فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362301 / ڈاؤنلوڈ: 6025
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

واضح رہے جس متوکل کو علی(ع) سے اتنی عداوت تھی اور یہی چیزیں اس کے نفاق و فسق کا موجب تھیں، وہ اہلِ حدیث کو بہت محبوب اور وہ اسے محی السنۃ کے لقب سے نواز تے ہیں۔ اہلِ حدیث یعنی اہلِ سنت والجماعت۔

یہ بات تو دلیل سے ثابت ہوچکی ہے کہ اہلِ سنت علی بن ابی طالب (ع) سے بغض و عداوت  اور برائت  کو سنت کہتے ہیں؛

اور خوارزمی کایہ قول تو اس کو اور واضح کردیتا ہے کہ ہارون بن خیزران  اور جعفر متوکل " علی الشیطان لا علی الرحمان" اسی کو پیسہ ، کوڑی یا کھانا روٹی دیتے تھے جو آلِ ابی طالب(ع) پر  لعنت کرتا تھا اور نواصب کے مذہب کی مدد کرتا تھا ۔ ( کتاب الخوازرمی،ص۱۳۵)

ابن حجر نے عبد اللہ بن احمد بن حنبل  سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا : جب نصر بن  علی بن صھبان نے یہ حدیث بیان کی کہ ، رسول اللہ (ص) نے حسن و حسین(ع)  کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :" جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اور ان دونوں ( حسن و حسین علیہما السلام)  سےمحبت رکھتا ہے اور ان کے والد و  والدہ سے محبت رکھتاہے قیامت کے دن وہ اور میں ایک درجے میں ہوں گے۔"

اس پر متوکل نے نصر بن علی بن صھبان کو سو(۱۰۰)  کوڑے لگوائے  تھے ۔ جس سے وہ ہلاکت کے قریب پہنچ گئے تھے پھر جعفر بن عبد الواحد نے کہا : اے امیر المؤمنین یہ تو سنی ہے یہ سنکر متوکل نے اسے چھوڑدیا ۔ ( تہذیب التہذیب ، ابن حجر حالات نصر بن علی بن صھبان)

متوکل سے جعفر عبدالواحد نے جو بات  کہی تھی اس سے ہر ایک عقلممند یہ نتیجہ نکال سکتا ہے نصر سنی تھا۔ اس لئے وہ قتل سے بچ گیا۔ نیز یہ دوسری دلیل ہے کہ اہلِ بیت (ع) کے دشمن ہی اہلِ سنت بن بیٹھے تھے۔ جبکہ متوکل کہ اہل بیت(ع)  سے سخت دشمنی تھی اور ہر اس غیر شیعہ  کو بھی قتل کردیتا تھ جو ان کی کسی فضیلت کو بیان کردیتا تھا۔ ( تہذیب التہذیب ، ج۵، ص۳۴۸) مشہور ہے کہ عثمانی لوگ حضرت علی (ع) پر لعنت کرتے تھے اور ان پر قتل عثمان بن عفان کا الزام لگاتےتھے۔

۱۰۱

ابن حجر لکھتے ہیں کہ کہ عبد اللہ بن ادریس ازدی سنی المسک تھے وہ کٹر عثمانی سنی  عبداللہ بن عون بصری کہتے ہیں!  عبد اللہ بن ازدی موثق ہیں وہ سنت کے معاملہ میں بہت سخت تھے اور اہلِ بدعت کے لئے برہنہ شمشیر تھے۔ ابنِ سعد کہتے ہیں کہ وہ عثمانی تھے۔ ( تہذیب التہذیب ، ج۵، ص۳۴۸)

ابراہیم بن یعقوب  جوزجاتی لکھتے ہیں کہ :

عبد اللہ بن ادریس ازدی " حریزی المذہب" یعنی حریز بن عثمان دمشقی کے پیروکار تھے اور ان کی ناصبیت مشہور تھی، ابن حیان لہتے ہیں کہ او سنت کے سلسلہ میں بڑے سخت تھے۔ ( تہذیب التہذیب ابنِ حجر ، ج۱، ص۸۲)

ان تمام باتوں سے تو  ہماری سمجھ میں یہی آتا ہے کہ علی(ع)  اور اولاد علی(ع)  سے بغض رکھنے والا اور ان پر لعنت  کرنے والا اہلِ سنت کے نزدیک سنت کے معاملہ میں بڑا کٹر آدمی ہو تا ہے  اور یہ بات بھی محتاج بیان نہیں ہے کہ عثمانی اہلِ بیت(ع)  کے جانی دشمن تھے علی(ع) اور ان کے شیعوں کو ایک آنکھ نہیں دیکھ سکتے تھے۔

اہلِ بدعت سے ان کی مراد شیعہ ہیں جو کہ علی(ع) کو امام مانتے ہیں ، کیونکہ علی(ع) کی امامت کے عقیدہ کو اہلِ سنت والجماعت بدعت سمجھتے ہیں اس لئے کہ اس  سے صحابہ اور خلفائے راشدین کی مخالفت ہوتی ہے اور پھر سلفِ صالح نے ان(علی ع)  کی امامت کو تسلیم بھی نہیں کیا  تھا اور نہ انھیں وصی رسول (ص)  مانا تھا۔ اس سلسلہ میں بے پناہ تاریخی شواہد  موجود ہیں ہم نے اتنے ہی بیان کئے ہیں جن کی ضرورت تھی اور پھر اپنی عادت کے مطابق اختصار کو بھی مدِ نظر رکھا ہے۔ شائقین ( کتابوں سے ) مزید تلاش کرسکتے ہیں۔

جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کریں گے ہم ضرور انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے بے شک خدا احسان کرنے والوں کےساتھ ہے۔( عنکبوت،آیت ۶۹)

۱۰۲

شیوں کے ائمہ کو نبی(ص) معین کرتے ہیں

سیرت نبوی(ص) اور تاریخِ اسلامی کا محقق اس بات کو یقینی طور پر جانتا ہے کہ شیعوں کے بارہ ائمہ  کو نبی(ص) نے معین کیا ہے اور اپنے بعد ان کی امامت و خلافت پر نص کی ہے۔

اہلِ سنت کی صحاح ستہ میں بھی ان کی تعداد بارہ ہی بیان ہوئی ہے اور وہ سب قریش سے ہوں گے۔

اہلِسنت کی بعض معتبر کتابوں میں بھی مرقوم ہے کہ رسول(ص)  نے صاف طور پر ان ائمہ کے اسماء بھی اسی طرح بیان فرمائے ہیں کہ ان میں سے پہلے علی(ع) پھر ان کے بیٹے حسن اور پھر ان (حسن ع)  کے بھائی حسین(ع)  اور پھر حسین(ع) کی نسل سے یکے بعد دیگرے نو امام ہوں گے اور ان میں آخری مہدی (عج) ہوگا۔

صاحب یبابیع المودت تحریر فرماتے ہیں کہ " الاعتل " نامی یہودی  رسول(ص) کی خدمت میں آیا اور کہا : اے محمد(ص) میں ان چند چیزوں کے بارے میں آپ سے سوال کرتا ہوں جنھوں نے

۱۰۳

ایک زمانہ سے میرے سینہ میں طوفان مچارکھا ہے۔ اگر آپ نے جواب دے دیا تو میں مسلمان ہوجاؤں گا نبی(ص) نے فرمایا: اے ابو عمارہ سوال کرو اس نے چند  چیزوں کے متعلق   سوال کرنے کے بعد کہا آپ نے بالکل صحیح جوابات دیئے لیکن اب یہ بتایئے  کہ آپ کو وصی کون ہے؟ کیونکہ ہر ایک نبی  کا کوئی وصی ہوتا ہے جیسا کہ ہمارے نبی (موسی (ع))  کے وصی یوشع بن نون تھے۔

آپ نے فرمایا :" میرے وصی علی بن ابی طالب (ع) ہیں اور ان کے بعد میرے بیٹے  حسن(ع) اور حسین (ع) اور پھر حسین(ع)  کی نسل سے نو ائمہ ہوں گے "۔

یہودی نے کہا :ان کے اسماء بھی مجھے بتائیے۔

آپ نے فرمایا: حسین(ع) کی شہادت کے بعد ان کے فرزند علی(ع)  اور علی(ع) کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے محمد(ع) اور محمد(ع) کی شہادت کے بعد ان کے دلبند جعفر(ع) اور جعفر(ع) کی شہادت کے بعد انکے لخت جگر موسی(ع)  اور موسی(ع) کی شہادت کے بعد ان کے نورِ عین علی(ع) اور علی(ع) کی شہادت کے بعد ان کے میوہ دل حسن(ع) اور  حسن (ع) کی شہادت کے بعد ان کی یادگار مہدی(عج) ہوں گے۔ یہ اسماء سننے کے بعد یہودی مسلمان ہوگیا اور ہدایت  یافتہ ہونے پر خدا کی حمد بجالایا۔ ( ینابیع المؤددۃ ، ص۴۴۰، فرائد السمطین حموینی)

اگر اس سلسلہ میں ہم شیعوں کی کتابوں کی ورق گردانی کریں اور اس موضوع سے مخصوص حقائق  کو جمع کریں تو دفتر کے دفتر وجود میں آجائیں ۔

لیکن دلیل کے طور پر ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اہلِ سنت والجماعت کے علما ء بارہ ائمہ کے قائل ہی اور وہ ہیں علی(ع) اور ان کے پاک و پاکیزہ فرزند۔

اور جو چیز ہمارے اس یقین کو اور محکم بناتی ہے کہ اہلِ بیت(ع) میں سے بارہ ائمہ(ع)

۱۰۴

کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا ہے اور مورخین و محدثین اور سیرت نگاروں نےان کے متعلق یہ نہیں لکھا ہے کہ ائمہ اہلِ بیت(ع)  نے فلاں صحابی یا تابعین میں سے  کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہے ۔ جب کہ امت کے دیگر علماء و ائمہ نے ایسا کیا ہے۔

مثلا ابو حبیفہ نے امام جعفر صادق(ع) سے تعلیم حاصل کی  اور مالک نے ابوحنیفہ سے درس پڑھا اور شافعی نے مالک سے علم حاصل کیا  اور مالک سے احمد بن حنبل نے کسبِ فیض کیا۔

لیکن اہلِ بیت(ع) کاعلم لدنی ہے جو انھیں ان کے عظیم باپ داد ا سے میراث میں ملتا ہے۔

یہی وہ لوگ ہیں جن کے  بارے میں خداوند عالم نے فرمایا ہے:

" پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے خاص انھیں کتاب کا وارث بنایا جنھیں منتخب کیا تھا۔(فاطر ۲۲)

ایک مرتبہ امام صادق(ع) نےاس کی حقیقت کی طرف اس طرح اشارہ فرمایا تھا۔

"تعجب ہے: لوگ کہتے ہیں کہ انھوں نے کل علم رسول(ص)  سے حاصل کیا ہے اور اس پر عمل کر کے ہدایت پاگئے اور کہتے ہیں کہ ہم اہلِ بیت(ع)  نے رسول(ص) سے علم نہیں لیا ہے اور نہ ہمیں ہدایت ملی ہے جبکہ ہم ان (رسول (ص))  کی ذریت ہیں۔ہمارے گھر میں وحی نازل ہوئی ہے اور ہمارے ہی در سے علم کا سوتا پھوٹا  ہے کہ جس سے لوگ سیراب ہوتے ہیں ۔ کیا تم انھیں ہدایت یافتہ اور علم میں سرشار اور ہمیں جہل و ضلالت  میں دیکھتے ہو؟

اور ان لوگوں پر امام جعفر صادق(ع) کو کیوں کر تعجب نہ ہوتا جو کہ یہ دعوی کررہے تھے کہ ہم نے رسول(ص) سے علم حاصل کیا  ہے جب کہ وہ رسول(ص) کے وارث اہل بیت(ع)  سے عداوت

۱۰۵

کررہے تھے۔

اور اہلِ سنت کہ جنھوں نے ناجائز طریقہ سے  خود کو سنت سے منسوب کرلیا" پر تعجب ہونا ہی چاہئے جبکہ وہ سنت  کی مخالفت کرتے ہیں؟

اور  جیسا کہ تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ شیعوں  نے علی(ع) کا دامن تھام لیا تھا۔ لہذا و ہ علی(ع) کی مدد کرتے رہے اور آپ(ع)  کے دشمنوں کا مقابلہ کرتے رہے اور جس سے آپ کی صلح تھی اس سے صلح کرتے رہے اور  انھوں نے ہر ایک علم ان ہی سے حاصل کیا ہے۔

اہلِ سنت نے قطعی طور پر علی(ع) کی اطاعت نہیں کی اور نہ ہی ان کی مدد کی بلکہ اس کے برعکس آپ(ع) سے جنگ کی اور آپ(ع) کی حیات کا چراغ گل کردینے کے درپے رہے۔ چنانچہ آپ(ع) کے بعد آپ(ع) کی اولاد کو چن چن کے قتل کیا، قیدی بنایا اور شہروں سے نکال دیا، اکثر حکام میں اہلِ سنت نے علی(ع) کی مخالفت کی اور ان لوگوں کا اتباع کیا جنھوں نے اپنی رائے اور اجتہاد سے احکامِ خدا کو بدل ڈالا تھا۔

اور آج ہمیں ان لوگوں پر کیونکہ تعجب نہ ہو کہ جو سنت نبی(ص) پر عمل پیرا ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور خود ہی یہ بھی گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے سنتِ نبی(ص) کو چھوڑدیا ہے۔ اس لئے کہ سنت تو شیعوں کا شعار بن چکی ہے۔ ( قارئین اس سلسلہ میں " لاکون مع الصادقین" ہوجاؤ سچوں کے ساتھ مطالعہ فرمائیں، ابن تیمیہ  کہتے ہیں سنتِ نبی(ص) کو  چھوڑدو کیونکہ اب سنت شیعوں کی علامت بن چکی ہے لیکن اہلِ سنت  اس کے باوجود ابنِ تیمیہ کو مجدد السنہ کہتےہیں ۔ منہاج السنت لابن تیمیہ ج۲، ص۱۴۳ شرح المواہب للزرقانی ، ج۵، ص۱۲) کیا عجیب بات نہیں ہے؟

اور ہمیں ان لوگوں پر کیسے حیرت نہ ہو جو بزعم خود اپنے کو ، اہلِ سنت  والجماعت ، سمجھتے ہیں جبکہ وہ متعدد گروہوں حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، میں بٹے ہوئے ہیں، فقہی  مسائل میں ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہیں اس طرح یہ کہ یہ اختلاف رحمت ہے ! چنانچہ دینِ خدا ان

۱۰۶

کی خواہشِ نفس اور راویوں کا مربَہ بن گیاہے۔

جی ہاں یہ متعدد  پارٹیاں ہیں جو کہ احکامِ خدا و رسول(ص) میں جدا جدا ہیں لیکن سقیفہ میں تشکیل پانے والی ظالم خلافت  کے صحیح ہونے میں سب ایک ہیں اسی طرح خلافت سے عترتِ طاہرہ کو دور رکھنے میں بھی سب کا اتفاق ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر کیونکر تعجب نہ ہو کہ جو خود کو اہلِ سنت  کہہ کر سرخ رو ہوتے ہیں اور   رسول(ص) کے اس حکم " کہ کتابِ خدا اور میرے اہلِ بیت(ع) عترت سے تمسک رکھنا" کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ہر چند کہ اہلِ سنت  نے اس  حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کیاہے اور اسے صحیح تسلیم کیا ہے ، لیکن وہ نہ قرآن سے تمسک رکھتے ہیں نہ اہلِ بیت(ع)  سے انکا  کوئی تعلق ہے جبکہ اہلِ بیت(ع)  سے روگردانی کرنا قرآ ن سے رخ موڑنا ہے۔ جیسا کہ حدیث یہ کہتی ہے کہ قرآن و عترت کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جیسا کہ رسول(ص) نےاس کی خبر دی ہے۔

"مجھے لطیف و خبیر نے  خبر دی ہے کہ یہ دونوں (قرآن و عترت) ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے ، یہاں تک کہ میرے پاس خوض کوثر پر وارد ہوں گے۔"

( مسند امام احمد ابن حنبل ج۵، ص۱۸۹، مستدرک حاکم ج۲، ص۱۴۸،  حاکم کہتے ہیں شیخین کی شرط  کے لحاظ سے یہ حدیث صحیح ہے۔ ذہبی نے بھی شیخین کی شرط پر اس حدیث کو صحیح مانا ہے۔)

اور اس قوم پر ہمیں کیسے تعجب نہ ہو جو یہ دعوی کرتی ہے کہ ہم اہلِ سنت ہیں اور اس چیز کی مخالفت کرتی ہے جو ان کی کتابوں میں نبی(ص) کی حدیث اور امر و نہی موجود ہے۔ ( بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ نبی(ص) نے ماہ رمضان میں نماز تراویح جماعت کے ساتھ پڑھنے سے منع کیاتھا اور فرمایا تھا: لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھو! کیونکہ سنت نمازیں گھروں میں پڑھنا بہتر ہے۔ لیکن اہلِ سنت نے اس چیز کو ٹھکرادیا ۔ جس سے رسول(ص) نے منع کیا تھا اور عمر ابن

۱۰۷

خطاب کی بدعت کو اختیار کرلیا۔)

اور ہم اس حدیث کو صحیح تسلیم کرلیں کہ " میں تمھارے درمیان کتاتِ خدا اور اپنی سنت چھوڑ کرجارہا ہوں  جب تک تم ان سے تمسک رکھو گے  کبھی گمراہ نہ ہوگے "۔ جیسا کہ آج بعض اہلِ سنت کا رویہ ہے، تو پھر فضیحت اور بڑھ جا ئے گی اور تعجب کی انتہا نہرہے گی۔

اور عمر ابن خطاب نے تو صاف لفظوں میں کہا تھا۔" ہمارے لئے کتابِ خدا کافی ہے۔ جبکہ یہ صریح طور پر رسول(ص)  پر اعتراض  خدا پر اعتراض ہے۔

عمر کا یہ قول ہلِ سنت کی تمام صحاح میں بشمولیت بخاری و مسلم موجود ہے۔ پس جب نبی(ص) نے فرمایا تھا کہ میں تمھارے درمیان کتابِ خدا اور اپنی سنت چھوڑ کرجارہا ہوں تو اس وقت عمر نے کہا تھا  کہ ہمارے لئے کتابِ خدا  کافی ہے۔ ہمیں آپ(ص) کی سنت کی احتیاج نہیں ہے  اور جب عمر نبی(ص) کے سامنے یہ کہا کہ ہمارے لئے کتابِ خدا کافی  ہے تو ابوبکر  نے اپنے دوست کی بات کو نافذ کرنے پر زور دیا لہذا اپنی خلافت کے دوران کہا: رسول(ص) سے کوئی حدیث نقل نہ کرنا اور جو تم سے سوال کرے اس سے کہہ دینا کہ ہمارے اور تمھارے درمیان کتابِ خدا ہے اس کے حلال کو حلال  اور  اس کے حرام کو حرام سمجھو! ( تذکرۃ الحفاظ للذہبی ج۱، ص۳)

اس گروہ پر ہم کیسے تعجب نہ کریں کہ جس نے اپنے نبی(ص)  کی سنت کو پس پشت  ڈالدیا اور اس کی جگہ ان بدعتوں کو لاکر رکھدیا جن کے لئے خدا نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ہے اس پر فخر یہ کہ ہم سنی ہیں۔

لیکن تعجب اس وقت ہوتا ہے جب ہمیں ابوبکر و عمر و عثمان کی معرفت ہوجاتی ہے کیونکہ وہ بھی اہلِ سنت کے بام سے واقف نہیں تھے چنانچہ ابوبکر فرماتے ہیں: اگر تم مجھ سے سنتِ نبی(ص) پر عمل کرنے کے لئے کہتے ہو تو مجھ میں اس کی طاقت نہیں ۔" ( مسند امام احمد بن حنبل ج۱، ص۴، کنزالعمال ج۳، ص۱۲۶)

۱۰۸

ابوبکر میںسنتِ نبی (ص) کی طاقت کیوں نہیں تھی ؟ کیا نبی(ص) کی سنت کوئی امر محال تھا جو ابوبکر  کی طاقت سے باہر تھا؟

اور پھر اہلِ سنت یہ دعوی کیسے کرتے ہیں کہ ہم سنت نبی(ص) سے متمسک ہیں جبکہ ان مذہب کے مؤسس و موجد میں اس پر عمل پیرا ہونے کی طاقت نہیں تھی؟

کیا خدا وندِ عالم نے یہ نہیں فرمایا تھا، تمھارے لئے رسول خدا(ص) میں اسوہ حسنہ ہے۔(احزاب ۲۱)

نیز فرمایا :

خدا کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے۔ (طلاق ۷)

پھر فرمایا ہے:

ہم نے تمھارے لئے دین میں کوئی زحمت نہیں رکھی ہے۔(حج۷۸)

کیا ابوبکر اور ان کے دوست عمر یہ سمجھتے ہیں کہ رسول(ص) نے خدا کا دین نہیں پیش کیا بلکہ اس کی جگہ اپنی طرف سے کوئی یز پیش کردی ہے؟ اور پھر مسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کا حکم  دیا جبکہ ان میں اس کی سکت نہیں ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے۔

بلکہ آپ(ص) اکثر فرمایا کرتے تھے: بشارت دو متنفر نہ کرو آسانیاں اختیار کرو زحمتوں سے بچو، بے شک خدا نے تمھیں چھوٹ دی ہے اب تم کسی چیز کو اپنے اوپر زبردستی نہ لادو، ابوبکر کو یہ اعتراف ہے کہ ان میں سنتِ نبی(ص) کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہے اس لئے انھوں نے اپنی خواہش نفس سے ایسی بدعت  نکالی جو ان کی حکومت کی سیاست سے سازگار اور ان کی طاقت کے مطابق تھی۔

دوسرے نمبر پر شاید عمر نے بھی یہ محسوس کیا کہ مجھ میں بھی احکامِ قرآن و سنت پر

۱۰۹

عمل کرنے کی طاقت نہیں ہے لہذا انھوں نے جنب کی حالت میں پانی نہ ملنے پر نماز ترک کرنے کا  فیصلہ کیا اور اپنی خلافت کے زمانہ میں یہی فتوی دیا جیسا کہ محدثین نے عمر کا قول نقل کیا ہے۔

پھر عمر جماع کے شوقین تھے، یہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں خدا فرماتا ہے۔

" اللہ جانتا ہے کہ تم ( آنکھ بچا کر عورتوں کے پاس جاتےہو) گناہ کرتے ہو۔ بس اس نے تمھاری توبہ قبول کی۔"( بقرہ۱۸۷)

اس لئے کہ عمر روزہ کی حالت میں بھی جماع سے باز نہیں رہتے تھے پھر اس زمانہ میں پانی بھی کم یاب تھا لہذا عمر کو آسان طریقہ یہی نظر آیا کہ نما چھوڑ دی جائے ۔ جب غسل کے لئے پانی مل جائے گا تو نماز پڑھ لی جائے گی۔

عثمان نے بھی سنتِ نبی(ص) کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، مشہور ہے کہ عائشہ نبی(ص) کی قمیص لے کر نکلیں اور کہا عثمان نے تو نبی(ص) کاکفن کہنہ ہونے سے قبل ہی ان کی سنت کو  بھولا دیا ہے۔ یہاں تک کہ صحابہ نے ان پر الزام لگایا کہ وہ سنتِ نبی(ص) اور سیرتِ شیخین کی مخالفت کرتے ہیں چنانچہ اسی جرم میں انھیں قتل کردیاگیا۔

اور معاویہ تو ان سے بھی بازی لے گیا اس نے تو کھلم کھلا قرآن و سنت کی مخالفت کی اور ان سے لوگوں کو رجوع کرنے سے منع کیا نبی(ص) فرماتے ہیں:

" علی(ع) مجھ سے ہیں اور میں علی(ع)  سے ہوں جس نے علی(ع) پر  سب و شتم کیا اس نے مجھ پر سب و شتم کیااور جس نے مجھے برا بھلا کہا اس نے خدا کو برا بھلا کہا۔"

( مسدرک حاکم ج۳، ص۱۲۱، مسند احمدبن حنبل ج۶، ص۲۲۳۔ خصائص نسائی ،ص۱۷)

جب کہ معاویہ کھلم کھلا حضرت علی(ع) پر لعنت کرتا ہے اور اسی پر اکتفا نہیں کرتا ہے ، بلکہ اپنے کارندوں کو حکمدیتا ہے کہ وہ علی(ع)  پر لعنت کیاکریں اور جس نے ایسا کرنے سے انکار

۱۱۰

کیا اسے معزول کردیتا ہے۔

اور حق کا اتباع کرنے والے شیعوں کے مقابلہ میں معاویہ خود کو اور اپنے چاہنے والوں کو اہلِ سنت والجماعت کہتا ہے۔

بعض مورخین نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ صلح امام حسن(ع)  کے بعد جس سال معاویہ تخت نشین ہوا اس سال کو عام الجماعۃ کہا جانے لگا۔

یہ تعجب اس وقت زائل ہوجائےگا جب اس بات سے پردہ ہٹے گاکہ معاویہ اور اس کی پارٹی سے وہ لوگ مراد ہیں جو جمعہ اور عید کے دن اسلامی منبروں سے علی(ع) پر لعنت کرتے تھے۔

اور جب اہل سنت والجماعت معاویہ ابن ابی سفیان کی ایجاد ہیں تو ہماری خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس بدعت پر موت دے جس کی موجد  و بانی علی بن ابیطالب(ع) اور تمام اہلِ بیت علیہم السلام ہیں!!

قارئین محترم متوجہ رہیں کہ اس لحاظ سے بدعت کار و گمراہ لوگ اہلِسنت  والجماعت بن گئے اور اہلِ بیت (ع)  میں سے ائمہ طاہرین(ع) کو بدعت گذار کہا جانے لگا۔

اہلِ سنت والجماعت کے مشہور عالم دین علامہ ابن خلدون جمہور کے مذاہب شمار کرانے کے بعد کہتے ہیں:

اور اہلِ بیت(ع) کے ایجاد کئے ہوئے مذاہب بہت کم ہیں وہ فقہ میں منفرد ہیں، ان کے مذاہب کی بنیاد تو بعض صحابہ کو برا بھلا  کہنا ہے۔( مقدمہ ابن خلدون، ص۴۹۴)

قارئین محترم!

میں نے  شروع ہی میں یہ عرض کیا تھا کہ اگر وہ تصویر کا دوسرا رخ

۱۱۱

 بھی دیکھتے تو ضرور حقیقت تک پہنچ جاتے۔ جب فاسق ترین لوگ اور بنی امیہ اہلِسنت بن سکتے ہیں اور اہلِ بیت(ع)  کو بدعت کار کہا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ ابن خلدون نے لکھا ہے تو ایسے اسلام کو دور سے سلام اور دنیا پرخاک ۔

۱۱۲

اہلِ سنت کے ائمہ ظالم حکام معین کرتے ہیں

اہلِ سنت کے چاروں مذاہب  کے ائمہ بھی کتابِ خدا اور سنت رسول(ص) کی مخالفت کرتے تھے، کیونکہ رسول(ص) نے عترت  طاہرہ کی اقتدارء کا حکم دیا تھا جبکہ ہمیں اہلِ سنت میں ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا  جس نے اپنے زمانہ کے امام کو پہچان لیا ہو اور ان کی کشتی پر سوار ہوگیا ہو اور ان کے سامنے گردن جھکادی ہو۔

یہ ہیں ابوحنیفہ  جنھوں نے امام صادق(ع) کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور آپ کے بارے میں ان (ابوحنیفہ) کا یہ قول مشہور ہے اگر یہ دو سال " کہ جن میں امام صادق(ع) سے علم حاصل کیا ہے" نہ ہوتے تو نعمان ( ابوحنیفہ) ہلاک ہوجاتا۔ اس کے باوجود انھوں نے اپنا ایک نیا مذہب بنا لیا کہ جس کی بنیاد ہی صریحِ نص کے مقابلہ میں اجتہاد تھا۔ مالک کو دیکھئے کہ جس نے امام صادق(ع)  سے علم حاصل کیا اور آپ (ع) کے بارے میں فرمایا: امام  جعفر صادق(ع)  جیسا کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور کسی کے دل میں اس بات کا خطور ہوا کہ علم و

۱۱۳

 فقہ میں امام جعفر صادق(ع) سے افضل بھی کوئی ہوسکتا ہے ۔ انھوں نے بھی اپنے زمانے کے امام کو چھوڑ کر الگ  ڈیڑھ اینٹ  کی مسجد بنائی اور ایک مذہب ایجاد کر دیا، جبکہ مالک کو اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کے زمانہ میں علم و فقہ کے لحاظ سے امام جعفر صادق(ع)  سے بلند کوئی نہیں تھا لیکن ان کو عباسیوں نے یہ باور کرایا کہ تم بہت بڑے عالم ہو اور  انھیں دارالہجرت کا امام کہنے لگے تو پھر مالک کی حیثیت ہی بدل گئی اور رعب  و دبدبہ بھی بڑھ گیا۔

شافعی کو ملاحظہ فرمائیے کہ جن پر شیعہ ہونے کا اتہام ہے اور اہلِ بیت(ع) کے متعلق ان کے اشعار بھی ہیں:

" اے رسول(ص) کے اہلِ بیت(ع) آپ کی محبت قرآن میں خدا  کی طرف

سےواجب ہے آپ کے لئے تو یہی کافی ہے کہ جو آپ(ع)  پر درود

نہ بھیجے اس کی نماز ، نماز نہیں ہے۔"

اسی طرح مندرجہ ذیل اشعار بھی مدحِ اہلِ بیت(ع) میں شافعی کی طرف منسوب ہیں۔

" اورجب میں نے لوگوں کو  دیکھا کہ ان  کے مذاہب انھیں جہل و گمراہی کے دریا میں لے گئے  تو میں بھی اللہ کا نام لیکر نجات کے سفیبہ پر سور ہاگیا ، یعنی خاتم الرسل(ص) اہلِ بیت(ع) مصطفے (ص) کا دامن تھام لیا اور میں نے حبل اللہ سے تمسک کیا جو کہ اہلِ بیت(ع)  کی محبت  ہے جیسا کہ رسول(ص) نے ہمیں اس سے متمسک رہنے کا حکم دیاہے۔"

اسی طرح شافعی سے یہ شعر بھی منسوب ہے:

اگر آلِ محمد(ص)  کی محبت رفض ہے

تو ثقلین گواہ رہیں میں رافضی ہوں۔

۱۱۴

لیکن جب وپ اپنے رافضی ہونے پر ثقلین کو گواہ بنا رہے ہیں تو پھر ان مذہبوں کی مخالفت کیوں نہیں کرتے جو اہلِ بیت(ع)  کی ضد میں بنائے گئے تھے نہ صرف یہ کہ ان کی مخالفت نہیں کی بلکہ خود بھی اپنا ایک نیا مذہب بنا لیا اور اپنے ہم عصر اہلِ بیت(ع) کو چھوڑ دیا۔

احمد ابن حنبل کو لیجئے  جنھوں نے حضرت علی(ع) کو چوتھا خلیفہ قرار دیا انھیں خلفائے  راشدین سے ملحق کیا اور اس سلسلہ میں کتاب الفضائل نامی کتاب لکھی اور ان کا یہ قول مشہور ہے کہ " صحیح اسناد کے ذریعہ تمام صحابہ سے زیادہ علی(ع) کے فضائل نقل ہوئے ہیں ۔ جناب نے بھی اپنے نام سے ایک مذہب کی بنیاد ڈالی کہ جس کو آج کل حنبلی کہا جاتا ہے ۔ جبکہ ان کے زمانے کے علماء کہتے تھے کہ احمد بن حنبل فقیہ نہیں ہیں۔ شیخ ابو زہرہ کہتے ہیں کہ متقدمین میں سے اکثر علماء احمد بن حنبل کو فقیہ نہیں مانتے تھے۔ جیسے ابن قتیہ ابن جریر طبری جو کہ ان کے زمانہ سے قریب تھے۔ ( ملاحظہ فرمائیں ابوزہرہ کی کتاب احمد بن حنبل  ص۱۷۰)۔

ابن تیمیہ آتے ہیں اور مذہب حنبلی کو  جھںڈا اٹھاتے ہیں اور اس میں کچھ نئے نظریات داخل کردیتے ہیں۔ مثلا قبور کی زیارت کرنے اور ان پر عمارت بنانے کو حرام قرار دیتے ہیں ۔

اور اہل بیت نبی(ص) سے تمسک کو شرک بتاتے ہیں۔

یہ ہے مذاہب اربعہ اور یہ ہیں ان کے ائمہ اور یہ ہیں ان کے وہ اقوال جو  اہلِ بیت(ع)  طاہرین سے متعلق ہیں۔

پس یہ تو لوگ وہ بات کہتے ہیں جس پر عمل نہیں کرتے اور یہ خدا کو  بہت ناپسند ہے انھوں نے یہ مذاہب نہیں بنائے تھے بلکہ اموی اور عباسیوں کے دم چھلوں نے ظالم حکام کی مدد سے ان مذاہب  کی بنیاد رکھی تھی اور ان ( ائمہ اربعہ) کی وفات کے بعد ان کی طرف منسوب کردیا تھا۔ اس حقیقت کو ہم انشاء اللہ آیندہ بحثوں میں واضح کریں گے۔

کیا آپ کو ان ائمہ پر تعجب  نہیں ہے جو کہ اہلِ بیت(ع) میں سے ائمہ ھدی کے کے ہمعصر تھے اور اس کو باوجود صراط مستقیم سے ہٹ گئے اور ان سے ہدایت

۱۱۵

حاصل نہیں کی اور نہ ان کے نور سے فیضیاب ہوئے ان سے ان کے جد رسول(ص) کی احادیث بھی نقل نہیں کیں بلکہ اس کی بر خلاف کعب الاخبار یہودی  اور ابو ہریرہ کی دوستی سے رسول(ص) کی احادیث لیں اسی ابوہریرہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی(ع) نے  فرمایا ہے۔

ابوہریرہ نے رسول(ص) پر سب سے زیادہ جھوٹ باندھا ہے اور بالکل یہی بات عائشہ بنت ابوبکر نے بھی کہی ہے۔

اہلِ سنت نے اہلِ بیت نبی(ص)  پر  عبد اللہ بن عمر ایسے ناصبی دشمن علی(ع) کو مقد م کیا ہے جس نے علی(ع) کی بیعت سے انکار کردیا تھا جبکہ حجاج بن یوسف  ایسے گمراہ کی بیعت کر لی تھی۔

اور اسی طرح معاویہ کے وزیر عمرو بن العاص  ایسے دھوکہ باز کو اہلِبیت (ع) پر مقدم کرتے ہیں۔

کیا آپ کو ان ائمہ پر تعجب نہیں ہوتا  جنھوں نے دین خدا میں اپنے نفسوں کے لئے حق تشریع اور اجتہاد کو مباح کرلیا تھا یہاں تک کہ انھوں نے سنتِ نبوی(ص) کو چھوڑ دیا تھااور خود  قیاس  و استصحاب سدیاب الذرایع اور مصالح المرسلہ ایسے قواعد ایجاد کر لئے تھے۔

اس کے علاوہ اور نہ جانیں کتنی بدعتیں ہیں جن کے لئے خدا نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ہے۔ کیا خدا اور اس کو رسول(ص) اکمال دین سے غافل تھے  اور انکے لئے یہ مباح کردیا تھا کہ وہ اپنے اجتھادات کو کامل کریں اور جس چیز کو چاہیں حرام کریں جس کو چاہیں حلال قرار دیں ۔  کیا ان مسلمانوں پر توجب نہیں ہوتا جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم تو سنت کا اتباع کرتے ہیں۔ اور پھر ایسے ائمہ کی تقلید کرتے ہیں کی جو نبی(ص) کی معرفت نہیں رکھتے تھے اور نہ نبی(ص) ہی انھیں جانتے تھے؟

یا اس سلسلے میں ان کے پاس کتابِ خدا سے کوئی دلیل موجود ہے  یا مذہب کے موجد ائمہ اربعہ کی تقلید کے اوپر سنت رسول(ص)  دلالت کررہی ہے؟!

میں انسانوں اور جنات دونوں کو چیلنج کر کے کہتا ہوں کہ اس سلسلہ میں کتابِ خدا یا

۱۱۶

سنتِ رسول(ص) سے ایک ہی دلیل پیش کردو۔ قسم خدا کی ایسا ہرگز نہیں کرسکتے اور ہرگز دلیل نہیں لاسکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے لئے مددگار ہی کیوں نہ بن جائیں۔

قسم خدا کی کتاب اور سنت رسول(ص)  میں ایسی  کوئی دلیل نہیں ہے ہاں ائمہ طاہرین(ع) کی تقلید و اتباع پر بہت سی دلیلیں مضبوط حجتین اور روشن حقائق دلالت کررہے ہیں ۔ موجود ہیں۔

 آنکھیں رکھنے  والو، عبرت حاصل کرو۔ (حشر ۲)

کیوں کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ سینہ میں جو دل ہے وہ اندھے ہوجاتے ہیں۔( سورہ حج/۴۶)

۱۱۷

سنَی مذاہب کی ترقی کا راز

تاریخی کتابوں اور اسلاف کی جمع کردہ چیزوں پر نظر رکھنے والا بغیر شک و تردید کے اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ اس زمانہمیں سینوں کے مذاہب اربعہ کی ترقی میں بر سر اقتدار پارٹی کا ہاتھ تھا لہذا اکثر لوگوں نے انھیں قبول کیا کیوں کہ لوگ اپنے بادشاہوں کے دین کو اختیار کرتے ہیں۔

اسی طرح ایک محقق اس بات کو بھی جانتا ہے کہ اس زمانہ میں اور دسیوں مذاہب اس لئے فنا ہوگئے تھے کہ حاکمِ وقت ان سے راضی نہیں تھا مثلا مذہبِ اوزاعی اور مذہبِ حسن بصری، ابوغنیہ ، ابن ذویب، سفیان ثوری، ابن داؤد اور لیث  بن سعد وغیرہ۔

مثلا لیث بن سعد مالک ابن انس کا دوست تھا اور علم فقہ میں ان سے کہیں آگے تھا لیکن اس  کا مذہب اس لئے برباد ہوگیا کہ اس سے حکومت راضی نہیں تھی۔جیسا کہ شافعی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے۔(مناقب شافعی، ص۵۲۴)

احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ : ابن ابی ذویب مالک بن انس سے افضل تھے۔ لیکن مالک

۱۱۸

رجال میں ماہر تھے۔ ( تذکرۃ الحفاظ ، ج۱، ص۱۷۶)

لیکن جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو مالک کو صاحب مذہب دیکھتے ہیں کیونکہ  انھیں حکومت کا تقرب حاصل تھا حکام کے کہنے پر چلتے تھے لہذا یہ مشہور عالم بن گئے اور خوف طمع کے ذریعہ ان کے مذہب کی ترویج ہونے لگی خصوصا اندلس میں کہ جہاں مالک کے شاگرد یحیی نے اندلس کے حاکم سے رسم و راہ بڑھا کر تقرب حاصل کیا تو حاکم نے انھیں  قاضیوں کے سلکشن کا اختیار دے دیا۔ لہذا قضاوت کا منصب اسی کو دیا جاتا تھا جو  مالکی ہوتا تھا۔

اسی ابوحنیفہ کی وفات کے بعد ان کے مذہب کی ترقی کا باعث ابویوسف اور شیبان تھے یہ دونوں ابو حنیفہ کے پیروکار اور ان کے مخلص ترین شاگرد تھے اور عباسی خلیفہ ہارون رشید کے مقربین میں سے تھے اور ہارون کی حکومت کی پائیداری میں ان کا بڑاکردار تھا دوشیزاؤں کا رسیا اور لہو لعب کا شوقین ہارون ان کی موافقت کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتا تھا۔

لہذا یہ دونوں اسی شخص کو قاضی بناتے تھے جو حنفی ہوتا تھا۔ چنانچہ اس زمانہ میں ابو حنیفہ اعظم العلماء اور ان کا مذہب اعظم المذاہب الفقہیہ بن گیا باوجود یکہ ان کے ہمعصر  علماء نے ان کے کافر ہونے اور زندیق بن جانے کا فتوی دیا تھا۔ فتوی دینے والوں میں سے امام احمد بن حنبل اور ابو الحسن اشعری ہیں۔

اور مذہب شافعی تو تقریبا مٹ جانے کے بعد زندہ ہوا ہے اور یہ اس وقت ہوا جب ظالم و غاصب حکومت نے ان کی تائید  کی لہذا وہی مصر کہ جہاں شیعہ ہی شیعہ تھے شافعی بن گیا اور یہ صلاح الدین ایوبی کے زمانہ میں اس وقت ہواجب وہ شیعوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگا اور انھیں بے دردی کے ساتھ ذبح کرنے لگا۔

اسی طرح اگر معتصم عباسی حنبلی مذہب کی تائید نہ کرتا تو آج کوئی اس مذہب

۱۱۹

 کا نام لینے والا نہ ہوتا اور یہ اس وقت ہوا جب احمد بن حنبل نے خلق قرآن کے نظریہ سے برائت کا اظہار کیا ، اور متوکل کے زمانہ میں تو اس کا ستارہ اور اچھے طریقہ سے چمک گیا۔

ابھی ماضی قریب میں برطانیہ کے استعمار  کی مدد سے مذہب وہابیت نے فروغ پایا ہے۔ پھر برطانیہ نے آل سعود کو یہ ذمہ داری سونپی لہذا اس نے فورا شیخ محمد بن عبد الوہاب کی مدد اور حجاز و جزیرہ العرب میں اس کے مذہب کی نشر و اشاعت میں بھر پور تعاون کیا۔

اس طرح مذہب حنبلی کو تین ائمہ ملے پہلے امام احمد بن حنبل جنھیں خود اپنے فقیہ ہونے کا اقرار نہیں تھا، بلکہ وہ اہلِ حدیث  سے تعلق رکھتے تھے، ان کے بعد ابنِ تیمیہ ہیں جن کو اہلِ سنت نے شیخ الاسلام اور مجدد السنۃ  کا لقب دیا ہے جب کہ ان زمانے میں علماء ان کو اس لئے کافر کہتے تھے کہ وہ تمام مسلمانوں کو اس لئے مشرک کہتے تھے کہ وہ نبی(ص) سے توسل رکھتے تھے اس کے بعد زمانہ ماضی میں محمد بن عبد الوہاب برطانوی استعمار کے  چیلے اٹھتے ہیں اور مذہب حنبلی کی تجدید کی کوشش کرتے ہیں، وہ ابنِ تیمیہ کے فتاوے پر عمل کرتے  ہیں اس طرح احمد حنبل کانَ کی خبر ہوگئے کیونکہ اب اس مذہب کو لوگ مذہب وہابی کہتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے  کہ ان مذاہب کی ترقی ، شہرت اور سربلندی حکام کی مرہونِ منت ہے۔

اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ وہ تمام حکام ائمہ اہلِ بیت(ع) کے دشمن تھے۔ کیونکہ وہ اپنے نظام کے لئے  انھیں  (ائمہ اہلِ بیت(ع) ) چیلنج اور اپنی بادشاہت کا زوال تصوَر کرتے تھے لہذا وہ ہمیشہ ان کو الگ رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور امت میں جھوٹا بنا کر پیش کرتے تھے اور ان کے شیعوں کو تہہ تیغ کرتے تھے۔

بدیہی تھا کہ وہ حکام بھی بعض چاپلوس  قسم کے علماء کے بڑے بڑے عہدوں اور مناصب سے نوازیں تاکہ ان علماء کے فتاوے حکام کے مطابق ڈھلتے رہیں اور فتاوے لوگوں کی

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

آذربائیجان کے گورنراشعث کے نام امام ـ کا خط

اشعث بن قیس کا رابطہ پچھلے خلیفہ کے ساتھ بھی بہت گہرا تھا اور اس کی بیٹی خلیفہ کی بہو(عمرو بن عثمان کی بیوی) تھی۔ امام ـ نے اپنے ایک چاہنے والے ہمدانی(۱) ،زیاد بن مرحب(۲) کے ذریعہ خط اس کے پاس بھیجا جس کی عبارت یہ تھی:

اگر تمھیں کوئی مشکل نہ تھی تو میری بیعت کرنے میں سبقت کرتے اورلوگوں سے بھی میری بیعت لیتے اگر تقوی اختیار کرو گے تو بعض چیزیں تمھیں حق کو ظاہر کرنے کے لئے آمادہ کردیں گی، جیسا کہ تمھیں معلوم ہے کہ لوگوںنے میری بیعت کی ہے اور طلحہ و زبیر نے بیعت کرنے کے بعد عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے اور ام المومنین کو ان کے گھر سے بلا کر اپنے ساتھ بصرہ لے گئے۔ میں بھی ان کے پاس گیا اور ان سے کہاکہ اپنی بیعت پر واپس آجاؤ لیکن ان لوگوںنے قبول نہیں کیا میں نے بہت اصرار کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا...(۳)

پھر امام ـ نے ایک تاریخی کلام اشعث کے گوش گزار کیا:

''و ان عملک لیس لک بطعمة و لکنه امانة و فی یدیک مال من مال الله و انت من خُزَّان الله علیه حتی تسلِّمه الی ...'' (۴)

گورنری تمہارے لئے مرغن غذا کالقمہ نہیں ہے ،بلکہ ایک امانت ہے او رتمہارے پاس جومال ہے وہ خدا کا ہے اور تم اس مال کے لئے خدا کی طرف سے خزانہ دار ہو یہاں تک کہ وہ مجھے واپس کردو، تم جان لو کہ میں تم پر برا حاکم نہیں رہوں گا جب کہ تم سچائی کو اپنا ساتھی بنائے رکھو گے۔

_______________________________

(۱)قبیلۂ ہمدان (میم پر ساکن) یمن کا ایک مشہور قبیلہ ہے اور وہاں کے لوگ سچے اور امام سے گہرا تعلق اور محبت رکھتے تھے۔

(۲) الامامة و السیاس، ص ۳، زیاد بن کعب۔----(۳) الامامة و السیاس ص ۳ وقعۂ صفین ص ۲۱۔ ۲۰۔

(۴) الامامة و السیاسة ص ۸۳ وقعہ صفین، ص ۲۱۔ ۲۰ جو کچھ وقعہ صفین کے مولف نصر بن مزاحم نے لکھاہے، مرحوم سید رضی نے شروع کے کچھ حصے کو حذف کردیا ہے۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر۵، ابن عبد ربہ عقد الفرید، ج۳، ص ۱۰۴۔ ابن قتیبہ ، الامامة والسیاسة ج۱،ص ۸۳ نے جو کچھ نصر بن مزاحم نے نقل کیا ہے اسے بطور خلاصہ لکھا ہے ،رجوع کریں ، مصادر نہج البلاغہ ج۳، ص۲۰۲ شرح نہج البلاغہ ابن میثم ج۴،ص ۳۵۰

۴۶۱

دونوں خط ایک وقت لکھا گیا جب کہ پہلے خط میں الفت و محبت کی چاشنی ہے لیکن دوسرے خط میں الفت و محبت کے ساتھ تندی اور تنبیہ بھی شامل ہے ان دونوں میں فرق کی وجہ دونوں حاکموں کی روحانی کیفیت ہے اشعث لوگوں سے امام ـ کی بیعت اور شناخت امام کے لئے بہت زیادہ مائل نہ تھا لہذا امام ـ کا خط ملنے کے بعد بجائے یہ کہ حاکم ہمدان کی طرح خود اٹھ کر امام ـ کے فضائل سے لوگوں کو آشنا کراتا اور لوگوں سے

آپ کی بیعت کا خواستگار ہوتا۔ اس نے خاموشی اختیار کی، یہی وجہ ہے کہ امام ـ کا قاصد و نمائندہ زیاد بن مرحب اپنی جگہ سے اٹھا اور عثمان کے قتل کی داستان اور طلحہ و زبیر کی بیعت توڑنے کے واقعات کو لوگوں کے سامنے بیان کیا اور کہا:

اے لوگو، وہ شخص جسے مختصر کلام قانع نہ کر سکے اسے طولانی کلام بھی قانع نہیں کرے گا، عثمان کا مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ اس کے متعلق گفتگو کر کے تمھیں قانع کیا جا سکے یقیناواقعہ کا سننا دیکھنے کی طرح کبھی نہیں ہوسکتاہے۔

اے لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ عثمان کے قتل کے بعد مہاجرین و انصار نے علی کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان دو آدمیوں (طلحہ و زبیر) نے بغیر کسی وجہ کے اپنی بیعت سے انکار کردیا اور بالآخر خدا نے علی کو زمین کا وارث بنا دیااور نیک اور اچھی عاقبت متقیوں کے لئے

۴۶۲

ہے۔(۱)

اس موقع پر اشعث کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا لہذا مجبوراً اس حاکم کی اطاعت کرنے کی بنا پر جنھیں مہاجر و انصار نے منتخب کیاتھا۔ مختصر طور پر ان کے بارے میں کچھ بیان کرے، لہذا وہ اٹھا اور کہنے لگا:

اے لوگو! عثمان نے اس علاقے (آذربائیجان) کی حاکمیت مجھے دی تھی وہ قتل ہوگئے حکومت میرے ہاتھ میں تھی اور لوگوں نے علی کی بیعت کی ان کی اطاعت ہمارے لئے ایسی ہی ہے جس طرح سے ہماری اطاعت پچھلے والوں کے ساتھ تھی، تم نے طلحہ و زبیر سے متعلق ماجراسنااور جو کچھ ہم سے پوشیدہ ہے ان امور میں علی مورد اعتماد ہیں۔(۲)

حاکم نے اپنی بات ختم کی اور اپنے گھر چلا گیا اور اپنے دوستوں ، چاہنے والوں کو بلایا اور کہا:

علی کے خط نے مجھے وحشت میں ڈال دیاہے وہ آذربائجان کی دولت و ثروت کو ہم سے لے لیں گے، لہذا ہمارے لئے بہتر ہے کہ ہم معاویہ سے ملحق ہو جائیں، مگر حاکم کے مشاوروں نے اس

کی مذمت کی، اور کہا: تمہارے لئے موت اس کام سے بہتر ہے کیا تم اپنے قبیلہ اوردیار کو چھوڑ دو گے اور شامیوں کی طرف جاؤ گے؟ اس نے مشاوروں کی بات کو تسلیم کرلیا، اور اپنے روابط کو مستحکم کرنے کے لئے کوفہ روانہ ہوگیا۔(۳)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین، ص ۲۱، الامامة و السیاسة، ج۱، ص ۸۳۔ (۱) الامامة و السیاسة، ج۱، ص ۸۴۔ ۸۳، وقعۂ صفین، ص ۲۱۔

(۲) الامامة و السیاسة، ج۱، ص ۸۲۔

۴۶۳

بارہویں فصل

جنگ صفین کے علل و اسباب

امام ـ کا پیغام معاویہ کے نام

حضرت امیر المومنین ـ کی الہی و حقیقی حکومت قائم ہونے اور متقی و پرہیزگار حاکموں کو منصوب کرنے اور غیر متدین حاکموں کے معزول کرنے کے بعد سب سے اہم کام یہ تھا کہ امام ـ شجرۂ خبیثہ کے ریشہ کو شام کی سرزمین سے اکھاڑ پھینکیں ، اور جامعہ اسلامی سے اس کے شر کو ختم کردیں، یہ ارادہ اس وقت اورقطعی ہوگیاجب ہمدان کے حاکم جریر کوفہ پہونچ گئے اور جب امام ـ کے ارادے سے باخبر ہوئے تو امام سے درخواست کی مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کا پیغام لے جاؤں اس نے کہا: معاویہ سے میری دوستی بہت پرانی ہے میں اس سے کہوں گا کہ آپ کی حقیقی حکومت کو رسمی طور پر پہچانے اور جب تک خدا کی اطاعت کرے گا اس وقت تک شام کا حاکم رہے گا۔

امام ـ نے اس کی آخری شرط کو سن کر خاموشی اختیار کی اور کچھ نہیں کہا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ جریر کے اندر اس کام کو انجام دینے کی صلاحیت نہیں ہے مالک اشتر نے امام ـ کی طرف سے نمائندگی اختیار کرنے پر جریر کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ معاویہ کے ساتھ ملا ہوا ہے لیکن امام ـ ان کی رائے کو نظر انداز کر کے جریر کو اس کام کے لئے چنا،(۱) اور آئندہ اس نے حضرت کے انتخاب کوصحیحثابت کردیا، جب امام ـ نے جریر کو روانہ کیا تو اس سے فرمایا، تم نے دیکھا ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام اصحاب جو سب کے سب متدین ہیں میرے ساتھ ہیں۔ پیغمبر نے تجھے یمن کا ایک بہترین شخص کہا ہے تم میرا خط لے کر معاویہ کے پاس جاؤ اگر ان چیزوں پر جس میں مسلمانوں کا اتفاق ہے داخل ہوا تو بہتر ہے اور اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اس سے کہو کہ اب تک جو خاموشی تھی اب وہ خاموشی ختم ہو جائے گی(۲) اور یہ بات اس تک پہونچا دو کہ میں ہرگز اسکے

_______________________________

(۱) تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۵ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۸۴ (مطبوعہ بیروت) کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۴۱؛ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۳، ص ۷۴۔

(۲) حاکم اسلامی کو چاہئے کہ اعلان جنگ سے پہلے متوجہ کرے کہ جتنی بھی سابقہ امانتیں موجود ہیں وہ ختم ہوگئیں ہیں ، قرآن کریم نے اس مسئلہ کو صراحت سے بیان کیا ہے :''و اما نخافنَّ من قوم خیانة فانبذ الیهم علی سوائ'' سورۂ انفال، آیت ۵۸۔

۴۶۴

حاکم ہونے پر راضی نہ تھا۔ اور لوگ بھی اس کی جانشینی پر راضی نہیں ہوںگے۔(۱)

جریر امام ـ کا خط لے کر شام روانہ ہوا، جب معاویہ کے پاس پہونچا تو اس سے کہا: علی کے ہاتھ پر مکہ، مدینہ ، کوفہ، بصرہ ،حجاز، یمن، مصر، عمان، بحرین اور یمامہ کے لوگوں نے بیعت کی ہے اور سوائے اس قلعہ کے کہ جس میں تو ہے کوئی باقی نہیں ہے ،اور اگر وہاں کے بیابانوں سے طوفان جاری ہو اتو سب کو غرق کردے گا میں تمہارے پاس اس لئے آیا ہوں کہ تجھے اس چیز کی دعوت دوں جس میں سچائی ہے اور اس شخص کی بیعت کی رہنمائی کروں۔(۲)

پھر اس نے امام ـ کا خط معاویہ کے حوالے کیا جس میں تحریر تھا:

مدینے میں (مہاجر و انصار کی میرے ہاتھ پر) بیعت نے شام میں تجھ پر حجت کو تمام کردیا ہے

اور تجھے میری اطاعت کرنے پر مجبور کیا ہے جن لوگوںنے ابوبکر ، عمر اور عثمان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی بالکل اسی طرح انہوں نے میری بھی بیعت کی ہے لہذا اس بیعت کے بعدنہ حاضرین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مخالفت کریںنہ ہی غائبین کو حق ہے کہ بیعت کو چھوڑ دیں۔شوریٰ (تمھاری رائے کے مطابق) مہاجرین و انصار کے حقوق میں سے ہے کہ اگر وہ لوگ کسی کی امامت پر متفق ہو جائیں اور اسے امام کا نام دیں تو یہ کام خدا کی مرضی کے مطابق ہے اور اگر کوئی ان کے فرمان و حکم کی مخالفت کرے یا تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کرے، تو اسے اس کی جگہ پر بٹھا دیتے ہیںاور اگر سرکشی کرے گا تو اس سے غیر مومنین کی راہوں کی پیروی کرنے کے جرم میں جنگ کرتے ہیں اور خدا اسے وسط راہ میں چھوڑ دیتا ہے اور قیامت کے دن جہنم میں ڈال دے گا اور واقعاً یہ کیسا مقدر ہے۔(۳)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۲۸۔ ۲۷ تاریخ طبری ج۵ ص ۲۳۵۔

(۲) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۸۴۷ ،شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۵، وقعۂ صفین ص ۲۸۔

(۳) اس آیت کی طرف اشارہ ہے: ''وَمَنْ یُشَاقِقْ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُ الْهُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَائَتْ مَصِیرًا ً '' (سورۂ نسائ، آیت ۱۱۵)

۴۶۵

طلحہ و زبیر نے میری بیعت کی پھر خود ہی بیعت کو توڑ دیا ،بیعت کو توڑنا بیعت کی مخالفت کرنا ہے (یعنی اے معاویہ تمھاری طرح) یہاں تک کہ حق آگیا اور خدا کا حکم کامیاب ہوا، میرے نزدیک بہترین کام تمھارے لئے سلامتی و عافیت ہے لیکن اگر تو نے خود کو بلا میںگرفتا رکیا تو تجھ سے جنگ کروں گا اور اس راہ میں خدا سے مدد طلب کروں گا، عثمان کے قاتلوں کے بارے تو نے بہت کچھ کہا تم بھی اسی چیز میں داخلہو جاؤ جس میں سارے مسلمان داخل ہوئے ہیںاور اس وقت مجھے کوئی واقعہ نہ سناؤ میں تمام لوگوں کو خدا کی کتاب کا پابند کروں گا (جو تو یہ کہہ رہا ہے کہ میں پہلے عثمان کے قاتلوں کو تمھارے حوالے کروں تاکہ تو میری بیعت کرے) تمہاری یہ درخواست ایسی ہی جیسے بچے کو دودھ کے لئے دھوکہ دیا جائے، میں اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تم اپنی عقل کو کام میں لاؤ نہ کہ خواہشات نفس کو، تو مجھے عثمان کے خون کے متعلق پاکیزہ فرد پاؤ گے اور یہ بھی جان لو کہ تم اسلام کے قیدی بننے کے بعد طلقاء اور آزادہ شدہ لوگوں میں سے ہو اور ایسے لوگوں کے لئے خلافت حلال نہیں ہے اور شوریٰ کا ممبر بنے کا بھی حق نہیں ہے ،میں نے تمہارے پاس یا جو لوگ تمہاری طرح دوسرے کاموں میں مشغول ہیں۔ ان کی طرف اپنے نمائندے جریر بن عبد اللہ جو کہ مومن و متدین ہیں روانہ کیا ہے تاکہ بیعت کرو اور اپنی وفاداری کا

۴۶۶

اعلان کرو۔(۱)

شام میں امام ـ کا نمائندہ

انسان کا نمائندہ اور سفیراس کی شخصیت کو اجاگر کرتا ہے اور اس کا مناسب انتخاب اس کی عقل کا مل کی حکایت کرتا ہے لہذا زمانہ قدیم کے بہت ہی عمیق مفکروں نے کہا ہے:

''حُسنُ الانتخابِ دلیلُ عقلِ المرئِ و مبلغُ رشدِہ''

یعنی اچھی چیز کا انتخاب انسان کی عقلمندی کی دلیل اور اس کے فکر کی میزان ہے۔

امام ـ نے معاویہ کی معزولی کا فرمان بھیجنے کے لئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جو سیاسی اور حکومتی مسائل میں مہارت رکھتا تھا۔ اور معاویہ کو اچھی طرح سے پہچانتا تھا اور خود ایک شعلہ ورخطیب تھا اور یہ شخص جریر بن عبد اللہ بجلی تھا(۲) اس نے امام ـ کا خط معاویہ کو ایک عمومی جگہ پر دیا اور جب وہ خط پڑھ چکا توجریر

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۳۰۔ ۲۹، الامامة و السیاسة ج۱ ص ۸۵۔ ۸۴، عقد الفرید ج۴ ص ۳۲۲، تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۵ (مطبوعہ لیدن) ۔ ابن عساکر تاریخ دمشق میں معاویہ کے حالات کی شرح کرتے وقت اور مرحوم شریف رضی نے نہج البلاغہ میں اس خط کے ابتدائی حصے کو خذف کردیا ہے۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۶۔

(۲) اگرچہ وہ بعد میں اپنے وظیفے کی انجام دہی میں سستی اور کاہلی کی وجہ سے متہم تھا مگر اسکا جرم ثابت نہ تھا اور ہم اسکے بارے میں گفتگو کریں گے۔

۴۶۷

امام ـ کے ترجمان کے طور پر اپنی جگہ سے اٹھا اور ایک بہت ہی عمدہ اور دل کو لبھا دینے والا خطبہ پڑھا اور اس خطبے میں خدا کی حمد وثناء اور محمد و آل محمد پر درود کے بعد کہا:

عثمان کے کام (پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے ذریعہ عثمان کا قتل ہونا) نے مدینہ میں حاضر رہنے والے لوگوں کو عاجز و ناتوان کردیاہے ان لوگوں کی کیا بات جو واقعہ کے وقت موجودنہ تھے اور لوگوں نے علی کے ہاتھ پر بیعت کی اور طلحہ و زبیر بھی ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ،لیکن بعد میں بغیر کسی دلیل کے اپنی بیعت کو توڑ دیا ،اسلام کا قانون فتنوں کو برداشت نہیں کرتا عرب کے لوگ تلوار کو برداشت نہیں کرتے ابھی بصرہ میں غم انگیز واقعہ رونما ہوا ہے کہ اگر یہ دوبارہ واقع ہو جائے تو کوئی بھی باقی نہ بچے گا جان لو کہ تمام لوگوں نے علی کی بیعت کی ہے اور اگر خدا نے اس کام کی ذمہ داری ہمارے حوالے کی ہوتی تو ہم بھی ان کے علاوہ کسی کو منتخب نہ کرتے ، اور جو لوگ بھی عمومی انتخاب کی مخالفت کریں گے ان کو متنبہ کیا جائے گا، (کہ وہ بھی لوگوں کے منتخب کردہ حاکم کو قبول کریں)۔

اے معاویہ جس طریقے سے لوگ اسلام میں داخل ہوئے ہیں تو بھی اسی طرح داخل ہو جا، اور علی کو مسلمانوں کا رہبر مان لے، اگر تو یہ کہے کہ عثمان نے مجھے اس منصب و مقام پر معین کیا ہے اور ابھی تک معزول نہیں کیا ہے تو یہ ایسی بات ہے کہ اگر اسے مان لیا جائے تو خدا کے لئے کوئی دین باقی نہیں بچے گا، اور ہر شخص کے ہاتھ میں جو کچھ بھی ہے اسے مضبوطی سے پکڑ لے گا۔(۱)

جب امام ـ کے نمائندے کی تقریر ختم ہوئی تو اس وقت معاویہ نے کہا، صبر کرو تاکہ میں شام

کے لوگوں سے مشورہ کروں اور پھر نتیجے کا اعلان کروں۔(۲)

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۸۵، وقعۂ صفین ص ۳۱۔ ۳۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۷۔ ۷۶۔

(۲) شرح نہج البلاغہ، ج۳، ص ۷۷۔

۴۶۸

امام ـ کا بیعت لینے کا مقصد معاویہ کو معزول کرنا تھا

امام ـ نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں سے ہی کبھی بھی کسی سے بیعت لینے کے لئے اصرار نہیں کیا۔ تو پھر معاویہ سے بیعت لینے کے لئے اتنا اصرار کیوں کیا؟ اس کی علت یہ تھی کہ آپ اس سے بیعت لے کر منصب سے معزول کرنا چاہتے تھے تاکہ مسلمانوں کے مال و حقوق کو اس سے واپس لے لیں؛ کیونکہ جن لوگوں نے حضرت علی ـ کے ہاتھ پر مسلمانوں کے امام کے اعتبار سے بیعت کی تھی ان لوگوں نے شرط رکھی تھی کہ آپ مسلمانوں کی وضعیت کو پیغمبر کے زمانے کی طرح دوبارہ واپس لائیںگے۔ اور ان کی مصلحتوں اور اسلام کو ترقی عطا کرنے میں کوتاہی نہ کریںگے، معاویہ جیسے افراد کی موجودگی ایسے کاموں کے لئے رکاوٹ تھی، اصل میں عثمان کے خلاف انقلاب اسی لئے برپا ہوا تھا کہ پچھلے تمام حاکم اور سردار اپنے منصب سے برطرف ہو جائیں اور دنیا پرست اور مالدار لوگ مظلوموں کا حق لوٹنے سے باز آجائیں۔

۴۶۹

معاویہ کی جانب سے شامیوںکو اس قضیہ سے آگاہ کرنا

ایک دن دربار معاویہ کے منادی نے شام کے کچھ گروہوں کو مسجد میں جمع کیا، معاویہ مبنر پر گیا اور خدا کی حمد و ثنا کی اور سر زمین شام کے صفات اس طرح بیان کئے کہ خدا نے اس سرزمین کو پیغمبروں اور خدا کے صالح بندوں کی زمین قرار دیا ہے اور اس زمین پر بسنے والوں کی ہمیشہ مدد کی ہے اس کے بعد کہا:

(اے لوگو) تمھیں معلوم ہے کہ میں امیر المومنین عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان کا نمائندہ

ہوں، میں نے کسی کے ساتھ کوئی ایساکام نہیں کیا کہ میں اس سے شرمندہ ہو ں۔ میں عثمان کا ولی ہوں، جو مظلومیت کے ساتھ مارا گیا ہے اور خدا کہتا ہے کہ ''جو شخص مظلوم قتل ہوگا میں اس کے ولی کو طاقت وقوت عطا کروں گا، لیکن قتل کرنے میں اسراف نہ کرو؛ کیونکہ قتل ہونے والا خدا کی طرف سے مدد پاتا ہے۔(۱)

پھر اس نے کہا کہ میں چاہتا ہوں عثمان کے قتل کے بارے میں تم لوگوں کا نظریہ معلوم کروں۔

اس وقت مسجد میں موجود سبھی لوگ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے، ہم لوگ عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔

پھر لوگوں نے اس کام کے لئے اس کے ہاتھ پر بیعت کی اور سب نے ایک آواز ہو کر کہا کہ ہم سب اس راہ میں اپنی جان و مال قربان کردیں گے۔(۲)

معاویہ کی گفتگو کا ایک جائزہ

۱۔ معاویہ نے شام کی سرزمین کو انبیاء کی سرزمین اور شام کے لوگوں کو خدا کی شریعت و دین کا دفاع کرنے

_______________________________

(۱) سورۂ اسرائ، آیت ۳۳۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۸۔ ۷۷، وقعۂ صفین ص ۳۲۔ ۳۱۔

۴۷۰

والا بتایا تاکہ اس کے ذریعے وہ خود کو الہی قانون کا دفاع کرنے والا ثابت کرسکے اور لوگوں کے احساسات و جذبات سے فائدہ اٹھائے اور تمام لوگوں کو آپسی جنگ کے لئے تیار کرے۔

۲۔مقتول خلیفہ کو مظلوم بتایاکہ ان کا خون ظالموں کے گروہ نے بہایا ہے جب کہ ان کا قتل پیغمبر اسلام کے صحابہ اور تابعین کے ہاتھوں ہوا تھااور ان کی نظر میں صحابہ اور تابعین راہ حق کی پیروی کرنے والے اور عادل و انصاف پسند ہیں۔

۳۔ اگرہم فرض کریں کہ عثمان مظلوم قتل کئے گئے لیکن ان کا ولی قاتلوں کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے اور''ولی الدم'' سے مراد مقتول کے مال کا وارث ہے ،توکیا معاویہ ان کے مال کا وارث تھا یا کسی قریبی وارث ہونے کی وجہ سے اس کی نوبت نہیں آتی؟ یہ بات صحیح ہے کہ عثمان عفان کا بیٹا اور وہ ابو العاص بن امیہ کا بیٹا اور معاویہ ابوسفیان کا بیٹا اور وہ حرب بن امیہ کا بیٹا تھا۔ اور سب کا سلسلہ امیہ تک پہونچتا ہے لیکن کیا یہ دوری رشتہ، نزدیکی رشتہ داروں کے باوجود بھی کافی تھا، کہ معاویہ نے اپنے کو عثمان کے خون کا ولی بتایا؟

امیر المومنین ـ اپنے خط میں معاویہ کو لکھتے ہیں:

''انّما انتَ رجل من بنی امیه و بنو عثمان اولی بذالک منک'' (۱)

تم امیہ کی اولاد سے ہو اور عثمان کے بیٹے اپنے باپ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے تم سے اولیٰ ہیں۔

یہ سب ایسے سوالات ہیں کہ جن کا جواب ابوسفیان کے بیٹے کے ضمیر کا پردہ فاش کردیں گے، اور یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ عثمان کے خون کا مسئلہ نہ تھا، بلکہ حکومت پر قبضہ کر کے امام کو اس سے دور کرنا تھا کہ جس کے ہاتھوں پر مہاجرین و انصا رنے بالاتفاق بیعت کیا تھا اور سب سے زیادہ تعجب کی بات اس کا لوگوں سے مشورہ کرنا ہے، وہ جب لوگوں سے اس سلسلے میں مشورہ لے رہا تھا اسی وقت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اپنی قطعی رائے بھی پیش کی تھی او راس پر بہت سنجیدہ تھااس طرح کی صحنہ سازی کی روایت قدیمی ہے اور زبردستی اپنی بات منوانے کو ''مشورہ'' کانام دیاجاتا ہے ۔

تاریخ لکھتی ہے: اگرچہ معاویہ نے لوگوں کا مثبت جواب سنا،مگر اس کے دل میں خوف طاری

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین، ص ۵۸، الامامة والسیاسة، ج۱، ص ۹۲۔ ۹۱۔

۴۷۱

تھا اور کچھ اشعاروہ خود بخود پڑھ رہا تھا، جس کا آخری شعر یہ ہے:

و انی لارجوا خیر ما نال نائل

و ما أنا من ملک العراق بائس(۱)

میں ایک بہترین چیز کا امیدوار ہوں ، کہ امید خود اس کی امید وار ہے اور میں ملک عراق سے مایوس نہیں ہوں۔

اس نے اپنے اس مقصد تک پہونچنے کے لئے اپنے لالچی ساتھیوں کو بلایا اور اسی میں سے عتبہ بن ابوسفیان نے اس سے کہا: علی کے ساتھ اگر جنگ کرنا ہے تو اس کے لئے عمرو عاص کو بھی باخبر کرو اور اس کے دین کو خرید لو، کیونکہ وہ ایسا شخص ہے کہ عثمان کی حکومت سے بھی دور رہا، اور طبیعی ہے کہ تمہاری حکومت سے تو بہت دور رہے گا، مگر یہ کہ اسے درہم و دینار دے کر راضی کرلو۔(۲)

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۸۔

(۲) وقعۂ صفین ص ۳۳، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۷۹۔

۴۷۲

تیرہویں فصل

حضرت علی ـ سے مقابلے کے لئے معاویہ کے اقدامات

معاویہ کا خط عمرو عاص کے نام

عمرو عاص جو کہ میدان سیاست کا ایک چالاک بھیڑیا تھا او راس وقت مشہورومعروف فلسطین میںگوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا تھا معاویہ نے اس کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے اسے اس مضمون کا خط لکھا:

''علی اور طلحہ و زبیر کا واقعہ تونے سنا ہے ،مروان بن حکم بصرہ کے کچھ لوگوں کے ہمراہ شام آیا ہے اور جریر بن عبد اللہ علی کی طرف سے نمائندہ بن کر بیعت لینے کے لئے شام آچکا ہے میں نے ہر طرح کا فیصلہ کرنے سے پرہیز کیا ہے تاکہ تمہارا نظریہ معلوم کروں جتنی جلدی ہو شام آجاؤ تاکہ اس سلسلے میں رائے و مشورہ کیا جائے۔(۱)

جب یہ خط عمرو کے پاس پہونچا تو اس نے اس خط کے مفہوم کو اپنے دونوں بیٹوں عبد اللہ اور محمد کو بتایا، اور ان سے ان کا نظریہ معلوم کیا اس کا بڑا بیٹا جو تاریخ میں اچھے نام سے مشہور ہے (و اللہ اعلم) اس کا کہنا تھا:

جب تک رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے بعد کے دو خلیفہ زندہ تھے سب کے سب تم سے راضی تھے اور جس دن عثمان کا قتل ہوا اس دن تم مدینہ میں نہ تھے۔ اس وقت کتنا بہتر ہے کہ تم خود اپنے گھر میں بیٹھتے اور بہت کم منافع حاصل کرنے کے لئے معاویہ کی حاشیہ نشینی چھوڑ دیتے، کیوں کہ خلافت تمہیں ہرگز نہیں مل سکتی، اور قریب ہے کہ تمہاری عمر کا سورج غروب ہو جائے اور زندگی کے آخری مرحلے میں بدبخت ہو جاؤ۔

لیکن اس کے دوسرے بیٹے نے اپنے بڑے بھائی کے خلاف نظریہ پیش کیا کہ معاویہ کی دعوت کو قبول کرے اور کہا : تم قریش کے بزرگوں میں سے ہو اور اگر اس امر میں خاموشی اختیار کر کے بیٹھ گئے تو لوگوں کی

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ص ۸۴، وقعہ صفین ص ۳۴۔

۴۷۳

نگاہوں میں تم ایک معمولی شخص رہوگے، اور حق شام کے لوگوں کے ساتھ ہے ان کی مدد کرو اور عثمان کے خون کا بدلہ لو اور ایسی صورت میں بنی امیہ اس کام کے لئے قیام کریں گے۔

عمرو عاص جو ایک ہوشیار و چالاک شخص تھا اس نے عبد اللہ کو مخاطب کر کے کہا کہ تمہارا نظریہ میرے دین کے نفع میں ہے،جب کہ محمد کا نظریہ میرے دنیاوی فائدے کے لئے ہے اس سلسلے میں میں غور و فکر کروں گا، پھر اس نے کچھ اشعار پڑھا اور دونوں بیٹوں کے نظریات کو شعری انداز میں بیان کیا ،اس کے بعد اپنے چھوٹے بیٹے وردان کے سے پوچھا: اس نے کہا کیا آپ چاہتے ہیں کہ جو کچھ آپ کے دل میں ہے اس کے بارے میں خبر دوں؟ عمرو نے کہا: بتاؤ تم کیا جانتے ہو اس نے کہا: دنیا و آخرت نے تمہارے دل پر حملہ کردیا ہے علی کی پیروی آخرت کے لئے سعادت کا باعث ہے جب کہ ان کی پیروی دنیاوی نہیں ہے لیکن آخرت کی زندگی دنیا کی ناکامیوں کے لئے قابل تلافی ہے، جب کہ معاویہ کا ساتھ دینے میں دنیا ملے گی مگر آخرت سے محرومی ہوگی، اوردنیا کی زندگی آخرت کی سعادتوں کے لئے قابل تلافی نہیں ہے اس وقت تم ان دونوں کے درمیان کھڑے ہو اور تمہاری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کس کا انتخاب کرؤ۔

عمرو نے کہا: تم نے بالکل صحیح کہا ہے۔ اب بتاؤ کہ تمہارا نظریہ کیا ہے؟

اس نے کہا: اپنے گھر میں خاموشی سے بیٹھ جاؤ۔ اگر دین کامیاب ہوگیا تو تم اس کے سائے میں زندگی بسر کرنا اور اگر اہل دنیا کامیاب ہوئے تو وہ لوگ تم سے بے نیاز نہیں ہیں۔

۴۷۴

عمرو نے کہا: کیا اب اس وقت گھر میں بیٹھوں جب کہ معاویہ کے پاس میرے جانے کی خبر پورے عرب میں پھیل چکی ہے۔(۱)

وہ اندرونی طور پر ایک دنیا پرست انسان تھا ،لہذا معاویہ کا ساتھ دیا لیکن اپنے چھوٹے بیٹے کی گفتگو کو شعری قالب میں ڈھال دیا:

اما علی فدین لیس یشرکه

دنیا و ذاک له دنیا و سلطان

فاخترت من طمعی دنیا علی بصرٍ

و ما معی بالذی اختار برهان(۲)

علی کی پیروی میں دین ہے لیکن دنیا نہیں ہے جب کہ معاویہ کی پیروی کرنے میں دنیا اور قدرت ہے۔

میں نے اپنی لالچ و آرزو کی وجہ سے حقیقت جانتے ہوئے دنیا کو اختیار کیا لیکن اس کے قبول کرنے کے لئے میرے پاس کوئی عذر یا حجت نہیں ہے، پھر وہ شام کی طرف روانہ ہوگیا اور اپنے پرانے اور قدیمی دوست کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے لگا اور امام علی ـ کو صفحہء ہستی سے مٹانے کے لئے ایک نقشہ تیار کیا جسے ہم بعد میں بیان کریں گے۔

_______________________________

(۱) الامامة والسیاسة، ص ۸۷۔

(۲) وقعۂ صفین، ص ۳۶۔

۴۷۵

دو کہنہ کار سیاستدانوں کی ہمکاری

بالآخر ''بنی سھم'' کا پرانا اور قدیمی سیاست دان اور اپنے زمانہ کا معروف و مشہور عمرو عاص نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دیا اور فلسطین سے شام کی طرف روانہ ہوگیا تاکہ اس ضعیفی اور بڑھاپے میں دوسری مرتبہ مصر کا حاکم بن جائے۔وہ خوب جانتا تھا کہ معاویہ کو اس کی دور اندیشی اور تدابیر کی ضرورت ہے لہٰذا اس نے سوچاکہ اس کی مددکرنے کے بدلے اس سے زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرے(۱) اور گفتگو کے دوران مطالب کو وقفہ ، و قفہ سے بیان کیا تاکہ معاویہ کی فکر و نظر کو اپنی طرف جذب کر لے۔

گفتگو کی پہلی نشست میں معاویہ نے تین مشکلیں بیان کیں جن میں ایک یہ تھی کہ علی ـ کی سر زمین شام پر حملہ کرنے کے ارادے نے تمام چیزوں سے زیادہ میرے ذہن کوالجھن میں ڈال دیاہے یہاں ہم بغیر کسی کمی و زیادتی کے ان دونوں کی گفتگو کو نصر بن مزاحم کی ''تاریخ صفین'' سے نقل کر رہے ہیں۔

معاویہ : کافی دنوں سے تین چیزوں نے میرے ذہن و فکر کو اپنی طرف مشغول کر رکھا ہے اور میں مسلسل اس بارے میں سوچ رہا ہوں، تم سے درخواست ہے کہ اس مسئلہ کا کوئی حل پیش کرو۔

عمرو عاص : وہ تینوں مشکلیں کیا ہیں؟

معاویہ: محمد بن ابی حذیفہ نے مصر کا قید خانہ توڑ ڈالا ہے اور وہ دین کے لئے آفت ہے (یعنی حکومت معاویہ کیلئے)

(وضاحت: عثمان کی خلافت کے زمانے میں مصر کے تمام امور کی ذمہ داری عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح پر

_______________________________

(۱)الامامةوالسیاسة،ج۱،ص۸۷۔

۴۷۶

تھی اور محمد بن ابی حذیفہ ان لوگوں میں سے تھا جس نے لوگوں کو حاکم مصر کے خلاف بغاوت کے لئے آمادہ کیا تھا عثمان کے قتل کے بعد اس کا حاکم لوگوں کے خوف سے مصر چھوڑ کر چلا گیا اور اپنی جگہ پر اپنے نمائندے کو منصوب کردیا، لیکن ابو حذیفہ کے بیٹے نے حاکم کے نمائندے کے خلاف لوگوں کو تشویق و رغبت دلائی اور بالآخر اسے مصر سے نکال دیا اور خود وہاں کی ذمہ داریوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ حضرت علی ـ کی خلافت کے ابتدائی دور میں مصر کی حاکمیت قیس بن سعد کو دی گئی اور محمد کو

معزول کردیاگیا، جب معاویہ نے مصر پر قبضہ کیا تو محمد کو قید خانے میں ڈال دیا لیکن وہ اور اس کے ساتھی کسی صورت سے قید خانے سے بھاگ گئے،(۱) جی ہاں، محمد بن ابی حذیفہ بہت زیادہ فعال اور حادثہ کا ایجاد کرنے والا تھا، اور وہ معاویہ کا ماموں زاد بھائی تھا)۔

عمرو عاص: اس واقعہ کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے تم ایک گروہ کو بھیج کر اسے قتل کرواسکتے ہو یا وہ لوگ قید کر کے زندہ تیرے حوالے کرسکتے ہیں ، لیکن اگر یہ لوگ اسے گرفتار نہ کرسکے تو وہ اتنا خطرناک نہیں ہے کہ تمہاری حکومت کو تم سے چھین لے۔

معاویہ: قیصر روم، رومیوں کے گروہ کے ساتھ شام کی طرف چلنے والا ہے تاکہ شام کی حکومت ہم سے واپس لے لے۔

عمرو عاص: قیصر روم کی مشکلات کو ہدیہ وغیرہ مثلاً روم کے غلاموں اور کنیزوں اور سونے چاندی کے برتن وغیرہ بھیج کر دور کرو، اور اسے صحت و سلامتی کی زندگی دے کر دعوت کرو کہ عنقریب وہ اس کام میں شریک ہوگا۔

معاویہ: علی نے کوفہ میں قیام کیا ہے اور شام کی طرف بڑھ رہے ہیں اس مشکل کے بارے میں تمہارا کیا نظریہ ہے؟

عمرو عاص: عرب ہرگز تجھے علی جیسا نہیں سمجھتے ، علی جنگ کے تمام رموز و اسرار سے آشنا ہیں اور قریش میں ان کی مثال نہیں ہے، وہ اس حق کی بنا پر صاحب حکومت ہیں جو ان کے ہاتھ میں ہے مگر یہ کہ تم

ان پر ظلم و ستم کرو اور ان کے حق کو سلب کرلو۔

_______________________________

(۱) اسد الغابہ، ج۴، ص ۳۱۶۔ ۳۱۵۔

۴۷۷

معاویہ: میں چاہتا ہوں کہ تم اس سے جنگ کرو کہ اس نے خدا کی نافرمانی کی ہے اور خلیفہ کو قتل کردیا ہے اور فتنہ پیدا کردیا اور اتحاد کو درہم برہم کردیا اور رشتہ داری کو توڑ دیا ہے۔

عمرو عاص: خدا کی قسم، تم اور علی ہرگز شرف و فضیلت میں برابر نہیں ہو تم نہ ان کی ہجرت کی فضیلت رکھتے ہو نہ ان کے دیگرسوابق کی فضیلت رکھتے ہو، نہ ان کی طرح تم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رہے ہو نہ تم نے ان کی طرح مشرکوں سے جہاد کیا ہے نہ ان کی طرح تمہارے پاس عقل و دانش ہے ، خدا کی قسم علی کی فکر بہت عالی ، ذہن بہت صاف اور وہ ہمیشہ سعی وکوشش میں رہے ہیں، وہ با فضیلت اور سعادت مند اور خدا کے نزدیک کامیاب انسان ہیں، ایسے بافضیلت شخص کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے مجھے کیا قیمت دو گے کہ میں تمہارا ساتھ دوں؟ تمہیں معلوم ہے کہ اس ہمکاری میں کتنے خطرے موجود ہیں۔

معاویہ: تمہیں اختیار ہے، تمہیں کیا چاہئے؟

عمرو عاص: مصر کی حکومت۔

معاویہ: (جب کہ وہ دھوکہ کھا چکا تھا) اس نے مکاری کے طور پر دنیا و آخرت کے مسئلے کو سامنے رکھا، اور کہا: میں نہیں چاہتا کہ عرب تمہارے بارے میں اس طرح کی فکر کریں کہ تم دنیاوی غرض کے لئے ہمارے ساتھ جنگ میں شامل ہوئے ہو، کتنا اچھا ہوگا کہ وہ لوگ یہ کہیں کہ تم نے خدا کی مرضی اور آخرت کی اجرت لینے کے لئے ہمارا ساتھ دیا، اور کبھی بھی دنیا کی معمولی اور چھوٹی چیز آخرت کے اجر کے برابر نہیں ہو سکتی۔

عمرو عاص: ان بے ہودہ باتوں کا ذکر نہ کرو۔(۱)

معاویہ: میں اگر تجھے دھوکہ دینا چاہوں تو دے سکتا ہوں۔ عمرو عاص: مجھ جیسا آدمی دھوکہ نہیں کھا سکتا، میں اس سے بھی زیادہ چالاک ہوں جتنا تم سوچ رہے ہو۔

معاویہ: میرے نزدیک آؤ تاکہ تم سے اصلی راز بیان کروں۔

_______________________________

(۱) ابن ابی الحدید اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ، ج۲، ص ۶۵، مطبوعہ مصر، میں لکھتا ہے: میں نے اپنے استاد ابو القاسم بلخی سے کہا کہ یہ عمرو عاص کی گفتگو آخرت پر ایمان نہ رکھنے اور اس کے بے دینی کی وجہ سے نہیں ہے؟ انھوںنے جواب دیا: عمرو عاص نے اصلا ًاسلام قبول ہی نہیں کیا تھا، اور اپنے کفر پر باقی تھا۔

۴۷۸

عمرو عاص اس کے قریب گیا اور اپنے کان کو معاویہ کے منھ کے پاس لے گیا تاکہ اس کے اصلی راز کو سنے ،اچانک معاویہ نے اس کے کان کو زور سے دانتوں میں دبا لیا کہا: کیا تم نے دیکھا میں تم کو دھوکہ دے سکتا ہوں، پھر اس نے کہا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ مصر عراق کی طرح ہے اور دونوں بڑے شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔

عمرو عاص: ہاں میں جانتا ہوں، لیکن عراق تمہارے قبضے میں اسی وقت ہوگا جس وقت مصر پر میرا قبضہ جب کہ عراق کے لوگوں نے علی کی اطاعت کی ہے اور ان کی رکاب میں رہتے ہوئے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں ۔

اس موقع پر جب کہ دو سوداگر بحث و مباحثہ میں غرق تھے معاویہ کا بھائی عتبہ بن ابوسفیان وہاں آ پہونچا اور کہا: عمرو کو مصر کی سرزمین دے کر کیوں نہیں خرید لیتے؟ کاش کہ یہی حکومت شام تمہارے لئے باقی رہے اور کوئی دوسرا اس میں مداخلت نہ کرے۔ اس وقت اس نے کچھ شعر کہا اور اس میں عمرو عاص کی معاویہ کے ساتھ نصرت و مدد کو ظاہر کیاجس کا ایک شعر یہ ہے:

اعط عمرواً ان عمرواً تارک

دینه الیوم لدنیا لم تجز(۱)

جو کچھ عمرو کی خواہش ہے اسے دیدو، اس نے آج اپنے دین کو دنیا کے لئے چھوڑ دیا ہے۔

بالآخر معاویہ نے سوچاکہ جیسے بھی ممکن ہو عمرو کی مدد کو اپنی طرف جذب کرے اور اس کی خواہش کو پورا کرے، لیکن عمرو اس کے مکر و فریب کی وجہ سے مطمئن نہیں تھا۔ اس نے یہ سوچا کہ کہیںایسا نہ ہو کہ معاویہ مجھ سے ایک کامیابی کی سیڑھی کی طرح استفادہ کرے اور کام ختم ہوتے ہی اسے اپنے سے دور کردے، لہذا اس نے معاویہ کو متوجہ کرتے ہوئے کہا ضروری ہے کہ اس تعہد اور معاملے کو کاغذ پہ لکھا جائے اور اس کے متعلق شرائط لکھی جائیں اور دونوں آدمی اپنے اپنے دستخط کریں۔

_______________________________

(۱) رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی تقریر میں ایک شرعی مسئلہ کی طرف یاد دہانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لاتبع ما لیس عندک'' یعنی جس چیز کے تم مالک نہیں ہو اسے نہ بیچو، اب اس وقت یہ دیکھنا ہے کہ عمرو نے مصر کی حکومت کے مقابلے میں کیا چیز بیچی ہے اور کس چیز کواپنے ہاتھوں سے گنوا دیا ہے وہ بقولے ابن ابی الحدید ، معاویہ سے معاملہ کرتے وقت بھی بے دین و بے ایمان تھا اور حقیقتاً اس معاملہ کو بھی اس مکر و فریب کے ذریعے انجام دیا تھا ، اور بغیر کسی اجرت کے مصر کی حکومت کو خرید لیاتھا۔

۴۷۹

تعہد نامہ لکھا گیا اور دونوںنے اپنے دستخط کیا لیکن دستخط کرنے والوں نے اپنے دستخط اور مہر کے سامنے ایک ایک جملے کا اضافہ کیااور اپنے فریب و نفاق کو ظاہر کردیا۔ معاویہ نے اپنے نام کے پاس لکھا:علیٰ ان لا ینقض شرط طاعةً '' یعنی ، یہ تعہد اس وقت تک معتبرہے جب تک شرط کرنے والااطاعت کو نہ توڑے، عمرو نے بھی اپنے نام اور مہر کے آگے ایک جملے کا اضافہ کیا،علیٰ ان لا تنقض طاعة شرطاً، (۱) یعنی شرط یہ ہے کہ اطاعت کرنے والا شرط کو نہ توڑے۔

ان دونوں نے یہ دو قیدیں لگا کر ایک دوسرے کو دھوکہ دیا اور خلاف ورزی کے راستے کو آشکار کردیا، کیونکہ اس قید کے لگانے سے معاویہ کا مقصد یہ تھا کہ عمرو نے بغیر کسی شرط و قید کے مطلقاً معاویہ کی بیعت کی ہے اور اگر معاویہ اسے مصر کی حکومت نہ دے تو اس کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس وجہ سے کہ معاویہ نے اپنے عہد و شرط کی وفا نہیں کی ہے اس بہانے سے اپنی بیعت توڑ دے، لیکن جب اس کا قدیمی دوست معاویہ کے اس مکر وفریب سے آگاہ ہوا تو اس نے اس راہ ہموار پر روک لگادی اور لکھا کہ میری بیعت اس وقت تک معتبر ہے کہ معاویہ اپنی شرط (مصر کی حکومت) کو نہ توڑے اور معاویہ مصر کو عمرو کے حوالے کرے۔حقیقت میں دونوں سیاست کے میدان میں لومٹری صفت تھے اور کبھی بھی ان کے پاس نہ دینی تقویٰ تھا اور نہ ہی سیاسی تقویٰ تھا۔عمرو اس معاملے کے بعد پھولے نہیں سما رہا تھا، معاویہ کے گھر سے نکلا اور جو لوگ باہر اس کا انتظار کر رہے تھے ان سے ملاقات کی اوران کے درمیان درج ذیل سوالات و جوابات ہوئے:

عمرو کے بیٹے: بابا بالآخر کیا نتیجہ نکلا؟

عمرو: مجھے مصر کی حکومت دی ہے۔

عمر کے بیٹے: ملک عرب کی بہادری و طاقت کے مقابلے میں مصر کی حکومت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

عمرو: اگر سرزمین مصر سے تم سیر نہیں ہوئے تو خدا تمہیں کسی چیز سے سیر نہ کرے۔(۲)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۴۰۔

(۲) وقعۂ صفین، ص ۴۰۔ ۳۷، الامامة و السیاسة، ص ۸۸۔ ۸۷۔ (تھوڑے فرق کے ساتھ)

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809