فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)4%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362382 / ڈاؤنلوڈ: 6028
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

حضرت علی علیہ السلام کا اس حملہ سے باخبر ہونا

ربذہ کی سرزمین حادثات و واقعات کی آماجگاہ ہے، امام ـ کو اس علاقہ کے متعلق کافی معلومات تھی خصوصاً اس دن سے جب ربذہ پیغمبر اسلام کے اہم صحابیوں خصوصاً پیغمبر کے عظیم صحابی جناب ابوذر کو جلا وطن کر کے

وہاںبھیجا گیا جن کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ تبعیض اور اسراف وغیرہ کے خلاف بولتے تھے کئی سال بعد خداوند عالم نے مولائے کائنات کو یہ موقع فراہم کیاکہ عہد و پیمان توڑ نے والوں کواس سرزمین پر گرفتار کریں۔

امام ـ اس سرزمین پر موجود تھے کہ عہد و پیمان توڑ نے والوں کے خونی حملہ کی خبر ملی اور یہ بھی پتہ چلا کہ طلحہ و زبیر بصرہ شہر میں داخل ہوگئے ہیں اور مسجد، دار الامارہ اور قیدخانہ کے محافظوں کو قتل کردیا ہے اور سیکڑوں افراد کو قتل کر کے شہر پر قبضہ کرلیا ہے اور امام ـ کے نمائندے کو زخمی کرنے کے بعدان کے سر اور داڑھی کے بال اکھاڑ ڈالا اور انھیں شہر سے باہر نکال دیا اور بے ہودہ خبریں پھیلا کر بصرہ کے قبیلوں سے بعض گروہ کو اپنی طرف جذب کرلیاہے۔

اس سلسلے میں امام ـ کا نظریہ تھا کہ ناکثین کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے کوفہ والوں سے مدد لی جائے ، کیونکہ سرزمین عراق پر صرف آپ کا ایک علاقہ باقی تھا اور وہ شہر کوفہ اور اس کے اطراف کے قبیلے والے تھے لیکن اس راہ میں کوفہ کا حاکم ابو موسی اشعری مانع تھا۔ کیونکہ ہر طرح کے قیام کو فتنہ کا نام دیتا اور لوگوںکو امام ـ کی مدد کرنے سے روکتا تھا۔

مہاجرین و انصار کی بیعت سے پہلے ابوموسیٰ اشعری امام ـ کے ساتھ رہتے ہوئے کوفہ کا حاکم تھا اور جب امام ـ کی حکومت آئی تو مالک اشتر کے مشورے سے اسے اس کے منصب پر باقی رکھا ،مالک اشتر کے نظریہ کے علاوہ ابوموسی اشعری کا طریقہ و روش بیت المال میں اسراف اور ناخواہشات کے مطابق خرچ کرنا تھا یہی وجہ تھی جس نے عثمان کے تمام حاکموں سے اسے الگ کر رکھا تھا۔

جی ہاں، امام ـ نے مناسب سمجھا کہ کچھ اہم شخصیتوں کو کوفہ روانہ کریںاور اس سلسلے میں ابو موسی اور کوفہ کے لوگوں کے پاس خط بھیجیں تاکہ اپنے لشکر کے افراد کے لئے زمینہ ہموار کریںاور اگر ایسا نہ ہو تو حاکم کو معزول کر کے اس کی جگہ پر کسی دوسرے کو معین کریں اس سلسلے میں امام ـ نے جو کارنامے انجام دیئے اس کی تفصیل یہ ہے:

۴۰۱

۱۔ محمد بن ابوبکر کو کوفہ بھیجنا

امام ـ نے محمد بن ابوبکر اور محمد بن جعفر کو خط دے کر کوفہ روانہ کیا تاکہ ایک عمومی مجمع میں کوفہ کے لوگوں سے امام ـ کی مدد کے لئے لوگوں کو آمادہ کریں، لیکن ابوموسی کی ضد نے ان دونوں آدمیوں کی محنت کو بے نتیجہ کردیا جس وقت لوگوں نے ابوموسی کے پاس رجوع کیا تواس نے کہا:''القعود سبیل الآخرة و الخروج سبیل الدنیا'' (۱) یعنی گھر میں بیٹھنا راہ آخرت ہے اور قیام کرنا راہ دنیا ہے (جس کو تم چاہو انتخاب کرلو) اسی وجہ سے امام ـ کے نمائندے بغیر کسی نتیجہ کے کوفہ سے واپس آگئے اور ''ذی قار'' نامی جگہ پر امام ـ سے ملاقات کیا اور تمام حالات امام ـ سے بیان کئے۔

۲۔ ابن عباس اور مالک اشتر کو کوفہ روانہ کرنا

امام ـ کی دوسرے امور کی طرح اس امر میں بھی یہی کوشش تھی کہ یہ سلسلہ رک نہ جائے اور اس سے زیادہ شدید اقدام نہ کرنا پڑے لہذا مصلحت دیکھی کہ ابو موسی کو روانہ کرنے سے پہلے دو عظیم و مشہور شخصیتوں یعنی ابن عباس اور مالک اشتر کو کوفہ روانہ کریں تاکہ گفتگو کے ذریعے مشکل کا حل نکال لیں ، مالک اشتر سے فرمایا کہ جس کام کو تم نے انجام دیاہے اور اس کا نتیجہ غلط نکلا ہے ضروری ہے کہ اس کی اصلاح کرو اس کے بعد یہ دونوںکوفہ کے لئے روانہ ہوگئے اور ابو موسی سے ملاقات اور گفتگو کی۔

اس مرتبہ ابوموسی نے اپنی گفتگو کا رخ دوسری طرف موڑتے ہوئے ان لوگوں سے کہا:

''هٰذِهِ فِتْنَةُ صَمَّائُ، النَّائِمُ فِیْهٰا خَیْر مِنَ الْیَقْظَانِ وَ الْیَقْظَانُ خَیْر مِنَ الْقَاعِدِ وَ الْقَاعِدُ خَیْر مِنَ الْقَائِمِ وَ الْقائِمُ خَیْر مِنَ الرَّاکِبِ وَالرَّاکِبُ خَیْر مِنَ السَّاعِیْ'' (۲)

یہ فتنہ ہے کہ سوتا ہوا انسان جاگتے ہوئے انسان سے بہتر ہے اور جاگنے والا بیٹھنے والے سے بہتر ہے اور بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہے اور کھڑا ہونے والا سوار سے بہتر اور سوار ساعی (یعنی کوشش کرنے والے یا قوم کے سردار) سے بہتر ہے۔

پھر اس نے کہا: اپنی تلواروں کو میان میں رکھ لو۔اس مرتبہ بھی امام ـ کے نمائندے بہت زیادہ تلاش و کوشش کے باوجود مایوس امام کے پاس لوٹ آئے اور ابوموسی اشعری کی دشمنی اور بغض و حسد سے امام ـ کو باخبر کیا۔

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۳، ص ۳۹۳۔۴۹۶------(۲) تاریخ طبری، ج۳، ص ۴۹۶۔

۴۰۲

۳۔ امام حسن ـ اور عمار یاسر کو کوفہ روانہ کرنا

اس مرتبہ امام ـ نے ارادہ کیا کہ اپنا پیغام بھیجنے کے لئے اس سے بھی زیادہ عظیم المرتبت شخصیتوں سے مدد لیں اور سب سے زیادہ شائستہ افراد اس کام کی انجام دہی کے لئے آپ کے عظیم المرتبت فرزند امام حسن مجتبیٰ ـ اور عمار یاسر تھے ،پہلی شخصیت پیغمبر اسلام کی بیٹی فاطمہ زہرا (س) کے فرزند تھے جو ہمیشہ آپ کی محبت و عطوفت کے سائے میں رہتے تھے اور دوسری شخصیت اسلام قبول کرنے والوں میں سبقت کرنے والے کی تھی جس کی تعریف مسلمانوں نے رسول اسلام سے بہت زیادہ سنی تھی۔ یہ دونوں شخصیتیں امام ـ کا خط لے کر کوفہ میں وارد ہوئے سب سے پہلے امام حسن مجتبیٰ ـ نے لوگوں کے سامنے امام ـ کا خط پڑھ کر سنایا جس کا مضمون یہ تھا۔

یہ خط خدا کے بندے امیر المومنین علی کی طرف سے (اہل کوفہ کے نام) ہے۔

اہل کوفہ(۱) جو انصار کا چہرہ مہرہ اور عربوں کی سربلندی کا سہرا ہیں۔ اما بعد: میں تمہیں عثمان کے معاملے (قتل) سے یوں آگاہ کرتا ہوں جیسے تم اس واقعہ کو سن ہی نہیں رہے ہو بلکہ دیکھ بھی رہے ہو حقیقت یہ ہے کہ تمام لوگوںنے انہیں مورد الزام ٹھہرایا باوجود ان تمام حالات کے، مہاجرین میں فقط میںہی ایک واحد مرد تھا جس سے وہ سب سے زیادہ مطمئن اور خوش تھے اور فقط مجھ ہی پر ان کا عتاب سب سے کم تھا حالانکہ طلحہ و زبیر کا ان کی مخالفت میں یہ عالم تھا کہ ان دونوں کی ہلکی سی ہلکی چال بھی ان کے خلاف سر پٹ دوڑ کا حکم رکھتی تھی اور (اس دوڑ میں) ان دونوں کی دھیمی سے دھیمی آواز بھی بانگ درشت سے بازی لے گئی تھی۔ اس پر عائشہ کے غضب کے لاوے نے اچانک پھوٹ کر عثمان کے خلاف جلتی آگ پر تیل کا کام کیا۔ اب کیا تھا (ایک دو تین نہیں ) اچھی خاصی جمعیت ان کے خلاف تیار کر لی گئی چنانچہ اسی جمعیت نے عثمان کو قتل کر ڈالا اور تمام لوگوںنے کسی مجبوری و اکراہ سے نہیں ، بلکہ رضا و رغبت اور پورے اختیار سے میرے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا (یعنی بیعت کی)۔

______________________

(۱) امام ـ کے خط میں یہاں پر لفظ ''جبہة الانصار'' استعمال ہوا ہے اور جبہہ کے معنی پیشانی اور گروہ کے ہیںاورانصار سے مراد یاور و دوست ہیں نہ کہ مہاجر کے مقابلے میں لفظ انصارہے ، کیونکہ امام ـ کا مدینہ سے کوفہ ہجرت کرنے سے پہلے اس شہر کو''مرکز انصار'' کے نام سے نہیں جانا جاتا تھا۔

۴۰۳

اے لوگو! دار الہجرت کے مکین و مکان ایک دوسرے کودور پھینک رہے ہیں اور شہر (کا خون) یوں کھول رہا ہے جیسے دیگ جوش کھاتی ہے غرض فتنہ کی چکی کا پاٹ اپنی کیلی سے پیوست ہوچکا ہے (اور چکی چلنے کو تیار ہے) لہذا اپنے امیر کی طرف تیزی سے دوڑ تے ہوئے آؤ اور اپنے دشمن سے جہاد کے لئے آگے بڑھو''۔(۱)

جب امام حسن ـ ،امام کا خط لوگوں کو پڑھ کر سنا چکے تو اب امام ـ کے نمائندوں کی نوبت آئی کہ وہ گفتگو کریں اور لوگوں کے ذہنوں کو بیدار کریں جس وقت امام حسن ـ نے تقریر شروع کی اس وقت سب کی نگاہیںان کی طرف متوجہ تھیں اور تمام سننے والوں کے لبوں پر ان کے لئے دعائیں تھیں اور خدا سے دعا کر رہے تھے کہ ان کے ارادوں کو قائم کردے، حضرت مجتبیٰ ـ نے نیزہ یا عصا پر تکیہ کرتے ہوئے اس طرح سے اپنی گفتگو شروع کی۔

''اے لوگو! ہم لوگ یہاں اس لئے آئیںہیں کہ تم لوگوںکو قرآن مجید اور پیغمبر کی سنت اور سب سے زیادہ دانااورصحیح فیصلہ کرنے والے، اور سب سے شائستہ فرد کی مسلمانوں سے بیعت لیں اور تم لوگوں کو ایسے شخص کی دعوت دیں جس پر قرآن نے اعتراض نہیں کیاہے اور اس کی سنت کا انکار نہیں کیااور ایمان میں جو شخص آپ(پیغمبر) سے دو نسبت رکھتا تھا (ایمان اور رشتہ داری) سب میں سبقت رکھتا تھا اور کبھی بھی انہیں تنہا نہیں چھوڑا جس دن لوگ انہیں اکیلا چھوڑ کر بہت دور چلے گئے تھے تو خدا نے اس کی مدد کو کافی جانا اور وہ پیغمبراسلام(ص) کے ساتھ نماز پڑھتا تھا جب کہ دوسرے افراد مشرک تھے۔

اے لوگو! ایسی شخصیت تم سے مدد مانگ رہی ہے اور تمہیں حق کی طرف بلا رہی ہے اور اس کی آرزو ہے کہ تم اس کی پشتیبانی کرو اور وہ گروہ جس نے تم سے اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے اور اس کے متقی و متدین ساتھیوں کو قتل کردیا ہے اور اس کے بیت المال کو برباد کردیاہے تم لوگ اس کے مقابلے میں قیام کرو۔ اٹھو اور بیدار ہو جاؤ کہ خدا کی رحمت تم پر سایہ فگن ہے تم لوگ اس کی طرف بڑھو اور اچھے کام کا حکم دو اور بری چیزوں سے لوگوں کو منع کرو اور جس چیز کو صالح افراد آمادہ کر رہے ہیں انھیں تم بھی آمادہ کرو۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ، نامہ ۱۔

۴۰۴

ابن ابی الحدید نے مشہور و معروف مؤرخ ابو مخنف سے امام حسن ـ کی دوتقریریں نقل کی ہیں اور ہم نے صرف ایک کے ترجمہ پر ہی اکتفاء کیا ہے امام حسن مجتبیٰ ـ کی دو نوں تقریریں امام علی علیہ السلام کی شخصیت اوران کے لطف و محبت کی وضاحت کرتی ہیں جو کہ حیرت انگیز ہے۔(۱)

جب امام حسن ـ کی تقریر ختم ہوئی اس وقت عمار یاسر اٹھے او رخدا کی حمد و ثنا اور محمد و آل محمد پر سلام و درود کے بعد لوگوں سے اس طرح مخاطب ہوئے:

اے لوگو! پیغمبر کا بھائی تمہیں خدا کے دین کی مدد کے لئے آواز دے رہا ہے تم پر لازم ہے کہ وہ امام جس نے کبھی بھی شریعت کے خلاف کوئی کام نہیں کیا۔ وہ ایسا دانشمند ہے جسے تعلیم کی ضرورت نہیں ، اور ایسا بہادر جو کسی سے بھی نہیں ڈرتا، اور اسلام کی خدمت کرنے میں اس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کرسکتا، اگر تم لوگ اس کی خدمت میں حاضر ہو تو پوری حقیقت سے تم لوگوں کو آگاہ کردے گا۔

پیغمبر کے فرزند اورعظیم المرتبت صحابی کی تقریروںنے لوگوںکے قلو ب کو بیدار اوران کے ذہنوں کو جلا بخش دی اور وہ کام جسے سادہ لوح حاکم نے روک کر رکھا تھااس سے دور ہوگئے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ تمام لوگوں کے اندر جوش و خروش پیدا ہوگیا، خصوصاً اس وقت جب زید بن صوحان نے عائشہ کا خط کوفیوں کو پڑھ کر سنایا اور سب کو حیرت میں ڈال دیا، اس نے زید کے لئے خط میں لکھا تھا کہ اپنے گھر میں بیٹھے رہو اور علی کی مدد نہ کرو، زید نے خط پڑھنے کے بعد بلند آواز سے کہا: اے لوگو! ام المومنین کا فریضہ گھر میں بیٹھناہے اور میرا فریضہ میدان جنگ میں جہاد کرنا ہے اس وقت وہ ہمیں اپنے فریضے کی طرف بلا رہی ہیں اور خود ہمارے فریضے پر عمل کر رہی ہیں۔ان تمام واقعات کی وجہ سے لوگوں نے امام ـ کے حق میں اپنے نظریے کو بدل دیااور بہت سے گروہ نے امام ـ کی مدد کرنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کردیا۔ اور تقریباً بارہ ہزار افراد اپنے گھر اور زندگی چھوڑ کر امام ـ کی خدمت میں روانہ ہوگئے۔ابو الطّفیل کہتا ہے: امام ـ نے کوفہ کے اس گروہ کے پہونچنے سے پہلے مجھ سے کہا میرے چاہنے والے جو کوفہ سے میری طرف آرہے ہیںان کی تعداد بارہ ہزار ایک آدمی پر مشتمل ہے جب یہ لوگ امام کے

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴ ص ۱۴۔ ۱۱؛ تاریخ طبری ج۳ ص ۵۰۰۔ ۴۹۹۔

۴۰۵

پاس پہونچ گئے تو ہم نے شمار کرنا شروع کیا تو کل تعداد بارہ ہزار ایک تھی، نہ ایک آدمی کم تھا نہ ایک آدمی زیادہ۔(۱)

لیکن شیخ مفید نے ان سپاہیوں کی تعداد جو کوفہ سے امام کی طرف آئی تھی کل چھ ہزار چھ سو لکھا ہے اور مزید کہتے ہیں امام ـ نے ابن عباس سے کہا کہ دو دن میں (چھ ہزار چھ سو افراد) لوگ میری طرف آئیںگے اور طلحہ و زبیر کو قتل کردیں گے اور ابن عباس کہتے ہیں کہ جب ہم نے سپاہیوں کو شمار کیا تو ان کی تعداد چھ ہزار چھ سو افراد پر مشتمل تھی۔(۲)

ابوموسیٰ اشعری کی ناکام کوشش

ابوموسیٰ کوفہ کے حالات بدلنے کی وجہ سے بہت سخت ناراض ہوا اورعمار یاسر کو مخاطب کر کے کہا: ''میں نے پیغمبر سے سناہے کہ بہت جلد ہی فتنہ برپا ہوگا جس میں بیٹھنے والے کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوں گے اور یہ دونوں سوار افراد سے بہتر ہوں گے اور خداوند عالم نے ہمارے خون اور مال کوایک دوسرے پر حرام قرار دیا ہے''۔عمار کے دل و دماغ میں ابو موسیٰ اشعری کے خلاف جو نفرت بھری تھی اس بنا پر کہا: ہاں، پیغمبر خدا نے تجھے مراد لیا ہے اور تیرے بارے میں کہا ہے اور تیرا بیٹھنا تیرے قیام سے بہتر ہے نہ کہ دوسرے افرادکا۔(۳) یہاں پر اس حدیث کے سلسلے میں تھوڑا غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ پیغمبر نے ایسی حدیث بیان فرمائی ہے لیکن یہ کیسے معلوم کہ پیغمبر کامقصد جمل کا واقعہ ہے؟ کیاایسے گروہ کا مقابلہ کرنا جس نے چار سو لوگوں کے سروں کو بکریوں کی طرح جدا کردیا ہے ایسا فتنہ ہے کہ اس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہے؟!

پیغمبر کی وفات کے بعد بہت سارے واقعات رونما ہوئے ، مثلاً سقیفہ سے عثمان کے قتل تک، ممکن ہے پیغمبر کی حدیث اس واقعے کے متعلق ہو؟! اگر تاریخ کے اوراق کا جائزہ لیں اور ۱۱ھ سے ۳۵ ھ تک کے واقعات کونظر میں رکھیں تو معلوم ہوگا کہ بہت سے ایسے واقعات ہیں جو بہت زیادہ افسوس کے لائق ہیں کیامالک بن نویرہ کے تلخ واقعہ کو ایک معمولی واقعہ سمجھ سکتے ہیں؟ خلیفہ سوم کے زمانے کے حادثوں کو اور اسی طرح مومن و متدین افراد پر ظلم و ستم اورانھیں جلا وطن کرنا وغیرہ، کیا انہیں فراموش کیا جاسکتا ہے؟ اور کیوں یہ حدیث معاویہ او رمروان اور عبد الملک کے خلافت کے زمانے سے مخصوص نہ ہو ؟اس کے علاوہ ، اسلام کے پاس ایسے اصول ہیں جنھیںکسی وقت بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اورانھیں میں سے ایک اولی الامر کی اطاعت ہے۔

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴،ص ۱۴۔ ۱۱؛ تاریخ طبری ج۳ ص ۵۰۰۔ ۴۹۹۔--(۲) جمل ص ۱۵۷۔---(۳) تاریخ طبری ج۳ ص ۴۹۸۔

۴۰۶

خلیفہء منصوص (اللہ کا منتخب کردہ) یا مہاجرین و انصار کی طرف سے منتخب خلیفہ کی اطاعت ایک اسلامی فریضہ ہے جس کی تمام لوگوں نے تائید کی ہے اور ابوموسیٰ اشعری نے بھی امام ـ کو ''ولی امر'' مانا ہے کیونکہ اس نے حضرت کے حکم کو قبول کیا ہے اور کوفہ کی حکومت پر حاکم کے طور پر باقی رہا ہے اور اس کے بعد جو بھی کام انجام دیتا تھا وہ علی کے والی و حاکم کے عنوان سے انجام دیتا تھا۔ ایسی صورت میں حدیث مجمل کواس آیت کریمہ( اطیعو ا اللّه و اطیعو ا الرسول و اولی الامر منکم ) کے مقابلے قرار نہیں دینا چاہئے اور نص قرآنی کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے ۔

ابوموسیٰ اشعری کی معزولی

متعدد نمائندوں کو بھیجنے کے بعد اور تمام کوششوں کے بے اثر ہونے کی وجہ سے امام ـ کے لئے ضروری تھا کہ ابوموسیٰ اشعری کو اس کے منصب سے معزول کردیں۔ امام نے اس کے پہلے بھی کئی خط لکھ کر اس پر اپنی حجت تمام کردی تھی ،آپ نے اسے لکھا تھا کہ ''میں نے ہاشم بن عبتہ کو روانہ کیا ہے کہ وہ تمہاری مدد سے مسلمانوں کو میری طرف روانہ کرے، لہذا تم اس کی مدد کرو اور میں نے تمہیںاس منصب پر باقی رکھا کہ حق کے مددگار رہو۔جب امام ـ خط بھیجنے اور عظیم شخصیتوں کو روانہ کرنے کے بعد حاکم کوفہ کی فکرونظر بدلنے سے مایوس ہوئے تو امام حسن کے ہمراہ ابوموسیٰ اشعری کوایک خط بھی لکھا اورباقاعدہ طور پر اسے ولی عہدی سے معزول کردیا اور قرظہ بن کعب کو اس کی جگہ منصوب کردیا ۔ امام کے خط کی عبارت یہ ہے:'' فقدکنت أریٰ أن تعزبَ عن هذا الامر الذی لم یجعل لک منه نصیباً سیمنعک من ردِّ أمری وقد بعثتُ الحسن بن علیٍ وعمار بن یاسر یستنفران الناس وبعثت قرطة بن کعب والیاً علی المصرفا عتزل عملنا مذموماً مدحوراً '' ''اسی میں مصلحت دیکھتا ہوںکہ تم اپنے منصب سے کنارہ کشی اختیار کر لو اس مقام کے لئے خداوند عالم نے تمہارا کوئی حصہ نہیں رکھا ہے اور خدا نے تمہاری مخالفت سے مجھے روک دیا ہے؟ میں نے حسن بن علی اور عمار یاسر کو بھیجا ہے تاکہ لوگوں کو ہماری مدد کے لئے آمادہ کریں اور قرظہ بن کعب کو والی شہرقرار دیا ہے تم ہمارے امور سے دورہو جاؤ تم سب کی نگاہوں سے گر چکے ہو اورلعنت کےمستحق ہو''امام کے خط کے مضمون سے شہر کے سارے لوگ باخبر ہوگئے اور کچھ ہی دنوں بعد مالک اشتر نےکوفہ جانے کی درخواست کی اور امام نے انھیں کوفہ روانہ کردیا اور دار الامارہ کواپنے قبضے میں لےکرنئے والی شہر کے حوالے کردیا اور ابوموسیٰ کوفہ میں ایک رات رہنے کے بعد شہر سے چلا گیا۔(۱)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۳ ص ۵۰۱۔

۴۰۷

نویں فصل

امام ـ کی ''ذی قار'' سے بصرہ کی طرف روانگی

علی علیہ السلام ربذہ میں تھے کہ ناکثین کے خونی حملہ سے باخبر ہوئے اورذی قار میں تھے جب آپ نے مخالفوں کو سزا دینے کا قطعی فیصلہ کیا۔

عظیم شخصیتوں مثلاً امام حسن مجتبیٰ ـ اور عمار یاسر کو کوفہ بھیجنے کا یہ اثر ہوا کہ کوفہ کے لوگوں میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی اور یہی سبب بنا کہ لوگ امام ـ کے لشکر میں شامل ہونے کے لئے ذی قار کی طرف دوڑ پڑے، لہٰذا علی علیہ السلام اپنی فوج کے ساتھ منطقہ ذی قار سے بصرہ کی طرف روانہ ہوگئے۔

امام ـ نے پیغمبر کی طرح جنگ کرنے سے پہلے مخالفوں پر اپنی حجت کو تمام کردیا اگرچہ حقیقت ان لوگوں پر واضح تھی یہی وجہ ہے کہ ناکثین کے سردار یعنی طلحہ و زبیر اور عائشہ کے پاس الگ الگ خط لکھا اور تینوں خط میں ان کے کارناموں کو لکھا اور دار الامارہ اور بصرہ کے محافظوں کے قتل کرنے پر سخت اعتراض کیا اور عثمان بن حنیف پر جو ظلم و ستم کیاتھا اس کی سخت مذمت کی۔ امام نے تینوں خط صعصہ بن صوحان کے ہمراہ روانہ کیا وہ کہتے ہیں :

سب سے پہلے ہم نے طلحہ سے ملاقات کی اور امام ـ کا خط اسے دیا اس نے خط پڑھنے کے بعد کہا: کیا اس وقت جب علی کے خلاف جنگ کی پوری تیاری ہوچکی ہے اس سے منہ موڑ رہے ہیںاور نرمی دکھا رہے ہیں؟ پھر زبیر سے ملاقات کی تواسے طلحہ سے کچھ نرم پایا ۔ پھر عائشہ کو امام کا خط دیا لیکن دوسروں سے زیادہ انہیں فتنہ و فساد اور جنگ کرنے پر آمادہ پایا انہوں نے کہا: میں نے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اقدام کیا ہے اور خدا کی قسم اس کام کو میں ضرور انجام دوں گی۔

صعصعہ کہتے ہیں: اس کے پہلے کہ امام ـ بصرہ میں داخل ہوتے ، میں ان کی خدمت میں پہونچ گیا امام ـ نے مجھ سے پوچھا کہ وہاں کے کیا حالات ہیں۔ میں نے کہا: میں نے ایک گروہ کو دیکھا کہ آپ سے جنگ کرنے کے علاوہ ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہے امام ـ نے فرمایا:

۴۰۸

و الله المستعان (۱)

جب علی علیہ السلام ناکثین کے سرداروں کے قطعی ارادے سے باخبر ہوئے تو آپ نے ابن عباس کو بلایا اور ان سے کہا: ان تینوں آدمیوں سے ملاقات کرو اور میری بیعت کی وجہ سے جو ان پر میرا حق ہے اس کے بارے میں احتجاج کرو۔ جب انھوں نے طلحہ سے ملاقات کیا اور امام ـ کی بیعت اسے یاد دلائی تواس نے ابن عباس کا جوا ب دیا: میں نے بیعت ایسے حالات میں کیاتھا کہ میرے سر پر تلوار تھی۔

ابن عباس نے کہا کہ میں نے خود تمہیںدیکھا کہ تم نے مکمل آزادی کے ساتھ بیعت کی تھی اور اس پہ دلیل پیش کی کہ بیعت کے وقت، علی نے تم سے کہا کہ اگر تم چاہو تو تمہاری بیعت کروں لیکن تم نے کہا نہیں میں آپ کی بیعت کروں گا۔

طلحہ نے کہا: صحیح ہے کہ یہ بات علی نے کہی تھی لیکن اس وقت تمام گروہوں نے بیعت کی تھی اور مخالفت کا امکان نہیں تھا۔

پھر اس نے کہا: ہم عثمان کے خون کا بدلہ چاہتے ہیں اور اگر تمہارے چچازاد بھائی تمام مسلمانوں کے خون کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو عثمان کے قاتلوں کو ہمیں سونپ دیں اور خود بھی خلافت کو چھوڑ دیں تاکہ خلافت شوری کے اختیار میں آجائے اور شوری جسے چاہے منتخب کرے اگر ایسا نہ ہوا تو ان کے لئے ہماری تلوار ہدیہ ہے۔

ابن عباس نے موقع غنیمت جانا لہٰذا حقیقت کو اور واضح کرتے ہوئے کہا شایداسی وجہ سے تونے عثمان کے گھر کا دس دن تک محاصرہ کیا اوران کے گھر میں پانی پہونچانے سے منع کیااور جس وقت کہ علی نے تم سے گفتگو کی کہ اجازت دو کہ عثمان کے گھر پانی پہونچایا جائے تو تم نے ان کی موافقت نہ کی اور جب مصریوں نے اتنا زبردست پہرہ دیکھا تو اس کے گھر میں داخل ہوگئے اور اسے قتل کردیا اور اس وقت لوگوں نے اس شخص کے ہاتھوں پر بیعت کی جس کا ماضی تابناک، اس کے فضائل روشن، اور پیغمبر کا سب سے قریبی عزیز تھا او رتم نے اور زبیر نے بغیر کسی مجبوری اور دباؤ کے بیعت کی اور اس وقت اس بیعت کو توڑ دیا۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ تم خلفاء ثلاثہ کی خلافت کے دوران کتنے سکون و آرام سے تھے لیکن جب خلافت علی تک پہونچی تواپنی اوقات سے باہر ہوگئے خدا کی قسم علی تم لوگوں سے کم نہیں ہیں او رجو تمہارا یہ کہناہے کہ علی ان کے قاتلوں کو تمہارے حوالے کریں تو تم اس کے قاتلوں کو اچھی طرح سے پہچانتے ہو اور تمہیں اس کی بھی خبر ہے کہ علی تلوار سے نہیں ڈرتے۔

______________________

(۱) الجمل ص ۱۶۷۔

۴۰۹

طلحہ ابن عباس کی منطقی گفتگو سن کر بہت شرمندہ ہوا اورخاموش ہو گیا اس کے بعد گفتگو کو ختم کرنے کے لئے کہا: ابن عباس اس لڑائی سے پیچھے ہٹ جاؤ۔

ابن عباس کہتے ہیں: میں فوراً ہی علی کے پاس گیا اور اپنی گفتگو کا سارا نتیجہ بیان کیا ،حضرت نے مجھے حکم دیا کہ عائشہ سے گفتگو کرو۔ اور ان سے کہو، فوج جمع کرنا عورتوں کی شان نہیں ہے اور تم ہرگز اس کام کے لئے مامور نہیں کی گئی ہو تم نے اس کام کے لئے قدم نکالا ہے اور دوسروں کے ساتھ بصرہ آگئی اور مسلمانوں کو قتل کردیا اور کام کرنے والوں کو نکال دیا اور لوگوں کو راستہ دکھایا اور مسلمانوں کے خون کو مباح سمجھا جب کہ تم خود عثمان کی سب سے بڑی دشمن تھی۔

ابن عباس نے امام ـ کے پیغام کو عائشہ تک پہونچایا انہوں نے جواب دیا : تمہارے چچازاد بھائی کا خیال ہے کہ تمام شہروں پر ان کا قبضہ ہے خدا کی قسم، اگر کوئی چیز اس کے ہاتھ میں ہے تو اس سے زیادہ چیزیں میرے اختیار میں ہیں۔

ابن عباس نے کہا: علی کے لئے فضیلت اور اسلام کے لئے ان کی بہت زیادہ خدمات ہیں اور انھوںنے اس راہ میں بہت زیادہ زحمتیں برداشت کی ہیں انہوں نے کہا: طلحہ نے بھی جنگ احد میں بہت زیادہ رنج و مصیبت برداشت کیا ہے۔

ابن عباس نے کہا: میرے خیال میں پیغمبر کے صحابیوں کے درمیان علی سے زیادہ کسی نے رنج و مصیبت برداشت نہیں کی ہے۔ اس وقت عائشہ نے انصاف کی بات کی اور کہا اس کے علاوہ علی کی دوسری بھی فضیلتیں ہیں ۔

ابن عباس نے موقع غنیمت سمجھ کر فوراً کہا: تمہیںخدا کا واسطہ مسلمانوں کا خون بہانے سے پرہیز کرو انہوں نے جواب دیا: مسلمانوں کا خون اس وقت تک بہایا جائے گا جب تک علی اور ان کے ساتھی خود کو قتل نہیں کرلیں گے۔

ابن عباس کہتے ہیں کہ میں عائشہ کی غیر منطقی باتین سن کر مسکرایا او رکہا علی کے ہمراہ صاحبان بصیرت لوگ ہیں جو اس راہ میں اپنے خون کو بہا دیں گے پھر ان کے پاس سے اٹھ کر واپس چلے آئے۔

ابن عباس کہتے ہیں:علی نے مجھے حکم دیا کہ زبیر سے بھی گفتگو کروں او رحتی الامکان اس سے تنہائی میں ملاقات کروںاور اس کا بیٹا عبداللہ وہاں موجود نہ ہو۔ میں اس خیال سے کہ اس سے تنہائی میں ملاقات کروںدوبارہ اس کے پاس گیا لیکن اسے تنہا نہیں پایاتیسری مرتبہ اسے میں نے تنہا دیکھا، اس نے اپنے غلام ''سرحش'' کو بلایا اور اس سے کہا کہ کسی کو بھی اندر آنے کی اجازت نہ دینا ، میں نے گفتگو کا آغاز کیا،شروع میں اسے بہت غصے میں پایا لیکن دھیرے دھیرے اسے ٹھنڈا کردیا جب اس کے خادم نے میری باتیں سنیں تو فوراً اس نے زبیر کے

۴۱۰

بیٹے کو خبر کردی اور جیسے ہی وہ اس جلسہ میں وارد ہوا میں نے اپنی گفتگو قطع کردی، زبیر کے بیٹے نے اپنے باپ کے اقدام کو عثمان کے خون کا بدلہ لینے اورام المومنین کی موافقت سے صحیح ثابت کیا میں نے اس کا جواب دیا خلیفہ کا خون تمہارے باپ کی گردن پر ہے یا تو اسے قتل کیا ہے یا اس کی مدد نہیں کیاہے اور ام المومنین کی موافقت اس کی سچائی کی دلیل نہیں ہے اسے گھر کے باہر لائے جب کہ رسول اکرم نے ان سے کہا تھا عائشہ ممکن ہے ایک دن ایسا آئے کہ تم پر حوأب کے کتے بھونکیں، بالآخر میں نے زبیر سے کہا: خدا کی قسم، میں نے ہمیشہ تمہیں بنی ہاشم میں شمار کیا تم ابوطالب کی بہن صفیہ کے بیٹے اور علی کے پھوپھی زاد بھائی ہو، جب عبد اللہ بڑا ہوگیا تو اپنے رشتہ کو ختم کردیا۔(۱)

لیکن علی علیہ السلام کے کلام (نہج البلاغہ) سے استفادہ ہوتا ہے کہ وہ طلحہ کی طرف سے مکمل طور سے مایوس ہوچکے تھے اسی لئے ابن عباس کو حکم دیا کہ صرف زبیر سے ملاقات کر کے گفتگو کریں اور شاید یہ ابن عباس کو دوسری مرتبہ حکم دیا تھا۔ اس سلسلے میں امام ـ کابلیغ کلام ملاحظہ کیجیئے۔

''لاتلقین طلحة فانک ان تلقہ تجدہ کا لثور عاقصاً قرنہ، یرکب الصعب و یقول ہو الذلول! و لکن الق الزبیر فانہ ألین عریکةً فقل لہ یقول ابن خالک عرفتنی بالحجاز و انکرتنی بالعراق ، فما عدا مما بدا؟(۲)

طلحہ سے ملاقات نہ کرنا اگر اس سے ملو گے تو اسے ایک بیل(۳) کی طرح پاؤ گے جس کی سینگ

ٹیڑھی ہے وہ سرکش سواری پر سوار ہے اور پھر کہتا ہے کہ یہ آرام سے ہے، البتہ زبیر سے ملاقات کرنا کہ وہ نرم مزاج ہے اور اس سے کہنا کہ تمہارے ماموں زاد بھائی نے کہا ہے کہ تم حجاز میں مجھے پہچانتے تھے اور عراق میں آکربھول گئے حقیقت ظاہر ہونے کے بعد کس چیز نے اسے پھیر دیا؟

______________________

(۱) الجمل، ص ۱۷۰ و ۱۶۷۔

(۲) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۳۱۔

(۳) یعنی جس طرح بیل اپنی نوک دارسینگ سے ہر کسی کو چھیدنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح تم طلحہ کو فتنہ میں مبتلا پاؤ گے۔ رضوی۔

۴۱۱

قعقاع بن عمرو کو روانہ کرنا

پیغمبر اسلام کے معروف و مشہور صحابی قعقاع بن عمرو کوفہ میں رہتے تھے اور اپنے قبیلے میں ایک اہم اور قابل احترام شخصیت کے مالک تھے، انھیں امام ـ کا حکم ملا کہ ناکثین کے سرداروں سے ملاقات کریں۔ ان کے اور ناکثین کے سرداروں کے درمیان جو گفتگو ہوئی اسے طبری نے اپنی تاریخ میں اور جزری نے ''کامل'' میں نقل کیا ہے انہوں نے ایک خاص منطقی طریقے سے ناکثین کے بارے میں فکر کی تاکہ ان لوگوں کو امام ـ سے صلح کرنے کے لئے آمادہ کریں اور جب علی کی پاس واپس ہوئے اور اپنی گفتگو کا نتیجہ امام ـ سے بیان کیا تو امام ـ ان کے نرم رویہ پربہت متعجب ہوئے۔(۱)

اس موقع پر بصرہ کے لوگوں کا ایک گروہ امام ـ کی خدمت میں پہونچاتاکہ آپ کے نظریہ اور ان کوفیوں کے نظریہ سے باخبر ہوں جو امام کے لشکر میں شامل ہوئے تھے۔ اور جب وہ لوگ بصرہ واپس چلے گئے تو امام ـ نے اپنے نمائندوں کے درمیان تقریر کی اور پھر اس منطقہ سے روانہ ہوگئے اور ''زاویہ'' نامی مقام پر قیام کیا۔ طلحہ و زبیر اور عائشہ بھی اپنی جگہ سے روانہ ہوئے اور اس علاقے میں آکر ٹھہرے ،جہاں بعدمیں عبیداللہ ابن زیاد کا محل بنا اور امام ـ کے مقابلے ٹھہر گئے ۔ دونوں لشکر بڑے ہی اطمینان سے تھا امام ـ نے کچھ لوگوں کو بھیجا تاکہ باغیوں کے مسئلہ کو گفتگو کے ذریعے حل کریں۔ یہاں تک کہ پیغام بھی بھیجا کہ جو وعدہ ان لوگوں نے قعقاع سے کیاہے اگر اس پر باقی ہیں تو تبادلہ نظر کریں۔ لیکن حالات ایسے تھے کہ یہ مشکل سیاسی گفتگو سے حل نہیں ہوسکتی تھی اور اس فتنہ کو ختم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اسلحہ اٹھایا جائے۔

______________________

(۱) تاریخ کامل ابن اثیر ج۳ ص ۲۲۹۔

۴۱۲

دشمن کی فوج کم کرنے کے لئے امام ـ کی سیاست

احنف بن مالک اپنے قبیلہ کا سردار تھا اس کے علاوہ اپنے اطراف کے قبیلوں میں بھی اہم مقام رکھتا تھا جب

عثمان کے گھرکا لوگوںنے محاصرہ کیا تھا اس وقت وہ مدینے میںتھا اور اس وقت اس نے طلحہ و زبیر سے پوچھا تھا کہ عثمان کے بعد کس کی بیعت کی جائے دونوں افراد نے امام ـ کی بیعت کے لئے کہا تھا ،جس وقت احنف حج کے سفر سے واپس ہوا اور دیکھا کہ عثمان قتل کردیئے گئے ہیں تو اس نے امام ـ کی بیعت کی ۔ اور بصرہ واپس آگیا اور جب طلحہ و زبیر کے متعلق اسے یہ خبر ملی کہ انھوں نے اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے تو بہت تعجب میں پڑ گیا اور جب عائشہ کی طرف سے اسے بلایا گیا کہ ان کی مدد کرے تو اس نے اس درخواست کو رد کردیا اور کہا، میں نے ان دونوں کے کہنے سے علی کی بیعت کی ہے اور میں ہرگز پیغمبر کے چچا زاد بھائی کے ساتھ جنگ نہیں کروں گا مگر ان سب سے دور رہوں گا ۔ اسی وجہ سے وہ امام ـ کی خدمت میں آیا اور کہا ہمارے قبیلے والے کہتے ہیں کہ اگر علی کامیاب ہوگئے تو ہمارے مردوں کو قتل کردیں گے اور عورتوں کو قیدی بنالیں گے ۔ امام ـ نے اس سے کہا: مجھ جیسے شخص سے ہرگز نہ ڈرو جب کہ یہ مسلمانوں کا گروہ ہے۔ احنف نے یہ جملہ سن کر امام ـ سے کہا ان دو کاموں میں سے ایک کام میرے لئے معین فرمائیں یا آپ کے ہمراہ رہ کر جنگ کروں یا دس ہزار تلوار چلانے والوں کے شر کو آپ سے دور کروں۔ امام ـ نے فرمایا: کتنا بہتر ہے کہ جو تم نے بے طرفی کا وعدہ کیا ہے اس پر عمل کرو۔ احنف نے اپنے قبیلے اور اطراف میں رہنے والے قبیلوں کو جنگ میں شرکت کرنے سے روک دیا اور جب علی کا میاب ہوگئے۔ تو تمام لوگوںنے حضرت علی کے ہاتھوں پر بیعت کی اور آپ کے ہمراہ ہوگئے۔

۴۱۳

امام ـ کی طلحہ اور زبیر سے ملاقات

جمادی الثانی ۳۶ ھ میں امام ـ نے دو نوں لشکر کے درمیان ناکثین کے سرداروں سے ملاقات کی اوردونوں لشکر والے اتنے نزدیک ہوگئے تھے کہ گھوڑوں کے کان ایک دوسرے سے ملنے لگے تھے۔ امام ـ نے سب سے پہلے طلحہ پھر زبیر سے گفتگو کی جس کی تفصیل یہ ہے:

امام ـ : تم نے اسلحہ اور پیدل اور سوار فوج کو اکٹھا کر لیا ہے اگر اس کام کے لئے تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کرو اگر ایسا نہیں ہے تو خدا کی مخالفت سے پرہیز کرو اور اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنے دھاگوں کو خراب کردیاہے ۔ کیامیں تمہارا بھائی نہ تھا اور تمہارے خون کو حرام قرار نہیں دیا تھا اور تم نے بھی میرے خون کو محترم نہیں سمجھاتھا؟ کیا میں نے کوئی ایسا کام کیا ہے جواس وقت میرے خون کو حلال سمجھ رہے ہو؟

طلحہ: آپ نے لوگوں کو عثمان کے قتل کرنے پر اکسایا۔

امام ـ: اگر میں نے ایسا کام ہے تو خداوند عالم قیامت کے دن لوگوں کو ان کے اعمال کی سزا تک پہونچائے گا اور اس وقت لوگوں پر حقیقت واضح ہو جائے گی۔ اے طلحہ ! کیاتوعثمان کے خون کا بدلہ طلب کر رہا ہے؟ خداعثمان کے قاتلوں پر لعنت کرے، تم پیغمبر کی بیوی کو لائے ہو کہ اس کے زیرسایہ جنگ کرو جب کہ اپنی بیوی کو گھر میں بٹھا رکھا ہے کیا تم نے میری بیعت نہیں کی تھی؟

طلحہ: میں نے آپ کی بیعت کی اس لئے کہ میرے سر پر تلوار تھی۔

پھر امام ـ زبیرکی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے پوچھا۔ اس نافرمانی کی کیا وجہ ہے؟

زبیر: میں تمہیں اس کام کے لئے اپنے سے زیادہ بہتر نہیں سمجھتا۔

۴۱۴

امام ـ : کیامیں اس کام کے لئے سزاوار نہیں ہوں؟ (زبیر نے چھ افراد پر مشتمل شوری میں علی کو خلیفہ معین کرنے کے لئے رائے دی تھی) میں نے تمہیں عبدالمطلب کی اولاد میں شمار کیا لیکن جب تیرا بیٹا عبد اللہ بڑاہوا تو ہم لوگوں کے درمیان جدائی پیداکردی۔ کیا تمہیں وہ دن یاد نہیں جس دن پیغمبر اسلام قبیلۂ بنی غنم سے گزر رہے تھے رسول اسلام اور میں دونوں ہنس رہے تھے، تم نے پیغمبر سے کہا کہ علی مذاق کرنے سے باز نہیں آرہے ہیں اور پیغمبر نے تم سے کہا: خدا کی قسم، اے زبیر تو اس کے ساتھ جنگ کرے گا اور اس وقت تم ستم کرنے والے ہوگے۔

زبیر: یہ بات صحیح ہے اگر یہ واقعہ میرے ذہن میں ہوتا تواس طریقے سے پیش نہ آتا خدا کی قسم میں تم سے جنگ نہیں کروں گا۔

زبیر ، امام ـ کی باتیں سن کر بہت متأثر ہوا اور عائشہ کے پاس گیااور پورا واقعہ بیان کیامگر جب عبداللہ اپنے باپ کے ارادے سے باخبرہوا تو بہت زیادہ ناراض ہوکر کہنے لگا ان دو گروہ کو یہاں جمع کیا ہے اور اس وقت کہ ایک گروہ طاقتور ہوا ہے دوسرے والے گروہ کو چھوڑ کر جا رہے ہو؟ خدا کی قسم! علی نے جو تلوار بلند کی ہے تم اس سے ڈر رہے ہو، کیونکہ تم جانتے ہو کہ ان تلواروں کو بہادر اٹھاتے ہیں ۔

زبیر نے کہا: میں نے قسم کھائی ہے کہ علی سے جنگ نہیں کروں گا اب میں کیا کروں؟

عبد اللہ نے کہا: اس کا حل کفارہ ہے ،بہتر ہے کہ ایک غلام آزاد کرو، اس بناء پرزبیر نے اپنے غلام ''مکحول'' کو آزاد کردیا۔

یہ واقعہ زبیر کی سطحی ذہنیت پر دلالت کرتاہے وہ پیغمبر اسلام کی حدیث کو یاد کرتے ہوئے قسم کھاتا ہے کہ علی کے ساتھ جنگ نہیں کرے گا لیکن اپنے بیٹے کے غلط بہکانے پر پیغمبر کی حدیث کو نظر انداز کردیتا ہے اور اپنی قسم کو کفارہ دے کر بے اہمیت کردیتا ہے۔

۴۱۵

حالات سے معلوم ہوگیاہے کہ جنگ کا ہونا یقینی ہے لہذا ناکثین نے ارادہ کیا کہ اپنی فوج کو مزید مضبوط اور منظم کریں۔

ایسے علاقوں میں جہاں لوگ قبیلائی نظام کے طور پر زندگی بسر کرتے ہیں وہاں کے سارے امور قبیلہ کے سردار کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور اسے ہر شخص قبول کرتا ہے ۔بصرہ کے قبیلوں کے اطراف میں ایک شخصیت احنف نام کی بھی ہے، اگر وہ ناکثین کے گروہ میں مل جاتا تو اس کی فوج بہت زیادہ طاقتور ہو جاتی اور چھ ہزار سے بھی زیادہ لوگ ناکثین کے زیر پرچم جمع ہو جاتے اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا لیکن احنف نے اپنی ہوشیاری اور عقلمندی سے سمجھ لیاکہ ان کا ساتھ دینا خواہشات نفسانی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اس نے اپنی ذہانت سے سمجھ لیا کہ عثمان کا خون صرف ایک بہانہ ہے اور اصل حقیقت ، حکومت حاصل کرنا ہے اور علی کو منصب سے دور کرنے اور خلافت پر قبضہ کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے، اسی وجہ سے امام ـ کے حکم کے مطابق اس نے کنارہ کشی اختیار کی اور اپنے قبیلے اوراطراف کے قبیلے سے چھ ہزار آدمیوں کو ناکثین کے گروہ میں شامل ہونے سے بچا لیا ۔

احنف کا ایسے وقت میں کنارہ کشی اختیا رکرنا ناکثین کو بہت ناگوار گزرا، اس کے علاوہ ان کی امیدیں بصرہ کے قاضی، کعب بن سور پر تھیں لیکن جب اس کے پاس پیغام بھیجا تو اس نے بھی ناکثین کا ساتھ دینے سے پرہیز کیا اور جب لوگوں کوخبر ملی کہ اس نے بھی ساتھ دینے سے انکار کردیا ہے تو ارادہ کیا کہ اس سے ملاقات کریں او رروبرو اس سے گفتگو کریں لیکن اس نے ملاقات کرنے سے انکار کردیالہذا اب ان کے پاس عائشہ سے توسل کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا تاکہ وہ اس سے ملنے جائیں۔

عائشہ خچر پر سوار ہوئیں اور بصرہ کے لوگوں کا ایک گروہ ان کی سواری کے اطراف میں چلنے لگا وہ قاضی کے گھر گئیں قاضی سب سے بڑا قبیلہ ''ازد'' کا سردارتھا اور یمنی لوگوں کی نگاہ میں اس کا ایک خاص مقام تھا، عائشہ نے گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کی اور انھیں اجازت ملی، عائشہ نے اس کی معزولی کی وجہ دریافت کی ۔ اس نے جواب دیا۔ لازم نہیں ہے کہ میں اس فتنہ میں شریک رہوں، عائشہ نے کہا: میرے بیٹے اٹھو کیونکہ میں کچھ ایسی چیزیں دیکھ رہی ہوں جسے تم نہیں دیکھ رہے ہو (ان کا مقصد یہ تھا کہ فرشتے مومنین یعنی ناکثین کی حمایت کیلئے آئے تھے!) پھر انہوں نے کہا میں خدا سے خوف محسوس کر رہی ہوں کہ وہ سخت سزا دینے والا ہے اس طرح بصرہ کے قاضی کو ناکثین کا ساتھ دینے کے لئے راضی کرلیا۔

۴۱۶

زبیر کے بیٹے کی تقریر اورامام حسن مجتبیٰ ـ کا جواب

زبیر کا بیٹا اپنی فوج کو منظم کرنے کے بعد تقریر کرنے لگا اور اس کی آواز امام ـ کے دوستوں کے درمیان پہونچی اس وقت امام حسن ـ نے خطبے کے ذریعے عبداللہ کی باتوں کا جواب دیاپھر ایک کہنہ مشق شاعر نے امام حسن ـ کی شان میں قصیدہ پڑھا جس نے موجودہ لوگوں کے جذبات کو ابھار دیا امام مجتبیٰ ـ کا نوارنی کلام اور شاعر کا کلام ناکثین کے گروہ میں بہت زیادہ مؤثرثابت ہوا ،کیونکہ پیغمبر اسلام کی بیٹی کے فرزند نے عثمان کے سلسلہ میں طلحہ کے کردارکو آشکار کردیا یہی وجہ ہوئی کہ طلحہ تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوااور وہ قبیلے جو حضرت علی کے پیرو تھے انھیں منافق کہا، طلحہ کی تقریر ان لوگوںکے رشتہ داروں پر جو کہ طلحہ کی فوج میں تھے بہت گراں گزری،اچانک ایک شخص نے اٹھ کر کہا:اے طلحہ تم مضر، ربیعہ اور یمن کے قبیلے والوں کو گالی دے رہے ہو؟ خدا کی قسم، ہم لوگ ان سے اور وہ لوگ ہم سے ہیں زبیر کے پاس موجود لوگوںنے چاہا کہ اسے گرفتار کریں لیکن قبیلہ بنی اسد کے لوگوں نے منع کیا مگر بات یہیں پر ختم نہ ہوئی بلکہ ایک دوسرا شخص اسود بن عوف کھڑا ہوا اور اس نے بھی پہلے والے شخص کی بات کو دہرایا ۔ یہ تمام باتیں اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ طلحہ جنگجو تھا لیکن ایسے حساس موقع پر سیاست کے اصولوں سے باخبر نہ تھا ۔

۴۱۷

حضرت علی علیہ السلام کی تقریر

امام ـایسے حالات میں اٹھے اور ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں ان چیزوں کو بیان کیا:

''طلحہ اور زبیر بصرہ میں داخل ہوئے جب کہ بصرہ کے لوگ میرے مطیع و فرمانبردار اور میری بیعت میں تھے ان لوگوں نے ان کو میری مخالفت کے لئے اکسایا اور جس نے بھی ان کی مخالفت کی اسے قتل کردیا تم سب لوگ اس بات سے واقف ہو کہ انھوںنے حکیم بن جبلۂ اور بیت المال کے محافظوں کو قتل کر ڈالا اور عثمان بن حنیف کو نا گفتہ بہ صورت میںبصرہ سے نکال دیااب جب ان کی حقیقتوں کا پردہ چاک ہوگیاہے تو جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے ہیں۔

امام ـ کی تقریر کے بعد حکیم بن مناف نے امام ـ کی شان میں اشعار پڑھ کر امام کی فوج میں نئی روح پھونک دی اس کا دو شعر یہ ہے:

أبا حسن أ یقظت من کان نائماً

و ما کل من یدعی الی الحق یسمع

اے ابو الحسن! خواب غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو بیدار کردیا ورنہ ضروری نہیں ہے کہ جس کو حق کی دعوت دی جائے وہ اس کو سنے۔

۴۱۸

و أنت امرء أعطیت من کل وجهةٍ

محاسنَها و اللّه یعطی و یمنع

آپ ایسے شخص ہیں کہ ہر بہترین کمال آپ کوعطاہوا ہے اور خدا جسے بھی چاہے عطا کرے یا عطا نہ کرے۔

امام ـ نے ناکثین کو تین دن کی مہلت دی کہ شایدمخالفت کرنے سے باز آجائیں اور آپ کی اطاعت کرنے لگیں لیکن جب ان کے حق کی طرف آنے سے مایوس ہوگئے تو اپنے چاہنے والوں کے درمیان ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں ناکثین کے دردناک واقعات کو بیان کیا جب امام ـ خطبہ دے چکے تو شداد عبدی اٹھا اور مختصر طور پر اہل بیت پیغمبر سے اپنی صحیح شناخت کو ا س طرح بیان کیا :

''جب گناہگارزیادہ ہوگئے اوردشمن مخالفت کرنے لگے اس وقت ہم نے اپنے پیغمبر کے اہلبیت کے پاس پناہ لی۔ اہل بیت وہ ہیں جن کی وجہ سے خدا نے ہم لوگوں کو عزیز و محترم بنایا اور گمراہی سے ہدایت کی طرف راستہ دکھایا۔ اے لوگو! تم پر لازم ہے ان لوگوں کا دامن تھام لو۔ اور جوادھر ادھر بہک گئے ہیں ( اور ان سے منھ موڑ لیاہے) انھیں چھوڑ دو تاکہ وہ ضلالت و گمراہی کے کھنڈر میں چلے جائیں۔(۱)

______________________

(۱) الجمل، ص ۱۷۹۔ ۱۷۸۔

۴۱۹

امام ـ کا آخری مرتبہ اتمام حجت کرنا

۱۰ جمادی الاول ۳۶ ھ جمعرات کے دن امام ـ اپنے سپاہیوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور کہا: جلدی نہ کرو میں آخری مرتبہ اس گروہ پر اپنی حجت تمام کردوں ۔ اس وقت ابن عباس کو قرآن دیا اور کہا یہ قرآن لے کر ناکثین کے سرداروں کے پاس جاؤ اوران لوگوں کو اس قرآن کی دعوت دو اور طلحہ و زبیر سے کہو کیا ان لوگوںنے میری بیعت نہیں کی تھی؟ تو پھر کیوں بیعت کو توڑ دیا؟ اور ان سے کہنا کہ یہ خداکی کتا ب ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گی۔

ابن عباس سب سے پہلے زبیر کے پاس گئے اورامام ـ کے پیغام کوان تک پہونچایااس نے امام ـ کا پیغام سن کر جواب دیا۔ میری بیعت اختیاری نہ تھی اور مجھے قرآن کے فیصلے کی ضرورت نہیں ہے، پھر ابن عباس طلحہ کے پاس گئے اور اس سے کہا امیر المومنین نے کہا ہے کہ کیوں تم نے بیعت کو توڑ ڈالا؟ اس نے کہا: میں عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔

ابن عباس نے کہا: عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے عثمان کا بیٹا ''آبان'' سب سے زیادہ سزاوار ہے۔

طلحہ نے کہا: وہ کمزور آدمی ہے اور ہم اس سے زیادہ طاقتور ہیں۔ سب سے آخر میں ابن عباس عائشہ کے پاس گئے دیکھا کہ وہ اونٹ کے کجاوہ پر سوار بیٹھی ہیں اور اونٹ کی مہار بصرہ کا قاضی کعب بن سور پکڑے ہوئے ہے اور قبیلہ ازد اور ضبہ کے لوگ اس کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں جب عائشہ کی نظر ابن عباس پر پڑی تو کہا: کس لئے آئے ہو؟ جاؤ اور علی سے کہو کہ ان کے اور ہمارے درمیان تلوار کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔

ابن عباس امام ـ کی خدمت میں آئے اور پورا ماجرا بیان کیاامام ـ نے چاہا کہ دوسری مرتبہ اتمام حجت کریں تاکہ واضح و روشن دلیل کے ساتھ تلوار اٹھائیں لہذاآپ نے اس مرتبہ فرمایا: تم میں سے کون حاضر ہے جواس قرآن کواس گروہ کے پاس لے جائے۔ اور انھیں دعوت دے اور اگر اس کے ہاتھ کو کاٹ دیں تواسے دوسرے ہاتھ میں لے لے۔ اوراگر دونوں ہاتھ کاٹ دیں تو اسے دانتوں سے پکڑ لے؟

۴۲۰

ایک جوان نے اٹھ کر کہا: اے امیر المومنین میں اس کام کے لئے حاضر ہوں۔ امام ـ نے پھر اپنے دوستوں کے درمیان آواز دی لیکن اس نوجوان کے علاوہ کسی نے امام ـ کی آواز پر لبیک نہ کہا، لہٰذا امام ـ نے قرآن اسی جوان کو دیا اور کہا قرآن لے کر ان کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ یہ کتاب ابتدا سے انتہا تک ہمارے اور تمہارے درمیان حاکم ہے۔

وہ نوجوان امام ـ کے حکم کے مطابق قرآن لے کر دشمنوں کو پاس گیا دشمنوں نے اس کے دونوں ہاتھوں کو کاٹ دیا اس نے قرآن کو دانتوں سے دبایایہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہوگیا۔(۱)

اس واقعہ نے جنگ کو قطعی او رناکثین کی دشمنی کو واضح کردیا، اس کے باوجود امام ـ نے اپنا لطف و کرم دکھایا اور حملہ کرنے سے پہلے ارشاد فرمایا:

''میں جانتا ہوں کہ طلحہ و زبیر جب تک لوگوں کا خون نہیں بہالیں گے اپنے کام سے باز نہیں آئیں گے لیکن تم لوگ اس وقت تک جنگ شروع نہ کرنا جب تک وہ جنگ شروع نہ کریں ، اگر ان میں سے کوئی بھاگے تو اس کا پیچھا نہ کرنا، زخمیوں کو قتل نہ کرنا، اور دشمنوں کے بدن سے کپڑے نہ اتارنا''۔(۲)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۳ ص ۵۲۰۔

(۲) کامل ابن اثیر ج۳ ص ۲۴۳۔

۴۲۱

سویں فصل

حضرت علی ـ کے سپاہیوں کی بہادری

کائنات کے تمام حاکموں میں کوئی بھی حاکم علی جیسا نہیں جو دشمن کو اتنی زیادہ مہلت دے اور عظیم شخصیتوں اور قرآن کو فیصلہ کے لئے بھیجے اور جنگ شروع کرنے میں صبر و تحمل سے کام لے ، یہاں تک کہ دوستوں اور مخلصوں کی طرف سے شکوہ اور اعتراض ہونے لگے، یہی وجہ ہے کہ امام ـ مجبور ہوئے کہ اپنی فوج کو منظم کرکے اپنے سرداروں کو درج ذیل مقامات پر معین کریں:

ابن عباس کواگلے دستے کا سردار اور عمار یاسر کو تمام سواروں کا سردار او رمحمد بن ابی بکر کو پیدل حملہ کرنے والوں کا سردار معین کیا اواس کے بعد مذحج، ہمدان ، کندہ ، قضاعہ، خزاعہ، ازد، بکر، اور عبد القیس کے قبیلے کے سواروں اور پیدل چلنے والوں کے لئے علمبردار معین کیااس دن جتنے افراد چاہے پیدل چاہے سوار، امام ـ کے ہمراہ جنگ کرنے کے لئے آمادہ تھے ان کی تعداد کل سولہ ہزار (۱۶۰۰۰) تھی۔(۱)

______________________

(۱) الجمل ص ۱۷۲۔

۴۲۲

ناکثین کی طرف سے جنگ کا آغاز:

ابھی امام ـ اپنی فوج کو منظم اور جنگ کے اسرار و رموز سمجھانے میں مشغول تھے کہ اچانک دشمن کی طرف سے امام کے لشکر پر تیروں کی بارش ہونے لگی جس کی وجہ سے امام کی فوج کے کئی افراد شہید ہوگئے ۔ انہی میں سے ایک تیر عبداللہ بن بدیل کے بیٹے کو لگا اور اسے شہید کردیا۔

عبد اللہ اپنے بیٹے کی لاش لے کر امام کے پاس آئے اور کہا: کیا اب بھی ہم صبر و حوصلے سے کام لیں تاکہ دشمن ہمیں ایک ایک کر کے قتل کر ڈالیں؟ خدا کی قسم اگر مقصداتمام حجت ہے تو آپ نے ان پر اپنی حجت تمام کردی ہے۔

عبد اللہ کی گفتگو سن کر امام ـ جنگ کے لئے آمادہ ہوئے ، آپ نے رسول اسلام کی زرہ پہنی اور رسول اکرم کی سواری پر سوار ہوئے اور اپنی فوج کے درمیان کھڑے ہوئے۔

۴۲۳

قیس بن سعد بن عبادہ(۱) جو امام ـ کا بہت مخلص(گہرا) دوست تھا حضرت کی شان اور جو پرچم اٹھائے ہوئے تھا اس کے لئے اشعار پڑھا جس کا دو شعر یہ ہے:

هذا اللواء الذی کنا نحف به

مع النبی و جبرئیل لنا مدداً

ما ضرمن کانت الانصار عیبته

أن لا یکون له من غیرها أحداً

''یہ پرچم جس کو ہم نے احاطہ کیا ہے یہ وہی پرچم ہے جس کے سایہ میں پیغمبر کے زمانے میں جمع ہوئے تھے اوراس دن جبرئیل نے ہماری مدد کی تھی وہ شخص کہ جس کے انصار راز دار ہوں کوئی نقصان نہیں ہے کہ اس کے لئے دوسرے یاور و مددگار نہ ہوں''۔امام ـ کی منظم فوج نے ناکثین کی آنکھوں کو خیرہ کردیااو رعائشہ جس اونٹ پر سوار تھیں اسے میدان جنگ میں لائے اور اس کی مہار کو بصرہ کے قاضی کعب بن سور کے ہاتھوں میں سونپ دی اس نے قرآن اپنی گردن میں لٹکایا اور قبیلہ ازد اور ضبہ کے افراد نے ا ونٹ کو چاروں طرف سے اپنے احاطہ میں لے لیا عبد اللہ بن زبیر عائشہ کے سامنے اور مروان بن حکم اونٹ کے بائیں طرف کھڑے ہوئے فوج کی ذمہ داری زبیر کے ہاتھوں میں تھی اور طلحہ تمام سواروں کا سردار اور محمد بن طلحہ پیدل چلنے والوں کا سردار تھا۔

امام ـ نے جنگ جمل میں محمد بن حنفیہ کو علم لشکر دے کر آداب حرب کی تعلیم دی اور فرمایا:

'' تزول الجبال و لاتزل، عض علی ناجذ ک ، اعر اللہ جمجمتک ، تد فی الارض قدمک، ارم ببصرک أقصی القوم و غض بصرک و اعلم ان النصر من عند اللہ سبحانہ''۔(۲) پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں مگر تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا دانتوں کو بھینچ لینا، اپنا کاسٔہ سر خدا کو عاریةً دیدینا، اپنے قدم زمین میں گاڑ دینا، دشمن کی آخری صف پر نظر رکھنا (دشمن کی ہیبت و کثرت سے) آنکھیں بند رکھنا اور اس بات کا یقین رکھو کہ خدا کی طرف سے مدد ہوتی ہے۔

______________________

(۱) شیخ مفید اپنی کتا ب جمل میں تحریر کرتے ہیں کہ قیس بن سعد واردہوا اور شاید اس سے مراد قیس بن سعد بن عبادہ ہے۔

(۲) نہج البلاغہ، خطبہ ۱۱۔

۴۲۴

امام ـ کے دہن اقدس سے نکلا ہوا ہر جملہ بہترین شعار ہے جو تازگی عطا کرتا ہے یہاں پر اس کی شرح کرنا ممکن نہیں ہے۔

جب لوگوں نے محمد بن حنفیہ سے کہا کہ کیوںامام ـ نے انھیں میدان جنگ میں بھیجا اور حسن و حسین کو اس کام سے روکے رکھا۔ تو انھوںنے جواب دیا، میں اپنے بابا کا ہاتھ ہوں اور وہ ان کی آنکھیں ہیں وہ اپنے ہاتھ سے اپنی آنکھوں کی حفاظت کررہے ہیں۔(۱)

ابن ابی الحدید نے اس واقعہ کو مدائنی او رواقدی جیسے مؤرخین سے اس طرح نقل کیا ہے:

''امام اس گروہ کے ساتھ جسے ''کتیبة الخضرائ'' کہتے ہیں ا ور جس کے افراد مہاجرین و انصار سے تھے اور حسن و حسین اس کے اطراف کا احاطہ کئے ہوئے تھے ، ارادہ کیا کہ دشمن پر حملہ کریں۔ علم لشکر محمد بن حنفیہ کے ہاتھوں میں دیا اور آگے بڑھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: اتنا آگے بڑھو کہ پرچم کو اونٹ کی آنکھ میں گاڑھ دو امام کے بیٹے نے آگے بڑھنا شروع کیا لیکن تیروں کی بارش نے انھیں آگے بڑھنے سے روک دیا وہ تھوڑی دیر تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ تیروں کی بارشکم ہوجائے ،امام ـ نے اپنے بیٹے کو دوبارہ حملہ کرنے کا حکم دیا لیکن جب آپ نے احساس کیا کہ وہ تاخیر کر رہے ہیں تو ان کے حال پر افسوس کیا اور علم لشکر ان سے لے لیا اور اپنے داہنے ہاتھ میں تلوار اور بائیں ہاتھ میں علم لیا اور خود حملہ کرنا شروع کردیااور قلب لشکر میں داخل ہوگئے۔

چونکہ آپ کی تلوار لڑتے لڑتے کج ہوگئی تھی لہذا اسے سیدھی کرنے کے لئے اپنی فوج میں واپس آگئے، آپ کے ساتھیوں مثلاً عمار یاسر، مالک اشتر اور حسن و حسین نے آپ سے کہا ہم لوگ حملہ کریں گے اور آپ یہیں پر رک جائیں امام نے نہ ان لوگوں کا جواب دیا اور نہ ہی ان کی طرف دیکھا بلکہ شیر کی طرح ڈکاررہے تھے اور آپ کی پوری توجہ دشمن کی طرف تھی کسی کو بھی اپنے پاس نہیں دیکھ رہے تھے پھر آپ نے اپنے بیٹے کو دوبارہ علم دیا اور پھر دوسری مرتبہ حملہ کیا اور قلب لشکر میں داخل ہوگئے اور جو بھی آپ کے سامنے آتا اسے بچھاڑ دیتے دشمن انھیں دیکھ کر بھاگ جاتے اور ادھر ادھر پناہ لیتے تھے۔ اس حملہ میں امام ـ نے اتنے لوگوں کو قتل کیا کہ زمین دشمنوں کے خون سے رنگین ہوگئی، پھر اپنی فوج کی طرف واپس آگئے اور

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱ ص۲۴۴

۴۲۵

آپ کی تلوار پھر ٹیڑھی ہوگئی آپ نے اسے اپنے زانو پر رکھ کر سیدھا کیا، اس وقت آپ کے ساتھیوں نے آپ کو حلقے میں لے لیا اور خدا کی قسم دے کر کہا کہ اب آپ خود حملہ نہ کیجئے کیونکہ آپ کی شہادت کی وجہ سے اسلام ختم ہو جائے گا نیز مزید کہا: اے علی ! ہم آپ کے لئے ہیں ۔

امام ـ نے فرمایا: میں خدا کے لئے جنگ کر رہا ہوں او راس کی رضا کا طالب ہوں ۔ پھر اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ سے فرمایا دیکھو اس طرح سے حملہ کیا جاتا ہے ،محمد نے کہا: اے امیر المومنین آ پ کی طرح سے کون حملہ کرسکتا ہے۔

اس وقت امام نے مالک اشتر کو حکم دیا کہ دشمن کے لشکر کے بائیں طرف حملہ کرو جس کا سردار ہلال تھا، ا س حملے میں ہلال مارا گیا اور بصرہ کا قاضی کعب بن سور جس کے ہاتھ میں اونٹ کی مہار تھی اور عمر بن یثربی ضبی جو لشکر جمل کا سب سے بہادر سپاہی تھا اور بہت دنوں تک عثمان کی طرف سے بصرہ کا قاضی تھا مارے گئے ۔ بصرہ کے لشکر والوں کی کوشش یہ تھی کہ عائشہ کا اونٹ کھڑا(صحیح و سالم)رہے کیونکہ وہی ثبات و استقامت کا نشان تھا ،اس وجہ سے امام کے لشکر نے پہاڑ کی طرح جمل پر حملہ کیا اور دشمنوں نے بھی پہاڑ کی طرح حملہ کا دفاع کیا ،اس کی حفاظت کے لئے ناکثین کے ستر لوگوں نے اپنے ہاتھ کٹوا دیئے۔(۱)

اس وقت سر گردنوں سے کٹ کر گر رہے تھے ،ہاتھ جوڑوں سے کٹ رہے تھے ،دل اور انتٹریاں پیٹ سے باہر نکل رہی تھیں، ان سب کے باوجود تمام ناکثین ٹڈیوں کی طرح جمل کے اطراف میں ثابت قدم تھے اس وقت امام ـ نے فریاد بلندکی:

''ویلکم اعقروا الجمل فانہ شیطان ، اعقروہ و الا فنیت العرب لایزال السیف قائماً و راکعاً حتی یہوی ہذا البعیر الی الارض''

وائے ہو تم پر، عائشہ کے اونٹ کو قتل کردو وہ شیطان ہے اس کو قتل کرو عرب ختم ہو جائیں گے اور تلواریں مسلسل اس وقت تک چلتی رہیں گی جب تک یہ اونٹ کھڑا رہے گا۔(۲)

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱، ص ۲۶۵۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱، ص ۲۶۷۔ ۲۵۷۔

۴۲۶

امام ـ کا اپنی فوج کی حوصلہ افزائی کرنے کا طریقہ

امام ـ اپنے لشکرکی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے یہ نعرہ لگاتے تھے ''یا مَنصُورُ اَمِت'' یا کبھی ''حم لاینصرون'' کہتے تھے اور یہ دونوں نعرہ حضرت رسول اکرم نے لگایا تھا اور مشرکوں سے جنگ کے وقت لگایا جاتا تھا ،ان نعروں کی گونج نے دشمن کی فوج میں عجیب لرزہ طاری کردیاکیونکہ ان لوگوں کو مسلمانوں کا مشرکوں سے جنگ کرنا یاد آگیا یہی وجہ ہے کہ عائشہ نے بھی اپنی فوج کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے نعرہ لگایا''یا بنی الکرة الکرة، اصبروا فانی ضامنة لکم الجنة'' یعنی اے میرے بیٹو برد بار رہو اور حملہ کرو میں تمہاری بہشت کی ضامن ہوں۔

اس نعرے کی وجہ سے لشکر والے ان کے ارد گرد جمع ہوگئے اور اتنا آگے بڑھے کہ امام کا لشکر چند قدم کے فاصلے پر تھا۔

عائشہ نے اپنے چاہنے والوںکے جذبات ابھارنے کے لئے ایک مٹھی مٹی مانگی اور جب انھیں مٹی دی گئی تو انہوں نے امام کے چاہنے والوں کی طرف پھینکا اور کہا: ''شاہت الوجوہ'' یعنی تم لوگوںکا چہرہ کالا ہو جائے ۔انہوں پیغمبر کی تقلید کی کیونکہ حضرت نے بھی جنگ بدر میں ایک مٹھی خاک اٹھائی تھی اور دشمنوں کی طرف پھینکی تھی اور یہی جملہ فرمایا تھا اور خدا نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل کی: ''و ما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمیٰ''(۱) عائشہ کا یہ عمل دیکھنے کے بعد فوراً ہی امام ـ نے فرمایا: ''و ما رمیت اذ رمیت و لکن الشیطان رمی'' یعنی اگر پیغمبر کے لئے خدا کا ہاتھ پیغمبر کی آستین سے باہر ہوا تو عائشہ کے لئے شیطان کا ہاتھ اس کی آستین سے ظاہر ہواہے۔

اونٹ کا گرنا

عائشہ کا اونٹ ایک بے منھ جانور تھا اور اسے برے مقصد تک پہونچنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا اس پر کجاوہ لگا کر بڑے احترام سے عائشہ کو بٹھایا گیا تھا بصرہ کے سپاہی اس کی بڑی شدت سے حفاظت کر رہے تھے اور بہت زیادہ لوگ محافظ تھے جب بھی کوئی ہاتھ کٹتا تو دوسرے ہاتھ میں اونٹ کی مہار چلی جاتی بالآخر اونٹ کی مہار پکڑنے کے لئے کوئی آگے نہ بڑھا، زبیر کے بیٹے نے سبقت دکھائی اور اونٹ کی مہار پکڑ لی لیکن مالک اشتر نے اس پر حملہ کردیااور اسے زمین پر پٹک دیااور اس کی گردن کو پکڑا جب زبیر کے بیٹے کو یہ احساس ہوا کہ وہ مالک اشتر کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا تو اس نے فریاد بلند کی اے لوگو! حملہ کرو اور مالک کو قتل کردو اگر چہ

۴۲۷

میں بھی قتل ہوجائوں ۔(۱)

مالک اشتر نے اس کے چہرے پر ایک وار کر کے اسے چھوڑ دیا لوگ عائشہ کے اونٹ کے پاس سے دور ہوگئے امام ـ نے اس کے پاؤں کاٹنے کا حکم دیا تاکہ دشمن عائشہ کا اونٹ دیکھ کر دوبارہ اس کی طرف واپس نہ آئیں۔ پیر کٹتے ہی اونٹ زمین پر گر پڑا اور کجاوہ بھی گر گیا اس وقت عائشہ کی ایسی فریاد بلند ہوئی کہ دونوں لشکر کے سپاہیوں نے سنا، امام ـ کے حکم سے محمد بن ابوبکر بہن کے کجاوے کے پاس پہونچے اور اس کی رسیوں کو کھولا۔

اس جنگ میں جو گفتگو بہن اور بھائی کے درمیان ہوئی ہم اسے مختصراً نقل کر رہے ہیں:

عائشہ: تم کون ہو؟

محمد بن ابوبکر: تیرے گھر کا ایک شخص جو تیرا سب سے بڑا دشمن ہے۔

عائشہ: تو اسماء خثعمیہ کا بیٹا ہے؟

محمد بن ابوبکر: ہاں، لیکن وہ تیری ماں سے کم نہ تھی۔

عائشہ: یہ بات صحیح ہے کہ وہ شریف عورت تھی اس سے کیا بحث ، خدا کا شکرکہ تم سالم ہو۔

محمد بن ابوبکر:لیکن تم مجھے سالم دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔

عائشہ: اگر تجھے سالم دیکھنا نہ چاہتی تو ایسی گفتگو نہ کرتی۔

محمد بن ابوبکر:تو اپنی کامیابی چاہتی تھی اگرچہ میں قتل بھی کردیا جاتا۔

عائشہ: میں جس چیز کو چاہتی تھی وہ میرے نصیب میں نہیں میری آرزو تھی کہ تو صحیح و سالم بچ جائے یہ سب باتیں چھوڑو اور لعنت و ملامت نہ کرو ، جس طرح سے کہ تمہارا باپ ایسانہ تھا۔

علی عائشہ کے کجاوے کے پاس پہونچے اور اپنے نیزے سے اس پر مارا اور کہا: اے عائشہ ، کیا رسول اسلام نے تمہیں اس کام کو انجام دینے کا حکم دیا تھا؟

اس نے امام ـ کے جواب میں کہا: اے ابو الحسن اب جب کہ تم کامیاب ہوگئے ہو تو مجھے معاف کردو۔

______________________

(۱) اس نے یہ کہا:اقتلونی و مالکاً، و اقتلوا مالکاً معی ۔

۴۲۸

تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ عمار یاسر اور مالک اشتر بھی وہاں پہونچ گئے اوران لوگوں کے درمیان درج ذیل گفتگو ہوئی۔

عمار: اماں! آج اپنے بیٹوں کودیکھا کہ راہ راست پر دین کی راہ میں کس طرح تلواریں چلارہے تھے؟ عائشہ نے ان سنی کردیا اور کوئی جواب نہ دیا کیونکہ عمار پیغمبر اسلام کے جلیل القدر صحابی اور قوم کے بزرگ تھے۔

مالک اشتر: خدا کا شکر کہ اس نے اپنے امام کی مدد کی اور اس کے دشمنوں کو ذلیل و خوار کیا، حق آیا اور باطل مٹ گیا کیونکہ باطل تو مٹنے ہی والا ہے، اے مادر! آپ نے اپنے کام کو کیسا پایا؟

عائشہ: تم کون ہو تمہاری ماں تمہارے غم میں بیٹھے؟!

مالک اشتر: میں آپ کا بیٹا مالک اشتر ہوں۔

عائشہ: تم جھوٹ بول رہے ہو میں تمہاری ماں نہیں ہوں۔

مالک اشتر: آپ میری ماں ہیں اگرچہ آپ قبول نہ کریں۔

عائشہ: تم وہی ہو جو میری بہن اسماء کو ان کے بیٹے (عبد اللہ بن زبیر) کے غم میں بٹھا نا چاہتا تھا؟۔

مالک اشتر: یہ کام میں اس لئے انجام دیتا تاکہ خدا کے سامنے عذر پیش کرسکتا ( یہ خدا کے حکم کی بجآوری کے لئے تھا) ۔

پھر عائشہ (جب کہ سوارہو رہی تھیں) نے کہا: تم نے افتخار حاصل کرلیا اور کامیاب ہوگئے خدا کا کام قابل نتیجہ ہوتا ہے۔

امام ـ نے محمد بن ابوبکر سے فرمایا: کہ اپنی بہن سے پوچھوکوئی تیر تو نہیں لگا؟ کیونکہ عائشہ کا کجاوہ تیر لگنے سے ساہی کے کانٹے کی طرح ہوگیا ہے۔

۴۲۹

اس نے اپنے بھائی کے جواب میں کہا صرف ایک تیر میرے سر پر لگا ہے محمد نے اپنی بہن سے کہا خداوند عالم قیامت کے دن تمہارے خلاف فیصلہ کرے گا، کیوں کہ تم نے امام کے خلاف قیام کیا اور لوگوں کو ان کے خلاف اکسایا اور خدا کی کتاب کو نظر انداز کیا ہے عائشہ نے کہا: مجھے چھوڑ دو اور علی سے کہو مجھے مشکلات و پریشانیوں سے بچائیں (میری حفاظت کریں)

محمد بن ابوبکر نے امام ـ کو اپنی بہن کی سلامتی و خیریت سے آگاہ کیا ۔ امام ـ نے فرمایا: وہ ایک عورت ہیں اورعورتیں منطقی نقطۂ نظر سے طاقتور نہیں ہوتیں تم اس کی حفاظت کی ذمہ داری لو اور اسے عبد اللہ بن خلف کے گھر پہونچا دو تاکہ اس کے بارے میں کوئی تدبیر کریں۔

عائشہ پر امام ـ اور ان کے بھائی کا رحم و کرم ہوا مگر عائشہ مسلسل امام ـ کو برا بھلا کہتی رہیں۔ اور جنگ جمل میں قتل ہونے والوں کی بخشش و مغفرت کی دعا میں مشغول رہیں۔(۱)

______________________

(۱) الجمل، ص ۱۹۸۔ ۱۶۶؛ تاریخ طبری، ج۳، ص ۵۳۹۔

۴۳۰

طلحہ و زبیر کا انجام

مؤرخین کا کہنا ہے کہ طلحہ کا قتل مروان کے ہاتھوں ہوا کیونکہ جب طلحہ نے اپنے سپاہیوں کو شکست کھاتے ہوئے دیکھا اور اپنی موت کو آنکھوں سے دیکھ لیاتو راہ فرار اختیار کیا اس وقت مروان کی نگاہ اس پر پڑی ا ور اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ عثمان کے قتل کرنے میں سب اہم رول اسی کا تھا لہذا اسے تیر مار کر زخمی کردیا طلحہ کو یہ احساس ہوا کہ یہ تیر خود اس کی فوج نے پھینکا ہے لہذا اس نے اپنے غلام سے کہا کہ اسے جلدی سے یہاں سے دوسری جگہ پر پہونچا دے ، بالآخر طلحہ کے غلام نے اسے ''بنی سعد'' کے کھنڈر میں پہونچا دیا۔ طلحہ کے بدن سے خون بہہ رہا تھا اس نے کہا: کسی بھی بزرگ کا خون ہماری طرح آلودہ نہیں ہوا ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ روح اس کے بدن سے نکل گئی۔

زبیر کا قتل

جنگ جمل کا دوسرے فتنہ پرورزبیرنے جب شکست کا احساس کیا تو مدینہ کی طرف بھاگنے کا ارادہ کیا وہ بھی قبیلہ ''احنف بن قیس'' کے راستے سے اس قبیلہ نے امام ـ کے حق جنگ میں شرکت کرنے سے پرہیز کیا تھا، قبیلہ کا سردار زبیر کی اس نامردی پر بہت غضبناک ہوا، کیونکہ اس نے انسانی اصولوں کے خلاف لوگوں کو اپنے مفاد کے لئے قربان کردیا تھا اور اب چاہتا تھا کہ میدان سے بھاگ جائے۔

احنف کے ساتھیوں میں سے عمرو بن جرموز نے ارادہ کیا کہ جتنے لوگوں کا خون بہا ہے اس کا بدلہ زبیر سے لے، لہٰذا اس کا پیچھا کیا اور جب وہ راستے میں نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو پیچھے سے حملہ کیا اور

۴۳۱

اسے قتل کر ڈالا اس کا گھوڑا ، انگوٹھی اور اس کی تلوار ضبط کرلیااور جو نوجوان اس کے ساتھ تھا اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا، اس جوان نے زبیر کو ''وادی السباع'' میں سپرد خاک کیا۔(۱)

عمرو بن جرموز احنف کے پاس واپس آیا اور اس نے زبیر کے حالات سے آگاہ کیا اس نے کہا: مجھے نہیں معلوم کہ تم نے نیک کام انجام دیا یا برا، پھر دونوں امام ـ کی خدمت میں آئے جب امام ـ کی نظر زبیر کی تلوار پر پڑی تو آپ نے فرمایا:''طالماً جلی الکرب عن وجه رسول الله'' یعنی، اس تلوار نے کئی مرتبہ پیغمبر کے چہرے سے غم کے غبار کو ہٹایا تھا۔ پھر اس تلوار کو عائشہ کے پاس بھیج دیا۔(۲)

جب حضرت کی نظر زبیر کے چہرے پر پڑی تو آپ نے فرمایا:''لقد کنت برسول الله صحبة و منه قرابةً و لکن دخل الشیطان منخرک فأوردک هذا المورد'' (۳)

یعنی تو مدتوں پیغمبرکے ہمراہ تھا اور ان کا رشتہ دار بھی تھا لیکن شیطان نے تیری عقل پر غلبہ پیدا کر لیا اورتجھے اس انجام تک پہونچا دیا۔

جنگ جمل میں قتل ہونے والوں کی تعداد

تاریخ نے جنگ جمل میں قتل ہونے والوں کی تعداد کو معین نہیں کیا اور اس سلسلے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے شیخ مفید لکھتے ہیں کہ بعض مؤرخین نے جنگ جمل میں مارے جانے والوں کی تعداد ۲۵ ہزار لکھا ہے جب کہ عبداللہ بن زبیر (اس معرکہ کا فتنہ پرور انسان) نے قتل ہونے والوں کی تعداد ۱۵ ہزار لکھا ہے اور شیخ مفید نے دوسرے والے قول کو ترجیح دیا ہے اور لکھتے ہیں کہ مشہور یہ ہے کہ مارے جانے والوں کی کل تعداد ۱۴ ہزار تھی۔(۴)

طبری نے اپنی کتاب میں مارے جانے والوں کی تعداد ۱۰ ہزار نقل کی ہے جس کی نصف تعداد عائشہ کے لشکر اور نصف تعداد امام ـ کے لشکر کی ہے ۔ پھر دوسرا نظریہ نقل کرتا ہے جس کا نتیجہ جو کچھ ہم

______________________

(۱) الجمل، ص ۲۰۴؛ تاریخ ابن اثیر، ج۳، ص ۲۴۴۔ ۲۴۳۔ ----- (۲) تاریخ طبری، ج۳، ص ۵۴۰؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱، ص ۲۳۵۔

(۳) الجمل، ص ۲۰۹۔-----(۴) الجمل، ص ۲۲۳۔

۴۳۲

نے زبیر سے نقل کیا ہے دونوں ایک ہی ہے۔(۱)

جنگ جمل میں قتل ہونے والوں کی تدفین

جنگ جمل کا واقعہ ۱۰ جمادی الثانی ۳۶ ھ کو جمعرات کے دن رونما ہوا اور ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا(۲) کہ عائشہ کے اونٹ گرنے اور کجاوہ کے ٹیڑھے ہونے سے جنگ ختم ہوگئی اور ایک بھی معقول ہدف نہ ہونے کی وجہ سے غالباً ناکثین نے راہ فرار اختیار کرلی، مروان بن حکم نے قبیلۂ ''عنزہ'' کے گھر میں پناہ لی۔

اور نہج البلاغہ میں حضرت علی کے کلام سے استفادہ ہوتا ہے کہ حسنین نے امام ـ سے اس کی حفاظت کی درخواست کی، لیکن سب سے عمدہ بات یہ کہ جب حسنین نے آپ سے عرض کیا کہ مروان آپ کی بیعت کرلے گا تو امام ـ نے فرمایا:

''أولم یبایعنی بعد قتل عثمان؟ لا حاجة لی فی بیعته انها کف یهودیة لو بایعنی بکفه لغدر بسبته اما ان له امرة کلعقة الکلب أنفه، و هو ابو الاکبش الاربعة و ستلقی الامة منه و من ولده یوماً أحمر'' ۔(۳)

کیاعثمان کے قتل کے بعد اس نے میری بیعت نہیں کی تھی اب مجھے اس کی بیعت کی ضرورت نہیں ہے یہ ہاتھ تو یہودی والا (یعنی مکار ہاتھ ہے، اس لئے کہ یہودی اپنی مکر و حیلہ میں ضرب المثل ہیں۔مترجم) ہاتھ ہے اگر یہ ہاتھ سے میری بیعت کرلے گا توذلت کے ساتھ اسے توڑ بھی دے گا یاد رکھو اسے ایسی حکومت ملے گی جس میں کتّا اپنی ناک چاٹتا ہے اور اس کے چار بیٹے بھی بس اتنی ہی دیر کے لئے حکمران ہوں گے اور وہ دن جلد آنے والا ہے جب امت کواس کے اور اس کے بیٹوں کے ذریعے سرخ (خونی) دن دیکھنا نصیب ہوگا۔

عبداللہ ابن زبیر نے ایک ازدی کے گھر میں پناہ لی تھی اور عائشہ کو اس بات کی خبر دے دی تھی عائشہ نے اپنے بھائی محمد بن ابوبکر کو جو امام ـ کے حکم سے عائشہ کی حفاظت کر رہے تھے ، عبد اللہ کے پاس بھیجا جہاں وہ پناہ لئے تھا تاکہ اسے عبد اللہ بن احنف کے گھر پہونچا دے ،کیونکہ عائشہ بھی وہیں تھیں ۔ بالآخر عبد اللہ بن زبیر اور مروان نے بھی وہیں

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۳، ص ۵۴۳۔-----(۲) ابن ابی الحدید نے جنگ ہونے کی مدت دو دن لکھی ہے ، ج۱، ص ۲۶۲۔

(۳) نہج البلاغہ، خطبہ ۷۱۔

۴۳۳

پناہ لی۔(۱) پھر دن کے باقی حصے میں امام ـ میدان جنگ میں آئے اور بصرہ کے لوگوں کو بلایاتاکہ اپنے مرنے والوں کو دفن کریں۔ طبری کے نقل کر نے کے مطابق، امام نے ناکثین کے گروہ میں شامل بصرہ اور کوفہ کے لوگوں کی نماز جنازہ پڑھی اور جو آپ کے ساتھی جام شہادت نوش کرچکے تھے ان پر بھی نماز پڑھی اور سب کو ایک بڑی قبر میں دفن کردیا اور پھر حکم دیا کہ لوگوں کے تمام مال و اسباب کو انھیں واپس کردیں ، صرف ان اسلحوں کو واپس نہ کریں جن پر حکومت کی نشانی ہوپھر فرمایا:

''لا یحلُّ لمسلمٍ من المسلم المتوفی شیئ'' (۲)

مردہ مسلمان کی کوئی بھی چیز دوسروں کے لئے حلال نہیں ہوگی۔

امام ـ کے بعض ساتھیوں نے بہت اصرار کیا کہ ناکثین کے ساتھ جنگ گویا مشرکوں کے ساتھ جنگ گرنا ہے یعنی جتنے لوگ گرفتار ہوئے ہیںانھیں غلام بنایاجائے اور ان کا مال تقسیم کردیا جائے

امام ـ نے اس سلسلے میں فرمایا:''أیکم یأخذ ام المومنین فی سهمه'' (۳) یعنی تم میں سے کون حاضر ہے جو عائشہ کو اپنے حصے کے طور پر قبول کرے؟ امام جعفرصادق ـ نے ایک حدیث میں اس گروہ کے متعلق جسے فقہ اسلامی نے ''باغی'' کے نام سے تعبیر کیا ہے، فرمایا ہے:

''ان علیاً علیه السلام قتل اهل البصرة و ترک أموالهم ، فقال ان دار الشرک یحل ما فیها و ان دار الاسلام لایحل ما فیها ان علیا انما من علیهم کما من رسول الله صلی اللّٰه علیه وآله وسلم علی اهل مکة'' ۔(۴)

امام ـ نے اہل بصرہ کو ان کی بغاوت کی وجہ سے قتل کیا تھا لیکن ان کے مال و اسباب کو ہاتھ نہ لگایا کیونکہ مشرک کا حکم اور مسلمان باغی کا حکم برابر نہیں ہے اسلامی فوج کو جو کچھ بھی مشرک و کافر کے علاقہ سے ملے اس کا لے لینا حلال ہے لیکن جو کچھ سرزمین اسلام پر پایا جائے حلال نہیں ہوگا جیسا کہ علی نے ان پر احسان کیا جیسا کہ پیغمبر اسلام نے اہل مکہ پراحسان کیا تھا۔

______________________

(۱)امام علیہ السلام نے اپنے اس کلام میں غیب کی چند خبروں سے آگاہ کیاتھا۔------(۲) تاریخ طبری، ج۲، ص ۵۴۳۔

(۳) وسائل الشیعہ، ج۱۱، باب ۲۵، ابواب جہاد۔------(۴) وسائل الشیعہ، ج۱۱، باب ۲۵، ابواب جہاد، اس سلسلے میں ابن ابی الحدید کا دوسرا نظریہ ہے وہ کہتا ہے کہ امام نے جوکچھ بھی میدان میں تھا سب کو لے لیااور اپنے لشکر کے درمیان تقسیم کردیا۔

۴۳۴

حضرت علی ـ کی مقتولین سے گفتگو

جنگ بدر میں پیغمبر اسلام (ص)نے قریش کے لاشوں کو ایک کنویں میں ڈالا اور پھر ان سے گفتگو کرنے لگے اور جب حضرت سے لوگوں نے کہا کہ کیا مردے بھی زندوں کی باتیں سنتے ہیںتو آپ نے فرمایا: تم لوگ ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔(۱)

امیر المومنین علیہ السلام میدان جمل میں لاشوں کے درمیان سے گزر رہے تھے کہ عبد اللہ بن خلف خزاعی کو دیکھا جو خوبصورت کپڑے پہنے تھا لوگوں نے کہا وہ ناکثین کے لشکر کا سردار تھا امام ـ نے فرمایا: ایسا نہیں تھا بلکہ وہ ایک شریف اور اچھا انسان تھا پھر آپ کی نظر عبد الرحمن بن عتاب بن اسید پر پڑی تو آپ نے فرمایا: یہ شخص ناکثین کا سردار اور رئیس تھا پھر آپ قتل گاہ میں ٹہلتے رہے یہاں تک کہ قریش کے گروہ کے کچھ لاشوں کو دیکھا اور فرمایا: خدا کی قسم، تمہاری یہ حالت میرے لئے غم کا باعث ہے لیکن میں نے تم پر حجت تمام کردی تھی لیکن تم لوگ نا تجربہ کار نوجوان تھے اور اپنے کام کے نتیجے سے باخبر نہ تھے۔

پھر آپ کی نگاہ بصرہ کے قاضی کعب بن سور پر پڑی جس کی گردن میں قرآن لٹکا ہوا تھا آپ نے حکم دیا کہ اس کی گردن سے قرآن نکال کر کسی پاک جگہ پر رکھ دیا جائے پھر فرمایا: اے کعب! جو کچھ میرے خدا نے وعدہ کیا تھا اسے میں نے صحیح اور استوار پایا۔ اور کیا تو نے بھی جو کچھ تیرے پروردگار نے تجھ سے وعدہ کیا تھا صحیح پایا؟ پھر فرمایا:

''لقد کان لک علم لونفعک ، و لکن الشیطان أضلَّک فأزلک فعجَّلک الی النار'' (۲)

______________________

(۱) سیرۂ ہشام، ج۱، ص ۶۳۹۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱، ص ۳۴۸۔

۴۳۵

تیرے پاس علم تھااے کاش (تیرا وہ علم) تجھے فائدہ پہونچاتا لیکن شیطان نے تجھے گمراہ کیا اور تجھے بہلا پھسلا کر جہنم کی طرف لے گیا۔

اور جب امام ـ نے طلحہ کی لاش کودیکھا تو فرمایا: اسلام میں تیری خدمات تھیں جو تجھے فائدہ پہونچا سکتی تھیں لیکن شیطان نے تجھے گمراہ کردیااور تجھے بہلایا اورتجھے جہنم کی طرف لے گیا۔(۱)

تاریخ کے اس حصے میں امام ـ نے باغیوں کی صرف مذمت کی اور اہل جہنم کی شناخت کرائی اس کے علاوہ دوسری چیزیں بیان نہیں کی ہیں لیکن معتزلہ فرقہ کا کہنا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ اپنی موت سے پہلے اپنے کام پر شرمندہ ہوئے تھے اور توبہ کرلیاتھا۔ ابن ابی الحدیدجو مذہب معتزلہ کا بہت بڑا مدافع ہے لکھتا ہے کہ بزرگوں سے روایت ہے کہ علی نے فرمایا : طلحہ کو بٹھائو اور اس وقت اس سے کہا:

''یعز علی با أبا محمد أن اراک معفراً تحت نجوم السماء و فی بطن هذا الوادی ابعد جهادک فی الله و ذبک عن رسول الله؟''

یہ بات میرے لئے سخت ناگوار ہے کہ تجھے زیر آسمان اور اس بیابان میں خاک آلوددیکھوں کیا سزاوار تھا کہ خدا کی راہ میں جہاد اور پیغمبر خدا سے دفاع کے بعد تم ایسا کام انجام دو؟ اس وقت ایک شخص امام ـ کی خدمت میں پہونچا اور کہا: میں طلحہ کے ساتھ تھا جب اسے اجنبی کی جانب سے تیر لگا تو اس نے مجھ سے مدد مانگی اور پوچھا : تم کون ہو؟

میں نے کہا: میں امیر المومنین کے دوستوں میں سے ہوں۔

اس نے کہا: تم اپنا ہاتھ مجھے دو تاکہ میں تمہارے وسیلے سے امیر المومنین کی بیعت کروں پھر اس نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر بیعت کی ۔

امام ـ نے اس موقع پر فرمایا: خدا نے چاہا کہ طلحہ نے جس حالت میں میری بیعت کی ہے اسے جنت میں لے جائے۔(۲)

تاریخ کا یہ حصہ افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیا طلحہ امام ـ کے مقام و منزلت اور آپ کی حقانیت

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱، ص ۳۴۸۔----(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱، ص ۳۴۸۔

۴۳۶

و شخصیت سے واقف نہ تھا؟ اس طرح کی توبہ وہ لوگ کرتے ہیں جو مدتوں جہالت میں زندگی بسر کرتے ہوں اور جب جہالت کا پردہ ان کی آنکھوں سے ہٹ جاتا ہے تو وہ حقیقت کا نظارہ کرتے ہیں ،جب کہ طلحہ شروع سے ہی حق و باطل کے درمیان فرق کو جانتا تھا۔ اس کے علاوہ اگر اس افسانہ کو صحیح مان بھی لیاجائے تو قرآن کریم کی نظر میں طلحہ کے توبہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے :

''و لیست التوبة للذین یعملون السیئات حتی اذا حضرَ أحدُهم الموتَ قال انی تُبتُ الآن و لا الذین یموتون و هم کفار اولٰئک أعتد نا لهم عذاباً ألیماً'' (۱)

اوران لوگوں کی توبہ جو لوگ برے کام انجام دیتے ہیںاور پھر موت کے وقت کہتے ہیں کہ میں نے توبہ کرلیا ہے تو وہ قابل قبول نہیں ہے اوران لوگوں کی توبہ ایسی ہے کہ وہ مرتے ہیں جب کہ ان کی موت کفر کی ہوتی ہے اور ان لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔

بہرحال، کیا صرف امام ـ کی بیعت کرنے سے اس کے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں گے؟اس نے زبیر اور ام المومنین کی مدد و مشورت سے بصرہ کے میدان میں بہت زیادہ لوگوں کا خون بہایا ہے ، یہاں تک کہ ان لوگوں کے حکم سے بہت سے گروہ مثل گوسفند ذبح کئے گئے ہیں لوگ رسول خدا کے صحابیوں کی اس طرح کی بے فائدہ طرفداری کرتے ہیںاور چاہتے ہیں کہ سب کو عادل مانیں۔

______________________

(۱) سورۂ نسائ، آیت ۱۶۔

۴۳۷

بصرہ کی شکست، امام ـ کا خطوط لکھنا، اور عائشہ کو مدینہ روانہ کرنا

امام ـ کی فوج اور بصرہ کے بے وفاؤں کے درمیان جنگ کے احتمال کی خبر ، تجارت کرنے والے گروہ جو اس راستے سے عراق، حجاز، شام وغیرہ آتے جاتے تھے، کے ذریعے تمام اسلامی ملکوںتک پہونچ گئی اور مسلمان اور عثمان کے کچھ چاہنے والے اس واقعہ کی خبر سننے کے لئے بے چین تھے اور دونوں گروہوں میں سے ایک کی کامیابی اور دوسرے کی شکست بہت ہی اہمیت کی حامل تھی۔ اسی وجہ سے امام ـ نے مقتولین دفن کرنے کا حکم دیا، اور میدان جنگ کا جائزہ لینے کے بعد، اور بعض قیدیوں کو ان کے خیمہ میں واپس لے جانے کا حکم دینے کے بعد، اپنے کاتب عبد اللہ بن ابی ارفع کو بلایا اور کچھ خطوط املاء کئے (لکھوائے) اور امام کے منشی نے تمام چیزوںکو خط میں لکھا اور خط میں کوفہ اور مدینہ کے مومنین سے مخاطب ہوئے کیونکہ یہی

دو علاقے اس زمانے میں اسلام کے سب سے حساس علاقے تھے، اور اسی کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنی بہن ام ہانی بنت ابو طالب کو بھی خط لکھا ۔ امام ـ نے اس طرح کے خطوط لکھ کر اپنے دوستوںکو خوشحال اور مخالفت کرنے والوں کو ناامید کردیا۔

۴۳۸

شیخ مفید نے ا ن تمام خطوط کی عبارت کو اپنی کتاب(۱) میں بطور کامل نقل کیا ہے ،لیکن طبری نے تمام خطوط میں سے امام ـ کے صرف اس خط کو بہت مختصر طریقے سے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے جو آپ نے کوفہ کے لوگوں کے نام لکھا تھا،اور چونکہ اس نے اپنی کتاب کے اس حصے کو تحریر کرنے میں سیف بن عمر کی تحریرپر اعتماد و کیا ہے لہذا اس نے حقِّ مطلب ادا نہیں کیا ہے اور حساس مطالب کو فقط سادگی سے نقل کرکے آگے بڑھ گیا ہے۔

امام ـ نے جو خط (طبری کے نقل کرنے کے مطابق) کوفہ کے لوگوںکے نام لکھا ہے اس میں جنگ کی تاریخ ۱۵ جمادی الثانی ۳۶ھ اورجنگ کی جگہ خربیہ لکھی ہے ۔

جی ہاں امام ـ دوشنبہ کے دن ''خربیہ'' سے بصرہ روانہ ہوئے تھے اور جب آپ بصرہ کی مسجد میں پہونچے تو آپ نے وہاں دو رکعت نماز پڑھی اور پھر سیدھے عبداللہ بن خلف خزاعی کے گھر پہونچے جس کا گھر بصرہ میں سب سے بڑا تھا اور عائشہ کو اسی گھر میں رکھا گیا تھا۔

عبد اللہ، عمر کی خلافت کے زمانے میں دیوان بصرہ کا کاتب تھا جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں وہ اور عثمان کے بھائی جنگ جمل میں مارے گئے تھے۔ بعض لوگوں کا کہناہے کہ اس نے پیغمبرکا زمانہ بھی دیکھا تھا(۲) اگرچہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔

جب امام ـ عبداللہ کے گھر میں داخل ہوئے اس وقت اس کی بیوی صفیہ بنت حارث بن طلحہ بن ابی طلحہ گریہ و زاری میں مشغول تھی، عبد اللہ کی بیوی نے امام ـ کی توہین کی اور آپ کو ''قاتل الأحبة'' اور ''مفرق الجمع'' کہا۔ لیکن امام ـ نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر عائشہ کے کمرے میں گئے اور انھیں سلام کیااور ان کے پاس بیٹھ گئے اور صفیہ نے جو اہانت کی تھی اسے بیان کیا۔ یہاں تک کہ جب امام ـ

عبد اللہ کے گھر سے نکل رہے تھے اس وقت بھی صفیہ نے دوبارہ توہین کی اس وقت امام ـ کے دوستوںسے برداشت نہ ہوسکا اور عبداللہ کی بیوی کودھمکی دی ۔

امام ـ نے انھیں اس کام سے منع کیااور کہا کوئی بھی خبر مجھے نہ ملے کہ تم لوگوںنے عورتوں کو اذیت دی ہے۔

______________________

(۱) الجمل، ص ۲۱۱و ۲۱۳۔------(۲) اسد الغابہ، ج۲، ص ۱۵۲۔

۴۳۹

بصرہ میں امام ـ کی تقریر

امام ـ عبداللہ کے گھر سے نکلنے کے بعد شہر کے مرکزی مقام پر گئے بصرہ کے لوگوںنے مختلف پرچم کے ساتھ امام ـ کے ہاتھوں پر دوبارہ بیعت کی یہاں تک کہ زخمیوںاور وہ لوگ جنھیں امان دی گئی تھی ان لوگوں نے بھی دوبارہ حضرت کی بیعت کی ۔(۱)

امام ـ پر لازم تھا کہ بصرہ کے لوگوں کو ان کے کام کی غلطیوں اور برائیوں سے آگاہ کریں اسی وجہ سے بصرہ کے تمام افراد آپ کی گفتگو سننے کے لئے آمادہ تھے جب کہ عظمت و نورانیت نے آپ کا احاطہ کر رکھا تھا آپ نے اپنی تقریر شروع کی:

''تم لوگ اس عورت اور اونٹ کے سپاہی تھے جب اس نے تمہیں بلایا تو تم نے اس کی آواز پر لبیک کہا اور جب وہ قتل ہوگیا تو تم لوگ بھاگ گئے تمہارا اخلاق پست اور تمہارا عہد و پیمان عذر و دھوکہ اور تمہارا دین منافقت اور تمہارا پانی کھارا ہے او رجو شخص تمہارے شہر میں زندگی بسر کرنا چاہے گا وہ گناہوں میں مبتلاہوگااو رجو شخص تم لوگوں سے دور رہے گا وہ حق کو پالے گا۔ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ خدا کا عذاب زمین و آسمان سے تمہارے اوپر آرہا ہے اور میرے خیال سے تم سب لوگ غرق ہوگئے ہو سوائے مسجد کے مناروں کے، اور اسی طرح کشتی کا وسطی حصہ (سینہ) پانی کے اوپر نمایاں و ظاہر ہے۔(۲)

پھر آپ نے فرمایا: تمہاری سرزمین پانی سے نزدیک اور آسمان سے دور ہے تمہارے چھوٹوں کی کوئی اہمیت نہیں اور تم لوگوںکی فکریں احمقانہ ہیں تم لوگ (ارادہ میں سستی کی وجہ سے) شکاریوں کا ہدف

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۳، ص ۵۴۵۔

(۲) نہج البلاغہ، خطبہ ۱۳۰۔

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809