فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)4%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362348 / ڈاؤنلوڈ: 6026
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

نہیں ہے، یہاں تک کہ معاویہ کے عوامل نفوذی میں سے ایک بنام ''اربد'' امام علیہ السلام پر اعتراض کے سبب ، وہ بھی نازک وقت میں لوگوں کے لات وگھونسوں کا نشانہ بنا، اور اس کے قاتل کی پہچان نہ ہوسکی۔(۱)

اس حادثہ کا سبب یہ ہوا کہ دوسرے عوامل نفوذی اپنے امور کو انجام دینے سے باز آجائیں اور امام علیہ السلام کے ارادے کو سست کرنے اور رخنہ اندازی ڈالنے کے لئے کوئی دوسرا طریقہ اپنائیں تاکہ اس کے ذریعے سے امام علیہ السلام کو جنگ سے روک دیں اور یہ معلوم نہیں کہ کس گروہ کو نفع حاصل ہو ان کو ڈرائیں اسی وجہ سے رخنہ اندازی کرنے والوں میں ایک قبیلہ عبس (شایدغطفان کا باشندہ ) اور دوسرا قبیلہ بنی تمیم سے جن کے نام عبداللہ اور حنظلہ تھے ،نے ارادہ کیا کہ امام علیہ السلام کے دوستوں کے درمیان نظریاتی اختلاف پیدا کریں اور خیر خواہی اور نصیحت کا طریقہ اپنائیں لہٰذا دونوں نے اپنے قبیلے والوں کو اپنا ہم خیال بنالیا اور پھر امام علیہ السلام کے پاس آئے پہلے حنظلہ تمیمی نے کہا:

ہم لوگ خیر خواہی اور بھلائی کے لئے آپ کے پاس آئے ہیں امید ہے کہ آپ ہماری باتوں کو قبول کریں گے، ہم لوگ آپ کے اور ان لوگوں کے بارے میں جو آپ کے ساتھ ہیں سوچ رہے ہیں کہ اس مرد (معاویہ) سے خط وکتابت کریں اور شامیوں کے ساتھ جنگ کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لیں ۔ خدا کی قسم کوئی بھی نہیں جانتا کہ دونوں گروہوں کے درمیان مقابلے میں کون گروہ کامیاب ہوگا اور کس گروہ کو شکست ہو گی۔پھر عبید اللہ عبسی اٹھا اور حنظلہ کی طرح اس نے بھی گفتگو کی اور جو لوگ ان دونوں کے ساتھ آئے تھے ان لوگوں نے ان دونوں کی تائید کی ۔

امام علیہ السلام نے خدا کی حمد وثناء کے بعد ان لوگوں کے جواب میں فرمایا:

'' خداوند عالم انسانوں اور، اس سرزمین کا وارث ہے، آسمانوں اور ساتوں زمین کا پروردگار ہے ہم سب کے سب اسی کی بارگاہ میں پلٹ کر جائیں گے وہ جس شخص کو چاہتا ہے سرداری عطا کرتاہے، اور جس شخص سے چاہتاہے سرداری کو روک دیتا ہے، جس شخص کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس شخص کو چاہتا ہے

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص ۹۴

۵۲۱

ذلیل خوار کردیتا ہے دشمن کی طرف پشت کرنا گمراہوں اور گنہگاروں کا کام ہے اگرچہ ظاہری طور پر کامیابی اور غلبہ پاجائیں ۔ خدا کی قسم میں ایسے لوگوں کی باتیں سن رہا ہوں جو ہرگز اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ اچھائیوں کو پہچانیں اور برائیوں سے انکار کریں''(۱) امام علیہ السلام نے اپنے کلام کے ذریعے ان دونوں جاسوسوں کو جو لوگوں سے اپنے کوپوشیدہ رکھے ہوئے تھے اور ان لوگوں کی طرف سے گفتگو کررہے تھے ذلیل ورسوا کردیا اور واضح لفظوں میں فرمایا کہ معاویہ کے ساتھ جنگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک حصہ ہے اورکوئی بھی مسلمان اس وجوب سے انکار نہیں کرسکتا اور وہ لوگ جو ان لوگوں کو معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے روک رہے ہیں حقیقت میں وہ اسلام کے ان دو اصولوں کو پامال کررہے ہیں ۔

پردے فاش ہونے لگے

امیرالمومنین علیہ السلام کی گفتگو کا اثر یہ ہوا کہ حقیقت سب پر آشکار ہوگئی اور اسی مجمع میں دونوں جاسوس بے نقاب ہوگئے،لہٰذا معقل ریاحی نے اٹھ کر کہا، یہ گروہ خیر خواہی کے لئے آپ کی طرف نہیں آئے ہیں بلکہ آپ کو بہکانے کے لئے آئے ہیں ان سے دور رہئیے کیونکہ یہ لوگ آپ کے قریبی دشمن ہیں۔(۲) اسی طرح مالک نامی شخص اپنی جگہ سے اٹھا اور کہنے لگا: حنظلہ کی معاویہ سے خط وکتابت ہے آپ اجازت دیجیئے کہ جنگ شروع ہونے تک اسے قید کردوں ، قبیلہ عبس کے دوآدمی ، عیاش اور قائد نے کہا: خبر ملی ہے کہ عبداللہ کا معاویہ کے ساتھ رازونیاز ہے اور دونوں کے درمیان خط وکتابت ہوتی ہے آپ اسے قید کر لیجئے یا اجازت دیجیے کہ ہم لوگ اسے جنگ شروع ہونے تک قید رکھیں۔(۳) ان چار افراد کی حقیقت بیانی کا سبب یہ ہوا کہ جاسوس بے سرو پا ہو کر کہنے لگے: یہ اس شخص کی جزا ہے جو آپ کی مدد کے لئے آیا اور اپنے نظریہ کو آپ کے اور آپ کے دشمنوں کے بارے میں بیان کیا؟ امام علیہ السلام نے ان لوگوں کے جواب میں فرمایا : خدا وند عالم ہمارے اور تمہارے درمیان حاکم ہے میں تم لوگوں کو اس کے سپرد کررہاہوں اور اسی سے مدد حاصل کروں گا جو شخص جاناچاہتا ہے چلا جائے امام نے یہ بات کہی اور لوگ منتشر ہوگئے، چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ حنظلہ اور قبیلہ تمیم کے بزرگوں کے درمیان ایک

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص۹۶۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۷۵

(۲)،(۳) واقعہ صفین ص ۹۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۷۵

۵۲۲

جھڑپ ہوئی جس کی وجہ سے دونوں نفوذی عامل اپنے گروہ کے ساتھ عراق سے شام کی طرف روانہ ہوگئے اور معاویہ سے جاکر مل گئے، امام علیہ السلام نے حنظلہ کی خیانت کی وجہ سے حکم دیا کہ اس کے گھر کو ویران کردیا جائے تاکہ دوسروں کے لئے درس عبرت ہو۔(۱)

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۷۶۔وقعہ صفین ص ۹۷

۵۲۳

انتظار یا شام کی طرف روانگی

فوج کے تمام سپہ سالار او ر امام علیہ السلام کے چاہنے والے ابو سفیان کے بیٹے کو نیست ونابود کرنے کیلئے متفق تھے سوائے چند لوگوں کے مثلاً عبداللہ بن مسعود کے اصحاب جو خود اپناخاص نظریہ رکھتے تھے ( ان کے نظریات آئندہ بیان ہوں گے)

لیکن انہی افراد کے درمیان امام علیہ السلام کے مورد وثوق اور مخلص لوگ،مثلاً عدی بن حاتم ، زید بن حسین طائی تاخیر کے خواہاں تھے شاید خط وکتابت اور بحث ومباحثے کے ذریعے مشکل ختم ہوجائے ، لہٰذا عدی نے امام علیہ السلام سے کہا:اے امام! اگر مصلحت ہو تو تھوڑا صبر کیجیے اور ان لوگوں کو کچھ مہلت دیجئے تاکہ ان لوگوں کا جواب آجائے اور آپ کے بھیجے ہوئے افرادان سے گفتگو کریں اگر قبول کرلیا تو ہدایت پا جائیں گے اور دونوں کے لئے صلح بہتر ہے اور اگر اپنی کٹ حجتی پر اڑے رہے تو ہمیں ان سے مقابلے کے لئے لے چلئے۔

لیکن ان لوگوں کے مقابلے میں علی علیہ السلام کے لشکر کے اکثرسپہ سالار شام جانے کے لئے بیتاب تھے ان میں سے یزید بن قیس ارحبی ، زیاد بن نضر ، عبداللہ بن بدیل ، عمرو بن حمق(دوبزرگ صحابی) اورمعروف بابعی حُجر بن عدی بہت زیادہ اصرار کررہے تھے اور اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے ایسے نکات کی یاد دہانی کررہے تھے جو ان کے نظریہ کو صحیح ثابت کررہے تھے۔

مثلاً عبداللہ بن بدیل کا نظریہ یہ تھا :

وہ لوگ ہم سے دو چیزوں کی وجہ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں :

۵۲۴

۱۔ وہ لوگ مسلمانوں کے درمیان مساوات سے فرار کر رہے ہیں اور مال ودولت اور منصب میں

تبعیض کے قائل ہیں اور جو مقام ومنصب رکھتے ہیں اس میں بخل سے کام لیتے ہیں اور جس دنیا کو حاصل کرچکے ہیں اسے گنوانا نہیں چاہتے۔

۲۔ معاویہ ،علی علیہ السلام کے ہاتھ پر کس طرح بیعت کرے جب کہ امام علیہ السلام نے ایک ہی دن میں اس کے بھائی ،ماموں اور نانا کو جنگِ بدر میں قتل کیا ہے، خدا کی قسم مجھے امید نہیں ہے کہ وہ لوگ تسلیم ہوں گے مگر یہ کہ ان کے سروں پر نیزے ٹوٹیں اور تلواریں ان کے سروں کو پارہ پارہ کردیں اور لوہے کی سلاخیں ان کے سروں پر برس پڑیں۔

عبداللہ کی دلیلوں سے یہ بات واضح وروشن ہوتی ہے کہ شام کی طرف روانہ ہونے میں جتنی بھی تاخیر ہوگی اتنا ہی دشمن کو فائدہ اور امام علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو نقصان پہونچے گا ، لہٰذا امام کے ایک چاہنے والے ، یزید ارجی نے امام علیہ السلام سے کہا:

'' جنگ کرنے والے افراد سستی اور کاہلی سے کام نہیں لیتے اور جو کامیابی انہیں نصیب ہوتی ہے ہرگز اسے اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دیتے اوراس سلسلے میں آج اور کل پر بات نہیں ٹالتے(۱)

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۷۷۔وقعہ صفین ص ۱۰۲۔۹۸

۵۲۵

غیظ وغضب میں بردبار ی

اسی اثناء میں امام علیہ السلام کو خبر ملی کہ بزرگ صحابی عمروبن حمق اور حجر بن عدی شام والوں پر

لعنت وطعن کررہے ہیں(۱) امام علیہ السلام نے کسی کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو اس کام سے منع کرے وہ لوگ امام علیہ السلام کا پیغام سن کر امام علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور کہا: کیوں آپ نے ہمیں اس کام سے روکا؟ کیا وہ لوگ اہل باطل سے نہیں ہیں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: کیوں نہیں لیکن '' مجھے پسند نہیں ہے کہ تم لوگ لعنت کرنے والے او ربراکہنے والے بنو، گالی نہ دو اور نفرت نہ کرو اگر اس کی جگہ ان کی برائیوں کو بیان کرو توبہت زیادہ مؤثر ہوگا اور اگر لعنت اور ان سے بیزاری کرنے کے بجائے کہوکہ ، خدا یا ہمارے خون اور ان کے خون کی حفاظت فرما ۔ ہمارے اور ان کے درمیان صلح قراردے ، ان لوگوں کو گمراہی سے ہدایت عطا کرتاکہ جولوگ ہمارے فضائل وکمالات سے بے خبر ہیں اس سے وہ باخبر وآشنا ہوجائیں تو یہ میرے لئے

۵۲۶

خوشی کا باعث اور تمہارے حق میں بہتر ہوگا''(۱)

دونوں افراد نے امام علیہ السلام کی نصیحتوں کو قبول کرلیا اور عمروبن حمق نے امام علیہ السلام سے اپنی الفت ومحبت کو ان الفاظ میں بیان کیا:

'' میں نے رشتہ داری یا مال ومقام کی لالچ کے سبب آپ کے ہاتھوں پر بیعت نہیں کی ہے بلکہ بیعت کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے اندر ایسی پانچ اہم صفتیں ہیں جن کی وجہ سے میں نے آپ کی محبت کو اپنے اوپر فرض کیا ہے ،آپ پیغمبر (ص)کے چچا زادبھائی ہیں اور آپ ہی سب سے پہلے وہ شخص ہیں جو ان پر ایمان لائے ہیں اور آپ اس امت کی سب سے بہترین اور پاکیزہ عورت کے شوہر ہیں، آپ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذریت ِ طاہرہ کے باپ ہیں اور مہاجرین کے درمیان جہاد کرنے والوںمیں سب سے زیادہ اور عظیم حصہ آپ کا ہے ، خدا کی قسم اگر مجھے حکم دیں کہ بلند پہاڑوں کو اس کی جگہوں سے ہٹادوں اور دریا کے پانی کو ان سے نکالوں اور جہاں تک ممکن ہو آپ کے دوستوں کی مدد کروں اور آپ کے دشمنوں کو نابود کردوں تو بھی جو حق آپ کا میری گردن پر ہے میں اسے ادا نہیں کرسکتا۔

امیر المومنین علیہ السلام نے جب عمرو کے خلوص وجذبہ کا مشاہدہ کیا تو ان کے حق میں یہ دعا فرمائی''اللهم نوّر قلبه بالتقیٰ وأیدهُ الیٰ صراط مستقیم لیت أنَّ فِی جُندی مأةٍ مثلک فقال حُجر اِذاً واللّه یاأمیر المومنین صحّ جُندک و قلَّ من یَغشّیک '' (۲)

خدا اس کے قلب کو نورانی بنادے اور اسے سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرما کاش میری فوج میں تمہاری طرح کے سو افراد ہوتے۔حُجر نے کہا: اگر ایسا ہوتا ،توآپ کی فوج اصلاح کو قبول کرتی اور متقلّب (بدلنے والے) افراد اس میں بہت کم ہوتے۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۱۰۳،نہج البلاغہ،خطبہ ۱۹۷، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۸۱۔ اخبارالطوال ص ۱۵۵ تذکرہ الخواص ابن جوزی ص ۱۵۴ ۔ مصادر نہج البلاغہ ج۳ص۱۰۲

(۲)وقعہ صفین ص ۱۰۴۔۱۰۳

۵۲۷

امام علیہ السلام کا آخری فیصلہ

امام علیہ السلام اپنے موافقوں اور مخالفوں کی گفتگوؤں کو سننے کے بعد اس آیت '' وشاورھم فی الأمر فاذا غرمت فتوکل علی اللّہِ '' کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہونچے کہ خود کوئی قطعی فیصلہ کریں ۔ لہٰذا ہر کام سے پہلے یہ حکم دیا کہ جتنے بھی ذخیرے یا اضافی مال حاکموں کے پاس ہیں انہیں ایک جگہ جمع کیا جائے تاکہ فوج کو شام روانہ کرتے وقت ان کے اخراجات مہیا ہو سکیں ۔

جہاد اسلامی کے تین اہم رکن

جنگ اور قرآن کے مطابق '' جہاد'' یا ''قتال'' کے لئے بہت سے مقدمات ( چیزوں ) کی ضرورت ہوتی ہے جن میں سب سے اہم تین چیزیں ہیں۔

۱۔ بہترین وطاقتور اور بہادر جانباز وسپاہی ۔

۲۔ لائق اور عمدہ سپہ سالار۔

۳۔ اخراجات کا کافی مقدار میں ہونا۔

مختلف طرح سے آزمانے اور لوگوں کی طرف سے مستقل دعوت ناموں اور بہت زیادہ گروہوں مثلاً عراق کے بہت سے قبیلوں کا امام علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہنے نے ان تینوں اہم رکنوں میں سے پہلے رکن کو تو پورا کردیا ،اس بارے میں امام علیہ السلام کے لئے کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہ تھی لیکن ان کو اپنے ارادے پر باقی رکھنے کے لئے عظیم شخصیتوں مثلاً خود آپ کے بیٹوں امام حسن مجتبیٰ وحضرت حسین علیھما السلام اور ان کے باوفا اصحاب اسی طرح عماریاسروغیرہ نے مختلف موقعوں پر تقریریں کیں اور دوسرے رکن کی انجام دہی کے لئے امام علیہ السلام نے محترم اور عظیم شخصیتوں کے پاس خط لکھا اور ان لوگوں کوجنگ میں شریک ہونے کے لئے دعوت دی ، ان افراد کے وجود نے علاوہ اس کے کہ امام علیہ السلام کے لشکر کو معنویت اور جذبہ عطا کیا اورخود جہاد کو باحیثیت اور معنویت سے پُرکردیا لشکر کی طاقت میں بھی اضافہ کردیا ، یہاں پر ہم صرف امام علیہ السلام کے اس خط کا ترجمہ پیش کرنے پر اکتفا کریں گے جو آپ نے اصفہان کے حاکم مخنف بن سلیم کے نام لکھا ، خط کا مضمون یہ ہے:

۵۲۸

'' تجھ پر سلام : اس خدا کی حمد وثناء جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اما بعد، اس شخص سے جنگ کرنا عارفوں پر لازم ہے جس نے حق سے منہ موڑ رکھا ہے اور خواب غفلت کی وجہ سے اس کے دل اندھے اور گمراہی کے دلدل میں پھنس گئے ہیں۔

جو لوگ خداوند عالم کی مرضی پر راضی ہیں خدا ان سے راضی ہے اور جو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں خدا ان پر غضبناک ہوتاہے، ہم نے ارادہ کیاہے کہ اس گروہ کی طرف جائیں جو بندگان خدا کے بارے میں جس چیز کا خداوند عالم نے حکم دیا ہے اس کے خلاف عمل کرتاہے اور بیت المال کو اپنا مال سمجھ بیٹھا ہے اور حق کو پامال کرکے باطل کو ظاہر کردیا ہے اور خدا کی اطاعت نہ کرنے والوں کو اپنا راز دار بنالیا ہے اگر خدا کا کوئی ولی ومطیع ان بدعتوں کو بزرگ شمار کرتا ہے تو وہ لوگ اسے اپنا دشمن تصور کرتے ہیں اسے اس کے گھر اور علاقے سے باہر نکال دیتے ہیں اور اُسے بیت المال سے محروم کردیتے ہیں اوراگر کوئی ظالم ان کے ظلم میں شریک ہوتاہے تو وہ اسے اپنا دوست سمجھتے ہیں اور اُسے اپنا قریبی تصور کرتے ہیں اور اس کی دلجوئی کرتے ہیں، ان لوگوں نے بہت زیادہ ظلم وستم کیئے ہیں اور (شریعت کی ) مخالفت کا ارادہ کرلیا ہے بلکہ بہت دنوں سے اس کام کو انجام دے رہے ہیں تاکہ لوگوں کو حق سے دور کردیں اور ظلم وستم اور گناہوں کے پھیلانے میں ان کی مدد کریں ۔

جس وقت میرا خط تمہارے پاس پہونچے تم اپنے کاموں کو کسی مورد اعتماد شخص کے حوالے کرنا اور جلدی سے ہمارے پاس آنے کی کوشش کرنا شاید ان مکار اور دھوکے باز دشمنوں کا مقابلہ کرنا پڑے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا پڑے ہم جہاد کے ثواب میں تم سے بے نیاز نہیں ہیں''۔(۱)

جس وقت امام علیہ السلام کے منشی عبداللہ بن ابی رافع کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط اصفہان کے حاکم کے پاس پہونچا فوراً ہی اس نے اپنے دو قریبی ساتھیوں کو بلایا اور اصفہان کے تمام امور کو حارث بن ابی الحارث اور ہمدان کے تمام امور کو جو اس زمانے میں سیاسی اعتبار سے اصفہان کے زیر نظر تھا ،سعید بن وہب کے سپرد کیا ، اور امام کی خدمت کے لئے چل پڑا اور اسی طرح سے کہ جیسا کہ امام نے کہا تھا ( کہ ہم جہاد کے اجروثواب میں تم سے بے نیاز نہیں ہیں ) جنگ کے دوران

______________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۰۶۔۱۰۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۸۳۔۱۸۲

۵۲۹

شہادت پر فائز ہوگیا(۱)

یہی تنہا حاکم نہیں تھا جسے امام علیہ السلام نے جنگ کے لئے بلایا تھا بلکہ اسی سلسلے میں ذیقعدہ ۳۷ ھ میں ابن عباس کو خط لکھا کہ باقی بیت المال کو میرے حوالے کر دو لیکن جو لوگ تمہارے اطراف میں ہیں پہلے ان کی ضرورتوں کو پورا کرو اور بقیہ تمام مال کو کوفہ بھیج دو البتہ جنگ کے شرائط کو دیکھتے ہوئے صرف کوفہ کا بیت المال امام علیہ السلام کے لئے کافی نہ تھا جس کی وجہ سے دوسرے شہروں سے بھی مدد حاصل کی ہے(۲)

سپاہیوں کو حوصلہ عطا کرنا

امام علیہ السلام کے پاس سپاہیوں کی کمی نہ تھی، سرزمین اسلام کے بہت سے حصے آپ کے اختیار میں تھے لیکن ، نفوذی عوامل ، بزدل افراد ، مایوسی اور بے یقینی کی وجہ سے راہ حق سے دور ہورہے تھے، اسی وجہ سے امام علیہ السلام اور آپ کے بیٹے امام مجتبیٰ علیہ السلام ،دوسرے بیٹے امام حسین علیہ السلام فوجی چھاونی نخلیہ سے چلتے وقت تک لوگوں کے درمیان تقریریں کرتے رہے اوران کے دلوں کو محکم ومطمئن کرتے رہے ، تاریخ نے ان تقریروں اور خطبوں کی عبارتوں کو اپنے دامن میں محفوظ کررکھا ہے(۳)

اور کبھی عظیم شخصیتیں اور شہادت کے متمنی افراد مثلاً ہاشم بن عتبہ بن وقاص ، سعد وقاص کے بھتیجے نے لوگوں کے مجمع میں تقریر کی اور بہت زیادہ اصرار کیا کہ جلد سے جلد ان لوگوں سے جنگ شروع کریں جن لوگوں نے خدا کی کتاب کی مخالفت کی ہے اور خدا کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا ہے ، اس نے اتنا زیادہ جوش وخروش اور دلسوز انداز میں گفتگو کی کہ امام علیہ السلام نے اس کے حق میں دعا کی اور فرمایا:اللهمّ ارزقه الشهادة فی سبیلک والمرافقة لنبیّک صلی الله علیه وآله وسلم '' (۴) ۔یعنی پروردگارا: اسے اپنی راہ میں شہادت کے درجے پر فائز کر اور اسے اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہم نشین قرار دے۔

ہاشم صفین میں امام علیہ السلام کے لشکر کا علمبردار تھا اورجنگ کے آخری دنوں میں جام شہادت نوش کیا ۔

______________________

(۱)،(۲)وقعہ صفین ص ۱۰۶۔۱۰۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۸۳۔۱۸۲

(۳) وقعہ صفین ص ۱۱۵۔۱۱۲

(۴)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۸۴

۵۳۰

راہ کے انتخاب میں آزادی

عبداللہ بن مسعود(۱) کے ماننے والوں کا ایک گروہ امام علیہ السلام کے پاس پہونچا اور کہا : ہم لوگ آپ کے ساتھ چلیں گے اور آپ لوگوں سے دور اپنا پڑاؤ ڈالیں گے تاکہ آپ کے اور آپ کے مخالفوں کے کام پر نظر رکھیں ، جس وقت ہم دیکھیں گے کہ ایک گروہ غیر شرعی کام کررہا ہے یا تجاوز کررہا ہے تو اس کے خلاف جنگ کریں گے۔

امام علیہ السلام کی پوری حیات اور حکومت میں ایسی کوئی بات نہ تھی جوان کے لئے شک و تردید کا سبب بنتی لیکن دشمن کے بہکاوے نے ان کے دلوں میں وسوسے ڈال رکھے تھے اور صالحین کو ابوسفیان سے جنگ کرنے کے سلسلے میں مردّد کر رکھا تھا ، اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے ان لوگوں سے فرمایا:'' مرحباً وأهلاً ، هٰذا هوالفقه فی الدین والعلم بالسنة من لم یرض بهذا فهو جائر خائن '' (۲) مبارک ہو تمہیں یہ کلام وہی دین فہمی اور حقیقت سے آشنا ئی اور پیغمبر اسلام

کی سنت سے آگاہی ہے جو شخص بھی اس کام پر راضی نہ ہو وہ ستم گر اور خائن ہے۔

عبداللہ بن مسعود کے دوستوں کا دوسرا گروہ بھی امام کے پاس آیا اور اس نے کہا : ہم آپ کی تمام فضیلتوں کا اعتراف کرتے ہیں لیکن اس جنگ کے شرعی ہونے کے سلسلے میں شک وتردید کررہے ہیں ، اگر بنا ہے کہ ہم لوگ بھی دشمن کے ساتھ جنگ کریں تو ہم لوگوں کو کسی دور مقام پر بھیج دیں تاکہ وہاں سے دین کے دشمنوں سے جہاد کریں ۔ امام علیہ السلام یہ سن کر ناراض نہ ہوئے بلکہ ربیع بن خثیم کی سرپرستی میں ان میں سے چار سو آدمیوں پر مشتمل ایک لشکر '' ری '' کی طرف روانہ کردیا تاکہ وہاں اپنا وظیفہ انجام دیں اور اسلامی جہاد جو خراسان کے اطراف میں رونما ہوا ہے اس میں مدد کریں۔(۳)

_______________________________

(۱) عبداللہ بن مسعود حافظ قرآن اور صدر اسلام کے مسلمانوں میں سے ہے اور عثمان سے اس کی مخالفت کی روداد بہت طویل ہے ۳۲ ہجری میں مدینے میں انتقال ہوا، جنگ صفین کی آمادگی ۳۷ ہجری کے آخر میں ہوئی جس میں اس کا کوئی وجود نہ تھا بلکہ کچھ گروہ جن لوگوں نے اس سے قرآن و احکام سیکھا تھا وہ لوگ باقی تھے۔ طبقات ابن سعد ج۳،ص ۱۶۰ (مطبوعہ بیروت)۔

(۲)وقعہ صفین ص، ۱۱۵۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص۱۸۶۔

(۳)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص۱۸۶ ۔

۵۳۱

جب یہ گروہ جنگ میں شرکت کرنے کی طرف مائل نہ ہوا تو امام علیہ السلام نے میں قبیلہ باہلہ کے لوگوں کو بھی جن کے امام سے روابط اچھے نہیں تھے اس جنگ میں شرکت کرنے سے منع کردیا اور جو ان کا وظیفہ تھا انہیں دے دیا اور حکم دیا کہ '' دیلم '' کی طرف چلے جائیں اور وہاں اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر خدمت کریں(۱)

امام علیہ السلام کی فوج کے عظیم سپہ سالار

امام علیہ السلام کے لشکر کے اکثر سپاہی کوفہ وبصرہ اور ان دونوں شہروں کے اطراف میں رہنے والے یمن کے قبیلے تھے۔

امام علیہ السلام ان پانچ قبیلے والوں کو جو ابن عباس کے ہمراہ بصرہ سے نخلیہ ( کوفہ کی فوجی چھاؤنی ) آئے تھے ، ان کے لئے پانچ عظیم سپہ سالار معین کئے:

۱۔ قبیلہ بکر بن وائل کے لئے خالد بن معمر سدوس

۲۔ قبیلہ عبد القیس کے لئے عمروبن مرجوم عبدی

۳۔ قبیلہ ازد کے لئے صبرة بن شیمان ازدی

۴۔ تمیم وضُبّہ ورباب کے لئے احنف بن قیس

۵۔ اہل عالیہ کے لئے شریک بن اعور

یہ تمام سپہ سالار ابن عباس کے ہمراہ بصرہ سے کوفہ آئے اور انہوں نے ابو الاسود دوئلی کو اپنا جانشین قراردیا۔ اور خودسفر میں امام علیہ السلام کے ہمراہ رہے(۲)

اسی طرح امام علیہ السلام نے کوفہ کے سات قبیلوں پر، جن کی شرکت سے کوفہ کی فوجی چھاؤنی چھلک رہی تھی سات سپہ سالارمعین فرمائے ، جن کے نام تاریخ نے اپنے دامن میں محفوظ کررکھا ہے۔(۳)

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۱۶

(۲)وقعہ صفین ص ۱۱۷۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۳ ص۱۹۴

(۳)وقعہ صفین ص ۱۲۱۔مروج الذھب(ج۲، ص ۳۸۴) میں ابومسعود عقبہ بن عامر کا ذکر ہوا ہے۔

۵۳۲

پہلا فوجی دستہ

تمام سپہ سالاروں کا تعیّن اپنے اختتام کو پہونچا، امام علیہ السلام نے عقبہ بن عمرو انصاری کو اپنا جانشین معین فرمایا جو سابق الاسلام تھے اور پیغمبر کے ہاتھوں پر '' عقبہ '' میں بیعت کی تھی ۔ آپ نے حکم دیا کہ جنگ کے لئے آمادہ ہوجائیں ۔ جس وقت کوفہ کی فوجی چھاؤنی سپاہیوں سے چھلک رہی تھی ایک گروہ جو عثمان کی حکومت کے زمانے میں صرف حکومت کوفہ پر اعتراض کرنے کی وجہ سے جلا وطن کیا گیاتھا چاروں طرف سے آگیا اور یہ نعرہ لگایا '' قد آن للذین أخرجوا من دیارھم '' وہ وقت آپہونچا ہے کہ جو لوگ اپنے گھروں سے دور کردیئے گئے تھے وہ دشمن کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیں(۱)

شروع میں امام علیہ السلام نے بارہ ہزار افراد پر مشتمل دو طاقتور فوج کو شام کی طرف روانہ کیا اور آٹھ ہزار افراد پر مشتمل فوج کی ذمہ داری زیاد کو سونپی اور دوسری فوج جو چار ہزار جانبازوں پر مشتمل تھی اس کی ذمہ داری ہانی کے سپرد کی اور دونوں کو حکم دیا کہ پورے اتحاد واتفاق کے ساتھ شام کی طرف سفر کریں اور جہاں پر دشمن کا سامنا ہو وہیں پڑاؤ ڈال دیں(۲) ۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۱۲۱

(۲)کامل ابن اثیر ص ۱۱۴، تاریخ طبری ۳ جزء ۴ ص ۲۳۷

۵۳۳

پندرہویں فصل

حضرت علی علیہ السلام کی میدان صفین کی طرف روانگی

کوفہ کی فوجی چھاؤنی مجاہدوں سے چھلک رہی تھی اور سب ہی اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھے ہوئے امام علیہ السلام کے ہمراہ چلنے کے لئے آپ کے حکم کے منتظر تھے۔ بالآخر امام علیہ السلام ۵ شوال ۳۶ ہجری بروز بدھ، چھاؤنی میں تشریف لائے اور سپاہیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

'' اس خدا کی حمد وثنا جب بھی رات آتی ہے تو پورے جہان میں تاریکی چھا جاتی ہے، اس خدا کی حمدوثناجس وقت ستارہ نکلے یا پوشیدہ ہوجائے اس خدا کی حمدوثناء کہ جس کی نعمتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں اور اس کی عطا کے مقابلے میں کوئی اجر وثواب اس کے برابر نہیں ہے۔

ہاں اے لوگو، ہم نے اپنی فوج کے کچھ لوگوں کو پہلے روانہ کردیا ہے(۱) اور انہیں حکم دیا ہے کہ فرات کے کنارے اپنا پڑاؤ ڈالیں اور میرے حکم کے منتظر رہیں ، اب وہ وقت آپہونچا ہے کہ ہم دریا کو پار کریں اور ان مسلمانوں کی طرف روانہ ہوں جو دجلہ کے اطراف میں زندگی بسر کررہے ہیں اور ان لوگوں کو تم لوگوں کے ساتھ دشمن کی طرف روانہ کریں تاکہ تمہارے مدد گار رہیں ۔''(۲) ''عقبہ بن خالد ''(۳) کو کوفہ کا حاکم بنایا ہے خود کو اور تم کو میں نے رہا نہیں کیا ہے ( یعنی اپنے

اور تمہارے درمیان میں نے کوئی فرق نہیں رکھا ہے )ایسا نہ ہو کہ کوئی جانے سے رہ جائے ، میں نے مالک بن حبیب یربوعی کو حکم دیا ہے کہ مخالفت کرنے والوں اور پیچھے رہ جانے والوں کو رہا نہ کرے مگر یہ کہ تمام لوگوں کو تمہارے ہمراہ کردے ۔(۴)

اس وقت معقل بن قیس ریاحی ، جو کہ بہت ہی بہترین اور غیور شخص تھا اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا:

_______________________________

(۱) امام علیہ السلام نے ۱۲ ہزار سپاہیوں کو زیاد بن نضر وشریح کی سپہ سالاری میں پہلے ہی روانہ کردیا تھا۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۴۸، وقعہ صفین ص ۱۳۱ ( تھوڑے فرق کے ساتھ) امام علیہ السلام نے اس خطبہ کو کوفہ کی فوجی چھاؤنی ، کوفہ شہر کے باہر ۲۵ ،شوال ۳۷ ہجری کو بیان کیا تھا ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۲۰۱۔

(۳)عقبہ بن عامر ، مروج الذھب ج۲ ص ۳۸۴---(۴)وقعہ صفین ص ۱۳۲

۵۳۴

خدا کی قسم ! کوئی بھی خلاف ورزی نہیں کرے گا مگر جو شک کی حالت میں ہو اور کوئی بھی مکر نہیں کرے گا مگر منافق، بہتر ہوتا آپ مالک بن حبیب یر بوعی کو حکم دیتے کہ مخالفت کرنے والے کو قتل کرڈالے۔

امام علیہ السلام نے اس کے جواب میں کہا: جو ضروری حکم تھا وہ میں نے اسے دیدیا ہے اور وہ انشاء اللہ میرے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرے گا، اس وقت دوسرے لوگوں نے بھی چاہا کہ گفتگو کریں لیکن امام علیہ السلام نے اجازت نہیں دی اور اپنا گھوڑا طلب کیا اور جب آپ نے اپنا قدم رکاب پر رکھا تو اس وقت کہا '' بسم اللہ '' اور جب زین پر بیٹھے تو کہا( سبحان الذی سخّر لنا هذا وما کنّا له مقرنین وَ انا اِلیٰ ربّنا لمنقلبون ) (۱) وہ خدا (ہر عیب سے ) پاک ہے جس نے اس (سواری )کو ہمارا تابعدار بنایا حالانکہ ہم تو ایسے (طاقتور) نہ تھے کہ اس پر قابو پاتے ، اور ہم کو تو یقینااپنے پروردگا رکی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ پھرآپ نے فرمایا:

اے خدا ،میں سفرکی پریشانیوں اور زحمتوں اور واپسی کے غم واندوہ کے ساتھ چلنے اور اہل وعیال ومال پر بری نظر رکھنے والوں سے تیری پناہ مانگتاہوں ،خدایا! تو سفر میں ہمارے ہمراہ اور اہل وعیال کے لئے نگہبان ہے اور یہ دونوں چیزیں تیرے علاوہ کسی کے اندر جمع نہیں ہوسکتیں ، کیونکہ جو شخص جانشین ہوگا وہ ساتھ میں نہیں ہوسکتا اور جو شخص ساتھ میں ہوگا وہ جانشین نہیں ہوسکتا۔

پھر آپ نے اپنی سواری کو بڑھایا جب کہ حر بن سہم ربعی آپ کے آگے آگے چل رہا تھا اور رجز پڑھ رہا تھا اس وقت کوفہ میں رہنے والوںکے سردار مالک بن حبیب نے امام علیہ السلام کے گھوڑے کی لگام پکڑی اور بہت ہی غمگین انداز سے کہا: اے میرے آقا! کیا یہ مناسب ہے کہ آپ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے جائیں اور ان لوگوں کو جہاد کے ثواب سے مالا مال کریں اور مجھے مخالفوں کو جمع کرنے کے لئے چھوڑ جائیں ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ لوگ جتنا بھی ثواب حاصل کریں گے تم ان کے ساتھ ثواب میں شریک ہوگے اور تمہارا یہاں رہنا ہمارے ساتھ رہنے سے زیادہ ضروری ہے ابن حبیب نے کہا:

_______________________________

(۱)سورہ زخرف، آیت ۱۳

۵۳۵

''سمعاًو طاعة یا امیر المومنین'' (۱) (آپ کا جیسا حکم ہو میں تہ دل سے قبول کروں گا)

امام علیہ السلام اپنے سپاہیوں کے ہمراہ کوفہ سے روانہ ہوئے اور جب کوفہ کے پل سے گزرے تو لوگوں کو مخاطب کرکے کہا: اے لوگو تم میں سے جو لوگ رخصت کرنے آئے ہیں یا ان کا قیام یہیں پر ہے وہ یہاں پر پوری نماز پڑھیں گے، لیکن ہم لوگ مسافر ہیں اور جوبھی ہمارے ساتھ سفر پر ہے وہ واجب روزہ نہ رکھے اور اس کی نماز قصر ہے پھر آپ نے ظہر دورکعت پڑھی اور پھر اپنے سفر کو جاری رکھا اور جب آپ ابو موسیٰ کے گھر کے پاس پہونچے جو کوفہ سے دوفرسخ کی دوری پرواقع ہے تو وہاں آپ نے دو رکعت نماز عصر پڑھی اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا:

کتنی بابرکت ہے خدا کی ذات جو صاحب نعمت وبخشش ہے کتنا پاکیزہ ومنزہ ہے خدا جو صاحب قدرت وکرم ہے خدا سے میری یہی دعا ہے کہ مجھے اپنی قضاء قدر پر راضی ، اپنی اطاعت و فرمانبرداری پر کامیاب ، اپنے حکم پر متوجہ کرے کہ وہ دعاؤں کا سننے والا ہے۔(۲) پھر آپ اپنے سفر پر روانہ ہوئے اور '' ثرس '' نامی جگہ پر جوفرات سے نکلی ایک بڑی نہر کے کنارے واقع ہے اور یہ جو فرات سے نکلتی ہے اترے اور نماز مغرب ادا کی اس کے بعد خداکی اس طرح سے تعریف کی:

تمام تعریفیں اس خدا سے مخصوص ہیں جو رات کو دن میں اور دن کو رات میں تبدیل کرتاہے اس خدا کا شکر کہ جس وقت رات کی تاریکی پھیل جاتی ہے، تعریف اس خدا کی جب کہ ستارے نکل آتے ہیں یا ڈوب جاتے ہیں(۳)

آپ نے شب وہیں بسر کی اور نماز صبح پڑھنے کے بعد وہاں سے روانہ ہوئے جس وقت آپ '' قبہ قبین '' نامی جگہ پر پہونچے تو آپ کی نگاہیں لمبے لمبے کھجور کے درختوں پر پڑیں جو نہر کے کنارے لگے تھے اس وقت آپ نے قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی( والنخل باسقات لّها طلع نضید ) (۴)

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۳۴۔۱۳۲

(۲)،(۳)وقعہ صفین ص ۱۳۴۔۱۳۲

(۴)سورہ ق آیت ۱۰

۵۳۶

اور لمبی لمبی کھجوریں جس کا بور باہم گُھتا ہوا ہے '' اپنے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے ہی آپ نے نہر کو پار کیااور یہودیوں کی عبادت گاہ کے پاس آپ نے آرام فرمایا(۱) ۔

سرزمین کربلا سے عبور

امام علیہ السلام جب کوفہ سے صفین کے لئے روانہ ہوئے تو سرزمین کربلاسے بھی گزرے ہرثمہ بن سلیم کہتا ہے:

امام علیہ السلام کربلا کی سرزمین پر اترے اور وہاں ہمارے ساتھ نماز پڑھی، جس وقت آپ نے نمازتمام کی اس وقت تھوڑی سی مٹی اٹھائی اور اسے سونگھا اور کہا ( اے خاک کربلا کتنی خوش نصیب ہے کہ تیرے ساتھ کچھ لوگ محشور ہوں گے اور بغیر حساب وکتاب جنت میں داخل ہوں گے)، پھر آپ نے اپنے ہاتھوں سے کچھ مقامات کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہاں اور وہاں ، سعید بن وہب کہتے ہیں : میں نے امام علیہ السلام سے آپ کی اس سے کیا مرادہے ؟ آپ نے فرمایا: ایک عظیم خاندان اس سرزمین پر وارد ہوگا ،تم ہی میں سے ان لوگوں پر لعنت ہو ، ان لوگوں میں سے تم لوگوں پر لعنت ہو، میں نے کہا : آپ کے کہنے کا کیا مقصد ہے ؟ امام نے کہا تم لوگوں میں سے ان لوگوں پر لعنت جو ان لوگوں کوقتل کریں ، لعنت ہو تم لوگوں میں سے ان پر کہ ان کو قتل کرنے کی وجہ سے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔(۲) حسن بن کثیر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام کربلا کی سرزمین پر کھڑے ہوئے اور کہا: '' ذات کربٍ و بلائٍ '' ( یہ غم اور بلا کی زمین ہے ) اس وقت آپ نے اپنے ہاتھوں سے ایک خاص جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، یہ ان لوگوں کے قیام کی جگہ اور ان کی سواریوں کے ٹھہرنے کی جگہ ہے پھر ایک اور مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس جگہ پر وہ لوگ قتل کئے جائیں گے۔ پہلا راوی ،ہرثمہ کہتاہے کہ جنگ صفین کا معرکہ ختم ہوا اور میں اپنے گھر واپس آگیا اور اپنی بیوی سے جو کہ امام کی چاہنے والی تھی ان تمام باتوں کا ذکر کیا جو امام نے کربلا کی سرزمین پر بیان کیا تھا اور میں نے اس سے یہ بھی کہا کہ کس طرح سے امام غیب کی باتوں کو جانتے ہیں ؟ میری بیوی نے کہا مجھے چھوڑدو، کیونکہ امام، حق کے

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص ۱۳۵

(۲)وقعہ صفین ص ۱۴۲۔۱۴۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۷۰۔۱۶۹

۵۳۷

علاوہ کچھ نہیں کہتے، وقت گذرتا گیاعبیداللہ بن زیاد ایک عظیم لشکر لے کر حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے روانہ ہوا اور میں بھی اسی لشکر میں تھا جس وقت ہم کربلا کی سرزمین پر پہونچے اس وقت ہمیں امام کی باتیں یاد آئیں اس بات سے میں بہت زیادہ غمگین ہوا میں فوراً تیزی کے ساتھ حسین ( علیہ السلام) کے خیمے کی طرف بڑھا اور ان کی خدمت میں پہونچ کر پورا واقعہ بیان کیا ، حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: اچھا تم یہ بتاؤ کہ میرے ساتھ ہو یا میرے مخالف ہو؟ میں نے کہا کسی کے ساتھ نہیں ہوں ، میں نے اپنے اہل وعیال کو کوفہ چھوڑدیا ہے اور ابن زیاد سے ڈرتاہوں۔ آپ نے فرمایا: جتنی جلدی ہو اس سرزمین کو چھوڑ کرچلے جاؤ ، اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں محمد(ص) کی جان ہے جو شخص بھی آواز استغاثہ سنے گا اور میری مدد کو نہیں پہونچے گا خداوند عالم اسے جہنم کی آگ میں ڈال دے گا اس وجہ سے میں فوراً کربلا کی سرزمین سے روانہ ہوگیا تاکہ ان کی شہادت کا دن نہ دیکھ سکوں ۔(۱)

امام علیہ السلام ساباط اور مدائن میں

امام علیہ السلام کربلا کے قیام کے بعد ساباط کے لئے روانہ ہوئے اورشہر بہر سیر پہونچے وہاں کسریٰ کے کچھ آثار باقی نہ تھے اس وقت آپ کے چاہنے والوں میں سے ،حربن سہم(۲) نے ابویعفر کایہ شعرتمثل کے طور پر پڑھا:

جَرَتْ ِ الریاحُ علیٰ مکان ِ دیارِهم

فکانّما کانوا اعلیٰ میعادٍ

خزاں کی ہوائیں اس زمین پر چلیں جیسے وہ اپنے وعدہ کی جگہ پہونچ گئے ہیں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا : تم نے کیوں اس آیت کی تلاوت نہیں کی؟

( کم ترکوا من جنات وعیون وزروع ومقام کریم ونعمة کانوا فیها فاکهین کذالک واورثنا ها قوماً آخرین فما بکت علیهم السماء والارض وما کانوا منظرین ) ( دخان آیت ۲۵۔۲۹)'' وہ لوگ ( خدا جانے) کتنے باغ اور چشمے اور کھیتیاں اور نفیس مکانات

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۴۱۔۱۴۰، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۶۹

(۲)بعض جگہوں پر '' حریز'' لکھاہے ، حاشیہ وقعہ صفین ص ۱۴۲

۵۳۸

اور آرام کی چیزیں جس میں وہ عیش وچین کیا کرتے تھے چھوڑگئے یوں ہی ہوا، اور ان تمام چیزوں کا دوسرے لوگوں کو مالک بنادیا تو ان لوگوں پر آسمان وزمین کو بھی رونا نہ آیا اور نہ انہیں مہلت ہی دی گئی ''

اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا : دوسرے لوگ بھی ان کے وارث تھے لیکن وہ لوگ ختم ہوگئے اور پھر دوسرے لوگ اس کے وارث ہوگئے یہ گروہ بھی اگر اس نعمت پر خدا کا شکر بجانہ لائے تو یہ نعمت الٰہی ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان سے سلب ہوجائے گی لہٰذا کفران نعمت سے بچو تاکہ بدبختی میں گرفتار نہ ہو پھر آپ نے حکم دیا کہ تمام سپاہی اس بلندی سے نیچے اتریں ، جس جگہ امام علیہ السلام نے قیام کیا تھا وہ مدائن سے بہت قریب تھی، امام علیہ السلام نے حکم دیا کہ '' حارث اعور''شہر میں یہ اعلان کرے کہ جو شخص بھی جنگ کرنے کی صلاحیت وقدرت رکھتا ہے وہ نماز عصر تک امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں پہونچ جائے، نماز عصر کا وقت ہوا اور طاقتور افراد امام کی خدمت میں حاضر ہوئے امام نے خدا کا شکر ادا کیا اور فرمایا:

'' میں جہاد میں شرکت سے مخالفت کرنے اور اپنے علاقے کے لوگوں سے جدا ہونے اور ظالم وجابر لوگوں کی زمین پر زندگی بسر کرنے پر بہت حیرت میں ہوں نہ تم لوگ اچھے کام کا حکم دیتے ہو اور نہ لوگوں کو برائیوں سے روکتے ہو''(۱)

مدائن کے کسانوں نے کہا: ہم لوگ آپ کے حکم کے مطابق عمل کریں گے جو مناسب ہو آپ حکم دیں، امام علیہ السلام نے عدی بن حاتم کو حکم دیا کہ وہاں قیام کرے اور ان لوگوں کو لے کر صفین کی طرف روانہ ہو ، عدی نے وہاں تین دن قیام کیا پھر مدائن کے تین سو لوگوں کے ساتھ صفین کی طرف روانہ ہوا ور اپنے بیٹے یزید کو حکم دیا کہ تم یہاں ٹھہر جاؤ اور دوسرے گروہ کے ساتھ امام کے لشکر میں شامل ہونا، وہ چارسو آدمیوں کے ساتھ امام کے لشکر میں شامل ہوگیا(۲) ۔

انبار کے کسانوں نے امام علیہ السلام کا استقبال کیا

امام علیہ السلام مدائن سے '' انبار'' کی طرف روانہ ہوئے، انبار کے لوگوں کو امام علیہ السلام کے سفر اور اس راستے سے گزرنے کے بارے میں معلوم ہوا لہٰذایہ لوگ امام کے استقبال کے لئے بڑھے،

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۳ص۲۰۳۔۲۰۲،وقعہ صفین ص۱۴۲

(۲)وقعہ صفین ص۱۴۲۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۳ ص۲۰۳

۵۳۹

ا مام علیہ السلام اور ان لوگوں کے درمیان بہت سی باتیں ہوئیں۔ جب یہ لوگ امام کے سامنے پہونچے تو اپنے اپنے گھوڑوں سے اتر ے اور آپ کے سامنے اچھلنے کودنے لگے ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا : یہ کیا کر رہے ہو اور ان جانوروں کو کیوں لائے ہو؟ ان لوگوں نے جواب دیا: ( ایرانی بادشاہوں کے زمانے سے)حکمرانوں کی تعظیم وتکریم کے اظہار کا طریقہ ہمارے ہاں یہی ہے اور یہ جانور ہم لوگوں کی طرف سے آپ کے لئے ہدیہ ہیں ہم لوگوں نے آپ اور آپ کے سپاہیوں کے لئے کھانا اور سواریوں اور جانوروں کے لئے چارے کابھی انتظام کیاہے ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: اپنے بزرگوں کی تعظیم کے لیے جو عمل انجام دیتے ہو خدا کی قسم! اس سے ان لوگوں کو فائدہ نہیں پہونچتااس سے اپنے کو زحمت ومشقت میں ڈالتے ہو ، دوبارہ یہ کام انجام نہ دینا جو جانور تم لوگ اپنے ساتھ لائے ہو اگر تم لوگ راضی ہو تو اس شرط پر قبول کروں گاکہ اس کی قیمت خراج میں محسوب ہواور جو کھانے پینے کی چیزیں ہمارے لئے لائے ہواسے ایک شرط پر قبول کروں گا کہ اس کی قیمت ادا کروں ۔

انبار کے لوگوں نے کہا: آپ قبول کرلیں ہم اس کی قیمت معلوم کریںگے پھر آپ سے لے لیں گے ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: ایسی صورت میں تم لوگ اصل قیمت سے کم لوگے۔

انبار کے لوگوں نے کہا: اے میرے امام ، عربوں کے درمیان ہمارے دوست واحباب ہیں کیا آپ ہم لوگوں کو ان کو ہدیہ وتحفہ دینے اور ان لوگوں سے ہدیہ وتحفہ قبول کرنے سے منع کررہے ہیں ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا: تمام عرب تم لوگوں کے دوست ہیں لیکن ہر آدمی شائستہ نہیں ہے کہ تمہارے قیمتی وسنگین تحفے کو قبول کرے اور اگر کوئی تم لوگوں سے دشمنی کرے تو مجھے اس سے آگاہ کرو۔

انبار کے لوگوں نے کہا: اے میرے آقا! ہمارے ہدیہ کو قبول فرمائیے ہم لوگوں کی خواہش وآرزو ہے کہ ہمارے ہدیہ کو قبول کرلیجیئے۔

امام علیہ نے فرمایا : تم پر افسو س ہے ہم تم سے زیادہ بے نیاز ہیں ، اتنا کہنے کے بعد امام علیہ السلام اپنے سفر پر روانہ ہوگئے اور ان لوگوں کو عدالت الٰہیہ کا درس دیا جو بہت زیادہ عرصہ سے عجم کے بادشاہوں کے ظلم وستم کا شکا ر تھے اور اس کے حاکموں کے ظلم وستم کو

۵۴۰

برداشت کررہے تھے(۱)

امام علیہ السلام جب سفر کرتے کرتے ''الجزائر ''پہونچے تو '' تغلِب اور نمر'' کے قبیلے والوں نے امام علیہ السلام کا شاندار استقبال کیا۔

امام علیہ السلام نے اپنے تمام سپہ سالاروں میں سے صرف '' یزید قیس '' کو اجازت دیا کہ ان لوگوں کی لائی ہوئی غذا کو کھائے، کیونکہ وہ اسی قبیلے کا رہنے والا تھا۔

پھر امام علیہ السلام کا قافلہ '' رقّہ'' پہونچا اور فرات کے کنارے قیام کیا وہاں ایک راہب گوپھا گھر میں رہتا تھا جب اسے امام علیہ السلام کے آمد کی خبر ملی تو وہ آپ کی خدمت میں آیا اور کہا:مجھے اپنے آباؤ اجداد سے ایک صحیفہ وراثت میں ملا ہے جسے جناب عیسیٰ کے اصحاب نے لکھا ہے اور میں اسے اپنے ساتھ لایا ہوں تاکہ آپ کے سامنے اُسے پڑھوں ، پھر اس نے اس صحیفے کو پڑھا ( جس کی عبارت یہ تھی)

'' شروع کرتا ہوں خدا کے نام سے جو رحمٰن ورحیم ہے، وہ خدا جس نے گذشتہ زمانے کے تمام حالات کو معین کررکھا ہے اور لکھا ہے کہ ہم نے امیوں میں سے ایک کو اپنی پیغمبری کے لئے چنا ہے جو ان لوگوں کو قرآن و حکمت کی تعلیم دیتاہے اور سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتاہے اور لوگوں کے درمیان صدائے توحید بلند کرتاہے اور برے کو برائی سے سزا نہیں دیتا بلکہ معاف کردیتا ہے اس کے ماننے والے خدا کے مخلص اور فرماں بردار بندے ہیں جو عظیم منصبوں پر فائز ہونے اور زندگی کے نشیب وفراز پر بھی خدا کا شکر ادا کرتے ہیں ، ہر وقت ان کی زبانوں پر تسبیح وتہلیل کی آواز رہتی ہے ، خدا اسے دشمنوں پر کامیابی عطا کرتاہے جس وقت خدا اسے (پیغمبر)اپنے پاس بلالے گا تو ان کی امت دوگرہوں میں تقسیم ہوجائے گی لیکن دو بارہ پھر متحد ہوجائے گی اور کچھ دنوں تک اسی حالت پر باقی رہے گی لیکن پھر دو گروہوں میں تقسیم ہوجائے گی، اس کی امت سے ایک شخص اس فرات کے کنارے سے گزرے گا وہ ایسا شخص ہے جو نیکیوں اور اچھائیوں کا حکم دیتاہے اور برائیوں سے روکتا ہے صحیح فیصلہ کرتاہے اور فیصلہ کرتے وقت رشوت اور اجرت نہیں لیتا،دنیا

______________________

(۱) نہج البلاغہ باب الحکم ، نمبر ۱۳۶۔وقعہ صفین ص۱۴۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۲۰۳

۵۴۱

اس کی نگاہوں میں اس گرد وغبار سے بھی بدترہے جسے تیز ہوا کے جھونکے اڑاتے ہیں اور موت اس کی نگاہوں میں پیاسے انسان کی پیاس بجھنے سے بھی زیادہ محبوب ہے تنہائی میں وہ خدا سے ڈرتاہے اور ظاہری طور پر خدا کامخلص ہوتاہے خدا کا حکم جاری کرنے میں برا کہنے والوں کی سرزنش سے نہیں ڈرتا ، جو شخص بھی اس علاقہ کا اس پیغمبر سے ملاقات کرے اس پر ایمان لائے اس کی جزا میری مرضی اور بہشت ہے اور جو شخص بھی خدا کے اس صالح بندے کو پالے اور اس کی مدد کرے اور اس کی راہ میں قتل کیا جائے تو اس کی راہ میں قتل ہونے والا شہید ہے...۔

جب راہب اس صحیفے کو پڑھ چکا توکہا، میں آپ کی خدمت میں ہوں اور کبھی بھی آپ سے دور نہیں ہوؤنگا تاکہ جو چیز آپ تک پہونچے وہ مجھ تک بھی پہونچے امام علیہ السلام یہ حالت دیکھ کر رونے لگے اور فرمایا: خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے بھولنے والوں میں قرار نہیں دیا ، اس خدا کی تعریف جس نے مجھے اچھے اور نیک لوگوں کی کتابوں میں یاد کیا۔

راہب اس وقت سے امام علیہ السلام کے ہمراہ تھا اور جنگ صفین میں درجہ شہادت پر فائز ہوگیا امام علیہ السلام نے اس کے جنازے پر نماز پڑھی اور اسے دفن کیااور فرمایا '' ھذا منّا اھل البیت '' (یہ شخص ہمارے خاندان سے ہے ) اور اس کے بعد کئی مرتبہ اس کے لئے طلب مغفرت کیا۔(۱)

امام علیہ السلام کا رقّہ میں قیام

امام علیہ السلام نے مدائن سے روانہ ہونے سے پہلے اپنے تین ہزار فوجیوں کو معقل بن قیس کی سپہ سالاری میں رقّہ کی طرف روانہ کیا(۲) اور اسے حکم دیا کہ موصل پھر اس کے بعد نصیبین کی طرف جائے اور رقّہ کی سرزمین پر قیام کرئے اور وہاں پر امام سے ملاقات کرئے اور خود امام بھی دوسرے راستے سے رقّہ کے لئے روانہ ہوئے گویا اس گروہ کو اس راستے سے بھیجنے کا مقصد اس علاقے میں حاکم کی حکومت اور موقعیت کو ثابت کرنا تھا ، لہٰذا آپ نے لشکر کے سپہ سالاروں کو حکم دیاکہ کسی سے بھی جنگ نہ کریں اور اپنے سفر میں ان

______________________

(۱)وقعہ صفین ص۱۴۸،۱۴۷۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۰۶، ۲۰۵

(۲) کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۴۴۔ تاریخ طبری ج۳، جزء ۵ ص ۲۳۷

۵۴۲

علاقوں کے لوگوں کو آرام واطمینان بخشیں اور اس راستے کو صبح اور شام میں طے کریں اور دوپہر اور رات کے پہلے حصے میں آرام کریں ( کیونکہ خداوندعالم نے رات کوآرام کرنے کے لئے پیدا کیا ہے ) خود اور اپنے سپاہیوں اور سواریوں کو راحت و آرام پہونچائیں، لشکر کے سپہ سالارنے امام کے حکم کے مطابق سفر طے کیا اور اس وقت رقّہ پہونچا جب امام علیہ السلام اس سے پہلے رقّہ پہونچ چکے تھے۔(۱)

رقّہ سے معاویہ کے نام خط

امام علیہ السلام کے چاہنے والوں نے امام سے عرض کیا کہ آپ معاویہ کے نام خط لکھیں اور دوبارہ اپنی حجت کو اس پر تمام کریں ، امام علیہ السلام نے ان کی درخواست کو قبول کیا(۲) کیونکہ آپ چاہتے تھے کہ معاویہ کی نافرمانی اور سرکشی بغیر خوں ریزی کے برطرف ہوجائے جب کہ آپ جانتے تھے کہ حکومت وقدرت حاصل کرنے والوں پر نصیحت وموعظہ کا کوئی اثر نہ ہوگا ، جب امام علیہ السلام کا خط معاویہ کے پاس پہونچا تو اس نے جواب میں جنگ کرنے کی دھمکی دی(۳) اس وجہ سے امام علیہ السلام اپنے ارادے میں اورمحکم ہوگئے اور رقّہ سے صفین کی طرف جانے کا حکم دیدیا۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۱۴۸۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۰۸

(۲)(۳)امام کے خط کی عبارت اور جنگ صفین کے متعلق معاویہ کا جواب ص ۱۵۰۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۱۱۔۲۱۰

۵۴۳

پل بنا کر فرات سے گزرنا

اس وسیع وعریض فرات کو عبور کرنا امام علیہ السلام کے لئے بغیر کسی پل یا کسی کشتی کے مشکل امر تھا، امام علیہ السلام نے رقّہ کے لوگوں سے کہا کہ کوئی ایسا وسیلہ لائیں جس کے ذریعہ سے خود اور آپ کے تمام سپاہی فرات کو پار کرسکیں ، لیکن اس سرحدی شہر کے لوگ عراقیوں کے برخلاف مولائے کائنات سے کوئی الفت ومحبت نہیں رکھتے تھے لہٰذا پل نہیں بنایا، امام علیہ السلام نے شجاعت وقدرت کے باوجود ان کے انکار کرنے پر کوئی مزاحمت نہیں کی اور ارادہ کیا کہ اپنے سپاہیوں کے ہمراہ اس پل سے گزریں جو وہاں سے کچھ دور ''منبِج'' نامی مقام پر واقع ہے۔

اس وقت مالک اشتر نے بلند آواز میں اس قلعہ کو خراب کرنے کی دھمکی دی جس میں وہ لوگ پناہ

لئے ہوئے تھے، رقّہ کے رہنے والوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا مالک وہ شخص ہے جو اگر کوئی بات کہتا ہے تو اس پر عمل ضرور کرتاہے لہٰذا ان لوگوں نے فوراً پل بنانے کا اعلان کیا اور امام علیہ السلام کا پورا لشکر تمام سازوسامان کے ساتھ اُس پل سے گزرگیا اور سب سے

۵۴۴

آخر میں جس نے رقّہ کو چھوڑا وہ مالک اشتر تھے۔(۱)

امام علیہ السلام زمین شام پر

امام علیہ السلام نے فرات پار کرکے عراق کی سرزمین کو چھوڑدیا اور سرزمین شام پر قدم رکھا اور معاویہ کے ہر طرح کے شیطانی اور مزاحمتی حملوں کے مقابلے کے لئے اپنے دو بہترین وبہادر سپہ سالاروں ،زیاد بن نصر و شریح بن ہانی کو بالکل اسی انداز سے جیسے کہ کوفہ میں بھیجا تھا بطور ہر اول معاویہ کے لشکر کی طرف روانہ کیاوہ دونوں '' سور الرّوم '' نامی جگہ پر معاویہ کے سپاہیوں کے لشکر جس کا سپہ سالار ابو الاعور تھا روبرو ہوئے اور ان لوگوں نے کوشش کی کہ کسی بھی صورت سے دشمن کے اس سپہ سالار کو امام کا مطیع وفرمانبردار بنادیں، لیکن ان کی کوشش کامیاب نہ ہوسکی اور دونوں نے امام علیہ السلام کو فوراً حارث بن جمھان جعفی کے ہمراہ خط روانہ کیا اور امام علیہ السلام کے حکم کے منتظر رہے(۲)

امام علیہ السلام نے خط پڑھنے کے بعد فوراً مالک اشتر کو بلایا اور کہا زیاد اور شریح نے ایسا ایسا لکھا ہے جتنی جلدی ہوسکے اپنے آپ کو ان لوگوں تک پہنچادواور دونوں گرہوں کی ذمہ داری کو قبول کرلواورجب تک دشمن سے ملاقات نہ ہو اور ان کی گفتگو نہ لینا اس وقت تک جنگ شروع نہ کرنا مگر یہ کہ وہ لوگ جنگ کی ابتداء کریں ،دشمن پر تمہارا غصہ دشمن کی طرف آگے بڑھنے میں مانع نہ ہو مگریہ کہ کئی مرتبہ ان کی گفتگو سنو اور اپنی حجت کو ان پر تمام کردو، پھر حکم دیا: زیاد کو میمینہ اور شریح کو اپنے میسرہ سپرد کرنا اور خود قلب لشکر میں رہنا اور ہاں دشمن سے اتنا قریب نہ رہنا کہ وہ خیال کریں کہ جنگ شروع کرنا چاہتے ہو اور نہ دشمنوں سے اتنا دور

______________________

(۱)وقعہ صفین ص۱۵۴۔۱۵۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۱۲۔۲۱۱۔ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۸

(۲)وقعہ صفین ص۱۵۴۔۱۵۱، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۱۳۔۲۱۱،تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۸،کامل ابن اثیر ج ۳ ص۱۴۴

۵۴۵

رہنا کہ وہ تصور کریں کہ ڈر رہے ہو اسی طریقے پر باقی رہنا یہاں تک کہ میں تم تک پہونچ جاؤں(۱) پھر امام علیہ السلام نے ان دونوں سپہ سالاروں کو یہ جواب لکھا اور مالک اشتر کی اس طرح تعریف کی''امابعد، فانی قدأمرت علیکما مالکاً فاسمعٰاله واطیعاأمره فانّه مِمّن لایخاف رهقه ولاسقاطُه ولابطوُه عن ما الاسراع اِلیه أحزم ولا اسراعه الٰی ماالبط ء عنه امثلُ وقد أمرته بمثل الّذی أمرتکما الّا یبدئُ القوم بقتال حتٰی یلقاهم فید عوهم ویعذر الیهم ان شاء اللّٰه '' (۲)

دونوں سپہ سالاروں کو معلوم ہو کہ میں نے سپہ سالاری مالک اشتر کو سونپ دی ہے، ان کی باتوں کو سنو اور ان کے حکم کی اطاعت کرو ۔ کیونکہ وہ ایسا شخص نہیں کہ اس کی عقل ولغزش سے خوف کھائے اور وہ ایسا بھی نہیں ہے کہ جلد بازی میں سستی کرے یا بردباری کے وقت جلدی کرے اور اسے ان چیزوں کا حکم دیا ہے جن چیزوں کا تمہیں حکم دیا ہے کہ ہرگز دشمن کے ساتھ جنگ نہ کریں بلکہ انہیں حق کی طرف بلائیں اور حجت کو ان پر تمام کریں۔

مالک اشتر نے بہت ہی تیزی کے ساتھ اپنے کو اس مقام پر پہونچایا جہاں پر دونوں فوجیں آمنے سامنے موجود تھیں، فوج کو منظم کیا اس کے بعد اپنی فوج کے دفاع کے علاوہ کوئی اور کام انجام نہیں دیا اور جب شام کے سپہ سالارابو الاعور کی طرف سے حملہ ہوتا تھاتو اس کا دفاع کرتے تھے، سب سے تعجب خیز بات یہ ہے کہ مالک اشتر نے دشمن کی فوج کے سپہ سالار کے ذریعے معاویہ کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر جنگ کرنا چاہتا ہے تو خود میدان جنگ میں آئے تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کریں اور دوسروں کے خون اور قتل وغارت گری کاسبب نہ بنیں لیکن اس نے اس درخواست کو قبول نہیں کیا، یہاں تک کہ ایک دن آدھی رات کو معاویہ کی فوج بہت تیزی کے ساتھ پیچھے ہٹ گئی اور فرات کے کنارے ایک وسیع وعریض زمین پر پڑاؤ ڈالا اور امام کے سپاہیوں پر پانی بند کردیا۔(۳)

_______________________________

(۱)،(۲)وقعہ صفین ص۱۵۴۔۱۵۱، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۱۳۔۲۱۱،تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۸،کامل ابن اثیر ج ۳ ص۱۴۴

(۳)وقعہ صفین ص۱۵۴،تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۸

۵۴۶

معاویہ کا صفین میں آنا

معاویہ کو خبر ملی کہ علی علیہ السلام نے سرزمین رقّہ پر موجود فرات کے اوپر پل بنایا اور خود اور اپنے پورے لشکر کو اس دریا سے پار کرایاہے ، معاویہ جس نے شام کے لوگوں کو پہلے ہی اپنا بنالیا تھا ، منبر پر گیا اور امام علی علیہ السلام کی فوج کی آمد کی خبر دی جو کوفیوں اور بصریوں پر مشتمل تھی ،اور ان کو جنگ کرنے اور جان ومال کے دفاع کے لئے بہت زیادہ رغبت دلائی، معاویہ کی تقریر کے بعد پہلے سے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت اٹھے اور معاویہ کی تائید کی بالآخر معاویہ ان تمام لوگوںکے ہمراہ جن کے اندر جنگ کرنے کی صلاحیت تھی جنگ کے لئے روانہ ہوا(۱) اور اپنی فوج کے کنارے جس کا سپہ سالار ابوالاعور تھا قیام کیا اور اسی جگہ کو اپنا محاذِ جنگ قرار دیااور ایک قول کی بنا ء پر چالیس ہزار آدمیوں کو فرات پر معین کیا تاکہ امام کے سپاہیوں کو فرات کی طرف آنے سے روک سکیں ۔(۲)

______________________

(۱) ابن مزاحم نے (وقعہ صفین میں ) معاویہ کے سپاہیوں کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار لکھا ہے لیکن مسعودی نے (مروج الذھب، ج۳، ص ۳۸۴میں ) کہا ہے کہ جس قول پر لوگوں کا اتفاق ہے وہ پچاسی ہزار آدمی ہیں اور اسی طرح امام علی علیہ السلام کے سپاہیوں کی تعداد(وقعہ صفین ص ۱۵۷) ایک لاکھ یا اس سے زیادہ لکھا ہے اور مروج الذھب میں۹۰ ہزار لکھا ہے ۔

(۲) وقعہ صفین ص۱۵۷۔۱۵۶

۵۴۷

امام علیہ السلام کا سرزمین صفین پر ورود

زیادہ دن نہ گزرا تھا کہ امام علیہ السلام اپنے عظیم وشجاع سپاہیوں کے ہمراہ صفین پہونچے اور اپنی فوج کہ جس کے سپہ سالار مالک اشتر تھے سے ملحق ہوگئے۔

علی علیہ السلام نے سرزمین صفین پر اس وقت قدم رکھا جب دشمن نے ان کے سپاہیوں اور فرات کے درمیان اپنی عظیم فوج کا پہرہ بٹھا رکھا تھا اور امام کے سپاہیوں کو فرات تک پہونچنے سے روک دیا تھا، عبداللہ بن عوف کہتا ہے امام علیہ السلام کے سپاہیوں کے پاس پانی کا ذخیرہ بہت کم تھا اور ابوالاعور معاویہ کی فوج کے سپہ سالار نے نہر پر جانے کے تمام راستوں کو سواروں اور پیادوں سے بند کردیا تھا اورتیر چلانے والوںکو ان کے سامنے اور ان کے اردگرد نیزہ برداروں اور زرہ پہنے ہوئے لوگوں کو کھڑا کررکھا تھا جس کی

وجہ سے امام علیہ السلام کے لشکر میں پانی کی کمی ہونے لگی اور لوگ امام علیہ السلام کے پاس شکایتیں لے کر

۵۴۸

آئے۔(۱)

امام علیہ السلام کا تحمل

ہر معمولی اور عام کمانڈر ایسی حالت میں تحمل وبرد باری کھودیتاہے اور فوراً حملہ کرنے کا حکم دے دیتاہے لیکن امام علیہ السلام جن کا پہلے ہی دن سے یہ مقصد تھا کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو بغیر خونریزی کے ہی فیصلہ ہوجائے۔ اس وقت آپ نے اپنے ایک خاص رازدار صعصعہ بن صوحان(۲) کو بلایا اور کہا کہ تم بعنوان سفیر معاویہ کے پاس جاؤ اور اس سے کہو:

'' ہم لوگ اس علاقے میں آگئے ہیں اور ہمیں پسند نہیں کہ اتمام حجت سے پہلے جنگ شروع کریں اور تو پوری قدرت کے ساتھ شام سے باہر آگیا اور اس سے پہلے کہ ہم تجھ سے جنگ کریں تو نے جنگ کا آغاز کردیا میرا نظریہ ہے کہ تو جنگ سے باز آجاتا کہ میری دلیلوں کو غور سے سن سکے، یہ کا کون سابزدلانہ طریقہ ہے کہ تو نے ہمارے اور پانی کے درمیان اختیارکیا ہے، اس پہرے کو ہٹادے تاکہ میرے نظریہ کے بارے میں غورکر، اور اگر تو چاہتا ہے کہ یہی وضعیت رہے اور لوگ پانی کے لئے آپس میں جنگ کریں اور آخر میں کامیاب ہونے والاگروہ اس سے فائدہ اٹھائے تو اب مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔'' صعصعہ ، امام کے سفیر بن کر معاویہ کے خیمے میں داخل ہوئے جو لشکر کے درمیان میں تھا اور امام علیہ السلام کے پیغام کو معاویہ تک پہونچایا ، ولید بن عقبہ جیسے کور دل فرات پر قبضہ باقی رکھنے کے خواہاں تھے تاکہ امام کے لشکر والے پیاس کی شدت سے ہلاک ہوجائیں، لیکن سب سے بڑا سیاسی چالباز ، عمروعاص نے امیہ کے بیٹوں کے برخلاف معاویہ سے کہا فرات پر سے اپنا قبضہ ہٹالے اور جنگ کے دوسرے امور کی طرف غور کر ، اور ایک قول کی بناء پر اس نے کہا، یہ کام اچھا نہیں ہے کہ تو سیراب ہو اور علی پیاسے ہوں جب کہ ان کے پاس ایسے ایسے جانباز سپاہی ہیں جو فرات کی فکر میں ہیں یاتو اس پرقبضہ کرلیں گے یا اس راہ میں مر جائیں گے

______________________

(۱)الامامة والسیاسة ج۱ص ۹۴۔ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۹، کامل ابن اثیر ج۳ ص۱۴۵۔ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۸۷

(۲) طبری اور ابن قیتہ کے بقول امام علیہ السلام نے اشعث کو بھیجا تھا ۔ الامامة والسیاسة ج۱،ص ۹۴۔ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص۲۴۰

۵۴۹

اور تو جانتاہے کہ علی بہت بڑے بہادر ہیں اور عراق اور حجاز کے لوگ ان کے ہمرکاب ہیں ، علی اس مرد کا نام ہے کہ جب لوگوں نے فاطمہ کے گھر پر حملہ کیا تو انہوں نے کہا اگر چالیس افراد میرے ساتھ ہوتے تو حملہ کرنے والوں سے بدلہ لیتا ۔

جب کہ معاویہ امام کے سپاہیوں پر پانی بند کرکے اپنی پہلی کامیابی تصور کررہا تھا ۔ ایک شخص کہ جسے لوگ عابد ہمدانی کے نام سے جانتے تھے اور عمرو عاص کے دوستوں اور بہترین خطیبوں میں سے تھا ، اس نے معاویہ کی طرف رخ کر کے کہا سبحان اللہ ، اگر تم عراق کی فوج سے پہلے اس جگہ پہونچے ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم ان لوگوں پر پانی بند کردو ، خدا کی قسم اگر وہ لوگ تم سے پہلے یہاں آئے ہوتے تو تم پر کبھی پانی بند نہیں کرتے ، سب سے بڑا کام جو تم اس وقت انجام دے رہے ہو وہ یہ ہے کہ وقتی طور پر ان لوگوں کے لئے فرات کا پانی بند کر دیا ہے ،لیکن دوسرے موقع کے لئے آمادہ رہو کہ وہ لوگ اسی طرح سے تمہیں سزا دیں گے، کیا تم نہیں جانتے کہ ان کے درمیان ، غلام ، کنیز ،مزدور ، ضعیف وناتواں اور بے گناہ لوگ ہیں ؟

خدا کی قسم ، تمہارا سب سے پہلا ہی کام ظلم وستم ہے۔ اے معاویہ ، تونے اس غیر انسانی حرکت کی وجہ سے خوفزدہ اور مردد افراد کو جرأت وہمت دیدی اور وہ شخص جو تجھ سے جنگ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا تو نے ان کو جری کردیا(۱)

معاویہ ، ان جگہوں کے برخلاف کہ جہاں پر وہ حلم وبردباری سے کام لیتا تھا اس زاہد ہمدانی پر سخت ناراض ہوا اور عمرو عاص سے اس کی شکایت کی ، اور عاص کے بیٹے نے بھی جو کہ اس کا دوست

تھا اس پر غضبناک ہوا، لیکن سعادت اور خوش بختی نے اس زاہد پر اپنا قبضہ کررکھا تھا اس نے معاویہ کے لشکر کے افق کو تاریکی میں دیکھا اور اسی رات امام علیہ السلام سے ملحق ہوگیا۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۶۰۔تھوڑے فرق کے ساتھ ،الامامة والسیاسة ج۱ص ۹۴۔ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۸۸۔تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۴۰

۵۵۰

حملہ کرنے اور قبضہ توڑنے کا حکم

پیاس کی شدت نے امام علیہ السلام کے جا نبازوں کونیم جان کردیاتھا جس کی وجہ سے امام علیہ السلام کو غم واندوہ نے اپنے گھیرے میں لے لیاتھاجب ، آپ قبیلہ '' مذ حج'' کی طر ف آئے توایک کو

ایک قصیدہ کے ضمن میں یہ کہتے ہوئے سنا :

أیمنعنا القومُ مائَ الفرات

وفینا الرماحُ وفینا الحُجف(۱)

کیاشام کی قوم ہم لوگوں کو فرات کے پانی سے روک دے گی جب کہ ہم لوگ نیزہ وزرہ سے لیس ہیں ؟ پھر امام علیہ السلام قبیلہ '' کِندہ'' کی طرف گئے تو دیکھا کہ ایک سپاہی اشعث بن قیس کے خیمے کے پاس جو اسی قبیلے کا سپہ سالار تھا کچھ شعر پڑھ رہا ہے جس کے پہلے دو شعر یہ ہیں:

لئِن لم یجلّ الا شعث الیوم کربةً

من الموت فیها للنفوس تعنّت

فنشرب من ماء الفرات بسیفه

فهبنا اناساًقبل کانوا فموّ توا(۲)

اگرآج کے دن اشعث نے سختی واذیت میں ڈوبے ہوئے انسانوں کو موت کے غم واندوہ سے دور نہ کیا تو ہم تلوار کے ذریعے فرات کے پانی سے سیراب ہوں گے، کتنا اچھا ہوتا کہ اے اشعث ایسے لوگوں کو ہمارے حوالے کرتے جو پہلے تھے اور اس وقت موت کی آغوش میں جارہے ہیں۔

۵۵۱

امام علیہ السلام نے ان دوسپاہیوں کے اشعار سننے کے بعد جوفوجی چھاؤنی میں بلند آواز سے پڑھ

رہے تھے، اپنے خیمے میں آئے اچانک اشعث امام کے خیمے میں آیا اور کہا : کیا یہ بات صحیح ہے کہ شام کے لوگ ہمیں فرات کے پانی سے محروم رکھیں، جب کہ آپ ہمارے درمیان میں ہیں اور ہماری تلواریں ہمارے ہمراہ ہیں ؟ اجازت دیجیئے! کہ خدا کی قسم یا فرات پرسے قبضہ ہٹادیں یا اس راہ میں اپنی جان گنوادیں اور مالک اشتر کو حکم دیں کہ اپنی فوج کے ساتھ جہاں پر بھی آپ کا حکم ہو وہاں کھڑے ہو جائیں ، امام علیہ السلام نے فرمایا، تم کو اختیار ہے اس وقت آپ نے مالک اشتر کے لئے ایک جگہ معین کی تاکہ وہ وہاں اپنی فوج کے ساتھ موجود رہیں، پھر آپ نے اپنے عظیم لشکر کے درمیان مختصر سا خطبہ پڑھا اور یہ ایک ایسا ولولہ انگیز خطبہ تھا جس سے امام کے لشکر میں ایک ایسا سماں بندھ گیا کہ گویا ایک ہی حملہ میں معاویہ کے لشکر کو پچھاڑ دیں گے اور گھاٹ کو اپنے قبضے میں لے لیں گے، وہ خطبہ یہ ہے:

''قد استطعموکم القتال فأقرّواعلیٰ مذلّةٍ وتاخیر محلّة روّ واالسیوف من الدماء ترووُا من المائ، فالموت فی حیاتکم مقهورین والحیاة فی موتکم قاهرین ألا

______________________

(۱)،(۲) مروج الذھب ج۲ ص ۳۸۵۔ وقعة صفین ص ۱۶۶۔۱۶۴

۵۵۲

واِنَّ معاویة قاد لُمةً من الغواة وعمّس علیهمُ الخبر حتٰی جعلوا نحورهم أغراض المنیّةِ'' (۱)

معاویہ کی فوج نے اپنے اس کام (تم لوگوں پر پانی بند کرنے) کی وجہ سے تم لوگوں کو جنگ کی دعوت دی ہے اور اس وقت تم لوگوں کے سامنے دوراستے ہیں یا تو ذلت ورسوائی کے ساتھ اپنی جگہ پر بیٹھے رہو یا تلواروں کو خون سے سیراب کردو تاکہ تم پانی سے سیراب ہوجاؤ ، تمہارا ان سے دب جانا جیتے جی موت ہے اور غالب آکر مرنے میں زندگی ہے، آگاہ رہو کہ معاویہ گمراہوں کا ایک چھوٹا سا لشکر میدان جنگ میں زبردستی گھسیٹ لایا ہے اور حقائق سے انہیں اندھیرے میں رکھا ہے یہاں تک انہوں نے اپنے گلوں کو تیروں اور شمشیروں (موت) کا نشانہ بنایاہے۔

اشعث نے اسی رات اپنے ماتحت سپاہیوں کے درمیان بلند آواز میں کہا جو شخص بھی پانی چاہتاہے یا موت ، اس سے ہمارا وعدہ صبح کے وقت ہے(۲)

پیاس کی شدت ایک طرف اور امام کا شعلہ بیاں خطبہ اور سپاہیوں کے ولولہ انگیز اشعار دوسری طرف ،یہ تمام چیزیں سبب بنیں کہ بارہ ہزار آدمیوں نے فرات پر قبضہ کرنے کے لئے آمادگی کا اعلان کردیا، اشعث اپنی عظیم فوج کے ساتھ اور مالک اشتر اپنے طاقتور اور بہادر سپاہیوں کے ہمراہ جو کہ سوار تھے دشمنوں کے سامنے کھڑے ہوگئے اور بجلی کی طرح ایک ایساحملہ کیا کہ جو فوج رکاوٹ بنی ہوئی تھی اور قدرت وطاقت میں اس سے دوگنی تھی اسے اپنے راستے سے ہٹا ڈالا، اس طرح سے کہ جو فوج گھوڑے پر سوار تھی ان کے گھوڑے کے پیروں کے نشان فرات میں بن گئے تھے، اس حملے میں مالک اشتر کے ہاتھوں ۷ اور اشعث کے ہاتھوں ۵ افراد مارے گئے اور جنگ کا نقشہ امام کے حق میں پلٹ گیا اور عظیم نہر فرات امام اور آپ کے دوستوں کے قبضہ میں آگئی، اس وقت عمر وعاص نے معاویہ کی طرف رخ کرکے کہا ، کیا سوچ رہے ہو اگر علی تمہارے جیسا کام کریں اور تم پر پانی بند کردیں؟

معاویہ، جو امام علیہ السلام کے اخلاقی ، روحانی عظمتوں سے واقف تھا، نے کہا :میں سوچ رہا ہوں

______________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ ۵۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۲۴۴

(۲) وقعہ صفین ص ۱۶۶۔ الامامة والسیاسة ج۱ ص۹۴

۵۵۳

کہ وہ ہم پر پانی بند نہیں کریں گے، کیونکہ وہ دوسرے مقصد کے لئے یہاں آئے ہیں(۱)

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ ابو سفیان کے بیٹے کے برے عمل (پانی بند کرنا) کے نتیجے میں امام علیہ السلام کا کیا عکس العمل تھا۔

_______________________________

(۱) مروج الذھب ج ۲ ص ۳۸۷۔ ۳۸۶

۵۵۴

عظیم قدرت کے باوجودانسانی اصول کی پابندی

امام علیہ السلام کے سپاہیوں نے فرات پر قبضہ کرنے کے لئے فوجی تکنک کا سہارا لیا اور کامیاب ہوگئے اور پوری فرات امام کے سپاہیوں کے قبضے میں آگئی اور معاویہ کے سپاہی فرات سے دور کردیئے گئے اور ایسی جگہ پر پناہ لی جہاں پر کھانے پانی کا انتظام نہ تھا اور شامیوں کے لئے ایسے حالات میں زندگی بسر کرنا ممکن نہ تھا اور بہت ہی جلد ان کے پاس موجود پانی کا ذخیرہ ختم ہوگیااور وہ مجبور تھے کہ تین راستوں میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کریں۔

۱۔ امام کے لشکر پر حملہ کریں اور دوبارہ فرات کو اپنے قبضہ میں لے لیں لیکن اپنے اندر اتنی جرأت وطاقت نہیں دیکھ رہے تھے۔

۲۔ پیاس کی شدت سے موت کا جام پی لیں اور صفین کو اپنی قبرستان بنالیں۔

۳۔ میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں اور شام اور اس کے اطراف میں بکھر جائیں۔

لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود فرات پر قبضہ نے شام کی فوج کے سرداروں خصوصاً معاویہ کو وحشت زدہ نہیں کیا کیونکہ وہ لوگ امام علیہ السلام کی جوانمردی، اخلاق اور اسلام اور اس کے اصولوں پر پابندی کے ساتھ عمل کرنے سے خوب واقف تھے اور وہ جانتے تھے کہ امام کبھی بھی اصل کو فرع پر اورہدف کو وسیلہ پر قربان نہیں کریں گے۔

اخلاقی اصولوں اور انسانی اقدار کی رعایت کا سرچشمہ ہر شریف النفس انسان کی ملکوتی روح ہوتی ہے ،ان اصول کا اظہار سارے مواقع پر مستحسن سمجھا جاتا ہے ،جنگ ،صلح تک محدود نہیں ہے بلکہ انسان کا دوسرے انسان کے رابطے سے مربوط ہے۔

اسلام کے سپاہیوں کو روانہ کرتے وقت پیغمبر اسلام (ص) کے پیغامات اور علی علیہ السلام کے جنگ صفین میں دیئے ہوئے پیغامات ، جس میں سے کچھ کا تذکرہ ہم کریں گے ایک حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ کبھی بھی انسانی اصولوں کو اپنے مقصد پر قربان نہیں کرنا چاہیے بلکہ سخت سے سخت موقع پر بھی اخلاقی اصولوں سے غفلت نہیں کرنا چاہیے۔

۵۵۵

معاویہ کی فوج کے سرداروں کو امام علیہ السلام کے سپاہیوں کے توسط سے فرات پر قبضہ ہونے پر فکر مند نہ ہونے کی علت کو دو سیاسی چالبازوں ( معاویہ وعمروعاص) کی گفتگو سے جانا جا سکتا ہے۔

عمروعاص، معاویہ کے انسانیت سے گرے ہوئے کاموں کا بالکل مخالف تھا لیکن معاویہ نے برخلاف عقل کام کیا ، یہاں تک کہ امام علیہ السلام کے لشکر کا قبضہ فرات پر ہوگیا اور معاویہ کی فوج فرات سے کئی فرسخ دور ہوگئی، اس وقت یہ دونوں سیاسی و شیطانی نمائندے(معاویہ وعمر وعاص) آپس میں گفتگو کرنے کے لئے ایک جگہ جمع ہوئے، مضمون یہ تھا:

عمروعاص : کیا فکررہے ہو اگر عراقی تجھ پر پانی بند کردیں بالکل اسی طرح جس طرح تو نے ان پر پانی بند کیا؟ تو کیا پانی کو اپنے قبضے میں لینے کے لئے ان سے جنگ کروگے اسی طرح جس طرح وہ لوگ تجھ سے جنگ کرنے کے لئے اٹھے تھے؟

معاویہ : پچھلی باتوںکو چھوڑو، علی کے بارے میں کیا سوچ رہے ہو؟

عمروعاص : میرا خیال ہے جس چیز کو تو نے ان کے بارے میں روا رکھا وہ تمہارے بارے میں روا نہیں رکھیں گے کیونکہ ہرگز وہ فرات پر قبضہ کرنے کے لئے نہیں آئے ہیں۔(۱)

معاویہ نے ایسی بات کہی کہ بوڑھا سیاسی ناراض ہوگیا اور اس نے اس کے جواب میں اشعار کہے اور اسے یاد دلایا کہ افق تاریک ہے اور ممکن ہے طلحہ وزبیر کی طرح مشکلوں میں گرفتار ہوجائیں۔(۲)

لیکن عمرو کا خیال بالکل صحیح تھا، امام علیہ السلام نے فرات پر قبضہ کرنے کے بعد دشمن کے لئے فرات کوآزاد

______________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱ ص۹۴۔ مروج الذھب ج ۲ ص ۳۸۶

(۲) وقعہ صفین ص ۱۸۶

۵۵۶

کردیا(۱) اور اس طرح آپ نے ثابت کردیا کہ جنگ کے دوران اپنے بد ترین دشمن کے ساتھ بھی اخلاقی اصولوں کے پابند رہے اور معاویہ کے برخلاف اپنے مقصد کے حصول کے لئے غلط وسیلے کو اختیار نہیں کیا۔

فرات آزاد کرنے کے بعد

دونوں فوجیں تھوڑے سے فاصلہ پر آمنے سامنے تھیں اور اپنے اپنے سردار کے حکم کی منتظر تھیں ،لیکن امام علیہ السلام جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے چنانچہ کئی کئی مرتبہ آپ نے اپنے نمائندوں اور خطوط بھیج کر مشکل کو گفتگو کے ذریعے حل کرنا چاہا۔(۲) ربیع الثانی ۳۶ ہجری کے آخری دنوں میں اچانک '' عبید اللہ بن عمر '' مظلوم وبے گناہ ہرمزان کا قاتل امام علیہ السلام کے پاس آیا ، ہرمزان ایک ایرانی تھااور اس کے مسلمان ہونے کو خلیفہ دوم نے تسلیم کرلیا تھا اور اس کے اخراجات کے لئے کچھ رقم معین کررکھی تھی ۔(۳) جب حضرت عمر ابو لؤلو کے خنجر سے زخمی ہوئے اور سپاہیوں کو قاتل کا کوئی سراغ نہ ملا(۴) تو خلیفہ کے ایک بیٹے نے جس کا نام عبیداللہ تھا انسانی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قاتل کی جگہ بے گناہ ہرمزان کو قتل کردیا(۵) امام علیہ السلام نے بہت کوشش کی کہ عثمان کے دور حکومت میں عبیداللہ کو اس کی سزا (قصاص) مل جائے ( مگر سزا نہ ملی ) اور امام علیہ السلام نے اسی وقت خدا سے عہد کیا کہ اگر ہمارا تسلط ہوگیا تو اس کے متعلق خدا کے حکم

______________________

(۱) کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۴۵۔ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص۲۴۲۔ تجاب السلف ص ۴۷

(۲) مروج الذھب ج ۲ ص ۳۸۷۔ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص۲۴۲

(۳)بلاذری ، فتوح البلدان ص ۴۶۹

(۴)یہ بحث کہ عمر کے قتل کے بعد ابولؤلوپہ کیا گذری مورخین کے درمیان اختلاف ہے بعض کا کہنا ہے کہ اسے گرفتار کرکے قتل کردیاگیا( تاریخ برگزیدہ ص ۱۸۴، تاریخ فخری ص۱۳۱) اور مسعودی کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے کو خود اسی خنجر سے قتل کرلیا جس سے عمر کو قتل کیا تھا( مروج الذھب ج۲، ص۳۲۹) لیکن مولف حبیب السیر کا کہنا ہے کہ شیعوں کے نظریہ کے مطابق وہ مدینہ سے بھاگ گیا اور عراق کی طرف چلا گیا اور بالآخر کاشان میں اس کی وفات ہوگئی ( حبیب السیر ج ۱ جزء ۵ ص ۲۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳، ص ۶۱۔ ،مروج الذھب ج۲ ص۳۹۵)

(۵)تاریخی یعقوبی ج۲، ص ۱۶۱۔ فتوح البلدان ص ۵۸۳۔ تجارب السلف ص ۲۳

۵۵۷

کو جاری کریں گے(۱) عثمان کے قتل کے بعد اور امام علیہ السلام کی خلافت حقہ کے بعد عبیداللہ قصاص(سزا) سے بہت ڈرا ہواتھا اور مدینہ سے شام کی طرف چلا گیا۔(۲)

اسی لئے عبیداللہ جنگ صفین کے موقع پر امام علیہ السلام کے پاس آیا اور طعنہ کے طور پر امام سے کہا خدا کا شکر کہ تمہیں ہرمزان کے خون کا بدلہ لینے اور مجھے عثمان کے خون کا بدلہ لینے والا قراردیا امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا مجھے اور تجھے میدان جنگ میں جمع کرے(۳) اتفاقاً جنگ اپنے شباب پر تھی کہ عبیداللہ امام کے سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا(۴) ۔

______________________

(۱)امام علیہ السلام نے عبیداللہ سے کہا ''یا فاسقُ أما واللّٰه لئِن ظفرتُ بک یوماً من الدهر لأضربنّ عنقک '' انساب الاشراف ج۵، ص ۲۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۶۱۔ مروج الذھب ج۲ ۳۹۵۔

(۲)مروج الذھب ج۲ ص۳۸۸۔

(۳)الاخبار الطوال ص ۱۶۹ مطبوعہ قاہرہ ۔ وقعہ صفین ص ۱۸۶۔

(۴)مسعودی کہتے ہیں : جنگ صفین میں عبیداللہ کو خود امام علیہ السلام نے قتل کیا تھا وہ مزید کہتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے اس پر ایسی ضربت ماری کہ جو زرہ لوہے کی وہ پہنے تھا وہ سب ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اور تلوار کا وار اس کی ہڈیوں تک پہنچ گیا۔ مروج الذھب ج۲ ص ۳۹۵۔

۵۵۸

سولہویں فصل

آخری اتمام حجت

معاویہ کے پاس تین نمائندے بھیجنا

ربیع الثانی ۳۶ ہجری کے آخری ایام تھے، امام علیہ السلام نے تین اسلامی شخصیتوں ، انصاری ، ہمدانی اور تمیمی کو اپنے پاس بلایا اور ان لوگوں سے کہا کہ تم لوگ معاویہ کے پاس جاؤ اور اسے امت اسلامی کی اطاعت اور اس سے ملحق ہونے اور احکام الٰہی کی پیروی کرنے کی دعوت دو، تمیمی نے امام علیہ السلام سے کہا ، اگر وہ بیعت کے لئے آمادہ ہوجائے تو کیا مصلحت ہے کہ اسے انعام ( مثلاً ایک علاقہ کی حکومت) دے دیں ؟

امام علیہ السلام جو کسی بھی صورت میں اصول کی پامالی نہیں کرتے تھے ان لوگوں سے کہا'' أیتوهُ الأن فلا قوه واحتجّوا علیه وانظرومارأیه '' یعنی اس وقت اس کے پاس جاؤ اور اس پر احتجاج کرواور دیکھو کہ اس کا نظریہ کیا ہے؟

وہ تینوں معاویہ کے پاس گئے اور معاویہ اور ان کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ درج ذیل ہے:

انصاری:دنیا تجھ سے چھوٹے گی اور تو دوسری دنیا کی طرف جائے گا وہاں تمہارے اعمال کا محاسبہ ہوگا اور اچھے برے اعمال کا بدلہ ملے گا ،تم کو خدا کا واسطہ کہ تم فتنہ وشر سے باز آجاؤ اور امت میں تفرقہ اور خونریزی مت کرو۔

معاویہ نے انصاری کی بات کاٹتے ہوئے کہا : تم اپنے بزرگ کو کیوں نصیحت نہیں کرتے؟

انصاری: حمد ہے خدا کی میرا بزرگ تمہاری طرح نہیں ہے وہ سابق الاسلام ،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبی رشتہ دار اور عظمت وفضیلت کے تاجدار ہیں۔

معاویہ : تم کیا کہہ رہے ہو اور کیا چاہتے ہو؟

۵۵۹

انصاری: میں تجھے علی کی اطاعت کی دعوت دے رہا ہوں اوراس کے قبول کرنے میں تمہارے دین ودنیا کے لئے بھلائی ہے۔

معاویہ : اس صورت میں عثمان کے خون کا بدلہ لینے میں تاخیر ہوگی ، نہیں ، رحمٰن کی قسم! میں ہرگز ایسا نہیں کرسکتا۔

اس وقت ہمدانی نے چاہا کہ کلام کرے لیکن تمیمی نے ان سے پہلے گفتگو شروع کردی اورکہا :

انصاری کو دیئے ہوئے جوابات سے تیرا مقصد معلوم ہوگیا اور تیرے ارادہ سے ہم لوگ بے خبر نہیں ہیں، لوگوں کو دھوکہ دینے اور ان کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے سوائے اس کے کوئی اور بہانہ نہیں ہے کہ تو یہ کہے کہ تمہارا خلیفہ مظلوم قتل ہواہے اور تم لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کے قتل کا بدلہ لو اس آواز پر چند جاہل لوگوں نے تمہاری آواز پر لبیک کہا ہے جب کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ تم نے اپنے مقتول خلیفہ کی مدد کرنے میں تاخیر کی تھی اور اسی مقام کے حصول کے لئے تم نے ان کے قتل کو روا رکھاتھاایسا ہوسکتاہے کہ کچھ لوگ مقام ومنصب کی آرزو رکھتے ہوں مگر خدا ان کی آرزؤں کو پورا نہ کرے، اور تو ایساآرزو مند ہے کہ اپنی جس آرزوتک پہونچ جائے اس میں فلاح وبہبود نہیں ہے اگر تو اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوا تو عرب میں تجھ سے زیادہ کوئی بدبخت نہیں ہے اور اگر مقصد میں کامیاب ہوگیا تو آخرت کی روسیاہی کے سواء کچھ نہیں ہے،اے معاویہ خدا سے ڈر اور ہٹ دھرمی چھوڑ دے اور جو خلافت کا صحیح حقدار ہے اس سے جنگ نہ کر۔امام علیہ السلام کے نمائندوں کی منطقی اور استدلالی گفتگو نے معاویہ کو بوکھلا دیا اور اپنی پرانی روش کے برخلاف تلخ لہجے میں کہا:بیاباں نشین تم میرے پاس سے چلے جاؤاب ہمارے اور تمہارے درمیان تلوار ہی فیصلہ کرے گی۔

تمیمی: کیا تم ہمیں تلوار سے ڈرا رہے ہو ؟ بہت جلد ہی تلوار لے کر تمہاری طرف آرہے ہیں ، پھر تینوں نمائندے امام کی خدمت میں واپس آگئے اور تمام باتوں کے نتیجے سے امام علیہ السلام کو باخبر کیا۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص ۱۸۸،۱۸۷۔ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص۲۴۲۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۴۶

۵۶۰

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809