فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیة اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 302069
ڈاؤنلوڈ: 4165

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 302069 / ڈاؤنلوڈ: 4165
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

عمرو کا بھتیجہ: کس عنوان سے قریش کے درمیان زندگی بسر کرو گے؟ اپنے دین کو بیچ دیااوردوسرے کی دنیا کا دھوکہ کھا گئے ، کیا مصر کے لوگ ، علی کے ہوتے ہوئے مصر کو معاویہ کے حوالے کریں گے؟ جب کہ یہ لوگ عثمان کے قاتل ہیں۔ اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ معاویہ نے اس سرزمین پر قبضہ کر لیا تو کیا تمھیں ا س جملے کی وجہ سے جو کہ تم نے اپنے دستخط کے ساتھ لکھا ہے سرزمین سے دور نہیں کردے گا؟

عمرو کچھ دیر تک فکر کرنے لگا اور کچھ دیر کے بعد ایمان کی وجہ سے نہیں ، بلکہ عربوں کی عادت کی بنا پر کہا: اب سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے نہ کہ علی اور معاویہ کے ہاتھ میں ، اگر میں علی کے ساتھ ہوتا تو میرا گھر ہی میرے لئے کافی ہوتا، مگر اب تو میں معاویہ کے ساتھ ہوں۔

عمرو کا بھتیجہ: اگر تم معاویہ سے نہ ملتے تومعاویہ بھی تم سے ملاقات نہ کرتا، تم نے دنیاوی لالچ کی وجہ سے اس سے ملاقات کی اور وہ تمہارے دین کا خریدار بنا۔

چچابھتیجے کے ساتھ ہونے والی گفتگو جب معاویہ کے کانوں تک پہونچی تو نے چاہا کہ اسے گرفتار کرے لیکن وہ عراق کی طرف بھاگ گیااور امام علی ـ کے لشکر سے ملحق ہوگیا اور امام ـ سے دو بوڑھے سیاسی مکاروں کے درمیان ہوئی گفتگواور معاملہ کو بیان کیا اور بالآخر امام ـ کے نزدیک اپنا ایک مقام بنالیا۔(۱)

مروان بن حکم بھی جب عمرو عاص او رمعاویہ کے درمیان ہوئے سیاسی معاملے سے آگاہ ہوا تواس نے اعتراض کیا اور کہا: کیوں عمرو کی طرح ہمیں بھی نہیں خریدتے (اور دین اموی کی قیمت کے مقابلے میں اسلامی ملکوںکے بعض حصے کو میرے حوالے کیوں نہیں کرتے؟) جب معاویہ کواس کی باتوں کا علم ہوا تو اسے تسلی دی اور کہا عمرو جیسے افراد تم جیسوں کے لئے خریدے جا رہے ہیں تاکہ اموی حکومت کومستحکم کیاجائے جس کا توبھی ایک حصہ ہے ۔(۲)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۴۱، الامامة والسیاسة ص ۸۸پر نصر بن مزاحم نے اس جوان کو عمرو کا چچا زاد بھائی لکھا ہے۔

(۲) الامامة والسیاسة، ص ۸۸۔

۴۸۱

عمروعاص کا شیطانی حربہ

دو چالاک سیاستدانوں کے معاملات ختم ہوگئے اور اب وقت آ پہونچا کہ معاویہ عمرو کے حربے کو استعمال کرے، عمرو جو محمد بن ابی حذیفہ سے مقابلے اور قیصر روم کے شام پر حملہ کرنے کے اندیشہ کے متعلق جو حربہ و منصوبہ تیار کیا تھا وہ بہت ہی دقیق انداز سے انجام دیا گیا،اور دونوں میں کامیابی ملی، لیکن سب سے بڑی مشکل حضرت علی ـ سے مقابلہ کرنے کی تھی جو شام کی طرف روانہ ہوچکے تھے ۔ وہ مشکل ابھی بھی باقی تھی عمرو نے امام علی ـ سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک ایسا پروگرام بنایا جس کی وجہ سے شام کے اکثر افراد اپنی مرضی سے معاویہ کے لشکر میں شامل ہوکر علی ـ سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے، اب دیکھنا یہ ہے کہ آخر یہ کیسا منصوبہ تھا جس کی وجہ سے شامیوں جیسے آسودہ اور آرام طلبلوگ مثلاً شام سے باہر جانے کے لئے آمادہ ہوئے اور موت کو آسودہ و آرام طلب زندگی پر ترجیح دی۔

''کہتے ہیں کہ ایک بزرگ صحابی معاویہ کے پاس گئے معاویہ نے ان کا پرتپاک استقبال اوران کا احترام کیا، وہ عمرو عاص اور معاویہ درمیان کے بیٹھ گئے اور کہا: تم جانتے ہو کہ کیوں میں تم لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوں۔ انھوں نے جواب دیا نہیں ۔ انہوں نے کہا: ایک دن تم لوگ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بزم میں بیٹھے تھے اور آپس میں مخفیانہ گفتگو کر رہے تھے ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ خداوند عالم اس شخص پر رحمت نازل کرے جوان دونوں کو ایک دوسرے سے دور کردے، کیونکہ یہ دونوں خیر پر جمع نہیں ہونگے۔(۱)

سعی وکوشش کیلئے ایمان سے بہتر کوئی عامل نہیں ہے اس کے باوجود مذہبی احساسات اتنے قوی ہوتے ہیں کہ اگر مفاد طلب زمامداروںکے قبضے میں آجائیں تو ان کے تخریبی اقدامات بیان سے باہر ہوجاتے ہیں۔

عمرو عاص کا حربہ امام علی ـ سے مقابلے کے لئے یہ تھا کہ شام کے افراد کے دینی جذبہ کو حضرت کے خلاف کردے،اور امام ـ پر خلیفہ کے قتل کرنے کا الزام لگادے اور اس خبر کو عام کرنے کے لئے معاشرے کے زاہد اور پارسا لوگوں سے استفادہ کرے جو لوگوں کی نظر میں قابل احترام ہیں۔

_______________________________

(۱) ہندوشاہ نخجوانی، تجارب السلف، بہ تصحیح عبا س اقبال ص ۴۶۔

۴۸۲

اس کے علاوہ ، معاویہ سے کہا کہ شرحبیل کندی(۱) شام کے لوگوں کی نظر میں محترم شخص ہے اور اپنے علاقے میں علی کے نمائندے جریر کا دشمن بھی ہے ۔ اسے ان تمام واقعات سے

اس طرح باخبر کرو کہ اسے یقین پیدا ہو جائے کہ علی ، عثمان کے قاتل ہیں او رتمہارے اور اس کے مورد اعتمادجو افراد ہیں انھیں یہ ذمہ داریاں سونپ دو، کہ پورے شام میں اس بات کو عام کردیں کیونکہ جو چیز شرحبیل کے دل میں بیٹھ جاتی ہے وہ بہت جلدی نہیں نکلتی۔(۲)

______________________

(۱) کندہ، غبطہ کے وزن پر ہے اور یمن کے ایک قبیلے کا نام ہے جو عربستان کے شبہ جزیرہ کے جنوب میں واقع ہے جہاں یہ لوگ زندگی بسر کرتے تھے پھر وہاں سے بہت زیادہ گروہ شام وغیرہ کی طرف ہجرت کر گئے شرحبیل بھی اسی قبیلے کا رہنے والا تھا اور اس کے اجداد بھی یمن سے شام کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔

(۲) وقعۂ صفین، ص ۴۴، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۲، ص ۷۱۔

۴۸۳

معاویہ کاخط شرحبیل کے نام

معاویہ نے شرجیل کو خط لکھا اور اس نے علی ـ کے نمائندہ جریر کے آمد کی خبر دی شرحبیل اس وقت شام کے شہر حمص میں رہتا تھا۔ معاویہ نے اس سے درخواست کی کہ جتتی جلدی ممکن ہو شام آ جاؤ ۔ اور اس وقت اپنے دربار کے تمام نمک خواروں کو، جو سب کے سب یمن قحطان کے رہنے والے تھے اور شرحبیل سے لوگوں کے اچھے تعلقات تھے، ذمہ داری سونپی کہ حمص جائیں اور سب مل جل کر ایک آواز سے یہی کہیں کہ خلیفہ سوم کے علی قاتل ہیں۔ جب معاویہ کا خط شرجیل کو ملا تو اس نے اپنے دوستوں کو بلایا اور معاویہ کی دعوت کو ان کے درمیان میں رکھا ، شام کا سب سے ذہین اور قابل فہم شخص عبد الرحمن بن غنم ازدی اٹھا اور اس نے زاہد و عابد کو اس کام کے برے نتیجے سے آگاہ کیااورکہا:

تم نے جس دن سے کفر سے اسلام کی طرف ہجرت کی ہے ہمیشہ لطف الہی تمہارے شامل حال رہا۔ اور جب تک لوگوں کی طرف سے خدا کا شکر منقطع نہ ہو تو خدا کی طرف سے بھی نعمتوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا، اور ''خداوند عالم ہرگز لوگوں کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک لوگ خود اپنے کو بدل نہ ڈالیں'' ہمیں عثمان کے قتل کی خبر حضرت علی ـ ہی کے ذریعے ملی ہے، اگر واقعاً علی نے عثمان کو قتل کیا ہے تو مہاجر و انصار نے ان کی بیعت کیا ہے اور یہ لوگ لوگوں پر حاکم ہیں اور اگر علی نے ان کو قتل نہیں کیا ہے

تو کیوں معاویہ کی تصدیق کر رہے ہو؟ میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہخود اور اپنے عزیزوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اگر تمہیں اس بات کا خوف ہے کہ جریر کسی مقام پر پہونچ جائے گا تو تم بھی علی کے پاس جاؤ اور اپنی قوم اور شام کے لوگوں کے ساتھ ان کی بیعت کرو۔

۴۸۴

لیکن اس مرد ازدی کی خیر خواہی مؤثر ثابت نہ ہوسکی اور شرحیل معاویہ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے شام کی طرف روانہ ہوگیا۔(۱)

معاویہ کا بزرگان قبیلہ اور خشک زاہدوں سے مدد مانگنا

تمام قبایلی نظام میں رئیس قبیلہ کو تصمیم گیری میں مکمل آزادی ہوتی ہے، اور اگر وہ کسی چیز کو مان لے تو قبیلے کے افراد اسے مان لیتے ہیںاور در حقیقت یہ ایک رائے تمام افراد کی رائے کی جانشین ہوتی ہے خصوصاً اگر رئیس قبیلہ ظاہری طور پر تقوے والا ہو۔

معاویہ شام کے لوگوں اور یمنی مہاجرین جو شام میں زندگی بسر کر رہے تھے کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے ایسے ہی لوگوں کی تلاش میں تھا ،اور اس کی دوسری عقل عمرو عاص نے بھی اسے اس کام کے لئے مشورہ دیاتھا۔ ان افراد میں شرحبیل یمنی(۲) کے اندر دونوں شرائط موجود تھے جو شام کے حمص علاقے میں رہتا تھا شرجیل خود مقدس بھی تھا اور یمنی مہاجروں میں بزرگ بھی شمار ہوتاتھا اور اس کی نظر کو جذب کرنے سے امام ـ کے متعلق لوگوںکی فکروں میں تبدیلی لائی جاسکتی تھی۔

اسی وجہ سے معاویہ نے اسے خط لکھا اور شام آنے کی دعوت دی۔(۳)

اور وہ لوگ جو شرحبیل کے معتمد خاص معتمد تھے انھیں حکم دیا کہ مستقل اس سے ملاقات کرتے رہیں اور علی ـ کو عثمان کے قاتل کے طور پر پہچنواتے رہیں اور اس کے ذہن میں یہ بات ڈالتے رہیں تاکہ اس کے ذہن میں ''امام کا قاتل'' ہونا اس طرح رچ بس جائے کہ اس کے علاوہ دوسری چیز اس کے ذہن میں نہ آئے۔

______________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۴۵۔ ۴۴، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۷۱۔

(۲) ابن ابی حاتم اپنی کتاب ''الجرح و التعدیل'' (ج، ص ۳۳۸) میں اس کا نام لکھتے ہیں اور بخاری نے اپنی تاریخ (ج۲، ص ۲۴۹) میں اس کا حال لکھا ہے۔

(۳) وقعۂ صفین ص ۴۵۔ ۴۴، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۷۱، کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۴۳۔

۴۸۵

وہ جب حمص سے شام آیا تو تمام لوگوں نے اس کا بہت احترام کیا معاویہ نے اس کے ساتھ ملاقات کی اور شام کے زاہد سے یہ کہا: جریر بن عبد اللہ بجلی عراق سے یہاں آیا ہے اور مجھے علی کی بیعت کرنے کی دعوت دے رہا ہے اور علی بہترین لوگوں میں سے تو ہیں مگر یہ کہ انھوںنے عثمان کو قتل کیا ہے میں نے کسی بھی طرح کا ارادہ کرنے سے پرہیز کیا ہے کیونکہ میں بھی شام کے لوگوں میں سے ایک ہوں اور جس چیز کے بارے میںوہ رائے دے گے گے میں بھی وہی رائے دوں گا اور جس چیز کو وہ لوگ پسند نہیں کریںگے میں بھی اس چیز کو پسند نہیں کروں گا۔

شام کے زاہد نے اپنا نظریہ پیش کرنے سے پرہیز کیا اور کہا میں پہلے تحقیق کروں گا پھر کوئی رائے پیش کروں گا لہذا وہاں سے چلا گیا اور تحقیق کرنے لگا۔(۱)

وہ لوگ جنھیں معاویہ نے پہلے ہی سے اسے ذہنی طور پر بہکانے کے لئے معین کیا تھا ان لوگوں نے مختلف طریقوں سے اسے بہکایا اور امام کے ہاتھوں عثمان کے قتل کی تصدیق کی اور علی ـ کے بارے میں اس کے دل میں شک و شبہہ پیدا کردیا۔

غلط اور جھوٹ پر مبنی باتوں نے اس سادہ لوح زاہد کی فکر کو تبدیل کردیااور اسے اتنا بہکایاکہ اس کے اندر انتقام کی آگ بھڑک اٹھی اور معاویہ سے زیادہ وہ حسد کرنے لگا۔ لہذا جب وہ دوسری مرتبہ معاویہ سے ملا تو اس سے کہا میں نے صرف لوگوں سے یہی سنا کہ علی عثمان کے قاتل ہیں۔ اس لئے تمہیں حق نہیں ہے کہ تم اس کی بیعت کرو اور اگر ایسا کرو گے تو تمہیں شام سے نکال دوں گا یاتجھے قتل کردوں گا۔(۲)

معاویہ اس کی باتیں سن کر مطمئن ہوگیا کہ دین فروشوں نے زاہد سادہ لوح کو خوب دھوکہ دیا ہے ۔ پھر معاویہ نے اس سے کہا: میں شام کا ایک فرد ہوںاو رہرگز تمہاری مخالفت نہیں کروں گا۔ شام کا زاہد وہاں سے اٹھ کر حصین بن نمیر کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ کسی کو امام ـ کے نمائندہ جریر کے پاس بھیجو تاکہ اس سے بھی گفتگو کی جائے۔

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۴۵۔ ۴۴، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۷۱، کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۴۳۔

(۲) وقعۂ صفین ص ۴۸۔ ۴۷، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۷۳۔

۴۸۶

زاہد شام کی نمائندہ امام ـ سے گفتگو

جریر بن عبد اللہ حصین بن نمیر کے ساتھ شرحبیل کے پاس آئے اور تینوں کے درمیان گفتگو ہوئی۔ زاہد شامی نے جریر سے کہا تم صحیح خبر کے ساتھ یہاں نہیں آئے ہو گویا تم چاہتے ہو کہ ہمیں شیر کے منھ میں ڈال دو اور عراق و شام کو آپس میں لڑا دو، علی کی خو ب تعریف کرتے ہو جب کہ انھوں نے عثمان کو قتل کیاہے اور تم قیامت کے دن خدا کے سامنے جواب دہ ہوگے ، جب شرحبیل کی بات ختم ہوئی تو امام کے نمائندے نے اسے یہ جواب دیا:

''میں ہرگز مبہم باتوں کے ساتھ تم لوگوں کے پاس نہیں آیاہوں کس طرح سے علی کی خلافت مبہم ہوگی، جب کہ مہاجرو انصار نے ان کی بیعت کی ہے اور بیعت توڑنے کی وجہ سے طلحہ و زبیر مارے گئے ہیں؟ تم نے خود اپنے کو شیر کے جال میں ڈالاہے، میں نے ایسا ہرگز کام نہیں کیا ہے۔ اگر عراق اور شام حق کی حفاظت کرنے کے لئے متحد ہو جائیں تو ایک امر باطل کے لئے جدا ہونے سے بہتر ہے اور تمہارا جو یہ کہناہے کہ علی نے عثمان کو قتل کیا ہے تو خدا کی قسم یہ الزام تراشی کا ایک ایسا تیر ہے جو دور سے پھینکنے کے علاوہ کچھ نہیں ، تم دنیا کے محبوب ہوگئے ہو اور پہلے بھی سعد وقاص کے زمانے سے کچھ دل میں چھپائے ہو۔(۱)

گفتگو ختم ہوگئی بعدمیں جریر نے ایک قصیدہ اپنے یمنی ہم منصب شرحبیل کے پاس اس پیغام کے ساتھ روانہ کیا۔

''شرحبیل'' اے سمط کے بیٹے، خواہشات نفسانی کی پیروی نہ کرو، کیوں کہ اس دنیا میں دین کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے اور حرب کے بیٹے سے کہو کہ اب تمہارا کوئی احترام نہیں ہے جس چیز کا ارادہ کیاہے اس تک پہونچ جاؤ، لہذا اس کی امید کو خاک میں ملادو۔(۲)

______________________

(۱) جریر کی عبارت یہ ہے:''فوا لله ما فی یدیک فی ذالک الا القذف بالغیب من مکان بعید، اور یه جمله اس آیت کا اقتباس ہے کہ ارشاد قدرت ہے، ''یقذفون بالغیب من مکان بعید '' (سورۂ نسائ، آیت ۵۳) وقعۂ صفین ص ۴۸۔ ۴۷۔

(۲) وقعۂ صفین ص ۴۹۔ ۴۸، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۲ ص ۸۱۔ ۸۰۔

۴۸۷

جس وقت جریرکا نصیحت آمیز خط بہترین قصیدہ کے ساتھ شرحبیل کے پاس پہونچاتو اسے ایک جھٹکا لگا اور فکر میں ڈوب گیااور کہا: یہ بات میرے لئے دنیا و آخرت میں نصیحت ہے، خدا کی قسم۔ میں اپنے ارادے میں جلد بازی سے کام نہیں لوں گا۔

جب معاویہ کو جریر اور زاہد شامی کے درمیان ہوئی گفتگو اور جریر کے پیغام کی خبر ملی تو اس نے امام کے نمائندے کی مذمت کی اور جریر کے کلام کو بے اثر کرنے کے لئے ایک گروہ معین کیا تاکہ وہ مسلسل شرحبیل سے ملاقات کرتے رہیں اور علی کے ہاتھوں عثمان کے قتل کی خبر کا اسے یقین دلاتے رہیں، اور اس سلسلے میں جھوٹی گواہی دینے سے بھی پرہیز نہ کریں، اور جھوٹے اور جعلی خطوط لکھ کر اس کے حوالے کریں۔اس ضمیر فروش گروہ نے اس قدر اسے بہکایا کہ بیدار ضمیر زاہد کو دوبارہ گمراہ کردیااور وہ سست جھوٹے گواہوں کے دھوکے میں آگیا اور اپنے ارادے کو اور مستحکم کرلیا۔(۱)

جب یمن کے دوسرے قبیلے کے سردار ،شرحبیل کے ارادے اور اس کے دھوکہ کھانے سے باخبر ہوئے تو ان لوگوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اس کے بھانجے کو اس کے پاس بھیجیں تا کہ وہ اس سے گفتگو کرکے اس مسئلے کو واضح کرے، شام میں وہ اکیلا شخص تھا جس نے امام علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت کی تھی اور شام کے زاہدوں اور عابدوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔

اس نے معاویہ کے فر یب اور دھوکہ کا پردہ فاش کردیااور اس سے کہا کہ یہ گواہی دینے والے افراد اور یہ خطوط وغیرہ صرف ایک دھوکہ ہے اور ان میں سے کسی کا بھی حقیقت سے واسطہ نہیں ہے۔

جب شام کا عابد اس کے شعر کے مفہوم سے آگاہ ہوا تو کہا: یہ شیطان کا بھیجا ہوا ہے خدا کی قسم اسے شام سے باہر نکال دوں گا مگر یہ کہ وہ میرے بس میں نہ ہو۔(۲)

معاویہ جو اپنے نمک خواروں کے ذریعے شرحبیل کی فکر کو بدل چکا تھا جب اسے اپنے ارادے میں مستحکم پایا تو اس کے لئے یہ پیغام بھیجا:''تم نے حق بات پر لبیک کہا اس کا اجر خدا دے گاتم جانتے ہو کہ معاشرے کے تمام صالح افراد

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۴۹، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳، ص ۸۱۔

(۲) وقعۂ صفین، ۵۰۔ ۴۹۔

۴۸۸

نے تمہاری باتوں کو قبول کرلیا ہے لیکن اس گروہ کی رضایت و آگاہی صرف علی سے جنگ کرنے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ علی سے جنگ کرنے کے لئے عمومی رضایت کا ہونا ضروری ہے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ شام کے تمام شہروں میں سفر کرو اور اعلان کرو کہ عثمان کو علی نے قتل کیا ہے اور تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ قاتل سے اس کے خون کا بدلہ لیں''۔

اس نے شام کے شہروں کا سفر شروع کردیا سب سے پہلے وہ حمص گیا وہاں اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا: اے لوگو! عثمان کو علی نے قتل کیا ہے اور جو گروہ اس واقعہ پر غضبناک ہوا اسے بھی قتل کردیا اور اس وقت علی نے تمام اسلامی ملکوں پر قبضہ کرلیا ہے اور صرف شام باقی ہے انہوں نے تلوار اٹھالی ہے اور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار ہے ہیں اور تم تک پہونچنے والے ہیں مگر یہ کہ خدا کی طرف سے کوئی نیا واقعہ رونما ہو، اور ان سے مقابلے کے لئے معاویہ سے زیادہ کوئی طاقتور نہیں ہے اٹھو اور آمادہ ہوجاؤ۔

دھوکہ کھائے ہوئے عابد کی باتوں کا بہت زیادہ اثر ہوا، کیونکہ حمص کے علاقے میں لوگ اسے محبوب رکھتے تھے۔ اور سب نے اس کی دعوت پر لبیک کہا صرف وہاںکے زاہد و عابد اس کے بہکانے میں نہیں آئے اور سب نے اس کی مخالفت کی ، پھر شرحبیل نے شام کے دوسرے شہروں کا سفر کیااور لوگوں کو علی کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے لشکر میں شامل ہونے کی دعوت دی اور سب نے اس سے وعدہ بھی کیا۔

شرحبیل تمام شہروں کا دورہ کر کے دمشق واپس آگیا اور اپنی کامیابی پر فخر کرتا ہوا معاویہ کے پاس پہونچا اور اپنی پرانی باتیں تحکمانہ انداز میں دہرائی اور کہا: تم اگر علی اور عثمان کے قاتلوں کے ساتھ جہاد کرو ، تو ہم یا ان سے بدلہ لے لیں گے یااپنے مقصد میں قربان ہو جائیں گے ایسی صورت میں تم اپنی جگہ پر باقی رہو گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو تمہیں اس منصب سے معزول کردیں گے اور کسی دوسرے کو تمہاری جگہ پر معین کردیں گے تاکہ اس کے زیر نظر جہاد کریں، اور عثمان کے خون کا بدلہ علی سے لے لیں، یا قتل ہو جائیں۔(۱)

معاویہ زاہد فریب خوردہ کی تند و تیز باتیں سن کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔

_____________________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۸۳۔ ۸۲، وقعۂ صفین ص ۵۲۔ ۵۰۔

۴۸۹

جریر کی طرف سے اتمام حجت

جریر اس واقعہ سے کہ جس کی اسے توقع نہ تھی بہت ہی ناراض ہوا، او ردوبارہ اپنے قدیمی دوست او رزاہد قبیلہ کے پاس گیا اور اسے برے نتیجوں اور بے جا ارادوں سے باخبر کیا اور کہا:

خداوند عالم نے امت اسلامی کو خونریزی کرنے سے منع کیا ہے اور اختلاف کو دور کردیا ہے اور ممکن کہ بہت ہی جلد اسلامی حکومتیں سکون و اطمینان کی زندگی بسر کریں، اور تم ان کے درمیان فساد پھیلانا چاہتے ہو، اپنی باتوں کو پوشیدہ رکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اچانک وہ وقت آ پہونچے کہ تم اپنی باتوں کو واپس نہ لے سکو، شرحبیل نے جواب دیا: نہیں میں ہرگز اپنی باتوں کو پوشیدہ نہیں رکھوں گا، پھر وہ وہاں سے اٹھ کر چلا گیا او رایک عمومی جگہ پر تقریر کی، لوگوں نے اس کے پہلے کے حالات کی وجہ سے اس کی باتوں کی تصدیق کردی اس وقت نمائندہ امام ـ کو بہت ناامیدی ہوئی اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔(۱)

______________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۸۴، وقعۂ صفین ص ۵۲۔

۴۹۰

شام میں نمائندہ امام ـ کی شکست کی وجہ

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام ـ کا نمائندہ جریر شام میں لوگوں سے بیعت لینے کے لئے گیاتھا اور اپنی ذمہ داری انجام دینے میں وہ ناکام ہوگیا، اس نے کوئی کام نہیں کیا بلکہ امام ـ کو معاویہ کے مصمم ارادے سے اس وقت باخبر کیا جب کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا معاویہ نے امام ـ کے خلاف شام کے تمام لوگوں کو جنگ کے لئے آمادہ کر لیا جریر کی کوتاہی یہ تھی کہ جب سے وہ شام میں آیا تھا معاویہ کے آج کل کے بہانے دھوکے کھاتا رہا، اور شام کے معزول حاکم نے اپنے اموی شیطنت کی وجہ سے اپنا نظریہ پیش کرنے سے پرہیز کیا اور امام کے نمائندے کووامیدوناامیدی کے درمیان رکھا جریرنے اس امید میں کہ معاویہ کو بیعت کے لئے آمادہ کرلے اور اختلاف کو ختم کردے ،خاموش رہنے کو ہی بہتر جانا اورہمیشہ معاویہ کے قطعی نظریہ کے جاننے کی امید میں تھا۔

معاویہ کے لئے شروع میں اپنی قطعی رائے پیش کرنا مصلحت کے خلاف تھا۔ البتہ اس کا نظریہ اسی وقت معلوم ہوگیا تھا جب امام کا نمائندہ شام میں پہلی مرتبہ واردہوا تھا، یعنی اس کا ارادہ مرکزی حکومت کی

مخالفت، نافرمانی اورخراب کاری تھا، لیکن ان دنوں اس کو بیان کرنا سبب یہ بنتاکہ امام کانمائندہ کوفہ واپس چلاجائے۔ اور معاویہ کی مخالفت کی ساری روداد کو امام ـ سے بیان کرے جس کی وجہ سے امام ـ مخالفوں کی سرکوبی کرتے اور اپنے لشکر کو ان کے طرف روانہ کرکے فساد کو جڑ سے ختم کردیتے۔

جی ہاں، معاویہ نے امام ـ کے نمائندے کو مختلف بہانوں سے روکے رکھا تاکہ مرکزی حکومت سے جنگ کرنے کے لئے عمرو عاص کو اپنے ساتھ لے سکے اور پھر اس نے پروپیگنڈہ کرنے والوں کو شام کے تمام علاقوں میں روانہ کیا تاکہ لوگوں کے دلوں میں علی کی مخالفت کے شعلے بھڑکا دے۔ اور ان علاقوں سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خلافت و جانشینی کے لئے اپنے حق میں فائدہ اٹھائے اس نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مشہور و معروف زاہد شام شرحبیل جو کہ لوگوں کے درمیان زیادہ مقبول تھا امام کی مخالفت کرنے کے لئے اپنی طرف جذب کر لیا۔ زاہد فریب خوردہ حضرت علی ـ کے مقابلے میں جنگ کرنے کے لئے اس طرح آمادہ ہوگیاکہ اگر اس کام میں معاویہ کوتاہی کرتا تو یہ خود شام کے سادہ لوح لوگوں کو امام ـ سے مقابلے کے لئے آمادہ کرتا۔

۴۹۱

یہ شیطانی حربے کی کامیابی معاویہ کے لئے اتنی مفید ثابت ہوئی کہ امام ـ کا نمائندہ جریر اپنی اس مامؤریت میں جواس کے ذمے تھی، معاویہ کی ظاہری چیزوں سے دھوکہ کھا گیااور امام ـ کو اس بات پر آمادہ کیاکہ امام اس فساد کے قلعہ کو نیست و نابود کردیں، اور اس وقت امام ـ کے پاس واپس آیا جب معاویہ نے اسلامی ممالک کی بہت سی اہم جگہوں پرانتقام عثمان کے نام پر امام سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنی فوج بٹھا رکھی تھی ۔

معاویہ کا آخری حربہ

آخری لمحوں میںمعاویہ کا سب سے آخری حربہ امام ـ کا امتحان لیناتھا اوروہ یہ کہ وہ معلوم کرے کہ کیا امام اسے اس کے منصب سے واقعاً معزول کرنا چاہتے ہیں، اسی وجہ سے وہ امام کے نمائندے جریر کے گھر گیا اور کہا میرے پاس ایک نئی فکر ہے تم اپنے دوست کے پاس لکھو کہ شام کی حکومت مجھے دیدیںاور مصر سے خراج لینے کی ذمہ داری بھی مجھے سونپ دیںاو رجب ان کا انتقال ہو جائے تو کسی کی بیعت کو میرے اوپر واجب نہ کریں اس صورت میں میں ان کے سپردہو جاؤں گا اور ان کی حکومت کی تحریری طورپر تائیدکروں

۴۹۲

گا۔(۱) نمائندہ امام نے اس کا جواب دیا کہ تم خط لکھو او رمیں اس کی تائید کروں گا بالآخر خط لکھا گیا اور قاصد دونوں خط لے کر کوفہ روانہ ہوا۔

معاویہ کے خط کی عبارت عرب کے تمام قبیلوں میں مشہور ہوگئی، معاویہ کے ہم خیال مثلاً ولید عقبہ نے ایساخط لکھنے کی وجہ سے معاویہ پر اعتراض کیا ولید نے اس کے ضمن میں معاویہ کو شعر لکھا:

سألت علیاً فیہ ما لن تنالہ و لو نلتہ لم یبق الا لیالیا۔(۲)

تم نے علی سے وہ چیز مانگی ہے جو تمہیں ہرگز نہیں مل سکتی اور اگر مل بھی گئی تو چند راتوں کے علاوہ تم اس پر مسلط نہیں رہ سکتے۔عقبہ کے بیٹے نے پہلے مصرعہ میں حقانیت سے کام لیا ہے کیونکہ امام علی ـ ہرگز باطل کے ساتھ دوستی اور معاملہ نہیں کرسکتے لیکن اس کے شعر کا دوسرا مصرعہ بالکل غلط ہے کیونکہ برفرض محال اگر مصلحةً امام ـ اس بات کو قبول کرلیتے تو ہرگز اس پر نقض نہیں کرتے، چونکہ امام ـ نے ''حکمین'' کے مسئلے میں اپنے تعہد و پیمان کو بالکل واضح و روشن کردیا تھا۔

معاویہ، علی ـ کو ولید سے زیادہ پہچانتا تھا اور اسے معلوم تھا کہ دونوں صورتوں میں اسی کا فائدہ ہے کیونکہ اگر علی ـ حکومت اس کے حوالے کردیتے تو ایک مستقل حکومت بغیر کسی مشکل کے اس کے نصیب میں آجاتی۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو معاویہ اپنے مکر و فریب سے لوگوں کا خون بہاتا اور حجاز و عراق کو مستحکم کرلیتا،اس کے علاوہ امام ـ کے نمائندے کو دھوکے میں رکھنا خود معاویہ کے فائدے میں تھا، کیونکہ وہ اپنی طاقت میں اضافہ کرتا اور شام کے لوگوں کو امام ـ سے جنگ کرنے کے لئے زیادہ آمادہ کرتا۔

امام ـ کا اپنے نمائندہ کو جواب

معاویہ کا مقصد یہ ہے کہ اس پر میری بیعت نہ ہو،تا کہ جس کو بھی چاہے منتخب کرلے اور وہ چاہتا ہے کہ تمہیں ایسے ہی معطل رکھے اور شام کے لوگوں کو جنگ کے لئے آزمالے،ابتدائی ایام میں جب میں مدینہ میں تھاتو مغیرہ بن شعبہ نے مجھ سے کہا کہ میں معاویہ کو اس کے مقام پر باقی رہنے دوں،لیکن میں نے

______________________

(۱)،(۲) وقعۂ صفین ص ۵۲، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۸۴۔

۴۹۳

اس بات کو قبول نہیں کیا، خدا ایسا دن نہ لائے کہ میں گمراہ لوگوں سے مدد طلب کروں، اگر اس نے بیعت کیا (تو کوئی بات نہیں ) او راگر ایسا نہ کرے تو تم میرے پاس واپس آجاؤ۔(۱)

امام ـ نے اس خط میں معاویہ کے ایک مقصد کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ کہ وہ اس سیاسی چال کے ذریعے وقت گذارنا چاہتا ہے، تاکہ اس عرصے میں خط لکھنے اوراس کا جواب آنے تک اپنی فوج کو جنگ کے لئے اچھی طرح آمادہ کرلے، اور اگر امام ـ کا جواب ''نہیں '' کی صورت میں ہو (کہ ضرور ایسا ہی ہوگا) تو پوری قدرت و توانائی کے ساتھ امام ـ کے سامنے مقابلے کے لئے آجائے۔

جریر پر معاویہ سے دوستی کا الزام

سرزمین شام میں جریر کا زیادہ دن رہنا عراق کے لوگوں کے لئے تشویش کا باعث بنا اسی وجہ سے ان لوگوں نے دشمن کے ساتھ دوستی کرنے کاان پر الزام لگایا۔ جب لوگوں کی باتیں امام ـ نے سنیں تو آپ نے اس کے متعلق فرمایا: میں دوبارہ خط لکھوں گا اور اسے شام سے واپس بلالوں گا۔ اگر اس کے بعد بھی وہ شام میں رہ گیا یا دھوکہ کھا گیا یا میرے حکم کو نظر انداز کردیا اور میری مخالفت کرنے لگاتب تم کچھ کہنا اسی وجہ سے امام ـ نے جریر کو دوبارہ خط لکھا:

...''جیسے ہی میرا خط تمہارے پاس پہونچنے معاویہ کو آخری فیصلے پر آمادہ کرنااور ایک قطعی بات پر راضی کرنا اور (جب وہ آمادہ ہو جائے تو) اس سے کہناکہ دوباتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کر لے، گھر سے بے گھر کرنے والی جنگ یا رسوا کرنے والی صلح، پس اگر وہ جنگ کو اختیار کرلے تو صلح کی بات اس کے منھ پر دے مارو، اور اگر صلح کا چناؤ کرے تو بیعت لے لو''۔(۲)

جب جریر کو امام ـ کا خط ملا تو اس نے معاویہ کے سامنے اس خط کو پڑھا اور اس سے کہا: انسان کا دل گناہوں کی وجہ سے بند ہوجاتاہے اور توبہ کرنے سے دل کھل جاتا ہے اور میری نظر میں تیرا دل بند ہے اور اس وقت تو حق و باطل کے درمیان کھڑا ہے اور اس چیز کی فکر میں ہے جو دوسرے کے ہاتھ میں ہے

______________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۵۲۔

(۲) نہج البلاغہ مکتوب نمبر۸، وقعۂ صفین ص ۵۵، (خط میں کچھ تبدیلی کے ساتھ)

۴۹۴

معاویہ نے اس سے کہا: میں دوسری نشست میں اپنی قطعی رائے اور کا اعلان کروں گا، اس نے اپنی قطعی رائے کا اعلان اس وقت کیا جب شام کے لوگ اس کی بیعت کرچکے تھے اور معاویہ ان لوگوں کو خوب آزما چکا تھا، پھر اس نے امام کے نمائندہ کو شام سے جانے کی اجازت دی کہ وہ امام کے پاس چلا جائے اور امام ـ کے پاس خط لکھا جسے بعض مورخین نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے:

''مہاجرین وانصار نے تمہاری اس وقت بیعت کی جب تم عثمان کے خون سے بریٔ الذمہ تھے اس وقت تمہاری خلافت پچھلے تینوں خلیفہ کی خلافت کی طرح تھی، لیکن تم نے مہاجروں کو عثمان کے قتل کرنے پر آمادہ کیا اور انصار کو اس کی مدد کرنے سے روک دیا نتیجے میں جاہلوں نے تمہاری اطاعت کی اور کمزور لوگ طاقتور ہوگئے شام کے لوگوںنے ارادہ کیا ہے کہ تمہارے ساتھ جنگ کریں، تاکہ عثمان کے قاتلوں کو ان کے حوالے کرو، اگر ایسا کیا تو خلافت کا مسئلہ مسلمانوں کی شوری میں رکھا جائے گا، اپنی جان کی قسم میری حالت طلحہ و زبیر جیسی نہیں ہے کیونکہ ان دونوں نے تمہاری بیعت کی تھی لیکن میں نے تمہاری بیعت نہیں کی ہے او راسی طرح شام کے لوگ بصرہ کے افراد کی طرح نہیں ہیں کہ ان لوگوںنے تمہارے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور تمہارے مطیع و فرمان بردار تھے، جب کہ شام کے لوگوں نے تمہاری خلافت کو قبول نہیں کیا ہے اور تمہارے مطیع و فرمان بردار نہیں ہیں، لیکن اسلام میں تمہارے افتخارات اور تمہاری رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قرابت اور قریش کے درمیان تمہاری عظمت و رفعت کا میں انکار نہیں کرسکتا۔(۱)

یہ خط جو جھوٹ کی سیاہی سے لکھا گیا تھا معاویہ کی چالاکی و سازش تھی جس نے اپنے مفاد کے لئے اپنے رقیب پر کسی بھی طرح کی تہمت لگانے سے پرہیز نہیں کیا، لیکن امام ـ نے اپنے خطوط میں تمام حقائق سے مدد لیتے ہوئے اپنے حق کے دفاع کے لئے تمام حقیقتوں کو بیان کیا،حضرت اپنے خط میں معاویہ کو مخاطب کرتے ہوئے، اس کی لگائی ہوئی تہمت کے بارے میں لکھتے ہیں:

''میرے پاس ایسے شخص کا خط پہونچا جس کے پاس فکر نہ تھی جو اس کی ہدایت کرتی اور نہ اس کا کوئی پیشوا ہے جو اسے راہ راست پر لاتا، خواہشات نفسانی نے اسے گھیر لیا ہے اور اس نے اسے قبول کر کے اس

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۹۱ کامل مبرد ج۳ ص ۱۸۴، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۸۸۔

۴۹۵

کی پیروی بھی کی ہے کیا تو نے یہ فکر کیا ہے کہ عثمان کے بارے میں میرے کام نے میری بیعت کو تمہارے لئے باطل کردیا ہے اپنی جان کی قسم، میں بھی مہاجروں کا ایک فرد تھا کہ وہ جہاں بھی جاتے میں بھی ان کے ہمراہ جاتا اور خدا نے ہرگز انھیں گمراہ نہیں کیا اور ان کے آنکھوں پر پردہ نہیں ڈالا اور عثمان کے قتل کے بارے میں نہ تو میں نے کوئی حکم دیا ہے کہ میرے حکم کی غلطی مجھے مورد سوال قرار دے اور نہ میں نے اسے قتل ہی کیا ہے کہ مجھ پر قصاص واجب ہو جائے۔

اور جو تم یہ کہہ رہے ہو کہ شام کے لوگ اہل حجاز پر حاکم ہیں تو تم اہل شام میں سے کسی کو بھی دکھاؤ کہ جو شوریٰ کا ممبر ہو اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانشینی کے لئے چنا گیاہو اگر تم ایسا تصور کرتے ہو، تو مہاجرین و انصار تمہاری باتوں کو جھٹلا دیں گے۔

اور جو تمہارا یہ کہنا ہے کہ میں عثمان کے قاتلوں کو تمہارے حوالے کروں تو تمہاری یہ بات بالکل بے جا ہے تیرا عثمان سے کیا واسطہ: تم بنی امیہ کی اولاد میں سے ہو اور عثمان کے بیٹے اس کام کے لئے تم سے زیادہ بہتر ہیں اگر تو یہ سوچ رہا ہے کہ ان کے باپ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے ان سے زیادہ قوی اور طاقتور ہے تو، تم میری اطاعت کرو، اور اس وقت اس کے قاتلوں سے شکایت کرو میں تمام لوگوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کروں گا، لیکن تمہارا شام و بصرہ اور طلحہ و زبیر کے بارے میں فیصلہ کرنا بے اساس ہے اور سبھی ایک حکم میں شما رہوتے ہیں کیونکہ وہ ایک اجتماعی اور عمومی بیعت تھی اوراس میں کچھ سوچنے سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے اور خیا رفسخ بھی نہیں ہے لیکن تیرا یہ اصرار کرنا کہ میں نے عثمان کو قتل کیا ہے توتم نے بالکل حقیقت سے کام نہیں لیا ہے او راس کے بارے میں تجھ تک خبر نہیں پہونچی ہے، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے میری قرابت اور فضیلت او رقریش کے درمیان میرے شرف کو تم نے قبول کرلیا ہے اپنی جان کی قسم، اگر تم سے ممکن ہوتا تو تم اس کا بھی انکار کردیتے۔(۱)

اس وقت آپ نے اپنے منشی نجاشی کو حکم دیا کہ معاویہ کے خط کو جنگی اشعار کے ساتھ جواب دو اور دونوں کو معاویہ کے پاس بھیج دو۔

______________________

(۱) نہج البلاغہ کے چھٹے او رساتویں مکتوب میں اس کے مضمون کی طرف اشارہ کیا ہے۔

۴۹۶

نمائندہ امام ـ کی شام سے واپسی:

امام کے نمائندہ جریر کی تقریر، عقلمندی ، بردباری ، صبر جو ایک سیاسی نمائندہ میں ہونا چاہئے وہ اس کے اندر موجود تھا اور کسی کو بھی اس میں شک نہیں کہ اس نے بہت کوششیں کیں کہ بغیر خونریزی کے امام ـ کی نظر کو جذب کرے اور معاویہ کو مرکزی حکومت کی اطاعت کرنے پر مجبور کرے (اس کی ان کوششوں کے بارے میں بھی کسی کو شک نہیں ہے) لیکن اس سے ایک غلطی ہوئی اور وہ یہ کہ بنی امیہ کے دو سیاسی مکاروں کے آج کل کی باتوں میں پڑ کر دھوکہ کھا گیا اور معاویہ نے اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شام کے لوگوں کو خوب آزما لیا اور ان لوگوں کو امام ـ کے مقابلے میں جنگ کرنے کے لئے آمادہ کر لیا اور اس نے اس وقت اپنے آخری فیصلے کا اعلان کیا جب شام کے لوگوں سے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے بیعت کرچکا تھا۔

جریر کی غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ امام ـ رجب ۳۶ھ کے شروع ایام میں کوفہ آئے اور اس وقت سے کئی مہینہ تک جریر کے انتظار میں رہے تاکہ معاویہ کے قطعی نظریہ سے آگاہ کرے اور اس کے نتیجے میں معاویہ نے اس مدت میں شامیوں کو خوب مسلح کردیا اور تمام لوگوں کو امام ـ سے جنگ کرنے کے

لئے آمادہ کردیااور دشمن کی توجہ سے بے خبر ہوگیا۔ کوئی بھی ایسی قطعی و یقینی دلیل نہیں ہے جو یہ ثابت کرے کہ جریر نے خیانت کی تھی البتہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ان سے کوتاہی ہوئی جس نے تاریخ اسلام کا نقشہ بدل دیا اور قاسطین کی منحوس حیات کا استمرار اسی کوتاہی کا مرہون منت تھا۔ اس کی غلطی یا قصور نے تاریخ اسلام کو فائدہ پہونچایا۔ اور قاسطین کی منحوس زندگی کی بقاء ایک حد تک نمائندہ امام کی غلطیوں کی وجہ سے تھی البتہ امام ـ نے کوفہ میں قیام کے دوران بہت سے کام انجام دیئے اور حاکموں اور نمائندوں کو معزول اورنیک و صالح اور خدمت کرنے والوں کو ان کی جگہ پر منصوب کیا لہذا کوفہ میں امام کے قیام کی علت جریر کی تاخیر سے واپسی نہیں تھی،خاص طور سے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ امام ـ نے کوفہ میں قیام کرنے کے بعد جریر کو ہمدان کی گورنری کے بجائے کوفہ کی اہم گورنری سپرد کی ۔

۴۹۷

اس مدت میں امام ـ کی مشکلوں میں سے ایک مشکل یہ تھی کہ نوجوان اور بہادر، دشمن سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ تھے اور آپ سے شام سے جنگ کرنے کی درخواست کر رہے تھے۔ لیکن امام ـ خونریزی نہیں چاہتے تھے بلکہ یہ چاہتے تھے کہ بغیر لڑائی کے اس واقعہ کا حل نکل جائے چنانچہ ان نوجوانوں کو جانے سے منع کردیااوران سے فرمایا:

''تم لوگ ہمارے حکم کے منتظر رہو جب کہ میرا نمائندہ جریر شام میں ہے اگر میں جنگ کا حکم دوں گا تو صلح کے دروازے شام والوں پر بند ہو جائیں گے ۔اگر ان لوگوں کی نیت صحیح ہوگی تو ان کے درمیان سے گذرے گا میں نے جریر کو خط لکھا ہے اور اسے وہاں کم رہنے کے لئے کہا اور اگر تاخیر کرے تو یا تو دھوکہ کھایا ہے یااپنے امام کی مخالفت کی ہے میں چاہتا ہوں کہ اس کام میں تھوڑا صبر کروں لیکن یہ کام اس چیز سے مانع نہیں ہے کہ لوگ دھیرے دھیرے آمادہ ہوں جب چلنے کا حکم دیا جائے تو فوراً چلنے کو تیار ہو جائیں۔(۱)

______________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ، ۴۲۔

۴۹۸

جریر امام کے حضور میں

جریر بہت دنوں کے بعد ناامید امام کے پاس واپس آگئے مالک اشتر نے امام ـ کے سامنے انہیں پیش کیا اور دونوں کے درمیان تیز و تند گفتگو ہوئی جس کا خلاصہ یہاں بیان کر رہے ہیں:

مالک اشتر:اے امام: اگر اس کی جگہ پر مجھے بھیجتے تو میں کام کو صحیح طور پر انجام دیتا اس شخص نے ہر طرح کی امید کو ناامیدی میں بدل دیا، خاندان امیہ نے اس کے دین کو اسی وقت خرید لیا تھا جب وہ ہمدان کا حاکم تھا اس کو حق نہیں ہے کہ و ہ زمین پر چلے اور اب جب کہ شام سے واپس آیا ہے تو ہمیں ان کی طاقت سے خوف دلاتا ہے، اے امام اگر آپ اجازت دیں تو اس کو اور اس کے ہم خیالوں کو قید کردوں تاکہ واقعیت روشن و واضح ہو جائے اور ظالم نیست و نابود ہو جائیں۔

جریر: اے کاش میری جگہ تم گئے ہوتے تو میری طرح واپس نہیں آتے اور عمرو عاص یا ذی الکلاع اور حوشب تمہیں قتل کر ڈالتے کیونکہ وہ تمہیں عثمان کا قاتل سمجھتے ہیں۔

مالک اشتر: اگر میں جاتا تو ان کا جواب مجھے مجبور نہیں کرتا میں معاویہ کو کسی نہ کسی طرح دعوت دیتا اور اسے فکر کرنے کا بھی موقع نہیں دیتا۔

جریر: جاؤ اب بھی راستہ کھلا ہوا ہے۔

۴۹۹

مالک اشتر: اب تو وقت ہاتھ سے نکل گیا ہے اور معاویہ نے سارا فائدہ اٹھا لیاہے۔(۱)

اس میں کوئی شک نہیں کہ مالک اشتر کی گفتگو منطقی تھی او رجریر مالک اشتر کے منطقی اعتراض کا صحیح جواب نہ دے سکا، ایک ایسے سیاسی شخص کے لئے شائستہ تھا کہ وہ اپنی غلطی کااعتراف کرتا او رعذر خواہی کرتا لیکن اس نے مالک اشتر کے اعتراض کا جواب دیا اور دھیرے دھیرے امام ـسے دور ہونے لگا اور ''فرقیسا''(۲) جو کہ فرات کے کنارے تھا وہاں رہنے لگا۔

اگر جریر اس وقت تک جرم کا مرتکب نہ ہوا ہوتا تو اس کی غلطی معافی کے قابل تھی، لیکن اس کے بعد اس کے سارے کام اصول کے خلاف تھے، کیونکہ امام ـ کی دوستی و ہمراہی کا چھوڑنا او ربہت دور زندگی بسر کرنا عملی طور پر امام ـ کی حکومت پر اعتراض تھا، اس کے علاوہ جریر کے کنار کش ہونے کی وجہ سے قبیلے کے تعصب نے اپنا کام کر دکھایا اور جریر کے قبیلے سے بہت مختصر لوگ (صرف ۱۹ آدمی) قسر سے جو بجلیہ قبیلے کے اطراف میں رہتے تھے امام ـ کے ساتھ جنگ صفین کے لئے روانہ ہوئے اگرچہ بجلیہ کے اطراف ''اخمس'' سے سات سو (۷۰۰) لوگوں نے شرکت کی۔

جریر کا عمل ایک قسم کی نافرمانی اور حکومت حقہ کے خلاف خروج تھا اور امام ـ نے اس کام کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے جریر اور اس کے ہمفکر ثویر بن عامر کے گھر کو ویران کردیا تاکہ دوسروں کے لئے درس عبرت ہو۔(۳)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۶۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ص ۱۱۵۔ ۱۱۴۔

(۲) رجعہ علاقے سے کچھ دوری پر واقع ہے اور خابور کے پاس ہے۔

(۳) وقعۂ صفین ص ۶۱۔ ۶۰۔

۵۰۰