور مسلمانوں کے امور کے لئے دوسرے افراد کو بھیجنے کی وجہ سے ان کی آرزوئیں خاک میں مل گئیں، لہذا ارادہ کرلیا کہ مدینہ سے بھاگ جائیں اور امام ـ کی مخالفت کرنا شروع کردیں۔مدینہ چھوڑ نے سے پہلے زبیر نے قریش کے عمومی مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کیا ہماری یہی سزا ہے؟

______________________

(۱) نہج البلاغہ کلمات قصار شمارہ ۱۹۸۔----(۲) نہج البلاغہ خطبہ۸۔------(۳) تاریخ خلفاء طبع مصر، ج۱، ص ۴۹۔

۳۷۱

ہم نے عثمان کے خلاف قیام کیا اور اس کے قتل کا زمینہ فراہم کیا جب کہ علی گھر میں بیٹھے تھے اور جب حکومت کی ذمہ داری قبول کی تو کام کی ذمہ داری دوسروں کو سونپ دی۔(۱)

______________________

(۱) تاریخ خلفاء طبع مصرج۱ ص ۴۹۔

۳۷۲

ناکثین کے قیام کرنے کی علت

جب طلحہ و زبیر امام ـ کی حکومت میں کسی بھی شہر میں منصوب نہ ہوئے اور اس سے مایوس و ناامید ہوئے اور دوسری طرف معاویہ کی جانب سے دونوں کے پاس ایک ہی مضمون کا خط پہونچا جس میں اس نے ان دونوں کو ''امیر المومنین'' کے خطاب سے نوازا تھا اور لکھا تھا کہ شام کے لوگوں سے تم لوگوں کے لئے بیعت لے لی ہے اور تم لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو کوفہ و بصرہ شہر پر قبضہ کرلو، اس سے پہلے کہ ابوطالب کا لال ان دونوں پر مسلط ہو اور ہر جگہ ان لوگوں کا نعرہ یہ ہو کہ ہم لوگ عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتے ہیں اور لوگوں کو اس کے خون کا بدلہ لینے کے لئے دعوت کردیں۔

یہ دونوں سادہ لوح صحابی معاویہ کا خط پڑھ کر دھوکہ کھا گئے اور چاہا کہ مدینہ سے مکہ جائیں اور وہاں لوگوں کو تربیت دیںاور انہیں جنگ کے لئے آمادہ کریں۔ وہ لوگ معاویہ کے امور کو اجراء کرنے کے لئے امام کے پاس گئے اور کہا: آپ نے عثمان کی ستمگری کو ولایت و حکومت جیسے امور میں مشاہدہ کیا ہے اور آپ نے یہ بھی دیکھا کہ اس کی نگاہ میں بنی امیہ کے علاوہ کسی کی کوئی اہمیت نہ تھی ،اب جب کہ خدا نے آپ کو منصب خلافت پر فائز کیا ہے ہم لوگوں کو کوفہ و بصرہ کا حاکم معین کیجئے۔ امام نے فرمایا: جو کچھ خدا نے تمہیں عطاکیاہے اس پر راضی رہو تاکہ میں اس موضوع کے متعلق فکر کروں ، یہ با ت جان لو کہ میں ان لوگوں کو حکومت کے لئے منتخب کروں گا جن کے دین اور امانت پر مجھے اطمینان اور ان کی طینت سے واقف ہوں گا۔

دونوں یہ کلام سن کر پہلے سے بھی زیادہ مایوس ہوگئے امام ـ نے ان کا امتحان لیا اان دونوں کو معلوم ہو گیا کہ آپ ان دونوں پر اعتماد نہیں رکھتے لہذا ان دونوںنے بات کو بدلتے ہوئے کہا کہ آپ اجازت دیجئے کہ ہم عمرہ کرنے کے لئے مدینہ سے مکہ جائیں ۔ امام ـ نے فرمایا عمرہ کی آڑ میں تمہارا ہدف کچھ اور ہے ان لوگوںنے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ عمرہ کے علاوہ ہماراکوئی اور مقصد نہیں ہے۔

۳۷۳

امام ـ نے فرمایا: تم لوگ دھوکہ اور بیعت توڑ نے کی فکر میں ہو، ان لوگوں نے پھر قسم کھائی اور دوبارہ امام ـ کی بیعت کی جب وہ دونوں امام ـ کے گھر سے نکلے تو امام نے حاضرین جلسہ سے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ دونوں فتنہ کی وجہ سے قتل ہوں گے ان میں سے بعض لوگوں نے کہا انھیں سفر پر جانے سے منع کردیجئے امام نے کہا قسمت کا لکھا اور خدا کا وعدہ پورا ہوکر رہے گا۔

ابن قتیبہ لکھتے ہیں:

دونوںعلی کے گھر سے نکل کر قریش کے پاس آئے اور ان لوگوں سے کہا یہ ہم لوگوں کا اجر تھا جو علی نے ہمیں دیا ہے ہم نے عثمان کے خلاف قیام کیااور اس کے قتل کا زمینہ فراہم کیاجب کہ علی اپنے گھر میں بیٹھے تھے اور اب جب منصب خلافت پر بیٹھ گئے تو دوسروں کو ہم لوگوں پر ترجیح دے رہے ہیں۔

اگرچہ طلحہ و زبیر نے امام ـ کے گھر میں شدیدقسمیں کھائی تھیں لیکن مدینہ سے نکلنے کے بعد مکہ کے راستے میں جس سے بھی ملاقات ہوئی حضرت علی کے ہاتھوں پر بیعت کرنے سے انکارکیا۔(۱)

______________________

(۱)تاریخ طبری ج۳ ص ۱۶۳؛ الامامة و السیاسة ج۱ ص ۴۹؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱ ص ۲۳۲۔ ۲۳۱۔

۳۷۴

عائشہ کا مدینہ کے نیم راہ سے مکہ واپس جانا

اس کے پہلے ہم بیان کرچکے ہیں کہ جب عراقی اور مصری انقلابیوںکی طرف سے عثمان کے گھر کا محاصرہ ہوا تو عائشہ مدینہ سے حج کرنے مکہ چلی گئیں اور مکہ ہی میں تھیں کہ عثمان کے قتل ہونے کی خبر سنی لیکن اس بات کی خبر نہ ملی کہ عثمان کے قتل کے بعد خلافت کسے ملی، اسی وجہ سے ارادہ کیا کہ مکہ چھوڑ کر مدینہ کا سفر کریں۔ مکہ سے واپس آتے وقت ''سرف'' نامی مقام پر ایک شخص سے جس کا نام ام ابن کلاب تھا ملاقات ہوئی تو اس سے مدینہ کے حالات معلوم کئے اس نے کہا ۸۰ دن تک خلیفہ کا گھر محاصرہ میں تھا اور پھر انھیں قتل کردیا گیاپھر لوگوں نے چند دن کے بعد علی کے ہاتھ پر بیعت کی۔

جب عائشہ نے سنا کہ مہاجرین و انصار دونوں نے علی کے ہاتھ پر بیعت کی ہے توانہیں سخت تعجب ہوا اور کہا: اے کاش آسمان میرے سرپر گر جاتا، پھرانہوں نے حکم دیا کہ میری سواری کو مکہ کی طرف موڑ دو جب کہ عثمان کے متعلق انہوں نے اپنے نظریہ کو بدل دیا تھا انہوں نے کہا خدا کی قسم، عثمان مظلوم قتل کیا گیاہے اور میں اس کے قاتلوں سے ضرور انتقام لوں گی۔

خبر دینے والا شخص عائشہ کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ آپ وہ پہلی فرد تھیں جس نے لوگوں سے کہا تھا کہ عثمان کافر ہوگیا ہے اور اس کی شکل و صورت یہودی کی طرح ہے اسے ضرور قتل کردیا جائے۔

اب کیا ہوگیا ہے کہ اپنے پہلے نظریہ کو بدل دیا؟ انہوں نے ایسا جواب دیا گویا کوئی تاریکی میں تیر رہا کریں، عثمان کے قاتلوں نے پہلے اس سے توبہ کرائی پھر اسے قتل کیااور عثمان کے بارے میںسبھی نے کچھ نہ کچھ کہا اور ہم نے بھی کہا لیکن میرا یہ آخری کلام میرے پہلے کلام سے بہتر ہے ۔ابن کلاب نے عائشہ کے اس رویہ کو دیکھ کر اشعار کہے جن میں سے کچھ اشعار کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں :''تم نے خلیفہ کے قتل کا حکم دیا اور پھر ہم سے کہا کہ وہ خدا کے دین سے خارج ہوگیا ہے، یہ بات حقیقت ہے کہ ہم نے اسے قتل کرنے میں تمہارے حکم کی پیروی کی ہے اس وجہ سے ہمارے نزدیک اس کا قاتل وہ شخص ہے جس نے اس کے قتل کا حکم دیا ہے(گویا قاتل خود عائشہ ہیں)''۔

عائشہ مسجد الحرام کے سامنے اپنی سواری سے اتریں اور حجر اسماعیل کے پاس گئیں اور وہاں ایک پردہ لٹکایا ۔ لوگ ان کے ارد گرد جمع ہوگئے اور انہوں نے لوگوں سے خطاب کیا کہ اے لوگو عثمان کو ناحق قتل کیاگیا ہے اور میں اس کے خون کا بدلہ لوں گی۔(۱)

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۳، ص ۱۷۲۔

۳۷۵

امام ـ کے مخالفوں کا مرکز

عثمان کے قتل اور امام ـ کی بیعت کے بعد مکہ کی سرزمین حضرت علی کے مخالفوں کا مرکز شمار ہونے لگی اور جو لوگ علی کے مخالف تھے وہ ان کے فیصلوں سے بہت خوفزدہ تھے خاص کر عثمان کے معین کردہ حاکم وغیرہ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ امام ان لوگوں کو ان کے مقام سے معزول کر رہے ہیں اور جو ان لوگوںنے خیانتیں کی ہیں ان کی وجہ سے انھیں اپنی عدالت میں طلب کر رہے ہیں۔ سب کے سب حرم کی حرمت کا خیال کرتے ہوئے مکہ میں پناہ لئے ہوئے تھے اور جنگ جمل کا نقشہ تیار کرنے میں مشغول ہو گئے تھے۔

جنگ جمل کے اخراجات

جنگ جمل کے خرچ کو عثمان کے حاکموںنے دیاتھا جسے انھوں نے عثمان کی حکومت کے زمانے میں

بیت المال کو غارت کر کے بہت زیادہ مال و ثروت جمع کرلیا تھا اور ان لوگوںکا ہدف یہ تھا کہ علی کی تازہ اور جوان حکومت کو سرنگوںکردیں تاکہ پھر گذشتہ کی طرح حالات پیدا ہوجائیں۔

جن لوگوں نے جنگ جمل کے سنگین خرچ کو برداشت کیاتھا ان میں سے کچھ لوگوں کے نام یہ ہیں:

۱: عبد اللہ بن ابی ربیعہ، صنعا (یمن کے ایک شہر کا نام) کا حاکم جو عثمان کی طرف سے منصوب تھا، وہ صنعا سے عثمان کی مدد کرنے کے لئے نکلا اور جب آدھے راستے میں اسے عثمان کے قتل کی خبر ملی تو وہ مکہ چلا گیا اور جب اس نے سنا کہ عائشہ عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے لوگوں کو دعوت دے رہی ہیں تو مسجد میں داخل ہوا اورتخت پر بیٹھ گیااور بلند آواز سے کہا جو شخص بھی عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اس جنگ میں شرکت کرنا چاہتاہے میں اس کے خرچ کو برداشت کروں گا اس طرح اس نے بہت زیادہ لوگوں کو جنگ میں جانے کے لئے جمع کرلیا۔

۳۷۶

۲: یعلی بن امیہ ، عثمان کی فوج کاایک سردار، اس نے عبداللہ کی پیروی کرتے ہوئے اس راہ میں بہت زیادہ مال خرچ کیااس نے چھ سو اونٹ خریدے(۱) اور مکہ کے باہر جنگ پر جانے کے لئے آمادہ کیے او رایک گروہ کو اس پر سوار کیا اوردس ہزار دینار ان لوگوںکودیئے۔

جب امام ـ یعلی کے اس خرچ وبخشش سے آگاہ ہوئے تو فرمایا: امیہ کے بیٹے کے پاس دس ہزار دینار کہاں سے آئے؟ سوائے اس کے کہ اس نے بیت المال سے چوری کیاہو؟ خدا کی قسم اگر وہ اور ابی ربیعہ کا بیٹا مجھے مل جائے تو اس کی ساری دولت جمع کر کے بیت المال میں واپس ڈال دوں گا۔(۲)

۳: عبد اللہ بن عامر، بصرہ کا حاکم، بہت زیادہ مال و دولت لے کر بصرہ سے مکہ بھاگ گیا تھا یہ وہی شخص ہے جس نے بصرہ پر قبضہ کرنے کا نقشہ تیار کیا تھا اور طلحہ و زبیر اور عائشہ کو اس شہر پر قبضہ کرنے کی ترغیب دلائی

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۳، ص ۱۶۶۔

(۲) الجمل ص ۱۲۴۔ ۱۲۳؛ بنا ء بر نقل ابن قتیبہ (خلفاء ص ۵۶) اس نے ۶۰ ہزار دینار زبیر اور ۴۰ ہزار دینار طلحہ کو دیا تھا۔

۳۷۷

تھی۔(۱)

مکہ میں عثمان کے بھاگے ہوئے تمام گورنر ایک جگہ جمع ہوگئے اور عبداللہ بن عمر اور اس کا بھائی عبید اللہ اور اسی طرح مروان بن حکم اورعثمان کے بیٹے اس کے غلام اور بنی امیہ کے کچھ گروہ بھی ان لوگوں سے ملحق ہوگئے۔(۲)

ان سب باتوںکے باوجود، اس گروہ کی دعوت پر (جب کہ انھیں سبھی پہچانتے تھے) مکہ اور مکہ کے راستوں میں سے کسی نے بھی امام ـ کی مخالفت کا اظہار نہیں کیا۔ اس وجہ سے یہ لوگ مجبور ہو گئے کہ اس فوج کے ساتھ جو عثمان کے دور حکومت کے معزول گورنروں اور بنی امیہ کے خرچ پر بنائی گئی تھی،ایک معنوی سہارا بھی ہو ،لہذا یہی وجہ ہے کہ وہ اعرابی جو اس راستے میں زندگی بسر کر رہے تھے ان کے دینی احساسات کو برانگیختہ کرنے کے لئے عائشہ اور حفصہ کو دعوت دی تاکہ اس گروہ کی معنوی رہبری کی ذمہ داری لیں اور لوگوں کے ساتھ بصرہ کی طرف روانہ ہو جائیں ۔

یہ بات صحیح ہے کہ عائشہ نے مکہ میں قدم رکھتے ہی علی علیہ السلام کے خلاف آواز بلند کی تھی لیکن ہرگز اپنے نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوئی نقشہ تیار نہیں کیا تھا۔ اور ہرگز ان کے ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ فوج کی رہبری کریں گی اور بصرہ جائیںگا، لہذا جب زبیر نے اپنے بیٹے عبد اللہ کو (جو عائشہ کا بھانجا تھا) عائشہ کے گھر بھیجا تاکہ عائشہ کو جنگ کے لئے اور بصرہ جانے کے لئے آمادہ کرے تو انہوں نے عبد اللہ کا جواب دیتے ہوئے کہا : میں نے ہرگز لوگوں کو جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا میں مکہ صرف اس لئے آئی تھی کہ لوگوں کو یہ اطلاع دوں کہ ان لوگوں کا امام کس طرح مارا گیاہے اور ایک گروہ نے خلیفہ سے توبہ کرایاپھر اسے قتل کردیا تاکہ لوگ اس کے خلاف قیام کریں ان لوگوںنے خلیفہ پر حملہ کیا اورانھیں قتل کردیااور بغیر کسی رائے مشورے کے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی ۔عبد اللہ نے کہا: اس وقت جب تمہارا نظریہ علی اور عثمان کے قاتلوں کے بارے میں یہ ہے تو پھرکیوں علی کی مخالفت میں مدد اور کمک کرنے کے

______________________

(۱) الجمل ص ۱۲۱۔

(۲) الامامة والسیاسة، ج۱، ص ۵۵؛ تاریخ طبری، ج۳، ص ۱۶۶۔

۳۷۸

لئے یہاں بیٹھی ہو؟ جب کہ مسلمانوں کے بعض گروہوں نے علی کی مخالفت میں جنگ کرنے کا اعلان کردیاہے عائشہ نے جواب دیا:تھوڑی دیر صبر کرو تاکہ میں اس مسئلے میں تھوڑا سا غور و فکر کروں۔ عبداللہ نے ان کی باتوں سے اس کی رضایت کا احساس کیا۔ لہذا جب اپنے گھر واپس آیاتو زبیر اور طلحہ سے کہا کہ ام المومنین نے ہماری درخواست کو قبول کرلیاہے اور اپنی بات کو مستحکم کرنے کے لئے دوسرے دن پھر عائشہ کے پاس گیااور انہیں مکمل اور قطعی طور پر راضی کر کے واپس آگیااور اس بات کے اعلان کے لئے ایک منادی سے مسجد او ربازار میں طلحہ و زبیر کے ساتھ عائشہ کی روانگی کا اعلان کرا دیا۔ اور اس طرح سے علی کی مخالفت میں قیام او ربصرہ پر قبضہ کرنے کا خیال قطعی اور یقینی ہوگیا۔(۱)

طبری نے مکہ سے خارج ہونے والوں کی ندا کی عبارت کو اس طرح نقل کیاہے:

''خبر دار ہو جاؤ کہ ام المومنین (عائشہ) اور طلحہ و زبیر بصرہ کے لئے روانہ ہو رہے ہیں جو شخص بھی چاہتا ہے کہ اسلام کو عزیز رکھے اور ان لوگوں کے ساتھ جنھوںنے مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھا ہے جنگ کرے، اور وہ شخص جو یہ چاہتاہے کہ عثمان کے خون کا بدلہ لے وہ اس گروہ کے ساتھ چلنے کو تیار ہو جائے۔ اور جس شخص کے پاس سواری اور سفر کے اخراجات نہیں ہیںتو ان کی سواری اور سفر کا خرچ ہمارے پاس ہے''۔(۲)

سیاست کے کھلاڑی دینی الفت و عطوفت کو برانگیختہ کرنے کے لئے پیغمبر کی دوسری بیوی حفصہ کے پاس گئے، انہوں نے کہا: ہم عائشہ کے پیرو ہیں ۔ جب وہ سفر کے لئے آمادہ ہیں تو میں بھی ان کے ساتھ چلنے کو تیار ہوں، لیکن جب وہ جانے کے لئے تیار ہوئیں تو ان کے بھائی عبد اللہ نے انہیں روک دیااور حفصہ نے عائشہ کے پاس پیغام بھیجا کہ، میرے بھائی نے تمہارے ساتھ جانے سے مجھے روک دیا ہے۔

______________________

(۱) الجمل، ص ۱۲۳۔

(۲) تاریخ طبری، ج۳، ص ۱۶۷۔

۳۷۹

ساتویں فصل

ناکثین کی گرفتاری کے لئے امام ـ کا خاکہ

امیر المومنین علیہ السلام نے اپنی حکومت کے ابتدائی دور میں سب سے پہلے جس کا م کو انجام دیا وہ یہ تھا کہ اسلامی معاشرے کو ایسے خود غرض حاکموں سے پاک کردیں جو مسلمانوں کے بیت المال کو اپنی جاگیر سمجھ بیٹھے ہیں بیت المال کے اہم حصہ کو خزانہ کے طور پر اپنے پاس ذخیرہ کرلیاہے اور دوسرے حصہ کو اپنے شخصی امور میں خرچ کرتے ہیں اور ہر شخص اپنے اپنے شہروں اورعلاقوںمیں خود مختار و آزاد حاکم بنا بیٹھا ہے او رغارتگری کرتاہے ان میں سب کا سردار ابوسفیان کا بیٹا معاویہ ہے جو خلیفۂ دوم کے زمانے سے اس بہانہ سے کہ وہ قیصر کا پڑوسی ہے قیصری محلوں میں ناز و نعمت میں غرق تھا او رجو بھی اس کے خلاف کچھ کہتا اسے فوراً جلا وطن یا ختم کردیا جاتاتھا۔

جب شام کے خود غرض حاکم کی سرکشی کی خبر امام ـ کو ملی تو آپ نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ چاہا کہ معاویہ کی سرکشی کا پوری طرح سے جواب دیں،ابھی اسی فکر میں تھے کہ اچانک حارث بن عبد المطلب کی بیٹی ام الفضل کا خط ایک معتبر قاصد کے ہمراہ امام ـ کے پاس پہونچا اور امام ـ کو خبر دی کہ طلحہ و زبیر نے آپ کی بیعت توڑ دی او روہ لوگ بصرہ کی طرف روانہ ہوگئے ہیں۔(۱)

خط ملنے کے بعد امام ـ کا ارادہ بدل گیا اور یہ خط سبب بنا کہ امام ـ جس گروہ کو لیکر شام جانا چاہتے تھے اسے بصرہ لے جائیں تاکہ عہد و پیمان توڑ نے والوں کو درمیان راہ ہی گرفتار کرلیں اور فتنہ کو جڑ سے ختم کردیں ،اس وجہ سے عباس کے ایک بیٹے ''تمام'' کو مدینہ کا حاکم اور دوسرے بیٹے ''قثم'' کو مکہ کا حاکم معین کیا۔(۲) اور سات سو آدمیوں(۳) فداکاروں کو مدینہ سے بصرہ کی طرف روانہ کیا جب ''ربذہ'' پہونچے تو معلوم ہوا کہ عہد و پیما ن تو ڑنے والوںنے پہلے ہی اپنی گرفتاری کا احتمال پیش کیا تھا اور پہچان کے لہذا کچھ

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۵ ص ۱۶۷، طبع مصر ۔

(۲) تاریخ طبری ج۵ ص ۱۶۹، طبع مصر ۔

(۳) الامامة والسیاسة، ص ۵۱، بناء بر نقل طبری ، ج۵، ص ۱۶۹ ان کی تعداد ۹ سو افراد پر مشتمل تھی۔

۳۸۰

راستہ جاننے والوں کے ساتھ انجان راستوں سے بصرہ کی طرف چلے گئے۔(۱) اگر امام ـ کو ان لوگوں کے بصرہ جانے کی خبر پہلے ملی ہوتی تو درمیان راہ سے ہی انھیں گرفتار کرلیتے اور ان کو گرفتار کرنا بہت آسان تھا اور پھر ان سے مقابلے کی نوبت نہیں آتی، کیونکہ زبیر کا اتحاد طلحہ کے ساتھ ظاہری اتحاد تھاان میں سے ہر ایک کی آرزو یہی تھی کہ حکومت خود سنبھالے، اور دوسرے کو اس سے بے دخل کردے ان دونوں کے اندر اس قدر نفاق تھا کہ مکہ سے روانہ ہوتے وقت دونوں کے درمیان اختلاف ظاہر ہوگیا تھا ۔ یہاں تک کہ بصرہ جاتے وقت نماز کی امامت کے لئے دونوں میں اختلاف ہوا او ردونوں یہی چاہتے تھے کہ امامت کی ذمہ داری خود اس کے ذمے ہو او راسی اختلاف کی وجہ سے عائشہ کے حکم سے دونوں جماعت کی امامت سے محروم ہوگئے اور امامت کی ذمہ داری زبیر کے بیٹے عبداللہ کو مل گئی۔ معاذ کہتے ہیں کہ خداکی قسم اگر یہ دونوں علی پر کامیابی حاصل کرلیتے تو خلافت کے مسئلے میں کبھی بھی متحد نہیں ہوتے۔(۲) امام ـ کے بعض ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ طلحہ و زبیر کا پیچھا نہ کریں لیکن امام ـ نے ان کی باتوں پر توجہ نہ دی ۔ علی علیہ السلام نے اس وقت ایک خطبہ دیا جسے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں:

''وَ اللّٰهِ لَا أَکُوْنُ کَالضّبْعِ تَنَامُ عَلٰی طُوْلِ اللَّدَمِ حَتّٰی یَصِلُ اِلَیْهَا طَالِبُهَا وَ یَخْتَلُهَا رَاصِدُهَا. وَ لٰکِنِّی اَضْرِبُ بِالْمُقْبِلِ اِلٰی الْحَقِّ الْمُدْبِرِ عَنْهُ وَ بِالسَّامِعِ الْمُطِیْعِ الْعَاصِیِ الْمُرِیْبِ أبَداً حَتَّی یَأتِیَ عَلَیَّ یَوْمِی'' (۳)

خدا کی قسم، اب میں اس بجو کی طرح (خاموش) نہ بیٹھوں گا جو مسلسل تھپتھپایا جاتا ہے کہ وہ سو جائے تاکہ اس کا طلب گار پہونچ جائے اور دھوکہ دیکر اچانک اس پر قابو پالے، بلکہ میں حق کی طرف بڑھنے والوں اور میری آواز سن کر اطاعت کرنے والوں کو ساتھ لیکر حق سے پیٹھ پھیرنے والے نافرمانوں پر جو شک میں مبتلا ہیں ان پر ہمیشہ اپنی تلوار چلاتا رہوں گا یہاں تک کہ میری موت کا دن آجائے۔علی نے اپنے اس کلام سے اپنے پروگرام کا اعلان کردیا اور سرکشوں باغیوںکے مقابلے میں خاموش نہ رہنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کی کامیابی کے لئے دوبارہ اپنی فوج بنانے کا سوچنے لگے۔

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۵، ص ۱۶۹۔

(۲) تاریخ طبری، ج۵، ص ۱۶۹۔

(۳) نہج البلاغہ، خطبہ ۶۔

۳۸۱

فوج کو دوبارہ جمع کرنا

امام ـ کو جب ناکثین کے فرار ہونے کی خبر ملی تو آپ نے ارادہ کیا کہ بصرہ تک ان کا پیچھا کریں لیکن ،جو گروہ امام کے ہمراہ تھا اس کی تعداد سات سو یا نو سو سے زیادہ نہ تھی اگرچہ اس میں اکثر ربذہ کے مہاجرین و انصار کے بہادر سپاہی تھے جس میں سے بعض نے جنگ بدر میں بھی شرکت کی تھی لیکن یہ تعداد اس گروہ کے مقابلے کے لئے جو جنگ کرنے کے لئے آمادہ کیاگیا تھا اس کے علاوہ اطراف کے قبائل کو بھی ملایا گیا تھا، بہت کم تھی، یہی وجہ تھی کہ امام ـ نے چاہا کہ اپنی فوج کو دوبارہ جمع کریں او روہ قبائل جو اطراف میںرہ رہے تھے اور امام ـ کے مطیع و فرمابردار تھے ان سے مدد لیں۔ اسی لئے عدی بن حاتم خود اپنے قبیلے (طیّ) گئے اور ان لوگوں کو پیمان شکنوں کی نافرمانی اور علی علیہ السلام کی روانگی کی خبر دی اور قبیلے کے سرداروں کی بزم میں یہ کہا :

''اے قبیلۂ طیّ کے بزرگو! تم لوگوں نے پیغمبر کے زمانے میں ان کے ساتھ جنگ کرنے سے پرہیز کیا اور خدا اور اس کے پیغمبر کی واقعہء ''مرتدان'' میں مدد کی ، آگاہ ہو جاؤ کہ علی تمہارے پاس آنے والے ہیں، تم نے جاہلیت کے دور میں دنیاکے لئے جنگ کیااور اب اسلام کے دور میں آخرت کے لئے جنگ کرو، اگر دنیا چاہتے ہو تو خدا کے پاس بہت زیادہ مال غنیمت ہے ،میں تم لوگوںکو دنیا و آخرت کی دعوت دیتا ہوں۔ تھوڑی ہی دیر میں علی علیہ السلام اور اسلام کے بزرگ مجاہدین، مہاجر و انصار جنگ بدر میں شرکت کرنے والے اور شرکت نہ کرنے والے تمہاری طرف والے ہیں، تاخیر نہ کرو جلدی سے اٹھ جاؤ اور امام کے استقبال کے لئے جلدی دوڑپڑو''۔

عدی کی تقریر نے لوگوں میں ایک عجیب شور و ہیجان پیدا کردیا اور ہر طرف سے لبیک لبیک کی صدا بلند ہونے لگی اورسب نے امام ـ کی نصرت و مدد کرنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کردیا،جب امام ـ ان کے پاس پہونچنے توایک ضعیف شخص حضرت کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے اس طرح سے آپ کو خوش آمدید کہا:

۳۸۲

''مرحبا اے امیر المومنین ! خدا کی قسم۔ اگر ہم آپ کی بیعت نہ بھی کرتے جب بھی آپ کو پیغمبر کا عزیز اور آپ کے روشن و منور ماضی کی وجہ سے آپ کی مدد کرتے ،آپ جنگ کرنے کے لئے نکلیں اور قبیلۂ طی کے تمام افراد آپ کے ہمراہ ہیں اور ان میں سے کوئی بھی شخص آپ کی فوج میں شامل ہونے سے دریغ نہیں کرے گا''۔

عدی کی محنتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ قبیلۂ طی کے افراد امام ـ کی فوج سے ملحق ہوگئے اور آپ کی فوج نے دوبارہ ایک بڑے لشکر کی شکل اختیار کرلی۔

قبیلۂ طیّ کے نزدیک ہی قبیلئہ بنی اسد رہ رہا تھا اس قبیلہ کا ایک سردار جس کا نام ''زفر'' تھا اور مدینہ میں امام ـ کا ملازم تھا اس نے امام ـ سے اجازت لی تاکہ وہ بھی اپنے قبیلے میں جائے اور لوگوں کو امام علیہ السلام کی نصرت کے لئے آمادہ کرے، اس نے اپنے قبیلے کے لوگوں سے گفتگو کی اور کامیاب ہوگیا اور ایک گروہ کوامام ـ کی نصرت کے لئے تیار کرلیا اور اپنے ساتھ امام ـکے لشکرمیں لایا، لیکن زفر کی محنتوں کا نتیجہ کامیابی کے اعتبار سے عدی کی طرح نہ تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ عدی اپنے گھرانے اور اپنے باپ حاتم کے جود و سخاوت کی وجہ سے اپنی قوم میں بہت زیادہ مشہور اور محترم جانا جاتا تھا جب کہ زفر کی شخصیت ایسی نہ تھی ،اس کے علاوہ قبیلۂ طی کے لوگوں نے ''حادثۂ مرتدان'' میں اپنے محکم عقیدے اور اسلامی طور و طریقے کا خوب مظاہرہ کیا تھا۔ اور پیغمبر کی وفات کے بعد ان میں سے ایک بھی آدمی مرتد نہ ہوا ،جب کہ قبیلۂ بنی اسد کے کافی لوگ مرتد ہوگئے تھے اور دوسری مرتبہ قبیلۂ طی کی کوششوں سے وہ اسلام کی طرف واپس آئے تھے۔(۱)

______________________

(۱) الامامة و السیاسة، ص ۵۴۔ ۵۳۔

۳۸۳

بصرہ کے راستے میں ناکثین کی سرگذشت

طلحہ و زبیر پیغمبر(ص) کے صحابیوں میں سے تھے لیکن ان کی شخصیت و قدرت اتنی معروف نہ تھی کہ وہ تنہا مرکزی حکومت کے خلاف اقدام کرتے اور مکہ سے بصرہ تک سپاہیوں کی رہبری کرتے اگر رسول خدا کی بیوی (عائشہ) ان کے ہمراہ نہ ہوتیں اور اگر امویوں کی بہت زیادہ دولتیں ان کے پاس نہ ہوتیں تو مکہ ہی میں انکی سازشیںناکام اور ان کے ارادے خاک میں مل جاتے۔

جی ہاں، وہ عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے بہانے مکہ سے بصرہ کے لئے روانہ ہوئے تھے کہ

علی ہی ان کے قاتل ہیں یا قاتلوں کو رغبت دلائی تھی اور راستہ بھر ''یالثارات عثمان'' کا نعرہ لگا رہے تھے لیکن یہ نعرہ اتنا مضحکہ خیز تھا کہ خود عثمان کے قریبی ساتھی بھی سن کر ہنس رہے تھے ذیل کے دو واقعے اس بات پر شاہد و گواہ ہیں:

سعید بن عاص نے ''ذات عرق'' میں ناکثین کے قافلے جس کے سردار طلحہ و زبیر تھے سے ملاقات کیا ۔ سعید جو خود بنی امیہ کی آل سے تھا مروان کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہاں جار ہے ہو؟ مروان نے جواب دیا: ہم عثمان کے خون کا بدلہ لینے جارہے ہیں ۔ سعیدنے کہا: کیوں اتنی دور جارہے ہو، کیونکہ عثمان کے قاتل وہی لوگ ہیں جو تمہارے پیچھے پیچھے آرہے ہیں

۳۸۴

(یعنی طلحہ و زبیر)۔(۱)

ابن قتیبہ نے اس واقعہ کو اور بھی زیادہ واضح لفظوں میں لکھا ہے، وہ لکھتا ہے :

جب طلحہ و زبیر اور عائشہ سرزمین ''ابو طاس'' پر خیبر کی طرف سے پہونچے ، تو سعید بن عاص مغیرہ ابن شعبہ کے ساتھ کالے کمان کے ہمراہ عائشہ کے پاس گیااور کہا: کہاں جارہی ہیں؟

انہوں نے کہا: بصرہ۔

سعید نے کہا: وہاں کیاکریں گی؟

اس نے کہا: عثمان کے خون کا بدلہ لوں گی۔

سعید نے کہا: اے ام المومنین ! عثمان کے قاتل آپکی رکاب میںہیں۔ پھر وہ مروان کے پاس گیا اور یہی گفتگو اس سے بھی کی اور کہا کہ عثمان کے قاتل یہی طلحہ او ر زبیر ہیں جو اس کو قتل کر کے حکومت اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے تھے، لیکن چونکہ وہ اپنے مقصد تک نہیں پہونچ سکے ہیں اس لئے چاہتے ہیں کہ خون کو خون سے اور گناہ کو توبہ سے دھو ڈالیں۔

مغیرہ بن شعبہ ،حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ کا داہنا بازو سمجھا جاتا تھا(جنگ جمل سے پہلے) ایک دن لوگوں کے مجمع میں گیا اور کہا: اے لوگو! اگر ام المومنین کے ہمراہ باہر نکلے ہو تو ان کے لئے نیک نتیجہ کی دعا کرو اور اگر عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے نکلے ہو تو عثمان کے قاتل یہی تمہارے سردار ہیں ۔ اوراگر علی پر تنقیدو اعتراض کے لئے نکلے ہو تو ان پر تم نے کیا اعتراض کیاہے تم لوگوں کو خدا کا واسطہ ، تم

لوگوں نے جو ایک سال سے دو فتنے (عثمان کا قتل اور علی کے ساتھ جنگ) پیدا کر رکھے ہیں ان سے پرہیز کرو۔ لیکن سعیدو مغیرہ میں سے کسی کا کلام بھی ان پر مؤثر نہ ہوا، لہٰذا سعیدیمن کی طرف اور مغیرہ طائف کی طرف چلا گیا اور دونوں میں سے کسی نے بھی جنگ جمل اور صفین میں شرکت نہیں کی۔

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۳، ص ۴۷۲۔

۳۸۵

تیز تیز قدم بڑھانا

طلحہ و زبیر نے امام ـ کی گرفتاری سے بچنے کے لئے مکہ اور بصرہ کے درمیان کے راستے کو بہت تیزی سے طے کرتے تھے اسی وجہ سے تیز رفتار اونٹ کی تلاش میں تھے تاکہ جتنی جلد ہو عائشہ کو بصرہ پہونچا دیں۔ درمیان راہ ''قبیلۂ عرینہ'' کے ایک عرب کودیکھا جو ایک تیز رفتار اونٹ (نر اونٹ) پر سوار ہے اس سے کہا کہ تم اپنا اونٹ بیچ دو اس نے اونٹ کی قیمت ایک ہزار درہم بتائی ۔ خرید نے والے نے اعتراض کیا اور کہا کہ کیا تم پاگل ہوگئے ہو؟ کہاں ایک اونٹ کی قیمت ایک ہزار درہم ہے؟ اونٹ کے مالک نے کہا: تم اس کے کمالات سے باخبر نہیں ہو کوئی بھی اونٹ تیز چلنے میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ خرید نے والے نے کہا: اگر تم کو یہ معلوم ہو جائے کہ کس کے لئے یہ اونٹ خرید رہے ہیں تو تم بغیر درہم لئے ہی اسے ہدیہ کردو گے اس نے پوچھا: کس کے لئے خرید رہے ہو؟

اس نے کہا: ام المومنین عائشہ کے لئے۔

اونٹ کے مالک نے پیغمبر (ص)کے احترام میں بڑے ہی خلوص کے ساتھ اونٹ کو ہدیہ کردیااور اس کے بدلے میں کوئی چیز نہ لی۔

خریدار اس سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اسے اس جگہ پر لایا جہاں پر عائشہ کا قافلہ تھا اور اس اونٹ کے بدلے میں اسے ایک مادہ اونٹ اور چار سو یا چھ سو درہم دیااور اس سے درخواست کی کہ اس بیابانی راستہ طے کرنے میں کچھ دور تک ہماری مدد کرے، اس نے ان کی درخواست کو قبول کیا۔

راہنما، جو اس سرزمین کے متعلق سب سے زیادہ معلومات رکھتا تھا وہ کہتا ہے کہ ہم جس آبادی اور کنویں کے پاس سے گزرتے تھے عائشہ اس کا نام پوچھا کرتی تھیں یہاں تک کہ جب ہم سرزمین ''حوأب'' سے گزرے تو کتوں کے بھونکنے کی آواز بلند ہوئی۔ ام المومنین نے عماری سے سر باہر نکالا اور پوچھا یہ کون سی جگہ ہے؟ میں نے کہا: یہ حوأب ہے عائشہ نے جیسے ہی میری زبان سے حوأب کا نام سنا چیخ پڑیں اور فوراً اونٹ کے بازو کو تھپتھپا کر اسے بٹھا دیا اور کہا: خدا کی قسم، میں وہی عورت ہوں جو سرزمین حوأب سے گزر رہی ہے تو اور وہاںکے کتے اس کے اونٹ پر بھونک رہے ہیں، اس جملے کو تین مرتبہ دہرایا اورچیخ کر کہا مجھے واپس لے چلو ۔

۳۸۶

عائشہ کے رکنے کی وجہ سے قافلہ بھی ٹھہر گیا اور اونٹ کو بٹھا دیاگیا، لوگ چلنے کے لئے اصرا رکرتے رہے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا اور عائشہ دوسرے دن بھی وہیں ٹھہری رہیں ، بالآخر ان کے بھانجے عبد اللہ بن زبیر نے آکر کہا، جتنی جلدی ہو یہاں سے چلئیے کیونکہ علی ہمارا پیچھا کر رہے ہیں اور ممکن ہے کہ ہم لوگ گرفتار ہو جائیں۔(۱)

طبری نے تعصب اور واقعہ پر پردہ ڈالتے ہوئے اس واقعے کودوسرے انداز سے لکھا ہے لیکن ابن قتیبہ جو اس سے پہلے گزرا ہے (وفات ۲۷۶ھ) اس نے لکھا ہے :

''جس وقت ام المومنین سر زمین حوأب کے نام سے باخبر ہوئیں تو طلحہ کے بیٹے سے کہا: میں واپس جانا چاہتی ہوں کیونکہ رسول خدا نے اپنی بیویوں کے درمیان جن میں میں بھی موجود تھی کہا تھا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میں سے ایک عورت سرزمین حوأب سے گزر رہی ہے اور وہاں کے کتے اس پر بھونک رہے ہیں'' پھر میری طرف رخ کرکے کہا: حمیرا وہ عورت تم نہ ہونا'' اس وقت طلحہ کے بیٹے نے دوبارہ چلنے کے لئے اصرار کیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا ان کے بھانجے عبد اللہ ابن زبیر نے منافقانہ قسم کھائی کہ ''اس سرزمین کا نام حوأب نہیں ہے اور ہم پہلی ہی رات حوأب سے گزر چکے ہیںاور اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ صحرا میں رہنے والے ایک گروہ کو لائے اور سب نے جھوٹی گواہی دی کہ یہ سرزمین حوأ ب نہیں ہے، اسلام کی تاریخ میں یہ پہلی جھوٹی گواہی ہے پھر قافلہ بصرہ کی جانب چلنے لگا اور پھر بصرہ کے نزدیک اس شہر پر قبضہ کرنے کے لئے روک دیاگیا ، عثمان بن حنیف علی کی طرف سے وہاںکے حاکم تھے۔(۲)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج ۳ ص۹۷۵

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۹، ص ۳۱۲۔

۳۸۷

عہد و پیمان توڑ نے والے بصرہ کے قریب:

جب ناکثین کا کاروان بصرہ کے قریب پہونچاتو قبیلۂ تمیم کے ایک شخص نے عائشہ سے درخواست کی کہ بصرہ میں داخل ہونے سے پہلے وہاں کے حاکم کو اپنے ہدف و مقصد سے آگاہ کر دیجئیے ،اس وجہ سے عائشہ نے بصرہ کی اہم شخصیتوں کے نام خط لکھا اور خود ''حفیر'' نامی جگہ پر قیام کیااور اپنے خط کے جواب کا انتظار کیا۔

ابن ابی الحدید، ابو مخنف سے نقل کرتے ہیں کہ طلحہ او رزبیر نے بھی بصرہ کے حاکم عثمان بن حنیف کو خط لکھا اور ان سے درخواست کیا کہ دار الامارہ کو ان کے حوالے کردیں۔ جب ان لوگوں کا خط عثمان بن حنیف کے پاس پہونچا تو انھوںنے احنف بن قیس کو بلایا اور اسے خط کے مضمون سے آگاہ کیا احنف نے بطور مشورہ کہا، ان لوگوں نے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اقدام کیا ہے جب کہ خود انہی لوگوں نے عثمان کو قتل کیاہے اور میری رائے تو یہی ہے کہ ان سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ تم حاکم ہو اور لوگ تمہارے حکم کو مانیں گے لہٰذا اس سے پہلے کہ وہ لوگ تمہاری طرف بڑھیں تم خود ان کی طرف جاؤ۔ عثمان نے کہا: میرا بھی نظریہ یہی ہے لیکن میں امام ـ کے حکم کا منتظر ہوں۔

۳۸۸

احنف کے جانے کے بعد حکیم بن جبلۂ عبدی آیا عثمان نے طلحہ و زبیر کا خط اس کے سامنے پڑھا اس نے بھی احنف ہی کی بات دہرائی اور کہا مجھے اجازت دیجئے کہ میں ان سے مقابلہ کرنے کے لئے جاؤں ۔ اگر ان لوگوںنے امیر المومنین کی اطاعت کی تو کوئی بات نہیں ، لیکن اگر ایسانہ کیا تو ان سے جنگ کریں گے۔ عثمان نے کہا: اگر ان سے مقابلہ کرنے کی بات ہے تو میں خود اس کام کے لئے سب سے زیادہ سزاوار ہوں۔ حکیم نے کہا: جتنی جلدی ہو اس کام کو کر ڈالیئے کیونکہ اگر ناکثین بصرہ میںداخل ہوگئے تو چونکہ ان کے ہمراہ پیغمبر کی بیوی ہیں، ان کی وجہ سے تمام لوگ ان کی طرف چلے جائیں گے اور آپ کو اس مقام سے معزول کردیں گے۔

انہی حالات میں امام ـ کا خط عثمان بن حنیف کے پاس پہونچا جس میں آپ نے طلحہ و زبیر کے عہد و پیمان توڑ نے اور بصرہ کی طرف سفر کرنے کے متعلق لکھا تھا اور حکم دیا کہ ان لوگوں کو اپنے عہد و پیمان بجالانے کی دعوت دیں اگر ان لوگوںنے قبول کرلیا تو ان لوگوں سے اچھے برتاؤ کریں اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر جنگ کے لئے آمادہ ہوجائیںکہ خدا دونوں کے درمیان فیصلہ کرنے والا ہے امام ـ نے خط ''ربذہ'' سے بھیجا تھااور وہ خط حضرت کے حکم سے آپ کے منشی عبد اللہ نے لکھا تھا۔(۱)

______________________

(۱) الامامة و السیاسة، ج۱، ص ۵۹۔

۳۸۹

حاکم بصرہ نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیااورامام ـ کا خط ملنے کے بعد فوراً ہی بصرہ کی دو عظیم شخصیتوں ، عمران بن حصین اور ابو الاسود دوئلی(۱) کو بلایا اور ان لوگوں کو ذمہ داری سونپی کہ بصرہ سے باہر جائیں اور جس جگہ ناکثین نے پڑاؤ ڈالا ہے وہاں جاکر طلحہ و زبیر سے ملاقات کریں اور ان سے بصرہ میں لشکر لانے کی وجہ دریافت کریں ،وہ لوگ فوراً ہی ناکثین کے لشکر کی طرف روانہ ہوگئے اور عائشہ ،طلحہ اور زبیر سے ملاقات کی۔

عائشہ نے ان لوگوں کے جواب میں کہا کہ ایک گروہ نے مسلمانوں کے امام کو بغیرکسی غلطی کے قتل کر ڈالا اور محترم و ناحق خون بہا یا اور حرام مال کو برباد کردیا اور محترم مہینے کی حرمت کو پامال کردیا میں یہاں اس لئے آئی ہوں تاکہ اس گروہ کے جرم کا پردہ فاش کروں اور لوگوں سے کہوں کہ اس سلسلے میں کیا کیا جائے۔(۲)

(ایک قول کی بنا پر کہا کہ) میں یہاں اس لئے آئی ہوں تاکہ فوج اور سپاہیوں کو تیار کروں ،اور ان کی مدد سے عثمان کے دشمنوں کو سزا دوں۔یہ دونوں ام المومنین کے پاس سے اٹھے اور طلحہ و زبیر کے پاس گئے اور ان لوگوں سے کہا کس لئے آئے ہو؟ جواب دیا عثمان کے خون کا انتقام لینے کے لئے۔ حاکم بصرہ کے لوگوں نے پوچھا کیا آپ لوگوں نے علی کی بیعت نہیں کی ہے؟ جواب دیا ہم لوگوں نے مالک اشتر کی تلوار کے خوف سے بیعت کی تھی اس کے بعد حاکم کے نمائندے حاکم کے پاس واپس آئے اور انھیں عہد و پیمان توڑنے والوں کے ہدف سے باخبر کیا۔

امام ـ کے گورنر نے اردہ کیا کہ لوگوں کی مدد سے دشمن کوبصرہ میں داخل ہونے سے روکیں، اس وجہ سے شہر اور اطراف میں اعلان کیا گیا کہ تمام لوگ مسجد میں جمع ہو جائیں، حاکم بصرہ کے مقرر نے اپنے آپ کو اجنبی ظاہر کرتے ہوئے کوفہ کے قبیلۂ ''قیس'' کا رہنے والا بتایا اور کہا:

''اگر اس گروہ کا کہنا ہے کہ اپنی جان پجانے کے لئے بصرہ آئیں ہیں تو وہ غلط بیانی سے کام

______________________

(۱) حضرت علی کے خاص شاگرداورعلم نحو کے موجد۔

(۲) تاریخ طبری ج۵ ص ۱۷۴۔

۳۹۰

لے رہے ہیں، کیونکہ وہ لوگ حرم الہی (مکہ) میں تھے جہاں فضامیں رہنے والے پرندے بھی امن و امان میں رہتے ہیں اور اگر یہاں عثمان کے خون کا بدلہ لینے آئے ہیں تو عثمان کے قاتل بصرہ میں نہیں ہیں کہ ان سے بدلہ لینے آئے ہیں ۔ اے لوگو! ہم پر واجب ہے کہ ان کے مقابلے کے لئے اقدام کریںاور وہ لوگ جہاں سے آئے ہیں انھیں وہیں واپس کردیں۔

اسی دوران اسود نام کے ایک شخص نے اٹھ کر کہا وہ لوگ ہمیں عثمان کا قاتل نہیں سمجھتے بلکہ وہ لوگ یہاں اس لئے آئے ہیں کہ ہم سے مدد طلب کریں اورعثمان کے خون کا بدلہ لیں۔ اگرچہ اسود کی بات کی اکثر لوگوںنے مخالفت کی مگر یہ بات ثابت ہوگئی کہ بصرہ میں بھی طلحہ وزبیر کے حامی اور چاہنے والے موجود ہیں۔

ناکثین کا قافلہ اپنے پڑائو سے بصرہ کی طرف روانہ ہوگیا اور عثمان بن حنیف بھی اپنا لشکر لے کر چلے تاکہ انھیں بصرہ آنے سے روک دیں اور ''مربد'' نامی جگہ پر دونوں لشکر آمنے سامنے آگئے۔ طلحہ و زبیر کے سپاہی دا ہنی طرف اور عثمان بن حنیف اور ان کے ساتھی بائیں طرف کھڑے ہوگئے ۔ طلحہ وزبیر نے عثمان کی مظلومیت اور اس کے فضائل بیان کئے اور لوگوں کو ان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے دعوت دیا ان کے چاہنے والوں نے ان کی تصدیق کی۔ لیکن عثمان بن حنیف کے ساتھی دونوں کی باتوں کو جھٹلانے کے لئے کھڑے ہوئے اور دونوں کے درمیان جھگڑا ہونے لگا ، لیکن عثمان کے ساتھیوں کے درمیان ذرہ برابر بھی شگاف پیدا نہ ہوا۔

جب عائشہ نے یہ حالات دیکھے توانہوںتقریر میں کہا:

''لوگ ہمیشہ عثمان کے نمائندوںکی شکایت کرتے تھے اور تمام باتیں مجھ سے آکر کہتے تھے لیکن میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور اسے ایک متقی و پرہیزگار اور وفادار اور شکایت کرنے والوں کو دھوکہ باز اور جھوٹا پایااور جب اعتراض کرنے والے طاقت ور ہوگئے تو ان کے گھر پر حملہ کردیا اور حرمت کے مہینے میںبے گناہ ان کو قتل کردیا۔آگاہ ہو جاؤ جو کچھ تمہارے لئے شائستہ ہے اور تمہارے غیر کے لئے شائستہ نہیں ہے۔ وہ یہ ہے کہ قاتلوں کو پکڑ لو او ران پر خدا کا حکم جاری کرو (پھر اس آیت کو پڑھا:

۳۹۱

( الَمْ تَرَی اِلَی الَّذِینَ ُوتُوا نَصِیبًا مِنْ الْکِتَابِ یُدْعَوْنَ الَی کِتَابِ اﷲِ لِیَحْکُمَ بَیْنَهُم ) (۱)

عائشہ کی تقریر نے حاکم بصرہ کے دوستوں کے درمیانشگاف پیدا کردیا، ایک گروہ عائشہ کی باتوں کی تصدیق تو دوسرا گروہ ان کی باتوں کو جھٹلا رہا تھا خود عثمان بن حنیف کے لشکر نے ایک دوسرے پر اینٹ پتھر پھینکنے شروع کردیئے اس کے بعدعائشہ ''مربد'' سے ''دباغین'' کی طرف چلی گئیں جب کہ عثمان کے ساتھی دو حصوں میں بٹ گئے اور بالآخر اس میں سے ایک گروہ ناکثین سے مل گیا۔

ناکثین کی باز پرس :

جس جگہ عائشہ نے قیام کیا تھا وہاں قبیلۂ بنی سعد کے ایک شخص نے ان سے کہا ''اے ام المومنین! قتل عثمان سے بڑھ کر اس ملعون اونٹ پر بیٹھ کر آپ کا گھر سے نکلنا ہے، خدا کی جانب سے آپ کے لئے حجاب اور احترام تھا مگر آپ نے اس کو چاک اور اپنا احترام کھودیا، اگر آپ اپنی مرضی سے آئی ہیں تو یہیں سے واپس چلی جائیے اور اگر مجبور کر کے آپ کو لایا گیا ہے تواس سلسلے میں لوگوں سے مدد لیجیئے۔اسی قبیلہ کا ایک جوان طلحہ و زبیر کی طرف مخاطب ہوا اور کہا:

اے زبیر ، تم تو پیغمبر کے حواریوں میں سے ہو اور اے طلحہ تم نے خود اپنے ہاتھوں سے رسول اللہ کو آسیب (دکھ درد) سے بچایا تمہاری ماں(عائشہ) کو تمہارے ہمراہ دیکھ رہا ہوں کیا تم اپنی عورتوں کو بھی ساتھ لائے ہو؟ انھوں نے جواب دیا نہیں ، اس نے کہا:اس وقت میں تم سے الگ ہو رہا ہوں پھر اس کے بعد چند اشعار کہے جس کا پہلا شعر یہ ہے:

صنتمُ حلائلَکم و قُد تُم أمَّکم------هذا لعمرک قِلةَ الانصاف

اپنی بیویوں کو پردہ میں چھپا رکھا ہے لیکن اپنی ماں(عائشہ) کو بازار میں لائے ہو تمہاری جان کی قسم یہ بے انصافی کی علامت ہے۔(۲) اس وقت حکیم بن جبلۂ عبدی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ حاکم بصرہ کی مدد کرنے کے لئے اقدام کیا اور اس کے اور طلحہ و زبیر کی فوج کے درمیان زبردست جنگ ہوئی عائشہ نے دونوں گروہوں کو جدائی کا حکم دیا اور کہاکہ یہاں سے اٹھ کر قبرستان ''بنی مازن'' کی طرف چلے جائیں اور جب وہاں پہونچے تورات کی تاریکی دونوں گروہوں کے درمیان حائل ہو گئی اور حاکم بھی شہر واپس آگئے۔عائشہ کے ساتھی ''دار الرزق'' نامی جگہ پر جمع ہوئے اور اپنے کو جنگ کے لئے آمادہ کیادوسرے دن حکیم بن جبلۂ عبدی نے ان پر حملہ کردیا، شدید جنگ ہوئی دونوں فوج کے درمیان ،دونوں گروہ کے کچھ لوگ قتل اور زخمی ہوئے۔

______________________

(۱) سورۂ آل عمران، آیت ۲۳۔------(۲) تاریخ طبری ج۳ ص ۴۸۲، الکامل بن اثیر، ج۳ ص ۲۱۴۔ ۲۱۳۔

۳۹۲

دونوں گروہوں کے درمیان وقتی صلح

اس واقعہ کے مؤرخین نے یہاں تک متفقہ طور پر وہی لکھا ہے جسے ہم نے تحریر کیاہے لیکن اصل گفتگو، بعد کے واقعہ سے متعلق ہے کہ کس طرح ان دو گروہوںنے جنگ روکی اور نتیجے کا انتظار کرنے لگے، یہاں پر طبری اور انہی کی پیروی کرتے ہوئے جزری نے ''کامل'' میں اس واقعہ کو دو طریقے سے لکھا ہے لیکن دوسری صورت حقیقت سے زیادہ قریب لگتی ہے ہم دونوں صورتوں کو تحریر کر رہے ہیں۔

الف: طلحہ و زبیر کی بیعت کے بارے میں استفسار

طبری لکھتا ہے کہ دونوں گروہوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ مدینہ کے لوگوں کے پاس خط لکھا جائے اور طلحہ و زبیر کی حضرت علی کے ہاتھوں پر بیعت کی کیفیت کے بارے میں سوال کیا جائے، اگر مدینہ کے لوگوں نے گواہی دی کہ طلحہ و زبیر کی بیعت آزادانہ اور اختیاری تھی تو لازم ہے کہ یہ دونوں افراد مدینہ واپس جائیں اور عثمان بن حنیف کے لئے مزاحمت ایجاد نہ کریں اور اگر ان لوگوں نے گواہی دی کہ کہ ان دونوں نے خوف و ڈر اور مجبوری کی حالت میں بیعت کیا تھا تو اس صورت میں عثمان بصرہ کو چھوڑ دیں اور دار الامارہ اور بیت المال اور جو بھی چیزیں حکومت سے مربوط ہیں طلحہ و زبیر کے حوالے کردیں۔

طبری نے اپنی کتاب تاریخ طبری میں اس صلح نامہ کو نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ کعب بن سور کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی اور وہ مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے ۔ جمعہ کے دن مسجد نبوی میں تمام اہل مدینہ کو اہل بصرہ کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا لیکن اسامہ کے علاوہ کسی نے بھی اس کا جواب نہیں دیا اسامہ نے کہا: ان لوگوں کی بیعت اختیاری نہیں تھی بلکہ خوف و ڈر اور مجبوری کی وجہ سے تھی، اس وقت لوگ بہت سخت ناراض ہوئے اور چاہا کہ اسے قتل کردیں اگر صھیب و محمد ابن مسلمہ وغیرہ اسے نہ بچاتے تو لوگ اسے قتل کر ڈالتے ، کعب نے مسجد نبوی میں جو کچھ بھی دیکھا تھا بصرہ آکر لوگوںکو بتادیا یہ واقعہ سبب بنا کہ طلحہ و زبیر نے عثمان کے پاس پیغام بھیجا کہ دار الامارہ کو چھوڑ دیں کیوں کہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان دونوں کی بیعت شوق و رغبت کی بنیاد پر نہ تھی۔

اس واقعہ کی بنا پر صلح کا ہونا بہت بعید لگتاہے، یہ واقعہ کی جہات سے حقیقت سے بعید معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ:

۳۹۳

۱۔ اس کا نقل کرنے والا سیف بن عمر ہے اور محققین اُسے صالح اور سچا نہیں سمجھتے، لیکن افسوس کہ تاریخ طبری میں (۱۱ہجری سے ۳۶ ہجری تک کے واقعات) اسی کے نقل سے بھرے پڑے ہیں۔

۲۔ بصرہ سے مدینہ اور پھر مدینہ سے بصرہ واپس آنے میں کافی وقت درکار ہوتاہے، اور ناکثین جانتے تھے کہ امام ـ مدینہ سے روانہ ہوچکے ہیں اور ان کے تعاقب میں ہیں، اس بنا پر ہرگز عہد و پیمان توڑ نے والوں کے لئے مصلحت نہ تھی کہ ایسے حساس خطرے کے ماحول میں ایسی شرط قبول کریں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور شہر پر قبضہ کرنے اور حاکم بصرہ کو معزول کرنے سے باز آجائیں اور جواب کا انتظار کریں۔

۳۔ ایسے لوگ ایسی شرطوں کوقبول کرتے ہیں جو مطمئن ہوتے ہیں کہ پیغمبر کے صحابی ان کی بیعت کو خوف و ڈر اور مجبوری کی بیعت قرار دیں گے۔ جب کہ ایسا اطمینان ان کے اندر موجود نہیں تھا ، بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قضیہ برعکس تھا، لہذا سیف بن عمر سے منقول طبری کی روایت کے مطابق صرف ایک آدمی نے وہ بھی امام کی بیعت سے منھ موڑ نے والے نے ان دونوںکے لئے گواہی دی اور خود بقول سیف، دوسرے لوگ خاموش رہے۔

۴۔ سب سے اہم دلیل اس بات پر کہ ان کی بیعت مجبوری کی بنا پر نہ تھی یہ ہے کہ ایک گروہ مثلاً سعد وقاص ، عبد اللہ بن عمر، اسامہ او رحسان وغیرہ نے بیعت کرنے سے انکار کیا تھااور تمام چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی مگر کسی نے بھی ان پر اعتراض نہیں کیا لہذااگر طلحہ و زبیر بھی بیعت نہیں کرنا چاہتے تووہ بھی بیعت نہ کرنے والوں میں شامل ہو جاتے، چنانچہ جب امام ـ اس واقعے سے آگاہ ہوئے تو زبیر کے بارے میں فرمایا:

۳۹۴

''زبیرخیال کرتا ہے کہ اس نے ہاتھ پر بیعت کیا ہے لیکن دل سے بیعت کا مخالف تھا بہر حال اس نے اپنی بیعت کا خود اقرار کیا ہے لیکن اس کا دعوی یہ ہے کہ وہ دل میں مخالفت کو چھپائے ہوئے تھا تو ضروری ہے کہ وہ اپنے ا س دعوے پر گواہ پیش کرے اور اگر گواہ نہ لائے تو اس کی بیعت باقی ہے اور اس پر لازم ہے کہ وہ مطیع و فرمانبرداررہے''۔(۱)

عہد و پیمان توڑ نے والوں کے مارے جانے کے بعد امام ـ نے ان دونوں کے بارے میں اس طرح اظہار خیال کیا ہے:

''اَللّٰهُمَّ اِنَّهُمَا قَطَعٰانِیْ وَ ظَلْمٰانِیْ وَ نَکَثٰا بَیْعَتِیْ وَ الَّبا النَّاسَ عَلیَّ فَاحْلُلْ مَا عَقْدًا وَ لَا تَحْکُمْ لَهُمَا مَا أَبْرَمَا وَ أَرِهِمَا الْمَسَائَ ةَ فِیْمَا أمَّلاً وَ عَمْلاً وَ لَقَدْ اِسْتَتْبَتَهُمَا قَبْلَ الْقِتَالِ وَ أَسْتَانَیْتَ بِهِمَا أَمَامَ الْوَقَاعِ فَغَمَطَا النِّعْمَةَ وَ ورَدَّا الْعَافِیَةَ'' ۔(۲)

خداوندا! ان دونوں نے (جان بوجھ کر) مجھ سے قطع رحم کیا اور دونوں نے مجھ پر ظلم کیااور میری بیعت توڑ دی اور لوگوں کو میرے خلاف اکسایا ۔

خداوندا! انھوں نے جو گرہیں لگائی ہیںانھیں کھول دے اور انھوں نے جو کیا ہے اسے مضبوط نہ ہونے دے اور ان کی امیدوں اور کرتوتوں کا برا نتیجہ دکھادے میں نے جنگ چھڑنے سے پہلے ان سے بیعت پر استقلال چاہا اور انھیں موقع دیتا رہا لیکن انھوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی اور عافیت کو ٹھکرا دیا۔

ب: امام ـ سے مسئلہ کا حل دریافت کرنا

صلح کی دوسری صورت یہ لکھی ہے کہ عثمان بن حنیف نے ناکثین سے یہ کہاکہ میں امام ـ کے حکم کا پابند ہوں اور کسی بھی صورت میں ان کی باتوں کو قبول نہیں کروں گا مگر یہ کہ یہ لوگ امام ـ کو خط لکھیں اور ان سے مسئلہ کا حل دریافت کریں۔(۳)

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ، ۸۔

(۲) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۳۳۔

(۳) تاریخ طبری ج۳ ص ۴۸۶؛ کامل ج، ص ۲۱۶؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۹ ص ۳۱۹؛ ابن الحدید نے صلح کی قرارداد بھی لکھا ہے۔

۳۹۵

ابن قتیبہ اپنی کتاب ''الامامة و السیاسة'' میںمزید لکھتا ہے کہ دونوں گروہوں نے آپس میں طے کیا کہ عثمان بن حنیف اپنے منصب پر باقی رہیں اور دار الامارہ اور بیت المال بھی انہی کے اختیار میں رہے اور طلحہ و زبیر جہاں بھی چاہیں رہیں یہاں تک کہ امام ـ کی طرف سے کوئی پیغام آجائے۔ اگر امام ـ سے توافق ہو گیا تو کوئی بات نہیں ، لیکن اگرایسا نہیں ہوا تو ہر شخص آزاد ہے کہ جس راہ کو چاہے انتخاب کرے اس بات پر عہد و پیمان لیا گیااو دونوں طرف سے کچھ لوگوں کو اس پر گواہ بنایا گیا۔(۱)

قتیبہ کا اس طرح سے نقل کرنا صحیح لگتا ہے البتہ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ واقعاً ناکثین نے تہہ دل سے توافق کیاتھا بلکہ وہ لوگ ظاہری طور پرتوافق کرکے دار الامارہ پر اسی رات حملہ کر کے قبضہ کرنا چاہتے تھے تاکہ بصرہ پر عثمان بن حنیف کی حکومت بصرہ کمزور ہو جائے۔چنانچہ تاریخ میں ہے کہ عائشہ نے زید بن صوحان کو خط لکھا اور اس خط میں اسے اپناخاص بیٹا کہا او ردرخواست کیا کہ ان کے لشکر سے ملحق ہو جائے یا کم از کم اپنے گھر میں ہی بیٹھا رہے اور علی کی مدد نہ کرے۔ زید نے ان کے خط کا جواب دیتے ہوئے لکھا خداکی رحمت ام المؤمنین کے شامل حال ہو انھیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھیں اور ہم لوگوںکو حکم دیا گیا ہے کہ جہاد کریں انہوں نے اپنا فریضہ چھوڑ دیاہے اور ہم لوگوں کو اپنے فریضے (گھر میں بیٹھنے) کو انجام دینے کے لئے دعوت دیتی ہیں اور وہ چیز جو ہم لوگوں پر فرض تھی خود اس پر اقدام کیاہے اور ہم لوگوں کو اپنے وظیفے پر عمل کرنے سے منع کر رہی ہیں۔

ابن ابی الحدید نقل کرتے ہیں کہ ناکثین کے سردار آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ ہماری کمزوریوں کی وجہ سے اگر علی سپاہ لے کر یہاں پہونچ گئے تو ہم سب کا خاتمہ کردیں گے، اسی وجہ سے اطراف کے قبیلوں کے سردار کے پاس خط لکھا اور بعض قبیلوں کی موافقت (مثلاً ازد، ضبّہ اور قیس بن غیلان) حاصل کرلی لیکن بعض قبیلے امام ـ ہی کے وفادار رہے۔(۲)

______________________

(۱) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۶۴۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۹ ص ۳۲۱۔ ۳۲۰۔

۳۹۶

آٹھویں فصل

خونریز پوزش

ایسے حالات ہوگئے تھے کہ ناکثین کے سردار اپنے کو طاقتور سمجھنے لگے اور ابھی عثمان کے پاس خط بھیجے ہوئے کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک سردرات میں نماز عشاء کے وقت یاایک قول کی بنا پر نماز صبح کے وقت مسجد اور دار الامارہ پر حملہ کردیا اور مسجد و دار الامارہ اور زندان کے محافظوں کو قتل کر کے (کہ جن کی تعداد میں اختلاف ہے) شہر کے اہم مقامات پر قبضہ کرلیااور پھر لوگوں کواپنا ہمنوا بنانے کے لئے تمام سرداروں نے تقریریں کیں۔

طلحہ نے مقتول خلیفہ کی عظمت بیان کرتے ہوئے کہا: خلیفہ نے گناہ کیا تھا مگر پھر توبہ کرلیا تھا ہم نے ابتداء میں چاہا تھا کہ ان کو سمجھائیں ، لیکن ہمارے نادان لوگوںنے ہم پر غلبہ پیدا کرکے ان کو قتل کردیا ابھی یہیں تک کہنے پائے تھے کہ لوگوں نے کہا: تم نے جو خطوط خلیفہ کے متعلق لکھے تھے اس کا مضمون اس کے برعکس تھا، تم نے تو ہم لوگوں کو ان کے خلاف اقدام کرنے کی دعوت دی تھی۔

اس وقت زبیر اٹھا اور اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا : میری طرف سے تو کوئی خط تم لوگوں تک نہیں پہونچا اس وقت قبیلۂ ''عبد القیس'' کا ایک شخص کھڑا ہوااور چاروں خلیفہ کی خلافت کی سرگذشت بیان کی اس کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ تمام خلفاء کا انتخاب تم لوگوں یعنی مہاجرین و انصار نے کیا اور ہم لوگوں سے مشورہ تک نہیں لیا یہاں تک کہ تم لوگوں نے علی کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور پھر بھی ہم لوگوں سے مشورہ نہیں لیااب کیا بات ہوئی کہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہو ؟

کیا انھوں نے مال و دولت دبالیاہے کیاحق کے خلاف عمل کیاہے؟ یا خلاف شرع قدم اٹھایا ہے؟ اگریہ کچھ نہیں ہے تو یہ شور و ہنگامہ کیسا ہے؟

۳۹۷

اس کی ٹھوس اور منطقی بات نے دنیا پرستوں کے غصے کو اور زیادہ کردیا اور انہوں نے چاہا کہ اسے قتل کردیں لیکن اس کے قبیلے والوں نے اسے بچالیا لیکن دوسرے دن حملہ کرکے اسے اوراس کے ستر ساتھیوںکو قتل کردیااور حکومتی امور کو یعنی نماز جماعت سے لے کربیت المال تک کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اپنے مقصد میں کچھ حد تک کامیاب ہوگئے ۔(۱)

حاکم بصرہ کا انجام

حاکم بصرہ کا امام ـ کے بارے میں ثابت قدم رہنا ناکثین کے سخت غصہ کا سبب بنا، لہذا جیسے ہی عثمان کے پاس پہونچے توانہیں مارا پیٹا اور ان کے سر اور داڑھی کے بال اکھیڑ ڈالے ، پھر انکو قتل کرنے کے لئے مشورہ کرنے لگے اورآخرمیں یہ طے کیا کہ انہیں رہا کردیں ، کیونکہ ان لوگوں کو اس بات کا ڈر تھا کہ ان کا بھائی سہیل بن حنیف مدینہ میںسخت انتقام لے گا۔

عثمان بن حنیف مولائے کائنات سے ملنے کے لئے بصرہ سے روانہ ہوئے اور جب امام نے انہیں اس حالت میں دیکھا تو مذاق میں کہا جب تم یہاں سے گئے تھے توبوڑھے تھے اوراب ایک خوبصورت جوان کی طرح واپس ہوئے ہو عثمان نے تمام واقعات سے امام ـ کو باخبر کیا

جو افراد اس خونریز یورش میں قتل ہوئے ان کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے، طبری نے اپنی تاریخ اور جزری نے اپنی کتاب کامل میں مرنے والوں کی تعداد ۴۰ لکھی ہے لیکن ابن ابی الحدید نے ان کی تعداد ۷۰ اور ابو مخنف نے (اپنی کتاب جمل میں) ان کی تعداد ۴۰۰تحریرکی ہے۔(۲)

اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ناکثین کے گروہ نے اس گروہ پر جو مسجد ، دارالامارہ اور قیدخانہ کے محافظ تھے، دھوکہ اور فریب سے حملہ کیا اور تمام لوگوں کو بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا۔

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۳ ص ۴۸۵؛ کامل ج۳ ص ۲۱۷؛الامامة والسیاسة ج۱ ص ۶۵۔

(۲) شرح ابن ابی الحدید ج۹ ص ۳۲۱۔

۳۹۸

حکیم بن جبلّہ کا اقدام

اسی دوران حکیم بن جبلّہ کو عثمان کے اس دردناک واقعہ اور دار الامارہ کے محافظوں کے دردناک قتل نے سخت رنجیدہ کردیا۔ چنانچہ قبیلہ عبدالقیس کے تین سو افراد کے ساتھ ارادہ کیا کہ (طلحہ و زبیر کے لشکر سے) جنگ کرنا چاہا اسی وجہ سے انہوں نے چار گروہ اپنے تین بھائیوں کی ہمراہی اور ہر گروہ کے لئے ایک کمانڈر (سردار) معین کیا تاکہ ناکثین پر حملہ کریں۔ ناکثین نے حکیم سے مقابلہ کرنے کی تشویق دلانے کے لئے

پہلی مرتبہ رسول خدا کی بیوی کو اونٹ پر بٹھایا اور ان کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو اپنی طرف جذب کرلیا یہی وجہ ہے کہ حکیم کے قیام کرنے والے دن کو ''جمل کے دن''سے تعبیر کیا ہے اور اس کی اہمیت کے لئے اس جمل کے پہلے مشہور دن کو چھوٹی صفت اور دوسرے جمل کے دن کوبڑی صفت سے منسوب کیا ہے۔

اس جنگ میں حکیم کے تمام تین سو سپاہی اوران کے تینوں بھائی قتل ہوگئے اس طرح سرزمین بصرہ کی حکومت بغیر کسی اختلاف کے طلحہ و زبیر کے ہاتھوں میں آگئی، لیکن ان میں سے ہر ایک حکومت و حاکمیت چاہتا تھا نماز جماعت کی اقتدا کے سلسلے میں بہت سخت اختلاف ہوگیاکیونکہ اس وقت جس کی اقتدا میں نماز ہوتی لوگ اس کی حکومت تصور کرتے ۔جب عائشہ کو ان دونوں کے اختلاف کی خبر ملی تو حکم دیا کہ دونوں اس مسئلہ سے کنارہ کشی اختیار کرلیں اور نماز کی امامت کی ذمہ داری طلحہ و زبیر کے بیٹوں کو سونپ دی۔ لہذا ایک دن عبداللہ بن زبیر اور دوسرے دن محمد بن طلحہ نماز کی امامت کرتے تھے۔

۳۹۹

اور جب بیت المال کے دروازے کو کھولا گیااور ان لوگوں کی نگاہیں مسلمانوں کی بے انتہا دولت پر پڑی تو زبیر نے اس آیت کی تلاوت کی:

( وَعَدَکُمْ اﷲُ مَغَانِمَ کَثِیرَةً تَاخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَکُمْ هَذِهِ ) ۔(۱)

خداوند عالم نے بے شمار مال غنیمت کا تم سے وعدہ کیا ہے جسے تم حاصل کر رہے ہو اور اس مال و دولت کو تمہارے سامنے رکھ دیا ہے۔

پھر کہتا ہے : بصرہ کے لوگوں سے زیادہ اس دولت کے ہم سزاوار اور حقدار ہیں اس وقت تمام مال کو ضبط کرلیا۔ اور جب امام ـ نے بصرہ پر قبضہ کرلیا تو تمام مال کو ''بیت المال'' میں واپس کردیا۔(۲)

______________________

(۱) سورۂ فتح ، آیت ۲۰۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ج۹ ص ۳۲۲؛ تاریخ طبری ج۳ کامل ،ج۳

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809