فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)4%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 367814 / ڈاؤنلوڈ: 6241
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

کرتی ہیں۔ اگر اس قسم کی آفات و بلیات ختم ہوجائیں تو لوگ سرکشی، معصیت، اور غلو میں غرق ہوکر رہ جائیں گے، جیسا کہ پہلے زمانہ میں ہو اکہ انہیں طوفان کے ذریعہ ہلاک کرکے زمین کو ان کے وجود سے پاک کیا گیا، ایک چیز اور کہ جس کا لوگ انکار کرتے ہیں ، وہ موت و فنا ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بشر ہمیشہ دنیا میں رہتا اور کسی بھی قسم کی آفت و بلاء میں گرفتار نہ ہوتا، اور آخر تک اسی حالت پر باقی رہتا۔

تو اس بات کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر کوئی دنیامیں آتا اور ہمیشہ باقی رہتا اور نہ مرتا تو کیا زمین خدا کی مخلوق پر تنگ نہ ہوجاتی؟ اور انکے رہنے کے لئے کوئی جگہ میسر نہ ہوتی، اور کاروبار اور زراعت وغیرہ ختم ہوکر رہ جاتی کیا تم لوگوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ اس بات کو جانتے ہیں ، اوریقین رکھتے ہیں کہ انہیں تدریجاً فنا اور موت سے ہم کنار ہونا ہے اس کے باوجود وہ مسکن اور زمینوں پر قبضہ کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اسی کش مکش میں آپس میں جنگ چھڑ جاتی ہے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوجاتا ہے ، تو پھر اس وقت انسانوں کی کیا حالت و کیفیت ہوتی جبکہ وہ موت و فنا سے بری ہوتے، حرص ، آرزو و طمع اور مختلف فسادات ان پر غلبہ کرلیتے کہ جب یہ اس بات کا یقین کرلیتے کہ ان کے لئے موت و فنا نہیں ، ایسی صورت میں کوئی بھی حاصل شدہ اشیاء پر قانع نہ ہوتا اور کوئی بھی اپنی مصیبت اور رنج و الم سے نجات نہ پاتا ، اس لئے کہ موت و فناء نہیں، اس کے علاوہ ایسا شخص زندگی کا مارا ہوجاتا اور دنیا کی ہرچیز سے تنگ آجاتا، جیسا کہ وہ شخص زندگی سے تنگ آجاتا ہے۔کہ جس کی عمر حیات طولانی ہو، تو وہ موت کی آرزو کرتا ہے تاکہ دنیا کی مصیبتوں سے راحت و آرام پائے، اب اگر کوئی یہ کہے کہ خدا کو چاہیے کہ وہ اپنے بندوں سے ہر قسم کے مرض و مصیبت کو برطرف کردے، تاکہ وہ موت کی آرزو نہ کرے اوراس کا مشتاق نہ ہو، تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر ایسا ہوجائے تو لوگ سرکشی اور شرارت کی طرف کھینچے چلے جائیں گے جس سے

۱۶۱

انکی دنیا اور دین دونوں برباد ہوجائیں گے اور اب اگر کوئی یہ کہے کہ انسانوں کے درمیان تناسل و تولد کا سلسلہ نہ ہوتا ،تاکہ لوگ اپنی کثرت و زیادتی کی وجہ سے مسکن ومعیشت کیلئے پریشان نہ ہوتے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی صورت میں دوسری صدی کے لوگ نعمت حیات، نعمت دنیاوی و أخروی اور اُن چیزوں سے جو خداوند متعال نے اپنے بندوں کو دیں ہیں ، محروم رہ جاتے ایسی صورت میں ایک صدی سے زیادہ صدی وجود میں نہ آتی ، اب اگر کوئی یہ کہے کہ کیا ہی اچھا تھا کہ سب لوگ ایک دفعہ خلق ہوجاتے اور پھر بعد میں کوئی خلق نہ ہوتا؟ تو اس کے جواب کے لئے ہم پھر دوبارہ اپنے پہلے والے سوال کے جواب کو دہرائینگے، کہ اگر ایسا ہوتا تو اس سے معیشت و مسکن کی تنگی واقع ہوجاتی اور اسکے علاوہ اگر سب ایک ہی ساتھ خلق ہوجاتے اور ان میں تناسل و تولد کا سلسلہ نہ ہوتا تو وہ محبت و اُنسیت جو لوگوں میں اس وقت دیکھائی دیتی ہے باقی نہ رہتی اور نہ ہی وہ ایک دوسرے سے پریشانی ومجبوری میں مدد مانگ سکتے تھے اور وہ لذت و خوشی جو تربیت اولاد سے حاصل ہوتی ہے سب ختم ہوجاتی لہٰذا یہ جواب اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو بھی فکروں میں آتا ہے ، وہ اس کے علاوہ ہے کہ جس میں تدبیر ہے اور وہ سب خطا ہے۔

( خالق و مبدأ جہاں پر طعنہ زنی کرنے والے لوگ کیا کہتے ہیں )

شاید اب کوئی دوسری جہت سے خالق دوجہان کی تدبیر پر طعنہ زنی کرے اور کہے کہ یہ کس قسم کی تدبیر ہے کہ جو عالم کے اندر دیکھنے میں آتی ہے اور وہ یہ کہ جو بھی قدرت مند و قوی ہے وہ بہت زیادہ ظلم کرتاہے اور وہ لوگ جو ضعیف و کمزورہیں وہی ذلیل و خوار ہوتے ہیں ، نیک اور اچھے لوگ مصیبتوں میں مبتلاء ہوتے ہیں ، جبکہ فاجر و فاسق چین و سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں، اور اگر کوئی برا کام کرتا ہے تو اُس پر جلد ہی عذاب نازل بھی نہیں ہوتا ،لہٰذا یہ بات تدبیر کے نہ ہونے پر دلیل ہے اس لئے اگر

۱۶۲

تدبیر شامل حال ہوتی تو مسلماً تمام کام ایک اندازہ کے تحت انجام پاتے کہ جس کے نتیجے میں وہ لوگ جو صالح اور نیک ہیں اپنی روزی وسعت کے ساتھ پاتے اور ظالم افراد اس سے محروم رہ جاتے اور کوئی قوی و طاقتور کسی کمزور اور ضعیف پر ہرگز ظلم نہ کرتا اور وہ شخص جو برے کام انجام دیتا، جلد ہی اپنے برے انجام کو پہنچ جاتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ نظریہ درست ہو اور اسے عملی جامہ پہنا دیا جائے، تو وہ فضیلت جو خداوند عالم نے انسان کو تمام حیوانات پر عطا کی ختم ہوجاتی، اس کے علاوہ یہ کہ وہ امید بھی محو ہوجاتی کہ انسان اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ نیک اور اچھے اعمال انجام دے گا تاکہ آخرت میں اس کے اجر وثواب سے بہرہ مند ہو کہ جس کا خداوند متعال نے اس سے وعدہ کیا ہے۔ تو گویا انسان بھی چوپاؤں کی طرح ہوکر رہ جاتا کہ جو عصاء کے خوف اور گھاس کی طلب میں کام کو صحیح طور پر انجام دیتے ہیں پس انسان کسی بھی کام کو آخرت کے عقاب یا ثواب کی خاطر انجام نہ دیتا پس یہی معنی بشر کو انسانیت سے نکال کر حیوانیت کے دائرے میں داخل کردیتے ہیں کہ وہ اپنے اردگرد کی چیزوں کے بارے میں فکر مند نہ ہوتا اور کسی بھی کام کو بغیر کسی حاضر یا نقدی چیز کے علاوہ بجا نہ لاتا پس اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ صالح اور نیک افراد کسی کام کو اس لئے انجام دیتے تاکہ ان کی روزی میں وسعت ہو، اور اگر کوئی برائیوں اور گناہوں سے بچتا تو فقط اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُس پر عذاب الٰہی نازل ہوجائے ، نتیجہ یہ نکلتا کہ لوگوں کے تمام کام حاضر اور نقدی چیزوں کے لئے ہوتے، ایسی صورت میں قیامت پر یقین ثابت نہ ہوتا اور لوگ ہرگز آخرت کے ثواب اور اسکی نعمتوں کے مستحق نہ ہوتے اب وہ شخص جو طعنہ زنی کرتے ہوئے جن امور کا ذکر کرتا ہے (جیسے ۔توانگری وفقیری ، موت وحیات، سلامتی وگرفتاری) یہ سب اس کے خیال وقیاس اور اندازے کے خلاف ہیں تو اسکی یہ فکر خطا ہے جبکہ بعض اوقات تم مشاہدہ کروگے، کہ اس کے قیاس و قاعدہ کے مطابق ، نیکو کار و صالح افراد خوشحال و خوشگوار زندگی بسر کرتے ہیں ایسا اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے درمیان یہ خیال پیدا

۱۶۳

ہوجائے کہ فقط کفار ہی دولت مند ہیں اور صالح و نیک افراد ہمیشہ فقیری اورغربت کی زندگی گذارتے ہیں اور یہ خیال انہیں اس بات پر مجبور کرتا کہ وہ غلط راستے کو صحیح پر ترجیح دیں، اور اسی طرح تم بہت سے فاسقوں کو دیکھو گے کہ جب ان کا ظلم اور سرکشی حد سے بڑھ جائے اور لوگ کسی بھی صورت ان کے شر سے محفوظ نہ ہوں تو ان پر جلدی ہی عذاب الٰہی نازل ہوجاتا ہے چنانچہ ''فرعون'' دریا میں غرق ہوگیا ''بخت نصر'' کو حیرانی و سرگردانی میں ہلاک کردیا ''بلبیس'' کو قتل کردیا گیا۔

اگر بہت سے ظالموں کے عذاب ہونے میں تاخیر ہو، یا اسی طرح نیک اور اچھے لوگوں کے اجروثواب میں دیر ہو تو یہ بعض ایسی وجوہات کی بناء پر ہے کہ جسے بندے نہیں جانتے اور یہ موارد کسی بھی صورت تدبیر کے نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتے جیسا کہ بادشاہ وغیرہ بھی اس قسم کے کام کرتے ہیںاور کوئی بھی ان کے کاموں کو تدبیر سے خالی نہیں کہتا بلکہ اس کی تاخیر اور عجلت کو حسن تدبیر سے تعبیر کیا جاتا ہے تمام چیزوں کا قواعد و ضوابط کے تحت انجام پانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کا بنانے والا حکیم ہے۔ اور کوئی بھی چیز اس کی تدبیر کے سامنے رُکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اس لیے کہ کسی بھی خالق کو اپنی مخلوق کے مہمل چھوڑنے کی تین وجوہات میں سے کوئی ایک ہوسکتی ہے۔(1)عاجز (2)جاہل (3)شریر۔ اور یہ سب باتیں خداوند متعال کی ذات میں محال ہیں ، اس لئے کہ کوئی بھی عاجز اس قسم کی عجیب و غریب مخلوق خلق نہیں کرسکتا، اور جاہل کے پاس تدبیر نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی، جبکہ کائنات میں کوئی بھی چیز تدبیر و حکمت سے خالی دکھائی نہیں دیتی ۔ اور شریر کبھی بھی اپنی مخلوق پر احسان نہیں کرتا ، اور نہ اس کے لئے بھلائی چاہتا ہے ، خالق پر واجب ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو تدبیر کے ساتھ پیدا کرے اگرچہ وہ تدبیر اسکی مخلوق سے پوشیدہ ہو جیسا کہ بادشاہ کے بہت سے کاموں کے علل و اسباب اسکی رعایا نہیں جانتی کیونکہ وہ بادشاہ کے امور میں کسی قسم کا کوئی دخل نہیں رکھتی، کہ وہ جانے کہ اس کے اس کام میں کیا راز پوشیدہ ہے لیکن جب وہ کسی کام کی علت جان لیتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر

۱۶۴

کام بہتر انداز سے انجام پایاہے۔ ملوک کے بعض اعمال کی مدد سے ملک الملوک کے اعمال پر استدلال کیا جاتا ہے۔

اگر تم کچھ دواؤں یا غذاؤں کے بارے میں یہ خیال کرو کہ ان میں سے ہر ایک اپنے لئے کچھ نا کچھ خاصیتیں رکھتی ہے اور پھر تمہیں دو تین راہوں سے یہ بات پتہ چل جائے کہ انکا مزاج گرم یا سرد ہے تو کیا تم فقط اس مقدار کو جاننے کے بعد یہ حکم نہیں لگا سکتے کہ یہ گرم یا سرد مزاج رکھتی ہے (یقینا تم ایسا کروگے) اور س کے بعد تم اپنے خیال کو اس یقین میں بدل دو گے یہ دوائیں اور غذائیں سرد اور گرم مزاج رکھتی ہیں تو جب دو، تین گواہوں اور شواہد کے بعد انسان کسی چیز پر یقین کر لیتا ہے تو پھرکس طرح اُس ذات کو جھٹلاتاہے جس کے وجو د پر اس قدر شواہد و گواہ موجود ہیں کہ جن کوشمار نہیں کیا جاسکتا، کیا وہ ان شواہد کا مشاہدہ نہیں کرتے؟! اگر ان لوگوں کو فقط نصف عالم کی وجوہات کے بارے میں معلومات نہ ہوتی، تو تب بھی یہ فیصلہ کرنا کہ عالم اتفاق کا نتیجہ ہے ، عدل و انصاف سے خالی ہوتا اس لئے کہ دوسری نصف مخلوق میں تو حسن تدبیر کے وہ عظیم اور ظاہری دلائل موجو دہیں کہ جو انہیں اس قسم کے فکر سے روکتے ہیں کہ محض عجلت میں عالم کو اتفاق کا نتیجہ کہا جائے، جب کہ وہ کائنات کی جس چیز کے بارے میں بھی تحقیق و تجربہ کرتے ہیں تو وہ اس میں حسن تدبیر و حسن کمال پاتے ہیں۔

( عالم کا نام یونانی زبان میں )

اے مفضل جان لو کہ اہل یونان کے درمیان عالم کا نام ''قوسموس'' مشہور ہے کہ جس کا مطلب زینت و خوبصورتی ہے اور حکماء اور فلاسفہ نے بھی اس عالم کو اس قسم کے ناموں سے یاد کیا ہے ، کیا یہ بات اس چیز پر دلالت نہیں کرتی کہ انہوں نے اس عالم میں تدبیر و نظام کے علاوہ دوسری کوئی چیز نہیں دیکھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عالم کوا س قسم کے ناموں سے یاد کیا ہے یہاں تک کہ وہ اس بات پر بھی

۱۶۵

راضی نہ تھے کہ وہ عالم کا نام نظام اور اندازہ رکھیں، بلکہ انہوں نے اس کا نام زینت رکھا تاکہ وہ یہ بتاسکیں کہ عالم کی ہرچیز کے اندر حسن تدبیر و استحکام اور زیبائی موجود ہے۔

( تعجب اس قوم پر جو حکمت پر یقین رکھ کر حکیم کو جھٹلاتی ہے )

اے مفضل۔ ذرا تعجب کرواُس قوم پر کہ جو حکمت کو خطا نہیں کہتی مگر حکیم کو جھٹلاتی ہے، اور اس کائنات کو محض اتفاقات کا نتیجہ کہتی ہے ، جب کہ وہ اس میں کوئی مہمل چیز نہیں دیکھتی اور تعجب کرو کہ جو حکمت کا دعویدار ہے اوروہ اُس حکمت کو جھٹلاتا ہے جو اس عالم میں جاری ہے اور اپنی تند وتیز زبان کو خالق دوجہاں کے بارے میں دراز کرتا ہے، اور تعجب تو بدبخت فرقہ مانویہ پر ہے کہ جو علم اسرار کے جاننے کا دعویدار ہے مگر وہ اُن دلائل حکمت کو مخلوق میں دیکھنے سے اندھا ہے کہ جو مخلوق میں مشاہدہ کئے جاتے ہیں اوراپنے جہل و نادانی کی وجہ سے مخلوق اور خالق کی طرف خطا کی نسبت دیتا ہے جس کی ذات حکیم و کریم اور بلند و بالا ہے۔

( عقل اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتی )

( اے مفضل) ان سب میں سب سے زیادہ تعجب فرقہ معطلہ پر ہے ، جو اس چیز کا دعویدار ہے کہ جس چیز کو عقل درک نہیں کرسکتی اُسے حس سے درک ہونا چاہیے اورکیونکہ یہ چیز خداوندعالم کے بارے میں امکان پذیر نہیں لہٰذا وہ اسی چیز کو دلیل بناکر اپنے خالق کا انکار کر بیٹھتا ہے اور اُس کی طرف جھوٹی نسبت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر خالق وجود رکھتا ہے تو وہ عقل سے درک کیوں نہیں ہوتا؟ تو اسکے جواب میں کہا جائے گا کہ خالق دوجہاں عقل سے بھی بلند وبرتر ہے لہٰذا عقل اُسے درک کرنے سے قاصر

۱۶۶

وعاجز ہے ، جیسا کہ وہ چیز جو آنکھوں سے زیادہ بلند مرتبہ رکھتی ہے ، آنکھوں سے درک نہیں ہوسکتی جیسا کہ جب تم کسی پتھر کو ہوا میں بلند دیکھتے ہو تو فوراً جان لیتے ہو کہ اُسے کوئی اُچھال رہا ہے ، اور تمہارا یہ جان لینا آنکھوں کے ذریعہ نہیں بلکہ عقل کے ذریعہ ہے ، اس لئے کہ اس قسم کے فیصلے عقل کرتی ہے اور وہ اس بات کو جانتی ہے کہ پتھر خودبخود ہوا میں بلند نہیں ہوسکتا ۔ توتم نے دیکھا کہ آنکھ کس طرح اپنی حد سے تجاوز نہ کرسکی، بالکل اسی طرح عقل بھی اپنی حد پر ٹھہر جاتی ہے اور ہرگز اس سے تجاوز نہیں کرتی ، اس کے باوجود وہ جانتی ہے کہ ایک صانع ہے کہ جس نے اُسے بنایا ہے لیکن وہ اس کی ذات وصفات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے اور اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ تو پھر یہ ضعیف انسان اپنی عقل لطیف کے ذریعہ کس طرح مکلف ہے کہ وہ خداوندمتعال کو جانے ، جب کہ اسکی عقل اسکا احاطہ کرنے سے قاصروعاجز ہے؟ تو اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ بندگان کو اس قدر مکلف بنایا ہے کہ جتنی وہ طاقت رکھتے ہیں اور ان کی طاقت یہ ہے کہ وہ اس کے وجود پر یقین رکھیں، اور اس کے أمرونہی کے پابندرہیں کبھی بھی خداوند عالم نے بندوں کو اس بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا کہ وہ جانیں کہ اسکی ذات و صفات کی حقیقت کیا ہے ، جس طرح سے کوئی بھی بادشاہ اپنی رعایا کو اس بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا کہ وہ جانے کہ انکا بادشاہ بلند قامت کا ہے یا کوتاہ، سفید ہے یا گندمی ، بلکہ وہ انہیں اس بات کا مکلف بناتا ہے کہ وہ اسکی سلطنت کا اقرار کریں اور اسکے فرمان کے آگے اپنی گردنوں کو جھکائے رکھیں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی بادشاہ کے دربار میں جاکر یہ کہے کہ جب تک تم اپنے آپ کو میرے حوالے نہ کروگے، کہ میں اچھی طرح تمہیں جان لو، تو میں اس وقت تک تمہاری اطاعت نہ کرونگا تو اس شخص نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو عقوبت اور خطرہ میں ڈال دیا، پس اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ میں اس وقت تک اپنے خالق کی اطاعت نہ کروں گا جب تک کہ اچھی طرح اس کی حقیقت اور اس کا کامل احاطہ نہ کرلوں ، تویقینا اُس نے اپنے آپ کو معرض غضب الٰہی قراردیا، اب اگر کوئی یہ کہے کہ کیا بعض دفعہ

۱۶۷

اسکی تعریف و توصیف بیان نہیں کی جاتی ،اور نہیں کہا جاتا کہ وہ عزیز ہے ، حکیم و جوادوکریم ہے؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ تمام صفتیں اسکا اقرار ہیں نہ یہ کہ اس کا احاطہ اور درک حقیقت ، اس لئے کہ ہم کہتے ہیں کہ وہ حکیم ہے لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس کے حکیم ہونے کی حقیقت کیا ہے اور اسی طرح دوسری تمام صفتیں ، اسکی مثال ایسی ہے کہ ہم آسمان کو تو دیکھتے ہیں ، لیکن اس بات سے ابھی تک آگاہ نہیں ہوئے کہ وہ کس مادہ کا بنا ہے، دریا، دیکھتے ہیں مگر یہ نہیں معلوم کہ اس کی انتہاء کہاں ہے، تو پس اس خداوندعالم کا امر تو ان تمام چیزوں سے بھی بلند و بالا ہے کہ جس کے لئے کوئی انتہاء نہیں ، اس لئے کہ مثال کیسی بھی ہو، اس کے امر کے مقابلے میں کوتاہ ہے ،لیکن عقل اس کی معرفت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

( خدا کے بارے میں اس قدر اختلاف کیوں؟ )

( اے مفضل) اب اگر کوئی یہ کہے کہ خدا کے بارے میں اس قدر اختلاف کیوں ہے؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کے بارے میں اختلاف لوگوں کے کم عقل ہونے پر دلیل ہے کہ ان میں سے بعض نے یہ چاہا کہ وہ اسکی معرفت حاصل کرنے کے لئے اور اسکی ذات و صفات کے احاطہ کے لئے اپنی حد سے تجاوز کریں ، جب کہ اوہام ا س کام سے عاجز ہیں بلکہ وہ اس سے بھی چھوٹی چیز کو سمجھنے سے قاصر ہیں جیسے سورج کہ جو تمام عالم پر تابانی کرتا ہے، مگر کوئی بھی اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا، اس بات کی دلیل اسکے بارے میں مختلف اقوال ہیں ، فلسفیوںنے اسکے بارے میں مختلف نظریے پیش کئے ہیں ، بعض نے کہا کہ وہ ایک ستارہ ہے ، اور آگ سے بھرا ہوا ہے، اور یہ اپنے لئے منھ رکھتا ہے کہ جس کے ذریعہ حرارت و شعاعیں ہم تک پہنچتی ہیں۔ بعض نے کہا کہ وہ ایک أبر ہے، بعض نے کہا کہ وہ ایک شفاف جسم ہے ، شیشہ کی مانند جو عالم سے حرارت کو جذب کرنے کے بعد اپنی

۱۶۸

شعاعوں کو عالم کی طرف ارسال کرتا ہے ، بعض نے کہا کہ وہ ایک لطیف و صاف چیز ہے کہ جو دریا کے پانی سے بنا ہے ، بعض نے کہا کہ وہ آگ کے ذرات ہیں جو ایک جگہ جمع ہوگئے ہیں ،ا ور بعض نے کہا کہ وہ چار عنصروں کے علاوہ پانچواں عنصر ہے، اس کے علاوہ اس کی شکل میں بھی اختلاف ہے، بعض نے کہا کہ وہ ایک صفحہ کی مانند پھیلا ہوا ہے، اور بعض نے کہا کہ وہ گیند کی مانند ہے کہ جو حالت گردش میں ہے، اور اسی طرح اسکی مقدار اور اسکے وزن میں بھی اختلاف ہے ، بعض نے کہا کہ وہ زمین کے برابر ہے، بعض نے کہا کہ وہ زمین سے چھوٹا ہے، بعض نے کہا کہ وہ بزرگ ترین جزیروں میں سے ایک جزیرہ ہے، ریاضی دان لوگوں نے کہا کہ وہ ایک سو ستر برابر زمین کے ہے ۔ پس یہی اختلاف اس بات پر دلیل ہے کہ وہ سورج کی حقیقت سے واقف نہیں ہوئے، وہ سورج جو آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے، اور حس جسے درک کرتی ہے لیکن عقول اسکی حقیقت کو پانے سے قاصر وعاجز دکھائی دیتی ہیں تو اب ذرا بتاؤ کہ پھر کس طرح عقول اُس ذات مقدس کو در ک کرلیں کہ جو احساسات کے ادراک سے بھی باہر ہے اور لطیف و پوشیدہ ہے، اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ وہ پوشیدہ کیوں ہے؟ تو اسکے جواب میں کہا جائے گا کہ خداوندمتعال نے اپنی حکمت و تدبیر سے خود کو پوشیدہ کر رکھا ہے جیسا کہ کوئی شخص اپنے آپ کو پردہ یا دروازہ کے پیچھے پوشیدہ کرلے، یہ جو کہا جاتا ہے کہ خداوندعالم پوشیدہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خداوند عالم اس قدر لطیف ہے کہ عقل و فہم میں نہیں آتا، اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ لطیف و برتر کیوں ہے؟ تو یہ کہنا تو خودبخود غلط ہے ، اس لئے کہ وہ ذات جو سب کی خالق ہے ، اس کے لئے ضروری و لازم ہے کہ وہ ہر چیز سے جدا اور ہرچیز سے برترہو، وہ منزہ وپاک وپاکیزہ ہے، اور اگر کوئی یہ کہے کہ یہ کیسے معقول ہے کہ وہ ہر چیز سے جدا اور ہرچیز سے برتر ہو، تو انہیں جواب دیا جائے گا کہ کسی بھی چیز کی اطلاع ومعرفت کے لئے چار چیزیں ضروری ہیں ۔ (1)یہ جانا جائے کہ اس چیز کا وجود ہے یا نہیں ۔ (2)یہ جانا جائے کہ اس کا جوہر ومادہ کیا ہے۔ (3)یہ جانا جائے کہ اسکی کیفیت و صفت کیا

۱۶۹

ہے۔ (4)وہ کس علت کے تحت وجود میں آیا، اور اس کا سبب کیا ہے ۔ لیکن ان چار صورتوں میں سے کسی ایک صورت کے ذریعہ بھی مخلوق اپنے خالق کی حقیقت کو نہیں پہچان سکتی فقط یہ کہ وہ جانے کے وہ موجود ہے، لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ وہ کیسا ہے اور کیا ہے؟ تو یہ وہ منزل ہے کہ جہاں پہنچنا ناممکن ومحال ہے ، کہ اسکی ذات کی حقیقت کو پالیا جائے ، یا یہ کہ اسکی معرفت میں کمال پیدا کرلیا جائے، اور اگر کہا جائے کہ وہ کیوں موجود ہے؟ اور اسکی علت کیا ہے؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ دونوں چیز خداوندمتعال کی ذات سے ساقط ہیں اس لئے کہ خداوندعالم ہرچیز کی علت ہے، مگر کائنات کی کوئی چیز اس کی علت نہیں ،اور پھر یہ کہ انسان کا یہ جاننا کہ وہ موجود ہے، اس بات کا موجب نہیں بنتا وہ جانے کہ وہ کیسا ہے ، جیسا کہ اس کے خود اپنے نفس کو جاننا کہ وہ موجود ہے اس بات کا موجب نہیں بنتا ، کہ وہ جانے کہ وہ کیسا ہے، اور اسی طرح دوسرے لطیف اور معنوی امور، اب اگر کوئی یہ کہے کہ آپ نے اپنے کوتاہ علم کی روشنی میں جس لحاظ سے خداوند متعال کی وصف و تعریف بیان کی ہے اس سے پتہ یہ چلتا ہے کہ وہ کسی بھی طریقہ سے پہچانا نہیں جاسکتا، تو جواب میں کہا جائے گا کہ یقینا فقط وہاں تک جہاں تک کہ عقل کی رسائی ممکن ہو، اور اسکا احاطہ کرنے کی کوشش کرے، لیکن دوسری جہت سے وہ ہم سب سے بہت نزدیک اور اس کے آثار تمام چیزوں سے زیادہ روشن ہیں وہ اس قدر واضح ہے کہ کسی بھی چیز سے پوشیدہ نہیں اور دوسری جہت سے وہ اس قدر لطیف ہے کہ کوئی بھی اُسے درک نہیں کرسکتا، جس طرح سے عقل کہ اس کے دلائل تو ظاہر ہیں ، مگر اس کی ذات پوشیدہ ہے۔

۱۷۰

( طبیعت حکم خدا کے تحت )

اور اب دہریوں کے اس سوال کا جواب جو یہ کہتے ہیں کہ طبیعت وہ کام جو بے معنی ہوں انجام نہیں دیتی، اور نہ ہی وہ کسی بھی چیز کے مقابلے میں اپنی حد سے تجاوز کرتی ہے اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے اس عقیدہ کی دلیل حکمت ہے تو ان سے کہا جائے گا کہ وہ کون ہے جس نے طبیعت کو یہ حکمت عطا کی کہ کوئی بھی چیز اپنی حدود سے تجاوز نہ کرے۔ اور یہ وہ چیز ہے کہ جس تک عقل انسان طویل تجربوں کے بعد بھی نہیں پہنچ سکتی اگر وہ کہیں کہ طبیعت ان کاموںکو خود اپنی حکمت اور قدرت سے انجام دیتی ہے تو درحقیقت وہ اس صورت میں اس بات کا اقرار کررہے ہیں کہ جس چیز کا وہ انکار کرچکے ہیں، اس لئے کہ بالکل یہی صفات خالق ہیں، اور اگر وہ اس بات کا انکار کریں تو ایسی صورت میں کائنات کا ہر ذرہ ایک آواز ہو کر یہ صدا بلند کریگا، کہ یہ تمام امور خالق حکیم کی طرف سے ہیں۔

( انسان کا ناقص الخلقت ہونا اس کے اتفاقاً پیدا ہونے پر دلیل نہیں )

گذشتہ زمانے میں بعض افراد اشیاء میں کار فرما قصد و ارادہ اور تدبیر کے منکرتھے، اور وہ خیال کرتے تھے کہ تمام چیزیں محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں اور انکی دلیل وہ آفتیں تھیں کہ جو زمانے میں رونما ہوتی ہیں ، مثلاً انسان کا ناقص الخلقت پیدا ہونا، انگلیوں کا زیادہ ہونا، بدشکل و بدقیافہ ہوناوغیرہ وہ لوگ ان تمام باتوں کو دلیل بنا کراس بات پر متفق تھے کہ یہ تمام چیزیں بغیر قصد و ارادہ اور تدبیر سے وجود میں آتی ہیں ۔ حکیم ارسطو ، انکے کلام کو اس طرح رد کرتا ہے کہ جو چیز اتفاق سے وجود میں آتی ہے وہ ہر لحاظ سے نقصان میں ہے ،کائنات میں حادثات رونما ہونے کا سبب ایک ایسی چیز ہے جو طبیعت کو اپنی اصلی

۱۷۱

راہ سے منحرف کردیتی ہے ، اور اُن حادثات کا واقعہ ہونا امور طبیعی کی طرح نہیں ہے کہ جو ہمیشہ پیش آتے ہیں (بلکہ کبھی کبھی رونما ہوتے ہیں)۔

اے مفضل۔ تم اکثر حیوانات کو دیکھتے ہو کہ وہ ایک ہی حالت پر اور ایک ہی جیسے پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ انسان، کہ جب وہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دوہاتھ، دوپاؤں، اور ہر ہاتھ اور پیر میں پانچ پانچ انگلیاں ہوتی ہیں، اور ایسے ہی پیدا ہوتا ہے جیسا کہ اس کے علاوہ دوسرے انسان ، لیکن وہ شخص جو اس حالت کے برخلاف پیدا ہو تو اس کا سبب وہ علت ہے کہ جو رحم مادر میں موجود بچہ کو پہنچی ، جیسا کہ بالکل اسی چیز کا مشاہدہ تم صنعت میں بھی کرتے ہو کہ صنعت کار ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ چیز صحیح وسالم وجود میں آئے ، لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی دوسری چیز کے مانع ہونے کی وجہ سے صنعت کار کی بنائی ہوئی چیز ناقص وجود میں آتی ہے ، اب چاہے وہ چیز جو مانع ہوئی وہ صنعت کار کے قصد و ارادہ سے تھی یا پھر ان آلات کی وجہ سے کہ جو اس چیز کو بنانے کا کام انجام دے رہے ہیں، اور بالکل اسی چیز کا مشاہدہ کبھی تم حیوانات میں بھی کرتے ہو، مختصر یہ کہ کسی چیز کے عارض ومانع ہونے کہ وجہ سے بچہ ناقص الخلقت پیدا ہوتا ہے لیکن اکثر اوقات بالکل صحیح وسالم پیدا ہوتے ہیں پس اکثر امور کے ناقص ہونے کی علت وہ مانع ہے کہ جو کبھی کسی وجہ سے عارض ہوجاتا ہے ، اور یہ چیز اس بات کا ہرگز موجب نہیں بنتی کہ اُسے اتفاق کا نتیجہ کہاجائے، پس بالکل یہی امر خلقت میں بھی ہے اور اس شخص کا یہ کہنا کہ ہر چیز اتفاق کا نتیجہ ہے اس چیز کی مانند ہے کہ جو صنعتگر کی چاہت و طلب کے خلاف مانع کے عارض ہونے کی وجہ سے وجود میں آتی ہے ۔

اب اگر کوئی یہ کہے کہ آخر اس قسم کے غیر عادی واقعات رونما ہی کیوں ہوتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے، تاکہ جان لیا جائے کہ چیزوں کا طبیعت پر ہونا اضطراری نہیں ، بلکہ خداوندمتعال کے قصد و ارادہ اور اسکی تدبیر کے تحت ہے اور خالق دوجہاں نے اُسے اس طرح قرار دیا کہ وہ ہمیشہ اپنی معین روش اور خاص

۱۷۲

طریقہ کے تحت کام انجام دے اور کسی علت کے مانع ہونے کی بناء پر اپنی روش کے خلاف عمل کرے پس یہ تمام چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کائنات کی ہرچیزاپنے کمال پر پہنچنے کے لئے اپنے پیدا کرنے والے کی قدرت کی نیاز مند ومحتاج ہے، کہ وہ بابرکت اور بہترین پیدا کرنے والا ہے۔

اے مفضل۔ جو کچھ میں نے عطا کیا اسے لے لو،اور جو کچھ میری بخشیشیں تمہارے ساتھ ہیں انکی حفاظت کرو اور خداوندمتعال کااس کے احسانات پر شکر ادا کرو ، اسکی اور اسکے اولیاء کی توصیف بیان کرو، اور اُن کے فرماںبردار ہوجاؤ، یقینا کہ میں نے تمہارے لئے بہت میں سے کچھ اور کل میں سے جزء کے ذریعہ کائنات کی صحیح تدبیر اور قصد و ارادہ پر محکم دلیلیں بیان کیں ، اب تمہیں چاہیے کہ تم اس میں تدبر اور تفکر کرو، اور اس سے عبرت حاصل کرو، مفضل کابیان ہے کہ میں نے عرض کی ، کہ اے میرے آقاو مولا میں آپ کی مدد سے ان مطالب میں مزید بصیرت پیدا کروں گا، اور اپنے مطلوب تک

پہنچ جاؤں گا، پس اس مقام پر میرے آقا ومولا نے اپنے دست مبارک کو میرے سینہ پر رکھا، اور ارشاد فرمایا:حْفِظ بمشیة اللّٰه وَلا تنس انشاء اللّٰه

'' مشیّت خدا کے ذریعہ حفاظت کر اور اسے ہرگز فراموش نہ کر ''

یہ سنتے ہی میں گرگیا اور مجھ پر غشی طاری ہوگئی اور جب غشی سے افاقہ ہوا تو امام نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے مفضل اپنے نفس کو کیسا پاتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں اپنے آقا ومولا کی مدد سے بے نیاز ہوگیا، اور اس کتاب (توحید مفضل) کے مطالب جو میں نے لکھے اس طرح میرے سامنے ہیں جیسا کہ کفِ دست اور میں ان سب کو پڑھ رہا ہوں، اور اپنے آقاومولا کا اس قدر شکر گزار ہوں کہ جس کے وہ مستحق ہیں۔

پھر آپ نے ارشاد فرمایا: کہ اے مفضل، اپنے دل ودماغ، ذہن و عقل کو آمادہ اور اس کے سکون کی حفاظت کرو، میں بہت ہی جلد تمہارے لئے علم ملکوتِ سماوی وأرضی اور ان اشیاء کا علم کہ جنہیں

۱۷۳

خداوندمتعال نے زمین و آسمان کے درمیان خلق کیا ہے ، کہ جن میں عجائبات ، ِ ملائکہ کی خلقت صفتیں ، ان کے مراتب، سدرة المنتہیٰ، اور تمام جن وانس کے اوصاف اور جو کچھ تحت الثریٰ میں ہے، یہ سب اس مقدار میں بیان کروں گا کہ جو مقدار کل میں سے جزء کی میں تمہارے پاس بطور امانت رکھ چکا ہوں، اب اگر تم چاہو، تو جاسکتے ہو، میں اُمید رکھتا ہوں کہ تم ہمارے صحابی، محافظ، اور حامی بنو، تمہاری میرے نزدیک بہت بلند منزلت ہے اور تمہاری قدروقیمت مومنین کے دلوں میں ایسی ہے جیسے پیاس کے مقابلے میںپانی۔

اے مفضل۔ جو کچھ میں نے تم سے وعدہ کیا اس کے بارے میں اس وقت تک مجھ سے سوال نہ کرنا جب تک میں خود اُسے تمہارے لئے بیان نہ کردوں۔

مفضل کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں اپنے آقا ومولا کی خدمت میں سے ایسی کرامت کے ساتھ

پلٹا کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔

تمّت بالخیر

سید نسیم حیدر زیدی

۱۷۴

۱۷۵

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

ایک جوان نے اٹھ کر کہا: اے امیر المومنین میں اس کام کے لئے حاضر ہوں۔ امام ـ نے پھر اپنے دوستوں کے درمیان آواز دی لیکن اس نوجوان کے علاوہ کسی نے امام ـ کی آواز پر لبیک نہ کہا، لہٰذا امام ـ نے قرآن اسی جوان کو دیا اور کہا قرآن لے کر ان کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ یہ کتاب ابتدا سے انتہا تک ہمارے اور تمہارے درمیان حاکم ہے۔

وہ نوجوان امام ـ کے حکم کے مطابق قرآن لے کر دشمنوں کو پاس گیا دشمنوں نے اس کے دونوں ہاتھوں کو کاٹ دیا اس نے قرآن کو دانتوں سے دبایایہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہوگیا۔(۱)

اس واقعہ نے جنگ کو قطعی او رناکثین کی دشمنی کو واضح کردیا، اس کے باوجود امام ـ نے اپنا لطف و کرم دکھایا اور حملہ کرنے سے پہلے ارشاد فرمایا:

''میں جانتا ہوں کہ طلحہ و زبیر جب تک لوگوں کا خون نہیں بہالیں گے اپنے کام سے باز نہیں آئیں گے لیکن تم لوگ اس وقت تک جنگ شروع نہ کرنا جب تک وہ جنگ شروع نہ کریں ، اگر ان میں سے کوئی بھاگے تو اس کا پیچھا نہ کرنا، زخمیوں کو قتل نہ کرنا، اور دشمنوں کے بدن سے کپڑے نہ اتارنا''۔(۲)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۳ ص ۵۲۰۔

(۲) کامل ابن اثیر ج۳ ص ۲۴۳۔

۴۲۱

سویں فصل

حضرت علی ـ کے سپاہیوں کی بہادری

کائنات کے تمام حاکموں میں کوئی بھی حاکم علی جیسا نہیں جو دشمن کو اتنی زیادہ مہلت دے اور عظیم شخصیتوں اور قرآن کو فیصلہ کے لئے بھیجے اور جنگ شروع کرنے میں صبر و تحمل سے کام لے ، یہاں تک کہ دوستوں اور مخلصوں کی طرف سے شکوہ اور اعتراض ہونے لگے، یہی وجہ ہے کہ امام ـ مجبور ہوئے کہ اپنی فوج کو منظم کرکے اپنے سرداروں کو درج ذیل مقامات پر معین کریں:

ابن عباس کواگلے دستے کا سردار اور عمار یاسر کو تمام سواروں کا سردار او رمحمد بن ابی بکر کو پیدل حملہ کرنے والوں کا سردار معین کیا اواس کے بعد مذحج، ہمدان ، کندہ ، قضاعہ، خزاعہ، ازد، بکر، اور عبد القیس کے قبیلے کے سواروں اور پیدل چلنے والوں کے لئے علمبردار معین کیااس دن جتنے افراد چاہے پیدل چاہے سوار، امام ـ کے ہمراہ جنگ کرنے کے لئے آمادہ تھے ان کی تعداد کل سولہ ہزار (۱۶۰۰۰) تھی۔(۱)

______________________

(۱) الجمل ص ۱۷۲۔

۴۲۲

ناکثین کی طرف سے جنگ کا آغاز:

ابھی امام ـ اپنی فوج کو منظم اور جنگ کے اسرار و رموز سمجھانے میں مشغول تھے کہ اچانک دشمن کی طرف سے امام کے لشکر پر تیروں کی بارش ہونے لگی جس کی وجہ سے امام کی فوج کے کئی افراد شہید ہوگئے ۔ انہی میں سے ایک تیر عبداللہ بن بدیل کے بیٹے کو لگا اور اسے شہید کردیا۔

عبد اللہ اپنے بیٹے کی لاش لے کر امام کے پاس آئے اور کہا: کیا اب بھی ہم صبر و حوصلے سے کام لیں تاکہ دشمن ہمیں ایک ایک کر کے قتل کر ڈالیں؟ خدا کی قسم اگر مقصداتمام حجت ہے تو آپ نے ان پر اپنی حجت تمام کردی ہے۔

عبد اللہ کی گفتگو سن کر امام ـ جنگ کے لئے آمادہ ہوئے ، آپ نے رسول اسلام کی زرہ پہنی اور رسول اکرم کی سواری پر سوار ہوئے اور اپنی فوج کے درمیان کھڑے ہوئے۔

۴۲۳

قیس بن سعد بن عبادہ(۱) جو امام ـ کا بہت مخلص(گہرا) دوست تھا حضرت کی شان اور جو پرچم اٹھائے ہوئے تھا اس کے لئے اشعار پڑھا جس کا دو شعر یہ ہے:

هذا اللواء الذی کنا نحف به

مع النبی و جبرئیل لنا مدداً

ما ضرمن کانت الانصار عیبته

أن لا یکون له من غیرها أحداً

''یہ پرچم جس کو ہم نے احاطہ کیا ہے یہ وہی پرچم ہے جس کے سایہ میں پیغمبر کے زمانے میں جمع ہوئے تھے اوراس دن جبرئیل نے ہماری مدد کی تھی وہ شخص کہ جس کے انصار راز دار ہوں کوئی نقصان نہیں ہے کہ اس کے لئے دوسرے یاور و مددگار نہ ہوں''۔امام ـ کی منظم فوج نے ناکثین کی آنکھوں کو خیرہ کردیااو رعائشہ جس اونٹ پر سوار تھیں اسے میدان جنگ میں لائے اور اس کی مہار کو بصرہ کے قاضی کعب بن سور کے ہاتھوں میں سونپ دی اس نے قرآن اپنی گردن میں لٹکایا اور قبیلہ ازد اور ضبہ کے افراد نے ا ونٹ کو چاروں طرف سے اپنے احاطہ میں لے لیا عبد اللہ بن زبیر عائشہ کے سامنے اور مروان بن حکم اونٹ کے بائیں طرف کھڑے ہوئے فوج کی ذمہ داری زبیر کے ہاتھوں میں تھی اور طلحہ تمام سواروں کا سردار اور محمد بن طلحہ پیدل چلنے والوں کا سردار تھا۔

امام ـ نے جنگ جمل میں محمد بن حنفیہ کو علم لشکر دے کر آداب حرب کی تعلیم دی اور فرمایا:

'' تزول الجبال و لاتزل، عض علی ناجذ ک ، اعر اللہ جمجمتک ، تد فی الارض قدمک، ارم ببصرک أقصی القوم و غض بصرک و اعلم ان النصر من عند اللہ سبحانہ''۔(۲) پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں مگر تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا دانتوں کو بھینچ لینا، اپنا کاسٔہ سر خدا کو عاریةً دیدینا، اپنے قدم زمین میں گاڑ دینا، دشمن کی آخری صف پر نظر رکھنا (دشمن کی ہیبت و کثرت سے) آنکھیں بند رکھنا اور اس بات کا یقین رکھو کہ خدا کی طرف سے مدد ہوتی ہے۔

______________________

(۱) شیخ مفید اپنی کتا ب جمل میں تحریر کرتے ہیں کہ قیس بن سعد واردہوا اور شاید اس سے مراد قیس بن سعد بن عبادہ ہے۔

(۲) نہج البلاغہ، خطبہ ۱۱۔

۴۲۴

امام ـ کے دہن اقدس سے نکلا ہوا ہر جملہ بہترین شعار ہے جو تازگی عطا کرتا ہے یہاں پر اس کی شرح کرنا ممکن نہیں ہے۔

جب لوگوں نے محمد بن حنفیہ سے کہا کہ کیوںامام ـ نے انھیں میدان جنگ میں بھیجا اور حسن و حسین کو اس کام سے روکے رکھا۔ تو انھوںنے جواب دیا، میں اپنے بابا کا ہاتھ ہوں اور وہ ان کی آنکھیں ہیں وہ اپنے ہاتھ سے اپنی آنکھوں کی حفاظت کررہے ہیں۔(۱)

ابن ابی الحدید نے اس واقعہ کو مدائنی او رواقدی جیسے مؤرخین سے اس طرح نقل کیا ہے:

''امام اس گروہ کے ساتھ جسے ''کتیبة الخضرائ'' کہتے ہیں ا ور جس کے افراد مہاجرین و انصار سے تھے اور حسن و حسین اس کے اطراف کا احاطہ کئے ہوئے تھے ، ارادہ کیا کہ دشمن پر حملہ کریں۔ علم لشکر محمد بن حنفیہ کے ہاتھوں میں دیا اور آگے بڑھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: اتنا آگے بڑھو کہ پرچم کو اونٹ کی آنکھ میں گاڑھ دو امام کے بیٹے نے آگے بڑھنا شروع کیا لیکن تیروں کی بارش نے انھیں آگے بڑھنے سے روک دیا وہ تھوڑی دیر تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ تیروں کی بارشکم ہوجائے ،امام ـ نے اپنے بیٹے کو دوبارہ حملہ کرنے کا حکم دیا لیکن جب آپ نے احساس کیا کہ وہ تاخیر کر رہے ہیں تو ان کے حال پر افسوس کیا اور علم لشکر ان سے لے لیا اور اپنے داہنے ہاتھ میں تلوار اور بائیں ہاتھ میں علم لیا اور خود حملہ کرنا شروع کردیااور قلب لشکر میں داخل ہوگئے۔

چونکہ آپ کی تلوار لڑتے لڑتے کج ہوگئی تھی لہذا اسے سیدھی کرنے کے لئے اپنی فوج میں واپس آگئے، آپ کے ساتھیوں مثلاً عمار یاسر، مالک اشتر اور حسن و حسین نے آپ سے کہا ہم لوگ حملہ کریں گے اور آپ یہیں پر رک جائیں امام نے نہ ان لوگوں کا جواب دیا اور نہ ہی ان کی طرف دیکھا بلکہ شیر کی طرح ڈکاررہے تھے اور آپ کی پوری توجہ دشمن کی طرف تھی کسی کو بھی اپنے پاس نہیں دیکھ رہے تھے پھر آپ نے اپنے بیٹے کو دوبارہ علم دیا اور پھر دوسری مرتبہ حملہ کیا اور قلب لشکر میں داخل ہوگئے اور جو بھی آپ کے سامنے آتا اسے بچھاڑ دیتے دشمن انھیں دیکھ کر بھاگ جاتے اور ادھر ادھر پناہ لیتے تھے۔ اس حملہ میں امام ـ نے اتنے لوگوں کو قتل کیا کہ زمین دشمنوں کے خون سے رنگین ہوگئی، پھر اپنی فوج کی طرف واپس آگئے اور

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱ ص۲۴۴

۴۲۵

آپ کی تلوار پھر ٹیڑھی ہوگئی آپ نے اسے اپنے زانو پر رکھ کر سیدھا کیا، اس وقت آپ کے ساتھیوں نے آپ کو حلقے میں لے لیا اور خدا کی قسم دے کر کہا کہ اب آپ خود حملہ نہ کیجئے کیونکہ آپ کی شہادت کی وجہ سے اسلام ختم ہو جائے گا نیز مزید کہا: اے علی ! ہم آپ کے لئے ہیں ۔

امام ـ نے فرمایا: میں خدا کے لئے جنگ کر رہا ہوں او راس کی رضا کا طالب ہوں ۔ پھر اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ سے فرمایا دیکھو اس طرح سے حملہ کیا جاتا ہے ،محمد نے کہا: اے امیر المومنین آ پ کی طرح سے کون حملہ کرسکتا ہے۔

اس وقت امام نے مالک اشتر کو حکم دیا کہ دشمن کے لشکر کے بائیں طرف حملہ کرو جس کا سردار ہلال تھا، ا س حملے میں ہلال مارا گیا اور بصرہ کا قاضی کعب بن سور جس کے ہاتھ میں اونٹ کی مہار تھی اور عمر بن یثربی ضبی جو لشکر جمل کا سب سے بہادر سپاہی تھا اور بہت دنوں تک عثمان کی طرف سے بصرہ کا قاضی تھا مارے گئے ۔ بصرہ کے لشکر والوں کی کوشش یہ تھی کہ عائشہ کا اونٹ کھڑا(صحیح و سالم)رہے کیونکہ وہی ثبات و استقامت کا نشان تھا ،اس وجہ سے امام کے لشکر نے پہاڑ کی طرح جمل پر حملہ کیا اور دشمنوں نے بھی پہاڑ کی طرح حملہ کا دفاع کیا ،اس کی حفاظت کے لئے ناکثین کے ستر لوگوں نے اپنے ہاتھ کٹوا دیئے۔(۱)

اس وقت سر گردنوں سے کٹ کر گر رہے تھے ،ہاتھ جوڑوں سے کٹ رہے تھے ،دل اور انتٹریاں پیٹ سے باہر نکل رہی تھیں، ان سب کے باوجود تمام ناکثین ٹڈیوں کی طرح جمل کے اطراف میں ثابت قدم تھے اس وقت امام ـ نے فریاد بلندکی:

''ویلکم اعقروا الجمل فانہ شیطان ، اعقروہ و الا فنیت العرب لایزال السیف قائماً و راکعاً حتی یہوی ہذا البعیر الی الارض''

وائے ہو تم پر، عائشہ کے اونٹ کو قتل کردو وہ شیطان ہے اس کو قتل کرو عرب ختم ہو جائیں گے اور تلواریں مسلسل اس وقت تک چلتی رہیں گی جب تک یہ اونٹ کھڑا رہے گا۔(۲)

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱، ص ۲۶۵۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱، ص ۲۶۷۔ ۲۵۷۔

۴۲۶

امام ـ کا اپنی فوج کی حوصلہ افزائی کرنے کا طریقہ

امام ـ اپنے لشکرکی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے یہ نعرہ لگاتے تھے ''یا مَنصُورُ اَمِت'' یا کبھی ''حم لاینصرون'' کہتے تھے اور یہ دونوں نعرہ حضرت رسول اکرم نے لگایا تھا اور مشرکوں سے جنگ کے وقت لگایا جاتا تھا ،ان نعروں کی گونج نے دشمن کی فوج میں عجیب لرزہ طاری کردیاکیونکہ ان لوگوں کو مسلمانوں کا مشرکوں سے جنگ کرنا یاد آگیا یہی وجہ ہے کہ عائشہ نے بھی اپنی فوج کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے نعرہ لگایا''یا بنی الکرة الکرة، اصبروا فانی ضامنة لکم الجنة'' یعنی اے میرے بیٹو برد بار رہو اور حملہ کرو میں تمہاری بہشت کی ضامن ہوں۔

اس نعرے کی وجہ سے لشکر والے ان کے ارد گرد جمع ہوگئے اور اتنا آگے بڑھے کہ امام کا لشکر چند قدم کے فاصلے پر تھا۔

عائشہ نے اپنے چاہنے والوںکے جذبات ابھارنے کے لئے ایک مٹھی مٹی مانگی اور جب انھیں مٹی دی گئی تو انہوں نے امام کے چاہنے والوں کی طرف پھینکا اور کہا: ''شاہت الوجوہ'' یعنی تم لوگوںکا چہرہ کالا ہو جائے ۔انہوں پیغمبر کی تقلید کی کیونکہ حضرت نے بھی جنگ بدر میں ایک مٹھی خاک اٹھائی تھی اور دشمنوں کی طرف پھینکی تھی اور یہی جملہ فرمایا تھا اور خدا نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل کی: ''و ما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ رمیٰ''(۱) عائشہ کا یہ عمل دیکھنے کے بعد فوراً ہی امام ـ نے فرمایا: ''و ما رمیت اذ رمیت و لکن الشیطان رمی'' یعنی اگر پیغمبر کے لئے خدا کا ہاتھ پیغمبر کی آستین سے باہر ہوا تو عائشہ کے لئے شیطان کا ہاتھ اس کی آستین سے ظاہر ہواہے۔

اونٹ کا گرنا

عائشہ کا اونٹ ایک بے منھ جانور تھا اور اسے برے مقصد تک پہونچنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا اس پر کجاوہ لگا کر بڑے احترام سے عائشہ کو بٹھایا گیا تھا بصرہ کے سپاہی اس کی بڑی شدت سے حفاظت کر رہے تھے اور بہت زیادہ لوگ محافظ تھے جب بھی کوئی ہاتھ کٹتا تو دوسرے ہاتھ میں اونٹ کی مہار چلی جاتی بالآخر اونٹ کی مہار پکڑنے کے لئے کوئی آگے نہ بڑھا، زبیر کے بیٹے نے سبقت دکھائی اور اونٹ کی مہار پکڑ لی لیکن مالک اشتر نے اس پر حملہ کردیااور اسے زمین پر پٹک دیااور اس کی گردن کو پکڑا جب زبیر کے بیٹے کو یہ احساس ہوا کہ وہ مالک اشتر کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا تو اس نے فریاد بلند کی اے لوگو! حملہ کرو اور مالک کو قتل کردو اگر چہ

۴۲۷

میں بھی قتل ہوجائوں ۔(۱)

مالک اشتر نے اس کے چہرے پر ایک وار کر کے اسے چھوڑ دیا لوگ عائشہ کے اونٹ کے پاس سے دور ہوگئے امام ـ نے اس کے پاؤں کاٹنے کا حکم دیا تاکہ دشمن عائشہ کا اونٹ دیکھ کر دوبارہ اس کی طرف واپس نہ آئیں۔ پیر کٹتے ہی اونٹ زمین پر گر پڑا اور کجاوہ بھی گر گیا اس وقت عائشہ کی ایسی فریاد بلند ہوئی کہ دونوں لشکر کے سپاہیوں نے سنا، امام ـ کے حکم سے محمد بن ابوبکر بہن کے کجاوے کے پاس پہونچے اور اس کی رسیوں کو کھولا۔

اس جنگ میں جو گفتگو بہن اور بھائی کے درمیان ہوئی ہم اسے مختصراً نقل کر رہے ہیں:

عائشہ: تم کون ہو؟

محمد بن ابوبکر: تیرے گھر کا ایک شخص جو تیرا سب سے بڑا دشمن ہے۔

عائشہ: تو اسماء خثعمیہ کا بیٹا ہے؟

محمد بن ابوبکر: ہاں، لیکن وہ تیری ماں سے کم نہ تھی۔

عائشہ: یہ بات صحیح ہے کہ وہ شریف عورت تھی اس سے کیا بحث ، خدا کا شکرکہ تم سالم ہو۔

محمد بن ابوبکر:لیکن تم مجھے سالم دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔

عائشہ: اگر تجھے سالم دیکھنا نہ چاہتی تو ایسی گفتگو نہ کرتی۔

محمد بن ابوبکر:تو اپنی کامیابی چاہتی تھی اگرچہ میں قتل بھی کردیا جاتا۔

عائشہ: میں جس چیز کو چاہتی تھی وہ میرے نصیب میں نہیں میری آرزو تھی کہ تو صحیح و سالم بچ جائے یہ سب باتیں چھوڑو اور لعنت و ملامت نہ کرو ، جس طرح سے کہ تمہارا باپ ایسانہ تھا۔

علی عائشہ کے کجاوے کے پاس پہونچے اور اپنے نیزے سے اس پر مارا اور کہا: اے عائشہ ، کیا رسول اسلام نے تمہیں اس کام کو انجام دینے کا حکم دیا تھا؟

اس نے امام ـ کے جواب میں کہا: اے ابو الحسن اب جب کہ تم کامیاب ہوگئے ہو تو مجھے معاف کردو۔

______________________

(۱) اس نے یہ کہا:اقتلونی و مالکاً، و اقتلوا مالکاً معی ۔

۴۲۸

تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ عمار یاسر اور مالک اشتر بھی وہاں پہونچ گئے اوران لوگوں کے درمیان درج ذیل گفتگو ہوئی۔

عمار: اماں! آج اپنے بیٹوں کودیکھا کہ راہ راست پر دین کی راہ میں کس طرح تلواریں چلارہے تھے؟ عائشہ نے ان سنی کردیا اور کوئی جواب نہ دیا کیونکہ عمار پیغمبر اسلام کے جلیل القدر صحابی اور قوم کے بزرگ تھے۔

مالک اشتر: خدا کا شکر کہ اس نے اپنے امام کی مدد کی اور اس کے دشمنوں کو ذلیل و خوار کیا، حق آیا اور باطل مٹ گیا کیونکہ باطل تو مٹنے ہی والا ہے، اے مادر! آپ نے اپنے کام کو کیسا پایا؟

عائشہ: تم کون ہو تمہاری ماں تمہارے غم میں بیٹھے؟!

مالک اشتر: میں آپ کا بیٹا مالک اشتر ہوں۔

عائشہ: تم جھوٹ بول رہے ہو میں تمہاری ماں نہیں ہوں۔

مالک اشتر: آپ میری ماں ہیں اگرچہ آپ قبول نہ کریں۔

عائشہ: تم وہی ہو جو میری بہن اسماء کو ان کے بیٹے (عبد اللہ بن زبیر) کے غم میں بٹھا نا چاہتا تھا؟۔

مالک اشتر: یہ کام میں اس لئے انجام دیتا تاکہ خدا کے سامنے عذر پیش کرسکتا ( یہ خدا کے حکم کی بجآوری کے لئے تھا) ۔

پھر عائشہ (جب کہ سوارہو رہی تھیں) نے کہا: تم نے افتخار حاصل کرلیا اور کامیاب ہوگئے خدا کا کام قابل نتیجہ ہوتا ہے۔

امام ـ نے محمد بن ابوبکر سے فرمایا: کہ اپنی بہن سے پوچھوکوئی تیر تو نہیں لگا؟ کیونکہ عائشہ کا کجاوہ تیر لگنے سے ساہی کے کانٹے کی طرح ہوگیا ہے۔

۴۲۹

اس نے اپنے بھائی کے جواب میں کہا صرف ایک تیر میرے سر پر لگا ہے محمد نے اپنی بہن سے کہا خداوند عالم قیامت کے دن تمہارے خلاف فیصلہ کرے گا، کیوں کہ تم نے امام کے خلاف قیام کیا اور لوگوں کو ان کے خلاف اکسایا اور خدا کی کتاب کو نظر انداز کیا ہے عائشہ نے کہا: مجھے چھوڑ دو اور علی سے کہو مجھے مشکلات و پریشانیوں سے بچائیں (میری حفاظت کریں)

محمد بن ابوبکر نے امام ـ کو اپنی بہن کی سلامتی و خیریت سے آگاہ کیا ۔ امام ـ نے فرمایا: وہ ایک عورت ہیں اورعورتیں منطقی نقطۂ نظر سے طاقتور نہیں ہوتیں تم اس کی حفاظت کی ذمہ داری لو اور اسے عبد اللہ بن خلف کے گھر پہونچا دو تاکہ اس کے بارے میں کوئی تدبیر کریں۔

عائشہ پر امام ـ اور ان کے بھائی کا رحم و کرم ہوا مگر عائشہ مسلسل امام ـ کو برا بھلا کہتی رہیں۔ اور جنگ جمل میں قتل ہونے والوں کی بخشش و مغفرت کی دعا میں مشغول رہیں۔(۱)

______________________

(۱) الجمل، ص ۱۹۸۔ ۱۶۶؛ تاریخ طبری، ج۳، ص ۵۳۹۔

۴۳۰

طلحہ و زبیر کا انجام

مؤرخین کا کہنا ہے کہ طلحہ کا قتل مروان کے ہاتھوں ہوا کیونکہ جب طلحہ نے اپنے سپاہیوں کو شکست کھاتے ہوئے دیکھا اور اپنی موت کو آنکھوں سے دیکھ لیاتو راہ فرار اختیار کیا اس وقت مروان کی نگاہ اس پر پڑی ا ور اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ عثمان کے قتل کرنے میں سب اہم رول اسی کا تھا لہذا اسے تیر مار کر زخمی کردیا طلحہ کو یہ احساس ہوا کہ یہ تیر خود اس کی فوج نے پھینکا ہے لہذا اس نے اپنے غلام سے کہا کہ اسے جلدی سے یہاں سے دوسری جگہ پر پہونچا دے ، بالآخر طلحہ کے غلام نے اسے ''بنی سعد'' کے کھنڈر میں پہونچا دیا۔ طلحہ کے بدن سے خون بہہ رہا تھا اس نے کہا: کسی بھی بزرگ کا خون ہماری طرح آلودہ نہیں ہوا ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ روح اس کے بدن سے نکل گئی۔

زبیر کا قتل

جنگ جمل کا دوسرے فتنہ پرورزبیرنے جب شکست کا احساس کیا تو مدینہ کی طرف بھاگنے کا ارادہ کیا وہ بھی قبیلہ ''احنف بن قیس'' کے راستے سے اس قبیلہ نے امام ـ کے حق جنگ میں شرکت کرنے سے پرہیز کیا تھا، قبیلہ کا سردار زبیر کی اس نامردی پر بہت غضبناک ہوا، کیونکہ اس نے انسانی اصولوں کے خلاف لوگوں کو اپنے مفاد کے لئے قربان کردیا تھا اور اب چاہتا تھا کہ میدان سے بھاگ جائے۔

احنف کے ساتھیوں میں سے عمرو بن جرموز نے ارادہ کیا کہ جتنے لوگوں کا خون بہا ہے اس کا بدلہ زبیر سے لے، لہٰذا اس کا پیچھا کیا اور جب وہ راستے میں نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو پیچھے سے حملہ کیا اور

۴۳۱

اسے قتل کر ڈالا اس کا گھوڑا ، انگوٹھی اور اس کی تلوار ضبط کرلیااور جو نوجوان اس کے ساتھ تھا اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا، اس جوان نے زبیر کو ''وادی السباع'' میں سپرد خاک کیا۔(۱)

عمرو بن جرموز احنف کے پاس واپس آیا اور اس نے زبیر کے حالات سے آگاہ کیا اس نے کہا: مجھے نہیں معلوم کہ تم نے نیک کام انجام دیا یا برا، پھر دونوں امام ـ کی خدمت میں آئے جب امام ـ کی نظر زبیر کی تلوار پر پڑی تو آپ نے فرمایا:''طالماً جلی الکرب عن وجه رسول الله'' یعنی، اس تلوار نے کئی مرتبہ پیغمبر کے چہرے سے غم کے غبار کو ہٹایا تھا۔ پھر اس تلوار کو عائشہ کے پاس بھیج دیا۔(۲)

جب حضرت کی نظر زبیر کے چہرے پر پڑی تو آپ نے فرمایا:''لقد کنت برسول الله صحبة و منه قرابةً و لکن دخل الشیطان منخرک فأوردک هذا المورد'' (۳)

یعنی تو مدتوں پیغمبرکے ہمراہ تھا اور ان کا رشتہ دار بھی تھا لیکن شیطان نے تیری عقل پر غلبہ پیدا کر لیا اورتجھے اس انجام تک پہونچا دیا۔

جنگ جمل میں قتل ہونے والوں کی تعداد

تاریخ نے جنگ جمل میں قتل ہونے والوں کی تعداد کو معین نہیں کیا اور اس سلسلے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے شیخ مفید لکھتے ہیں کہ بعض مؤرخین نے جنگ جمل میں مارے جانے والوں کی تعداد ۲۵ ہزار لکھا ہے جب کہ عبداللہ بن زبیر (اس معرکہ کا فتنہ پرور انسان) نے قتل ہونے والوں کی تعداد ۱۵ ہزار لکھا ہے اور شیخ مفید نے دوسرے والے قول کو ترجیح دیا ہے اور لکھتے ہیں کہ مشہور یہ ہے کہ مارے جانے والوں کی کل تعداد ۱۴ ہزار تھی۔(۴)

طبری نے اپنی کتاب میں مارے جانے والوں کی تعداد ۱۰ ہزار نقل کی ہے جس کی نصف تعداد عائشہ کے لشکر اور نصف تعداد امام ـ کے لشکر کی ہے ۔ پھر دوسرا نظریہ نقل کرتا ہے جس کا نتیجہ جو کچھ ہم

______________________

(۱) الجمل، ص ۲۰۴؛ تاریخ ابن اثیر، ج۳، ص ۲۴۴۔ ۲۴۳۔ ----- (۲) تاریخ طبری، ج۳، ص ۵۴۰؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱، ص ۲۳۵۔

(۳) الجمل، ص ۲۰۹۔-----(۴) الجمل، ص ۲۲۳۔

۴۳۲

نے زبیر سے نقل کیا ہے دونوں ایک ہی ہے۔(۱)

جنگ جمل میں قتل ہونے والوں کی تدفین

جنگ جمل کا واقعہ ۱۰ جمادی الثانی ۳۶ ھ کو جمعرات کے دن رونما ہوا اور ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا(۲) کہ عائشہ کے اونٹ گرنے اور کجاوہ کے ٹیڑھے ہونے سے جنگ ختم ہوگئی اور ایک بھی معقول ہدف نہ ہونے کی وجہ سے غالباً ناکثین نے راہ فرار اختیار کرلی، مروان بن حکم نے قبیلۂ ''عنزہ'' کے گھر میں پناہ لی۔

اور نہج البلاغہ میں حضرت علی کے کلام سے استفادہ ہوتا ہے کہ حسنین نے امام ـ سے اس کی حفاظت کی درخواست کی، لیکن سب سے عمدہ بات یہ کہ جب حسنین نے آپ سے عرض کیا کہ مروان آپ کی بیعت کرلے گا تو امام ـ نے فرمایا:

''أولم یبایعنی بعد قتل عثمان؟ لا حاجة لی فی بیعته انها کف یهودیة لو بایعنی بکفه لغدر بسبته اما ان له امرة کلعقة الکلب أنفه، و هو ابو الاکبش الاربعة و ستلقی الامة منه و من ولده یوماً أحمر'' ۔(۳)

کیاعثمان کے قتل کے بعد اس نے میری بیعت نہیں کی تھی اب مجھے اس کی بیعت کی ضرورت نہیں ہے یہ ہاتھ تو یہودی والا (یعنی مکار ہاتھ ہے، اس لئے کہ یہودی اپنی مکر و حیلہ میں ضرب المثل ہیں۔مترجم) ہاتھ ہے اگر یہ ہاتھ سے میری بیعت کرلے گا توذلت کے ساتھ اسے توڑ بھی دے گا یاد رکھو اسے ایسی حکومت ملے گی جس میں کتّا اپنی ناک چاٹتا ہے اور اس کے چار بیٹے بھی بس اتنی ہی دیر کے لئے حکمران ہوں گے اور وہ دن جلد آنے والا ہے جب امت کواس کے اور اس کے بیٹوں کے ذریعے سرخ (خونی) دن دیکھنا نصیب ہوگا۔

عبداللہ ابن زبیر نے ایک ازدی کے گھر میں پناہ لی تھی اور عائشہ کو اس بات کی خبر دے دی تھی عائشہ نے اپنے بھائی محمد بن ابوبکر کو جو امام ـ کے حکم سے عائشہ کی حفاظت کر رہے تھے ، عبد اللہ کے پاس بھیجا جہاں وہ پناہ لئے تھا تاکہ اسے عبد اللہ بن احنف کے گھر پہونچا دے ،کیونکہ عائشہ بھی وہیں تھیں ۔ بالآخر عبد اللہ بن زبیر اور مروان نے بھی وہیں

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۳، ص ۵۴۳۔-----(۲) ابن ابی الحدید نے جنگ ہونے کی مدت دو دن لکھی ہے ، ج۱، ص ۲۶۲۔

(۳) نہج البلاغہ، خطبہ ۷۱۔

۴۳۳

پناہ لی۔(۱) پھر دن کے باقی حصے میں امام ـ میدان جنگ میں آئے اور بصرہ کے لوگوں کو بلایاتاکہ اپنے مرنے والوں کو دفن کریں۔ طبری کے نقل کر نے کے مطابق، امام نے ناکثین کے گروہ میں شامل بصرہ اور کوفہ کے لوگوں کی نماز جنازہ پڑھی اور جو آپ کے ساتھی جام شہادت نوش کرچکے تھے ان پر بھی نماز پڑھی اور سب کو ایک بڑی قبر میں دفن کردیا اور پھر حکم دیا کہ لوگوں کے تمام مال و اسباب کو انھیں واپس کردیں ، صرف ان اسلحوں کو واپس نہ کریں جن پر حکومت کی نشانی ہوپھر فرمایا:

''لا یحلُّ لمسلمٍ من المسلم المتوفی شیئ'' (۲)

مردہ مسلمان کی کوئی بھی چیز دوسروں کے لئے حلال نہیں ہوگی۔

امام ـ کے بعض ساتھیوں نے بہت اصرار کیا کہ ناکثین کے ساتھ جنگ گویا مشرکوں کے ساتھ جنگ گرنا ہے یعنی جتنے لوگ گرفتار ہوئے ہیںانھیں غلام بنایاجائے اور ان کا مال تقسیم کردیا جائے

امام ـ نے اس سلسلے میں فرمایا:''أیکم یأخذ ام المومنین فی سهمه'' (۳) یعنی تم میں سے کون حاضر ہے جو عائشہ کو اپنے حصے کے طور پر قبول کرے؟ امام جعفرصادق ـ نے ایک حدیث میں اس گروہ کے متعلق جسے فقہ اسلامی نے ''باغی'' کے نام سے تعبیر کیا ہے، فرمایا ہے:

''ان علیاً علیه السلام قتل اهل البصرة و ترک أموالهم ، فقال ان دار الشرک یحل ما فیها و ان دار الاسلام لایحل ما فیها ان علیا انما من علیهم کما من رسول الله صلی اللّٰه علیه وآله وسلم علی اهل مکة'' ۔(۴)

امام ـ نے اہل بصرہ کو ان کی بغاوت کی وجہ سے قتل کیا تھا لیکن ان کے مال و اسباب کو ہاتھ نہ لگایا کیونکہ مشرک کا حکم اور مسلمان باغی کا حکم برابر نہیں ہے اسلامی فوج کو جو کچھ بھی مشرک و کافر کے علاقہ سے ملے اس کا لے لینا حلال ہے لیکن جو کچھ سرزمین اسلام پر پایا جائے حلال نہیں ہوگا جیسا کہ علی نے ان پر احسان کیا جیسا کہ پیغمبر اسلام نے اہل مکہ پراحسان کیا تھا۔

______________________

(۱)امام علیہ السلام نے اپنے اس کلام میں غیب کی چند خبروں سے آگاہ کیاتھا۔------(۲) تاریخ طبری، ج۲، ص ۵۴۳۔

(۳) وسائل الشیعہ، ج۱۱، باب ۲۵، ابواب جہاد۔------(۴) وسائل الشیعہ، ج۱۱، باب ۲۵، ابواب جہاد، اس سلسلے میں ابن ابی الحدید کا دوسرا نظریہ ہے وہ کہتا ہے کہ امام نے جوکچھ بھی میدان میں تھا سب کو لے لیااور اپنے لشکر کے درمیان تقسیم کردیا۔

۴۳۴

حضرت علی ـ کی مقتولین سے گفتگو

جنگ بدر میں پیغمبر اسلام (ص)نے قریش کے لاشوں کو ایک کنویں میں ڈالا اور پھر ان سے گفتگو کرنے لگے اور جب حضرت سے لوگوں نے کہا کہ کیا مردے بھی زندوں کی باتیں سنتے ہیںتو آپ نے فرمایا: تم لوگ ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو۔(۱)

امیر المومنین علیہ السلام میدان جمل میں لاشوں کے درمیان سے گزر رہے تھے کہ عبد اللہ بن خلف خزاعی کو دیکھا جو خوبصورت کپڑے پہنے تھا لوگوں نے کہا وہ ناکثین کے لشکر کا سردار تھا امام ـ نے فرمایا: ایسا نہیں تھا بلکہ وہ ایک شریف اور اچھا انسان تھا پھر آپ کی نظر عبد الرحمن بن عتاب بن اسید پر پڑی تو آپ نے فرمایا: یہ شخص ناکثین کا سردار اور رئیس تھا پھر آپ قتل گاہ میں ٹہلتے رہے یہاں تک کہ قریش کے گروہ کے کچھ لاشوں کو دیکھا اور فرمایا: خدا کی قسم، تمہاری یہ حالت میرے لئے غم کا باعث ہے لیکن میں نے تم پر حجت تمام کردی تھی لیکن تم لوگ نا تجربہ کار نوجوان تھے اور اپنے کام کے نتیجے سے باخبر نہ تھے۔

پھر آپ کی نگاہ بصرہ کے قاضی کعب بن سور پر پڑی جس کی گردن میں قرآن لٹکا ہوا تھا آپ نے حکم دیا کہ اس کی گردن سے قرآن نکال کر کسی پاک جگہ پر رکھ دیا جائے پھر فرمایا: اے کعب! جو کچھ میرے خدا نے وعدہ کیا تھا اسے میں نے صحیح اور استوار پایا۔ اور کیا تو نے بھی جو کچھ تیرے پروردگار نے تجھ سے وعدہ کیا تھا صحیح پایا؟ پھر فرمایا:

''لقد کان لک علم لونفعک ، و لکن الشیطان أضلَّک فأزلک فعجَّلک الی النار'' (۲)

______________________

(۱) سیرۂ ہشام، ج۱، ص ۶۳۹۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱، ص ۳۴۸۔

۴۳۵

تیرے پاس علم تھااے کاش (تیرا وہ علم) تجھے فائدہ پہونچاتا لیکن شیطان نے تجھے گمراہ کیا اور تجھے بہلا پھسلا کر جہنم کی طرف لے گیا۔

اور جب امام ـ نے طلحہ کی لاش کودیکھا تو فرمایا: اسلام میں تیری خدمات تھیں جو تجھے فائدہ پہونچا سکتی تھیں لیکن شیطان نے تجھے گمراہ کردیااور تجھے بہلایا اورتجھے جہنم کی طرف لے گیا۔(۱)

تاریخ کے اس حصے میں امام ـ نے باغیوں کی صرف مذمت کی اور اہل جہنم کی شناخت کرائی اس کے علاوہ دوسری چیزیں بیان نہیں کی ہیں لیکن معتزلہ فرقہ کا کہنا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ اپنی موت سے پہلے اپنے کام پر شرمندہ ہوئے تھے اور توبہ کرلیاتھا۔ ابن ابی الحدیدجو مذہب معتزلہ کا بہت بڑا مدافع ہے لکھتا ہے کہ بزرگوں سے روایت ہے کہ علی نے فرمایا : طلحہ کو بٹھائو اور اس وقت اس سے کہا:

''یعز علی با أبا محمد أن اراک معفراً تحت نجوم السماء و فی بطن هذا الوادی ابعد جهادک فی الله و ذبک عن رسول الله؟''

یہ بات میرے لئے سخت ناگوار ہے کہ تجھے زیر آسمان اور اس بیابان میں خاک آلوددیکھوں کیا سزاوار تھا کہ خدا کی راہ میں جہاد اور پیغمبر خدا سے دفاع کے بعد تم ایسا کام انجام دو؟ اس وقت ایک شخص امام ـ کی خدمت میں پہونچا اور کہا: میں طلحہ کے ساتھ تھا جب اسے اجنبی کی جانب سے تیر لگا تو اس نے مجھ سے مدد مانگی اور پوچھا : تم کون ہو؟

میں نے کہا: میں امیر المومنین کے دوستوں میں سے ہوں۔

اس نے کہا: تم اپنا ہاتھ مجھے دو تاکہ میں تمہارے وسیلے سے امیر المومنین کی بیعت کروں پھر اس نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر بیعت کی ۔

امام ـ نے اس موقع پر فرمایا: خدا نے چاہا کہ طلحہ نے جس حالت میں میری بیعت کی ہے اسے جنت میں لے جائے۔(۲)

تاریخ کا یہ حصہ افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیا طلحہ امام ـ کے مقام و منزلت اور آپ کی حقانیت

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱، ص ۳۴۸۔----(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۱، ص ۳۴۸۔

۴۳۶

و شخصیت سے واقف نہ تھا؟ اس طرح کی توبہ وہ لوگ کرتے ہیں جو مدتوں جہالت میں زندگی بسر کرتے ہوں اور جب جہالت کا پردہ ان کی آنکھوں سے ہٹ جاتا ہے تو وہ حقیقت کا نظارہ کرتے ہیں ،جب کہ طلحہ شروع سے ہی حق و باطل کے درمیان فرق کو جانتا تھا۔ اس کے علاوہ اگر اس افسانہ کو صحیح مان بھی لیاجائے تو قرآن کریم کی نظر میں طلحہ کے توبہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے :

''و لیست التوبة للذین یعملون السیئات حتی اذا حضرَ أحدُهم الموتَ قال انی تُبتُ الآن و لا الذین یموتون و هم کفار اولٰئک أعتد نا لهم عذاباً ألیماً'' (۱)

اوران لوگوں کی توبہ جو لوگ برے کام انجام دیتے ہیںاور پھر موت کے وقت کہتے ہیں کہ میں نے توبہ کرلیا ہے تو وہ قابل قبول نہیں ہے اوران لوگوں کی توبہ ایسی ہے کہ وہ مرتے ہیں جب کہ ان کی موت کفر کی ہوتی ہے اور ان لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔

بہرحال، کیا صرف امام ـ کی بیعت کرنے سے اس کے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں گے؟اس نے زبیر اور ام المومنین کی مدد و مشورت سے بصرہ کے میدان میں بہت زیادہ لوگوں کا خون بہایا ہے ، یہاں تک کہ ان لوگوں کے حکم سے بہت سے گروہ مثل گوسفند ذبح کئے گئے ہیں لوگ رسول خدا کے صحابیوں کی اس طرح کی بے فائدہ طرفداری کرتے ہیںاور چاہتے ہیں کہ سب کو عادل مانیں۔

______________________

(۱) سورۂ نسائ، آیت ۱۶۔

۴۳۷

بصرہ کی شکست، امام ـ کا خطوط لکھنا، اور عائشہ کو مدینہ روانہ کرنا

امام ـ کی فوج اور بصرہ کے بے وفاؤں کے درمیان جنگ کے احتمال کی خبر ، تجارت کرنے والے گروہ جو اس راستے سے عراق، حجاز، شام وغیرہ آتے جاتے تھے، کے ذریعے تمام اسلامی ملکوںتک پہونچ گئی اور مسلمان اور عثمان کے کچھ چاہنے والے اس واقعہ کی خبر سننے کے لئے بے چین تھے اور دونوں گروہوں میں سے ایک کی کامیابی اور دوسرے کی شکست بہت ہی اہمیت کی حامل تھی۔ اسی وجہ سے امام ـ نے مقتولین دفن کرنے کا حکم دیا، اور میدان جنگ کا جائزہ لینے کے بعد، اور بعض قیدیوں کو ان کے خیمہ میں واپس لے جانے کا حکم دینے کے بعد، اپنے کاتب عبد اللہ بن ابی ارفع کو بلایا اور کچھ خطوط املاء کئے (لکھوائے) اور امام کے منشی نے تمام چیزوںکو خط میں لکھا اور خط میں کوفہ اور مدینہ کے مومنین سے مخاطب ہوئے کیونکہ یہی

دو علاقے اس زمانے میں اسلام کے سب سے حساس علاقے تھے، اور اسی کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنی بہن ام ہانی بنت ابو طالب کو بھی خط لکھا ۔ امام ـ نے اس طرح کے خطوط لکھ کر اپنے دوستوںکو خوشحال اور مخالفت کرنے والوں کو ناامید کردیا۔

۴۳۸

شیخ مفید نے ا ن تمام خطوط کی عبارت کو اپنی کتاب(۱) میں بطور کامل نقل کیا ہے ،لیکن طبری نے تمام خطوط میں سے امام ـ کے صرف اس خط کو بہت مختصر طریقے سے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے جو آپ نے کوفہ کے لوگوں کے نام لکھا تھا،اور چونکہ اس نے اپنی کتاب کے اس حصے کو تحریر کرنے میں سیف بن عمر کی تحریرپر اعتماد و کیا ہے لہذا اس نے حقِّ مطلب ادا نہیں کیا ہے اور حساس مطالب کو فقط سادگی سے نقل کرکے آگے بڑھ گیا ہے۔

امام ـ نے جو خط (طبری کے نقل کرنے کے مطابق) کوفہ کے لوگوںکے نام لکھا ہے اس میں جنگ کی تاریخ ۱۵ جمادی الثانی ۳۶ھ اورجنگ کی جگہ خربیہ لکھی ہے ۔

جی ہاں امام ـ دوشنبہ کے دن ''خربیہ'' سے بصرہ روانہ ہوئے تھے اور جب آپ بصرہ کی مسجد میں پہونچے تو آپ نے وہاں دو رکعت نماز پڑھی اور پھر سیدھے عبداللہ بن خلف خزاعی کے گھر پہونچے جس کا گھر بصرہ میں سب سے بڑا تھا اور عائشہ کو اسی گھر میں رکھا گیا تھا۔

عبد اللہ، عمر کی خلافت کے زمانے میں دیوان بصرہ کا کاتب تھا جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں وہ اور عثمان کے بھائی جنگ جمل میں مارے گئے تھے۔ بعض لوگوں کا کہناہے کہ اس نے پیغمبرکا زمانہ بھی دیکھا تھا(۲) اگرچہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔

جب امام ـ عبداللہ کے گھر میں داخل ہوئے اس وقت اس کی بیوی صفیہ بنت حارث بن طلحہ بن ابی طلحہ گریہ و زاری میں مشغول تھی، عبد اللہ کی بیوی نے امام ـ کی توہین کی اور آپ کو ''قاتل الأحبة'' اور ''مفرق الجمع'' کہا۔ لیکن امام ـ نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر عائشہ کے کمرے میں گئے اور انھیں سلام کیااور ان کے پاس بیٹھ گئے اور صفیہ نے جو اہانت کی تھی اسے بیان کیا۔ یہاں تک کہ جب امام ـ

عبد اللہ کے گھر سے نکل رہے تھے اس وقت بھی صفیہ نے دوبارہ توہین کی اس وقت امام ـ کے دوستوںسے برداشت نہ ہوسکا اور عبداللہ کی بیوی کودھمکی دی ۔

امام ـ نے انھیں اس کام سے منع کیااور کہا کوئی بھی خبر مجھے نہ ملے کہ تم لوگوںنے عورتوں کو اذیت دی ہے۔

______________________

(۱) الجمل، ص ۲۱۱و ۲۱۳۔------(۲) اسد الغابہ، ج۲، ص ۱۵۲۔

۴۳۹

بصرہ میں امام ـ کی تقریر

امام ـ عبداللہ کے گھر سے نکلنے کے بعد شہر کے مرکزی مقام پر گئے بصرہ کے لوگوںنے مختلف پرچم کے ساتھ امام ـ کے ہاتھوں پر دوبارہ بیعت کی یہاں تک کہ زخمیوںاور وہ لوگ جنھیں امان دی گئی تھی ان لوگوں نے بھی دوبارہ حضرت کی بیعت کی ۔(۱)

امام ـ پر لازم تھا کہ بصرہ کے لوگوں کو ان کے کام کی غلطیوں اور برائیوں سے آگاہ کریں اسی وجہ سے بصرہ کے تمام افراد آپ کی گفتگو سننے کے لئے آمادہ تھے جب کہ عظمت و نورانیت نے آپ کا احاطہ کر رکھا تھا آپ نے اپنی تقریر شروع کی:

''تم لوگ اس عورت اور اونٹ کے سپاہی تھے جب اس نے تمہیں بلایا تو تم نے اس کی آواز پر لبیک کہا اور جب وہ قتل ہوگیا تو تم لوگ بھاگ گئے تمہارا اخلاق پست اور تمہارا عہد و پیمان عذر و دھوکہ اور تمہارا دین منافقت اور تمہارا پانی کھارا ہے او رجو شخص تمہارے شہر میں زندگی بسر کرنا چاہے گا وہ گناہوں میں مبتلاہوگااو رجو شخص تم لوگوں سے دور رہے گا وہ حق کو پالے گا۔ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ خدا کا عذاب زمین و آسمان سے تمہارے اوپر آرہا ہے اور میرے خیال سے تم سب لوگ غرق ہوگئے ہو سوائے مسجد کے مناروں کے، اور اسی طرح کشتی کا وسطی حصہ (سینہ) پانی کے اوپر نمایاں و ظاہر ہے۔(۲)

پھر آپ نے فرمایا: تمہاری سرزمین پانی سے نزدیک اور آسمان سے دور ہے تمہارے چھوٹوں کی کوئی اہمیت نہیں اور تم لوگوںکی فکریں احمقانہ ہیں تم لوگ (ارادہ میں سستی کی وجہ سے) شکاریوں کا ہدف

______________________

(۱) تاریخ طبری، ج۳، ص ۵۴۵۔

(۲) نہج البلاغہ، خطبہ ۱۳۰۔

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809