فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 368437 / ڈاؤنلوڈ: 6248
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی ایک کی موت کا وقت آجاتا ہے تو کہتا ہے : میرے رب مجھے واپس کر دے شاید جو میں نے ترک کیا ہے اس کے بدلے عمل صالح انجام دے لوں، ایسا نہیں ہے ! یہ ایک بات ہے جو وہ اپنی زبان پر جاری کرتاہے ! اوران کے پیچھے قیامت تک کے لئے برزخ ہے۔

کلمات کی تشریح:

۱۔''یتوفّی'': مکمل اور تمام دریافت کرتا ہے، یعنی خدا وند عالم یا ملک الموت اس کی جان مکمل طور پرلے لیتے ہیں ،سوتے وقت بھی ایسا ہوتا ہے جب آدمی کی قوت ادراک اور بعض حواس کام نہیں کرتے جیسے کہ اس کی روح قبض کرلی گئی ہو۔

۲۔ ''حمیم'': کھولتا ہو اپانی ۔

۳۔''تصلےة جحیم'': جہنم میں کھولتے ہوئے پانی سے جلانا۔

۴۔'' برزخ'': دوچیز کے درمیان حد اور مانع ۔

انسان اس مرحلہ میں دنیاوی زند گی کی تمامیت اور اپنے تمام اعضاء کی موت کا احساس کرتا ہے لیکن اس کے بعد کی شناخت کے لئے بجزاخبار انبیاء کوئی وسیلہ نہیں رکھتا ، لہٰذا اگر انبیاء کی تصدیق کی ہے اوران پر اور وہ جو کچھ خدائی صفات اور شریعت الٰہی بیان کئے ہیںان سب پر ایمان رکھتاہے تو و ہ عا لم ا خرت اور اس کے مختلف مراحل پر بھی ایمان لے آئے گا ، عالم آخرت کے بار ے میں جو کہا گیا ہے اس کا، عالم دنیا میں جو دیکھا اور پہچانا ہے اس سے مقائسہ ممکن نہیں ہے ، کیونکہ ہمارے وسائل محدود اور اس دنیاوی زندگی سے مخصوص ہیں لیکن آخرت کے بارے میں انبیاء کی خبروں کی بررسی و تحقیق کا،جیسا کہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کوئی عملی راستہ نہیں ہے۔

منجملہ وہ روایات جو آخرت اور زندگی کے آخری لحظات کے بارے میں ہمیں ملی ہیں ان میں سے ایک روایت وہ ہے جو امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :

''من مات ولم یحجّ حجّة الاِسلام دُونما مانع یمنعهُ فلیمُت ان شاء یهودیاً أو نصرانیا ً''( ۱ )

جس کسی کو موت آجائے اور وہ بغیر کسی قابل قبول عذر کے اپنا واجب حج ترک کردے تو اسے اختیار ہے چاہے تو یہودی مرے چاہے تو نصرانی۔

____________________

(۱)ثواب الاعمال ، باب '' حج ترک کرنے والے کی سزا '' حدیث ۲.

۸۱

۴۔

قبر میں انسان کی جزا

جن چیزوں سے ميت کو قبر میں سامنا ہوگاان سے روائی کتابیں بھری پڑی ہیں: دو مامور فرشتوں کے عقائد سے متعلق سوال( ۱ ) سے لے کر حسن سلوک اور بد سلو کی نیز اپنی زندگی کی ہر حرکت و سکون کے آثار دیکھنے تک او ر یہ کہ قبر ميت کے لئے جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا آگ کے گڈھوں میں سے ایک گڈھا ہے۔( ۲ ) اورجو کوئی چغل خوری کرے یا پیشاب کرتے وقت نجاست کی پرواہ نہ کرے قبر میں عذاب سے دوچار ہوگا( ۳ ) اور جس کا اخلاق اچھا ہو گا قبر میں داخل ہونے کے وقت سے لیکر قیامت میں حساب وکتاب کے آخری مرحلہ تک اچھی جزا پاتا رہے گا۔( ۴ ) اور جو کوئی اپنا رکوع صحیح انجام دے قبر میں اس پر کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہوگا۔( ۵ )

____________________

(۱)سفینة البحار میں مادئہ '' نکر'' ملاحظہ ہو

(۲) سفینة البحار میں مادئہ '' قبر'' ملاحظہ ہو۔

(۳) ثواب الاعمال ،صدوق ، ص ۲۹۵ ، ح ۱ ؛صحیح مسلم ، کتاب الطہارة ، باب'' الدلیل علی نجاسة البول'' ص ۲۴۰۔ ۲۴۱ ؛ سنن دارمی ، کتاب الطہارة ، سنن ابی داؤد ، کتاب الطھارة ، باب'' الاستبراء من البول'' ج ۱ ، ص ۳۴ ، ۳۵ ؛ سنن ابن ماجہ ، کتاب الطہارة ، باب''ا التشدید فی البول'' ج۱ ، ص ۱۲۴ ، ۱۲۵ ؛ مسند احمد ، ج۱ ، ص ۲۲۵ ، ج۵ ،ص۴۶۶اور ۴۱۷ اور ۴۱۹ ؛صحیح بخاری ، کتاب الوضو، باب ''من الکبائران لا یستر من بولہ'' ج۱، ص۶۴، کتاب الادب ، باب الغیبة ج۸ ، ص ۲۰ اورباب ''النمیمة من الکبائر''ج۸ ، ص۲۱ ۔

(۴)ثواب الاعمال ، ص۱۸۰،باب'' برادر مومن کو خوش کرنے کا ثواب''

(۵)سفینة البحار ، مادئہ ''رکع''

۸۲

۵۔

انسان اور محشر میں اس کی جزا

الف: صور پھونکنے کے وقت

محشر کے دن کاآغازحساب وکتاب کے لئے صور پھونکتے ہی ہو جائے گا ،''صور''عربی لغت میں شاخ کے مانند ایک چیز ہے، اسمیں پھونک مارتے ہیں تو اس سے آواز نکلتی ہے خداوند سبحان فرماتا ہے:

( و نفخ فی الصور فصعق مَن فی السماوات و مَن فی اِلٔاّرض الّا مَن شاء ﷲ ُ ثُّم نُفخَ فیه أخریٰ فا ذا هم قِیام ینظُرُون ) ( ۱ )

اورصور پھونکا جائے گا پس زمین وآسمان کے درمیان جتنے لوگ ہیں سب مر جائیں گے جزان لوگوں کے جنھیں خدا چاہے ،پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا اچانک سب یک بارگی اٹھ کھڑے ہوں گے جیسے کہ انتظار میں ہوں۔

''صعق'': یہاں پر ایک ایسی آواز ہے جس کااثر موت ہے حدیث میں ''نفخ'' کے لئے ایک تفسیر بیان ہوئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: صوردو مرتبہ پھونکا جائے گا:

پہلی مرتبہ:

پہلی مرتبہ جب اسرافیل صور پھونکیں گے اور تمام زمین وآسمان کے موجودات مر جائیں گے سوائے ان لوگوں کے جنھیں خدا چاہے حاملان عرش ، جبرائیل ، میکائیل اورعزرائیل اِس کے بعد خدا وند عالم ملک الموت سے کہے گا: کون باقی بچا ہے؟ کہیں گے: خدایا !ملک الموت ،جبرائیل ، میکائیل اور حاملان عرش کے علاوہ اور

____________________

(۱)زمر ۶۸

۸۳

کوئی باقی نہیں بچا، خداوند عالم فرمائے گا : جبرائیل اور میکا ئیل سے کہو: مر جائیں اوران کی روح قبض کرلی جائے ، اس کے بعد ملک الموت سے کہے گا :کون بچا ہے ؟ ملک الموت جواب دیں گے: خدا یا ! ملک الموت اور حاملان عرش کے علاوہ کوئی باقی نہیں ہے! کہے گا : حاملان عرش سے کہو مر جائیں اوران کی روح قبض کر لی جائے اسکے بعد فرمائے گا :اے ملک الموت اب کون بچا ہے؟عرض کریں گے: ملک الموت کے علاوہ کوئی نہیں بچا ہے، ارشاد قدرت ہوگا : تم بھی مر جاؤ، ملک الموت بھی مر جائے گا،اب خدا وند ذوالجلال آواز دے گا :

( ''لمن الملک الیوم ) ٫٫آج کس کی حکومت ہے''؟

جب کوئی جواب نہیں دے گا،تواُس وقت خدا وند ذوالجلال خود ہی اپنا جواب دیتے ہوئے فرمائے گا:

( ''ﷲ الواحدِ القهار٫٫ ) خدا وندیکتاو قہار کی حکومت ہے''۔( ۱ )

اُس کے بعد جب چاہے گا دوبارہ صور پھونکے گا جیسا کہ خود ہی فرماتا ہے: پھر دوبارہ صور پھو نکے گا اچانک سب کے سب ا ٹھ کھڑے ہوں گے جیسے کہ انتظار میں ہوں۔( ۲ )

دوسری مرتبہ:

خداوند عالم ا س کے بارے میں ارشاد فرماتاہے:

۱۔( ونفخ فی الصور فجمعنا هم جمعاً )

صورپھونکا جائے گاتوہم سب کو اکٹھا کریں گے۔( ۳ )

۲۔( و یوم ینفخُ فی الصور ففزعَ مَن فی السمواتِ و مَن فی الٔرض الّا من شاء ﷲ و کلّ أتوهُ ٰاخرین ) ( ۴ )

جس دن صور پھونکا جائے گا آسمان و زمین کے رہنے والے سب کے سب وحشت کے دریا میں غرق ہوںگے، جز ان کے جنھیں خد ا چاہے گا اور سب کے سب خضو ع کے ساتھ سرجھکائے اس کے حضور میں حاضر ہوں گے۔

۳۔( ونفخ فی الصورفاِذا هم من الأجداث الیٰ ربهم ینسلون)(قالوا یاویلنا مَن بعثنا من )

____________________

(۱) مومن ۱۶ (۲)الدر المنثور سیوطی ،۵ ۳۳۶، ۳۳۷؛ و بحار بہ نقل از کافی وغیرہ ۶ ۳۲۶، ۳۲۷ ۔(۳)کہف ۹۹ (۴)نمل ۸۷

۸۴

( مرقد نا هذاماوعد الرحمن وصدق المرسلون)( ان کانت الّا صیحة ًواحدةً فاذاهم جمیع لدینا محضرون)(فالیومَ لا تُظلم نفس شیئاًً ولا تُجزونَ اِلّاما کُنتم تعملون ) ( ۱ )

صور پھونکا جائے گا ، نا گاہ وہ لوگ اپنی قبروں سے ا ٹھ کرتیزی کے ساتھ اپنے ربّ کی طرف دوڑ یں گے اور کہیں گے ہم پر وائے ہو! کس نے ہمیں ہماری آرام گاہ سے اٹھاد یا ؟ یہ وہی ہے جس کا خدا وند رحمن نے وعدہ کیا تھا اورا س کے فرستادہ افراد نے سچ کہا تھا ،یہ روداد ایک چیخ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کہ ناگہاں سب کے سب ہمارے پاس حاضر ہوں گے،آج کے دن کسی پر ذرہ برابربھی ستم نہیں ہو گا اور تم نے جو عمل کیا ہے اس کے علاوہ تمہیںکوئی پاداش اور جزا نہیں دی جائے گی۔

اور نیز اس سلسلہ میں کہ تمام انسانوں کو اکٹھا کریگا، فرمایا:

۱۔( وحشرناهم فلم نُغا درمنهم أحداً ) ( ۲ )

اورہم ان سب کواٹھا ئیں گے اوران میں سے کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔

۲۔( یوم ینفخ فی الصورونحشرالمجرمین یومئذٍ زرقاً ) ( ۳ )

جس دن صور پھو نکاجائے گا اور مجرموں کو نیلے جسم کے سا تھ ( بدرنگ صورت میں ) اس دن جمع کریں گے۔

۳۔( یوم نحشر المتقین الیٰ الرحمن وفداً ) ( ۴ )

جس دن پرہیز گاروں کو ایک ساتھ خدا وند رحمن کے حضور میں محشور کریں گے۔

کلمات کی تشریح

ا ۔''داخرین'': ذلت اور رسوائی کے ساتھ۔

۲۔''أجداث'': قبریں۔

۳۔''ینسلون'': جدا ہوں گے ، قبروں سے تیزی کے ساتھ باہر آئیں گے

۴۔''زرقاً'': زَرَق یا اَزْرَق کی جمع ہے، نیلے پن کے معنی میں

۵۔ ''وفداً: وفد ھیئت'' اور اس گروہ کا نام ہے جو پاداش اور جزا حاصل کرنے یا کسی قسم کی ضرورت کے پیش نظر حاکم کے پاس جاتے ہیں۔

____________________

(۱)یس ۵۱، ۵۴(۲) کہف ۴۷ (۳) طہ ۱۰۲(۴)مریم ۸۵

۸۵

ب:روز قیامت کے مناظر کے بارے میں

خدا وندعالم روز قیامت کا اس طرح تعارف کراتا ہے:

۱۔(( أنّهم مبعوثون، لیومٍ عظیمٍ، یومَ یقومُ الناسُ لربِّ العالمینَ ) ( ۱ )

وہ لوگ مبعوث ہو ں گے ،عظیم دین میں ، جس دن لوگ خدا وند عالم کے حضور میں کھڑے ہوں گے۔

۲۔( یوم یقومُ الرّ وُحُ و الملا ئکة ُ صفّاً لا یتکلمون الا منَ اذنَ لهُ الرحمنُ وقال صواباً ) ۔( ۲ )

جس دن روح اور فرشتے ایک صف میں کھڑے ہوں گے اور کوئی بھی سوائے اس کے جسے خدا وند رحمن اجازت دے اور درست کہے نہیں بولے گا۔

۳۔( وخلق ﷲ السمٰوات والأرض با لحق ولتجزیٰ کُلّ نفسٍ بما کسبت وهم لا یظلمون ) ( ۳ )

اور خدا وند عالم نے آسمان اور زمین کو بر حق خلق کیا ہے تا کہ ہر شخص کو اس کے کاموں کی جزا دی جائے اوران پر ظلم وستم نہیں ہو گا ۔

۴۔( وکل انسانٍ الزمناه طائره فی عنقه ونخرج له یوم القیامةِ کتاباً یلقاه منشوراًاقراکتابک کفیٰ بنفسک الیوم علیک حسیباً ) ( ۴ )

اورہم نے انسان کے نامۂ اعمال کوا س کی گردن میں آویزاں کر دیا ہے اور قیامت کے دن اس کے لئے ایک کتاب باہر نکا لیں گے کہ وہ اسے اپنے سامنے کھلا ہوا دیکھے گا!اس سے کہا جائے گا اپنی کتاب (نامہ اعمال) پڑھو! اتنا ہی کافی ہے کہ آج کے دن خود اپنا محاسبہ کر نے والے رہو۔

۵۔(( کل امة تدعیٰ الی کتا بها الیوم تجزون ما کنتم تعملون)( هذا کتابُنا ینطقُ علیکم بالحق انا کُنا نستنسخ ما کنتم تعملون)( وبدٰالهم سیئاتُ ماعملوا و حاق بهم ما کانوا به یستهزون)( وقیل الیوم ننسا کم کما نسیتم لقائَ یومکم هذا ومأوا کم النارُومالکم من ناصرین)(ذلکم بانکم اتخذ تم آیاتِ ﷲ هزواًوغر تکم الحیاة الدنیا فا لیوم )

____________________

(۱)مطففین ۴،۶(۲)نباء ۳۸(۳)جاثیہ ۲۲ (۴) اسراء ۱۳، ۱۴

۸۶

( لایخرجون منها ولاهم يُستعتبونَ ) ( ۱ )

ہر امت کواس کی کتاب کی طرف دعوت دی جائے گی ،آج جو تم نے اعمال انجام دئیے ہیں ہم اس کی جزا دیں گے ، یہ ہماری کتاب ہے جو تم سے حق کے ساتھ گفتگو کرتی ہے، تم جو کچھ انجام دیتے ہو ہم لکھ لیتے اور جو انھوں نے برائیاں انجام دی ہیں آشکار ہو جائیں گی اور جس چیز کا مذاق اڑایا ہے وہی انھیں اپنے احاطہ میں لے لیگا اوران سے کہا جائے گا آج ہم تم کو فراموش کر دیں گے جس طرح تم نے اس دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا ، تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہے اور کوئی تمہارا مدد گار نہیں ہے، یہ اس وجہ سے ہے کہ تم نے آیات الٰہی کا مذاق اڑایا اور دنیاوی زندگی نے تمھیں فریب دیا ! آج وہ لوگ نہ دوزخ سے باہر آئیں گے اور نہ ان کا عذر قبول ہوگا ۔

۶( ( فا ما من اوتی کتابه بیمینه فیقول هاوم اقرء وا کتابیه)(وأما من أوتی کتابه بشماله فیقول یا لیتنی لم أوت کتا بیهولم أدرما حسا بیه ) ( ۲ )

پس جس کواس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا آؤ ہمارا نامہ اعمال پڑھو اور جسے ا س کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جا ئے گا وہ کہے گا : اے کاش! میرا نامہ اعمال کبھی میرے ہاتھ میں نہ دیا جاتا اور میں اپنے حساب کو نہ جانتا ۔

۷۔( فأما من أوتی کتابه بیمینه ) ( فسوف یحا سب حساباً یسیراً)( وأما من اوتی کتا به و راء ظهره)(فسوف ید عوا ثبو راً ) ( ۳ )

پس جس کوا س کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا عنقر یب اس کا حساب آسانی سے ہو جائے گا ، لیکن جسکا نامہ اعمال اس کے پیچھے سے دیا جائے گا عنقر یب وہ ہلا کت کی فر یاد اور واویلا کرے گا۔

۸۔( و لایحسبن الذین یبخلو ن بما آتاهم ﷲ من فضله هوخیراً لهم بل هو شر لهم سیطوّ قون ما بخلوا به یوم القیا مة ) ( ۴ )

جو لوگ بخل اور کنجوسی سے کام لیتے ہیں اور جو خدا وند عالم نے انھیں اپنے فضل سے دیا ہے اسے خرچ نہیں کرتے ، وہ خیال نہ کریں کہ یہ کام ان کے نفع میں ہے ، بلکہ ان کے لئے بُرا ہے ،عنقریب قیامت کے دن جس چیز کے بارے میں بخل کیا ہے وہ ان کی گردن کا طوق بن جائے گا ۔

____________________

(۱)جاثیہ۲۸ ، ۲۹ ،۳۳، ۳۵(۲)حاقہ ۱۹، ۲۶ (۳) انشقاق۷ ، ۱۱(۴)آل عمران ۱۸۰

۸۷

۹۔( و یوم یقوم الا شهاد)( یوم لا ینفع الظا لمین معذ ر تهم ) ( ۱ )

جس دن گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے ، اس دن ظالموں کوان کی معذرت فائدہ نہیں دے گی۔

۱۰۔( و یوم نبعث فی کلّ اُمّة شهیداً علیهم من أنفسهم وجئنا بک شهیداً علیٰ هٰولائِ ) ( ۲ )

جس دن ہم ہر امت میں انھیں میں سے ان پر ایک گواہ لا ئیں گے اور تم کو (اے پیغمبر!)ان پر گواہ قرار دیں گے۔

۱۱۔( حتّیٰ اِذا ماجاؤها شهد علیهم سمعهم و ابصار هم وجلو دهم بما کانوا یعملون)( و قالوا لجلود هم لم شهد تم علینا قالوا أنطقنا ﷲ الذی أنطق کلّ شییئٍ ) ( ۳ )

جب اس تک پہنچیں گے توان کے کان ،ان کی آنکھیں اور ان کی جلدیںان کے کرتوت کی گواہی دیں گی ، وہ لوگ اپنی جلدوں سے کہیں گے : کیوںہمارے برخلاف گواہی دی ؟ جواب دیں گی : جس خدا نے ہرموجود کو قوت گویائی عطا کی اسی نے ہمیں بھی گویائی دی ہے ۔

کلمات کی تشریح

۱۔''طائرہ'':اس کے اچھے اور بُرے عمل سے کنایہ ہے۔

۲۔''ثبور'': ہلاکت، ید عو ثبوراً، یعنی ہلاکت کی فریادکرتاہے۔

۳۔''سیطوّ فون'': ان کی گردن میں طوق ڈال دیں گے، یعنی واجب حقوق کے ادا نہ کرنے پر سانپ کی صورت میں بخل ان کی گردن میں مجسم ہو جائے گا۔

۴۔''الشھید والا شھاد'':شہید یعنی وہ قاطع گواہ جو بدل نہ سکے اور''اشھاد'''' شاہد'' کی جمع ہے اس سے مراد انبیاء اوران کے ہمراہی ہیں جو اپنی امت پر گواہی دیں گے اور جو بھی انسان سے صادر ہونے والے اعمال پر گواہ ہو۔

قیامت کے دن اعمال کے آثار کے بارے میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے:

۱۔''أطوَ لُکم قنوتاً فی دار الدنیا أطوَلُکم راحةً یوم القیا مة فی الموقف ''( ۴ )

جو لوگ دار دنیا میں قنوت (نماز)کے اعتبار سے جتنا طولانی ہوں گے وہ آخرت میں حساب کے وقت

____________________

(۱)غافر۵۱(۲)نحل ۸۹(۳)فصلت ۲۰،۲۱ (۴)ثواب الاعمال،ص۵۵

۸۸

اتنا ہی ز یادہ مطمئن ہوں گے ۔

۲۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اِذا سجد أحد کم فلیباشر بکفیه الأرض لعلّ یصرف عنه الغل یوم القیامة'' ( ۱ )

جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تواسے چاہئیے کہ اپنی ہتھیلیوں کو زمین سے چسپاں کرے تاکہ روز قیامت کی تشنگی کا اس کو سامنا نہ ہو ۔

۳۔رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے کے آپ نے فرمایا:

(مَن بغی علیٰ فقیرٍ أو تطاول علیه و استحقره حشره ﷲ یوم القیامة مثل الذرة علیٰ صورة رجل ید خُلُ النار )( ۲ )

جو کوئی کسی فقیر پر ظلم کرے یااس پر فخر ومباہات کرے اوراُسے حقیر و معمولی سمجھے خدا وند عالم اسے قیامت کے دن انسانی شکل میں چیونٹی کے مانند جہنم میں داخل کرے گا۔

۴۔حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''ان المتکبر ین یجعلون فی صورة الذر یتوطأ بهم الناس حتیٰ یفرغ ﷲ منالحساب'' ( ۳ )

متکبرین قیامت کے دن چیونٹی کی شکل میں ہوں گے اور لوگ ان کے او پر سے راستہ طے کریں گے یہاں تک کہ خدا وند عالم حساب و کتاب سے فارغ ہو جائے۔

____________________

(۱)ثواب الاعمال،ص۵۵۔۵۷.

(۲) ثواب الاعمال،ص ۳۳۵، باب ''اعمال کی سزائیں''

(۳)ثواب الاعمال،ص۲۶۵

۸۹

۶۔

انسان اور جنت و جہنم میں اس کی جزا

خدا وندعالم انسان کو عالم آخرت میں اس کے اعمال کے مطابق جو اس نے اس دنیاوی زندگی میں انجام دئیے ہیں اوراس عا لم میں اس کے سامنے مجسم ہوں گے بہشتی نعمتوں کے ذریعہ جزا اور عذاب جہنم کے ذریعہ سزا دے گا ، جیسا کہ اس کے بارے میں خود ہی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

۱۔( اِنّ ﷲ ید خل الذین آمنو ا وعملو االصالحات جنّٰاتٍ تجری من تحتها الأنهار ) ( ۱ )

خداوندعالم ایمان لانے والوںاورعمل صالح انجام دینے والوں کو بہشت کے باغوں میں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی داخل کرے گا۔

۲۔( ومَن عمل صالحاً من ذکر أو أنثیٰ وهو مؤمن فأولئک یدخلون الجنة یرزقون فیها بغیرِ حساب ) ( ۲ )

جو کوئی بھی عمل صالح انجام دے خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہو، وہی لوگ بہشت میں جائیں گے اوراس میں بے حساب رزق پائیں گے۔

۳( من یعمل سوء اً یجز به و لا یجد له من دونِ ﷲ وليّا و لا نصیراً و من یعمل من الصّا لحات من ذکرٍ أو أنثیٰ و هو مؤمن فأولئک ید خلونَ الجنة و لا يُظلمونَ نقیراً )

جو شخص بُرے کام کریگا اسے اس کی سزا ملے گی اور خدا کے علاوہ کسی کو ولی اور یاور نہیں پائے گا اور اگر کوئی اعمال صالحہ انجام دے گا ، خواہ عورت ہو یامرد ، جب کہ وہ مومن بھی ہو وہ جنت میں جائے گا اوراس پر ادنیٰ ظلم بھی نہیں ہوگا۔( ۳ )

۴۔( و یوم القیا مة تری الذین کذبوا علیٰ ﷲ وجوههم مسو دّة الیس فی جهنم مثویً للمتکبرین

____________________

(۱)حج۲۳

(۲)مومن۴۰

(۳)نسائ۱۲۳،۱۲۴

۹۰

ووفّیت کلّ نفسٍ ما عملت)(...وسیق الذین اِتّقواربّهم اِلی الجنةِ زمراً ) ( ۱ )

جن لوگوں نے خدا کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے انھیں دیکھو گے کہ ان کے چہرے قیامت کے دن سیاہ ہوں گے،آیا متکبر ین کے لئے جہنم میں کوئی ٹھکانہ نہیں ہے؟ اور جس نے جو بھی عمل انجام دیا ہے بغیر کسی کم وکاست کے اسے دیا جائے گا اور جن لوگوں نے تقوائے الٰہی اختیار کیا ہے وہ جوق در جوق بہشت میں لے جائے جائیںگے۔

۵۔( الذین آمنوا بآ یا تنا و کانوا مسلمین أدخلوا الجنة انتم وأزواجکم تحبرون ) ( ۲ )

جو لوگ ہماری آیات پر ایمان لائے اور مسلمان بھی ہیں(اُن سے کہا جائے گا)تم اور تمہاری بیویاں جنت میں خوش وخرم داخل ہو جاؤ۔

۶۔( وتلک الجنة التی أورثتموها بما کنتم تعملون ِأن المجر مین فی عذاب جهنم خا لدون وما ظلمنا هم و لکن کانوا هم الظّا لمین ) ( ۳ )

اوریہ وہ بہشت ہے جس کے تم اپنے اعمال کی جزا کے طور پر وارث ہو گے،(لیکن) گناہ کاروں کے لئے جہنم کا عذاب ابدی ٹھکانہ ہے... ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا ہے بلکہ وہ خود ظالم تھے ۔

۷۔( و الذین یکنزون الذهب والفضّة ولا يُنفقونها فی سبیل ﷲ فبشّرهم بعذابٍ ألیمٍ یوم یحمیٰ علیها فی نارجهنم فتکویٰ بها جبا ههم و جنو بُهُم و ظهو رُ هم هذا ما کنزتم لأنفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون ) ( ۴ )

جو لوگ سونا چاندی ذخیرہ کرتے ہیں لیکن اسے راہ خدا میں انفاق نہیں کرتے انھیں درد ناک عذاب کی بشارت دیدو! جس دن انھیں جہنم کی آگ میں گرم کرکے ان کے چہروں ، پہلووں اور پشتوں کو داغا جائے گا (اورا ن سے کہیں گے )یہ وہی چیز ہے جس کا تم نے اپنے لئے خود ہی ذخیرہ کیا ہے ! لہٰذا جو تم نے جمع کیا ہے اسکا مزہ چکھو۔

شیخ صدوق نے اپنی سند کے ساتھ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :

''اربعة یؤذون أهل النار علی ما بهم من الأ ذی ینادون بالویل و الثبور: رجل علیه تا بوت من حجر فِانه مات وفی عنقه أموال الناس لم یجد لها فی نفسه ادائً ولا مخلصاً ورجل یجرأ معاء ه ،فأ نه کان لا یبالی أین أصاب البول جسده ورجل یسیل فوه قیحاً و دماً، فأنه

____________________

(۱) زمر۶۰ ،۷۰ ،۷۳(۲) زخرف ۶۹، ۷۰(۳)زخرف۷۲، ۷۴، ۷۶.(۴)توبہ۳۴، ۳۵

۹۱

کان یحاکی فینظر کل کلمةٍخبیثةٍ فیفسدُ بها و یحاکی بها و رجل یأکل لحمه،فأنه کان یأ کل لحوم الناس بالغیبة و یمشی بالنمیمة'' ( ۱ )

چار گروہ ایسے ہیں کہ جب عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو آہ وواویلا اور دہائی کا شور مچائیں گے جس سے اہل جہنم کو اذیت ہوگی۔

۱۔ایک وہ شخص جس پر پتھر کا تابوت ہو گا کیونکہ وہ ایسی حالت میں دنیا سے گیا ہے کہ لوگوں کے اموال و مال حقوق اس کی گردن پر تھے جن کے نیز ادا کرنے اور ان سے چھٹکارا پانے کا ارادہ بھی نہیں رکھتا تھا ۔

۲۔وہ شخص جو اپنی آنتیں خود گھسیٹتا پھرے گا وہ ایسا آدمی ہے جو بدن کے کسی حصّہ پر پیشاب کے لگ جانے کی پرواہ نہیں کرتا ۔

۳۔ وہ شخص جس کے منھ سے پیپ اور خون جاری ہوگا ، اس لئے کہ وہ ان کے اوران کے منھ سے بُری باتیںلیکر دوسروں کے سامنے بیان کرتا تھا اور فتنہ وفساد برپا کرتا تھا۔

۴۔وہ شخص جواپنا گوشت کھائے گا ،وہ ایسا شخص ہے جو لوگوں کا گوشت غیبت اور چغلی کر کے کھاتا تھا۔

خدا وند متعال جنت اور جہنم کے متعدد دروازوں کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

( واِنّ للمتقین لحسن مآبٍجناتِ عدنٍ مفتحةً لهم الأبواب ) ( ۲ )

پرہیز گاروں کا انجام بخیر ہے، جاوداںبہشتی باغات جس کے دروازے ان کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔

ابلیس سے خطاب کرتے ہوئے (اس پر خدا کی لعنت ہو) فرمایا:

( اِنّ عبادی لیس لک علیهم سلطان اِلاّمن أتبعک من الغاوین و اِنّ جهنم لموعدهم أجمعین،لهاسبعةُ ابوابٍ لکل بابٍ منهم جزء مقسوم ) ( ۳ )

تو کبھی ہمارے بندوں پر مسلط نہیں ہوپائے گا، سوائے ان گمراہوں کے جو تیری پیر وی کریں اور جہنم ان سب کا ٹھکانہ اور وعدہ گاہ ہے،جس کے سات دروازے ہیں اور ہر دروازے کے لئے ان میں سے ایک معین گروہ تقسیم ہوا ہے۔

کلمات کی تشریح:

۱۔''نقیر'': خرمے کی گٹھلی کی پشت پر معمولی نشیب اور نقطہ کو کہتے ہیں کہ ہلکی اور بے ارزش چیزوں

____________________

(۱)عقاب الاعمال ص ۲۹۵ ،۲۹۶(۲)ص۴۹،۵۰. (۳)حجر ۴۲، ۴۴.

۹۲

کی اس سے مثال دیتے ہیں۔

۲۔''مثوی'' : استقرارو اقامت کی جگہ، ٹھکانہ وغیرہ۔

۳۔'' زمرا ً '': گروہ گروہ، زُمَر ، زُمْرہ کی جمع ہے فوج اور گروہ کے معنی ہے۔

۴۔'' مآب'' : باز گشت، عاقبت ، انجام ۔

۵۔''جنات عدن'' : سکون و اطمینان کی جنتیں.

روایات میں آیات کی تفسیر

مذکورہ آیات کی تفسیر سے متعلق رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور جہنم کے سات ، بعض در، دوسرے در سے بہتر ہیں۔( ۱ )

حضرت امام علی سے ایک روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

کیا تمھیں معلوم ہے کہ جہنم کے دروزے کیسے ہیں ؟ راوی کہتا ہے کہ ہم نے کہا : انھیں دروازوں کے مانندہیں، فرما یا نہیں ، بلکہ اس طرح ہیں: اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھا اوراُسے کھول دیا ،یعنی جہنم کے دروازے خود جہنم کے مانند ایک دوسرے پر سوار ہیں اور تفسیر قر طبی میں آیا ہے،اس کے بعض دروازے بعض دروازوں پر ہیں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ! ہر طبقے والے اپنے اسی طبقے میں ہیں۔( ۲ )

نیز رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے '' جزء مقسوم''کی تفسیر میں فرمایا:جہنم کے در وزوںمیں سے ہر در وازے کے لئے اہل جہنم کا ایک معین گروہ تقسیم ہو ا ہے کہ ہر گروہ جواپنے کرتوت کے مطابق عذاب میں مبتلاہو گا۔( ۳ )

آخر میں ہم بعض احادیث کا ذکر کر کے بحث کو تمام کریں گے جو گزشتہ آیات کی تشریح کر رہی ہیں اور اعمال کے نتائج اجمال واختصار اور بسط و تفصیل سے بیان کر رہی ہیں اس ۔

۱۔اصو ل کافی میں حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو کسی مومن کو راضی و خوشنود کرے خدا وند عزوجل اس خوشنودگی سے ایسی مخلوق پیدا کرے گا جو اس کے

____________________

(۱) تفسیر سیوطی ،الدرالمنثور ج۴ ،ص ۹۹، ۱۰۰، (۲)اس آیت کی تفسیر کے لئے تفسیر مجمع البیان ، تفسیر قرطبی و سیوطی کی جانب مراجعہ کیجئے.(۳) تفسیر سیوطی ،الدرالمنثور ج۴ ،ص ۹۹.

۹۳

مرنے کے وقت اس سے ملاقات کرے گی ا وراس سے کہے گی: اے خدا کے ولی! تجھے مبارک ہو کہ تو خداوندعالم کی کرامت اور اس کی رضاوخو شنودگی کے ساتھ ہے، پھر وہ اس کے ساتھ ہمیشہ رہے گی یہا ں تک کے قبر میں جاتے وقت اسے یہی خوشخبری دے گی اور جب محشور ہوگا تب بھی اس کے دیدار کو جائے گی ،اس کے پاس رہے گی یہاں تک کہ سخت اور ہولناک میں ہمیشہ اسے نوید دے گی اوراس کا دل شاد کرتی رہے گی، پھر وہ شخص اس سے

کہے گا : تجھ پر خدا کی رحمت ہو تو کون ہے ؟ کہے گی:''میں وہی خوشی ہوں جو تو نے فلاں شخص کو عطاکی تھی''( ۱ )

۲۔بحار میں جناب صدوق کی ''معانی الاخبار'' سے حضرت امام جعفر صادق سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا:

جو کسی مومن کا غم غلط کرے اوراس کے رنج کو دور کرے خداوند عالم آخرت میں اس کے رنج و غم کو دور کرے گا اور وہ ٹھنڈے دل کے ساتھ خوش حال قبر سے باہر آئے گا اور جو کسی مومن کو گرسنگی اور بھوک سے نجات دے خدا وند عالم اسے بہشت میں میوے کھلائے گا اور جو کوئی اسے پانی پلائے خدا وند عالم اسے جنت کے مہر شدہ جام پانی سے سیراب کرے گا۔( ۲ )

۳۔ حضرت امام ابو الحسن سے اصول کافی میں روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

روئے زمین پر خدا کے کچھ ایسے بندے ہیں جو ہمیشہ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرتے رہتے ہیں ،وہ لوگ روز قیامت آسودہ خاطر اور خوشحال افراد میں سے ہوںگے ، ہاں اگر کوئی کسی مومن کو خوش کرے تو خدا وندعالم قیامت کے دن اس کا دل شاد کرے گا۔( ۳ )

۴۔اصول کافی میں حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

کوئی مسلمان کسی مسلمان کی ضرورت پوری نہیں کر تا مگر یہ کہ خدا وندعالم اسے آواز دیتا ہے تیری جزا مجھ پر ہے اور بہشت کے علاوہ کسی چیز پر تیرے لئے راضی نہیںہوں۔( ۴ )

۵ ۔جناب صدوق نے ثواب الاعمال میں معروف بن خر ّبوذ کا قول نقل کیا ہے کہ اس نے کہا، میں نے امام باقر ـ کو فرماتے ہوے سناہے:

''جو مومن بھی دنیا میں پریشانی اور مشکلات میں گرفتار ہو اور بوقت مشکل '' انا للہ و انا الیہ راجعون'' کہے ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جا ئیں گے! خدا وند عالم اس کے تمام گزشتہ گناہ بخش دے گا ،

____________________

(۱)اصول الکافی ج۲ص۱۹۱،ح۱۲ (۲)بحار ج۶ ،ص ۳۵۵(۳)اصول کافی ج۶ ، ص ۱۹۷ ،ح۶ (۴)اصول کافی ج۱ ، ص۱۹۴ ،ح۷

۹۴

سوائے ان گناہان کبیرہ کے جو جہنم کا باعث ہوں اور فرمایا: جب بھی کوئی اپنی آئندہ عمر میں کسی مصیبت کویاد کرے اور کلمہ استر جاع ''انا للہ و انا الیہ راجعون''کہے اور خدا کی حمد کرے خدا وندعالم اس کے وہ تمام گناہ جو کلمہ استر جاع اوّل اورکلمئہ استرجاع دوم کے فاصلہ میں انجام د یئے ہیں بخش دے گا سوائے گناہان کبیرہ کے''۔( ۱ )

۶۔ بحارالانوار میں امام جعفر صادق سے اور انھوں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ذکر کیا ہے کہ خدا وند عالم فرماتا ہے:

'' کسی بندہ کو بہشت میں ا س وقت تک داخل نہیں کروں گا جب تک کہ ا سے جسمانی تکالیف میں مبتلا نہ کردوں، اگر یہ بلا اور مصیبت اس کے گناہوں کے کفارہ کی حد میں ہے تو ٹھیک ہے ، ورنہ کسی جابر و ظالم کواس پر مسلط کر دوںگا اگراس سے اس کے گناہ دھل گئے تو اسی پر اکتفاء کروں گا ورنہ اس کی روزی کو تنگی میں میں قراردوں گا تاکہ اس کے گناہ دھل جائیں اگراگراس سے دھل گئے تو ٹھیک ورنہ موت کے وقت اس پر اتنی سختی کروں گا کہ میرے پاس بے گناہ اورپاک و صاف ا ئے پھراسے اسوقت بہشت میں داخل کروں گا...۔( ۲ )

۷۔صیح بخاری میں ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:

''کوئی مسلمان ایسا نہیںہے جو مصیبت میں مبتلا ہو اور خدااُس کے گناہوں کو ختم نہ کر دے جیسے کہ درخت سے پتے جھڑتے ہیں''( ۳ )

۸۔ایک دوسری روایت میں ہے : کسی مسلمان پر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر یہ کہ خدا وند عا لم اسکے گناہوں کا کفارہ قرار دیتاہے خواہ وہ ایک خراش ہی کیوں نہ ہو۔( ۴ )

۹۔صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں مذکور ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''کوئی مسلمان ایسا نہیںہے جس کوکانٹے کی خراش یااس سے سخت تر کوئی چیز پہنچے مگر یہ کہ خدا وند عالم

اس کے گناہوں کو اسی طرح جھاڑ دے گا جیسے درخت سے پتے جھڑتے ہیں''۔( ۵ )

۱۰۔صحیح بخاری اور مسنداحمدمیں ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''کسی مسلمان کو کوئی رنج و غم، دشواری، دردو مرض ، مصیبت و اندوہ، یااذیت و آزار،آسیب و گزند حتی کا خراش تک نہیں پہنچتی مگر یہ کہ خداوند عالم ا سے ا سکے گناہوں کا کفّارہ قراردیتا ہے''( ۶ )

____________________

(۱)بحارجلد۸۲ ، ص۱۲۷، ۱۲۸ بہ نقل از ثواب ا لاعمال ص۲۳۴ (۲)بحار ج۶ ، ص ۱۷۲ ۔ بہ نقل ازکتاب التمحیص.(۳)صحیح بخاری کتاب المرضی، باب :'' شدة المرض'' (۴)صحیح بخاری ج۳ ، ص ۳، کتاب المرضی، باب : ''ماجاء فی کفا رة المرض''(۵)صحیح بخاری ج۳، ص۳، کتاب المرضی، باب:''شدة المرض''صحیح مسلم،کتاب البر و الصلة والادب، باب'' ثواب المو من فیما یصیبہ ''(۶)صحیح بخاری ج۳، ص۲، کتاب المرضی باب:''ما جاء فی کفارة المرض'' .مسند احمد ج۳، ص ۱۸۰.

۹۵

۷۔

صبر وتحمل کی جزا

جس طرح خدا وندعالم نے انسان کے ہر عمل کے لئے دنیوی جزا اور اخروی پاداش رکھی ہے اسی طرح مصائب و آلام پر انسان کے صبر و تحمل کیلئے دنیاوی جزا اور اخروی پاداش مقرر کی ہے، امام علی ـنے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آ نحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''الصبر ثلاثة صبر عند المصیبة، و صبر علی الطاعة و صبر عند المعصیة'' ( ۱ )

صبر و شکیبائی کی تین قسمیں ہیں:

۱۔مصیبت کے وقت صبر کرنا ۔

۲۔ اطاعت میں استقامت و پائیداری۔

۳۔ معصیت کے مقابل صبر کا مظاہرہ کرنا۔

خدا وند عالم سورہ ٔاعراف میں فرماتا ہے:

''بنی اسرائیل کو اس وجہ سے جزا دی ہے کہ انھوں نے دنیاوی زندگی میں صبر وشکیبائی کا مظاہرہ کیا''۔

( واورثنا القوم الذین کانوا یستضعفون مشارق الأرض و مغاربها التی بارکنا فیها و تمت کلمت ربّک الحسنی علی بنی اِسرائیل بما صبروا ودمّرنا ما کان یصنع فرعون و قومه و ما کانوا یعر شون ) ( ۲ )

مشرق ومغرب کی سر زمینوں کو جس میں ہم نے برکت دی ہے مستضعف قوم (بنی اسرائیل) کومیراث میں دیدیا اور تمہارے رب کا اچھا وعدہ بنی اسرائیل سے ان کے صبر و استقامت کے مظاہرے کے نتیجہ میں

____________________

(۱)بحار ، ج ۸۲ ،ص ۱۳۹، مسکن الفؤاد کے حوالے سے.

(۲)اعراف ۱۳۷.

۹۶

پورا ہوا اور فرعون اور فرعون کی قوم والے جو کچھ بنا رہے تھے ان کو اور ان کی اونچی اونچی عمارتوں کو مسمار کر دیا ۔

نیز صبر کی سہ گانہ اقسام کی پاداش کے بارے میں فرماتا ہے۔

۱۔( ولنبلو نّکم بشیئٍ من الخوف والجوع و نقصٍ من الأموال و الأ نفس و الثمرات و بشّرالصا برین الذین اذا أصابتهم مصیبة قالوا اِنّا لله و اِنّا اِلیه را جعون اولآء ک علیهم صلوات من ربّهم و رحمة و اولاء ک هم المهتدون ) ( ۱ )

یقینا ہم تمھیں خوف، بھوک، جان ومال اور پھلوں کی کمی کے ذریعہ آزمائیں گے اور بشارت دیدو ان صبرکرنے والوں کو کہ جب کوئی مصیبت ان پر پڑتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا کی طرف سے آئے ہیں اوراسی کی طرف ہماری بازگشت ہے، ان ہی لوگوں پرپروردگار کا درودو رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

۲( لیس البرّ ان تولّوا وجوهکم قبل المشرق و المغرب و لکنّ البر من آمن بﷲ و الیوم الآ خر و الملا ئکة و الکتاب والنبیيّن و أتی المال علیٰ حبه ذوی القربیٰ و المساکین و ابن السبیل و السائلین و فی الرّقاب وأقام الصّلاة وآتی الزکاة و الموفون بعهد هم اذا عاهدوا والصابرین فی البأ ساء و الضرّاء و حین البأس اولئک الذین صدقوا و أولآء ک هم المتقون ) ( ۲ )

نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہروں کومغرب اور مشرق کی طرف کرلو،بلکہ نیکی اور نیک کردار وہ ہے جو خدا ،روز قیامت ، فرشتوں ، کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لائے ہو اور باوجود اس کے کہ اسے خود مال کی سخت ضرورت ہے، اپنے رشتہ داروں ، یتیموں، مسکینوں،ابن سبیل، سائلوں اور غلاموں پر انفاق کرے،نماز قائم کرتا ہو اور زکوة دیتا ہو، نیز وہ لوگ جو عہد وپیمان کرتے ہیں اور اپنے عہد کو وفا کرتے ہیںاور محرومیوں، بیماریوںاور جنگ کے موقع پر ثبات قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ لوگ ایسے ہیں جو سچ کہتے ہیں اور یہی لوگ متقی اور پرہیز گار ہیں!

سورۂ بقرہ کی مذکورہ آیات کا خلاصہ یہ ہوا کہ پرہیز گار، نیک وصالح اور ہدایت یافتہ یہ وہ لوگ ہیںجو اچھے اور شائستہ عمل انجام دیتے ہیںاور صبر کے تینوں اقسام سے آراستہ اور مالامال ہیں۔

طاعت و مصیبت پر صبرکرنے کے منجملہ نمونے اور مصادیق میں سے اذیت وآزار اورتمسخر واستہزا پر مؤمنین کا خدا پر ایمان لانے کی وجہ سے صبر و شکیبائی اختیار کرنا جیسا کہ خدا وند عالم اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے:

____________________

(۱)بقرہ ۱۵۵، ۱۵۷

(۲)بقرہ ۱۷۷.

۹۷

۱۔( اِنّه کان فریق من عبادی یقولون ربنا آمنّا فاغفرلنا وأرحمنا وأنت خیر الرّاحمین فأ تخذ تموهم سخريّا حتیٰ أنسوکم ذکری وکنتم منهم تضحکون انی جزیتهم الیوم بها صبروا أنّهم هم الفائزون ) ( ۱ )

بتحقیق ہمارے بندوں کا ایک گروہ کہتا ہے: خداوند ا! ہم ایمان لائے پس تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر کیونکہ تو سب سے اچھا رحم کرنے والا ہے،تم نے ان کا مسخرہ کیااور مذاق اڑایا یہاں تک کہ انھوں نے تمھیں میرے ذکر سے غافل کر دیا اور تم لوگ اسی طرح مذاق اڑاتے رہے ، ہم نے آج ان کے صبرو استقامت کی وجہ سے انھیں جزا دی ہے،یقینا وہ لوگ کامیاب ہیں ۔

۲۔( الذین اتینا هم الکتاب من قبله هم به یؤمنون و اذا یتلیٰ علیهم قالوا آمنّا به اِنّه الحق من ربّنا اِنّا کنا من قبله مسلمین أولائک یؤتون اَجرهم مر تین بما صبروا و یدرأون با لحسنة السّيّئة و مِمّا رزقنا هم ینفقون واِذا سمعوا اللّغو اعرضوا عنه و قالوا لنا أعمالنا ولکم أعمالکم سلام علیکم لانبتغی الجاهلین ) ( ۲ )

وہ لوگ جنھیں ہم نے قرآن سے پہلے آسمانی کتاب دی اس پر ایمان لاتے ہیں اور جب ان پر تلاوت ہوتی ہے تو کہتے ہیں ہم یہ اس پر ایمان لائے، یہ سب کا سب حق ہے اور ہمارے رب کی طرف سے ہے اور ہم اس سے پہلے بھی مسلمان تھے ، ایسے لوگ اپنے صبر و استقامت کی بنا پردومرتبہ جزا دریافت کرتے ہیں اور نیکیوں سے بُرائیوں کو دور کرتے ہیں، جوکچھ ہم نے انھیں روزی دی ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں اور جب کبھی بیہودہ اور لغو بات سنتے ہیںتواس سے روگردانی کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے، تم پر سلام کہ ہم جاہلوں کو دوست نہیں رکھتے۔

۳۔خدا وند عالم نے سورۂ رعد میں نماز قائم کرنے والوں اور صابروں کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا:

( و الذین صبروا ابتغاء وجه ربهم ؤقامو االصلاة و أنفقوامِمّارزقنا هم سراً و علا نيةً و یدرء ون بالحسنة السیئة أولآئک لهم عقبیٰ الدار)(جنات عدنٍ ید خلونها و من صلح من آبائهم وأزواجهم وذر يّا تهم و الملا ئکة یدخلون علیهم من کل بابٍ سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار ) ( ۳ )

____________________

(۱)مومنون ۱۰۹، ۱۱۱

(۲)قصص ۵۲، ۵۵.

(۳)رعد ۲۲۔۲۴

۹۸

اور جو خدا کی مرضی حاصل کرنے کے لئے صبر وشکیبائی کا مظاہرہ کرتے ہیںاور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ انھیں ہم نے روزی دی ہے اس میں سے آشکارا اور پوشیدہ طور پر انفاق کرتے ہیں اور نیکیوں کے ذریعہ بُرائیوں کودور کرتے ہیں ، اس دنیا یعنی عقبیٰ کا نیک انجام صرف ان سے مخصوص ہے دائمی اور جاوید بہشتوں میں اپنے نیک اور صالح آباء و اجداد،بیویوں اور فرزند وں کے ساتھ رہیں گے اور فرشتے ہر در سے ان پر داخل ہو کر کہیں گے:تم پر سلام ہو کہ تم نے صبر کا مظاہرہ کیا!اور کتنا اچھا ہے اس دنیا کاانجام!

کلمات کی تشریح:

۱۔''یعرشون'': اوپرلے جاتے ہیں،یہاں پر اس سے مراد وہ محکم اور مضبوط عمارتیں ہیں جنھیں فرعونیوں نے اپنی املاک میں بنائی تھیں۔

۲۔''البأ س و الباسآئ'': سختی اور ناخوشی اور جنگ یہاں پر باساء سے مراد سختی اورناخوشی ہے اور (بأس) سے مراد جنگ کا موقع ہے۔

۳۔''یدرؤن، ید فعون'': دور کرتے ہیں اور اپنے سے ہٹاتے ہیں۔

روایات میں صابروں کی جزا

بحار میں اپنی سند کے ساتھ حضرت امام جعفر صادق ـسے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

جب نامۂ اعمال کھو لا جائے گا اور اعمال تولنے کے لئے میزان قائم ہوگی تو مصیبتوں کا سامنا کرنے والے صابروں کے لئے نہ اعمال تولنے کا ترازو ہوگا اور نہ ہی ان کے اعمال نامے کھولے جائیںگے ! اور اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( اِنّما یوفیّٰ الصابرون ٔاجر هم بغیرحساب )

صابروں کو ان کے صبر کی بے حساب جزا ملے گی۔( ۱ )

نیز بحار میں اپنی سند سے امام زین العابدین سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) بحارج ۸۲ ، ص ۱۴۵ا ور زمر ۱۰.

۹۹

''جب خدا وند عالم تمام اولین وآخرین کوجمع کرے گا ،تو ایک منادی ندا کرے گا : کہاں ہیں صبر کرنے والے تاکہ بے حساب بہشت میں داخل ہوں ؟کچھ سرفراز اور ممتاز لوگ اٹھیں گے ، فرشتے ان کے پاس جاکر کہیں گے : اے اولاد آدم کہاں جارہے ہو ؟ کہیں گے : بہشت کی طرف : کہیں گے: حساب سے پہلے ہی؟کہیں گے ہاں، پھر وہ لوگ سوال کریں گے تم لوگ کون ہو؟کہیں گے صابرین! پھر وہ کہیں گے : تمہارا صبر کس طرح کا تھا ؟ جواب دیں گے :اطاعت الٰہی میں ثابت قدم اوراس کی معصیت سے ہم نے خود کو اس وقت تک بچایا جب تک کہ خدا نے ہمیں موت نہ دیدی اور روح نہ قبض کر لی ، فرشتے کہیں گے:تم ویسے ہی ہو جیسا کہ تم نے کہا، جنت میں داخل ہو جاؤ کیو نکہ اچھا کام کر نے والوں کی جزا بھی بہت اچھی ہوتی ہے۔( ۱ )

اور شیخ صدوق ثواب الاعمال میں اپنی سند کے ساتھ امام محمد باقر ـسے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو شخص دنیا سے اندھا جا ئے ، جبکہ اس نے خدا کے لئے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا ہو اور محمد و آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چاہنے والا ہو تو وہ خدا سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس پر کوئی حساب نہ ہوگا''۔( ۲ )

یہ سب اس جزا کے نمونے ہیں جسے انسان غم واندوہ پر صبر کر نے یا عمل کی بنیاد پر دریافت کر ے گاآیندہ بحث میں خدا کی مدداو رتوفیق سے اس بات کی تحقیق و بر رسی کر یں گے کہ اعمال کے نتیجے کس طرح سے میراث بن جاتے ہیں۔

____________________

(۱)بحار : ج،۲۸، ص ۱۳۸.

(۲)ثواب الاعمال،ص ۶۱ اور ۲۳۴.

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

حضرت علی علیہ السلام کا اس حملہ سے باخبر ہونا

ربذہ کی سرزمین حادثات و واقعات کی آماجگاہ ہے، امام ـ کو اس علاقہ کے متعلق کافی معلومات تھی خصوصاً اس دن سے جب ربذہ پیغمبر اسلام کے اہم صحابیوں خصوصاً پیغمبر کے عظیم صحابی جناب ابوذر کو جلا وطن کر کے

وہاںبھیجا گیا جن کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ تبعیض اور اسراف وغیرہ کے خلاف بولتے تھے کئی سال بعد خداوند عالم نے مولائے کائنات کو یہ موقع فراہم کیاکہ عہد و پیمان توڑ نے والوں کواس سرزمین پر گرفتار کریں۔

امام ـ اس سرزمین پر موجود تھے کہ عہد و پیمان توڑ نے والوں کے خونی حملہ کی خبر ملی اور یہ بھی پتہ چلا کہ طلحہ و زبیر بصرہ شہر میں داخل ہوگئے ہیں اور مسجد، دار الامارہ اور قیدخانہ کے محافظوں کو قتل کردیا ہے اور سیکڑوں افراد کو قتل کر کے شہر پر قبضہ کرلیا ہے اور امام ـ کے نمائندے کو زخمی کرنے کے بعدان کے سر اور داڑھی کے بال اکھاڑ ڈالا اور انھیں شہر سے باہر نکال دیا اور بے ہودہ خبریں پھیلا کر بصرہ کے قبیلوں سے بعض گروہ کو اپنی طرف جذب کرلیاہے۔

اس سلسلے میں امام ـ کا نظریہ تھا کہ ناکثین کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے کوفہ والوں سے مدد لی جائے ، کیونکہ سرزمین عراق پر صرف آپ کا ایک علاقہ باقی تھا اور وہ شہر کوفہ اور اس کے اطراف کے قبیلے والے تھے لیکن اس راہ میں کوفہ کا حاکم ابو موسی اشعری مانع تھا۔ کیونکہ ہر طرح کے قیام کو فتنہ کا نام دیتا اور لوگوںکو امام ـ کی مدد کرنے سے روکتا تھا۔

مہاجرین و انصار کی بیعت سے پہلے ابوموسیٰ اشعری امام ـ کے ساتھ رہتے ہوئے کوفہ کا حاکم تھا اور جب امام ـ کی حکومت آئی تو مالک اشتر کے مشورے سے اسے اس کے منصب پر باقی رکھا ،مالک اشتر کے نظریہ کے علاوہ ابوموسی اشعری کا طریقہ و روش بیت المال میں اسراف اور ناخواہشات کے مطابق خرچ کرنا تھا یہی وجہ تھی جس نے عثمان کے تمام حاکموں سے اسے الگ کر رکھا تھا۔

جی ہاں، امام ـ نے مناسب سمجھا کہ کچھ اہم شخصیتوں کو کوفہ روانہ کریںاور اس سلسلے میں ابو موسی اور کوفہ کے لوگوں کے پاس خط بھیجیں تاکہ اپنے لشکر کے افراد کے لئے زمینہ ہموار کریںاور اگر ایسا نہ ہو تو حاکم کو معزول کر کے اس کی جگہ پر کسی دوسرے کو معین کریں اس سلسلے میں امام ـ نے جو کارنامے انجام دیئے اس کی تفصیل یہ ہے:

۴۰۱

۱۔ محمد بن ابوبکر کو کوفہ بھیجنا

امام ـ نے محمد بن ابوبکر اور محمد بن جعفر کو خط دے کر کوفہ روانہ کیا تاکہ ایک عمومی مجمع میں کوفہ کے لوگوں سے امام ـ کی مدد کے لئے لوگوں کو آمادہ کریں، لیکن ابوموسی کی ضد نے ان دونوں آدمیوں کی محنت کو بے نتیجہ کردیا جس وقت لوگوں نے ابوموسی کے پاس رجوع کیا تواس نے کہا:''القعود سبیل الآخرة و الخروج سبیل الدنیا'' (۱) یعنی گھر میں بیٹھنا راہ آخرت ہے اور قیام کرنا راہ دنیا ہے (جس کو تم چاہو انتخاب کرلو) اسی وجہ سے امام ـ کے نمائندے بغیر کسی نتیجہ کے کوفہ سے واپس آگئے اور ''ذی قار'' نامی جگہ پر امام ـ سے ملاقات کیا اور تمام حالات امام ـ سے بیان کئے۔

۲۔ ابن عباس اور مالک اشتر کو کوفہ روانہ کرنا

امام ـ کی دوسرے امور کی طرح اس امر میں بھی یہی کوشش تھی کہ یہ سلسلہ رک نہ جائے اور اس سے زیادہ شدید اقدام نہ کرنا پڑے لہذا مصلحت دیکھی کہ ابو موسی کو روانہ کرنے سے پہلے دو عظیم و مشہور شخصیتوں یعنی ابن عباس اور مالک اشتر کو کوفہ روانہ کریں تاکہ گفتگو کے ذریعے مشکل کا حل نکال لیں ، مالک اشتر سے فرمایا کہ جس کام کو تم نے انجام دیاہے اور اس کا نتیجہ غلط نکلا ہے ضروری ہے کہ اس کی اصلاح کرو اس کے بعد یہ دونوںکوفہ کے لئے روانہ ہوگئے اور ابو موسی سے ملاقات اور گفتگو کی۔

اس مرتبہ ابوموسی نے اپنی گفتگو کا رخ دوسری طرف موڑتے ہوئے ان لوگوں سے کہا:

''هٰذِهِ فِتْنَةُ صَمَّائُ، النَّائِمُ فِیْهٰا خَیْر مِنَ الْیَقْظَانِ وَ الْیَقْظَانُ خَیْر مِنَ الْقَاعِدِ وَ الْقَاعِدُ خَیْر مِنَ الْقَائِمِ وَ الْقائِمُ خَیْر مِنَ الرَّاکِبِ وَالرَّاکِبُ خَیْر مِنَ السَّاعِیْ'' (۲)

یہ فتنہ ہے کہ سوتا ہوا انسان جاگتے ہوئے انسان سے بہتر ہے اور جاگنے والا بیٹھنے والے سے بہتر ہے اور بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہے اور کھڑا ہونے والا سوار سے بہتر اور سوار ساعی (یعنی کوشش کرنے والے یا قوم کے سردار) سے بہتر ہے۔

پھر اس نے کہا: اپنی تلواروں کو میان میں رکھ لو۔اس مرتبہ بھی امام ـ کے نمائندے بہت زیادہ تلاش و کوشش کے باوجود مایوس امام کے پاس لوٹ آئے اور ابوموسی اشعری کی دشمنی اور بغض و حسد سے امام ـ کو باخبر کیا۔

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۳، ص ۳۹۳۔۴۹۶------(۲) تاریخ طبری، ج۳، ص ۴۹۶۔

۴۰۲

۳۔ امام حسن ـ اور عمار یاسر کو کوفہ روانہ کرنا

اس مرتبہ امام ـ نے ارادہ کیا کہ اپنا پیغام بھیجنے کے لئے اس سے بھی زیادہ عظیم المرتبت شخصیتوں سے مدد لیں اور سب سے زیادہ شائستہ افراد اس کام کی انجام دہی کے لئے آپ کے عظیم المرتبت فرزند امام حسن مجتبیٰ ـ اور عمار یاسر تھے ،پہلی شخصیت پیغمبر اسلام کی بیٹی فاطمہ زہرا (س) کے فرزند تھے جو ہمیشہ آپ کی محبت و عطوفت کے سائے میں رہتے تھے اور دوسری شخصیت اسلام قبول کرنے والوں میں سبقت کرنے والے کی تھی جس کی تعریف مسلمانوں نے رسول اسلام سے بہت زیادہ سنی تھی۔ یہ دونوں شخصیتیں امام ـ کا خط لے کر کوفہ میں وارد ہوئے سب سے پہلے امام حسن مجتبیٰ ـ نے لوگوں کے سامنے امام ـ کا خط پڑھ کر سنایا جس کا مضمون یہ تھا۔

یہ خط خدا کے بندے امیر المومنین علی کی طرف سے (اہل کوفہ کے نام) ہے۔

اہل کوفہ(۱) جو انصار کا چہرہ مہرہ اور عربوں کی سربلندی کا سہرا ہیں۔ اما بعد: میں تمہیں عثمان کے معاملے (قتل) سے یوں آگاہ کرتا ہوں جیسے تم اس واقعہ کو سن ہی نہیں رہے ہو بلکہ دیکھ بھی رہے ہو حقیقت یہ ہے کہ تمام لوگوںنے انہیں مورد الزام ٹھہرایا باوجود ان تمام حالات کے، مہاجرین میں فقط میںہی ایک واحد مرد تھا جس سے وہ سب سے زیادہ مطمئن اور خوش تھے اور فقط مجھ ہی پر ان کا عتاب سب سے کم تھا حالانکہ طلحہ و زبیر کا ان کی مخالفت میں یہ عالم تھا کہ ان دونوں کی ہلکی سی ہلکی چال بھی ان کے خلاف سر پٹ دوڑ کا حکم رکھتی تھی اور (اس دوڑ میں) ان دونوں کی دھیمی سے دھیمی آواز بھی بانگ درشت سے بازی لے گئی تھی۔ اس پر عائشہ کے غضب کے لاوے نے اچانک پھوٹ کر عثمان کے خلاف جلتی آگ پر تیل کا کام کیا۔ اب کیا تھا (ایک دو تین نہیں ) اچھی خاصی جمعیت ان کے خلاف تیار کر لی گئی چنانچہ اسی جمعیت نے عثمان کو قتل کر ڈالا اور تمام لوگوںنے کسی مجبوری و اکراہ سے نہیں ، بلکہ رضا و رغبت اور پورے اختیار سے میرے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا (یعنی بیعت کی)۔

______________________

(۱) امام ـ کے خط میں یہاں پر لفظ ''جبہة الانصار'' استعمال ہوا ہے اور جبہہ کے معنی پیشانی اور گروہ کے ہیںاورانصار سے مراد یاور و دوست ہیں نہ کہ مہاجر کے مقابلے میں لفظ انصارہے ، کیونکہ امام ـ کا مدینہ سے کوفہ ہجرت کرنے سے پہلے اس شہر کو''مرکز انصار'' کے نام سے نہیں جانا جاتا تھا۔

۴۰۳

اے لوگو! دار الہجرت کے مکین و مکان ایک دوسرے کودور پھینک رہے ہیں اور شہر (کا خون) یوں کھول رہا ہے جیسے دیگ جوش کھاتی ہے غرض فتنہ کی چکی کا پاٹ اپنی کیلی سے پیوست ہوچکا ہے (اور چکی چلنے کو تیار ہے) لہذا اپنے امیر کی طرف تیزی سے دوڑ تے ہوئے آؤ اور اپنے دشمن سے جہاد کے لئے آگے بڑھو''۔(۱)

جب امام حسن ـ ،امام کا خط لوگوں کو پڑھ کر سنا چکے تو اب امام ـ کے نمائندوں کی نوبت آئی کہ وہ گفتگو کریں اور لوگوں کے ذہنوں کو بیدار کریں جس وقت امام حسن ـ نے تقریر شروع کی اس وقت سب کی نگاہیںان کی طرف متوجہ تھیں اور تمام سننے والوں کے لبوں پر ان کے لئے دعائیں تھیں اور خدا سے دعا کر رہے تھے کہ ان کے ارادوں کو قائم کردے، حضرت مجتبیٰ ـ نے نیزہ یا عصا پر تکیہ کرتے ہوئے اس طرح سے اپنی گفتگو شروع کی۔

''اے لوگو! ہم لوگ یہاں اس لئے آئیںہیں کہ تم لوگوںکو قرآن مجید اور پیغمبر کی سنت اور سب سے زیادہ دانااورصحیح فیصلہ کرنے والے، اور سب سے شائستہ فرد کی مسلمانوں سے بیعت لیں اور تم لوگوں کو ایسے شخص کی دعوت دیں جس پر قرآن نے اعتراض نہیں کیاہے اور اس کی سنت کا انکار نہیں کیااور ایمان میں جو شخص آپ(پیغمبر) سے دو نسبت رکھتا تھا (ایمان اور رشتہ داری) سب میں سبقت رکھتا تھا اور کبھی بھی انہیں تنہا نہیں چھوڑا جس دن لوگ انہیں اکیلا چھوڑ کر بہت دور چلے گئے تھے تو خدا نے اس کی مدد کو کافی جانا اور وہ پیغمبراسلام(ص) کے ساتھ نماز پڑھتا تھا جب کہ دوسرے افراد مشرک تھے۔

اے لوگو! ایسی شخصیت تم سے مدد مانگ رہی ہے اور تمہیں حق کی طرف بلا رہی ہے اور اس کی آرزو ہے کہ تم اس کی پشتیبانی کرو اور وہ گروہ جس نے تم سے اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے اور اس کے متقی و متدین ساتھیوں کو قتل کردیا ہے اور اس کے بیت المال کو برباد کردیاہے تم لوگ اس کے مقابلے میں قیام کرو۔ اٹھو اور بیدار ہو جاؤ کہ خدا کی رحمت تم پر سایہ فگن ہے تم لوگ اس کی طرف بڑھو اور اچھے کام کا حکم دو اور بری چیزوں سے لوگوں کو منع کرو اور جس چیز کو صالح افراد آمادہ کر رہے ہیں انھیں تم بھی آمادہ کرو۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ، نامہ ۱۔

۴۰۴

ابن ابی الحدید نے مشہور و معروف مؤرخ ابو مخنف سے امام حسن ـ کی دوتقریریں نقل کی ہیں اور ہم نے صرف ایک کے ترجمہ پر ہی اکتفاء کیا ہے امام حسن مجتبیٰ ـ کی دو نوں تقریریں امام علی علیہ السلام کی شخصیت اوران کے لطف و محبت کی وضاحت کرتی ہیں جو کہ حیرت انگیز ہے۔(۱)

جب امام حسن ـ کی تقریر ختم ہوئی اس وقت عمار یاسر اٹھے او رخدا کی حمد و ثنا اور محمد و آل محمد پر سلام و درود کے بعد لوگوں سے اس طرح مخاطب ہوئے:

اے لوگو! پیغمبر کا بھائی تمہیں خدا کے دین کی مدد کے لئے آواز دے رہا ہے تم پر لازم ہے کہ وہ امام جس نے کبھی بھی شریعت کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ وہ ایسا دانشمند ہے جسے تعلیم کی ضرورت نہیں ، اور ایسا بہادر جو کسی سے بھی نہیں ڈرتا، اور اسلام کی خدمت کرنے میں اس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کرسکتا، اگر تم لوگ اس کی خدمت میں حاضر ہو تو پوری حقیقت سے تم لوگوں کو آگاہ کردے گا۔

پیغمبر کے فرزند اورعظیم المرتبت صحابی کی تقریروںنے لوگوںکے قلو ب کو بیدار اوران کے ذہنوں کو جلا بخش دی اور وہ کام جسے سادہ لوح حاکم نے روک کر رکھا تھااس سے دور ہوگئے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ تمام لوگوں کے اندر جوش و خروش پیدا ہوگیا، خصوصاً اس وقت جب زید بن صوحان نے عائشہ کا خط کوفیوں کو پڑھ کر سنایا اور سب کو حیرت میں ڈال دیا، اس نے زید کے لئے خط میں لکھا تھا کہ اپنے گھر میں بیٹھے رہو اور علی کی مدد نہ کرو، زید نے خط پڑھنے کے بعد بلند آواز سے کہا: اے لوگو! ام المومنین کا فریضہ گھر میں بیٹھناہے اور میرا فریضہ میدان جنگ میں جہاد کرنا ہے اس وقت وہ ہمیں اپنے فریضے کی طرف بلا رہی ہیں اور خود ہمارے فریضے پر عمل کر رہی ہیں۔ان تمام واقعات کی وجہ سے لوگوں نے امام ـ کے حق میں اپنے نظریے کو بدل دیااور بہت سے گروہ نے امام ـ کی مدد کرنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کردیا۔ اور تقریباً بارہ ہزار افراد اپنے گھر اور زندگی چھوڑ کر امام ـ کی خدمت میں روانہ ہوگئے۔ابو الطّفیل کہتا ہے: امام ـ نے کوفہ کے اس گروہ کے پہونچنے سے پہلے مجھ سے کہا میرے چاہنے والے جو کوفہ سے میری طرف آرہے ہیںان کی تعداد بارہ ہزار ایک آدمی پر مشتمل ہے جب یہ لوگ امام کے

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴ ص ۱۴۔ ۱۱؛ تاریخ طبری ج۳ ص ۵۰۰۔ ۴۹۹۔

۴۰۵

پاس پہونچ گئے تو ہم نے شمار کرنا شروع کیا تو کل تعداد بارہ ہزار ایک تھی، نہ ایک آدمی کم تھا نہ ایک آدمی زیادہ۔(۱)

لیکن شیخ مفید نے ان سپاہیوں کی تعداد جو کوفہ سے امام کی طرف آئی تھی کل چھ ہزار چھ سو لکھا ہے اور مزید کہتے ہیں امام ـ نے ابن عباس سے کہا کہ دو دن میں (چھ ہزار چھ سو افراد) لوگ میری طرف آئیںگے اور طلحہ و زبیر کو قتل کردیں گے اور ابن عباس کہتے ہیں کہ جب ہم نے سپاہیوں کو شمار کیا تو ان کی تعداد چھ ہزار چھ سو افراد پر مشتمل تھی۔(۲)

ابوموسیٰ اشعری کی ناکام کوشش

ابوموسیٰ کوفہ کے حالات بدلنے کی وجہ سے بہت سخت ناراض ہوا اورعمار یاسر کو مخاطب کر کے کہا: ''میں نے پیغمبر سے سناہے کہ بہت جلد ہی فتنہ برپا ہوگا جس میں بیٹھنے والے کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوں گے اور یہ دونوں سوار افراد سے بہتر ہوں گے اور خداوند عالم نے ہمارے خون اور مال کوایک دوسرے پر حرام قرار دیا ہے''۔عمار کے دل و دماغ میں ابو موسیٰ اشعری کے خلاف جو نفرت بھری تھی اس بنا پر کہا: ہاں، پیغمبر خدا نے تجھے مراد لیا ہے اور تیرے بارے میں کہا ہے اور تیرا بیٹھنا تیرے قیام سے بہتر ہے نہ کہ دوسرے افرادکا۔(۳) یہاں پر اس حدیث کے سلسلے میں تھوڑا غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ پیغمبر نے ایسی حدیث بیان فرمائی ہے لیکن یہ کیسے معلوم کہ پیغمبر کامقصد جمل کا واقعہ ہے؟ کیاایسے گروہ کا مقابلہ کرنا جس نے چار سو لوگوں کے سروں کو بکریوں کی طرح جدا کردیا ہے ایسا فتنہ ہے کہ اس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہے؟!

پیغمبر کی وفات کے بعد بہت سارے واقعات رونما ہوئے ، مثلاً سقیفہ سے عثمان کے قتل تک، ممکن ہے پیغمبر کی حدیث اس واقعے کے متعلق ہو؟! اگر تاریخ کے اوراق کا جائزہ لیں اور ۱۱ھ سے ۳۵ ھ تک کے واقعات کونظر میں رکھیں تو معلوم ہوگا کہ بہت سے ایسے واقعات ہیں جو بہت زیادہ افسوس کے لائق ہیں کیامالک بن نویرہ کے تلخ واقعہ کو ایک معمولی واقعہ سمجھ سکتے ہیں؟ خلیفہ سوم کے زمانے کے حادثوں کو اور اسی طرح مومن و متدین افراد پر ظلم و ستم اورانھیں جلا وطن کرنا وغیرہ، کیا انہیں فراموش کیا جاسکتا ہے؟ اور کیوں یہ حدیث معاویہ او رمروان اور عبد الملک کے خلافت کے زمانے سے مخصوص نہ ہو ؟اس کے علاوہ ، اسلام کے پاس ایسے اصول ہیں جنھیںکسی وقت بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اورانھیں میں سے ایک اولی الامر کی اطاعت ہے۔

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴،ص ۱۴۔ ۱۱؛ تاریخ طبری ج۳ ص ۵۰۰۔ ۴۹۹۔--(۲) جمل ص ۱۵۷۔---(۳) تاریخ طبری ج۳ ص ۴۹۸۔

۴۰۶

خلیفہء منصوص (اللہ کا منتخب کردہ) یا مہاجرین و انصار کی طرف سے منتخب خلیفہ کی اطاعت ایک اسلامی فریضہ ہے جس کی تمام لوگوں نے تائید کی ہے اور ابوموسیٰ اشعری نے بھی امام ـ کو ''ولی امر'' مانا ہے کیونکہ اس نے حضرت کے حکم کو قبول کیا ہے اور کوفہ کی حکومت پر حاکم کے طور پر باقی رہا ہے اور اس کے بعد جو بھی کام انجام دیتا تھا وہ علی کے والی و حاکم کے عنوان سے انجام دیتا تھا۔ ایسی صورت میں حدیث مجمل کواس آیت کریمہ( اطیعو ا اللّه و اطیعو ا الرسول و اولی الامر منکم ) کے مقابلے قرار نہیں دینا چاہئے اور نص قرآنی کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے ۔

ابوموسیٰ اشعری کی معزولی

متعدد نمائندوں کو بھیجنے کے بعد اور تمام کوششوں کے بے اثر ہونے کی وجہ سے امام ـ کے لئے ضروری تھا کہ ابوموسیٰ اشعری کو اس کے منصب سے معزول کردیں۔ امام نے اس کے پہلے بھی کئی خط لکھ کر اس پر اپنی حجت تمام کردی تھی ،آپ نے اسے لکھا تھا کہ ''میں نے ہاشم بن عبتہ کو روانہ کیا ہے کہ وہ تمہاری مدد سے مسلمانوں کو میری طرف روانہ کرے، لہذا تم اس کی مدد کرو اور میں نے تمہیںاس منصب پر باقی رکھا کہ حق کے مددگار رہو۔جب امام ـ خط بھیجنے اور عظیم شخصیتوں کو روانہ کرنے کے بعد حاکم کوفہ کی فکرونظر بدلنے سے مایوس ہوئے تو امام حسن کے ہمراہ ابوموسیٰ اشعری کوایک خط بھی لکھا اورباقاعدہ طور پر اسے ولی عہدی سے معزول کردیا اور قرظہ بن کعب کو اس کی جگہ منصوب کردیا ۔ امام کے خط کی عبارت یہ ہے:'' فقدکنت أریٰ أن تعزبَ عن هذا الامر الذی لم یجعل لک منه نصیباً سیمنعک من ردِّ أمری وقد بعثتُ الحسن بن علیٍ وعمار بن یاسر یستنفران الناس وبعثت قرطة بن کعب والیاً علی المصرفا عتزل عملنا مذموماً مدحوراً '' ''اسی میں مصلحت دیکھتا ہوںکہ تم اپنے منصب سے کنارہ کشی اختیار کر لو اس مقام کے لئے خداوند عالم نے تمہارا کوئی حصہ نہیں رکھا ہے اور خدا نے تمہاری مخالفت سے مجھے روک دیا ہے؟ میں نے حسن بن علی اور عمار یاسر کو بھیجا ہے تاکہ لوگوں کو ہماری مدد کے لئے آمادہ کریں اور قرظہ بن کعب کو والی شہرقرار دیا ہے تم ہمارے امور سے دورہو جاؤ تم سب کی نگاہوں سے گر چکے ہو اورلعنت کےمستحق ہو''امام کے خط کے مضمون سے شہر کے سارے لوگ باخبر ہوگئے اور کچھ ہی دنوں بعد مالک اشتر نےکوفہ جانے کی درخواست کی اور امام نے انھیں کوفہ روانہ کردیا اور دار الامارہ کواپنے قبضے میں لےکرنئے والی شہر کے حوالے کردیا اور ابوموسیٰ کوفہ میں ایک رات رہنے کے بعد شہر سے چلا گیا۔(۱)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۳ ص ۵۰۱۔

۴۰۷

نویں فصل

امام ـ کی ''ذی قار'' سے بصرہ کی طرف روانگی

علی علیہ السلام ربذہ میں تھے کہ ناکثین کے خونی حملہ سے باخبر ہوئے اورذی قار میں تھے جب آپ نے مخالفوں کو سزا دینے کا قطعی فیصلہ کیا۔

عظیم شخصیتوں مثلاً امام حسن مجتبیٰ ـ اور عمار یاسر کو کوفہ بھیجنے کا یہ اثر ہوا کہ کوفہ کے لوگوں میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی اور یہی سبب بنا کہ لوگ امام ـ کے لشکر میں شامل ہونے کے لئے ذی قار کی طرف دوڑ پڑے، لہٰذا علی علیہ السلام اپنی فوج کے ساتھ منطقہ ذی قار سے بصرہ کی طرف روانہ ہوگئے۔

امام ـ نے پیغمبر کی طرح جنگ کرنے سے پہلے مخالفوں پر اپنی حجت کو تمام کردیا اگرچہ حقیقت ان لوگوں پر واضح تھی یہی وجہ ہے کہ ناکثین کے سردار یعنی طلحہ و زبیر اور عائشہ کے پاس الگ الگ خط لکھا اور تینوں خط میں ان کے کارناموں کو لکھا اور دار الامارہ اور بصرہ کے محافظوں کے قتل کرنے پر سخت اعتراض کیا اور عثمان بن حنیف پر جو ظلم و ستم کیاتھا اس کی سخت مذمت کی۔ امام نے تینوں خط صعصہ بن صوحان کے ہمراہ روانہ کیا وہ کہتے ہیں :

سب سے پہلے ہم نے طلحہ سے ملاقات کی اور امام ـ کا خط اسے دیا اس نے خط پڑھنے کے بعد کہا: کیا اس وقت جب علی کے خلاف جنگ کی پوری تیاری ہوچکی ہے اس سے منہ موڑ رہے ہیںاور نرمی دکھا رہے ہیں؟ پھر زبیر سے ملاقات کی تواسے طلحہ سے کچھ نرم پایا ۔ پھر عائشہ کو امام کا خط دیا لیکن دوسروں سے زیادہ انہیں فتنہ و فساد اور جنگ کرنے پر آمادہ پایا انہوں نے کہا: میں نے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اقدام کیا ہے اور خدا کی قسم اس کام کو میں ضرور انجام دوں گی۔

صعصعہ کہتے ہیں: اس کے پہلے کہ امام ـ بصرہ میں داخل ہوتے ، میں ان کی خدمت میں پہونچ گیا امام ـ نے مجھ سے پوچھا کہ وہاں کے کیا حالات ہیں۔ میں نے کہا: میں نے ایک گروہ کو دیکھا کہ آپ سے جنگ کرنے کے علاوہ ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہے امام ـ نے فرمایا:

۴۰۸

و الله المستعان (۱)

جب علی علیہ السلام ناکثین کے سرداروں کے قطعی ارادے سے باخبر ہوئے تو آپ نے ابن عباس کو بلایا اور ان سے کہا: ان تینوں آدمیوں سے ملاقات کرو اور میری بیعت کی وجہ سے جو ان پر میرا حق ہے اس کے بارے میں احتجاج کرو۔ جب انھوں نے طلحہ سے ملاقات کیا اور امام ـ کی بیعت اسے یاد دلائی تواس نے ابن عباس کا جوا ب دیا: میں نے بیعت ایسے حالات میں کیاتھا کہ میرے سر پر تلوار تھی۔

ابن عباس نے کہا کہ میں نے خود تمہیںدیکھا کہ تم نے مکمل آزادی کے ساتھ بیعت کی تھی اور اس پہ دلیل پیش کی کہ بیعت کے وقت، علی نے تم سے کہا کہ اگر تم چاہو تو تمہاری بیعت کروں لیکن تم نے کہا نہیں میں آپ کی بیعت کروں گا۔

طلحہ نے کہا: صحیح ہے کہ یہ بات علی نے کہی تھی لیکن اس وقت تمام گروہوں نے بیعت کی تھی اور مخالفت کا امکان نہیں تھا۔

پھر اس نے کہا: ہم عثمان کے خون کا بدلہ چاہتے ہیں اور اگر تمہارے چچازاد بھائی تمام مسلمانوں کے خون کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو عثمان کے قاتلوں کو ہمیں سونپ دیں اور خود بھی خلافت کو چھوڑ دیں تاکہ خلافت شوری کے اختیار میں آجائے اور شوری جسے چاہے منتخب کرے اگر ایسا نہ ہوا تو ان کے لئے ہماری تلوار ہدیہ ہے۔

ابن عباس نے موقع غنیمت جانا لہٰذا حقیقت کو اور واضح کرتے ہوئے کہا شایداسی وجہ سے تونے عثمان کے گھر کا دس دن تک محاصرہ کیا اوران کے گھر میں پانی پہونچانے سے منع کیااور جس وقت کہ علی نے تم سے گفتگو کی کہ اجازت دو کہ عثمان کے گھر پانی پہونچایا جائے تو تم نے ان کی موافقت نہ کی اور جب مصریوں نے اتنا زبردست پہرہ دیکھا تو اس کے گھر میں داخل ہوگئے اور اسے قتل کردیا اور اس وقت لوگوں نے اس شخص کے ہاتھوں پر بیعت کی جس کا ماضی تابناک، اس کے فضائل روشن، اور پیغمبر کا سب سے قریبی عزیز تھا او رتم نے اور زبیر نے بغیر کسی مجبوری اور دباؤ کے بیعت کی اور اس وقت اس بیعت کو توڑ دیا۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ تم خلفاء ثلاثہ کی خلافت کے دوران کتنے سکون و آرام سے تھے لیکن جب خلافت علی تک پہونچی تواپنی اوقات سے باہر ہوگئے خدا کی قسم علی تم لوگوں سے کم نہیں ہیں او رجو تمہارا یہ کہناہے کہ علی ان کے قاتلوں کو تمہارے حوالے کریں تو تم اس کے قاتلوں کو اچھی طرح سے پہچانتے ہو اور تمہیں اس کی بھی خبر ہے کہ علی تلوار سے نہیں ڈرتے۔

______________________

(۱) الجمل ص ۱۶۷۔

۴۰۹

طلحہ ابن عباس کی منطقی گفتگو سن کر بہت شرمندہ ہوا اورخاموش ہو گیا اس کے بعد گفتگو کو ختم کرنے کے لئے کہا: ابن عباس اس لڑائی سے پیچھے ہٹ جاؤ۔

ابن عباس کہتے ہیں: میں فوراً ہی علی کے پاس گیا اور اپنی گفتگو کا سارا نتیجہ بیان کیا ،حضرت نے مجھے حکم دیا کہ عائشہ سے گفتگو کرو۔ اور ان سے کہو، فوج جمع کرنا عورتوں کی شان نہیں ہے اور تم ہرگز اس کام کے لئے مامور نہیں کی گئی ہو تم نے اس کام کے لئے قدم نکالا ہے اور دوسروں کے ساتھ بصرہ آگئی اور مسلمانوں کو قتل کردیا اور کام کرنے والوں کو نکال دیا اور لوگوں کو راستہ دکھایا اور مسلمانوں کے خون کو مباح سمجھا جب کہ تم خود عثمان کی سب سے بڑی دشمن تھی۔

ابن عباس نے امام ـ کے پیغام کو عائشہ تک پہونچایا انہوں نے جواب دیا : تمہارے چچازاد بھائی کا خیال ہے کہ تمام شہروں پر ان کا قبضہ ہے خدا کی قسم، اگر کوئی چیز اس کے ہاتھ میں ہے تو اس سے زیادہ چیزیں میرے اختیار میں ہیں۔

ابن عباس نے کہا: علی کے لئے فضیلت اور اسلام کے لئے ان کی بہت زیادہ خدمات ہیں اور انھوںنے اس راہ میں بہت زیادہ زحمتیں برداشت کی ہیں انہوں نے کہا: طلحہ نے بھی جنگ احد میں بہت زیادہ رنج و مصیبت برداشت کیا ہے۔

ابن عباس نے کہا: میرے خیال میں پیغمبر کے صحابیوں کے درمیان علی سے زیادہ کسی نے رنج و مصیبت برداشت نہیں کی ہے۔ اس وقت عائشہ نے انصاف کی بات کی اور کہا اس کے علاوہ علی کی دوسری بھی فضیلتیں ہیں ۔

ابن عباس نے موقع غنیمت سمجھ کر فوراً کہا: تمہیںخدا کا واسطہ مسلمانوں کا خون بہانے سے پرہیز کرو انہوں نے جواب دیا: مسلمانوں کا خون اس وقت تک بہایا جائے گا جب تک علی اور ان کے ساتھی خود کو قتل نہیں کرلیں گے۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ میں عائشہ کی غیر منطقی باتین سن کر مسکرایا او رکہا علی کے ہمراہ صاحبان بصیرت لوگ ہیں جو اس راہ میں اپنے خون کو بہا دیں گے پھر ان کے پاس سے اٹھ کر واپس چلے آئے۔

ابن عباس کہتے ہیں:علی نے مجھے حکم دیا کہ زبیر سے بھی گفتگو کروں او رحتی الامکان اس سے تنہائی میں ملاقات کروںاور اس کا بیٹا عبداللہ وہاں موجود نہ ہو۔ میں اس خیال سے کہ اس سے تنہائی میں ملاقات کروںدوبارہ اس کے پاس گیا لیکن اسے تنہا نہیں پایاتیسری مرتبہ اسے میں نے تنہا دیکھا، اس نے اپنے غلام ''سرحش'' کو بلایا اور اس سے کہا کہ کسی کو بھی اندر آنے کی اجازت نہ دینا ، میں نے گفتگو کا آغاز کیا،شروع میں اسے بہت غصے میں پایا لیکن دھیرے دھیرے اسے ٹھنڈا کردیا جب اس کے خادم نے میری باتیں سنیں تو فوراً اس نے زبیر کے

۴۱۰

بیٹے کو خبر کردی اور جیسے ہی وہ اس جلسہ میں وارد ہوا میں نے اپنی گفتگو قطع کردی، زبیر کے بیٹے نے اپنے باپ کے اقدام کو عثمان کے خون کا بدلہ لینے اورام المومنین کی موافقت سے صحیح ثابت کیا میں نے اس کا جواب دیا خلیفہ کا خون تمہارے باپ کی گردن پر ہے یا تو اسے قتل کیا ہے یا اس کی مدد نہیں کیاہے اور ام المومنین کی موافقت اس کی سچائی کی دلیل نہیں ہے اسے گھر کے باہر لائے جب کہ رسول اکرم نے ان سے کہا تھا عائشہ ممکن ہے ایک دن ایسا آئے کہ تم پر حوأب کے کتے بھونکیں، بالآخر میں نے زبیر سے کہا: خدا کی قسم، میں نے ہمیشہ تمہیں بنی ہاشم میں شمار کیا تم ابوطالب کی بہن صفیہ کے بیٹے اور علی کے پھوپھی زاد بھائی ہو، جب عبد اللہ بڑا ہوگیا تو اپنے رشتہ کو ختم کردیا۔(۱)

لیکن علی علیہ السلام کے کلام (نہج البلاغہ) سے استفادہ ہوتا ہے کہ وہ طلحہ کی طرف سے مکمل طور سے مایوس ہوچکے تھے اسی لئے ابن عباس کو حکم دیا کہ صرف زبیر سے ملاقات کر کے گفتگو کریں اور شاید یہ ابن عباس کو دوسری مرتبہ حکم دیا تھا۔ اس سلسلے میں امام ـ کابلیغ کلام ملاحظہ کیجیئے۔

''لاتلقین طلحة فانک ان تلقہ تجدہ کا لثور عاقصاً قرنہ، یرکب الصعب و یقول ہو الذلول! و لکن الق الزبیر فانہ ألین عریکةً فقل لہ یقول ابن خالک عرفتنی بالحجاز و انکرتنی بالعراق ، فما عدا مما بدا؟(۲)

طلحہ سے ملاقات نہ کرنا اگر اس سے ملو گے تو اسے ایک بیل(۳) کی طرح پاؤ گے جس کی سینگ

ٹیڑھی ہے وہ سرکش سواری پر سوار ہے اور پھر کہتا ہے کہ یہ آرام سے ہے، البتہ زبیر سے ملاقات کرنا کہ وہ نرم مزاج ہے اور اس سے کہنا کہ تمہارے ماموں زاد بھائی نے کہا ہے کہ تم حجاز میں مجھے پہچانتے تھے اور عراق میں آکربھول گئے حقیقت ظاہر ہونے کے بعد کس چیز نے اسے پھیر دیا؟

______________________

(۱) الجمل، ص ۱۷۰ و ۱۶۷۔

(۲) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۳۱۔

(۳) یعنی جس طرح بیل اپنی نوک دارسینگ سے ہر کسی کو چھیدنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح تم طلحہ کو فتنہ میں مبتلا پاؤ گے۔ رضوی۔

۴۱۱

قعقاع بن عمرو کو روانہ کرنا

پیغمبر اسلام کے معروف و مشہور صحابی قعقاع بن عمرو کوفہ میں رہتے تھے اور اپنے قبیلے میں ایک اہم اور قابل احترام شخصیت کے مالک تھے، انھیں امام ـ کا حکم ملا کہ ناکثین کے سرداروں سے ملاقات کریں۔ ان کے اور ناکثین کے سرداروں کے درمیان جو گفتگو ہوئی اسے طبری نے اپنی تاریخ میں اور جزری نے ''کامل'' میں نقل کیا ہے انہوں نے ایک خاص منطقی طریقے سے ناکثین کے بارے میں فکر کی تاکہ ان لوگوں کو امام ـ سے صلح کرنے کے لئے آمادہ کریں اور جب علی کی پاس واپس ہوئے اور اپنی گفتگو کا نتیجہ امام ـ سے بیان کیا تو امام ـ ان کے نرم رویہ پربہت متعجب ہوئے۔(۱)

اس موقع پر بصرہ کے لوگوں کا ایک گروہ امام ـ کی خدمت میں پہونچاتاکہ آپ کے نظریہ اور ان کوفیوں کے نظریہ سے باخبر ہوں جو امام کے لشکر میں شامل ہوئے تھے۔ اور جب وہ لوگ بصرہ واپس چلے گئے تو امام ـ نے اپنے نمائندوں کے درمیان تقریر کی اور پھر اس منطقہ سے روانہ ہوگئے اور ''زاویہ'' نامی مقام پر قیام کیا۔ طلحہ و زبیر اور عائشہ بھی اپنی جگہ سے روانہ ہوئے اور اس علاقے میں آکر ٹھہرے ،جہاں بعدمیں عبیداللہ ابن زیاد کا محل بنا اور امام ـ کے مقابلے ٹھہر گئے ۔ دونوں لشکر بڑے ہی اطمینان سے تھا امام ـ نے کچھ لوگوں کو بھیجا تاکہ باغیوں کے مسئلہ کو گفتگو کے ذریعے حل کریں۔ یہاں تک کہ پیغام بھی بھیجا کہ جو وعدہ ان لوگوں نے قعقاع سے کیاہے اگر اس پر باقی ہیں تو تبادلہ نظر کریں۔ لیکن حالات ایسے تھے کہ یہ مشکل سیاسی گفتگو سے حل نہیں ہوسکتی تھی اور اس فتنہ کو ختم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اسلحہ اٹھایا جائے۔

______________________

(۱) تاریخ کامل ابن اثیر ج۳ ص ۲۲۹۔

۴۱۲

دشمن کی فوج کم کرنے کے لئے امام ـ کی سیاست

احنف بن مالک اپنے قبیلہ کا سردار تھا اس کے علاوہ اپنے اطراف کے قبیلوں میں بھی اہم مقام رکھتا تھا جب

عثمان کے گھرکا لوگوںنے محاصرہ کیا تھا اس وقت وہ مدینے میںتھا اور اس وقت اس نے طلحہ و زبیر سے پوچھا تھا کہ عثمان کے بعد کس کی بیعت کی جائے دونوں افراد نے امام ـ کی بیعت کے لئے کہا تھا ،جس وقت احنف حج کے سفر سے واپس ہوا اور دیکھا کہ عثمان قتل کردیئے گئے ہیں تو اس نے امام ـ کی بیعت کی ۔ اور بصرہ واپس آگیا اور جب طلحہ و زبیر کے متعلق اسے یہ خبر ملی کہ انھوں نے اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے تو بہت تعجب میں پڑ گیا اور جب عائشہ کی طرف سے اسے بلایا گیا کہ ان کی مدد کرے تو اس نے اس درخواست کو رد کردیا اور کہا، میں نے ان دونوں کے کہنے سے علی کی بیعت کی ہے اور میں ہرگز پیغمبر کے چچا زاد بھائی کے ساتھ جنگ نہیں کروں گا مگر ان سب سے دور رہوں گا ۔ اسی وجہ سے وہ امام ـ کی خدمت میں آیا اور کہا ہمارے قبیلے والے کہتے ہیں کہ اگر علی کامیاب ہوگئے تو ہمارے مردوں کو قتل کردیں گے اور عورتوں کو قیدی بنالیں گے ۔ امام ـ نے اس سے کہا: مجھ جیسے شخص سے ہرگز نہ ڈرو جب کہ یہ مسلمانوں کا گروہ ہے۔ احنف نے یہ جملہ سن کر امام ـ سے کہا ان دو کاموں میں سے ایک کام میرے لئے معین فرمائیں یا آپ کے ہمراہ رہ کر جنگ کروں یا دس ہزار تلوار چلانے والوں کے شر کو آپ سے دور کروں۔ امام ـ نے فرمایا: کتنا بہتر ہے کہ جو تم نے بے طرفی کا وعدہ کیا ہے اس پر عمل کرو۔ احنف نے اپنے قبیلے اور اطراف میں رہنے والے قبیلوں کو جنگ میں شرکت کرنے سے روک دیا اور جب علی کا میاب ہوگئے۔ تو تمام لوگوںنے حضرت علی کے ہاتھوں پر بیعت کی اور آپ کے ہمراہ ہوگئے۔

۴۱۳

امام ـ کی طلحہ اور زبیر سے ملاقات

جمادی الثانی ۳۶ ھ میں امام ـ نے دو نوں لشکر کے درمیان ناکثین کے سرداروں سے ملاقات کی اوردونوں لشکر والے اتنے نزدیک ہوگئے تھے کہ گھوڑوں کے کان ایک دوسرے سے ملنے لگے تھے۔ امام ـ نے سب سے پہلے طلحہ پھر زبیر سے گفتگو کی جس کی تفصیل یہ ہے:

امام ـ : تم نے اسلحہ اور پیدل اور سوار فوج کو اکٹھا کر لیا ہے اگر اس کام کے لئے تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کرو اگر ایسا نہیں ہے تو خدا کی مخالفت سے پرہیز کرو اور اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنے دھاگوں کو خراب کردیاہے ۔ کیامیں تمہارا بھائی نہ تھا اور تمہارے خون کو حرام قرار نہیں دیا تھا اور تم نے بھی میرے خون کو محترم نہیں سمجھاتھا؟ کیا میں نے کوئی ایسا کام کیا ہے جواس وقت میرے خون کو حلال سمجھ رہے ہو؟

طلحہ: آپ نے لوگوں کو عثمان کے قتل کرنے پر اکسایا۔

امام ـ: اگر میں نے ایسا کام ہے تو خداوند عالم قیامت کے دن لوگوں کو ان کے اعمال کی سزا تک پہونچائے گا اور اس وقت لوگوں پر حقیقت واضح ہو جائے گی۔ اے طلحہ ! کیاتوعثمان کے خون کا بدلہ طلب کر رہا ہے؟ خداعثمان کے قاتلوں پر لعنت کرے، تم پیغمبر کی بیوی کو لائے ہو کہ اس کے زیرسایہ جنگ کرو جب کہ اپنی بیوی کو گھر میں بٹھا رکھا ہے کیا تم نے میری بیعت نہیں کی تھی؟

طلحہ: میں نے آپ کی بیعت کی اس لئے کہ میرے سر پر تلوار تھی۔

پھر امام ـ زبیرکی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے پوچھا۔ اس نافرمانی کی کیا وجہ ہے؟

زبیر: میں تمہیں اس کام کے لئے اپنے سے زیادہ بہتر نہیں سمجھتا۔

۴۱۴

امام ـ : کیامیں اس کام کے لئے سزاوار نہیں ہوں؟ (زبیر نے چھ افراد پر مشتمل شوری میں علی کو خلیفہ معین کرنے کے لئے رائے دی تھی) میں نے تمہیں عبدالمطلب کی اولاد میں شمار کیا لیکن جب تیرا بیٹا عبد اللہ بڑاہوا تو ہم لوگوں کے درمیان جدائی پیداکردی۔ کیا تمہیں وہ دن یاد نہیں جس دن پیغمبر اسلام قبیلۂ بنی غنم سے گزر رہے تھے رسول اسلام اور میں دونوں ہنس رہے تھے، تم نے پیغمبر سے کہا کہ علی مذاق کرنے سے باز نہیں آرہے ہیں اور پیغمبر نے تم سے کہا: خدا کی قسم، اے زبیر تو اس کے ساتھ جنگ کرے گا اور اس وقت تم ستم کرنے والے ہوگے۔

زبیر: یہ بات صحیح ہے اگر یہ واقعہ میرے ذہن میں ہوتا تواس طریقے سے پیش نہ آتا خدا کی قسم میں تم سے جنگ نہیں کروں گا۔

زبیر ، امام ـ کی باتیں سن کر بہت متأثر ہوا اور عائشہ کے پاس گیااور پورا واقعہ بیان کیامگر جب عبداللہ اپنے باپ کے ارادے سے باخبرہوا تو بہت زیادہ ناراض ہوکر کہنے لگا ان دو گروہ کو یہاں جمع کیا ہے اور اس وقت کہ ایک گروہ طاقتور ہوا ہے دوسرے والے گروہ کو چھوڑ کر جا رہے ہو؟ خدا کی قسم! علی نے جو تلوار بلند کی ہے تم اس سے ڈر رہے ہو، کیونکہ تم جانتے ہو کہ ان تلواروں کو بہادر اٹھاتے ہیں ۔

زبیر نے کہا: میں نے قسم کھائی ہے کہ علی سے جنگ نہیں کروں گا اب میں کیا کروں؟

عبد اللہ نے کہا: اس کا حل کفارہ ہے ،بہتر ہے کہ ایک غلام آزاد کرو، اس بناء پرزبیر نے اپنے غلام ''مکحول'' کو آزاد کردیا۔

یہ واقعہ زبیر کی سطحی ذہنیت پر دلالت کرتاہے وہ پیغمبر اسلام کی حدیث کو یاد کرتے ہوئے قسم کھاتا ہے کہ علی کے ساتھ جنگ نہیں کرے گا لیکن اپنے بیٹے کے غلط بہکانے پر پیغمبر کی حدیث کو نظر انداز کردیتا ہے اور اپنی قسم کو کفارہ دے کر بے اہمیت کردیتا ہے۔

۴۱۵

حالات سے معلوم ہوگیاہے کہ جنگ کا ہونا یقینی ہے لہذا ناکثین نے ارادہ کیا کہ اپنی فوج کو مزید مضبوط اور منظم کریں۔

ایسے علاقوں میں جہاں لوگ قبیلائی نظام کے طور پر زندگی بسر کرتے ہیں وہاں کے سارے امور قبیلہ کے سردار کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور اسے ہر شخص قبول کرتا ہے ۔بصرہ کے قبیلوں کے اطراف میں ایک شخصیت احنف نام کی بھی ہے، اگر وہ ناکثین کے گروہ میں مل جاتا تو اس کی فوج بہت زیادہ طاقتور ہو جاتی اور چھ ہزار سے بھی زیادہ لوگ ناکثین کے زیر پرچم جمع ہو جاتے اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا لیکن احنف نے اپنی ہوشیاری اور عقلمندی سے سمجھ لیاکہ ان کا ساتھ دینا خواہشات نفسانی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اس نے اپنی ذہانت سے سمجھ لیا کہ عثمان کا خون صرف ایک بہانہ ہے اور اصل حقیقت ، حکومت حاصل کرنا ہے اور علی کو منصب سے دور کرنے اور خلافت پر قبضہ کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے، اسی وجہ سے امام ـ کے حکم کے مطابق اس نے کنارہ کشی اختیار کی اور اپنے قبیلے اوراطراف کے قبیلے سے چھ ہزار آدمیوں کو ناکثین کے گروہ میں شامل ہونے سے بچا لیا ۔

احنف کا ایسے وقت میں کنارہ کشی اختیا رکرنا ناکثین کو بہت ناگوار گزرا، اس کے علاوہ ان کی امیدیں بصرہ کے قاضی، کعب بن سور پر تھیں لیکن جب اس کے پاس پیغام بھیجا تو اس نے بھی ناکثین کا ساتھ دینے سے پرہیز کیا اور جب لوگوں کوخبر ملی کہ اس نے بھی ساتھ دینے سے انکار کردیا ہے تو ارادہ کیا کہ اس سے ملاقات کریں او رروبرو اس سے گفتگو کریں لیکن اس نے ملاقات کرنے سے انکار کردیالہذا اب ان کے پاس عائشہ سے توسل کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا تاکہ وہ اس سے ملنے جائیں۔

عائشہ خچر پر سوار ہوئیں اور بصرہ کے لوگوں کا ایک گروہ ان کی سواری کے اطراف میں چلنے لگا وہ قاضی کے گھر گئیں قاضی سب سے بڑا قبیلہ ''ازد'' کا سردارتھا اور یمنی لوگوں کی نگاہ میں اس کا ایک خاص مقام تھا، عائشہ نے گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کی اور انھیں اجازت ملی، عائشہ نے اس کی معزولی کی وجہ دریافت کی ۔ اس نے جواب دیا۔ لازم نہیں ہے کہ میں اس فتنہ میں شریک رہوں، عائشہ نے کہا: میرے بیٹے اٹھو کیونکہ میں کچھ ایسی چیزیں دیکھ رہی ہوں جسے تم نہیں دیکھ رہے ہو (ان کا مقصد یہ تھا کہ فرشتے مومنین یعنی ناکثین کی حمایت کیلئے آئے تھے!) پھر انہوں نے کہا میں خدا سے خوف محسوس کر رہی ہوں کہ وہ سخت سزا دینے والا ہے اس طرح بصرہ کے قاضی کو ناکثین کا ساتھ دینے کے لئے راضی کرلیا۔

۴۱۶

زبیر کے بیٹے کی تقریر اورامام حسن مجتبیٰ ـ کا جواب

زبیر کا بیٹا اپنی فوج کو منظم کرنے کے بعد تقریر کرنے لگا اور اس کی آواز امام ـ کے دوستوں کے درمیان پہونچی اس وقت امام حسن ـ نے خطبے کے ذریعے عبداللہ کی باتوں کا جواب دیاپھر ایک کہنہ مشق شاعر نے امام حسن ـ کی شان میں قصیدہ پڑھا جس نے موجودہ لوگوں کے جذبات کو ابھار دیا امام مجتبیٰ ـ کا نوارنی کلام اور شاعر کا کلام ناکثین کے گروہ میں بہت زیادہ مؤثرثابت ہوا ،کیونکہ پیغمبر اسلام کی بیٹی کے فرزند نے عثمان کے سلسلہ میں طلحہ کے کردارکو آشکار کردیا یہی وجہ ہوئی کہ طلحہ تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوااور وہ قبیلے جو حضرت علی کے پیرو تھے انھیں منافق کہا، طلحہ کی تقریر ان لوگوںکے رشتہ داروں پر جو کہ طلحہ کی فوج میں تھے بہت گراں گزری،اچانک ایک شخص نے اٹھ کر کہا:اے طلحہ تم مضر، ربیعہ اور یمن کے قبیلے والوں کو گالی دے رہے ہو؟ خدا کی قسم، ہم لوگ ان سے اور وہ لوگ ہم سے ہیں زبیر کے پاس موجود لوگوںنے چاہا کہ اسے گرفتار کریں لیکن قبیلہ بنی اسد کے لوگوں نے منع کیا مگر بات یہیں پر ختم نہ ہوئی بلکہ ایک دوسرا شخص اسود بن عوف کھڑا ہوا اور اس نے بھی پہلے والے شخص کی بات کو دہرایا ۔ یہ تمام باتیں اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ طلحہ جنگجو تھا لیکن ایسے حساس موقع پر سیاست کے اصولوں سے باخبر نہ تھا ۔

۴۱۷

حضرت علی علیہ السلام کی تقریر

امام ـایسے حالات میں اٹھے اور ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں ان چیزوں کو بیان کیا:

''طلحہ اور زبیر بصرہ میں داخل ہوئے جب کہ بصرہ کے لوگ میرے مطیع و فرمانبردار اور میری بیعت میں تھے ان لوگوں نے ان کو میری مخالفت کے لئے اکسایا اور جس نے بھی ان کی مخالفت کی اسے قتل کردیا تم سب لوگ اس بات سے واقف ہو کہ انھوںنے حکیم بن جبلۂ اور بیت المال کے محافظوں کو قتل کر ڈالا اور عثمان بن حنیف کو نا گفتہ بہ صورت میںبصرہ سے نکال دیااب جب ان کی حقیقتوں کا پردہ چاک ہوگیاہے تو جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے ہیں۔

امام ـ کی تقریر کے بعد حکیم بن مناف نے امام ـ کی شان میں اشعار پڑھ کر امام کی فوج میں نئی روح پھونک دی اس کا دو شعر یہ ہے:

أبا حسن أ یقظت من کان نائماً

و ما کل من یدعی الی الحق یسمع

اے ابو الحسن! خواب غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو بیدار کردیا ورنہ ضروری نہیں ہے کہ جس کو حق کی دعوت دی جائے وہ اس کو سنے۔

۴۱۸

و أنت امرء أعطیت من کل وجهةٍ

محاسنَها و اللّه یعطی و یمنع

آپ ایسے شخص ہیں کہ ہر بہترین کمال آپ کوعطاہوا ہے اور خدا جسے بھی چاہے عطا کرے یا عطا نہ کرے۔

امام ـ نے ناکثین کو تین دن کی مہلت دی کہ شایدمخالفت کرنے سے باز آجائیں اور آپ کی اطاعت کرنے لگیں لیکن جب ان کے حق کی طرف آنے سے مایوس ہوگئے تو اپنے چاہنے والوں کے درمیان ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں ناکثین کے دردناک واقعات کو بیان کیا جب امام ـ خطبہ دے چکے تو شداد عبدی اٹھا اور مختصر طور پر اہل بیت پیغمبر سے اپنی صحیح شناخت کو ا س طرح بیان کیا :

''جب گناہگارزیادہ ہوگئے اوردشمن مخالفت کرنے لگے اس وقت ہم نے اپنے پیغمبر کے اہلبیت کے پاس پناہ لی۔ اہل بیت وہ ہیں جن کی وجہ سے خدا نے ہم لوگوں کو عزیز و محترم بنایا اور گمراہی سے ہدایت کی طرف راستہ دکھایا۔ اے لوگو! تم پر لازم ہے ان لوگوں کا دامن تھام لو۔ اور جوادھر ادھر بہک گئے ہیں ( اور ان سے منھ موڑ لیاہے) انھیں چھوڑ دو تاکہ وہ ضلالت و گمراہی کے کھنڈر میں چلے جائیں۔(۱)

______________________

(۱) الجمل، ص ۱۷۹۔ ۱۷۸۔

۴۱۹

امام ـ کا آخری مرتبہ اتمام حجت کرنا

۱۰ جمادی الاول ۳۶ ھ جمعرات کے دن امام ـ اپنے سپاہیوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور کہا: جلدی نہ کرو میں آخری مرتبہ اس گروہ پر اپنی حجت تمام کردوں ۔ اس وقت ابن عباس کو قرآن دیا اور کہا یہ قرآن لے کر ناکثین کے سرداروں کے پاس جاؤ اوران لوگوں کو اس قرآن کی دعوت دو اور طلحہ و زبیر سے کہو کیا ان لوگوںنے میری بیعت نہیں کی تھی؟ تو پھر کیوں بیعت کو توڑ دیا؟ اور ان سے کہنا کہ یہ خداکی کتا ب ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گی۔

ابن عباس سب سے پہلے زبیر کے پاس گئے اورامام ـ کے پیغام کوان تک پہونچایااس نے امام ـ کا پیغام سن کر جواب دیا۔ میری بیعت اختیاری نہ تھی اور مجھے قرآن کے فیصلے کی ضرورت نہیں ہے، پھر ابن عباس طلحہ کے پاس گئے اور اس سے کہا امیر المومنین نے کہا ہے کہ کیوں تم نے بیعت کو توڑ ڈالا؟ اس نے کہا: میں عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔

ابن عباس نے کہا: عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے عثمان کا بیٹا ''آبان'' سب سے زیادہ سزاوار ہے۔

طلحہ نے کہا: وہ کمزور آدمی ہے اور ہم اس سے زیادہ طاقتور ہیں۔ سب سے آخر میں ابن عباس عائشہ کے پاس گئے دیکھا کہ وہ اونٹ کے کجاوہ پر سوار بیٹھی ہیں اور اونٹ کی مہار بصرہ کا قاضی کعب بن سور پکڑے ہوئے ہے اور قبیلہ ازد اور ضبہ کے لوگ اس کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں جب عائشہ کی نظر ابن عباس پر پڑی تو کہا: کس لئے آئے ہو؟ جاؤ اور علی سے کہو کہ ان کے اور ہمارے درمیان تلوار کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔

ابن عباس امام ـ کی خدمت میں آئے اور پورا ماجرا بیان کیاامام ـ نے چاہا کہ دوسری مرتبہ اتمام حجت کریں تاکہ واضح و روشن دلیل کے ساتھ تلوار اٹھائیں لہذاآپ نے اس مرتبہ فرمایا: تم میں سے کون حاضر ہے جواس قرآن کواس گروہ کے پاس لے جائے۔ اور انھیں دعوت دے اور اگر اس کے ہاتھ کو کاٹ دیں تواسے دوسرے ہاتھ میں لے لے۔ اوراگر دونوں ہاتھ کاٹ دیں تو اسے دانتوں سے پکڑ لے؟

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809