فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362331 / ڈاؤنلوڈ: 6025
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

تعارف تفسیر

تفسیر ابن کثیر منھج اور خصوصیات

ڈاکٹر محمد اکبر ملک،

لیکچررشعبہ اسلامیات، گورنمنٹ ایس ای کالج بہاول پور

عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر ۷۰۱ہجری(۱) میں شام کے شہر بصریٰ کے مضافات میں ”مجدل“ نامی بستی میں پیدا ہوئے۔(۲) اور دمشق میں تعلیم و تربیت پائی۔ آپ نے اپنے عہد کے ممتاز علماء سے استفادہ کیا

____________________

۱۔الداؤی شمس الدین محمد بن علی، طبقات المفسرین/۱/۱۱۲، دارالکتب العلمیه، بیروت لبنان، الطبعة الاولیٰ، ۱۴۰۳ه/۱۹۸۳ء ۔ بعض مورخین نے ابن کثیر کا سن ولادت ۷۰۰ھ قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو،شذرات الذهب لابن العماد، ۶/۲۳۱، ذیل طبقات الحفاظ لجلال الدین السیوطی، صفحه ۳۶۱، مطبعة التوفیق بد مشق، ۱۳۴۷ه، عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر لاحمد محمد شاکر، ۱/۲۲، دارالمعارف القاهرة، ۱۳۷۶ه /۱۹۵۶ء اسماعیل پاشابغدادی، امام ابن کثیر کا زمانہ ولادت ۷۰۵ھ بیان کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔هدیة العارفین، اسماء المولفین و آثار المصنیفین، ۱/۲۱۵، وکالة المعارف، استانبول، ۱۹۵۵ء ۔ امام صاحب کے سن ولادت کے بارے میں اسماعیل پاشا البغدادی کا بیان درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ امام صاحب کے والد ۷۰۳ھ میں فوت ہوئے۔ امام ابن کثیر کا اپنا بیان ہے کہ میں اپنے والد کی وفات کے وقت تقریباً تین سال کا تھا۔ ملاحظہ ہو،البدایه والنهایه لابن کثیر، ۱۴/۳۲ خود امام ابن کثیر اپنی کتاب”البدایه والنهایه“ میں ۷۰۱ھ کے واقعات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں”وفیها ولد کا تبه اسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی“ (البدایه والنهایه، ۱۴/۲۱)

۲۔ احمد محمد شاکر، عمدہ التفسیر، ۱/۲۲، بعض ماخذ کے مطابق ابن کثیر دمشق کے مضافات میں مشرقی بصریٰ کی ایک بستی”مجدل القریة“ میں پیدا ہوئے۔ (ملاحظہ ہو، ذیلتذکره الحفاظ لابی المحاسن شمس الدین الحسینی، صفحه ۵۷، مطبعة التوفیق، دمشق، ۱۳۴۷ه) جبکہ مطبوعہ”البدایه والنهایه“ میں”مجیدل القریة“ منقول ہے(البدایه والنهایه ابن کثیر، ۱۴/۳۱) عمر رضا کحالہ نے مقام ولادت ”جندل" تحریر کیا ہے۔(معجم المئولفین، ۳/۲۸۴، مطبعة الترقی بد مشق، ۱۳۷۶ه /۱۹۵۷ء)

۱۸۱

اور تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، تاریخ، علم الرجال اور نحو عربیت میں مہارت حاصل کی۔(۳) آپ نے ۷۷۴ہجری میں دمشق میں وفات پائی اور مقبرہ صوفیہ میں مدفون ہوئے۔(۴) امام ابن کثیر بحیثیت مفسر، محدث، مورخ اور نقاد ایک مسلمہ حیثیت کے حامل ہیں۔ آپ نے علوم شرعیہ میں متعدد بلند پایہ کتب تحریر کیں۔”تفسیر القرآن العظیم“ اور ضخیم تاریخ”البدای والنهای“ آپ کی معروف تصانیف ہیں جن کی بدولت آپ کو شہر ت دوام حاصل ہوئی۔ زیر نظر مضمون اول الذکر کتاب کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔

__________________

۳۔الذهبی، شمس الدین، تذکرة الحفاظ، ۴/۱۵۰۸، مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانیه، حید ر آباد دکن الهند، ۱۳۷۷ه ۱۹۵۸ء، ابن العماد، شذرات الذهب، ۶/۲۳۱، الشوکانی محمد بن علی، البدر الطالع بمحاسن من بعد القرآن السابع، مطبعة السعادة القاهرة، الطبعة الاولیٰ، ۱۳۴۸ه

۴۔النعیمی، عبدالقادر بن محمد، الدارس فی تاریخ المدارس، ۱/۳۷، مطعبة الترقی، دمشق، ۱۳۶۷ء۷۰ه

۱۸۲

تعارف تفسیر:

علامہ ابن کثیر نے قرآن کی جو تفسیر لکھی وہ عموماً تفسیرابن کثیر کے نام سے معروف ہے اور قرآن کریم کی تفاسیر ماثورہ میں بہت شہرت رکھتی ہے۔ اس میں مولف نے مفسرین سلف کے تفسیری اقوال کو یکجا کرنے کا اہتمام کیا ہے اور آیات کی تفسیر احادیث مرفوعہ اور اقوال و آثار کی روشنی میں کی ہے۔ تفسیر ابن جریر کے بعد اس تفسیر کو سب سے زیادہ معتبر خیال کیا جاتا ہے۔ اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ خدیو یہ مصر میں موجود ہے۔ یہ تفسیر دس جلدوں میں تھی۔ ۱۳۰۰ء میں پہلی مرتبہ نواب صدیق حسن خان کی تفسیر ”فتح البیان“ کے حاشیہ پر بولاق، مصر سے شائع ہوئی۔ ۱۳۴۳ء میں تفسیر بغوی کے ہمراہ نو جلدوں میں مطبع المنار، مصر سے شائع ہوئی۔ پھر ۱۳۸۴ء میں اس کو تفسیر بغوی سے الگ کر کے بڑے سائز کی چار جلدوں میں مطبع المنار سے شائع کیا گیا۔ بعدازاں یہ کتاب متعدد بار شائع ہوئی ہے۔ احمد محمد شاکر نے اس کو بحذف اسانید شائع کیا ہے۔ محققین نے اس پر تعلیقات اور حاشیے تحریر کیے ہیں۔ سید رشید رضا کا تحقیقی حاشیہ مشہور ہے۔ علامہ احمد محمد شاکر (م۱۹۵۸) نے ”عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر“ کے نام سے اس کی تلخیص کی ہے۔ اس میں آپ نے عمدہ علمی فوائد جمع کیے ہیں۔ لیکن یہ نامکمل ہے۔ اسکی پانچ جلدیں طبع ہو چکی ہیں اور اختتام سورة انفال کی آٹھویں آیت پر ہوتا ہے۔

محمد علی صابونی نے ”تفسیر ابن کثیر“ کو تین جلدوں میں مختصر کیا اور ”مختصرتفسیر ابن کثیر“ کے نام سے اسے ۱۳۹۳ء میں مطبع دارالقرآن الکریم، بیروت سے شائع کیا بعد ازاں محمد نسیب رفاعی نے اس کو چار جلدوں میں مختصر کیا اور اسے ”تیسرالعلی القدیر لاختصار تفسیر ابن کثیر“ کے نام سے موسوم کیا۔ یہ ۱۳۹۲ء میں پہلی مرتبہ بیروت سے شائع ہوئی۔

ماخذ :

علامہ ابن کثیر نے اپنی ”تفسیر“ کی ترتیب و تشکیل میں سینکڑوں کتب سے استفادہ کیا ہے اور بے شمار علماء کے اقوال و آراء کو اپنی تصنیف کی زینت بنایا ہے۔ چند اہم ماخذ کے نام یہ ہیں۔

۱۸۳

تفاسیر قرآن :

طبری، قرطبی، رازی، ابن عطیة، ابو مسلم الاصفهانی، واحدی، زمخشری، وکیع بن جراح، سدی، ابن ابی حاتم، سنید بن داؤد، عبد بن حمید، ابن مردویة وغیرہ۔

علوم قرآن :

فضائل القرآن ابوعبیدة القاسم، مقدمة فی اصول تفسیر ابن تیمیة وغیرہ۔

کتب حدیث:

صحاح ستة، صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمة، مؤطا امام مالک، مستدرک حاکم، سنن دارقطنی، مسند امام شافعی، مسند دارمی، مسند ابویعلی الموصلی، مسند عبد بن حمید، مسند ابو بکر البزار، معجم کبیر طبرانی وغیرہ۔

کتب تراجم اور جرح و تعدیل:

التاریخ الکبیر امام بخاری، مشکل الحدیث ابو جعفر الطحاوی، الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ابن عبدالبر، الموضوعات ابن الجوزی وغیرہ۔

کتب سیرت و تاریخ:

سیرة ابن اسحاق، سیرة ابن هشام، مغازی سعید بن یحییٰ اموی، مغازی واقدی، دلائل نبوة بیهقی، الروض الانف سهیلی، التنویرفی مولد السراج المنیر عمر بن وحیه الکلبی، تاریخ ابن عساکر وغیره ۔

۱۸۴

فقہ و کلام:

کتاب الام امام شافعی، الارشادفی الکلام امام الحرمین، کتاب الاموال ابوعبیدالقاسم، الاشراف علی مذاهب الاشراف ابن هبیره وغیرہ۔

لغات:

الصحاح ابونصر جوهری، معانی القرآن ابن زیاد الفراء وغیره

ان مصادر کے علاوہفضائل شافعی ابن ابی حاتم، کتاب الآثار و الصفات بیهقی، کشف الغطاء فی تبیین الصلوٰ ة الوسطیٰ و میاطی، کتاب التفکر والا اعتبار ابن ابی الدنیا، السر المکتوم رازی اور دیگر متعدد کتب کے حوالے بھی ہمیں زیر بحث کتاب میں ملتے ہیں، جن سے ابن کثیر کے وسعت مطالعہ اور تحقیقی میدان میں دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔

حافظ ابن کثیر نے اپنی کئی تصانیف کے حوالے بھی ”تفسیر“ میں دئیے ہیں، مثلاًالبدایه والنهایه کتاب السیرة الاحکام الکبیر صفته النار، احادیث الاصول، جزء فی ذکر تطهیر المساجد، جزء فی الصلوٰة الوسطیٰ، جزء فی ذکر فضل یوم عرفه، جزء فی حدیث الصور وغیره ۔(۵) ۔

____________________

۵۔ ابن کثیر، عماد الدین اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، ملاحظہ کیجئے بالترتیب: ۱/۳۶۳،۳/۴۷۸، ۱/۷۹، ۳۲۷،۴۵۷،۴/۵۴۳،۱/۵۵۵،۳/۲۹۲،۱/۲۹۴،۱/۲۴۳،۲/۱۴۹، امجد اکیڈمی لاہور،الباکستان، ۱۴۰۳ھ /۱۹۸۲ء۔

۱۸۵

منھج:

تفسیرکے اصولوں کا التزام :

علامہ ابن کثیر نے زیر تبصرہ کتاب کا نہایت مفصل مقدمہ تحریر کیا ہے اور تفسیر کے درج ذیل اصول متعین کیے ہیں:تفسیر القرآن بالقرآن تفسیر القرآن بالسنة تفسیر القرآن باقوال الصحابة تفسیر القرآن باقوال التابعین (۶)

یہ مرکزی اور بنیادی اصول تفسیر ابن کثیر میں یکساں طور پر بالترتیب نظر آتے ہیں۔ امام موصوف سلیس اور مختصرعبارت میں آیات کی تفسیر کرتے ہیں ایک آیت کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے کئی قرآنی آیات یکے بعد دیگرے پیش کرتے ہیں اور اس سے متعلق جملہ معلوم احادیث ذکر کرتے ہیں، بعدازاں صحابہ،تابعین اور تبع تابعین کے اقوال و آثاردرج کرتے ہیں۔ اس انداز میں مثالیں ان کی تفسیر میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ سورة المومنون کی آیت۵۰ :

( وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّه اٰیٰةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَآ اِلٰی رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ )

کی تفسیر میں متعددروایات و اقوال نقل کیے ہیں اور مختلف مفاہیم بیان کیے ہیں۔ ایک مفہوم کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

”یہ مفہوم زیادہ ”واضح اور ظاہر ہے، اس لیے کہ دوسری آیت میں بھی اس کا تذکرہ ہے، اور قرآن“ کے بعض حصے دوسرے حصوں کی تفسیر کرتے ہیں اور یہی سب سے عمدہ طریقہ تفسیرہے، اس کے بعد صحیح حدیثوں کا اور ان کے بعد آثار کا نمبر آتا ہے۔"(۷)

____________________

۶۔ تفصیل کیلئے دیکھئیے، تفسیر ابن کثیر ۱/۳۔ ۶

۷۔ ایضاً۳/۲۴۶۔

۱۸۶

نقد و جرح:

حافظ ابن کثیر ایک بلند پایہ محدث تھے، اس لیے انہوں نے محدثانہ طریق پر یہ کتاب مرتب کی ہے اور نہایت احتیاط سے صحیح حدیثوں کے انتخاب کی کوشش کی ہے۔ وہ دوران بحث جرح و تعدیل کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے صحیح روایات کو نکھار کر پیش کرتے ہیں،بعض روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں جبکہ غلط اور فاسد روایتوں کی تردید کرتے ہیں، مثلاً آیت( یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ ) (الانبیاء: ۱۰۴) کے بارے میں ابن عمر سے روایت ہے کہ سجل آنحضور کے ایک کاتب کا نام تھا۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے ابن کثیر تحریر کرتے ہیں:

”یہ منکر روایت ہے اور یہ قطعاً صحیح نہیں۔ ابن عباس سے بھی جو روایت بیان کی جاتی ہے، وہ ابوداؤد میں ہونے کے باوجود غلط ہے۔ حفاظ کی ایک جماعت نے اس کی وضعیت پر ایک مستقل رسالہ تحریر کیا ہے اور ابن جریر نے بھی اس کا نہایت پر زور رد کیا ہے۔ اس روایت کے ضعیف ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ کے تمام کاتبین وحی نہایت مشہور لوگ ہیں ان کے نام معروف ہیں۔ صحابہ میں بھی کسی کا نام سجل نہ تھا۔"(۸)

علامہ ابن کثیر مختلف روایتوں کے متعدد طرق و اسناد کا ذکر کے روات پر بھی جرح کرتے ہیں مثلاً سورة البقرة کی آیت ۱۸۵:

( هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰاتٍ مِّنَ الْهُدٰی )

کے تحت ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن المدنی کو ضعیف قرار دیا ہے(۹)

____________________

۸۔ ایضاً۳/۲۰۰۔ خود ابن کثیر نے بھی حدیث سجل کے رد میں ایک جزء تحریر کیا ہے جس کا حوالہ انہوں نے اپنی تفسیر میں دیا ہے، ملاحظہ ہو صفحہ مذکور۔

۹۔ ابن کثیر، تفسیر، ۱/۲۱۶۔

۱۸۷

اسی طرح سورہ مذکورہ کی آیت ۲۵۱:

( وَ لَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ )

کی تفسیر میں مختلف طرق سے ایک روایت بیان کی ہے اور یحییٰ بن سعید کو ضعیف قرار دیا ہے۔(۱۰)

سورة نساء کی آیت۴۳:

( یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوٰةَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا )

کی تفسیر میں سالم بن ابی حفصہ کو متروک اور ان کے شیخ عطیہ کوضعیف قرار دیا ہے۔(۱۱) اسی سورت کی آیت ۹۳:

( وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مَُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُه جَهَنَّمُ الخ ) کے سلسلے میں فرماتے ہیں۔ ابن مردویہ میں حدیث ہے کہ جان بوجھ کر ایمان دار کو مار ڈالنے والا کافر ہے یہ حدیث منکر ہے اور اس کی اسناد میں بہت کلام ہے۔(۱۲) ابن کثیر نے حدیث کے ساتھ ساتھ آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی کثرت سے نقل کئے ہیں لیکن ان کی صحت جانچنے کے لئے یہاں بھی انہوں نے بحث وتنقید کا معیار برقرار رکھا ہے اور ان کی تائید وتردید میں اپنی معتبر رائے کا اظہار کیا ہے مثلاً سورة النساء کی آیت ۴۱:

( فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِیْدٍ الخ )

کی تفسیر میں ابوعبداللہ قرطبی کی کتاب ”تذکرہ“ کے حوالے سے حضرت سعید بن مسّیب کا قول نقل کرتے ہیں اور پھرفرماتے ہیں۔ ”یہ اثر ہے اور اس کی سند میں انقطاع ہے۔ اس میں ایک راوی مبُہم ہے، جس کا نام ہی نہیں نیز یہ سعید بن مسیب کا قول ہے جو حدیث مرفوع بیان ہی نہیں کرتے۔ "(۱۳)

____________________

۱۰۔ ایضاً، ۱/۳۰۳۔ ۱۱۔ ایضاً،۱/۵۰۱ ۱۲۔ ایضاً ۱/۵۳۶۔ ۱۳۔ ایضاً،۱/۴۹۹

۱۸۸

جرح وقدح کے ضمن میں ابن کثیر تاریخ غلطیوں اور حوالوں کی بھی تردید کرتے ہیں،مثلاً

( واذا تتلیٰ علیهم اْٰیٰتناٰ قالو اقد سمعنا لونشآ ء لقلنا مثل هذا ) (الانفال: ۳۱)

کے تحت لکھتے ہیں: ”حضور نے بدر کے روز تین قیدیوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ (۱) عقبہ بن ابی معیط (۲) طعیمہ بن عدی (۳) نضر بن حارث۔ سعید بن جبیر نے ایک روایت میں طعیمہ کی بجائے مطعم بن عدی کا نام بتایا ہے۔ یہ بات غلط ہے، کیونکہ مطعم بن عدی تو بدر کے روز زندہ ہی نہیں تھا، اس لیے اس روز حضور نے فرمایا تھا کہ اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور ان مقتولین میں سے کسی کا سوال کرتا میں تو اس کو وہ قیدی دے دیتا۔ آپ نے یہ اس لیے فرمایا تھاکہ مطعم نے آنحضرت کو اس وقت تحفظ دیا تھا جب آپ طائف کے ظالموں سے پیچھا چھڑا کر مکہ واپس آرہے تھے۔"(۱۴)

شان نزول کا بیان:

اگر کسی سورة یا آیت کا شان نزول ہے تو اما م ابن کثیر اپنی ”تفسیر“ میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرة کی آیت ۱۰۹:

( ودکثیر من اهل الکتاب لویر دونکم من بعد ایمانکم )

کے تحت لکھتے ہیں: ”ابن عباس سے روایت ہے کہ حی بن اخطب اور ابویا سر بن اخطب دونوں یہودی مسلمانوں کے سب سے زیادہ حاسد تھے اور وہ لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ زہری کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف شاعر تھا اور وہ اپنی شاعری میں نبی کی ہجو کیا کرتا تھا۔ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔"(۱۵) سورة اخلاص کا شان نزول اس طرح بیان کیا ہے:

____________________

۱۴۔ ایضاً۲/۳۰۴ ۱۵۔ ایضاً۱/۱۵۳۔

۱۸۹

”مسند احمد میں ہے کہ مشرکین نے حضور سے کہا اپنے رب کے اوصاف بیان کرو اس پر یہ آیت اتری اور حافظ ابویعلی موصلی کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول کریم سے یہ سوال کیا اس کے جواب میں یہ سورہ اتری۔(۱۶)

فقہی احکام کا بیان :

ابن کثیر احکام پر مشتمل آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فقہی مسائل پر بحث کرتے ہیں اور اس سلسلے میں فقہا کے اختلافی اقوال و دلائل بیان کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرہ کی آیت

( قد نری تقلب وجهک فی السماء الخ )

کے تحت لکھتے ہیں: ”مالکیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نمازی حالت نماز میں اپنے سامنے اپنی نظر یں رکھے نہ کہ سجدہ کی جگہ جیسا کہ شافعی، احمد اور ابو حنیفہ کا مسلک ہے، اس لیے کہ آیت کے لفظ یہ ہیں۔

( فول و جهک شطر المسجد الحرام )

یعنی مسجد حرام کی طرف منہ کرو اور اگرسجدے کی جگہ نظر جمانا چاہے گا تو اسے قدرے جھکنا پڑے گا اور یہ تکلف خشوع کے خلاف ہو گا۔ بعض مالکیہ کایہ قول بھی ہے کہ قیام کی حالت میں اپنے سینے پر نظر رکھے۔ قاضی شریح کہتے ہیں کہ قیام میں سجدے کی جگہ نظر رکھے جیسا کہ جمہور علماء کا قول ہے اس لیے کہ اس میں پورا پورا خشوع وخضوع ہے۔ اس مضمون کی ایک حدیث بھی موجود ہے اور رکوع کی حالت میں اپنے قدموں کی جگہ نظر رکھے اور سجدے کے وقت ناک کی جگہ اور قعدہ کی حالت میں اپنی آغوش کی طرف۔(۱۷)

____________________

۱۶۔ ایضاً،۵۶۵

۱۷۔ ایضاً،۱/۱۹۳

۱۹۰

( فمن شهد منکم الشهر ) (البقرة: ۱۸۵)

کی تفسیر میں مولف نے چار مسائل کا ذکر کر کے اس بارے میں علما ء کے مختلف مسالک اور ان کے براہین و دلائل بیان کیے ہیں۔(۱۸)

سورہ نساء کی آیت ۴۳ کے تحت تیمم کے مسائل اور احکام ذکر کیے گئے ہیں۔(۱۹)

( لایواخذکم اللّٰه باللغوفی ایمانکم ) (سورة المائدہ:۸۹)

کے تحت قصداً قسم کے سلسلے میں کفارہ ادا کرنے کے مسائل بیان کئے گئے ہیں(۲۰) امام ابن کثیر فقہی مسائل میں عموماً شافعی مسلک کی تائید کرتے ہیں۔

روایات و قول میں تطبیق:

ابن کثیر مختلف و متضاد روایات میں جمع و تطبیق کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے مابین محاکمہ کرتے ہیں۔ مثلاً سورة آلِ عمران کی آیت ۱۶۹

( ولاتحسبن الذین قتلوا فی سبیل الله امواتاً بل احیاً ء عند ربهم یرزقون ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں : صحیح مسلم میں ہے، مسروق کہتے ہیں ہم نے عبد اللہ ابن مسعود سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا: آپ نے فرمایا: شہیدوں کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور ان کیلئے عرش کی قند یلیں ہیں۔ وہ ساری جنت میں جہاں کہیں چاہیں، کھائیں پےئیں اور قندیلیوں میں آرام کریں۔

___________________

۸۱۔ ایضاً،۱/۲۱۶۔ ۲۱۷ ۱۹۔ ایضاً، ۱/۵۰۵،۴،۵ ۲۰۔ ایضاً،۲/۸۹۔ ۹۱

۱۹۱

لیکن مسند احمد میں ہے کہ شہید لوگ جنت کے دروازے پر نہر کے کنارے سبز گنبد میں ہیں۔ صبح و شام انہیں جنت کی نعمتیں پہنچ جاتی ہیں۔ دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ ہے کہ بعض شہداء وہ ہیں جن کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور بعض و ہ ہیں جن کا ٹھکانہ یہ گنبد ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنت میں سے پھرتے پھراتے یہاں جمع ہوتے ہوں اور پھر انہیں یہیں کھانے کھلائے جاتے ہوں۔” والله اعلم‘‘ (۲۱)

آپ مختلف تفسیری اقوال میں بھی تطبیق دیتے ہیں مثلاً سورة قصص کی آیت (۸۵) ”لر آدک الیٰ معاد“ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس کے تین قول نقل کیے ہیں (۱) موت (۲) جنت (۳) مکہ۔ ان تینوں اقوال میں یوں تطبیق دی ہے کہ مکہ کا مطلب فتح مکہ ہے جوحضوراکرم کی موت کی قربت کی دلیل ہے اور روز قیامت مراد لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہر حال موت کے بعد ہی ہو گا اور جنت اس لیے کہ تبلیغ رسالت کے صلہ میں آپ کا ٹھکانہ وہی ہو گا۔(۲۲)

قرآنی آیات کا ربط و تعلق:

ابن کثیر قرآن مجید کے ربط و نظم کے قائل تھے۔ وہ اپنی ”تفسیر" میں آیات کے باہمی تعلق اور مناسبت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قرآن پاک ایک مربوط منظم کتاب نظر آتی ہے، اس سلسلے میں متعدد مثالیں ”تفسیر ابن کثیر“ میں نظر آتی ہیں مثلاً آیت

( انما الصدٰقٰت للفقرآء والمساکین ) (سورہ توبہ: ۶۰) کے سلسلے میں رقمطر از ہیں۔

___________________

۲۱۔ ایضاً،۱/۴۲۶۔ ۴۲۷

۲۲۔ ایضاً،۳/۴۰۳

۱۹۲

”سورة توبہ کی آیت ۵۸( ومنهم من یلمزک فی الصدقت )

میں ان جاھل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول پر تقسیم صدقات کے سلسلے میں اعتراض کرتے تھے۔ اب یہاں اس آیت میں فرمایا کہ تقسیم زکوةٰ پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتلائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے، ہم نے خود اس کی تقسیم کر دی ہے، کسی اور کے سپرد نہیں کی۔"(۲۳) ( اولئٓک یجزون الغرفة بما صبروا ) (سورہ الفرقان: ۷۵،۷۶) کے متعلق فرماتے ہیں۔ ’چونکہ خدائے رحمن نے اس سے پہلی آیات میں اپنے مومن بندوں کے پاکیزہ اوصاف اور عمدہ طور طریقوں کا ذکر کیا تھا، اس لیے اس کی مناسبت سے اس آیت میں ان اجزا کا ذکر کیا ہے۔"(۲۴)

قرآن مجید میں بعض مقامات پر مومن اور باطل فرقوں کیلئے اسلوب تقابل اختیار کیا گیا ہے جو اس کے منظم و مربوط ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے علامہ ابن کثیر نے یہاں بھی آیتوں کی مناسبت اور ان کا باہمی ربط بیان کیا ہے، مثلاً

( وبشرالذین امنوا وعملو الصٰالحٰتِ ) (سورةالبقرة :۲۵)

کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔ ”چونکہ اللہ تعالی نے پہلے اپنے دشمنوں یعنی بدبخت کفار کی سزا اور رسوائی کا تذکرہ کیا تھا، اس لیے اب اس کی مناسبت سے یہاں اس کے مقابلہ میں اپنے دوستوں یعنی خوش قسمت ایماندار، صالح و نیک لوگوں کے اجر کا ذکر کر رہا ہے اور صحیح قول کے مطابق قرآن مجید کے مثالی ہونے کا یہی مطلب ہے کہ ایمان کے ساتھ کفر اور سعادتمندوں کے ساتھ بدبختوں یا اس کے برعکس یعنی کفر کے ساتھ ایمان اور بدبختوں کے ساتھ سعادتمندوں کا تذکرہ کیا جائے۔ اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی چیز کے ساتھ اس کے مقابل کا ذکر کیا جائے تو یہ مثانی کہلائے گا اور اگر کسی چیز کے ساتھ اسکے امثال و نظائر کا تذکرہ کیا جائے تو یہ متشابہ ہو گا۔"(۲۵)

__________________

۲۳۔ ایضاً،۲/۳۶۴ ۲۴۔ ۲/۳۶۴ ۲۴۔ ایضاً، ۳/۳۳۰ ۲۵۔ ایضاً، ۱/۶۲

۱۹۳

حروف مقطعات پر بحث:

حروف مقطعات کے بارے میں امام ابن کثیر کا نقطہ نظریہ ہے:

”جن جاہلوں کا یہ خیال ہے کہ قرآن کی بعض چیزوں کی حیثیت محض تعبدی ہے، وہ شدید غلطی پر ہیں۔ یہ تو بہر حال متعین ہے کہ ان حروف (مقطعات ) کے کوئی نہ کوئی معنی ضرور ہیں، خدا نے ان کو عبث نازل نہیں فرمایا، اگر ان کے متعلق نبی کریم سے کوئی بات ثابت ہو گی تو ہم اسے بیان کرینگے اور اگر حدیث سے کوئی بات معلوم نہ ہو گی تو ہم توقف کریں گے اور یہ کہیں گے کہ (امنابہ کل من عندہ ربنا )۔ حروف مقطعات کے متعلق علمائے امت کا کسی ایک قول اور مفہوم پر اجماع نہیں ہے بلکہ اختلافات ہیں، اس لیے اگر کسی دلیل سے کسی کے نزدیک مفہوم زیادہ واضح ہے تو اس کو وہ مفہوم اختیار کر لینا چاہیے، ورنہ حقیقت حال کے انکشاف تک توقف کرنا چاہیے۔"(۲۶)

ابن کثیر نے زیر بحث کتاب میں حروف مقطعات پر عمدہ بحث کی ہے اس سلسلے میں وہ مختلف مفسرین کے اقوال کی روشنی میں ان کے معانی ومفاہیم متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں(۲۷)

فضائل السورآیات:

”تفسیر ابن کثیر“ میں سورتوں اور آیتوں کے فضائل و خصوصیات، آنحضور کا ان پر تعامل اور امت کو ترغیب و تلقین کا تذکرہ پایاجاتا ہے۔ اس سلسلے میں ابن کثیر نے اہم کتب احادیث کے علاوہ امام نسائی کی معروف تصنیف”عمل الیوم واللیلة“ اور امام بیہقی کی”کتاب الخلافیات“ سے بھی استفادہ کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں سورة البقرہ اور سورة آلِ عمران کے فضائل کا مفصل بیان ہے۔ اسی طرح آیت( ولقد اتیناک سبعاً من المثانی ) (سورہ الحجر: ۸۷)

___________________

۲۶۔ ایضاً، ۱/۳۷ ۲۷۔ ایضاً، ۱/۳۵۔ ۳۸

۱۹۴

کے تحت سبع مثانی کی تفسیر میں سات مطول سورتوں بشمول سورة البقرہ وآلِ عمران کے فضائل و خصائص تحریر کیے گئے ہیں۔(۲۸)

امام ابن کثیر سورہ حشر کی آخری تین آیتوں کے متعلق فرماتے ہیں:

”مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ جو شخص صبح کو تین مرتبہ

اعوزبالله السمیع العلیم من الشیطان الرجیم

پڑھ کر سورة حشر کی آخری تین آتیوں کو پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا مرتبہ پاتا ہے اور جو شخص ان کی تلاوت شام کے وقت کرے، وہ بھی اسی حکم میں ہے“(۲۹) امام صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”جادو کو دور کرنے اور اس کے اثر کو زائل کرنے کیلئے سب سے اعلیٰ چیز معوذ تان یعنی سورة الفلق اور سورة الناس ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ان جیسا کوئی تعویذ نہیں۔ اسی طرح آیت الکرسی بھی شیطان کو دفع کرنے میں اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔"(۳۰)

اشعار سے استشھاد:

ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ایک انداز یہ بھی اختیار کیا ہے کہ وہ کسی آیت کے معنی و مفہوم کو واضح کرنے کیلئے حسب موقع عربی اشعار پیش کرتے ہیں۔ یہ طرز غالباً انہوں نے طبری سے حاصل کیا ہے۔ آیت( قل متاع الدنیا قلیل وًالاخرة خیر لمن اتقیٰ ) ۔ (النساء : ۷۷) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے موصوف نے ابومصہر کے یہ اشعار بیان کیے ہیں۔

____________________

۲۸۔ ایضاً، ۱/۳۲۔ ۳۵ نیز ملاحظہ کیجئے ۲/۵۵۷ ۲۹۔ ایضاً، ۴/۳۴۴ ۳۰ ایضاً، ۱/۱۴۸

۱۹۵

ولاخیر فی الدنیا لمن لم یکن له

من اللّٰه فی دارالمقام نصیب

فان تعجب الدنیا رجالا فانها

متاع قلیل والزوال قریب(۳۱)

(اس شخص کیلئے دنیا میں کوئی بھلائی نہیں جس کو اللہ کی طرف سے آخرت میں کوئی حصہ ملنے والا نہیں۔ گو یہ دنیا بعض لوگوں کو پسندیدہ معلوم ہوتی ہے، لیکن دراصل یہ معمولی سافائدہ ہے۔ اور وہ بھی ختم ہونے والا ہے)۔

( وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا ) (سورہ بنی اسرائیل : ۱۰۲)

میں لفظ ”مثبور“ کے معنی ہلاک ہونا۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ معنی عبداللہ بن زبعریٰ کے اس شعر میں بھی ہیں:۔

”اذا جار الشیطٰین فی سنن الغی

ومن مال میله مثبور"(۳۲)

جب شیطان سرکشی کے طریقوں پر چلتا ہے

اور پھر جو لوگ بھی سکے طریقے پر چلیں تو وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔

____________________

۳۱۔ ایضاً، ۱/۵۲۶ ۳۲۔ ایضاً، ۳/۶۷

۱۹۶

لغت عرب سے استدلال:

ابن کثیر تفسیر میں لغت سے بھی استدلال کرتے ہیں اور اقوال عرب کو نظائر و شواہد کے طور پر پیش کرتے ہوئے آیت کی تشریح و توضیح کرتے ہیں مثلاً( فقلیلا مایوٴمنون ) (البقرة : ۸۸) کے متعلق لکھتے ہیں : ”اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ بالکل ایمان نہیں رکھتے ہیں، جیسے عرب کہتے ہیں۔(فلما رأیت مثل هذاقط ) مطلب یہ ہے کہ میں نے اس جیسا بالکل نہیں دیکھا۔"(۳۳)

( يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ ) (سورةالمائدة : ۴)

کی تفسیر میں لفظ ”جوارح“ کو زیر بحث لاتے ہیں اور لکھتے ہیں: ”شکاری حیوانات کو جوارح اس لیے کہا گیا ہے کہ جرح سے مراد کسب اور کمائی ہے، جیسے کہ عرب کہتے ہیں”فلان جرح اهله خیراً“ یعنی فلاں شخص نے اپنے اہل و عیال کیلئے بھلائی حاصل کر لی ہے۔ نیز عرب کا ایک قول یہ بھی ہے”فلاں لا جارح له" یعنی فلاں شخص کا کوئی کمانے والانہیں۔"(۳۴)

جمہور مفسرین اور ابن کثیر:

ابن کثیر اپنی ”تفسیر" میں متقد مین علمائے تفسیر کے مختلف اقوال کا قدر مشترک تلاش کر کے اس کو ہم معنی ثابت کرتے ہیں اور اکثر جمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نقطہء نظر سے اتفاق کرتے ہیں مثلاً آیت

( وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ) (سورةالبقرة ۱۸۵) کے تحت ابن کثیر قضاء روزوں کے مسئلہ پر جمہور کا یہ مسلک اختیار کرتے ہیں کہ قصاء روزے پے در پے رکھنا واجب نہیں بلکہ یہ مرضی پر منحصر ہے کہ ایسے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے جائیں یا متواتر دنوں میں(۳۵)

___________________

۳۳۔ ایضاً،۱/۱۲۴ ۳۴۔ ایضاً، ۲/۱۶ ۳۵۔ ایضاً، ۱/۲۱۷۔

۱۹۷

ابن کثیر نقل و روایت میں مقلد جامدنہ تھے بلکہ ان کی تنقید و تردید بھی کرتے تھے، اس لیے وہ سلف کی تفسیروں کے پابند ہونے کے باوجود بعض اوقات ان کی آراء سے اختلاف بھی کرتے ہیں مثلاً آیت

( فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ۚ فَتَعَالَى اللَّـهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ) (الاعراف : ۱۹۰)

کی تفسیر میں ابن عباس کی روایت بیان کی ہے کہ حضرت حوا کی جو اولاد پیدا ہوتی تھی وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے مخصوص کر دیتی تھیں اور ان کا نام عبد اللہ، عبیداللہ وغیرہ رکھتی تھیں۔ یہ بچے مر جاتے تھے، چنانچہ حضرت آدم وحوا کے پاس ابلیس آیا اور کہنے لگا کہ اگر تم اپنی اولاد کا نام کوئی اور رکھو گے تو وہ زندہ رہے گا اب حوا کا جو بچہ پیدا ہوا تو ماں باپ نے اس کا نام عبدالحارث رکھا۔ اسی بناء پر اللہ نے فرمایا:

( جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا )

اللہ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے۔

پھر ابن کثیر لکھتے ہیں: ”اس روایت کو ابن عباس سے ان کے شاگردوں مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ اور طقبہ ثانیہ کے فتادہ اور سدی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ اسی طرح سلف سے خلف تک بہت سے مفسرین نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے،لیکن ظاہر یہ ہے یہ واقعہ اہل کتاب سے لیا گیا ہے، اس کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن عباس اس واقعہ کو ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں، جیسے کہ ابن ابی حاتم میں ہے۔ میرے نزدیک یہ اثر ناقابل قبول ہے۔"(۳۶)

____________________

۳۶۔ ایضاً، ۲/۲۷۵

۱۹۸

سورة حج کی آیت ۵۲ :

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ ) کے متعلق ابن کثیر کو جمہور کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں ہے، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:

”یہاں پر اکثر مفسرین نے غرانیق کا قصہ نقل کیا ہے اور یہ بھی کہ اس واقعہ کی وجہ سے اکثر مہاجرین حبشہ یہ سمجھ کر کہ اب مشرکین مکہ مسلمان ہو گئے ہیں، واپس مکہ آگئے لیکن یہ سب مرسل روایتیں ہیں جو میرے نزدیک مستند نہیں ہیں۔ ان روایات کو محمد بن اسحاق نے سیرت میں نقل کیا ہے، لیکن یہ سب مرسل اور منقطع ہیں۔ امام بغوی نے بھی اپنی تفسیر میں ابن عباس اور محمد بن کعب قرظی سے اس طرح کے اقوال نقل کرنے کے بعد خود ہی ایک سوال وارد کیا ہے کہ جب رسول کریم کی عصمت کا محافظ خود خدا تعالیٰ ہے تو ایسی بات کیسے واقع ہو گئی ؟ پھر اس کے کئی جوابات دےئے ہیں، جن میں سب سے صحیح اور قرین قیاس جواب یہ ہے کہ شیطان نے یہ الفاظ مشرکین کے کانوں میں ڈالے، جس سے ان کو یہ وہم ہو گیا کہ یہ الفاظ آنحضور کے منہ سے نکلے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ بلکہ یہ صرف شیطانی حرکت تھی، رسول کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔"(۳۷)

علم القراة اور لغوی تحقیق:

ابن کثیر قرآنی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے حسب موقع اختلاف قرات و اعراب، صرفی و نحوی ترکیب اور الفاظ کی لغوی تحقیق کے علاوہ ان کے مصادر، تثنیہ، جمع اور اصطلاحی مفہوم بیان کرتے ہیں مثلاً آیت( وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ ) (الاعراف: ۱۰) میں لفظ ”معائش“ کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں لفظ ”معایش“ کو سب لوگ (ی) کے ساتھ پڑھتے ہیں

___________________

۳۷۔ ایضاً، ۳/۳۲۹۔ ۳۳۰

۱۹۹

یعنی ہمزہ کے ساتھ ”مَعَائِش“ نہیں پڑھتے، لیکن عبدالرحمن بن ہرمز اس کو ہمزہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور صحیح تو یہی ہے۔ جو اکثر کا خیال ہے یعنی بلاہمزہ، اس لیے کہ ”معایش“ جمع معیشتہ کی ہے۔ یہ مصدر ہے، اس کے افعال ”عاش، یعیش مَعِیشَة ہیں اس مصدر کی اصلیت ہے ” معیشة“ کسرہ (ی) پر ثقیل تھا، اس لیے عین کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے اور لفظ ”معیشة" معیشہ بن گیا ہے پھر اس واحد کی جب جمع بن گئی تو(ی) کی طرف حرکت پھر لوٹ آئی کیونکہ اب ثقالت باقی نہیں رہی، چنانچہ کہا گیا کہ مَعَایِش کا وزن مفاعل ہے اس لئے کہ اس لفظ میں (ی) اصل ہے بخلاف مدائن، صحائف اور بصائر کے کہ یہ مدنة صحیفة اور بصیرة کی جمع ہیں، چونکہ (ی) اس میں زائد ہے، لہذا جمع بروزن فعائل ہو گی اور ہمزہ بھی آئے گا۔(۳۸)

( وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۗ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ ۖ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ) (سورہ الاعراف: ۱۶۷)

میں لفظ ”تَاَذَّنَ“ پر اس طرح بحث کرتے ہیں۔ ”تاذن بروزن تفعل“ اذان سے مشتق ہے یعنی حکم دیا یا معلوم کرایا اور چونکہ اس آیت میں قوت کلام کی شان ہے، اس لیے لیبعثن کا (ل) معنائے قسم کا فائدہ دے رہا ہے، اس لیے(ل) ے بعد ہی یبعثن لا یا گیاھم کی ضمیر یہود کی طرف ہے۔"(۳۹)

لغوی بحث کی عمدہ مثال ہمیں زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں تعوذ، تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تفسیر میں نظر آتی ہے۔ ابن کثیر لفظ ”صلوٰة" کی تحقیق فرماتے ہیں: ’عربی لغت میں (صلوٰة ) کے معنی دعا کے ہیں۔ اعشیٰ کا شعر ہے۔

____________________

۳۸۔ ایضاً، ۲/۲۰۲

۳۹۔ ایضاً، ۲/۲۵۹

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

او رمفت خوروں کے لئے لقمہ لذیذ او ردرندوں کا شکار ہو۔(۱)

پھر آپ نے فرمایا: اے اہل بصرہ، اس وقت میرے بارے میں تم لوگوں کا کیا نظریہ ہے؟

اس وقت ایک شخص اٹھا او رکہا: ہم لوگ آپ کے لئے نیکی و خیر کے علاوہ کوئی دوسری فکر نہیں رکھتے ، اگر آپ ہمیں سزا دیں تو یہ ہمارا حق ہے کیونکہ ہم لوگ گناہگار ہیں اور اگر آپ ہمیں معاف کردیں گے تو خدا کے نزدیک عفو و درگذر بہترین و محبوب چیز ہے۔

امام ـ نے فرمایا: میں نے سب کو معاف کردیا۔ فتنہ وغیرہ سے دور رہو تم لوگ پہلے وہ افراد ہو جنھوں نے بیعت کو توڑ دیا اور امت کے ستون کو دو حصوں میں کردیا گناہوں کو چھوڑ دو اور خلوص دل سے توبہ کرلو۔(۲)

اچھی نیت عمل کی جانشین ہے

اس وقت امام ـ کے دوستوں میں سے ایک شخص نے کہا: میری خواہش تھی کہ کاش میرا بھائی یہاں ہوتا تاکہ دشمنوں پر آپ کی فتح و کامرانی کو دیکھتااور جہاد کی فضیلت و ثواب میں شریک ہوتا، امام ـ نے اس سے پوچھا: کیا تمہارا بھائی دل اور فکر سے میرے ساتھ تھا؟

اس نے جواب دیا: جی ہاں۔

امام ـ نے فرمایا:''فقد شَهدْنا و لقد شهِدنَا فی عسکرِنا هذا اقوام فی أصلابِ الرجال و ارحامِ النساء سیرعفُ بهم الزمان و یقوی بهم الایمان'' ۔(۳)

تمہارابھائی بھی اس جنگ میں شریک تھا (اور دوسرے شریک ہونے والے سپاہیوں کی طرح اسے بھی اجر و ثواب ملے گا) نہ یہ صرف وہ بلکہ وہ لوگ بھی جوابھی اپنے باپ کے صلب اوراپنی ماؤں کے رحم میںہیں اور زمانہ انھیںان باتوں سے بہت جلدی آشکار کردے گا اور ایمان ان لوگوں کی وجہ سے قوی ہوگا وہ لوگ بھی اس جنگ میں شریک ہیں۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ، خطبہ ۵۱۴۔------(۲) الجمل، ص ۲۱۸۔-------(۳) نہج البلاغہ خطبہ ۱۲

۴۴۱

امام ـ کا یہ کلام اصل تربیت و اخلاق حسنہ کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ اچھی اور بری نیت جزا اور سزا کے لحاظ سے خود اپنے عمل کی جانشین ہوتی ہے نہج البلاغہ میںدوسرے مقامات پر بھی اس کی طرف اشارہ کیاہے مثلاً آپ فرماتے ہیں :

''ایها الناس انما یجمع الناس الرضا و السخط وانما عقرَ ناقَة ثمودرجل و احد فعمَّهم الله بالعذاب لما عمَّوه بالرضا'' ۔(۱)

اے لوگو! لوگ کبھی ایک عمل سے خوش اور کبھی ایک عمل سے ناخوش ہو کر ایک پرچم کے نیچے جمع ہوتے ہیں۔ ثمود کے ناقہ کوایک آدمی نے ماراتھا لیکن جب عذاب آیاتو سب پر آیاکیونکہ سبھی اس عمل پر راضی تھے۔

بیت المال کی تقسیم

امام ـ کے لشکر کے سپاہی اس جنگ میں کسی بھی چیز کے مالک نہ بنے بلکہ حقیقت میں یہ جنگ سو فیصد الہی جنگ تھی۔ لہذا امام ـ نے دشمن کے اسلحوںکے علاوہ تمام چیزیں خود انہی لوگوںکو واپس کردیں۔ اس وجہ سے ضروری تھا کہ بیت المال ان کے درمیان تقسیم کیاجائے ۔ جب امام ـ کی نگاہیںاس پر پڑیں تو آپ نے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارتے ہوئے کہا: ''غری غیری'' (یعنی جاؤ دوسروںکودھوکہ دو) بیت المال میںکل چھ لاکھ درہم تھے، آپ نے تمام درہموں کواپنے سپاہیوں کے درمیان تقسیم کردیا او ر ہر ایک کو پانچ سو درہم ملے جب امام تقسیم کرچکے تو پانچ سو درہم باقی بچا اسے امام نے اپنے لئے رکھ لیااچانک ایک شخص واردہوا اور اس نے دعویٰ کیاکہ میں بھی اس جنگ میں شریک تھا لیکن اس کا نام فہرست میں لکھنا رہ گیا تھا ۔ امام ـ نے وہ پانچ سو درہم اسے دے دیا، اور فرمایا: خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ اس مال سے میں نے کچھ اپنے لئے حاصل نہیں کیا۔(۲)

______________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۲۰۰

(۲) تاریخ طبری ج۳، ص ۵۴۷۔

۴۴۲

عائشہ کو مدینہ روانہ کرنا

رسول خدا (ص)سے نسبت رکھنے کی وجہ سے عائشہ کاایک خاص احترام تھا امام ـ نے ان کے مقدمات سفر، مثلاً سواری، راستے کا خرچ ، آمادہ کیااور محمد بن ابوبکر کو حکم دیاکہ اپنی بہن کے ساتھ رہیں

اور انھیں مدینہ پہونچائیں اور آپ کے جتنے بھی دوست مدینہ کے تھے او رمدینہ واپس جاناچاہتے تھے انھیں اجازت دیاکہ عائشہ کے ہمراہ مدینہ جائیں امام ـ نے صرف اتناہی انتظام نہیں کیابلکہ بصرہ کی چالیس عظیم عورتوں کو عائشہ کے ساتھ مدینہ روانہ کیا۔

سفر کی تاریخ پہلی رجب المرجب ۳۶ھ بروز شبنہ معین ہوئی اس مختصر سے قافلے کے روانہ ہوتے وقت اکثر لوگ کچھ دور تک ان کے ساتھ گئے اور خدا حافظی کیا:

عائشہ امام ـ کی بے انتہا محبت دیکھ کر متأثر ہوئیں اور لوگوںسے کہا: اے میرے بیٹو! ہم میں سے بعض لوگ، بعض لوگوں پر ناراض ہوتے ہیں لیکن یہ کام زیادہ نہیں ہونا چاہئے خداکی قسم، میرے اور علی کے درمیان۔ ایک عورت اور اس کے رشتہ داروں کے درمیان جو رابطہ ہوتا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے اگرچہ وہ میرے غیض و غضب کا شکار ہوئے ہیں۔ مگر وہ نیک اور اچھے لوگوںمیں سے ہیں۔

امام ـ نے عائشہ کی بات سن کر شکریہ اداکیااور فرمایا: لوگو وہ تمہارے پیغمبر کی بیوی ہیں پھرآپ نے کچھ دور تک ان کی ہمراہی کی اور خدا حافظ کہا۔

شیخ مفید لکھتے ہیں:

''چالیس عورتیں جو عائشہ کے ہمراہ مدینہ گئیں ظاہراً انھوںنے مردوں کالباس پہن رکھا تھا تاکہ اجنبی لوگ انہیں مرد سمجھیں اور کسی کے ذہن میں بھی ناروا باتیںان کے متعلق یا پیغمبر کی بیوی کے متعلق خطور نہ کریں اور عائشہ نے بھی یہی سوچا کہ علی نے مردوں کوان کی حفاظت کے لئے بھیجا ہے مستقل اس کام کے لئے شکوہ کر رہی تھیں ۔ جب مدینہ پہونچیں اور دیکھاکہ سب عورتیںہیں جنھوں نے مردوں کالباس پہن رکھا ہے تواپنے اعتراض کے لئے عذر خواہی کی اور کہا: خدا ابوطالب کے بیٹے کو نیک اجر عطا کرے کہ میرے متعلق رسو ل خدا کی حرمت کا خیال رکھا۔(۱)

______________________

(۱) الجمل ، ص ۲۲۱۔

۴۴۳

حاکموں کو منصوب کرنا

عثمان کی خلافت کے دور میں مصر کا حاکم عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح تھااو رمصریوںکی خلیفہ کے اوپر حملہ کرنے کی ایک وجہ اس کے برے اور بے ہودہ اعمال تھے یہاں تک کہ جب وہ مصر سے نکالاگیااس وقت

محمد بن ابی حذیفہ مصر میں تھے اور ہمیشہ حاکم مصر اور خلیفہ پر اعتراض کرتے تھے۔ جب مصرکے لوگوں نے خلیفہ پر حملہ کرنے کے لئے مدینہ کا سفر کیا اس وقت مصر کے تمام امور کی ذمہ داری محمد بن حذیفہ کے حوالے کردی اور وہ اس منصب پر باقی تھے یہاں تک کہ امام ـ نے قیس بن سعد بن عبادہ کو مصر کے امور کی انجام دہی کے لئے منصوب کیا۔

طبری کاکہناہے کہ جس سال جنگ جمل ہوئی اسی سال قیس مصر گئے، لیکن بعض مؤرخین مثلاً ابن اثیر(۱) وغیرہ کا کہناہے کہ قیس ماہ صفر میں مصر بھیجے گئے اگر اس صفر سے مراد ، صفر ۳۶ھ ہے تو یقینا قیس واقعۂ جمل سے پہلے گئے اور اگر صفر ۳۷ھ مرادہے تو وہ واقعہ جمل کے چھ مہینے کے بعدگئے جب کہ طبری نے قیس کے جانے کی تاریخ و سال کو ۳۶ ھ ہی لکھا ہے آور یہ واقعۂ جمل کاسال ہے۔

جی ہاں، امام ـ نے خلید بن قرہ یربوعی کوخراسان کا حاکم اور ابن عباس کو بصرہ کا حاکم معین کیااور پھر ارادہ کیا کہ بصرہ سے کوفہ کاسفر کریں۔کوفہ جانے سے پہلے آپ نے جریر بن عبداللہ بجلی کو شام روانہ کیاکہ معاویہ سے گفتگو کریں ، تاکہ وہ مرکزی حکومت کی پیروی کا اعلان کرے جس حکومت کے رئیس امام ـ تھے۔(۲) چونکہ بصرہ کی ایک خاص اہمیت تھی اور شیطان نے وہاں اپنی شیطنت کا بیج بودیا تھا لہذاامام نے ابن عباس کو حاکم بصرہ اور زیاد بن ابیہ کو جزیہ جمع کرنے کی ذمہ داری اور ابو الاسود دوئلی کو ان دونوں کاجانشین و مددگار قراردیا۔(۱)

امام ـ نے ابن عباس کو لوگوں کے سامنے بصرہ کا حاکم بناتے وقت بہترین اور عمدہ تقریر کی جسے شیخ مفید نے اپنی کتاب ''الجمل'' میں نقل کیاہے۔(۳) طبری کہتا ہے کہ امام نے ابن عباس سے کہا: ''اضرب بمن أطاعک من عصاک و ترک أمرک''۔(۴)

______________________

(۱) تاریخ ابن اثیر، ج۳، ص ۲۶۸۔------(۲) تاریخ ابن اثیر، ج۳، ص ۵۶۰۔ ۵۴۶۔-----(۳)،(۲) تاریخ جمل، ص ۳۲۴۔

(۴) تاریخ طبری، ج۳، ص ۵۴۶۔

۴۴۴

اطاعت کرنے والوںمیں گناہ کرنے والوں کو او رجو لوگ تمہارے حکم کی پیروی نہ کریں انھیں سخت سزا دینا ۔

جس وقت امام ـ بصرہ سے سفر کر رہے تھے اس وقت خدا سے یہ دعا و مناجات کر رہے تھے،''الحمد للّه الذی أخرجنی من أخبث البلاد'' خداوند عالم کالاکھ لاکھ شکر کہ اس نے ہمیں خبیث ترین شہر سے دور کردیا۔

اس طرح امام ـ کی حکومت سے پہلی مشکل و آفت ختم ہوگئی اور آپ کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے تاکہ معاویہ کے فاسدنقشوں اور ارادوں کو پامال کریںاور اسلام کی وسیع ترین سرزمین کو فاسد عناصر اورخودغرض لوگوں سے پاک کریں۔

۴۴۵

گیارہویں فصل

کوفہ، حکومت اسلامی کا مرکز

اسلام کا سورج مکہ سے طلوع ہوا اور تیرہ سال گذر جانے کے بعد یثرب (مدینہ) میں ظاہر ہوا اوردس سال اپنی نورانی کرنوں کو بکھیرنے کے بعد غروب ہوگیا جب کہ افق کی تازگی شبہ جزیرہ کے لوگوں کے لئے کھلی اور سرزمین حجاز خصوصاً شہر مدینہ دینی اور سیاسی مرکز کے نام سے مشہور ہوگیا۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد مہاجرین و انصار کے ذریعے خلفاء کے انتخاب نے ثابت کردیا کہ مدینہ اسلامی خلافت کا مرکز قرار پائے اور خلفاء اپنے نمائندوں اور حاکموں کو اپنے تمام اطراف و جوانب روانہ کر کے وہاں کے امور کی تدبیر کریں۔ اور ملکوں کو فتح کر کے تمام رکاوٹوں کو دور کر کے اسلام کو پھیلائیں۔

امیر المومنین ـ ،صاحب رسالت کے منصوص و معین کرنے کے علاوہ، مہاجرین و انصار کے ہاتھوں بھی منتخب ہوئے تھے آپ نے بھی خلفاء ثلاثہ کی طرح مدینہ کو اسلامی مرکز قرار دیا اور وہیں سے تمام امور و احکام کی نشر و اشاعت شروع کی ۔ آپ نے اپنی خلافت کے آغاز میں اسی طریقے کو اپنایا اور خطوط بھیجنے، اور عظیم شخصیتوں کو روانہ کر کے، اور دنیا پرستوں کو منصب سے دور کر کے، اور ولولہ انگیز اور تربیتی خطبوں کے ذریعے، اسلامی معاشرے کے تمام امور کو آگے بڑھایا اور اسلامی نظام میں ۲۵ سال یعنی ابوبکر کی خلافت کے ابتدائی دور سے عثمان کے دور تک جو خرابیاں، انحرافات وغیرہ داخل ہوگئے تھے ان کی اصلاح میں مشغول تھے کہ اچانک مسئلہ ناکثین یعنی ان لوگوں کا عہد و پیمان توڑنا جنھوںنے سب سے پہلے آپ کی بیعت کی تھی، پیش آگیا اور بہت خطرناک اور دل دہلا دینے والی خبریں امام ـ کو ملیں اور پتہ چلا کہ ناکثین نے بنی امیہ کی مالی مدد اور پیغمبر کی بیوی کے احترام کی بنا پر عراق کے جنوبی حصہ کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور بصرہ پر قبضہ کر کے امام ـ کے بہت سے نمائندوں اور کارمندوں کو ناحق قتل کردیا ہے۔

یہی چیز سبب بنی کہ امام ـ ناکثین کی تنبیہ اور ان کی مدد کرنے والوں کو سزا دینے کے لئے مدینہ سے بصرہ کی طرف روانہ ہوں او راپنے سپاہیوں کے ہمراہ بصرہ کے نزدیک پڑاؤ ڈالیں ، جنگ کی آگ حقیقی سپاہیوں اور ناکثین کے باطل سپاہیوں کے درمیان پھیل گئی اور بالآخر حقیقی فوج کامیاب ہوگئی اور حملہ و فساد برپاکرنے والوں کے سردار مارے گئے اور ان میں سے کچھ لوگ بھاگ گئے اور بصرہ پھر حکومت اسلامی کی آغوش میں آ گیا اور وہاں کے تمام امور کی ذمہ داری امام ـ کے ساتھیوں کے ہاتھ میں آگئی ، شہر اور لوگوں کے حالات معمول پر آگئے اور مفسر قرآن اور امام کے ممتاز شاگرد ابن عباس بصرہ کے حاکم مقرر ہوئے۔

۴۴۶

ظاہری حالات سے یہ بات واضح ہوتی تھی کہ امام ـ جس راستے سے آئے تھے اسی راستے سے مدینہ واپس جائیں اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے روضۂ اطہر کے کنارے اور بعض گروہوں اور صحابیوں کے رائے و مشورہ سے اسلامی معارف کی نشر و اشاعت ، اور معاشرے میں بیمار افراد کی خبر گیری اور حالات دریافت کریں، اور سپاہیوں کو مختلف شہروں میں روانہ کریں، تاکہ اسلامی قدرت نفوذ کرے۔ اور خلافت کے امور کو انجام دیںاور ایک دوسرے سے ہر طرح کے اختلافات سے پرہیز کریں لیکن یہ ظاہرقضیہ تھا ہر شخص امام علیہ السلام کی ظاہری حالت سے یہی سمجھ رہا تھا خصوصاً اس زمانہ میں مدینہ کچھ زیادہ ہی تقویٰ اور قداست کے لئے معروف تھا کیونکہ اسلام کا واقعی مولد ، اور خدا کا پیغام لانے والے کا مدفن ، اور مہاجر ین و انصار میں صحابیوں کا مرکز تھا جن کے ہاتھوں میں خلیفہ کو منتخب کرنا اور معزول کرنا تھا،

۱۔ان تمام حالات کے باوجود امام علیہ السلام نے کوفہ جانے کا ارادہ کیا تا کہ کچھ دن وہاں قیام کریں اور امام علیہ السلام نے جو اپنے دوستوں کے رائے مشورے سے کو فہ کا انتخاب کیا اس کی دو وجہیں تھیں : امام علیہ السلام بہت زیادہ افراد کے ساتھ مدینہ سے چلے تھے اور بعض گروہ درمیان راہ میں آپ کے لشکر میں شامل ہو گئے تھے لیکن آپ کے اکثر سپاہی اور چاہنے والے کوفہ اور اس کے اطراف کے رہنے والے تھے کیونکہ امام علیہ السلام نے نا کثین کو شکست دینے کے لئے پیغمبر کے بزرگ صحابی عمار یاسر اور اپنے عزیز فرزند امام حسن علیہ السلام کے ذریعہ اہل کو فہ سے مدد مانگی تھی اور کوفہ اس وقت عراق کا ایک اہم شہر تھا اور بہت زیادہ گروہ اس علاقے سے امام علیہ السلام کی مدد کیلئے اپنے اپنے نمائندوں کے ہمراہ حاضر ہوئے تھے(۱) ۔

_______________________________

(۱)مسعودی لکھتا ہے کہ اما م علیہ السلام کے لشکر میں جو کوفہ کے افراد شامل ہوئے ان کی تعداد سات ہزا ر (۷۰۰۰) تھی اور ایک اور قول کی بناء پر ۶۵۶۰تھی (مروج الذہب جلد ۲ص۳۶۸) یعقوبی نے بھی ان کی تعداد ۶۰۰۰لکھی ہے (تاریخ یعقوبی ج ۲،ص۱۸۲)ابن عباس کہتے ہیں جب ہم لوگ ذی قار پہنچے تو ہم نے امام علیہ السلام سے کہا کہ کوفہ سے بہت کم لوگ آپ کی مدد کیلئے آئے ہیںامام علیہ السلام نے فرمایا ۶۵۰افراد بغیر کسی کمی زیادتی کے میری مدد کرنے آئیں گے، ابن عباس کہتے ہیں میں نے ان کی تعداد پر تعجب کیا اور ارادہ کیا یقینااسے شمار کروں گا ،۱۵،دن ذی قار میں قیام کیا یہاں تک کہ گھوڑے اور حچروں کی آوازیں آنے لگیں اور کوفہ کا لشکر پہنچ گیا ، میں نے انہیں باقاعدہ شمار کیا تو دیکھابا لکل وہی تعداد ہے جسے امام علیہ السلام نے بتایا تھا میں نے تکبیر کہی۔اللہ اکبر صدق اللہ رسولہ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج۲،ص۱۸۷۔

۴۴۷

اگر چہ بعض گروہ مثلاًابو موسی اشعری اور اسکے ہم فکروں نے امام کی مدد کرنے سے سے پرہیز کیا اور اپنے قول وفعل سے لوگوں کو جہادمیں جانے سے منع کیا اور جب امام علیہ السلام ناکثین سے جنگ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور دشمنوں کو بے بس کر دیاتو اب حق یہ تھا کہ ان لوگوں کے گھریلو حالات اور زندگی سے با خبر ہوں ، اور جنگ اور آپ کی آواز پر لبیک کہنے والوں کا شکریہ اور جہاد میں جانے سے منع کرنے والوں کی مذمت کریں ۔

۲۔ امام علیہ السلام بخوبی اس بات سے باخبر تھے کہ عہدو پیمان توڑنے اور شورش کرنے والوں کے گناہ کاسبب معاویہ ہے کیونکہ اسی نے عہدوپیمان توڑنے کی رغبت دلائی تھی اور دھوکہ دے کر غائبانہ طور پر ان کی بیعت لی تھی یہاں تک کہ اس نے زبیر کو جوخط لکھا تھا اس میں شورش کے تمام راستوں کو مکمل بیان کیا تھا اور لکھا تھا کہ شام کے لوگوں سے ہم نے تمہاری بیعت لے لی ہے اور جتنی جلدی ہو کوفہ اور بصرہ پر قبضہ کرلو اور عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے قیام کرو اورکوشش کروکہ ابو طالب کے بیٹے کا قبضہ ان دونوں شہروں پر نہ ہونے پائے ۔

اب جب کہ اس باغی وسر کش کا تیر نشانے پر نہ لگا اور شورشیں ختم ہو گئیں تو ضروری ہوگیاکہ جتنی جلدسے جلداس فسادی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور بنی امیہ کے شجرہ ملعونہ کی شاخ کو اسلامی معاشرے کے پیکر سے دور کردیں ، شام سے نزدیک شہر کوفہ ہے اس کے علاوہ ، کوفہ عراق کا سب سے زیادہ لشکر خیز اور امام علیہ السلام کے فدائیوں کا مرکز تھا ،اور امام علیہ السلام دوسری جگہوں سے زیادہ ان لوگوں پر بھروسہ کرتے تھے امام ٭ نے اپنے ایک خطبے میں اس طرف اشارہ کیا ہے آپ فرماتے ہیں :والله ما ا تیتکم اختیارا ولکن جئت الیکم سوتا'' (۱) یعنی خدا قسم میں اپنی خواہش سے تمہاری طرف نہیں آیا بلکہ مجبوری کی وجہ سے آیاہوں ،

یہی دو وجہیں سبب بنیں کہ اما م علیہ السلام نے کوفہ کو اپنا مرکز بنایا ، اور خلافت اسلامی کے مرکز کومدینہ سے عراق منتقل کردیا ، اسی وجہ سے آپ ۱۲،رجب ۳۶ھ دوشنبہ کے دن بصرہ کے بعض بزرگوں کے ہمراہ کوفہ میں داخل ہوئے ، کوفہ کے لوگ اور ان میں سب سے آگے قرآن کے قاریوں اور شہر کی عظیم شخصیتوں نے امام علیہ السلام کااستقبال کیا اور آپ کو خوش آمدید کہا اورامام علیہ السلام کے رہنے کے لئے ''دارالا امارہ ''کا

_______________________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ،۷۰

۴۴۸

انتخاب کیا اور اجازت لی کہ امام علیہ السلام کو وہاں لے جائیں اور امام علیہ السلام وہاں قیام کریں ، لیکن امام نے قصر میں داخل ہونے سے منع کیا ، کیونکہ اس کے پہلے وہ ظالموں اور ستمگروں کا مرکز تھا ،آپ نے فرمایا ، قصر تباہی و بربادی کا مرکز ہے ، اور بالآخر امام علیہ السلام نے اپنی پھوپھیری بہن جعدہ بنت ھبیرہ مخزوص کے گھر کو قیام کے لئے چنا(۱) ۔

امام علیہ السلام نے لوگوں سے کہا کہ '' رحبہ '' نامی مقام پر جمع ہوں ، کیونکہ وہ ایک وسیع میدان تھا اور آپ بھی اپنی سواری سے وہیں پر اترے ،

سب سے پہلے آپ نے مسجد میں دورکعت نماز پڑھی اور پھر منبر پر تشریف لائے اور خدا کی حمدو ثنا کی اور پیغمبر اسلام پر درود وسلام بھیجا اور پھر اپنی تقریر اس طرح شروع کی،''اے کوفہ کے لوگو ،اسلام میں تمہارے لئے فضیلتیں ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ا سے تبدیل نہ کرنا ،میں نے تم لوگوں کوحق کی دعوت دی اور تم نے اس کا مثبت جواب دیا ، برائی کو شروع کیا لیکن پھر اسے بدل دیا ...تم لوگ ان کے پیشوا ہو جو تمہاری دعوتوں کو قبول کریں اور جس چیز میں تم داخل ہوئے ہو وہ بھی داخل ہوں، سب سے بدترین چیز یںجن پر عذاب سے ڈرتا ہوں وہ دو چیز یں ہیں ایک خواہشات نفس کی پیروی ، دوسرے لمبی لمبی امیدیں ، خواہشات نفس ،پیرویٔ حق سے دور کرتی ہے اور لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں آگاہ ہو جائو کہ دنیا تیزی سے منھ موڑ چکی ہے اور آخرت سامنے آگئی ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اولادیں ہیں تم آخرت کی اولاد بن جائو (دنیا کی اولاو نہ بنو)آج عمل کا دن ہے حساب کا نہیں کل حساب کا دن ہوگا عمل کا وقت نہ ہوگا ۔

خدا وند عالم کا لاکھ لاکھ شکر کہ اس نے اپنے ولی کی مدد کی اور دشمن کو ذلیل خوار کیا اور سچے اورایماندار کو عزیز اور عہدو پیمان توڑنے والوں اور اہل باطل کو ذلیل کیا ،تم لوگوں کے لئے لازم ہے کہ تقویٰ وپر ہیز گاری اختیار کرو اور اس شخض کی اطاعت کرو جس نے خاندان پیغمبر خدا کی اطاعت کی ہے ،کیونکہ یہ گروہ اطاعت کے لئے بہتر اور شا ئستہ ہیں بہ نسبت ان لوگوںکے جو خو د کو اسلام اور پیغمبر سے نسبت دیتے ہیں اور خلافت کا دعوی کرتے ہیں اور ہم سے مقابلے کے لئے قیام کرتے ہیں، اور جو فضیلتیں ہم سے ان تک پہنچی

______________________

(۱)وقعئہ صفین،ص۸۔

۴۴۹

ہیں ان سے ہم پر اپنی فضیلت ثابت کرتے ہیں اور ہماری عظمت ورفعت کا انکار کرتے ہیں وہ لوگ خود اپنی سزا کو پہو نچیں گے اور بہت ہی جلدی اپنی گمراہی کے نتیجے میں آخرت کے میدان میں کھڑے ہوں گے۔

آگا ہ رہو کہ تم میں سے بعض گروہوں نے ہماری نصرت ومدد کرنے سے انکار کیا میں ان کی سرزنش و مذمت کرتا ہوںتم لوگ ان لوگوں سے اپنا رابطہ ختم کر دو اور جس چیز کو وہ دوست نہیں رکھتے ان چیزوں کو ان کے کانوں تک پہنچادو تاکہ لوگوں کی رضایت حاصل کریں ،اور خدا کا گروہ شیطان کے گروہ سے پہچانا جاسکے ( یعنی دونوں کا فرق واضح ہوجائے(۱)

_______________________________

(۱)وقعة صفین،ص۱۳،نہج البلاغہ عبدہ خطبہ نمبر۲۷و ۴۱،مرحوم مفید کتاب ارشاد ،ص۱۲۴میں اس خطبے کے ابتدائی حصے کو نقل نہیں کیا ہے ۔

۴۵۰

حکمرانوں کا عادلانہ تعیین

امام علیہ السلام کا کوفیوں کے ساتھ نرم برتائو کرنا بعض شدت پسند انقلابیوں کو پسند نہیں آیا اسی وجہ سے امام علیہ السلام کی فوج کا سردار مالک بن حبیب یر بوعی اٹھا اور اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ میری نگاہ میں ان لوگوں کو اتنی ہی سزادینا کافی نہیں ہے، خدا کی قسم اگر آپ مجھے حکم دیں تو میں ان سب کو قتل کردوں ، امام علیہ السلام نے سبحان اللہ کہتے ہوئے اسے سخت تنبیہہ کی اور فرمایا حبیب ، تم نے حد سے زیادہ تجاوز کیا ہے حبیب پھر اٹھا اور کہا حد سے تجاوز اور عمل میں شدت ناگوار حادثوں کو روکنے ، اور دشمنوں

کے ساتھ نرمی اور ملائمیت کرنے سے زیادہ مؤثر ہے

امام علیہ السلام نے اپنے منطقی اور حکیمانہ ارشاد سے اس کی ہدایت کی اور کہا:

خدا نے ایسا حکم نہیں دیا ہے کہ ا نسان ، انسان کے مقابلے میں مارا جائے گا اب ظلم وتجاوز کی کی پھر کہاں جگہ ہوگی؟خدا وند عالم فرماتا ہے ۔

( وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهِ سُلْطَانًا فَلاَیُسْرِفْ فِی الْقَتْلِ انَّهُ کَانَ مَنصُورًا ) (سورة اسراء آیة۳۳)

اور جو شخص مظلوم قتل کر دیاجائے تو ہم نے اس کے وارث کو حق قصاص دیا ہے مگر قتل میں مقررہ حدود سے تجاوز نہ کرے۔

سیاسی آزادی

جن مخالفین کوفہ نے امام علیہ السلام اور پولیس کے رئیس کے درمیان ہونے والی گفتگو اور علی علیہ السلام کی عدالت کا مشاہدہ کیا اور سیاست کے کھلے ہوئے ماحول کو دیکھا تواپنی مخالفت کی علت کو بیان کیا:

۴۵۱

۱۔ مخالفوں میں سے ایک شخص ابو بردہ بن عوف اٹھا اور امام علیہ السلام کے لشکر میں شامل نہ ہونے کی وجہ مقتولین جنگ جمل سے متعلق سوال کے ضمن میں بتائی۔ اس نے امام علیہ السلام سے پوچھا کیا آپ نے طلحہ و زبیر کے اطرافیوں کے کشتہ شدہ اجسام کو دیکھا ہے؟وہ کیوں قتل کیے گئے؟ امام علیہ السلام نے علت بیان کرتے ہوئے سائل کے اعتماد کوجذب کرتے ہوئے فرمایا. ان لوگوں نے ہماری حکو مت کے ماننے والوں اور نمائندوں کو قتل کیا عظیم شخصیت ربیعہ ء عبدی کودوسرے دیگر مسلمانوں کے ساتھ قتل کر دیا مقتولین کا جرم یہ تھا کہ ہجوم لانے والوں کو عہدوپیمان توڑنے والا کہا اور کہا کہ اس طرح وہ اپنے عہدوپیمان کو نہیں توڑیں گے اور اپنے امام کے ساتھ اس طرح مکرو فریب نہیں کریں گے، میں نے ناکثین سے کہا کہ ہمارے نمائندوں کے قاتل کو ہمارے حوالے کریں تا کہ ان سے قصاص لیں ۔ اورہمارے اور ان کے درمیان خدا کی کتاب فیصلہ کرے گی لیکن ان لوگوں نے قاتلین کو ہمارے حوالے نہیں کیا اور ہم سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہوگئے جبکہ وہ لوگ ہمار ی بیعت کر چکے تھے اور ہمارے ہزاروں دوستوں کو قتل کر دیا تھامیں بھی ان قاتلوں کا بدلہ لینے اور ناکثین کی شورشوں کو خاموش کرنے کے لئے جنگ پر آمادہ ہوگیا اور ان کی شورشوں کو ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا ،پھر امام علیہ السلام نے فرمایا کیا تمہیں اس سلسلے میں کو ئی شک وشبہہ ہے؟ سائل نے کہا میں آپ کی حقانیت کے بارے میں مشکوک تھا لیکن اس بیان کو سننے کے بعد ان لوگوں کی غیر مناسب روش مجھ پر آشکار ہوگئی اور میں نے سمجھ لیا کہ آپ ہدا یت یافتہ اور باریک بین ہیں۔(۱)

سیاست کا کون سا ماحول اس سے زیادہ آزادہوگا کہ جہاد کی مخالفت کرنے والے ،سردار وں اور امام علیہ السلام کے درمیان اپنی مخالفت کی علت کو، جو حاکم کی حقانیت کے بارے میں مشکوک تھا ، بصورت سوال وجواب بیان کر ے ، اور اس کا جواب طلب کرے ،؟ اس کے با وجود کہ سوال کرنے والا قبل اس کے کہ علوی ہو عثمانی تھا اور بعد میں کئی مرتبہ علی علیہ السلام کے ساتھ جنگ میں شریک رہا لیکن باطن میں معاویہ کا

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج۳،ص۱۰۴،وقعہ صفین،ص۵۔۱

۴۵۲

چاہنے والا اورجاسوس تھا لہٰذا امام علیہ السلام کی شہادت اور معاویہ کا عراق پر قبضہ ہونے کے بعد اپنی خدمتوں کے صلے میں جو اس نے معاویہ کے لئے انجام دی تھی ایک بڑی زمین '' فلوجہ ۔(۱) جیسے منطقہ میں اس کے نام لکھ دی گئی۔(۲)

۲۔ سلیمان بن صرد خزاعی ، جو پیغمبر کے صحابی تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے جنگ جمل میں امام علیہ السلام کی حمایت نہیں کی تھی اور مخالفت کی وجہ سے جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے وہ امام علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور علی علیہ السلام نے ان کی ملامت کی اور کہا میری حقانیت کے متعلق تم نے شک کیا اور میرے لشکر میں شامل ہو نے سے انکار کردیا جب کہ میں نے تمہیں بہت اچھا اور بہتر سمجھا تھا کہ تم ہماری خوب نصرت کرو گے ، کس چیز نے تمہیں اہل بیت پیغمبر کی مدد کرنے سے روکا ہے اور ان کی نصرت ومدد کرنے سے تمہیں بے رغبت کر دیا ہے ؟

سلیمان نے احساس شرمندگی کے ساتھ عذر خواہی کی اور کہا ، تمام امور کو پشت پردہ نہ ڈالئیے (اور پچھلی باتوں کو نہ دہرائیے) اور مجھے ان کی وجہ سے شرمندہ اور مذمت نہ کیجئے ، میری محبت ومروت کو اپنی نظر میں رکھئیے میں آپ کی مخلصانہ مدد کروں گا ابھی تمام کام ختم نہیں ہوئے ہیں اور ابھی بہت سے امور باقی ہیں جن میں دوست اور دشمن کو پہچان لیںگے۔

امام علیہ السلام نے سلیمان کی توقع کے خلاف اور عذر خواہی کے مقابلے میں خاموشی اختیار کی اور کوئی جواب نہیں دیا ، سلیمان تھوڑی دیر تک بیٹھے رہے اور پھر اٹھ کر امام مجتبیٰ علیہ السلام کے پاس بیٹھ گئے اور کہا امام علیہ السلام کی تنبہیہ اور ملامت سے آپ کو تعجب نہیں ہورہا؟ امام کے دلبند نے بڑی نوازش کی اور بڑے نرم لہجہ میں فرمایا ان لوگوں کی زیادہ سرزنش کی جاتی ہے جن کی دوستی اور مدد کی امید ہو تی ہے، اس وقت اس عظیم صحابی نے دوسری شورشوں کی بھی خبر دی کہ جو امام علیہ السلام کے خلاف برپا ہوگی اور ان دنوں مخلص وپا کیزہ افرا د مثل سلیمان کی زیادہ ضرورت پڑے گی پھر کہا: ابھی وہ واقعہ باقی ہے کہ جس میں دشمن کے نیزے ہوں گے اور تلواریں میانوں سے باہر ہوجائیں گی ، اس جنگ میں مجھ جیسے افراد کی زیادہ ضرورت ہوگی ، اس

_______________________________

(۱)فلوجہ: عراق کا بہترین اور وسیع ترین علاقہ ہے جو عین التمر کے نزدیک ہے اور کوفہ وبغداد کے درمیان میں واقع ہے ۔

(۲)شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید ،ج۳،ص۱۰۴۔

۴۵۳

کسب رضا میں دھوکہ کا تصور نہ کریں ، امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے فرمایا خدا تجھ پر رحمت نازل کرے ہم ہرگز تم کو مورد الزام نہیں ٹھہرائیں گے۔(۱)

سلیمان بن صرد نے اس کے بعد کبھی بھی اہلبیت پیغمبر کے دفاع سے گریز نہیں کیا انہوں نے امام علی علیہ السلام کے ہمراہ جنگ صفین میں شرکت کی اور میدان جنگ میں شام کے سب سے بڑے پہلوان '' حوشب'' کو قتل کیا ، معاویہ کے مرنے کے بعد انہوں نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا اور آپ کو عراق آنے کی دعوت دی اگر چہ انہوں نے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی مدد کرنے میں کو تاہی کی ،لیکن اس غلطی کا ازالہ کرنے کے لئے بعنوان'' توابین'' چار ہزرا کا لشکر تیار کرکے امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں سے بدلہ لینے کے لئے قیام کیا اور ۶۵ھ میں'' عین ابو وردہ'' علاقے میں شام کی طرف سے آنے والے عظیم لشکر سے جنگ کی اور شہید ہو ئے ۔(۲)

۳۔ محمد بن مخنف کہتے ہیں : امام علیہ السلام کے کوفہ آنے کے بعد میں اپنے بابا کے ساتھ امام علیہ السلام کی خدمت میں آیا ،وہاں پر عراق کی بہت سی شخصیتیں اور قبیلوں کے سردار موجود تھے ان سب نے ناکثین کے مقابلے میں جنگ کرنے سے مخالفت کی تھی ، امام علیہ السلام نے ان کی مذمت کی اور کہا تم لوگ اپنے قبیلے کے سردار ہو کیوں تم نے جنگ میں شرکت نہیں کی ؟ اگر تم لوگوں کی نیتوں میں کھوٹ تھاتو تم سب نقصان میں ہو اور اگر میری حقانیت اور مدد کے بارے میں مشکوک تھے تو تم سب ہمارے دشمن ہو ،ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ آپ کے دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن ہیں پھر اس وقت سب نے اپنا اپنا عذر پیش کیا مثلاً کسی نے بیماری کا بہانہ بنایا تو کسی نے مسافرت کا بہانہ بنایا ، امام علیہ السلام نے

ان کا عذر سن کر خاموشی اختیار کرلی لیکن میرے بابا کی خدما ت کو سراہا اور ہمارے قبیلے کا شکر یہ ادا کیا اور کہا مخنف بن سلبم اور اس کا قبیلہ ، اس گروہ کی طرح نہیں ہے جس کی قرآن اس طرح سے توصیف کررہا ہے:

( وَانَّ مِنْکُمْ لَمَنْ لَیُبَطِّئَنَّ فَانْ َصَابَتْکُمْ مُصِیبَة قَالَ قَدْ َنْعَمَ اﷲُ عَلَیَّ ِذْ لَمْ َکُنْ مَعَهُمْ شَهِیدًا ) (۷۲)( وَلَئِنْ َصَابَکُمْ فَضْل مِنَ اﷲِ لَیَقُولَنَّ کَانْ لَمْ تَکُنْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَهُ

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ج۳ص۱۰۶۔ مراصد الا طلاع۔---(۲)مروج الذہب ج۳ص۱۰۲۔۱۰۱۔

۴۵۴

مَوَدَّة یَالَیْتَنِی کُنتُ مَعَهُمْ فَافُوزَ فَوْزًا عَظِیمًا ) (سورہ نساء آیت ۷۲و ۷۳)۔(۱)

اور تم میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو ( جہادسے) پیچھے ہٹیں گے پھر اگر ( اتفاقاً )تم پر کوئی مصیبت آپڑی تو کہنے لگے خدا نے ہم پر بڑافضل کیا کہ ان میں (مسلمانوں ) کے ساتھ موجود نہ ہوا اور اگر تم پر خدا نے فضل کیا (اور دشمن پر غالب آئے ) تو اس طرح اجنبی بن گئے گویا تم میں اور اس میں کبھی کی محبت ہی نہ تھی یوں کہنے لگا کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو میں بھی بڑی کامیابی حاصل کرتا ۔

بالآخر امام علیہ السلام نے ان تمام تحقیق و تفحص اور عذر قبول کرنے یا ان کے مقابلے میں خاموشی اختیار کرنے بعد اعلان کیا کہ اس مرتبہ تم لوگ معاف کردیئے گئے اور تم لوگوں کے عذر کو قبول کر لیا لیکن آئندہ اس قسم کی حر کتیں نہ ہوں ، اگر امام علیہ السلام اتنا زیادہ ملامت وسرزنش نہیں کرتے تو ممکن تھا کہ یہ گروہ آئندہ بھی مخالفتیں کرتا ۔

_______________________________

(۱) ٔوقعئہ صفین ،ص۱۰ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج۳،ص۱۰۷۔۰۶ا

۴۵۵

کوفہ کی نماز جمعہ میں امام علیہ السلام کا پہلا خطبہ

امام علیہ السلام نے کو فہ میں داخل ہونے کے بعدنماز پڑھانا چاہی اور پوری نماز پڑھی اور جمعہ کے دن نمازجمعہ کوفہ کے لوگوں کے ہمراہ پڑھی اپنے خطبے میں کوفیوں سے مخاطب ہوئے اور خدا کی حمدو ثناء اور پیغمبر اسلام (ص)پر دروروسلام کے بعد فرمایا:میں تم لوگوں کو تقویٰ کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ تقویٰ بہترین چیز ہے کہ جس کاخدا وند عالم نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے اور خدا وند عالم کی رضایت اور نیکی حاصل کرنے کا یہ بہترین وسیلہ ہے تم لوگوں کو تقوی کا حکم دیا گیا ہے اورتم لوگ خدا کی نیکی اور اس کی اطاعت کرنے کیلئے پیدا کئے گئے ہو...

اپنے تمام امور کو خدا کے لئے بغیر کسی ریا اور شہرت طلبی کے انجام دو، جو شخص بھی غیر خدا کے لئے امور انجام دے گا خداوند عالم اسے اسی کے حوالے کرے گا جس کے لئے اس نے وہ کام انجام دیا ہے، اور جو شخص خدا کے لئے کام انجام دے گا خدا خود اس کا اجر عطا کرے گا۔ خدا کے عذاب سے ڈرو کہ تم کو بیہودہ اور عبث پیدا نہیں کیا ہے خدا تمہارے تمام کاموں سے آگاہ ہے اور تمہاری زندگی کے ایام کو معین کیا ہے، دنیا کے دھوکے میں نہ آنا کیونکہ دنیا اپنے متوالوں کو دھوکہ دیتی ہے اور مغرور وہ شخص ہے جسے دنیا مغرور کردے ۔

دوسری دنیا حقیقی جگہ ہے اگر لوگ جانتے ہوتے ۔ خدا سے دعا کرتا ہوں کہ شہداء جیسا مقام اور پیغمبر اسلام کی ہمنشینی اور اچھے لوگوں کی طرح زندگی بسر کرنے کی توفیق مرحمت

۴۵۶

فرمائے۔(۱)

حاکموں کو روانہ کرنا

امیر المومنین علیہ السلام نے کوفہ میں قیام کرنے کے بعد ان اسلامی سرزمینوں پرجن پر اب تک آپ کی جانب سے کوئی بھی نمائندہ یا حاکم نہیں گیا تھا، صالح و متدین شخص کو وہاں روانہ کیا ،تاریخ نے ان افراد کے نام و خصوصیات اور ان کے محل قیام کو اپنے دامن میں درج کیاہے ۔(۲)

مثلاً خلید بن قرّہ کو خراسان روانہ کیا، جب خلید نیشاپور پہونچے تو انھیں خبر ملی کہ شاہ کسریٰ کے باقی افراد جو اس زمانے میں افغانستان کے شہر کابل میں زندگی بسر کر رہے تھے وہ لوگ فعالیت کر رہے ہیں اور لوگوں کو حکومت اسلامی کے خلاف قیام کرنے کے لئے آمادہ کررہے ہیں، امام علی ـ کے نمائندے نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان کو نیست و نابودکیا اور کچھ لوگوں کو اسیر کر کے کوفہ بھیج دیا۔(۳)

امام ـ نے تمام اسلامی علاقوں میں اپنے اپنے نمائندوں کو بھیجا لیکن شام میں معاویہ کی مخالفت زخم میں ہڈی کی طرح باقی رہی اور ضروری تھا کہ اس سلسلے میں جلد سے جلد کوئی تدبیر کی جاتی۔قبل اس کے کہ امام علی علیہ السلام کی حکومت کے اس تاریخی حصے کو بیان کیا جائے کوفہ میں جو بہترین واقعہ پیش آیا اسے بیان کیا جائے، امام علی ـ نے عراق کے لوگوں سے ملاقات کے بعد ان کے کچھ گروہ کےساتھ روبرو ہوئے جو مدتوں سے خاندان کسری کے زیر نظر تھے، امام ـ نے ان سے پوچھا کہ خاندان کسری کے کتنے لوگوں نے تم پر حکومت کیا ہے ان لوگوں نے جواب دیا ۳۲ بادشاہوں نے ہم پر حکومت کی ہے۔ امام ـ نے ان کی حکومت کرنے کا طور و طریقہ پوچھا ان لوگوںنے جواب دیا، ان سب کی ایک ہی روش تھی لیکن ہرمز کے بیٹے کسری نے ایک خاص روش اختیار کی اس نے ملک کی ساری دولت و ثروت کو اپنے سے مخصوص کرلیا اور ہمارے بزرگوں کی مخالفت کرنے لگا۔ جو چیزیں لوگوں کی ضرورت تھیں انہیں ویران

___________________________

(۱)،(۲) وقعۂ صفین ص ۱۴۔ ۱۵؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۰۸ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۳۔

(۳) وقعۂ صفین، ص ۱۲۔

۴۵۷

کردیا اور جو چیز اس کے لئے فائدہ مند تھی اسے آباد کردیا ۔ لوگوں کو حقیر و پست سمجھتا تھا اور فارس کے لوگوں کو ناراض کردیا لوگوں نے اس کے خلاف قیام کیا اور اسے قتل کر ڈالا ان کی عورتیں بیوہ ہوگئیں اور بچے یتیم ہوگئے ،امام ـ نے ان کے نمائندہ''نرسا'' کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

''ان اللّه عزَّ و جل خلقَ الخلقَ بالحقِ و لایرضی من احدٍ الا بالحقِ و فی سلطان اللّهِ تذکرة مما خوَّل اللّهُ و انها لاتقومُ مملکة الا بتدبیرٍ و لابدَ من امارةٍ،و لایزالُ أمرُنا متماسکاً ما لم یشتم آخرُنا اولَنا، فاذا خالفَ آخرُنا اولَنا و افسدوا هلکوا و اهلکوا''

خداوند عالم نے انسانوں کی تخلیق حق پر کی ہے اور ہر انسان کے صرف حقیقی عمل پر راضی ہے سلطنت الہی میں ذکر کے لائق ہے جو چیز خدا نے عطا کیا ہے اور مملکت بغیر تدبیر کی باقی نہیں رہ سکتی۔ اور حتماً لازم ہے کہ حکومت باقی ہو۔ اور ہمارے کام میں اس طرح اتحاد ہوگا کہ آنے والی نسل اپنے اپنے بزرگوں کو برا بھلا نہیں کہے گی، لہذا جب بھی نئی نسل نے اپنی پر انی نسلوں کو برا بھلا کہا اور نیک روش کے ذریعے لوگوں کی مخالفت کی تو وہ خود بھی نابود ہوگئے اور دوسروں کو بھی نابود کردیا۔اس وقت امام ـ نے ان کے بزرگ ''نرسا'' کو ان لوگوں کا سرپرست و امیر معین کیا۔(۱)

بعض حاکموں کو امام ـ کا خط لکھنا

امام ـ کے کوفہ میں قیام اور مختلف شہروں میں حاکم روانہ کرنے کے بعد معاویہ کی نافرمانی اور سرکشی نے امام ـکو سب سے زیادہ فکر مند کردیا، اور آپ مستقل اسی فکر میں تھے کہ جتنی جلد ممکن ہو اس کینسر کو جامعہ اسلامی کے بدن سے دور کردیں۔ اور دوسری طرف بعض حاکموں کی وضعیت اور محبت کلی طور پر واضح نہ تھی کچھ حاکموں نے اور وہاں کے لوگوں نے امام کی بیعت کا اعلان نہیں کیا تھا۔اسی بنا پر امام ـ نے بعض حاکموں کو جو خلیفہ سوم کی طرف سے حاکم معین تھے۔ خط لکھا اور ان سے کہا کہ اپنی اپنی تکلیف کو ظاہر کریں اور اپنی اور لوگوں کی بیعت کا اعلان کریں۔(۲)

امام ـ کے خطوط میں دو اہم خط تھے، جن میں سے ایک ہمدان کے حاکم جریر بن عبد اللہ بجلی کو لکھاتھا اور دوسرا خط آذربائیجان کے حاکم، اشعث بن قیس کندی کو لکھا، ان دونوں خط کاخلاصہ ہم یہاں تحریر کر رہے ہیں:

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین، ص ۱۴۔-----(۲) کامل ابن اثیر، ج۳، ص ۱۴۱۔

۴۵۸

امام ـ کا حاکم ہمدان کے نام خط

خداوند عالم کسی بھی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا مگر یہ کہ وہ لوگ خود اپنی روحی زندگی کو تبدیل کردیں میں تمہیں طلحہ و زبیر کے حالات کی خبر دیتا ہوں، جب ان لوگوں نے ہماری بیعت کو توڑ دیا اور میرے معین کردہ حاکم عثمان بن حنیف پر حملہ کیا میں مہاجر و انصار کے ہمراہ مدینے سے باہر آیا اور درمیان راہ یعنی ''عذیب'' نامی جگہ سے اپنے بیٹے حسن، عبد اللہ بن عباس، عمار یاسر او رقیس بن سعد بن عبادہ کو حکم دیا کہ وہ کوفہ جائیں اور لوگوں کو اسلامی فوج میں داخل ہونے کی دعوت دیں تاکہ عہد و پیمان توڑنے والوں کو سبق سکھائیں ، کوفہ کے لوگوں نے میری آواز پر لبیک کہا میں نے بصرہ سے کچھ فاصلے پر قیام کیا اور شورش کرنے والے سرداروں کو اپنی طرف بلایا اور انھیں مجبور سمجھ کر ان کی غلطیوں کو معاف کردیا اور پھر میں نے ان لوگوں سے دوبارہ بیعت کرنے کے لئے کہا لیکن ان لوگوں نے جنگ کے علاوہ کوئی کام نہ کیا، میں نے بھی خدا سے دعا کی اور جنگ کرنے کا ارادہ کرلیا۔ کچھ لوگ جنگ میں مارے گئے کچھ لوگ بصرہ بھاگ گئے اس وقت ان لوگوںنے ایسی چیزوں کی مجھ سے درخواست کی جس کو میں نے جنگ سے پہلے ان سے طلب کیا تھا۔ میں نے بھی ان کی سلامتی اور حفاظت کا انتظام کیا اور جنگ صلح میں تبدیل ہوگئی ، عبد اللہ بن عباس کو بصرہ کا گورنر معین کیا اور پھر میں کوفہ آگیا اور یہ خط میں تمہیں زحر بن قیس کے ہمراہ بھیج رہا ہوں۔ جو کچھ تمھیں معلوم کرنا ہو اس سے پوچھ لینا۔(۱)

اس خط میں اور اسی طرح دوسرے خط میں جو اشعث بن قیس کو لکھا گیا اس میں کوشش یہی تھی کہ قریش کے دو بزرگوں اور صحابیوں (طلحہ و زبیر) کے درمیان جو مقابلہ ہوااس کی وجہ و علت واضح ہو جائے تاکہ امت مسلمہ کو یہ معلوم ہو جائے کہ ان لوگوںنے پہلے ،امام ـ کے ہاتھوں پر بیعت کی اور اپنے عہد و پیمان کو توڑ کر جامعہ کے نظام کو درہم برہم کردیااور شورش و انقلاب برپا کردیا۔

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص۱۹۔ ۲۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۱۔ ۷۰؛ الامامة و السیاسة ص ۸۲۔

۴۵۹

جب امام ـ کا خط ہمدان کے حاکم کے پاس پہونچا تو اس نے لوگوں کو جمع کیا اور کہا:

اے لوگو! یہ امیر المومنین علی بن ابیطالب ـ کا خط ہے اور وہ دین و دنیا دونوں میں معتبر اور با اعتماد شخص ہیں۔ اور ہم دشمن پر ان کی کامیابی کے لئے خدا کا شکر ادا کرتے ہیں، اے لوگو! اسلام پر سبقت کرنے والے مہاجرین و انصار اور تابعین کے گروہ نے ان کی بیعت کی ہے اور اگر مسئلہ خلافت کو تمام مسلمانوں کے درمیان رکھتے اور سب کو خلیفہ منتخب کرنے کا حق دیتے تو وہ اس کام کے لئے سب سے شائستہ فرد تھے، اے لوگو! زندگی گزارنے کے لئے معاشرہ کے ساتھ مل کر رہنا ضروری ہے جدائی و افتراق فنا و موت ہے ، علی ( ـ) جب تک تم لو گ حق پر رہوگے تمہاری رہبری کریں گے اور اگر حق سے منحرف ہوگئے تو تمھیں پھر سیدھے راستے پر لگادیں گے۔

لوگوں نے حاکم وقت کی بات سن کر کہا:ہم نے تمام باتیں سنیں ہم ان کی اطاعت کریں گے اور ہم سب ان کی حکومت پر راضی ہیں اس وقت حاکم نے امام ـ کے پاس ایک خط لکھا جس میں اپنی اطاعت کرنے اور لوگوں کی اطاعت کے متعلق تحریر کیا۔ (یعنی سب لوگ آپ کے مطیع و فرمانبردار ہیں)۔(۱)

امام ـ کاقاصدزحر بن قیس اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک فصیح و بلیغ خطبہ دیااور کہا:

اے لوگو! مہاجر وانصارنے ان کمال کی وجہ سے جنھیں حضرت علی کے بارے میں جانتے تھے اور ان اطلاعات کی بنیاد پرجوقرآن میں ان کے بارے میں موجودہے ان کے ہاتھوں پر بیعت کی ہے، لیکن طلحہ اور زبیر نے بغیر کسی وجہ کے اپنے عہد و پیمان کو توڑا اور لوگوں کو بغاوت و شورش کی دعوت دی اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ لوگوں کو جنگ کرنے کے لئے آمادہ کردیا۔(۲)

ہمدان کے حاکم اور غرب کے لوگوں کی بیعت نے امام ـ کی حکومت کو اور بھی مضبوط کردیا۔ کچھ دنوں کے بعد حاکم ہمدان نے امام ـ کی حمایت و اعتماد حاصل کرنے کے لئے کوفہ کا سفر کیا۔ :

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۱۶شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۱۔ ۷۲۔

(۲) وقعۂ صفین ص ۱۸۔ ۱۷، الامامة و السیاسة ص ۸۳۔ ۸۲۔

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809