فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)4%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362317 / ڈاؤنلوڈ: 6025
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

او رمفت خوروں کے لئے لقمہ لذیذ او ردرندوں کا شکار ہو۔(۱)

پھر آپ نے فرمایا: اے اہل بصرہ، اس وقت میرے بارے میں تم لوگوں کا کیا نظریہ ہے؟

اس وقت ایک شخص اٹھا او رکہا: ہم لوگ آپ کے لئے نیکی و خیر کے علاوہ کوئی دوسری فکر نہیں رکھتے ، اگر آپ ہمیں سزا دیں تو یہ ہمارا حق ہے کیونکہ ہم لوگ گناہگار ہیں اور اگر آپ ہمیں معاف کردیں گے تو خدا کے نزدیک عفو و درگذر بہترین و محبوب چیز ہے۔

امام ـ نے فرمایا: میں نے سب کو معاف کردیا۔ فتنہ وغیرہ سے دور رہو تم لوگ پہلے وہ افراد ہو جنھوں نے بیعت کو توڑ دیا اور امت کے ستون کو دو حصوں میں کردیا گناہوں کو چھوڑ دو اور خلوص دل سے توبہ کرلو۔(۲)

اچھی نیت عمل کی جانشین ہے

اس وقت امام ـ کے دوستوں میں سے ایک شخص نے کہا: میری خواہش تھی کہ کاش میرا بھائی یہاں ہوتا تاکہ دشمنوں پر آپ کی فتح و کامرانی کو دیکھتااور جہاد کی فضیلت و ثواب میں شریک ہوتا، امام ـ نے اس سے پوچھا: کیا تمہارا بھائی دل اور فکر سے میرے ساتھ تھا؟

اس نے جواب دیا: جی ہاں۔

امام ـ نے فرمایا:''فقد شَهدْنا و لقد شهِدنَا فی عسکرِنا هذا اقوام فی أصلابِ الرجال و ارحامِ النساء سیرعفُ بهم الزمان و یقوی بهم الایمان'' ۔(۳)

تمہارابھائی بھی اس جنگ میں شریک تھا (اور دوسرے شریک ہونے والے سپاہیوں کی طرح اسے بھی اجر و ثواب ملے گا) نہ یہ صرف وہ بلکہ وہ لوگ بھی جوابھی اپنے باپ کے صلب اوراپنی ماؤں کے رحم میںہیں اور زمانہ انھیںان باتوں سے بہت جلدی آشکار کردے گا اور ایمان ان لوگوں کی وجہ سے قوی ہوگا وہ لوگ بھی اس جنگ میں شریک ہیں۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ، خطبہ ۵۱۴۔------(۲) الجمل، ص ۲۱۸۔-------(۳) نہج البلاغہ خطبہ ۱۲

۴۴۱

امام ـ کا یہ کلام اصل تربیت و اخلاق حسنہ کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ اچھی اور بری نیت جزا اور سزا کے لحاظ سے خود اپنے عمل کی جانشین ہوتی ہے نہج البلاغہ میںدوسرے مقامات پر بھی اس کی طرف اشارہ کیاہے مثلاً آپ فرماتے ہیں :

''ایها الناس انما یجمع الناس الرضا و السخط وانما عقرَ ناقَة ثمودرجل و احد فعمَّهم الله بالعذاب لما عمَّوه بالرضا'' ۔(۱)

اے لوگو! لوگ کبھی ایک عمل سے خوش اور کبھی ایک عمل سے ناخوش ہو کر ایک پرچم کے نیچے جمع ہوتے ہیں۔ ثمود کے ناقہ کوایک آدمی نے ماراتھا لیکن جب عذاب آیاتو سب پر آیاکیونکہ سبھی اس عمل پر راضی تھے۔

بیت المال کی تقسیم

امام ـ کے لشکر کے سپاہی اس جنگ میں کسی بھی چیز کے مالک نہ بنے بلکہ حقیقت میں یہ جنگ سو فیصد الہی جنگ تھی۔ لہذا امام ـ نے دشمن کے اسلحوںکے علاوہ تمام چیزیں خود انہی لوگوںکو واپس کردیں۔ اس وجہ سے ضروری تھا کہ بیت المال ان کے درمیان تقسیم کیاجائے ۔ جب امام ـ کی نگاہیںاس پر پڑیں تو آپ نے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارتے ہوئے کہا: ''غری غیری'' (یعنی جاؤ دوسروںکودھوکہ دو) بیت المال میںکل چھ لاکھ درہم تھے، آپ نے تمام درہموں کواپنے سپاہیوں کے درمیان تقسیم کردیا او ر ہر ایک کو پانچ سو درہم ملے جب امام تقسیم کرچکے تو پانچ سو درہم باقی بچا اسے امام نے اپنے لئے رکھ لیااچانک ایک شخص واردہوا اور اس نے دعویٰ کیاکہ میں بھی اس جنگ میں شریک تھا لیکن اس کا نام فہرست میں لکھنا رہ گیا تھا ۔ امام ـ نے وہ پانچ سو درہم اسے دے دیا، اور فرمایا: خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ اس مال سے میں نے کچھ اپنے لئے حاصل نہیں کیا۔(۲)

______________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۲۰۰

(۲) تاریخ طبری ج۳، ص ۵۴۷۔

۴۴۲

عائشہ کو مدینہ روانہ کرنا

رسول خدا (ص)سے نسبت رکھنے کی وجہ سے عائشہ کاایک خاص احترام تھا امام ـ نے ان کے مقدمات سفر، مثلاً سواری، راستے کا خرچ ، آمادہ کیااور محمد بن ابوبکر کو حکم دیاکہ اپنی بہن کے ساتھ رہیں

اور انھیں مدینہ پہونچائیں اور آپ کے جتنے بھی دوست مدینہ کے تھے او رمدینہ واپس جاناچاہتے تھے انھیں اجازت دیاکہ عائشہ کے ہمراہ مدینہ جائیں امام ـ نے صرف اتناہی انتظام نہیں کیابلکہ بصرہ کی چالیس عظیم عورتوں کو عائشہ کے ساتھ مدینہ روانہ کیا۔

سفر کی تاریخ پہلی رجب المرجب ۳۶ھ بروز شبنہ معین ہوئی اس مختصر سے قافلے کے روانہ ہوتے وقت اکثر لوگ کچھ دور تک ان کے ساتھ گئے اور خدا حافظی کیا:

عائشہ امام ـ کی بے انتہا محبت دیکھ کر متأثر ہوئیں اور لوگوںسے کہا: اے میرے بیٹو! ہم میں سے بعض لوگ، بعض لوگوں پر ناراض ہوتے ہیں لیکن یہ کام زیادہ نہیں ہونا چاہئے خداکی قسم، میرے اور علی کے درمیان۔ ایک عورت اور اس کے رشتہ داروں کے درمیان جو رابطہ ہوتا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے اگرچہ وہ میرے غیض و غضب کا شکار ہوئے ہیں۔ مگر وہ نیک اور اچھے لوگوںمیں سے ہیں۔

امام ـ نے عائشہ کی بات سن کر شکریہ اداکیااور فرمایا: لوگو وہ تمہارے پیغمبر کی بیوی ہیں پھرآپ نے کچھ دور تک ان کی ہمراہی کی اور خدا حافظ کہا۔

شیخ مفید لکھتے ہیں:

''چالیس عورتیں جو عائشہ کے ہمراہ مدینہ گئیں ظاہراً انھوںنے مردوں کالباس پہن رکھا تھا تاکہ اجنبی لوگ انہیں مرد سمجھیں اور کسی کے ذہن میں بھی ناروا باتیںان کے متعلق یا پیغمبر کی بیوی کے متعلق خطور نہ کریں اور عائشہ نے بھی یہی سوچا کہ علی نے مردوں کوان کی حفاظت کے لئے بھیجا ہے مستقل اس کام کے لئے شکوہ کر رہی تھیں ۔ جب مدینہ پہونچیں اور دیکھاکہ سب عورتیںہیں جنھوں نے مردوں کالباس پہن رکھا ہے تواپنے اعتراض کے لئے عذر خواہی کی اور کہا: خدا ابوطالب کے بیٹے کو نیک اجر عطا کرے کہ میرے متعلق رسو ل خدا کی حرمت کا خیال رکھا۔(۱)

______________________

(۱) الجمل ، ص ۲۲۱۔

۴۴۳

حاکموں کو منصوب کرنا

عثمان کی خلافت کے دور میں مصر کا حاکم عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح تھااو رمصریوںکی خلیفہ کے اوپر حملہ کرنے کی ایک وجہ اس کے برے اور بے ہودہ اعمال تھے یہاں تک کہ جب وہ مصر سے نکالاگیااس وقت

محمد بن ابی حذیفہ مصر میں تھے اور ہمیشہ حاکم مصر اور خلیفہ پر اعتراض کرتے تھے۔ جب مصرکے لوگوں نے خلیفہ پر حملہ کرنے کے لئے مدینہ کا سفر کیا اس وقت مصر کے تمام امور کی ذمہ داری محمد بن حذیفہ کے حوالے کردی اور وہ اس منصب پر باقی تھے یہاں تک کہ امام ـ نے قیس بن سعد بن عبادہ کو مصر کے امور کی انجام دہی کے لئے منصوب کیا۔

طبری کاکہناہے کہ جس سال جنگ جمل ہوئی اسی سال قیس مصر گئے، لیکن بعض مؤرخین مثلاً ابن اثیر(۱) وغیرہ کا کہناہے کہ قیس ماہ صفر میں مصر بھیجے گئے اگر اس صفر سے مراد ، صفر ۳۶ھ ہے تو یقینا قیس واقعۂ جمل سے پہلے گئے اور اگر صفر ۳۷ھ مرادہے تو وہ واقعہ جمل کے چھ مہینے کے بعدگئے جب کہ طبری نے قیس کے جانے کی تاریخ و سال کو ۳۶ ھ ہی لکھا ہے آور یہ واقعۂ جمل کاسال ہے۔

جی ہاں، امام ـ نے خلید بن قرہ یربوعی کوخراسان کا حاکم اور ابن عباس کو بصرہ کا حاکم معین کیااور پھر ارادہ کیا کہ بصرہ سے کوفہ کاسفر کریں۔کوفہ جانے سے پہلے آپ نے جریر بن عبداللہ بجلی کو شام روانہ کیاکہ معاویہ سے گفتگو کریں ، تاکہ وہ مرکزی حکومت کی پیروی کا اعلان کرے جس حکومت کے رئیس امام ـ تھے۔(۲) چونکہ بصرہ کی ایک خاص اہمیت تھی اور شیطان نے وہاں اپنی شیطنت کا بیج بودیا تھا لہذاامام نے ابن عباس کو حاکم بصرہ اور زیاد بن ابیہ کو جزیہ جمع کرنے کی ذمہ داری اور ابو الاسود دوئلی کو ان دونوں کاجانشین و مددگار قراردیا۔(۱)

امام ـ نے ابن عباس کو لوگوں کے سامنے بصرہ کا حاکم بناتے وقت بہترین اور عمدہ تقریر کی جسے شیخ مفید نے اپنی کتاب ''الجمل'' میں نقل کیاہے۔(۳) طبری کہتا ہے کہ امام نے ابن عباس سے کہا: ''اضرب بمن أطاعک من عصاک و ترک أمرک''۔(۴)

______________________

(۱) تاریخ ابن اثیر، ج۳، ص ۲۶۸۔------(۲) تاریخ ابن اثیر، ج۳، ص ۵۶۰۔ ۵۴۶۔-----(۳)،(۲) تاریخ جمل، ص ۳۲۴۔

(۴) تاریخ طبری، ج۳، ص ۵۴۶۔

۴۴۴

اطاعت کرنے والوںمیں گناہ کرنے والوں کو او رجو لوگ تمہارے حکم کی پیروی نہ کریں انھیں سخت سزا دینا ۔

جس وقت امام ـ بصرہ سے سفر کر رہے تھے اس وقت خدا سے یہ دعا و مناجات کر رہے تھے،''الحمد للّه الذی أخرجنی من أخبث البلاد'' خداوند عالم کالاکھ لاکھ شکر کہ اس نے ہمیں خبیث ترین شہر سے دور کردیا۔

اس طرح امام ـ کی حکومت سے پہلی مشکل و آفت ختم ہوگئی اور آپ کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے تاکہ معاویہ کے فاسدنقشوں اور ارادوں کو پامال کریںاور اسلام کی وسیع ترین سرزمین کو فاسد عناصر اورخودغرض لوگوں سے پاک کریں۔

۴۴۵

گیارہویں فصل

کوفہ، حکومت اسلامی کا مرکز

اسلام کا سورج مکہ سے طلوع ہوا اور تیرہ سال گذر جانے کے بعد یثرب (مدینہ) میں ظاہر ہوا اوردس سال اپنی نورانی کرنوں کو بکھیرنے کے بعد غروب ہوگیا جب کہ افق کی تازگی شبہ جزیرہ کے لوگوں کے لئے کھلی اور سرزمین حجاز خصوصاً شہر مدینہ دینی اور سیاسی مرکز کے نام سے مشہور ہوگیا۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد مہاجرین و انصار کے ذریعے خلفاء کے انتخاب نے ثابت کردیا کہ مدینہ اسلامی خلافت کا مرکز قرار پائے اور خلفاء اپنے نمائندوں اور حاکموں کو اپنے تمام اطراف و جوانب روانہ کر کے وہاں کے امور کی تدبیر کریں۔ اور ملکوں کو فتح کر کے تمام رکاوٹوں کو دور کر کے اسلام کو پھیلائیں۔

امیر المومنین ـ ،صاحب رسالت کے منصوص و معین کرنے کے علاوہ، مہاجرین و انصار کے ہاتھوں بھی منتخب ہوئے تھے آپ نے بھی خلفاء ثلاثہ کی طرح مدینہ کو اسلامی مرکز قرار دیا اور وہیں سے تمام امور و احکام کی نشر و اشاعت شروع کی ۔ آپ نے اپنی خلافت کے آغاز میں اسی طریقے کو اپنایا اور خطوط بھیجنے، اور عظیم شخصیتوں کو روانہ کر کے، اور دنیا پرستوں کو منصب سے دور کر کے، اور ولولہ انگیز اور تربیتی خطبوں کے ذریعے، اسلامی معاشرے کے تمام امور کو آگے بڑھایا اور اسلامی نظام میں ۲۵ سال یعنی ابوبکر کی خلافت کے ابتدائی دور سے عثمان کے دور تک جو خرابیاں، انحرافات وغیرہ داخل ہوگئے تھے ان کی اصلاح میں مشغول تھے کہ اچانک مسئلہ ناکثین یعنی ان لوگوں کا عہد و پیمان توڑنا جنھوںنے سب سے پہلے آپ کی بیعت کی تھی، پیش آگیا اور بہت خطرناک اور دل دہلا دینے والی خبریں امام ـ کو ملیں اور پتہ چلا کہ ناکثین نے بنی امیہ کی مالی مدد اور پیغمبر کی بیوی کے احترام کی بنا پر عراق کے جنوبی حصہ کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور بصرہ پر قبضہ کر کے امام ـ کے بہت سے نمائندوں اور کارمندوں کو ناحق قتل کردیا ہے۔

یہی چیز سبب بنی کہ امام ـ ناکثین کی تنبیہ اور ان کی مدد کرنے والوں کو سزا دینے کے لئے مدینہ سے بصرہ کی طرف روانہ ہوں او راپنے سپاہیوں کے ہمراہ بصرہ کے نزدیک پڑاؤ ڈالیں ، جنگ کی آگ حقیقی سپاہیوں اور ناکثین کے باطل سپاہیوں کے درمیان پھیل گئی اور بالآخر حقیقی فوج کامیاب ہوگئی اور حملہ و فساد برپاکرنے والوں کے سردار مارے گئے اور ان میں سے کچھ لوگ بھاگ گئے اور بصرہ پھر حکومت اسلامی کی آغوش میں آ گیا اور وہاں کے تمام امور کی ذمہ داری امام ـ کے ساتھیوں کے ہاتھ میں آگئی ، شہر اور لوگوں کے حالات معمول پر آگئے اور مفسر قرآن اور امام کے ممتاز شاگرد ابن عباس بصرہ کے حاکم مقرر ہوئے۔

۴۴۶

ظاہری حالات سے یہ بات واضح ہوتی تھی کہ امام ـ جس راستے سے آئے تھے اسی راستے سے مدینہ واپس جائیں اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے روضۂ اطہر کے کنارے اور بعض گروہوں اور صحابیوں کے رائے و مشورہ سے اسلامی معارف کی نشر و اشاعت ، اور معاشرے میں بیمار افراد کی خبر گیری اور حالات دریافت کریں، اور سپاہیوں کو مختلف شہروں میں روانہ کریں، تاکہ اسلامی قدرت نفوذ کرے۔ اور خلافت کے امور کو انجام دیںاور ایک دوسرے سے ہر طرح کے اختلافات سے پرہیز کریں لیکن یہ ظاہرقضیہ تھا ہر شخص امام علیہ السلام کی ظاہری حالت سے یہی سمجھ رہا تھا خصوصاً اس زمانہ میں مدینہ کچھ زیادہ ہی تقویٰ اور قداست کے لئے معروف تھا کیونکہ اسلام کا واقعی مولد ، اور خدا کا پیغام لانے والے کا مدفن ، اور مہاجر ین و انصار میں صحابیوں کا مرکز تھا جن کے ہاتھوں میں خلیفہ کو منتخب کرنا اور معزول کرنا تھا،

۱۔ان تمام حالات کے باوجود امام علیہ السلام نے کوفہ جانے کا ارادہ کیا تا کہ کچھ دن وہاں قیام کریں اور امام علیہ السلام نے جو اپنے دوستوں کے رائے مشورے سے کو فہ کا انتخاب کیا اس کی دو وجہیں تھیں : امام علیہ السلام بہت زیادہ افراد کے ساتھ مدینہ سے چلے تھے اور بعض گروہ درمیان راہ میں آپ کے لشکر میں شامل ہو گئے تھے لیکن آپ کے اکثر سپاہی اور چاہنے والے کوفہ اور اس کے اطراف کے رہنے والے تھے کیونکہ امام علیہ السلام نے نا کثین کو شکست دینے کے لئے پیغمبر کے بزرگ صحابی عمار یاسر اور اپنے عزیز فرزند امام حسن علیہ السلام کے ذریعہ اہل کو فہ سے مدد مانگی تھی اور کوفہ اس وقت عراق کا ایک اہم شہر تھا اور بہت زیادہ گروہ اس علاقے سے امام علیہ السلام کی مدد کیلئے اپنے اپنے نمائندوں کے ہمراہ حاضر ہوئے تھے(۱) ۔

_______________________________

(۱)مسعودی لکھتا ہے کہ اما م علیہ السلام کے لشکر میں جو کوفہ کے افراد شامل ہوئے ان کی تعداد سات ہزا ر (۷۰۰۰) تھی اور ایک اور قول کی بناء پر ۶۵۶۰تھی (مروج الذہب جلد ۲ص۳۶۸) یعقوبی نے بھی ان کی تعداد ۶۰۰۰لکھی ہے (تاریخ یعقوبی ج ۲،ص۱۸۲)ابن عباس کہتے ہیں جب ہم لوگ ذی قار پہنچے تو ہم نے امام علیہ السلام سے کہا کہ کوفہ سے بہت کم لوگ آپ کی مدد کیلئے آئے ہیںامام علیہ السلام نے فرمایا ۶۵۰افراد بغیر کسی کمی زیادتی کے میری مدد کرنے آئیں گے، ابن عباس کہتے ہیں میں نے ان کی تعداد پر تعجب کیا اور ارادہ کیا یقینااسے شمار کروں گا ،۱۵،دن ذی قار میں قیام کیا یہاں تک کہ گھوڑے اور حچروں کی آوازیں آنے لگیں اور کوفہ کا لشکر پہنچ گیا ، میں نے انہیں باقاعدہ شمار کیا تو دیکھابا لکل وہی تعداد ہے جسے امام علیہ السلام نے بتایا تھا میں نے تکبیر کہی۔اللہ اکبر صدق اللہ رسولہ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج۲،ص۱۸۷۔

۴۴۷

اگر چہ بعض گروہ مثلاًابو موسی اشعری اور اسکے ہم فکروں نے امام کی مدد کرنے سے سے پرہیز کیا اور اپنے قول وفعل سے لوگوں کو جہادمیں جانے سے منع کیا اور جب امام علیہ السلام ناکثین سے جنگ کرنے میں کامیاب ہوگئے اور دشمنوں کو بے بس کر دیاتو اب حق یہ تھا کہ ان لوگوں کے گھریلو حالات اور زندگی سے با خبر ہوں ، اور جنگ اور آپ کی آواز پر لبیک کہنے والوں کا شکریہ اور جہاد میں جانے سے منع کرنے والوں کی مذمت کریں ۔

۲۔ امام علیہ السلام بخوبی اس بات سے باخبر تھے کہ عہدو پیمان توڑنے اور شورش کرنے والوں کے گناہ کاسبب معاویہ ہے کیونکہ اسی نے عہدوپیمان توڑنے کی رغبت دلائی تھی اور دھوکہ دے کر غائبانہ طور پر ان کی بیعت لی تھی یہاں تک کہ اس نے زبیر کو جوخط لکھا تھا اس میں شورش کے تمام راستوں کو مکمل بیان کیا تھا اور لکھا تھا کہ شام کے لوگوں سے ہم نے تمہاری بیعت لے لی ہے اور جتنی جلدی ہو کوفہ اور بصرہ پر قبضہ کرلو اور عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے قیام کرو اورکوشش کروکہ ابو طالب کے بیٹے کا قبضہ ان دونوں شہروں پر نہ ہونے پائے ۔

اب جب کہ اس باغی وسر کش کا تیر نشانے پر نہ لگا اور شورشیں ختم ہو گئیں تو ضروری ہوگیاکہ جتنی جلدسے جلداس فسادی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور بنی امیہ کے شجرہ ملعونہ کی شاخ کو اسلامی معاشرے کے پیکر سے دور کردیں ، شام سے نزدیک شہر کوفہ ہے اس کے علاوہ ، کوفہ عراق کا سب سے زیادہ لشکر خیز اور امام علیہ السلام کے فدائیوں کا مرکز تھا ،اور امام علیہ السلام دوسری جگہوں سے زیادہ ان لوگوں پر بھروسہ کرتے تھے امام ٭ نے اپنے ایک خطبے میں اس طرف اشارہ کیا ہے آپ فرماتے ہیں :والله ما ا تیتکم اختیارا ولکن جئت الیکم سوتا'' (۱) یعنی خدا قسم میں اپنی خواہش سے تمہاری طرف نہیں آیا بلکہ مجبوری کی وجہ سے آیاہوں ،

یہی دو وجہیں سبب بنیں کہ اما م علیہ السلام نے کوفہ کو اپنا مرکز بنایا ، اور خلافت اسلامی کے مرکز کومدینہ سے عراق منتقل کردیا ، اسی وجہ سے آپ ۱۲،رجب ۳۶ھ دوشنبہ کے دن بصرہ کے بعض بزرگوں کے ہمراہ کوفہ میں داخل ہوئے ، کوفہ کے لوگ اور ان میں سب سے آگے قرآن کے قاریوں اور شہر کی عظیم شخصیتوں نے امام علیہ السلام کااستقبال کیا اور آپ کو خوش آمدید کہا اورامام علیہ السلام کے رہنے کے لئے ''دارالا امارہ ''کا

_______________________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ،۷۰

۴۴۸

انتخاب کیا اور اجازت لی کہ امام علیہ السلام کو وہاں لے جائیں اور امام علیہ السلام وہاں قیام کریں ، لیکن امام نے قصر میں داخل ہونے سے منع کیا ، کیونکہ اس کے پہلے وہ ظالموں اور ستمگروں کا مرکز تھا ،آپ نے فرمایا ، قصر تباہی و بربادی کا مرکز ہے ، اور بالآخر امام علیہ السلام نے اپنی پھوپھیری بہن جعدہ بنت ھبیرہ مخزوص کے گھر کو قیام کے لئے چنا(۱) ۔

امام علیہ السلام نے لوگوں سے کہا کہ '' رحبہ '' نامی مقام پر جمع ہوں ، کیونکہ وہ ایک وسیع میدان تھا اور آپ بھی اپنی سواری سے وہیں پر اترے ،

سب سے پہلے آپ نے مسجد میں دورکعت نماز پڑھی اور پھر منبر پر تشریف لائے اور خدا کی حمدو ثنا کی اور پیغمبر اسلام پر درود وسلام بھیجا اور پھر اپنی تقریر اس طرح شروع کی،''اے کوفہ کے لوگو ،اسلام میں تمہارے لئے فضیلتیں ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ا سے تبدیل نہ کرنا ،میں نے تم لوگوں کوحق کی دعوت دی اور تم نے اس کا مثبت جواب دیا ، برائی کو شروع کیا لیکن پھر اسے بدل دیا ...تم لوگ ان کے پیشوا ہو جو تمہاری دعوتوں کو قبول کریں اور جس چیز میں تم داخل ہوئے ہو وہ بھی داخل ہوں، سب سے بدترین چیز یںجن پر عذاب سے ڈرتا ہوں وہ دو چیز یں ہیں ایک خواہشات نفس کی پیروی ، دوسرے لمبی لمبی امیدیں ، خواہشات نفس ،پیرویٔ حق سے دور کرتی ہے اور لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں آگاہ ہو جائو کہ دنیا تیزی سے منھ موڑ چکی ہے اور آخرت سامنے آگئی ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اولادیں ہیں تم آخرت کی اولاد بن جائو (دنیا کی اولاو نہ بنو)آج عمل کا دن ہے حساب کا نہیں کل حساب کا دن ہوگا عمل کا وقت نہ ہوگا ۔

خدا وند عالم کا لاکھ لاکھ شکر کہ اس نے اپنے ولی کی مدد کی اور دشمن کو ذلیل خوار کیا اور سچے اورایماندار کو عزیز اور عہدو پیمان توڑنے والوں اور اہل باطل کو ذلیل کیا ،تم لوگوں کے لئے لازم ہے کہ تقویٰ وپر ہیز گاری اختیار کرو اور اس شخض کی اطاعت کرو جس نے خاندان پیغمبر خدا کی اطاعت کی ہے ،کیونکہ یہ گروہ اطاعت کے لئے بہتر اور شا ئستہ ہیں بہ نسبت ان لوگوںکے جو خو د کو اسلام اور پیغمبر سے نسبت دیتے ہیں اور خلافت کا دعوی کرتے ہیں اور ہم سے مقابلے کے لئے قیام کرتے ہیں، اور جو فضیلتیں ہم سے ان تک پہنچی

______________________

(۱)وقعئہ صفین،ص۸۔

۴۴۹

ہیں ان سے ہم پر اپنی فضیلت ثابت کرتے ہیں اور ہماری عظمت ورفعت کا انکار کرتے ہیں وہ لوگ خود اپنی سزا کو پہو نچیں گے اور بہت ہی جلدی اپنی گمراہی کے نتیجے میں آخرت کے میدان میں کھڑے ہوں گے۔

آگا ہ رہو کہ تم میں سے بعض گروہوں نے ہماری نصرت ومدد کرنے سے انکار کیا میں ان کی سرزنش و مذمت کرتا ہوںتم لوگ ان لوگوں سے اپنا رابطہ ختم کر دو اور جس چیز کو وہ دوست نہیں رکھتے ان چیزوں کو ان کے کانوں تک پہنچادو تاکہ لوگوں کی رضایت حاصل کریں ،اور خدا کا گروہ شیطان کے گروہ سے پہچانا جاسکے ( یعنی دونوں کا فرق واضح ہوجائے(۱)

_______________________________

(۱)وقعة صفین،ص۱۳،نہج البلاغہ عبدہ خطبہ نمبر۲۷و ۴۱،مرحوم مفید کتاب ارشاد ،ص۱۲۴میں اس خطبے کے ابتدائی حصے کو نقل نہیں کیا ہے ۔

۴۵۰

حکمرانوں کا عادلانہ تعیین

امام علیہ السلام کا کوفیوں کے ساتھ نرم برتائو کرنا بعض شدت پسند انقلابیوں کو پسند نہیں آیا اسی وجہ سے امام علیہ السلام کی فوج کا سردار مالک بن حبیب یر بوعی اٹھا اور اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ میری نگاہ میں ان لوگوں کو اتنی ہی سزادینا کافی نہیں ہے، خدا کی قسم اگر آپ مجھے حکم دیں تو میں ان سب کو قتل کردوں ، امام علیہ السلام نے سبحان اللہ کہتے ہوئے اسے سخت تنبیہہ کی اور فرمایا حبیب ، تم نے حد سے زیادہ تجاوز کیا ہے حبیب پھر اٹھا اور کہا حد سے تجاوز اور عمل میں شدت ناگوار حادثوں کو روکنے ، اور دشمنوں

کے ساتھ نرمی اور ملائمیت کرنے سے زیادہ مؤثر ہے

امام علیہ السلام نے اپنے منطقی اور حکیمانہ ارشاد سے اس کی ہدایت کی اور کہا:

خدا نے ایسا حکم نہیں دیا ہے کہ ا نسان ، انسان کے مقابلے میں مارا جائے گا اب ظلم وتجاوز کی کی پھر کہاں جگہ ہوگی؟خدا وند عالم فرماتا ہے ۔

( وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهِ سُلْطَانًا فَلاَیُسْرِفْ فِی الْقَتْلِ انَّهُ کَانَ مَنصُورًا ) (سورة اسراء آیة۳۳)

اور جو شخص مظلوم قتل کر دیاجائے تو ہم نے اس کے وارث کو حق قصاص دیا ہے مگر قتل میں مقررہ حدود سے تجاوز نہ کرے۔

سیاسی آزادی

جن مخالفین کوفہ نے امام علیہ السلام اور پولیس کے رئیس کے درمیان ہونے والی گفتگو اور علی علیہ السلام کی عدالت کا مشاہدہ کیا اور سیاست کے کھلے ہوئے ماحول کو دیکھا تواپنی مخالفت کی علت کو بیان کیا:

۴۵۱

۱۔ مخالفوں میں سے ایک شخص ابو بردہ بن عوف اٹھا اور امام علیہ السلام کے لشکر میں شامل نہ ہونے کی وجہ مقتولین جنگ جمل سے متعلق سوال کے ضمن میں بتائی۔ اس نے امام علیہ السلام سے پوچھا کیا آپ نے طلحہ و زبیر کے اطرافیوں کے کشتہ شدہ اجسام کو دیکھا ہے؟وہ کیوں قتل کیے گئے؟ امام علیہ السلام نے علت بیان کرتے ہوئے سائل کے اعتماد کوجذب کرتے ہوئے فرمایا. ان لوگوں نے ہماری حکو مت کے ماننے والوں اور نمائندوں کو قتل کیا عظیم شخصیت ربیعہ ء عبدی کودوسرے دیگر مسلمانوں کے ساتھ قتل کر دیا مقتولین کا جرم یہ تھا کہ ہجوم لانے والوں کو عہدوپیمان توڑنے والا کہا اور کہا کہ اس طرح وہ اپنے عہدوپیمان کو نہیں توڑیں گے اور اپنے امام کے ساتھ اس طرح مکرو فریب نہیں کریں گے، میں نے ناکثین سے کہا کہ ہمارے نمائندوں کے قاتل کو ہمارے حوالے کریں تا کہ ان سے قصاص لیں ۔ اورہمارے اور ان کے درمیان خدا کی کتاب فیصلہ کرے گی لیکن ان لوگوں نے قاتلین کو ہمارے حوالے نہیں کیا اور ہم سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہوگئے جبکہ وہ لوگ ہمار ی بیعت کر چکے تھے اور ہمارے ہزاروں دوستوں کو قتل کر دیا تھامیں بھی ان قاتلوں کا بدلہ لینے اور ناکثین کی شورشوں کو خاموش کرنے کے لئے جنگ پر آمادہ ہوگیا اور ان کی شورشوں کو ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا ،پھر امام علیہ السلام نے فرمایا کیا تمہیں اس سلسلے میں کو ئی شک وشبہہ ہے؟ سائل نے کہا میں آپ کی حقانیت کے بارے میں مشکوک تھا لیکن اس بیان کو سننے کے بعد ان لوگوں کی غیر مناسب روش مجھ پر آشکار ہوگئی اور میں نے سمجھ لیا کہ آپ ہدا یت یافتہ اور باریک بین ہیں۔(۱)

سیاست کا کون سا ماحول اس سے زیادہ آزادہوگا کہ جہاد کی مخالفت کرنے والے ،سردار وں اور امام علیہ السلام کے درمیان اپنی مخالفت کی علت کو، جو حاکم کی حقانیت کے بارے میں مشکوک تھا ، بصورت سوال وجواب بیان کر ے ، اور اس کا جواب طلب کرے ،؟ اس کے با وجود کہ سوال کرنے والا قبل اس کے کہ علوی ہو عثمانی تھا اور بعد میں کئی مرتبہ علی علیہ السلام کے ساتھ جنگ میں شریک رہا لیکن باطن میں معاویہ کا

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج۳،ص۱۰۴،وقعہ صفین،ص۵۔۱

۴۵۲

چاہنے والا اورجاسوس تھا لہٰذا امام علیہ السلام کی شہادت اور معاویہ کا عراق پر قبضہ ہونے کے بعد اپنی خدمتوں کے صلے میں جو اس نے معاویہ کے لئے انجام دی تھی ایک بڑی زمین '' فلوجہ ۔(۱) جیسے منطقہ میں اس کے نام لکھ دی گئی۔(۲)

۲۔ سلیمان بن صرد خزاعی ، جو پیغمبر کے صحابی تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے جنگ جمل میں امام علیہ السلام کی حمایت نہیں کی تھی اور مخالفت کی وجہ سے جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے وہ امام علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور علی علیہ السلام نے ان کی ملامت کی اور کہا میری حقانیت کے متعلق تم نے شک کیا اور میرے لشکر میں شامل ہو نے سے انکار کردیا جب کہ میں نے تمہیں بہت اچھا اور بہتر سمجھا تھا کہ تم ہماری خوب نصرت کرو گے ، کس چیز نے تمہیں اہل بیت پیغمبر کی مدد کرنے سے روکا ہے اور ان کی نصرت ومدد کرنے سے تمہیں بے رغبت کر دیا ہے ؟

سلیمان نے احساس شرمندگی کے ساتھ عذر خواہی کی اور کہا ، تمام امور کو پشت پردہ نہ ڈالئیے (اور پچھلی باتوں کو نہ دہرائیے) اور مجھے ان کی وجہ سے شرمندہ اور مذمت نہ کیجئے ، میری محبت ومروت کو اپنی نظر میں رکھئیے میں آپ کی مخلصانہ مدد کروں گا ابھی تمام کام ختم نہیں ہوئے ہیں اور ابھی بہت سے امور باقی ہیں جن میں دوست اور دشمن کو پہچان لیںگے۔

امام علیہ السلام نے سلیمان کی توقع کے خلاف اور عذر خواہی کے مقابلے میں خاموشی اختیار کی اور کوئی جواب نہیں دیا ، سلیمان تھوڑی دیر تک بیٹھے رہے اور پھر اٹھ کر امام مجتبیٰ علیہ السلام کے پاس بیٹھ گئے اور کہا امام علیہ السلام کی تنبہیہ اور ملامت سے آپ کو تعجب نہیں ہورہا؟ امام کے دلبند نے بڑی نوازش کی اور بڑے نرم لہجہ میں فرمایا ان لوگوں کی زیادہ سرزنش کی جاتی ہے جن کی دوستی اور مدد کی امید ہو تی ہے، اس وقت اس عظیم صحابی نے دوسری شورشوں کی بھی خبر دی کہ جو امام علیہ السلام کے خلاف برپا ہوگی اور ان دنوں مخلص وپا کیزہ افرا د مثل سلیمان کی زیادہ ضرورت پڑے گی پھر کہا: ابھی وہ واقعہ باقی ہے کہ جس میں دشمن کے نیزے ہوں گے اور تلواریں میانوں سے باہر ہوجائیں گی ، اس جنگ میں مجھ جیسے افراد کی زیادہ ضرورت ہوگی ، اس

_______________________________

(۱)فلوجہ: عراق کا بہترین اور وسیع ترین علاقہ ہے جو عین التمر کے نزدیک ہے اور کوفہ وبغداد کے درمیان میں واقع ہے ۔

(۲)شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید ،ج۳،ص۱۰۴۔

۴۵۳

کسب رضا میں دھوکہ کا تصور نہ کریں ، امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے فرمایا خدا تجھ پر رحمت نازل کرے ہم ہرگز تم کو مورد الزام نہیں ٹھہرائیں گے۔(۱)

سلیمان بن صرد نے اس کے بعد کبھی بھی اہلبیت پیغمبر کے دفاع سے گریز نہیں کیا انہوں نے امام علی علیہ السلام کے ہمراہ جنگ صفین میں شرکت کی اور میدان جنگ میں شام کے سب سے بڑے پہلوان '' حوشب'' کو قتل کیا ، معاویہ کے مرنے کے بعد انہوں نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا اور آپ کو عراق آنے کی دعوت دی اگر چہ انہوں نے کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی مدد کرنے میں کو تاہی کی ،لیکن اس غلطی کا ازالہ کرنے کے لئے بعنوان'' توابین'' چار ہزرا کا لشکر تیار کرکے امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں سے بدلہ لینے کے لئے قیام کیا اور ۶۵ھ میں'' عین ابو وردہ'' علاقے میں شام کی طرف سے آنے والے عظیم لشکر سے جنگ کی اور شہید ہو ئے ۔(۲)

۳۔ محمد بن مخنف کہتے ہیں : امام علیہ السلام کے کوفہ آنے کے بعد میں اپنے بابا کے ساتھ امام علیہ السلام کی خدمت میں آیا ،وہاں پر عراق کی بہت سی شخصیتیں اور قبیلوں کے سردار موجود تھے ان سب نے ناکثین کے مقابلے میں جنگ کرنے سے مخالفت کی تھی ، امام علیہ السلام نے ان کی مذمت کی اور کہا تم لوگ اپنے قبیلے کے سردار ہو کیوں تم نے جنگ میں شرکت نہیں کی ؟ اگر تم لوگوں کی نیتوں میں کھوٹ تھاتو تم سب نقصان میں ہو اور اگر میری حقانیت اور مدد کے بارے میں مشکوک تھے تو تم سب ہمارے دشمن ہو ،ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ آپ کے دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن ہیں پھر اس وقت سب نے اپنا اپنا عذر پیش کیا مثلاً کسی نے بیماری کا بہانہ بنایا تو کسی نے مسافرت کا بہانہ بنایا ، امام علیہ السلام نے

ان کا عذر سن کر خاموشی اختیار کرلی لیکن میرے بابا کی خدما ت کو سراہا اور ہمارے قبیلے کا شکر یہ ادا کیا اور کہا مخنف بن سلبم اور اس کا قبیلہ ، اس گروہ کی طرح نہیں ہے جس کی قرآن اس طرح سے توصیف کررہا ہے:

( وَانَّ مِنْکُمْ لَمَنْ لَیُبَطِّئَنَّ فَانْ َصَابَتْکُمْ مُصِیبَة قَالَ قَدْ َنْعَمَ اﷲُ عَلَیَّ ِذْ لَمْ َکُنْ مَعَهُمْ شَهِیدًا ) (۷۲)( وَلَئِنْ َصَابَکُمْ فَضْل مِنَ اﷲِ لَیَقُولَنَّ کَانْ لَمْ تَکُنْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَهُ

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ج۳ص۱۰۶۔ مراصد الا طلاع۔---(۲)مروج الذہب ج۳ص۱۰۲۔۱۰۱۔

۴۵۴

مَوَدَّة یَالَیْتَنِی کُنتُ مَعَهُمْ فَافُوزَ فَوْزًا عَظِیمًا ) (سورہ نساء آیت ۷۲و ۷۳)۔(۱)

اور تم میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو ( جہادسے) پیچھے ہٹیں گے پھر اگر ( اتفاقاً )تم پر کوئی مصیبت آپڑی تو کہنے لگے خدا نے ہم پر بڑافضل کیا کہ ان میں (مسلمانوں ) کے ساتھ موجود نہ ہوا اور اگر تم پر خدا نے فضل کیا (اور دشمن پر غالب آئے ) تو اس طرح اجنبی بن گئے گویا تم میں اور اس میں کبھی کی محبت ہی نہ تھی یوں کہنے لگا کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو میں بھی بڑی کامیابی حاصل کرتا ۔

بالآخر امام علیہ السلام نے ان تمام تحقیق و تفحص اور عذر قبول کرنے یا ان کے مقابلے میں خاموشی اختیار کرنے بعد اعلان کیا کہ اس مرتبہ تم لوگ معاف کردیئے گئے اور تم لوگوں کے عذر کو قبول کر لیا لیکن آئندہ اس قسم کی حر کتیں نہ ہوں ، اگر امام علیہ السلام اتنا زیادہ ملامت وسرزنش نہیں کرتے تو ممکن تھا کہ یہ گروہ آئندہ بھی مخالفتیں کرتا ۔

_______________________________

(۱) ٔوقعئہ صفین ،ص۱۰ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج۳،ص۱۰۷۔۰۶ا

۴۵۵

کوفہ کی نماز جمعہ میں امام علیہ السلام کا پہلا خطبہ

امام علیہ السلام نے کو فہ میں داخل ہونے کے بعدنماز پڑھانا چاہی اور پوری نماز پڑھی اور جمعہ کے دن نمازجمعہ کوفہ کے لوگوں کے ہمراہ پڑھی اپنے خطبے میں کوفیوں سے مخاطب ہوئے اور خدا کی حمدو ثناء اور پیغمبر اسلام (ص)پر دروروسلام کے بعد فرمایا:میں تم لوگوں کو تقویٰ کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ تقویٰ بہترین چیز ہے کہ جس کاخدا وند عالم نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے اور خدا وند عالم کی رضایت اور نیکی حاصل کرنے کا یہ بہترین وسیلہ ہے تم لوگوں کو تقوی کا حکم دیا گیا ہے اورتم لوگ خدا کی نیکی اور اس کی اطاعت کرنے کیلئے پیدا کئے گئے ہو...

اپنے تمام امور کو خدا کے لئے بغیر کسی ریا اور شہرت طلبی کے انجام دو، جو شخص بھی غیر خدا کے لئے امور انجام دے گا خداوند عالم اسے اسی کے حوالے کرے گا جس کے لئے اس نے وہ کام انجام دیا ہے، اور جو شخص خدا کے لئے کام انجام دے گا خدا خود اس کا اجر عطا کرے گا۔ خدا کے عذاب سے ڈرو کہ تم کو بیہودہ اور عبث پیدا نہیں کیا ہے خدا تمہارے تمام کاموں سے آگاہ ہے اور تمہاری زندگی کے ایام کو معین کیا ہے، دنیا کے دھوکے میں نہ آنا کیونکہ دنیا اپنے متوالوں کو دھوکہ دیتی ہے اور مغرور وہ شخص ہے جسے دنیا مغرور کردے ۔

دوسری دنیا حقیقی جگہ ہے اگر لوگ جانتے ہوتے ۔ خدا سے دعا کرتا ہوں کہ شہداء جیسا مقام اور پیغمبر اسلام کی ہمنشینی اور اچھے لوگوں کی طرح زندگی بسر کرنے کی توفیق مرحمت

۴۵۶

فرمائے۔(۱)

حاکموں کو روانہ کرنا

امیر المومنین علیہ السلام نے کوفہ میں قیام کرنے کے بعد ان اسلامی سرزمینوں پرجن پر اب تک آپ کی جانب سے کوئی بھی نمائندہ یا حاکم نہیں گیا تھا، صالح و متدین شخص کو وہاں روانہ کیا ،تاریخ نے ان افراد کے نام و خصوصیات اور ان کے محل قیام کو اپنے دامن میں درج کیاہے ۔(۲)

مثلاً خلید بن قرّہ کو خراسان روانہ کیا، جب خلید نیشاپور پہونچے تو انھیں خبر ملی کہ شاہ کسریٰ کے باقی افراد جو اس زمانے میں افغانستان کے شہر کابل میں زندگی بسر کر رہے تھے وہ لوگ فعالیت کر رہے ہیں اور لوگوں کو حکومت اسلامی کے خلاف قیام کرنے کے لئے آمادہ کررہے ہیں، امام علی ـ کے نمائندے نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان کو نیست و نابودکیا اور کچھ لوگوں کو اسیر کر کے کوفہ بھیج دیا۔(۳)

امام ـ نے تمام اسلامی علاقوں میں اپنے اپنے نمائندوں کو بھیجا لیکن شام میں معاویہ کی مخالفت زخم میں ہڈی کی طرح باقی رہی اور ضروری تھا کہ اس سلسلے میں جلد سے جلد کوئی تدبیر کی جاتی۔قبل اس کے کہ امام علی علیہ السلام کی حکومت کے اس تاریخی حصے کو بیان کیا جائے کوفہ میں جو بہترین واقعہ پیش آیا اسے بیان کیا جائے، امام علی ـ نے عراق کے لوگوں سے ملاقات کے بعد ان کے کچھ گروہ کےساتھ روبرو ہوئے جو مدتوں سے خاندان کسری کے زیر نظر تھے، امام ـ نے ان سے پوچھا کہ خاندان کسری کے کتنے لوگوں نے تم پر حکومت کیا ہے ان لوگوں نے جواب دیا ۳۲ بادشاہوں نے ہم پر حکومت کی ہے۔ امام ـ نے ان کی حکومت کرنے کا طور و طریقہ پوچھا ان لوگوںنے جواب دیا، ان سب کی ایک ہی روش تھی لیکن ہرمز کے بیٹے کسری نے ایک خاص روش اختیار کی اس نے ملک کی ساری دولت و ثروت کو اپنے سے مخصوص کرلیا اور ہمارے بزرگوں کی مخالفت کرنے لگا۔ جو چیزیں لوگوں کی ضرورت تھیں انہیں ویران

___________________________

(۱)،(۲) وقعۂ صفین ص ۱۴۔ ۱۵؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۰۸ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۳۔

(۳) وقعۂ صفین، ص ۱۲۔

۴۵۷

کردیا اور جو چیز اس کے لئے فائدہ مند تھی اسے آباد کردیا ۔ لوگوں کو حقیر و پست سمجھتا تھا اور فارس کے لوگوں کو ناراض کردیا لوگوں نے اس کے خلاف قیام کیا اور اسے قتل کر ڈالا ان کی عورتیں بیوہ ہوگئیں اور بچے یتیم ہوگئے ،امام ـ نے ان کے نمائندہ''نرسا'' کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

''ان اللّه عزَّ و جل خلقَ الخلقَ بالحقِ و لایرضی من احدٍ الا بالحقِ و فی سلطان اللّهِ تذکرة مما خوَّل اللّهُ و انها لاتقومُ مملکة الا بتدبیرٍ و لابدَ من امارةٍ،و لایزالُ أمرُنا متماسکاً ما لم یشتم آخرُنا اولَنا، فاذا خالفَ آخرُنا اولَنا و افسدوا هلکوا و اهلکوا''

خداوند عالم نے انسانوں کی تخلیق حق پر کی ہے اور ہر انسان کے صرف حقیقی عمل پر راضی ہے سلطنت الہی میں ذکر کے لائق ہے جو چیز خدا نے عطا کیا ہے اور مملکت بغیر تدبیر کی باقی نہیں رہ سکتی۔ اور حتماً لازم ہے کہ حکومت باقی ہو۔ اور ہمارے کام میں اس طرح اتحاد ہوگا کہ آنے والی نسل اپنے اپنے بزرگوں کو برا بھلا نہیں کہے گی، لہذا جب بھی نئی نسل نے اپنی پر انی نسلوں کو برا بھلا کہا اور نیک روش کے ذریعے لوگوں کی مخالفت کی تو وہ خود بھی نابود ہوگئے اور دوسروں کو بھی نابود کردیا۔اس وقت امام ـ نے ان کے بزرگ ''نرسا'' کو ان لوگوں کا سرپرست و امیر معین کیا۔(۱)

بعض حاکموں کو امام ـ کا خط لکھنا

امام ـ کے کوفہ میں قیام اور مختلف شہروں میں حاکم روانہ کرنے کے بعد معاویہ کی نافرمانی اور سرکشی نے امام ـکو سب سے زیادہ فکر مند کردیا، اور آپ مستقل اسی فکر میں تھے کہ جتنی جلد ممکن ہو اس کینسر کو جامعہ اسلامی کے بدن سے دور کردیں۔ اور دوسری طرف بعض حاکموں کی وضعیت اور محبت کلی طور پر واضح نہ تھی کچھ حاکموں نے اور وہاں کے لوگوں نے امام کی بیعت کا اعلان نہیں کیا تھا۔اسی بنا پر امام ـ نے بعض حاکموں کو جو خلیفہ سوم کی طرف سے حاکم معین تھے۔ خط لکھا اور ان سے کہا کہ اپنی اپنی تکلیف کو ظاہر کریں اور اپنی اور لوگوں کی بیعت کا اعلان کریں۔(۲)

امام ـ کے خطوط میں دو اہم خط تھے، جن میں سے ایک ہمدان کے حاکم جریر بن عبد اللہ بجلی کو لکھاتھا اور دوسرا خط آذربائیجان کے حاکم، اشعث بن قیس کندی کو لکھا، ان دونوں خط کاخلاصہ ہم یہاں تحریر کر رہے ہیں:

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین، ص ۱۴۔-----(۲) کامل ابن اثیر، ج۳، ص ۱۴۱۔

۴۵۸

امام ـ کا حاکم ہمدان کے نام خط

خداوند عالم کسی بھی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا مگر یہ کہ وہ لوگ خود اپنی روحی زندگی کو تبدیل کردیں میں تمہیں طلحہ و زبیر کے حالات کی خبر دیتا ہوں، جب ان لوگوں نے ہماری بیعت کو توڑ دیا اور میرے معین کردہ حاکم عثمان بن حنیف پر حملہ کیا میں مہاجر و انصار کے ہمراہ مدینے سے باہر آیا اور درمیان راہ یعنی ''عذیب'' نامی جگہ سے اپنے بیٹے حسن، عبد اللہ بن عباس، عمار یاسر او رقیس بن سعد بن عبادہ کو حکم دیا کہ وہ کوفہ جائیں اور لوگوں کو اسلامی فوج میں داخل ہونے کی دعوت دیں تاکہ عہد و پیمان توڑنے والوں کو سبق سکھائیں ، کوفہ کے لوگوں نے میری آواز پر لبیک کہا میں نے بصرہ سے کچھ فاصلے پر قیام کیا اور شورش کرنے والے سرداروں کو اپنی طرف بلایا اور انھیں مجبور سمجھ کر ان کی غلطیوں کو معاف کردیا اور پھر میں نے ان لوگوں سے دوبارہ بیعت کرنے کے لئے کہا لیکن ان لوگوں نے جنگ کے علاوہ کوئی کام نہ کیا، میں نے بھی خدا سے دعا کی اور جنگ کرنے کا ارادہ کرلیا۔ کچھ لوگ جنگ میں مارے گئے کچھ لوگ بصرہ بھاگ گئے اس وقت ان لوگوںنے ایسی چیزوں کی مجھ سے درخواست کی جس کو میں نے جنگ سے پہلے ان سے طلب کیا تھا۔ میں نے بھی ان کی سلامتی اور حفاظت کا انتظام کیا اور جنگ صلح میں تبدیل ہوگئی ، عبد اللہ بن عباس کو بصرہ کا گورنر معین کیا اور پھر میں کوفہ آگیا اور یہ خط میں تمہیں زحر بن قیس کے ہمراہ بھیج رہا ہوں۔ جو کچھ تمھیں معلوم کرنا ہو اس سے پوچھ لینا۔(۱)

اس خط میں اور اسی طرح دوسرے خط میں جو اشعث بن قیس کو لکھا گیا اس میں کوشش یہی تھی کہ قریش کے دو بزرگوں اور صحابیوں (طلحہ و زبیر) کے درمیان جو مقابلہ ہوااس کی وجہ و علت واضح ہو جائے تاکہ امت مسلمہ کو یہ معلوم ہو جائے کہ ان لوگوںنے پہلے ،امام ـ کے ہاتھوں پر بیعت کی اور اپنے عہد و پیمان کو توڑ کر جامعہ کے نظام کو درہم برہم کردیااور شورش و انقلاب برپا کردیا۔

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص۱۹۔ ۲۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۱۔ ۷۰؛ الامامة و السیاسة ص ۸۲۔

۴۵۹

جب امام ـ کا خط ہمدان کے حاکم کے پاس پہونچا تو اس نے لوگوں کو جمع کیا اور کہا:

اے لوگو! یہ امیر المومنین علی بن ابیطالب ـ کا خط ہے اور وہ دین و دنیا دونوں میں معتبر اور با اعتماد شخص ہیں۔ اور ہم دشمن پر ان کی کامیابی کے لئے خدا کا شکر ادا کرتے ہیں، اے لوگو! اسلام پر سبقت کرنے والے مہاجرین و انصار اور تابعین کے گروہ نے ان کی بیعت کی ہے اور اگر مسئلہ خلافت کو تمام مسلمانوں کے درمیان رکھتے اور سب کو خلیفہ منتخب کرنے کا حق دیتے تو وہ اس کام کے لئے سب سے شائستہ فرد تھے، اے لوگو! زندگی گزارنے کے لئے معاشرہ کے ساتھ مل کر رہنا ضروری ہے جدائی و افتراق فنا و موت ہے ، علی ( ـ) جب تک تم لو گ حق پر رہوگے تمہاری رہبری کریں گے اور اگر حق سے منحرف ہوگئے تو تمھیں پھر سیدھے راستے پر لگادیں گے۔

لوگوں نے حاکم وقت کی بات سن کر کہا:ہم نے تمام باتیں سنیں ہم ان کی اطاعت کریں گے اور ہم سب ان کی حکومت پر راضی ہیں اس وقت حاکم نے امام ـ کے پاس ایک خط لکھا جس میں اپنی اطاعت کرنے اور لوگوں کی اطاعت کے متعلق تحریر کیا۔ (یعنی سب لوگ آپ کے مطیع و فرمانبردار ہیں)۔(۱)

امام ـ کاقاصدزحر بن قیس اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک فصیح و بلیغ خطبہ دیااور کہا:

اے لوگو! مہاجر وانصارنے ان کمال کی وجہ سے جنھیں حضرت علی کے بارے میں جانتے تھے اور ان اطلاعات کی بنیاد پرجوقرآن میں ان کے بارے میں موجودہے ان کے ہاتھوں پر بیعت کی ہے، لیکن طلحہ اور زبیر نے بغیر کسی وجہ کے اپنے عہد و پیمان کو توڑا اور لوگوں کو بغاوت و شورش کی دعوت دی اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ لوگوں کو جنگ کرنے کے لئے آمادہ کردیا۔(۲)

ہمدان کے حاکم اور غرب کے لوگوں کی بیعت نے امام ـ کی حکومت کو اور بھی مضبوط کردیا۔ کچھ دنوں کے بعد حاکم ہمدان نے امام ـ کی حمایت و اعتماد حاصل کرنے کے لئے کوفہ کا سفر کیا۔ :

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۱۶شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۱۔ ۷۲۔

(۲) وقعۂ صفین ص ۱۸۔ ۱۷، الامامة و السیاسة ص ۸۳۔ ۸۲۔

۴۶۰

آذربائیجان کے گورنراشعث کے نام امام ـ کا خط

اشعث بن قیس کا رابطہ پچھلے خلیفہ کے ساتھ بھی بہت گہرا تھا اور اس کی بیٹی خلیفہ کی بہو(عمرو بن عثمان کی بیوی) تھی۔ امام ـ نے اپنے ایک چاہنے والے ہمدانی(۱) ،زیاد بن مرحب(۲) کے ذریعہ خط اس کے پاس بھیجا جس کی عبارت یہ تھی:

اگر تمھیں کوئی مشکل نہ تھی تو میری بیعت کرنے میں سبقت کرتے اورلوگوں سے بھی میری بیعت لیتے اگر تقوی اختیار کرو گے تو بعض چیزیں تمھیں حق کو ظاہر کرنے کے لئے آمادہ کردیں گی، جیسا کہ تمھیں معلوم ہے کہ لوگوںنے میری بیعت کی ہے اور طلحہ و زبیر نے بیعت کرنے کے بعد عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے اور ام المومنین کو ان کے گھر سے بلا کر اپنے ساتھ بصرہ لے گئے۔ میں بھی ان کے پاس گیا اور ان سے کہاکہ اپنی بیعت پر واپس آجاؤ لیکن ان لوگوںنے قبول نہیں کیا میں نے بہت اصرار کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا...(۳)

پھر امام ـ نے ایک تاریخی کلام اشعث کے گوش گزار کیا:

''و ان عملک لیس لک بطعمة و لکنه امانة و فی یدیک مال من مال الله و انت من خُزَّان الله علیه حتی تسلِّمه الی ...'' (۴)

گورنری تمہارے لئے مرغن غذا کالقمہ نہیں ہے ،بلکہ ایک امانت ہے او رتمہارے پاس جومال ہے وہ خدا کا ہے اور تم اس مال کے لئے خدا کی طرف سے خزانہ دار ہو یہاں تک کہ وہ مجھے واپس کردو، تم جان لو کہ میں تم پر برا حاکم نہیں رہوں گا جب کہ تم سچائی کو اپنا ساتھی بنائے رکھو گے۔

_______________________________

(۱)قبیلۂ ہمدان (میم پر ساکن) یمن کا ایک مشہور قبیلہ ہے اور وہاں کے لوگ سچے اور امام سے گہرا تعلق اور محبت رکھتے تھے۔

(۲) الامامة و السیاس، ص ۳، زیاد بن کعب۔----(۳) الامامة و السیاس ص ۳ وقعۂ صفین ص ۲۱۔ ۲۰۔

(۴) الامامة و السیاسة ص ۸۳ وقعہ صفین، ص ۲۱۔ ۲۰ جو کچھ وقعہ صفین کے مولف نصر بن مزاحم نے لکھاہے، مرحوم سید رضی نے شروع کے کچھ حصے کو حذف کردیا ہے۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر۵، ابن عبد ربہ عقد الفرید، ج۳، ص ۱۰۴۔ ابن قتیبہ ، الامامة والسیاسة ج۱،ص ۸۳ نے جو کچھ نصر بن مزاحم نے نقل کیا ہے اسے بطور خلاصہ لکھا ہے ،رجوع کریں ، مصادر نہج البلاغہ ج۳، ص۲۰۲ شرح نہج البلاغہ ابن میثم ج۴،ص ۳۵۰

۴۶۱

دونوں خط ایک وقت لکھا گیا جب کہ پہلے خط میں الفت و محبت کی چاشنی ہے لیکن دوسرے خط میں الفت و محبت کے ساتھ تندی اور تنبیہ بھی شامل ہے ان دونوں میں فرق کی وجہ دونوں حاکموں کی روحانی کیفیت ہے اشعث لوگوں سے امام ـ کی بیعت اور شناخت امام کے لئے بہت زیادہ مائل نہ تھا لہذا امام ـ کا خط ملنے کے بعد بجائے یہ کہ حاکم ہمدان کی طرح خود اٹھ کر امام ـ کے فضائل سے لوگوں کو آشنا کراتا اور لوگوں سے

آپ کی بیعت کا خواستگار ہوتا۔ اس نے خاموشی اختیار کی، یہی وجہ ہے کہ امام ـ کا قاصد و نمائندہ زیاد بن مرحب اپنی جگہ سے اٹھا اور عثمان کے قتل کی داستان اور طلحہ و زبیر کی بیعت توڑنے کے واقعات کو لوگوں کے سامنے بیان کیا اور کہا:

اے لوگو، وہ شخص جسے مختصر کلام قانع نہ کر سکے اسے طولانی کلام بھی قانع نہیں کرے گا، عثمان کا مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ اس کے متعلق گفتگو کر کے تمھیں قانع کیا جا سکے یقیناواقعہ کا سننا دیکھنے کی طرح کبھی نہیں ہوسکتاہے۔

اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ عثمان کے قتل کے بعد مہاجرین و انصار نے علی کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان دو آدمیوں (طلحہ و زبیر) نے بغیر کسی وجہ کے اپنی بیعت سے انکار کردیا اور بالآخر خدا نے علی کو زمین کا وارث بنا دیااور نیک اور اچھی عاقبت متقیوں کے لئے

۴۶۲

ہے۔(۱)

اس موقع پر اشعث کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا لہذا مجبوراً اس حاکم کی اطاعت کرنے کی بنا پر جنھیں مہاجر و انصار نے منتخب کیاتھا۔ مختصر طور پر ان کے بارے میں کچھ بیان کرے، لہذا وہ اٹھا اور کہنے لگا:

اے لوگو! عثمان نے اس علاقے (آذربائیجان) کی حاکمیت مجھے دی تھی وہ قتل ہوگئے حکومت میرے ہاتھ میں تھی اور لوگوں نے علی کی بیعت کی ان کی اطاعت ہمارے لئے ایسی ہی ہے جس طرح سے ہماری اطاعت پچھلے والوں کے ساتھ تھی، تم نے طلحہ و زبیر سے متعلق ماجراسنااور جو کچھ ہم سے پوشیدہ ہے ان امور میں علی مورد اعتماد ہیں۔(۲)

حاکم نے اپنی بات ختم کی اور اپنے گھر چلا گیا اور اپنے دوستوں ، چاہنے والوں کو بلایا اور کہا:

علی کے خط نے مجھے وحشت میں ڈال دیاہے وہ آذربائجان کی دولت و ثروت کو ہم سے لے لیں گے، لہذا ہمارے لئے بہتر ہے کہ ہم معاویہ سے ملحق ہو جائیں، مگر حاکم کے مشاوروں نے اس

کی مذمت کی، اور کہا: تمہارے لئے موت اس کام سے بہتر ہے کیا تم اپنے قبیلہ اوردیار کو چھوڑ دو گے اور شامیوں کی طرف جاؤ گے؟ اس نے مشاوروں کی بات کو تسلیم کرلیا، اور اپنے روابط کو مستحکم کرنے کے لئے کوفہ روانہ ہوگیا۔(۳)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین، ص ۲۱، الامامة و السیاسة، ج۱، ص ۸۳۔ (۱) الامامة و السیاسة، ج۱، ص ۸۴۔ ۸۳، وقعۂ صفین، ص ۲۱۔

(۲) الامامة و السیاسة، ج۱، ص ۸۲۔

۴۶۳

بارہویں فصل

جنگ صفین کے علل و اسباب

امام ـ کا پیغام معاویہ کے نام

حضرت امیر المومنین ـ کی الہی و حقیقی حکومت قائم ہونے اور متقی و پرہیزگار حاکموں کو منصوب کرنے اور غیر متدین حاکموں کے معزول کرنے کے بعد سب سے اہم کام یہ تھا کہ امام ـ شجرۂ خبیثہ کے ریشہ کو شام کی سرزمین سے اکھاڑ پھینکیں ، اور جامعہ اسلامی سے اس کے شر کو ختم کردیں، یہ ارادہ اس وقت اورقطعی ہوگیاجب ہمدان کے حاکم جریر کوفہ پہونچ گئے اور جب امام ـ کے ارادے سے باخبر ہوئے تو امام سے درخواست کی مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کا پیغام لے جاؤں اس نے کہا: معاویہ سے میری دوستی بہت پرانی ہے میں اس سے کہوں گا کہ آپ کی حقیقی حکومت کو رسمی طور پر پہچانے اور جب تک خدا کی اطاعت کرے گا اس وقت تک شام کا حاکم رہے گا۔

امام ـ نے اس کی آخری شرط کو سن کر خاموشی اختیار کی اور کچھ نہیں کہا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ جریر کے اندر اس کام کو انجام دینے کی صلاحیت نہیں ہے مالک اشتر نے امام ـ کی طرف سے نمائندگی اختیار کرنے پر جریر کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ معاویہ کے ساتھ ملا ہوا ہے لیکن امام ـ ان کی رائے کو نظر انداز کر کے جریر کو اس کام کے لئے چنا،(۱) اور آئندہ اس نے حضرت کے انتخاب کوصحیحثابت کردیا، جب امام ـ نے جریر کو روانہ کیا تو اس سے فرمایا، تم نے دیکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام اصحاب جو سب کے سب متدین ہیں میرے ساتھ ہیں۔ پیغمبر نے تجھے یمن کا ایک بہترین شخص کہا ہے تم میرا خط لے کر معاویہ کے پاس جاؤ اگر ان چیزوں پر جس میں مسلمانوں کا اتفاق ہے داخل ہوا تو بہتر ہے اور اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اس سے کہو کہ اب تک جو خاموشی تھی اب وہ خاموشی ختم ہو جائے گی(۲) اور یہ بات اس تک پہونچا دو کہ میں ہرگز اسکے

_______________________________

(۱) تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۵ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۸۴ (مطبوعہ بیروت) کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۴۱؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۳، ص ۷۴۔

(۲) حاکم اسلامی کو چاہئے کہ اعلان جنگ سے پہلے متوجہ کرے کہ جتنی بھی سابقہ امانتیں موجود ہیں وہ ختم ہوگئیں ہیں ، قرآن کریم نے اس مسئلہ کو صراحت سے بیان کیا ہے :''و اما نخافنَّ من قوم خیانة فانبذ الیهم علی سوائ'' سورۂ انفال، آیت ۵۸۔

۴۶۴

حاکم ہونے پر راضی نہ تھا۔ اور لوگ بھی اس کی جانشینی پر راضی نہیں ہوںگے۔(۱)

جریر امام ـ کا خط لے کر شام روانہ ہوا، جب معاویہ کے پاس پہونچا تو اس سے کہا: علی کے ہاتھ پر مکہ، مدینہ ، کوفہ، بصرہ ،حجاز، یمن، مصر، عمان، بحرین اور یمامہ کے لوگوں نے بیعت کی ہے اور سوائے اس قلعہ کے کہ جس میں تو ہے کوئی باقی نہیں ہے ،اور اگر وہاں کے بیابانوں سے طوفان جاری ہو اتو سب کو غرق کردے گا میں تمہارے پاس اس لئے آیا ہوں کہ تجھے اس چیز کی دعوت دوں جس میں سچائی ہے اور اس شخص کی بیعت کی رہنمائی کروں۔(۲)

پھر اس نے امام ـ کا خط معاویہ کے حوالے کیا جس میں تحریر تھا:

مدینے میں (مہاجر و انصار کی میرے ہاتھ پر) بیعت نے شام میں تجھ پر حجت کو تمام کردیا ہے

اور تجھے میری اطاعت کرنے پر مجبور کیا ہے جن لوگوںنے ابوبکر ، عمر اور عثمان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی بالکل اسی طرح انہوں نے میری بھی بیعت کی ہے لہذا اس بیعت کے بعدنہ حاضرین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مخالفت کریںنہ ہی غائبین کو حق ہے کہ بیعت کو چھوڑ دیں۔شوریٰ (تمھاری رائے کے مطابق) مہاجرین و انصار کے حقوق میں سے ہے کہ اگر وہ لوگ کسی کی امامت پر متفق ہو جائیں اور اسے امام کا نام دیں تو یہ کام خدا کی مرضی کے مطابق ہے اور اگر کوئی ان کے فرمان و حکم کی مخالفت کرے یا تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کرے، تو اسے اس کی جگہ پر بٹھا دیتے ہیںاور اگر سرکشی کرے گا تو اس سے غیر مومنین کی راہوں کی پیروی کرنے کے جرم میں جنگ کرتے ہیں اور خدا اسے وسط راہ میں چھوڑ دیتا ہے اور قیامت کے دن جہنم میں ڈال دے گا اور واقعاً یہ کیسا مقدر ہے۔(۳)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۲۸۔ ۲۷ تاریخ طبری ج۵ ص ۲۳۵۔

(۲) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۸۴۷ ،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۵، وقعۂ صفین ص ۲۸۔

(۳) اس آیت کی طرف اشارہ ہے: ''وَمَنْ یُشَاقِقْ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَائَتْ مَصِیرًا ً '' (سورۂ نسائ، آیت ۱۱۵)

۴۶۵

طلحہ و زبیر نے میری بیعت کی پھر خود ہی بیعت کو توڑ دیا ،بیعت کو توڑنا بیعت کی مخالفت کرنا ہے (یعنی اے معاویہ تمھاری طرح) یہاں تک کہ حق آگیا اور خدا کا حکم کامیاب ہوا، میرے نزدیک بہترین کام تمھارے لئے سلامتی و عافیت ہے لیکن اگر تو نے خود کو بلا میںگرفتا رکیا تو تجھ سے جنگ کروں گا اور اس راہ میں خدا سے مدد طلب کروں گا، عثمان کے قاتلوں کے بارے تو نے بہت کچھ کہا تم بھی اسی چیز میں داخلہو جاؤ جس میں سارے مسلمان داخل ہوئے ہیںاور اس وقت مجھے کوئی واقعہ نہ سناؤ میں تمام لوگوں کو خدا کی کتاب کا پابند کروں گا (جو تو یہ کہہ رہا ہے کہ میں پہلے عثمان کے قاتلوں کو تمھارے حوالے کروں تاکہ تو میری بیعت کرے) تمہاری یہ درخواست ایسی ہی جیسے بچے کو دودھ کے لئے دھوکہ دیا جائے، میں اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تم اپنی عقل کو کام میں لاؤ نہ کہ خواہشات نفس کو، تو مجھے عثمان کے خون کے متعلق پاکیزہ فرد پاؤ گے اور یہ بھی جان لو کہ تم اسلام کے قیدی بننے کے بعد طلقاء اور آزادہ شدہ لوگوں میں سے ہو اور ایسے لوگوں کے لئے خلافت حلال نہیں ہے اور شوریٰ کا ممبر بنے کا بھی حق نہیں ہے ،میں نے تمہارے پاس یا جو لوگ تمہاری طرح دوسرے کاموں میں مشغول ہیں۔ ان کی طرف اپنے نمائندے جریر بن عبد اللہ جو کہ مومن و متدین ہیں روانہ کیا ہے تاکہ بیعت کرو اور اپنی وفاداری کا

۴۶۶

اعلان کرو۔(۱)

شام میں امام ـ کا نمائندہ

انسان کا نمائندہ اور سفیراس کی شخصیت کو اجاگر کرتا ہے اور اس کا مناسب انتخاب اس کی عقل کا مل کی حکایت کرتا ہے لہذا زمانہ قدیم کے بہت ہی عمیق مفکروں نے کہا ہے:

''حُسنُ الانتخابِ دلیلُ عقلِ المرئِ و مبلغُ رشدِہ''

یعنی اچھی چیز کا انتخاب انسان کی عقلمندی کی دلیل اور اس کے فکر کی میزان ہے۔

امام ـ نے معاویہ کی معزولی کا فرمان بھیجنے کے لئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جو سیاسی اور حکومتی مسائل میں مہارت رکھتا تھا۔ اور معاویہ کو اچھی طرح سے پہچانتا تھا اور خود ایک شعلہ ورخطیب تھا اور یہ شخص جریر بن عبد اللہ بجلی تھا(۲) اس نے امام ـ کا خط معاویہ کو ایک عمومی جگہ پر دیا اور جب وہ خط پڑھ چکا توجریر

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۳۰۔ ۲۹، الامامة و السیاسة ج۱ ص ۸۵۔ ۸۴، عقد الفرید ج۴ ص ۳۲۲، تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۵ (مطبوعہ لیدن) ۔ ابن عساکر تاریخ دمشق میں معاویہ کے حالات کی شرح کرتے وقت اور مرحوم شریف رضی نے نہج البلاغہ میں اس خط کے ابتدائی حصے کو خذف کردیا ہے۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۶۔

(۲) اگرچہ وہ بعد میں اپنے وظیفے کی انجام دہی میں سستی اور کاہلی کی وجہ سے متہم تھا مگر اسکا جرم ثابت نہ تھا اور ہم اسکے بارے میں گفتگو کریں گے۔

۴۶۷

امام ـ کے ترجمان کے طور پر اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک بہت ہی عمدہ اور دل کو لبھا دینے والا خطبہ پڑھا اور اس خطبے میں خدا کی حمد وثناء اور محمد و آل محمد پر درود کے بعد کہا:

عثمان کے کام (پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے ذریعہ عثمان کا قتل ہونا) نے مدینہ میں حاضر رہنے والے لوگوں کو عاجز و ناتوان کردیاہے ان لوگوں کی کیا بات جو واقعہ کے وقت موجودنہ تھے اور لوگوں نے علی کے ہاتھ پر بیعت کی اور طلحہ و زبیر بھی ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ،لیکن بعد میں بغیر کسی دلیل کے اپنی بیعت کو توڑ دیا ،اسلام کا قانون فتنوں کو برداشت نہیں کرتا عرب کے لوگ تلوار کو برداشت نہیں کرتے ابھی بصرہ میں غم انگیز واقعہ رونما ہوا ہے کہ اگر یہ دوبارہ واقع ہو جائے تو کوئی بھی باقی نہ بچے گا جان لو کہ تمام لوگوں نے علی کی بیعت کی ہے اور اگر خدا نے اس کام کی ذمہ داری ہمارے حوالے کی ہوتی تو ہم بھی ان کے علاوہ کسی کو منتخب نہ کرتے ، اور جو لوگ بھی عمومی انتخاب کی مخالفت کریں گے ان کو متنبہ کیا جائے گا، (کہ وہ بھی لوگوں کے منتخب کردہ حاکم کو قبول کریں)۔

اے معاویہ جس طریقے سے لوگ اسلام میں داخل ہوئے ہیں تو بھی اسی طرح داخل ہو جا، اور علی کو مسلمانوں کا رہبر مان لے، اگر تو یہ کہے کہ عثمان نے مجھے اس منصب و مقام پر معین کیا ہے اور ابھی تک معزول نہیں کیا ہے تو یہ ایسی بات ہے کہ اگر اسے مان لیا جائے تو خدا کے لئے کوئی دین باقی نہیں بچے گا، اور ہر شخص کے ہاتھ میں جو کچھ بھی ہے اسے مضبوطی سے پکڑ لے گا۔(۱)

جب امام ـ کے نمائندے کی تقریر ختم ہوئی تو اس وقت معاویہ نے کہا، صبر کرو تاکہ میں شام

کے لوگوں سے مشورہ کروں اور پھر نتیجے کا اعلان کروں۔(۲)

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۸۵، وقعۂ صفین ص ۳۱۔ ۳۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۷۔ ۷۶۔

(۲) شرح نہج البلاغہ، ج۳، ص ۷۷۔

۴۶۸

امام ـ کا بیعت لینے کا مقصد معاویہ کو معزول کرنا تھا

امام ـ نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں سے ہی کبھی بھی کسی سے بیعت لینے کے لئے اصرار نہیں کیا۔ تو پھر معاویہ سے بیعت لینے کے لئے اتنا اصرار کیوں کیا؟ اس کی علت یہ تھی کہ آپ اس سے بیعت لے کر منصب سے معزول کرنا چاہتے تھے تاکہ مسلمانوں کے مال و حقوق کو اس سے واپس لے لیں؛ کیونکہ جن لوگوں نے حضرت علی ـ کے ہاتھ پر مسلمانوں کے امام کے اعتبار سے بیعت کی تھی ان لوگوں نے شرط رکھی تھی کہ آپ مسلمانوں کی وضعیت کو پیغمبر کے زمانے کی طرح دوبارہ واپس لائیںگے۔ اور ان کی مصلحتوں اور اسلام کو ترقی عطا کرنے میں کوتاہی نہ کریںگے، معاویہ جیسے افراد کی موجودگی ایسے کاموں کے لئے رکاوٹ تھی، اصل میں عثمان کے خلاف انقلاب اسی لئے برپا ہوا تھا کہ پچھلے تمام حاکم اور سردار اپنے منصب سے برطرف ہو جائیں اور دنیا پرست اور مالدار لوگ مظلوموں کا حق لوٹنے سے باز آجائیں۔

۴۶۹

معاویہ کی جانب سے شامیوںکو اس قضیہ سے آگاہ کرنا

ایک دن دربار معاویہ کے منادی نے شام کے کچھ گروہوں کو مسجد میں جمع کیا، معاویہ مبنر پر گیا اور خدا کی حمد و ثنا کی اور سر زمین شام کے صفات اس طرح بیان کئے کہ خدا نے اس سرزمین کو پیغمبروں اور خدا کے صالح بندوں کی زمین قرار دیا ہے اور اس زمین پر بسنے والوں کی ہمیشہ مدد کی ہے اس کے بعد کہا:

(اے لوگو) تمھیں معلوم ہے کہ میں امیر المومنین عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان کا نمائندہ

ہوں، میں نے کسی کے ساتھ کوئی ایساکام نہیں کیا کہ میں اس سے شرمندہ ہو ں۔ میں عثمان کا ولی ہوں، جو مظلومیت کے ساتھ مارا گیا ہے اور خدا کہتا ہے کہ ''جو شخص مظلوم قتل ہوگا میں اس کے ولی کو طاقت وقوت عطا کروں گا، لیکن قتل کرنے میں اسراف نہ کرو؛ کیونکہ قتل ہونے والا خدا کی طرف سے مدد پاتا ہے۔(۱)

پھر اس نے کہا کہ میں چاہتا ہوں عثمان کے قتل کے بارے میں تم لوگوں کا نظریہ معلوم کروں۔

اس وقت مسجد میں موجود سبھی لوگ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے، ہم لوگ عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔

پھر لوگوں نے اس کام کے لئے اس کے ہاتھ پر بیعت کی اور سب نے ایک آواز ہو کر کہا کہ ہم سب اس راہ میں اپنی جان و مال قربان کردیں گے۔(۲)

معاویہ کی گفتگو کا ایک جائزہ

۱۔ معاویہ نے شام کی سرزمین کو انبیاء کی سرزمین اور شام کے لوگوں کو خدا کی شریعت و دین کا دفاع کرنے

_______________________________

(۱) سورۂ اسرائ، آیت ۳۳۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۸۔ ۷۷، وقعۂ صفین ص ۳۲۔ ۳۱۔

۴۷۰

والا بتایا تاکہ اس کے ذریعے وہ خود کو الہی قانون کا دفاع کرنے والا ثابت کرسکے اور لوگوں کے احساسات و جذبات سے فائدہ اٹھائے اور تمام لوگوں کو آپسی جنگ کے لئے تیار کرے۔

۲۔مقتول خلیفہ کو مظلوم بتایاکہ ان کا خون ظالموں کے گروہ نے بہایا ہے جب کہ ان کا قتل پیغمبر اسلام کے صحابہ اور تابعین کے ہاتھوں ہوا تھااور ان کی نظر میں صحابہ اور تابعین راہ حق کی پیروی کرنے والے اور عادل و انصاف پسند ہیں۔

۳۔ اگرہم فرض کریں کہ عثمان مظلوم قتل کئے گئے لیکن ان کا ولی قاتلوں کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے اور''ولی الدم'' سے مراد مقتول کے مال کا وارث ہے ،توکیا معاویہ ان کے مال کا وارث تھا یا کسی قریبی وارث ہونے کی وجہ سے اس کی نوبت نہیں آتی؟ یہ بات صحیح ہے کہ عثمان عفان کا بیٹا اور وہ ابو العاص بن امیہ کا بیٹا اور معاویہ ابوسفیان کا بیٹا اور وہ حرب بن امیہ کا بیٹا تھا۔ اور سب کا سلسلہ امیہ تک پہونچتا ہے لیکن کیا یہ دوری رشتہ، نزدیکی رشتہ داروں کے باوجود بھی کافی تھا، کہ معاویہ نے اپنے کو عثمان کے خون کا ولی بتایا؟

امیر المومنین ـ اپنے خط میں معاویہ کو لکھتے ہیں:

''انّما انتَ رجل من بنی امیه و بنو عثمان اولی بذالک منک'' (۱)

تم امیہ کی اولاد سے ہو اور عثمان کے بیٹے اپنے باپ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے تم سے اولیٰ ہیں۔

یہ سب ایسے سوالات ہیں کہ جن کا جواب ابوسفیان کے بیٹے کے ضمیر کا پردہ فاش کردیں گے، اور یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ عثمان کے خون کا مسئلہ نہ تھا، بلکہ حکومت پر قبضہ کر کے امام کو اس سے دور کرنا تھا کہ جس کے ہاتھوں پر مہاجرین و انصا رنے بالاتفاق بیعت کیا تھا اور سب سے زیادہ تعجب کی بات اس کا لوگوں سے مشورہ کرنا ہے، وہ جب لوگوں سے اس سلسلے میں مشورہ لے رہا تھا اسی وقت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اپنی قطعی رائے بھی پیش کی تھی او راس پر بہت سنجیدہ تھااس طرح کی صحنہ سازی کی روایت قدیمی ہے اور زبردستی اپنی بات منوانے کو ''مشورہ'' کانام دیاجاتا ہے ۔

تاریخ لکھتی ہے: اگرچہ معاویہ نے لوگوں کا مثبت جواب سنا،مگر اس کے دل میں خوف طاری

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین، ص ۵۸، الامامة والسیاسة، ج۱، ص ۹۲۔ ۹۱۔

۴۷۱

تھا اور کچھ اشعاروہ خود بخود پڑھ رہا تھا، جس کا آخری شعر یہ ہے:

و انی لارجوا خیر ما نال نائل

و ما أنا من ملک العراق بائس(۱)

میں ایک بہترین چیز کا امیدوار ہوں ، کہ امید خود اس کی امید وار ہے اور میں ملک عراق سے مایوس نہیں ہوں۔

اس نے اپنے اس مقصد تک پہونچنے کے لئے اپنے لالچی ساتھیوں کو بلایا اور اسی میں سے عتبہ بن ابوسفیان نے اس سے کہا: علی کے ساتھ اگر جنگ کرنا ہے تو اس کے لئے عمرو عاص کو بھی باخبر کرو اور اس کے دین کو خرید لو، کیونکہ وہ ایسا شخص ہے کہ عثمان کی حکومت سے بھی دور رہا، اور طبیعی ہے کہ تمہاری حکومت سے تو بہت دور رہے گا، مگر یہ کہ اسے درہم و دینار دے کر راضی کرلو۔(۲)

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۸۔

(۲) وقعۂ صفین ص ۳۳، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۹۔

۴۷۲

تیرہویں فصل

حضرت علی ـ سے مقابلے کے لئے معاویہ کے اقدامات

معاویہ کا خط عمرو عاص کے نام

عمرو عاص جو کہ میدان سیاست کا ایک چالاک بھیڑیا تھا او راس وقت مشہورومعروف فلسطین میںگوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا تھا معاویہ نے اس کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے اسے اس مضمون کا خط لکھا:

''علی اور طلحہ و زبیر کا واقعہ تونے سنا ہے ،مروان بن حکم بصرہ کے کچھ لوگوں کے ہمراہ شام آیا ہے اور جریر بن عبد اللہ علی کی طرف سے نمائندہ بن کر بیعت لینے کے لئے شام آچکا ہے میں نے ہر طرح کا فیصلہ کرنے سے پرہیز کیا ہے تاکہ تمہارا نظریہ معلوم کروں جتنی جلدی ہو شام آجاؤ تاکہ اس سلسلے میں رائے و مشورہ کیا جائے۔(۱)

جب یہ خط عمرو کے پاس پہونچا تو اس نے اس خط کے مفہوم کو اپنے دونوں بیٹوں عبد اللہ اور محمد کو بتایا، اور ان سے ان کا نظریہ معلوم کیا اس کا بڑا بیٹا جو تاریخ میں اچھے نام سے مشہور ہے (و اللہ اعلم) اس کا کہنا تھا:

جب تک رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے بعد کے دو خلیفہ زندہ تھے سب کے سب تم سے راضی تھے اور جس دن عثمان کا قتل ہوا اس دن تم مدینہ میں نہ تھے۔ اس وقت کتنا بہتر ہے کہ تم خود اپنے گھر میں بیٹھتے اور بہت کم منافع حاصل کرنے کے لئے معاویہ کی حاشیہ نشینی چھوڑ دیتے، کیوں کہ خلافت تمہیں ہرگز نہیں مل سکتی، اور قریب ہے کہ تمہاری عمر کا سورج غروب ہو جائے اور زندگی کے آخری مرحلے میں بدبخت ہو جاؤ۔

لیکن اس کے دوسرے بیٹے نے اپنے بڑے بھائی کے خلاف نظریہ پیش کیا کہ معاویہ کی دعوت کو قبول کرے اور کہا : تم قریش کے بزرگوں میں سے ہو اور اگر اس امر میں خاموشی اختیار کر کے بیٹھ گئے تو لوگوں کی

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ص ۸۴، وقعہ صفین ص ۳۴۔

۴۷۳

نگاہوں میں تم ایک معمولی شخص رہوگے، اور حق شام کے لوگوں کے ساتھ ہے ان کی مدد کرو اور عثمان کے خون کا بدلہ لو اور ایسی صورت میں بنی امیہ اس کام کے لئے قیام کریں گے۔

عمرو عاص جو ایک ہوشیار و چالاک شخص تھا اس نے عبد اللہ کو مخاطب کر کے کہا کہ تمہارا نظریہ میرے دین کے نفع میں ہے،جب کہ محمد کا نظریہ میرے دنیاوی فائدے کے لئے ہے اس سلسلے میں میں غور و فکر کروں گا، پھر اس نے کچھ اشعار پڑھا اور دونوں بیٹوں کے نظریات کو شعری انداز میں بیان کیا ،اس کے بعد اپنے چھوٹے بیٹے وردان کے سے پوچھا: اس نے کہا کیا آپ چاہتے ہیں کہ جو کچھ آپ کے دل میں ہے اس کے بارے میں خبر دوں؟ عمرو نے کہا: بتاؤ تم کیا جانتے ہو اس نے کہا: دنیا و آخرت نے تمہارے دل پر حملہ کردیا ہے علی کی پیروی آخرت کے لئے سعادت کا باعث ہے جب کہ ان کی پیروی دنیاوی نہیں ہے لیکن آخرت کی زندگی دنیا کی ناکامیوں کے لئے قابل تلافی ہے، جب کہ معاویہ کا ساتھ دینے میں دنیا ملے گی مگر آخرت سے محرومی ہوگی، اوردنیا کی زندگی آخرت کی سعادتوں کے لئے قابل تلافی نہیں ہے اس وقت تم ان دونوں کے درمیان کھڑے ہو اور تمہاری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کس کا انتخاب کرؤ۔

عمرو نے کہا: تم نے بالکل صحیح کہا ہے۔ اب بتاؤ کہ تمہارا نظریہ کیا ہے؟

اس نے کہا: اپنے گھر میں خاموشی سے بیٹھ جاؤ۔ اگر دین کامیاب ہوگیا تو تم اس کے سائے میں زندگی بسر کرنا اور اگر اہل دنیا کامیاب ہوئے تو وہ لوگ تم سے بے نیاز نہیں ہیں۔

۴۷۴

عمرو نے کہا: کیا اب اس وقت گھر میں بیٹھوں جب کہ معاویہ کے پاس میرے جانے کی خبر پورے عرب میں پھیل چکی ہے۔(۱)

وہ اندرونی طور پر ایک دنیا پرست انسان تھا ،لہذا معاویہ کا ساتھ دیا لیکن اپنے چھوٹے بیٹے کی گفتگو کو شعری قالب میں ڈھال دیا:

اما علی فدین لیس یشرکه

دنیا و ذاک له دنیا و سلطان

فاخترت من طمعی دنیا علی بصرٍ

و ما معی بالذی اختار برهان(۲)

علی کی پیروی میں دین ہے لیکن دنیا نہیں ہے جب کہ معاویہ کی پیروی کرنے میں دنیا اور قدرت ہے۔

میں نے اپنی لالچ و آرزو کی وجہ سے حقیقت جانتے ہوئے دنیا کو اختیار کیا لیکن اس کے قبول کرنے کے لئے میرے پاس کوئی عذر یا حجت نہیں ہے، پھر وہ شام کی طرف روانہ ہوگیا اور اپنے پرانے اور قدیمی دوست کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے لگا اور امام علی ـ کو صفحہء ہستی سے مٹانے کے لئے ایک نقشہ تیار کیا جسے ہم بعد میں بیان کریں گے۔

_______________________________

(۱) الامامة والسیاسة، ص ۸۷۔

(۲) وقعۂ صفین، ص ۳۶۔

۴۷۵

دو کہنہ کار سیاستدانوں کی ہمکاری

بالآخر ''بنی سھم'' کا پرانا اور قدیمی سیاست دان اور اپنے زمانہ کا معروف و مشہور عمرو عاص نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دیا اور فلسطین سے شام کی طرف روانہ ہوگیا تاکہ اس ضعیفی اور بڑھاپے میں دوسری مرتبہ مصر کا حاکم بن جائے۔وہ خوب جانتا تھا کہ معاویہ کو اس کی دور اندیشی اور تدابیر کی ضرورت ہے لہٰذا اس نے سوچاکہ اس کی مددکرنے کے بدلے اس سے زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرے(۱) اور گفتگو کے دوران مطالب کو وقفہ ، و قفہ سے بیان کیا تاکہ معاویہ کی فکر و نظر کو اپنی طرف جذب کر لے۔

گفتگو کی پہلی نشست میں معاویہ نے تین مشکلیں بیان کیں جن میں ایک یہ تھی کہ علی ـ کی سر زمین شام پر حملہ کرنے کے ارادے نے تمام چیزوں سے زیادہ میرے ذہن کوالجھن میں ڈال دیاہے یہاں ہم بغیر کسی کمی و زیادتی کے ان دونوں کی گفتگو کو نصر بن مزاحم کی ''تاریخ صفین'' سے نقل کر رہے ہیں۔

معاویہ : کافی دنوں سے تین چیزوں نے میرے ذہن و فکر کو اپنی طرف مشغول کر رکھا ہے اور میں مسلسل اس بارے میں سوچ رہا ہوں، تم سے درخواست ہے کہ اس مسئلہ کا کوئی حل پیش کرو۔

عمرو عاص : وہ تینوں مشکلیں کیا ہیں؟

معاویہ: محمد بن ابی حذیفہ نے مصر کا قید خانہ توڑ ڈالا ہے اور وہ دین کے لئے آفت ہے (یعنی حکومت معاویہ کیلئے)

(وضاحت: عثمان کی خلافت کے زمانے میں مصر کے تمام امور کی ذمہ داری عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح پر

_______________________________

(۱)الامامةوالسیاسة،ج۱،ص۸۷۔

۴۷۶

تھی اور محمد بن ابی حذیفہ ان لوگوں میں سے تھا جس نے لوگوں کو حاکم مصر کے خلاف بغاوت کے لئے آمادہ کیا تھا عثمان کے قتل کے بعد اس کا حاکم لوگوں کے خوف سے مصر چھوڑ کر چلا گیا اور اپنی جگہ پر اپنے نمائندے کو منصوب کردیا، لیکن ابو حذیفہ کے بیٹے نے حاکم کے نمائندے کے خلاف لوگوں کو تشویق و رغبت دلائی اور بالآخر اسے مصر سے نکال دیا اور خود وہاں کی ذمہ داریوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ حضرت علی ـ کی خلافت کے ابتدائی دور میں مصر کی حاکمیت قیس بن سعد کو دی گئی اور محمد کو

معزول کردیاگیا، جب معاویہ نے مصر پر قبضہ کیا تو محمد کو قید خانے میں ڈال دیا لیکن وہ اور اس کے ساتھی کسی صورت سے قید خانے سے بھاگ گئے،(۱) جی ہاں، محمد بن ابی حذیفہ بہت زیادہ فعال اور حادثہ کا ایجاد کرنے والا تھا، اور وہ معاویہ کا ماموں زاد بھائی تھا)۔

عمرو عاص: اس واقعہ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے تم ایک گروہ کو بھیج کر اسے قتل کرواسکتے ہو یا وہ لوگ قید کر کے زندہ تیرے حوالے کرسکتے ہیں ، لیکن اگر یہ لوگ اسے گرفتار نہ کرسکے تو وہ اتنا خطرناک نہیں ہے کہ تمہاری حکومت کو تم سے چھین لے۔

معاویہ: قیصر روم، رومیوں کے گروہ کے ساتھ شام کی طرف چلنے والا ہے تاکہ شام کی حکومت ہم سے واپس لے لے۔

عمرو عاص: قیصر روم کی مشکلات کو ہدیہ وغیرہ مثلاً روم کے غلاموں اور کنیزوں اور سونے چاندی کے برتن وغیرہ بھیج کر دور کرو، اور اسے صحت و سلامتی کی زندگی دے کر دعوت کرو کہ عنقریب وہ اس کام میں شریک ہوگا۔

معاویہ: علی نے کوفہ میں قیام کیا ہے اور شام کی طرف بڑھ رہے ہیں اس مشکل کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے؟

عمرو عاص: عرب ہرگز تجھے علی جیسا نہیں سمجھتے ، علی جنگ کے تمام رموز و اسرار سے آشنا ہیں اور قریش میں ان کی مثال نہیں ہے، وہ اس حق کی بنا پر صاحب حکومت ہیں جو ان کے ہاتھ میں ہے مگر یہ کہ تم

ان پر ظلم و ستم کرو اور ان کے حق کو سلب کرلو۔

_______________________________

(۱) اسد الغابہ، ج۴، ص ۳۱۶۔ ۳۱۵۔

۴۷۷

معاویہ: میں چاہتا ہوں کہ تم اس سے جنگ کرو کہ اس نے خدا کی نافرمانی کی ہے اور خلیفہ کو قتل کردیا ہے اور فتنہ پیدا کردیا اور اتحاد کو درہم برہم کردیا اور رشتہ داری کو توڑ دیا ہے۔

عمرو عاص: خدا کی قسم، تم اور علی ہرگز شرف و فضیلت میں برابر نہیں ہو تم نہ ان کی ہجرت کی فضیلت رکھتے ہو نہ ان کے دیگرسوابق کی فضیلت رکھتے ہو، نہ ان کی طرح تم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رہے ہو نہ تم نے ان کی طرح مشرکوں سے جہاد کیا ہے نہ ان کی طرح تمہارے پاس عقل و دانش ہے ، خدا کی قسم علی کی فکر بہت عالی ، ذہن بہت صاف اور وہ ہمیشہ سعی وکوشش میں رہے ہیں، وہ با فضیلت اور سعادت مند اور خدا کے نزدیک کامیاب انسان ہیں، ایسے بافضیلت شخص کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے مجھے کیا قیمت دو گے کہ میں تمہارا ساتھ دوں؟ تمہیں معلوم ہے کہ اس ہمکاری میں کتنے خطرے موجود ہیں۔

معاویہ: تمہیں اختیار ہے، تمہیں کیا چاہئے؟

عمرو عاص: مصر کی حکومت۔

معاویہ: (جب کہ وہ دھوکہ کھا چکا تھا) اس نے مکاری کے طور پر دنیا و آخرت کے مسئلے کو سامنے رکھا، اور کہا: میں نہیں چاہتا کہ عرب تمہارے بارے میں اس طرح کی فکر کریں کہ تم دنیاوی غرض کے لئے ہمارے ساتھ جنگ میں شامل ہوئے ہو، کتنا اچھا ہوگا کہ وہ لوگ یہ کہیں کہ تم نے خدا کی مرضی اور آخرت کی اجرت لینے کے لئے ہمارا ساتھ دیا، اور کبھی بھی دنیا کی معمولی اور چھوٹی چیز آخرت کے اجر کے برابر نہیں ہو سکتی۔

عمرو عاص: ان بے ہودہ باتوں کا ذکر نہ کرو۔(۱)

معاویہ: میں اگر تجھے دھوکہ دینا چاہوں تو دے سکتا ہوں۔ عمرو عاص: مجھ جیسا آدمی دھوکہ نہیں کھا سکتا، میں اس سے بھی زیادہ چالاک ہوں جتنا تم سوچ رہے ہو۔

معاویہ: میرے نزدیک آؤ تاکہ تم سے اصلی راز بیان کروں۔

_______________________________

(۱) ابن ابی الحدید اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ، ج۲، ص ۶۵، مطبوعہ مصر، میں لکھتا ہے: میں نے اپنے استاد ابو القاسم بلخی سے کہا کہ یہ عمرو عاص کی گفتگو آخرت پر ایمان نہ رکھنے اور اس کے بے دینی کی وجہ سے نہیں ہے؟ انھوںنے جواب دیا: عمرو عاص نے اصلا ًاسلام قبول ہی نہیں کیا تھا، اور اپنے کفر پر باقی تھا۔

۴۷۸

عمرو عاص اس کے قریب گیا اور اپنے کان کو معاویہ کے منھ کے پاس لے گیا تاکہ اس کے اصلی راز کو سنے ،اچانک معاویہ نے اس کے کان کو زور سے دانتوں میں دبا لیا کہا: کیا تم نے دیکھا میں تم کو دھوکہ دے سکتا ہوں، پھر اس نے کہا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ مصر عراق کی طرح ہے اور دونوں بڑے شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔

عمرو عاص: ہاں میں جانتا ہوں، لیکن عراق تمہارے قبضے میں اسی وقت ہوگا جس وقت مصر پر میرا قبضہ جب کہ عراق کے لوگوں نے علی کی اطاعت کی ہے اور ان کی رکاب میں رہتے ہوئے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں ۔

اس موقع پر جب کہ دو سوداگر بحث و مباحثہ میں غرق تھے معاویہ کا بھائی عتبہ بن ابوسفیان وہاں آ پہونچا اور کہا: عمرو کو مصر کی سرزمین دے کر کیوں نہیں خرید لیتے؟ کاش کہ یہی حکومت شام تمہارے لئے باقی رہے اور کوئی دوسرا اس میں مداخلت نہ کرے۔ اس وقت اس نے کچھ شعر کہا اور اس میں عمرو عاص کی معاویہ کے ساتھ نصرت و مدد کو ظاہر کیاجس کا ایک شعر یہ ہے:

اعط عمرواً ان عمرواً تارک

دینه الیوم لدنیا لم تجز(۱)

جو کچھ عمرو کی خواہش ہے اسے دیدو، اس نے آج اپنے دین کو دنیا کے لئے چھوڑ دیا ہے۔

بالآخر معاویہ نے سوچاکہ جیسے بھی ممکن ہو عمرو کی مدد کو اپنی طرف جذب کرے اور اس کی خواہش کو پورا کرے، لیکن عمرو اس کے مکر و فریب کی وجہ سے مطمئن نہیں تھا۔ اس نے یہ سوچا کہ کہیںایسا نہ ہو کہ معاویہ مجھ سے ایک کامیابی کی سیڑھی کی طرح استفادہ کرے اور کام ختم ہوتے ہی اسے اپنے سے دور کردے، لہذا اس نے معاویہ کو متوجہ کرتے ہوئے کہا ضروری ہے کہ اس تعہد اور معاملے کو کاغذ پہ لکھا جائے اور اس کے متعلق شرائط لکھی جائیں اور دونوں آدمی اپنے اپنے دستخط کریں۔

_______________________________

(۱) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی تقریر میں ایک شرعی مسئلہ کی طرف یاد دہانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لاتبع ما لیس عندک'' یعنی جس چیز کے تم مالک نہیں ہو اسے نہ بیچو، اب اس وقت یہ دیکھنا ہے کہ عمرو نے مصر کی حکومت کے مقابلے میں کیا چیز بیچی ہے اور کس چیز کواپنے ہاتھوں سے گنوا دیا ہے وہ بقولے ابن ابی الحدید ، معاویہ سے معاملہ کرتے وقت بھی بے دین و بے ایمان تھا اور حقیقتاً اس معاملہ کو بھی اس مکر و فریب کے ذریعے انجام دیا تھا ، اور بغیر کسی اجرت کے مصر کی حکومت کو خرید لیاتھا۔

۴۷۹

تعہد نامہ لکھا گیا اور دونوںنے اپنے دستخط کیا لیکن دستخط کرنے والوں نے اپنے دستخط اور مہر کے سامنے ایک ایک جملے کا اضافہ کیااور اپنے فریب و نفاق کو ظاہر کردیا۔ معاویہ نے اپنے نام کے پاس لکھا:علیٰ ان لا ینقض شرط طاعةً '' یعنی ، یہ تعہد اس وقت تک معتبرہے جب تک شرط کرنے والااطاعت کو نہ توڑے، عمرو نے بھی اپنے نام اور مہر کے آگے ایک جملے کا اضافہ کیا،علیٰ ان لا تنقض طاعة شرطاً، (۱) یعنی شرط یہ ہے کہ اطاعت کرنے والا شرط کو نہ توڑے۔

ان دونوں نے یہ دو قیدیں لگا کر ایک دوسرے کو دھوکہ دیا اور خلاف ورزی کے راستے کو آشکار کردیا، کیونکہ اس قید کے لگانے سے معاویہ کا مقصد یہ تھا کہ عمرو نے بغیر کسی شرط و قید کے مطلقاً معاویہ کی بیعت کی ہے اور اگر معاویہ اسے مصر کی حکومت نہ دے تو اس کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس وجہ سے کہ معاویہ نے اپنے عہد و شرط کی وفا نہیں کی ہے اس بہانے سے اپنی بیعت توڑ دے، لیکن جب اس کا قدیمی دوست معاویہ کے اس مکر وفریب سے آگاہ ہوا تو اس نے اس راہ ہموار پر روک لگادی اور لکھا کہ میری بیعت اس وقت تک معتبر ہے کہ معاویہ اپنی شرط (مصر کی حکومت) کو نہ توڑے اور معاویہ مصر کو عمرو کے حوالے کرے۔حقیقت میں دونوں سیاست کے میدان میں لومٹری صفت تھے اور کبھی بھی ان کے پاس نہ دینی تقویٰ تھا اور نہ ہی سیاسی تقویٰ تھا۔عمرو اس معاملے کے بعد پھولے نہیں سما رہا تھا، معاویہ کے گھر سے نکلا اور جو لوگ باہر اس کا انتظار کر رہے تھے ان سے ملاقات کی اوران کے درمیان درج ذیل سوالات و جوابات ہوئے:

عمرو کے بیٹے: بابا بالآخر کیا نتیجہ نکلا؟

عمرو: مجھے مصر کی حکومت دی ہے۔

عمر کے بیٹے: ملک عرب کی بہادری و طاقت کے مقابلے میں مصر کی حکومت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

عمرو: اگر سرزمین مصر سے تم سیر نہیں ہوئے تو خدا تمہیں کسی چیز سے سیر نہ کرے۔(۲)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۴۰۔

(۲) وقعۂ صفین، ص ۴۰۔ ۳۷، الامامة و السیاسة، ص ۸۸۔ ۸۷۔ (تھوڑے فرق کے ساتھ)

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809