فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362181 / ڈاؤنلوڈ: 6022
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

دوسرا بہت ہی اہم نکتہ یہ ہے کہ عقیدۂ مرجئہ کے رواج پانے سے بنی امیہ نے اپنی حکومت کو جاری رکھنے کے علاوہ ابوسفیان اور معاویہ سے وراثت میں ملنے والے اسلام کے خلاف بغض و کینہ سے بھی استفادہ کیا اور اسلام کے نام پر مرجئہ گری کے لباس میں لوگوں کو اسلام سے دور کیا اور یہودیت و عیسائیت اور کفر کی کھینچا۔

 ڈاکٹر حسن ابراہیم حسن نے یہ حقائق اپنی کتاب میں لکھے ہیں۔وہ ''تاریخ سیاسی اسلام''میں لکھتے ہیں:

 اسلام کی پہلی صدی کے دوسرے حصہ میں فرقۂ مرجئہ  بنی امیہ کے دالحکومت دمشق میںکچھ مسیحی عوامل کے نفوذ سے وجود میں آیا۔

 مرجئہ کی وجہ تسمیہ:کلمہ مرجعہ ''ارجاء'' سے لیا گیا ہے جس کے معنی  ہیں تأخیر ۔اس گروہ کا نام مرجئہ اس وجہ سے پڑھ گیا کہ مسلمان گناہگاروں کے بارے میں ان کا کوئی حکم نہیں تھا اور وہ ان کے حکم کو روز حساب پر موقوف کرتے تھے اور کسی بھی مسلمان کو اس کے کئے گئے گناہ کی وجہ سے محکوم نہیں کرتے تھے۔لیکن''فاب فلوتن''کے بقول مرجئہ کا نام اس آیت سے اخذ کیا گیا ہے:

     (وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللّهِ ِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَِمَّا یَتُوبُ عَلَییْهِمْ وَاللّهُ عَلِیْم حَکِیْم) (1)

اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں حکم خدا کی امید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ یا خدا ان پر عذاب کرے گا یا ان کی توبہ کو قبول کرلے گا وہ بڑا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے ۔

اس بناء پر کلمہ مرجعہ ''ارجاء'' سے مشتق ہوا ہے جس کے معنی امید پیدا ہونا ہیں۔(2) کیونکہ مرجئہ کہتے تھے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ کوئی نقصان نہیں پہنچاتاجس طرح کفر کے ہوتے ہوئے اطاعت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

--------------

[1]۔ سورۂ توبہ، آیت:106

[2] ۔ مرجئہ  کا معنی امیدپیدا کرنا نہیں ہے بلکہ ان کے اس عقیدہ ''گناہگاروں کے بارے میں حکم کرنے میں تأخیر''کی وجہ سے ہے۔

۱۲۱

مرجئہ کا اصلی و بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ جو بھی اسلام قبول کرتا ہے خدا کی وحدنیت اور پیغمبر(ص) کی نبوت کی گواہی د یتا ہے،وہ جس گناہ کا بھی مرتکب ہو اسے کافر قرار نہیں دینا چاہئے بلکہ اس کا انجام خدا پر چھوڑ دیں۔ ''جہم بن صوفان''مرجئہ کے ان پیشواؤں میں سے ایک ہے جو اس بارے میں افراط کرتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ ایمان ،قلبی عقیدہ ہے اور جو بھی اس کا معتقد ہو وہ مؤمن ہے؛اگرچہ وہ بغیر کسی   تقیہ کے اپنی زبان سے کفر کا اعلان کرے بت پرستی کرے ،اسلامی شہروں میںیہودی و عیسائی دین کا پرچار کرے،صلیب کی عبادت کرے  اورتثلیث کی باتیں کرے اور اسی حالت میںمر جائے توایسا شخص خدا کے نزدیک مؤمن  اور خدا کا  دوست ہے اور اہل جنت میں سے ہے! ''  جہم''معتقد تھا کہ صحیح اسلام و ایمان ایک ہی ہے۔یہ طبیعی ہے کہ اس عقیدہ کے پیروکار اسلام کے عملی واجبات کی تحقیر کرتے تھے اور دوسرے لوگوں کے بارے میں ان کی ذمہ داریوں کو قرآن کے مقرر کردہ واجبات سے برتر سمجھتے تھے۔ حقیقت میں یہ گروہ بنی امیہ کی حکومت سے راضی  اور شیعوں اور خوارج کے مخالف تھے۔اس کے باوجود اپنے عقائد میں اہلسنت کے ساتھ ایک حد تک موافق تھے ۔لیکن جیسا کہ ''فون کریمر''کا کہنا ہے کہ ان کے عقائدمیں اس حد تک نرمی تھی کیونکہ وہ کہتے تھے مؤمن ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔کلی طور پر مرجئہ عمل سے زیادہ عقیدے کو اہمیت دیتے تھے۔ مرجئہ  کے عقائد اموی درباریوں اور ان کے طرفداروں کے عقائد سے موافق تھے ،اس طرح کہ کوئی شیعہ اور خوارج ان کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا تھا۔عیسائی اور دوسرے غیرمسلم لوگوں کی ان کے نزدیک اہمیت تھی اوراسے اہم منصب سونپنے لگے۔یہ عیسائی اپنے مقاصد و منافع کے پابند ، زمانے کے تقاضوں سے ہماہنگ اور ہوا کے رخ پر چلنے والے تھے۔(1)

 بنی امیہ کے زمانے میں قدریہ، جبریہ اور مرجئہ

 کتاب 'تاریخ تحلیلی اسلام''میں لکھتے ہیں: اموی حکومت کے دور میںصدی کے دوسرے نصف حصے میںدین کے اعتقادی مسائل سے متعلق فکری تحریکیں وجود میںآئیں جن کا مرکز غالباً عراق تھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عراق کے کچھ شہر وں (جن میں سے ایک کوفہ ہے) میں مختلف فلسفی اور دینی عقائد و افکار تھے۔ان میں جو پہلی بحث ہوئی وہ یہ تھی کہ کیا لوگ اپنے اعمال میں مختار ہیں یا مجبور؟ان دو طرح کے افکار کے طرفداروں کو قدریہ و جبریہ کا نام دیا گیا۔

--------------

[1]۔ تاریخ سیاسی اسلام: (ڈاکٹر حسن بن ابراہیم حسن): ج ۱ص۴۰۹

۱۲۲

  جنگ صفین کے بعد مسلمانوں میں اس کے آغاز کے آثار ملتے ہیں کہ کسی نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے پوچھا:کیا ہم اپنے ارادہ و اختیار سے اس جنگ میں گئے یا ہم مجبور تھے؟

  اس کے بعد ہر گروہ نے اپنے عقائد کی تائید اور دوسرے کے عقائد کی مخالفت میں احادیث سے استناد کیا۔

  امویوں کے دور حکومت میں ایک دوسرے مکتب کی تأسیس ہوئی جسے ''مرجئہ'' کا نام دیا گیا۔ امویوں نے اس گروہ سے اپنے مظالم کی توجیہات کے لئے استفادہ کیا ۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ خوارج کا ایک گروہ گناہان کبیرہ کے مرتکب افراد کو ہمیشہ کے لئے جہنمی سمجھتا تھا اور ان کے مقابلے میں ''مرجئہ'' کہتے تھے:ان کا فیصلہ خدا پر چھوڑ دینا چاہئے۔ ان کا عذر یہ تھا کہ اگر اس بارے میں سختی کی جائے تو مسلمان تفرقہ کا شکار ہو جائیں گے۔ ایسے طرز تفکر سے  انہوں  نے معاویہ اور دوسرے اموی خلفاء کی تائید کی کہ جو کوفہ و بصرہ اور دوسرے شہروں میں مختلف نیک و پارسا افراد کو قتل کر رہے تھے۔ مرجئہ نے اپنی فکر کی بنیاد اس آیت کو قرار دیا:(وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللّهِ ِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَِمَّا یَتُوبُ عَلَیْهِمْ وَاللّهُ عَلِیْم حَکِیْم) (1)

جبریہ، قدریہ اور مرجئہ کے تفکرات کی جنگ سے''معتزلہ'' کے نام سے ایک معتدل فکری مکتب وجود میں آیا۔کہتے ہیں: اس طرز تفکر کے وجود میں آنے کی وجہ یہ تھی کہ حسن بصری گناہان کبیرہ انجام دینے والے شخص کو کافر سمجھتا تھا ۔ لیکن اس کے شاگردوں میں سے ''واصل بن عطا''کا اس سے مختلف نظریہ تھا اور وہ کہتا تھا: ایسا شخص کفر و ایمان کی درمیانی منزل پر ہو گا۔

     کہتے ہیں:جب واصل بن عطا اپنے استاد سے الگ ہو گیا تو حسن نے کہا:''اعتزلَ منّا''اس نے ہم سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔     اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کچھ دوسرے نظریات بھی ہیں۔(2)

--------------

[1] ۔ سورۂ توبہ، آیت :106''اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں حکم خدا کی امید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ یا خدا ان پر عذاب کرے گا یا ان کی توبہ کو قبول کرلے گا وہ بڑا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے ''۔

[2] ۔ تاریخ تحلیلی اسلام:228

۱۲۳

  مرجئہ اور قدریہ کے بارے میں رسول اکرم(ص) کی پیشنگوئی

     پیغمبر اکرم(ص)  جومستقبل اور مستقبل کے لوگوں سے باخبر تھے انہوں  نے خیانت کاروں (جو آنحضرت کے بعد لوگوں میں تفرقہ پیدا کرتے)کی مکارانہ سازشوںکو روکنے کے لئے لوگوں کوان پر نازل ہونے والی بلاؤں سے آگاہ کر دیااور اپنے ہدایت کرنے والے ارشادات سے لوگوں آئندہ کے شوم ،خطرناک، مختلف مکاتب فکر اور گمراہ کرنے والے فرقوں سے باخبر کیا تا کہ لوگ ان فرقوں سے دھوکا کھا کر نہ صرف قرآن و عترت سے جدا نہ ہوں بلکہ ظالم حکومت کے طغیان کو لگام ڈال سکیں اور ان پر قابو پا سکیں۔لیکن افسوس کہ لوگوں نے پیغمبر اکرم(ص) کی رہنمائی کو ان دیکھا کر دیا اور ہر ایک گروہ الگ سمت میں بھاگنے لگا اور بنی امیہ کے حاکم اپنے من پسند طریقے سے حکومت کرنے لگے۔

اب ہم یہاں رسول خدا(ص) کی راہنمائی کے کچھ نمونے بیان کرتے ہیں:

     جس طرح رسول خدا(ص) نے لوگوں کو امویوں سے خبردار کیا تھا اور ولید کو ظالموں کے پلڑے میں قرار دیا اور اسے انہی کا ساتھی شمار کیاتھا، اس سے پہلے کہ لوگ قدریہ اور مرجئہ کے بارے میں کوئی چیز  جانتے آپ نے ان کی مذمت کی اور آئندہ صدیوں اور بالخصوص پہلی صدی کے لئے حجت تمام کر دی اور فرمایا:میری امت میں سے دو گروہوں کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے:مرجئہ اور قدریہ۔(1) نیزفرمایا:'قدر(یعنی قدری گری)سے ڈرو کہ جو عیسائیت کی ایک شاخ ہے۔(2)

 اسی طرح فرمایا:خدا نے ستر پیغمبروں کی زبان سے میری امت کے دو گروہوں پر لعنت کی ہے: قدریہ اور مرجئہ کہ جو کہتے ہیں کہ ایمان صرف اقرار ہے اور اس میں عمل کا کوئی دخل نہیں ہے۔(3)

--------------

[1]۔ کنزالعمّال:ج1ص188، بخاری کی اپنی تاریخ میں، نسائی، ابن ماجہ، خطیب اور طبرانی کی روایت ۔

[2]۔ کنزالعمّال: ج1ص119، ابن عاصم،طبرانی اور ابن عدی کی روایت۔

[3]۔ کنزالعمّال:ج4ص135، دیلمی کی حزیفہ اور حاکم کی ابوامامہ کی روایت۔

۱۲۴

 اسی طرح ایمان و اسلام کے  بارے میں فرمایا:ایمان دل اور زبان سے جب کہ ہجرت جان اور مال سے ہے۔(1)

  نیز فرمایا:ایمان خواہش اور وہ خود خواہی نہیں ہے بلکہ یہ ایسی چیز ہے جودل میں قرار پاتی ہے اور عمل اس کی تصدیق کرتا ہے۔(2)

 6۔اسی طرح فرمایا:ایمان اور عمل دو ایسے شریک بھائی ہیں کہ جو ایک رسی سے بندھے ہوئے ہیں اور خدا ان میں سے کسی ایک کو بھی دوسرے کے بغیر قبول نہیں کرتا۔(3)

  نیز فرمایا:تم میں سے کوئی بھی ایمان نہیں لایا مگر یہ کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد،اس کے والدین اورتمام لوگوں سے زیادہ عزیز ہوں۔(4)

 نیز آپ نے فرمایا:ایمان کے بغیر کوئی عمل اور عمل کے بغیر کوئی ایمان قبول نہیں ہو گا۔(5)

 اسی طرح فرمایا:ایمان سے بندہ استوار نہیں ہوگا مگر یہ کہ اس کا دل استوار ہو اور اس کا دل استوار نہیں ہو گا مگر یہ کہ اس کی زبان استوارہو اور وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا مگر یہ کہ اس کا پڑوسی اس کے نقصان سے محفوظ رہے۔(7)،(6)

--------------

[1]۔ کنزالعمّال: ج1ص24، عبدالخالق بن زاہر کی اپنی اربعین میں روایت۔

[2]۔ کنزالعمّال:25، ابن نجّار کی روایت۔

[3]۔ کنزالعمّال:36، ابن شاہین کی روایت۔

[4]۔ کنزالعمّال:37، احمد، بیہقی، نسائی اور ابن ماجہ کی روایت۔

[5]۔ کنزالعمّال:68 ، طبرانی کی روایت۔

[6]۔ مجمع الزوائد:ج 1ص53، احمد کی روایت۔

[7]۔ ازژرفای فتنہ ھا: ج 2ص484

۱۲۵

  معاشرے میں مرجئہ کا کردار

 گمراہ کرنے والے اشعار،شراب نوشی اورجنسی برائیاںکچھ ایسے امور تھے جوفکر کو گمراہ کرنے والے مرجئہ جیسے فرقے کے رواج پانے کے نتیجے میں لوگوں میں پھیلے۔

نوجوان بلند اہداف و مقاصد کی جستجو کرنے کی بجائے عشق و عاشقی کی طرف مائل ہو گئے اور دین و دینداری سے دور ہو گئے۔زندقہ اور بے دینی رواج پا گئی اور لوگ خدا اور رسول(ص)  کو بھول گئے۔

مرجئہ کے پیشواؤں کا اس میں بنیادی کردار ہے اور انہوں نے دین کے نام پر لوگوں کو بے دینی کی طرف دعوت دی اور ان سے حیا و غیرت سلب کر لی اور اس کی جگہ بے شرمی تھما دی۔

مرجئہ کے عقیدے کی وجہ سے لوگ شرم کا احسان نہیں کرتے تھے اور ولید بھی عقیدۂ جبر کی برکت سے شرم محسوس نہیں کرتا تھا۔بہت سے جوان موسیقی، بیہودہ اشعاراور عیاشی میں لگ گئے اور انہوں نے اپنا سارا مال اسی عیش و عشرت کی زندگی میں تباہ کر دیاتھا۔

 ڈاکٹر خلیف لکھتے ہیں:اوباش لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئے تھے، موسیقی کی محفلیں منعقد ہوتی تھیں کہ جس میں بہت سی اداکارائیںشرکت کرتی تھیں،جس میں متعدد عیاش اور بے شرم گروہ برہنہ رقص کرتے تھے ور جس میں اموی و عباسی بھی  شرکت کرتے تھے تا کہ دوسروں کو ذلت محسوس ہو۔

ایسی ذلت جس نے ان کی طرف ہاتھ پھیلائے اور نئے آنے والوں اور اس کی طلب کرنے والوںکو آغوش میں لے لیا اور انہیں تاریک کھائی میں پھینک دیااور پروانوں کی طرح آگ کی طرف بڑھنے والے جوانوں کو نگل لیا ۔ جس قدر اس کھائی کا اندھیرا زیادہ ہوتاگیا اتنا ہی اس میں گرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا۔ اس طرح ان کی مستی اور لہو و لعب کو ایک دوسرے سے پیوست کرنے اور ان کی عیاشی کو ان سے جوڑنے والے شاعروں نے گمراہی کا انتظام کیا؛جو سب کے سب فاسق،عیاش اور شراب سے مست تھے۔اس لہو لعب اور عیاش مکتب نے عورتوں اور مردوں کی صفوں میں عاشقانہ اشعار پڑھنے کی راہ بھی ہموار کی۔

۱۲۶

اس مکتب میں رومانوی افسانے پڑھنا ،عشق و عاشقی کے نغمہ گانا عام تھا۔ اس مکتب کے نتیجے میں اسلامی معاشرے میں کنیزوں اور گانے والی عورتوں میں اضافہ ہوا اور اس مکتب کے کندھوں پر ہی زندقیت پھیلی جس نے اپنی بنیادوں کو مضبوط بنایا اور دیر کے اشعار رائج ہو گئے۔(1) ولید بن عقبہ (اپنے عیسائی دوست ابوزبید نصرانی کے ساتھ)وہ پہلا شخص تھا کہ جس نے عثمان بن عفان کے زمانے میں اس کام کے لئے زمین ہموار کی اور ان کے لئے وسائل فراہم کئے۔دیر کے اشعار اور گانے والی کنیزوں کے ساتھ اموی حکومت نے اپنے آخری دن گزارے اور پھر یہ سماجی آفت عباسی حکومت کے سپرد کر دی۔اس حکومت میں بھی غلاموں کی تعداد بڑھی۔ مختلف اقوام، ثقافت، تمدن اور مختلف مذاہب سے کنیزیں اور غلام بچے فراہم ہوئے اور یہ نکتہ حاکموں اور ان کے بیٹوں پر اثرانداز ہوایہاں تک کے ان کے محلوں کی اکثر کنیزیں ایسی تھیں جنہوں نے گلے میں صلیب  آویزاں کی ہوتی تھی۔(3)(2)

 بہشتی کافر!

 کچھ مصنفین نے وضاحت کی ہے کہ خدا اور اس کے رسول پر ایمان اسلام کی شرط ہے۔اگرچہ انسان ظاہری طور پر کفرگوئی کرییا یہودیت و عیسائیت کا اظہار کرے۔ کچھ نے (جیسے ''ابن حزم'')مرجئہ کے عقیدے کے بارے میں مزید یہ کہا ہے:اگر کوئی اپنے دل میں خدا اور اس کے رسول کا معتقد ہو اگرچہ ظاہراً یہودی یا عیسائی ہو تو وہ نہ صرف حقیقت میں مسلمان ہے بلکہ خدا کے اولیاء اور اہل بہشت میں سے ہے! اس عقیدے کی بنا پر تمام اموی حاکم بھی خدا کے اولیاء اور جنتی ہیں!کیونکہ وہ کچھ لوگوں کو اجرت دیتے تھے کہ فرقۂ مرجئہ کی تبلیغ کریں تا کہ لوگ ان کا شمار اولیاء خدا میں سے کریں،چاہے وہ سب سے شرمناک  کے مرتکب ہی کیوں نہ ہوئے ہوں۔

--------------

[1]۔ حیاة الشعر فی الکوفة: 633 اور 634

[2]۔ العصر العباسی الأوّل:21

[3]۔ ازژرفای فتنہ ھا:ج 2 ص 494

۱۲۷

کتاب''شیعہ در مقابل معتزلہ و اشاعرہ ''میں لکھتے ہیں: اس میں شک نہیں ہے کہ مرجئہ اموی دور حکومت کے وسطی زمانے میں وجود میں آئے اور انہوں نے اسلامی محافل میں ان افکار کو پھیلانے کے لئے اپنی سرگرمیاں شروع کیں اور اموی حکمرانوں نے بھی ان افکار کو پھیلانے میں ان کی مددکی۔چونکہ مرجئہ انہیں مومن لکھتے تھے اور انہیں ہر چیز سے زیادہ اسی صفت کی ضرورت تھی خصوصاً ان حالات میں کہ جب خوارج امویوں اور تمام صحابیوں کے کافر ہونے پرزور دیتے تھے اور معتزلہ یہ نظریہ پیش کرتے تھے کہ اسلام عقیدے،تمام واجبات اور احکام پر عمل کرنے پر مبنی ہے اور جو بھی ان پر عمل نہ کرے تو وہ جہنم کا حقدار ہو گا اگرچہ وہ اسلام کے تمام اصول و ارکان کا معتقد ہی کیوں نہ ہو۔ اس بنا پر خوارج کے مطابق اموی کافر تھے یا معتزلہ جس چیز کا دعویٰ کر رہے تھے اس کی رو سے ان کا ٹھکانا جہنم تھالیکن مرجئہ کی نظر میں یہ مؤمن تھے اورکثرت سے گناہ و منکرات انجام دینے کے باوجود وہ  دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوئے بلکہ بعض مرجئہ اس چیز کے قائل تھے کہ ایمان کے متحقق  ہونے کے لئے صرف خدا اور پیغمبر (ص) پر ایمان لانے کی شرط ہے۔اگرچہ انسان زبان سے کفر کا اظہار کرے اور بتوں کی پوجا کر ے اور اسلامی شہروں میں یہودیت اور عیسائیت کا پرچار کرے اور اس سے بڑھ کر ان کایہ کہنا تھا کہ اگر وہ اس حال میں مر جائے تو وہ اولیاء خدا اور اہل بہشت میں سے ہے!(1)   یہ طبیعی امر ہے کہ ہم  ایسے حکمرانوں کامشاہدہ کریں جنہوں نے اس تفکر کو ہوا دی اور اس کی حمایت کیونکہ وہ اسلامی فرقوں میں سے کسی فرقے کو قبول نہیں کرتے تھے کہ جو انہیں ایسی صفات عطا کرے کہ یہ قدّیسیوں کی صف میں آجائیں۔جو ان کی حکومت اورمسلمانوں پر ان کے تسلّط کو جائز اور ان کے گناہوں کی انجام دہی میں زیادہ روی اور اسلامی تعلیمات و مقدسات کی بے احترامی کو صحیح قرار دے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں کہ جب عقائد کے سلسلے میں فکری کشمکش کی آگ بھڑک رہی تھی ، گناہگاروں اور گناہان کبیرہ کو انجام دینے کے بارے میں خوارج اور معتزلہ کے آراء عام ہو چکے تھے تو یہی حکمران اس تفّکر کے فاتح تھے۔اور جب اس زمانے میں ان کے کفر اور ان کے جہنم کی آگ میں دائمی طور پر رہنے کے بارے میں فتویٰ دیا گیا تو ان کے لئے بہت آسان تھا کہ وہ اپنے اعمال کی مشروعیت کے لئے دانشور اور اصحاب و مبلغین حاصل کریں اور خریدیں۔(2)

--------------

[1]۔ فجر الاسلام:633 اورابن حزم سے منقول: ج4 ص204

[2]۔ شیعہ دربرابر معتزلہ و اشاعرہ:149

۱۲۸

  مرجئہ کی کلیسا اور عیسائیت سے ہماہنگی

 مرجئہ کے افکار کو پروان چڑھانے اور انہیں پھیلانے والوں میں سے یوحنا دمشقی کا نام لے سکتے ہیں جسے امویوں کے دارالحکومت میں بڑی شہرت حاصل تھی۔جس زمانے میں لوگ ارجاء کی باتیں کرتے تھے وہ اس سے مربوط دینی ابحاث میں مصروف رہتا تھا۔(1) بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ مرجئہ کے اصول اور مشرقی کلیسا کی تعلیمات(یوحنا ان کی طرف منسوب ہے)میں ہماہنگی موجود تھی۔(2) یہ تو تھا  مرجئہ کے پس پردہ ہاتھوں کا واقعہ۔اس واقعہ کی شرائط اور اس کے لئے راہ ہموار کرنے کے بارے میں ڈاکٹر خلیف کہتے ہیں:

امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے عمر بن عبدالعزیزکی خلافت تک کے دور میں مرجئہ گری کے رجحان میں شدت آ گئی۔اس میں  یزید،مروان،عبدالملک ،ولید اور سلیمان بن عبدالملک کا دور شامل ہے۔اسی دور میں اس رجحان میں شدت آنا طبیعی تھا کیونکہ یہ اضطراب اور روحانی بے سکونی کا زمانہ تھا جس میں چھوٹے سے شبہ اور تہمت کی وجہ سے لوگوں سے پوچھ تاچھ کی جاتی اور انہیں سزا دی  جاتی تھی۔(3)

مشہور ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد کوفہ میں حالات کافی سنگین ہو گئے تھے ،  طاقتور قیام سامنے آئے اور اموی حکومت کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ بغاوت کرنے والوں کا سخت خشونت اور سنگدلی سے مقابلہ نہ کرے تو یہ شہر اس کے ہاتھوں سے نکل جاے گا۔لہذا انہوں نے عبداللہ بن زیاد اور حجاج بن یوسف ثقفی جیسے اپنے ظالم ترین اور سرکش ترین افراد کو اسن پر مسلّط کر دیا جس کی وجہ سے کوفہ ہولناک ڈکٹیٹرشپ کے زیر سایہ آ گیا۔(5)،(4)

--------------

[1]۔ حیاة الشعر فی الکوفة:312

[2]۔ حیاة الشعر فی الکوفة:312

[3]۔ حیاة الشعر فی الکوفة:313

[4]۔ حیاة الشعر فی الکوفة:314

[5]۔ از ژرفای فتنہ ھا:ج2ص479

۱۲۹

     یہ واضح ہے کہ اموی حکمرانوں میں سے یزید سب سے زیادہ خیانت کار تھا اور جو ظلم و ستم اس نے  کئے وہ بنی امیہ میں سے کسی اور نے نہیں کئے۔حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت ،کعبہ کو آگ لگانا اور واقعہ حرّہ کے بعد بہت سے مسلمانوں پر یہ واضح ہو گیا کہ بنی امیہ نہ صرف رسول اکرم(ص) کے جانشین نہیں ہیں بلکہ دین اور آل رسول علیہم السلام کے دشمن ہیں۔

لوگوں میں ہونے والی باتوں اور سراٹھانے والی تحریکوں نے بنی امیہ کی حکومت کو خبردار کردیا اور انہیں خوف میں مبتلا کر دیا تھا اس لئے انہوں نے کچھ ایسے منصوبے بنائے تھے تا کہ لوگوں کوقابو میں کیا جا سکے۔کوفہ اس طرح کی تبدیلیوں اور تحریکوں کا مرکز تھا۔کوفہ میں ان تبدیلیوں کو کچلنے کے لئے ابن زیاد اور حجاج جیسے ظالموں کو کوفہ کا گورنر بنا دیاگیا۔اسی طرح لوگوں کے اعتراضات کو خاموش کرنے کے لئے مرجئہ گری کو ترویج دی گئی تا کہ مختلف مناطق میں اس کی تبلیغ کرکے لوگوں کو مرجئہ عقائد کا معتقد بنایا جائے۔

مرجئہ کے فرقے

     جس طرح امویوں کی مدد سے فرقۂ مرجئہ کے پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوا اسی طرح خود ساختہ اختلافات کی وجہ سے یہ چند فرقوں میں تقسیم ہوئے۔ان فرقوں میں سے ہر فرقہ عقیدے کے لحاظ سے دوسرے فرقہ سے مختلف تھا اور ان میں سے امویوں  اور ان جیسے دوسرے حکمرانوں کے لئے سب سے مناسب اور سازگار فرقہ ''کرّامیہ ''تھا۔

 فرقۂ کرامیّہ مسلمان ہونے کے لئے نہ دین کے احکام پر عمل کرناضروری سمجھتا تھا اور نہ ہی قلبی اعتقاد کو ضروری سمجھتا تھا!اس بناء پرمسلمان شخص بھی یہود و نصاریٰ کے اعمال انجام دے سکتا تھا چاہے باطنی طور پر مسلمان ہو یا نہ ہو۔مسلمان ہونے کے لئے صرف اتنا ہی کافی تھا کہ زبان سے اسلام کے احکامات اور دستورات کا اقرار کرے پھر چاہے دل میں ان کی مخالفت کرے اور چاہے عمل کے اعتبار سے اپنی زبان کے اقرار کے بر خلاف ہی عمل کرے۔یہ ظاہر سی بات  ہے کہ اس طرح کے مسلمان اموی حکمرانوں کے لئے بہت سازگار تھے۔

۱۳۰

مرجئہ کے دوسرے فرقے بھی تھے ۔ممکن ہے کہ ان میں تفرقہ بازی اور فرقہ بندی کسی ایک فرقے میں طاقت کے تمرکز کی روک تھام کے لئے ہو اور یہ ظاہر سی بات ہے کہ اگر طاقت و قدرت کسی ایک گروہ ہی میں جمع ہو جائے اور وہ دوسرے کئی گروہوںمیں تقسیم نہ ہو تو ممکن ہے کہ حاکم قدرت کے لئے سرددرد کا باعث بنے۔پس ہر گروہ میں تفرقہ حکّام کے فائدے میں ہے۔

     ابولحسن اشعری نے مرجعہ کے بارہ فرقے ذکر کئے ہیں اور وہ سب اس پر متفق ہیں کہ ایمان ، عقیدے و یقین کا نام ہے اور عمل حقیقتِ ایمان سے خارج ہے۔اس بارے میں صرف فرقۂ کرامیّہ (محمد بن کرام کے پیروکار)نے ان کی مخالفت کی ہے اگرچہ ان کا عقیدہ ہے کہ ایمان صرف زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے اور باطنی و قلبی تصدیق ضروری نہیں ہے۔

اسبنیادپر کہتے ہیں کہ پیغمبر (ص) کے زمانے میں زندگی بسر کرنے والے منافقین حقیقت میں مؤمن تھے اگرچہوہ  دلسے ایمان نہیں لائے تھے !اسی طرح وہ زبان سے انکار کرنے کو کفر قرار دیتے ہیں(!)(1)

 لیکن اسفراینی کی کتاب''التبصیر''میں ارجاء کے پیروکاراس تفصیل سے پانچ فرقوں میں تقسیم ہوئے ہیں:

 1۔ یونسیہ فرقہ:یہ یونس بن عون کے پیروکار ہیں۔یہ معتقد ہیں کہ ایمان کا تعلق دل اور زبان سے ہوتا ہے اور ان کی حقیقت خدا کی معرفت و محبت  اور اس کے پیغمبروں اور کتابوں کی تصدیق کرنا ہے۔

2۔ غسّانیہ:جو غسّان مرجئی کے پیروکار ہیں اور جن کا اعتقاد ہے کہ ایمان صرف خدا کے وجود اور اس کی محبت کا اقرار کرنا ہے لیکن اس میں اضافہ اور کمی ہو سکتی ہے۔

3۔ ثنویّہ: ابو معاذ کے پیروکارا ور ان کا عقیدہ تھاکہ ایمان ایسی چیز ہے جو تمہیں کفر سے محفوظ رکھے۔

4۔ ثوبانیّہ:یہ ابو ثوبان مرجئی کے پیروکار تھے۔انہوں نے عقلی واجبات کو وجود خدا اور اس کے پیغمبروں سے بڑھا دیا اور جس چیز کو بھی عقل صحیح قرار دے اسے ایمان کے ارکان  شمار کرتے ہیں۔

-------------

[1] ۔ التعلیقة علی التبصیر فی الدین،اسفراینی:91،التعلیقة علی مقالات الاسلامیّین:203

۱۳۱

 5۔ مریسیّہ:یہ بشیر مریسی کے پیروکار ہیں ۔ہم نے جوکچھ ذکر کیا اس کے علاوہ یہ تخلیق قرآن کا معتقد تھا۔

 جو کچھ ذکر کیا گیا اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مرجئہ اس پر متفق تھے کہ عمل،ایمان کے ارکان میں سے نہیں ہے۔اس طرح سے ان کی یہ کوشش تھی کہ خوارج کے سامنے ایمان کے معنی کو محدود و مشخص کریں کیونکہ خوارج گناہان کبیرہ انجام دینے والوں کو تو دور کی بات بلکہ یہ اپنے تمام مخالفین کوبھی کافر شمار کرتے تھے اور ان سب کو ایک طرف قرار دیتے تھے اور دوسرے مسلمانوں کو دوسری جانب۔

 اسی طرح یہ معتزلہ سے مقابلے کے لئے بھی تھا کیونکہ وہ عمل کو ایمان کے ارکان میں سے شمار کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے گناہگار ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ میں رہیں گے۔خوارج (جنہوں نے ایمان کو اپنی جاگیر بنایا ہوا تھا اور معتزلہ کے مقابلے میں زبانی تصدیق کے علاوہ ارکان پر عمل کرنے کے بھی قائل تھے) کے مقابلے میں مرجئہ کے نظریات پیدا ہوئے۔ اس زمانے میں پھیلنے والے ان نظریات کی طرح ان میں بھی ارتقاء پیدا ہوا۔جیسے دوسرے نظریات کہ جو پہلے ایک تفکر کی صورت میں ظاہر ہوئے اورپھران میں جتنی بحث ہوتی اور جتنا وقت گذرتا ان میں اتنی ہی زیادہ وسعت آجاتی۔ خاص طور پر جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ مرجئہ کے آراء و نظریات بنیادی طور پرحکمرانوں کی مصلحت کے لئے کام کر کرے تھے اور اپنے منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ اس کی تبلیغ و ترویج کے لے مدد کرتے تھے۔اس رو سے ان میں سے کچھ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انسان جب تک دل اور زبان سے خدا اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتا ہو اسے جہنم کی آگ میں عذاب نہیں دیا جائے گا چاہے وہ گناہ اور منکرات کو ہی انجام کیوں نہ دے!!۔(2)

ابو حنیفہ اور مرجئہ

جس طرح مؤرخین اورمصنّفین فرق و مذاہب کی کتابوں میں ابوحنیفہ کو مرجئہ میں سے شمار کرتے ہیں کیونکہ اس کا یہ عقیدہ تھا کہ ایمان زبان سے اقرار اور قلبی تصدیق کا نام ہے اور ایمان انہی دو سےتشکیل پاتا ہے اور اسلام و ایمان ایک دوسرے کا لازمہ ہیں۔

--------------

[2] ۔ شیعہ دربرابر معتزلہ و اشاعرہ:151

۱۳۲

 جہم بن صفوان اور اس میں ہونے والے مناظرے (جسے حلی نے کتاب''مناقب ابی حنیفہ!'' میں ذکر کیا ہے) میں ابو حنیفہ نے کہا ہے:اگر کوئی مرجائے جب کہ وہ خدا اور اس کی صفات کو پہچانتاہو اور خدا کو وحدہ لا شریک مانتا ہولیکن زبان سے ان کا اقرار نہ کرے تو وہ کافر مرا اور وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔مؤمن اس وقت مؤمن ہے کہ جس کی اسے معرفت ہے اس کا زبان سے اقرار کرے اور اس پر ایمان بھی رکھے۔

 اس سے نقل ہوا ہے کہ اس نے ایمان کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے:

 1۔ دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کرے،اس لحاظ سے وہ  خدااور لوگوں کے سامنے مؤمن شمار ہوگا۔

 2۔ دل سے تصدیق کرے لیکن تقیہ یا خوف کی وجہ سے زبان سے اقرار نہ کرے تو وہ خدا کے نزدیک تو مؤمن ہے لیکن لوگوں کی نظر میں مؤمن شمار نہیں ہو گا۔

 3۔ زبان سے اقرار کرے لیکن دل سے اس کی تصدیق نہ کرے ۔اس صورت میں وہ لوگوں کی نظر میں تو مؤمن ہے لیکن خدا کے نزدیک کافر ہے۔

 یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے کامل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ زبان سے اقرار کرے لیکن احکامات پر عمل کرنا صدق ایمان کی شرط نہیں ہے!اسی بنیاد پر ابو حنیفہ معتقد تھا کہ ایمان کم یا زیادہ نہیں ہوتا اور ان دونو ں مورد میں ایمان کی توصیف بے مورد ہے۔لیکن اس میں جو فرق ہے وہ احکامات کو انجام دینے اور محرمات کو ترک کرنے میں  ہے اور یہ اس وجہ سے ہے تاکہ لوگوں میں فرق  پیدا کیا جا سکے اور برتری قرار دی جا سکے ۔ لیکن ایمان کے لحاظ سے کسی کو دوسرے پر برتری حاصل نہیں ہے!۔(1)

--------------

[1]۔ شیعہ دربرابر معتزلہ و اشاعرہ: 307

۱۳۳

  مرجئہ اور شیعہ

 ''مقالات تاریخی'' کے دسویں شمارے میں لکھتے ہیں: ابوحنیفہ اور مؤمن الطاق میں ہونے والی بحثوں میں سے ایک'' شیعہ و مرجئہ کی اصطلاح ایک دوسرے کے مدمقابل''ہے۔ابوحنیفہ نے مؤمن الطاق سے کہا:میں نے سنا ہے کہ تم شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی مرجائے تو تم اس کا بایاں ہاتھ توڑ دیتے ہو تا کہ قیامت کے دن اس کی کتاب اس کے دائیں ہاتھ میں تھمائی جائے۔ مؤمن الطاق نے کہا:یہ جھوٹ ہے۔لیکن میں نے بھی سنا ہے کہ جب تم میں سے کوئی مر جائے تو تم پانی کا ایک برتن اس کے مقعد میں رکھ دیتے ہوتا کہ اسے قیامت کے دن پیاس کا احساس نہ ہو!

 ابو حنیفہ نے کہا:وہ بات تمہارے لئے جھوٹ کہی گئی تھی اور یہ جھوٹی بات ہمارے لئے بیان کی گئی ہے۔(1)

 ''محاسبة مع ابی حنیفة و المرجئة''کے نام سے مؤمن الطاق کی ایک کتاب ذکر ہوئی ہے۔(2) جیسا کہ''مناظرة الشیعی والمرجی فی المسح علی الخفین و.....''کے نام سے ابویحییٰ جرجانی کی بھی ایک کتاب تھی۔(3) ان دونوں کتابوں میں شیعی اصطلاح کو مرجئہ کے مدمقابل سنّی کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔

 قابل ذکر ہے کہ ابوحنیفہ کی زید بن علی کی حمایت اور پھرحضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے بارے میں  ابوحنیفہ کا رویہ کسی حد تک دوستانہ ہے۔ اس کے علاوہ نقل ہوا ہے کہ ابوحنیفہ نے دشمنوں کے مقابلے میں حضرت علی علیہ السلام کے مقام کی تائید کی تھی اور انہیں باطل قرار دیا تھا۔اس نے تاکید کی تھی کہ اگر علی علیہ السلام نے جنگ نہ کی ہوتی تو ہمیں یہ پتہ نہ چلتا کہ باغیوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں۔(4) اس آخری بات کی نسبت شافعی سے بھی دیتے ہیں۔

--------------

[1]۔رجال کشی:190

[2]۔ رجال النجاشی:326

[3]۔ رجال النجاشی:254

[4]۔ عقود الجمان:307

۱۳۴

 اس کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کے مخالفوں کے بارے میں مرجئہ سے کام لینے کے بارے میںاسکافی کے کلمات میں بھی کچھ شاہد موجود ہیں ، وہ لکھتے ہیں: ''و منزلة المرجئة فی النصب و التقصیر فی علیّ،منزلة الیہود فی التقصیر و شتم عیسی بن مریم ''(1) یہ بالکل ویسا ہی استمال تھا جو شیعہ روایات میں موجود تھا۔وہ کہتے ہیں:ناصبی گری اور حضرت علی علیہ السلام کے حق میں کوتاہی کے سلسلے میں مرجئہ کا وہی مقام تھا جو حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کو دشنام دینے اور ان کے حق میں کوتاہی کے سلسلہ میں یہودیوں کا مقام تھا۔اسی طرح اسکافی ناصبہ،نابتہ اور مرجئہ کی اصطلاحات کو بھی ایک ردیف میں  قرار دیتے  ہیں۔(2)

احتمال ہے کہ ناصبہ کے لئے مرجئہ کی اصطلاح سے استفادہ کرنے کے لئے اہم ترین شاہد ایک شعر ہے جسے جاحظ اور مسعودی نے نقل کیا ہے۔مسعودی کی روایت ہے کہ مأمون نے ابراہیم بن مہدی کی مذمت کرنا چاہی کہ جو بغداد میں اس کے خلاف کھڑا تھااور تسنن کا علم بلند کئے ہوا تھا۔ علی بن محمد مختار بیہقی نے اس کے لئے یہ شعر کہا:

اذ المرجّ سرّک أن تراه          یموت لحینه من قبل موته

فجدّد نده ذکریٰ علی             وصلّ علی النبیّ و آل بیته

 اگر مرجئی کی موت سے پہلے اس کی موت دیکھنا چاہتے ہو ،تو ان کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کا ذکر کرو اور پیغمبر (ص) اور ان کی اہلبیت علیہم السلام پر درو بھیجو۔(3)

 جاحط نے ''العثمانیّة''میں بھی ایک طرح سے شیعہ و مرجئہ کو ایک دوسرے کے مدمقابل قرار دیا ہے۔(5)،(4)

--------------

[1]۔ المعیار والموازنة:

[2]۔ ا لمعیار والموازنة:71

[3] ۔ مروج الذہب:4173، البیان والتبیین: ج2ص149، تلخیص مجمع الآداب ابن فوطی، حرف کاف، حالات زندگی ش 38 الفرق الاسلامیة ف شر الأموی:269 ، الکنی والألقاب:3201، حیاة السیاسیة للامام الرضا علیہ السلام:232

[4]۔ العثمانیّة:72

[5]۔ مقالات تاریخی(دسواں شمارہ):85

۱۳۵

 اگر اسکافی کی یہ بات ( مرجئہ حضرت علی علیہ السلام کے ایسے ہی دشمن تھے جیسے یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن تھے) صحیح ہو تو پھریا یہ کہیں کہ ابو حنیفہ مرجئہ میں سے نہیں تھا اور یا پھر یہ کہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی حمایت اور آپ کے مخالفین کی ردّ میں  اس سے نقل ہونے والی باتیں صحیح نہیں ہیں۔کیونکہ مرجئہ اگر ناصبیوں کی حد تک ہی حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے دشمن ہوں تو اس کا بالکل احتمال نہیں ہے کہ اگر ابوحنیفہ مرجئی تھا تو وہ آنحضرت کی حمایت و طرفداری کرے۔ بہ ہر حال مرجئہ کی حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور آپ  کے شیعوں سے دشمنی ثابت ہے۔ اسی وجہ سے بنی امیہ مرجئہ کی طرفداری کرتے تھے تاکہ لوگوں کے دلوں میں اہلبیت اطہار علیہم السلام کی مخالفت کا بیج بویا جاسکے جس کے نتیجہ میں وہ خاندان وحی علیہم السلام سے دور ہوجائیں۔بعض روایات میں مرجئہ کی اہلبیت علیہم السلام سے دشمنی کی تصریح ہوئی ہے۔

مرجئہ اور شیعہ روایات

 شیعوں کے ائمہ علیہم السلام کی بہت سی روایات میں مرجئہ کی اصطلاح کو اہلسنت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور اکثریہ حضرت علی علیہ السلام اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کے مخالف معنی میں استمال ہوئے ہیں۔

 حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا:

 أللّٰهمّ العن المرجئة؛فانّهم أعداؤنا فی الدنیا و الآخرة ۔(1)

 خداوندا مرجئہ پر لعنت فرما کہ یہ دنیا و آخرت میں ہمارے دشمن ہیں۔

 دوسری روایت میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے قدریّہ و خوارج پر ایک بار اور مرجئہ پر دو بار لعنت کی ہے۔راوی نے اس کا سبب پوچھا تو آنحضرت نے فرمایا: ان کے عقیدے کی بنیاد پر ہمارے قاتل مؤمن ہیں ۔اس بناء پر قیامت تک ان کا لباس ہمارے خون سے رنگین رہے گا۔(2)

--------------

[1]۔ الکافی: ج8 ص276، بحارالأنوار: ج46 ص291

[2]۔ الکافی:ج2ص409

۱۳۶

 ایک اور روایت میں اسحاق بن حامد کاتب کہتا ہے:قم میں کپڑے بیچنے والا ایک شخص تھا جس کا مذہب شیعہ تھاا اور اس کا ایک شریک مرجئہ تھا۔ان کے پاس بہت ہی قیمت کپرا آیا۔شیعہ شخص نے کہا:میں یہ کپڑا اپنے مولا کے لئے لے کر جاؤں گا۔ مرجئی نے کہا:میں تمہارے مولا کو نہیں جانتا لیکن تم کپڑے کے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو کرو۔جب اس نے وہ لباس امام زمانہ علیہ السلام تک پہنچایا تو آپ نے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا اور آدھا کپڑا واپس کر دیا اور فرمایا:مجھے مرجئی کے مال کی ضرورت نہیں ہے۔(1)

 پیغمبر اکرم(ص) نے جو یہ روایت ارشاد فرمائی :''میری امت کے دو گروہوں کا اسلام سے کوئی تعلق  نہیں ہے، ایک مرجئہ اور دوسرا قدریّہ''یہ روایت حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام سے بھی منسوب ہے اور ذکر ہوا ہے کہ آنحضرت نے یہ حدیث حضرت ختمی المرتبت(ص) سے روایت کی ہے۔(2) اسی طرح حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت  کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: یہودیوں کی مرجئہ سے شباہت اور قدریّہ کی نصاری سے شباہت ایسی ہی ہے جیسے رات کو رات اور دن کو دن سے شباہت ہے۔(3) ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ ابوبصیر نے کہا:امام صادق علیہ السلام نے مجھ سے بصرہ کے لوگوں کے بارے میں پوچھا: میں نے عرض کیا:وہ مرجئی،قدری اور حروری ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا:

 لعن اللّٰه تلک الملل الکافرة المشرکة التی لا تعبد اللّٰه علی شئ ۔(4)

 اسی طرح امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: میں پانچ گروہوں سے بیزاری اختیار کرتا ہوں:مرجئہ،خوارج،قدریّہ،شامی(بنی امیہ)اور ناصبی۔(5)

--------------

[1]۔ بحارالأنوار:ج51ص340، ازکمال الدین

[2]۔ جامع الأخبار:188

[3]۔ جامع الأخبار:189،بحارالأنوار:ج5ص120

[4]۔ الکافی:ج2ص409-410

[5]۔ مستدرک الوسائل:ج12ص317،بحارالأنوار:ج18ص393

۱۳۷

 یہ اس چیز کی حکایت کر رہی ہیں کہ اکثر موارد میں جب ائمہ اطہار علیہم السلام سے مرجئہ کے بارے میں کوئی حدیث نقل ہوئی تو ان کے ناصبی ہونے کی خصلت پر اصرارکیا گیا ہے۔اگرچہ ممکن ہے   کہ کبھی مرجئہ کی نظر میں ایمان کی تعریف کی طرف بھی اشارہ ہوا ہو۔ حضرت امام صادق علیہ السلام سے ایک  اور روایت میں ذکر ہواہے کہ آپ نے فرمایا:

 اپنے بچوں کو ابتداء ہی سے حدیث کی تعلیم دو اس سے پہلے کہ اس بارے میں مرجئہ تم پر سبقت لے جائیں ۔(1)

 ضیاء الدین سہروردی نے ایک دوسرا واقعہ یوں نقل کیاہے : حکایت کرتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے جعفر منصور کے سامنے کسی مرجئی شخص کے ساتھ مناظرہ کیا ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے بحث میں کہاکہ ایک مرجئی کو پیغمبر اکرم(ص) کے پاس لایا گیا تا کہ آنحضرت(ص) کے حکم پر اس کو قتل کر دیں!اس شخص نے جواب دیا:پیغمبر(ص) کے زمانے میں یہ مذہب نہیں تھا!امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:جو چیز پیغمبر(ص) کے زمانے میں نہیں تھی ،تم وہ کہاں سے لے آئے؟!(2)

 سعد بن عبداللہ اشعری نے تیسری صدی کے آخر میں مرجئہ کو تاریخی لحاظ سے بالکل شیعوں کے برابر قرار دیا ہے اور یہ مرجئہ کے بارے میں شیعوں میں رائج اصطلاح کی پیروی  کانتیجہ تھا۔ وہ لکھتا ہے:جب حضرت علی علیہ السلام قتل ہو گئے تو آپ کے بہت تھوڑے سے شیعوں اور پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد آپ کی امامت پر یقین رکھنے والے افرادکے علاوہ آپ کے اصحاب اورجو فرقے طلحہ،زبیر اور عائشہ کے کے ساتھ تھے۔وہ سب ایک ہو گئے اور انہوں نے معاویہ کا ساتھ دیا۔  معاویہ کے ہمراہ جانے والے افراد، حشویہ ،ملوک کے پیروکار اور ان کے یار و مدد گار شامل تھے کہ زبردستی مسلّط ہوتے تھے۔انہوں نے معاویہ کو قبول کیا اور ان سب کو مرجئہ کا نام دیا گیا۔(4)(3)

--------------

[1] ۔ ج6ص47:بادروأولادکم بالحدیث قبل أن یسبقکم الیهم المرجئه'' ، التہذیب شیخ طوسی: ج8 ص111، وسائل الشیعة:ج 21ص478 اور4427۔

[2]۔ آداب المریدین:191-192

[3]۔ المقالات و الفرق:5

[4]۔ مقالات تاریخی (دسواں شمارہ):87

۱۳۸

امویوں کے انحرافی عقائد میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کردار

 اموی دور حکومت میں لوگوں کے دماغ میں فتنہ کی آندھیاں چلنے لگیں۔ایسی حکومت جس نے صاحبان علم سے جنگ کی اور جس نے بعثت پیغمبر(ص) کے زمانے کے مشرکوں کے عقائد کو نئے اور دلکش لباس میں پیش کیا۔علماء کا اتفاق ہے کہ اموی حکومت میں قدری گری زیادہ پھیلی اور امویوں  نے اسے اپنی آغوش میں پروان چڑھایااور اس کی حمایت کی تا کہ یہ پلے بڑے اور اس کی جڑیں مضبوط ہوں۔(1) انہوں نے خدا کی راہوں کو مسدود رکرنے اور قضا و قدر جیسے افکار پیش کئے اور انہیں ترویج دی۔ ان کا مقصدیہ تھا کہ دنیا کو حیرت و سرگردانی اور فکری بے راہ روی میں مبتلا کریں۔اس کام کا نتیجہ شریعتوں کو مقدس نہ سمجھنا،اس کے قوانین کی پابندی نہ کرنا اورحرام اعمال کو انجام دینا تھا کہ جن سے آسمانی ادیان نے منع کیا ہے۔یہ تمام کج روی قضاء الٰہی کے بہانے سے انجام دی جا رہی تھی ۔ امویوں نے اس فکر کی پرورش کی اور پھیلایا تا کہ رسول اکرم(ص) کی زبان سے ان کے بارے میں جو کچھ صادر ہوا ہے ، اسے چھپا سکیں اور یہ بیان کر سکیں کہ حاکمیت اور ان کا اقتدار خدا کی مشیت و ارادے کا نتیجہ ہے۔ مسلمان ان کی اطاعت کرنے پر مجبور ہیں اور کسی بھی طرح کی سرکشی اور ان کے خلاف کوئی تحریک ،قضاء الٰہی کے خلاف سرکشی شمار کی جائے گی۔  جس نے سب سے پہلے  جبرکو نئے انداز میں  پیش کیا ،اس کے بارے شیخ محمد ابوزہرہ لکھتے ہیں:''ہمیں مکمل اطمینان ہے کہجبری گری اموی دور کے آغاز میں پھیلی اور اس دور کے اختتام تک یہ ایک مکتب میں تبدیل ہو گئی۔کہتے ہیں کہ اس تفکّر کو سب سے پہلے رواج دینے والے کچھ یہودی تھے، جنہوں نے یہ افکار مسلمانوں کو سکھائے اورپھر ان کی نشر و اشاعت کی۔کہا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلے   جس مسلمان نے اس فکری تحریک کی طرف دعوت دی ،وہ جعد بن درہم تھا جس نے یہ افکار شام کے ایک یہودی سے سیکھے اورپھر اس نے بصرہ میں لوگوں میں اس کی ترویج شروع کر دی۔ پھر جہم بن صفوان نے یہ افکار جعد سے سیکھے''۔(2)

--------------

[1]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:104-111 ، تاریخ الفرق الاسلامیّہ:66

[2]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:104-111 ، تاریخ الفرق الاسلامیّہ:66

۱۳۹

جہم صرف جبر کے عقیدے کی ہی ترویج نہیں کر رہا تھا بلکہ جنت و دوزخ اور خدا سے ملاقات وغیرہ  جیسے اپنے نظریات کی طرف بھی لوگوں کو دعوت دیتا تھا ۔(1) اس طرح اہل کتاب سے جبر کے افکار سیکھنے کے بعد(جوامویوں کی سیاست سے ساز گار تھے)  اموی درخت کی شاخیں،اہل کتاب کے درخت کی شاخوں سے مل گئیں۔ ظاہر ہے کہ شام اموی خلافت کا دارالحکوت  اور مختلف مذہب و نظریات کا پیروکار تھا۔امویوں نے مذاہب کے سربراہوں سے مسالحانہ روایہ رکھا ہوا تھا  اور انہوں نے قیصر کے ساتھ معاہدہ کیا تھا تا کہ اپنی طاقت کی حفاظت کے  لئے وقت پڑھنے پر مسلمانوں کو قتل اور ان کی سرکوبی کریں۔اس معاہدہ کے دوران احبار اپنی عمارت کو اونچاکرنے کے لئے اسلامی معاشرے میں رخنہ ڈال رہے تھے اور اموی بھی انہیں اپنے قریب کر رہے تھے۔تاریخی لحاظ سے یہ مطلب بھی قطعی ہے کہ سرجون مسیحی( جو معاویہ اور اس کے بعد یزید اور پھر مروان بن حکم(2) کا مشیر اور اموی حکومت کا راز دار تھا )جبریوں میں سب سے آگے تھا۔(3) اس بناء  پر سب فرقوں کے علماء کے مطابق اموی حکومت نے جبری گری کو ترویج دینے اور اسے تقویت دینے کی سیاست اپنائی اور اسے اپنی سیاست کی بنیاد قرار دیا کیونکہ اس کی چادر میں امویوں کے کالے کرتوت پوشیدہ تھے  اور ان کے منبر سے ان کے فقیہ ہر بندگلی سے بھی اپنے لئے راستہ نکال   لیتے تھے۔ اگر ان سے پوچھا جاتا کہ حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کیوں  کی؟ کیوں انہیں دشنام دیتے ہو؟کیوں حجر بن عدی کو قتل کیا؟ یااکثر کو معاویہ سے ملحق کیوں کیا اور استلحاق کی جاہلی سنت کو پھر سے کیوں زندہ کیا؟ یا امام حسین علیہ السلام کو کیوں قتل کیا؟ یاحرہ  کے واقعہ میں کیوں مدینہ پر حملہ کیا اور اسے مال غنیمت کی طرح لوٹا اور مکہ پر کیوںسنگ باری کی گئی؟کیوں خدا کے مال کو اپنا بازیچہ اور خدا کے بندوں کو اپنا بندہ بنایا؟ کیوں خدا کے دین کو باطل کیا اور نماز کو ضائع کیا؟ ان سب سوالوں اور دوسرے سوالوں کے جواب میں ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ یہ سب خدا کی  قضاو قدر کے مطابق تھا اور اس پر امت کا اجماع ہے اور اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے تو پھر وہ جانے اور تلوار جانے!

--------------

[1]۔ تاریخ المذاہب الاسلامیّہ:106

[2]۔ التنبیہ والاشراف:ج1ص285

[3]۔ تاریخ الفرق الاسلامیّہ:69

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

معاویہ کے خطوط اسلامی شخصیتوں کے نام

معاویہ نے جنگ صفین پر روانہ ہونے سے پہلے عمرو عاص سے کہا میں چاہتا ہوں تین لوگوں کو خط لکھوں او ران لوگوں کو علی کے خلاف برانگیختہ کروں وہ تین آدمی یہ ہیں عبد اللہ بن عمر، سعد بن وقاص ، محمد بن مسلمہ۔

معاویہ کے مشاورنے اس کے نظریہ کو قبول نہیں کیا اور اس سے کہا یہ تینوں افراد تین حالتوں سے

خالی نہیں ہیںیا علی کے چاہنے والے ہیںاس صورت میں تمہارا خط باعث بنے گا کہ راہ علی پر باقی رہنے میں ان لوگوں کا ارادہ ٹھوس ہو جائے یا عثمان کے چاہنے والے ہیں اس صورت میں ان کے استحکام میں اضافہ نہیں ہو گا اور اگر وہ لوگ کسی بھی طرف نہیں ہیں تو ہرگز تم ان لوگوں کی نظر میں علی سے زیادہ مورد اعتماد نہیں ہو۔ اس لئے تمہارے خط کا اثر ان لوگوں پر نہیں

۵۰۱

پڑے گا۔(۱)

معاویہ نے اپنے مشاور کے نظریہ کو قبول نہیں کیا اور اپنی اور عمرو عاص کی دستخط کے ساتھ ایک خط عبد اللہ ابن عمر کو لکھا جس کی عبارت یہ تھی:

''حقائق اگر ہم پر پوشیدہ ہوں تو تم پر پوشیدہ نہیں ہیں، عثمان کو علی نے قتل کیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کے قاتلوں کو امان دی ہے ،ہم عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتے ہیں تاکہ حکم قرآن کے مطابق انہیں قتل کریں اور اگر علی عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کردیں تو ہم ان سے کوئی مطالبہ نہیں کریں گے اور اس وقت خلافت کے مسئلہ کو عمر بن خطاب کی طرح مسلمانوں کے درمیان شوری میں پیش کریں گے ہم ہرگز نہ خلافت کے طلبگار تھے او رنہ ہیں تم سے بس گذارش یہ ہے کہ قیام کرو او رہماری اس راہ میں مدد کرو، اگر ہم اور تم آپس میں متحد ہوگئے تو علی مرعوب ہو جائیں گے اور پھر اپنے ارادے سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔(۲)

عبد اللہ بن عمر کا جواب

اپنی جان کی قسم، تم دونوںنے اپنی بصیرت اور حقیقت شناسی کو اپنے ہاتھوں سے کھودیا ہے اور حوادث کو فقط دور سے دیکھ رہے ہو اور تمہارے خط نے شک کرنے والوں کے شک و تردید میں اضافہ کردیا ہے تم لوگوںکا خلافت سے کیا ربط؟ معاویہ تم طلیق و آزاد شدہ ہو او رعمرو تم ایک متہم شخص او رغیر قابل اعتماد ہو، اس کام سے باز آجاؤ میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔(۳)

عبد اللہ بن عمر نے جو خط معاویہ کو لکھا اس نے عمرو عاص کی مردم شناسی اور دور اندیشی کو ثابت کردیااور یہ بھی واضح کردیا کہ معاویہ اپنے قدیمی حریف کے کاموں تک نہیں پہونچ سکا ہے اور اگر بعض سیاسی مسئلوں میں برتری رکھتا ہے(مثلاً کشادہ دلی کے ساتھ مخالف کی بات سنتااو راگر اس کے سامنے آتا تو گذشتہ کونظر انداز کردیتا، اور اگر گفتگو ایک طرف ہو جاتی تو فوراً گفتگو کا عنوان بدل دیتا اور بحث کے اصل موضوع کو دوسرے انداز سے شروع کرتا) اس کے باوجود ابھی پورا مردم شناس نہیں ہورہے۔

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۸۹۔ ۸۸۔----(۲) وقعۂ صفین، ص ۶۳، ابن قتیبہ کے نظریہ کے مطابق اس خط کو معاویہ نے اہل مکہ او رمدینہ کے لئے لکھاتھا ۔ الامامة و السیاسة ص ۸۹۔----(۳)وقعة صفین ص۶۳،لیکن ابن قتیبہ نے معاویہ کے جواب میں ایک دوسرے خط کا ذکر کیا ہے،الامامة والسیاسةص۹۰۔۸۹

۵۰۲

معاویہ کے خط لکھنے کا مقصد

معاویہ کا مختلف لوگوں کو خط لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ بعض شخصیتوں کو متوجہ کرے جو نہ موافقوں کی صف میں تھے نہ ہی مخالفوں کی صف میں ۔ یہ لوگ مکہ و مدینہ میںلائق احترام اور با اثر شخصیت کے حامل تھے اور ان کی نظر جذب کرنے کی وجہ سے دو شہروں میں مخالفت ایجاد کرنا تھا جو شوریٰ کے مرکزی افراد اور خلیفہ انتخاب کرنے میں ایک اہمیت رکھتے تھے۔

لیکن یہ لوگ ان لوگوں سے زیادہ عقلمند تھے جن لوگوں نے معاویہ سے دھوکہ کھایا اور اس کے ساتھ رہے لہٰذا دوسروں نے بھی، یعنی سعد وقاص اور محمد بن مسلمہ نے بھی عبد اللہ بن عمر کی طرح جواب دیا۔(۱)

نصر بن مزاحم نے کتاب ''وقعہ صفین'' میں معاویہ کا ایک دوسراخط نقل کیا ہے جواس نے عبد اللہ بن عمر کے نام لکھا تھا اور اس پر امام ـ کی مخالفت کرنے کا الزام لگایا ہے اور اس طرح چاہا کہ مخالفت کا بیج اس کے دل میں بودے اور پھر لکھتا ہے کہ میں خلافت کواپنے لئے نہیں چاہتا بلکہ تمہارے لئے چاہتا ہوں اوراگر تم نے بھی قبول نہیں کیا تو ضروری ہے کہ مسئلہ خلافت کو مسلمانوں کی شوریٰ میں بیان کیا جائے ۔

عبد اللہ بن عمر اگر چہ سادگی میں بہت مشہور تھا اس نے معاویہ کا خط پڑھ کر اس کو جواب دیاکہ تم نے لکھاہے کہ میں نے علی کی نکتہ چینی کی ہے اپنی جان کی قسم میں کہاں او رعلی کاسابقہ ایمان، ان کی ہجرت ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ان کی و رفعت ومنزلت اور مشرکوں کے مقابلے میں ان کی مقاومت کہاں؟ اگر میں نے ان کی موافقت نہیں کی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس حادثہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے کوئی حدیث نہیں

______________________

(۱) معاویہ کے اصل خط کو جو اس نے سعد بن ابی وقاص اور محمد بن مسلمہ انصاری کے نام لکھا تھا اور ان کے جواب کو ابن قتیبہ نے الامامة و السیاسة ص ۹۱۔ ۹۰۔ پر لکھا ہے۔

۵۰۳

آئی تھی لہذا ہم نے دونوں میں سے کسی کی طرف بھی رغبت کرنے سے پرہیز کیا۔(۱)

معاویہ کا خط سعد بن وقاص کے نام

معاویہ نے فاتح سرزمین ایران سعد وقاص کو خط لکھا:

عثمان کی مدد کے لئے بہترین لوگ قریش کی شوریٰ تھی، ان لوگوں نے اسے چنا اور دوسروں پر مقدم کیا، طلحہ و زبیر نے اس کی مدد کرنے میں جلدی کی اور وہ لوگ تمہاری شوری کے ہمراہی اور اسلام میں بھی تمہاری ہی طرح تھے ام المومنین (عائشہ) بھی اس کی مدد کے لئے گئیں تمہارے لئے بہتر نہیں ہے کہ ان لوگوں نے جس چیز کو پسند کیا ہے تم اسے ناپسند کرو اور جس چیز کو ان لوگوں نے اختیار کیا ہے تم اسے چھوڑ دو، ہمیں چاہیئے کہ ہم خلافت کو شوریٰ کے حوالے کردیں۔(۲)

سعد وقاص کا جواب

عمر بن خطاب نے ایسے افراد کو شوریٰ میں شامل کیا جن کے لئے خلافت جائز تھی، ہم سے زیادہ کوئی بھی خلافت کے لئے بہتر نہ تھا، مگر یہ کہ ہم اس کی خلافت پر راضی رہیں اگر ہم بافضیلت ہیں تو علی بھی اہل فضل میں سے ہیںجب کہ علی کے فضائل بہت زیادہ ہیں اور ہمارے فضائل اتنے نہیں ہیں اور اگر طلحہ و زبیر اپنے گھر میں خاموشی سے بیٹھتے تو بہتر تھا، خداوند عالم ام المومنین کو جوانھوں نے کام کیاہے معاف کردے۔(۳)

معاویہ نے کوشش کی تھی کہ شوریٰ کے تمام اراکین سے زیادہ خلیفۂ سوم کی فضیلت کو ثابت کرے، لیکن سعد وقاص نے اسے قبول نہیں کیا اور اس کی حاکمیت او رسب سے آگے بڑھنے کو شوریٰ کے اراکین کی رائے سے توجیہ کیا اور اسی کے ساتھ طلحہ و زبیر پر اعتراض بھی کیا۔

______________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۷۳۔ ۷۲۔

(۲) الامامة و السیاسة، ج۱ ص ۹۰ وقعۂ صفین، ص ۷۴۔

(۲) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۹۰، وقعۂ صفین ص ۷۷۔ ۷۵۔

۵۰۴

معاویہ کا خط محمد بن مسلمہ کے نام

معاویہ نے اس خط میں اسے انصار کے فارس(بہادر) سے تعبیر کیاہے او رخط کے آخر میں لکھتا ہے:

انصار جو تمہاری قوم ہے اس نے خدا کی نافرمانی کی ہے اور عثمان کو ذلیل کیاہے اور خدا تم سے اور ان لوگوں سے قیامت کے دن سوال کرے گا۔(۱)

مسلمہ کے بیٹے نے ایک مقدمہ کے بعد جواب دیا:

تم دنیا کے علاوہ کسی چیز کو نہیں چاہتے اور خواہشات نفسانی کے علاوہ کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے، عثمان کی موت کے بعد اس کا دفاع کر رہے ہو لیکن اس کی زندگی میں اسے ذلیل و خوار کیا اور اس کی مدد نہیں کی۔(۲)

______________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۹۰، وقعۂ صفین ص ۷۷۔ ۷۵۔

(۲)الامامة والسیاسةج۱ص۹۰،وقعة صفین ص۷۷۔۷۵

۵۰۵

(۲) معاویہ کے خط کا مفہوم اور اس کا مقصد

معاویہ کے خط کا مفہوم مکمل طور سے اشتعال انگیز تھا اور معاویہ کی یہ کوشش تھی کہ لوگوں کو امام ـ کی مخالفت کے لئے برانگیختہ کردے، مثلاً عمر کے بیٹے کو خلافت پر قبضہ کرنے کے لئے بلایا کیونکہ وہ شوریٰ کا ناظر تھا، سعد وقاص چونکہ چھ نفری شوریٰ کا ممبر اور طلحہ و زبیر کے مثل تھا لہذا شوریٰ میں اس کے ممبر ہونے کا تذکرہ کیااور اسے طلحہ و زبیر کے راستے پر چلنے کی دعوت دی او رمحمد بن مسلمہ کو انصار کا شہسوار اور مہاجروں کو منظم کرنے والا قرار دیا او ر یاد دلایاکہ ان لوگوںنے عثمان کی مدد نہیں کی لہذا اس کا جبران کرنے کے لئے فوراً اٹھ جائیں اور اس کی مدد کریں۔

ان تمام خطوط سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معاویہ کا مقصد صرف اسلامی معاشرہ کودرہم برہم کر کے علی ـ کا مخالف بنانے کے علاوہ کچھ نہ تھا اور بنا بر فرض محال اگروہ عثمان کا ولی دم تھا تو یہ بات کوئی عقلمند انسان قبول نہیں کرے گا کہ ایک انسان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے تمام مسلمانوں کی جان جوکھم میں ڈال دے ۔

معاویہ کا اصرار تھا کہ خلیفہ کا انتخاب شوریٰ کے ذریعے ہو اور عمر کی شوریٰ کی تعداد چھ آدمیوں سے زیادہ نہ تھی، اگر شوریٰ کا انتخاب تکلیف دہ تھا تو مہاجرین وانصار کا متحد ہونا بدرجہ اولی الزام آور تھا سب لوگ اس سے باخبر ہیں کہ امام ـ مہاجرین و انصار کے ذریعے اس مقام پر منتخب ہوئے ہیں آپ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ لوگ جوق درجوق آپ کے پاس آئے اور بہت زیادہ اصرار کر کے آپ کو مسجد میں لے گئے اور پھر آپ کے ہاتھوں پر بیعت کی، اور چند لوگوں کے علاوہ کسی نے بھی آپ کی بیعت کی مخالفت نہیں کی۔

۵۰۶

اس کے علاوہ اگر مہاجرین و انصار نے عثمان کی مدد نہیں کی تو خود معاویہ نے بھی تو اس کی مدد نہیں کی جب کہ عثمان کے گھر کا محاصرہ بہت دنوں تک تھا اور وہ اس سے آگاہ بھی تھا اور وہ اپنی فوج کے ساتھ خلیفہ کی مدد کے لئے جاسکتا تھا، لیکن ہرگز اس نے ایسا نہیں کیا اور اس کے خون کو بہتا ہوا دیکھتا رہا۔

اس کے علاوہ خود عثمان نے شام کے لوگوں او روہاں کے حاکم معاویہ کے پاس خط لکھا اور ان سے مدد مانگی تھی یہاں تک کہ اپنے خط کے آخر میں یہ بھی لکھا تھا:

''فیاغوثاه و لا امیرُ علیکم دونی ، فالعجل العجل یا معاویة وادرک ثم ادرک و ما اراک تدرک'' (۱)

ان تمام چیزوں کے باوجود معاویہ نے ان خطوط کو نظر انداز کردیا اور اپنے خلیفہ کی بالکل بھی حمایت نہیں کی لیکن اس کی موت کے بعد اس کے خون کا بدلہ لینے کی فکر ہوگئی۔

مؤرخین نے عثمان کے دو طرح کے محاصروں کو لکھا ہے اور پہلے محاصرہ اوردوسرے محاصرے کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ تھا، بعض نے محاصرہ کی مدت ۴۹ دن بعض نے ۷۰ دن اور بعض نے ۴۰ دن اور بعض نے ۱ مہینے سے زیادہ لکھا ہے اس لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ عثمان کے محاصرے کی خبر معاویہ نے نہ سنی ہو، اور وہ پورے واقعہ سے بے خبر ہو۔

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ص ۳۸۔

۵۰۷

شام کا خطیب

ہر زمانے اورہر جگہ پر ایسے افراد موجود ہوتے ہیں کہ اپنا کھانا روزانہ کی قیمت سے کھاتے ہیں اور چاپلوسی اور جھوٹی تعریف کرنے والے صاحبان قدرت و ثروت کی خوشامد اور اور ان کیتعریفیں کیا کرتے ہیں اور حق کو ناحق، اور باطل کو حق دکھاتے ہیں لیکن تاریخ میں ایسے بھی افراد موجود ہیں جو حق و حقیقت کا کسی بھی چیز سے معاملہ نہیں کرتے اور ان کی زبانوں پر کلمہ حق کے علاوہ کچھ جاری نہیں ہوتا۔

قبیلہ ''طی'' کے لوگ جو مدینہ او رشام کے دو پہاڑوں کے درمیان زندگی بسر کر رہے تھے وہ سب کے سب خصوصاً عدی بن حاتم، علی ـ کے عاشق تھے۔ عدی امام ـ کی خدمت میں آئے اور کہا ہمارے قبیلہ کا ایک شخص ''خفاف'' اپنے چچازاد بھائی ''حابس'' کی ملاقات کے لئے شام جانے والاہے، خفاف بہترین خطیب و مقرر اور عمدہ شاعر ہے اگر آپ کی اجازت ہوتوہم اس سے کہیں کہ معاویہ سے ملاقات کرے اور مدینیاور عراق میں اپ کی جو شان و شوکت ہے اسے بیان کرکے، معاویہ او رشامیوں کا حوصلہ پست کرے، امام ـ نے عدی کی درخواست کو قبول کیا، خفاف شام کی طرف روانہ ہوا، اور اپنے چچازاد بھائی حابس کے پاس گیا اور اس سے کہا میں عثمان کے قتل کے وقت مدینہ میں موجود تھا پھر حضرت علی ـ کے ساتھ مدینہ سے کوفہ آیا ہوں اور تمام حالات سے باخبر ہوں دونوں چچازاد بھائیوں نے طے کیا کہ دوسرے دن معاویہ کے پاس جائیں او راسے تمام واقعات سے آگاہ کریں ، دوسرے دن دونوں بھائی معاویہ کے پاس گئے حابس نے اپنے بھائی کا تعارف کرایا اور کہا کہ وہ حادثہ ''یوم الدار'' اور عثمان کے قتل کے دن موجود تھا اور علی کے ساتھ کوفہ آیا ہے او راپنی بات میں مکمل یقین و اعتماد رکھتا ہے معاویہ نے خفاف سے کہا، عثمان کے واقعات سے مجھے آگاہ کرو، خفاف نے مختصر طور پر عثمان کے قتل کے واقعات کو اس طرح بیان کیا:

''مکشوح نے اس کا محاصرہ کیا اور حکیم نے حملہ کرنے کا حکم دیا، محمد بن ابوبکر او رعمار قتل کرنے میں شریک تھے اور تین آدمی عدی بن حاتم، مالک اشتر نخعی اور عمرو بن الحمق اس کارنامے میں بہت فعال تھے اسی طرح سے طلحہ و زبیر قتل کرنے میں بہت زیادہ کوشش کر رہے تھے، اور اس گروہ سے سب سے جدا رہنے والے علی ـ تھے جو عثمان کے قتل میںکسی طرح بھی شریک نہیں تھے۔

۵۰۸

معاویہ نے کہا: پھر اس کے بعد کیا ہوا؟

خفاف نے کہا: لوگ عثمان کے قتل کے بعد جب کہ ابھی اس کا جنازہ ایسے ہی زمین پر پڑا تھا پروانے کی طرح علی کے پاس اس طرح جمع ہوئے کہ جوتے گم ہوگئے اور ردائیں کاندھوں سے گر گئیں، بوڑھے لوگ مجمع میں دب گئے اور سب نے رہبر اور پیشوا کی حیثیت سے علی ـ کی بیعت کی، اور جب طلحہ و زبیر نے اپنی بیعت کو توڑ دیا تو امام ـ سفر کرنے کے لئے آمادہ ہوئے اور مہاجرین وانصار بہت تیزی کے ساتھ آپ کے ہمراہ چلنے کے لئے تیار ہوگئے، اس سفرسے تین لوگ، سعد بن مالک، عبد اللہ بن عمر، محمد بن مسلمہ بہت ناراض ہوئے اور تینوں افراد نے گوشہ نشینی اختیار کرلی، لیکن علی (علیہ السلام) پہلے گروہ کی وجہ سے ان تینوں سے بے نیاز ہوگئے امام ـ کا کاروان سرزمین ''طی'' پہونچااور میرے قبیلہ سے کچھ لوگ امام کے لشکر سے ملحق ہوئے، اور ابھی بصرہ کا آدھا ہی راستہ طے کیا تھا کہ طلحہ و زبیر کے بصرہ جانے کی خبر ملی، ایک گروہ کو کوفہ روانہ کیا اور ان لوگوں نے بھی ان کی دعوت کو قبول کیا او ربصرہ کی طرف روانہ ہوگئے، بصرہ پر حملہ ہوا اور شہر پر ان کا قبضہ ہوگیا پھر کوفہ کی فکر کی، اس شہر میں شور و غل مچ گیا، بچے محل کی طرف دوڑے او ربوڑھے او رنوجوان خوشی خوشی ان کی طرف دوڑ پڑے اس وقت وہ کوفہ میں ہیں اور شام پر قبضہ کرنے کے علاوہ کوئی اور فکر نہیں کر رہے ہیں، جب خفاف کی گفتگو ختم ہوئی تو معاویہ خوف کے مارے تھرتھر کانپنے لگا۔

اس وقت حابس نے معاویہ سے کہا: میرا چچازاد بھائی خفاف بہت اچھا شاعر ہے میری جب اس سے ملاقات ہوئی تھی تو اس نے بہت اچھا شعر پڑھا تھا اورعثمان کے متعلق میری نظر کو بدل ڈالا اور علی کی خوب تعریف کی، معاویہ نے کہا کہ وہ شعر جو تم نے اس کے لئے کہا تھا مجھے سناؤ اس نے وہ اشعار پڑھا، خفاف کا شعر سن کر معاویہ نے سخت لہجہ میں حابس سے کہا: میرے خیال سے یہ شخص علی کاجاسوس ہے جتنی جلدی ممکن ہو اس کو شام سے باہر کردو، لیکن معاویہ نے اسے دوبارہ اپنے پاس بلایا اور کہا: مجھے لوگوں کے کام وغیرہ سے آگاہ کرو، اس نے پھر وہی باتیں دہرائیں ، معاویہ ا س کی عاقلانہ باتیں سن کر حیرت میں ڈوب گیا۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۶۶۔ ۶۴، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۱۲۔ ۱۱۰۔

۵۰۹

صحابہ کے بیٹوں کا سہارا

ابو سفیان کا بیٹااس اما م سے مقابلہ کرنے کی کوشش میں تھا جس کا سبقت ایمان اور مشرکین کے ساتھ جہاد کرنا روشن وواضح تھا لہذا اس نے بعض صحابیوں اور ان کے بیٹوں کو اپنی طرف جذب کرکے اپنی شخصیت بنانی چاہی جب عبیداللہ ابن عمر حضرت علی کی حکومت سے بھاگ کر شام گیاکیونکہ حضرت ھرمزان کے قتل کی بنا پر اس سے قصاص چاہ رہے تھے اور معاویہ کو یہ خبر ملی تو وہ(۱) خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا لہٰذا اپنے مشاور اور عقل (عمروعاص) سے رابطہ کیا اور عبیداللہ کی آمد پر اسے مبارک باد دی اور اسے ملک شام کے اور اپنے پاس رہنے کا وسیلہ سمجھا(۲) پھر دونوں نے ارادہ کیا کہ اس سے درخواست کریں کہ لوگوں کے مجمع میں منبر پر جا کر علی کو برا بھلا کہے، جب عبیداللہ معاویہ کے پاس آیا تو معاویہ نے اس سے کہا اے میرے بھتیجے ،تمہارے باپ کا نام (عمر بن الخطاب) تمہارے اوپر لگا ہواہے خواب غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور مکمل آمادگی کے ساتھ گفتگو کرو، کیونکہ تم لوگوں کے درمیان قابل اعتماد ہو، منبر پر جاؤ علی کو برا بھلا کہو، گالی دو اور گواہی دو کہ عثمان کو علی نے قتل کیا ہے۔

زمام حکومت ایسے فتنہ پرور لوگوں کے ہاتھوں میں تھی جنہوںنے خلفاء کے بیٹوں کو برے اور بیہودہ کاموں کی ترغیب کرتے تھے تاکہ اس کے ذریعہ امام علیہ السلام کی عظمت کو گھٹادیں ،لیکن امام علیہ السلام کی رفعت وعظمت اتنی بلند تھی جس کا دشمن بھی منکر نہیں ہوسکتا ۔ عبیداللہ جوامام علیہ السلام کی عدالت کی وجہ سے بھاگ گیا تھا اس نے معاویہ سے کہا ، میں علی کو گالی نہیں دے سکتا اور ناسزا نہیں کہہ سکتا کیونکہ وہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم کے بیٹے ہیں ان کے نسب کے بارے میں میں کیا کہوں؟ ان کی جسمانی اور روحاحی طاقت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتاہے کہ وہ پچھاڑ دینے والے بہادر ہیں، میں عثمان کے قتل کا الزام ہی صرف ان کی گردن پر ڈال سکتاہوں ۔

عمرو عاص اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا:

خدا کی قسم، اس وقت زخم نمایاں ہوں گے(بھیجے باہر نکلیں گے) جب عبیداللہ وہاں سے چلا گیا تو

_______________________________

(۱) تاریخ طبری ج۳،جز۵ ص ۴۲،۴۱۔ کامل ابن اثیر ج ۳ص ۴۰

(۲) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۹۲

۵۱۰

معاویہ نے عمر وعاص سے کہا ،اگر وہ ہرمزان کو قتل نہ کرتا اور علی کے قصاص سے نہ ڈرتا تو ہماری طرف کبھی بھی نہ آتا کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اس نے علی کی کیسی تعریف کی؟

جی ہاں، عبیداللہ نے تقریر کی اور جب بات علی علیہ السلام تک پہونچی تو اس نے اپنی بات روک دی اور ان کے بارے میں کچھ نہ کہا اور منبر سے اتر گیا۔

معاویہ نے اس کے پاس پیغام بھیجا اورکہا: اے میرے بھتیجے ، علی کے بارے میں تمھاری خاموشی دو علتوں کی بناء پر تھی ناتوانی کی وجہ سے یا خیانت کی وجہ سے۔

اس نے معاویہ کو جواب دیا :میں نہیں چاہتا کہ ایسے شخص کے بارے میں گواہی دوں جو عثمان کے قتل میں شامل نہ تھا اور اگر میں گواہی دیتا تو لوگ ضرور قبول کرلیتے ،معاویہ اس کا جواب سن کر ناراض ہوا اور اسے نکال دیا اور اس کو کوئی مقام ومنصب نہیں دیا۔

عبیداللہ نے اپنے شعر میں کچھ ترمیم کرکے اس طرح بیان کیا کہ ،اگرچہ علی عثمان کے قتل میں شامل نہ تھے لیکن ان کے قاتلوں نے علی کے پاس پناہ لی اور انہوں نے نہ ان کے کام کو برا کہا اور نہ

ہی کہااور میں عثمان کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے توبہ کرلی تھی اور بعد میں قتل ہوئے۔(۱) عمرکے بیٹے کا معاویہ کے ساتھ اتنا ہی محبت سے پیش آنا کافی تھا اور اسی محبت کی وجہ سے اس کا دل جیت لیا اور اسے اپنے مقربین میں شامل کر لیا۔

_______________________________

(۱) واقعہ صفین : ص ۸۴،۸۲

۵۱۱

قاتلان عثمان کے کو سپرد کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا

معاویہ نے امام علیہ السلام کے خلاف جو لشکر جمع کیا اس کے لئے سب سے بڑا بہانہ یہ تھا کہ امام علیہ السلام عثمان کے قاتلوں کی حمایت کررہے ہیں۔

عثمان کے قتل کی علتیں تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکی ہیں یہاں پر جس چیز کا تذکرہ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہجوم کرنے والوں کی معاشرے میں شخصیت ایسی تھی کہ خود علی علیہ السلام ان لوگوں کو معاویہ کے حوالے نہیں کرسکتے تھے، یہ بات درست ہے کہ کچھ لوگوں نے عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا تھااور کچھ نے انہیں قتل کیا

تھا لیکن خلفاء کے اموی والیوں کے ظلم وستم کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں یہ گروہ اتنی اہمیت کا حمل ہوگیا تھا کہ ان کا معاویہ کے حوالے کرنا بہت بڑی مشکل کو دعوت دینا تھا، اس سلسلے میں ذیل کے واقعے پر توجہ فرمائیں۔

علی کے ساتھ جنگ کرنا آسان کام نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ یمن کا زاہد ابو مسلم خولانی جوکہ شام میں سکونت پذیر تھا، کو جب یہ خبر ملی کہ معاویہ علی کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو قاریوں کے گروہ کے ساتھ معاویہ کے پاس گیا اوراس سے پوچھا ،کیوں علی کے ساتھ جنگ کرنا چاہتے ہو جب کہ کسی بھی زاویہ سے تو ان کے برابر نہیں ہوسکتا؟ نہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ان کی جیسی مصاحبت تجھے نصیب ہے نہ تمہارے پاس سابقہ اسلام ہے، اور نہ ہی ہجرت اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خویشاوندی تمہیں حاصل ہے ، معاویہ نے ان لوگوں کے جواب میں کہامیں ہرگزاس بات کا دعویٰ نہیں کرتا کہ علی کی طرح میرے فضائل ہیں، لیکن میں تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ عثمان کا قتل بے گناہ ہوا ہے؟ ان لوگوں نے جواب دیا ہاں، پھر اس نے کہا علی عثمان کے قاتلوں کو میرے حوالے کردیں تاکہ میں ان سے عثمان کے خون کا بدلہ لوں ۔ ایسی صورت میں ہم ان سے جنگ نہیں کریں گے۔

۵۱۲

ابو مسلم اور اس کے ہمفکروں نے معاویہ سے درخواست کی کہ علی کے نام خط لکھے، معاویہ نے اس سلسلے میں خط لکھا اور ابومسلم کو دیا تاکہ وہ امام تک پہونچا دے ( ہم معاویہ کا خط اور امام علیہ السلام کا جواب بعد میں ذکر کریں گے)۔

ابو مسلم کوفہ میں داخل ہوا اور معاویہ کا خط علی علیہ السلام کے سپردکرکے کہا:

آپ نے ایسا کام اپنے ذمہ لیا ہے کہ خدا کی قسم مجھے ہرگز پسند نہیں کہ وہ آپ کے علاوہ کسی دوسرے کے ذمہ ہو لیکن عثمان جو ایک محترم مسلمان تھے بے گناہ مظلومیت کے ساتھ مارے گئے ان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کردیں آپ میرے پیشوا وحاکم ہیں اگر آپ کی کوئی مخالفت کرے گا تو ہمارے ہاتھ آپ کی مدد کریں گے اور ہماری زبانیں آپ کے لئے گواہی دیں گی اور اس صورت میں آپ پر کوئی ذمہ داری نہ ہوگی۔

امام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا صرف یہ فرمایا،کہ کل آنا اور اپنے خط کا جواب لے لینا دوسرے دن ابومسلم اپنے خط کا جواب لینے امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو دیکھا کہ بہت بڑا مجمع مسجد کو فہ میں ہے اور سب کے سب اسلحوں سے مسلح ہیں اور یہ نعرہ لگارہے ہیں ، ہم عثمان کے قاتل ہیں ابومسلم نے یہ منظر دیکھا اور امام علیہ السلام کی خدمت میں جواب کے لئے گیا اور امام سے کہا

میں نے ان لوگوں کو دیکھا کیا یہ آپ کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں ؟ امام نے کہا : تم نے کیا دیکھا؟ ابومسلم نے کہا: ایک گروہ تک یہ خبر پہونچی ہے کہ آپ عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کرنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سب جمع ہوگئے ہیں اور مسلح ہوگئے ہیں اور نعرہ لگارہے ہیں کہ سب کے سب عثمان کے قتل میں شریک ہیں، علی علیہ ا لسلام نے فرمایا:

۵۱۳

خدا کی قسم ! میں نے ایک لمحے کے لئے بھی یہ ارادہ نہیں کیا کہ ان لوگوں کوتمہارے حوالے کروں ،میں نے اس سلسلے میں بہت زیادہ تحقیق کی ہے اوراس نتیجے پر پہنچا کہ یہ صحیح نہیں ہے کہ ان لوگوں کو تمہارے یا تمہارے علاوہ کسی کے حوالے کروں۔(۱)

یہ واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اس زمانے میں عثمان کے قاتلین اہم حیثیت کے مالک تھے اور ان لوگوں کو کسی کے حوالے کرنا ایک عظیم خونی جنگ کو دعوت دینے کے برابر تھا۔

لوگوں کا یہ اجتماع ایک فطری امر تھا ورنہ امام علیہ السلام ابو مسلم خولانی کے سوال کا جواب دینے میں لاعلمی کا اظہا ر نہیں کرتے ، یہ ابومسلم کی سادگی تھی کہ اس نے بھرے مجمع میں اپنے آنے کا سبب بیان کردیا اور یہ خبر دھیرے دھیرے سب تک پہونچ گئی جس کی وجہ سے انقلابی لوگ جو خلیفہ سوم کے حاکموں کے ظلم وستم سے تنگ آگئے تھے اسی وجہ سے انہیں قتل کیا تھا، آپس میں متحد ہوگئے ،اور اگر امام علیہ السلام نے کہا کہ ہم نے اس مسئلے کی تحقیق کی ہے کہ کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے کہ ان لوگوں کو شامیوں یا کسی اور کے حوالے کریں تو وہ اسی وجہ سے تھا کہ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں فیصلہ کرنا تمام لوگوں کے اندر اشتعال کا باعث بن جاتا ۔

اس کے علاوہ قصاص (خون کا بدلہ ) کی درخواست کرنا مرنے والے کے ولی کا حق ہوتاہے اور وہ عثمان کے بیٹے تھے نہ کہ معاویہ ،جو اس کا بہت دور کا رشتہ دار تھا اس نے عثمان کے قتل کو حکومت تک پہنچنے کا ایک بہانہ بنایا تھا۔

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص۸۵،۸۶، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵اص ۷۵،۷۴

۵۱۴

چودہویں فصل

جنگ صفین کے لئے امام کی فوج کی آمادگی

نخلیہ میں امام کی فوج کی پیش قدمی

ابو سفیان کے بیٹے کی وقت برباد کرنے والی سیاست کا خاتمہ ہوا اور خط اور عظیم شخصیتوں کو روانہ کرکے وہ جس مقصدکو حاصل کرنا چاہتاتھا حاصل کرلیا، اس عرصے میں اس نے اپنی فوج کو خوب مضبوط کرلیااور اپنے جاسوسوں کو چاروں طرف روانہ کردیاتاکہ امام علیہ السلام کے بعض حاکموں کو دھوکہ دیں اور آپ کی فوج کے اندر پھوٹ ڈال دیں ۔امام علیہ السلام ۲۵ ذی الحجہ ۳۵ہجری کو رسول خدا (ص)کی طرف سے منصوص خلافت کے علاوہ ظاہری خلافت پر بھی فائز ہوئے(۱) اور تمام مہاجرین و انصار نے آپ کے ہاتھ پر بعنوان خلیفہ مسلمین بیعت کی، آپ نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی سبرہ جہمی نامی قاصد کے ہمراہ معاویہ کو خط بھیجا کہ وہ مرکزی حکومت کی اطاعت کرے لیکن اس نے سوائے خود خواہی،خود غرضی،ڈرانے دھمکانے، رعب و دبدبہ، خطوط کے روانہ کرنے اور تہمت لگانے اور قاصد کو بھیجنے اور حضرت علی علیہ السلام کو معطل کرنے کے کچھ نہیں کیا اب وہ وقت آچکا تھا کہ امام علیہ السلام ابو مسلم خولانی کے توسط سے آئے ہوئے خط کا جواب دے کر جنگ کریں اوراس شجرۂ خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں، اسی وجہ سے آپ نے شوال ۳۶ء کے اوائل میں فوج روانہ کرنے کا ارادہ کیااور اس کے پہلے مہاجرین وانصار کو بلایا اور اس آیت کے حکم کے مطابق'' وشاورھم فی الأمر' ' ان کے بزرگوں سے جو آپ کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے اور آپ کے ہمراہ تھے اس طرح فرمایا :

''انکم میامین الرّأی، مراجیح الحلم، مقاویل بالحق، مبارکو الفعل والأمرِ، وقدأردنا المسیر اِلیٰ عَدوِّنا وَعدوِّ کم فأ شیروالیناٰ برأیکم'' (۲)

تم لوگ بہترین رائے و مشورہ کرنے والے، بردبار و حلیم، حق کہنے والے،اور ہمارے معاشرے

_______________________________

(۱) تاریخ طبری ج۴ص۴۵۷۔تاریخ یعقوبی.ج۲ص۱۷۸ مطبوعہ بیروت.

(۲)۔ وقعہ صفین ص ۹۲

۵۱۵

کے بہترین و صاحب کردار ہو، ہم لوگ اپنے اور تمھارے دشمن کی طرف بڑھناچاہتے ہیں تم لوگ اس سلسلے میں اپنا نظریہ بیان کرو۔

مہاجرین کے گروہ میں سے ہاشم بن عتبہ بن ابی وقّاص اٹھا اور کہنے لگا:

اے امیرالمومنین ، ہم لوگ ابوسفیان کے خاندان کو بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں وہ آپ اور آپ کے شیعوں کے دشمن اور دنیا پرستوں کے دوست ہیں، اور حصول دنیا کے لئے اپنی پوری قوت و طاقت کے ساتھ اس سے آپ کے خلاف آپ سے جنگ کریں گے اس سلسلے میں وہ کسی بھی چیز سے دریغ نہیں کریں گے اس کے علاوہ ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہے ۔ ان لوگوں نے سیدھے سادھے لوگوں کو بہکانے کے لئے عثمان کے خون کا بہانہ بنایا ہے۔ وہ لوگ جھوٹے ہیں اور اس کے خون کا بدلہ نہیں لینا چاہتے تھے بلکہ وہ دنیا چاہتے تھے ہم لوگوں کو اجازت دیں کہ ان کے مقابلے کے لئے جائیں اور اگر ان لوگوں نے حق کی باتیں مان لیں توکوئی بات نہیں ، لیکن اگر تفرقہ اور جنگ کرنے کے خواہاں ہوئے اور میرا گمان بھی یہی ہے کہ وہ لوگ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں چاہتے تو ہمیں چاہیے کہ ان کے ساتھ جنگ کریں۔اس وقت مہاجرین میں سے ایک اور عظیم شخصیت اٹھی جس کے بارے میں پیغمبر نے فرمایا ہے''عمار مع الحقِّ والحقّ مع عّمار یدورمعه حیث مادار'' (۱)

اے امیر المومنین : اگر ممکن ہوتو ایک دن بھی دیر نہ کریں ہم لوگوں کو ان کی طرف روانہ کریںاور قبل اس کے کہ وہ فاسد لوگ جنگ کی آگ روشن کریں اور مقابلہ کرنے کی تیاری اور حق سے جدائی کا ارادہ کریں، ان لوگوں کو جس میں ان کے لئے سعادت ہے ا سکی طرف دعوت دیں اگر ان لوگوں نے قبول کرلیا تو ٹھیک ہے اور اگر مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ ہوئے تو ان کے ساتھ جنگ کریں خدا کی قسم ان لوگوں کا خون بہانااور ان لوگوں کے ساتھ جہاد کرنا خداکا قرب اور اس کی طرف سے ہمارے لئے لطف وکرم ہے۔

مہاجرین کے ان دو اہم افراد کی تقریر نے کچھ حد تک زمینہ فراہم کیا۔ اب وقت تھاکہ انصار کی طرف سے بھی عظیم شخصیتیں اس سلسلے میں اپنا نظریہ پیش کریں ۔ اس وقت قیس بن سعد بن عبادہ نے کہا : ہمیں جلد سے جلد دشمن کی طرف روانہ کریں خدا کی قسم، ہمارے لئے ان کے ساتھ جنگ کرنا روم کے

_______________________________

(۱)طبقات ابن سعد ،ج،۳۔ص ۱۸۷ (مطبوعہ لیدن)

۵۱۶

ساتھ جہاد کرنے سے بہتر ہے، کیونکہ یہ لوگ اپنے دین میں مکروفریب کررہے ہیں اور خدا کے اولیائ(مہاجرین وانصار ) اور وہ لوگ جوان کے ساتھ نیکی کرتے ہیں انہیں ذلیل و خوار سمجھتے ہیں وہ لوگ ہمارے مال کو حلال اور ہمیں اپنا غلام سمجھتے ہیں ۔

جب قیس کی گفتگو ختم ہوئی تو خزیمہ بن ثابت اور ابو ایوب انصاری اس کے جلد بازی کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بہتر تھا کہ تھوڑا صبر کرتے تاکہ تم سے بزرگ لوگ اپنا نظریہ پیش کرتے ، اس وقت انصار کے سرداروں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا تم لوگ اٹھو اور امام علیہ السلام کے سامنے اپنے نظریہ کا اظہار کرو،

سہل بن حنیف ،جو انصار کی عظیم شخصیت تھی اس نے کہا:اے امیر المومنین : ہم آپ کے اور آپ کے دوستوں کے دوست اور آپ کے دشمنوں کے دشمن ہیں ، ہمارا نظریہ آپ کا نظریہ ہے ہم لوگ آپ کا داہنا بازو ہیں، لیکن ضروری ہے کہ یہ کام کوفہ کے لوگوں کے لئے انجام دیجئے اور ان لوگوں کو جنگ کرنے کی دعوت دیجئیے اور جو فضیلتیں انہیں نصیب ہوئی ہیں ان سے انہیں باخبر کیجئے چاہے وہ لوگ اس سرزمین اوریہاں کے لوگ سمجھے جائیں ، اگر وہ لوگ آپ کی آواز پر لبیک کہیں تو آپ کا مقصد پورا ہوجائے گا، ہم لوگ ذرہ برابر بھی آپ کے نظریہ کے خلاف نہیں ہیں آپ جب بھی ہمیں بلائیں گے ہم حاضر ہوں گے اور جب بھی کوئی حکم دیں گے اس پر عمل کریں گے۔(۱)

سہل کی گفتگو اس کے کامل العقل ہونے کی حکایت کرتی ہے، کیونکہ اگرچہ مہاجرین و انصار امام علیہ السلام کے ہمرکاب تھے اور اسلامی امت کی عظیم شخصیت شمار ہوتے تھے اوران لوگوں کا اتحاد معاشرہ کی بیداری میں بہترین اثر رکھتا تھا لیکن فی الحال امام علیہ السلام کا لشکر عراقی افراد نے تشکیل دیا تھا اور ان کے درمیان قبیلوں کے بزرگ تھے بغیر ان کے اعلان کئے ایک لاکھ کا لشکر جمع کرنا ممکن نہ تھا لیکن امام علیہ السلام نے سب سے پہلے مہاجرین و انصار سے کیوں مشورہ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ امام علیہ السلام کی حکومت کے بانی اور تمام مسلمانوں کی توجہ کا مرکز تھے اور بغیر ان کو اپنائے ہوئے عراقیوں کو اپنی طرف مائل کرنا ممکن نہ تھا۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۹۳،۹۲

۵۱۷

امام علیہ السلام کی تقریر

امام علیہ السلام نے سہل کے مشورہ کے بعداپنے خصوصی مشاورتی جلسہ کو ایک عظیم اجتماع میں تبدیل کردیا۔ اس عظیم اجتماع میں اکثر افراد شریک تھے منبر پر تشریف لے گئے اور با آواز بلند فرمایا:

''سیروا اِ لیٰ اعدائِ اللّه ، سیروا اِلیٰ اعدائِ السنن والقرآن، سیروا اِلیٰ بقیة الاحزاب، قتلةِ المهاجرین والانصار''

خدا کے دشمنوں کی طرف حرکت کرو ، قرآن اور پیغمبر کی سنتوں کے دشمنوں کی طرف حرکت کرو اور، بقیہ بچے ہوئے (احزاب) اور مہاجرین و انصار کے قاتلوں کی طرف حرکت کرو۔

اس وقت قبیلہ بنی فزار کے اربد نامی شخص نے اٹھ کر کہا:

آپ چاہتے ہیںکہ ہم لوگوں کو شام روانہ کریں تاکہ اپنے بھائیوں کے ساتھ جنگ کریں جس طرح بصرہ بھیجا تھا اور ہم نے اپنے بصری بھائیوں کے ساتھ جنگ کی؟ نہیں ، خدا کی قسم ہم ایسا کام انجام نہیں دیں گے۔

اس وقت مالک اشتر کھڑے ہوئے اور پوچھا یہ کون شخص ہے؟ جیسے ہی مالک اشتر کے منہ سے یہ جملہ نکلا سب کے سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور وہ لوگوں کے حملہ کے خوف سے فرار ہوگیا اور مال بیچنے والوں کے بازار میں پناہ لے لی اور لوگ طوفان کی طرح اس کا پیچھا کرنے لگے اور اسے تلوار کے غلاف، ہاتھ پیر سے اتنا مارا کہ وہ مرگیا، جب اس کی موت کی خبر امام علیہ السلام کو ملی تو آپ بہت ناراض ہوئے کیونکہ اس کی گستاخی کی سزا یہ نہیں تھی کہ اسے اس طرح قتل کردیا جائے ، اسلامی عدالت کا تقاضا یہ تھا کہ اس کے قاتل کے بارے میں تحقیق وجستجو کی جائے اور اس تحقیق کا نتیجہ یہ معلوم ہوا کہ وہ '' ہمدان'' قبیلہ اور کچھ لوگوں کے ذریعہ قتل ہوا ہے اور اس کا کوئی ایک قاتل نہیں ہے امام علیہ السلام نے فرمایا : یہ اندھا قتل ہے کہ اس کے قاتل کی خبر نہیں ہے لہٰذا اس کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے اور آپ نے ایسا ہی کیا۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعہ صفین۔ص۹۵،۹۴

۵۱۸

مالک اشتر کی تقریر

یہ غیر متوقع واقعہ امام علیہ السلام کی ناراضگی کا سبب بنا اگرچہ آپ نے حکم دیا کہ اس کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے مگر آپ کے چہرے پر ناراضگی کے اثرات نمایاں تھے، اسی وجہ سے امام علیہ السلام کے دلعزیز اور چاہنے والے مالک اشتر اٹھے اور خدا کی حمد وثناء کے بعد کہا:

اس واقعہ سے آپ پریشان نہ ہوں، اس بد بخت خیانت کارکی گفتگو آپ کو مدد و نصرت کرنے والوں سے مایوس نہ کرے، یہ سیلاب کی طرح امڈتا ہوا مجمع جو آپ دیکھ رہے ہیں سب کے سب آپ کے پیرو ہیں اور آپ کے علاوہ کسی اور چیز کو نہیں چاہتے اورآپ کے بعد زندہ نہیں رہنا چاہتے اگر ہمیں دشمنوں کی طرف بھیجنا چاہتے ہیں تو بھیج دیجیئے خدا کی قسم اگر کوئی شخص موت سے ڈرتا ہے تو اس سے نجات حاصل نہیں کرسکتا اور جو شخص زندگی چاہتا ہے اسے نہیں دی جائے گی اور ان لوگوں کے ساتھ بدبخت اور شقی شخص کے علاوہ کوئی دوسرا زندگی گزارنا نہیں چاہتا اور ہم لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک موت کی آغوش میں نہیں جاسکتا جب تک کہ اس کی موت کا وقت نہ آچکا ہو، کس طرح سے ہم ان لوگوں سے جنگ نہ کریں جنہیں آپ نے خدا اور قرآن اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دشمن اور مہاجرین وانصار کے قاتل کے طور پر بتایاہے؟ کل انہیں میں سے کچھ لوگوںنے (بصرہ میں ) مسلمانوں کے کچھ گروہ پر حملہ کر کے خدا کو غضبناک کیا تھا اور زمین ان کے برے کاموں کی وجہ سے تاریک ہوگئی تھی ان لوگوں نے اپنے آخرت کے حصے کو اس دنیا کے تھوڑے سے مال ودولت کے لئے بیچ دیا ، امام علیہ السلام مالک اشتر کی تقریر سننے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا:

'' الطریق مشترک والناسُ فی الحقِّ سوائ ومن ِ اجتهدَ رأیُهُ فی نصیحة العامّة ِ فله مانویٰ وقد قضیٰ ما علیه ''

یہ راستہ ، عمومی راستہ ہے او ر لوگ حق کے مقابلے میں برابر ہیں اور وہ شخص جو خود اپنی نظر ورائے سے معاشرے کے لئے اچھائی کرے تو خدا اس کی نیت کے مطابق اسے جزا دے گا اور وہ کام جو '' فزاری'' نے انجام دیا وہ ختم ہوگیا ۔(۱)

آپ اتنا کہہ کر منبر سے نیچے تشریف لائے اور اپنے گھر واپس چلے گئے۔

_______________________________

(۱) وقعہ صفین۔ص۹۵

۵۱۹

امام کے لشکر میں معاویہ کے نفوذ کے عوامل

فوجیوں اور لشکریوں کے اندراپنا اثرورسوخ پیدا کرنا،گروہ مخالف کے کمانڈروں کو درہم و دینار کے ذریعے خریدنا، بڑی طاقتوںکی بڑی پرانی روشن رہی ہے ابو سفیان کا بیٹا اس فن میں ایک نابغہ اور ماہر تھا۔

ایک گروہ کی نظر میں سیاست کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی بھی صورت سے چاہے وہ شرعی اعتبار سے ہو یا غیر شرعی لحاظ سے اپنے مقصد تک پہونچ جائے اور ان لوگوں کا فلسفہ یہ ہے کہ مقصد اور ہدف ایک توجیہی وسیلہ ہے سادہ لوح افراد جن لوگوں نے معاویہ کی ظاہری کامیابی کو علی علیہ السلام سے زیادہ سمجھی تھی ان لوگوں نے امام علیہ السلام پر الزام لگایا کہ وہ سیاست کے رموز و اسرار سے واقف نہیں ہیں اور معاویہ ان سے زیادہ سیاسی سوج بوج رکھتا ہے اسی وجہ سے امام علیہ السلام اسلامی سیاست کے تمام اصول و قوانین سے بے بہرہ تنقید کرنے والوں کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :

'' واللّهِ ما معاویةُ بأدهیٰ منّی ولکنّه یغدرُ ویفجرُ ولولا کراهیةُ الغدر لکنتُ من أدهیٰ الناس ولکنَّ کلَّ غدرِةٍ فجرة وکلَّ فجرةٍ ضلالة ولکلِ غادِرٍ لوائُ یعرفُ به یوم القیامة'' (۱)

''خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ سیاست مدار نہیں ہے لیکن وہ دھوکہ کرتاہے اور گناہ کرتاہے اور اگر دھوکہ بازی اور حیلہ گری میں کراہت نہ ہوتی تومیں لوگوں میں سب سے زیادہ سیاست مدار ہوتا، لیکن ہر طرح کی چالبازی اور فریب گناہ ہے اور ہرگناہ ایک قسم کا کفر ہے اور قیامت کے دن ہر دھوکہ باز کے ہاتھ میں ایک مخصوص قسم کا پرچم ہوگا جس کے ذریعہ سے وہ پہچان لیا جائے گا''۔

اس بنا پر کہ ہماری گفتگو دلیل یا شاہد سے خالی نہ ہو معاویہ کی چالبازیوں اور مکاریوں کے چند نمونوں کو یہاں پر بیان کررہے ہیں جن کے ذریعہ سے اس نے امام علیہ السلام کی فوج میں نفوذ پیدا کیا تھا ۔

معاویہ کے خلاف جنگ کرنے کے سلسلے میں جو امام علیہ السلام کی تقریر کا اثر ہوا اس کی توصیف ممکن

_______________________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۹۵

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809