فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)4%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362205 / ڈاؤنلوڈ: 6022
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

معاویہ کے خطوط اسلامی شخصیتوں کے نام

معاویہ نے جنگ صفین پر روانہ ہونے سے پہلے عمرو عاص سے کہا میں چاہتا ہوں تین لوگوں کو خط لکھوں او ران لوگوں کو علی کے خلاف برانگیختہ کروں وہ تین آدمی یہ ہیں عبد اللہ بن عمر، سعد بن وقاص ، محمد بن مسلمہ۔

معاویہ کے مشاورنے اس کے نظریہ کو قبول نہیں کیا اور اس سے کہا یہ تینوں افراد تین حالتوں سے

خالی نہیں ہیںیا علی کے چاہنے والے ہیںاس صورت میں تمہارا خط باعث بنے گا کہ راہ علی پر باقی رہنے میں ان لوگوں کا ارادہ ٹھوس ہو جائے یا عثمان کے چاہنے والے ہیں اس صورت میں ان کے استحکام میں اضافہ نہیں ہو گا اور اگر وہ لوگ کسی بھی طرف نہیں ہیں تو ہرگز تم ان لوگوں کی نظر میں علی سے زیادہ مورد اعتماد نہیں ہو۔ اس لئے تمہارے خط کا اثر ان لوگوں پر نہیں

۵۰۱

پڑے گا۔(۱)

معاویہ نے اپنے مشاور کے نظریہ کو قبول نہیں کیا اور اپنی اور عمرو عاص کی دستخط کے ساتھ ایک خط عبد اللہ ابن عمر کو لکھا جس کی عبارت یہ تھی:

''حقائق اگر ہم پر پوشیدہ ہوں تو تم پر پوشیدہ نہیں ہیں، عثمان کو علی نے قتل کیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کے قاتلوں کو امان دی ہے ،ہم عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتے ہیں تاکہ حکم قرآن کے مطابق انہیں قتل کریں اور اگر علی عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کردیں تو ہم ان سے کوئی مطالبہ نہیں کریں گے اور اس وقت خلافت کے مسئلہ کو عمر بن خطاب کی طرح مسلمانوں کے درمیان شوری میں پیش کریں گے ہم ہرگز نہ خلافت کے طلبگار تھے او رنہ ہیں تم سے بس گذارش یہ ہے کہ قیام کرو او رہماری اس راہ میں مدد کرو، اگر ہم اور تم آپس میں متحد ہوگئے تو علی مرعوب ہو جائیں گے اور پھر اپنے ارادے سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔(۲)

عبد اللہ بن عمر کا جواب

اپنی جان کی قسم، تم دونوںنے اپنی بصیرت اور حقیقت شناسی کو اپنے ہاتھوں سے کھودیا ہے اور حوادث کو فقط دور سے دیکھ رہے ہو اور تمہارے خط نے شک کرنے والوں کے شک و تردید میں اضافہ کردیا ہے تم لوگوںکا خلافت سے کیا ربط؟ معاویہ تم طلیق و آزاد شدہ ہو او رعمرو تم ایک متہم شخص او رغیر قابل اعتماد ہو، اس کام سے باز آجاؤ میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔(۳)

عبد اللہ بن عمر نے جو خط معاویہ کو لکھا اس نے عمرو عاص کی مردم شناسی اور دور اندیشی کو ثابت کردیااور یہ بھی واضح کردیا کہ معاویہ اپنے قدیمی حریف کے کاموں تک نہیں پہونچ سکا ہے اور اگر بعض سیاسی مسئلوں میں برتری رکھتا ہے(مثلاً کشادہ دلی کے ساتھ مخالف کی بات سنتااو راگر اس کے سامنے آتا تو گذشتہ کونظر انداز کردیتا، اور اگر گفتگو ایک طرف ہو جاتی تو فوراً گفتگو کا عنوان بدل دیتا اور بحث کے اصل موضوع کو دوسرے انداز سے شروع کرتا) اس کے باوجود ابھی پورا مردم شناس نہیں ہورہے۔

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۸۹۔ ۸۸۔----(۲) وقعۂ صفین، ص ۶۳، ابن قتیبہ کے نظریہ کے مطابق اس خط کو معاویہ نے اہل مکہ او رمدینہ کے لئے لکھاتھا ۔ الامامة و السیاسة ص ۸۹۔----(۳)وقعة صفین ص۶۳،لیکن ابن قتیبہ نے معاویہ کے جواب میں ایک دوسرے خط کا ذکر کیا ہے،الامامة والسیاسةص۹۰۔۸۹

۵۰۲

معاویہ کے خط لکھنے کا مقصد

معاویہ کا مختلف لوگوں کو خط لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ بعض شخصیتوں کو متوجہ کرے جو نہ موافقوں کی صف میں تھے نہ ہی مخالفوں کی صف میں ۔ یہ لوگ مکہ و مدینہ میںلائق احترام اور با اثر شخصیت کے حامل تھے اور ان کی نظر جذب کرنے کی وجہ سے دو شہروں میں مخالفت ایجاد کرنا تھا جو شوریٰ کے مرکزی افراد اور خلیفہ انتخاب کرنے میں ایک اہمیت رکھتے تھے۔

لیکن یہ لوگ ان لوگوں سے زیادہ عقلمند تھے جن لوگوں نے معاویہ سے دھوکہ کھایا اور اس کے ساتھ رہے لہٰذا دوسروں نے بھی، یعنی سعد وقاص اور محمد بن مسلمہ نے بھی عبد اللہ بن عمر کی طرح جواب دیا۔(۱)

نصر بن مزاحم نے کتاب ''وقعہ صفین'' میں معاویہ کا ایک دوسراخط نقل کیا ہے جواس نے عبد اللہ بن عمر کے نام لکھا تھا اور اس پر امام ـ کی مخالفت کرنے کا الزام لگایا ہے اور اس طرح چاہا کہ مخالفت کا بیج اس کے دل میں بودے اور پھر لکھتا ہے کہ میں خلافت کواپنے لئے نہیں چاہتا بلکہ تمہارے لئے چاہتا ہوں اوراگر تم نے بھی قبول نہیں کیا تو ضروری ہے کہ مسئلہ خلافت کو مسلمانوں کی شوریٰ میں بیان کیا جائے ۔

عبد اللہ بن عمر اگر چہ سادگی میں بہت مشہور تھا اس نے معاویہ کا خط پڑھ کر اس کو جواب دیاکہ تم نے لکھاہے کہ میں نے علی کی نکتہ چینی کی ہے اپنی جان کی قسم میں کہاں او رعلی کاسابقہ ایمان، ان کی ہجرت ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ان کی و رفعت ومنزلت اور مشرکوں کے مقابلے میں ان کی مقاومت کہاں؟ اگر میں نے ان کی موافقت نہیں کی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس حادثہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے کوئی حدیث نہیں

______________________

(۱) معاویہ کے اصل خط کو جو اس نے سعد بن ابی وقاص اور محمد بن مسلمہ انصاری کے نام لکھا تھا اور ان کے جواب کو ابن قتیبہ نے الامامة و السیاسة ص ۹۱۔ ۹۰۔ پر لکھا ہے۔

۵۰۳

آئی تھی لہذا ہم نے دونوں میں سے کسی کی طرف بھی رغبت کرنے سے پرہیز کیا۔(۱)

معاویہ کا خط سعد بن وقاص کے نام

معاویہ نے فاتح سرزمین ایران سعد وقاص کو خط لکھا:

عثمان کی مدد کے لئے بہترین لوگ قریش کی شوریٰ تھی، ان لوگوں نے اسے چنا اور دوسروں پر مقدم کیا، طلحہ و زبیر نے اس کی مدد کرنے میں جلدی کی اور وہ لوگ تمہاری شوری کے ہمراہی اور اسلام میں بھی تمہاری ہی طرح تھے ام المومنین (عائشہ) بھی اس کی مدد کے لئے گئیں تمہارے لئے بہتر نہیں ہے کہ ان لوگوں نے جس چیز کو پسند کیا ہے تم اسے ناپسند کرو اور جس چیز کو ان لوگوں نے اختیار کیا ہے تم اسے چھوڑ دو، ہمیں چاہیئے کہ ہم خلافت کو شوریٰ کے حوالے کردیں۔(۲)

سعد وقاص کا جواب

عمر بن خطاب نے ایسے افراد کو شوریٰ میں شامل کیا جن کے لئے خلافت جائز تھی، ہم سے زیادہ کوئی بھی خلافت کے لئے بہتر نہ تھا، مگر یہ کہ ہم اس کی خلافت پر راضی رہیں اگر ہم بافضیلت ہیں تو علی بھی اہل فضل میں سے ہیںجب کہ علی کے فضائل بہت زیادہ ہیں اور ہمارے فضائل اتنے نہیں ہیں اور اگر طلحہ و زبیر اپنے گھر میں خاموشی سے بیٹھتے تو بہتر تھا، خداوند عالم ام المومنین کو جوانھوں نے کام کیاہے معاف کردے۔(۳)

معاویہ نے کوشش کی تھی کہ شوریٰ کے تمام اراکین سے زیادہ خلیفۂ سوم کی فضیلت کو ثابت کرے، لیکن سعد وقاص نے اسے قبول نہیں کیا اور اس کی حاکمیت او رسب سے آگے بڑھنے کو شوریٰ کے اراکین کی رائے سے توجیہ کیا اور اسی کے ساتھ طلحہ و زبیر پر اعتراض بھی کیا۔

______________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۷۳۔ ۷۲۔

(۲) الامامة و السیاسة، ج۱ ص ۹۰ وقعۂ صفین، ص ۷۴۔

(۲) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۹۰، وقعۂ صفین ص ۷۷۔ ۷۵۔

۵۰۴

معاویہ کا خط محمد بن مسلمہ کے نام

معاویہ نے اس خط میں اسے انصار کے فارس(بہادر) سے تعبیر کیاہے او رخط کے آخر میں لکھتا ہے:

انصار جو تمہاری قوم ہے اس نے خدا کی نافرمانی کی ہے اور عثمان کو ذلیل کیاہے اور خدا تم سے اور ان لوگوں سے قیامت کے دن سوال کرے گا۔(۱)

مسلمہ کے بیٹے نے ایک مقدمہ کے بعد جواب دیا:

تم دنیا کے علاوہ کسی چیز کو نہیں چاہتے اور خواہشات نفسانی کے علاوہ کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے، عثمان کی موت کے بعد اس کا دفاع کر رہے ہو لیکن اس کی زندگی میں اسے ذلیل و خوار کیا اور اس کی مدد نہیں کی۔(۲)

______________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۹۰، وقعۂ صفین ص ۷۷۔ ۷۵۔

(۲)الامامة والسیاسةج۱ص۹۰،وقعة صفین ص۷۷۔۷۵

۵۰۵

(۲) معاویہ کے خط کا مفہوم اور اس کا مقصد

معاویہ کے خط کا مفہوم مکمل طور سے اشتعال انگیز تھا اور معاویہ کی یہ کوشش تھی کہ لوگوں کو امام ـ کی مخالفت کے لئے برانگیختہ کردے، مثلاً عمر کے بیٹے کو خلافت پر قبضہ کرنے کے لئے بلایا کیونکہ وہ شوریٰ کا ناظر تھا، سعد وقاص چونکہ چھ نفری شوریٰ کا ممبر اور طلحہ و زبیر کے مثل تھا لہذا شوریٰ میں اس کے ممبر ہونے کا تذکرہ کیااور اسے طلحہ و زبیر کے راستے پر چلنے کی دعوت دی او رمحمد بن مسلمہ کو انصار کا شہسوار اور مہاجروں کو منظم کرنے والا قرار دیا او ر یاد دلایاکہ ان لوگوںنے عثمان کی مدد نہیں کی لہذا اس کا جبران کرنے کے لئے فوراً اٹھ جائیں اور اس کی مدد کریں۔

ان تمام خطوط سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معاویہ کا مقصد صرف اسلامی معاشرہ کودرہم برہم کر کے علی ـ کا مخالف بنانے کے علاوہ کچھ نہ تھا اور بنا بر فرض محال اگروہ عثمان کا ولی دم تھا تو یہ بات کوئی عقلمند انسان قبول نہیں کرے گا کہ ایک انسان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے تمام مسلمانوں کی جان جوکھم میں ڈال دے ۔

معاویہ کا اصرار تھا کہ خلیفہ کا انتخاب شوریٰ کے ذریعے ہو اور عمر کی شوریٰ کی تعداد چھ آدمیوں سے زیادہ نہ تھی، اگر شوریٰ کا انتخاب تکلیف دہ تھا تو مہاجرین وانصار کا متحد ہونا بدرجہ اولی الزام آور تھا سب لوگ اس سے باخبر ہیں کہ امام ـ مہاجرین و انصار کے ذریعے اس مقام پر منتخب ہوئے ہیں آپ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ لوگ جوق درجوق آپ کے پاس آئے اور بہت زیادہ اصرار کر کے آپ کو مسجد میں لے گئے اور پھر آپ کے ہاتھوں پر بیعت کی، اور چند لوگوں کے علاوہ کسی نے بھی آپ کی بیعت کی مخالفت نہیں کی۔

۵۰۶

اس کے علاوہ اگر مہاجرین و انصار نے عثمان کی مدد نہیں کی تو خود معاویہ نے بھی تو اس کی مدد نہیں کی جب کہ عثمان کے گھر کا محاصرہ بہت دنوں تک تھا اور وہ اس سے آگاہ بھی تھا اور وہ اپنی فوج کے ساتھ خلیفہ کی مدد کے لئے جاسکتا تھا، لیکن ہرگز اس نے ایسا نہیں کیا اور اس کے خون کو بہتا ہوا دیکھتا رہا۔

اس کے علاوہ خود عثمان نے شام کے لوگوں او روہاں کے حاکم معاویہ کے پاس خط لکھا اور ان سے مدد مانگی تھی یہاں تک کہ اپنے خط کے آخر میں یہ بھی لکھا تھا:

''فیاغوثاه و لا امیرُ علیکم دونی ، فالعجل العجل یا معاویة وادرک ثم ادرک و ما اراک تدرک'' (۱)

ان تمام چیزوں کے باوجود معاویہ نے ان خطوط کو نظر انداز کردیا اور اپنے خلیفہ کی بالکل بھی حمایت نہیں کی لیکن اس کی موت کے بعد اس کے خون کا بدلہ لینے کی فکر ہوگئی۔

مؤرخین نے عثمان کے دو طرح کے محاصروں کو لکھا ہے اور پہلے محاصرہ اوردوسرے محاصرے کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ تھا، بعض نے محاصرہ کی مدت ۴۹ دن بعض نے ۷۰ دن اور بعض نے ۴۰ دن اور بعض نے ۱ مہینے سے زیادہ لکھا ہے اس لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ عثمان کے محاصرے کی خبر معاویہ نے نہ سنی ہو، اور وہ پورے واقعہ سے بے خبر ہو۔

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ص ۳۸۔

۵۰۷

شام کا خطیب

ہر زمانے اورہر جگہ پر ایسے افراد موجود ہوتے ہیں کہ اپنا کھانا روزانہ کی قیمت سے کھاتے ہیں اور چاپلوسی اور جھوٹی تعریف کرنے والے صاحبان قدرت و ثروت کی خوشامد اور اور ان کیتعریفیں کیا کرتے ہیں اور حق کو ناحق، اور باطل کو حق دکھاتے ہیں لیکن تاریخ میں ایسے بھی افراد موجود ہیں جو حق و حقیقت کا کسی بھی چیز سے معاملہ نہیں کرتے اور ان کی زبانوں پر کلمہ حق کے علاوہ کچھ جاری نہیں ہوتا۔

قبیلہ ''طی'' کے لوگ جو مدینہ او رشام کے دو پہاڑوں کے درمیان زندگی بسر کر رہے تھے وہ سب کے سب خصوصاً عدی بن حاتم، علی ـ کے عاشق تھے۔ عدی امام ـ کی خدمت میں آئے اور کہا ہمارے قبیلہ کا ایک شخص ''خفاف'' اپنے چچازاد بھائی ''حابس'' کی ملاقات کے لئے شام جانے والاہے، خفاف بہترین خطیب و مقرر اور عمدہ شاعر ہے اگر آپ کی اجازت ہوتوہم اس سے کہیں کہ معاویہ سے ملاقات کرے اور مدینیاور عراق میں اپ کی جو شان و شوکت ہے اسے بیان کرکے، معاویہ او رشامیوں کا حوصلہ پست کرے، امام ـ نے عدی کی درخواست کو قبول کیا، خفاف شام کی طرف روانہ ہوا، اور اپنے چچازاد بھائی حابس کے پاس گیا اور اس سے کہا میں عثمان کے قتل کے وقت مدینہ میں موجود تھا پھر حضرت علی ـ کے ساتھ مدینہ سے کوفہ آیا ہوں اور تمام حالات سے باخبر ہوں دونوں چچازاد بھائیوں نے طے کیا کہ دوسرے دن معاویہ کے پاس جائیں او راسے تمام واقعات سے آگاہ کریں ، دوسرے دن دونوں بھائی معاویہ کے پاس گئے حابس نے اپنے بھائی کا تعارف کرایا اور کہا کہ وہ حادثہ ''یوم الدار'' اور عثمان کے قتل کے دن موجود تھا اور علی کے ساتھ کوفہ آیا ہے او راپنی بات میں مکمل یقین و اعتماد رکھتا ہے معاویہ نے خفاف سے کہا، عثمان کے واقعات سے مجھے آگاہ کرو، خفاف نے مختصر طور پر عثمان کے قتل کے واقعات کو اس طرح بیان کیا:

''مکشوح نے اس کا محاصرہ کیا اور حکیم نے حملہ کرنے کا حکم دیا، محمد بن ابوبکر او رعمار قتل کرنے میں شریک تھے اور تین آدمی عدی بن حاتم، مالک اشتر نخعی اور عمرو بن الحمق اس کارنامے میں بہت فعال تھے اسی طرح سے طلحہ و زبیر قتل کرنے میں بہت زیادہ کوشش کر رہے تھے، اور اس گروہ سے سب سے جدا رہنے والے علی ـ تھے جو عثمان کے قتل میںکسی طرح بھی شریک نہیں تھے۔

۵۰۸

معاویہ نے کہا: پھر اس کے بعد کیا ہوا؟

خفاف نے کہا: لوگ عثمان کے قتل کے بعد جب کہ ابھی اس کا جنازہ ایسے ہی زمین پر پڑا تھا پروانے کی طرح علی کے پاس اس طرح جمع ہوئے کہ جوتے گم ہوگئے اور ردائیں کاندھوں سے گر گئیں، بوڑھے لوگ مجمع میں دب گئے اور سب نے رہبر اور پیشوا کی حیثیت سے علی ـ کی بیعت کی، اور جب طلحہ و زبیر نے اپنی بیعت کو توڑ دیا تو امام ـ سفر کرنے کے لئے آمادہ ہوئے اور مہاجرین وانصار بہت تیزی کے ساتھ آپ کے ہمراہ چلنے کے لئے تیار ہوگئے، اس سفرسے تین لوگ، سعد بن مالک، عبد اللہ بن عمر، محمد بن مسلمہ بہت ناراض ہوئے اور تینوں افراد نے گوشہ نشینی اختیار کرلی، لیکن علی (علیہ السلام) پہلے گروہ کی وجہ سے ان تینوں سے بے نیاز ہوگئے امام ـ کا کاروان سرزمین ''طی'' پہونچااور میرے قبیلہ سے کچھ لوگ امام کے لشکر سے ملحق ہوئے، اور ابھی بصرہ کا آدھا ہی راستہ طے کیا تھا کہ طلحہ و زبیر کے بصرہ جانے کی خبر ملی، ایک گروہ کو کوفہ روانہ کیا اور ان لوگوں نے بھی ان کی دعوت کو قبول کیا او ربصرہ کی طرف روانہ ہوگئے، بصرہ پر حملہ ہوا اور شہر پر ان کا قبضہ ہوگیا پھر کوفہ کی فکر کی، اس شہر میں شور و غل مچ گیا، بچے محل کی طرف دوڑے او ربوڑھے او رنوجوان خوشی خوشی ان کی طرف دوڑ پڑے اس وقت وہ کوفہ میں ہیں اور شام پر قبضہ کرنے کے علاوہ کوئی اور فکر نہیں کر رہے ہیں، جب خفاف کی گفتگو ختم ہوئی تو معاویہ خوف کے مارے تھرتھر کانپنے لگا۔

اس وقت حابس نے معاویہ سے کہا: میرا چچازاد بھائی خفاف بہت اچھا شاعر ہے میری جب اس سے ملاقات ہوئی تھی تو اس نے بہت اچھا شعر پڑھا تھا اورعثمان کے متعلق میری نظر کو بدل ڈالا اور علی کی خوب تعریف کی، معاویہ نے کہا کہ وہ شعر جو تم نے اس کے لئے کہا تھا مجھے سناؤ اس نے وہ اشعار پڑھا، خفاف کا شعر سن کر معاویہ نے سخت لہجہ میں حابس سے کہا: میرے خیال سے یہ شخص علی کاجاسوس ہے جتنی جلدی ممکن ہو اس کو شام سے باہر کردو، لیکن معاویہ نے اسے دوبارہ اپنے پاس بلایا اور کہا: مجھے لوگوں کے کام وغیرہ سے آگاہ کرو، اس نے پھر وہی باتیں دہرائیں ، معاویہ ا س کی عاقلانہ باتیں سن کر حیرت میں ڈوب گیا۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۶۶۔ ۶۴، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۱۲۔ ۱۱۰۔

۵۰۹

صحابہ کے بیٹوں کا سہارا

ابو سفیان کا بیٹااس اما م سے مقابلہ کرنے کی کوشش میں تھا جس کا سبقت ایمان اور مشرکین کے ساتھ جہاد کرنا روشن وواضح تھا لہذا اس نے بعض صحابیوں اور ان کے بیٹوں کو اپنی طرف جذب کرکے اپنی شخصیت بنانی چاہی جب عبیداللہ ابن عمر حضرت علی کی حکومت سے بھاگ کر شام گیاکیونکہ حضرت ھرمزان کے قتل کی بنا پر اس سے قصاص چاہ رہے تھے اور معاویہ کو یہ خبر ملی تو وہ(۱) خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا لہٰذا اپنے مشاور اور عقل (عمروعاص) سے رابطہ کیا اور عبیداللہ کی آمد پر اسے مبارک باد دی اور اسے ملک شام کے اور اپنے پاس رہنے کا وسیلہ سمجھا(۲) پھر دونوں نے ارادہ کیا کہ اس سے درخواست کریں کہ لوگوں کے مجمع میں منبر پر جا کر علی کو برا بھلا کہے، جب عبیداللہ معاویہ کے پاس آیا تو معاویہ نے اس سے کہا اے میرے بھتیجے ،تمہارے باپ کا نام (عمر بن الخطاب) تمہارے اوپر لگا ہواہے خواب غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور مکمل آمادگی کے ساتھ گفتگو کرو، کیونکہ تم لوگوں کے درمیان قابل اعتماد ہو، منبر پر جاؤ علی کو برا بھلا کہو، گالی دو اور گواہی دو کہ عثمان کو علی نے قتل کیا ہے۔

زمام حکومت ایسے فتنہ پرور لوگوں کے ہاتھوں میں تھی جنہوںنے خلفاء کے بیٹوں کو برے اور بیہودہ کاموں کی ترغیب کرتے تھے تاکہ اس کے ذریعہ امام علیہ السلام کی عظمت کو گھٹادیں ،لیکن امام علیہ السلام کی رفعت وعظمت اتنی بلند تھی جس کا دشمن بھی منکر نہیں ہوسکتا ۔ عبیداللہ جوامام علیہ السلام کی عدالت کی وجہ سے بھاگ گیا تھا اس نے معاویہ سے کہا ، میں علی کو گالی نہیں دے سکتا اور ناسزا نہیں کہہ سکتا کیونکہ وہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم کے بیٹے ہیں ان کے نسب کے بارے میں میں کیا کہوں؟ ان کی جسمانی اور روحاحی طاقت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتاہے کہ وہ پچھاڑ دینے والے بہادر ہیں، میں عثمان کے قتل کا الزام ہی صرف ان کی گردن پر ڈال سکتاہوں ۔

عمرو عاص اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا:

خدا کی قسم، اس وقت زخم نمایاں ہوں گے(بھیجے باہر نکلیں گے) جب عبیداللہ وہاں سے چلا گیا تو

_______________________________

(۱) تاریخ طبری ج۳،جز۵ ص ۴۲،۴۱۔ کامل ابن اثیر ج ۳ص ۴۰

(۲) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۹۲

۵۱۰

معاویہ نے عمر وعاص سے کہا ،اگر وہ ہرمزان کو قتل نہ کرتا اور علی کے قصاص سے نہ ڈرتا تو ہماری طرف کبھی بھی نہ آتا کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اس نے علی کی کیسی تعریف کی؟

جی ہاں، عبیداللہ نے تقریر کی اور جب بات علی علیہ السلام تک پہونچی تو اس نے اپنی بات روک دی اور ان کے بارے میں کچھ نہ کہا اور منبر سے اتر گیا۔

معاویہ نے اس کے پاس پیغام بھیجا اورکہا: اے میرے بھتیجے ، علی کے بارے میں تمھاری خاموشی دو علتوں کی بناء پر تھی ناتوانی کی وجہ سے یا خیانت کی وجہ سے۔

اس نے معاویہ کو جواب دیا :میں نہیں چاہتا کہ ایسے شخص کے بارے میں گواہی دوں جو عثمان کے قتل میں شامل نہ تھا اور اگر میں گواہی دیتا تو لوگ ضرور قبول کرلیتے ،معاویہ اس کا جواب سن کر ناراض ہوا اور اسے نکال دیا اور اس کو کوئی مقام ومنصب نہیں دیا۔

عبیداللہ نے اپنے شعر میں کچھ ترمیم کرکے اس طرح بیان کیا کہ ،اگرچہ علی عثمان کے قتل میں شامل نہ تھے لیکن ان کے قاتلوں نے علی کے پاس پناہ لی اور انہوں نے نہ ان کے کام کو برا کہا اور نہ

ہی کہااور میں عثمان کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے توبہ کرلی تھی اور بعد میں قتل ہوئے۔(۱) عمرکے بیٹے کا معاویہ کے ساتھ اتنا ہی محبت سے پیش آنا کافی تھا اور اسی محبت کی وجہ سے اس کا دل جیت لیا اور اسے اپنے مقربین میں شامل کر لیا۔

_______________________________

(۱) واقعہ صفین : ص ۸۴،۸۲

۵۱۱

قاتلان عثمان کے کو سپرد کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا

معاویہ نے امام علیہ السلام کے خلاف جو لشکر جمع کیا اس کے لئے سب سے بڑا بہانہ یہ تھا کہ امام علیہ السلام عثمان کے قاتلوں کی حمایت کررہے ہیں۔

عثمان کے قتل کی علتیں تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکی ہیں یہاں پر جس چیز کا تذکرہ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہجوم کرنے والوں کی معاشرے میں شخصیت ایسی تھی کہ خود علی علیہ السلام ان لوگوں کو معاویہ کے حوالے نہیں کرسکتے تھے، یہ بات درست ہے کہ کچھ لوگوں نے عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا تھااور کچھ نے انہیں قتل کیا

تھا لیکن خلفاء کے اموی والیوں کے ظلم وستم کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں یہ گروہ اتنی اہمیت کا حمل ہوگیا تھا کہ ان کا معاویہ کے حوالے کرنا بہت بڑی مشکل کو دعوت دینا تھا، اس سلسلے میں ذیل کے واقعے پر توجہ فرمائیں۔

علی کے ساتھ جنگ کرنا آسان کام نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ یمن کا زاہد ابو مسلم خولانی جوکہ شام میں سکونت پذیر تھا، کو جب یہ خبر ملی کہ معاویہ علی کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو قاریوں کے گروہ کے ساتھ معاویہ کے پاس گیا اوراس سے پوچھا ،کیوں علی کے ساتھ جنگ کرنا چاہتے ہو جب کہ کسی بھی زاویہ سے تو ان کے برابر نہیں ہوسکتا؟ نہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ان کی جیسی مصاحبت تجھے نصیب ہے نہ تمہارے پاس سابقہ اسلام ہے، اور نہ ہی ہجرت اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خویشاوندی تمہیں حاصل ہے ، معاویہ نے ان لوگوں کے جواب میں کہامیں ہرگزاس بات کا دعویٰ نہیں کرتا کہ علی کی طرح میرے فضائل ہیں، لیکن میں تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ عثمان کا قتل بے گناہ ہوا ہے؟ ان لوگوں نے جواب دیا ہاں، پھر اس نے کہا علی عثمان کے قاتلوں کو میرے حوالے کردیں تاکہ میں ان سے عثمان کے خون کا بدلہ لوں ۔ ایسی صورت میں ہم ان سے جنگ نہیں کریں گے۔

۵۱۲

ابو مسلم اور اس کے ہمفکروں نے معاویہ سے درخواست کی کہ علی کے نام خط لکھے، معاویہ نے اس سلسلے میں خط لکھا اور ابومسلم کو دیا تاکہ وہ امام تک پہونچا دے ( ہم معاویہ کا خط اور امام علیہ السلام کا جواب بعد میں ذکر کریں گے)۔

ابو مسلم کوفہ میں داخل ہوا اور معاویہ کا خط علی علیہ السلام کے سپردکرکے کہا:

آپ نے ایسا کام اپنے ذمہ لیا ہے کہ خدا کی قسم مجھے ہرگز پسند نہیں کہ وہ آپ کے علاوہ کسی دوسرے کے ذمہ ہو لیکن عثمان جو ایک محترم مسلمان تھے بے گناہ مظلومیت کے ساتھ مارے گئے ان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کردیں آپ میرے پیشوا وحاکم ہیں اگر آپ کی کوئی مخالفت کرے گا تو ہمارے ہاتھ آپ کی مدد کریں گے اور ہماری زبانیں آپ کے لئے گواہی دیں گی اور اس صورت میں آپ پر کوئی ذمہ داری نہ ہوگی۔

امام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا صرف یہ فرمایا،کہ کل آنا اور اپنے خط کا جواب لے لینا دوسرے دن ابومسلم اپنے خط کا جواب لینے امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو دیکھا کہ بہت بڑا مجمع مسجد کو فہ میں ہے اور سب کے سب اسلحوں سے مسلح ہیں اور یہ نعرہ لگارہے ہیں ، ہم عثمان کے قاتل ہیں ابومسلم نے یہ منظر دیکھا اور امام علیہ السلام کی خدمت میں جواب کے لئے گیا اور امام سے کہا

میں نے ان لوگوں کو دیکھا کیا یہ آپ کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں ؟ امام نے کہا : تم نے کیا دیکھا؟ ابومسلم نے کہا: ایک گروہ تک یہ خبر پہونچی ہے کہ آپ عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کرنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سب جمع ہوگئے ہیں اور مسلح ہوگئے ہیں اور نعرہ لگارہے ہیں کہ سب کے سب عثمان کے قتل میں شریک ہیں، علی علیہ ا لسلام نے فرمایا:

۵۱۳

خدا کی قسم ! میں نے ایک لمحے کے لئے بھی یہ ارادہ نہیں کیا کہ ان لوگوں کوتمہارے حوالے کروں ،میں نے اس سلسلے میں بہت زیادہ تحقیق کی ہے اوراس نتیجے پر پہنچا کہ یہ صحیح نہیں ہے کہ ان لوگوں کو تمہارے یا تمہارے علاوہ کسی کے حوالے کروں۔(۱)

یہ واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اس زمانے میں عثمان کے قاتلین اہم حیثیت کے مالک تھے اور ان لوگوں کو کسی کے حوالے کرنا ایک عظیم خونی جنگ کو دعوت دینے کے برابر تھا۔

لوگوں کا یہ اجتماع ایک فطری امر تھا ورنہ امام علیہ السلام ابو مسلم خولانی کے سوال کا جواب دینے میں لاعلمی کا اظہا ر نہیں کرتے ، یہ ابومسلم کی سادگی تھی کہ اس نے بھرے مجمع میں اپنے آنے کا سبب بیان کردیا اور یہ خبر دھیرے دھیرے سب تک پہونچ گئی جس کی وجہ سے انقلابی لوگ جو خلیفہ سوم کے حاکموں کے ظلم وستم سے تنگ آگئے تھے اسی وجہ سے انہیں قتل کیا تھا، آپس میں متحد ہوگئے ،اور اگر امام علیہ السلام نے کہا کہ ہم نے اس مسئلے کی تحقیق کی ہے کہ کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے کہ ان لوگوں کو شامیوں یا کسی اور کے حوالے کریں تو وہ اسی وجہ سے تھا کہ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں فیصلہ کرنا تمام لوگوں کے اندر اشتعال کا باعث بن جاتا ۔

اس کے علاوہ قصاص (خون کا بدلہ ) کی درخواست کرنا مرنے والے کے ولی کا حق ہوتاہے اور وہ عثمان کے بیٹے تھے نہ کہ معاویہ ،جو اس کا بہت دور کا رشتہ دار تھا اس نے عثمان کے قتل کو حکومت تک پہنچنے کا ایک بہانہ بنایا تھا۔

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص۸۵،۸۶، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵اص ۷۵،۷۴

۵۱۴

چودہویں فصل

جنگ صفین کے لئے امام کی فوج کی آمادگی

نخلیہ میں امام کی فوج کی پیش قدمی

ابو سفیان کے بیٹے کی وقت برباد کرنے والی سیاست کا خاتمہ ہوا اور خط اور عظیم شخصیتوں کو روانہ کرکے وہ جس مقصدکو حاصل کرنا چاہتاتھا حاصل کرلیا، اس عرصے میں اس نے اپنی فوج کو خوب مضبوط کرلیااور اپنے جاسوسوں کو چاروں طرف روانہ کردیاتاکہ امام علیہ السلام کے بعض حاکموں کو دھوکہ دیں اور آپ کی فوج کے اندر پھوٹ ڈال دیں ۔امام علیہ السلام ۲۵ ذی الحجہ ۳۵ہجری کو رسول خدا (ص)کی طرف سے منصوص خلافت کے علاوہ ظاہری خلافت پر بھی فائز ہوئے(۱) اور تمام مہاجرین و انصار نے آپ کے ہاتھ پر بعنوان خلیفہ مسلمین بیعت کی، آپ نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی سبرہ جہمی نامی قاصد کے ہمراہ معاویہ کو خط بھیجا کہ وہ مرکزی حکومت کی اطاعت کرے لیکن اس نے سوائے خود خواہی،خود غرضی،ڈرانے دھمکانے، رعب و دبدبہ، خطوط کے روانہ کرنے اور تہمت لگانے اور قاصد کو بھیجنے اور حضرت علی علیہ السلام کو معطل کرنے کے کچھ نہیں کیا اب وہ وقت آچکا تھا کہ امام علیہ السلام ابو مسلم خولانی کے توسط سے آئے ہوئے خط کا جواب دے کر جنگ کریں اوراس شجرۂ خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں، اسی وجہ سے آپ نے شوال ۳۶ء کے اوائل میں فوج روانہ کرنے کا ارادہ کیااور اس کے پہلے مہاجرین وانصار کو بلایا اور اس آیت کے حکم کے مطابق'' وشاورھم فی الأمر' ' ان کے بزرگوں سے جو آپ کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے اور آپ کے ہمراہ تھے اس طرح فرمایا :

''انکم میامین الرّأی، مراجیح الحلم، مقاویل بالحق، مبارکو الفعل والأمرِ، وقدأردنا المسیر اِلیٰ عَدوِّنا وَعدوِّ کم فأ شیروالیناٰ برأیکم'' (۲)

تم لوگ بہترین رائے و مشورہ کرنے والے، بردبار و حلیم، حق کہنے والے،اور ہمارے معاشرے

_______________________________

(۱) تاریخ طبری ج۴ص۴۵۷۔تاریخ یعقوبی.ج۲ص۱۷۸ مطبوعہ بیروت.

(۲)۔ وقعہ صفین ص ۹۲

۵۱۵

کے بہترین و صاحب کردار ہو، ہم لوگ اپنے اور تمھارے دشمن کی طرف بڑھناچاہتے ہیں تم لوگ اس سلسلے میں اپنا نظریہ بیان کرو۔

مہاجرین کے گروہ میں سے ہاشم بن عتبہ بن ابی وقّاص اٹھا اور کہنے لگا:

اے امیرالمومنین ، ہم لوگ ابوسفیان کے خاندان کو بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں وہ آپ اور آپ کے شیعوں کے دشمن اور دنیا پرستوں کے دوست ہیں، اور حصول دنیا کے لئے اپنی پوری قوت و طاقت کے ساتھ اس سے آپ کے خلاف آپ سے جنگ کریں گے اس سلسلے میں وہ کسی بھی چیز سے دریغ نہیں کریں گے اس کے علاوہ ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہے ۔ ان لوگوں نے سیدھے سادھے لوگوں کو بہکانے کے لئے عثمان کے خون کا بہانہ بنایا ہے۔ وہ لوگ جھوٹے ہیں اور اس کے خون کا بدلہ نہیں لینا چاہتے تھے بلکہ وہ دنیا چاہتے تھے ہم لوگوں کو اجازت دیں کہ ان کے مقابلے کے لئے جائیں اور اگر ان لوگوں نے حق کی باتیں مان لیں توکوئی بات نہیں ، لیکن اگر تفرقہ اور جنگ کرنے کے خواہاں ہوئے اور میرا گمان بھی یہی ہے کہ وہ لوگ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں چاہتے تو ہمیں چاہیے کہ ان کے ساتھ جنگ کریں۔اس وقت مہاجرین میں سے ایک اور عظیم شخصیت اٹھی جس کے بارے میں پیغمبر نے فرمایا ہے''عمار مع الحقِّ والحقّ مع عّمار یدورمعه حیث مادار'' (۱)

اے امیر المومنین : اگر ممکن ہوتو ایک دن بھی دیر نہ کریں ہم لوگوں کو ان کی طرف روانہ کریںاور قبل اس کے کہ وہ فاسد لوگ جنگ کی آگ روشن کریں اور مقابلہ کرنے کی تیاری اور حق سے جدائی کا ارادہ کریں، ان لوگوں کو جس میں ان کے لئے سعادت ہے ا سکی طرف دعوت دیں اگر ان لوگوں نے قبول کرلیا تو ٹھیک ہے اور اگر مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ ہوئے تو ان کے ساتھ جنگ کریں خدا کی قسم ان لوگوں کا خون بہانااور ان لوگوں کے ساتھ جہاد کرنا خداکا قرب اور اس کی طرف سے ہمارے لئے لطف وکرم ہے۔

مہاجرین کے ان دو اہم افراد کی تقریر نے کچھ حد تک زمینہ فراہم کیا۔ اب وقت تھاکہ انصار کی طرف سے بھی عظیم شخصیتیں اس سلسلے میں اپنا نظریہ پیش کریں ۔ اس وقت قیس بن سعد بن عبادہ نے کہا : ہمیں جلد سے جلد دشمن کی طرف روانہ کریں خدا کی قسم، ہمارے لئے ان کے ساتھ جنگ کرنا روم کے

_______________________________

(۱)طبقات ابن سعد ،ج،۳۔ص ۱۸۷ (مطبوعہ لیدن)

۵۱۶

ساتھ جہاد کرنے سے بہتر ہے، کیونکہ یہ لوگ اپنے دین میں مکروفریب کررہے ہیں اور خدا کے اولیائ(مہاجرین وانصار ) اور وہ لوگ جوان کے ساتھ نیکی کرتے ہیں انہیں ذلیل و خوار سمجھتے ہیں وہ لوگ ہمارے مال کو حلال اور ہمیں اپنا غلام سمجھتے ہیں ۔

جب قیس کی گفتگو ختم ہوئی تو خزیمہ بن ثابت اور ابو ایوب انصاری اس کے جلد بازی کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بہتر تھا کہ تھوڑا صبر کرتے تاکہ تم سے بزرگ لوگ اپنا نظریہ پیش کرتے ، اس وقت انصار کے سرداروں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا تم لوگ اٹھو اور امام علیہ السلام کے سامنے اپنے نظریہ کا اظہار کرو،

سہل بن حنیف ،جو انصار کی عظیم شخصیت تھی اس نے کہا:اے امیر المومنین : ہم آپ کے اور آپ کے دوستوں کے دوست اور آپ کے دشمنوں کے دشمن ہیں ، ہمارا نظریہ آپ کا نظریہ ہے ہم لوگ آپ کا داہنا بازو ہیں، لیکن ضروری ہے کہ یہ کام کوفہ کے لوگوں کے لئے انجام دیجئے اور ان لوگوں کو جنگ کرنے کی دعوت دیجئیے اور جو فضیلتیں انہیں نصیب ہوئی ہیں ان سے انہیں باخبر کیجئے چاہے وہ لوگ اس سرزمین اوریہاں کے لوگ سمجھے جائیں ، اگر وہ لوگ آپ کی آواز پر لبیک کہیں تو آپ کا مقصد پورا ہوجائے گا، ہم لوگ ذرہ برابر بھی آپ کے نظریہ کے خلاف نہیں ہیں آپ جب بھی ہمیں بلائیں گے ہم حاضر ہوں گے اور جب بھی کوئی حکم دیں گے اس پر عمل کریں گے۔(۱)

سہل کی گفتگو اس کے کامل العقل ہونے کی حکایت کرتی ہے، کیونکہ اگرچہ مہاجرین و انصار امام علیہ السلام کے ہمرکاب تھے اور اسلامی امت کی عظیم شخصیت شمار ہوتے تھے اوران لوگوں کا اتحاد معاشرہ کی بیداری میں بہترین اثر رکھتا تھا لیکن فی الحال امام علیہ السلام کا لشکر عراقی افراد نے تشکیل دیا تھا اور ان کے درمیان قبیلوں کے بزرگ تھے بغیر ان کے اعلان کئے ایک لاکھ کا لشکر جمع کرنا ممکن نہ تھا لیکن امام علیہ السلام نے سب سے پہلے مہاجرین و انصار سے کیوں مشورہ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ امام علیہ السلام کی حکومت کے بانی اور تمام مسلمانوں کی توجہ کا مرکز تھے اور بغیر ان کو اپنائے ہوئے عراقیوں کو اپنی طرف مائل کرنا ممکن نہ تھا۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۹۳،۹۲

۵۱۷

امام علیہ السلام کی تقریر

امام علیہ السلام نے سہل کے مشورہ کے بعداپنے خصوصی مشاورتی جلسہ کو ایک عظیم اجتماع میں تبدیل کردیا۔ اس عظیم اجتماع میں اکثر افراد شریک تھے منبر پر تشریف لے گئے اور با آواز بلند فرمایا:

''سیروا اِ لیٰ اعدائِ اللّه ، سیروا اِلیٰ اعدائِ السنن والقرآن، سیروا اِلیٰ بقیة الاحزاب، قتلةِ المهاجرین والانصار''

خدا کے دشمنوں کی طرف حرکت کرو ، قرآن اور پیغمبر کی سنتوں کے دشمنوں کی طرف حرکت کرو اور، بقیہ بچے ہوئے (احزاب) اور مہاجرین و انصار کے قاتلوں کی طرف حرکت کرو۔

اس وقت قبیلہ بنی فزار کے اربد نامی شخص نے اٹھ کر کہا:

آپ چاہتے ہیںکہ ہم لوگوں کو شام روانہ کریں تاکہ اپنے بھائیوں کے ساتھ جنگ کریں جس طرح بصرہ بھیجا تھا اور ہم نے اپنے بصری بھائیوں کے ساتھ جنگ کی؟ نہیں ، خدا کی قسم ہم ایسا کام انجام نہیں دیں گے۔

اس وقت مالک اشتر کھڑے ہوئے اور پوچھا یہ کون شخص ہے؟ جیسے ہی مالک اشتر کے منہ سے یہ جملہ نکلا سب کے سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور وہ لوگوں کے حملہ کے خوف سے فرار ہوگیا اور مال بیچنے والوں کے بازار میں پناہ لے لی اور لوگ طوفان کی طرح اس کا پیچھا کرنے لگے اور اسے تلوار کے غلاف، ہاتھ پیر سے اتنا مارا کہ وہ مرگیا، جب اس کی موت کی خبر امام علیہ السلام کو ملی تو آپ بہت ناراض ہوئے کیونکہ اس کی گستاخی کی سزا یہ نہیں تھی کہ اسے اس طرح قتل کردیا جائے ، اسلامی عدالت کا تقاضا یہ تھا کہ اس کے قاتل کے بارے میں تحقیق وجستجو کی جائے اور اس تحقیق کا نتیجہ یہ معلوم ہوا کہ وہ '' ہمدان'' قبیلہ اور کچھ لوگوں کے ذریعہ قتل ہوا ہے اور اس کا کوئی ایک قاتل نہیں ہے امام علیہ السلام نے فرمایا : یہ اندھا قتل ہے کہ اس کے قاتل کی خبر نہیں ہے لہٰذا اس کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے اور آپ نے ایسا ہی کیا۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعہ صفین۔ص۹۵،۹۴

۵۱۸

مالک اشتر کی تقریر

یہ غیر متوقع واقعہ امام علیہ السلام کی ناراضگی کا سبب بنا اگرچہ آپ نے حکم دیا کہ اس کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے مگر آپ کے چہرے پر ناراضگی کے اثرات نمایاں تھے، اسی وجہ سے امام علیہ السلام کے دلعزیز اور چاہنے والے مالک اشتر اٹھے اور خدا کی حمد وثناء کے بعد کہا:

اس واقعہ سے آپ پریشان نہ ہوں، اس بد بخت خیانت کارکی گفتگو آپ کو مدد و نصرت کرنے والوں سے مایوس نہ کرے، یہ سیلاب کی طرح امڈتا ہوا مجمع جو آپ دیکھ رہے ہیں سب کے سب آپ کے پیرو ہیں اور آپ کے علاوہ کسی اور چیز کو نہیں چاہتے اورآپ کے بعد زندہ نہیں رہنا چاہتے اگر ہمیں دشمنوں کی طرف بھیجنا چاہتے ہیں تو بھیج دیجیئے خدا کی قسم اگر کوئی شخص موت سے ڈرتا ہے تو اس سے نجات حاصل نہیں کرسکتا اور جو شخص زندگی چاہتا ہے اسے نہیں دی جائے گی اور ان لوگوں کے ساتھ بدبخت اور شقی شخص کے علاوہ کوئی دوسرا زندگی گزارنا نہیں چاہتا اور ہم لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک موت کی آغوش میں نہیں جاسکتا جب تک کہ اس کی موت کا وقت نہ آچکا ہو، کس طرح سے ہم ان لوگوں سے جنگ نہ کریں جنہیں آپ نے خدا اور قرآن اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دشمن اور مہاجرین وانصار کے قاتل کے طور پر بتایاہے؟ کل انہیں میں سے کچھ لوگوںنے (بصرہ میں ) مسلمانوں کے کچھ گروہ پر حملہ کر کے خدا کو غضبناک کیا تھا اور زمین ان کے برے کاموں کی وجہ سے تاریک ہوگئی تھی ان لوگوں نے اپنے آخرت کے حصے کو اس دنیا کے تھوڑے سے مال ودولت کے لئے بیچ دیا ، امام علیہ السلام مالک اشتر کی تقریر سننے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا:

'' الطریق مشترک والناسُ فی الحقِّ سوائ ومن ِ اجتهدَ رأیُهُ فی نصیحة العامّة ِ فله مانویٰ وقد قضیٰ ما علیه ''

یہ راستہ ، عمومی راستہ ہے او ر لوگ حق کے مقابلے میں برابر ہیں اور وہ شخص جو خود اپنی نظر ورائے سے معاشرے کے لئے اچھائی کرے تو خدا اس کی نیت کے مطابق اسے جزا دے گا اور وہ کام جو '' فزاری'' نے انجام دیا وہ ختم ہوگیا ۔(۱)

آپ اتنا کہہ کر منبر سے نیچے تشریف لائے اور اپنے گھر واپس چلے گئے۔

_______________________________

(۱) وقعہ صفین۔ص۹۵

۵۱۹

امام کے لشکر میں معاویہ کے نفوذ کے عوامل

فوجیوں اور لشکریوں کے اندراپنا اثرورسوخ پیدا کرنا،گروہ مخالف کے کمانڈروں کو درہم و دینار کے ذریعے خریدنا، بڑی طاقتوںکی بڑی پرانی روشن رہی ہے ابو سفیان کا بیٹا اس فن میں ایک نابغہ اور ماہر تھا۔

ایک گروہ کی نظر میں سیاست کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی بھی صورت سے چاہے وہ شرعی اعتبار سے ہو یا غیر شرعی لحاظ سے اپنے مقصد تک پہونچ جائے اور ان لوگوں کا فلسفہ یہ ہے کہ مقصد اور ہدف ایک توجیہی وسیلہ ہے سادہ لوح افراد جن لوگوں نے معاویہ کی ظاہری کامیابی کو علی علیہ السلام سے زیادہ سمجھی تھی ان لوگوں نے امام علیہ السلام پر الزام لگایا کہ وہ سیاست کے رموز و اسرار سے واقف نہیں ہیں اور معاویہ ان سے زیادہ سیاسی سوج بوج رکھتا ہے اسی وجہ سے امام علیہ السلام اسلامی سیاست کے تمام اصول و قوانین سے بے بہرہ تنقید کرنے والوں کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :

'' واللّهِ ما معاویةُ بأدهیٰ منّی ولکنّه یغدرُ ویفجرُ ولولا کراهیةُ الغدر لکنتُ من أدهیٰ الناس ولکنَّ کلَّ غدرِةٍ فجرة وکلَّ فجرةٍ ضلالة ولکلِ غادِرٍ لوائُ یعرفُ به یوم القیامة'' (۱)

''خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ سیاست مدار نہیں ہے لیکن وہ دھوکہ کرتاہے اور گناہ کرتاہے اور اگر دھوکہ بازی اور حیلہ گری میں کراہت نہ ہوتی تومیں لوگوں میں سب سے زیادہ سیاست مدار ہوتا، لیکن ہر طرح کی چالبازی اور فریب گناہ ہے اور ہرگناہ ایک قسم کا کفر ہے اور قیامت کے دن ہر دھوکہ باز کے ہاتھ میں ایک مخصوص قسم کا پرچم ہوگا جس کے ذریعہ سے وہ پہچان لیا جائے گا''۔

اس بنا پر کہ ہماری گفتگو دلیل یا شاہد سے خالی نہ ہو معاویہ کی چالبازیوں اور مکاریوں کے چند نمونوں کو یہاں پر بیان کررہے ہیں جن کے ذریعہ سے اس نے امام علیہ السلام کی فوج میں نفوذ پیدا کیا تھا ۔

معاویہ کے خلاف جنگ کرنے کے سلسلے میں جو امام علیہ السلام کی تقریر کا اثر ہوا اس کی توصیف ممکن

_______________________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۹۵

۵۲۰

نہیں ہے، یہاں تک کہ معاویہ کے عوامل نفوذی میں سے ایک بنام ''اربد'' امام علیہ السلام پر اعتراض کے سبب ، وہ بھی نازک وقت میں لوگوں کے لات وگھونسوں کا نشانہ بنا، اور اس کے قاتل کی پہچان نہ ہوسکی۔(۱)

اس حادثہ کا سبب یہ ہوا کہ دوسرے عوامل نفوذی اپنے امور کو انجام دینے سے باز آجائیں اور امام علیہ السلام کے ارادے کو سست کرنے اور رخنہ اندازی ڈالنے کے لئے کوئی دوسرا طریقہ اپنائیں تاکہ اس کے ذریعے سے امام علیہ السلام کو جنگ سے روک دیں اور یہ معلوم نہیں کہ کس گروہ کو نفع حاصل ہو ان کو ڈرائیں اسی وجہ سے رخنہ اندازی کرنے والوں میں ایک قبیلہ عبس (شایدغطفان کا باشندہ ) اور دوسرا قبیلہ بنی تمیم سے جن کے نام عبداللہ اور حنظلہ تھے ،نے ارادہ کیا کہ امام علیہ السلام کے دوستوں کے درمیان نظریاتی اختلاف پیدا کریں اور خیر خواہی اور نصیحت کا طریقہ اپنائیں لہٰذا دونوں نے اپنے قبیلے والوں کو اپنا ہم خیال بنالیا اور پھر امام علیہ السلام کے پاس آئے پہلے حنظلہ تمیمی نے کہا:

ہم لوگ خیر خواہی اور بھلائی کے لئے آپ کے پاس آئے ہیں امید ہے کہ آپ ہماری باتوں کو قبول کریں گے، ہم لوگ آپ کے اور ان لوگوں کے بارے میں جو آپ کے ساتھ ہیں سوچ رہے ہیں کہ اس مرد (معاویہ) سے خط وکتابت کریں اور شامیوں کے ساتھ جنگ کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لیں ۔ خدا کی قسم کوئی بھی نہیں جانتا کہ دونوں گروہوں کے درمیان مقابلے میں کون گروہ کامیاب ہوگا اور کس گروہ کو شکست ہو گی۔پھر عبید اللہ عبسی اٹھا اور حنظلہ کی طرح اس نے بھی گفتگو کی اور جو لوگ ان دونوں کے ساتھ آئے تھے ان لوگوں نے ان دونوں کی تائید کی ۔

امام علیہ السلام نے خدا کی حمد وثناء کے بعد ان لوگوں کے جواب میں فرمایا:

'' خداوند عالم انسانوں اور، اس سرزمین کا وارث ہے، آسمانوں اور ساتوں زمین کا پروردگار ہے ہم سب کے سب اسی کی بارگاہ میں پلٹ کر جائیں گے وہ جس شخص کو چاہتا ہے سرداری عطا کرتاہے، اور جس شخص سے چاہتاہے سرداری کو روک دیتا ہے، جس شخص کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس شخص کو چاہتا ہے

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص ۹۴

۵۲۱

ذلیل خوار کردیتا ہے دشمن کی طرف پشت کرنا گمراہوں اور گنہگاروں کا کام ہے اگرچہ ظاہری طور پر کامیابی اور غلبہ پاجائیں ۔ خدا کی قسم میں ایسے لوگوں کی باتیں سن رہا ہوں جو ہرگز اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ اچھائیوں کو پہچانیں اور برائیوں سے انکار کریں''(۱) امام علیہ السلام نے اپنے کلام کے ذریعے ان دونوں جاسوسوں کو جو لوگوں سے اپنے کوپوشیدہ رکھے ہوئے تھے اور ان لوگوں کی طرف سے گفتگو کررہے تھے ذلیل ورسوا کردیا اور واضح لفظوں میں فرمایا کہ معاویہ کے ساتھ جنگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک حصہ ہے اورکوئی بھی مسلمان اس وجوب سے انکار نہیں کرسکتا اور وہ لوگ جو ان لوگوں کو معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے روک رہے ہیں حقیقت میں وہ اسلام کے ان دو اصولوں کو پامال کررہے ہیں ۔

پردے فاش ہونے لگے

امیرالمومنین علیہ السلام کی گفتگو کا اثر یہ ہوا کہ حقیقت سب پر آشکار ہوگئی اور اسی مجمع میں دونوں جاسوس بے نقاب ہوگئے،لہٰذا معقل ریاحی نے اٹھ کر کہا، یہ گروہ خیر خواہی کے لئے آپ کی طرف نہیں آئے ہیں بلکہ آپ کو بہکانے کے لئے آئے ہیں ان سے دور رہئیے کیونکہ یہ لوگ آپ کے قریبی دشمن ہیں۔(۲) اسی طرح مالک نامی شخص اپنی جگہ سے اٹھا اور کہنے لگا: حنظلہ کی معاویہ سے خط وکتابت ہے آپ اجازت دیجیئے کہ جنگ شروع ہونے تک اسے قید کردوں ، قبیلہ عبس کے دوآدمی ، عیاش اور قائد نے کہا: خبر ملی ہے کہ عبداللہ کا معاویہ کے ساتھ رازونیاز ہے اور دونوں کے درمیان خط وکتابت ہوتی ہے آپ اسے قید کر لیجئے یا اجازت دیجیے کہ ہم لوگ اسے جنگ شروع ہونے تک قید رکھیں۔(۳) ان چار افراد کی حقیقت بیانی کا سبب یہ ہوا کہ جاسوس بے سرو پا ہو کر کہنے لگے: یہ اس شخص کی جزا ہے جو آپ کی مدد کے لئے آیا اور اپنے نظریہ کو آپ کے اور آپ کے دشمنوں کے بارے میں بیان کیا؟ امام علیہ السلام نے ان لوگوں کے جواب میں فرمایا : خدا وند عالم ہمارے اور تمہارے درمیان حاکم ہے میں تم لوگوں کو اس کے سپرد کررہاہوں اور اسی سے مدد حاصل کروں گا جو شخص جاناچاہتا ہے چلا جائے امام نے یہ بات کہی اور لوگ منتشر ہوگئے، چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ حنظلہ اور قبیلہ تمیم کے بزرگوں کے درمیان ایک

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص۹۶۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۷۵

(۲)،(۳) واقعہ صفین ص ۹۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۷۵

۵۲۲

جھڑپ ہوئی جس کی وجہ سے دونوں نفوذی عامل اپنے گروہ کے ساتھ عراق سے شام کی طرف روانہ ہوگئے اور معاویہ سے جاکر مل گئے، امام علیہ السلام نے حنظلہ کی خیانت کی وجہ سے حکم دیا کہ اس کے گھر کو ویران کردیا جائے تاکہ دوسروں کے لئے درس عبرت ہو۔(۱)

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۷۶۔وقعہ صفین ص ۹۷

۵۲۳

انتظار یا شام کی طرف روانگی

فوج کے تمام سپہ سالار او ر امام علیہ السلام کے چاہنے والے ابو سفیان کے بیٹے کو نیست ونابود کرنے کیلئے متفق تھے سوائے چند لوگوں کے مثلاً عبداللہ بن مسعود کے اصحاب جو خود اپناخاص نظریہ رکھتے تھے ( ان کے نظریات آئندہ بیان ہوں گے)

لیکن انہی افراد کے درمیان امام علیہ السلام کے مورد وثوق اور مخلص لوگ،مثلاً عدی بن حاتم ، زید بن حسین طائی تاخیر کے خواہاں تھے شاید خط وکتابت اور بحث ومباحثے کے ذریعے مشکل ختم ہوجائے ، لہٰذا عدی نے امام علیہ السلام سے کہا:اے امام! اگر مصلحت ہو تو تھوڑا صبر کیجیے اور ان لوگوں کو کچھ مہلت دیجئے تاکہ ان لوگوں کا جواب آجائے اور آپ کے بھیجے ہوئے افرادان سے گفتگو کریں اگر قبول کرلیا تو ہدایت پا جائیں گے اور دونوں کے لئے صلح بہتر ہے اور اگر اپنی کٹ حجتی پر اڑے رہے تو ہمیں ان سے مقابلے کے لئے لے چلئے۔

لیکن ان لوگوں کے مقابلے میں علی علیہ السلام کے لشکر کے اکثرسپہ سالار شام جانے کے لئے بیتاب تھے ان میں سے یزید بن قیس ارحبی ، زیاد بن نضر ، عبداللہ بن بدیل ، عمرو بن حمق(دوبزرگ صحابی) اورمعروف بابعی حُجر بن عدی بہت زیادہ اصرار کررہے تھے اور اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے ایسے نکات کی یاد دہانی کررہے تھے جو ان کے نظریہ کو صحیح ثابت کررہے تھے۔

مثلاً عبداللہ بن بدیل کا نظریہ یہ تھا :

وہ لوگ ہم سے دو چیزوں کی وجہ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں :

۵۲۴

۱۔ وہ لوگ مسلمانوں کے درمیان مساوات سے فرار کر رہے ہیں اور مال ودولت اور منصب میں

تبعیض کے قائل ہیں اور جو مقام ومنصب رکھتے ہیں اس میں بخل سے کام لیتے ہیں اور جس دنیا کو حاصل کرچکے ہیں اسے گنوانا نہیں چاہتے۔

۲۔ معاویہ ،علی علیہ السلام کے ہاتھ پر کس طرح بیعت کرے جب کہ امام علیہ السلام نے ایک ہی دن میں اس کے بھائی ،ماموں اور نانا کو جنگِ بدر میں قتل کیا ہے، خدا کی قسم مجھے امید نہیں ہے کہ وہ لوگ تسلیم ہوں گے مگر یہ کہ ان کے سروں پر نیزے ٹوٹیں اور تلواریں ان کے سروں کو پارہ پارہ کردیں اور لوہے کی سلاخیں ان کے سروں پر برس پڑیں۔

عبداللہ کی دلیلوں سے یہ بات واضح وروشن ہوتی ہے کہ شام کی طرف روانہ ہونے میں جتنی بھی تاخیر ہوگی اتنا ہی دشمن کو فائدہ اور امام علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو نقصان پہونچے گا ، لہٰذا امام کے ایک چاہنے والے ، یزید ارجی نے امام علیہ السلام سے کہا:

'' جنگ کرنے والے افراد سستی اور کاہلی سے کام نہیں لیتے اور جو کامیابی انہیں نصیب ہوتی ہے ہرگز اسے اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دیتے اوراس سلسلے میں آج اور کل پر بات نہیں ٹالتے(۱)

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۷۷۔وقعہ صفین ص ۱۰۲۔۹۸

۵۲۵

غیظ وغضب میں بردبار ی

اسی اثناء میں امام علیہ السلام کو خبر ملی کہ بزرگ صحابی عمروبن حمق اور حجر بن عدی شام والوں پر

لعنت وطعن کررہے ہیں(۱) امام علیہ السلام نے کسی کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو اس کام سے منع کرے وہ لوگ امام علیہ السلام کا پیغام سن کر امام علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور کہا: کیوں آپ نے ہمیں اس کام سے روکا؟ کیا وہ لوگ اہل باطل سے نہیں ہیں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: کیوں نہیں لیکن '' مجھے پسند نہیں ہے کہ تم لوگ لعنت کرنے والے او ربراکہنے والے بنو، گالی نہ دو اور نفرت نہ کرو اگر اس کی جگہ ان کی برائیوں کو بیان کرو توبہت زیادہ مؤثر ہوگا اور اگر لعنت اور ان سے بیزاری کرنے کے بجائے کہوکہ ، خدا یا ہمارے خون اور ان کے خون کی حفاظت فرما ۔ ہمارے اور ان کے درمیان صلح قراردے ، ان لوگوں کو گمراہی سے ہدایت عطا کرتاکہ جولوگ ہمارے فضائل وکمالات سے بے خبر ہیں اس سے وہ باخبر وآشنا ہوجائیں تو یہ میرے لئے

۵۲۶

خوشی کا باعث اور تمہارے حق میں بہتر ہوگا''(۱)

دونوں افراد نے امام علیہ السلام کی نصیحتوں کو قبول کرلیا اور عمروبن حمق نے امام علیہ السلام سے اپنی الفت ومحبت کو ان الفاظ میں بیان کیا:

'' میں نے رشتہ داری یا مال ومقام کی لالچ کے سبب آپ کے ہاتھوں پر بیعت نہیں کی ہے بلکہ بیعت کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے اندر ایسی پانچ اہم صفتیں ہیں جن کی وجہ سے میں نے آپ کی محبت کو اپنے اوپر فرض کیا ہے ،آپ پیغمبر (ص)کے چچا زادبھائی ہیں اور آپ ہی سب سے پہلے وہ شخص ہیں جو ان پر ایمان لائے ہیں اور آپ اس امت کی سب سے بہترین اور پاکیزہ عورت کے شوہر ہیں، آپ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت ِ طاہرہ کے باپ ہیں اور مہاجرین کے درمیان جہاد کرنے والوںمیں سب سے زیادہ اور عظیم حصہ آپ کا ہے ، خدا کی قسم اگر مجھے حکم دیں کہ بلند پہاڑوں کو اس کی جگہوں سے ہٹادوں اور دریا کے پانی کو ان سے نکالوں اور جہاں تک ممکن ہو آپ کے دوستوں کی مدد کروں اور آپ کے دشمنوں کو نابود کردوں تو بھی جو حق آپ کا میری گردن پر ہے میں اسے ادا نہیں کرسکتا۔

امیر المومنین علیہ السلام نے جب عمرو کے خلوص وجذبہ کا مشاہدہ کیا تو ان کے حق میں یہ دعا فرمائی''اللهم نوّر قلبه بالتقیٰ وأیدهُ الیٰ صراط مستقیم لیت أنَّ فِی جُندی مأةٍ مثلک فقال حُجر اِذاً واللّه یاأمیر المومنین صحّ جُندک و قلَّ من یَغشّیک '' (۲)

خدا اس کے قلب کو نورانی بنادے اور اسے سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرما کاش میری فوج میں تمہاری طرح کے سو افراد ہوتے۔حُجر نے کہا: اگر ایسا ہوتا ،توآپ کی فوج اصلاح کو قبول کرتی اور متقلّب (بدلنے والے) افراد اس میں بہت کم ہوتے۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۱۰۳،نہج البلاغہ،خطبہ ۱۹۷، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۸۱۔ اخبارالطوال ص ۱۵۵ تذکرہ الخواص ابن جوزی ص ۱۵۴ ۔ مصادر نہج البلاغہ ج۳ص۱۰۲

(۲)وقعہ صفین ص ۱۰۴۔۱۰۳

۵۲۷

امام علیہ السلام کا آخری فیصلہ

امام علیہ السلام اپنے موافقوں اور مخالفوں کی گفتگوؤں کو سننے کے بعد اس آیت '' وشاورھم فی الأمر فاذا غرمت فتوکل علی اللّہِ '' کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہونچے کہ خود کوئی قطعی فیصلہ کریں ۔ لہٰذا ہر کام سے پہلے یہ حکم دیا کہ جتنے بھی ذخیرے یا اضافی مال حاکموں کے پاس ہیں انہیں ایک جگہ جمع کیا جائے تاکہ فوج کو شام روانہ کرتے وقت ان کے اخراجات مہیا ہو سکیں ۔

جہاد اسلامی کے تین اہم رکن

جنگ اور قرآن کے مطابق '' جہاد'' یا ''قتال'' کے لئے بہت سے مقدمات ( چیزوں ) کی ضرورت ہوتی ہے جن میں سب سے اہم تین چیزیں ہیں۔

۱۔ بہترین وطاقتور اور بہادر جانباز وسپاہی ۔

۲۔ لائق اور عمدہ سپہ سالار۔

۳۔ اخراجات کا کافی مقدار میں ہونا۔

مختلف طرح سے آزمانے اور لوگوں کی طرف سے مستقل دعوت ناموں اور بہت زیادہ گروہوں مثلاً عراق کے بہت سے قبیلوں کا امام علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہنے نے ان تینوں اہم رکنوں میں سے پہلے رکن کو تو پورا کردیا ،اس بارے میں امام علیہ السلام کے لئے کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہ تھی لیکن ان کو اپنے ارادے پر باقی رکھنے کے لئے عظیم شخصیتوں مثلاً خود آپ کے بیٹوں امام حسن مجتبیٰ وحضرت حسین علیھما السلام اور ان کے باوفا اصحاب اسی طرح عماریاسروغیرہ نے مختلف موقعوں پر تقریریں کیں اور دوسرے رکن کی انجام دہی کے لئے امام علیہ السلام نے محترم اور عظیم شخصیتوں کے پاس خط لکھا اور ان لوگوں کوجنگ میں شریک ہونے کے لئے دعوت دی ، ان افراد کے وجود نے علاوہ اس کے کہ امام علیہ السلام کے لشکر کو معنویت اور جذبہ عطا کیا اورخود جہاد کو باحیثیت اور معنویت سے پُرکردیا لشکر کی طاقت میں بھی اضافہ کردیا ، یہاں پر ہم صرف امام علیہ السلام کے اس خط کا ترجمہ پیش کرنے پر اکتفا کریں گے جو آپ نے اصفہان کے حاکم مخنف بن سلیم کے نام لکھا ، خط کا مضمون یہ ہے:

۵۲۸

'' تجھ پر سلام : اس خدا کی حمد وثناء جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اما بعد، اس شخص سے جنگ کرنا عارفوں پر لازم ہے جس نے حق سے منہ موڑ رکھا ہے اور خواب غفلت کی وجہ سے اس کے دل اندھے اور گمراہی کے دلدل میں پھنس گئے ہیں۔

جو لوگ خداوند عالم کی مرضی پر راضی ہیں خدا ان سے راضی ہے اور جو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں خدا ان پر غضبناک ہوتاہے، ہم نے ارادہ کیاہے کہ اس گروہ کی طرف جائیں جو بندگان خدا کے بارے میں جس چیز کا خداوند عالم نے حکم دیا ہے اس کے خلاف عمل کرتاہے اور بیت المال کو اپنا مال سمجھ بیٹھا ہے اور حق کو پامال کرکے باطل کو ظاہر کردیا ہے اور خدا کی اطاعت نہ کرنے والوں کو اپنا راز دار بنالیا ہے اگر خدا کا کوئی ولی ومطیع ان بدعتوں کو بزرگ شمار کرتا ہے تو وہ لوگ اسے اپنا دشمن تصور کرتے ہیں اسے اس کے گھر اور علاقے سے باہر نکال دیتے ہیں اور اُسے بیت المال سے محروم کردیتے ہیں اوراگر کوئی ظالم ان کے ظلم میں شریک ہوتاہے تو وہ اسے اپنا دوست سمجھتے ہیں اور اُسے اپنا قریبی تصور کرتے ہیں اور اس کی دلجوئی کرتے ہیں، ان لوگوں نے بہت زیادہ ظلم وستم کیئے ہیں اور (شریعت کی ) مخالفت کا ارادہ کرلیا ہے بلکہ بہت دنوں سے اس کام کو انجام دے رہے ہیں تاکہ لوگوں کو حق سے دور کردیں اور ظلم وستم اور گناہوں کے پھیلانے میں ان کی مدد کریں ۔

جس وقت میرا خط تمہارے پاس پہونچے تم اپنے کاموں کو کسی مورد اعتماد شخص کے حوالے کرنا اور جلدی سے ہمارے پاس آنے کی کوشش کرنا شاید ان مکار اور دھوکے باز دشمنوں کا مقابلہ کرنا پڑے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا پڑے ہم جہاد کے ثواب میں تم سے بے نیاز نہیں ہیں''۔(۱)

جس وقت امام علیہ السلام کے منشی عبداللہ بن ابی رافع کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط اصفہان کے حاکم کے پاس پہونچا فوراً ہی اس نے اپنے دو قریبی ساتھیوں کو بلایا اور اصفہان کے تمام امور کو حارث بن ابی الحارث اور ہمدان کے تمام امور کو جو اس زمانے میں سیاسی اعتبار سے اصفہان کے زیر نظر تھا ،سعید بن وہب کے سپرد کیا ، اور امام کی خدمت کے لئے چل پڑا اور اسی طرح سے کہ جیسا کہ امام نے کہا تھا ( کہ ہم جہاد کے اجروثواب میں تم سے بے نیاز نہیں ہیں ) جنگ کے دوران

______________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۰۶۔۱۰۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۸۳۔۱۸۲

۵۲۹

شہادت پر فائز ہوگیا(۱)

یہی تنہا حاکم نہیں تھا جسے امام علیہ السلام نے جنگ کے لئے بلایا تھا بلکہ اسی سلسلے میں ذیقعدہ ۳۷ ھ میں ابن عباس کو خط لکھا کہ باقی بیت المال کو میرے حوالے کر دو لیکن جو لوگ تمہارے اطراف میں ہیں پہلے ان کی ضرورتوں کو پورا کرو اور بقیہ تمام مال کو کوفہ بھیج دو البتہ جنگ کے شرائط کو دیکھتے ہوئے صرف کوفہ کا بیت المال امام علیہ السلام کے لئے کافی نہ تھا جس کی وجہ سے دوسرے شہروں سے بھی مدد حاصل کی ہے(۲)

سپاہیوں کو حوصلہ عطا کرنا

امام علیہ السلام کے پاس سپاہیوں کی کمی نہ تھی، سرزمین اسلام کے بہت سے حصے آپ کے اختیار میں تھے لیکن ، نفوذی عوامل ، بزدل افراد ، مایوسی اور بے یقینی کی وجہ سے راہ حق سے دور ہورہے تھے، اسی وجہ سے امام علیہ السلام اور آپ کے بیٹے امام مجتبیٰ علیہ السلام ،دوسرے بیٹے امام حسین علیہ السلام فوجی چھاونی نخلیہ سے چلتے وقت تک لوگوں کے درمیان تقریریں کرتے رہے اوران کے دلوں کو محکم ومطمئن کرتے رہے ، تاریخ نے ان تقریروں اور خطبوں کی عبارتوں کو اپنے دامن میں محفوظ کررکھا ہے(۳)

اور کبھی عظیم شخصیتیں اور شہادت کے متمنی افراد مثلاً ہاشم بن عتبہ بن وقاص ، سعد وقاص کے بھتیجے نے لوگوں کے مجمع میں تقریر کی اور بہت زیادہ اصرار کیا کہ جلد سے جلد ان لوگوں سے جنگ شروع کریں جن لوگوں نے خدا کی کتاب کی مخالفت کی ہے اور خدا کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا ہے ، اس نے اتنا زیادہ جوش وخروش اور دلسوز انداز میں گفتگو کی کہ امام علیہ السلام نے اس کے حق میں دعا کی اور فرمایا:اللهمّ ارزقه الشهادة فی سبیلک والمرافقة لنبیّک صلی الله علیه وآله وسلم '' (۴) ۔یعنی پروردگارا: اسے اپنی راہ میں شہادت کے درجے پر فائز کر اور اسے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہم نشین قرار دے۔

ہاشم صفین میں امام علیہ السلام کے لشکر کا علمبردار تھا اورجنگ کے آخری دنوں میں جام شہادت نوش کیا ۔

______________________

(۱)،(۲)وقعہ صفین ص ۱۰۶۔۱۰۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۸۳۔۱۸۲

(۳) وقعہ صفین ص ۱۱۵۔۱۱۲

(۴)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۸۴

۵۳۰

راہ کے انتخاب میں آزادی

عبداللہ بن مسعود(۱) کے ماننے والوں کا ایک گروہ امام علیہ السلام کے پاس پہونچا اور کہا : ہم لوگ آپ کے ساتھ چلیں گے اور آپ لوگوں سے دور اپنا پڑاؤ ڈالیں گے تاکہ آپ کے اور آپ کے مخالفوں کے کام پر نظر رکھیں ، جس وقت ہم دیکھیں گے کہ ایک گروہ غیر شرعی کام کررہا ہے یا تجاوز کررہا ہے تو اس کے خلاف جنگ کریں گے۔

امام علیہ السلام کی پوری حیات اور حکومت میں ایسی کوئی بات نہ تھی جوان کے لئے شک و تردید کا سبب بنتی لیکن دشمن کے بہکاوے نے ان کے دلوں میں وسوسے ڈال رکھے تھے اور صالحین کو ابوسفیان سے جنگ کرنے کے سلسلے میں مردّد کر رکھا تھا ، اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے ان لوگوں سے فرمایا:'' مرحباً وأهلاً ، هٰذا هوالفقه فی الدین والعلم بالسنة من لم یرض بهذا فهو جائر خائن '' (۲) مبارک ہو تمہیں یہ کلام وہی دین فہمی اور حقیقت سے آشنا ئی اور پیغمبر اسلام

کی سنت سے آگاہی ہے جو شخص بھی اس کام پر راضی نہ ہو وہ ستم گر اور خائن ہے۔

عبداللہ بن مسعود کے دوستوں کا دوسرا گروہ بھی امام کے پاس آیا اور اس نے کہا : ہم آپ کی تمام فضیلتوں کا اعتراف کرتے ہیں لیکن اس جنگ کے شرعی ہونے کے سلسلے میں شک وتردید کررہے ہیں ، اگر بنا ہے کہ ہم لوگ بھی دشمن کے ساتھ جنگ کریں تو ہم لوگوں کو کسی دور مقام پر بھیج دیں تاکہ وہاں سے دین کے دشمنوں سے جہاد کریں ۔ امام علیہ السلام یہ سن کر ناراض نہ ہوئے بلکہ ربیع بن خثیم کی سرپرستی میں ان میں سے چار سو آدمیوں پر مشتمل ایک لشکر '' ری '' کی طرف روانہ کردیا تاکہ وہاں اپنا وظیفہ انجام دیں اور اسلامی جہاد جو خراسان کے اطراف میں رونما ہوا ہے اس میں مدد کریں۔(۳)

_______________________________

(۱) عبداللہ بن مسعود حافظ قرآن اور صدر اسلام کے مسلمانوں میں سے ہے اور عثمان سے اس کی مخالفت کی روداد بہت طویل ہے ۳۲ ہجری میں مدینے میں انتقال ہوا، جنگ صفین کی آمادگی ۳۷ ہجری کے آخر میں ہوئی جس میں اس کا کوئی وجود نہ تھا بلکہ کچھ گروہ جن لوگوں نے اس سے قرآن و احکام سیکھا تھا وہ لوگ باقی تھے۔ طبقات ابن سعد ج۳،ص ۱۶۰ (مطبوعہ بیروت)۔

(۲)وقعہ صفین ص، ۱۱۵۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص۱۸۶۔

(۳)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص۱۸۶ ۔

۵۳۱

جب یہ گروہ جنگ میں شرکت کرنے کی طرف مائل نہ ہوا تو امام علیہ السلام نے میں قبیلہ باہلہ کے لوگوں کو بھی جن کے امام سے روابط اچھے نہیں تھے اس جنگ میں شرکت کرنے سے منع کردیا اور جو ان کا وظیفہ تھا انہیں دے دیا اور حکم دیا کہ '' دیلم '' کی طرف چلے جائیں اور وہاں اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر خدمت کریں(۱)

امام علیہ السلام کی فوج کے عظیم سپہ سالار

امام علیہ السلام کے لشکر کے اکثر سپاہی کوفہ وبصرہ اور ان دونوں شہروں کے اطراف میں رہنے والے یمن کے قبیلے تھے۔

امام علیہ السلام ان پانچ قبیلے والوں کو جو ابن عباس کے ہمراہ بصرہ سے نخلیہ ( کوفہ کی فوجی چھاؤنی ) آئے تھے ، ان کے لئے پانچ عظیم سپہ سالار معین کئے:

۱۔ قبیلہ بکر بن وائل کے لئے خالد بن معمر سدوس

۲۔ قبیلہ عبد القیس کے لئے عمروبن مرجوم عبدی

۳۔ قبیلہ ازد کے لئے صبرة بن شیمان ازدی

۴۔ تمیم وضُبّہ ورباب کے لئے احنف بن قیس

۵۔ اہل عالیہ کے لئے شریک بن اعور

یہ تمام سپہ سالار ابن عباس کے ہمراہ بصرہ سے کوفہ آئے اور انہوں نے ابو الاسود دوئلی کو اپنا جانشین قراردیا۔ اور خودسفر میں امام علیہ السلام کے ہمراہ رہے(۲)

اسی طرح امام علیہ السلام نے کوفہ کے سات قبیلوں پر، جن کی شرکت سے کوفہ کی فوجی چھاؤنی چھلک رہی تھی سات سپہ سالارمعین فرمائے ، جن کے نام تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ کررکھا ہے۔(۳)

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۱۶

(۲)وقعہ صفین ص ۱۱۷۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص۱۹۴

(۳)وقعہ صفین ص ۱۲۱۔مروج الذھب(ج۲، ص ۳۸۴) میں ابومسعود عقبہ بن عامر کا ذکر ہوا ہے۔

۵۳۲

پہلا فوجی دستہ

تمام سپہ سالاروں کا تعیّن اپنے اختتام کو پہونچا، امام علیہ السلام نے عقبہ بن عمرو انصاری کو اپنا جانشین معین فرمایا جو سابق الاسلام تھے اور پیغمبر کے ہاتھوں پر '' عقبہ '' میں بیعت کی تھی ۔ آپ نے حکم دیا کہ جنگ کے لئے آمادہ ہوجائیں ۔ جس وقت کوفہ کی فوجی چھاؤنی سپاہیوں سے چھلک رہی تھی ایک گروہ جو عثمان کی حکومت کے زمانے میں صرف حکومت کوفہ پر اعتراض کرنے کی وجہ سے جلا وطن کیا گیاتھا چاروں طرف سے آگیا اور یہ نعرہ لگایا '' قد آن للذین أخرجوا من دیارھم '' وہ وقت آپہونچا ہے کہ جو لوگ اپنے گھروں سے دور کردیئے گئے تھے وہ دشمن کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیں(۱)

شروع میں امام علیہ السلام نے بارہ ہزار افراد پر مشتمل دو طاقتور فوج کو شام کی طرف روانہ کیا اور آٹھ ہزار افراد پر مشتمل فوج کی ذمہ داری زیاد کو سونپی اور دوسری فوج جو چار ہزار جانبازوں پر مشتمل تھی اس کی ذمہ داری ہانی کے سپرد کی اور دونوں کو حکم دیا کہ پورے اتحاد واتفاق کے ساتھ شام کی طرف سفر کریں اور جہاں پر دشمن کا سامنا ہو وہیں پڑاؤ ڈال دیں(۲) ۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۱۲۱

(۲)کامل ابن اثیر ص ۱۱۴، تاریخ طبری ۳ جزء ۴ ص ۲۳۷

۵۳۳

پندرہویں فصل

حضرت علی علیہ السلام کی میدان صفین کی طرف روانگی

کوفہ کی فوجی چھاؤنی مجاہدوں سے چھلک رہی تھی اور سب ہی اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھے ہوئے امام علیہ السلام کے ہمراہ چلنے کے لئے آپ کے حکم کے منتظر تھے۔ بالآخر امام علیہ السلام ۵ شوال ۳۶ ہجری بروز بدھ، چھاؤنی میں تشریف لائے اور سپاہیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

'' اس خدا کی حمد وثنا جب بھی رات آتی ہے تو پورے جہان میں تاریکی چھا جاتی ہے، اس خدا کی حمدوثناجس وقت ستارہ نکلے یا پوشیدہ ہوجائے اس خدا کی حمدوثناء کہ جس کی نعمتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں اور اس کی عطا کے مقابلے میں کوئی اجر وثواب اس کے برابر نہیں ہے۔

ہاں اے لوگو، ہم نے اپنی فوج کے کچھ لوگوں کو پہلے روانہ کردیا ہے(۱) اور انہیں حکم دیا ہے کہ فرات کے کنارے اپنا پڑاؤ ڈالیں اور میرے حکم کے منتظر رہیں ، اب وہ وقت آپہونچا ہے کہ ہم دریا کو پار کریں اور ان مسلمانوں کی طرف روانہ ہوں جو دجلہ کے اطراف میں زندگی بسر کررہے ہیں اور ان لوگوں کو تم لوگوں کے ساتھ دشمن کی طرف روانہ کریں تاکہ تمہارے مدد گار رہیں ۔''(۲) ''عقبہ بن خالد ''(۳) کو کوفہ کا حاکم بنایا ہے خود کو اور تم کو میں نے رہا نہیں کیا ہے ( یعنی اپنے

اور تمہارے درمیان میں نے کوئی فرق نہیں رکھا ہے )ایسا نہ ہو کہ کوئی جانے سے رہ جائے ، میں نے مالک بن حبیب یربوعی کو حکم دیا ہے کہ مخالفت کرنے والوں اور پیچھے رہ جانے والوں کو رہا نہ کرے مگر یہ کہ تمام لوگوں کو تمہارے ہمراہ کردے ۔(۴)

اس وقت معقل بن قیس ریاحی ، جو کہ بہت ہی بہترین اور غیور شخص تھا اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا:

_______________________________

(۱) امام علیہ السلام نے ۱۲ ہزار سپاہیوں کو زیاد بن نضر وشریح کی سپہ سالاری میں پہلے ہی روانہ کردیا تھا۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۴۸، وقعہ صفین ص ۱۳۱ ( تھوڑے فرق کے ساتھ) امام علیہ السلام نے اس خطبہ کو کوفہ کی فوجی چھاؤنی ، کوفہ شہر کے باہر ۲۵ ،شوال ۳۷ ہجری کو بیان کیا تھا ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۲۰۱۔

(۳)عقبہ بن عامر ، مروج الذھب ج۲ ص ۳۸۴---(۴)وقعہ صفین ص ۱۳۲

۵۳۴

خدا کی قسم ! کوئی بھی خلاف ورزی نہیں کرے گا مگر جو شک کی حالت میں ہو اور کوئی بھی مکر نہیں کرے گا مگر منافق، بہتر ہوتا آپ مالک بن حبیب یر بوعی کو حکم دیتے کہ مخالفت کرنے والے کو قتل کرڈالے۔

امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں کہا: جو ضروری حکم تھا وہ میں نے اسے دیدیا ہے اور وہ انشاء اللہ میرے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرے گا، اس وقت دوسرے لوگوں نے بھی چاہا کہ گفتگو کریں لیکن امام علیہ السلام نے اجازت نہیں دی اور اپنا گھوڑا طلب کیا اور جب آپ نے اپنا قدم رکاب پر رکھا تو اس وقت کہا '' بسم اللہ '' اور جب زین پر بیٹھے تو کہا( سبحان الذی سخّر لنا هذا وما کنّا له مقرنین وَ انا اِلیٰ ربّنا لمنقلبون ) (۱) وہ خدا (ہر عیب سے ) پاک ہے جس نے اس (سواری )کو ہمارا تابعدار بنایا حالانکہ ہم تو ایسے (طاقتور) نہ تھے کہ اس پر قابو پاتے ، اور ہم کو تو یقینااپنے پروردگا رکی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ پھرآپ نے فرمایا:

اے خدا ،میں سفرکی پریشانیوں اور زحمتوں اور واپسی کے غم واندوہ کے ساتھ چلنے اور اہل وعیال ومال پر بری نظر رکھنے والوں سے تیری پناہ مانگتاہوں ،خدایا! تو سفر میں ہمارے ہمراہ اور اہل وعیال کے لئے نگہبان ہے اور یہ دونوں چیزیں تیرے علاوہ کسی کے اندر جمع نہیں ہوسکتیں ، کیونکہ جو شخص جانشین ہوگا وہ ساتھ میں نہیں ہوسکتا اور جو شخص ساتھ میں ہوگا وہ جانشین نہیں ہوسکتا۔

پھر آپ نے اپنی سواری کو بڑھایا جب کہ حر بن سہم ربعی آپ کے آگے آگے چل رہا تھا اور رجز پڑھ رہا تھا اس وقت کوفہ میں رہنے والوںکے سردار مالک بن حبیب نے امام علیہ السلام کے گھوڑے کی لگام پکڑی اور بہت ہی غمگین انداز سے کہا: اے میرے آقا! کیا یہ مناسب ہے کہ آپ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے جائیں اور ان لوگوں کو جہاد کے ثواب سے مالا مال کریں اور مجھے مخالفوں کو جمع کرنے کے لئے چھوڑ جائیں ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ لوگ جتنا بھی ثواب حاصل کریں گے تم ان کے ساتھ ثواب میں شریک ہوگے اور تمہارا یہاں رہنا ہمارے ساتھ رہنے سے زیادہ ضروری ہے ابن حبیب نے کہا:

_______________________________

(۱)سورہ زخرف، آیت ۱۳

۵۳۵

''سمعاًو طاعة یا امیر المومنین'' (۱) (آپ کا جیسا حکم ہو میں تہ دل سے قبول کروں گا)

امام علیہ السلام اپنے سپاہیوں کے ہمراہ کوفہ سے روانہ ہوئے اور جب کوفہ کے پل سے گزرے تو لوگوں کو مخاطب کرکے کہا: اے لوگو تم میں سے جو لوگ رخصت کرنے آئے ہیں یا ان کا قیام یہیں پر ہے وہ یہاں پر پوری نماز پڑھیں گے، لیکن ہم لوگ مسافر ہیں اور جوبھی ہمارے ساتھ سفر پر ہے وہ واجب روزہ نہ رکھے اور اس کی نماز قصر ہے پھر آپ نے ظہر دورکعت پڑھی اور پھر اپنے سفر کو جاری رکھا اور جب آپ ابو موسیٰ کے گھر کے پاس پہونچے جو کوفہ سے دوفرسخ کی دوری پرواقع ہے تو وہاں آپ نے دو رکعت نماز عصر پڑھی اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا:

کتنی بابرکت ہے خدا کی ذات جو صاحب نعمت وبخشش ہے کتنا پاکیزہ ومنزہ ہے خدا جو صاحب قدرت وکرم ہے خدا سے میری یہی دعا ہے کہ مجھے اپنی قضاء قدر پر راضی ، اپنی اطاعت و فرمانبرداری پر کامیاب ، اپنے حکم پر متوجہ کرے کہ وہ دعاؤں کا سننے والا ہے۔(۲) پھر آپ اپنے سفر پر روانہ ہوئے اور '' ثرس '' نامی جگہ پر جوفرات سے نکلی ایک بڑی نہر کے کنارے واقع ہے اور یہ جو فرات سے نکلتی ہے اترے اور نماز مغرب ادا کی اس کے بعد خداکی اس طرح سے تعریف کی:

تمام تعریفیں اس خدا سے مخصوص ہیں جو رات کو دن میں اور دن کو رات میں تبدیل کرتاہے اس خدا کا شکر کہ جس وقت رات کی تاریکی پھیل جاتی ہے، تعریف اس خدا کی جب کہ ستارے نکل آتے ہیں یا ڈوب جاتے ہیں(۳)

آپ نے شب وہیں بسر کی اور نماز صبح پڑھنے کے بعد وہاں سے روانہ ہوئے جس وقت آپ '' قبہ قبین '' نامی جگہ پر پہونچے تو آپ کی نگاہیں لمبے لمبے کھجور کے درختوں پر پڑیں جو نہر کے کنارے لگے تھے اس وقت آپ نے قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی( والنخل باسقات لّها طلع نضید ) (۴)

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۳۴۔۱۳۲

(۲)،(۳)وقعہ صفین ص ۱۳۴۔۱۳۲

(۴)سورہ ق آیت ۱۰

۵۳۶

اور لمبی لمبی کھجوریں جس کا بور باہم گُھتا ہوا ہے '' اپنے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے ہی آپ نے نہر کو پار کیااور یہودیوں کی عبادت گاہ کے پاس آپ نے آرام فرمایا(۱) ۔

سرزمین کربلا سے عبور

امام علیہ السلام جب کوفہ سے صفین کے لئے روانہ ہوئے تو سرزمین کربلاسے بھی گزرے ہرثمہ بن سلیم کہتا ہے:

امام علیہ السلام کربلا کی سرزمین پر اترے اور وہاں ہمارے ساتھ نماز پڑھی، جس وقت آپ نے نمازتمام کی اس وقت تھوڑی سی مٹی اٹھائی اور اسے سونگھا اور کہا ( اے خاک کربلا کتنی خوش نصیب ہے کہ تیرے ساتھ کچھ لوگ محشور ہوں گے اور بغیر حساب وکتاب جنت میں داخل ہوں گے)، پھر آپ نے اپنے ہاتھوں سے کچھ مقامات کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہاں اور وہاں ، سعید بن وہب کہتے ہیں : میں نے امام علیہ السلام سے آپ کی اس سے کیا مرادہے ؟ آپ نے فرمایا: ایک عظیم خاندان اس سرزمین پر وارد ہوگا ،تم ہی میں سے ان لوگوں پر لعنت ہو ، ان لوگوں میں سے تم لوگوں پر لعنت ہو، میں نے کہا : آپ کے کہنے کا کیا مقصد ہے ؟ امام نے کہا تم لوگوں میں سے ان لوگوں پر لعنت جو ان لوگوں کوقتل کریں ، لعنت ہو تم لوگوں میں سے ان پر کہ ان کو قتل کرنے کی وجہ سے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔(۲) حسن بن کثیر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام کربلا کی سرزمین پر کھڑے ہوئے اور کہا: '' ذات کربٍ و بلائٍ '' ( یہ غم اور بلا کی زمین ہے ) اس وقت آپ نے اپنے ہاتھوں سے ایک خاص جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، یہ ان لوگوں کے قیام کی جگہ اور ان کی سواریوں کے ٹھہرنے کی جگہ ہے پھر ایک اور مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس جگہ پر وہ لوگ قتل کئے جائیں گے۔ پہلا راوی ،ہرثمہ کہتاہے کہ جنگ صفین کا معرکہ ختم ہوا اور میں اپنے گھر واپس آگیا اور اپنی بیوی سے جو کہ امام کی چاہنے والی تھی ان تمام باتوں کا ذکر کیا جو امام نے کربلا کی سرزمین پر بیان کیا تھا اور میں نے اس سے یہ بھی کہا کہ کس طرح سے امام غیب کی باتوں کو جانتے ہیں ؟ میری بیوی نے کہا مجھے چھوڑدو، کیونکہ امام، حق کے

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص ۱۳۵

(۲)وقعہ صفین ص ۱۴۲۔۱۴۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۷۰۔۱۶۹

۵۳۷

علاوہ کچھ نہیں کہتے، وقت گذرتا گیاعبیداللہ بن زیاد ایک عظیم لشکر لے کر حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے روانہ ہوا اور میں بھی اسی لشکر میں تھا جس وقت ہم کربلا کی سرزمین پر پہونچے اس وقت ہمیں امام کی باتیں یاد آئیں اس بات سے میں بہت زیادہ غمگین ہوا میں فوراً تیزی کے ساتھ حسین ( علیہ السلام) کے خیمے کی طرف بڑھا اور ان کی خدمت میں پہونچ کر پورا واقعہ بیان کیا ، حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: اچھا تم یہ بتاؤ کہ میرے ساتھ ہو یا میرے مخالف ہو؟ میں نے کہا کسی کے ساتھ نہیں ہوں ، میں نے اپنے اہل وعیال کو کوفہ چھوڑدیا ہے اور ابن زیاد سے ڈرتاہوں۔ آپ نے فرمایا: جتنی جلدی ہو اس سرزمین کو چھوڑ کرچلے جاؤ ، اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں محمد(ص) کی جان ہے جو شخص بھی آواز استغاثہ سنے گا اور میری مدد کو نہیں پہونچے گا خداوند عالم اسے جہنم کی آگ میں ڈال دے گا اس وجہ سے میں فوراً کربلا کی سرزمین سے روانہ ہوگیا تاکہ ان کی شہادت کا دن نہ دیکھ سکوں ۔(۱)

امام علیہ السلام ساباط اور مدائن میں

امام علیہ السلام کربلا کے قیام کے بعد ساباط کے لئے روانہ ہوئے اورشہر بہر سیر پہونچے وہاں کسریٰ کے کچھ آثار باقی نہ تھے اس وقت آپ کے چاہنے والوں میں سے ،حربن سہم(۲) نے ابویعفر کایہ شعرتمثل کے طور پر پڑھا:

جَرَتْ ِ الریاحُ علیٰ مکان ِ دیارِهم

فکانّما کانوا اعلیٰ میعادٍ

خزاں کی ہوائیں اس زمین پر چلیں جیسے وہ اپنے وعدہ کی جگہ پہونچ گئے ہیں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا : تم نے کیوں اس آیت کی تلاوت نہیں کی؟

( کم ترکوا من جنات وعیون وزروع ومقام کریم ونعمة کانوا فیها فاکهین کذالک واورثنا ها قوماً آخرین فما بکت علیهم السماء والارض وما کانوا منظرین ) ( دخان آیت ۲۵۔۲۹)'' وہ لوگ ( خدا جانے) کتنے باغ اور چشمے اور کھیتیاں اور نفیس مکانات

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۴۱۔۱۴۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۶۹

(۲)بعض جگہوں پر '' حریز'' لکھاہے ، حاشیہ وقعہ صفین ص ۱۴۲

۵۳۸

اور آرام کی چیزیں جس میں وہ عیش وچین کیا کرتے تھے چھوڑگئے یوں ہی ہوا، اور ان تمام چیزوں کا دوسرے لوگوں کو مالک بنادیا تو ان لوگوں پر آسمان وزمین کو بھی رونا نہ آیا اور نہ انہیں مہلت ہی دی گئی ''

اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا : دوسرے لوگ بھی ان کے وارث تھے لیکن وہ لوگ ختم ہوگئے اور پھر دوسرے لوگ اس کے وارث ہوگئے یہ گروہ بھی اگر اس نعمت پر خدا کا شکر بجانہ لائے تو یہ نعمت الٰہی ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان سے سلب ہوجائے گی لہٰذا کفران نعمت سے بچو تاکہ بدبختی میں گرفتار نہ ہو پھر آپ نے حکم دیا کہ تمام سپاہی اس بلندی سے نیچے اتریں ، جس جگہ امام علیہ السلام نے قیام کیا تھا وہ مدائن سے بہت قریب تھی، امام علیہ السلام نے حکم دیا کہ '' حارث اعور''شہر میں یہ اعلان کرے کہ جو شخص بھی جنگ کرنے کی صلاحیت وقدرت رکھتا ہے وہ نماز عصر تک امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں پہونچ جائے، نماز عصر کا وقت ہوا اور طاقتور افراد امام کی خدمت میں حاضر ہوئے امام نے خدا کا شکر ادا کیا اور فرمایا:

'' میں جہاد میں شرکت سے مخالفت کرنے اور اپنے علاقے کے لوگوں سے جدا ہونے اور ظالم وجابر لوگوں کی زمین پر زندگی بسر کرنے پر بہت حیرت میں ہوں نہ تم لوگ اچھے کام کا حکم دیتے ہو اور نہ لوگوں کو برائیوں سے روکتے ہو''(۱)

مدائن کے کسانوں نے کہا: ہم لوگ آپ کے حکم کے مطابق عمل کریں گے جو مناسب ہو آپ حکم دیں، امام علیہ السلام نے عدی بن حاتم کو حکم دیا کہ وہاں قیام کرے اور ان لوگوں کو لے کر صفین کی طرف روانہ ہو ، عدی نے وہاں تین دن قیام کیا پھر مدائن کے تین سو لوگوں کے ساتھ صفین کی طرف روانہ ہوا ور اپنے بیٹے یزید کو حکم دیا کہ تم یہاں ٹھہر جاؤ اور دوسرے گروہ کے ساتھ امام کے لشکر میں شامل ہونا، وہ چارسو آدمیوں کے ساتھ امام کے لشکر میں شامل ہوگیا(۲) ۔

انبار کے کسانوں نے امام علیہ السلام کا استقبال کیا

امام علیہ السلام مدائن سے '' انبار'' کی طرف روانہ ہوئے، انبار کے لوگوں کو امام علیہ السلام کے سفر اور اس راستے سے گزرنے کے بارے میں معلوم ہوا لہٰذایہ لوگ امام کے استقبال کے لئے بڑھے،

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۳ص۲۰۳۔۲۰۲،وقعہ صفین ص۱۴۲

(۲)وقعہ صفین ص۱۴۲۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۳ ص۲۰۳

۵۳۹

ا مام علیہ السلام اور ان لوگوں کے درمیان بہت سی باتیں ہوئیں۔ جب یہ لوگ امام کے سامنے پہونچے تو اپنے اپنے گھوڑوں سے اتر ے اور آپ کے سامنے اچھلنے کودنے لگے ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا : یہ کیا کر رہے ہو اور ان جانوروں کو کیوں لائے ہو؟ ان لوگوں نے جواب دیا: ( ایرانی بادشاہوں کے زمانے سے)حکمرانوں کی تعظیم وتکریم کے اظہار کا طریقہ ہمارے ہاں یہی ہے اور یہ جانور ہم لوگوں کی طرف سے آپ کے لئے ہدیہ ہیں ہم لوگوں نے آپ اور آپ کے سپاہیوں کے لئے کھانا اور سواریوں اور جانوروں کے لئے چارے کابھی انتظام کیاہے ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: اپنے بزرگوں کی تعظیم کے لیے جو عمل انجام دیتے ہو خدا کی قسم! اس سے ان لوگوں کو فائدہ نہیں پہونچتااس سے اپنے کو زحمت ومشقت میں ڈالتے ہو ، دوبارہ یہ کام انجام نہ دینا جو جانور تم لوگ اپنے ساتھ لائے ہو اگر تم لوگ راضی ہو تو اس شرط پر قبول کروں گاکہ اس کی قیمت خراج میں محسوب ہواور جو کھانے پینے کی چیزیں ہمارے لئے لائے ہواسے ایک شرط پر قبول کروں گا کہ اس کی قیمت ادا کروں ۔

انبار کے لوگوں نے کہا: آپ قبول کرلیں ہم اس کی قیمت معلوم کریںگے پھر آپ سے لے لیں گے ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: ایسی صورت میں تم لوگ اصل قیمت سے کم لوگے۔

انبار کے لوگوں نے کہا: اے میرے امام ، عربوں کے درمیان ہمارے دوست واحباب ہیں کیا آپ ہم لوگوں کو ان کو ہدیہ وتحفہ دینے اور ان لوگوں سے ہدیہ وتحفہ قبول کرنے سے منع کررہے ہیں ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا: تمام عرب تم لوگوں کے دوست ہیں لیکن ہر آدمی شائستہ نہیں ہے کہ تمہارے قیمتی وسنگین تحفے کو قبول کرے اور اگر کوئی تم لوگوں سے دشمنی کرے تو مجھے اس سے آگاہ کرو۔

انبار کے لوگوں نے کہا: اے میرے آقا! ہمارے ہدیہ کو قبول فرمائیے ہم لوگوں کی خواہش وآرزو ہے کہ ہمارے ہدیہ کو قبول کرلیجیئے۔

امام علیہ نے فرمایا : تم پر افسو س ہے ہم تم سے زیادہ بے نیاز ہیں ، اتنا کہنے کے بعد امام علیہ السلام اپنے سفر پر روانہ ہوگئے اور ان لوگوں کو عدالت الٰہیہ کا درس دیا جو بہت زیادہ عرصہ سے عجم کے بادشاہوں کے ظلم وستم کا شکا ر تھے اور اس کے حاکموں کے ظلم وستم کو

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809