فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)4%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362191 / ڈاؤنلوڈ: 6022
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

آذربائیجان کے گورنراشعث کے نام امام ـ کا خط

اشعث بن قیس کا رابطہ پچھلے خلیفہ کے ساتھ بھی بہت گہرا تھا اور اس کی بیٹی خلیفہ کی بہو(عمرو بن عثمان کی بیوی) تھی۔ امام ـ نے اپنے ایک چاہنے والے ہمدانی(۱) ،زیاد بن مرحب(۲) کے ذریعہ خط اس کے پاس بھیجا جس کی عبارت یہ تھی:

اگر تمھیں کوئی مشکل نہ تھی تو میری بیعت کرنے میں سبقت کرتے اورلوگوں سے بھی میری بیعت لیتے اگر تقوی اختیار کرو گے تو بعض چیزیں تمھیں حق کو ظاہر کرنے کے لئے آمادہ کردیں گی، جیسا کہ تمھیں معلوم ہے کہ لوگوںنے میری بیعت کی ہے اور طلحہ و زبیر نے بیعت کرنے کے بعد عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے اور ام المومنین کو ان کے گھر سے بلا کر اپنے ساتھ بصرہ لے گئے۔ میں بھی ان کے پاس گیا اور ان سے کہاکہ اپنی بیعت پر واپس آجاؤ لیکن ان لوگوںنے قبول نہیں کیا میں نے بہت اصرار کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا...(۳)

پھر امام ـ نے ایک تاریخی کلام اشعث کے گوش گزار کیا:

''و ان عملک لیس لک بطعمة و لکنه امانة و فی یدیک مال من مال الله و انت من خُزَّان الله علیه حتی تسلِّمه الی ...'' (۴)

گورنری تمہارے لئے مرغن غذا کالقمہ نہیں ہے ،بلکہ ایک امانت ہے او رتمہارے پاس جومال ہے وہ خدا کا ہے اور تم اس مال کے لئے خدا کی طرف سے خزانہ دار ہو یہاں تک کہ وہ مجھے واپس کردو، تم جان لو کہ میں تم پر برا حاکم نہیں رہوں گا جب کہ تم سچائی کو اپنا ساتھی بنائے رکھو گے۔

_______________________________

(۱)قبیلۂ ہمدان (میم پر ساکن) یمن کا ایک مشہور قبیلہ ہے اور وہاں کے لوگ سچے اور امام سے گہرا تعلق اور محبت رکھتے تھے۔

(۲) الامامة و السیاس، ص ۳، زیاد بن کعب۔----(۳) الامامة و السیاس ص ۳ وقعۂ صفین ص ۲۱۔ ۲۰۔

(۴) الامامة و السیاسة ص ۸۳ وقعہ صفین، ص ۲۱۔ ۲۰ جو کچھ وقعہ صفین کے مولف نصر بن مزاحم نے لکھاہے، مرحوم سید رضی نے شروع کے کچھ حصے کو حذف کردیا ہے۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر۵، ابن عبد ربہ عقد الفرید، ج۳، ص ۱۰۴۔ ابن قتیبہ ، الامامة والسیاسة ج۱،ص ۸۳ نے جو کچھ نصر بن مزاحم نے نقل کیا ہے اسے بطور خلاصہ لکھا ہے ،رجوع کریں ، مصادر نہج البلاغہ ج۳، ص۲۰۲ شرح نہج البلاغہ ابن میثم ج۴،ص ۳۵۰

۴۶۱

دونوں خط ایک وقت لکھا گیا جب کہ پہلے خط میں الفت و محبت کی چاشنی ہے لیکن دوسرے خط میں الفت و محبت کے ساتھ تندی اور تنبیہ بھی شامل ہے ان دونوں میں فرق کی وجہ دونوں حاکموں کی روحانی کیفیت ہے اشعث لوگوں سے امام ـ کی بیعت اور شناخت امام کے لئے بہت زیادہ مائل نہ تھا لہذا امام ـ کا خط ملنے کے بعد بجائے یہ کہ حاکم ہمدان کی طرح خود اٹھ کر امام ـ کے فضائل سے لوگوں کو آشنا کراتا اور لوگوں سے

آپ کی بیعت کا خواستگار ہوتا۔ اس نے خاموشی اختیار کی، یہی وجہ ہے کہ امام ـ کا قاصد و نمائندہ زیاد بن مرحب اپنی جگہ سے اٹھا اور عثمان کے قتل کی داستان اور طلحہ و زبیر کی بیعت توڑنے کے واقعات کو لوگوں کے سامنے بیان کیا اور کہا:

اے لوگو، وہ شخص جسے مختصر کلام قانع نہ کر سکے اسے طولانی کلام بھی قانع نہیں کرے گا، عثمان کا مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ اس کے متعلق گفتگو کر کے تمھیں قانع کیا جا سکے یقیناواقعہ کا سننا دیکھنے کی طرح کبھی نہیں ہوسکتاہے۔

اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ عثمان کے قتل کے بعد مہاجرین و انصار نے علی کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان دو آدمیوں (طلحہ و زبیر) نے بغیر کسی وجہ کے اپنی بیعت سے انکار کردیا اور بالآخر خدا نے علی کو زمین کا وارث بنا دیااور نیک اور اچھی عاقبت متقیوں کے لئے

۴۶۲

ہے۔(۱)

اس موقع پر اشعث کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا لہذا مجبوراً اس حاکم کی اطاعت کرنے کی بنا پر جنھیں مہاجر و انصار نے منتخب کیاتھا۔ مختصر طور پر ان کے بارے میں کچھ بیان کرے، لہذا وہ اٹھا اور کہنے لگا:

اے لوگو! عثمان نے اس علاقے (آذربائیجان) کی حاکمیت مجھے دی تھی وہ قتل ہوگئے حکومت میرے ہاتھ میں تھی اور لوگوں نے علی کی بیعت کی ان کی اطاعت ہمارے لئے ایسی ہی ہے جس طرح سے ہماری اطاعت پچھلے والوں کے ساتھ تھی، تم نے طلحہ و زبیر سے متعلق ماجراسنااور جو کچھ ہم سے پوشیدہ ہے ان امور میں علی مورد اعتماد ہیں۔(۲)

حاکم نے اپنی بات ختم کی اور اپنے گھر چلا گیا اور اپنے دوستوں ، چاہنے والوں کو بلایا اور کہا:

علی کے خط نے مجھے وحشت میں ڈال دیاہے وہ آذربائجان کی دولت و ثروت کو ہم سے لے لیں گے، لہذا ہمارے لئے بہتر ہے کہ ہم معاویہ سے ملحق ہو جائیں، مگر حاکم کے مشاوروں نے اس

کی مذمت کی، اور کہا: تمہارے لئے موت اس کام سے بہتر ہے کیا تم اپنے قبیلہ اوردیار کو چھوڑ دو گے اور شامیوں کی طرف جاؤ گے؟ اس نے مشاوروں کی بات کو تسلیم کرلیا، اور اپنے روابط کو مستحکم کرنے کے لئے کوفہ روانہ ہوگیا۔(۳)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین، ص ۲۱، الامامة و السیاسة، ج۱، ص ۸۳۔ (۱) الامامة و السیاسة، ج۱، ص ۸۴۔ ۸۳، وقعۂ صفین، ص ۲۱۔

(۲) الامامة و السیاسة، ج۱، ص ۸۲۔

۴۶۳

بارہویں فصل

جنگ صفین کے علل و اسباب

امام ـ کا پیغام معاویہ کے نام

حضرت امیر المومنین ـ کی الہی و حقیقی حکومت قائم ہونے اور متقی و پرہیزگار حاکموں کو منصوب کرنے اور غیر متدین حاکموں کے معزول کرنے کے بعد سب سے اہم کام یہ تھا کہ امام ـ شجرۂ خبیثہ کے ریشہ کو شام کی سرزمین سے اکھاڑ پھینکیں ، اور جامعہ اسلامی سے اس کے شر کو ختم کردیں، یہ ارادہ اس وقت اورقطعی ہوگیاجب ہمدان کے حاکم جریر کوفہ پہونچ گئے اور جب امام ـ کے ارادے سے باخبر ہوئے تو امام سے درخواست کی مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کا پیغام لے جاؤں اس نے کہا: معاویہ سے میری دوستی بہت پرانی ہے میں اس سے کہوں گا کہ آپ کی حقیقی حکومت کو رسمی طور پر پہچانے اور جب تک خدا کی اطاعت کرے گا اس وقت تک شام کا حاکم رہے گا۔

امام ـ نے اس کی آخری شرط کو سن کر خاموشی اختیار کی اور کچھ نہیں کہا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ جریر کے اندر اس کام کو انجام دینے کی صلاحیت نہیں ہے مالک اشتر نے امام ـ کی طرف سے نمائندگی اختیار کرنے پر جریر کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ معاویہ کے ساتھ ملا ہوا ہے لیکن امام ـ ان کی رائے کو نظر انداز کر کے جریر کو اس کام کے لئے چنا،(۱) اور آئندہ اس نے حضرت کے انتخاب کوصحیحثابت کردیا، جب امام ـ نے جریر کو روانہ کیا تو اس سے فرمایا، تم نے دیکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام اصحاب جو سب کے سب متدین ہیں میرے ساتھ ہیں۔ پیغمبر نے تجھے یمن کا ایک بہترین شخص کہا ہے تم میرا خط لے کر معاویہ کے پاس جاؤ اگر ان چیزوں پر جس میں مسلمانوں کا اتفاق ہے داخل ہوا تو بہتر ہے اور اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اس سے کہو کہ اب تک جو خاموشی تھی اب وہ خاموشی ختم ہو جائے گی(۲) اور یہ بات اس تک پہونچا دو کہ میں ہرگز اسکے

_______________________________

(۱) تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۵ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۸۴ (مطبوعہ بیروت) کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۴۱؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۳، ص ۷۴۔

(۲) حاکم اسلامی کو چاہئے کہ اعلان جنگ سے پہلے متوجہ کرے کہ جتنی بھی سابقہ امانتیں موجود ہیں وہ ختم ہوگئیں ہیں ، قرآن کریم نے اس مسئلہ کو صراحت سے بیان کیا ہے :''و اما نخافنَّ من قوم خیانة فانبذ الیهم علی سوائ'' سورۂ انفال، آیت ۵۸۔

۴۶۴

حاکم ہونے پر راضی نہ تھا۔ اور لوگ بھی اس کی جانشینی پر راضی نہیں ہوںگے۔(۱)

جریر امام ـ کا خط لے کر شام روانہ ہوا، جب معاویہ کے پاس پہونچا تو اس سے کہا: علی کے ہاتھ پر مکہ، مدینہ ، کوفہ، بصرہ ،حجاز، یمن، مصر، عمان، بحرین اور یمامہ کے لوگوں نے بیعت کی ہے اور سوائے اس قلعہ کے کہ جس میں تو ہے کوئی باقی نہیں ہے ،اور اگر وہاں کے بیابانوں سے طوفان جاری ہو اتو سب کو غرق کردے گا میں تمہارے پاس اس لئے آیا ہوں کہ تجھے اس چیز کی دعوت دوں جس میں سچائی ہے اور اس شخص کی بیعت کی رہنمائی کروں۔(۲)

پھر اس نے امام ـ کا خط معاویہ کے حوالے کیا جس میں تحریر تھا:

مدینے میں (مہاجر و انصار کی میرے ہاتھ پر) بیعت نے شام میں تجھ پر حجت کو تمام کردیا ہے

اور تجھے میری اطاعت کرنے پر مجبور کیا ہے جن لوگوںنے ابوبکر ، عمر اور عثمان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی بالکل اسی طرح انہوں نے میری بھی بیعت کی ہے لہذا اس بیعت کے بعدنہ حاضرین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مخالفت کریںنہ ہی غائبین کو حق ہے کہ بیعت کو چھوڑ دیں۔شوریٰ (تمھاری رائے کے مطابق) مہاجرین و انصار کے حقوق میں سے ہے کہ اگر وہ لوگ کسی کی امامت پر متفق ہو جائیں اور اسے امام کا نام دیں تو یہ کام خدا کی مرضی کے مطابق ہے اور اگر کوئی ان کے فرمان و حکم کی مخالفت کرے یا تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کرے، تو اسے اس کی جگہ پر بٹھا دیتے ہیںاور اگر سرکشی کرے گا تو اس سے غیر مومنین کی راہوں کی پیروی کرنے کے جرم میں جنگ کرتے ہیں اور خدا اسے وسط راہ میں چھوڑ دیتا ہے اور قیامت کے دن جہنم میں ڈال دے گا اور واقعاً یہ کیسا مقدر ہے۔(۳)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۲۸۔ ۲۷ تاریخ طبری ج۵ ص ۲۳۵۔

(۲) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۸۴۷ ،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۵، وقعۂ صفین ص ۲۸۔

(۳) اس آیت کی طرف اشارہ ہے: ''وَمَنْ یُشَاقِقْ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَائَتْ مَصِیرًا ً '' (سورۂ نسائ، آیت ۱۱۵)

۴۶۵

طلحہ و زبیر نے میری بیعت کی پھر خود ہی بیعت کو توڑ دیا ،بیعت کو توڑنا بیعت کی مخالفت کرنا ہے (یعنی اے معاویہ تمھاری طرح) یہاں تک کہ حق آگیا اور خدا کا حکم کامیاب ہوا، میرے نزدیک بہترین کام تمھارے لئے سلامتی و عافیت ہے لیکن اگر تو نے خود کو بلا میںگرفتا رکیا تو تجھ سے جنگ کروں گا اور اس راہ میں خدا سے مدد طلب کروں گا، عثمان کے قاتلوں کے بارے تو نے بہت کچھ کہا تم بھی اسی چیز میں داخلہو جاؤ جس میں سارے مسلمان داخل ہوئے ہیںاور اس وقت مجھے کوئی واقعہ نہ سناؤ میں تمام لوگوں کو خدا کی کتاب کا پابند کروں گا (جو تو یہ کہہ رہا ہے کہ میں پہلے عثمان کے قاتلوں کو تمھارے حوالے کروں تاکہ تو میری بیعت کرے) تمہاری یہ درخواست ایسی ہی جیسے بچے کو دودھ کے لئے دھوکہ دیا جائے، میں اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تم اپنی عقل کو کام میں لاؤ نہ کہ خواہشات نفس کو، تو مجھے عثمان کے خون کے متعلق پاکیزہ فرد پاؤ گے اور یہ بھی جان لو کہ تم اسلام کے قیدی بننے کے بعد طلقاء اور آزادہ شدہ لوگوں میں سے ہو اور ایسے لوگوں کے لئے خلافت حلال نہیں ہے اور شوریٰ کا ممبر بنے کا بھی حق نہیں ہے ،میں نے تمہارے پاس یا جو لوگ تمہاری طرح دوسرے کاموں میں مشغول ہیں۔ ان کی طرف اپنے نمائندے جریر بن عبد اللہ جو کہ مومن و متدین ہیں روانہ کیا ہے تاکہ بیعت کرو اور اپنی وفاداری کا

۴۶۶

اعلان کرو۔(۱)

شام میں امام ـ کا نمائندہ

انسان کا نمائندہ اور سفیراس کی شخصیت کو اجاگر کرتا ہے اور اس کا مناسب انتخاب اس کی عقل کا مل کی حکایت کرتا ہے لہذا زمانہ قدیم کے بہت ہی عمیق مفکروں نے کہا ہے:

''حُسنُ الانتخابِ دلیلُ عقلِ المرئِ و مبلغُ رشدِہ''

یعنی اچھی چیز کا انتخاب انسان کی عقلمندی کی دلیل اور اس کے فکر کی میزان ہے۔

امام ـ نے معاویہ کی معزولی کا فرمان بھیجنے کے لئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جو سیاسی اور حکومتی مسائل میں مہارت رکھتا تھا۔ اور معاویہ کو اچھی طرح سے پہچانتا تھا اور خود ایک شعلہ ورخطیب تھا اور یہ شخص جریر بن عبد اللہ بجلی تھا(۲) اس نے امام ـ کا خط معاویہ کو ایک عمومی جگہ پر دیا اور جب وہ خط پڑھ چکا توجریر

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۳۰۔ ۲۹، الامامة و السیاسة ج۱ ص ۸۵۔ ۸۴، عقد الفرید ج۴ ص ۳۲۲، تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۵ (مطبوعہ لیدن) ۔ ابن عساکر تاریخ دمشق میں معاویہ کے حالات کی شرح کرتے وقت اور مرحوم شریف رضی نے نہج البلاغہ میں اس خط کے ابتدائی حصے کو خذف کردیا ہے۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۶۔

(۲) اگرچہ وہ بعد میں اپنے وظیفے کی انجام دہی میں سستی اور کاہلی کی وجہ سے متہم تھا مگر اسکا جرم ثابت نہ تھا اور ہم اسکے بارے میں گفتگو کریں گے۔

۴۶۷

امام ـ کے ترجمان کے طور پر اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک بہت ہی عمدہ اور دل کو لبھا دینے والا خطبہ پڑھا اور اس خطبے میں خدا کی حمد وثناء اور محمد و آل محمد پر درود کے بعد کہا:

عثمان کے کام (پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے ذریعہ عثمان کا قتل ہونا) نے مدینہ میں حاضر رہنے والے لوگوں کو عاجز و ناتوان کردیاہے ان لوگوں کی کیا بات جو واقعہ کے وقت موجودنہ تھے اور لوگوں نے علی کے ہاتھ پر بیعت کی اور طلحہ و زبیر بھی ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ،لیکن بعد میں بغیر کسی دلیل کے اپنی بیعت کو توڑ دیا ،اسلام کا قانون فتنوں کو برداشت نہیں کرتا عرب کے لوگ تلوار کو برداشت نہیں کرتے ابھی بصرہ میں غم انگیز واقعہ رونما ہوا ہے کہ اگر یہ دوبارہ واقع ہو جائے تو کوئی بھی باقی نہ بچے گا جان لو کہ تمام لوگوں نے علی کی بیعت کی ہے اور اگر خدا نے اس کام کی ذمہ داری ہمارے حوالے کی ہوتی تو ہم بھی ان کے علاوہ کسی کو منتخب نہ کرتے ، اور جو لوگ بھی عمومی انتخاب کی مخالفت کریں گے ان کو متنبہ کیا جائے گا، (کہ وہ بھی لوگوں کے منتخب کردہ حاکم کو قبول کریں)۔

اے معاویہ جس طریقے سے لوگ اسلام میں داخل ہوئے ہیں تو بھی اسی طرح داخل ہو جا، اور علی کو مسلمانوں کا رہبر مان لے، اگر تو یہ کہے کہ عثمان نے مجھے اس منصب و مقام پر معین کیا ہے اور ابھی تک معزول نہیں کیا ہے تو یہ ایسی بات ہے کہ اگر اسے مان لیا جائے تو خدا کے لئے کوئی دین باقی نہیں بچے گا، اور ہر شخص کے ہاتھ میں جو کچھ بھی ہے اسے مضبوطی سے پکڑ لے گا۔(۱)

جب امام ـ کے نمائندے کی تقریر ختم ہوئی تو اس وقت معاویہ نے کہا، صبر کرو تاکہ میں شام

کے لوگوں سے مشورہ کروں اور پھر نتیجے کا اعلان کروں۔(۲)

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۸۵، وقعۂ صفین ص ۳۱۔ ۳۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۷۔ ۷۶۔

(۲) شرح نہج البلاغہ، ج۳، ص ۷۷۔

۴۶۸

امام ـ کا بیعت لینے کا مقصد معاویہ کو معزول کرنا تھا

امام ـ نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں سے ہی کبھی بھی کسی سے بیعت لینے کے لئے اصرار نہیں کیا۔ تو پھر معاویہ سے بیعت لینے کے لئے اتنا اصرار کیوں کیا؟ اس کی علت یہ تھی کہ آپ اس سے بیعت لے کر منصب سے معزول کرنا چاہتے تھے تاکہ مسلمانوں کے مال و حقوق کو اس سے واپس لے لیں؛ کیونکہ جن لوگوں نے حضرت علی ـ کے ہاتھ پر مسلمانوں کے امام کے اعتبار سے بیعت کی تھی ان لوگوں نے شرط رکھی تھی کہ آپ مسلمانوں کی وضعیت کو پیغمبر کے زمانے کی طرح دوبارہ واپس لائیںگے۔ اور ان کی مصلحتوں اور اسلام کو ترقی عطا کرنے میں کوتاہی نہ کریںگے، معاویہ جیسے افراد کی موجودگی ایسے کاموں کے لئے رکاوٹ تھی، اصل میں عثمان کے خلاف انقلاب اسی لئے برپا ہوا تھا کہ پچھلے تمام حاکم اور سردار اپنے منصب سے برطرف ہو جائیں اور دنیا پرست اور مالدار لوگ مظلوموں کا حق لوٹنے سے باز آجائیں۔

۴۶۹

معاویہ کی جانب سے شامیوںکو اس قضیہ سے آگاہ کرنا

ایک دن دربار معاویہ کے منادی نے شام کے کچھ گروہوں کو مسجد میں جمع کیا، معاویہ مبنر پر گیا اور خدا کی حمد و ثنا کی اور سر زمین شام کے صفات اس طرح بیان کئے کہ خدا نے اس سرزمین کو پیغمبروں اور خدا کے صالح بندوں کی زمین قرار دیا ہے اور اس زمین پر بسنے والوں کی ہمیشہ مدد کی ہے اس کے بعد کہا:

(اے لوگو) تمھیں معلوم ہے کہ میں امیر المومنین عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان کا نمائندہ

ہوں، میں نے کسی کے ساتھ کوئی ایساکام نہیں کیا کہ میں اس سے شرمندہ ہو ں۔ میں عثمان کا ولی ہوں، جو مظلومیت کے ساتھ مارا گیا ہے اور خدا کہتا ہے کہ ''جو شخص مظلوم قتل ہوگا میں اس کے ولی کو طاقت وقوت عطا کروں گا، لیکن قتل کرنے میں اسراف نہ کرو؛ کیونکہ قتل ہونے والا خدا کی طرف سے مدد پاتا ہے۔(۱)

پھر اس نے کہا کہ میں چاہتا ہوں عثمان کے قتل کے بارے میں تم لوگوں کا نظریہ معلوم کروں۔

اس وقت مسجد میں موجود سبھی لوگ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے، ہم لوگ عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔

پھر لوگوں نے اس کام کے لئے اس کے ہاتھ پر بیعت کی اور سب نے ایک آواز ہو کر کہا کہ ہم سب اس راہ میں اپنی جان و مال قربان کردیں گے۔(۲)

معاویہ کی گفتگو کا ایک جائزہ

۱۔ معاویہ نے شام کی سرزمین کو انبیاء کی سرزمین اور شام کے لوگوں کو خدا کی شریعت و دین کا دفاع کرنے

_______________________________

(۱) سورۂ اسرائ، آیت ۳۳۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۸۔ ۷۷، وقعۂ صفین ص ۳۲۔ ۳۱۔

۴۷۰

والا بتایا تاکہ اس کے ذریعے وہ خود کو الہی قانون کا دفاع کرنے والا ثابت کرسکے اور لوگوں کے احساسات و جذبات سے فائدہ اٹھائے اور تمام لوگوں کو آپسی جنگ کے لئے تیار کرے۔

۲۔مقتول خلیفہ کو مظلوم بتایاکہ ان کا خون ظالموں کے گروہ نے بہایا ہے جب کہ ان کا قتل پیغمبر اسلام کے صحابہ اور تابعین کے ہاتھوں ہوا تھااور ان کی نظر میں صحابہ اور تابعین راہ حق کی پیروی کرنے والے اور عادل و انصاف پسند ہیں۔

۳۔ اگرہم فرض کریں کہ عثمان مظلوم قتل کئے گئے لیکن ان کا ولی قاتلوں کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے اور''ولی الدم'' سے مراد مقتول کے مال کا وارث ہے ،توکیا معاویہ ان کے مال کا وارث تھا یا کسی قریبی وارث ہونے کی وجہ سے اس کی نوبت نہیں آتی؟ یہ بات صحیح ہے کہ عثمان عفان کا بیٹا اور وہ ابو العاص بن امیہ کا بیٹا اور معاویہ ابوسفیان کا بیٹا اور وہ حرب بن امیہ کا بیٹا تھا۔ اور سب کا سلسلہ امیہ تک پہونچتا ہے لیکن کیا یہ دوری رشتہ، نزدیکی رشتہ داروں کے باوجود بھی کافی تھا، کہ معاویہ نے اپنے کو عثمان کے خون کا ولی بتایا؟

امیر المومنین ـ اپنے خط میں معاویہ کو لکھتے ہیں:

''انّما انتَ رجل من بنی امیه و بنو عثمان اولی بذالک منک'' (۱)

تم امیہ کی اولاد سے ہو اور عثمان کے بیٹے اپنے باپ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے تم سے اولیٰ ہیں۔

یہ سب ایسے سوالات ہیں کہ جن کا جواب ابوسفیان کے بیٹے کے ضمیر کا پردہ فاش کردیں گے، اور یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ عثمان کے خون کا مسئلہ نہ تھا، بلکہ حکومت پر قبضہ کر کے امام کو اس سے دور کرنا تھا کہ جس کے ہاتھوں پر مہاجرین و انصا رنے بالاتفاق بیعت کیا تھا اور سب سے زیادہ تعجب کی بات اس کا لوگوں سے مشورہ کرنا ہے، وہ جب لوگوں سے اس سلسلے میں مشورہ لے رہا تھا اسی وقت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اپنی قطعی رائے بھی پیش کی تھی او راس پر بہت سنجیدہ تھااس طرح کی صحنہ سازی کی روایت قدیمی ہے اور زبردستی اپنی بات منوانے کو ''مشورہ'' کانام دیاجاتا ہے ۔

تاریخ لکھتی ہے: اگرچہ معاویہ نے لوگوں کا مثبت جواب سنا،مگر اس کے دل میں خوف طاری

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین، ص ۵۸، الامامة والسیاسة، ج۱، ص ۹۲۔ ۹۱۔

۴۷۱

تھا اور کچھ اشعاروہ خود بخود پڑھ رہا تھا، جس کا آخری شعر یہ ہے:

و انی لارجوا خیر ما نال نائل

و ما أنا من ملک العراق بائس(۱)

میں ایک بہترین چیز کا امیدوار ہوں ، کہ امید خود اس کی امید وار ہے اور میں ملک عراق سے مایوس نہیں ہوں۔

اس نے اپنے اس مقصد تک پہونچنے کے لئے اپنے لالچی ساتھیوں کو بلایا اور اسی میں سے عتبہ بن ابوسفیان نے اس سے کہا: علی کے ساتھ اگر جنگ کرنا ہے تو اس کے لئے عمرو عاص کو بھی باخبر کرو اور اس کے دین کو خرید لو، کیونکہ وہ ایسا شخص ہے کہ عثمان کی حکومت سے بھی دور رہا، اور طبیعی ہے کہ تمہاری حکومت سے تو بہت دور رہے گا، مگر یہ کہ اسے درہم و دینار دے کر راضی کرلو۔(۲)

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۸۔

(۲) وقعۂ صفین ص ۳۳، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۹۔

۴۷۲

تیرہویں فصل

حضرت علی ـ سے مقابلے کے لئے معاویہ کے اقدامات

معاویہ کا خط عمرو عاص کے نام

عمرو عاص جو کہ میدان سیاست کا ایک چالاک بھیڑیا تھا او راس وقت مشہورومعروف فلسطین میںگوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا تھا معاویہ نے اس کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے اسے اس مضمون کا خط لکھا:

''علی اور طلحہ و زبیر کا واقعہ تونے سنا ہے ،مروان بن حکم بصرہ کے کچھ لوگوں کے ہمراہ شام آیا ہے اور جریر بن عبد اللہ علی کی طرف سے نمائندہ بن کر بیعت لینے کے لئے شام آچکا ہے میں نے ہر طرح کا فیصلہ کرنے سے پرہیز کیا ہے تاکہ تمہارا نظریہ معلوم کروں جتنی جلدی ہو شام آجاؤ تاکہ اس سلسلے میں رائے و مشورہ کیا جائے۔(۱)

جب یہ خط عمرو کے پاس پہونچا تو اس نے اس خط کے مفہوم کو اپنے دونوں بیٹوں عبد اللہ اور محمد کو بتایا، اور ان سے ان کا نظریہ معلوم کیا اس کا بڑا بیٹا جو تاریخ میں اچھے نام سے مشہور ہے (و اللہ اعلم) اس کا کہنا تھا:

جب تک رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے بعد کے دو خلیفہ زندہ تھے سب کے سب تم سے راضی تھے اور جس دن عثمان کا قتل ہوا اس دن تم مدینہ میں نہ تھے۔ اس وقت کتنا بہتر ہے کہ تم خود اپنے گھر میں بیٹھتے اور بہت کم منافع حاصل کرنے کے لئے معاویہ کی حاشیہ نشینی چھوڑ دیتے، کیوں کہ خلافت تمہیں ہرگز نہیں مل سکتی، اور قریب ہے کہ تمہاری عمر کا سورج غروب ہو جائے اور زندگی کے آخری مرحلے میں بدبخت ہو جاؤ۔

لیکن اس کے دوسرے بیٹے نے اپنے بڑے بھائی کے خلاف نظریہ پیش کیا کہ معاویہ کی دعوت کو قبول کرے اور کہا : تم قریش کے بزرگوں میں سے ہو اور اگر اس امر میں خاموشی اختیار کر کے بیٹھ گئے تو لوگوں کی

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ص ۸۴، وقعہ صفین ص ۳۴۔

۴۷۳

نگاہوں میں تم ایک معمولی شخص رہوگے، اور حق شام کے لوگوں کے ساتھ ہے ان کی مدد کرو اور عثمان کے خون کا بدلہ لو اور ایسی صورت میں بنی امیہ اس کام کے لئے قیام کریں گے۔

عمرو عاص جو ایک ہوشیار و چالاک شخص تھا اس نے عبد اللہ کو مخاطب کر کے کہا کہ تمہارا نظریہ میرے دین کے نفع میں ہے،جب کہ محمد کا نظریہ میرے دنیاوی فائدے کے لئے ہے اس سلسلے میں میں غور و فکر کروں گا، پھر اس نے کچھ اشعار پڑھا اور دونوں بیٹوں کے نظریات کو شعری انداز میں بیان کیا ،اس کے بعد اپنے چھوٹے بیٹے وردان کے سے پوچھا: اس نے کہا کیا آپ چاہتے ہیں کہ جو کچھ آپ کے دل میں ہے اس کے بارے میں خبر دوں؟ عمرو نے کہا: بتاؤ تم کیا جانتے ہو اس نے کہا: دنیا و آخرت نے تمہارے دل پر حملہ کردیا ہے علی کی پیروی آخرت کے لئے سعادت کا باعث ہے جب کہ ان کی پیروی دنیاوی نہیں ہے لیکن آخرت کی زندگی دنیا کی ناکامیوں کے لئے قابل تلافی ہے، جب کہ معاویہ کا ساتھ دینے میں دنیا ملے گی مگر آخرت سے محرومی ہوگی، اوردنیا کی زندگی آخرت کی سعادتوں کے لئے قابل تلافی نہیں ہے اس وقت تم ان دونوں کے درمیان کھڑے ہو اور تمہاری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کس کا انتخاب کرؤ۔

عمرو نے کہا: تم نے بالکل صحیح کہا ہے۔ اب بتاؤ کہ تمہارا نظریہ کیا ہے؟

اس نے کہا: اپنے گھر میں خاموشی سے بیٹھ جاؤ۔ اگر دین کامیاب ہوگیا تو تم اس کے سائے میں زندگی بسر کرنا اور اگر اہل دنیا کامیاب ہوئے تو وہ لوگ تم سے بے نیاز نہیں ہیں۔

۴۷۴

عمرو نے کہا: کیا اب اس وقت گھر میں بیٹھوں جب کہ معاویہ کے پاس میرے جانے کی خبر پورے عرب میں پھیل چکی ہے۔(۱)

وہ اندرونی طور پر ایک دنیا پرست انسان تھا ،لہذا معاویہ کا ساتھ دیا لیکن اپنے چھوٹے بیٹے کی گفتگو کو شعری قالب میں ڈھال دیا:

اما علی فدین لیس یشرکه

دنیا و ذاک له دنیا و سلطان

فاخترت من طمعی دنیا علی بصرٍ

و ما معی بالذی اختار برهان(۲)

علی کی پیروی میں دین ہے لیکن دنیا نہیں ہے جب کہ معاویہ کی پیروی کرنے میں دنیا اور قدرت ہے۔

میں نے اپنی لالچ و آرزو کی وجہ سے حقیقت جانتے ہوئے دنیا کو اختیار کیا لیکن اس کے قبول کرنے کے لئے میرے پاس کوئی عذر یا حجت نہیں ہے، پھر وہ شام کی طرف روانہ ہوگیا اور اپنے پرانے اور قدیمی دوست کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے لگا اور امام علی ـ کو صفحہء ہستی سے مٹانے کے لئے ایک نقشہ تیار کیا جسے ہم بعد میں بیان کریں گے۔

_______________________________

(۱) الامامة والسیاسة، ص ۸۷۔

(۲) وقعۂ صفین، ص ۳۶۔

۴۷۵

دو کہنہ کار سیاستدانوں کی ہمکاری

بالآخر ''بنی سھم'' کا پرانا اور قدیمی سیاست دان اور اپنے زمانہ کا معروف و مشہور عمرو عاص نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دیا اور فلسطین سے شام کی طرف روانہ ہوگیا تاکہ اس ضعیفی اور بڑھاپے میں دوسری مرتبہ مصر کا حاکم بن جائے۔وہ خوب جانتا تھا کہ معاویہ کو اس کی دور اندیشی اور تدابیر کی ضرورت ہے لہٰذا اس نے سوچاکہ اس کی مددکرنے کے بدلے اس سے زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرے(۱) اور گفتگو کے دوران مطالب کو وقفہ ، و قفہ سے بیان کیا تاکہ معاویہ کی فکر و نظر کو اپنی طرف جذب کر لے۔

گفتگو کی پہلی نشست میں معاویہ نے تین مشکلیں بیان کیں جن میں ایک یہ تھی کہ علی ـ کی سر زمین شام پر حملہ کرنے کے ارادے نے تمام چیزوں سے زیادہ میرے ذہن کوالجھن میں ڈال دیاہے یہاں ہم بغیر کسی کمی و زیادتی کے ان دونوں کی گفتگو کو نصر بن مزاحم کی ''تاریخ صفین'' سے نقل کر رہے ہیں۔

معاویہ : کافی دنوں سے تین چیزوں نے میرے ذہن و فکر کو اپنی طرف مشغول کر رکھا ہے اور میں مسلسل اس بارے میں سوچ رہا ہوں، تم سے درخواست ہے کہ اس مسئلہ کا کوئی حل پیش کرو۔

عمرو عاص : وہ تینوں مشکلیں کیا ہیں؟

معاویہ: محمد بن ابی حذیفہ نے مصر کا قید خانہ توڑ ڈالا ہے اور وہ دین کے لئے آفت ہے (یعنی حکومت معاویہ کیلئے)

(وضاحت: عثمان کی خلافت کے زمانے میں مصر کے تمام امور کی ذمہ داری عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح پر

_______________________________

(۱)الامامةوالسیاسة،ج۱،ص۸۷۔

۴۷۶

تھی اور محمد بن ابی حذیفہ ان لوگوں میں سے تھا جس نے لوگوں کو حاکم مصر کے خلاف بغاوت کے لئے آمادہ کیا تھا عثمان کے قتل کے بعد اس کا حاکم لوگوں کے خوف سے مصر چھوڑ کر چلا گیا اور اپنی جگہ پر اپنے نمائندے کو منصوب کردیا، لیکن ابو حذیفہ کے بیٹے نے حاکم کے نمائندے کے خلاف لوگوں کو تشویق و رغبت دلائی اور بالآخر اسے مصر سے نکال دیا اور خود وہاں کی ذمہ داریوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ حضرت علی ـ کی خلافت کے ابتدائی دور میں مصر کی حاکمیت قیس بن سعد کو دی گئی اور محمد کو

معزول کردیاگیا، جب معاویہ نے مصر پر قبضہ کیا تو محمد کو قید خانے میں ڈال دیا لیکن وہ اور اس کے ساتھی کسی صورت سے قید خانے سے بھاگ گئے،(۱) جی ہاں، محمد بن ابی حذیفہ بہت زیادہ فعال اور حادثہ کا ایجاد کرنے والا تھا، اور وہ معاویہ کا ماموں زاد بھائی تھا)۔

عمرو عاص: اس واقعہ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے تم ایک گروہ کو بھیج کر اسے قتل کرواسکتے ہو یا وہ لوگ قید کر کے زندہ تیرے حوالے کرسکتے ہیں ، لیکن اگر یہ لوگ اسے گرفتار نہ کرسکے تو وہ اتنا خطرناک نہیں ہے کہ تمہاری حکومت کو تم سے چھین لے۔

معاویہ: قیصر روم، رومیوں کے گروہ کے ساتھ شام کی طرف چلنے والا ہے تاکہ شام کی حکومت ہم سے واپس لے لے۔

عمرو عاص: قیصر روم کی مشکلات کو ہدیہ وغیرہ مثلاً روم کے غلاموں اور کنیزوں اور سونے چاندی کے برتن وغیرہ بھیج کر دور کرو، اور اسے صحت و سلامتی کی زندگی دے کر دعوت کرو کہ عنقریب وہ اس کام میں شریک ہوگا۔

معاویہ: علی نے کوفہ میں قیام کیا ہے اور شام کی طرف بڑھ رہے ہیں اس مشکل کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے؟

عمرو عاص: عرب ہرگز تجھے علی جیسا نہیں سمجھتے ، علی جنگ کے تمام رموز و اسرار سے آشنا ہیں اور قریش میں ان کی مثال نہیں ہے، وہ اس حق کی بنا پر صاحب حکومت ہیں جو ان کے ہاتھ میں ہے مگر یہ کہ تم

ان پر ظلم و ستم کرو اور ان کے حق کو سلب کرلو۔

_______________________________

(۱) اسد الغابہ، ج۴، ص ۳۱۶۔ ۳۱۵۔

۴۷۷

معاویہ: میں چاہتا ہوں کہ تم اس سے جنگ کرو کہ اس نے خدا کی نافرمانی کی ہے اور خلیفہ کو قتل کردیا ہے اور فتنہ پیدا کردیا اور اتحاد کو درہم برہم کردیا اور رشتہ داری کو توڑ دیا ہے۔

عمرو عاص: خدا کی قسم، تم اور علی ہرگز شرف و فضیلت میں برابر نہیں ہو تم نہ ان کی ہجرت کی فضیلت رکھتے ہو نہ ان کے دیگرسوابق کی فضیلت رکھتے ہو، نہ ان کی طرح تم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رہے ہو نہ تم نے ان کی طرح مشرکوں سے جہاد کیا ہے نہ ان کی طرح تمہارے پاس عقل و دانش ہے ، خدا کی قسم علی کی فکر بہت عالی ، ذہن بہت صاف اور وہ ہمیشہ سعی وکوشش میں رہے ہیں، وہ با فضیلت اور سعادت مند اور خدا کے نزدیک کامیاب انسان ہیں، ایسے بافضیلت شخص کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے مجھے کیا قیمت دو گے کہ میں تمہارا ساتھ دوں؟ تمہیں معلوم ہے کہ اس ہمکاری میں کتنے خطرے موجود ہیں۔

معاویہ: تمہیں اختیار ہے، تمہیں کیا چاہئے؟

عمرو عاص: مصر کی حکومت۔

معاویہ: (جب کہ وہ دھوکہ کھا چکا تھا) اس نے مکاری کے طور پر دنیا و آخرت کے مسئلے کو سامنے رکھا، اور کہا: میں نہیں چاہتا کہ عرب تمہارے بارے میں اس طرح کی فکر کریں کہ تم دنیاوی غرض کے لئے ہمارے ساتھ جنگ میں شامل ہوئے ہو، کتنا اچھا ہوگا کہ وہ لوگ یہ کہیں کہ تم نے خدا کی مرضی اور آخرت کی اجرت لینے کے لئے ہمارا ساتھ دیا، اور کبھی بھی دنیا کی معمولی اور چھوٹی چیز آخرت کے اجر کے برابر نہیں ہو سکتی۔

عمرو عاص: ان بے ہودہ باتوں کا ذکر نہ کرو۔(۱)

معاویہ: میں اگر تجھے دھوکہ دینا چاہوں تو دے سکتا ہوں۔ عمرو عاص: مجھ جیسا آدمی دھوکہ نہیں کھا سکتا، میں اس سے بھی زیادہ چالاک ہوں جتنا تم سوچ رہے ہو۔

معاویہ: میرے نزدیک آؤ تاکہ تم سے اصلی راز بیان کروں۔

_______________________________

(۱) ابن ابی الحدید اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ، ج۲، ص ۶۵، مطبوعہ مصر، میں لکھتا ہے: میں نے اپنے استاد ابو القاسم بلخی سے کہا کہ یہ عمرو عاص کی گفتگو آخرت پر ایمان نہ رکھنے اور اس کے بے دینی کی وجہ سے نہیں ہے؟ انھوںنے جواب دیا: عمرو عاص نے اصلا ًاسلام قبول ہی نہیں کیا تھا، اور اپنے کفر پر باقی تھا۔

۴۷۸

عمرو عاص اس کے قریب گیا اور اپنے کان کو معاویہ کے منھ کے پاس لے گیا تاکہ اس کے اصلی راز کو سنے ،اچانک معاویہ نے اس کے کان کو زور سے دانتوں میں دبا لیا کہا: کیا تم نے دیکھا میں تم کو دھوکہ دے سکتا ہوں، پھر اس نے کہا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ مصر عراق کی طرح ہے اور دونوں بڑے شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔

عمرو عاص: ہاں میں جانتا ہوں، لیکن عراق تمہارے قبضے میں اسی وقت ہوگا جس وقت مصر پر میرا قبضہ جب کہ عراق کے لوگوں نے علی کی اطاعت کی ہے اور ان کی رکاب میں رہتے ہوئے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں ۔

اس موقع پر جب کہ دو سوداگر بحث و مباحثہ میں غرق تھے معاویہ کا بھائی عتبہ بن ابوسفیان وہاں آ پہونچا اور کہا: عمرو کو مصر کی سرزمین دے کر کیوں نہیں خرید لیتے؟ کاش کہ یہی حکومت شام تمہارے لئے باقی رہے اور کوئی دوسرا اس میں مداخلت نہ کرے۔ اس وقت اس نے کچھ شعر کہا اور اس میں عمرو عاص کی معاویہ کے ساتھ نصرت و مدد کو ظاہر کیاجس کا ایک شعر یہ ہے:

اعط عمرواً ان عمرواً تارک

دینه الیوم لدنیا لم تجز(۱)

جو کچھ عمرو کی خواہش ہے اسے دیدو، اس نے آج اپنے دین کو دنیا کے لئے چھوڑ دیا ہے۔

بالآخر معاویہ نے سوچاکہ جیسے بھی ممکن ہو عمرو کی مدد کو اپنی طرف جذب کرے اور اس کی خواہش کو پورا کرے، لیکن عمرو اس کے مکر و فریب کی وجہ سے مطمئن نہیں تھا۔ اس نے یہ سوچا کہ کہیںایسا نہ ہو کہ معاویہ مجھ سے ایک کامیابی کی سیڑھی کی طرح استفادہ کرے اور کام ختم ہوتے ہی اسے اپنے سے دور کردے، لہذا اس نے معاویہ کو متوجہ کرتے ہوئے کہا ضروری ہے کہ اس تعہد اور معاملے کو کاغذ پہ لکھا جائے اور اس کے متعلق شرائط لکھی جائیں اور دونوں آدمی اپنے اپنے دستخط کریں۔

_______________________________

(۱) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی تقریر میں ایک شرعی مسئلہ کی طرف یاد دہانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لاتبع ما لیس عندک'' یعنی جس چیز کے تم مالک نہیں ہو اسے نہ بیچو، اب اس وقت یہ دیکھنا ہے کہ عمرو نے مصر کی حکومت کے مقابلے میں کیا چیز بیچی ہے اور کس چیز کواپنے ہاتھوں سے گنوا دیا ہے وہ بقولے ابن ابی الحدید ، معاویہ سے معاملہ کرتے وقت بھی بے دین و بے ایمان تھا اور حقیقتاً اس معاملہ کو بھی اس مکر و فریب کے ذریعے انجام دیا تھا ، اور بغیر کسی اجرت کے مصر کی حکومت کو خرید لیاتھا۔

۴۷۹

تعہد نامہ لکھا گیا اور دونوںنے اپنے دستخط کیا لیکن دستخط کرنے والوں نے اپنے دستخط اور مہر کے سامنے ایک ایک جملے کا اضافہ کیااور اپنے فریب و نفاق کو ظاہر کردیا۔ معاویہ نے اپنے نام کے پاس لکھا:علیٰ ان لا ینقض شرط طاعةً '' یعنی ، یہ تعہد اس وقت تک معتبرہے جب تک شرط کرنے والااطاعت کو نہ توڑے، عمرو نے بھی اپنے نام اور مہر کے آگے ایک جملے کا اضافہ کیا،علیٰ ان لا تنقض طاعة شرطاً، (۱) یعنی شرط یہ ہے کہ اطاعت کرنے والا شرط کو نہ توڑے۔

ان دونوں نے یہ دو قیدیں لگا کر ایک دوسرے کو دھوکہ دیا اور خلاف ورزی کے راستے کو آشکار کردیا، کیونکہ اس قید کے لگانے سے معاویہ کا مقصد یہ تھا کہ عمرو نے بغیر کسی شرط و قید کے مطلقاً معاویہ کی بیعت کی ہے اور اگر معاویہ اسے مصر کی حکومت نہ دے تو اس کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس وجہ سے کہ معاویہ نے اپنے عہد و شرط کی وفا نہیں کی ہے اس بہانے سے اپنی بیعت توڑ دے، لیکن جب اس کا قدیمی دوست معاویہ کے اس مکر وفریب سے آگاہ ہوا تو اس نے اس راہ ہموار پر روک لگادی اور لکھا کہ میری بیعت اس وقت تک معتبر ہے کہ معاویہ اپنی شرط (مصر کی حکومت) کو نہ توڑے اور معاویہ مصر کو عمرو کے حوالے کرے۔حقیقت میں دونوں سیاست کے میدان میں لومٹری صفت تھے اور کبھی بھی ان کے پاس نہ دینی تقویٰ تھا اور نہ ہی سیاسی تقویٰ تھا۔عمرو اس معاملے کے بعد پھولے نہیں سما رہا تھا، معاویہ کے گھر سے نکلا اور جو لوگ باہر اس کا انتظار کر رہے تھے ان سے ملاقات کی اوران کے درمیان درج ذیل سوالات و جوابات ہوئے:

عمرو کے بیٹے: بابا بالآخر کیا نتیجہ نکلا؟

عمرو: مجھے مصر کی حکومت دی ہے۔

عمر کے بیٹے: ملک عرب کی بہادری و طاقت کے مقابلے میں مصر کی حکومت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

عمرو: اگر سرزمین مصر سے تم سیر نہیں ہوئے تو خدا تمہیں کسی چیز سے سیر نہ کرے۔(۲)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۴۰۔

(۲) وقعۂ صفین، ص ۴۰۔ ۳۷، الامامة و السیاسة، ص ۸۸۔ ۸۷۔ (تھوڑے فرق کے ساتھ)

۴۸۰

عمرو کا بھتیجہ: کس عنوان سے قریش کے درمیان زندگی بسر کرو گے؟ اپنے دین کو بیچ دیااوردوسرے کی دنیا کا دھوکہ کھا گئے ، کیا مصر کے لوگ ، علی کے ہوتے ہوئے مصر کو معاویہ کے حوالے کریں گے؟ جب کہ یہ لوگ عثمان کے قاتل ہیں۔ اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ معاویہ نے اس سرزمین پر قبضہ کر لیا تو کیا تمھیں ا س جملے کی وجہ سے جو کہ تم نے اپنے دستخط کے ساتھ لکھا ہے سرزمین سے دور نہیں کردے گا؟

عمرو کچھ دیر تک فکر کرنے لگا اور کچھ دیر کے بعد ایمان کی وجہ سے نہیں ، بلکہ عربوں کی عادت کی بنا پر کہا: اب سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے نہ کہ علی اور معاویہ کے ہاتھ میں ، اگر میں علی کے ساتھ ہوتا تو میرا گھر ہی میرے لئے کافی ہوتا، مگر اب تو میں معاویہ کے ساتھ ہوں۔

عمرو کا بھتیجہ: اگر تم معاویہ سے نہ ملتے تومعاویہ بھی تم سے ملاقات نہ کرتا، تم نے دنیاوی لالچ کی وجہ سے اس سے ملاقات کی اور وہ تمہارے دین کا خریدار بنا۔

چچابھتیجے کے ساتھ ہونے والی گفتگو جب معاویہ کے کانوں تک پہونچی تو نے چاہا کہ اسے گرفتار کرے لیکن وہ عراق کی طرف بھاگ گیااور امام علی ـ کے لشکر سے ملحق ہوگیا اور امام ـ سے دو بوڑھے سیاسی مکاروں کے درمیان ہوئی گفتگواور معاملہ کو بیان کیا اور بالآخر امام ـ کے نزدیک اپنا ایک مقام بنالیا۔(۱)

مروان بن حکم بھی جب عمرو عاص او رمعاویہ کے درمیان ہوئے سیاسی معاملے سے آگاہ ہوا تواس نے اعتراض کیا اور کہا: کیوں عمرو کی طرح ہمیں بھی نہیں خریدتے (اور دین اموی کی قیمت کے مقابلے میں اسلامی ملکوںکے بعض حصے کو میرے حوالے کیوں نہیں کرتے؟) جب معاویہ کواس کی باتوں کا علم ہوا تو اسے تسلی دی اور کہا عمرو جیسے افراد تم جیسوں کے لئے خریدے جا رہے ہیں تاکہ اموی حکومت کومستحکم کیاجائے جس کا توبھی ایک حصہ ہے ۔(۲)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۴۱، الامامة والسیاسة ص ۸۸پر نصر بن مزاحم نے اس جوان کو عمرو کا چچا زاد بھائی لکھا ہے۔

(۲) الامامة والسیاسة، ص ۸۸۔

۴۸۱

عمروعاص کا شیطانی حربہ

دو چالاک سیاستدانوں کے معاملات ختم ہوگئے اور اب وقت آ پہونچا کہ معاویہ عمرو کے حربے کو استعمال کرے، عمرو جو محمد بن ابی حذیفہ سے مقابلے اور قیصر روم کے شام پر حملہ کرنے کے اندیشہ کے متعلق جو حربہ و منصوبہ تیار کیا تھا وہ بہت ہی دقیق انداز سے انجام دیا گیا،اور دونوں میں کامیابی ملی، لیکن سب سے بڑی مشکل حضرت علی ـ سے مقابلہ کرنے کی تھی جو شام کی طرف روانہ ہوچکے تھے ۔ وہ مشکل ابھی بھی باقی تھی عمرو نے امام علی ـ سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک ایسا پروگرام بنایا جس کی وجہ سے شام کے اکثر افراد اپنی مرضی سے معاویہ کے لشکر میں شامل ہوکر علی ـ سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے، اب دیکھنا یہ ہے کہ آخر یہ کیسا منصوبہ تھا جس کی وجہ سے شامیوں جیسے آسودہ اور آرام طلبلوگ مثلاً شام سے باہر جانے کے لئے آمادہ ہوئے اور موت کو آسودہ و آرام طلب زندگی پر ترجیح دی۔

''کہتے ہیں کہ ایک بزرگ صحابی معاویہ کے پاس گئے معاویہ نے ان کا پرتپاک استقبال اوران کا احترام کیا، وہ عمرو عاص اور معاویہ درمیان کے بیٹھ گئے اور کہا: تم جانتے ہو کہ کیوں میں تم لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوں۔ انھوں نے جواب دیا نہیں ۔ انہوں نے کہا: ایک دن تم لوگ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بزم میں بیٹھے تھے اور آپس میں مخفیانہ گفتگو کر رہے تھے ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ خداوند عالم اس شخص پر رحمت نازل کرے جوان دونوں کو ایک دوسرے سے دور کردے، کیونکہ یہ دونوں خیر پر جمع نہیں ہونگے۔(۱)

سعی وکوشش کیلئے ایمان سے بہتر کوئی عامل نہیں ہے اس کے باوجود مذہبی احساسات اتنے قوی ہوتے ہیں کہ اگر مفاد طلب زمامداروںکے قبضے میں آجائیں تو ان کے تخریبی اقدامات بیان سے باہر ہوجاتے ہیں۔

عمرو عاص کا حربہ امام علی ـ سے مقابلے کے لئے یہ تھا کہ شام کے افراد کے دینی جذبہ کو حضرت کے خلاف کردے،اور امام ـ پر خلیفہ کے قتل کرنے کا الزام لگادے اور اس خبر کو عام کرنے کے لئے معاشرے کے زاہد اور پارسا لوگوں سے استفادہ کرے جو لوگوں کی نظر میں قابل احترام ہیں۔

_______________________________

(۱) ہندوشاہ نخجوانی، تجارب السلف، بہ تصحیح عبا س اقبال ص ۴۶۔

۴۸۲

اس کے علاوہ ، معاویہ سے کہا کہ شرحبیل کندی(۱) شام کے لوگوں کی نظر میں محترم شخص ہے اور اپنے علاقے میں علی کے نمائندے جریر کا دشمن بھی ہے ۔ اسے ان تمام واقعات سے

اس طرح باخبر کرو کہ اسے یقین پیدا ہو جائے کہ علی ، عثمان کے قاتل ہیں او رتمہارے اور اس کے مورد اعتمادجو افراد ہیں انھیں یہ ذمہ داریاں سونپ دو، کہ پورے شام میں اس بات کو عام کردیں کیونکہ جو چیز شرحبیل کے دل میں بیٹھ جاتی ہے وہ بہت جلدی نہیں نکلتی۔(۲)

______________________

(۱) کندہ، غبطہ کے وزن پر ہے اور یمن کے ایک قبیلے کا نام ہے جو عربستان کے شبہ جزیرہ کے جنوب میں واقع ہے جہاں یہ لوگ زندگی بسر کرتے تھے پھر وہاں سے بہت زیادہ گروہ شام وغیرہ کی طرف ہجرت کر گئے شرحبیل بھی اسی قبیلے کا رہنے والا تھا اور اس کے اجداد بھی یمن سے شام کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔

(۲) وقعۂ صفین، ص ۴۴، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۲، ص ۷۱۔

۴۸۳

معاویہ کاخط شرحبیل کے نام

معاویہ نے شرجیل کو خط لکھا اور اس نے علی ـ کے نمائندہ جریر کے آمد کی خبر دی شرحبیل اس وقت شام کے شہر حمص میں رہتا تھا۔ معاویہ نے اس سے درخواست کی کہ جتتی جلدی ممکن ہو شام آ جاؤ ۔ اور اس وقت اپنے دربار کے تمام نمک خواروں کو، جو سب کے سب یمن قحطان کے رہنے والے تھے اور شرحبیل سے لوگوں کے اچھے تعلقات تھے، ذمہ داری سونپی کہ حمص جائیں اور سب مل جل کر ایک آواز سے یہی کہیں کہ خلیفہ سوم کے علی قاتل ہیں۔ جب معاویہ کا خط شرجیل کو ملا تو اس نے اپنے دوستوں کو بلایا اور معاویہ کی دعوت کو ان کے درمیان میں رکھا ، شام کا سب سے ذہین اور قابل فہم شخص عبد الرحمن بن غنم ازدی اٹھا اور اس نے زاہد و عابد کو اس کام کے برے نتیجے سے آگاہ کیااورکہا:

تم نے جس دن سے کفر سے اسلام کی طرف ہجرت کی ہے ہمیشہ لطف الہی تمہارے شامل حال رہا۔ اور جب تک لوگوں کی طرف سے خدا کا شکر منقطع نہ ہو تو خدا کی طرف سے بھی نعمتوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا، اور ''خداوند عالم ہرگز لوگوں کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک لوگ خود اپنے کو بدل نہ ڈالیں'' ہمیں عثمان کے قتل کی خبر حضرت علی ـ ہی کے ذریعے ملی ہے، اگر واقعاً علی نے عثمان کو قتل کیا ہے تو مہاجر و انصار نے ان کی بیعت کیا ہے اور یہ لوگ لوگوں پر حاکم ہیں اور اگر علی نے ان کو قتل نہیں کیا ہے

تو کیوں معاویہ کی تصدیق کر رہے ہو؟ میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہخود اور اپنے عزیزوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اگر تمہیں اس بات کا خوف ہے کہ جریر کسی مقام پر پہونچ جائے گا تو تم بھی علی کے پاس جاؤ اور اپنی قوم اور شام کے لوگوں کے ساتھ ان کی بیعت کرو۔

۴۸۴

لیکن اس مرد ازدی کی خیر خواہی مؤثر ثابت نہ ہوسکی اور شرحیل معاویہ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے شام کی طرف روانہ ہوگیا۔(۱)

معاویہ کا بزرگان قبیلہ اور خشک زاہدوں سے مدد مانگنا

تمام قبایلی نظام میں رئیس قبیلہ کو تصمیم گیری میں مکمل آزادی ہوتی ہے، اور اگر وہ کسی چیز کو مان لے تو قبیلے کے افراد اسے مان لیتے ہیںاور در حقیقت یہ ایک رائے تمام افراد کی رائے کی جانشین ہوتی ہے خصوصاً اگر رئیس قبیلہ ظاہری طور پر تقوے والا ہو۔

معاویہ شام کے لوگوں اور یمنی مہاجرین جو شام میں زندگی بسر کر رہے تھے کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے ایسے ہی لوگوں کی تلاش میں تھا ،اور اس کی دوسری عقل عمرو عاص نے بھی اسے اس کام کے لئے مشورہ دیاتھا۔ ان افراد میں شرحبیل یمنی(۲) کے اندر دونوں شرائط موجود تھے جو شام کے حمص علاقے میں رہتا تھا شرجیل خود مقدس بھی تھا اور یمنی مہاجروں میں بزرگ بھی شمار ہوتاتھا اور اس کی نظر کو جذب کرنے سے امام ـ کے متعلق لوگوںکی فکروں میں تبدیلی لائی جاسکتی تھی۔

اسی وجہ سے معاویہ نے اسے خط لکھا اور شام آنے کی دعوت دی۔(۳)

اور وہ لوگ جو شرحبیل کے معتمد خاص معتمد تھے انھیں حکم دیا کہ مستقل اس سے ملاقات کرتے رہیں اور علی ـ کو عثمان کے قاتل کے طور پر پہچنواتے رہیں اور اس کے ذہن میں یہ بات ڈالتے رہیں تاکہ اس کے ذہن میں ''امام کا قاتل'' ہونا اس طرح رچ بس جائے کہ اس کے علاوہ دوسری چیز اس کے ذہن میں نہ آئے۔

______________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۴۵۔ ۴۴، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۷۱۔

(۲) ابن ابی حاتم اپنی کتاب ''الجرح و التعدیل'' (ج، ص ۳۳۸) میں اس کا نام لکھتے ہیں اور بخاری نے اپنی تاریخ (ج۲، ص ۲۴۹) میں اس کا حال لکھا ہے۔

(۳) وقعۂ صفین ص ۴۵۔ ۴۴، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۷۱، کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۴۳۔

۴۸۵

وہ جب حمص سے شام آیا تو تمام لوگوں نے اس کا بہت احترام کیا معاویہ نے اس کے ساتھ ملاقات کی اور شام کے زاہد سے یہ کہا: جریر بن عبد اللہ بجلی عراق سے یہاں آیا ہے اور مجھے علی کی بیعت کرنے کی دعوت دے رہا ہے اور علی بہترین لوگوں میں سے تو ہیں مگر یہ کہ انھوںنے عثمان کو قتل کیا ہے میں نے کسی بھی طرح کا ارادہ کرنے سے پرہیز کیا ہے کیونکہ میں بھی شام کے لوگوں میں سے ایک ہوں اور جس چیز کے بارے میںوہ رائے دے گے گے میں بھی وہی رائے دوں گا اور جس چیز کو وہ لوگ پسند نہیں کریںگے میں بھی اس چیز کو پسند نہیں کروں گا۔

شام کے زاہد نے اپنا نظریہ پیش کرنے سے پرہیز کیا اور کہا میں پہلے تحقیق کروں گا پھر کوئی رائے پیش کروں گا لہذا وہاں سے چلا گیا اور تحقیق کرنے لگا۔(۱)

وہ لوگ جنھیں معاویہ نے پہلے ہی سے اسے ذہنی طور پر بہکانے کے لئے معین کیا تھا ان لوگوں نے مختلف طریقوں سے اسے بہکایا اور امام کے ہاتھوں عثمان کے قتل کی تصدیق کی اور علی ـ کے بارے میں اس کے دل میں شک و شبہہ پیدا کردیا۔

غلط اور جھوٹ پر مبنی باتوں نے اس سادہ لوح زاہد کی فکر کو تبدیل کردیااور اسے اتنا بہکایاکہ اس کے اندر انتقام کی آگ بھڑک اٹھی اور معاویہ سے زیادہ وہ حسد کرنے لگا۔ لہذا جب وہ دوسری مرتبہ معاویہ سے ملا تو اس سے کہا میں نے صرف لوگوں سے یہی سنا کہ علی عثمان کے قاتل ہیں۔ اس لئے تمہیں حق نہیں ہے کہ تم اس کی بیعت کرو اور اگر ایسا کرو گے تو تمہیں شام سے نکال دوں گا یاتجھے قتل کردوں گا۔(۲)

معاویہ اس کی باتیں سن کر مطمئن ہوگیا کہ دین فروشوں نے زاہد سادہ لوح کو خوب دھوکہ دیا ہے ۔ پھر معاویہ نے اس سے کہا: میں شام کا ایک فرد ہوںاو رہرگز تمہاری مخالفت نہیں کروں گا۔ شام کا زاہد وہاں سے اٹھ کر حصین بن نمیر کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ کسی کو امام ـ کے نمائندہ جریر کے پاس بھیجو تاکہ اس سے بھی گفتگو کی جائے۔

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۴۵۔ ۴۴، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۷۱، کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۴۳۔

(۲) وقعۂ صفین ص ۴۸۔ ۴۷، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۷۳۔

۴۸۶

زاہد شام کی نمائندہ امام ـ سے گفتگو

جریر بن عبد اللہ حصین بن نمیر کے ساتھ شرحبیل کے پاس آئے اور تینوں کے درمیان گفتگو ہوئی۔ زاہد شامی نے جریر سے کہا تم صحیح خبر کے ساتھ یہاں نہیں آئے ہو گویا تم چاہتے ہو کہ ہمیں شیر کے منھ میں ڈال دو اور عراق و شام کو آپس میں لڑا دو، علی کی خو ب تعریف کرتے ہو جب کہ انھوں نے عثمان کو قتل کیاہے اور تم قیامت کے دن خدا کے سامنے جواب دہ ہوگے ، جب شرحبیل کی بات ختم ہوئی تو امام کے نمائندے نے اسے یہ جواب دیا:

''میں ہرگز مبہم باتوں کے ساتھ تم لوگوں کے پاس نہیں آیاہوں کس طرح سے علی کی خلافت مبہم ہوگی، جب کہ مہاجرو انصار نے ان کی بیعت کی ہے اور بیعت توڑنے کی وجہ سے طلحہ و زبیر مارے گئے ہیں؟ تم نے خود اپنے کو شیر کے جال میں ڈالاہے، میں نے ایسا ہرگز کام نہیں کیا ہے۔ اگر عراق اور شام حق کی حفاظت کرنے کے لئے متحد ہو جائیں تو ایک امر باطل کے لئے جدا ہونے سے بہتر ہے اور تمہارا جو یہ کہناہے کہ علی نے عثمان کو قتل کیا ہے تو خدا کی قسم یہ الزام تراشی کا ایک ایسا تیر ہے جو دور سے پھینکنے کے علاوہ کچھ نہیں ، تم دنیا کے محبوب ہوگئے ہو اور پہلے بھی سعد وقاص کے زمانے سے کچھ دل میں چھپائے ہو۔(۱)

گفتگو ختم ہوگئی بعدمیں جریر نے ایک قصیدہ اپنے یمنی ہم منصب شرحبیل کے پاس اس پیغام کے ساتھ روانہ کیا۔

''شرحبیل'' اے سمط کے بیٹے، خواہشات نفسانی کی پیروی نہ کرو، کیوں کہ اس دنیا میں دین کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے اور حرب کے بیٹے سے کہو کہ اب تمہارا کوئی احترام نہیں ہے جس چیز کا ارادہ کیاہے اس تک پہونچ جاؤ، لہذا اس کی امید کو خاک میں ملادو۔(۲)

______________________

(۱) جریر کی عبارت یہ ہے:''فوا لله ما فی یدیک فی ذالک الا القذف بالغیب من مکان بعید، اور یه جمله اس آیت کا اقتباس ہے کہ ارشاد قدرت ہے، ''یقذفون بالغیب من مکان بعید '' (سورۂ نسائ، آیت ۵۳) وقعۂ صفین ص ۴۸۔ ۴۷۔

(۲) وقعۂ صفین ص ۴۹۔ ۴۸، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۸۱۔ ۸۰۔

۴۸۷

جس وقت جریرکا نصیحت آمیز خط بہترین قصیدہ کے ساتھ شرحبیل کے پاس پہونچاتو اسے ایک جھٹکا لگا اور فکر میں ڈوب گیااور کہا: یہ بات میرے لئے دنیا و آخرت میں نصیحت ہے، خدا کی قسم۔ میں اپنے ارادے میں جلد بازی سے کام نہیں لوں گا۔

جب معاویہ کو جریر اور زاہد شامی کے درمیان ہوئی گفتگو اور جریر کے پیغام کی خبر ملی تو اس نے امام کے نمائندے کی مذمت کی اور جریر کے کلام کو بے اثر کرنے کے لئے ایک گروہ معین کیا تاکہ وہ مسلسل شرحبیل سے ملاقات کرتے رہیں اور علی کے ہاتھوں عثمان کے قتل کی خبر کا اسے یقین دلاتے رہیں، اور اس سلسلے میں جھوٹی گواہی دینے سے بھی پرہیز نہ کریں، اور جھوٹے اور جعلی خطوط لکھ کر اس کے حوالے کریں۔اس ضمیر فروش گروہ نے اس قدر اسے بہکایا کہ بیدار ضمیر زاہد کو دوبارہ گمراہ کردیااور وہ سست جھوٹے گواہوں کے دھوکے میں آگیا اور اپنے ارادے کو اور مستحکم کرلیا۔(۱)

جب یمن کے دوسرے قبیلے کے سردار ،شرحبیل کے ارادے اور اس کے دھوکہ کھانے سے باخبر ہوئے تو ان لوگوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اس کے بھانجے کو اس کے پاس بھیجیں تا کہ وہ اس سے گفتگو کرکے اس مسئلے کو واضح کرے، شام میں وہ اکیلا شخص تھا جس نے امام علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت کی تھی اور شام کے زاہدوں اور عابدوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔

اس نے معاویہ کے فر یب اور دھوکہ کا پردہ فاش کردیااور اس سے کہا کہ یہ گواہی دینے والے افراد اور یہ خطوط وغیرہ صرف ایک دھوکہ ہے اور ان میں سے کسی کا بھی حقیقت سے واسطہ نہیں ہے۔

جب شام کا عابد اس کے شعر کے مفہوم سے آگاہ ہوا تو کہا: یہ شیطان کا بھیجا ہوا ہے خدا کی قسم اسے شام سے باہر نکال دوں گا مگر یہ کہ وہ میرے بس میں نہ ہو۔(۲)

معاویہ جو اپنے نمک خواروں کے ذریعے شرحبیل کی فکر کو بدل چکا تھا جب اسے اپنے ارادے میں مستحکم پایا تو اس کے لئے یہ پیغام بھیجا:''تم نے حق بات پر لبیک کہا اس کا اجر خدا دے گاتم جانتے ہو کہ معاشرے کے تمام صالح افراد

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۴۹، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳، ص ۸۱۔

(۲) وقعۂ صفین، ۵۰۔ ۴۹۔

۴۸۸

نے تمہاری باتوں کو قبول کرلیا ہے لیکن اس گروہ کی رضایت و آگاہی صرف علی سے جنگ کرنے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ علی سے جنگ کرنے کے لئے عمومی رضایت کا ہونا ضروری ہے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ شام کے تمام شہروں میں سفر کرو اور اعلان کرو کہ عثمان کو علی نے قتل کیا ہے اور تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ قاتل سے اس کے خون کا بدلہ لیں''۔

اس نے شام کے شہروں کا سفر شروع کردیا سب سے پہلے وہ حمص گیا وہاں اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا: اے لوگو! عثمان کو علی نے قتل کیا ہے اور جو گروہ اس واقعہ پر غضبناک ہوا اسے بھی قتل کردیا اور اس وقت علی نے تمام اسلامی ملکوں پر قبضہ کرلیا ہے اور صرف شام باقی ہے انہوں نے تلوار اٹھالی ہے اور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار ہے ہیں اور تم تک پہونچنے والے ہیں مگر یہ کہ خدا کی طرف سے کوئی نیا واقعہ رونما ہو، اور ان سے مقابلے کے لئے معاویہ سے زیادہ کوئی طاقتور نہیں ہے اٹھو اور آمادہ ہوجاؤ۔

دھوکہ کھائے ہوئے عابد کی باتوں کا بہت زیادہ اثر ہوا، کیونکہ حمص کے علاقے میں لوگ اسے محبوب رکھتے تھے۔ اور سب نے اس کی دعوت پر لبیک کہا صرف وہاںکے زاہد و عابد اس کے بہکانے میں نہیں آئے اور سب نے اس کی مخالفت کی ، پھر شرحبیل نے شام کے دوسرے شہروں کا سفر کیااور لوگوں کو علی کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے لشکر میں شامل ہونے کی دعوت دی اور سب نے اس سے وعدہ بھی کیا۔

شرحبیل تمام شہروں کا دورہ کر کے دمشق واپس آگیا اور اپنی کامیابی پر فخر کرتا ہوا معاویہ کے پاس پہونچا اور اپنی پرانی باتیں تحکمانہ انداز میں دہرائی اور کہا: تم اگر علی اور عثمان کے قاتلوں کے ساتھ جہاد کرو ، تو ہم یا ان سے بدلہ لے لیں گے یااپنے مقصد میں قربان ہو جائیں گے ایسی صورت میں تم اپنی جگہ پر باقی رہو گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو تمہیں اس منصب سے معزول کردیں گے اور کسی دوسرے کو تمہاری جگہ پر معین کردیں گے تاکہ اس کے زیر نظر جہاد کریں، اور عثمان کے خون کا بدلہ علی سے لے لیں، یا قتل ہو جائیں۔(۱)

معاویہ زاہد فریب خوردہ کی تند و تیز باتیں سن کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔

_____________________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۸۳۔ ۸۲، وقعۂ صفین ص ۵۲۔ ۵۰۔

۴۸۹

جریر کی طرف سے اتمام حجت

جریر اس واقعہ سے کہ جس کی اسے توقع نہ تھی بہت ہی ناراض ہوا، او ردوبارہ اپنے قدیمی دوست او رزاہد قبیلہ کے پاس گیا اور اسے برے نتیجوں اور بے جا ارادوں سے باخبر کیا اور کہا:

خداوند عالم نے امت اسلامی کو خونریزی کرنے سے منع کیا ہے اور اختلاف کو دور کردیا ہے اور ممکن کہ بہت ہی جلد اسلامی حکومتیں سکون و اطمینان کی زندگی بسر کریں، اور تم ان کے درمیان فساد پھیلانا چاہتے ہو، اپنی باتوں کو پوشیدہ رکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اچانک وہ وقت آ پہونچے کہ تم اپنی باتوں کو واپس نہ لے سکو، شرحبیل نے جواب دیا: نہیں میں ہرگز اپنی باتوں کو پوشیدہ نہیں رکھوں گا، پھر وہ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا او رایک عمومی جگہ پر تقریر کی، لوگوں نے اس کے پہلے کے حالات کی وجہ سے اس کی باتوں کی تصدیق کردی اس وقت نمائندہ امام ـ کو بہت ناامیدی ہوئی اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔(۱)

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۸۴، وقعۂ صفین ص ۵۲۔

۴۹۰

شام میں نمائندہ امام ـ کی شکست کی وجہ

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام ـ کا نمائندہ جریر شام میں لوگوں سے بیعت لینے کے لئے گیاتھا اور اپنی ذمہ داری انجام دینے میں وہ ناکام ہوگیا، اس نے کوئی کام نہیں کیا بلکہ امام ـ کو معاویہ کے مصمم ارادے سے اس وقت باخبر کیا جب کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا معاویہ نے امام ـ کے خلاف شام کے تمام لوگوں کو جنگ کے لئے آمادہ کر لیا جریر کی کوتاہی یہ تھی کہ جب سے وہ شام میں آیا تھا معاویہ کے آج کل کے بہانے دھوکے کھاتا رہا، اور شام کے معزول حاکم نے اپنے اموی شیطنت کی وجہ سے اپنا نظریہ پیش کرنے سے پرہیز کیا اور امام کے نمائندے کووامیدوناامیدی کے درمیان رکھا جریرنے اس امید میں کہ معاویہ کو بیعت کے لئے آمادہ کرلے اور اختلاف کو ختم کردے ،خاموش رہنے کو ہی بہتر جانا اورہمیشہ معاویہ کے قطعی نظریہ کے جاننے کی امید میں تھا۔

معاویہ کے لئے شروع میں اپنی قطعی رائے پیش کرنا مصلحت کے خلاف تھا۔ البتہ اس کا نظریہ اسی وقت معلوم ہوگیا تھا جب امام کا نمائندہ شام میں پہلی مرتبہ واردہوا تھا، یعنی اس کا ارادہ مرکزی حکومت کی

مخالفت، نافرمانی اورخراب کاری تھا، لیکن ان دنوں اس کو بیان کرنا سبب یہ بنتاکہ امام کانمائندہ کوفہ واپس چلاجائے۔ اور معاویہ کی مخالفت کی ساری روداد کو امام ـ سے بیان کرے جس کی وجہ سے امام ـ مخالفوں کی سرکوبی کرتے اور اپنے لشکر کو ان کے طرف روانہ کرکے فساد کو جڑ سے ختم کردیتے۔

جی ہاں، معاویہ نے امام ـ کے نمائندے کو مختلف بہانوں سے روکے رکھا تاکہ مرکزی حکومت سے جنگ کرنے کے لئے عمرو عاص کو اپنے ساتھ لے سکے اور پھر اس نے پروپیگنڈہ کرنے والوں کو شام کے تمام علاقوں میں روانہ کیا تاکہ لوگوں کے دلوں میں علی کی مخالفت کے شعلے بھڑکا دے۔ اور ان علاقوں سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلافت و جانشینی کے لئے اپنے حق میں فائدہ اٹھائے اس نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مشہور و معروف زاہد شام شرحبیل جو کہ لوگوں کے درمیان زیادہ مقبول تھا امام کی مخالفت کرنے کے لئے اپنی طرف جذب کر لیا۔ زاہد فریب خوردہ حضرت علی ـ کے مقابلے میں جنگ کرنے کے لئے اس طرح آمادہ ہوگیاکہ اگر اس کام میں معاویہ کوتاہی کرتا تو یہ خود شام کے سادہ لوح لوگوں کو امام ـ سے مقابلے کے لئے آمادہ کرتا۔

۴۹۱

یہ شیطانی حربے کی کامیابی معاویہ کے لئے اتنی مفید ثابت ہوئی کہ امام ـ کا نمائندہ جریر اپنی اس مامؤریت میں جواس کے ذمے تھی، معاویہ کی ظاہری چیزوں سے دھوکہ کھا گیااور امام ـ کو اس بات پر آمادہ کیاکہ امام اس فساد کے قلعہ کو نیست و نابود کردیں، اور اس وقت امام ـ کے پاس واپس آیا جب معاویہ نے اسلامی ممالک کی بہت سی اہم جگہوں پرانتقام عثمان کے نام پر امام سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنی فوج بٹھا رکھی تھی ۔

معاویہ کا آخری حربہ

آخری لمحوں میںمعاویہ کا سب سے آخری حربہ امام ـ کا امتحان لیناتھا اوروہ یہ کہ وہ معلوم کرے کہ کیا امام اسے اس کے منصب سے واقعاً معزول کرنا چاہتے ہیں، اسی وجہ سے وہ امام کے نمائندے جریر کے گھر گیا اور کہا میرے پاس ایک نئی فکر ہے تم اپنے دوست کے پاس لکھو کہ شام کی حکومت مجھے دیدیںاور مصر سے خراج لینے کی ذمہ داری بھی مجھے سونپ دیںاو رجب ان کا انتقال ہو جائے تو کسی کی بیعت کو میرے اوپر واجب نہ کریں اس صورت میں میں ان کے سپردہو جاؤں گا اور ان کی حکومت کی تحریری طورپر تائیدکروں

۴۹۲

گا۔(۱) نمائندہ امام نے اس کا جواب دیا کہ تم خط لکھو او رمیں اس کی تائید کروں گا بالآخر خط لکھا گیا اور قاصد دونوں خط لے کر کوفہ روانہ ہوا۔

معاویہ کے خط کی عبارت عرب کے تمام قبیلوں میں مشہور ہوگئی، معاویہ کے ہم خیال مثلاً ولید عقبہ نے ایساخط لکھنے کی وجہ سے معاویہ پر اعتراض کیا ولید نے اس کے ضمن میں معاویہ کو شعر لکھا:

سألت علیاً فیہ ما لن تنالہ و لو نلتہ لم یبق الا لیالیا۔(۲)

تم نے علی سے وہ چیز مانگی ہے جو تمہیں ہرگز نہیں مل سکتی اور اگر مل بھی گئی تو چند راتوں کے علاوہ تم اس پر مسلط نہیں رہ سکتے۔عقبہ کے بیٹے نے پہلے مصرعہ میں حقانیت سے کام لیا ہے کیونکہ امام علی ـ ہرگز باطل کے ساتھ دوستی اور معاملہ نہیں کرسکتے لیکن اس کے شعر کا دوسرا مصرعہ بالکل غلط ہے کیونکہ برفرض محال اگر مصلحةً امام ـ اس بات کو قبول کرلیتے تو ہرگز اس پر نقض نہیں کرتے، چونکہ امام ـ نے ''حکمین'' کے مسئلے میں اپنے تعہد و پیمان کو بالکل واضح و روشن کردیا تھا۔

معاویہ، علی ـ کو ولید سے زیادہ پہچانتا تھا اور اسے معلوم تھا کہ دونوں صورتوں میں اسی کا فائدہ ہے کیونکہ اگر علی ـ حکومت اس کے حوالے کردیتے تو ایک مستقل حکومت بغیر کسی مشکل کے اس کے نصیب میں آجاتی۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو معاویہ اپنے مکر و فریب سے لوگوں کا خون بہاتا اور حجاز و عراق کو مستحکم کرلیتا،اس کے علاوہ امام ـ کے نمائندے کو دھوکے میں رکھنا خود معاویہ کے فائدے میں تھا، کیونکہ وہ اپنی طاقت میں اضافہ کرتا اور شام کے لوگوں کو امام ـ سے جنگ کرنے کے لئے زیادہ آمادہ کرتا۔

امام ـ کا اپنے نمائندہ کو جواب

معاویہ کا مقصد یہ ہے کہ اس پر میری بیعت نہ ہو،تا کہ جس کو بھی چاہے منتخب کرلے اور وہ چاہتا ہے کہ تمہیں ایسے ہی معطل رکھے اور شام کے لوگوں کو جنگ کے لئے آزمالے،ابتدائی ایام میں جب میں مدینہ میں تھاتو مغیرہ بن شعبہ نے مجھ سے کہا کہ میں معاویہ کو اس کے مقام پر باقی رہنے دوں،لیکن میں نے

______________________

(۱)،(۲) وقعۂ صفین ص ۵۲، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۸۴۔

۴۹۳

اس بات کو قبول نہیں کیا، خدا ایسا دن نہ لائے کہ میں گمراہ لوگوں سے مدد طلب کروں، اگر اس نے بیعت کیا (تو کوئی بات نہیں ) او راگر ایسا نہ کرے تو تم میرے پاس واپس آجاؤ۔(۱)

امام ـ نے اس خط میں معاویہ کے ایک مقصد کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ کہ وہ اس سیاسی چال کے ذریعے وقت گذارنا چاہتا ہے، تاکہ اس عرصے میں خط لکھنے اوراس کا جواب آنے تک اپنی فوج کو جنگ کے لئے اچھی طرح آمادہ کرلے، اور اگر امام ـ کا جواب ''نہیں '' کی صورت میں ہو (کہ ضرور ایسا ہی ہوگا) تو پوری قدرت و توانائی کے ساتھ امام ـ کے سامنے مقابلے کے لئے آجائے۔

جریر پر معاویہ سے دوستی کا الزام

سرزمین شام میں جریر کا زیادہ دن رہنا عراق کے لوگوں کے لئے تشویش کا باعث بنا اسی وجہ سے ان لوگوں نے دشمن کے ساتھ دوستی کرنے کاان پر الزام لگایا۔ جب لوگوں کی باتیں امام ـ نے سنیں تو آپ نے اس کے متعلق فرمایا: میں دوبارہ خط لکھوں گا اور اسے شام سے واپس بلالوں گا۔ اگر اس کے بعد بھی وہ شام میں رہ گیا یا دھوکہ کھا گیا یا میرے حکم کو نظر انداز کردیا اور میری مخالفت کرنے لگاتب تم کچھ کہنا اسی وجہ سے امام ـ نے جریر کو دوبارہ خط لکھا:

...''جیسے ہی میرا خط تمہارے پاس پہونچنے معاویہ کو آخری فیصلے پر آمادہ کرنااور ایک قطعی بات پر راضی کرنا اور (جب وہ آمادہ ہو جائے تو) اس سے کہناکہ دوباتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کر لے، گھر سے بے گھر کرنے والی جنگ یا رسوا کرنے والی صلح، پس اگر وہ جنگ کو اختیار کرلے تو صلح کی بات اس کے منھ پر دے مارو، اور اگر صلح کا چناؤ کرے تو بیعت لے لو''۔(۲)

جب جریر کو امام ـ کا خط ملا تو اس نے معاویہ کے سامنے اس خط کو پڑھا اور اس سے کہا: انسان کا دل گناہوں کی وجہ سے بند ہوجاتاہے اور توبہ کرنے سے دل کھل جاتا ہے اور میری نظر میں تیرا دل بند ہے اور اس وقت تو حق و باطل کے درمیان کھڑا ہے اور اس چیز کی فکر میں ہے جو دوسرے کے ہاتھ میں ہے

______________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۵۲۔

(۲) نہج البلاغہ مکتوب نمبر۸، وقعۂ صفین ص ۵۵، (خط میں کچھ تبدیلی کے ساتھ)

۴۹۴

معاویہ نے اس سے کہا: میں دوسری نشست میں اپنی قطعی رائے اور کا اعلان کروں گا، اس نے اپنی قطعی رائے کا اعلان اس وقت کیا جب شام کے لوگ اس کی بیعت کرچکے تھے اور معاویہ ان لوگوں کو خوب آزما چکا تھا، پھر اس نے امام کے نمائندہ کو شام سے جانے کی اجازت دی کہ وہ امام کے پاس چلا جائے اور امام ـ کے پاس خط لکھا جسے بعض مورخین نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے:

''مہاجرین وانصار نے تمہاری اس وقت بیعت کی جب تم عثمان کے خون سے بریٔ الذمہ تھے اس وقت تمہاری خلافت پچھلے تینوں خلیفہ کی خلافت کی طرح تھی، لیکن تم نے مہاجروں کو عثمان کے قتل کرنے پر آمادہ کیا اور انصار کو اس کی مدد کرنے سے روک دیا نتیجے میں جاہلوں نے تمہاری اطاعت کی اور کمزور لوگ طاقتور ہوگئے شام کے لوگوںنے ارادہ کیا ہے کہ تمہارے ساتھ جنگ کریں، تاکہ عثمان کے قاتلوں کو ان کے حوالے کرو، اگر ایسا کیا تو خلافت کا مسئلہ مسلمانوں کی شوری میں رکھا جائے گا، اپنی جان کی قسم میری حالت طلحہ و زبیر جیسی نہیں ہے کیونکہ ان دونوں نے تمہاری بیعت کی تھی لیکن میں نے تمہاری بیعت نہیں کی ہے او راسی طرح شام کے لوگ بصرہ کے افراد کی طرح نہیں ہیں کہ ان لوگوںنے تمہارے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور تمہارے مطیع و فرمان بردار تھے، جب کہ شام کے لوگوں نے تمہاری خلافت کو قبول نہیں کیا ہے اور تمہارے مطیع و فرمان بردار نہیں ہیں، لیکن اسلام میں تمہارے افتخارات اور تمہاری رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قرابت اور قریش کے درمیان تمہاری عظمت و رفعت کا میں انکار نہیں کرسکتا۔(۱)

یہ خط جو جھوٹ کی سیاہی سے لکھا گیا تھا معاویہ کی چالاکی و سازش تھی جس نے اپنے مفاد کے لئے اپنے رقیب پر کسی بھی طرح کی تہمت لگانے سے پرہیز نہیں کیا، لیکن امام ـ نے اپنے خطوط میں تمام حقائق سے مدد لیتے ہوئے اپنے حق کے دفاع کے لئے تمام حقیقتوں کو بیان کیا،حضرت اپنے خط میں معاویہ کو مخاطب کرتے ہوئے، اس کی لگائی ہوئی تہمت کے بارے میں لکھتے ہیں:

''میرے پاس ایسے شخص کا خط پہونچا جس کے پاس فکر نہ تھی جو اس کی ہدایت کرتی اور نہ اس کا کوئی پیشوا ہے جو اسے راہ راست پر لاتا، خواہشات نفسانی نے اسے گھیر لیا ہے اور اس نے اسے قبول کر کے اس

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۹۱ کامل مبرد ج۳ ص ۱۸۴، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۸۸۔

۴۹۵

کی پیروی بھی کی ہے کیا تو نے یہ فکر کیا ہے کہ عثمان کے بارے میں میرے کام نے میری بیعت کو تمہارے لئے باطل کردیا ہے اپنی جان کی قسم، میں بھی مہاجروں کا ایک فرد تھا کہ وہ جہاں بھی جاتے میں بھی ان کے ہمراہ جاتا اور خدا نے ہرگز انھیں گمراہ نہیں کیا اور ان کے آنکھوں پر پردہ نہیں ڈالا اور عثمان کے قتل کے بارے میں نہ تو میں نے کوئی حکم دیا ہے کہ میرے حکم کی غلطی مجھے مورد سوال قرار دے اور نہ میں نے اسے قتل ہی کیا ہے کہ مجھ پر قصاص واجب ہو جائے۔

اور جو تم یہ کہہ رہے ہو کہ شام کے لوگ اہل حجاز پر حاکم ہیں تو تم اہل شام میں سے کسی کو بھی دکھاؤ کہ جو شوریٰ کا ممبر ہو اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانشینی کے لئے چنا گیاہو اگر تم ایسا تصور کرتے ہو، تو مہاجرین و انصار تمہاری باتوں کو جھٹلا دیں گے۔

اور جو تمہارا یہ کہنا ہے کہ میں عثمان کے قاتلوں کو تمہارے حوالے کروں تو تمہاری یہ بات بالکل بے جا ہے تیرا عثمان سے کیا واسطہ: تم بنی امیہ کی اولاد میں سے ہو اور عثمان کے بیٹے اس کام کے لئے تم سے زیادہ بہتر ہیں اگر تو یہ سوچ رہا ہے کہ ان کے باپ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے ان سے زیادہ قوی اور طاقتور ہے تو، تم میری اطاعت کرو، اور اس وقت اس کے قاتلوں سے شکایت کرو میں تمام لوگوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کروں گا، لیکن تمہارا شام و بصرہ اور طلحہ و زبیر کے بارے میں فیصلہ کرنا بے اساس ہے اور سبھی ایک حکم میں شما رہوتے ہیں کیونکہ وہ ایک اجتماعی اور عمومی بیعت تھی اوراس میں کچھ سوچنے سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے اور خیا رفسخ بھی نہیں ہے لیکن تیرا یہ اصرار کرنا کہ میں نے عثمان کو قتل کیا ہے توتم نے بالکل حقیقت سے کام نہیں لیا ہے او راس کے بارے میں تجھ تک خبر نہیں پہونچی ہے، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے میری قرابت اور فضیلت او رقریش کے درمیان میرے شرف کو تم نے قبول کرلیا ہے اپنی جان کی قسم، اگر تم سے ممکن ہوتا تو تم اس کا بھی انکار کردیتے۔(۱)

اس وقت آپ نے اپنے منشی نجاشی کو حکم دیا کہ معاویہ کے خط کو جنگی اشعار کے ساتھ جواب دو اور دونوں کو معاویہ کے پاس بھیج دو۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ کے چھٹے او رساتویں مکتوب میں اس کے مضمون کی طرف اشارہ کیا ہے۔

۴۹۶

نمائندہ امام ـ کی شام سے واپسی:

امام کے نمائندہ جریر کی تقریر، عقلمندی ، بردباری ، صبر جو ایک سیاسی نمائندہ میں ہونا چاہئے وہ اس کے اندر موجود تھا اور کسی کو بھی اس میں شک نہیں کہ اس نے بہت کوششیں کیں کہ بغیر خونریزی کے امام ـ کی نظر کو جذب کرے اور معاویہ کو مرکزی حکومت کی اطاعت کرنے پر مجبور کرے (اس کی ان کوششوں کے بارے میں بھی کسی کو شک نہیں ہے) لیکن اس سے ایک غلطی ہوئی اور وہ یہ کہ بنی امیہ کے دو سیاسی مکاروں کے آج کل کی باتوں میں پڑ کر دھوکہ کھا گیا اور معاویہ نے اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شام کے لوگوں کو خوب آزما لیا اور ان لوگوں کو امام ـ کے مقابلے میں جنگ کرنے کے لئے آمادہ کر لیا اور اس نے اس وقت اپنے آخری فیصلے کا اعلان کیا جب شام کے لوگوں سے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے بیعت کرچکا تھا۔

جریر کی غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ امام ـ رجب ۳۶ھ کے شروع ایام میں کوفہ آئے اور اس وقت سے کئی مہینہ تک جریر کے انتظار میں رہے تاکہ معاویہ کے قطعی نظریہ سے آگاہ کرے اور اس کے نتیجے میں معاویہ نے اس مدت میں شامیوں کو خوب مسلح کردیا اور تمام لوگوں کو امام ـ سے جنگ کرنے کے

لئے آمادہ کردیااور دشمن کی توجہ سے بے خبر ہوگیا۔ کوئی بھی ایسی قطعی و یقینی دلیل نہیں ہے جو یہ ثابت کرے کہ جریر نے خیانت کی تھی البتہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ان سے کوتاہی ہوئی جس نے تاریخ اسلام کا نقشہ بدل دیا اور قاسطین کی منحوس حیات کا استمرار اسی کوتاہی کا مرہون منت تھا۔ اس کی غلطی یا قصور نے تاریخ اسلام کو فائدہ پہونچایا۔ اور قاسطین کی منحوس زندگی کی بقاء ایک حد تک نمائندہ امام کی غلطیوں کی وجہ سے تھی البتہ امام ـ نے کوفہ میں قیام کے دوران بہت سے کام انجام دیئے اور حاکموں اور نمائندوں کو معزول اورنیک و صالح اور خدمت کرنے والوں کو ان کی جگہ پر منصوب کیا لہذا کوفہ میں امام کے قیام کی علت جریر کی تاخیر سے واپسی نہیں تھی،خاص طور سے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ امام ـ نے کوفہ میں قیام کرنے کے بعد جریر کو ہمدان کی گورنری کے بجائے کوفہ کی اہم گورنری سپرد کی ۔

۴۹۷

اس مدت میں امام ـ کی مشکلوں میں سے ایک مشکل یہ تھی کہ نوجوان اور بہادر، دشمن سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ تھے اور آپ سے شام سے جنگ کرنے کی درخواست کر رہے تھے۔ لیکن امام ـ خونریزی نہیں چاہتے تھے بلکہ یہ چاہتے تھے کہ بغیر لڑائی کے اس واقعہ کا حل نکل جائے چنانچہ ان نوجوانوں کو جانے سے منع کردیااوران سے فرمایا:

''تم لوگ ہمارے حکم کے منتظر رہو جب کہ میرا نمائندہ جریر شام میں ہے اگر میں جنگ کا حکم دوں گا تو صلح کے دروازے شام والوں پر بند ہو جائیں گے ۔اگر ان لوگوں کی نیت صحیح ہوگی تو ان کے درمیان سے گذرے گا میں نے جریر کو خط لکھا ہے اور اسے وہاں کم رہنے کے لئے کہا اور اگر تاخیر کرے تو یا تو دھوکہ کھایا ہے یااپنے امام کی مخالفت کی ہے میں چاہتا ہوں کہ اس کام میں تھوڑا صبر کروں لیکن یہ کام اس چیز سے مانع نہیں ہے کہ لوگ دھیرے دھیرے آمادہ ہوں جب چلنے کا حکم دیا جائے تو فوراً چلنے کو تیار ہو جائیں۔(۱)

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ، ۴۲۔

۴۹۸

جریر امام کے حضور میں

جریر بہت دنوں کے بعد ناامید امام کے پاس واپس آگئے مالک اشتر نے امام ـ کے سامنے انہیں پیش کیا اور دونوں کے درمیان تیز و تند گفتگو ہوئی جس کا خلاصہ یہاں بیان کر رہے ہیں:

مالک اشتر:اے امام: اگر اس کی جگہ پر مجھے بھیجتے تو میں کام کو صحیح طور پر انجام دیتا اس شخص نے ہر طرح کی امید کو ناامیدی میں بدل دیا، خاندان امیہ نے اس کے دین کو اسی وقت خرید لیا تھا جب وہ ہمدان کا حاکم تھا اس کو حق نہیں ہے کہ و ہ زمین پر چلے اور اب جب کہ شام سے واپس آیا ہے تو ہمیں ان کی طاقت سے خوف دلاتا ہے، اے امام اگر آپ اجازت دیں تو اس کو اور اس کے ہم خیالوں کو قید کردوں تاکہ واقعیت روشن و واضح ہو جائے اور ظالم نیست و نابود ہو جائیں۔

جریر: اے کاش میری جگہ تم گئے ہوتے تو میری طرح واپس نہیں آتے اور عمرو عاص یا ذی الکلاع اور حوشب تمہیں قتل کر ڈالتے کیونکہ وہ تمہیں عثمان کا قاتل سمجھتے ہیں۔

مالک اشتر: اگر میں جاتا تو ان کا جواب مجھے مجبور نہیں کرتا میں معاویہ کو کسی نہ کسی طرح دعوت دیتا اور اسے فکر کرنے کا بھی موقع نہیں دیتا۔

جریر: جاؤ اب بھی راستہ کھلا ہوا ہے۔

۴۹۹

مالک اشتر: اب تو وقت ہاتھ سے نکل گیا ہے اور معاویہ نے سارا فائدہ اٹھا لیاہے۔(۱)

اس میں کوئی شک نہیں کہ مالک اشتر کی گفتگو منطقی تھی او رجریر مالک اشتر کے منطقی اعتراض کا صحیح جواب نہ دے سکا، ایک ایسے سیاسی شخص کے لئے شائستہ تھا کہ وہ اپنی غلطی کااعتراف کرتا او رعذر خواہی کرتا لیکن اس نے مالک اشتر کے اعتراض کا جواب دیا اور دھیرے دھیرے امام ـسے دور ہونے لگا اور ''فرقیسا''(۲) جو کہ فرات کے کنارے تھا وہاں رہنے لگا۔

اگر جریر اس وقت تک جرم کا مرتکب نہ ہوا ہوتا تو اس کی غلطی معافی کے قابل تھی، لیکن اس کے بعد اس کے سارے کام اصول کے خلاف تھے، کیونکہ امام ـ کی دوستی و ہمراہی کا چھوڑنا او ربہت دور زندگی بسر کرنا عملی طور پر امام ـ کی حکومت پر اعتراض تھا، اس کے علاوہ جریر کے کنار کش ہونے کی وجہ سے قبیلے کے تعصب نے اپنا کام کر دکھایا اور جریر کے قبیلے سے بہت مختصر لوگ (صرف ۱۹ آدمی) قسر سے جو بجلیہ قبیلے کے اطراف میں رہتے تھے امام ـ کے ساتھ جنگ صفین کے لئے روانہ ہوئے اگرچہ بجلیہ کے اطراف ''اخمس'' سے سات سو (۷۰۰) لوگوں نے شرکت کی۔

جریر کا عمل ایک قسم کی نافرمانی اور حکومت حقہ کے خلاف خروج تھا اور امام ـ نے اس کام کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے جریر اور اس کے ہمفکر ثویر بن عامر کے گھر کو ویران کردیا تاکہ دوسروں کے لئے درس عبرت ہو۔(۳)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۶۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ص ۱۱۵۔ ۱۱۴۔

(۲) رجعہ علاقے سے کچھ دوری پر واقع ہے اور خابور کے پاس ہے۔

(۳) وقعۂ صفین ص ۶۱۔ ۶۰۔

۵۰۰

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809