فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362227 / ڈاؤنلوڈ: 6023
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

کذاوکذا سے بدل دیاہے جو غیر معروف اور غیر مشہور ہیں۔

ابن کثیر شامی جس کی تاریخ کی اساس تاریخ طبری ہے، لیکن جب اس سند تک پہونچا ہے تو تاریخ طبری کوچھوڑ کر طبری کی تفسیر کی روش کی پیروی کی اور وہ بھی مبہم اور مجمل طریقے سے ۔ ان تمام چیزوں سے بدتر و ہ تحریف ہے جسے اس زمانے کے روشن فکر اور مصر کے مشہور مورخ ڈاکٹر محمد حسنین ہیکل نے اپنی کتاب ''حیات محمد'' میں کیاہے اور خود اپنی کتاب کے معتبر ہونے پر سوالیہ نشان لگادیاہے۔

کیونکہ اولاً انھوں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو حساس جملے کو جودعوت کے آخر میں پیغمبر نے بعنوان سوال فرمایا تھا اس کو نقل کیا ہے لیکن اس دوسرے جملے کو جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی سے فرمایاتھا کہ تو میرا بھائی ،وصی اور میرا خلیفہ ہے کوبالکل حذف کردیا اور اس کا تذکرہ تک نہیں کیا۔

ثانیاً اپنی کتاب کے دوسرے اور تیسرے ایڈیشن میں اپنا تعصب کچھ اور بھی دکھایا اور اس حدیث کے پہلے حصے کو بھی حذف کردیا. گویا متعصب افراد نے انھیںاس پہلے جملے کو نقل کرنے پر ہی بہت ملامت کی،اور اس کتربیونت کی وجہ سے ناقدین تاریخ کو تنقید کا موقع دیا ، اور اپنی کتاب کے اعتبار کو گرا دیا ۔

۴۱

اسکافی کا بیان

اسکافی نے اپنی مشہور و معروف کتاب میں اس تاریخی فضیلت کا تذکرہ کیاہے کہ حضرت علی نے اپنے باپ، چچا اور بنی ہاشم کی بزرگ شخصیتوں کے سامنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عہد و پیمان باندھاکہ ہم آپ کی مدد کریں گے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں اپنا بھائی، وصی اور خلیفہ قرار دیا. اس کے متعلق وہ لکھتے ہیں :

''وہ افراد جو یہ کہتے ہیں کہ امام بچپن میں ہی صاحب ایمان تھے ،اوریہ وہ زمانہ ہوتا ہے کہ جب بچہ اچھے اور برے میںتمیز نہیں کرپاتا، اس تاریخی فضیلت کے سلسلے میں کیا کہتے ہیں؟!

کیا یہ ممکن ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) کثیر تعداد میں موجود افراد کے کھانے کا انتظام ایک بچے کے حوالے کریں؟ یاایک چھوٹے بچے کو حکم دیں کہ بزرگان کو کھانے پر مدعو کرے؟

کیایہ بات صحیح ہے کہ پیغمبر ایک نابالغ بچے کو راز نبوت بتائیں اور اپنے ہاتھ کو اس کے ہاتھ میںدیں اور اسے اپنا بھائی ، وصی اور اپنا خلیفہ لوگوںکے لئے معین کریں؟!

بالکل نہیں ! بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ حضرت علی اس دن جسمانی قوت اور فکری لحاظ سے اس حد پر پہونچ چکے تھے کہ ان کے اندر ان تمام کاموں کی صلاحیت موجود تھی یہی وجہ تھی کہ اس بچے نے کبھی بھی دوسرے بچوں سے انسیت نہ رکھی اورنہ ان کے گروہ میں شامل ہوئے اور نہ ہی ان کے ساتھ کھیل کود میں مشغول ہوئے، بلکہ جس وقت سے پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ نصرت و مدد اور فداکاری کا پیمان باندھا تو اپنے کئے ہوئے وعدے پر قائم و مستحکم رہے اور ہمیشہ اپنی گفتار کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار میں ڈھالتے رہے اور پوری زندگی پیغمبر(ص)کے مونس و ہمدم رہے۔

۴۲

وہ نہ صرف اس موقع پر پہلے شخص تھے جو سب سے پہلے پیغمبر اسلام(ص) کی رسالت پر اپنے ایمان کا اظہار کیا ،بلکہ اس وقت بھی جب کہ قریش کے سرداروں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا کہ اگر آپ اپنے وعدے میں سچے ہیں اور آپ کارابطہ خدا سے ہے تو کوئی معجزہ دکھائیں (یعنی حکم دیں کہ خرمے کا درخت یہاں سے اکھڑ کر آپ کے سامنے کھڑا ہوجائے) تو اس وقت بھی علی وہ واحد شخص تھے جو تمام لوگوںکے انکار کرنے کے باوجود اپنے ایمان کا لوگوں کے سامنے اظہار کیا۔(۱)

امیر المومنین علیہ السلام نے قریش کے سرداروں کے معجزہ طلبی کے واقعے کو اپنے ایک خطبہ میںنقل کیاہے. آپ فرماتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ان لوگوں سے کہا:اگر خدا ایساکرے تو کیا خدا کی وحدانیت اور میری رسالت پر ایمان لاؤ گے؟ سب نے کہا: ہاں یا رسول اللہ۔

اس وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دعا کی اور خدا نے ان کی دعا کو قبول کیااور درخت اپنی جگہ سے اکھڑ کر پیغمبر(ص) کے سامنے بڑے ادب سے کھڑا ہوگیا. معجزہ طلب کرنے والے سرداروں نے کفر و عناد و عداوت کی راہ اختیار کی اور تصدیق کرنے کے بجائے پیغمبر(ص) کو جادوگر کے خطاب سے نوازا ،اور میں پیغمبر(ص) کے پاس کھڑا تھا ،میں نے ان کی طرف رخ کر کے کہا: اے پیغمبر ! میں وہ پہلا شخص ہوںجوآپ کی رسالت پر ایمان لایا، اور میں اعتراف کرتا ہوں کہ درخت نے اس کام کو خدا کے حکم سے انجام دیاہے تاکہ آپ کی نبوت کی تصدیق کرے اور آپ کے قول کوسچا کر دکھائے۔

اس وقت میرا یہ اعتراف کرنا اور تصدیق کرنا ان لوگوں پر گراں گزرا، ان لوگوںنے کہا کہ تمہاری تصدیق علی کے علاوہ کوئی نہیں کرے گا۔(۲)

______________________

(۱) النقض علی العثمانیہ ص ۲۵۲، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۳ ص۲۴۴ و ۲۴۵، میں تذکرہ کیا ہے۔

(۲) نہج البلاغہ عبدہ، خطبہ ۲۳۸ (قاصعہ)

۴۳

تیسری فصل

بے مثال فداکاری

ہر انسان کے اعمال و کردار کا پتہ اس کے فکر اور عقیدے سے ہوتا ہے ،اورقربانی اور فداکاری اہل ایمان کی علامت ہے .اگر انسان کا ایمان کسی چیز پر اس منزل تک پہونچ جائے کہ اسے اپنی جان و مال سے زیادہ عزیز رکھے توحقیقت میں اس چیز پر کبھی آنچ نہیں آنے دے گا. اور اپنی ہستی اور تمام کوششوں کواس پر قربان کرے گا قرآن مجیدنے اس حقیقت کو اس اندازسے بیان کیاہے:

( انَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ آمَنُوا بِاﷲِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِامْوَالِهِمْ وََنفُسِهِمْ فِی سَبِیلِ اﷲِ ُوْلَئِکَ هُمْ الصَّادِقُونَ ) (۱)

''سچے مومن تو بس وہی ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے ، پھر انہوں نے اس میں سے کسی طرح کا شک وشبہ نہ کیا اور اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ میں جہاد کیا یہی لوگ ( دعوائے ایمان میں ) سچے ہیں''

بعثت کے ابتدائی ایام میں مسلمانوں نے بہت زیادہ شکنجے اور ظلم و بربریت کواپنی کامیابی کی راہ میں برداشت کیا تھا جس چیز نے دشمنوں کو خدا کی وحدانیت کے اقرار سے روک رکھا تھا وہی بیہودہ خاندانی عقائد اوراپنے خداؤں پر فخر و مباہات اور قوم پرستی پر تکبر و غرور اور ایک قبیلے کا دوسرے قبیلے والوں سے کینہ و عداوت تھیم یہ تمام موانع مکہ اور اطرافیان مکہ میں اسلام کے نشر و اشاعت میں اس وقت تک رہے جب تک پیغمبر(ص) نے مکہ فتح کر نہ لیا تھا اور صرف اسلام کی قدرت کاملہ سے ہی یہ تمام موانع ختم ہوئے۔

مسلمانوں پر قریش کی زیادتی سبب بنی کہ ان میں سے کچھ لوگ حبشہ اور کچھ لوگ مدینہ کی طرف ہجرت کریں، اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت علی جنہیں خاندان بنی ہاشم خصوصاً حضرت ابوطالب کی مکمل حمایت حاصل تھی لیکن جعفر بن ابی طالب مجبور ہوئے کہ بعثت کے پانچویں سال چند مسلمانوں کے ساتھ مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کریں اور ہجرت کے ساتویں سال (فتح خیبر کے سال) تک وہیں پررہیں۔

______________________

(۱)سورۂ حجرات، آیت ۱۵

۴۴

بعثت کا دسواں سال پیغمبر اسلام(ص) کے لئے بہت سخت تھا، جب آپ کے حامی اور پشت پناہ اور مربی اور عظیم چچا کا انتقال ہوگیا. ابھی آپ کے چچا جناب ابوطالب کی وفات کو چند دن نہ گزرے تھے کہ آپ کی عظیم و مہربان بیوی حضرت خدیجہ کا بھی انتقال ہوگیا. جس نے اپنی پوری زندگی اور جان و مال کو پیغمبر کے عظیم ہدف پر قربان کرنے پر کبھی دریغ نہیں کیا، پیغمبر اسلام (ص)ان دو باعظمت حامیوں کی رحلت کی وجہ سے مکہ کے مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم و زیادتی ہونے لگی ، یہاں تک کہ بعثت کے تیرہویں سال تمام قریش کے سرداروں نے ایک میٹنگ میں یہ طے کیا کہ توحیدکی آواز کو ختم کرنے کے لئے پیغمبر(ص) کو زندان میں ڈال دیا جائے یا انھیں قتل کردیا جائے یا پھر کسی دوسرے ملک میں قیدکردیاجائے تاکہ یہ آواز توحید ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے، قرآن مجید نے ان کے ان تینوں ارادوں کا تذکرہ کیاہے۔

ارشاد قدرت ہے:

( وَاذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِیُثْبِتُوکَ َوْ یَقْتُلُوکَ َوْ یُخْرِجُوکَ وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اﷲُ وَاﷲُ خَیْرُ الْمٰاکِرِیْنَ ) (۱)

اور (اے رسول وہ وقت یاد کرو) جب کفار تم سے فریب کر رہے تھے تاکہ تم کوقید کرلیں یاتم کومار ڈالیں یا تمہیں (گھر سے) باہر نکال دیں وہ تو یہ تدبیر کر رہے تھے اور خدا بھی (ان کے خلاف) تدبیر کر رہا تھا اور خدا تو سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے۔

قریش کے سرداروں نے یہ طے کیا کہ ہر قبیلے سے ایک شخص کو چنا جائے اور پھر یہ منتخب افراد نصف شب میں یکبارگی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر پر حملہ کریں اور انھیں ٹکڑے ٹکڑے کردیں اور اس طرح سے مشرکین بھی ان کی تبلیغ اور دعوت حق سے سکون پا جائیں گے اور ان کا خون پورے عرب کے قبیلوں میں پھیل جائے گا. اور بنی ہاشم کا خاندان ان تمام قبیلوں سے جو اس خون کے بہانے میں شامل تھے جنگ و جدال نہیں کرسکتے، فرشتۂ وحی نے پیغمبر(ص) کو مشرکوں کے اس برے ارادے سے باخبر کیا اور حکم خدا کو ان تک پہونچایا کہ جتنی جلدی ممکن ہو مکہ کو چھوڑ کر یثرب چلے جائیں۔

ہجرت کی رات آگئی ،مکہ اور پیغمبر اسلام(ص) کا گھر رات کے اندھیروں میں چھپ گیا ،قریش کے

______________________

(۱) سورۂ انفال، آیت ۳۰

۴۵

مسلح سپاہیوں نے چاروں طرف سے پیغمبر(ص)کے گھر کا محاصرہ کرلیا اس وقت پیغمبر(ص) کے لئے ضروری تھا کہ گھر کو چھوڑ کر نکل جائیں اور اس طرح سے جائیں کہ لوگ یہی سمجھیں کہ پیغمبر گھر میں موجود ہیں اور اپنے بستر پر آرام فرما رہے ہیں. لیکن اس کام کے لئے ایک ایسے بہادر اور جانباز شخص کی ضرورت تھی جو آپ کے بستر پر سوئے اور پیغمبر کی سبز چادر کو اس طرح اوڑھ کر سوئے کہ جو لوگ قتل کرنے کے ارادے سے آئیں وہ یہ سمجھیں کہ پیغمبر ابھی تک گھر میں موجود ہیں اور ان کی نگاہیں صرف پیغمبر کے گھر پر رہے اور گلی کوچوں اور مکہ سے باہر آنے جانے والوں پر پابندی نہ لگائیں ، لیکن ایسا کون ہے جو اپنی جان کو نچھاور کرے اور پیغمبر کے بستر پر سو جائے؟ یہ بہادر شخص وہی ہے جو سب سے پہلے آپ پر ایمان لایا اور ابتدائے بعثت سے ہی اس شمع حقیقی کا پروانہ کی طرح محافظ رہا، جی ہاں یہ عظیم المرتبت انسان حضرت علی کے علاوہ کوئی اور نہ تھا اور یہ افتخار بھی اسی کے حصہ میں آیا، یہی وجہ ہے کہ پیغمبر نے حضرت علی ـکومخاطب کرتے ہوئے فرمایا: مشرکین قریش مجھے قتل کرنا چاہتے ہیںاور ان کا یہ ارادہ ہے کہ یک بارگی مل جل کر میرے گھر پر حملہ کریںاور مجھے بستر پر ہی قتل کردیں. خداوند عالم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں مکہ سے ہجرت کرجاؤں .اس لئے ضروری ہے کہ آج کی شب تم میرے بستر پر سبز چادر کواوڑھ کر سوجاؤ تاکہ وہ لوگ یہ تصور کریں کہ میں ابھی بھی گھر میں موجود ہوں اور اپنے بستر پر سو رہا ہوںاور یہ لوگ میرا پیچھا نہ کریں. حضرت علی پیغمبر کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے ابتداء شب سے پیغمبر اسلام کے بستر پر سوگئے۔

چالیس آدمی ننگی تلواریں لئے ہوئے رات بھر پیغمبر(ص) کے گھر کا محاصرہ کئے رہے اور دروازے کے جھروکوں سے گھر کے اندر نگاہیں جمائے تھے اور گھر کے حالات کا سرسری طور پر جائزہ لے رہے تھے ، ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ خود پیغمبر اپنے بستر پر آرام کر رہے ہیں. یہ جلاد صفت انسان مکمل طریقے سے گھر کے حالات پر قبضہ جمائے تھے اور کوئی چیز بھی ان کی نگاہوںسے پوشیدہ نہیں تھی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ دشمنوں کے اتنے سخت پہروںکے باوجود پیغمبر کس طرح سے اپنے گھر کو چھوڑ کر ہجرت کر گئے. بہت سے مؤرخین کا نظریہ ہے کہ پیغمبر اکرم جب گھر سے نکلے تو سورۂ یٰسن کی تلاوت کر رہے تھے۔(۱)

______________________

(۱) یہاں سورۂ یٰسین کی آٹھویںاور نویں آیتیں مراد ہیں۔

۴۶

اور محاصرین کی صفوں کوتوڑتے ہوئے ان کے درمیان سے اس طرح نکلے کہ کسی کو بھی احساس تک نہ ہوا .یہ بات قابل انکار نہیں ہے کہ مشیت الہی جب بھی چاہے پیغمبر کو بطور اعجاز اور غیر عادی طریقے سے نجات دے، کوئی بھی چیزاس سے منع نہیں کرسکتی. لیکن یہاں پر بات یہ ہے کہ بہت زیادہ قرینے اس بات کی حکایت کرتے ہیںکہ خدا اپنے پیغمبر کو معجزے کے ذریعے سے نجات نہیں دینا چاہتاتھا کیونکہ اگر ایسا ہو تا تو ضروری نہیں تھاکہ حضرت علی پیغمبر کے بستر پر سوتے اور خود پیغمبر غار ثور میں جاتے اور پھر بہت زیادہ زحمت و مشقت کے ساتھ مدینے کا راستہ طے کرتے۔

بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ جس وقت پیغمبر اپنے گھر سے نکلے اس وقت تمام دشمن سورہے تھے اور پیغمبر ان کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر چلے گئے، لیکن یہ نظریہ حقیقت کے برخلاف ہے، کیونکہ کوئی بھی عقلمند انسان یہ قبول نہیں کرسکتاکہ چالیس جلاد صفت انسانوںنے گھر کا محاصرہ صرف اس لئے کیاتھا کہ پیغمبر گھر سے باہر نہ جاسکیں تاکہ مناسب وقت اور موقع دیکھ کر انھیں قتل کریں اور وہ لوگ اپنے وظیفے کواتنا نظر انداز کردیں کہ سب کے سب سے آرام سے سوجائیں۔

لیکن بعیدنہیں ہے جیساکہ بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ پیغمبر محاصرین کے درمیان سے ہوکر نکلے تھے۔(۱)

______________________

(۱) سیرۂ حلبی ج۲ ص ۳۲

۴۷

خانۂ وحی پر حملہ

قریش کے سپاہی اپنے ہاتھوں کوقبضۂ تلوار پر رکھے ہوئے اس وقت کے منتظر تھے کہ سب کے سب اس خانہء وحی پر حملہ کریں اور پیغمبر کو قتل کردیں جو بستر پر آرام کر رہے ہیں .وہ لوگ دروازے کے جھروکے سے پیغمبر کے بستر پر نگاہ رکھے تھے اور بہت زیادہ ہی خوشحال تھے اوراس فکر میںغرق تھے کہ جلدی ہی اپنی آخری آرزؤں تک پہونچ جائیں گے،مگر علی علیہ السلام بڑے اطمینان و سکون سے پیغمبر کے بستر پر سو رہے تھے. کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خداوند عالم نے اپنے حبیب، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کودشمنوں کے شر سے نجات دیا ہے. دشمنوں نے پہلے یہ ارادہ کیاتھا کہ آدھی رات کو پیغمبر کے گھر پر حملہ کریں گے لیکن کسی وجہ سے اس

ارادے کوبدل دیا اور یہ طے کیا کہ صبح کو پیغمبر کے گھر میں داخل ہوں گے اور اپنے مقصد کی تکمیل کریںگے،

رات کی تاریکی ختم ہوئی اور صبح صادق نے افق کے سینے کو چاک کیا. دشمن برہنہ تلواریں لئے ہوئے یکبارگی پیغمبر کے گھر پر حملہ آور ہوئے اوراپنی بڑی اوراہم آرزوؤں کی تکمیل کی خاطر بہت زیادہ خوشحال پیغمبر کے گھر میں وارد ہوئے، لیکن جب پیغمبر کے بستر کے پاس پہونچے تو پیغمبر کے بجائے حضرت علی ـ کوان کے بستر پر پایا ،ان کی آنکھیں غصے سے لال ہوگئیں اور تعجب نے انھیں قید کرلیا .حضرت علی ـکی طرف رخ کر کے پوچھا: محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہاںہیں؟

آپ نے فرمایا: کیاتم لوگوںنے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو میرے حوالے کیا تھا جو مجھ سے طلب کر رہے ہو؟

۴۸

اس جواب کو سن کر غصے سے آگ بگولہ ہوگئے اور حضرت علی پر حملہ کردیااور انہیں مسجد الحرام لے آئے، لیکن تھوڑی جستجو وتحقیق کے بعد مجبور ہوکر آپ کوآزاد کردیا، وہ غصے میں بھنے جارہے تھے،اور ارادہ کیا کہ جب تک پیغمبر کو قتل نہ کرلیں گے آرام سے نہ بیٹھیں گے۔(۱)

قرآن مجیدنے اس عظیم اور بے مثال فداکاری کو ہمیشہ اور ہر زمانے میں باقی رکھنے کے سلسلے میں حضرت علی ـکی جانبازی کو سراہا ہے اور انھیں ان افراد میں شمار کیا ہے جو لوگ خدا کی مرضی کی خاطر اپنی جان تک کونچھاور کردیتے ہیں:

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَه ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ رَؤف بِالْعِبٰادِ )

اور لوگوں میں سے خدا کے بندے کچھ ایسے ہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور خدا ایسے بندے پر بڑا ہی شفقت والاہے۔(۲)

بنی امیہ کے زمانے کے مجرم

بہت سارے مفسرین نے اس آیت کی شان نزول کو ''لیلة المبیت'' سے مخصوص کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت علی ـکے بارے میں اسی مناسبت سے نازل ہوئی ہے۔(۳)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۲ ص ۹۷

(۲) سورۂ بقرہ، آیت ۲۰۷

(۳) حضرت علی کے بارے میں اس آیت کے نزول کے متعلق سید بحرینی نے اپنی کتاب تفسیر برہان (ج۱ ص ۲۰۶۔ ۲۰۷) میں تحریر کیا ہے۔ مرحوم بلاغی نے اپنی کتاب تفسیر آلاء الرحمان ، ج۱ ص ۱۸۵۔ ۱۸۴، میں نقل کیاہے. مشہور شارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید کہتا ہے کہ مفسرین نے اس آیت کے نزول کو حضرت علی کے بارے میں نقل کیا ہے (مراجعہ کریں ج۱۳ ص ۲۶۲)

۴۹

سمرہ بن جندب، بنی امیہ کے زمانے کا بدترین مجرم صرف چار لاکھ درہم کی خاطر اس بات پر راضی ہوگیا کہ اس آیت کے نزول کو حضرت علی ـ کی شان میں بیان نہ کر کے لوگوں کے سامنے اس سے انکار کردے اور مجمع عام میں یہ اعلان کردے کہ یہ آیت عبد الرحمن بن ملجم کی شان میں نازل ہوئی ہے .اس نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ اس آیت کو علی ـکے بارے میں نازل ہونے سے انکار کیا، بلکہ ایک دوسری آیت جو منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی اس کو حضرت علی ـسے مخصوص کردیا(۱) کہ یہ آیت ان کی شان میں نازل ہوئی ہے وہ آیت یہ ہے:

( وَمِنْ النَّاسِ مَنْ یُعْجِبُکَ قَوْلُهُ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَیُشْهِدُ اﷲَ عَلَی مَا فِی قَلْبِهِ وَهُوَ َلَدُّ الْخِصَامِ ) (۲)

اے رسول: بعض لوگ (منافقین سے ایسے بھی ہیں) جن کی (چکنی چپڑی) باتیں (اس ذراسی) دنیوی زندگی میں تمہیں بہت بھاتی ہیںاو روہ اپنی دلی محبت پر خدا کو گواہ مقرر کرتے ہیں حالانکہ وہ (تمہارے) دشمنوںمیں سب سے زیادہ جھگڑالو ہیں۔

اس طرح سے حقیقت پر پردہ ڈالنا اور تحریف کرنا ایسے مجرم سے کوئی بعیدنہیں ہے .وہ عراق میں ابن زیاد کی حکومت کے وقت بصرہ کا گورنر تھا، اور خاندان اہلبیت سے بغض و عداوت رکھنے کی وجہ سے ۸ ہزار آدمیوں کو صرف اس جرم میں قتل کر ڈالا تھاکہ وہ علی ـکی ولایت و دوستی پر زندگی بسر کر رہے تھے. جب ابن زیاد نے اس سے باز پرس کی کہ تم نے کیوں اور کس بنیاد پر اتنے لوگوںکو قتل کر ڈالا، کیا تو نے اتنا بھی نہ سوچا کہ ان میں سے بہت سے افراد بے گناہ بھی تھے، اس نے بہت ہی تمکنت سے جواب دیا ''لو قتلت مثلہم ما خشیت'' میں اس سے دو برابر قتل کرنے میں بھی کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتا۔(۳)

سمرہ کے شرمناک کارناموں کا تذکرہ یہاں پر ممکن نہیں ہے ،کیونکہ یہ وہی شخص ہے جس نے پیغمبر اسلام کا حکم ماننے سے انکار کردیا آپ نے فرمایا: جب بھی اپنے کھجور کے پیڑ کی شاخیں صحیح کرنے کے لئے

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص ۷۳

(۲) سورۂ بقرہ، آیت ۲۰۴

(۳) تاریخ طبری ج۲سن ۵۰، ہجری کے واقعات

۵۰

کسی کے گھر میں داخل ہو تو ضروری ہے کہ صاحب خانہ سے اجازت لے، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا یہاں تک کہ پیغمبر اس درخت کو بہت زیادہ قیمت دیکر خریدنا چاہ رہے تھے پھر بھی اس نے پیغمبر کے ہاتھ نہیں بیچا اور کہا کہ اپنے درخت کی دیکھ بھال کے لئے کبھی بھی اجازت نہیں لے گا۔

اس کی ان تمام باتوں کو سن کر پیغمبر نے صاحب خانہ کو حکم دیا کہ جاؤ اس شخص کے درخت کو جڑ سے اکھاڑ کر دور پھینک دو. اور سمرہ سے کہا: ''انک رجل مضار و لا ضرر و لاضرار''یعنی تو لوگوںکونقصان پہونچاتا ہے اور اسلام نے کسی کو یہ حق نہیں دیا کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو نقصان پہونچائے، جی ہاں، یہ چند روزہ تحریف سادہ مزاج انسانوںپربہت کم اثر انداز ہوئی، لیکن کچھ ہی زمانہ گذرا تھا کہ تعصب کی چادریں ہٹتی گئیں اور تاریخ اسلام کے محققین نے شک و شبہات کے پردے کو چاک کرکے حقیقت کوواضح و روشن کردیاہے اور محدثین ومفسرین قرآن نے ثابت کردیا کہ یہ آیت حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے، یہ تاریخی واقعہ اس بات پر شاہد ہے کہ شام کے لوگوں پر اموی حکومت کی تبلیغ کا اثر اتنا زیادہ ہوچکا تھا کہ جب بھی حکومت کی طرف سے کوئی بات سنتے تو اس طرح یقین کرلیتے گویالوح محفوظ سے بیان ہو رہی ہے، جب شام کے افراد سمرہ بن جندب جیسے کی باتوں کی تصدیق کرتے تھے تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ تاریخ اسلام سے ناآشنا تھے، کیونکہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت عبدالرحمن پیدا بھی نہ ہوا تھا اور اگر پیدا ہو بھی گیا تھا تو کم از کم حجاز کی زمین پر قدم نہ رکھا تھا اور پیغمبر کو نہیں دیکھا تھا کہ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوتی۔

۵۱

ناروا تعصب

حضرت علی ـکی فداکاری، اس رات جب کہ پیغمبر کے گھر کو قریش کے جلادوںنے محاصرہ کیا تھا ایسی چیز نہیں ہے جس سے انکار کیا جاسکے یا اسے معمولی سمجھا جائے۔

خداوند عالم نے اس تاریخی واقعے کو ہمیشہ باقی رکھنے کے لئے قرآن مجید کے سورۂ بقرہ آیت ۲۰۷ میں اس کا تذکرہ کیا ہے اور بزرگ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ یہ آیت حضرت علی ـکی شان میں نازل ہوئی ہے .لیکن حضرت علی ـ سے بغض و عداوت اور کینہ رکھنے والوںنے پوری کوشش وطاقت سے اس بات کی کوشش کی کہ اس بزرگ اور عظیم تاریخی فضیلت کی اس طرح سے تفسیر کی جائے کہ حضرت علی ـ کی عظیم و بے مثال قربانی کی کوئی فضیلت باقی نہ رہے۔

جاحظ، اہلسنت کا ایک مشہور ومعروف دانشمند لکھتا ہے :

علی ـکا پیغمبر کے بستر پرسونا ہرگز اطاعت اور بزرگ فضیلت شمار نہیں ہوسکتی، کیونکہ پیغمبر نے انھیں اطمینان دلایاتھا اگر میرے بستر پر سوجاؤ گے توتمہیں کوئی تکلیف ونقصان نہیں پہونچے گا۔(۱)

اس کے بعد ابن تیمیہ دمشقی(۲) نے اس میں کچھ اور اضافہ کیاہے کہ علی ـ کسی اور طریقے سے جانتے تھے کہ میں قتل نہیں ہوسکتا، کیونکہ پیغمبر نے ان سے کہا تھا کہ کل مکہ کے ایک معین مقام پر اعلان کرناکہ جس کی بھی امانت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس ہے آکر اپنی امانت واپس لے جائے. علی اس ماموریت کوجو پیغمبر نے انھیں دیا تھا ،سے خوب واقف تھے کہ اگر پیغمبر کے بستر پر سوؤں گا تو مجھے کوئی بھی ضرر نہیں پہونچے گا اور میری جان صحیح و سالم بچ جائے گی۔

______________________

(۱) العثمانیہ، ص ۴۵

(۲) ابن تیمیہ علمائے اسلام سے مخالفت رکھتا تھااورایک خاص عقیدہ ، شفاعت، قبروںکی زیارت و... کے متعلق رکھتا تھااس لئے علمائے وقت نے اسے چھوڑ دیاتھا اور آخر کار شام کے زندان میں ۷۲۸ ہجری میں اس کا انتقال ہوگیا۔

۵۲

جواب

اس سے پہلے کہ اس موضوع کے متعلق بحث کریں ایک نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ جاحظ اور ابن تیمیہ اور ان دونوں کے ماننے والوں نے جوخاندان اہلبیت سے عداوت رکھنے میں مشہور ہیں، علی ـ کی اس فضیلت سے انکار کرنے کی وجہ سے غیر شعوری طور پر بڑی فضیلت کوحضرت علی ـ کے لئے ثابت کیا ہے ،کیونکہ حضرت علی پیغمبر کی طرف سے مامور تھے کہ ان کے بستر پر سوجائیں، ایمان کے اعتبار سے یہ بات دوحالتوں سے خارج نہیں ہے ،یاان کا ایمان پیغمبر کی صداقت پر ایک حد تک تھا یا وہ بغیر چون و چرا پیغمبر کی ہر بات پر ایمان رکھتے تھے. پہلی صورت میںہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ حضرت علی کو اپنی جان و سلامتی کے باقی رہنے کا قطعی طور پر علم تھا .کیونکہ جو شخص ایمان وعقیدے کے اعتبار سے ایک عام مرتبہ پرفائز ہو، ہرگز پیغمبر کی گفتار سے یقین واعتماد حاصل نہیں کرسکتا ،اور اگر ان کے بستر پر سوجائے توبہت زیادہ ہی فکر مند اور مضطرب رہے گا۔

لیکن اگر حضرت علی ـ ایمان کے اعتبار سے عالی ترین مرتبہ پر فائز تھے اور پیغمبر کی گفتگو کی سچائیان کے دل ودماغ پر سورج کی روشنی کی طرح واضح وروشن تھی توایسی صورت میںحضرت علی ـکے لئے بہت بڑی فضیلت کوثابت کیا ہے. کیونکہ جب بھی کسی شخص کا ایمان اس بلندی پر پہونچ جائے کہ جوکچھ بھی پیغمبر سے سنے اسے صحیح اور سچا مانے کہ وہ اس کے لئے روز روشن کی طرح ہو اور اگر پیغمبر اس سے کہیں کہ میرے بستر پر سوجاؤ تواسے کوئی نقصان نہ پہونچے گا تووہ بستر پر اتنے اطمینان اور آرام سے سوئے کہ اسے ایک سوئی کی نوک کے برابر بھی خطرہ محسوس نہیں ہوتو ایسی فضیلت کی کوئی بھی چیز برابری نہیں کرسکتی۔

۵۳

آئیے اب تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں

ابھی تک ہماری بحث اس بات پر تھی کہ پیغمبر نے حضرت علی ـسے کہا کہ تم قتل نہ ہوگے. لیکن اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تومعلوم ہوگاکہ بات ایسی نہیں ہے جیسا کہ جاحظ اور ابن تیمیہ کے ماننے والوں نے گمان کیا ہے اور تمام مؤرخین نے اس واقعہ کواس طرح نقل نہیں کیا ہے جیساکہ ان دونوںنے لکھا ہے:

طبقات کبریٰ(۱) کے مؤلف نے واقعۂ ہجرت کو تفصیل سے ذکر کیاہے اور جاحظ کے اس جملے کو(کہ پیغمبر نے علی سے کہا کہ میرے بستر پر سوجاؤ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہونچے گا) ہرگز تحریر نہیں کیا ہے۔

نہ صرف یہ بلکہ مقریزی نویں صدی کا مشہور مؤرخ(۲) اس نے اپنی مشہور کتاب ''امتاع الاسماع'' میں بھی کاتب واقدی کی طرح اس واقعے کا تذکرہ کیا ہے اور اس بات سے انکار کیاہے کہ پیغمبر نے علی ـ سے کہا ''کہ تمہیں کوئی نقصان نہ پہونچے گا''

جی ہاں. انہی افراد کے درمیان ابن ہشام نے اپنی کتاب سیرت ج۱ ص ۴۸۳ پراور طبری نے اپنی کتاب تاریخ طبری ج۲ ص۹۹ پر اس کا تذکرہ کیاہے اور اسی طرح ابن اثیر نے اپنی کتاب تاریخ کامل ج۲ ص ۳۸۲ پراس کے علاوہ اور بھی بہت سے مؤرخین نے اسے نقل کیا ہے ان تمام مؤرخین نے سیرۂ

______________________

(۱) محمد بن سعد جوکاتب واقدی کے نام سے مشہور ہے ۱۶۸ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۲۳۰ ہجرت میں دنیا سے رخصت ہوئے ان کی کتاب طبقات جامع ترین اور سب سے اہم کتاب ہے جو سیرت پیغمبر پر لکھی گئی ہے ج۱ ص ۲۲۸ پر رجوع کرسکتے ہیں

(۲) تقی الدین احمد بن علی مقریزی (وفات ۸۴۵ ہجری)

۵۴

ابن ہشام یاتاریخ طبری سے نقل کیا ہے۔

اس بنا ء پر عقل اس بات کو قبول نہیں کرتی کہ پیغمبر نے یہ بات کہی ہے، اور اگر مان لیں کہ پیغمبر نے یہ بات کہی بھی ہے تو کسی بھی صورت سے یہ معلوم نہیں کہ ان دونوں باتوں کو (نقصان نہ پہونچنا اور لوگوں کی امانت واپس کرنا) اسی رات میں پہلی مرتبہ کہا ہو. اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس واقعے کوعلماء اور شیعہ مورخین اور بعض سیرت لکھنے والے اہلسنت نے دوسرے طریقے سے نقل کیاہے، جس کی ہم وضاحت کر رہے ہیں:

شیعوں کے مشہور و معروف دانشمند مرحوم شیخ طوسی اپنی کتاب ''امالی'' میںہجرت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ،جو کہ پیغمبر کی سلامتی اور نجات پر ختم ہوتا ہے، لکھتے ہیں :

شب ہجرت گزر گئی. اور علی ـاس مقام سے آگاہ تھے جہاں پیغمبر نے پناہ لی تھی. اور پیغمبر کے سفر پرجانے کے مقدمات کو فراہم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ رات میں ان سے ملاقات کریں۔(۱)

پیغمبر نے تین رات غار ثور میں قیام کیا، ایک رات حضرت علی ـ، ہند بن ابی ہالہ غار ثور میں پیغمبر کی خدمت میں پہونچے، پیغمبر نے حضرت علی کو چند چیزوں کا حکم دیا:

۱۔ دواونٹ ہمارے اور ہمارے ہمسفر کے لئے مہیا کرو (اس وقت ابوبکر نے کہا: میں نے پہلے ہی سے دو اونٹ اس کام کے لئے مہیا کر لئے ہیں، پیغمبر(ص) نے فرمایا: میں اس وقت تمہارے ان دونوں اونٹوںکوقبول کروں گا جب تم ان دونوں کی قیمت مجھ سے لے لو، پھر علی کو حکم دیا کہ ان اونٹوں کی قیمت اداکردو''

۲۔ میں قریش کا امانتدار ہوں اورابھی لوگوں کی امانتیں میرے پاس گھر میں موجود ہیں، کل مکہ کے فلاںمقام پر کھڑے ہوکر بلندآواز سے اعلان کرو کہ جس کی امانت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس ہے وہ آئے اور اپنی امانت لے جائے۔

۳۔ امانتیں واپس کرنے کے بعد تم بھی ہجرت کے لئے تیار رہو، اور جب بھی تمہارے پاس میرا خط پہونچے تو میری بیٹی فاطمہ اور اپنی ماں فاطمہ بنت اسد اور زبیر بن عبدالمطلب کی بیٹی فاطمہ کو اپنے ہمراہ لے آؤ۔

______________________

(۱) اعیان الشیعہ ج۱ ص۲۳۷

۵۵

پھر فرمایا: اب تمہارے لئے جو بھی خطرہ یا مشکلات تھیں وہ دور ہوگئیں ہیںاور تمہیں کوئی تکلیف نہ پہونچے گی۔(۱)

یہ جملہ بھی اسی جملے کی طرح ہے جسے ابن ہشام نے سیرۂ ہشام میں اور طبری نے تاریخ طبری میں نقل کیاہے، لہٰذا اگر پیغمبر نے حضرت علی کوامان دیاہے تو وہ بعد میں آنے والی رات کے لئے تھا نہ کہ ہجرت کی رات تھی، اور اگر حضرت علی کوحکم دیا ہے کہ لوگوں کی امانتوں کوادا کردو تووہ دوسری یا تیسری رات تھی نہ لیلة المبیت تھا۔

اگرچہ اہلسنت کے بعض مؤرخین نے واقعہ کواس طرح نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے شب ہجرت ہی حضرت علی ـ کو امان دیا تھا اور اسی رات امانتوں کے ادا کرنے کا حکم دیا تھامگر یہ قول توجیہ کے لائق ہے کیونکہ انھوںنے صرف اصل واقعہ کونقل کیا ہے وقت اورجگہ اور امانتوں کے واپس کرنے کو وہ بیان نہیں کرنا مقصود نہیں تھا کہ جس کیوجہ سے دقیق طور پر ہر محل کا ذکر کرتے۔

حلبی اپنی کتاب ''سیرۂ حلبیہ'' میں لکھتا ہے:

جس وقت پیغمبر غار ثور میں قیام فرما تھے توانہی راتوں میں سے کسی ایک رات حضرت علی ـ، پیغمبر کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہوئے، پیغمبر نے اس رات حضرت علی کو حکم دیا کہ لوگوں کی امانتیںواپس کردو اور پیغمبر کے قرضوں کوادا کردو۔(۲)

در المنثورمیں ہے کہ علی نے شب ہجرت کے بعد پیغمبر سے ملاقات کی تھی۔(۳)

______________________

(۱) پیغمبر کی عبارت یہ ہے:

''انہم لن یصلوا الیک من الآن بشیء تکرہہ''

(۲) سیرۂ حلبی، ج۲، ص ۳۷۔ ۳۶

(۳) سیرۂ حلبی، ج۲، ص ۳۷۔ ۳۶

۵۶

امام ـ کی فداکاری پر دو معتبر گواہ

تاریخ کی دو چیزیںاس بات پر گواہ ہیں کہ حضرت علی کا عمل، ہجرت کی شب، فداکاری کے علاوہ کچھ اور نہ تھااور حضرت علی صدق دل سے خدا کی راہ میں قتل اور شہادت کے لئے آمادہ تھے ملاحظہ کیجئے۔

۱۔ اس تاریخی واقعہ کی مناسبت سے جو امام علیہ السلام نے اشعار کہے ہیں اور سیوطی نے ان تمام اشعار کواپنی تفسیر(۱) میںنقل کیا ہے جو آپ کی جانبازی اور فداکاری پر واضح دلیل ہے۔

وقیت بنفسی خیر من وطأ الحصیٰ-----و من طاف بالبیت العتیق وبالحجر

محمد لما خاف أن یمکروا به----- فوقاه ربی ذو الجلال من المکر

و بتّ اراعیهم متی ینشروننی-----و قد وطنت نفسی علی القتل والأسر

میں نے اپنی جان کو روئے زمین کی بہترین اور سب سے نیک شخصیت جس نے خدا کے گھر اور حجر اسماعیل کا طواف کیا ہے اسی کے لئے سپر (ڈھال) قرار دیا ہے۔وہ عظیم شخص محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں اور میں نے یہ کام اس وقت انجام دیا جب کفار ان کو قتل کرنے کے لئے آمادہ تھے لیکن میرے خدا نے انھیں دشمنوں کے مکر و فریب سے محفوظ رکھا۔میں ان کے بستر پر بڑے ہی آرام سے سویااور دشمن کے حملہ کا منتظر تھا اور خود کومرنے یا قید ہونے کے لئے آمادہ کر رکھاتھا۔

۲۔ شیعہ اور سنی مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ خداوند عالم نے اس رات اپنے دو بزرگ فرشتوں، جبرئیل و میکائیل کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں تم میں سے ایک کے لئے موت اور دوسرے کے لئے حیات مقرر کروں توتم میں سے کون ہے جوموت کو قبول کرے اوراپنی زندگی کودوسرے کے حوالے کردے؟ اس وقت دونوں فرشتوں میں سے کسی نے بھی موت کو قبول نہیں کیا اور نہ ایک دوسرے کے ساتھ فداکاری کرنے کا وعدہ کیا پھر خدا نے ان دونوں فرشتوں سے کہا : زمین پر جاؤ اور دیکھو کہ علی ـنے کس طرح سے موت کو اپنے لئے خریدا ہے اور خود کو پیغمبر پر فدا کردیا ہے ،جاؤ علی ـ کودشمنوں کے شر سے محفوظ رکھو۔(۲)

______________________

(۱) الدر المنثور، ج۳، ص ۱۸۰

(۲) بحار الانوار ج۱۹ ص ۳۹ ، احیاء العلوم غزالی

۵۷

اگرچہ بعض لوگوںنے طویل زمانہ گذرنے کی وجہ سے اس عظیم فضیلت پر پردہ ڈالا ہے، مگر ابتدائے اسلام میں حضرت علی کا یہ عمل دوست اور دشمن سب کی نظر میں ایک بہت بڑی اور فدا کاری شمار کی جاتی تھی ۔چھ آدمیوں پر مشتمل شوریٰ جو عمر کے حکم سے خلیفہ معین کرنے کے لئے بنائی گئی تھی، حضرت علی ـ

نے اپنی اس عظیم فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے شرکائے شوریٰ پر اعتراض کیا اور کہا: میں تم سب کوخدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ کیا میرے علاوہ کوئی اور تھا جوغار ثور میں پیغمبر کے لئے کھانا لے گیا؟

کیا میرے علاوہ کوئی ان کے بستر پر سویا؟ اورخود کوا س بلا میں ان کی سپر قرار دیا؟ سب نے ایک آواز ہوکر کہا: خدا کی قسم تمہارے علاوہ کوئی نہ تھا۔(۱)

مرحوم سیدبن طاوؤس نے حضرت علی ـ کی اس عظیم فداکاری کے بارے میں بہترین تحلیل کرتے ہیں اورانھیں اسماعیل کی طرح فداکار اور باپ کے سامنے راضی بہ رضا رہنے سے قیاس کرتے ہوئے حضرت علی کے ایثار کو عظیم ثابت کیاہے۔(۲)

______________________

(۱) خصال صدوق ج۲ ص۱۲۳، احتجاج طبرسی ص ۷۴

(۲) رجوع کریں اقبال ص ۵۹۳، بحار الانوار ج۱۹ ص ۹۸

۵۸

تیسرا باب

بعدِہجرت اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے حضرت علی ـ کی زندگی

پہلی فصل

اس زمانے پر ایک نظر

پیغمبر اسلام کی ہجرت کے بعد حضرت علی کامکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا آپ کی زندگی کا تیسرا حصہ ہے .اور اس فصل کے تمام صفحات حضرت علی کی زندگی کے اہم ترین اورتعجب خیز حالات پر مشتمل ہیں،اور امام علیہ السلام کی زندگی کے مہم اور حساس امور زندگی کے اس دور سے وابستہ ہیں جسے ہم دو مرحلوں میں خلاصہ کر رہے ہیں:

۱۔ میدان جنگ میں آپ کی فداکاری اور جانبازی

پیغمبر اسلام نے مدینے کی اپنی پوری زندگی میں مشرکوں، یہودیوں اورفتنہ و فساد برپا کرنے والوں کے ساتھ ۲۷ غزوات میں لڑیں. مسلمانوں کی تاریخ لکھنے والوں کی نظر میں جن لوگوں نے ان غزوات کے حالات اور شجاعتوں کا تذکرہ کیاہے، کہتے ہیں کہ غزوہ یعنی وہ جنگ جس میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلامی لشکر کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی، اور خود سپاہیوں کے ہمراہ میدان جنگ گئے اور انہی کے ساتھ مدینہ واپس آئے. غزوات کے علاوہ ۵۵ ''سریہ'' بھی آپ کے حکم سے انجام پائیں۔(۱)

سریہ سے مراد وہ جنگ ہے جس میں اسلامی فوج کے کچھ سپاہی و جانباز دشمنوں کو شکست دینے اور ان سے لڑنے کے لئے مدینہ سے روانہ ہوئے اور لشکر کی سپہ سالاری اسلامی فوج کے اہم شخص کے ہاتھوں میںتھی، حضرت امیر علیہ السلام نے پیغمبر کے غزوات میں سے ۲۶ غزووں میں شرکت کی اور صرف ''جنگ تبوک'' میں پیغمبر اسلام کے حکم سے مدینہ میں رہے ا ور جنگ تبوک میں شریک نہ ہوئے .کیونکہ یہ خوف تھا کہ مدینے کے منافقین پیغمبر کی عدم موجودگی میں مدینہ پر حملہ کردیںاور مدینہ میں اسلامی امور کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیں۔جن سریوں کی باگ ڈور امام کے ہاتھوں میں تھی ان کی تعداد معین نہیں ہے مگر پھر بھی ہم ان کی تفصیلات اس حصے میں بیان کریں گے۔

______________________

(۱) واقدی نے اپنی کتاب مغازی، ج۱، ص ۲ میں پیغمبر کی سریہ کی تعدا د اس سے کم لکھی ہے۔

۵۹

۲۔ وحی (قرآن) کا لکھنا

کتابت وحی اور بہت سی تاریخی اور سیاسی سندوں کا منظم کرنااور تبلیغی اور دعوتی خطوط لکھنا حضرت علی علیہ السلام کاعظیم اور حساس ترین کارنامہ تھا۔

امیر المومنین علیہ السلام نے قرآن کی تمام آیتوں کو چاہے وہ مکہ میں نازل ہوئی ہوں یامدینے میں یا پیغمبر کی زندگی میں نازل ہوئی ہوں بہت ہی عمدہ طریقے سے انھیں لکھا، اور اسی وجہ سے کاتب وحی اور محافظ قرآن مشہور ہوئے، اسی طرح سیاسی و تاریخی اسناد کے منظم کرنے اور تبلیغی خطوط لکھنے، جو آج بھی تاریخ اور سیرت کی بہت سی کتابوں میں موجودہیں، حضرت علی سب سے پہلے کاتب مشہور ہوئے ،یہاں تک کہ حدیبیہ کا تاریخی صلح نامہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے املاء پر مولائے کائنات حضرت علی ـکے ہاتھوں سے لکھا گیا۔

امام علیہ السلام کی علمی اور قلمی خدمات صرف اسی پر منحصر نہیں تھیں بلکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آثار اور سنتوں کی بہت زیادہ حفاظت بھی کی ہے اور مختلف اوقات میں پیغمبر کی حدیثوں کو جواحکام، فرائض، آداب، سنت، حادثات و واقعات اور غیب کی خبروں پر مشتمل تھیں تحریر کیا. یہی وجہ ہے کہ امام علیہ السلام نے پیغمبر سے جو کچھ بھی سنا اسے چھ کتابوں میں لکھ کر اپنی یادگار چھوڑی. اور امام علیہ السلام کی شہادت کے بعد یہ تمام کتابیں آپ کے بیٹوں کے پاس عظیم میراث کے طورر پر پہونچیں اور امیر المومنین ـ کے بعد دوسرے رہبروں نے مناظرے وغیرہ کے وقت ان کتابوں کو بعنوان دلیل پیش کیا. زرارہ جو امام جعفر صادق ـ کے اہم ترین شاگرد تھے انھوں نے ان کتابوں میں سے چند کتابوں کو آپ کے پاس دیکھااور خصوصیتوں کو نقل کیا ہے۔(۱)

______________________

(۱) تہذیب الاحکام شیخ طوسی ج۲ ص ۲۰۹ طبع نجف ، فہرست نجاشی ص ۲۵۵، طبع ہندوستان ، مؤلف نے ان چھ کتابوں کے متعلق ''بررسی مسند احمد'' کے مقدمہ میں تفصیل سے بحث کی ہے۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

 نتیجۂ بحث

 ہم نے جو کچھ ذکر کیا اس سے یہ واضح ہو گیا کہ اسلام کے دشمنوں نے دوسرے حربوں کے علاوہ دو بنیادی حربوں سے اسلام کی مخالفت کی  اور انہوں نے یہ سوچا کہ فرقہ سازی اور حقائق کو چھپانے سے اسلام کو شکست دے دیں گے لیکن ان کے یہ بے بنیاد خیالات  نقش بر آب ہوئے اور تمام تر کوششوں کے باوجود وہ نہ صرف اسلام اور مسلمانوں کو نابود نہ کر سکے بلکہ پیغمبر اکرم(ص) اور اہلبیت علیہم السلام کی کوششوں سے اسلام کا پرچم ہمیشہ سربلند رہا اور آخر کار تمام مذاہب اور انسانی مکاتب نابود ہو جائیں گے اور دنیا پر صرف مکتب پیغمبر اکرم(ص) اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی حکومت ہو گی۔

 جی ہاں!لوگوں کے لئے قرآن، پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کے توسط سے پیشنگوئیوں کو چھپانے کا جبران کر دیا ہے۔

 اگرچہ دشمن بہت سے مسلمانوں کو امویوں کی آغوش میں جگہ دینے اور انہیں اسلام کی حقیقت سے دور کرنے میں کامیاب رہے لیکن بنی امیہ اور ان کی حکومت کے بارے میں قرآن کریم ، پیغمبر خدا(ص) اور امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں نے گمراہی کے بھنور میں پھنسے ہوئیبے شمار مسلمانوں کو نجات دی ہے اور انہیں بنی امیہ کی غاصبانہ حکومت  اور مکتب اہلبیت علیہم السلام کے تمام مخالفوں سے آگاہ کیا ہے۔

 ان  پیشنگوئیوں سے آگاہی کے لئے اب ہم انہیں بیان کرتے ہیں کہ جنہیں اہلسنت علماء نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے  تاکہ محترم قارئین یہ جان سکیں کہ اسلام کے دشمنوں نے حقائق کو چھپانے میں شکست کھائی ہے اوران کے لئے اموی حکومت کا غاصبانہ ہونا روز روشن کی طرح واضح ہو جائے۔

 کیونکہ یہ پیشنگوئیاں بہت زیادہ تھیں لہذا ہم نے ان میں سے کچھ کو کتاب کے ایک مستقل باب میں ذکر کیا ہے۔

۱۶۱

 پانچواں باب

پیشنگوئیاں

    01) بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی

    02) بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی دوسری پیشنگوئی

    03) حکَم اور اس کے بیٹوں کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی

    04) پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں کا راز

    05) بنی امیہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیاں

    06) بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    07) حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں ''الغارات '' سے منقول پیشنگوئی

    08) بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی ایک اور پیشنگوئی

    09) بنی امیہ کے انجام کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    10) بنی امیہ کے زوال کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دیگر پیشنگوئی

    11) بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی ایک اور پیشنگوئی

    12) بنی امیہ اور بنی العباس کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

    13) حکم کے داخل ہونے کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی اور اس پر لعنت کرنا

    14) یہودیوں، مشرکوں اور منافقوں کے لئے حکم بن ابی العاص کا جاسوسی کرنا

    15) معاویہ وغیرہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    16) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی دوسری پیشنگوئی

۱۶۲

    17) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک اور پیشنگوئی

    18) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی ایک اور پیشنگوئی

    19) معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی دوسری پیشنگوئی

    20) عبداللہ بن عمروعاص کی زبانی معاویہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    21) معاویہ وعمروعاص کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    22) امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی معاویہ کے بارے میں پیشنگوئی

    23) ''الغارات''کی روایت کے مطابق شامیوں کی فتح کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    24) اس بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

    25) ''الغارات ''سے منقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

    26) ''مروج الذہب'' سے منقول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    27) جنگ صفین میں جناب عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    28) جنگ صفین میں جناب عمار یاسر کی رہنمائی

    29) جنگ صفین میں عمار یاسر کا خطاب اور عمرو عاص پر اعتراض

    30) عمار کے قتل کے بارے میں شبث بن ربعی کا معاویہ سے کلام

    31) جناب عمار کی شہادت کے بارے میں متواتر حدیث

    32) رسول خدا(ص) کی حدیث نقل کرتے وقت صحابہ و تابعین کے حالات

    33) جناب عمار یاسر کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئیوں کے اثرات

    34) ذوالکلاع سے عمار یاسر کی گفتگو کے سولہ اہم نکات

۱۶۳

    35) جناب اویس قرنی کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی اور جنگ صفین میں آپ کی شرکت

    36) جنگ صفین میں جناب اویس قرنی کی شہادت

    37) اس روایت میں اہم نکات

    38) جنگ صفین کے بارے میں حضرت عیسی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    39) حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

    40) حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی دوسری پیشنگوئی

    41) ایک دوسری روایت کی رو سے حکمیّت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

    42) حکمیّت سے مربوط پیشنگوئی میں اہم نکات

    43) رسول خدا(ص) کی عائشہ کے بارے میں پیشنگوئی

    44) مروان کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی

    45) مروان کا معاویہ سے ملنا اور اس کی خباثت

    46) مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    47) مروان کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دوسری پیشنگوئی

    48) مروان کے بارے میں ایک اور پیشنگوئی

    49) امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی مروان کے بارے میں ''نہایة الأرب'' سے پیشنگوئی

    50) عمرو بن سعید بن عاص کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) کی پیشنگوئی

    51) جنگ نہروان میں ذوالثدیہ کے قتل کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

۱۶۴

    52) محمد بن ابی بکر اور ان کی شہادت کے واقعہ کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

    53) سمرة بن جندب کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) پیشنگوئی

    54) کربلاکے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    55) کربلا میں ابن زیادکے لشکر کے سرداروں میں سے حصین بن تمیم کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    56) پیشنگوئیوں کے وقوع پذیر ہونے کو روکنے کے لئے جدید منصوبہ بندی

    57) 1- رشید ہجری کی شہادت اور ان سے مقابلہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

    58) 2- جناب میثم کی شہادت اور ان سے مقابلہ کے بارے میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

۱۶۵

 بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی

 قرآن مجید میں پروردگار عالم کی بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں پیشنگوئی لوگوں کوبنی امیہ  کے طرز حکومت اوران کے غیر اسلامی کردار و رفتار سے آشنا کروانے کے لئے ہے کہ جس میں  تمام اہلسنت اور بالخصوص نوجوانوں  کے لئے بہت بڑا درس ہے  تاکہ وہ یہ جان لیں کہ بنی امیہ اور مکتب اہلبیت علیہم السلام کے تمام مخالفین  کا نہ صرف حکومت الٰہی پر کوئی حق نہیں ہیبلکہ وہ اس حکومت کے غاصب ہیں، اور ان میں نہ صرف یہ کہ الٰہی حکام کی صفات ہی نہیں تھیں بلکہ وہ اپنے منصوبوں اور مکاریوں سے الٰہی حکومت کو اس کے حقیقی حاکموں سے غصب کرکے خدا کے خلیفہ کے عنوان سے مسلمان کی گردن پر سوار ہو گئے۔جہاں تک ہو سکا انہوں نے نور الٰہی کو بجھانے اور دین کے احکامات کو نیست ونابود کرنے کی کوشش کی۔لیکن ان سب کے باوجود قرآن کریم اور پیغمبر عظیم(ص) کی پیشنگوئیوں نے اس زمانے میں بھی بے شمار لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کیااور اس زمانے کے لوگوں کی راہ راست کی طرف ہدایت کی۔

 جس طرح قرآن کریم اور پیغمبر اکرم(ص) کے ارشادات نے اس زمانے کے بہت سے لوگوں  کو آگاہ  کیا تا کہ وہ اپنے آباء و اجداد کے عقائد سے دستبردار ہو جائیں ،اسی طرح اس زمانے میں بھی لوگ قرآن مجید کی آیات اور پیغمبر اکرم(ص) کی احادیث میں غور فکر کرکے راہ حق کو پہچان کر اسی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔

 اس طرح کی آیات و روایات سے آشنا ہونے کے لئے ان موارد پر توجہ کریں:

1۔ ترمذی نے یہ روایت سورۂ قدر کے باب (باب85) میں یوسف بن سعید سے نقل کی ہے:

 جب لوگوں نے معاویہ کی بیعت کی تو اس کے بعد ایک شخص حضرت امام حسن علیہ السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا:تم نے مؤمنینروسیاہ کر دیا!یا کہا:اے مؤمنوں کو روسیاہ  کرنے والے!

 آنحضرت نے اس سے فرمایا:

 میری مذمت نہ کرو،خداوند تم پر رحمت کرے ؛کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) نے دیکھا کہ بنی امیہ ان کے منبر پر بیٹھے ہیں۔

۱۶۶

 آنحضرت اس واقعہ سے پریشان ہوئے ،پس یہ آیت نازل ہوئی:

 (اِنّٰا أَعْطَیْنٰاکَ الْکَوْثَرَ ) (1) یعنی جنت میں ایک نہر۔

(انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ،،وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ،، لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ،، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ ،، سَلَام هِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ ) (2)

 بیشک ہم نے قراان کو شب قدر میں نازل کیا.اور آپ کیا جانیں کہ یہ شب قدر کیا چیز ہے.  شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے.اس میں فرشتے اور روح القدس اذن خدا کے ساتھ تمام امور کو لے کر نازل ہوتے ہیں.اور یہ رات طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی ہے۔

 اے محمد !بنی امیہ اس کے مالک بن جائیں گے!

 قاسم کہتے ہیں:میں نے بنی امیہ کی حکومت کو شمار کیا جس کے ہزار مہینہ تھے نہ اس سے کم اور نہ ہی اس سے زیادہ۔(3)

2۔ سیوطی نے کہا ہے:خطیب نے اپنی تاریخ میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا:

رسول خدا(ص) نے بنی امیہ کو اپنے منبر پر دیکھا  تو اس واقعہ سے بہت پریشان ہوئے۔  پس خداوند کریم نے ان پر وحی کی کہ یہ ایک حکومت ہے جو انہیں ملے گی اور پھر یہ آیت نازل ہوئی:(انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ،، وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ،، لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ ،، سَلَام هِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ ) خطیب نے ابن مسیب سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا: رسول خدا(ص) نے فرمایا:

--------------

[1]۔ سورۂ کوثر، آیت:1

[2]۔ سورۂ قدر،آیت: 5 -1

[3]۔ الدر المنثور: ج6ص371

۱۶۷

میں نے دیکھا کہ بنی امیہ میرے منبر پر چڑھیں گے،یہ واقعہ میرے لئے بہت ناگوار تھا۔خدا نے یہ آیت نازل فرمائی:(انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ)

3۔ ابن اثیر کہتا ہے: جب (امام)حسن (علیہ السلام) واپس کوفہ گئے تو ایک شخص نے ان سے کہا:اے مسلمانوں کو روسیاہ کرنے والے!(امام) حسن (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا: میری سرزنش نہ کرو؛کیونکہ رسول اکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ بنی امیہ ایک

ایک کر کے ان کے منبر پر چڑھ رہے ہیں ۔آپ اس واقعہ سے بہت پریشان ہوئے۔  خداوند عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی:(اِنّٰا أَعْطَیْنٰاکَ الْکَوْثَرَ ) ''ہم نے تمہیں کوثر عطا کی''جوجنت میں ایک نہرہے۔

 اور یہ آیت نازل فرمائی:(انَّا أَنْزَلْنَاهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ،، وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ ،، لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ،، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَةُ وَالرُّوحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ ،، سَلَام هِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ )

 بنی امیہ تمہارے بعد اس کے مالک بن جائیں گے۔

طبری نے بھی ''تاریخ طبری: 5810'' میں اس روایت کو نقل کیا ہے اور سیوطی نے بھی ''تاریخ  خلفائ:25''میں اسے ترمذی سے نقل کیا ہے ۔ حاکم نے بھی اسے اپنی مستدرک میںاور ابن جریر نے  اپنی تفسیر میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔(1)

  بنی امیہ کے بارے میں قرآن کی دوسری پیشنگوئی

قرآن کریم میں بنی امیہ کو شجر ملعونہ سے تعبیر کیاگیا ہے اور ابن ابی الحدید کے مطابق مؤرخین و محدثین عبداللہ بن عباس (پیغمبر اکرم(ص) کے چچا زاد بھائی) سے نقل کرتے ہیں: ایک رات پیغمبر اکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ بندروں کا ایک گروہ آپ کے منبر کے اوپر چڑھ رہا ہے اور اتر رہا ہے ۔ اس خواب کے بعد آنحضرت بہت پریشان ہوئے ۔گویا اس خواب سے آپ مطمئن نہیں تھے یہاں تک آنحضرت پر سورہ قدر نازل ہوا جوپیغمبر (ص) کے لئے سکون کا باعث بنا۔

--------------

[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:25

۱۶۸

 مفسرین قرآن کی تفسیر کی بناپر درج ذیل آیۂ مبارکہ رسول اکرم(ص) کے اس خواب کی طرف  اشارہ ہے کہ خداوند متعال نے فرمایا:

(وَاِذْ قُلْنٰالَکَ اِنَّ رَبَّکَ أَحٰاطَ بِالنّٰاسِ وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْآنِ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمٰا یَزِیْدُهُمْ اِلاّٰ طُغْیٰاناً کَبِیْراً) (1)

     اور جب ہم نے کہہ دیا کہ آپ کا پروردگار تمام لوگوں کے حالات سے باخبر ہے اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے اور ہم لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں لیکن ان کی سرکشی بڑھتی ہی جارہی ہے۔(2)

 پیغمبر اکرم(ص) اس خواب کے بعد بہت زیادہ پریشان تھے یہاں تک کہ بعض کہتے ہیں:اس کے بعد تا وقتِ آخر تک رسول خدا(ص) کے لبوں  پر مسکراہٹ نہیں آئی۔

 اس آیت میں شجر ملعونہ (وہی بنی امیہ کے حکمران)کی طرف واضح اشارہ ہوا ہے۔

41   ھ میں معاویہ کے ساتھ حضرت امام حسن علیہ السلام کی صلح کے بعد سفیان بن ابی لیلیٰ حضرت امام حسن علیہ السلام کے پاس آیا اور اس نے کہا:اے مؤمنو کو رسوا کرنے والے تم پر سلام ہو!

حضرت امام حسن علیہ السلام نے فرمایا:بیٹھو، خدا تم پر رحمت کرے؛ پیغمبر اکرم(ص) پر بنی امیہ کی بادشاہی واضح ہو گئی تھی اور آپ نے خواب میں یوں دیکھا تھا کہ وہ ایک کے بعد ایک آپ کے منبر پر جا رہے ہیں۔اس کام سے رسول خدا(ص) بہت پریشان ہوئے اور خدا نے اس بارے میں قران کریم کی کچھ آیات نازل فرمائیں اور پیغمبر(ص) سے یوں خطاب ہوا:'' اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے....''۔

--------------

[1]۔ سورۂ اسراء، آیت:60

[2] ۔ اس آیۂ شریفہ میں ایک بہت خوبصورت تلمیح استعمال ہوئی ہے اور وہ ''یزید ''کا نام ہے اور یہ موضوع کہ بہت بڑا ظالم و سرکش ہے

۱۶۹

میں نے اپنے بابا علی علیہ السلام (ان پر خدا کی رحمت ہو) سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

 جلد ہی امت کی خلافت موٹی گردن اور موٹے پیٹ والا شخص سنبھالے گا۔

 میں نے پوچھا :وہ کون ہے؟

 فرمایا:وہ معاویہ ہے۔

 میرے بابا نے مجھ سے فرمایا:قرآن نے بنی امیہ کی حکمرانی اور اس کی مدت کی خبر دی ہے اور خداوند متعال نے فرمایا ہے:''شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے'' اور پھر فرمایا:یہ ہزار مہینے بنی امیہ کی مدت حکومت ہے۔(1)

 اس روایت میں ایک اور پیشنگوئی بھی ہوئی ہے کہ جو اس کی صحت پر دوسری دلیل ہے اور وہ یہ کہ:بنی امیہ کی مدت ہزار ماہ تک ہو گی اور اس مدت کے دوران خاندان عصمت و طہارت علیہم السلام اور تمام لوگوں پر کیسے کیسے مظالم کئے جائیں گے۔

 اہلسنت کے معروف علماء نے متعدد روایات میں بنی امیہ کے فتنہ کے بارے میں قرآن کی کچھ آیات نقل کی ہیں کہ جو ان سب لوگوں کے لئے عبرت کا وسیلہ ہونی چاہئیں کہ جو معاویہ اور تمام بنی امیہ کو مثبت نظر سے دیکھتے ہیں۔

 ان روایات مں بنی امیہ کو کفر کے امام اور دین کے دشمنوں کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے ۔ اس بناء پر اہل تسنن میں ایسا گروہ کہ جومعاویہ کو مسلمان اور رسول خدا(ص) کا خلیفہ سمجھتا ہے !وہ اپنے عقیدے میں تجدید نظر کریں اور اپنے دل سے ان کی محبت کو نکال دیں ۔

 کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ خود کو ملت اسلام کا جزء اور رسول خدا(ص) کی شریعت کا تابع شمار کرنے والے آنحضرت(ص) کے دشمنوں اور آنحضرت کے خاندان اطہار علیہم السلام کے دشمنوں کا احترام کریں اور انہیں رسول خدا کا جانشین اور خلیفہ سمجھیں؟!

 کیا جن کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا کہ میں نے انہیں بندروں اور خنزیروں کی شکل میں دیکھا ہے،تو کیا ان میں آنحضرت(ص) کے آئین کی قیادت و رہبری کرنے کی صلاحیت ہے؟!

--------------

[1]۔ اعجاز پیغمبر اعظم(ص) در پیشگوئی از حوادث آیندہ:302

۱۷۰

 ''تاریخ بغداد''میں خطیب بغدادی کہتے ہیں: رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

أریت بن اُمیّة فی صورة القردة و الخنازیر، یصعدون منبر، فشق ذلک فأنزلت (اِنّٰا أَنْزَلْنٰاهُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ)

 مجھے بنی امیہ دکھلائے گئے کہ وہ بندروں اور خنزیروں کی شکل میں میرے منبر پر چڑھیں گے، یہ مجھ پر سخت ناگوار گذرا پس یہ آیت نازل ہوئی:''

 نیز کہا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

 أریت بن اُمیّة یصعدونمنبر، فشق علّ فأنزلت (اِنّٰا أَنْزَلْنٰاهُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرِ) (1)

 مجھے بنی امیہ دکھلائیگئے کہ وہ میرے منبر پر چڑھیں گے اور یہ مجھ  پر سخت ناگوار گذرا پس یہ   آیت نازل ہوئی:''بیشک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے''۔

سیوطی نے ''الدّر المنثور''میں نقل کیاہے:

 رأء رسول اللّٰه (ص) بن فلان ینزون علی منبره نزو القردة، فساء ذلک ، فما استجع ضاحکاًحتّی مات وأنزل اللّٰه: (وَمٰاجَعَلْنَا الرُّؤْیَاالَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ) ۔

 رسول اکرم(ص) نے دیکھا کہ بنی امیہ ان کے منبر پر بندروں کی طرح اچھل رہے ہیں۔پس آپ اس سے بہت پریشان ہوئے  اور اس واقعہ کے بعد کسی کے ساتھ نہیں مسکرائے یہاں تک کہ اس دنیا سے چلے گئے ۔خداوند کریم نے یہ آیت نازل فرمائی:'' اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے''۔نیز سیوطی نے روایت کی ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:أریت بن امیّة علی منابر الأرض وسیتملّکونکم فتجدونهم أرباب سوء

 مجھے بنی امیہ دکھلائے گئے کہ وہ زمین کے منبروں پر چڑھے ہوئے ہیں اور وہ بہت جلد تمہارے مالک بن جائیں گے!اور پھرتم انہیں برے ارباب پاؤ گے۔

--------------

[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:38، تاریخ بغداد:449

۱۷۱

واهتمّ رسول اللّٰه (ص) لذلک: فأنزل اللّٰه (وَمٰاجَعَلْنَاالرُّؤْیَاالَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ) (1)

 پیغمبر اکرم (ص) اس واقعہ سے بہت پریشان و غضبناک ہوئے پس خداوند کریم نے یہ آیت نازل فرمائی:'' اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے''۔

  حکَم اور اس کے بیٹوں کے بارے میں قرآن کی پیشنگوئی

بنی امیہ  کی حکومت کے بارے میں نقل ہونے والی  پیشنگوئیوں میں سے کچھ پیشنگوئیاں ان سب کے بارے میں ہیں اور کچھ پیشنگوئیاں ان میں سے مخصوص افراد کے بارے میں ہیں۔جیسے ابوسفیان،حکم یا اس کے کسی بیٹے کے بارے میں وارد ہونے والی پیشنگوئیاں۔

 ہم اس بارے میں جو روایت ذکر کریں گے ،وہ روایت اہلسنت کے مشہور علماء نے اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں۔

 سیوطی نے اپنی تفسیر میں  ابن ابی حاتم سے اور اس نے عمر کے بیٹے سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:

 میں نے حکم بن ابی العاص کے بیٹوں کو اپنے منبر پر دیکھا گویا وہ بندروں کی طرح تھے، خداوند نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی:

 (وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ ) (2)

 اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابل لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے۔ ''شجر ملعونہ''سے حکم اور اس کے بیٹے مراد ہیں۔

 نیز سیوطی نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ اس نے مروان بن حکم سے کہا:

 میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ وہ تمہارے باپ اور دادا سے فرما رہے تھے:

--------------

[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:28، الدّر المنثور:ج۴ص۱۹۱

[2]۔ سورۂ اسراء،آیت:60

۱۷۲

 انکم الشجرة الملعونة فی القرآن

 تم ہی وہ شجر ہو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے۔(1)

 آلوسی نے اپنی تفسیر میں روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

 رأیت ولد الحکم بن ابی العاص علی المنابرکأٔنهم القردة، و أنزل اللّٰه تعالی فی ذلک: (وَمٰا جَعَلْنٰا....)، والشجرة الملعونة الحکم وولده

 میں نے حکم بن ابی العاص کے بیٹوں کو منبروں پر دیکھا گویا وہ بندر وں کی طرح تھے۔خداوند نے اس بارے میں یہ آیت(وَمٰا جَعَلْنٰا..) نازل فرمائی ۔اور شجر ملعونہ حکم اور اس کے بیٹے ہیں۔(2) قرطبی نے بھی اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے:

 انه رأء فی المنام بن مروان علی منبره نزو القردة، فساء ذلک فقیل:انّما ه الدّنیا أعطوها، فسرّی عنه و ما کان له بمکّة منبر و لکنّه یجوز أن یری بمکّة رؤیا المنبر بالمدینة

 رسول اکرم(ص) نے عالم خواب میں دیکھا کہ بنی مروان آپ کے منبر پر بندروں کی طرح اچھل رہے ہیں ۔آپ اس واقعہ سے بہت پریشان ہوئے تو آنحضرت سے کہا گیا کہ یہ دنیا ہے کہ جو انہیں دی جائے گی۔اس سے آپ کا غم ہلکا ہوا اور اس زمانے میں آنحضرت کا مکہ میں کوئی منبر نہیں تھا لیکن آپ نے مکہ میں عالم خواب میں وہی منبر دیکھا تھا کہ جو مدینہ میں تھا۔(3)

شوکانی نے اپنی تفسیر میں یہ روایت ذکر کی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:رأیت ولد الحکم بن ابی العاص علی المنابر کأنهم القردة ، فأنزل اللّٰه هذه الآیة میں نے حکم بن ابی العاص کے بیٹوں کو منبروں پر دیکھا گویا وہ بندروں کی طرح تھے،پس  خدا نے  یہ آیت(وَمٰا جَعَلْنٰا...) نازل فرمائی ۔(4)

--------------

[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:28، الدّر المنثور:ج۴ص۱۹۱

[2]۔ معاویہ بن ابی سفیان:29،روح المعانی:ج4ص191

[3]۔ معاویہ بن ابی سفیان:31،الجامع لأحکام القرآن:ج10ص283

[4]۔ معاویہ بن ابی سفیان:31،فتح القدیر:ج3ص298

۱۷۳

 فخر رازی نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت مبارکہ کے بارے میں روایت کی ہے:

 .... رأی رسول اللّٰه(ص)ف المنام انّ ولد مروان یتداولون منبره، فقصّ رؤیاه علی أبی بکر و عمر و قد خلا ف بیته معهما، فلمّا تفرّقوا سمع رسول اللّٰه (ص) الحکم یخبر رسول الله (ص)، فاشتدّ ذلک علیه و ممّا یؤکده هذا التأویل قول عایشه لمروان: لعن اللّٰه أباک و أنت ف صلبه، فأنت بعض من لعنه اللّٰه( 1)

.... رسول خدا(ص) نے خواب میں دیکھا کہ مروان کے بیٹے آپ کے منبر پر چڑھ رہے ہیں۔آپ نے اپنا خواب ابوبکر و عمر سے بیان کیا کہ جو پیغمبر(ص) کے گھر میں آپ کے ساتھ تنہا تھے ۔ جب وہ چلے گئے تو رسول خدا(ص) نے سنا کہ حکم نے یہ واقعہ پیغمبر(ص) سے نقل کیا ہے ۔ یہ واقعہ آپ پر سخت ناگوار گذرا (کہ ان دو افراد نے آپ کا فرمان حکم تک پہنچا دیا) اس آیت کی تأویل پر جو چیز تاکید کرتی ہے وہ عائشہ کا مروان سے کہا گیا قول ہے کہ خداوند نے تمہارے باپ پر  لعنت کی ہے جب کہ تم اس کے صلب میں تھے پس تم پر بھی خدا کی لعنت ہے۔سیوطی نے بھی اس آیت کی تأویل میں یہ روایت دوسری عبارت میں نقل کی ہے:

....رأی  رسول اللّٰه (ص) بن الحکم بن أب یالعاص ینزون علی منبره نزو القردة، فساء ذلک، فما استجمع ضاحکاً حتّی مات و أنزل اللّٰه فی ذلک ( وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ) (2)

 پیغمبراکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے منبروں پر حکم بن ابی العاص کے بیٹے بندروں کی طرح اچھل رہے ہیں ۔ اس واقعہ کے بعد آپ بہت پریشان ہوئے اور دنیاسے جاتے وقت تک کسی نے آپ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا ۔

--------------

[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:31،جامع البیان:ج9ص112

[2]۔ معاویہ بن ابی سفیان:33،اتاریخ الخلفاء:26

۱۷۴

 زمخشری نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت کی تأویل کو دوسری طرح نقل کیا ہے:اس نے اس آیت مبارکہ( وَمٰا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنٰاکَ اِلاّٰ فِتْنَةً لِلنّٰاسِ) کے بارے روایت کی ہے:

رأی فی المنام أنّ ولد الحکم یتداولون منبره کما یتداول الصبیان الکرّة ۔(1)

پیغمبر اکرم(ص) نے خواب میں دیکھا کہ حکم کے بیٹے آپ کے منبر پر اس طرح  کھیل رہے ہیں کہ جس طرح بچے گیند سے کھیلتے ہیں۔

پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں کا راز

 پیشنگوئیاں مستقبل کے لوگوں کا رسول اکرم(ص) کے ساتھ ارتباط اور ان بزرگ ہستیوں کے صحیح عقائد سے آشنا ہونے کا ذریعہ ہیں۔ جنہوں نے پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے کو درک نہیں کیا اور جو آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہونے اور آپ کے ارشادات سے استفادہ کرنے سے محروم تھے اور ہیں،لیکن وہ مستقبل کے بارے میں آنحضرت کے بیان کئے گئے فرمودات کی طرف رجوع کرکے رسول خدا(ص) کی نظر میںآنے والے واقعات کا تجزیہ کر سکتے ہیں اور وہ یہ جان سکتے ہیں کہ جو واقعات آنحضرت کے زمانے کے بعد وقوع ہوئے یا وقع پذیر ہوں گے ،ان کے بارے میں رسول اکرم(ص) نے کیا فرمایا ہے۔

پیشنگوئیوں اور آئندہ کے حوادث کو بیان کرنے سے خاندان وحی علیہم السلام کا مقصد یہ تھا کہ مستقبل کے لوگ اپنے زمانے میں پیش آنے والے واقعات سے آگاہ ہوں اور کھلی آنکھوں سے ان کا مشاہدہ کریں اور ان کے مقابلے میں ہوشیار رہیں۔

 اگرچہ خاندان وحی علیہم السلام نے گذشتہ زمانے میں اپنے پاس موجود لوگوں سے اپنے فرامین بیان کئے لیکن ان کے فرامین ہر اس شخص کے  لئے ہیں کہ جنہوں نے ان حوادث کا سامنا کیا یاسامنا   کریں گے۔اسی طرح اس زمانے کے بعد زندگی گذارنے والے لوگوں کو گذشتہ تاریخ سے آگاہ ہونا چاہئے اور انہیں یہ جاننا چاہئے کہ ان واقعات کے بارے میں رسول خدا(ص) اور دین خدا کے پیشواؤں کا کیا اعتقاد تھا۔

--------------

[1]۔ معاویہ بن ابی سفیان:34،الکشّاف:ج2ص676

۱۷۵

 اس بناء پر جس زمانے کے بارے میں بھی خاندان وحی علیہم السلام  نے کسی واقعہ کی پیشنگوئی کی ہو تو اس زمانے کے لوگوں (اور اس زمانے کے بعد زندگی گذارنے والوں)کو ان سے آگاہ ہونا چاہئے تا کہ آنکھیں بند کرکے گمراہی کی طرف نہ چلے جائیں اور گمراہ کرنے والی سازشوںسے دھوکا نہ کھائیں۔

 پس خاندان وحی علیہم السلام کی زبان سے پیشنگوئیوں کو بیان کرنے کا ایک راز یہ ہے کہ آئندہ آنے والے لوگ اپنے زمانے کے حوادث و واقعات سے آگاہ ہوں اور گمراہ کرنے والوں کی سازشوں سے محفوظ رہیں اور گمراہی کی وادی میں قدم نہ رکھیں۔

 ایک بہت ہی اہم نکتہ کہ جس کی طرف توجہ اور غور و فکر کرنا بہت ضروری ہے،وہ یہ ہے کہ حدیث لکھنے سے منع کرنے کے اسباب وعلل میں سے ایک رسول اکرم(ص) کی احادیث میں پیشنگوئیوں کے انتشار کو روکنا تھا۔کیونکہ رسول اکرم(ص) کی حدیثوں کی وجہ سے لوگ آئندہ کے حالات اور جنم لینے والے فتنوں سے آگاہ ہورہے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ بہت سے افراد کی ہوشیاری اور بیداری کے لئے مؤثر تھیں۔

 رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیوں سے آگاہ افراد کے لئے یہ حقیقت واضح و روشن ہے اور سب لوگوں کو ان سے آگاہ ہونے کے لئے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے سپہ سالار جناب عمار یاسر کی شہادت کے بارے میں رسول خدا(ص) کی پیشنگوئی کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔

 ہم آئندہ اس بارے میں بحث کریں گے تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ آنحضرت کی پیشنگوئیوں نے کس طرح شام کے لشکر میں اختلافات پیدا کر دیئے اور ان میں سے کچھ لوگ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ کیوں مل گئے حتی کہ پیشنگوئیوں کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ معاویہ اور عمرو عاص کے درمیان  اختلافات پیدا ہو گئے اور نزدیک تھا کہ اس کی وجہ سے شام کے لشکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑے۔

۱۷۶

 بنی امیہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیاں

معاویہ، اس کی حکومت اور بنی امیہ کے پورے خاندان کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئیاں یہ بنیادی نکتہ بیان کرتی ہیں کہ امویوں نے رسول خدا(ص) کے فرامین پر توجہ نہیں کی اور حکومت کی کرسی پر ٹیک لگا کر آنحضرت کے حقیقی جانشینوں کو ان کے حق سے محروم کر دیا۔

مختلف پروپگنڈوں، جعلی اور من گھڑت افواہوں کے ذریعہ اکثر لوگوں (جو اسلام کے اصولوں سے آشنا نہیں تھے) کو دھوکا دیا اور خود کو رسول خدا(ص) کا حقیقی جانشین اور سچے خلفاء کےعنوان سےپیش کیا! رسول خدا(ص) کی پیشنگوئیاں صرف ان لوگوں کی گمراہی کی واضح دلیل نہیں تھیں کہ جنہوں نے امویوں سے دل لگایا اور ان کے ساتھ مل کر دین کی کمر توڑی ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ گمراہ کرنے والے اموی خاندان کی گمراہی کی بھی دلیل تھیں۔ حیرت کا مقام ہے کہ تدوین حدیث کے بارے میں عمر کی ان تما م سختیوں اور ممانعت ( اس نے رسول خدا(ص) کے فرمودات کو پھیلانے سے منع کر دیا) کے باوجود لوگوں میں آئندہ کے منحوس حوادث کے بارے آنحضرت (ص) کی پیشنگوئیاں عام ہوئیں کہ جن سے صرف اس زمانے کے سیاستدان ہی نہیںبلکہ عام لوگ بھی آگاہ ہوئے۔ اس نکتہ کی یاد دہانی ضروری ہے کہ رسول اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئیوں کا تذکرہ صرف شیعہ بزرگ علماء نے ہی اپنی کتابوں میں نہیں کیا بلکہ اہلسنت  کے مؤرخین اور بزرگ علماء نے بھی انہیں اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور یوںلوگوں کا امویوں کے کردار و رفتار کو پہچاننے اور ان سے آشنا ہونے کے لئے حجت تمام ہوئی ہے۔

بنی امیہ کی حکومت کے بارےمیں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی

پیغمبر اکرم(ص) نے بنی امیہ اور ان کے بعض افراد کے بارے میں کچھ پیشنگوئیاں کیں اور لوگوں کو اسلام کے ساتھ ان کی دشمنی اور نفاق سے آگاہ کیا۔جناب ابوذر نے آنحضرت سے معاویہ کے بارے میں جو پیشنگوئی نقل کی،ہم ابن ابی الحدید کے قول کے مطابق

۱۷۷

کچھ مطالب ذکر کریں گے ۔جب بھی ععاص کی اولاد کی تعداد تیس تک پہنچ جائے گی تو اس کے بارے میں رسول اکرم(ص) نے کچھ مطالب بیان فرمائے ہیں۔اب ہم ان تیس افراد کے بارے میں یعقوبی(اہلسنت کے ایک مؤرخ) کی واضح عبارت سے آنحضرت کی پیشنگوئی بیان کرتے ہیں۔

     وہ کہتے ہیں: معاویہ نے عثمان کو لکھا کہ تم نے ابوذر کے ذریعے اپنے لئے شام کو تباہ کر لیا۔

     پس اس کے لئے لکھا کہ اسے بے کجاوہ سواری پر سوار کرو۔

     اس طرح انہیں مدینہ لایا گیا جب کہ ان کے دونوں زانوں کا گوشت الگ ہو چکا تھا۔پس جب وہ آئے تو اس کے پاس ایک گروہ موجود تھا،اس نے کہا:مجھ سے کہا گیا ہے کہ تم یہ کہتے ہو:میں نے پیغمبر سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے:

     اذا کملت بنو امیّة ثلاثین رجلاً اتّخذوا بلاد اللّٰه دولاًوعباد اللّٰه خولاً،و دین اللّٰه دغلاً

     جب بھی بنی امیہ کی تعداد تیس افراد تک پہنچ گئی تووہ خدا کی زمین کو اپنی ملکیت سمجھیں گے۔ خدا کے بندوں کو اپنا نوکر  اور خدا کے دین کومکاری و فساد سمجھیں گے۔

کہا: ہاں؛ میں نے پیغمبرخدا(ص) سے سنا تھا کہ آپ نے ایسا ہی فرمایا۔

 پھر ان سے کہا:کیا تم لوگوں نے رسول خدا (ص) سے کچھ سنا ہے تو بیان کرو؟پھر حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کے پاس بھیجا اور آنحضرت اس کے پاس آئے۔

 ان سے کہا:اے ابوالحسن! کیا آپ نے پیغمبر خدا(ص) سے یہ حدیث سنی ہے کہ جسے ابوذر بیان کر  رہے ہیں؟اور پھر حضرت علی علیہ السلام سے سارا واقعہ بیان کیاگیا۔

     حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:ہاں

     اس نے کہا:آپ کس طرح گواہی دے رہے ہیں؟فرمایا:

     رسول خدا(ص) کے اس فرمان کی روشنی میں:

۱۷۸

     ''ما اظلّت الخضراء ولاأقلّت الغبراء ذا لهجة أصدق من ابی ذر'' (1)

     آسمان نے سایہ نہیں کیا اور زمین نے کسی کو خود پر جگہ نہیں دی کہ جو ابوذر سے زیادہ سچا ہو۔

     پس ابوذر مدینہ میں کچھ دن تک ہی تھے کہ عثمان نے ان کے پاس کسی کو بھیجا اور کہا کہ خدا کی قسم تم مدینہ سے باہر چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا:کیا تم مجھے حرم رسول خدا(ص) سے نکال رہے ہو؟

     کہا:ہاں؛جب کہ تم ذلیل وخوارہو!

     ابوذرنے کہا:میں مکہ چلا جاؤں ؟

     کہا :نہیں

     پھر کہا:کیا بصرہ چلا جاؤں؟

 کہا: نہیں

 ابوذر نے کہا:پس پھر کوفہ چلا جاؤں؟

 کہا: نہیں؛ لیکن ربذہ چلے جاؤ کہ جہاں سے آئے تھے تا کہ وہیں مر جاؤ۔اے مروان اسے باہر نکال دو اور کسی کو اس سے بات کرنے کی اجازت نہ دو یہاں تک کہ یہ یہاں سے باہر نکل جائے۔ پس ابوذر کو ان کی زوجہ اور بیٹی کے ساتھ اونٹ پر سوار کر کے باہر نکال دیا گیا۔ حضرت علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام،امام حسین علیہ السلام،عبداللہ بن جعفر اور عمار بن یاسر جناب ابوذر سے ملنے کے   لئے شہر سے باہرآئے اور جب ابوذر نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا تو آگے بڑے اور آپ کی دست بوسی کی اور پھر رونا شروع کر دیا اور کہا:میں جب بھی آپ کو اور آپ کے بیٹوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے پیغمبر اکرم(ص) کا فرمان یاد آ جاتا ہے اور رونے کے علاوہ میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

--------------

[1]۔ نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:283

۱۷۹

 حضرت علی علیہ السلام ان سے بات کرنے  کے لئے گئے لیکن مروان نے کہا:امیر المؤمنین !نے منع کیا ہے کہ کوئی بھی ان کے ساتھ بات نہ کرے۔

 حضرت علی علیہ السلام نے تازیانہ اٹھایا اور مروان کے اونٹ پر مارا اور کہا:دور ہو جاؤ؛ خدا تمہیں آگ میں جلائے۔ اور پھر آپ نے جناب ابوذر کو الوداع کیا اور ان کے ساتھ گفتگو کی کہ جن کی تفصیلات بہت طولانی ہیں۔(3)(2)

 اس روایت میں پیغمبر اکرم(ص) کے فرمان کی بناء پر جب بنی امیہ کے افراد کی تعداد تیس ہو جائے گی تو وہ نہ صرف ممالک کو اپنا مال ،خدا کے بندوں کو اپنا نوکر و فرمانبردارسمجھیں گے بلکہ اصل دین کو مکاری و فساد قراد دیں گے۔اور یہ خود اس چیز کی دلیل ہے کہ ان کے اسلام کی کوئی بنیاد نہیں تھی بلکہ وہ صرف ایک ظاہری پہلو تھا۔سب لوگ جانتے ہیں کہ معاویہ نے خدا کے پاک بندے  اور رسول خدا(ص)کے محبوب صحابی جناب ابوزر کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں ''الغارات '' سے منقول پیشنگوئی

 زر بن حبیش کہتے ہیں:حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے جنگ نہروان کے ختم ہونے کے بعد لوگوں کو خطبہ دیا اور خدا کی حمد و ثنا اور درود و سلام کے بعد یوں فرمایا:

اے لوگ!میں نے فتنہ کی آگ کو بجھا دیا اور ان کی آنکھیں کھول دیںاور سب پر حقیقت کو آشکار کر دیا۔میرے علاوہ کسی میں یہ جرأت نہیں تھی کہ خود کو اس فتنہ میں داخل کرے اور یہ فتنہ جنم دینے والوں کے خلاف جنگ و جہاد کے لئے اٹھے۔

 (ابن ابی لیلیٰ کی حدیث میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:)میرے علاوہ کوئی اور نہیں تھا کہ جو فتنہ کی آنکھیں کھولے اور لوگوں کے لئے حقائق و واقعات آشکار کرے،اگر میں تم لوگوں میں نہ ہوتا تو کوئی بھی اہل جمل و نہروان کے ساتھ جنگ نہ کرتا۔

--------------

[2]۔ نہج البلاغہ

[3]۔ تاریخ یعقوبی:ج۲ص6۷

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809