فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362202 / ڈاؤنلوڈ: 6022
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

۷۔ بہیقی، کتاب السنن الکبریٰ، جلد۷،صفحہ۶۵۔

۸۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی،ینابیع المودة، باب مناقب السبعون ، ص۲۷۵،حدیث۱۱اور باب۱۷،صفحہ۹۹۔

۹۔ محب الدین طبری، کتاب ذخائر العقبی،صفحہ۱۰۲۔

۱۰۔ ابن حجر،کتاب فتح الباری،جلد۸،صفحہ۱۵۔

۱۱۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال،جلد۱۱،صفحہ۵۹۸و۶۱۷،اشاعت بیروت۔

۱۲۔ احمد بن حنبل، کتاب المسند،جلد۱،صفحہ۱۷۵۔

۱۳۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ،جلد۹،صفحہ۱۷۳۔

۱۴۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں ، جلد۹،صفحہ۱۱۵۔

ساتویں روایت

علی کا مقام و منزلت

عَنْ اِبْنِ عباس، عَنِ النَّبِی قٰالَ لِاُمِّ سَلَمَة:یَااُمِّ سَلَمَةَ اِنَّ عَلِیًّا لَحْمُهُ مِنْ لَحْمِیْ وَدَمُهُ مِنْ دَمِیْ وَهُوَ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّا اَنَّهُ لَا نَبِیَّ بَعْدِی ۔

حدیث منزلت امام علی علیہ السلام ایک نہایت ہی اہم اور معتبر ترین حدیث پیغمبر اسلام ہے جو حضرت علی علیہ السلام کی شان ،مقام عالی اور منزلت کا پتہ دیتی ہے۔ البتہ یہ حدیث کئی اور ذرائع اور مختلف طریقوں سے بھی بیان کی جاتی ہے۔ مندرجہ بالا حدیث میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب اُم سلمہ سے مخاطب ہیں۔ لیکن ابوہریرہ سے یہ روایت(اس روایت کو ابن عساکر نے ترجمہ تاریخ دمشق ،جلد۱،حدیث۴۱۲میں اس طرح نقل کیا ہے)اس طرح سے منقول ہے:

اِنَّ النَّبی قٰالَ بِعَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَام: یَاعَلِیُّ اَنْتَ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّا النَّبُوَّةَ ۔

”پیغمبر اسلام نے حضرت علی علیہ السلام سے ارشاد فرمایا:’یا علی ! آپ کی نسبت مجھ سے ایسی ہے جیسی ہارون کی موسیٰ علیہ السلام سے تھی، سوائے نبوت کے“۔

۸۱

ترجمہ

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب اُم سلمہ سے فرمایا :’اے اُم سلمہ! بے شک علی کا گوشت میرا گوشت ہے، علی کا خون میرا خون ہے اور اُس کی نسبت محمد سے ایسی ہے جیسی ہارون کی موسیٰ سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق،شرح حال امام علی ، جلد۱،حدیث۴۰۶،۳۳۶سے لے کر۴۵۶تک۔

۲۔ احمد بن حنبل، مسند سعد بن ابی وقاص ، جلد۱،صفحہ۱۷۷،۱۸۹اورنیز الفضائل میں،حدیث۷۹،۸۰۔

۳۔ ابن ماجہ قزوینی اپنی کتاب میں، جلد۱،صفحہ۴۲،حدیث ۱۱۵۔

۴۔ بخاری،صحیح بخاری میں،جلد۵،صفحہ۸۱،حدیث۲۲۵(فضائل اصحاب النبی )۔

۵۔ ابی عمریوسف بن عبداللہ، استیعاب ،ج۳،ص۱۰۹۷اورروایت۱۸۵۵کے ضمن میں

۶۔ ابونعیم، کتاب حلیة الاولیاء ، جلد۷،صفحہ۱۹۴۔

۷۔ بلاذری، کتاب انصاب الاشراف، ج۲،ص۹۵،حدیث۱۵،اشاعت اوّل بیروت

۸۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۶،صفحہ۵۶،۱۵۳۔

۹۔ ابن مغازلی،کتاب مناقب میں،حدیث۴۰،۵۰،صفحہ۳۳۔

۱۰۔ حاکم، المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۰۸۔

۱۱۔ ابن کثیر،کتاب البدایہ والنہایہ ،جلد۸،صفحہ۷۷۔

۱۲۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۳۷،صفحہ۱۶۷۔

۱۳۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، جلد۲،صفحہ۳،حدیث۲۵۸۶۔

۱۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۶۵۶۔

۱۵۔ سیوطی،کتاب اللئالی المصنوعة،جلد۱،صفحہ۱۷۷،اشاعت اوّل۔

۱۶۔ ابن حجر عسقلانی،کتاب لسان المیزان میں، جلد۲،صفحہ۳۲۴۔

۸۲

آٹھویں روایت

حدیث ولایت اور مقام علی

عَنْ عَمْروذی مَرَّ عَنْ عَلی اَنَّ النَّبِی صلی اللّٰه علیه وآله وسلَّم قٰالَ: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ، اَلَّلهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عٰادٰاهُ

حدیث ولایت بھی ایک اہم ترین حدیث ہے جو شان علی اور مقام علی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ حدیث بھی مختلف ذرائع اور مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے لیکن اصل مفہوم وہی ہے۔

”عمروذی حضرت علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ پروردگار! تو اُس کودوست رکھ جو علی علیہ السلام کو دوست رکھے اور تو اُس کو دشمن رکھ جو علی علیہ السلام سے دشمنی رکھے“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ، جلد۲،ص۳۰،حدیث۵۳۲۔

۲۔ احمد بن حنبل ،المسند،جلد۴،ص۲۸۱،حدیث۱۲،جلد۱،ص۲۵۰،حدیث۹۵۰،۹۶۱،۹۶۴۔

۳۔ حاکم،المستدرک میں، حدیث۸،باب مناقب علی ،،جلد۳،صفحہ۱۱۰اور۱۱۶۔

۴۔ سیوطی، تفسیرالدرالمنثور،جلد۲،صفحہ۳۲۷اوردوسری اشاعت جلد۵،صفحہ۱۸۰اورتاریخ الخلفاء صفحہ۱۶۹۔

۵۔ ابن مغازلی، مناقب میں، حدیث۳۶،صفحہ۱۸،۲۴،۲۶،اشاعت اوّل۔

۶۔ ہیثمی،کتاب مجمع الزوائد میں، جلد۹،صفحہ۱۰۵،۱۰۸اور۱۶۴۔

۷۔ ابن ماجہ سنن میں،جلد۱،صفحہ۴۳،حدیث۱۱۶۔

۸۔ ابن عمر یوسف بن عبداللہ ،استیعاب ، ج۳،ص۱۰۹۹،روایت۱۸۵۵کے ضمن میں

۹۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۳۵،۳۴۴،۳۶۶۔

۱۰۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں، باب۴،صفحہ۳۳۔

۸۳

۱۱ خطیب”حال یحییٰ بن محمد ابی عمرالاخباری“،شمارہ۷۵۴۵،کتاب تاریخ بغداد میں،جلد۱۴،صفحہ۲۳۶۔

۱۲۔ بلاذری، کتاب انساب الاشراف میں،جلد۲،صفحہ۱۰۸،اشاعت اوّل،حدیث۴۵اور باب شرح حال امیر المومنین علیہ السلام میں۔

۱۳۔ گنجی شافعی،کتاب کفایة الطالب میں، باب۱،صفحہ۵۸۔

۱۴۔ نسائی، کتاب الخصائص میں، حدیث۸،صفحہ۴۷اورحدیث۷۵،صفحہ۹۴۔

۱۵۔ ابن اثیر، کتاب اسدالغابہ میں ،جلد۴،صفحہ۲۷اور ج۳،ص۳۲۱اورج۲،ص۳۹۷

۱۶۔ ترمذی اپنی کتاب صحیح میں، حدیث۳۷۱۲،جلد۵،صفحہ۶۳۲،۶۳۳۔

نویں روایت

علی کی محبت جہنم سے بچاؤاور جنت میں داخلے کی ضمانت ہے

عَنْ اِبْنِ عباس،قٰالَ: قُلْتُ لِنَّبِی صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ یَارَسُوْلَ اللّٰهِ هَلْ لِلنَّارِ جَوازٌ؟قٰالَ نَعَمْ قُلْتُ وَمَاهُوَ؟ قٰالَ حُبُّ علیِّ ۔

ترجمہ

”ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے پیغمبر اسلام سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا جہنم سے عبور کیلئے کوئی جواز یا پروانہ ہے؟ پیغمبر اسلام نے فرمایا:’ہاں‘۔ میں نے پھر عرض کیا کہ وہ کیا ہے؟آپ نے فرمایا:’علی سے محبت‘۔“

اس طرح کی دوسری مشابہ حدیث بھی ابن عباس سے روایت کی گئی ہے:

عَنْ ابنِ عباس قٰالَ: قٰالَ رَسُوْل اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ: علیٌ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ عَلَی الْحَوْضِ لَایَدْخِلُ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ جَاءَ بِجَوَازمِنْ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب ۔

ترجمہ روایت

”ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ علی علیہ السلام قیامت کے دن حوض کوثر پر ہوں گے اور کوئی بھی جنت میں داخل نہ ہوسکے گا مگر جس کے پاس علی علیہ السلام کی جانب سے پروانہ ہوگا“۔

۸۴

حوالہ جات روایت ہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں،باب حال علی ،جلد۲،صفحہ۱۰۴،حدیث۶۰۸اورجلد۲

صفحہ۲۴۳،حدیث۷۵۳۔

۲۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث۱۵۶،صفحہ۱۱۹،۱۳۱اور۲۴۲۔

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی ، کتاب ینابیع المودة، باب۵۶،ص۲۱۱اور باب۳۷،ص۱۳۳،

۲۴۵،۳۰۱۔

۴۔ سیوطی، اللئالی المصنوعة ، جلد۱،صفحہ۱۹۷،اشاعت اوّل(آخر مناقب علی )۔

۵۔ محب الدین طبری، کتاب ریاض النضرةمیں،جلد۲،صفحہ۱۷۷،۲۱۱اور۲۴۴۔

دسویں روایت

قیامت کے روز حُب علی اور حُب اہل بیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا

عَنْ اَبِی ذَر قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ لَا تَزُوْلُ قَدَمٰا اِبْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ حَتّیٰ یُسْأَلَ عَنْ اَرْبَعٍ،عَنْ عِلْمِه مٰا عَمِلَ بِه،وَعَنْ مٰااکْتَسَبَهُ،وَفِیْمٰااَنْفَقَهُ،وَعَنْ حُبِّ اَهْلِ الْبَیْتِ فَقِیْلَ یٰا رَسُوْلَ اللّٰهِ،وَمَنْ هُمْ؟ فَأَوْمَأَ بِیَدِهِ اِلٰی عَلِیِّ ۔

”ابوذر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن کوئی انسان اپنا قدم نہ اٹھاسکے گا جب تک اُس سے چار سوال نہ کئے جائیں گے:

اُس کے علم کے بارے میں کہ کس طرح اُس نے عمل کیا؟

اُس کی دولت کے بارے میں کہ کہاں سے کمائی؟

وہ دولت کہاں خرچ کی؟

اہل بیت سے دوستی کے بارے میں۔

۸۵

عرض کیا گیا :’یا رسول اللہ! آپ کے اہل بیت کون ہیں؟آپ نے اپنے ہاتھ سے علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا اور کہا:علی ابن ابی طالب علیہ السلام‘۔“

حوالہ جات روایت، اہل سنت کی کتب سے

۱۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۹۱۱،صفحہ۳۲۴۔

۲۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ،باب حال امیر المومنین ،،جلد۲،ص۱۵۹،حدیث۶۴۴۔

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة،باب۳۲،ص۱۲۴،باب۳۷ص۱۳۳،۲۷۱

۴۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد۱۰،صفحہ۳۲۶۔

۵ ۔ ابن مغازلی، حدیث۱۵۷،مناقب میں صفحہ۱۲۰،اشاعت اوّل۔

۶۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، حدیث۵۷۴،باب۶۲۔

۷۔ خوارزمی، کتاب مقتل میں،جلد۱،باب۴،صفحہ۴۲،اشاعت اوّل۔

یارہویں روایت

علی سے اللہ اور اُس کے رسول محبت کرتے ہیں

عَنْ دٰاودبنِ علیِّ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عباس، عَنْ اَبِیْهِ عَنْ جَدِّه ابنِ عباس قٰالَ: اُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ بِطٰائِرِ فَقَالَ: اَلَّلهُمَّ اِئْتِنِیْ بِرَجُلٍ یُحِبُّهُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ،فَجٰاءَ عَلِیٌّ فَقٰالَ: اَلَّلهُمَّ وٰالِ ۔

ترجمہ

”ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک مرغ بطور طعام پیش کیا گیا۔ آپ نے دعافرمائی کہ پروردگار! ایسے شخص کو میرے پاس بھیج جس کو خدا اور رسول دوست رکھتے ہیں(تاکہ اس کھانے میں میرے ساتھ شریک ہوجائے)۔پس تھوڑی دیر بعد ہی علی وہاں پہنچے ۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا:پروردگار! توعلی علیہ السلام کودوست رکھ۔علی پیغمبر اسلام کے ساتھ بیٹھے اور آپ نے پیغمبر کے ساتھ وہ کھانا تناول فرمایا“۔

۸۶

مندرجہ بالا حدیث ایک اہم اور متواتر حدیث ہے جو کتب اہل سنت اور شیعہ میں مختلف صورتوں میں بیان کی گئی ہے۔ ماجراکچھ اس طرح ہے کہ ایک دن پیغمبر خدا کی خدمت میں طعام مرغ پیش کیا گیا۔پیغمبر خدا نے اُس وقت دعا مانگی کہ پروردگار!ایسے شخص کو میرے پاس بھیج دے جس کو خداا و رسول محبوب رکھتے ہوں(تاکہ میرے ساتھ طعام میں شامل ہوسکے)۔کچھ ہی دیر بعد امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام وہاں پہنچے۔ آپ خوش ہوئے۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب حال امیر المومنین ،ج۲،ص۶۳۱،حدیث۶۲۲اورج۲،حدیث۶۰۹تا۶۴۲(شرح محمودی)۔

۲۔ ابن مغازلی، مناقب میں حدیث۱۸۹،صفحہ۱۵۶،اشاعت اوّل۔

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۸،صفحہ۶۲۔

۴۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۵۱اور اس کے بعد۔

۵۔ حاکم، کتاب المستدرک میں جلد۳،صفحہ۱۳۰(باب فضائل علی علیہ السلام)۔

۶۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۳۳،صفحہ۱۴۸۔

۷۔ ذہبی، میزان الاعتدال ، باب شرح حال ابی الہندی،ج۴،صفحہ۵۸۳،شمارہ۱۰۷۰۳اورتاریخ اسلام میں جلد۲،صفحہ۱۹۷۔

۸۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد۹،صفحہ۱۲۵اور جلد۵،صفحہ۱۹۹۔

۹۔ خطیب، تاریخ بغداد ، باب شرح حال طفران بن الحسن بن الفیروزان،ج۹،صفحہ۳۶۹،شمارہ۴۹۴۴۔

۱۰۔ ابو نعیم،حلیة الاولیاء میں،جلد۶،صفحہ۳۳۹۔

۱۱۔ بلاذری، کتاب انساب الاشراف میں، باب شرح حال علی ،حدیث۱۴۰،ج۲،صفحہ

۱۴۲،اشاعت اوّل از بیروت۔

۱۲۔ خوارزمی، کتاب مناقب ، باب ۹،صفحہ۶۴،اشاعت تبریز اور اشاعت دوم ،صفحہ۵۹۔

۱۳۔ ابن اثیر، کتاب اسد الغابہ میں، باب شرح حال امیر المومنین میں،جلد۴،صفحہ۳۰۔

۱۴۔ طبرانی،معجم الکبیر میں، باب مسند انس بن مالک، جلد۱،صفحہ۳۹۔

۱۵۔ نسائی، کتاب الخصائص میں ، حدیث۱۲،صفحہ۵۱۔

۸۷

فضائل امام علی علیہ السلام احادیث کی نظر میں۔ ۱

(حصہ دوم)

بارہویں روایت

حُب علی کے بغیر پیغمبر اسلام سے دوستی کا دعویٰ جھوٹا ہے

عَنْ جابِر قٰالَ: دَخَلَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ وَنَحْنُ فِی الْمَسْجِدِ وَهُوَاَخِذَ بِیَدِ عَلِیٍّ فَقٰالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ،اَلَسْتُمْ زَعَمْتُمْ اَ نَّکُمْ تُحِبُّوْنِیْ؟ قٰالُوا:بَلٰی یَارَسُوْلَ اللّٰهِ قٰالَ: کَذِبَ مَنْ زَعَمَ اَنَّهُ یُحِبُّنِیْ وَیُبْغِضُ هٰذا ۔

”جابر سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم مسجد میں داخل ہوئے اور ہم بھی پہلے سے وہاں موجود تھے۔ آپ نے علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور فرمایا:’کیا تم یہ گمان نہیں کرتے کہ تم سب مجھ سے محبت کرتے ہو؟‘ سب نے کہا:’ہاں! یا رسول اللہ‘۔ آپ نے فرمایا کہ اُس نے جھوٹ بولا جو یہ کہتا ہے کہ مجھ(محمد) سے محبت کرتا ہے لیکن اس (علی علیہ السلام) سے بغض رکھتا ہے“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، باب شرح حال امیر المومنین ،ج۲،ص۱۸۵،حدیث

۶۶۴اور اس کے بعد کی احادیث۔

۲۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، جلد۱،صفحہ۵۳۶،شمارہ۲۰۰۷۔

۳۔ ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں، جلد۷،صفحہ۳۵۵،باب فضائل علی علیہ السلام۔

۴۔ حاکم، المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۳۰۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں، باب۴،صفحہ۳۱۔

۶۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۸۸،صفحہ۳۱۹۔

۷۔ ابن حجر عسقلانی ، کتاب لسان المیزان میں،جلد۲،صفحہ۱۰۹۔

۸۔ سیوطی، کتاب جامع الصغیر میں،جلد۲،صفحہ۴۷۹۔

۸۸

تیرہویں روایت

محبان علی مومن اور دشمنان علی منافق ہیں

عَنْ زَرِّبْنِ جَیْشٍ قٰالَ سَمِعْتُ عَلِیًّا یَقُوْلُ:وَالَّذِی فَلَقَ الَْحَبَّةَ وَبَرَی النَّسَمَةَ اِنَّهُ لَعَهِدَ النَّبِیُ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ اِلیَّ اَنْ لَا یُحِبُّکَ اِلَّا مُومِنُ،وَلَا یُبْغِضُکَ اِلَّا مُنٰافِقٌ ۔

ترجمہ

”زر بن جیش کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ مجھے قسم ہے اُس خدا کی جودانہ کو کھولتا ہے اور مخلوق کو وجود میں لاتا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد کرتے ہوئے فرمایا:’یا علی ! تم سے کوئی محبت نہ رکھے گا مگر سوائے مومن کے اور تم سے کوئی بغض نہیں رکھے گا سوائے منافق کے‘۔“

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ احمد بن حنبل، کتاب المسند، باب مسند علی ،جلد۱،صفحہ۹۵،حدیث۷۳۱اور دوسریاشاعت میں صفحہ۲۰۴اور حدیث۶۴۲،جلد۱،صفحہ۸۴،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن عساکر تاریخ دمشق ، باب شرح حال امیر المومنین ،ج۲،ص۱۹۰،حدیث۶۷۴

۳۔ ابن مغازلی مناقب میں، حدیث۲۲۵،صفحہ۱۹۰،اشاعت اوّل۔

۴۔ خطیب ،تاریخ بغداد میں، شمارہ۷۷۸۵،باب شرح حال ابی علی بن ہشام حربی۔

۵۔ بلا ذری، کتاب انسابُ الاشراف میں، باب شرح حال علی ،حدیث۲۰،ج۲،ص۹۷اورحدیث۱۵۸،صفحہ۱۵۳۔

۶۔ حاکم، المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۲۹۔

۷۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں، جلد۷،صفحہ۳۵۵،باب فضائل علی علیہ السلام۔

۸۔ ابن عمر یوسف بن عبداللہ ، استیعاب میں، جلد۳،صفحہ۱۱۰۰اور روایت۱۸۵۵۔

۹۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۳،صفحہ۶۸۔

۱۰۔ ابن ماجہ قزوینی اپنی کتاب ”سنن“ میں، جلد۱،صفحہ۴۲،حدیث۱۱۴۔

۱۱۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں ،باب۶،صفحہ۵۲اور۲۵۲پر۔

۸۹

چودہویں روایت

علی مسلمانوں کے اور متّقین کے امام ہیں

حَدَّثَنِی عَبْدُاللّٰهِ بْنِ اَسْعَدْبنِ زُرَارة قٰالَ:قٰالَ رسول اللّٰهِ لَیْلَةً اُسْرِیَ بِی اِنْتَهَیْتُ اِلٰی رَبِّی،فَأَوْحٰی اِلیَّ(اَوْاَخْبَرَنِی)فِی عَلِیٍ بثلَاثٍ:اِنَّهُ سَیِّدُالْمُسْلِمِیْنَ وَوَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ وَقَائِدُالْغُرَّالْمُحَجَّلِیْنَ ۔

ترجمہ

”عبداللہ بن اسعد بن زرارہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شب معراج جب میں اپنے پروردگار عزّوجلّ کے حضور پیش ہوا تو مجھے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں تین باتوں کی خبر دی گئی جو یہ ہیں کہ علی مسلمانوں کے سردار ہیں، متقین اور عبادت گزاروں کے امام ہیں اور جن کی پیشانیاں پاکیزگی سے چمک رہی ہیں اُن کے رہبر ہیں“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر تاریخ دمشق ،باب شرح احوال امام ج۲ص۲۵۶حدیث۷۷۲ص۲۵۹

۲۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں ،صفحہ۶۴،شمارہ۲۱۱۔

۳۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث۱۲۶اور۱۴۷،صفحہ۱۰۴۔

۴۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد۹،صفحہ۱۲۱۔

۵۔ حاکم، کتاب المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۳۸،حدیث۹۹،باب مناقب علی ۔

۶۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۴۵،صفحہ۱۹۰۔

۷۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں، صفحہ۲۴۵،باب۵۶،صفحہ۲۱۳۔

۸۔ حافظ ابونعیم، کتاب حلیة الاولیاء میں، جلد۱،صفحہ۶۳۔

۹۔ خوارزمی، کتاب مناقب میں، صفحہ۲۲۹۔

۱۰۔ ابن اثیر، کتاب اسد الغابہ میں،جلد۱،صفحہ۶۹اورجلد۳،صفحہ۱۱۶۔

۱۱۔ متقی ہندی، کنزالعمال میں، جلد۱۱،صفحہ۶۲۰(موسسة الرسالہ ،بیروت)۔

۹۰

پندرہویں روایت

پیغمبر اکرم اور علی خدا کے بندوں پر اُس کی حجت ہیں

عَنْ أَنْس قٰالَ: قٰالَ النَّبِیُّ اَنَا وَعَلِیٌ حُجَّةُ اللّٰهِ عَلٰی عِبٰادِهِ ۔

ترجمہ

”انس روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اور علی اللہ کی طرف سے اُس کے بندوں پر حجت ہیں“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق میں، باب شرح حال امام علی علیہ اسلام،جلد۲،صفحہ۲۷۲،احادیث۷۹۳تا۷۹۶(شرح محمودی)۔

۲۔ خطیب، تاریخ بغداد میں، باب شرح حال محمد بن اشعث،جلد۲،صفحہ۸۸۔

۳۔ ابن مغازلی، مناقب میں، حدیث۶۷اور۲۳۴،صفحہ۴۵اور۱۹۷،اشاعت اوّل۔

۴۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، جلد۴،صفحہ۱۲۸،شمارہ۸۵۹۰۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة میں، باب مناقب، صفحہ۲۸۴،حدیث۵۷۔

۶۔ ابو عمر یوسف بن عبداللہ، کتاب استیعاب میں ،جلد۳،صفحہ۱۰۹۱اور روایت۱۸۵۵”یَاعلی اَنْتَ ولی کل مومن بَعْدِی “ کے تسلسل میں۔

۷۔ سیوطی ، اللئالی المصنوعہ میں، ج ۱،صفحہ۱۸۹،اشاعت اوّل اور بعد والی میں۔

۹۱

سولہویں روایت

علی پیغمبران خدا کی تمام اعلیٰ صفات کے حامل تھے

عَنْ اَبِی الحَمْرَاءِ قٰالَ: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ مَنْ اَرَادَ اَنْ یَنْظُرَ اِلٰی آدَمَ فِیْ عِلْمِه وَاِلٰی نُوْحٍ فِیْ فَهْمِه وَاِلٰی اِبْرَاهِیْمَ فِیْ حِلْمِه وَاِلٰی یَحْییٰ بِن زِکرِیَّا فِی زُهْدِهِ وَاِلٰی مُوْسٰی بن عِمْرَانِ فِی بَطْشِه فَلْیَنْظُرْ اِلٰی عَلِیِ بْنِ اَبِیْ طَالِب عَلَیْهِ السَّلَام ۔

ترجمہ

”ابوالحمراء سے روایت ہے کہ پیغمبر خدا نے فرمایا کہ جوکوئی چاہتاہے کہ آدم علیہ السلام کو اُن کے علم میں دیکھے،نوح کو اُن کی فہم و دانائی میں دیکھے ، ابراہیم علیہ السلام کو اُن کے حلم میں دیکھے ،یحییٰ بن زکریا کو اُن کے زہد میں دیکھے اور موسیٰ بن عمران کو اُن کی بہادری میں دیکھے ، پس اُسے چاہئے کہ وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے چہرئہ مبارک کی زیارت کرے“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ، جلد۲،صفحہ۲۸۰،حدیث۸۰۴(شرح محمودی)۔

۲۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، صفحہ۲۵۳۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۲۳،صفحہ۱۲۱۔

۴۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث۲۵۶،صفحہ۲۱۲،اشاعت اوّل۔

۵۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں، جلد۷،صفحہ۳۵۶۔

۶۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں،جلد۴،صفحہ۹۹،شمارہ۸۴۶۹۔

۷۔ ابن ابی الحدید، نہج البلاغہ ، باب شرح المختار(۱۴۷)ج۲ص۴۴۹اشاعت اوّل،مصر

۸۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، حدیث۱۴۲،باب۳۵۔

۹۲

سترہویں روایت

علی بہترین انسان ہیں ،جو اس حقیقت کو نہ مانے ،وہ کافر ہے

عَنْ حُذَیْفَةِ بْنِ الْیَمٰانِ قٰالَ: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ: عَلِیٌّ خَیْرُ الْبَشَرِ،مَنْ أَبٰی فَقَدْکَفَرَ

ترجمہ

”حذیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ پیغمبر خدا نے فرمایا کہ علی بہترین انسان ہیں اور جو کوئی اس حقیقت سے انکار کرے گا، اُس نے گویا کفر کیا“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ خطیب، تاریخ بغداد میں، (ترجمہ الرجل)جلد۳،صفحہ۱۹۲،شمارہ۱۲۳۴۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ،جلد۲،صفحہ۴۴۴،حدیث۹۵۵(شرح محمودی)۔

۳۔ گنجی شافعی، کفایة الطالب میں،باب۶۲،صفحہ۲۴۴۔

۴۔ بلاذری، انساب الاشراف ، حدیث۳۵،باب شرح حال علی ،ج۲،ص۱۰۳،اشاعت اوّل،بیروت۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی،کتاب ینابیع المودة، باب۵۶،صفحہ۲۱۲۔

۶۔ حموینی،کتاب فرائد السمطین میں، باب۳۰،حدیث۱۲۷۔

۷۔ سیوطی، کتاب اللئالی المصنوعہ،جلد۱،صفحہ۱۶۹،۱۷۰،اشاعت اوّل۔

۸۔ متقی ہندی، کنزالعمال میں،جلد۱۱،صفحہ۶۲۵(موسسة الرسالہ،بیروت)۔

۹۳

اٹھارہویں روایت

علی اور اُن کے شیعہ ہی قیامت کے روزکامیابی اور فلاح پانے والے ہیں

عَنْ عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَام قٰال: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ یٰاعَلِیُّ اِذَکَانَ یَوْمُ الْقِیٰامَةِ یَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ قُبُوْرِهِمْ لِبَاسُهُمُ النُّوْرُ عَلٰی نَجٰائِبَ مِنْ نُوْرٍ أَزِمَّتُهَا یَٰواقِیتُ حُمْرٌتَزُقُّهُمُ الْمَلاٰ ئِکَةُ اِلَی الْمَحْشَرِفَقٰالَ عَلِیُّ تَبٰارَکَ اللّٰهُ مٰا اَکْرَمَ قَوْمًا عَلَی اللّٰهِ قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّمْ یَاعَلِیُّ هُمْ اَهْلُ وِلٰایَتِکَ وَشِیْعَتُکَ وَمُحِبُّوْکَ،یُحِبُّوْنَکَ بِحُبِّی وَیُحِبُّوْنِی بِحُبِّ اللّٰهِهُمُ الْفٰائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ

ترجمہ

”امیر المومنین علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ پیغمبر اکرم کا ارشاد ہے کہ یا علی ! قیامت کے روز قبروں سے ایک گروہ نکلے گا ،اُن کا لباس نوری ہوگا اور اُن کی سواری بھی نوری ہوگی۔ اُن سواریوں کی لجا میں یاقوت سرخ سے مزین ہوں گی۔فرشتے ان سواریوں کو میدان محشر کی طرف لے جارہے ہوں گے۔ پس علی علیہ السلام نے فرمایا:تبارک اللہ! یہ قوم پیش خدا کتنی عزت والی ہوگی۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا :’یا علی ! وہ تمہارے شیعہ اور تمہارے حُب دار ہوں گے۔ وہ تمہیں میری دوستی کی وجہ سے دوست رکھیں گے اور مجھے خدا کی دوستی کی وجہ سے دوست رکھیں گے اور وہی قیامت کے روز کامیاب اور فلاح پانے والے ہیں“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ، ج۲،ص۳۴۶،۸۴۶،شرح محمودی

۲۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۸۶،صفحہ۳۱۳۔

۳۔ خطیب، تاریخ بغداد میں، شرح حال فضل بن غانم،شمارہ۶۸۹۰،جلد۱۲،صفحہ۳۵۸

۴۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں،جلد۱۰،صفحہ۲۱اورجلد۹،صفحہ۱۷۳۔

۵۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث۳۳۹،صفحہ۲۹۶،اشاعت اوّل۔

۹۴

۶۔ بلاذری، انساب الاشراف،باب شرح حال علی ،جلد۲،صفحہ۱۸۲،اشاعت اوّل۔

۷۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب مناقب،صفحہ۲۸۱،حدیث۴۵۔

۸۔ ذہبی،کتاب میزان الاعتدال میں،جلد۱،صفحہ۴۲۱،شمارہ۱۵۵۱۔

۹۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل میں، حدیث۱۰۷(سورئہ بقرہ آیت ۴کی تفسیر میں)۔

۱۰۔ طبرانی، معجم الکبیر میں، شرح حالابراهیم المکنی بأبی ،جلد۱،صفحہ۵۱۔

اُنیسویں روایت

اہم کاموں کیلئے علی کا انتخاب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتا تھا

عَنْ زَیدِبْنِ یَشِیعَ قٰالَ بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰهِ اَبَابَکْرٍبِبَرٰاء ةٍ،ثُمَّ اَ تْبَعَهُ عَلِیاً فَلَمَّا قَدَمَ اَ بُوْبَکْرٍقٰالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ أَنْزَلَ فِی شَی؟ قٰالَ لَا وَلٰکِنِّی اُمِرْتُ اُبَلِّغَهٰا أَنَااَ وْرَجُلٌ مِنْ اَهْلِ بَیْتِیْ

ترجمہ

ٍ ”زید بن یشیع کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے حضرت ابوبکر کو سورئہ برائت کے ساتھ(مکہ) روانہ کیاتاکہ مشرکین مکہ کیلئے تلاوت فرمائیں ۔تھوڑی ہی دیر کے بعد علی علیہ السلام کو اُن کے پیچھے بھیجا،علی علیہ السلام نے وہ سورہ اُن سے واپس لے لیا۔جب حضرت ابوبکر واپس آئے تو عرض کیا:’یا رسول اللہ! کیا میرے بارے میں کوئی چیز نازل ہوئی ہے؟‘ پیغمبر خدا نے فرمایا:’نہیں،لیکن خدائے بزرگ کی جانب سے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اس سورہ کی کوئی تبلیغ نہ کرے سوائے میرے یامیری اہل بیت کا کوئی فرد‘۔“

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ بلاذری، انساب الاشراف ، شرح حال علی ،حدیث۱۶۴،جلد۲،صفحہ۱۵۵،اشاعت اوّل،بیروت۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، شرح حال امام علی ،،جلد۲،صفحہ۳۷۶،احادیث۸۷۱تا۸۷۳اور اُس کے بعد(شرح محمودی)۔

۳۔ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ میں جلد۵،صفحہ۳۷اور جلد۷،صفحہ۳۵(باب فضائل علی )۔

۹۵

۴ ۔ احمد بن حنبل، المسند میں، جلد۱،صفحہ۳۱۸،روایت۱۲۹۶۔

۵۔ ابن مغازلی، مناقب میں، حدیث۲۶۷اوراس کے بعد صفحہ۲۲۱،اشاعت اوّل۔

۶۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۶۲،صفحہ۲۵۴،اشاعت الغری۔

۷۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۱۸،صفحہ۱۰۱۔

۸۔ ترمذی اپنی سنن میں، حدیث۸،(باب مناقب علی علیہ السلام)جلد۱۳،صفحہ۱۶۹۔

بیسویں روایت

علی کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے

عَنْ اَبِی ذَرٍ قٰالَ: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم مَثَلُ عَلِیٍّ فِیکُمْاَوْقٰالَ فِی هٰذِهِ الْاُمَّةِ کَمَثَلِ الْکَعْبَةِ الْمَسْتُوْرَةِ،اَلنَّظَرُ اِلَیْهَا عِبَادةٌ،وَالْحَجُّ اِلَیْهَا فَرِیْضَةً ۔

”ابوذر کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ علی کی مثال تمہارے درمیان یا اُمت کے درمیان کعبہ مستورہ کی مانند ہے کہ اُس کی طرف نظر کرنا عبادت ہے اور اُس کا قصد کرنا یا اُس کی جانب جانا واجب ہے“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق شرح حال امام علی ، ج۲ص۴۰۶حدیث۹۰۵،شرح محموی

۲۔ سیوطی، تاریخ الخلفاء میں، صفحہ۱۷۲”اَلنَّظَرُ اِلٰی عَلیٍّ عِبَادة“

۳ ابن اثیر، اسدالغابہ میں،جلد۴،صفحہ۳۱(بمطابق نقل آثار الصادقین،جلد۱۴،صفحہ۲۱۳”اَنْتَ بِمَنْزِلَةِ الْکَعْبَة“

۴۔ ابن مغازلی، مناقب میں، حدیث۱۴۹،صفحہ۱۰۶اور حدیث۱۰۰،صفحہ۷۰۔

۵۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین ، جلد۱،صفحہ۱۸۲(بمطابق نقل آثار الصادقین، جلد۱،صفحہ۱۸۲)”کعبہ اور علی کی طرف نظر کرنا عبادت ہے“۔

۹۶

۶۔ حاکم، المستدرک ،حدیث۱۱۳،باب مناقب علی ،جلد۳،صفحہ۱۴۱’اَلنَّظَرُ اِلٰی وَجْهِ علی عبادة‘

۷۔ ابونعیم ،حلیة الاولیاء ، شرح حال اعمش،ج۵ص۵۸’اَلنَّظَرُ اِلٰی وَجْهِ علی عباده‘

۸۔ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ میں، جلد۷،صفحہ۳۵۸”اَلنَّظَرُ اِلٰی وَجْهِ علی عبادة“

۹۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۳۴،صفحہ۱۶۰اور۱۶۱۔

۱۰۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں،جلد۴،صفحہ۱۲۷،شمارہ۸۵۹۰اور جلد۱،صفحہ

۵۰۷،شمارہ۱۹۰۴”اَلنَّظَرُ اِلٰی وَجْهِ علی عبادة“

اکیسویں روایت

حکمت و دانائی کو دس حصوں میں تقسیم کیا گیا، اُن میں سے نوحصے علی علیہ السلام کو دئیے گئے

عَنْ عَلْقَمَةِ،عَنْ عَبدِاللّٰهِ قٰالَ کُنْتُ عِنْدَالنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم فَسُئِلَ عَنْ عَلِیٍّ فَقٰال:قُسِّمَتِ الْحِکْمَةُ عَشَرَةَ اَجْزٰاءٍ فَأُعْطِیَ عَلِیٌّ تِسْعَةَ اَجْزَاءٍ والنَّاسُ جُزْءٌ وَاحِدٌ

”علقمہ سے روایت کی گئی کہ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تھا۔ اس دوران حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا گیا۔ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ دانائی کو دس حصوں میں تقسیم کیا گیا، ان میں سے نو( ۹) حصے حضرت علی علیہ السلام کودئیے گئے اور ایک حصہ باقی تمام لوگوں کو دیا گیا ہے“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابونعیم، کتاب حلیة الاولیاء میں، باب شرح حال امیر المومنین ، جلد۱،صفحہ۶۴۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ،جلد۲،صفحہ۴۸۱،حدیث۹۹۹۔

۳۔ ابویوسف بن عبداللہ، استیعاب ، ج۳،ص۱۱۰۴،روایت۱۸۵۵کے ضمن میں۔

۴۔ ذہبی، میزان الاعتدال ، حدیث۴۹۹،جلد۱،صفحہ۵۸اور اشاعت بعد،ص۱۲۴۔

۵۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث۳۲۸،صفحہ۲۸۶،اشاعت اوّل۔

۹۷

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب مناقب السبعون،حدیث۴۷،صفحہ۲۸۲

۷۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۵۹،صفحہ۲۲۶اور صفحہ۲۹۲،۳۳۲۔

۸۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، حدیث۷۶،باب۱۰اور دوسرے ابواب۔

بائیسویں روایت

پیغمبر اکرم علم کا شہر ہیں اور علی اُس کا دروازہ ہیں

عَن الصَّنٰابجِی،عَن عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلاٰم قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ اَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُهَافَمَنْ اَرٰادَالْعِلْمَ فَلْیَأتِ بٰابَ الْمَدِیْنَةِ ۔

ترجمہ

”صنابجی حضرت علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی علیہ السلام اُس کا دروازہ ہیں۔ جو کوئی علم چاہتا ہے، وہ شہر علم کے در سے آئے“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ، باب شرح حال امام علی ،جلد۲،صفحہ۴۶۴،حدیث۹۸۴۔

۲۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث۱۲۰،صفحہ۸۰،اشاعت اوّل۔

۳۔ سیوطی، کتاب تاریخ الخلفاء میں، صفحہ۱۷۰اور جامع الصغیر میں،حدیث۲۷۰۵۔

۴۔ حاکم، المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۲۶۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں، صفحہ۱۵۳اور مناقب السبعون میں صفحہ۲۷۸،حدیث۲۲،باب۱۴،صفحہ۷۵۔

۶۔ خطیب ،تاریخ بغداد،باب شرح حال عبدالسلام بن صالح: ابی الصلت الھروی، جلد۱۱،صفحہ۴۹،۵۰،شمارہ۵۷۲۸۔

۹۸

۷۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب۵۸،صفحہ۲۲۱۔

۸۔ ذہبی،کتاب میزان الاعتدال میں،جلد۱،صفحہ۴۱۵،شمارہ۱۵۲۵۔

۹۔ ابوعمریوسف بن عبداللہ ، کتاب استیعاب میں، جلد۳،صفحہ۱۱۰۲،روایت۱۸۵۵۔

۱۰۔ حافظ ابونعیم، کتاب حلیة الاولیاء میں،جلد۱،صفحہ۶۴۔

۱۱۔ ابن کثیر،کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد۷،صفحہ۳۵۹،باب فضائل علی علیہ السلام۔

۱۲۔ خوارزمی، کتاب مقتل ، باب۴،صفحہ۴۳۔

تئیسویں روایت

علی ہی وصیِ برحق اوروارث پیغمبر ہیں

عَنْ اَبِی بُرَیْدَةِ عَن اَبِیْهِ: قٰالَ،قٰالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم لِکُلِّ نَبِیٍّ وَصِیٌ وَوَارِثٌ وَاِنَّاعَلِیًا وَصِیِّی وَوَارِثِی ۔

”ابی بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ ہر نبی کا کوئی وصی اور وارث ہوتا ہے اور بے شک علی علیہ السلام میرے وصی اور وارث ہیں“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث۲۳۸،صفحہ۲۰۱،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن عساکر ،تاریخ دمشق ، باب شرح امام علی ،ج۳،ص۵،حدیث۱۰۲۲شرح محمودی

۳۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، جلد۴،صفحہ۱۲۷،۱۲۸،شمارہ۸۵۹۰۔

۴۔ گنجی شافعی،کتاب کفایة الطالب میں، باب۶۲،صفحہ۲۶۰۔

۵۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد۹،صفحہ۱۱۳اورجلد۷،صفحہ۲۰۰۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں، باب۱۵،صفحہ۹۰اور۲۹۵۔

۷۔ سیوطی، کتاب اللئالی المصنوعة میں، جلد۱،صفحہ۱۸۶،اشاعت اوّل(بولاق)

۹۹

۸۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، تفسیر آیت۳۰سورئہ بقرہ۔

۹۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، باب۵۲،حدیث۲۲۲۔

۱۰۔ خوارزمی، کتاب مناقب میں، حدیث۲۲،باب۱۴،صفحہ۸۸اور دوسرے۔

چوبیسویں روایت

علی اور آپ کے سچے صحابیوں کودوست رکھنا واجب ہے

عَنْ سُلَیْمٰانِ بْنِ بُرِیْدَةَ عَنْ ابیهِ قٰالَ: قٰالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَآلِه وَسَلَّم اِنَّ اللّٰهَ تَبَارَکَ وَتَعٰالٰی أَمَرَنِی أَنْ اُحِبَّ اَرْبَعَةً قٰالَ قُلْنٰامَنْ هُمْ؟ قٰالَ،عَلِیُّ وَاَ بُوْذَرْ وَالْمِقْدٰادُ وَسَلْمٰانُ ۔

ترجمہ

”سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ’پیغمبر اکرم نے مجھ سے فرمایا کہ بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ چار افراد کو دوست رکھوں‘۔ میں نے عرض کیا کہ وہ کون افراد ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ وہ علی ، ابوذر،مقداد اور سلمان ہیں“۔

حوالہ جات روایت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، باب شرح حال مقداد،صفحہ۱۰۰اور اس کتاب کےترجمہ امام علیہ السلام،جلد۲،صفحہ۱۷۲،حدیث۶۵۸(شرح محمودی)۔

۲۔ حاکم، المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۱۳۰،۱۳۷۔

۳۔ ابن ماجہ قزوینی اپنی کتاب سنن میں،جلد۱،صفحہ۶۶،حدیث۱۴۹۔

۴۔ ابونعیم،کتاب حلیة الاولیاء ،ترجمہ مقداد،ج۱،ص۱۷۲،شمارہ۲۸اورج۱،ص۱۹۰

۵۔ گنجی شافعی، کفایة الطالب ، باب۱۲،صفحہ۹۴(صرف علی کے نام کاذکر ہے)۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

معاویہ کے خطوط اسلامی شخصیتوں کے نام

معاویہ نے جنگ صفین پر روانہ ہونے سے پہلے عمرو عاص سے کہا میں چاہتا ہوں تین لوگوں کو خط لکھوں او ران لوگوں کو علی کے خلاف برانگیختہ کروں وہ تین آدمی یہ ہیں عبد اللہ بن عمر، سعد بن وقاص ، محمد بن مسلمہ۔

معاویہ کے مشاورنے اس کے نظریہ کو قبول نہیں کیا اور اس سے کہا یہ تینوں افراد تین حالتوں سے

خالی نہیں ہیںیا علی کے چاہنے والے ہیںاس صورت میں تمہارا خط باعث بنے گا کہ راہ علی پر باقی رہنے میں ان لوگوں کا ارادہ ٹھوس ہو جائے یا عثمان کے چاہنے والے ہیں اس صورت میں ان کے استحکام میں اضافہ نہیں ہو گا اور اگر وہ لوگ کسی بھی طرف نہیں ہیں تو ہرگز تم ان لوگوں کی نظر میں علی سے زیادہ مورد اعتماد نہیں ہو۔ اس لئے تمہارے خط کا اثر ان لوگوں پر نہیں

۵۰۱

پڑے گا۔(۱)

معاویہ نے اپنے مشاور کے نظریہ کو قبول نہیں کیا اور اپنی اور عمرو عاص کی دستخط کے ساتھ ایک خط عبد اللہ ابن عمر کو لکھا جس کی عبارت یہ تھی:

''حقائق اگر ہم پر پوشیدہ ہوں تو تم پر پوشیدہ نہیں ہیں، عثمان کو علی نے قتل کیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کے قاتلوں کو امان دی ہے ،ہم عثمان کے خون کا بدلہ لینا چاہتے ہیں تاکہ حکم قرآن کے مطابق انہیں قتل کریں اور اگر علی عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کردیں تو ہم ان سے کوئی مطالبہ نہیں کریں گے اور اس وقت خلافت کے مسئلہ کو عمر بن خطاب کی طرح مسلمانوں کے درمیان شوری میں پیش کریں گے ہم ہرگز نہ خلافت کے طلبگار تھے او رنہ ہیں تم سے بس گذارش یہ ہے کہ قیام کرو او رہماری اس راہ میں مدد کرو، اگر ہم اور تم آپس میں متحد ہوگئے تو علی مرعوب ہو جائیں گے اور پھر اپنے ارادے سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔(۲)

عبد اللہ بن عمر کا جواب

اپنی جان کی قسم، تم دونوںنے اپنی بصیرت اور حقیقت شناسی کو اپنے ہاتھوں سے کھودیا ہے اور حوادث کو فقط دور سے دیکھ رہے ہو اور تمہارے خط نے شک کرنے والوں کے شک و تردید میں اضافہ کردیا ہے تم لوگوںکا خلافت سے کیا ربط؟ معاویہ تم طلیق و آزاد شدہ ہو او رعمرو تم ایک متہم شخص او رغیر قابل اعتماد ہو، اس کام سے باز آجاؤ میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔(۳)

عبد اللہ بن عمر نے جو خط معاویہ کو لکھا اس نے عمرو عاص کی مردم شناسی اور دور اندیشی کو ثابت کردیااور یہ بھی واضح کردیا کہ معاویہ اپنے قدیمی حریف کے کاموں تک نہیں پہونچ سکا ہے اور اگر بعض سیاسی مسئلوں میں برتری رکھتا ہے(مثلاً کشادہ دلی کے ساتھ مخالف کی بات سنتااو راگر اس کے سامنے آتا تو گذشتہ کونظر انداز کردیتا، اور اگر گفتگو ایک طرف ہو جاتی تو فوراً گفتگو کا عنوان بدل دیتا اور بحث کے اصل موضوع کو دوسرے انداز سے شروع کرتا) اس کے باوجود ابھی پورا مردم شناس نہیں ہورہے۔

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ج۱ ص ۸۹۔ ۸۸۔----(۲) وقعۂ صفین، ص ۶۳، ابن قتیبہ کے نظریہ کے مطابق اس خط کو معاویہ نے اہل مکہ او رمدینہ کے لئے لکھاتھا ۔ الامامة و السیاسة ص ۸۹۔----(۳)وقعة صفین ص۶۳،لیکن ابن قتیبہ نے معاویہ کے جواب میں ایک دوسرے خط کا ذکر کیا ہے،الامامة والسیاسةص۹۰۔۸۹

۵۰۲

معاویہ کے خط لکھنے کا مقصد

معاویہ کا مختلف لوگوں کو خط لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ بعض شخصیتوں کو متوجہ کرے جو نہ موافقوں کی صف میں تھے نہ ہی مخالفوں کی صف میں ۔ یہ لوگ مکہ و مدینہ میںلائق احترام اور با اثر شخصیت کے حامل تھے اور ان کی نظر جذب کرنے کی وجہ سے دو شہروں میں مخالفت ایجاد کرنا تھا جو شوریٰ کے مرکزی افراد اور خلیفہ انتخاب کرنے میں ایک اہمیت رکھتے تھے۔

لیکن یہ لوگ ان لوگوں سے زیادہ عقلمند تھے جن لوگوں نے معاویہ سے دھوکہ کھایا اور اس کے ساتھ رہے لہٰذا دوسروں نے بھی، یعنی سعد وقاص اور محمد بن مسلمہ نے بھی عبد اللہ بن عمر کی طرح جواب دیا۔(۱)

نصر بن مزاحم نے کتاب ''وقعہ صفین'' میں معاویہ کا ایک دوسراخط نقل کیا ہے جواس نے عبد اللہ بن عمر کے نام لکھا تھا اور اس پر امام ـ کی مخالفت کرنے کا الزام لگایا ہے اور اس طرح چاہا کہ مخالفت کا بیج اس کے دل میں بودے اور پھر لکھتا ہے کہ میں خلافت کواپنے لئے نہیں چاہتا بلکہ تمہارے لئے چاہتا ہوں اوراگر تم نے بھی قبول نہیں کیا تو ضروری ہے کہ مسئلہ خلافت کو مسلمانوں کی شوریٰ میں بیان کیا جائے ۔

عبد اللہ بن عمر اگر چہ سادگی میں بہت مشہور تھا اس نے معاویہ کا خط پڑھ کر اس کو جواب دیاکہ تم نے لکھاہے کہ میں نے علی کی نکتہ چینی کی ہے اپنی جان کی قسم میں کہاں او رعلی کاسابقہ ایمان، ان کی ہجرت ، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ان کی و رفعت ومنزلت اور مشرکوں کے مقابلے میں ان کی مقاومت کہاں؟ اگر میں نے ان کی موافقت نہیں کی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس حادثہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے کوئی حدیث نہیں

______________________

(۱) معاویہ کے اصل خط کو جو اس نے سعد بن ابی وقاص اور محمد بن مسلمہ انصاری کے نام لکھا تھا اور ان کے جواب کو ابن قتیبہ نے الامامة و السیاسة ص ۹۱۔ ۹۰۔ پر لکھا ہے۔

۵۰۳

آئی تھی لہذا ہم نے دونوں میں سے کسی کی طرف بھی رغبت کرنے سے پرہیز کیا۔(۱)

معاویہ کا خط سعد بن وقاص کے نام

معاویہ نے فاتح سرزمین ایران سعد وقاص کو خط لکھا:

عثمان کی مدد کے لئے بہترین لوگ قریش کی شوریٰ تھی، ان لوگوں نے اسے چنا اور دوسروں پر مقدم کیا، طلحہ و زبیر نے اس کی مدد کرنے میں جلدی کی اور وہ لوگ تمہاری شوری کے ہمراہی اور اسلام میں بھی تمہاری ہی طرح تھے ام المومنین (عائشہ) بھی اس کی مدد کے لئے گئیں تمہارے لئے بہتر نہیں ہے کہ ان لوگوں نے جس چیز کو پسند کیا ہے تم اسے ناپسند کرو اور جس چیز کو ان لوگوں نے اختیار کیا ہے تم اسے چھوڑ دو، ہمیں چاہیئے کہ ہم خلافت کو شوریٰ کے حوالے کردیں۔(۲)

سعد وقاص کا جواب

عمر بن خطاب نے ایسے افراد کو شوریٰ میں شامل کیا جن کے لئے خلافت جائز تھی، ہم سے زیادہ کوئی بھی خلافت کے لئے بہتر نہ تھا، مگر یہ کہ ہم اس کی خلافت پر راضی رہیں اگر ہم بافضیلت ہیں تو علی بھی اہل فضل میں سے ہیںجب کہ علی کے فضائل بہت زیادہ ہیں اور ہمارے فضائل اتنے نہیں ہیں اور اگر طلحہ و زبیر اپنے گھر میں خاموشی سے بیٹھتے تو بہتر تھا، خداوند عالم ام المومنین کو جوانھوں نے کام کیاہے معاف کردے۔(۳)

معاویہ نے کوشش کی تھی کہ شوریٰ کے تمام اراکین سے زیادہ خلیفۂ سوم کی فضیلت کو ثابت کرے، لیکن سعد وقاص نے اسے قبول نہیں کیا اور اس کی حاکمیت او رسب سے آگے بڑھنے کو شوریٰ کے اراکین کی رائے سے توجیہ کیا اور اسی کے ساتھ طلحہ و زبیر پر اعتراض بھی کیا۔

______________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۷۳۔ ۷۲۔

(۲) الامامة و السیاسة، ج۱ ص ۹۰ وقعۂ صفین، ص ۷۴۔

(۲) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۹۰، وقعۂ صفین ص ۷۷۔ ۷۵۔

۵۰۴

معاویہ کا خط محمد بن مسلمہ کے نام

معاویہ نے اس خط میں اسے انصار کے فارس(بہادر) سے تعبیر کیاہے او رخط کے آخر میں لکھتا ہے:

انصار جو تمہاری قوم ہے اس نے خدا کی نافرمانی کی ہے اور عثمان کو ذلیل کیاہے اور خدا تم سے اور ان لوگوں سے قیامت کے دن سوال کرے گا۔(۱)

مسلمہ کے بیٹے نے ایک مقدمہ کے بعد جواب دیا:

تم دنیا کے علاوہ کسی چیز کو نہیں چاہتے اور خواہشات نفسانی کے علاوہ کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے، عثمان کی موت کے بعد اس کا دفاع کر رہے ہو لیکن اس کی زندگی میں اسے ذلیل و خوار کیا اور اس کی مدد نہیں کی۔(۲)

______________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۹۰، وقعۂ صفین ص ۷۷۔ ۷۵۔

(۲)الامامة والسیاسةج۱ص۹۰،وقعة صفین ص۷۷۔۷۵

۵۰۵

(۲) معاویہ کے خط کا مفہوم اور اس کا مقصد

معاویہ کے خط کا مفہوم مکمل طور سے اشتعال انگیز تھا اور معاویہ کی یہ کوشش تھی کہ لوگوں کو امام ـ کی مخالفت کے لئے برانگیختہ کردے، مثلاً عمر کے بیٹے کو خلافت پر قبضہ کرنے کے لئے بلایا کیونکہ وہ شوریٰ کا ناظر تھا، سعد وقاص چونکہ چھ نفری شوریٰ کا ممبر اور طلحہ و زبیر کے مثل تھا لہذا شوریٰ میں اس کے ممبر ہونے کا تذکرہ کیااور اسے طلحہ و زبیر کے راستے پر چلنے کی دعوت دی او رمحمد بن مسلمہ کو انصار کا شہسوار اور مہاجروں کو منظم کرنے والا قرار دیا او ر یاد دلایاکہ ان لوگوںنے عثمان کی مدد نہیں کی لہذا اس کا جبران کرنے کے لئے فوراً اٹھ جائیں اور اس کی مدد کریں۔

ان تمام خطوط سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معاویہ کا مقصد صرف اسلامی معاشرہ کودرہم برہم کر کے علی ـ کا مخالف بنانے کے علاوہ کچھ نہ تھا اور بنا بر فرض محال اگروہ عثمان کا ولی دم تھا تو یہ بات کوئی عقلمند انسان قبول نہیں کرے گا کہ ایک انسان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے تمام مسلمانوں کی جان جوکھم میں ڈال دے ۔

معاویہ کا اصرار تھا کہ خلیفہ کا انتخاب شوریٰ کے ذریعے ہو اور عمر کی شوریٰ کی تعداد چھ آدمیوں سے زیادہ نہ تھی، اگر شوریٰ کا انتخاب تکلیف دہ تھا تو مہاجرین وانصار کا متحد ہونا بدرجہ اولی الزام آور تھا سب لوگ اس سے باخبر ہیں کہ امام ـ مہاجرین و انصار کے ذریعے اس مقام پر منتخب ہوئے ہیں آپ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ لوگ جوق درجوق آپ کے پاس آئے اور بہت زیادہ اصرار کر کے آپ کو مسجد میں لے گئے اور پھر آپ کے ہاتھوں پر بیعت کی، اور چند لوگوں کے علاوہ کسی نے بھی آپ کی بیعت کی مخالفت نہیں کی۔

۵۰۶

اس کے علاوہ اگر مہاجرین و انصار نے عثمان کی مدد نہیں کی تو خود معاویہ نے بھی تو اس کی مدد نہیں کی جب کہ عثمان کے گھر کا محاصرہ بہت دنوں تک تھا اور وہ اس سے آگاہ بھی تھا اور وہ اپنی فوج کے ساتھ خلیفہ کی مدد کے لئے جاسکتا تھا، لیکن ہرگز اس نے ایسا نہیں کیا اور اس کے خون کو بہتا ہوا دیکھتا رہا۔

اس کے علاوہ خود عثمان نے شام کے لوگوں او روہاں کے حاکم معاویہ کے پاس خط لکھا اور ان سے مدد مانگی تھی یہاں تک کہ اپنے خط کے آخر میں یہ بھی لکھا تھا:

''فیاغوثاه و لا امیرُ علیکم دونی ، فالعجل العجل یا معاویة وادرک ثم ادرک و ما اراک تدرک'' (۱)

ان تمام چیزوں کے باوجود معاویہ نے ان خطوط کو نظر انداز کردیا اور اپنے خلیفہ کی بالکل بھی حمایت نہیں کی لیکن اس کی موت کے بعد اس کے خون کا بدلہ لینے کی فکر ہوگئی۔

مؤرخین نے عثمان کے دو طرح کے محاصروں کو لکھا ہے اور پہلے محاصرہ اوردوسرے محاصرے کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ تھا، بعض نے محاصرہ کی مدت ۴۹ دن بعض نے ۷۰ دن اور بعض نے ۴۰ دن اور بعض نے ۱ مہینے سے زیادہ لکھا ہے اس لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ عثمان کے محاصرے کی خبر معاویہ نے نہ سنی ہو، اور وہ پورے واقعہ سے بے خبر ہو۔

_______________________________

(۱) الامامة و السیاسة ص ۳۸۔

۵۰۷

شام کا خطیب

ہر زمانے اورہر جگہ پر ایسے افراد موجود ہوتے ہیں کہ اپنا کھانا روزانہ کی قیمت سے کھاتے ہیں اور چاپلوسی اور جھوٹی تعریف کرنے والے صاحبان قدرت و ثروت کی خوشامد اور اور ان کیتعریفیں کیا کرتے ہیں اور حق کو ناحق، اور باطل کو حق دکھاتے ہیں لیکن تاریخ میں ایسے بھی افراد موجود ہیں جو حق و حقیقت کا کسی بھی چیز سے معاملہ نہیں کرتے اور ان کی زبانوں پر کلمہ حق کے علاوہ کچھ جاری نہیں ہوتا۔

قبیلہ ''طی'' کے لوگ جو مدینہ او رشام کے دو پہاڑوں کے درمیان زندگی بسر کر رہے تھے وہ سب کے سب خصوصاً عدی بن حاتم، علی ـ کے عاشق تھے۔ عدی امام ـ کی خدمت میں آئے اور کہا ہمارے قبیلہ کا ایک شخص ''خفاف'' اپنے چچازاد بھائی ''حابس'' کی ملاقات کے لئے شام جانے والاہے، خفاف بہترین خطیب و مقرر اور عمدہ شاعر ہے اگر آپ کی اجازت ہوتوہم اس سے کہیں کہ معاویہ سے ملاقات کرے اور مدینیاور عراق میں اپ کی جو شان و شوکت ہے اسے بیان کرکے، معاویہ او رشامیوں کا حوصلہ پست کرے، امام ـ نے عدی کی درخواست کو قبول کیا، خفاف شام کی طرف روانہ ہوا، اور اپنے چچازاد بھائی حابس کے پاس گیا اور اس سے کہا میں عثمان کے قتل کے وقت مدینہ میں موجود تھا پھر حضرت علی ـ کے ساتھ مدینہ سے کوفہ آیا ہوں اور تمام حالات سے باخبر ہوں دونوں چچازاد بھائیوں نے طے کیا کہ دوسرے دن معاویہ کے پاس جائیں او راسے تمام واقعات سے آگاہ کریں ، دوسرے دن دونوں بھائی معاویہ کے پاس گئے حابس نے اپنے بھائی کا تعارف کرایا اور کہا کہ وہ حادثہ ''یوم الدار'' اور عثمان کے قتل کے دن موجود تھا اور علی کے ساتھ کوفہ آیا ہے او راپنی بات میں مکمل یقین و اعتماد رکھتا ہے معاویہ نے خفاف سے کہا، عثمان کے واقعات سے مجھے آگاہ کرو، خفاف نے مختصر طور پر عثمان کے قتل کے واقعات کو اس طرح بیان کیا:

''مکشوح نے اس کا محاصرہ کیا اور حکیم نے حملہ کرنے کا حکم دیا، محمد بن ابوبکر او رعمار قتل کرنے میں شریک تھے اور تین آدمی عدی بن حاتم، مالک اشتر نخعی اور عمرو بن الحمق اس کارنامے میں بہت فعال تھے اسی طرح سے طلحہ و زبیر قتل کرنے میں بہت زیادہ کوشش کر رہے تھے، اور اس گروہ سے سب سے جدا رہنے والے علی ـ تھے جو عثمان کے قتل میںکسی طرح بھی شریک نہیں تھے۔

۵۰۸

معاویہ نے کہا: پھر اس کے بعد کیا ہوا؟

خفاف نے کہا: لوگ عثمان کے قتل کے بعد جب کہ ابھی اس کا جنازہ ایسے ہی زمین پر پڑا تھا پروانے کی طرح علی کے پاس اس طرح جمع ہوئے کہ جوتے گم ہوگئے اور ردائیں کاندھوں سے گر گئیں، بوڑھے لوگ مجمع میں دب گئے اور سب نے رہبر اور پیشوا کی حیثیت سے علی ـ کی بیعت کی، اور جب طلحہ و زبیر نے اپنی بیعت کو توڑ دیا تو امام ـ سفر کرنے کے لئے آمادہ ہوئے اور مہاجرین وانصار بہت تیزی کے ساتھ آپ کے ہمراہ چلنے کے لئے تیار ہوگئے، اس سفرسے تین لوگ، سعد بن مالک، عبد اللہ بن عمر، محمد بن مسلمہ بہت ناراض ہوئے اور تینوں افراد نے گوشہ نشینی اختیار کرلی، لیکن علی (علیہ السلام) پہلے گروہ کی وجہ سے ان تینوں سے بے نیاز ہوگئے امام ـ کا کاروان سرزمین ''طی'' پہونچااور میرے قبیلہ سے کچھ لوگ امام کے لشکر سے ملحق ہوئے، اور ابھی بصرہ کا آدھا ہی راستہ طے کیا تھا کہ طلحہ و زبیر کے بصرہ جانے کی خبر ملی، ایک گروہ کو کوفہ روانہ کیا اور ان لوگوں نے بھی ان کی دعوت کو قبول کیا او ربصرہ کی طرف روانہ ہوگئے، بصرہ پر حملہ ہوا اور شہر پر ان کا قبضہ ہوگیا پھر کوفہ کی فکر کی، اس شہر میں شور و غل مچ گیا، بچے محل کی طرف دوڑے او ربوڑھے او رنوجوان خوشی خوشی ان کی طرف دوڑ پڑے اس وقت وہ کوفہ میں ہیں اور شام پر قبضہ کرنے کے علاوہ کوئی اور فکر نہیں کر رہے ہیں، جب خفاف کی گفتگو ختم ہوئی تو معاویہ خوف کے مارے تھرتھر کانپنے لگا۔

اس وقت حابس نے معاویہ سے کہا: میرا چچازاد بھائی خفاف بہت اچھا شاعر ہے میری جب اس سے ملاقات ہوئی تھی تو اس نے بہت اچھا شعر پڑھا تھا اورعثمان کے متعلق میری نظر کو بدل ڈالا اور علی کی خوب تعریف کی، معاویہ نے کہا کہ وہ شعر جو تم نے اس کے لئے کہا تھا مجھے سناؤ اس نے وہ اشعار پڑھا، خفاف کا شعر سن کر معاویہ نے سخت لہجہ میں حابس سے کہا: میرے خیال سے یہ شخص علی کاجاسوس ہے جتنی جلدی ممکن ہو اس کو شام سے باہر کردو، لیکن معاویہ نے اسے دوبارہ اپنے پاس بلایا اور کہا: مجھے لوگوں کے کام وغیرہ سے آگاہ کرو، اس نے پھر وہی باتیں دہرائیں ، معاویہ ا س کی عاقلانہ باتیں سن کر حیرت میں ڈوب گیا۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعۂ صفین ص ۶۶۔ ۶۴، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۱۲۔ ۱۱۰۔

۵۰۹

صحابہ کے بیٹوں کا سہارا

ابو سفیان کا بیٹااس اما م سے مقابلہ کرنے کی کوشش میں تھا جس کا سبقت ایمان اور مشرکین کے ساتھ جہاد کرنا روشن وواضح تھا لہذا اس نے بعض صحابیوں اور ان کے بیٹوں کو اپنی طرف جذب کرکے اپنی شخصیت بنانی چاہی جب عبیداللہ ابن عمر حضرت علی کی حکومت سے بھاگ کر شام گیاکیونکہ حضرت ھرمزان کے قتل کی بنا پر اس سے قصاص چاہ رہے تھے اور معاویہ کو یہ خبر ملی تو وہ(۱) خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا لہٰذا اپنے مشاور اور عقل (عمروعاص) سے رابطہ کیا اور عبیداللہ کی آمد پر اسے مبارک باد دی اور اسے ملک شام کے اور اپنے پاس رہنے کا وسیلہ سمجھا(۲) پھر دونوں نے ارادہ کیا کہ اس سے درخواست کریں کہ لوگوں کے مجمع میں منبر پر جا کر علی کو برا بھلا کہے، جب عبیداللہ معاویہ کے پاس آیا تو معاویہ نے اس سے کہا اے میرے بھتیجے ،تمہارے باپ کا نام (عمر بن الخطاب) تمہارے اوپر لگا ہواہے خواب غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور مکمل آمادگی کے ساتھ گفتگو کرو، کیونکہ تم لوگوں کے درمیان قابل اعتماد ہو، منبر پر جاؤ علی کو برا بھلا کہو، گالی دو اور گواہی دو کہ عثمان کو علی نے قتل کیا ہے۔

زمام حکومت ایسے فتنہ پرور لوگوں کے ہاتھوں میں تھی جنہوںنے خلفاء کے بیٹوں کو برے اور بیہودہ کاموں کی ترغیب کرتے تھے تاکہ اس کے ذریعہ امام علیہ السلام کی عظمت کو گھٹادیں ،لیکن امام علیہ السلام کی رفعت وعظمت اتنی بلند تھی جس کا دشمن بھی منکر نہیں ہوسکتا ۔ عبیداللہ جوامام علیہ السلام کی عدالت کی وجہ سے بھاگ گیا تھا اس نے معاویہ سے کہا ، میں علی کو گالی نہیں دے سکتا اور ناسزا نہیں کہہ سکتا کیونکہ وہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم کے بیٹے ہیں ان کے نسب کے بارے میں میں کیا کہوں؟ ان کی جسمانی اور روحاحی طاقت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتاہے کہ وہ پچھاڑ دینے والے بہادر ہیں، میں عثمان کے قتل کا الزام ہی صرف ان کی گردن پر ڈال سکتاہوں ۔

عمرو عاص اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا:

خدا کی قسم، اس وقت زخم نمایاں ہوں گے(بھیجے باہر نکلیں گے) جب عبیداللہ وہاں سے چلا گیا تو

_______________________________

(۱) تاریخ طبری ج۳،جز۵ ص ۴۲،۴۱۔ کامل ابن اثیر ج ۳ص ۴۰

(۲) الامامة والسیاسة ج۱ ص ۹۲

۵۱۰

معاویہ نے عمر وعاص سے کہا ،اگر وہ ہرمزان کو قتل نہ کرتا اور علی کے قصاص سے نہ ڈرتا تو ہماری طرف کبھی بھی نہ آتا کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اس نے علی کی کیسی تعریف کی؟

جی ہاں، عبیداللہ نے تقریر کی اور جب بات علی علیہ السلام تک پہونچی تو اس نے اپنی بات روک دی اور ان کے بارے میں کچھ نہ کہا اور منبر سے اتر گیا۔

معاویہ نے اس کے پاس پیغام بھیجا اورکہا: اے میرے بھتیجے ، علی کے بارے میں تمھاری خاموشی دو علتوں کی بناء پر تھی ناتوانی کی وجہ سے یا خیانت کی وجہ سے۔

اس نے معاویہ کو جواب دیا :میں نہیں چاہتا کہ ایسے شخص کے بارے میں گواہی دوں جو عثمان کے قتل میں شامل نہ تھا اور اگر میں گواہی دیتا تو لوگ ضرور قبول کرلیتے ،معاویہ اس کا جواب سن کر ناراض ہوا اور اسے نکال دیا اور اس کو کوئی مقام ومنصب نہیں دیا۔

عبیداللہ نے اپنے شعر میں کچھ ترمیم کرکے اس طرح بیان کیا کہ ،اگرچہ علی عثمان کے قتل میں شامل نہ تھے لیکن ان کے قاتلوں نے علی کے پاس پناہ لی اور انہوں نے نہ ان کے کام کو برا کہا اور نہ

ہی کہااور میں عثمان کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے توبہ کرلی تھی اور بعد میں قتل ہوئے۔(۱) عمرکے بیٹے کا معاویہ کے ساتھ اتنا ہی محبت سے پیش آنا کافی تھا اور اسی محبت کی وجہ سے اس کا دل جیت لیا اور اسے اپنے مقربین میں شامل کر لیا۔

_______________________________

(۱) واقعہ صفین : ص ۸۴،۸۲

۵۱۱

قاتلان عثمان کے کو سپرد کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا

معاویہ نے امام علیہ السلام کے خلاف جو لشکر جمع کیا اس کے لئے سب سے بڑا بہانہ یہ تھا کہ امام علیہ السلام عثمان کے قاتلوں کی حمایت کررہے ہیں۔

عثمان کے قتل کی علتیں تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکی ہیں یہاں پر جس چیز کا تذکرہ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ہجوم کرنے والوں کی معاشرے میں شخصیت ایسی تھی کہ خود علی علیہ السلام ان لوگوں کو معاویہ کے حوالے نہیں کرسکتے تھے، یہ بات درست ہے کہ کچھ لوگوں نے عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا تھااور کچھ نے انہیں قتل کیا

تھا لیکن خلفاء کے اموی والیوں کے ظلم وستم کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں یہ گروہ اتنی اہمیت کا حمل ہوگیا تھا کہ ان کا معاویہ کے حوالے کرنا بہت بڑی مشکل کو دعوت دینا تھا، اس سلسلے میں ذیل کے واقعے پر توجہ فرمائیں۔

علی کے ساتھ جنگ کرنا آسان کام نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ یمن کا زاہد ابو مسلم خولانی جوکہ شام میں سکونت پذیر تھا، کو جب یہ خبر ملی کہ معاویہ علی کے ساتھ جنگ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو قاریوں کے گروہ کے ساتھ معاویہ کے پاس گیا اوراس سے پوچھا ،کیوں علی کے ساتھ جنگ کرنا چاہتے ہو جب کہ کسی بھی زاویہ سے تو ان کے برابر نہیں ہوسکتا؟ نہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ان کی جیسی مصاحبت تجھے نصیب ہے نہ تمہارے پاس سابقہ اسلام ہے، اور نہ ہی ہجرت اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خویشاوندی تمہیں حاصل ہے ، معاویہ نے ان لوگوں کے جواب میں کہامیں ہرگزاس بات کا دعویٰ نہیں کرتا کہ علی کی طرح میرے فضائل ہیں، لیکن میں تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ عثمان کا قتل بے گناہ ہوا ہے؟ ان لوگوں نے جواب دیا ہاں، پھر اس نے کہا علی عثمان کے قاتلوں کو میرے حوالے کردیں تاکہ میں ان سے عثمان کے خون کا بدلہ لوں ۔ ایسی صورت میں ہم ان سے جنگ نہیں کریں گے۔

۵۱۲

ابو مسلم اور اس کے ہمفکروں نے معاویہ سے درخواست کی کہ علی کے نام خط لکھے، معاویہ نے اس سلسلے میں خط لکھا اور ابومسلم کو دیا تاکہ وہ امام تک پہونچا دے ( ہم معاویہ کا خط اور امام علیہ السلام کا جواب بعد میں ذکر کریں گے)۔

ابو مسلم کوفہ میں داخل ہوا اور معاویہ کا خط علی علیہ السلام کے سپردکرکے کہا:

آپ نے ایسا کام اپنے ذمہ لیا ہے کہ خدا کی قسم مجھے ہرگز پسند نہیں کہ وہ آپ کے علاوہ کسی دوسرے کے ذمہ ہو لیکن عثمان جو ایک محترم مسلمان تھے بے گناہ مظلومیت کے ساتھ مارے گئے ان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کردیں آپ میرے پیشوا وحاکم ہیں اگر آپ کی کوئی مخالفت کرے گا تو ہمارے ہاتھ آپ کی مدد کریں گے اور ہماری زبانیں آپ کے لئے گواہی دیں گی اور اس صورت میں آپ پر کوئی ذمہ داری نہ ہوگی۔

امام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا صرف یہ فرمایا،کہ کل آنا اور اپنے خط کا جواب لے لینا دوسرے دن ابومسلم اپنے خط کا جواب لینے امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو دیکھا کہ بہت بڑا مجمع مسجد کو فہ میں ہے اور سب کے سب اسلحوں سے مسلح ہیں اور یہ نعرہ لگارہے ہیں ، ہم عثمان کے قاتل ہیں ابومسلم نے یہ منظر دیکھا اور امام علیہ السلام کی خدمت میں جواب کے لئے گیا اور امام سے کہا

میں نے ان لوگوں کو دیکھا کیا یہ آپ کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں ؟ امام نے کہا : تم نے کیا دیکھا؟ ابومسلم نے کہا: ایک گروہ تک یہ خبر پہونچی ہے کہ آپ عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کرنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سب جمع ہوگئے ہیں اور مسلح ہوگئے ہیں اور نعرہ لگارہے ہیں کہ سب کے سب عثمان کے قتل میں شریک ہیں، علی علیہ ا لسلام نے فرمایا:

۵۱۳

خدا کی قسم ! میں نے ایک لمحے کے لئے بھی یہ ارادہ نہیں کیا کہ ان لوگوں کوتمہارے حوالے کروں ،میں نے اس سلسلے میں بہت زیادہ تحقیق کی ہے اوراس نتیجے پر پہنچا کہ یہ صحیح نہیں ہے کہ ان لوگوں کو تمہارے یا تمہارے علاوہ کسی کے حوالے کروں۔(۱)

یہ واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اس زمانے میں عثمان کے قاتلین اہم حیثیت کے مالک تھے اور ان لوگوں کو کسی کے حوالے کرنا ایک عظیم خونی جنگ کو دعوت دینے کے برابر تھا۔

لوگوں کا یہ اجتماع ایک فطری امر تھا ورنہ امام علیہ السلام ابو مسلم خولانی کے سوال کا جواب دینے میں لاعلمی کا اظہا ر نہیں کرتے ، یہ ابومسلم کی سادگی تھی کہ اس نے بھرے مجمع میں اپنے آنے کا سبب بیان کردیا اور یہ خبر دھیرے دھیرے سب تک پہونچ گئی جس کی وجہ سے انقلابی لوگ جو خلیفہ سوم کے حاکموں کے ظلم وستم سے تنگ آگئے تھے اسی وجہ سے انہیں قتل کیا تھا، آپس میں متحد ہوگئے ،اور اگر امام علیہ السلام نے کہا کہ ہم نے اس مسئلے کی تحقیق کی ہے کہ کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے کہ ان لوگوں کو شامیوں یا کسی اور کے حوالے کریں تو وہ اسی وجہ سے تھا کہ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں فیصلہ کرنا تمام لوگوں کے اندر اشتعال کا باعث بن جاتا ۔

اس کے علاوہ قصاص (خون کا بدلہ ) کی درخواست کرنا مرنے والے کے ولی کا حق ہوتاہے اور وہ عثمان کے بیٹے تھے نہ کہ معاویہ ،جو اس کا بہت دور کا رشتہ دار تھا اس نے عثمان کے قتل کو حکومت تک پہنچنے کا ایک بہانہ بنایا تھا۔

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص۸۵،۸۶، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵اص ۷۵،۷۴

۵۱۴

چودہویں فصل

جنگ صفین کے لئے امام کی فوج کی آمادگی

نخلیہ میں امام کی فوج کی پیش قدمی

ابو سفیان کے بیٹے کی وقت برباد کرنے والی سیاست کا خاتمہ ہوا اور خط اور عظیم شخصیتوں کو روانہ کرکے وہ جس مقصدکو حاصل کرنا چاہتاتھا حاصل کرلیا، اس عرصے میں اس نے اپنی فوج کو خوب مضبوط کرلیااور اپنے جاسوسوں کو چاروں طرف روانہ کردیاتاکہ امام علیہ السلام کے بعض حاکموں کو دھوکہ دیں اور آپ کی فوج کے اندر پھوٹ ڈال دیں ۔امام علیہ السلام ۲۵ ذی الحجہ ۳۵ہجری کو رسول خدا (ص)کی طرف سے منصوص خلافت کے علاوہ ظاہری خلافت پر بھی فائز ہوئے(۱) اور تمام مہاجرین و انصار نے آپ کے ہاتھ پر بعنوان خلیفہ مسلمین بیعت کی، آپ نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی سبرہ جہمی نامی قاصد کے ہمراہ معاویہ کو خط بھیجا کہ وہ مرکزی حکومت کی اطاعت کرے لیکن اس نے سوائے خود خواہی،خود غرضی،ڈرانے دھمکانے، رعب و دبدبہ، خطوط کے روانہ کرنے اور تہمت لگانے اور قاصد کو بھیجنے اور حضرت علی علیہ السلام کو معطل کرنے کے کچھ نہیں کیا اب وہ وقت آچکا تھا کہ امام علیہ السلام ابو مسلم خولانی کے توسط سے آئے ہوئے خط کا جواب دے کر جنگ کریں اوراس شجرۂ خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں، اسی وجہ سے آپ نے شوال ۳۶ء کے اوائل میں فوج روانہ کرنے کا ارادہ کیااور اس کے پہلے مہاجرین وانصار کو بلایا اور اس آیت کے حکم کے مطابق'' وشاورھم فی الأمر' ' ان کے بزرگوں سے جو آپ کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے اور آپ کے ہمراہ تھے اس طرح فرمایا :

''انکم میامین الرّأی، مراجیح الحلم، مقاویل بالحق، مبارکو الفعل والأمرِ، وقدأردنا المسیر اِلیٰ عَدوِّنا وَعدوِّ کم فأ شیروالیناٰ برأیکم'' (۲)

تم لوگ بہترین رائے و مشورہ کرنے والے، بردبار و حلیم، حق کہنے والے،اور ہمارے معاشرے

_______________________________

(۱) تاریخ طبری ج۴ص۴۵۷۔تاریخ یعقوبی.ج۲ص۱۷۸ مطبوعہ بیروت.

(۲)۔ وقعہ صفین ص ۹۲

۵۱۵

کے بہترین و صاحب کردار ہو، ہم لوگ اپنے اور تمھارے دشمن کی طرف بڑھناچاہتے ہیں تم لوگ اس سلسلے میں اپنا نظریہ بیان کرو۔

مہاجرین کے گروہ میں سے ہاشم بن عتبہ بن ابی وقّاص اٹھا اور کہنے لگا:

اے امیرالمومنین ، ہم لوگ ابوسفیان کے خاندان کو بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں وہ آپ اور آپ کے شیعوں کے دشمن اور دنیا پرستوں کے دوست ہیں، اور حصول دنیا کے لئے اپنی پوری قوت و طاقت کے ساتھ اس سے آپ کے خلاف آپ سے جنگ کریں گے اس سلسلے میں وہ کسی بھی چیز سے دریغ نہیں کریں گے اس کے علاوہ ان کا کوئی اور مقصد نہیں ہے ۔ ان لوگوں نے سیدھے سادھے لوگوں کو بہکانے کے لئے عثمان کے خون کا بہانہ بنایا ہے۔ وہ لوگ جھوٹے ہیں اور اس کے خون کا بدلہ نہیں لینا چاہتے تھے بلکہ وہ دنیا چاہتے تھے ہم لوگوں کو اجازت دیں کہ ان کے مقابلے کے لئے جائیں اور اگر ان لوگوں نے حق کی باتیں مان لیں توکوئی بات نہیں ، لیکن اگر تفرقہ اور جنگ کرنے کے خواہاں ہوئے اور میرا گمان بھی یہی ہے کہ وہ لوگ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں چاہتے تو ہمیں چاہیے کہ ان کے ساتھ جنگ کریں۔اس وقت مہاجرین میں سے ایک اور عظیم شخصیت اٹھی جس کے بارے میں پیغمبر نے فرمایا ہے''عمار مع الحقِّ والحقّ مع عّمار یدورمعه حیث مادار'' (۱)

اے امیر المومنین : اگر ممکن ہوتو ایک دن بھی دیر نہ کریں ہم لوگوں کو ان کی طرف روانہ کریںاور قبل اس کے کہ وہ فاسد لوگ جنگ کی آگ روشن کریں اور مقابلہ کرنے کی تیاری اور حق سے جدائی کا ارادہ کریں، ان لوگوں کو جس میں ان کے لئے سعادت ہے ا سکی طرف دعوت دیں اگر ان لوگوں نے قبول کرلیا تو ٹھیک ہے اور اگر مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ ہوئے تو ان کے ساتھ جنگ کریں خدا کی قسم ان لوگوں کا خون بہانااور ان لوگوں کے ساتھ جہاد کرنا خداکا قرب اور اس کی طرف سے ہمارے لئے لطف وکرم ہے۔

مہاجرین کے ان دو اہم افراد کی تقریر نے کچھ حد تک زمینہ فراہم کیا۔ اب وقت تھاکہ انصار کی طرف سے بھی عظیم شخصیتیں اس سلسلے میں اپنا نظریہ پیش کریں ۔ اس وقت قیس بن سعد بن عبادہ نے کہا : ہمیں جلد سے جلد دشمن کی طرف روانہ کریں خدا کی قسم، ہمارے لئے ان کے ساتھ جنگ کرنا روم کے

_______________________________

(۱)طبقات ابن سعد ،ج،۳۔ص ۱۸۷ (مطبوعہ لیدن)

۵۱۶

ساتھ جہاد کرنے سے بہتر ہے، کیونکہ یہ لوگ اپنے دین میں مکروفریب کررہے ہیں اور خدا کے اولیائ(مہاجرین وانصار ) اور وہ لوگ جوان کے ساتھ نیکی کرتے ہیں انہیں ذلیل و خوار سمجھتے ہیں وہ لوگ ہمارے مال کو حلال اور ہمیں اپنا غلام سمجھتے ہیں ۔

جب قیس کی گفتگو ختم ہوئی تو خزیمہ بن ثابت اور ابو ایوب انصاری اس کے جلد بازی کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بہتر تھا کہ تھوڑا صبر کرتے تاکہ تم سے بزرگ لوگ اپنا نظریہ پیش کرتے ، اس وقت انصار کے سرداروں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا تم لوگ اٹھو اور امام علیہ السلام کے سامنے اپنے نظریہ کا اظہار کرو،

سہل بن حنیف ،جو انصار کی عظیم شخصیت تھی اس نے کہا:اے امیر المومنین : ہم آپ کے اور آپ کے دوستوں کے دوست اور آپ کے دشمنوں کے دشمن ہیں ، ہمارا نظریہ آپ کا نظریہ ہے ہم لوگ آپ کا داہنا بازو ہیں، لیکن ضروری ہے کہ یہ کام کوفہ کے لوگوں کے لئے انجام دیجئے اور ان لوگوں کو جنگ کرنے کی دعوت دیجئیے اور جو فضیلتیں انہیں نصیب ہوئی ہیں ان سے انہیں باخبر کیجئے چاہے وہ لوگ اس سرزمین اوریہاں کے لوگ سمجھے جائیں ، اگر وہ لوگ آپ کی آواز پر لبیک کہیں تو آپ کا مقصد پورا ہوجائے گا، ہم لوگ ذرہ برابر بھی آپ کے نظریہ کے خلاف نہیں ہیں آپ جب بھی ہمیں بلائیں گے ہم حاضر ہوں گے اور جب بھی کوئی حکم دیں گے اس پر عمل کریں گے۔(۱)

سہل کی گفتگو اس کے کامل العقل ہونے کی حکایت کرتی ہے، کیونکہ اگرچہ مہاجرین و انصار امام علیہ السلام کے ہمرکاب تھے اور اسلامی امت کی عظیم شخصیت شمار ہوتے تھے اوران لوگوں کا اتحاد معاشرہ کی بیداری میں بہترین اثر رکھتا تھا لیکن فی الحال امام علیہ السلام کا لشکر عراقی افراد نے تشکیل دیا تھا اور ان کے درمیان قبیلوں کے بزرگ تھے بغیر ان کے اعلان کئے ایک لاکھ کا لشکر جمع کرنا ممکن نہ تھا لیکن امام علیہ السلام نے سب سے پہلے مہاجرین و انصار سے کیوں مشورہ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ امام علیہ السلام کی حکومت کے بانی اور تمام مسلمانوں کی توجہ کا مرکز تھے اور بغیر ان کو اپنائے ہوئے عراقیوں کو اپنی طرف مائل کرنا ممکن نہ تھا۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۹۳،۹۲

۵۱۷

امام علیہ السلام کی تقریر

امام علیہ السلام نے سہل کے مشورہ کے بعداپنے خصوصی مشاورتی جلسہ کو ایک عظیم اجتماع میں تبدیل کردیا۔ اس عظیم اجتماع میں اکثر افراد شریک تھے منبر پر تشریف لے گئے اور با آواز بلند فرمایا:

''سیروا اِ لیٰ اعدائِ اللّه ، سیروا اِلیٰ اعدائِ السنن والقرآن، سیروا اِلیٰ بقیة الاحزاب، قتلةِ المهاجرین والانصار''

خدا کے دشمنوں کی طرف حرکت کرو ، قرآن اور پیغمبر کی سنتوں کے دشمنوں کی طرف حرکت کرو اور، بقیہ بچے ہوئے (احزاب) اور مہاجرین و انصار کے قاتلوں کی طرف حرکت کرو۔

اس وقت قبیلہ بنی فزار کے اربد نامی شخص نے اٹھ کر کہا:

آپ چاہتے ہیںکہ ہم لوگوں کو شام روانہ کریں تاکہ اپنے بھائیوں کے ساتھ جنگ کریں جس طرح بصرہ بھیجا تھا اور ہم نے اپنے بصری بھائیوں کے ساتھ جنگ کی؟ نہیں ، خدا کی قسم ہم ایسا کام انجام نہیں دیں گے۔

اس وقت مالک اشتر کھڑے ہوئے اور پوچھا یہ کون شخص ہے؟ جیسے ہی مالک اشتر کے منہ سے یہ جملہ نکلا سب کے سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور وہ لوگوں کے حملہ کے خوف سے فرار ہوگیا اور مال بیچنے والوں کے بازار میں پناہ لے لی اور لوگ طوفان کی طرح اس کا پیچھا کرنے لگے اور اسے تلوار کے غلاف، ہاتھ پیر سے اتنا مارا کہ وہ مرگیا، جب اس کی موت کی خبر امام علیہ السلام کو ملی تو آپ بہت ناراض ہوئے کیونکہ اس کی گستاخی کی سزا یہ نہیں تھی کہ اسے اس طرح قتل کردیا جائے ، اسلامی عدالت کا تقاضا یہ تھا کہ اس کے قاتل کے بارے میں تحقیق وجستجو کی جائے اور اس تحقیق کا نتیجہ یہ معلوم ہوا کہ وہ '' ہمدان'' قبیلہ اور کچھ لوگوں کے ذریعہ قتل ہوا ہے اور اس کا کوئی ایک قاتل نہیں ہے امام علیہ السلام نے فرمایا : یہ اندھا قتل ہے کہ اس کے قاتل کی خبر نہیں ہے لہٰذا اس کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے اور آپ نے ایسا ہی کیا۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعہ صفین۔ص۹۵،۹۴

۵۱۸

مالک اشتر کی تقریر

یہ غیر متوقع واقعہ امام علیہ السلام کی ناراضگی کا سبب بنا اگرچہ آپ نے حکم دیا کہ اس کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے مگر آپ کے چہرے پر ناراضگی کے اثرات نمایاں تھے، اسی وجہ سے امام علیہ السلام کے دلعزیز اور چاہنے والے مالک اشتر اٹھے اور خدا کی حمد وثناء کے بعد کہا:

اس واقعہ سے آپ پریشان نہ ہوں، اس بد بخت خیانت کارکی گفتگو آپ کو مدد و نصرت کرنے والوں سے مایوس نہ کرے، یہ سیلاب کی طرح امڈتا ہوا مجمع جو آپ دیکھ رہے ہیں سب کے سب آپ کے پیرو ہیں اور آپ کے علاوہ کسی اور چیز کو نہیں چاہتے اورآپ کے بعد زندہ نہیں رہنا چاہتے اگر ہمیں دشمنوں کی طرف بھیجنا چاہتے ہیں تو بھیج دیجیئے خدا کی قسم اگر کوئی شخص موت سے ڈرتا ہے تو اس سے نجات حاصل نہیں کرسکتا اور جو شخص زندگی چاہتا ہے اسے نہیں دی جائے گی اور ان لوگوں کے ساتھ بدبخت اور شقی شخص کے علاوہ کوئی دوسرا زندگی گزارنا نہیں چاہتا اور ہم لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک موت کی آغوش میں نہیں جاسکتا جب تک کہ اس کی موت کا وقت نہ آچکا ہو، کس طرح سے ہم ان لوگوں سے جنگ نہ کریں جنہیں آپ نے خدا اور قرآن اور سنت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دشمن اور مہاجرین وانصار کے قاتل کے طور پر بتایاہے؟ کل انہیں میں سے کچھ لوگوںنے (بصرہ میں ) مسلمانوں کے کچھ گروہ پر حملہ کر کے خدا کو غضبناک کیا تھا اور زمین ان کے برے کاموں کی وجہ سے تاریک ہوگئی تھی ان لوگوں نے اپنے آخرت کے حصے کو اس دنیا کے تھوڑے سے مال ودولت کے لئے بیچ دیا ، امام علیہ السلام مالک اشتر کی تقریر سننے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا:

'' الطریق مشترک والناسُ فی الحقِّ سوائ ومن ِ اجتهدَ رأیُهُ فی نصیحة العامّة ِ فله مانویٰ وقد قضیٰ ما علیه ''

یہ راستہ ، عمومی راستہ ہے او ر لوگ حق کے مقابلے میں برابر ہیں اور وہ شخص جو خود اپنی نظر ورائے سے معاشرے کے لئے اچھائی کرے تو خدا اس کی نیت کے مطابق اسے جزا دے گا اور وہ کام جو '' فزاری'' نے انجام دیا وہ ختم ہوگیا ۔(۱)

آپ اتنا کہہ کر منبر سے نیچے تشریف لائے اور اپنے گھر واپس چلے گئے۔

_______________________________

(۱) وقعہ صفین۔ص۹۵

۵۱۹

امام کے لشکر میں معاویہ کے نفوذ کے عوامل

فوجیوں اور لشکریوں کے اندراپنا اثرورسوخ پیدا کرنا،گروہ مخالف کے کمانڈروں کو درہم و دینار کے ذریعے خریدنا، بڑی طاقتوںکی بڑی پرانی روشن رہی ہے ابو سفیان کا بیٹا اس فن میں ایک نابغہ اور ماہر تھا۔

ایک گروہ کی نظر میں سیاست کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی بھی صورت سے چاہے وہ شرعی اعتبار سے ہو یا غیر شرعی لحاظ سے اپنے مقصد تک پہونچ جائے اور ان لوگوں کا فلسفہ یہ ہے کہ مقصد اور ہدف ایک توجیہی وسیلہ ہے سادہ لوح افراد جن لوگوں نے معاویہ کی ظاہری کامیابی کو علی علیہ السلام سے زیادہ سمجھی تھی ان لوگوں نے امام علیہ السلام پر الزام لگایا کہ وہ سیاست کے رموز و اسرار سے واقف نہیں ہیں اور معاویہ ان سے زیادہ سیاسی سوج بوج رکھتا ہے اسی وجہ سے امام علیہ السلام اسلامی سیاست کے تمام اصول و قوانین سے بے بہرہ تنقید کرنے والوں کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :

'' واللّهِ ما معاویةُ بأدهیٰ منّی ولکنّه یغدرُ ویفجرُ ولولا کراهیةُ الغدر لکنتُ من أدهیٰ الناس ولکنَّ کلَّ غدرِةٍ فجرة وکلَّ فجرةٍ ضلالة ولکلِ غادِرٍ لوائُ یعرفُ به یوم القیامة'' (۱)

''خدا کی قسم معاویہ مجھ سے زیادہ سیاست مدار نہیں ہے لیکن وہ دھوکہ کرتاہے اور گناہ کرتاہے اور اگر دھوکہ بازی اور حیلہ گری میں کراہت نہ ہوتی تومیں لوگوں میں سب سے زیادہ سیاست مدار ہوتا، لیکن ہر طرح کی چالبازی اور فریب گناہ ہے اور ہرگناہ ایک قسم کا کفر ہے اور قیامت کے دن ہر دھوکہ باز کے ہاتھ میں ایک مخصوص قسم کا پرچم ہوگا جس کے ذریعہ سے وہ پہچان لیا جائے گا''۔

اس بنا پر کہ ہماری گفتگو دلیل یا شاہد سے خالی نہ ہو معاویہ کی چالبازیوں اور مکاریوں کے چند نمونوں کو یہاں پر بیان کررہے ہیں جن کے ذریعہ سے اس نے امام علیہ السلام کی فوج میں نفوذ پیدا کیا تھا ۔

معاویہ کے خلاف جنگ کرنے کے سلسلے میں جو امام علیہ السلام کی تقریر کا اثر ہوا اس کی توصیف ممکن

_______________________________

(۱) نہج البلاغہ عبدہ خطبہ ۱۹۵

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809