فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)9%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362167 / ڈاؤنلوڈ: 6021
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

معاویہ چاہتا تھا کہ توحید اور وحدانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے راہ توحید کے بزرگ جانثار، کہ جس کی قربانیوں اور فداکاریوں کے صدقے میں توحید کے درخت نے لوگوں کے دلوں میں وحدانیت کی بنیاد رکھی اور اس کے اثرات مرتب ہوگئے ،ایسی شخصیت پر تنقید کرے اور اسے برا او رناسزا کہے،.

سعدوقاص باطنی طور پر امام کے دشمنوں میں سے تھا اور آپ کے معنوی مقامات اور ظاہری افتخارات سے حسد کرتا تھا۔ جس دن عثمان مصریوں کے ہجوم کی وجہ سے قتل ہوئے سب لوگوںنے تہہ دل سے امیر المومنین کو خلافت اور زعامت کے لئے انتخاب کیا. سوائے چند افراد کے جنھوں نے آپ کی بیعت کرنے سے انکار کردیا تھاکہ سعد وقاص بھی انھیں میں سے ایک تھا.جب عمار نے اسے حضرت علی کی بیعت کے لئے دعوت دی تو اس نے بہت خراب جواب دیا.عمار نے اس واقعے کو ا مام کی خدمت میں عرض کیا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: حسد نے اس کو میری بیعت اور میرا ساتھ دینے سے روک دیا ہے۔

سعد ،امام علیہ السلام کا اتنا سخت مخالف تھا کہ ایک دن خلیفۂ دوم نے شورائے خلافت تشکیل دینے کا حکم دیا اور شوری کے چھ آدمیوں کا خود انتخاب کیا اور سعد وقاص او ر عبد الرحمن بن عوف، سعد کا چچازاد بھائی اور عثمان کا بہنوئی، کو شوری کے عہدہ داروں میں قرار دیا. شوری کے علاوہ دوسرے افراد نے بڑی باریک بینی سے کہا کہ عمر، شوری تشکیل دیکر کہ جس میں سعد و عبد الرحمن جیسے افراد بھی شامل ہیں ، چاہتا ہے کہ تیسری مرتبہ خلافت کو حضرت علی کے ہاتھوں سے چھین لے اور آخر میں نتیجہ بھی یہی ہواکہ جس کی پیشنگوئی ہوئی تھی۔

سعد نے ،امام علیہ السلام سے عداوت و دشمنی رکھنے کے باوجود جب دیکھا کہ معاویہ، علی ـ کو برے اور نازیبا الفاظ سے یاد کر رہا ہے تو تلملا اٹھا اور معاویہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

مجھے اپنے تخت پر بٹھاکر میرے سامنے علی کو برا کہتا ہے ؟ خدا کی قسم اگر ان تین فضیلتوں میں سے جو علی کے پاس تھیں ایک بھی فضیلت میرے پاس ہوتی تواس سے بہتر ہوتی کہ وہ ساری چیزیں جن پر سورج کی کرنیں پڑتی ہیں میری ملکیت میں ہوتیں ۔

۱۔ جس دن پیغمبر نے مدینے میں اسے اپنا جانشین بنایا اور خود جنگ تبوک پرچلے گئے اور علی سے اس طرح فرمایا: تمہاری نسبت مجھ سے ایسی ہی ہے جیسے ہارون کو موسی سے تھی سوائے اس کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

۱۰۱

۲۔ جس دن نصارائے نجران کے ساتھ مباہلہ تھا تو پیغمبر نے علی ، فاطمہ، حسن و حسین کا ہاتھ پکڑا اور کہا: پروردگارا یہی میرے اہلبیت ہیں۔

۳۔ جس دن مسلمانوں نے یہودیوں کے اہم ترین قلعہ خیبر کے بعض حصوں کو فتح کیا تھا لیکن قلعہ ''قموص'' جو سب سے بڑا قلعہ اور یہودیوں کا سب سے بڑا مرکز تھا آٹھ دن تک اسلامی فوج کے محاصرے میں تھا اور اسلام کے مجاہدین میں اسے فتح کرنے اور کھولنے کی صلاحیت نہ تھی، اور رسول اسلام کے سر میں اتنا شدید درد تھا کہ وہ بہ نفس نفیس جنگ میں حاضر نہیں ہوسکتے تھے تاکہ فوج کی سپہ سالاری اپنے ہاتھوں میں لیتے، روزانہ آپ عَلَم کو لیتے اور فوج کے بزرگوں کو دیتے تھے اور وہ سب کے سب بغیر نتیجہ کے واپس آجاتے تھے .ایک دن عَلَم کو ابوبکر کے ہاتھ میںدیا پھر دوسرے دن عمر کو دیا لیکن دونوں کسی شجاعت کا مظاہرہ کئے بغیر رسول خدا کی خدمت میں واپس آگئے. اسی طرح سلسلہ چلتا رہا ،اس طرح کی ناکامی پیغمبر خدا کے لئے بہت سخت تھی، لہٰذا آپ نے فرمایا:

''کل میں علم ایسے شخص کودوں گا جو ہرگز جنگ کرنے سے فرار نہیں کرے گا اوردشمن کو اپنی پیٹھ نہیں دکھائے گا اور اس کو خدا اور رسول خدا دوست رکھتے ہوںگے اور خداوند عالم اس قلعہ کو اس کے ہاتھوں سے فتح کرائے گا''

۱۰۲

جب پیغمبر کی بات کو حضرت علی سے نقل کیا گیا تو آپ نے خدا کی بارگاہ میں عرض کیا''اَلَلَّهُمَّ لٰامُعْطِیْ لِمٰا مَنَعْتَ وَ لٰامٰانِعَ لِمٰا اَعْطَیْتَ'' یعنی پروردگارا، جو کچھ عطاکرے گا اسے کوئی لینے والا نہیں ہے اور جو کچھ تو نہیں دے گا اس کا دینے والا کوئی نہ ہوگا۔

(سعد کا بیان ہے) جب سورج نکلا تو اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کے خیمے کے اطراف میں جمع ہوگئے تاکہ دیکھیں کہ یہ افتخار رسول کے کس صحابی کو نصیب ہوتا ہے جب پیغمبر خیمے سے باہر آئے سب سر اٹھا اٹھا کر ان کی طرف دیکھنے لگے میں (سعد)پیغمبر کے بغل میں کھڑا تھا کہ شاید ا س افتخار کا مصداق میں بن جاؤں، اور شیخین سب سے زیادہ خواہشمند تھے کہ یہ افتخار ان کو نصیب ہوجائے .اسی اثناء میںپیغمبر نے پوچھا علی کہاں ہیں؟ لوگوں نے حضرت سے کہا: وہ آشوب چشم کی وجہ سے آرام کر رہے ہیں. پیغمبر کے حکم سے سلمہ بن اکوع حضرت علی کے خیمے میں گئے اور ان کے ہاتھ کو پکڑکر پیغمبر کی خدمت میں لائے. پیغمبر نے ان کے حق میں دعا کی اور آپ کی دعا ان کے حق میں مستجاب ہوئی اس وقت پیغمبر نے اپنی زرہ حضرت علی کو پہنایا،ذو الفقار ان کی کمر میں باندھا اور علم ان کے ہاتھوںمیں دیااور فرمایا کہ جنگ کرنے سے پہلے اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا، اور اگر یہ قبول نہ کریں تو ان تک یہ پیغام دینا کہ اگر وہ چاہیں تو اسلام کے پرچم تلے جز یہ دیں اور اسلحہ اتار کر آزادانہ زندگی بسر کریں. اور اپنے مذہب پر باقی رہیں. اور اگر کسی چیز کو قبول نہ کریں تو پھر ان سے جنگ کرنا ،اور جان لو کہ جب بھی خداوند عالم تمہارے ذریعے کسی کی راہنمایی کرے اس سے بہتر یہ ہے کہ سرخ بالوں والے اونٹ تمہارا مال ہوں او رانھیں خدا کی راہ میں خرچ کردو۔(۱)

سعد بن وقاص نے ان واقعات کو جن کو میں نے تفصیل سے بیان کیا ہے مختصر طور پر بیان کیا اور احتجاج کے طور پر معاویہ کی مجلس ترک کری۔

______________________

(۱) صحیح بخاری ج۵ ص ۲۳۔ ۲۲، صحیح مسلم ج۷ ص ۱۲۰، تاریخ الخمیس ج۲ ص ۹۵، قاموس الرجال ج۴ ص ۳۱۴منقول از مروج الذہب

۱۰۳

خیبر میں اسلام کی تابناک کامیابی

اس مرتبہ بھی مسلمانوں نے حضرت امیر المومنین کی جانثاریوں کے طفیل عظیم الشان کامیابی و فتح حاصل کرلیا. یہی وجہ ہے کہ امام کو ''فاتح خیبر'' کہتے ہیں. جب امام ایک گروہ کے ساتھ جو آپ کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا قلعہ کے پاس پہونچے تو آپ نے علم کو زمین (پتھر) میں نصب کردیا، اس وقت قلعہ میں موجود تمام سپاہی باہر چلے گئے. مرحب کا بھائی حارث نعرہ لگاتا ہوا حضرت علی کی طرف دوڑا اس کا نعرہ اتنا شدید تھا کہ جو سپاہی حضرت علی کے ہمراہ تھے وہ پیچھے ہٹ گئے او رحارث نے بھوکے شیر کی طرح حضرت علی پر حملہ کیا لیکن کچھ ہی دیر گزری ہو گی کہ اس کا بے جان جسم زمین پر گرپڑا۔

بھائی کی موت نے مرحب کو بہت زیادہ متاثر کیا، وہ اپنے بھائی کا بدلہ لینے کے لئے حضرت علی کے سامنے میدان میں آیا، وہ اسلحوں سے لیس تھا. لوہے کی بہترین زرہ اور پتھر کاخود اپنے سر پر رکھے تھا اورایک اور خود اس کے اوپر سے پہن رکھا تھا، دونوں طرف سے رجز پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا. اسلام و یہودی کے دو بہادروں کی تلوار اور نیزے کی آواز نے دیکھنے والوں کے دلوں میں عجیب وحشت ڈال رکھی تھی اچانک اسلام کے جانباز کی برق شرر بار تلوار مرحب کے سر سے داخل ہوئی اور اس کو دو ٹکڑے کرتے

ہوئے زمین پر گرادیا. یہودی بہادرکا جو مرحب کے پیچھے کھڑے تھا وہ بھاگ گیا اور وہ گروہ جو حضرت علی سے مقابلہ کرنا چاہتا تھا ان لوگوںنے فرداً فرداً جنگ کیا اور سب کے سب ذلت کے ساتھ قتل ہوگئے۔

اب وہ وقت آپہونچا کہ امام قلعہ میں داخل ہوں مگر بند در وازہ امام اور سپاہیوں کے لئے مانع ہوا غیبی طاقت سے آپ نے باب خیبر کو اپنی جگہ سے اکھاڑا اور سپاہیوں کے داخل ہونے کے لئے راستہ ہموار کردیااور اس طرح سے فساد و بربریت کے آخری گھرکو اجاڑ دیا اور مسلمانوں کو اس شر یر اور خطرناک عناصر جو ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے دل میں رکھتے یا رکھے ہیں آسودہ کردیا۔(۱)

______________________

(۱) محدثین اور سیرت لکھنے والوں نے فتح خیبر کی خصوصیات اور امام کے قلعہ میں داخل ہونے اور اس واقعہ کے دوسرے حادثات کو بہت تفصیل سے لکھا ہے دلچسپی اور تفصیلات کے خواہشمند افرادان کتابوں کی طرح مراجعہ کریں جو سیرت پیغمبر پر لکھی گئی ہیں۔

۱۰۴

امیر المومنین ـ کی رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نسبت

ابھی ہم نے حضرت علی کی تین فضیلتوں میں سے ایک فضیلت جو سعد بن وقاص نے معاویہ کے سامنے بیان کی تھی کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے، اس لئے بہتر ہے کہ باقی ان دو فضیلتوں کو بھی بطور خلاصہ بیان کردیں۔

تمام افتخارات میں سے ایک افتخار امام کے لئے یہ بھی ہے کہ تمام جنگوں میں آپ پیغمبر کے ساتھ ساتھ اور ہمیشہ لشکر کے علمبردار رہے سوائے جنگ تبوک کے ، کیونکہ آپ پیغمبر کے حکم سے مدینہ میں موجودتھے اور پیغمبر اسلام منافقوں کے ارادے سے باخبر تھے کہ میرے مدینے سے نکلنے کے بعد یہ لوگ مدینہ پر حملہ کریں گے .اسی وجہ سے آپ نے حضرت علی سے فرمایا: تم میرے اہلبیت اور رشتہ داروں اور گروہ مہاجرین کے سرپرست ہو. او رمیرے اور تمہارے علاوہ اس کام کے لئے کوئی دوسرا لیاقت نہیں رکھتا۔

حضرت علی کے مدینے میں قیام کی وجہ سے منافقوں کے ارادوں پر پانی پھر گیا، لہٰذا منافقوں نے ہر جگہ یہ افواہ اڑا دی کہ پیغمبراور حضرت علی کے درمیان کشیدگی ہے اور حضرت علی نے راستے کی دوری اور شدید گرمی کی وجہ سے خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے دوری اختیار کرلی ہے۔

ابھی پیغمبر مدینے سے زیادہ دور نہیں ہوئے تھے کہ یہ خبر پورے مدینہ میں پھیل گئی، امام علی ـ

ان کی تہمت کا جواب دینے کے لئے پیغمبر کی خدمت میں پہونچے اور حضرت سے پورا ماجرا بیا ن کیا. پیغمبر نے اپنے اس تاریخی جملے(کہ جس کی سعد بن وقاص نے خواہش کی تھی کہ کاش اس کے بارے میں کہا جاتا) سے حضرت کو تسلی دی اور فرمایا:

۱۰۵

''اما ترضی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسیٰ الا انه لا نبی بعدی''

کیا تم راضی نہیں ہو کہ تمہاری نسبت مجھ سے ایسے ہی ہے جیسے ہارون کی نسبت موسی سے تھی؟ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(۱)

اس حدیث ، جسے دانشمندوں کی اصطلاح میں، حدیث ''منزلت'' کہتے ہیں،نے تمام وہ منصب جو ہارون کے پاس تھے حضرت علی کے لئے ثابت کردیا سوائے نبوت کے کیونکہ نبوت کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔

یہ حدیث اسلام کی متواتر حدیثوں میں سے ایک ہے جسے محدثین اور مؤرخین نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے:۔

حضرت علی کی تیسری عظیم فضیلت جسے سعد بن وقاص نے بیان کیا ہے وہ پیغمبر کا نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ تھا، ان لوگوں نے پیغمبر سے مسیحیت کے باطل عقیدوں کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد بھی اسلام قبول نہیں کیا لیکن مباہلہ کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کردیا۔

مباہلہ کا وقت آیا پیغمبر نے اپنے اعزاء میں سے صرف چار آدمیوں کا انتخاب کیا تاکہ اس تاریخی واقعے میں شرکت کریں اور یہ چار افراد سوائے حضرت علی اور آپ کی بیٹی فاطمہ اور حسن و حسین کے کوئی اور نہ تھا. کیونکہ تمام مسلمانوں کے درمیان ان سے زیادہ کوئی پاک و پاکیزہ اورایمان میں محکم نہیں تھا۔

پیغمبر اسلام میدان مباہلہ میں عجب شان سے آئے اپنی آغوش میں امام حسین کو لئے ہوئے تھے، ایک ہاتھ سے امام حسن کی انگلیاں پکڑے تھے اور فاطمہ اور حضرت علی آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے وہاںپہونچنے سے پہلے اپنے ہمراہیوں سے کہا میں جب بھی دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا۔

______________________

(۱) سیرۂ ابن ہشام ج۲ ص ۵۲۰، بحارالانوار ج۲۱ ص ۲۰۷، مرحوم شرف الدین نے اپنی کتاب ''المراجعات'' میں اس حدیث کے تمام ماخذ کو ذکر کیا ہے۔

۱۰۶

پیغمبر کا نوارانی چہرہ اور چار افراد کا چہرہ جن میںتین آپ کے شجرہ مقدس کی شاخیں تھیں، نے ایسا ولولہ پیدا کردیا کہ نجران کے عیسائی مبہوت ہوگئے عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری نے کہا کہ میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگریہ بددعا کردیں تو یہ بیابان بھڑکتے ہوئے جہنم میں تبدیل ہو جائے اور یہ عذاب وادی نجران تک پہنچ جائے لہٰذا انھوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کردیااور جزیہ دینے پر راضی ہوگئے۔

عائشہ کہتی ہیں:

مباہلہ کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چار ہمراہیوں کواپنی کالی عبا کے دامن میں چھپایا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( اِنَّمٰا یُرِیْدُاللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْراً )

زمخشری کہتے ہیں:

مباہلہ کا واقعہ اور اس آیت کا مفہوم یہ دونوں اصحاب کساء کی فضیلت پر بہت بڑے گواہ ہیں اور مذہب اسلام کی حقانیت پر ایک اہم سند اور زندہ مثال شمار ہوتے ہیں۔(۱)

______________________

(۱) کشاف ج۱ ص ۲۸۲۔ ۲۸۳، تفسیر امام رازی ج۲ ص ۴۷۱۔ ۴۷۲

۱۰۷

آٹھویں فصل

دشمنوں کے ساتھ انصاف سے پیش آنا

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے ہیں :'' علی ـ احکام خداوندی کے جاری کرنے میں بہت زیادہ غور و فکر اور سختی سے عمل کرتے تھے اور ہرگز ان کی زندگی میں چاپلوسی اور خوشامدی کا دخل نہیں تھا''

جو لوگ اپنی زندگی میں پاکیزہ مقصد کی تلاش میں رہتے ہیںوہ دن رات اس کی تلاش و جستجو کرتے رہتے ہیں، اور ان چیزوں کے مقابلے میں جو ان کے ہدف کی مخالف ہوں ان سے بے توجہ بھی نہیں رہتے ہیں. یہ لوگ ہدف تک پہونچنے میں جو راستہ طے کرتے ہیں اس میں بعض محبت و الفت کرنے والے ملتے ہیں تو بعض عداوت و دشمنی کرتے ہیں. پاک دل ا ور روشن ضمیر ان کی عدالت پختہ گیری پر فریفتہ ہوئے ہیں لیکن غافل اورغیر متدین افراد ان کی سختی اور عدالت سے ناراض ہوتے ہیں۔

وہ لوگ جو اچھے اور برے کام انجام دیتے ہیں اور مسلمان اور غیر مسلمان کوایک ہی صف میں رکھتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ کسی کی مخالفت مول لیں ایسے لوگ کبھی مذہبی اور بامقصد نہیں ہوسکتے کیونکہ تمام طبقوں کے ساتھ اتحاد و دوستی، منافقت اور دو رخی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت کے زمانے میں ایک شخص نے اپنے علاقہ کے حاکم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ تمام طبقے کے لوگ اس سے راضی ہیں. امام نے فرمایا: لگتا ہے کہ وہ شخص عادل نہیں ہے کیونکہ تمام لوگوں کا راضی ہونا اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ وہ منافق اور صحیح فیصلہ کرنے والا نہیں ہے ورنہ تمام لوگ اس سے راضی نہ ہوتے۔

امیر المومنین علیہ السلام ان لوگوں میں سے ان ہیں جو صلح و آشتی کرنے والوں سے مہر و محبت اور پاکیزہ و صاف دلوں کو بلندی عطا کرتے تھے اوراسی کے مقابلے میں غیظ و غضب کی آگ میں جلنے والوں اور قانون توڑنے والوںکو انھیں کے سینے میں ڈال دیاکرتے تھے۔

۱۰۸

امام عدالت کی رعایت اور کا اصول و قوانین پر سختی سے عمل کرنا صرف آپ کی حکومت کے زمانے سے مخصوص نہیں ہے اگرچہ بہت سے مؤرخین اور مقررین جب امام کی پاکیزگی اور عدالت کے متعلق گفتگو کرتے ہیںتو اکثر آپ کی حکومت کے دوران رونماہونے والے واقعات پر بھروسہ کرتے ہیں .کیونکہ آپ کی حکومت کے زمانے میں یہ عظیم انسانی فضیلت بہت زیادہ رائج تھی، مگر امام کا عدالت و انصاف اور قوانین پر سختی سے عمل پیرا ہونا رسول اسلام کے زمانے سے ہی ہر خاص و عام کی زبان پر تھا، اس بنا پر وہ لوگ جو امام کی عدالت و انصاف کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے گاہے بہ گاہے پیغمبر سے حضرت علی کی شکایت کرتے تھے اور ہمیشہ پیغمبر اس کے برعکس کہتے تھے اورکہتے تھے علی قانون الہی کے اجراء میں کسی کی رعایت نہیں کرتا.

زمانہ پیغمبر میں آپ سے متعلق چند واقعات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں اور ہم یہاں بطور مثال دوواقعات کو نقل کر رہے ہیں:

۱۔ ۱۰ ھ میں جب پیغمبر اسلام نے خانہ خدا کی زیارت کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت علی کو مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ ''یمن'' بھیج دیا پیغمبر نے حضرت علی کو حکم دیا تھا کہ جب یمن سے واپس آئیں تو وہ کپڑے جسے نجران کے عیسائیوں نے مباہلہ کے دن دینے کا دعدہ کیاتھااسے اپنے ہمراہ لائیں اور اسے آپ کے پاس پہونچا دیں، آپ کو ماموریت انجام دینے کے بعد معلوم ہوا کہ پیغمبر خانۂ کعبہ کی زیارت کے لئے روانہ ہوگئے ہیں اس لئے آپ نے راستے کو کو بدل دیا اور مکہ کی جانب روانہ ہوگئے. آپ نے مکہ کے راستے کو بہت تیزی کے ساتھ طے کیا ،تاکہ جلدسے جلد پیغمبر کے پاس پہونچ جائیں .اسی وجہ سے ان تمام کپڑوں کواپنے لشکر کے ایک سپہ سالار کے حوالے کردیا اور اپنے سپاہیوں سے الگ ہوگئے اور مکہ سے نزدیک پیغمبر کے پاس پہونچ گئے. پیغمبر اپنے بھائی کے دیدار سے بہت زیادہ خوشحال ہوئے اور جب احرام کے لباس میں دیکھا تو آپ سے احرام کی نیت کے متعلق حضرت علی نے جواب دیا: میں نے احرام پہنتے وقت کہا تھا خدایا میں اسی نیت پر احرام باندھ رہا ہوں جس نیت پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے احرام باندھا ہے۔

حضرت علی نے اپنے یمن اور نجران کے سفر اور وہ کپڑے جو لے کر آئے تھے ،سے پیغمبر کو مطلع کیا اور پھر پیغمبر کے حکم سے اپنے سپاہیوں کے پاس واپس چلے گئے تاکہ دوبارہ ان کے ساتھ مکہ واپس جائیں۔جب امام اپنے سپاہیوں کے پاس پہونچے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کے جانشین سپہ سالار نے تمام کپڑوں کو سپاہیوں کے درمیان تقسم کردیا ہے اور تمام سپاہیوں نے ان کپڑوں کو احرام بنا کر پہن لیا ہے حضرت علی اپنے سپہ سالار کے اس عمل پر بہت سخت ناراض ہوئے اور اس سے کہا: ان کپڑوں کو رسول خدا کے سپرد کرنے سے پہلے تم نے کیوں سپاہیوں میں تقسیم کردیا؟ اس نے جواب دیاکہ آپ کے سپاہیوں نے بہت اصرار کیا کہ میں کپڑے کو ان لوگوں کے درمیان بطور امانت تقسیم کردوں او رحج کی ادائیگی کے بعد سب سے واپس لے لوں۔

۱۰۹

حضرت علی نے اس کی بات کو قبول نہیں کیااور کہا کہ تمہیں یہ اختیا رنہیں تھا. پھر آپ نے حکم دیا کہ تمام تقسیم ہوئے کپڑوں کو جمع کرو، تاکہ مکہ میں پیغمبر کے سپردکریں۔(۱)

وہ گروہ جنھیں عدالت و انصاف اورمنظم و مرتب رہنے سے تکلیف ہوتی ہے وہ ہمیشہ تمام امور کو اپنے اعتبار سے جاری کروانا چاہتے ہیں وہ لوگ پیغمبر کی خدمت میں آئے اور حضرت علی کے نظم و ضبط اور سخت گیری کی شکایت کی، لیکن وہ لوگ اس نکتہ سے بے خبر تھے کہ اس طرح سے قانون شکنی اور بے جاخلاف ورزی ایک بڑی قانون شکنی اور خلاف ورزی شمار ہوتی ہے۔

حضرت علی کی نظر میں ایک گناہگار شخص (خصوصاً وہ گناہگار جو اپنی لغزشوں کو بہت چھوٹاتصور کرے) اس سوار کی طرح ہے جو ایک سرکش او ربے لگام گھوڑے پر سوار ہو. تو یقینا وہ گھوڑا اپنے سوار کو گڑھوں اور پتھروں پر گرا دے گا۔(۲)

امام علیہ السلام کا مقصد اس تشبیہ سے یہ ہے کہ کوئی بھی گناہ چاہے جتنا ہی چھوٹا کیوںنہ ہواگر اس کو نظر انداز کردیا جائے تو دوسرے گناہوں کواپنے ساتھ لاتا ہے اور جب تک انسان کو گناہ کا مرتکب نہیں کردیتا اور آگ میں نہیں ڈال دیتا اس سے دوری اختیار نہیں کرپاتا. اسی وجہ سے انسان کے لئے ضروری ہے کہ شروع سے ہی اپنے کو گناہوں سے محفوظ رکھے. اور اسلامی اصول و قوانین کی معمولی مخالفت سے پرہیز کرے۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو حضرت علی کے تمام کام اور ان کی عدالت سے مکمل طور پر باخبرتھے، اپنے کسی ایک صحابی کو بلایا اور اس سے کہا کہ شکایت کرنے والوں کے پاس جاؤ اور میرے اس پیغام کو ان تک پہونچادو۔

______________________

(۱) بحار الانوار ج۲۱ ص ۳۸۵

(۲)أَلَا وَ اِنَّ الْخَطٰایَا خَیْل شَمْس حَمَل عَلَیْهَا اَهْلُهَا وَخَلَعَتْ لِجَمْهٰا فَتَقَحَّمَتْ بِهِمْ فِیْ النّٰار نہج البلاغہ خطبہ ۱۴.

'' علی کی برائی کرنے سے باز آجاؤ کیونکہ وہ خدا کے احکام کو جاری کرنے میں بہت سخت ہے اور اس کی زندگی میں ہرگز چاپلوسی اور خوشامد نہیں پائی جاتی۔

۱۱۰

۲۔ خالدبن ولید قریش کا ایک بہادر سردار تھا. اس نے ۷ھ میں مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت کی اور مسلمانوں کے ساتھ رہنے لگا .مگر اس کے پہلے کہ وہ قوانین الہی پر عمل پیرا ہوتا، اسلام کی نو بنیاد حکومت کو گرانے کے لئے قریش کی طرف سے جتنی بھی جنگیںہوئیں اس میں شریک رہا. یہ وہی شخص تھا جس نے جنگ احد میں مسلمانوں پر رات میں چھپ کر حملہ کیا اور ان کی فوج کی پشت سے میدان جنگ میں وارد ہوا. او راسلام کے مجاہدوں پر حملہ کیا .اس شخص نے اسلام لانے کے بعد بھی حضرت علی سے عداوت و دشمنی کو فراموش نہیں کیا او رامام کی قدرت و طاقت و بہادری سے ہمیشہ حسد کرتا رہا پیغمبر اسلام کی شہادت کے بعد خلیفہ وقت سے حضرت علی کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی، لیکن کسی علت کی بنا پر کا میاب نہ ہوسکا۔(۱)

احمد بن حنبل اپنی کتاب مسند میں تحریر کرتے ہیں:

پیغمبر اسلام نے حضرت علی کو اسی گروہ کے ساتھ کہ جس میں خالد بھی موجود تھا یمن بھیجا، اسلام کی فوج سے یمن کے ایک مقام پر قبیلۂ بنی زید سے جنگ ہوئی اور دشمنوں پر کامیابی حاصل کرلی اور کچھ مال غنیمت ہاتھ لگا. امام نے عدالت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مال غنیمت تقسیم کردیا اور یہ روش خالد بن ولید کی رضایت کے برخلاف تھی. اس نے پیغمبر اسلام او رحضرت علی کے درمیان سوء تفاہم پیدا کرنے کے لئے خط لکھا اور اسے بریدہ کے حوالے کیاتاکہ جتنی جلدی ممکن ہو پیغمبر تک پہونچا دے۔

بریدہ کہتا ہے:

میں بہت تیزی کے ساتھ مدینہ پہونچا اور اس نامہ کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالے کیا، حضرت نے اس نامہ کو اپنے کسی ایک صحابی کو دیا تاکہ وہ پڑھے اور جب وہ نامہ پڑھ چکا تو میں نے اچانک پیغمبر کے چہرے پر غیظ و غضب کے آثاردیکھا۔

بریدہ کہتا ہے کہ میں اس طرح کا خط لاکر بہت شرمندہ ہوا او رعذر خواہی کے لئے کہا کہ خالد کے حکم

______________________

(۱) اس واقعہ کی تشریح زندگانی امیر ا لمومنین کے چوتھے حصے میں آئی ہے جو حصہ مخصوص ہے امام کی زندگی کے حالات پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد سے۔

۱۱۱

سے میں نے یہ کام کیا ہے اور میرا اس کے حکم کی پیروی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

وہ کہتا ہے کہ جب میں خاموش ہوگیا تو کچھ دیر کے لئے سکوت طاری رہا. اچانک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس خاموشی کو توڑا اور فرمایا:

علی ـ کے بارے میں بری باتیں نہ کہو'' فَاِنَّه مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْهُ وَ هُوَ وَلِیَّکُمْ بَعْدِیْ'' (وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے بعد تمہارے ولی و حاکم ہیں)

بریدہ کہتا ہے کہ میں اپنے کئے پر بہت نادم تھا چنانچہ رسول خدا سے استغفار کی درخواست کی. ،پیغمبر نے کہا جب تک علی نہ آئیںاور اس کے لئے رضایت نہ دیں میں تیرے لئے استغفار نہیں کروں گا. اچانک حضرت علی پہونچے اور میں نے ان سے درخواست کی کہ پیغمبر سے میری سفارش کردیں کہ وہ میرے لئے استغفار کریں۔(۱)

اس روداد کی وجہ سے بریدہ نے اپنی دوستی کو خالد سے ختم کرلیا اور صدق دل سے حضرت علی سے محبت کرنے لگا اور پیغمبر کی رحلت کے بعد اس نے ابوبکر کی بیعت بھی نہ کی اور ان بارہ آدمیوں میں سے ایک تھا جنھوں نے ابوبکر کے اس عمل پر اعتراض کیااورانھیں خلیفہ تسلیم نہیں کیا.(۲)

______________________

(۱) اسد الغابہ ج۱ ص ۱۷۶، والدرجات الرفیعہ ص ۴۰۱

(۲) رجال مامقانی ج۱ ص ۱۹۹منقول از احتجاج

۱۱۲

نویں فصل

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مخصوص نمائندہ و سفیر

''حضرت علی نے خدا کے حکم سے سورۂ برائت اور وہ مخصوص حکم جو بت پرستی کو جڑ سے اکھاڑ نے کے لئے تھا حج کے موقع پر تمام عرب قبیلے کے سامنے پڑھا ،اور اس کا م کے لئے پیغمبر کی جگہ اور جانشینی کا منصب حاصل کیا''۔تاریخ اسلام اس بات کی حکایت کرتی ہے کہ جس دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی رسالت کا اعلان کیا اسی دن اپنی رسالت کے اعلان کے بعد فوراً علی کی خلافت و جانشینی کا اعلان کیا۔پیغمبر اسلام نے اپنی رسالت کے تیس سالہ دور میں کبھی کنایہ کے طور پر توکبھی اشارے کے ذریعے اور کبھی واضح طور پر امت کی رہبری اور حکومت کے لئے حضرت علی کی لیاقت و شائستگی کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا اور جن لوگوں کے متعلق ذرہ برابر بھی یہ احتمال پایا جاتا تھا کہ وہ پیغمبر کے بعد حضرت علی کی مخالفت کریں گے ان کو نصیحت کرتے رہے اور انھیں عذاب الہی سے ڈراتے رہے۔تعجب کی بات تو یہ ہے کہ جب قبیلۂ بنی عامر کے رئیس نے پیغمبر سے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں آپ کے قوانین کا بہت سختی سے دفاع کروں گا بشرطیکہ آپ اپنے بعد حکومت کی ذمہ داری مجھے سونپ دیں تو پیغمبر نے اس کے جواب میں فرمایا: ''الامر الی اللہ یضعہ حیث شائ''(۱)

یعنی یہ خدا کے اختیار میں ہے وہ جس شخص کو بھی اس کا م کے لئے منتخب کرے وہی میرا جانشین ہوگا. جس وقت حاکم یمامہ نے بھی قبیلۂ بنی عامر کے رئیس کی طرح سے پیغمبر سے خواہش ظاہر کی، اس وقت بھی پیغمبر کو بہت برالگااور آپ نے اس کے سینے پر ہاتھ سے مارا۔(۲) اس کے علاوہ بھی پیغمبر اسلام نے متعدد مقامات پر مختلف عبارتوں کے ذریعے حضرت علی ـکو اپنی جانشینی کے عنوان سے پہچنوایا ہے اور اس طرح امت کو متنبہ و متوجہ کیا ہے کہ خدا نے حضرت علی ـکو ہمارا وصی اور خلیفہ منتخب کیا ہے اور اس کام میں پیغمبر کو کوئی اختیار نہیں ہے. نمونہ کے طور پر چند موارد یہاں پر ذکر کر رہے ہیں:

______________________

(۱) تاریخ طبری ج۸ ص ۸۴، تاریخ ابن اثیر ج۲ ص ۶۵

(۲) طبقات ابن سعد ج۱ ص ۲۶۲

۱۱۳

۱۔ آغاز بعثت میں ، جب خدا نے پیغمبر کو حکم دیا کہ اپنے اعزا و احباب اور رشتہ داروں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیںتو آپ نے اسی جلسہ میں حضرت علی کو اپنے بعد اپنا وصی و خلیفہ قرار دیا۔

۲۔ جب پیغمبر اسلام جنگ تبوک کے لئے روانہ ہوئے تو اپنے سے حضرت علی کی نسبت کو بیان کیا یعنی وہ نسبت جو ہارون کو موسی سے تھی وہی نسبت میرے اور علی ـکے درمیان ہے اور جتنے منصب ہارون کے پاس تھے سوائے نبوت کے ، وہ سب منصب علی ـ کے پاس بھی ہیں۔

۳۔ بریدہ اور دوسری اسلامی شخصیتوں سے کہا کہ علی ـمیرے بعد سب سے بہترین حاکم ہے۔

۴۔ غدیر خم کے میدان میں اور ۸۰ ہزار ( یا اس سے زیادہ) کے مجمع میں حضرت علی کو ہاتھوں پر بلند کر کے لوگوں کو پہچنوایا اور لوگوں کو اس مسئلے سے آگاہ کیا۔

اس کے علاوہ اکثر مقامات پر پیغمبر نے سیاسی کاموں کو حضرت علی کے سپرد کردیا اور اس طرح سے اسلامی معاشرہ کے ذہنوں کو حضرت علی کی حکومت کی طرف مائل کیا. مثال کے طور پر درج ذیل واقعہ کا تجزیہ کرتے ہیں۔

۲۰ سال سے زیادہ عرصہ گزر ا ہوگا کہ شرک اور دوگانہ پرستی کے بارے میں اسلام کا نظریہ حجاز کی سرزمین اور عرب کے مشرک قبیلوں تک پہونچ گیا تھا او ر بتوں اور بت پرستوں کے بارے میں ان میں سے اکثر اسلامی نظریئے سے واقف ہو گئے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ بت پرستی بزرگوں کے باطل عمل کی پیروی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ،اور ان کے باطل خدا اتنے ذلیل و خوار ہیں کہ صرف دوسروں کے امور انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے ضرر کو بھی اپنے سے دور نہیں کرسکتے اور نہ خود کو ہی نفع پہونچا سکتے ہیں ،اور اس طرح کے عاجز و مجبور خدا تعریف و خضوع کے لائق نہیں ہیں۔

دوسرا گروہ جس نے صدق دل اور بیدار ضمیر کے ساتھ پیغمبر کے کلام کو سنا تھا انھوںنے اپنی زندگی میں کافی مستحکم تبدیلیاں پیدا کرلی تھیں، اور بت پرستی چھوڑ کر خدا کی وحدانیت کو قبول کرلیا تھا خصوصاً جس وقت پیغمبر نے مکہ فتح کیا اور مذہبی مقررین کو موقع مل گیا کہ وہ آزادی سے اسلام کی تبلیغ و نشر و اشاعت کریں تو کچھ لوگوں نے بتوں کو توڑ ڈالا او رتوحید کی آواز حجاز کے اکثر مقامات پر گونج اٹھی۔

۱۱۴

لیکن متعصب اور بیوقوف لوگ جنھیں اپنی دیرینہ عادتوں کے ختم کرنے میں بہت دشواری تھی وہ کشمکش کے عالم میں تھے اور اپنی بری عادتوں سے باز نہ آئے اور خرافات و بدبختی کی پیروی کرتے رہے۔اب وہ وقت آگیا تھا کہ پیغمبر اسلام ہر طرح کی بت پرستی اور غیر انسانی کاموںکو اپنے سپاہیوں کے ذریعے ختم کردیں. اور طاقت کے ذریعے بت پرستی کو جو معاشرے کو برباد اور اجتماعی و اخلاقی اعتبار سے فاسد کر رہے ہیں اور حریم انسانیت کے لئے کل بھی نقصان دہ تھے (اور آج بھی ہیں) اسے جڑ سے اکھاڑ دیں اور خدا اور اس کے رسول سے بیزاری و دوری کو منیٰ کے میدان میںعید قربان کے دن اس عظیم و بزرگ اجتماع میں جس میں حجاز کے تمام افراد جمع ہوتے ہیں اعلان کریں. اور خود پیغمبر یا کوئی اور سورۂ برائت کے پہلے حصے کو جس میں خدا اور پیغمبر کی مشرکوں سے بیزاری کا تذکرہ ہے اس بڑے مجمع میں پڑھے اور بلند ترین آواز سے حجاز کے بت پرستوں میں اعلان کرے کہ چار مہینے کے اندر اپنی وضعیت کو معین کریں کہ اگر مذہب توحیدکو قبول کرلیں تو مسلمانوں کے زمرے میں شامل ہوجائیں گے اور دوسروں کی طرح یہ لوگ بھی اسلام کے مادی اور معنوی چیزوں سے بہرہ مند ہو ئیں گے لیکن اگر اپنی دشمنی او رہٹ دھرمی پر باقی رہے تو چار مہینہ گزرنے کے بعد جنگ کے لئے آمادہ رہیں اور یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ جہاں بھی گرفتار ہوئے قتل کردیئے جائیں گے۔سورۂ برائت اس وقت نازل ہوا جب پیغمبر نے حج میں نہ جانے کا ارادہ کرلیا تھا کیوں کہ گذشتہ سال جو فتح مکہ کا سال تھا مراسم حج میں شرکت کیا تھا او رارادہ کیا تھا کہ آئندہ سال کہ جسے بعد میں ''حجة الوداع'' کہا جائے گا اس حج میں شرکت کریں. اس لئے ضروری تھا کہ کسی کو خدا کا پیغام پہونچانے کے لئے منتخب کریں .سب سے پہلے آپ نے ابوبکر کو بلایا اور سورۂ برائت کے ابتدائی کچھ حصے کی تعلیم دی ا ور انھیں چالیس آدمیوں کے ساتھ مکہ روانہ کیا تاکہ عید قربان کے دن لوگوں کے سامنے ان آیتوں کو پڑھیں۔ابوبکر ابھی مکہ کے راستے ہی میں تھے کہ اچانک وحی الہی کا نازل ہوئی اور پیغمبر کو حکم ہوا کہ اس پیغام کو خود یا جو آپ سے ہو وہ لوگوں تک پہونچائے ، کیونکہ ان دو کے علاوہ کوئی اور اس پیغام کے پہونچانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔(۱) اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ شخص جو وحی کے اعتبار سے پیغمبر کے اہلبیت میں سے ہے اور اتنی شائستگی و لیاقت رکھتا ہے وہ کون ہے؟

_____________________________

(۱)''لٰایُوَدَّیْهٰا عَنْکَ اِلّٰا اَنْتَ اَوْ رَجُل مِنْکِ'' اور بعض روایتوں میں اس طرح ہے ''او رجل من اہل بیتک'' سیرۂ ابن ہشام ج۴ ص ۵۴۵ وغیرہ

۱۱۵

تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو بلایا اور انھیں حکم دیا کہ مکہ کی طرف روانہ ہو جاؤ اور ابوبکر سے راستے میں ملاقات کرو اوران سے آیات برائت کو لے لو اور ان سے کہہ دو کہ اس کام کی انجام دہی کے لئے وحی الہی نے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ ان آیتوں کو یا خود یا ان کے اہلبیت کی ایک فرد لوگوں کو پڑھ کر سنائے، اس وجہ سے یہ ذمہ دار یمجھے سونپی گئی ہے .حضرت علی، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اونٹ پر سوار ہوکر جابر اور آپ کے دوسرے صحابیوں کے ہمراہ مکہ کے لئے روانہ ہوگئے اور حضرت کے پیغام کوابوبکر تک پہونچایا ،انھوں نے بھی (سورۂ برائت کی) آیتوں کو حضرت علی کے سپرد کردیا۔امیر المومنین علیہ السلام مکہ میں داخل ہوئے اور ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو جمرۂ عقبہ کے اوپر کھڑے ہوکر بلند آواز سے سورۂ برائت کی تیرہ آیتوں کی تلاوت کی، اور چار مہینے کی مہلت جو پیغمبر نے دی تھی بلند آواز سے تمام شرکت کرنے والوں کے گوش گزار کیا. تمام مشرکین سمجھ گئے کہ صرف چار مہینے کی مہلت ہے جس میں ہمیں اسلامی حکومت کے ساتھ اپنے رابطے کو واضح کرناہے .قرآن کی آیتیں اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیغام نے مشرکین کی فکروں پر عجیب اثر ڈالا اورابھی چار مہینہ بھی مکمل نہ ہوا تھا کہ مشرکین نے جوق در جوق مذہب توحید کو قبول کرلیا اورابھی دسویں ہجری بھی تمام نہ ہوئی تھی کہ پورے حجاز سے شرک کا خاتمہ ہوگیا۔

بے جا تعصب

جب ابوبکر اپنی معزولی سے باخبر ہوئے تو ناراضگی کے عالم میں مدینہ واپس آگئے اور گلہ و شکوہ کرنے لگے اور پیغمبر اسلام سے مخاطب ہوکر کہا: مجھے آپ نے اس کام (آیات الہی کے پہونچانے اور قطعنامہ کے پڑھنے) کے لئے لائق و شائستہ جانا، مگر زیادہ دیرنہ گزری کہ آپ نے مجھے اس مقام و منزلت سے دور کردیا، کیا اس کے لئے خدا کی طرف سے کوئی حکم آیا ہے؟ پیغمبر نے شفقت بھرے انداز سے فرمایا کہ وحی الہی کا نمائندہ آیا اور اس نے کہا : میرے یا وہ شخص جو مجھ سے ہے کے علاوہ کوئی اوراس کام کی صلاحیت نہیں رکھتا۔(۱) بعض متعصب مؤرخین جو حضرت علی کے فضائل کے تجزیہ و تحلیل میں بہت زیادہ منحرف ہوئے ہیں ، ابوبکر کے اس مقام سے معزول ہونے اور اسی مقام پر حضرت علی کے منصوب ہونے کی اس طرح سے توجیہ کی ہے کہ ابوبکر شفقت و مہربانی کے مظہر اور حضرت علی بہادری و شجاعت کے مظہر تھے

______________________

(۱) روح المعانی ج۱۰ تفسیر سورۂ توبہ ص ۴۵

۱۱۶

اورالہی پیغام کے پہونچانے اور قطعنامہ کے پڑھنے میں بہادر دل اور قدرت مند روح کی ضرورت تھی اور یہ صفات حضرت علی کے اندر بہت زیادہ پائے جاتے تھے۔یہ توجیہ: ایک بے جا تعصب کے علاوہ کچھ نہیں ہے، کیونکہ اس کے پہلے بیان ہوچکا ہے کہ پیغمبر نے اس عزل و نصب کی علت کی دوسرے انداز سے تفسیر کی ہے اور فرمایا ہے کہ اس کام کے لئے میرے اور وہ شخص جو مجھ سے ہے کے علاوہ کوئی بھی صلاحیت نہیں رکھتا۔ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس واقعہ کا دوسرے طریقے سے تجزیہ کیاہے ،وہ کہتا ہے کہ عرب کا یہ دستور تھا کہ جب بھی کوئی چاہتا تھا کہ کسی عہد و پیمان کو توڑ دے تو اس نقض (عہد و پیمان کے توڑنے) کو خود وہ شخص یا اسی کے رشتہ داروں میں سے کوئی ایک شخص انجام دیتا ہے ورنہ عہد و پیمان خود اپنی جگہ پر باقی رہتا ہے اسی وجہ سے حضرت علی اس کام کے لئے منتخب ہوئے۔اس توجیہ کا باطل ہونا واضح ہے کیونکہ پیغمبر اسلام کا حضرت علی کے بھیجنے کا اصلی مقصد آیتوں کی تلاوت اور قطعنامہ کا پہونچانا اور عہد و پیمان کا توڑنا نہیں تھا بلکہ سورۂ توبہ کی چوتھی آیت میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے اپنے عہد و پیمان پر مکمل عمل کیا ہے ان کا احترام کرو اور عہد و پیمان کی مدت تک اس کو پورا کرو۔(۲)

اس بنا پر اگر عہد کا توڑنا بھی عہد توڑنے والوں کے بہ نسبت اس کام میں شامل تھا تو مکمل طور پر جزئی حیثیت رکھتاہے جب کہ اصلی ہدف یہ تھا کہ بت پرستی ایک غیر قانونی امر اور ایک ایسا گناہ جو قابل معاف نہیں ہے، اعلان ہو۔اگر ہم چاہیں کہ اس واقعہ کا غیر جانبدارانہ فیصلہ کریں تو ضروری ہے کہ یہ کہا جائے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاحکم الہی سے یہ ارادہ تھا کہ اپنی زندگی میں ہی حضرت علی کو سیاسی مسائل اور حکومت اسلامی سے مربوط مسئلوں میں آزاد رکھیں. تاکہ تمام مسلمان آگاہ ہو جائیں اور خورشید رسالت کے غروب ہونے کے بعد سیاسی اور حکومتی امور میں حضرت علی کی طرف رجوع کریں اور جان جائیں کہ پیغمبر اسلام کے بعد ان تمام امور میں حضرت علی سے زیادہ شائستہ کوئی نہیں ہے کیونکہ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خدا کی طرف سے تنہاوہ شخص جومشرکین مکہ سے امان میں رہنے کے لئے منصوب ہوا وہ حضرت علی تھے ،کیونکہ یہ چیز حکومتی امور سے متعلق ہے۔مگر (ہاں) جن مشرکوں سے تم نے عہد و پیمان کیا تھا پھر ان لوگوں نے بھی کچھ تم سے (وفائے عہد میں) کمی نہیں کی. اور نہ تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد کی ہو تو ان کے عہد و پیمان کو جتنی مدت کے واسطے مقرر کیا ہے پورا کردو خدا پرہیزگاروں کو یقینا دوست رکھتا ہے۔

______________________

(۲)''الا الذین عاهدتم من المشرکین ثم لم ینقضوکم شیئاً و لم یظاهروا علیکم احداً فأتمُّوا الیهم عهدهم الی مدتهم ان الله یحب المتقین''

۱۱۷

دسویں فصل

مسلمانوں کے لئے آئندہ کا لائحہ عمل

دین اسلام کی تحریک کی مخالفت قریش والوں سے بلکہ تمام بت پرستوں کے ساتھ شبہ جزیرہ سے شروع ہوئی .وہ لوگ اس آسمانی مشعل کو خاموش کرنے کے لئے مختلف قسم کے مکرو فریب اور سازشیں کرتے رہے، لیکن جتنا بھی کوشش کرتے تھے ناکام ہی رہتے، ان سب کی آخری خواہش یہ تھی کہ رسالتمآب کے بعد اس تحریک کی بنیادوں کو ڈھادیں. اور انھیں کی طرح وہ لوگ جو پیغمبر سے پہلے زندگی بسر کر رہے تھے ان کو بھی ہمیشہ کے لئے خاموش کردیں۔(۱)

قرآن مجید نے اپنی بہت سی آیتوں میں ان کی سازشوں اورکھیلے جانے والے کھیلوں کو بیان کیاہے بت پرستوں کی فکروں کو جو انھوں نے پیغمبر کی موت کے سلسلے میں کیا تھا اسے اس آیت میں بیان کیا ہے ارشاد قدرت ہے:

( ام تأمُرُهُمْ أَحلَامُهِمْ بِهٰذَا أَمْ هُمْ قوْمُ طٰاغُونَ ) (۲)

کیا (تم کو) یہ لوگ کہتے ہیں کہ (یہ) شاعر ہیں (اور) ہم تو اس کے بارے میں زمانے کے حوادث کا انتظار کر رہے ہیں تو تم کہہ دو کہ (اچھا) تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں، کیا ان کی عقلیں انھیں یہ (باتیں) بتاتی ہیں یا یہ لوگ سرکش ہی ہیں؟

اس وقت ہمیں اس سے بحث نہیں ہے کہ دشمنوں کی تمام سازشیں ایک کے بعد ایک کس طرح ناکام ہوگئیں اور دشمن کے اندر اتنی صلاحیت نہ رہی کہ پھیلتے ہوئے اسلام کو روک سکے، بلکہ اس وقت ہمیں اس مسئلہ کی طرف توجہ کرنا ہے کہ پیغمبر کے بعد کس طرح سے اس اسلام کو دوام عطا ہو؟ اس طرح سے کہ پیغمبر کے بعد اسلام کی یہ تحریک رک نہ جائے یا گزشتہ کی طرح عقب ماندگی کا شکار نہ ہو جائے. یہاں پر دو صورتیںہیںاور ہم دونوں صورتوںکے متعلق بحث کریں گے:

______________________

(۱) ورقہ ابن نوفل کی طرح، کہ جس نے عیسائیوں کی بعض کتابوں کا مطالعہ کیا اور بت پرستی کے مذہب کو چھوڑ کر خود عیسائی بن گیا۔

(۲) سورۂ طور، آیت ۳۲۔ ۳۰

۱۱۸

۱۔ امت اسلامیہ کے ہر فرد کی فکر و عقل اس مرحلہ تک پہونچ جائے کہ پیغمبر اسلام کے بعد بھی اسلام کی نئی بنیاد کی تحریک کی اسی طرح رہبری کریں جیسے عہد رسالت میں کیا ہے، اور اسے ہر طرح کی مشکلات سے بچائیں اورامت او ربعد میں آنے والی نسلوں کو صراط مستقیم (سیدھے راستے) کی طرف ہدایت کریں۔

پیغمبر اسلام کے بعد امت کی رہبری کا دارومدار ایسے افراد نے اپنے ذمہ لے لیا تھا کہ افسوس اکثر افراداس کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے. اس وقت یہاں اس سلسلے میں بحث نہیں کرنا ہے لیکن اتنی بات ضرور کہناہے کہ تمام طبیعتوں اور ایک امت کے دل کو گہرائیوں سے بدلنا ایک دن، دو دن یا ایک سال ، یا دس سال کا کام نہیں ہے او رانقلاب لانے والا کہ جس کی آرزو یہ ہوتی ہے کہ اپنی تحریک کو ہر زمانے کے لئے پایداری او ردوام بخش دے وہ مختصر سی مدت میں اس کام کو انجام نہیں دے سکتا۔

انقلاب کا ہمیشہ باقی رہنا اور لوگوں کے دلوں میں اس طرح رچ بس جانا، انقلاب لانے والے کے مرنے کے بعدبھی اس کی تحریک ایک قدم بھی پیچھے نہ رہے اور پرانے رسم و رواج اور آداب و اخلاق دو بارہ واپس نہ آجائیں اور اس تحریک کو چلانے کے لئے ایسے اہم افراد یا شخص کی ضرورت ہے جو اس تحریک کی باگ ڈور سنبھالے اورہمیشہ اس کی حفاظت کرے اور معاشرے میں مسلسل تبلیغ کر کے غیر مطلوب چیزوں سے لوگوں کو دور کھے تاکہ ایک نسل گزر جائے اور نئی نسل ابتداء سے اسلامی اخلاق و آداب کی عادت کرلے اور آنے والی نسلوں تک برقرار رکھے۔

تمام آسمانی تحریکوں کے درمیان اسلامی تحریک کی ایک الگ خصوصیت ہے اور اس تحریک کو بقا اور دوام بخشنے کے لئے ایسے اہم افراد کی ضرورت تھی. کیونکہ مذہب اسلام ایسے افراد کے درمیان آیاجو پوری دنیا میں سب سے پست تھے اور اجتماعی اور اخلاقی نظام کے اعتبار اور انسانیت کے ہر طرح کی ثقافت سے محروم تھے، مذہبی چیزوں میں حج کے علاوہ جسے اپنے بزرگوں سے میراث میں پایا تھا کسی اور چیز سے آشنا نہ تھے۔جناب موسی و عیسی کی تعلیمات نے ان پر کوئی اثر نہ کیا تھا ،حجاز کے اکثر لوگ اس کی خبر نہیں رکھتے تھے، جب کہ جاہلیت کے عقائد اور رسومات ان کے دلوں میں مکمل طریقے سے رسوخ کرچکے تھے اور روح و دل سے انھیں چاہتے تھے۔ممکن ہے کہ ہر طرح کی مذہبی طبیعت ایسی ملتوں کے درمیان بہت جلد اپنا اثر پیدا کرلے مگر اس کے باقی رکھنے اوراسے دوام و پائداری بخشنے کے لئے ان کے درمیان بہت زیادہ تلاش و کوشش کی ضرورت ہے تاکہ ان لوگوں کو ہر طرح کے انحرافات اور پستی سے بچائے۔

۱۱۹

جنگ احد اور حنین کے رقت آمیز اور دل ہلا دینے والے واقعات اور مناظر کہ جس میں تحریک کو بڑھا وا دینے والے عین جنگ کے وقت پیغمبر کو چھوڑ کر چلے گئے تھے اور انھیں میدان جنگ میں تنہا چھوڑ دیا تھا یہ اس بات کے گواہ ہیں کہ پیغمبر کے صحابی ایمان و عقل کی اس منزل پر نہ تھے کہ پیغمبر تمام امور کی ذمہ داری ان کے سپرد کرتے اور دشمن کے اس آخری حربہ کو جس میں وہ پیغمبر کی موت کے امیدوار تھے اسے ختم کرتے۔

جی ہاں. اگر امت کی رہبری کو خود امت کے سپرد کرتے تب بھی صاحب رسالت کے نظریات کو حاصل نہیں کرسکتے تھے بلکہ ضروری تھا کہ کوئی اور فکر کی جائے کہ جس کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں۔

۲۔ تحریک کی بقا و پایداری کے لئے بہترین راستہ تو یہ تھا کہ خداوند عالم کی طرف سے ایک شائستہ شخص، جو تحریک کے اصول و فروع پر عقیدہ و ایمان میں پیغمبر کی طرح ہو تاکہ امت کی رہبری کے لئے اس شخص کا انتخاب ہوتا، تاکہ مستحکم ایمان او روسیع علم جو کہ خطا و لغزش سے پاک ہو اس امت کی رہبری کو اپنے ہاتھوں میں لیتا اور ہمیشہ کے لئے اسے دوام بخشتا۔

یہ وہی بات ہے جس کے صحیح و محکم کا مذھب تشیع ادعا کرتا ہے اور اکثر تاریخیں اس بات پر گواہ ہیں کہ پیغمبر اسلام نے ''حجة الوداع'' کی واپسی پر ۱۸ ذی الحجہ ۱۰ ھ کو اس اہم مشکل کی گرہ کو کھول دیاتھا اور خدا کی طرف سے اپنا وصی و جانشین معین کر کے اسلام کی بقا و استمرار کا انتظام کردیاتھا۔

امامت کے بارے میں دو نظریے

شیعہ دانشمندوں کی نظر میں خلافت ایک الہی منصب ہے جو خداوند عالم کی طرف سے امت اسلامی کے شائستہ اور عقلمند شخص کو دیا جاتا ہے .امام اور نبی کے درمیان واضح اور وشن فرق یہ ہے کہ پیغمبر شریعت لے کر آتا ہے اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور وہ صاحب کتاب ہوتا ہے ،جب کہ امام اگرچہ ان چیزوں کا حقدار نہیں ہے لیکن حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے علاوہ دین کی ان چیزوں کا بیان اور تشریح کرنے والا ہوتاہے جو پیغمبر وقت کی کمی یا حالات کے صحیح نہ ہونے کی بنا پر اسے بیان نہیں کرپاتا، اور ان تمام چیزوں کے بیان کو اپنے وصیوں کے ذمہ کردیتاہے .اس بنا پر شیعوں کی نظر میں خلیفہ صرف حاکم وقت اور اسلام کا ذمہ دار، قوانین کا جاری کرنے والا اور لوگوں کے حقوق کا محافظ اور ملک کی سرحدوں کا نگہبان ہی نہیں ہوتا، بلکہ مذہبی مسائل اور مبہم نکات کا واضح او رروشن کرنے والا ہوتا ہے اور ان احکام و قوانین کومکمل کرنے والا ہوتا ہے جو کسی وجہ سے دین کی بنیاد رکھنے والا بیان نہیں کرپاتا ہے۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

معاویہ کے خطوط اسلامی شخصیتوں کے نام

معاویہ نے جنگ صفین پر روانہ ہونے سے پہلے عمرو عاص سے کہا میں چاہتا ہوں تین لوگوں کو خط لکھوں او ران لوگوں کو علی کے خلاف برانگیختہ کروں وہ تین آدمی یہ ہیں عبد اللہ بن عمر، سعد بن وقاص ، محمد بن مسلمہ۔

معاویہ کے مشاورنے اس کے نظریہ کو قبول نہیں کیا اور اس سے کہا یہ تینوں افراد تین حالتوں سے

خالی نہیں ہیںیا علی کے چاہنے والے ہیںاس صورت میں تمہارا خط باعث بنے گا کہ راہ علی پر باقی رہنے میں ان لوگوں کا ارادہ ٹھوس ہو جائے یا عثمان کے چاہنے والے ہیں اس صورت میں ان کے استحکام میں اضافہ نہیں ہو گا اور اگر وہ لوگ کسی بھی طرف نہیں ہیں تو ہرگز تم ان لوگوں کی نظر میں علی سے زیادہ مورد اعتماد نہیں ہو۔ اس لئے تمہارے خط کا اثر ان لوگوں پر نہیں

۵۰۱

پڑے گا۔(۱)

معاویہ نے اپنے مشاور کے نظریہ کو قبول نہیں کیا اور اپنی اور عمرو عاص کی دستخط کے ساتھ ایک خط عبد اللہ ابن عمر کو لکھا جس کی عبارت یہ تھی:

''حقائق اگر ہم پر پوشیدہ ہوں تو تم پر پوشیدہ نہیں ہیں، عثمان کو علی نے قتل کیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کے قاتلوں کو امان دی ہے ،ہم عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتے ہیں تاکہ حکم قرآن کے مطابق انہیں قتل کریں اور اگر علی عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کردیں تو ہم ان سے کوئی مطالبہ نہیں کریں گے اور اس وقت خلافت کے مسئلہ کو عمر بن خطاب کی طرح مسلمانوں کے درمیان شوری میں پیش کریں گے ہم ہرگز نہ خلافت کے طلبگار تھے او رنہ ہیں تم سے بس گذارش یہ ہے کہ قیام کرو او رہماری اس راہ میں مدد کرو، اگر ہم اور تم آپس میں متحد ہوگئے تو علی مرعوب ہو جائیں گے اور پھر اپنے ارادے سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔(۲)

عبد اللہ بن عمر کا جواب

اپنی جان کی قسم، تم دونوںنے اپنی بصیرت اور حقیقت شناسی کو اپنے ہاتھوں سے کھودیا ہے اور حوادث کو فقط دور سے دیکھ رہے ہو اور تمہارے خط نے شک کرنے والوں کے شک و تردید میں اضافہ کردیا ہے تم لوگوںکا خلافت سے کیا ربط؟ معاویہ تم طلیق و آزاد شدہ ہو او رعمرو تم ایک متہم شخص او رغیر قابل اعتماد ہو، اس کام سے باز آجاؤ میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔(۳)

عبد اللہ بن عمر نے جو خط معاویہ کو لکھا اس نے عمرو عاص کی مردم شناسی اور دور اندیشی کو ثابت کردیااور یہ بھی واضح کردیا کہ معاویہ اپنے قدیمی حریف کے کاموں تک نہیں پہونچ سکا ہے اور اگر بعض سیاسی مسئلوں میں برتری رکھتا ہے(مثلاً کشادہ دلی کے ساتھ مخالف کی بات سنتااو راگر اس کے سامنے آتا تو گذشتہ کونظر انداز کردیتا، اور اگر گفتگو ایک طرف ہو جاتی تو فوراً گفتگو کا عنوان بدل دیتا اور بحث کے اصل موضوع کو دوسرے انداز سے شروع کرتا) اس کے باوجود ابھی پورا مردم شناس نہیں ہورہے۔

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۸۹۔ ۸۸۔----(۲) وقعۂ صفین، ص ۶۳، ابن قتیبہ کے نظریہ کے مطابق اس خط کو معاویہ نے اہل مکہ او رمدینہ کے لئے لکھاتھا ۔ الامامة و السیاسة ص ۸۹۔----(۳)وقعة صفین ص۶۳،لیکن ابن قتیبہ نے معاویہ کے جواب میں ایک دوسرے خط کا ذکر کیا ہے،الامامة والسیاسةص۹۰۔۸۹

۵۰۲

معاویہ کے خط لکھنے کا مقصد

معاویہ کا مختلف لوگوں کو خط لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ بعض شخصیتوں کو متوجہ کرے جو نہ موافقوں کی صف میں تھے نہ ہی مخالفوں کی صف میں ۔ یہ لوگ مکہ و مدینہ میںلائق احترام اور با اثر شخصیت کے حامل تھے اور ان کی نظر جذب کرنے کی وجہ سے دو شہروں میں مخالفت ایجاد کرنا تھا جو شوریٰ کے مرکزی افراد اور خلیفہ انتخاب کرنے میں ایک اہمیت رکھتے تھے۔

لیکن یہ لوگ ان لوگوں سے زیادہ عقلمند تھے جن لوگوں نے معاویہ سے دھوکہ کھایا اور اس کے ساتھ رہے لہٰذا دوسروں نے بھی، یعنی سعد وقاص اور محمد بن مسلمہ نے بھی عبد اللہ بن عمر کی طرح جواب دیا۔(۱)

نصر بن مزاحم نے کتاب ''وقعہ صفین'' میں معاویہ کا ایک دوسراخط نقل کیا ہے جواس نے عبد اللہ بن عمر کے نام لکھا تھا اور اس پر امام ـ کی مخالفت کرنے کا الزام لگایا ہے اور اس طرح چاہا کہ مخالفت کا بیج اس کے دل میں بودے اور پھر لکھتا ہے کہ میں خلافت کواپنے لئے نہیں چاہتا بلکہ تمہارے لئے چاہتا ہوں اوراگر تم نے بھی قبول نہیں کیا تو ضروری ہے کہ مسئلہ خلافت کو مسلمانوں کی شوریٰ میں بیان کیا جائے ۔

عبد اللہ بن عمر اگر چہ سادگی میں بہت مشہور تھا اس نے معاویہ کا خط پڑھ کر اس کو جواب دیاکہ تم نے لکھاہے کہ میں نے علی کی نکتہ چینی کی ہے اپنی جان کی قسم میں کہاں او رعلی کاسابقہ ایمان، ان کی ہجرت ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ان کی و رفعت ومنزلت اور مشرکوں کے مقابلے میں ان کی مقاومت کہاں؟ اگر میں نے ان کی موافقت نہیں کی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس حادثہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے کوئی حدیث نہیں

______________________

(۱) معاویہ کے اصل خط کو جو اس نے سعد بن ابی وقاص اور محمد بن مسلمہ انصاری کے نام لکھا تھا اور ان کے جواب کو ابن قتیبہ نے الامامة و السیاسة ص ۹۱۔ ۹۰۔ پر لکھا ہے۔

۵۰۳

آئی تھی لہذا ہم نے دونوں میں سے کسی کی طرف بھی رغبت کرنے سے پرہیز کیا۔(۱)

معاویہ کا خط سعد بن وقاص کے نام

معاویہ نے فاتح سرزمین ایران سعد وقاص کو خط لکھا:

عثمان کی مدد کے لئے بہترین لوگ قریش کی شوریٰ تھی، ان لوگوں نے اسے چنا اور دوسروں پر مقدم کیا، طلحہ و زبیر نے اس کی مدد کرنے میں جلدی کی اور وہ لوگ تمہاری شوری کے ہمراہی اور اسلام میں بھی تمہاری ہی طرح تھے ام المومنین (عائشہ) بھی اس کی مدد کے لئے گئیں تمہارے لئے بہتر نہیں ہے کہ ان لوگوں نے جس چیز کو پسند کیا ہے تم اسے ناپسند کرو اور جس چیز کو ان لوگوں نے اختیار کیا ہے تم اسے چھوڑ دو، ہمیں چاہیئے کہ ہم خلافت کو شوریٰ کے حوالے کردیں۔(۲)

سعد وقاص کا جواب

عمر بن خطاب نے ایسے افراد کو شوریٰ میں شامل کیا جن کے لئے خلافت جائز تھی، ہم سے زیادہ کوئی بھی خلافت کے لئے بہتر نہ تھا، مگر یہ کہ ہم اس کی خلافت پر راضی رہیں اگر ہم بافضیلت ہیں تو علی بھی اہل فضل میں سے ہیںجب کہ علی کے فضائل بہت زیادہ ہیں اور ہمارے فضائل اتنے نہیں ہیں اور اگر طلحہ و زبیر اپنے گھر میں خاموشی سے بیٹھتے تو بہتر تھا، خداوند عالم ام المومنین کو جوانھوں نے کام کیاہے معاف کردے۔(۳)

معاویہ نے کوشش کی تھی کہ شوریٰ کے تمام اراکین سے زیادہ خلیفۂ سوم کی فضیلت کو ثابت کرے، لیکن سعد وقاص نے اسے قبول نہیں کیا اور اس کی حاکمیت او رسب سے آگے بڑھنے کو شوریٰ کے اراکین کی رائے سے توجیہ کیا اور اسی کے ساتھ طلحہ و زبیر پر اعتراض بھی کیا۔

______________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۷۳۔ ۷۲۔

(۲) الامامة و السیاسة، ج۱ ص ۹۰ وقعۂ صفین، ص ۷۴۔

(۲) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۹۰، وقعۂ صفین ص ۷۷۔ ۷۵۔

۵۰۴

معاویہ کا خط محمد بن مسلمہ کے نام

معاویہ نے اس خط میں اسے انصار کے فارس(بہادر) سے تعبیر کیاہے او رخط کے آخر میں لکھتا ہے:

انصار جو تمہاری قوم ہے اس نے خدا کی نافرمانی کی ہے اور عثمان کو ذلیل کیاہے اور خدا تم سے اور ان لوگوں سے قیامت کے دن سوال کرے گا۔(۱)

مسلمہ کے بیٹے نے ایک مقدمہ کے بعد جواب دیا:

تم دنیا کے علاوہ کسی چیز کو نہیں چاہتے اور خواہشات نفسانی کے علاوہ کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے، عثمان کی موت کے بعد اس کا دفاع کر رہے ہو لیکن اس کی زندگی میں اسے ذلیل و خوار کیا اور اس کی مدد نہیں کی۔(۲)

______________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۹۰، وقعۂ صفین ص ۷۷۔ ۷۵۔

(۲)الامامة والسیاسةج۱ص۹۰،وقعة صفین ص۷۷۔۷۵

۵۰۵

(۲) معاویہ کے خط کا مفہوم اور اس کا مقصد

معاویہ کے خط کا مفہوم مکمل طور سے اشتعال انگیز تھا اور معاویہ کی یہ کوشش تھی کہ لوگوں کو امام ـ کی مخالفت کے لئے برانگیختہ کردے، مثلاً عمر کے بیٹے کو خلافت پر قبضہ کرنے کے لئے بلایا کیونکہ وہ شوریٰ کا ناظر تھا، سعد وقاص چونکہ چھ نفری شوریٰ کا ممبر اور طلحہ و زبیر کے مثل تھا لہذا شوریٰ میں اس کے ممبر ہونے کا تذکرہ کیااور اسے طلحہ و زبیر کے راستے پر چلنے کی دعوت دی او رمحمد بن مسلمہ کو انصار کا شہسوار اور مہاجروں کو منظم کرنے والا قرار دیا او ر یاد دلایاکہ ان لوگوںنے عثمان کی مدد نہیں کی لہذا اس کا جبران کرنے کے لئے فوراً اٹھ جائیں اور اس کی مدد کریں۔

ان تمام خطوط سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معاویہ کا مقصد صرف اسلامی معاشرہ کودرہم برہم کر کے علی ـ کا مخالف بنانے کے علاوہ کچھ نہ تھا اور بنا بر فرض محال اگروہ عثمان کا ولی دم تھا تو یہ بات کوئی عقلمند انسان قبول نہیں کرے گا کہ ایک انسان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے تمام مسلمانوں کی جان جوکھم میں ڈال دے ۔

معاویہ کا اصرار تھا کہ خلیفہ کا انتخاب شوریٰ کے ذریعے ہو اور عمر کی شوریٰ کی تعداد چھ آدمیوں سے زیادہ نہ تھی، اگر شوریٰ کا انتخاب تکلیف دہ تھا تو مہاجرین وانصار کا متحد ہونا بدرجہ اولی الزام آور تھا سب لوگ اس سے باخبر ہیں کہ امام ـ مہاجرین و انصار کے ذریعے اس مقام پر منتخب ہوئے ہیں آپ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ لوگ جوق درجوق آپ کے پاس آئے اور بہت زیادہ اصرار کر کے آپ کو مسجد میں لے گئے اور پھر آپ کے ہاتھوں پر بیعت کی، اور چند لوگوں کے علاوہ کسی نے بھی آپ کی بیعت کی مخالفت نہیں کی۔

۵۰۶

اس کے علاوہ اگر مہاجرین و انصار نے عثمان کی مدد نہیں کی تو خود معاویہ نے بھی تو اس کی مدد نہیں کی جب کہ عثمان کے گھر کا محاصرہ بہت دنوں تک تھا اور وہ اس سے آگاہ بھی تھا اور وہ اپنی فوج کے ساتھ خلیفہ کی مدد کے لئے جاسکتا تھا، لیکن ہرگز اس نے ایسا نہیں کیا اور اس کے خون کو بہتا ہوا دیکھتا رہا۔

اس کے علاوہ خود عثمان نے شام کے لوگوں او روہاں کے حاکم معاویہ کے پاس خط لکھا اور ان سے مدد مانگی تھی یہاں تک کہ اپنے خط کے آخر میں یہ بھی لکھا تھا:

''فیاغوثاه و لا امیرُ علیکم دونی ، فالعجل العجل یا معاویة وادرک ثم ادرک و ما اراک تدرک'' (۱)

ان تمام چیزوں کے باوجود معاویہ نے ان خطوط کو نظر انداز کردیا اور اپنے خلیفہ کی بالکل بھی حمایت نہیں کی لیکن اس کی موت کے بعد اس کے خون کا بدلہ لینے کی فکر ہوگئی۔

مؤرخین نے عثمان کے دو طرح کے محاصروں کو لکھا ہے اور پہلے محاصرہ اوردوسرے محاصرے کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ تھا، بعض نے محاصرہ کی مدت ۴۹ دن بعض نے ۷۰ دن اور بعض نے ۴۰ دن اور بعض نے ۱ مہینے سے زیادہ لکھا ہے اس لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ عثمان کے محاصرے کی خبر معاویہ نے نہ سنی ہو، اور وہ پورے واقعہ سے بے خبر ہو۔

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ص ۳۸۔

۵۰۷

شام کا خطیب

ہر زمانے اورہر جگہ پر ایسے افراد موجود ہوتے ہیں کہ اپنا کھانا روزانہ کی قیمت سے کھاتے ہیں اور چاپلوسی اور جھوٹی تعریف کرنے والے صاحبان قدرت و ثروت کی خوشامد اور اور ان کیتعریفیں کیا کرتے ہیں اور حق کو ناحق، اور باطل کو حق دکھاتے ہیں لیکن تاریخ میں ایسے بھی افراد موجود ہیں جو حق و حقیقت کا کسی بھی چیز سے معاملہ نہیں کرتے اور ان کی زبانوں پر کلمہ حق کے علاوہ کچھ جاری نہیں ہوتا۔

قبیلہ ''طی'' کے لوگ جو مدینہ او رشام کے دو پہاڑوں کے درمیان زندگی بسر کر رہے تھے وہ سب کے سب خصوصاً عدی بن حاتم، علی ـ کے عاشق تھے۔ عدی امام ـ کی خدمت میں آئے اور کہا ہمارے قبیلہ کا ایک شخص ''خفاف'' اپنے چچازاد بھائی ''حابس'' کی ملاقات کے لئے شام جانے والاہے، خفاف بہترین خطیب و مقرر اور عمدہ شاعر ہے اگر آپ کی اجازت ہوتوہم اس سے کہیں کہ معاویہ سے ملاقات کرے اور مدینیاور عراق میں اپ کی جو شان و شوکت ہے اسے بیان کرکے، معاویہ او رشامیوں کا حوصلہ پست کرے، امام ـ نے عدی کی درخواست کو قبول کیا، خفاف شام کی طرف روانہ ہوا، اور اپنے چچازاد بھائی حابس کے پاس گیا اور اس سے کہا میں عثمان کے قتل کے وقت مدینہ میں موجود تھا پھر حضرت علی ـ کے ساتھ مدینہ سے کوفہ آیا ہوں اور تمام حالات سے باخبر ہوں دونوں چچازاد بھائیوں نے طے کیا کہ دوسرے دن معاویہ کے پاس جائیں او راسے تمام واقعات سے آگاہ کریں ، دوسرے دن دونوں بھائی معاویہ کے پاس گئے حابس نے اپنے بھائی کا تعارف کرایا اور کہا کہ وہ حادثہ ''یوم الدار'' اور عثمان کے قتل کے دن موجود تھا اور علی کے ساتھ کوفہ آیا ہے او راپنی بات میں مکمل یقین و اعتماد رکھتا ہے معاویہ نے خفاف سے کہا، عثمان کے واقعات سے مجھے آگاہ کرو، خفاف نے مختصر طور پر عثمان کے قتل کے واقعات کو اس طرح بیان کیا:

''مکشوح نے اس کا محاصرہ کیا اور حکیم نے حملہ کرنے کا حکم دیا، محمد بن ابوبکر او رعمار قتل کرنے میں شریک تھے اور تین آدمی عدی بن حاتم، مالک اشتر نخعی اور عمرو بن الحمق اس کارنامے میں بہت فعال تھے اسی طرح سے طلحہ و زبیر قتل کرنے میں بہت زیادہ کوشش کر رہے تھے، اور اس گروہ سے سب سے جدا رہنے والے علی ـ تھے جو عثمان کے قتل میںکسی طرح بھی شریک نہیں تھے۔

۵۰۸

معاویہ نے کہا: پھر اس کے بعد کیا ہوا؟

خفاف نے کہا: لوگ عثمان کے قتل کے بعد جب کہ ابھی اس کا جنازہ ایسے ہی زمین پر پڑا تھا پروانے کی طرح علی کے پاس اس طرح جمع ہوئے کہ جوتے گم ہوگئے اور ردائیں کاندھوں سے گر گئیں، بوڑھے لوگ مجمع میں دب گئے اور سب نے رہبر اور پیشوا کی حیثیت سے علی ـ کی بیعت کی، اور جب طلحہ و زبیر نے اپنی بیعت کو توڑ دیا تو امام ـ سفر کرنے کے لئے آمادہ ہوئے اور مہاجرین وانصار بہت تیزی کے ساتھ آپ کے ہمراہ چلنے کے لئے تیار ہوگئے، اس سفرسے تین لوگ، سعد بن مالک، عبد اللہ بن عمر، محمد بن مسلمہ بہت ناراض ہوئے اور تینوں افراد نے گوشہ نشینی اختیار کرلی، لیکن علی (علیہ السلام) پہلے گروہ کی وجہ سے ان تینوں سے بے نیاز ہوگئے امام ـ کا کاروان سرزمین ''طی'' پہونچااور میرے قبیلہ سے کچھ لوگ امام کے لشکر سے ملحق ہوئے، اور ابھی بصرہ کا آدھا ہی راستہ طے کیا تھا کہ طلحہ و زبیر کے بصرہ جانے کی خبر ملی، ایک گروہ کو کوفہ روانہ کیا اور ان لوگوں نے بھی ان کی دعوت کو قبول کیا او ربصرہ کی طرف روانہ ہوگئے، بصرہ پر حملہ ہوا اور شہر پر ان کا قبضہ ہوگیا پھر کوفہ کی فکر کی، اس شہر میں شور و غل مچ گیا، بچے محل کی طرف دوڑے او ربوڑھے او رنوجوان خوشی خوشی ان کی طرف دوڑ پڑے اس وقت وہ کوفہ میں ہیں اور شام پر قبضہ کرنے کے علاوہ کوئی اور فکر نہیں کر رہے ہیں، جب خفاف کی گفتگو ختم ہوئی تو معاویہ خوف کے مارے تھرتھر کانپنے لگا۔

اس وقت حابس نے معاویہ سے کہا: میرا چچازاد بھائی خفاف بہت اچھا شاعر ہے میری جب اس سے ملاقات ہوئی تھی تو اس نے بہت اچھا شعر پڑھا تھا اورعثمان کے متعلق میری نظر کو بدل ڈالا اور علی کی خوب تعریف کی، معاویہ نے کہا کہ وہ شعر جو تم نے اس کے لئے کہا تھا مجھے سناؤ اس نے وہ اشعار پڑھا، خفاف کا شعر سن کر معاویہ نے سخت لہجہ میں حابس سے کہا: میرے خیال سے یہ شخص علی کاجاسوس ہے جتنی جلدی ممکن ہو اس کو شام سے باہر کردو، لیکن معاویہ نے اسے دوبارہ اپنے پاس بلایا اور کہا: مجھے لوگوں کے کام وغیرہ سے آگاہ کرو، اس نے پھر وہی باتیں دہرائیں ، معاویہ ا س کی عاقلانہ باتیں سن کر حیرت میں ڈوب گیا۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۶۶۔ ۶۴، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۱۲۔ ۱۱۰۔

۵۰۹

صحابہ کے بیٹوں کا سہارا

ابو سفیان کا بیٹااس اما م سے مقابلہ کرنے کی کوشش میں تھا جس کا سبقت ایمان اور مشرکین کے ساتھ جہاد کرنا روشن وواضح تھا لہذا اس نے بعض صحابیوں اور ان کے بیٹوں کو اپنی طرف جذب کرکے اپنی شخصیت بنانی چاہی جب عبیداللہ ابن عمر حضرت علی کی حکومت سے بھاگ کر شام گیاکیونکہ حضرت ھرمزان کے قتل کی بنا پر اس سے قصاص چاہ رہے تھے اور معاویہ کو یہ خبر ملی تو وہ(۱) خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا لہٰذا اپنے مشاور اور عقل (عمروعاص) سے رابطہ کیا اور عبیداللہ کی آمد پر اسے مبارک باد دی اور اسے ملک شام کے اور اپنے پاس رہنے کا وسیلہ سمجھا(۲) پھر دونوں نے ارادہ کیا کہ اس سے درخواست کریں کہ لوگوں کے مجمع میں منبر پر جا کر علی کو برا بھلا کہے، جب عبیداللہ معاویہ کے پاس آیا تو معاویہ نے اس سے کہا اے میرے بھتیجے ،تمہارے باپ کا نام (عمر بن الخطاب) تمہارے اوپر لگا ہواہے خواب غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور مکمل آمادگی کے ساتھ گفتگو کرو، کیونکہ تم لوگوں کے درمیان قابل اعتماد ہو، منبر پر جاؤ علی کو برا بھلا کہو، گالی دو اور گواہی دو کہ عثمان کو علی نے قتل کیا ہے۔

زمام حکومت ایسے فتنہ پرور لوگوں کے ہاتھوں میں تھی جنہوںنے خلفاء کے بیٹوں کو برے اور بیہودہ کاموں کی ترغیب کرتے تھے تاکہ اس کے ذریعہ امام علیہ السلام کی عظمت کو گھٹادیں ،لیکن امام علیہ السلام کی رفعت وعظمت اتنی بلند تھی جس کا دشمن بھی منکر نہیں ہوسکتا ۔ عبیداللہ جوامام علیہ السلام کی عدالت کی وجہ سے بھاگ گیا تھا اس نے معاویہ سے کہا ، میں علی کو گالی نہیں دے سکتا اور ناسزا نہیں کہہ سکتا کیونکہ وہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم کے بیٹے ہیں ان کے نسب کے بارے میں میں کیا کہوں؟ ان کی جسمانی اور روحاحی طاقت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتاہے کہ وہ پچھاڑ دینے والے بہادر ہیں، میں عثمان کے قتل کا الزام ہی صرف ان کی گردن پر ڈال سکتاہوں ۔

عمرو عاص اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا:

خدا کی قسم، اس وقت زخم نمایاں ہوں گے(بھیجے باہر نکلیں گے) جب عبیداللہ وہاں سے چلا گیا تو

_______________________________

(۱) تاریخ طبری ج۳،جز۵ ص ۴۲،۴۱۔ کامل ابن اثیر ج ۳ص ۴۰

(۲) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۹۲

۵۱۰

معاویہ نے عمر وعاص سے کہا ،اگر وہ ہرمزان کو قتل نہ کرتا اور علی کے قصاص سے نہ ڈرتا تو ہماری طرف کبھی بھی نہ آتا کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اس نے علی کی کیسی تعریف کی؟

جی ہاں، عبیداللہ نے تقریر کی اور جب بات علی علیہ السلام تک پہونچی تو اس نے اپنی بات روک دی اور ان کے بارے میں کچھ نہ کہا اور منبر سے اتر گیا۔

معاویہ نے اس کے پاس پیغام بھیجا اورکہا: اے میرے بھتیجے ، علی کے بارے میں تمھاری خاموشی دو علتوں کی بناء پر تھی ناتوانی کی وجہ سے یا خیانت کی وجہ سے۔

اس نے معاویہ کو جواب دیا :میں نہیں چاہتا کہ ایسے شخص کے بارے میں گواہی دوں جو عثمان کے قتل میں شامل نہ تھا اور اگر میں گواہی دیتا تو لوگ ضرور قبول کرلیتے ،معاویہ اس کا جواب سن کر ناراض ہوا اور اسے نکال دیا اور اس کو کوئی مقام ومنصب نہیں دیا۔

عبیداللہ نے اپنے شعر میں کچھ ترمیم کرکے اس طرح بیان کیا کہ ،اگرچہ علی عثمان کے قتل میں شامل نہ تھے لیکن ان کے قاتلوں نے علی کے پاس پناہ لی اور انہوں نے نہ ان کے کام کو برا کہا اور نہ

ہی کہااور میں عثمان کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے توبہ کرلی تھی اور بعد میں قتل ہوئے۔(۱) عمرکے بیٹے کا معاویہ کے ساتھ اتنا ہی محبت سے پیش آنا کافی تھا اور اسی محبت کی وجہ سے اس کا دل جیت لیا اور اسے اپنے مقربین میں شامل کر لیا۔

_______________________________

(۱) واقعہ صفین : ص ۸۴،۸۲

۵۱۱

قاتلان عثمان کے کو سپرد کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا

معاویہ نے امام علیہ السلام کے خلاف جو لشکر جمع کیا اس کے لئے سب سے بڑا بہانہ یہ تھا کہ امام علیہ السلام عثمان کے قاتلوں کی حمایت کررہے ہیں۔

عثمان کے قتل کی علتیں تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکی ہیں یہاں پر جس چیز کا تذکرہ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہجوم کرنے والوں کی معاشرے میں شخصیت ایسی تھی کہ خود علی علیہ السلام ان لوگوں کو معاویہ کے حوالے نہیں کرسکتے تھے، یہ بات درست ہے کہ کچھ لوگوں نے عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا تھااور کچھ نے انہیں قتل کیا

تھا لیکن خلفاء کے اموی والیوں کے ظلم وستم کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں یہ گروہ اتنی اہمیت کا حمل ہوگیا تھا کہ ان کا معاویہ کے حوالے کرنا بہت بڑی مشکل کو دعوت دینا تھا، اس سلسلے میں ذیل کے واقعے پر توجہ فرمائیں۔

علی کے ساتھ جنگ کرنا آسان کام نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ یمن کا زاہد ابو مسلم خولانی جوکہ شام میں سکونت پذیر تھا، کو جب یہ خبر ملی کہ معاویہ علی کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو قاریوں کے گروہ کے ساتھ معاویہ کے پاس گیا اوراس سے پوچھا ،کیوں علی کے ساتھ جنگ کرنا چاہتے ہو جب کہ کسی بھی زاویہ سے تو ان کے برابر نہیں ہوسکتا؟ نہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ان کی جیسی مصاحبت تجھے نصیب ہے نہ تمہارے پاس سابقہ اسلام ہے، اور نہ ہی ہجرت اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خویشاوندی تمہیں حاصل ہے ، معاویہ نے ان لوگوں کے جواب میں کہامیں ہرگزاس بات کا دعویٰ نہیں کرتا کہ علی کی طرح میرے فضائل ہیں، لیکن میں تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ عثمان کا قتل بے گناہ ہوا ہے؟ ان لوگوں نے جواب دیا ہاں، پھر اس نے کہا علی عثمان کے قاتلوں کو میرے حوالے کردیں تاکہ میں ان سے عثمان کے خون کا بدلہ لوں ۔ ایسی صورت میں ہم ان سے جنگ نہیں کریں گے۔

۵۱۲

ابو مسلم اور اس کے ہمفکروں نے معاویہ سے درخواست کی کہ علی کے نام خط لکھے، معاویہ نے اس سلسلے میں خط لکھا اور ابومسلم کو دیا تاکہ وہ امام تک پہونچا دے ( ہم معاویہ کا خط اور امام علیہ السلام کا جواب بعد میں ذکر کریں گے)۔

ابو مسلم کوفہ میں داخل ہوا اور معاویہ کا خط علی علیہ السلام کے سپردکرکے کہا:

آپ نے ایسا کام اپنے ذمہ لیا ہے کہ خدا کی قسم مجھے ہرگز پسند نہیں کہ وہ آپ کے علاوہ کسی دوسرے کے ذمہ ہو لیکن عثمان جو ایک محترم مسلمان تھے بے گناہ مظلومیت کے ساتھ مارے گئے ان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کردیں آپ میرے پیشوا وحاکم ہیں اگر آپ کی کوئی مخالفت کرے گا تو ہمارے ہاتھ آپ کی مدد کریں گے اور ہماری زبانیں آپ کے لئے گواہی دیں گی اور اس صورت میں آپ پر کوئی ذمہ داری نہ ہوگی۔

امام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا صرف یہ فرمایا،کہ کل آنا اور اپنے خط کا جواب لے لینا دوسرے دن ابومسلم اپنے خط کا جواب لینے امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو دیکھا کہ بہت بڑا مجمع مسجد کو فہ میں ہے اور سب کے سب اسلحوں سے مسلح ہیں اور یہ نعرہ لگارہے ہیں ، ہم عثمان کے قاتل ہیں ابومسلم نے یہ منظر دیکھا اور امام علیہ السلام کی خدمت میں جواب کے لئے گیا اور امام سے کہا

میں نے ان لوگوں کو دیکھا کیا یہ آپ کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں ؟ امام نے کہا : تم نے کیا دیکھا؟ ابومسلم نے کہا: ایک گروہ تک یہ خبر پہونچی ہے کہ آپ عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کرنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سب جمع ہوگئے ہیں اور مسلح ہوگئے ہیں اور نعرہ لگارہے ہیں کہ سب کے سب عثمان کے قتل میں شریک ہیں، علی علیہ ا لسلام نے فرمایا:

۵۱۳

خدا کی قسم ! میں نے ایک لمحے کے لئے بھی یہ ارادہ نہیں کیا کہ ان لوگوں کوتمہارے حوالے کروں ،میں نے اس سلسلے میں بہت زیادہ تحقیق کی ہے اوراس نتیجے پر پہنچا کہ یہ صحیح نہیں ہے کہ ان لوگوں کو تمہارے یا تمہارے علاوہ کسی کے حوالے کروں۔(۱)

یہ واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اس زمانے میں عثمان کے قاتلین اہم حیثیت کے مالک تھے اور ان لوگوں کو کسی کے حوالے کرنا ایک عظیم خونی جنگ کو دعوت دینے کے برابر تھا۔

لوگوں کا یہ اجتماع ایک فطری امر تھا ورنہ امام علیہ السلام ابو مسلم خولانی کے سوال کا جواب دینے میں لاعلمی کا اظہا ر نہیں کرتے ، یہ ابومسلم کی سادگی تھی کہ اس نے بھرے مجمع میں اپنے آنے کا سبب بیان کردیا اور یہ خبر دھیرے دھیرے سب تک پہونچ گئی جس کی وجہ سے انقلابی لوگ جو خلیفہ سوم کے حاکموں کے ظلم وستم سے تنگ آگئے تھے اسی وجہ سے انہیں قتل کیا تھا، آپس میں متحد ہوگئے ،اور اگر امام علیہ السلام نے کہا کہ ہم نے اس مسئلے کی تحقیق کی ہے کہ کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے کہ ان لوگوں کو شامیوں یا کسی اور کے حوالے کریں تو وہ اسی وجہ سے تھا کہ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں فیصلہ کرنا تمام لوگوں کے اندر اشتعال کا باعث بن جاتا ۔

اس کے علاوہ قصاص (خون کا بدلہ ) کی درخواست کرنا مرنے والے کے ولی کا حق ہوتاہے اور وہ عثمان کے بیٹے تھے نہ کہ معاویہ ،جو اس کا بہت دور کا رشتہ دار تھا اس نے عثمان کے قتل کو حکومت تک پہنچنے کا ایک بہانہ بنایا تھا۔

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص۸۵،۸۶، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵اص ۷۵،۷۴

۵۱۴

چودہویں فصل

جنگ صفین کے لئے امام کی فوج کی آمادگی

نخلیہ میں امام کی فوج کی پیش قدمی

ابو سفیان کے بیٹے کی وقت برباد کرنے والی سیاست کا خاتمہ ہوا اور خط اور عظیم شخصیتوں کو روانہ کرکے وہ جس مقصدکو حاصل کرنا چاہتاتھا حاصل کرلیا، اس عرصے میں اس نے اپنی فوج کو خوب مضبوط کرلیااور اپنے جاسوسوں کو چاروں طرف روانہ کردیاتاکہ امام علیہ السلام کے بعض حاکموں کو دھوکہ دیں اور آپ کی فوج کے اندر پھوٹ ڈال دیں ۔امام علیہ السلام ۲۵ ذی الحجہ ۳۵ہجری کو رسول خدا (ص)کی طرف سے منصوص خلافت کے علاوہ ظاہری خلافت پر بھی فائز ہوئے(۱) اور تمام مہاجرین و انصار نے آپ کے ہاتھ پر بعنوان خلیفہ مسلمین بیعت کی، آپ نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی سبرہ جہمی نامی قاصد کے ہمراہ معاویہ کو خط بھیجا کہ وہ مرکزی حکومت کی اطاعت کرے لیکن اس نے سوائے خود خواہی،خود غرضی،ڈرانے دھمکانے، رعب و دبدبہ، خطوط کے روانہ کرنے اور تہمت لگانے اور قاصد کو بھیجنے اور حضرت علی علیہ السلام کو معطل کرنے کے کچھ نہیں کیا اب وہ وقت آچکا تھا کہ امام علیہ السلام ابو مسلم خولانی کے توسط سے آئے ہوئے خط کا جواب دے کر جنگ کریں اوراس شجرۂ خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں، اسی وجہ سے آپ نے شوال ۳۶ء کے اوائل میں فوج روانہ کرنے کا ارادہ کیااور اس کے پہلے مہاجرین وانصار کو بلایا اور اس آیت کے حکم کے مطابق'' وشاورھم فی الأمر' ' ان کے بزرگوں سے جو آپ کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے اور آپ کے ہمراہ تھے اس طرح فرمایا :

''انکم میامین الرّأی، مراجیح الحلم، مقاویل بالحق، مبارکو الفعل والأمرِ، وقدأردنا المسیر اِلیٰ عَدوِّنا وَعدوِّ کم فأ شیروالیناٰ برأیکم'' (۲)

تم لوگ بہترین رائے و مشورہ کرنے والے، بردبار و حلیم، حق کہنے والے،اور ہمارے معاشرے

_______________________________

(۱) تاریخ طبری ج۴ص۴۵۷۔تاریخ یعقوبی.ج۲ص۱۷۸ مطبوعہ بیروت.

(۲)۔ وقعہ صفین ص ۹۲

۵۱۵

کے بہترین و صاحب کردار ہو، ہم لوگ اپنے اور تمھارے دشمن کی طرف بڑھناچاہتے ہیں تم لوگ اس سلسلے میں اپنا نظریہ بیان کرو۔

مہاجرین کے گروہ میں سے ہاشم بن عتبہ بن ابی وقّاص اٹھا اور کہنے لگا:

اے امیرالمومنین ، ہم لوگ ابوسفیان کے خاندان کو بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں وہ آپ اور آپ کے شیعوں کے دشمن اور دنیا پرستوں کے دوست ہیں، اور حصول دنیا کے لئے اپنی پوری قوت و طاقت کے ساتھ اس سے آپ کے خلاف آپ سے جنگ کریں گے اس سلسلے میں وہ کسی بھی چیز سے دریغ نہیں کریں گے اس کے علاوہ ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہے ۔ ان لوگوں نے سیدھے سادھے لوگوں کو بہکانے کے لئے عثمان کے خون کا بہانہ بنایا ہے۔ وہ لوگ جھوٹے ہیں اور اس کے خون کا بدلہ نہیں لینا چاہتے تھے بلکہ وہ دنیا چاہتے تھے ہم لوگوں کو اجازت دیں کہ ان کے مقابلے کے لئے جائیں اور اگر ان لوگوں نے حق کی باتیں مان لیں توکوئی بات نہیں ، لیکن اگر تفرقہ اور جنگ کرنے کے خواہاں ہوئے اور میرا گمان بھی یہی ہے کہ وہ لوگ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں چاہتے تو ہمیں چاہیے کہ ان کے ساتھ جنگ کریں۔اس وقت مہاجرین میں سے ایک اور عظیم شخصیت اٹھی جس کے بارے میں پیغمبر نے فرمایا ہے''عمار مع الحقِّ والحقّ مع عّمار یدورمعه حیث مادار'' (۱)

اے امیر المومنین : اگر ممکن ہوتو ایک دن بھی دیر نہ کریں ہم لوگوں کو ان کی طرف روانہ کریںاور قبل اس کے کہ وہ فاسد لوگ جنگ کی آگ روشن کریں اور مقابلہ کرنے کی تیاری اور حق سے جدائی کا ارادہ کریں، ان لوگوں کو جس میں ان کے لئے سعادت ہے ا سکی طرف دعوت دیں اگر ان لوگوں نے قبول کرلیا تو ٹھیک ہے اور اگر مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ ہوئے تو ان کے ساتھ جنگ کریں خدا کی قسم ان لوگوں کا خون بہانااور ان لوگوں کے ساتھ جہاد کرنا خداکا قرب اور اس کی طرف سے ہمارے لئے لطف وکرم ہے۔

مہاجرین کے ان دو اہم افراد کی تقریر نے کچھ حد تک زمینہ فراہم کیا۔ اب وقت تھاکہ انصار کی طرف سے بھی عظیم شخصیتیں اس سلسلے میں اپنا نظریہ پیش کریں ۔ اس وقت قیس بن سعد بن عبادہ نے کہا : ہمیں جلد سے جلد دشمن کی طرف روانہ کریں خدا کی قسم، ہمارے لئے ان کے ساتھ جنگ کرنا روم کے

_______________________________

(۱)طبقات ابن سعد ،ج،۳۔ص ۱۸۷ (مطبوعہ لیدن)

۵۱۶

ساتھ جہاد کرنے سے بہتر ہے، کیونکہ یہ لوگ اپنے دین میں مکروفریب کررہے ہیں اور خدا کے اولیائ(مہاجرین وانصار ) اور وہ لوگ جوان کے ساتھ نیکی کرتے ہیں انہیں ذلیل و خوار سمجھتے ہیں وہ لوگ ہمارے مال کو حلال اور ہمیں اپنا غلام سمجھتے ہیں ۔

جب قیس کی گفتگو ختم ہوئی تو خزیمہ بن ثابت اور ابو ایوب انصاری اس کے جلد بازی کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بہتر تھا کہ تھوڑا صبر کرتے تاکہ تم سے بزرگ لوگ اپنا نظریہ پیش کرتے ، اس وقت انصار کے سرداروں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا تم لوگ اٹھو اور امام علیہ السلام کے سامنے اپنے نظریہ کا اظہار کرو،

سہل بن حنیف ،جو انصار کی عظیم شخصیت تھی اس نے کہا:اے امیر المومنین : ہم آپ کے اور آپ کے دوستوں کے دوست اور آپ کے دشمنوں کے دشمن ہیں ، ہمارا نظریہ آپ کا نظریہ ہے ہم لوگ آپ کا داہنا بازو ہیں، لیکن ضروری ہے کہ یہ کام کوفہ کے لوگوں کے لئے انجام دیجئے اور ان لوگوں کو جنگ کرنے کی دعوت دیجئیے اور جو فضیلتیں انہیں نصیب ہوئی ہیں ان سے انہیں باخبر کیجئے چاہے وہ لوگ اس سرزمین اوریہاں کے لوگ سمجھے جائیں ، اگر وہ لوگ آپ کی آواز پر لبیک کہیں تو آپ کا مقصد پورا ہوجائے گا، ہم لوگ ذرہ برابر بھی آپ کے نظریہ کے خلاف نہیں ہیں آپ جب بھی ہمیں بلائیں گے ہم حاضر ہوں گے اور جب بھی کوئی حکم دیں گے اس پر عمل کریں گے۔(۱)

سہل کی گفتگو اس کے کامل العقل ہونے کی حکایت کرتی ہے، کیونکہ اگرچہ مہاجرین و انصار امام علیہ السلام کے ہمرکاب تھے اور اسلامی امت کی عظیم شخصیت شمار ہوتے تھے اوران لوگوں کا اتحاد معاشرہ کی بیداری میں بہترین اثر رکھتا تھا لیکن فی الحال امام علیہ السلام کا لشکر عراقی افراد نے تشکیل دیا تھا اور ان کے درمیان قبیلوں کے بزرگ تھے بغیر ان کے اعلان کئے ایک لاکھ کا لشکر جمع کرنا ممکن نہ تھا لیکن امام علیہ السلام نے سب سے پہلے مہاجرین و انصار سے کیوں مشورہ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ امام علیہ السلام کی حکومت کے بانی اور تمام مسلمانوں کی توجہ کا مرکز تھے اور بغیر ان کو اپنائے ہوئے عراقیوں کو اپنی طرف مائل کرنا ممکن نہ تھا۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۹۳،۹۲

۵۱۷

امام علیہ السلام کی تقریر

امام علیہ السلام نے سہل کے مشورہ کے بعداپنے خصوصی مشاورتی جلسہ کو ایک عظیم اجتماع میں تبدیل کردیا۔ اس عظیم اجتماع میں اکثر افراد شریک تھے منبر پر تشریف لے گئے اور با آواز بلند فرمایا:

''سیروا اِ لیٰ اعدائِ اللّه ، سیروا اِلیٰ اعدائِ السنن والقرآن، سیروا اِلیٰ بقیة الاحزاب، قتلةِ المهاجرین والانصار''

خدا کے دشمنوں کی طرف حرکت کرو ، قرآن اور پیغمبر کی سنتوں کے دشمنوں کی طرف حرکت کرو اور، بقیہ بچے ہوئے (احزاب) اور مہاجرین و انصار کے قاتلوں کی طرف حرکت کرو۔

اس وقت قبیلہ بنی فزار کے اربد نامی شخص نے اٹھ کر کہا:

آپ چاہتے ہیںکہ ہم لوگوں کو شام روانہ کریں تاکہ اپنے بھائیوں کے ساتھ جنگ کریں جس طرح بصرہ بھیجا تھا اور ہم نے اپنے بصری بھائیوں کے ساتھ جنگ کی؟ نہیں ، خدا کی قسم ہم ایسا کام انجام نہیں دیں گے۔

اس وقت مالک اشتر کھڑے ہوئے اور پوچھا یہ کون شخص ہے؟ جیسے ہی مالک اشتر کے منہ سے یہ جملہ نکلا سب کے سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور وہ لوگوں کے حملہ کے خوف سے فرار ہوگیا اور مال بیچنے والوں کے بازار میں پناہ لے لی اور لوگ طوفان کی طرح اس کا پیچھا کرنے لگے اور اسے تلوار کے غلاف، ہاتھ پیر سے اتنا مارا کہ وہ مرگیا، جب اس کی موت کی خبر امام علیہ السلام کو ملی تو آپ بہت ناراض ہوئے کیونکہ اس کی گستاخی کی سزا یہ نہیں تھی کہ اسے اس طرح قتل کردیا جائے ، اسلامی عدالت کا تقاضا یہ تھا کہ اس کے قاتل کے بارے میں تحقیق وجستجو کی جائے اور اس تحقیق کا نتیجہ یہ معلوم ہوا کہ وہ '' ہمدان'' قبیلہ اور کچھ لوگوں کے ذریعہ قتل ہوا ہے اور اس کا کوئی ایک قاتل نہیں ہے امام علیہ السلام نے فرمایا : یہ اندھا قتل ہے کہ اس کے قاتل کی خبر نہیں ہے لہٰذا اس کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے اور آپ نے ایسا ہی کیا۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعہ صفین۔ص۹۵،۹۴

۵۱۸

مالک اشتر کی تقریر

یہ غیر متوقع واقعہ امام علیہ السلام کی ناراضگی کا سبب بنا اگرچہ آپ نے حکم دیا کہ اس کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے مگر آپ کے چہرے پر ناراضگی کے اثرات نمایاں تھے، اسی وجہ سے امام علیہ السلام کے دلعزیز اور چاہنے والے مالک اشتر اٹھے اور خدا کی حمد وثناء کے بعد کہا:

اس واقعہ سے آپ پریشان نہ ہوں، اس بد بخت خیانت کارکی گفتگو آپ کو مدد و نصرت کرنے والوں سے مایوس نہ کرے، یہ سیلاب کی طرح امڈتا ہوا مجمع جو آپ دیکھ رہے ہیں سب کے سب آپ کے پیرو ہیں اور آپ کے علاوہ کسی اور چیز کو نہیں چاہتے اورآپ کے بعد زندہ نہیں رہنا چاہتے اگر ہمیں دشمنوں کی طرف بھیجنا چاہتے ہیں تو بھیج دیجیئے خدا کی قسم اگر کوئی شخص موت سے ڈرتا ہے تو اس سے نجات حاصل نہیں کرسکتا اور جو شخص زندگی چاہتا ہے اسے نہیں دی جائے گی اور ان لوگوں کے ساتھ بدبخت اور شقی شخص کے علاوہ کوئی دوسرا زندگی گزارنا نہیں چاہتا اور ہم لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک موت کی آغوش میں نہیں جاسکتا جب تک کہ اس کی موت کا وقت نہ آچکا ہو، کس طرح سے ہم ان لوگوں سے جنگ نہ کریں جنہیں آپ نے خدا اور قرآن اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دشمن اور مہاجرین وانصار کے قاتل کے طور پر بتایاہے؟ کل انہیں میں سے کچھ لوگوںنے (بصرہ میں ) مسلمانوں کے کچھ گروہ پر حملہ کر کے خدا کو غضبناک کیا تھا اور زمین ان کے برے کاموں کی وجہ سے تاریک ہوگئی تھی ان لوگوں نے اپنے آخرت کے حصے کو اس دنیا کے تھوڑے سے مال ودولت کے لئے بیچ دیا ، امام علیہ السلام مالک اشتر کی تقریر سننے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا:

'' الطریق مشترک والناسُ فی الحقِّ سوائ ومن ِ اجتهدَ رأیُهُ فی نصیحة العامّة ِ فله مانویٰ وقد قضیٰ ما علیه ''

یہ راستہ ، عمومی راستہ ہے او ر لوگ حق کے مقابلے میں برابر ہیں اور وہ شخص جو خود اپنی نظر ورائے سے معاشرے کے لئے اچھائی کرے تو خدا اس کی نیت کے مطابق اسے جزا دے گا اور وہ کام جو '' فزاری'' نے انجام دیا وہ ختم ہوگیا ۔(۱)

آپ اتنا کہہ کر منبر سے نیچے تشریف لائے اور اپنے گھر واپس چلے گئے۔

_______________________________

(۱) وقعہ صفین۔ص۹۵

۵۱۹

امام کے لشکر میں معاویہ کے نفوذ کے عوامل

فوجیوں اور لشکریوں کے اندراپنا اثرورسوخ پیدا کرنا،گروہ مخالف کے کمانڈروں کو درہم و دینار کے ذریعے خریدنا، بڑی طاقتوںکی بڑی پرانی روشن رہی ہے ابو سفیان کا بیٹا اس فن میں ایک نابغہ اور ماہر تھا۔

ایک گروہ کی نظر میں سیاست کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی بھی صورت سے چاہے وہ شرعی اعتبار سے ہو یا غیر شرعی لحاظ سے اپنے مقصد تک پہونچ جائے اور ان لوگوں کا فلسفہ یہ ہے کہ مقصد اور ہدف ایک توجیہی وسیلہ ہے سادہ لوح افراد جن لوگوں نے معاویہ کی ظاہری کامیابی کو علی علیہ السلام سے زیادہ سمجھی تھی ان لوگوں نے امام علیہ السلام پر الزام لگایا کہ وہ سیاست کے رموز و اسرار سے واقف نہیں ہیں اور معاویہ ان سے زیادہ سیاسی سوج بوج رکھتا ہے اسی وجہ سے امام علیہ السلام اسلامی سیاست کے تمام اصول و قوانین سے بے بہرہ تنقید کرنے والوں کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :

'' واللّهِ ما معاویةُ بأدهیٰ منّی ولکنّه یغدرُ ویفجرُ ولولا کراهیةُ الغدر لکنتُ من أدهیٰ الناس ولکنَّ کلَّ غدرِةٍ فجرة وکلَّ فجرةٍ ضلالة ولکلِ غادِرٍ لوائُ یعرفُ به یوم القیامة'' (۱)

''خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ سیاست مدار نہیں ہے لیکن وہ دھوکہ کرتاہے اور گناہ کرتاہے اور اگر دھوکہ بازی اور حیلہ گری میں کراہت نہ ہوتی تومیں لوگوں میں سب سے زیادہ سیاست مدار ہوتا، لیکن ہر طرح کی چالبازی اور فریب گناہ ہے اور ہرگناہ ایک قسم کا کفر ہے اور قیامت کے دن ہر دھوکہ باز کے ہاتھ میں ایک مخصوص قسم کا پرچم ہوگا جس کے ذریعہ سے وہ پہچان لیا جائے گا''۔

اس بنا پر کہ ہماری گفتگو دلیل یا شاہد سے خالی نہ ہو معاویہ کی چالبازیوں اور مکاریوں کے چند نمونوں کو یہاں پر بیان کررہے ہیں جن کے ذریعہ سے اس نے امام علیہ السلام کی فوج میں نفوذ پیدا کیا تھا ۔

معاویہ کے خلاف جنگ کرنے کے سلسلے میں جو امام علیہ السلام کی تقریر کا اثر ہوا اس کی توصیف ممکن

_______________________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۹۵

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809