فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)4%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362247 / ڈاؤنلوڈ: 6023
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

برداشت کررہے تھے(۱)

امام علیہ السلام جب سفر کرتے کرتے ''الجزائر ''پہونچے تو '' تغلِب اور نمر'' کے قبیلے والوں نے امام علیہ السلام کا شاندار استقبال کیا۔

امام علیہ السلام نے اپنے تمام سپہ سالاروں میں سے صرف '' یزید قیس '' کو اجازت دیا کہ ان لوگوں کی لائی ہوئی غذا کو کھائے، کیونکہ وہ اسی قبیلے کا رہنے والا تھا۔

پھر امام علیہ السلام کا قافلہ '' رقّہ'' پہونچا اور فرات کے کنارے قیام کیا وہاں ایک راہب گوپھا گھر میں رہتا تھا جب اسے امام علیہ السلام کے آمد کی خبر ملی تو وہ آپ کی خدمت میں آیا اور کہا:مجھے اپنے آباؤ اجداد سے ایک صحیفہ وراثت میں ملا ہے جسے جناب عیسیٰ کے اصحاب نے لکھا ہے اور میں اسے اپنے ساتھ لایا ہوں تاکہ آپ کے سامنے اُسے پڑھوں ، پھر اس نے اس صحیفے کو پڑھا ( جس کی عبارت یہ تھی)

'' شروع کرتا ہوں خدا کے نام سے جو رحمٰن ورحیم ہے، وہ خدا جس نے گذشتہ زمانے کے تمام حالات کو معین کررکھا ہے اور لکھا ہے کہ ہم نے امیوں میں سے ایک کو اپنی پیغمبری کے لئے چنا ہے جو ان لوگوں کو قرآن و حکمت کی تعلیم دیتاہے اور سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتاہے اور لوگوں کے درمیان صدائے توحید بلند کرتاہے اور برے کو برائی سے سزا نہیں دیتا بلکہ معاف کردیتا ہے اس کے ماننے والے خدا کے مخلص اور فرماں بردار بندے ہیں جو عظیم منصبوں پر فائز ہونے اور زندگی کے نشیب وفراز پر بھی خدا کا شکر ادا کرتے ہیں ، ہر وقت ان کی زبانوں پر تسبیح وتہلیل کی آواز رہتی ہے ، خدا اسے دشمنوں پر کامیابی عطا کرتاہے جس وقت خدا اسے (پیغمبر)اپنے پاس بلالے گا تو ان کی امت دوگرہوں میں تقسیم ہوجائے گی لیکن دو بارہ پھر متحد ہوجائے گی اور کچھ دنوں تک اسی حالت پر باقی رہے گی لیکن پھر دو گروہوں میں تقسیم ہوجائے گی، اس کی امت سے ایک شخص اس فرات کے کنارے سے گزرے گا وہ ایسا شخص ہے جو نیکیوں اور اچھائیوں کا حکم دیتاہے اور برائیوں سے روکتا ہے صحیح فیصلہ کرتاہے اور فیصلہ کرتے وقت رشوت اور اجرت نہیں لیتا،دنیا

______________________

(۱) نہج البلاغہ باب الحکم ، نمبر ۱۳۶۔وقعہ صفین ص۱۴۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۲۰۳

۵۴۱

اس کی نگاہوں میں اس گرد وغبار سے بھی بدترہے جسے تیز ہوا کے جھونکے اڑاتے ہیں اور موت اس کی نگاہوں میں پیاسے انسان کی پیاس بجھنے سے بھی زیادہ محبوب ہے تنہائی میں وہ خدا سے ڈرتاہے اور ظاہری طور پر خدا کامخلص ہوتاہے خدا کا حکم جاری کرنے میں برا کہنے والوں کی سرزنش سے نہیں ڈرتا ، جو شخص بھی اس علاقہ کا اس پیغمبر سے ملاقات کرے اس پر ایمان لائے اس کی جزا میری مرضی اور بہشت ہے اور جو شخص بھی خدا کے اس صالح بندے کو پالے اور اس کی مدد کرے اور اس کی راہ میں قتل کیا جائے تو اس کی راہ میں قتل ہونے والا شہید ہے...۔

جب راہب اس صحیفے کو پڑھ چکا توکہا، میں آپ کی خدمت میں ہوں اور کبھی بھی آپ سے دور نہیں ہوؤنگا تاکہ جو چیز آپ تک پہونچے وہ مجھ تک بھی پہونچے امام علیہ السلام یہ حالت دیکھ کر رونے لگے اور فرمایا: خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے بھولنے والوں میں قرار نہیں دیا ، اس خدا کی تعریف جس نے مجھے اچھے اور نیک لوگوں کی کتابوں میں یاد کیا۔

راہب اس وقت سے امام علیہ السلام کے ہمراہ تھا اور جنگ صفین میں درجہ شہادت پر فائز ہوگیا امام علیہ السلام نے اس کے جنازے پر نماز پڑھی اور اسے دفن کیااور فرمایا '' ھذا منّا اھل البیت '' (یہ شخص ہمارے خاندان سے ہے ) اور اس کے بعد کئی مرتبہ اس کے لئے طلب مغفرت کیا۔(۱)

امام علیہ السلام کا رقّہ میں قیام

امام علیہ السلام نے مدائن سے روانہ ہونے سے پہلے اپنے تین ہزار فوجیوں کو معقل بن قیس کی سپہ سالاری میں رقّہ کی طرف روانہ کیا(۲) اور اسے حکم دیا کہ موصل پھر اس کے بعد نصیبین کی طرف جائے اور رقّہ کی سرزمین پر قیام کرئے اور وہاں پر امام سے ملاقات کرئے اور خود امام بھی دوسرے راستے سے رقّہ کے لئے روانہ ہوئے گویا اس گروہ کو اس راستے سے بھیجنے کا مقصد اس علاقے میں حاکم کی حکومت اور موقعیت کو ثابت کرنا تھا ، لہٰذا آپ نے لشکر کے سپہ سالاروں کو حکم دیاکہ کسی سے بھی جنگ نہ کریں اور اپنے سفر میں ان

______________________

(۱)وقعہ صفین ص۱۴۸،۱۴۷۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۰۶، ۲۰۵

(۲) کامل ابن اثیر ج۳، ص ۱۴۴۔ تاریخ طبری ج۳، جزء ۵ ص ۲۳۷

۵۴۲

علاقوں کے لوگوں کو آرام واطمینان بخشیں اور اس راستے کو صبح اور شام میں طے کریں اور دوپہر اور رات کے پہلے حصے میں آرام کریں ( کیونکہ خداوندعالم نے رات کوآرام کرنے کے لئے پیدا کیا ہے ) خود اور اپنے سپاہیوں اور سواریوں کو راحت و آرام پہونچائیں، لشکر کے سپہ سالارنے امام کے حکم کے مطابق سفر طے کیا اور اس وقت رقّہ پہونچا جب امام علیہ السلام اس سے پہلے رقّہ پہونچ چکے تھے۔(۱)

رقّہ سے معاویہ کے نام خط

امام علیہ السلام کے چاہنے والوں نے امام سے عرض کیا کہ آپ معاویہ کے نام خط لکھیں اور دوبارہ اپنی حجت کو اس پر تمام کریں ، امام علیہ السلام نے ان کی درخواست کو قبول کیا(۲) کیونکہ آپ چاہتے تھے کہ معاویہ کی نافرمانی اور سرکشی بغیر خوں ریزی کے برطرف ہوجائے جب کہ آپ جانتے تھے کہ حکومت وقدرت حاصل کرنے والوں پر نصیحت وموعظہ کا کوئی اثر نہ ہوگا ، جب امام علیہ السلام کا خط معاویہ کے پاس پہونچا تو اس نے جواب میں جنگ کرنے کی دھمکی دی(۳) اس وجہ سے امام علیہ السلام اپنے ارادے میں اورمحکم ہوگئے اور رقّہ سے صفین کی طرف جانے کا حکم دیدیا۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۱۴۸۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۰۸

(۲)(۳)امام کے خط کی عبارت اور جنگ صفین کے متعلق معاویہ کا جواب ص ۱۵۰۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۱۱۔۲۱۰

۵۴۳

پل بنا کر فرات سے گزرنا

اس وسیع وعریض فرات کو عبور کرنا امام علیہ السلام کے لئے بغیر کسی پل یا کسی کشتی کے مشکل امر تھا، امام علیہ السلام نے رقّہ کے لوگوں سے کہا کہ کوئی ایسا وسیلہ لائیں جس کے ذریعہ سے خود اور آپ کے تمام سپاہی فرات کو پار کرسکیں ، لیکن اس سرحدی شہر کے لوگ عراقیوں کے برخلاف مولائے کائنات سے کوئی الفت ومحبت نہیں رکھتے تھے لہٰذا پل نہیں بنایا، امام علیہ السلام نے شجاعت وقدرت کے باوجود ان کے انکار کرنے پر کوئی مزاحمت نہیں کی اور ارادہ کیا کہ اپنے سپاہیوں کے ہمراہ اس پل سے گزریں جو وہاں سے کچھ دور ''منبِج'' نامی مقام پر واقع ہے۔

اس وقت مالک اشتر نے بلند آواز میں اس قلعہ کو خراب کرنے کی دھمکی دی جس میں وہ لوگ پناہ

لئے ہوئے تھے، رقّہ کے رہنے والوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا مالک وہ شخص ہے جو اگر کوئی بات کہتا ہے تو اس پر عمل ضرور کرتاہے لہٰذا ان لوگوں نے فوراً پل بنانے کا اعلان کیا اور امام علیہ السلام کا پورا لشکر تمام سازوسامان کے ساتھ اُس پل سے گزرگیا اور سب سے

۵۴۴

آخر میں جس نے رقّہ کو چھوڑا وہ مالک اشتر تھے۔(۱)

امام علیہ السلام زمین شام پر

امام علیہ السلام نے فرات پار کرکے عراق کی سرزمین کو چھوڑدیا اور سرزمین شام پر قدم رکھا اور معاویہ کے ہر طرح کے شیطانی اور مزاحمتی حملوں کے مقابلے کے لئے اپنے دو بہترین وبہادر سپہ سالاروں ،زیاد بن نصر و شریح بن ہانی کو بالکل اسی انداز سے جیسے کہ کوفہ میں بھیجا تھا بطور ہر اول معاویہ کے لشکر کی طرف روانہ کیاوہ دونوں '' سور الرّوم '' نامی جگہ پر معاویہ کے سپاہیوں کے لشکر جس کا سپہ سالار ابو الاعور تھا روبرو ہوئے اور ان لوگوں نے کوشش کی کہ کسی بھی صورت سے دشمن کے اس سپہ سالار کو امام کا مطیع وفرمانبردار بنادیں، لیکن ان کی کوشش کامیاب نہ ہوسکی اور دونوں نے امام علیہ السلام کو فوراً حارث بن جمھان جعفی کے ہمراہ خط روانہ کیا اور امام علیہ السلام کے حکم کے منتظر رہے(۲)

امام علیہ السلام نے خط پڑھنے کے بعد فوراً مالک اشتر کو بلایا اور کہا زیاد اور شریح نے ایسا ایسا لکھا ہے جتنی جلدی ہوسکے اپنے آپ کو ان لوگوں تک پہنچادواور دونوں گرہوں کی ذمہ داری کو قبول کرلواورجب تک دشمن سے ملاقات نہ ہو اور ان کی گفتگو نہ لینا اس وقت تک جنگ شروع نہ کرنا مگر یہ کہ وہ لوگ جنگ کی ابتداء کریں ،دشمن پر تمہارا غصہ دشمن کی طرف آگے بڑھنے میں مانع نہ ہو مگریہ کہ کئی مرتبہ ان کی گفتگو سنو اور اپنی حجت کو ان پر تمام کردو، پھر حکم دیا: زیاد کو میمینہ اور شریح کو اپنے میسرہ سپرد کرنا اور خود قلب لشکر میں رہنا اور ہاں دشمن سے اتنا قریب نہ رہنا کہ وہ خیال کریں کہ جنگ شروع کرنا چاہتے ہو اور نہ دشمنوں سے اتنا دور

______________________

(۱)وقعہ صفین ص۱۵۴۔۱۵۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۱۲۔۲۱۱۔ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۸

(۲)وقعہ صفین ص۱۵۴۔۱۵۱، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۱۳۔۲۱۱،تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۸،کامل ابن اثیر ج ۳ ص۱۴۴

۵۴۵

رہنا کہ وہ تصور کریں کہ ڈر رہے ہو اسی طریقے پر باقی رہنا یہاں تک کہ میں تم تک پہونچ جاؤں(۱) پھر امام علیہ السلام نے ان دونوں سپہ سالاروں کو یہ جواب لکھا اور مالک اشتر کی اس طرح تعریف کی''امابعد، فانی قدأمرت علیکما مالکاً فاسمعٰاله واطیعاأمره فانّه مِمّن لایخاف رهقه ولاسقاطُه ولابطوُه عن ما الاسراع اِلیه أحزم ولا اسراعه الٰی ماالبط ء عنه امثلُ وقد أمرته بمثل الّذی أمرتکما الّا یبدئُ القوم بقتال حتٰی یلقاهم فید عوهم ویعذر الیهم ان شاء اللّٰه '' (۲)

دونوں سپہ سالاروں کو معلوم ہو کہ میں نے سپہ سالاری مالک اشتر کو سونپ دی ہے، ان کی باتوں کو سنو اور ان کے حکم کی اطاعت کرو ۔ کیونکہ وہ ایسا شخص نہیں کہ اس کی عقل ولغزش سے خوف کھائے اور وہ ایسا بھی نہیں ہے کہ جلد بازی میں سستی کرے یا بردباری کے وقت جلدی کرے اور اسے ان چیزوں کا حکم دیا ہے جن چیزوں کا تمہیں حکم دیا ہے کہ ہرگز دشمن کے ساتھ جنگ نہ کریں بلکہ انہیں حق کی طرف بلائیں اور حجت کو ان پر تمام کریں۔

مالک اشتر نے بہت ہی تیزی کے ساتھ اپنے کو اس مقام پر پہونچایا جہاں پر دونوں فوجیں آمنے سامنے موجود تھیں، فوج کو منظم کیا اس کے بعد اپنی فوج کے دفاع کے علاوہ کوئی اور کام انجام نہیں دیا اور جب شام کے سپہ سالارابو الاعور کی طرف سے حملہ ہوتا تھاتو اس کا دفاع کرتے تھے، سب سے تعجب خیز بات یہ ہے کہ مالک اشتر نے دشمن کی فوج کے سپہ سالار کے ذریعے معاویہ کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر جنگ کرنا چاہتا ہے تو خود میدان جنگ میں آئے تاکہ ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کریں اور دوسروں کے خون اور قتل وغارت گری کاسبب نہ بنیں لیکن اس نے اس درخواست کو قبول نہیں کیا، یہاں تک کہ ایک دن آدھی رات کو معاویہ کی فوج بہت تیزی کے ساتھ پیچھے ہٹ گئی اور فرات کے کنارے ایک وسیع وعریض زمین پر پڑاؤ ڈالا اور امام کے سپاہیوں پر پانی بند کردیا۔(۳)

_______________________________

(۱)،(۲)وقعہ صفین ص۱۵۴۔۱۵۱، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص۲۱۳۔۲۱۱،تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۸،کامل ابن اثیر ج ۳ ص۱۴۴

(۳)وقعہ صفین ص۱۵۴،تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۸

۵۴۶

معاویہ کا صفین میں آنا

معاویہ کو خبر ملی کہ علی علیہ السلام نے سرزمین رقّہ پر موجود فرات کے اوپر پل بنایا اور خود اور اپنے پورے لشکر کو اس دریا سے پار کرایاہے ، معاویہ جس نے شام کے لوگوں کو پہلے ہی اپنا بنالیا تھا ، منبر پر گیا اور امام علی علیہ السلام کی فوج کی آمد کی خبر دی جو کوفیوں اور بصریوں پر مشتمل تھی ،اور ان کو جنگ کرنے اور جان ومال کے دفاع کے لئے بہت زیادہ رغبت دلائی، معاویہ کی تقریر کے بعد پہلے سے بنائے ہوئے منصوبے کے تحت اٹھے اور معاویہ کی تائید کی بالآخر معاویہ ان تمام لوگوںکے ہمراہ جن کے اندر جنگ کرنے کی صلاحیت تھی جنگ کے لئے روانہ ہوا(۱) اور اپنی فوج کے کنارے جس کا سپہ سالار ابوالاعور تھا قیام کیا اور اسی جگہ کو اپنا محاذِ جنگ قرار دیااور ایک قول کی بنا ء پر چالیس ہزار آدمیوں کو فرات پر معین کیا تاکہ امام کے سپاہیوں کو فرات کی طرف آنے سے روک سکیں ۔(۲)

______________________

(۱) ابن مزاحم نے (وقعہ صفین میں ) معاویہ کے سپاہیوں کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار لکھا ہے لیکن مسعودی نے (مروج الذھب، ج۳، ص ۳۸۴میں ) کہا ہے کہ جس قول پر لوگوں کا اتفاق ہے وہ پچاسی ہزار آدمی ہیں اور اسی طرح امام علی علیہ السلام کے سپاہیوں کی تعداد(وقعہ صفین ص ۱۵۷) ایک لاکھ یا اس سے زیادہ لکھا ہے اور مروج الذھب میں۹۰ ہزار لکھا ہے ۔

(۲) وقعہ صفین ص۱۵۷۔۱۵۶

۵۴۷

امام علیہ السلام کا سرزمین صفین پر ورود

زیادہ دن نہ گزرا تھا کہ امام علیہ السلام اپنے عظیم وشجاع سپاہیوں کے ہمراہ صفین پہونچے اور اپنی فوج کہ جس کے سپہ سالار مالک اشتر تھے سے ملحق ہوگئے۔

علی علیہ السلام نے سرزمین صفین پر اس وقت قدم رکھا جب دشمن نے ان کے سپاہیوں اور فرات کے درمیان اپنی عظیم فوج کا پہرہ بٹھا رکھا تھا اور امام کے سپاہیوں کو فرات تک پہونچنے سے روک دیا تھا، عبداللہ بن عوف کہتا ہے امام علیہ السلام کے سپاہیوں کے پاس پانی کا ذخیرہ بہت کم تھا اور ابوالاعور معاویہ کی فوج کے سپہ سالار نے نہر پر جانے کے تمام راستوں کو سواروں اور پیادوں سے بند کردیا تھا اورتیر چلانے والوںکو ان کے سامنے اور ان کے اردگرد نیزہ برداروں اور زرہ پہنے ہوئے لوگوں کو کھڑا کررکھا تھا جس کی

وجہ سے امام علیہ السلام کے لشکر میں پانی کی کمی ہونے لگی اور لوگ امام علیہ السلام کے پاس شکایتیں لے کر

۵۴۸

آئے۔(۱)

امام علیہ السلام کا تحمل

ہر معمولی اور عام کمانڈر ایسی حالت میں تحمل وبرد باری کھودیتاہے اور فوراً حملہ کرنے کا حکم دے دیتاہے لیکن امام علیہ السلام جن کا پہلے ہی دن سے یہ مقصد تھا کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو بغیر خونریزی کے ہی فیصلہ ہوجائے۔ اس وقت آپ نے اپنے ایک خاص رازدار صعصعہ بن صوحان(۲) کو بلایا اور کہا کہ تم بعنوان سفیر معاویہ کے پاس جاؤ اور اس سے کہو:

'' ہم لوگ اس علاقے میں آگئے ہیں اور ہمیں پسند نہیں کہ اتمام حجت سے پہلے جنگ شروع کریں اور تو پوری قدرت کے ساتھ شام سے باہر آگیا اور اس سے پہلے کہ ہم تجھ سے جنگ کریں تو نے جنگ کا آغاز کردیا میرا نظریہ ہے کہ تو جنگ سے باز آجاتا کہ میری دلیلوں کو غور سے سن سکے، یہ کا کون سابزدلانہ طریقہ ہے کہ تو نے ہمارے اور پانی کے درمیان اختیارکیا ہے، اس پہرے کو ہٹادے تاکہ میرے نظریہ کے بارے میں غورکر، اور اگر تو چاہتا ہے کہ یہی وضعیت رہے اور لوگ پانی کے لئے آپس میں جنگ کریں اور آخر میں کامیاب ہونے والاگروہ اس سے فائدہ اٹھائے تو اب مجھے کچھ نہیں کہنا ہے۔'' صعصعہ ، امام کے سفیر بن کر معاویہ کے خیمے میں داخل ہوئے جو لشکر کے درمیان میں تھا اور امام علیہ السلام کے پیغام کو معاویہ تک پہونچایا ، ولید بن عقبہ جیسے کور دل فرات پر قبضہ باقی رکھنے کے خواہاں تھے تاکہ امام کے لشکر والے پیاس کی شدت سے ہلاک ہوجائیں، لیکن سب سے بڑا سیاسی چالباز ، عمروعاص نے امیہ کے بیٹوں کے برخلاف معاویہ سے کہا فرات پر سے اپنا قبضہ ہٹالے اور جنگ کے دوسرے امور کی طرف غور کر ، اور ایک قول کی بناء پر اس نے کہا، یہ کام اچھا نہیں ہے کہ تو سیراب ہو اور علی پیاسے ہوں جب کہ ان کے پاس ایسے ایسے جانباز سپاہی ہیں جو فرات کی فکر میں ہیں یاتو اس پرقبضہ کرلیں گے یا اس راہ میں مر جائیں گے

______________________

(۱)الامامة والسیاسة ج۱ص ۹۴۔ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۳۹، کامل ابن اثیر ج۳ ص۱۴۵۔ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۸۷

(۲) طبری اور ابن قیتہ کے بقول امام علیہ السلام نے اشعث کو بھیجا تھا ۔ الامامة والسیاسة ج۱،ص ۹۴۔ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص۲۴۰

۵۴۹

اور تو جانتاہے کہ علی بہت بڑے بہادر ہیں اور عراق اور حجاز کے لوگ ان کے ہمرکاب ہیں ، علی اس مرد کا نام ہے کہ جب لوگوں نے فاطمہ کے گھر پر حملہ کیا تو انہوں نے کہا اگر چالیس افراد میرے ساتھ ہوتے تو حملہ کرنے والوں سے بدلہ لیتا ۔

جب کہ معاویہ امام کے سپاہیوں پر پانی بند کرکے اپنی پہلی کامیابی تصور کررہا تھا ۔ ایک شخص کہ جسے لوگ عابد ہمدانی کے نام سے جانتے تھے اور عمرو عاص کے دوستوں اور بہترین خطیبوں میں سے تھا ، اس نے معاویہ کی طرف رخ کر کے کہا سبحان اللہ ، اگر تم عراق کی فوج سے پہلے اس جگہ پہونچے ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم ان لوگوں پر پانی بند کردو ، خدا کی قسم اگر وہ لوگ تم سے پہلے یہاں آئے ہوتے تو تم پر کبھی پانی بند نہیں کرتے ، سب سے بڑا کام جو تم اس وقت انجام دے رہے ہو وہ یہ ہے کہ وقتی طور پر ان لوگوں کے لئے فرات کا پانی بند کر دیا ہے ،لیکن دوسرے موقع کے لئے آمادہ رہو کہ وہ لوگ اسی طرح سے تمہیں سزا دیں گے، کیا تم نہیں جانتے کہ ان کے درمیان ، غلام ، کنیز ،مزدور ، ضعیف وناتواں اور بے گناہ لوگ ہیں ؟

خدا کی قسم ، تمہارا سب سے پہلا ہی کام ظلم وستم ہے۔ اے معاویہ ، تونے اس غیر انسانی حرکت کی وجہ سے خوفزدہ اور مردد افراد کو جرأت وہمت دیدی اور وہ شخص جو تجھ سے جنگ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا تو نے ان کو جری کردیا(۱)

معاویہ ، ان جگہوں کے برخلاف کہ جہاں پر وہ حلم وبردباری سے کام لیتا تھا اس زاہد ہمدانی پر سخت ناراض ہوا اور عمرو عاص سے اس کی شکایت کی ، اور عاص کے بیٹے نے بھی جو کہ اس کا دوست

تھا اس پر غضبناک ہوا، لیکن سعادت اور خوش بختی نے اس زاہد پر اپنا قبضہ کررکھا تھا اس نے معاویہ کے لشکر کے افق کو تاریکی میں دیکھا اور اسی رات امام علیہ السلام سے ملحق ہوگیا۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۶۰۔تھوڑے فرق کے ساتھ ،الامامة والسیاسة ج۱ص ۹۴۔ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۸۸۔تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص ۲۴۰

۵۵۰

حملہ کرنے اور قبضہ توڑنے کا حکم

پیاس کی شدت نے امام علیہ السلام کے جا نبازوں کونیم جان کردیاتھا جس کی وجہ سے امام علیہ السلام کو غم واندوہ نے اپنے گھیرے میں لے لیاتھاجب ، آپ قبیلہ '' مذ حج'' کی طر ف آئے توایک کو

ایک قصیدہ کے ضمن میں یہ کہتے ہوئے سنا :

أیمنعنا القومُ مائَ الفرات

وفینا الرماحُ وفینا الحُجف(۱)

کیاشام کی قوم ہم لوگوں کو فرات کے پانی سے روک دے گی جب کہ ہم لوگ نیزہ وزرہ سے لیس ہیں ؟ پھر امام علیہ السلام قبیلہ '' کِندہ'' کی طرف گئے تو دیکھا کہ ایک سپاہی اشعث بن قیس کے خیمے کے پاس جو اسی قبیلے کا سپہ سالار تھا کچھ شعر پڑھ رہا ہے جس کے پہلے دو شعر یہ ہیں:

لئِن لم یجلّ الا شعث الیوم کربةً

من الموت فیها للنفوس تعنّت

فنشرب من ماء الفرات بسیفه

فهبنا اناساًقبل کانوا فموّ توا(۲)

اگرآج کے دن اشعث نے سختی واذیت میں ڈوبے ہوئے انسانوں کو موت کے غم واندوہ سے دور نہ کیا تو ہم تلوار کے ذریعے فرات کے پانی سے سیراب ہوں گے، کتنا اچھا ہوتا کہ اے اشعث ایسے لوگوں کو ہمارے حوالے کرتے جو پہلے تھے اور اس وقت موت کی آغوش میں جارہے ہیں۔

۵۵۱

امام علیہ السلام نے ان دوسپاہیوں کے اشعار سننے کے بعد جوفوجی چھاؤنی میں بلند آواز سے پڑھ

رہے تھے، اپنے خیمے میں آئے اچانک اشعث امام کے خیمے میں آیا اور کہا : کیا یہ بات صحیح ہے کہ شام کے لوگ ہمیں فرات کے پانی سے محروم رکھیں، جب کہ آپ ہمارے درمیان میں ہیں اور ہماری تلواریں ہمارے ہمراہ ہیں ؟ اجازت دیجیئے! کہ خدا کی قسم یا فرات پرسے قبضہ ہٹادیں یا اس راہ میں اپنی جان گنوادیں اور مالک اشتر کو حکم دیں کہ اپنی فوج کے ساتھ جہاں پر بھی آپ کا حکم ہو وہاں کھڑے ہو جائیں ، امام علیہ السلام نے فرمایا، تم کو اختیار ہے اس وقت آپ نے مالک اشتر کے لئے ایک جگہ معین کی تاکہ وہ وہاں اپنی فوج کے ساتھ موجود رہیں، پھر آپ نے اپنے عظیم لشکر کے درمیان مختصر سا خطبہ پڑھا اور یہ ایک ایسا ولولہ انگیز خطبہ تھا جس سے امام کے لشکر میں ایک ایسا سماں بندھ گیا کہ گویا ایک ہی حملہ میں معاویہ کے لشکر کو پچھاڑ دیں گے اور گھاٹ کو اپنے قبضے میں لے لیں گے، وہ خطبہ یہ ہے:

''قد استطعموکم القتال فأقرّواعلیٰ مذلّةٍ وتاخیر محلّة روّ واالسیوف من الدماء ترووُا من المائ، فالموت فی حیاتکم مقهورین والحیاة فی موتکم قاهرین ألا

______________________

(۱)،(۲) مروج الذھب ج۲ ص ۳۸۵۔ وقعة صفین ص ۱۶۶۔۱۶۴

۵۵۲

واِنَّ معاویة قاد لُمةً من الغواة وعمّس علیهمُ الخبر حتٰی جعلوا نحورهم أغراض المنیّةِ'' (۱)

معاویہ کی فوج نے اپنے اس کام (تم لوگوں پر پانی بند کرنے) کی وجہ سے تم لوگوں کو جنگ کی دعوت دی ہے اور اس وقت تم لوگوں کے سامنے دوراستے ہیں یا تو ذلت ورسوائی کے ساتھ اپنی جگہ پر بیٹھے رہو یا تلواروں کو خون سے سیراب کردو تاکہ تم پانی سے سیراب ہوجاؤ ، تمہارا ان سے دب جانا جیتے جی موت ہے اور غالب آکر مرنے میں زندگی ہے، آگاہ رہو کہ معاویہ گمراہوں کا ایک چھوٹا سا لشکر میدان جنگ میں زبردستی گھسیٹ لایا ہے اور حقائق سے انہیں اندھیرے میں رکھا ہے یہاں تک انہوں نے اپنے گلوں کو تیروں اور شمشیروں (موت) کا نشانہ بنایاہے۔

اشعث نے اسی رات اپنے ماتحت سپاہیوں کے درمیان بلند آواز میں کہا جو شخص بھی پانی چاہتاہے یا موت ، اس سے ہمارا وعدہ صبح کے وقت ہے(۲)

پیاس کی شدت ایک طرف اور امام کا شعلہ بیاں خطبہ اور سپاہیوں کے ولولہ انگیز اشعار دوسری طرف ،یہ تمام چیزیں سبب بنیں کہ بارہ ہزار آدمیوں نے فرات پر قبضہ کرنے کے لئے آمادگی کا اعلان کردیا، اشعث اپنی عظیم فوج کے ساتھ اور مالک اشتر اپنے طاقتور اور بہادر سپاہیوں کے ہمراہ جو کہ سوار تھے دشمنوں کے سامنے کھڑے ہوگئے اور بجلی کی طرح ایک ایساحملہ کیا کہ جو فوج رکاوٹ بنی ہوئی تھی اور قدرت وطاقت میں اس سے دوگنی تھی اسے اپنے راستے سے ہٹا ڈالا، اس طرح سے کہ جو فوج گھوڑے پر سوار تھی ان کے گھوڑے کے پیروں کے نشان فرات میں بن گئے تھے، اس حملے میں مالک اشتر کے ہاتھوں ۷ اور اشعث کے ہاتھوں ۵ افراد مارے گئے اور جنگ کا نقشہ امام کے حق میں پلٹ گیا اور عظیم نہر فرات امام اور آپ کے دوستوں کے قبضہ میں آگئی، اس وقت عمر وعاص نے معاویہ کی طرف رخ کرکے کہا ، کیا سوچ رہے ہو اگر علی تمہارے جیسا کام کریں اور تم پر پانی بند کردیں؟

معاویہ، جو امام علیہ السلام کے اخلاقی ، روحانی عظمتوں سے واقف تھا، نے کہا :میں سوچ رہا ہوں

______________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ ۵۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۲۴۴

(۲) وقعہ صفین ص ۱۶۶۔ الامامة والسیاسة ج۱ ص۹۴

۵۵۳

کہ وہ ہم پر پانی بند نہیں کریں گے، کیونکہ وہ دوسرے مقصد کے لئے یہاں آئے ہیں(۱)

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ ابو سفیان کے بیٹے کے برے عمل (پانی بند کرنا) کے نتیجے میں امام علیہ السلام کا کیا عکس العمل تھا۔

_______________________________

(۱) مروج الذھب ج ۲ ص ۳۸۷۔ ۳۸۶

۵۵۴

عظیم قدرت کے باوجودانسانی اصول کی پابندی

امام علیہ السلام کے سپاہیوں نے فرات پر قبضہ کرنے کے لئے فوجی تکنک کا سہارا لیا اور کامیاب ہوگئے اور پوری فرات امام کے سپاہیوں کے قبضے میں آگئی اور معاویہ کے سپاہی فرات سے دور کردیئے گئے اور ایسی جگہ پر پناہ لی جہاں پر کھانے پانی کا انتظام نہ تھا اور شامیوں کے لئے ایسے حالات میں زندگی بسر کرنا ممکن نہ تھا اور بہت ہی جلد ان کے پاس موجود پانی کا ذخیرہ ختم ہوگیااور وہ مجبور تھے کہ تین راستوں میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کریں۔

۱۔ امام کے لشکر پر حملہ کریں اور دوبارہ فرات کو اپنے قبضہ میں لے لیں لیکن اپنے اندر اتنی جرأت وطاقت نہیں دیکھ رہے تھے۔

۲۔ پیاس کی شدت سے موت کا جام پی لیں اور صفین کو اپنی قبرستان بنالیں۔

۳۔ میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں اور شام اور اس کے اطراف میں بکھر جائیں۔

لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود فرات پر قبضہ نے شام کی فوج کے سرداروں خصوصاً معاویہ کو وحشت زدہ نہیں کیا کیونکہ وہ لوگ امام علیہ السلام کی جوانمردی، اخلاق اور اسلام اور اس کے اصولوں پر پابندی کے ساتھ عمل کرنے سے خوب واقف تھے اور وہ جانتے تھے کہ امام کبھی بھی اصل کو فرع پر اورہدف کو وسیلہ پر قربان نہیں کریں گے۔

اخلاقی اصولوں اور انسانی اقدار کی رعایت کا سرچشمہ ہر شریف النفس انسان کی ملکوتی روح ہوتی ہے ،ان اصول کا اظہار سارے مواقع پر مستحسن سمجھا جاتا ہے ،جنگ ،صلح تک محدود نہیں ہے بلکہ انسان کا دوسرے انسان کے رابطے سے مربوط ہے۔

اسلام کے سپاہیوں کو روانہ کرتے وقت پیغمبر اسلام (ص) کے پیغامات اور علی علیہ السلام کے جنگ صفین میں دیئے ہوئے پیغامات ، جس میں سے کچھ کا تذکرہ ہم کریں گے ایک حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ کبھی بھی انسانی اصولوں کو اپنے مقصد پر قربان نہیں کرنا چاہیے بلکہ سخت سے سخت موقع پر بھی اخلاقی اصولوں سے غفلت نہیں کرنا چاہیے۔

۵۵۵

معاویہ کی فوج کے سرداروں کو امام علیہ السلام کے سپاہیوں کے توسط سے فرات پر قبضہ ہونے پر فکر مند نہ ہونے کی علت کو دو سیاسی چالبازوں ( معاویہ وعمروعاص) کی گفتگو سے جانا جا سکتا ہے۔

عمروعاص، معاویہ کے انسانیت سے گرے ہوئے کاموں کا بالکل مخالف تھا لیکن معاویہ نے برخلاف عقل کام کیا ، یہاں تک کہ امام علیہ السلام کے لشکر کا قبضہ فرات پر ہوگیا اور معاویہ کی فوج فرات سے کئی فرسخ دور ہوگئی، اس وقت یہ دونوں سیاسی و شیطانی نمائندے(معاویہ وعمر وعاص) آپس میں گفتگو کرنے کے لئے ایک جگہ جمع ہوئے، مضمون یہ تھا:

عمروعاص : کیا فکررہے ہو اگر عراقی تجھ پر پانی بند کردیں بالکل اسی طرح جس طرح تو نے ان پر پانی بند کیا؟ تو کیا پانی کو اپنے قبضے میں لینے کے لئے ان سے جنگ کروگے اسی طرح جس طرح وہ لوگ تجھ سے جنگ کرنے کے لئے اٹھے تھے؟

معاویہ : پچھلی باتوںکو چھوڑو، علی کے بارے میں کیا سوچ رہے ہو؟

عمروعاص : میرا خیال ہے جس چیز کو تو نے ان کے بارے میں روا رکھا وہ تمہارے بارے میں روا نہیں رکھیں گے کیونکہ ہرگز وہ فرات پر قبضہ کرنے کے لئے نہیں آئے ہیں۔(۱)

معاویہ نے ایسی بات کہی کہ بوڑھا سیاسی ناراض ہوگیا اور اس نے اس کے جواب میں اشعار کہے اور اسے یاد دلایا کہ افق تاریک ہے اور ممکن ہے طلحہ وزبیر کی طرح مشکلوں میں گرفتار ہوجائیں۔(۲)

لیکن عمرو کا خیال بالکل صحیح تھا، امام علیہ السلام نے فرات پر قبضہ کرنے کے بعد دشمن کے لئے فرات کوآزاد

______________________

(۱) الامامة والسیاسة ج۱ ص۹۴۔ مروج الذھب ج ۲ ص ۳۸۶

(۲) وقعہ صفین ص ۱۸۶

۵۵۶

کردیا(۱) اور اس طرح آپ نے ثابت کردیا کہ جنگ کے دوران اپنے بد ترین دشمن کے ساتھ بھی اخلاقی اصولوں کے پابند رہے اور معاویہ کے برخلاف اپنے مقصد کے حصول کے لئے غلط وسیلے کو اختیار نہیں کیا۔

فرات آزاد کرنے کے بعد

دونوں فوجیں تھوڑے سے فاصلہ پر آمنے سامنے تھیں اور اپنے اپنے سردار کے حکم کی منتظر تھیں ،لیکن امام علیہ السلام جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے چنانچہ کئی کئی مرتبہ آپ نے اپنے نمائندوں اور خطوط بھیج کر مشکل کو گفتگو کے ذریعے حل کرنا چاہا۔(۲) ربیع الثانی ۳۶ ہجری کے آخری دنوں میں اچانک '' عبید اللہ بن عمر '' مظلوم وبے گناہ ہرمزان کا قاتل امام علیہ السلام کے پاس آیا ، ہرمزان ایک ایرانی تھااور اس کے مسلمان ہونے کو خلیفہ دوم نے تسلیم کرلیا تھا اور اس کے اخراجات کے لئے کچھ رقم معین کررکھی تھی ۔(۳) جب حضرت عمر ابو لؤلو کے خنجر سے زخمی ہوئے اور سپاہیوں کو قاتل کا کوئی سراغ نہ ملا(۴) تو خلیفہ کے ایک بیٹے نے جس کا نام عبیداللہ تھا انسانی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قاتل کی جگہ بے گناہ ہرمزان کو قتل کردیا(۵) امام علیہ السلام نے بہت کوشش کی کہ عثمان کے دور حکومت میں عبیداللہ کو اس کی سزا (قصاص) مل جائے ( مگر سزا نہ ملی ) اور امام علیہ السلام نے اسی وقت خدا سے عہد کیا کہ اگر ہمارا تسلط ہوگیا تو اس کے متعلق خدا کے حکم

______________________

(۱) کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۴۵۔ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص۲۴۲۔ تجاب السلف ص ۴۷

(۲) مروج الذھب ج ۲ ص ۳۸۷۔ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص۲۴۲

(۳)بلاذری ، فتوح البلدان ص ۴۶۹

(۴)یہ بحث کہ عمر کے قتل کے بعد ابولؤلوپہ کیا گذری مورخین کے درمیان اختلاف ہے بعض کا کہنا ہے کہ اسے گرفتار کرکے قتل کردیاگیا( تاریخ برگزیدہ ص ۱۸۴، تاریخ فخری ص۱۳۱) اور مسعودی کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے کو خود اسی خنجر سے قتل کرلیا جس سے عمر کو قتل کیا تھا( مروج الذھب ج۲، ص۳۲۹) لیکن مولف حبیب السیر کا کہنا ہے کہ شیعوں کے نظریہ کے مطابق وہ مدینہ سے بھاگ گیا اور عراق کی طرف چلا گیا اور بالآخر کاشان میں اس کی وفات ہوگئی ( حبیب السیر ج ۱ جزء ۵ ص ۲۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳، ص ۶۱۔ ،مروج الذھب ج۲ ص۳۹۵)

(۵)تاریخی یعقوبی ج۲، ص ۱۶۱۔ فتوح البلدان ص ۵۸۳۔ تجارب السلف ص ۲۳

۵۵۷

کو جاری کریں گے(۱) عثمان کے قتل کے بعد اور امام علیہ السلام کی خلافت حقہ کے بعد عبیداللہ قصاص(سزا) سے بہت ڈرا ہواتھا اور مدینہ سے شام کی طرف چلا گیا۔(۲)

اسی لئے عبیداللہ جنگ صفین کے موقع پر امام علیہ السلام کے پاس آیا اور طعنہ کے طور پر امام سے کہا خدا کا شکر کہ تمہیں ہرمزان کے خون کا بدلہ لینے اور مجھے عثمان کے خون کا بدلہ لینے والا قراردیا امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا مجھے اور تجھے میدان جنگ میں جمع کرے(۳) اتفاقاً جنگ اپنے شباب پر تھی کہ عبیداللہ امام کے سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا(۴) ۔

______________________

(۱)امام علیہ السلام نے عبیداللہ سے کہا ''یا فاسقُ أما واللّٰه لئِن ظفرتُ بک یوماً من الدهر لأضربنّ عنقک '' انساب الاشراف ج۵، ص ۲۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۳ ص ۱۶۱۔ مروج الذھب ج۲ ۳۹۵۔

(۲)مروج الذھب ج۲ ص۳۸۸۔

(۳)الاخبار الطوال ص ۱۶۹ مطبوعہ قاہرہ ۔ وقعہ صفین ص ۱۸۶۔

(۴)مسعودی کہتے ہیں : جنگ صفین میں عبیداللہ کو خود امام علیہ السلام نے قتل کیا تھا وہ مزید کہتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے اس پر ایسی ضربت ماری کہ جو زرہ لوہے کی وہ پہنے تھا وہ سب ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اور تلوار کا وار اس کی ہڈیوں تک پہنچ گیا۔ مروج الذھب ج۲ ص ۳۹۵۔

۵۵۸

سولہویں فصل

آخری اتمام حجت

معاویہ کے پاس تین نمائندے بھیجنا

ربیع الثانی ۳۶ ہجری کے آخری ایام تھے، امام علیہ السلام نے تین اسلامی شخصیتوں ، انصاری ، ہمدانی اور تمیمی کو اپنے پاس بلایا اور ان لوگوں سے کہا کہ تم لوگ معاویہ کے پاس جاؤ اور اسے امت اسلامی کی اطاعت اور اس سے ملحق ہونے اور احکام الٰہی کی پیروی کرنے کی دعوت دو، تمیمی نے امام علیہ السلام سے کہا ، اگر وہ بیعت کے لئے آمادہ ہوجائے تو کیا مصلحت ہے کہ اسے انعام ( مثلاً ایک علاقہ کی حکومت) دے دیں ؟

امام علیہ السلام جو کسی بھی صورت میں اصول کی پامالی نہیں کرتے تھے ان لوگوں سے کہا'' أیتوهُ الأن فلا قوه واحتجّوا علیه وانظرومارأیه '' یعنی اس وقت اس کے پاس جاؤ اور اس پر احتجاج کرواور دیکھو کہ اس کا نظریہ کیا ہے؟

وہ تینوں معاویہ کے پاس گئے اور معاویہ اور ان کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ درج ذیل ہے:

انصاری:دنیا تجھ سے چھوٹے گی اور تو دوسری دنیا کی طرف جائے گا وہاں تمہارے اعمال کا محاسبہ ہوگا اور اچھے برے اعمال کا بدلہ ملے گا ،تم کو خدا کا واسطہ کہ تم فتنہ وشر سے باز آجاؤ اور امت میں تفرقہ اور خونریزی مت کرو۔

معاویہ نے انصاری کی بات کاٹتے ہوئے کہا : تم اپنے بزرگ کو کیوں نصیحت نہیں کرتے؟

انصاری: حمد ہے خدا کی میرا بزرگ تمہاری طرح نہیں ہے وہ سابق الاسلام ،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبی رشتہ دار اور عظمت وفضیلت کے تاجدار ہیں۔

معاویہ : تم کیا کہہ رہے ہو اور کیا چاہتے ہو؟

۵۵۹

انصاری: میں تجھے علی کی اطاعت کی دعوت دے رہا ہوں اوراس کے قبول کرنے میں تمہارے دین ودنیا کے لئے بھلائی ہے۔

معاویہ : اس صورت میں عثمان کے خون کا بدلہ لینے میں تاخیر ہوگی ، نہیں ، رحمٰن کی قسم! میں ہرگز ایسا نہیں کرسکتا۔

اس وقت ہمدانی نے چاہا کہ کلام کرے لیکن تمیمی نے ان سے پہلے گفتگو شروع کردی اورکہا :

انصاری کو دیئے ہوئے جوابات سے تیرا مقصد معلوم ہوگیا اور تیرے ارادہ سے ہم لوگ بے خبر نہیں ہیں، لوگوں کو دھوکہ دینے اور ان کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے سوائے اس کے کوئی اور بہانہ نہیں ہے کہ تو یہ کہے کہ تمہارا خلیفہ مظلوم قتل ہواہے اور تم لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کے قتل کا بدلہ لو اس آواز پر چند جاہل لوگوں نے تمہاری آواز پر لبیک کہا ہے جب کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ تم نے اپنے مقتول خلیفہ کی مدد کرنے میں تاخیر کی تھی اور اسی مقام کے حصول کے لئے تم نے ان کے قتل کو روا رکھاتھاایسا ہوسکتاہے کہ کچھ لوگ مقام ومنصب کی آرزو رکھتے ہوں مگر خدا ان کی آرزؤں کو پورا نہ کرے، اور تو ایساآرزو مند ہے کہ اپنی جس آرزوتک پہونچ جائے اس میں فلاح وبہبود نہیں ہے اگر تو اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوا تو عرب میں تجھ سے زیادہ کوئی بدبخت نہیں ہے اور اگر مقصد میں کامیاب ہوگیا تو آخرت کی روسیاہی کے سواء کچھ نہیں ہے،اے معاویہ خدا سے ڈر اور ہٹ دھرمی چھوڑ دے اور جو خلافت کا صحیح حقدار ہے اس سے جنگ نہ کر۔امام علیہ السلام کے نمائندوں کی منطقی اور استدلالی گفتگو نے معاویہ کو بوکھلا دیا اور اپنی پرانی روش کے برخلاف تلخ لہجے میں کہا:بیاباں نشین تم میرے پاس سے چلے جاؤاب ہمارے اور تمہارے درمیان تلوار ہی فیصلہ کرے گی۔

تمیمی: کیا تم ہمیں تلوار سے ڈرا رہے ہو ؟ بہت جلد ہی تلوار لے کر تمہاری طرف آرہے ہیں ، پھر تینوں نمائندے امام کی خدمت میں واپس آگئے اور تمام باتوں کے نتیجے سے امام علیہ السلام کو باخبر کیا۔(۱)

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص ۱۸۸،۱۸۷۔ تاریخ طبری ج۳ جزء ۵ ص۲۴۲۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۴۶

۵۶۰

عراق وشام کے قاریوں کا اجتماع

صدر اسلام میں قاریان قرآن کا ایک خاص مقام تھا ان کا کسی طرف ہوناتمام مسلمانوں کا ان لوگوں کی طرف متوجہ ہونے کا سبب بنتا تھا،ایسے حالات میں جب کہ صلح وآشتی کی کوئی امید نہ تھی عراق وشام

کے قاری جن کی تعداد ۳۰ ہزار کے قریب تھی ایک خاص جگہ پر جمع ہوئے اور ان کے نمائندے مثلاً عبیدہ سلمانی ، علقمہ بن قیس ،عبداللہ بن عتبہ وعامر بن عبد القیس وغیرہ دونوں فوج کے سرداروں کے پاس کئی مرتبہ آئے گئے سب سے پہلے معاویہ کے پاس گئے اور اس سے گفتگو کی جو درج ذیل ہے :

نمائندے: تم کیا چاہتے ہو؟

معاویہ : عثمان کے خون کا بدلہ چاہتاہوں۔

نمائندے: کس سے بدلہ لو گے؟

معاویہ : علی سے۔

نمائندے : کیا علی نے ان کو قتل کیاہے؟

معاویہ : ہاں علی نے قتل کیاہے اور ان کے قاتلوں کو پناہ دی ہے۔

پھر وہ نمائندے امام علی علیہ السلام کی خدمت میں آئے او ر کہا کہ معاویہ آپ پر عثمان کے قتل کا الزام لگارہا ہے۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم وہ جھوٹا ہے میں نے ہرگز اسے قتل نہیں کیا ہے۔

نمائندے پھر معاویہ کے پاس گئے اور امام علیہ السلام کی باتیں اسے بتائیں ۔

معاویہ : براہ راست وہ قتل میں شریک نہ تھے لیکن تھا اور لوگوں کو ان کے قتل پر ابھارا ہے ۔

امام علیہ السلام نے،معاویہ کی باتیںجاننے کے بعددوبارہ خلیفہ کے قتل میںہرطرح کی مداخلت کرنے سے انکار کیا۔

معاویہ نے امام علیہ السلام کے انکار کو دیکھ کر دوسری بات کہی، کہ اگر ایسا ہے تو عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کریں یا ہمیں اجازت دیں کہ ہم خود انہیں گرفتار کریں۔

۵۶۱

امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ایک ایسا قتل ، جو عمداً نہیں تھالہذا اس کا قصاص نہیں ہے کیونکہ ان کے قاتلوں نے قرآن سے ان کے قتل کے جائز ہونے پر دلیلیں پیش کی ہیں اور اس کی تاویل کی ہے اور ان کے اور خلیفہ کے درمیان اختلاف ہوگیا اورخلیفہ تمام قدرت کے باوجود قتل ہوگیا(اور بالفرض کہ یہ عمل صحیح نہیں تھا توبھی ایسا قتل ، قابل قصاص نہیں ہے)۔

جس وقت امام کے نمائندوں نے حضرت کے فقہی استدلال کو ( جوباب قضاء کے اصول میں سے ہے ) معاویہ کے سامنے نقل کیا اور اس نے اپنے کو شکست خوردہ دیکھا تو پھر اپنی گفتگو کو دوسرے طریقے سے شروع کیا اور کہا کیوں علی نے خلافت کو بغیر ہمارے اور جو لوگ یہاں ہیں کے مشورے کے اپنے لئے انتخاب کیا اور ہمیں اس سے محروم کیا؟

امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: لوگ مہاجر وانصار کے پیرو ہیں اور وہ دوسرے شہروں میں رہنے والے مسلمانوں کے ترجمان ہیں، ان لوگوں نے اپنی مرضی و آزادی اور صدق دل سے میری بیعت کی ہے اور میں ہرگز معاویہ جیسے لوگوں کو اجازت نہیں دوںگا کہ وہ امت مسلمہ پر حکومت کرے اور لوگوں پر ہمیشہ مسلط رہے اور ان کی کمر توڑدے(۱)

معاویہ : تمام مہاجر وانصار مدینہ میں نہ تھے بلکہ ان میں سے کچھ شام میں رہتے تھے کیوں ان سے مشورہ نہیں کیا گیا؟

امام : امام کا انتخاب تمام مہاجرین و انصار جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں سے مربوط نہیں ہے، ورنہ انتخاب ہوہی نہیں سکتا بلکہ ان میں سے کچھ ہی لوگوں پر منحصر ہے یعنی ان لوگوں پر جنہوں نے صدر اسلام میں اپنی بہادری کا ثبوت پیش کیاہے اور '' بدری (جنگ بدر) '' کے نام سے مشہور ہیں اور ان تمام لوگوں نے میرے ہاتھ پہ بیعت کی ہے پھر آپ نے تمام قاریوں کی طرف رخ کرکے کہا: معاویہ تم لوگوں کو دھوکہ نہ دے اور تمہارے دین وجان کو تباہ نہ کردے۔

وضاحت : پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد حکومت اسلامی کے پھیلنے کی وجہ سے مہاجرین وانصار مختلف اسلامی ملکوں میں سکونت پذیر ہوگئے تھے اور اس زمانے میں کوئی ایسا وسیلہ نہ تھا جس کے ذریعے سب کو جمع کیا جاتا اور سب سے رائے ومشورہ لیا جاتا ، جس کے نتیجے میں حکومت کے نظام میں خلل واقع ہونے کے علاوہ کچھ نہ ہوتا، اسی وجہ سے کوئی اور صورت نہ تھی مگر یہ کہ مہاجرین وانصار کی اکثریت جو مدینہ میں سکونت پزیر تھی ان

_______________________________

(۱)اس سلسلے میں امام علیہ السلام کی بہت عمدہ تعبیر ہے''انماالناس تبع المهاجرین والانصار وهم شهود المسلمین فی البلاد علیٰ ولایتهم وأمردینهم فرضوا بی و بایعونی ولست أستحِلّ أن ادع ضرب معاویة یحکم علیٰ الامة ویرکبهم ویشقّ عصاهم '' وقعہ صفین ص ۱۸۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص ۱۶۔

۵۶۲

پر اکتفاء کیا جاتا، اصولی طور پر صحیح نہ تھا کہ صرف مہاجرین وانصار کی رائے نافذ ہو، اور اگر تمام لوگوں سے مشورہ لینا ممکن ہوتاتو ان میں اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے صحابہ میں جنہوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرایمان لائے تھے لیکن ہجرت نہیں کی تھی کوئی فرق نہیں تھا ، تو پھر کس بنیاد پر خلیفہ کا انتخاب صحابہ کے اختیار میں ہوا اور دوسرے مسلمان اس مسئلہ میں اپنا نظریہ پیش کرنے کا حق نہیں رکھتے؟

اصل میں مسئلہ امامت، امام علیہ السلام کی نظر میں ایک تنصیصی ( نصّی ) مسئلہ تھا یعنی ضروری ہے کہ امام بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح خدا کی طرف سے معین ہو لہٰذا اگر اس مسئلہ میں امام علیہ السلام مہاجرین و انصار یا '' اصحاب بدر '' کے انتخاب کرنے کے متعلق کوئی بات کررہے ہیں تو یہ لوگوں کو قانع کرنے کے لئے اپنی حجت تمام کررہے تھے، انتخاب کے ذریعے امامت کو اختیار کرنے کے مسئلے کا جب کبھی تجزیہ کیا جائے گا تو ہرگز اس زمانے کے تمام مہاجرین و انصار یا تمام صحابہ یا تمام مسلمان کی رائے کو مورد بحث قرار نہیں دیا جا سکتاکیونکہ اس زمانہ میں لوگوں کے ایک دوسرے سے رابطے کے ذرائع بہت کم تھے اور مہینوں گزر تے تھے جب قاصد ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں پہونچتا تھا، اسی وجہ سے کوئی اور صورت نہ تھی مگر یہ کہ اسلام کی بزرگ وعظیم شخصیتوں یا امام علیہ السلام کی تعبیر کے مطابق '' اصحاب بدر'' پر اکتفاء کیا جاتا۔

ابتدائی جھڑپیں

ربیع الثانی، جمادی الاول اورجمادی الثانی کے مہینے صرف نمائندے اور پیغامات بھیجنے میں گزر گئے اور اس درمیان بہت سی جھڑپیں ہوئیں ( جن کی تعداد ۸۵ لکھی گئی ہے ) لیکن یہ جھڑپیں جنگ وجدال کا سبب نہیں بنیں، کیونکہ عراق وشام کے قاری اس درمیان میں واسطہ بنے تھے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا کررہے تھے(۱)

______________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۹۰۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص ۱۸۔۱۷

۵۶۳

ابو امامہ و ابو الدرداء :

یہ دونوں بزرگ صحابی جنگ وجدال کو روکنے کے لئے معاویہ کے پاس گئے اور اس سے کہا: کیوں علی سے جنگ کررہے ہو؟ معاویہ نے اپنے اسی پرانے جواب کو جو اس نے کئی مرتبہ امام علیہ السلام اور آپ

کے نمائندوں کو دیا تھا دہرایا اور دونوں صحابیوں نے امام کے پاس آکر اس کا جواب سنایا ، امام علیہ السلام نے اس مرتبہ معاویہ کا جواب دوسرے انداز سے دیا اور وہ یہ کہ اپنے سپاہیوں کے درمیان یہ بات نشر کردی کہ معاویہ خلیفہ کے قاتلوں کا طلبگارہے، اچانک ۲۰ ہزار آدمی اسلحے سے لیس ہو کر اور وہ بھی اس طرح کہ ان کی آنکھوں کے علاوہ ان کے بدن کا کوئی حصہ دکھائی نہیں دے رہا تھا باہر آئے اور سب نے یہ کہا کہ ہم خلیفہ کے قاتل ہیں(۱) ۔

جب ان دونوں بوڑھے صحابیوں نے یہ منظر دیکھا تو انہوں نے دونوں گروہوں کو چھوڑ دیا تاکہ جنگ کے عینی شاہد نہ بنیں جب کہ ان لوگوں کے لئے بہتر تھا کہ حق کی تلاش کرتے اور اس کی حمایت کرتے، رجب ۳۶ کا مہینہ آپہونچا اور چھٹ پٹ حملے رک گئے ، معاویہ کو اس بات کو خوف تھا کہ قاریان قرآن جو دونوں فوج کے درمیان پڑاؤ ڈالے تھے علی کے لشکر سے نہ مل جائیں ، لہٰذا امام علیہ السلام کی چھاؤنی کو درہم برہم کرنے کے لئے اس نے چال چلی ، جس کی مثال اسلام کی جنگوں کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۹۰۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص ۱۸۔۱۷

۵۶۴

معاویہ کی طرف سے بند توڑنے کی افواہ

فرات کے گھاٹ پر قبضہ کرنے کے بعد جنگ کا نقشہ امام کے لشکر کے حق میں ہو گیا اسی طرح عراق وشام کے قاریان قرآن جو امام کی خدمت میں تھے ،امام کی منطقی اور عقلی گفتگو سن کر ان میں سے اکثر شامی قاری بھی آپ کی فوج میں داخل ہوگئے اور ان میں سے کچھ نے کنارہ کشی اختیار کرلی ، معاویہ نے اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ امام کا اخلاق سب پر حاوی ہوجائے، ایک چال چلی تاکہ جنگ کواپنے فائدے میں بدل دے۔

امام علیہ السلام کی فوج کی چھاؤنی صفین کے ڈھلان پر تھی اورمعاویہ کی چھاؤنی بلندی پر تھی، میدان کے کنارے ایک بند تھا جس سے فرات کا پانی روکا گیا تھا اچانک امام کے لشکر میں ایک دوسرے سے یہ خبر پھیل گئی کہ معاویہ چاہتا ہے کہ فرات کے بند کو توڑ کرپانی عراقیوں کی کی طرف بہادے، اس خبر کو

پھیلانے کا طریقہ یہ تھا کہ معاویہ کے حکم سے خفیہ طور پر ایک تیر امام کے لشکر کی طرف پھینکاگیا جس میں ایک خط تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ ، یہ خط خدا کے ایک نیک بندے کی طرف سے ہے، میری عرض ہے کہ معاویہ چاہتاہے کہ فرات پر بنے ہوئے بند کو توڑ دے تاکہ تم لوگوں کو غرق کردے جتنی جلدی ممکن ہو کوئی فیصلہ کرو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو۔

یہ خط امام علیہ السلام کے ایک فوجی کے ہاتھ میں پڑا اس سے دوسروں کے ہاتھ میں جاتارہا یہاں تک کہ پوری چھاؤنی میں یہ خبر پھیل گئی اور شاید سب نے اس خط کو صحیح مان لیا اور جس وقت یہ خبر پھیلی اسی وقت عراق کے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے دوسو آدمیوں کو پھاوڑا ، نیزہ وغیرہ دیکر فرات کے گھاٹ پر بھیجا تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ واقعاً وہ بند توڑنا چاہتاہے۔

امام علیہ السلام، معاویہ کے مکروحیلہ سے واقف تھے لہٰذا اپنی فوج کے سپہ سالاروں سے فرمایا: معاویہ بندتوڑنے کی طاقت نہیں رکھتا، وہ تم لوگوں کو اپنے اس مکر وحیلہ سے مرعوب کرنا چاہتا ہے تاکہ تم لوگ اپنا قبضہ چھوڑ دو اور وہ دوبارہ فرات کو اپنے قبضہ میں لے لے۔

۵۶۵

سپہ سالاروں نے کہا: ایسا نہیں ہے بلکہ وہ واقعاً توڑناچاہتاہے اور اس وقت کچھ لوگ بند کو توڑنے میں مصروف ہیں تاکہ پانی کا رخ ہم لوگوں کی طرف کر دیں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:اے عراقیو ، میری مخالفت نہ کرو۔

سپہ سالاروں نے کہا: خدا کی قسم ہم یہاں سے کوچ کریں گے اگر آپ رکنا چاہتے ہیں تو رک جائیں اس وقت سب چھاؤنی چھوڑکر چلے گئے اور ایک بلند جگہ پر پناہ لی ، امام علیہ السلام آخری فرد تھے جنہوں نے مجبوراً چھاؤنی چھوڑی ، لیکن زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ امام علیہ السلام کی بات صحیح ثابت ہوئی معاویہ نے بجلی کی تیز رفتاری سے امام علیہ السلام کی چھاؤنی پر قبضہ کرلیااور عراقی سپاہیوں کو حیرت میں ڈال دیا۔(۱)

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۱۹۱۔ ۱۹۰

۵۶۶

مخالفت کی تلافی

امام علیہ السلام نے اپنے مخالف سرداروں کو اپنے پاس بلایا اور ان لوگوں کی ملامت کی۔

اشعث بن قیس نے اپنی مخالفت کی عذر خواہی کی اور کہا کہ اس شکست کی تلافی کریں گے چنانچہ مالک اشتر کی مدد سے شدید جنگ کرکے معاویہ کی فوج کو قبضہ کی ہوئی سرزمین سے تین فرسخ دور کردیا اور اس طرح اپنی مخالفت کے ذریعے ہوئی شکست کی تلافی کردی اور میدان پھر امام علیہ السلام کے قبضے میں آگیا اور پھر فرات کے پانی پر امام علیہ السلام کے سپاہیوں کا قبضہ ہوگیا۔

مگر اس وقت امام علیہ السلام نے اپنی کرامت وشجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً ہی معاویہ کے پاس پیغام بھیجا :''انا لانکافیک بصنعِک ، هلُمّ الی الماء فنحن وأنتم فیه سوائ '' میں تمہارے جیسا کام ہرگز نہیں کرسکتا ، اس پانی کی طرف آؤ ہم اور تم اس آسمانی نعمت میں برابر ہیں ۔اس وقت اپنی فوج کی طر ف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ہمارا مقصد پانی پر قبضہ کرنے سے زیادہ بزرگ ہے ۔(۱)

ماہ رجب ۳۶ ہجری سے ذی الحجہ تک جنگی جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا اور دونوں فوجوں نے لاشوں کو ایک دوسرے کے حوالے اس خوف سے نہیں کیا کہ کہیں ایسا نہ ہوا کہ فوج حملہ کر بیٹھے لیکن ذی الحجہ میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے، امام علیہ السلام نے اس مہینے اپنے سپہ سالاروں مثلاً مالک اشتر، حجر بن عدی ، شبث تمیمی ، خالد دوسی ، زیاد بن نضر ، زیاد بن جعفر، سعید ہمدانی ، معقل بن قیس اور قیس بن سعد کو ان کے دستوں کے ہمراہ میدان میں روانہ کیا(۲) تمام سپہ سالاروں کے درمیان مالک اشتر سب سے نمایاں نظر آرہے تھے کبھی کبھی دن میں دو حملے ہوتے اور دونوں طرف کے لوگ مارے جاتے ، جس وقت محرم ۳۷ ہجری کا چاند فلک پر نمودارہوا دونوں فوجوں نے کہا کہ محرم الحرام کے احترام میں جنگ بند ہونا چاہیے اور نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں طرف سے نمائندے گفتگو کے لئے آنے لگے۔(۳)

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۶۵

(۲)تاریخ طبری ج۳ جزئ۵ ص ۲۴۳۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص۱۴۶

(۳)وقعہ صفین ص ۱۶۵

۵۶۷

۳۷ ہجری کے حادثات

محرام الحرام ۳۷ ہجری کا مہینہ ، پیغام اور نمائندے بھیجنے کا مہینہ تھا۔

امام علیہ السلام نے اس مہینے میں اہم شخصیتوں مثلاً عدی بن حاتم ، شِبث بن ربعی، یزید بن

قیس اور زیاد بن حفصہ کو معاویہ کے پاس بھیجا تاکہ شاید اس مدت میں اسے دوبارہ جنگ کرنے کے ارادے سے روک سکیں ، معاویہ اور ان لوگوں کے درمیان ہوئی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے:

عَدی بن حاتم : ہم اس لئے آئے ہیں کہ تمہیں ایسی چیز کی دعوت دیں جس کے ذریعے سے خداوند عالم ہماری امت کو متحد کردے گا اور مسلمانوں کا خون بہنے سے بچ جائے گا اور ہم تجھے اسلام کے فاضل اور اچھے فرد کی طرف دعوت دیتے ہیں ، لوگ اس کے پاس جمع ہوئے اور خداوندعالم نے اس کی ہدایت وراہنمائی کی اور کسی نے بھی اس کی بیعت کرنے سے انکار نہیں کیا مگر صرف تم نے اور جولوگ تمہارے ساتھ ہیں، ہم لوگوں کی تم سے التجا ہے کہ اس نافرمانی اور طغیانی سے بازآجا، اس سے پہلے کہ جنگ جمل جیسے حالات میں مبتلا ہو۔

معاویہ : تم لوگ مجھے دھمکی دینے اور مرعوب کرنے آئے ہو نہ کہ میری اصلاح کرنے! جو تم چاہتے ہو وہ بہت دور ہے میںحرب کا بیٹا ہوں اور کبھی بھی خالی مشکوں کو پیٹنے سے نہیں ڈرتا ( عرب اونٹوں کو بھگانے کے لئے خالی مشکوں کو پیٹتے تھے) خدا کی قسم ! تو ان لوگوں میں سے ہے جس نے عثمان کے قتل کرنے پر لوگوں کو ابھارا تھا اور تو خود ان کے قاتلوں میں سے ہے ، افسوس اے عدی، میں نے اُسے مضبوط ہاتھوں سے پکڑاہے۔

۵۶۸

شبث بن ربعی وزیاد بن حفصہ:ہم صلح کرنے کے لئے تمہارے پاس آئے ہیں اور تو(ادب کو بالائے طاق رکھ کر) ہم لوگوں کے لئے قصہ بیان کررہا ہے بیہودہ باتوں کو چھوڑ دے اور ایسی باتیں کر جو ہمارے اور تمہارے دونوں کے لئے مفیدہو ں۔

یزید بن قیس: ہم پیغام پہونچانے اور پیغام لے جانے کے لئے آئے ہیں اور ہرگز موعظہ ونصیحت اور دلیل اور ایسے مسائل جو اتحاد واتفاق کے لئے سرمایہ ہیں چھوڑ نہیں سکتے، تم ہمارے امام کو پہچانتے ہوا ور مسلمان بھی انہیں پہچانتے ہیں کہ وہ کتنے عظیم و برتر ہیںاور یہ بات ہرگز تم سے پوشیدہ نہیں ہے اور متقی وپرہیز گار اور بافضیلت لوگ تجھے علی کے برابر شمار نہیں کرتے ، خدا سے خوف کر اور علی کی مخالفت نہ کر، کہ خدا کی قسم کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو علی سے زیادہ متقی وپرہیز گارہو اور علی جیسا تمام فضیلتوں کا مظہر ہو۔

معاویہ : تم لوگوںنے مجھے دو چیزوں کی دعوت دی ہے ، علی کی اطاعت اور اتحاد ، میں دوسرے کو قبول کروں گا لیکن ہرگز میں علی کی اطاعت نہیں کرسکتا ،تمہارے رہبر وحاکم نے ہمارے خلیفہ کو قتل کیا اور امت کو دو گروہوں میں تقسیم کردیا اور خلیفہ کے قاتلوں کو پناہ دیا ہے، اگر ان کا کہنا ہے کہ میں نے خلیفہ کو قتل نہیں کیا ہے تو میں بھی ان کی اس بات کو رد نہیں کروں گا لیکن کیا وہ انکار کرسکتے ہیں کہ خلیفہ کے قاتل ان کے دوست نہیں ہیں؟ وہ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کردیں تاکہ میں ان سے بدلہ لے سکوں اس وقت میں اطاعت اور وحدت کے بارے میں تمہارا جواب دوں گا۔(۱)

______________________

(۱)تاریخ طبری ج۳ جزئ۵ ص ۳۔۲۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص۱۴۷۔وقعہ صفین ص ۱۹۶،۱۹۸۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص۲۲۔۲۱

۵۶۹

معاویہ کے جواب کی وضاحت

معاویہ اپنے احتجاجات میں ایک نظریہ پر قائم نہیں تھا،حالات کو دیکھ کر باتیں کرتا تھا۔کبھی امام علیہ السلام پر قتل کا الزام رکھتااور کسی صورت میں بھی اس سے انکار نہیں کرتالیکن اس گفتگو میں حضرت کو خون عثمان سے بری رکھا مگر یہی مسلسل کہتا رہا کہ امام نے خلیفہ کے قاتلوں کو اپنے پاس رکھا ہے جب کہ وہ اس طرح کا دعویٰ کرنے کا حق نہیں رکھتا تھا کیونکہ نہ تو وہ خلیفہ کا وارث تھا اور نہ مسلمانوں کا حاکم ، قاتلوں کو بار بار اپنے اختیار میں لینے کا اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ امام علیہ السلام کی فوج کے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے ، وہ جانتاتھا کہ عراق ومصر وحجاز کے انقلابی لوگ خلیفہ کے حاکموں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن چکے تھے اور عثمان کے قتل کے بعد بہت زیادہ اصرار کرکے امام کے ہاتھوں پر بیعت کی ۔ یہی لوگ خلیفہ کے قاتل ہیں ( چاہے ان لوگوں نے خودقتل کیا ہے یا کسی کے ذریعے قتل کرایا ہے یا تبلیغ اور اپنی مرضی کے اظہار اور خوشحالی کے لئے اس قتل میں شامل رہے ہیں)ایسے عظیم گروہ کاسپرد کرنا پہلے تو ممکن نہ تھا بلکہ صرف اور صرف نظام حکومت کو ختم کرنے یا شورش برپا کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

معاویہ نے اس گفتگو میں خلیفہ کے قاتلوں کی سپردگی کو مرکزی حکومت کی پیروی کرنے کے لئے

کافی سمجھا ،جب کہ دوسری جگہوں پر اس نے بہت اصرار کیا کہ ضروری ہے کہ حکومت مہاجرین و انصار کی شوریٰ جس کے افراد مختلف شہروں میں رہتے ہیں ان کی رائے ومشورہ سے طے ہو ،اس طرح کی ضدونقیض باتیں کرنا معاویہ کے ابن الوقت ہونے کی نشاندہی ہے۔

اب ہم معاویہ اور علی علیہ السلام کے نمائندوں کے درمیان ہوئی گفتگو کے سلسلہ میں بیان کر رہے ہیں۔

شبث بن ربعی : اے معاویہ ، تجھے خدا کی قسم، اگر عمار یاسر کو تیرے حوالے کریں تو کیا تو انہیں قتل کردے گا؟ ( عمار جس کے بارے میں پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایاہے ، اسے ظالم گروہ قتل کرے گا)

معاویہ : خدا کی قسم، اگر علی سمیہ کے بیٹے کو میرے حوالے کریں تو میں عثمان کے غلام نائل کے بدلے انہیں قتل کردوںگا ۔

شبث بن ربعی :آسمان کے خالق کی قسم ، تو نے عدالت سے کام نہ لیا اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تم ہرگز سمیہ کے بیٹے کو قتل نہیں کرسکتے مگر یہ کہ سروتن میں جدائی ہوجائے اور زمین اپنی پوری وسعت وکشادگی کے ساتھ تجھ پر تنگ ہوجائے۔

۵۷۰

معاویہ : اگر زمین مجھ پر تنگ ہوگی تو مجھ سے زیادہ تجھ پر تنگ ہوگی۔

یہاں امام علیہ السلام کے نمائندوں کی گفتگو ختم ہوگئی اور بغیر کسی نتیجے کے یاابوسفیان کے بیٹے کی فکر وتدبر پر کوئی اثر ہوتا نمائندے واپس آگئے ، معاویہ نے ان لوگوں میں سے زیاد بن حفصہ کو بلایا اور اس سے دوسرے انداز سے گفتگو کرنا چاہی وہ سوچ رہا تھا کہ شاید اس کے نظریہ اور فکر کو تبدیل کردے گا کیونکہ ان میں سے ہر ایک امام علیہ السلام کے چاہنے والوں میں سے بہت سے لوگوں کا نمایندہ تھا معاویہ نے اس سے کہا: علی نے قطع رحم کیاہے اور ہمارے امام کو قتل کرڈالا اور اس کے قاتلوں کو پناہ دیا ہے میں تجھ سے درخواست کرتاہوں کہ اپنے عزیزوں اور قبیلے والوں کے ساتھ میری مدد کرو اور میںتم سے عہد کرتاہوں کہ جنگ فتح کرنے کے بعد ان دو شہروں (کوفہ اور بصرہ) میں سے جس شہر کی حکومت چاہے گا تجھے دے دوں گا۔

زیاد بن حفصہ نے کہا: میں اس دلیل کی بنیاد پر جو خدا کی طرف سے میرے پاس ہے اور وہ نعمتیں جو مجھے نصیب ہوئی ہیں میں کبھی مجرموں کا محافظ ومددگار نہیں بن سکتا،یہ جملہ جو کہ موسیٰ بن عمران(۱) کی گفتگو کا سرچشمہ ہے کہا اور معاویہ کو چھوڑ کر (امام کی خدمت میں) واپس آگیا۔

اس بزم میں عمرو عاص بھی موجود تھا معاویہ نے اس بوڑھے سیاسی سے کہا ہم نے ان میں سے جس سے بھی گفتگو کی سب نے بہترین جواب دیا سب کا دل مثل ایک آدمی کے ہے اور سب کی منطق ایک طرح کی ہے۔(۲)

______________________

(۱)زیاد کے کلام کی عبارت یہ ہے ''اما بعد فانی علیٰ بیّنةٍ مِن رّبّی وبما أنعم علیَّ فلن اکون ظهیراً للمجرمین'' ۔

(۲)تاریخ طبری ج۳ جزئ۵ ص ۳۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص۱۴۸۔وقعہ صفین ص ۱۹۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص۲۲۔

۵۷۱

معاویہ کے نمائندے امام علیہ السلام کی خدمت میں

امام علیہ السلام کا بزرگ شخصیتوں کے بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ معاویہ اپنے ارادے کو بدل دے اور یہ مشکل گفتگو کے ذریعہ حل ہو جائے جب کہ معاویہ کا مقصد یہ تھا کہ جنگ میں تاخیر اور امام کے لشکر میں اختلاف اور انتشار ہوجائے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ علی (علیہ السلام) ہرگز اس جیسے لوگوںکے سامنے اپنے ارادے میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔

اس مرتبہ معاویہ نے تین آدمیوں '' حبیب، شرحبیل اور معن کو امام کے پاس بھیجا اور ان تینوں کی منطق وہی معاویہ کی منطق تھی ، گویا یہ لوگ معاویہ کی زبان تھے جو اس کی باتوں کو بغیر کسی کمی وزیادتی کے بیان کررہے تھے امام علیہ السلام اور ان تینوں کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ درج ذیل ہے۔

حبیب: عثمان ہدایت یافتہ خلیفہ تھااور آپ نے اس پر زیادتی کی اور اسے قتل کردیا اب اس وقت اس کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کردیجیئے تاکہ ہم انہیں قتل کردیں اور اگر آپ کا کہنا یہ ہے کہ میں نے اسے قتل نہیں کیا ہے تو حکومت چھوڑدیجیئے اور اسے شوریٰ کے حوالے کردیجیئے تاکہ لوگ جس کو چاہیں منتخب کریں اور وہ حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لے۔

حبیب کی گفتگو بے اساس تھی ، سب سے پہلے بغیر کسی گواہ کے امام علیہ السلام پر قتل کا الزام لگایا اور اپنے کو خلیفہ کے حق کا دفاع کرنے والا ثابت کیا، اور پھر امام علیہ السلام کے انکار کو قبول کررہا ہے اور ان

سے چاہتا ہے کہ وہ حکومت کی ذمہ داری چھوڑ دیں ! یعنی اس پوری گفتگو کا مقصد اس کا آخری جملہ تھا لہٰذا مام علیہ السلام نے سخت انداز میں اس کو جواب دیا: ''وما أنت لااُمّ لَکَ والولایة والعزل والدخول فی هذا الأمر فانّک لستَ هناک ولاٰ بأهل لذالک ''تو حکومت سے دستبرداری کا مطالبہ کرنے والا کون ہوتا ہے ،جب کہ اس معاملہ میں دخل دینے کا تو اہل نہیں ہے۔

حبیب: خدا کی قسم ! جن حالات میں اپنے آپ کو دیکھا پسند نہیں کرتے ان میں اپنے کو ضرور دیکھیں گے۔

امام علیہ السلام : تیری کیا حقیقت ہے ! جا جتنے بھی سوار اور پیادہ ہیں لا، تو کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔

شرحبیل: میں بھی وہی بات کہنا چاہتا ہوں جو حبیب نے کہا ہے، کیا وہ جواب جو آپ نے اس کو دیا اس کے علاوہ کوئی جواب ہے جو مجھے دیں گے؟

۵۷۲

امام علیہ السلام : کیوں نہیں ، تمہارے لئے اور تمہارے دوست کے لئے دوسرا جواب بھی میرے پاس ہے، خداوند عالم نے پیغمبر کو چنا اور ان کے ذریعے سے لوگوں کو گمراہی سے نجات دی اور پھر انہیں اپنی بارگاہ میں بلالیا جب کہ آپ نے اپنی رسالت کو انجام دیا پھر لوگوں نے ابوبکر کو ان کی جانشینی کے لئے منتخب کیا اور ابوبکر نے بھی عمر کو اپنا جانشین بنایا۔۔ پھر عثمان نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور لوگ ان کاموں کی وجہ سے جو انہوں نے انجام دیئے تھے ان سے ناراض ہوئے اور اس کی طرف حملہ آور ہوئے اور انہیں قتل کرڈالا، پھر میرے پاس آئے جب کہ میں ان لوگوں کے کاموں سے دور تھا،ان لوگوں نے بہت زیادہ اصرار کیا کہ میرے ہاتھوں پر بیعت کریں ، میں نے شروع میں قبول نہیں کیا لیکن ان لوگوں نے حد سے زیادہ اصرار کیا اور کہا امت آپ کے علاوہ کسی پرراضی نہیں ہے اور ہمیں خوف ہے کہ اگر آپ کے ہاتھوں پر بیعت نہ کریں تو دوگروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے، تب میں نے ان لوگوں کی بیعت قبول کرلی ، طلحہ وزبیر نے بھی میرے ہاتھوں پر بیعت کی لیکن بعد میں بیعت توڑ دی، پھر معاویہ میری مخالفت میں اٹھا ، وہ ایسا شخص ہے جسے نہ دین میں کوئی سبقت ہے اور نہ صحیح اسلام ہی میں کوئی درجہ حاصل ہے وہ آزاد کردہ اور آزاد کردا کا بیٹا ہے وہ بنی امیہ کے گروہ سے ہے وہ اور اس کے باپ ہمیشہ خدا ورسول کے دشمن رہے ہیں اور مجبوراً اسلام قبول کیاہے مجھے تم پر تعجب ہے کہ تم اس کے لئے فوج اکھٹا کررہے ہو اور اس کی پیروی کررہے ہو اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کو چھوڑدیا ہے اور اہل بیت رسول کے ہوتے ہوئے تم نے دوسروں کی محبت اپنے دل میں بسالی ہے ۔ میں تمہیں خدا کی کتاب اور رسول خدا (ص) کی سنت اور باطل مردہ اور دین کی تمام نشانیوں کو زندہ کرنے کی دعوت دیتاہوں ، اور اپنے اور تمام مومن مرد، عورت کے لئے طلب

۵۷۳

مغفرت کرتا ہوں(۱) ۔

اگر شرحبیل (تمیم کا زاہد نما) خواہشات نفسانی کا اسیر نہ ہوتا اور اسلام کی تاریخ سے کچھ آگاہی رکھتا تو ضرور امام علیہ السلام کی باتوں کو قبول کرتالیکن چونکہ امام علیہ السلام کی عقلی باتوں کے سامنے اس نے اپنے کو عاجز وناتواں سمجھا اور غلط فکر رکھنے والوں کی طرح امام کے قول کو دوسرے طریقے سے سوچا لہذا کہنے لگا: عثمان کے قتل کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیا آپ گواہی دیں گے کہ وہ مظلوم مارا گیاہے ؟ اس طرح کا سوال ایک پیغام لانے والے کی زمہ داری سے خارج تھا اور جلسہ کو درہم برہم کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا ہدف نہ تھا، اس واقعے کے فیصلہ کے لئے عثمان کے قتل کی علتوں کی تحقیق وجستجو کی ضرورت ہے لہٰذا امام علیہ السلام نے اس کی تصدیق نہیں کی اور وہ لوگ بھی اسی بہانہ سے امام کے پاس سے چلے گئے اور کہا: جو بھی عثمان کی مظلومیت کی گواہی نہیں دے گا ہم لوگ اس سے بیزار ہیں ۔

امام علیہ السلام نے ان لوگوں کو اس آیت کا مصداق قرار دیا۔

( انک لاتُسمعُ الموتیٰ ولا تُسمِعُ الصُّمَّ الدّعاء اذا ولّوا مُدْ بِرین وماأنت بِهادی العُمیِ عن ضَلالتهم اِن تُسمعُ الامَنْ یؤمنُ بأیاتنٰافهُم مسلمون ) (نمل ۸۱،۸۰)

'' بے شک نہ تم مردوں کو ( اپنی بات) سنا سکتے ہو اور نہ بہروں کو اپنی آواز سنا سکتے ہو

( خاص کر) جب وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں اور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے راہ پر لاسکتے ہو تم تو بس ان ہی لوگوں کو ( اپنی بات) سنا سکتے ہو جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں پھر وہی لوگ تو ماننے والے بھی ہیں ''۔

_______________________________

(۱)تاریخ طبری ج۳ جزئ۶ ص ۴۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص۱۴۸۱۴۹۔وقعہ صفین ص ۲۰۲،۲۰۰۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص۲۴،۲۲

۵۷۴

سترہویں فصل

جنگ صفین کا انجام

امام علیہ السلام مظہرصبر و استقامت تھے، آپ ابوسفیان کے بیٹے کی مخالفت کے مقابلے میں صلح کی ہر کوشش کی لیکن معاویہ کو ریاست طلبی نے اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ نمائندوں ، نصیحت کرنے والوں کے جانے کے بعد بھی بجائے اس کے کہ اس میں لوچ پیدا ہوتازیادہ سخت ہوگیا ، آخر کا ر امام علیہ السلام نے ارادہ کیاکہ مسلسل جنگ کریں اور اس سے زیادہ اپنا قیمتی وقت برباد نہ کریں اور اس کینسر کے جراثیم کو اسلامی معاشرہ سے ختم کریں۔

اسلامی معاشرے میں دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر اسلامی حکومت کسی گروہ کے ساتھ عہد ( بغیر کسی مزاحمت کے ) کرلے تو یہ عہد وپیمان محترم ہوتاہے مگر یہ کہ حاکم اسلامی کسی وجہ سے یہ احساس کرلے کہ ہمارا مقابل عہد وپیمان توڑدے گا اور خیانت کرے گا تو اس صورت میں وہ پہل کرسکتا ہے اور اپنے کئے ہوئے عہد وپیمان کو باطل قرار دے سکتا ہے اور جنگ کا آغاز کرسکتا ہے جیسا کہ قرآن مجید نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے، ارشاد قدرت ہے:( واِ مّا تخافَنّ من قومٍ خیانةً فانبذ الیهم علیٰ سوائٍ اِنّ الله لایحبّ الخائنین ) (انفال ۵۸)'' اور اگر تمہیں کسی قوم کی خیانت (عہد شکنی) کا خوف ہو تو تم بھی برابر ان کا عہد ان ہی کی طرف سے پھینک مارو (عہد شکن کے ساتھ عہد شکنی کرو)خداہرگز دغا بازوں کو دوست نہیں رکھتا''۔

اسلام کایہ قانون، اصول اخلاقی اور عدالت کی رعایت کی حکایت کرتا ہے اور اسلام تو یہاں تک اجازت نہیں دیتا کہ بغیر بتائے ہوئے دشمن پر حملہ کیا جائے ، اگرچہ اس کی رفتارو گفتار سے خیانت کی علامتیں ظاہر ہوں۔

امام علیہ السلام نے صفین میں اس سے بھی زیادہ رعایتیں کیں ، جب کہ آپ کے اور معاویہ کے درمیان جنگ نہ کرنے کا عہد وپیمان نہ تھا بلکہ صرف ماہ محرم کا احترام تھا اور یہی سبب بنا کہ طرفین نے جنگ سے ہاتھ روک لیا اور صفین کا میدان چند دنوں تک سکون میں رہا اس کے باوجود صرف اس لئے کہ شام کے لوگ کہیں یہ نہ سوچیں کہ جیسے ہی محرم کا مہینہ ختم ہونے کے بعد پھر جنگ شروع نہیں ہو گی ، آپ نے مرثد بن حارث کو حکم دیا کہ محرم کے آخری دن سورج ڈوبتے وقت شام کی فوج کے سامنے کھڑے ہو کر بلند آواز سے یہ اعلان کرے :

۵۷۵

'' اے اہل شام ! امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے تمہیں مہلت دی اور جنگ کا حکم دینے میں صبر سے کام لیا تاکہ حق کی طرف واپس آجاؤ اور تمہارے سامنے قرآن مجید سے دلیل پیش کی اور تم لوگوں کو اس کی طر ف دعوت دی لیکن تم لوگوں نے سرکشی سے دوری اختیار نہیں کی اور حق کو قبول نہیں کیا ایسی صورت میں ہم نے ہر طرح کے امن وامان کو قطع کر دیاہے بے شک خداوند عالم خائنوں کو دوست نہیں رکھتا''۔(۱)

مرثد کے ذریعہ امام علیہ السلام کا پیغام معاویہ کی فوج میں گونج گیا اور دونوں طرف کی فوج جوش میں آگئی اور دونوں گروہ اپنی اپنی فوجیں سنوارنے لگے اور سپہ سالار معین ہونے لگے امام علیہ السلام نے اپنی فوج کواس طرح ترتیب دیا:

سواروں پر عمار یاسر کو اور تمام پیادوں پر عبداللہ بن بدیل خزاعی کو افسر مقرر کیا اور پو رایت جنگ ہاشم بن عتبہ کے سپرد کیا پھر امام علیہ السلام نے فوج کو میمنہ اور میسرہ اور قلب لشکر میں تقسیم کیا یمنیوں کو فوج کی دا ہنی طرف اور ربیعہ قبیلے کے مختلف گروہ کو فوج کے بائیں طرف اور قبیلہ مُضر کے بہادروں کو جو اکثر کوفہ اور بصرہ کے تھے قلب لشکر میں معین کیا اور ان تینوں کوایک ایک کرکے سواروں اور پیادوں میں تقسیم کیا، میمنہ اور میسرہ کے سواروں کے لئے اشعث بن قیس اور عبداللہ بن عباس کو ، اور پیادہ میمنہ اور میسرہ کے لئے سلیمان بن صُرد اور حارث بن مرّہ کو معین فرمایا اور اس وقت ہرقبیلے کے پرچم کو ان کے سرداروں کے سپرد کیا، ابن مزاحم نے اپنی کتاب وقعہ صفین میں ۲۶ پرچم کا ذکر کیا ہے جو ہر قبیلہ کا تھا کہ تمام پرچم اٹھانے والوں اور ان کے قبیلے کا نام اگر تحریر کیا جائے تو بحث طولانی ہوجائے گی لہٰذا اس کے ذکر سے سے پرہیز کررہے ہیں(۲) معاویہ نے بھی اسی ترتیب سے اپنی فوج کو منظم کیا اور سپہ سالاروں اور پرچم اٹھانے والوں کو معین

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۲۰۳۔۲۰۲،تاریخ طبری ج۳جزئ۶ ص ۵۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص۱۴۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص۲۵۔مروج الذھب ج۲ ص ۳۸۷ ( تھوڑے فرق کے ساتھ)

(۲)وقعہ صفین ص ۲۰۵۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص۲۶۔۲۴

۵۷۶

کیاصبح جب سورج افق پر نظر آیا اور جنگ کا ہونا قطعی ہوگیاتو امام علیہ السلام اپنے سپاہیوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور بلندآواز سے فرمایا:''لا تقاتلوهم حتیٰ یبدؤوکم ، فانکم بحمد اللّٰه علی حجة وتَرکُکُم ایّاهم حتٰی یبدؤوکم حجّةأخری لکم علیهم فاذا قاتلتموهم فهزمتموهم فلاتقتلوا مدبراً ولاتجهروا علٰی جریحٍ ولا تکشفوا عورةً ولاتمثّلوا بقتیلٍ، فاذا وصلتم اِلٰی رِحالِ قومٍ فلاتهتکوا ستراً ولاتدخلوا داراًالّٰا باذنی ولا تأخذ وا شیئًا من اموالهم الا ما وجد تم فی عسکرهم ولاٰ تهبّجوا امراةً بأذیً وان شتمن أعراضکم وتنا ولنَ أمرائَ کُم وصُلحائَ کم فانهنّ ضعاف القویٰ والأنفس والعقولِ ولقد کنّٰا لنؤمِرُ بِالکفِّ عنهنَّ وانّهُنَّ لمشرکاتُ وان کان الرّجلُ لیتناولُ المرأة بالهراوةِ اوالحدیدِ فیعیرُ بِهٰاعقِبُهُ من بعدِهِ'' (۱)

'' جب تک وہ جنگ شروع نہ کریںتم ان سے نہ لڑنا ، خدا کا شکر کہ اس جنگ کے لئے تمہارے پاس حجت و دلیل ہے اور ان کو پہل کرنے کے لئے چھوڑ دینا ان پر دوسری حجت ہوگی اور جب ان لوگوں کو شکست دینا تو جو لوگ جنگ سے منہ موڑ کر بھاگیں ان کو قتل نہ کرنا، زخمیوں کو قتل نہ کرنا اور دشمن کو برہنہ نہ کرنا، ان کی لاشوں کو مُثلہ (ناک کان وغیرہ کاٹنا) نہ کرنا اور جب ان کی چھاؤنی اور قیام کی جگہ پہونچنا تو ان کی پردہ دری نہ کرنا اور کسی کے گھر میں بغیرمیری اجازت کے داخل نہ ہونا اور دشمنوں کے مال میں سے کوئی چیز نہ لینا ، مگر جو چیز تمہیں میدان جنگ میں ملے، عورتوں کو اذیت نہ دینا چاہے تمہیں جتنا بھی برا بھلا کہیں اور تمہارے افسروں کو گالیاں دیں کیونکہ وہ عقل وقدرت کے اعتبار سے کمزور ہیں ، وہ مشرک تھیں تو ہمیں حکم تھا کہ ان کی طرف ہاتھ نہ بڑھائیں اور جاہلیت کے زمانے میں اگر کوئی شخص کسی عورت پر عصا یا لوہے سے حملہ کرتاتھا تو یہ ایک ایسی توہین تھی کہ بعد میں اس کی اولادوں کی مذمت کی جاتی تھی''۔

امیر المومنین علیہ السلام نے جنگ ''جمل'' جنگ '' صفین '' اور جنگ ''نہروان''میں اپنے سپاہیوں کو

______________________

(۱)وقعہ صفین ص ۲۰۴،۲۰۳۔تاریخ طبری ج۳ جزئ۶ ص ۶۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص۱۴۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص۲۶ ۔

۵۷۷

درج ذیل چیزوں کی سفارش کی :'' عباداللّٰه اتقواللّٰه عزّوجلَّ ، غُضواالابصار وأخفضوا الاصوات وأقلّوأ الکلام و وَطّنوا أنفسکم علی المنازلة والمجادلةِ والمبارزةِ والمعانقةِ والمکاء مةِ واثبتوا واذکروا اللّٰه کثیراً لعلّکم تفلحون ولا تنازعوا فتفشلوا وتذهبَ ریحُکُم وأصبروا ان اللّٰه مع الصابرین'' (۱)

'' اے خدا کے بندو ، خدا کے قوانین کی مخالفت کرنے سے بچو ، اپنی آنکھوں کو نیچے کرو، اور

اپنی آوازوں کو کم کرو اور کم سخن بنو، اور اپنے کو جنگ اور دشمن سے دفاع اور اس سے مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ رکھو ثابت قدم اور مستحکم رہو اور خدا کا ذکر کرو تاکہ کامیاب ہوجاؤ ، اختلاف اور تفرقہ سے پرہیز کرو تاکہ سستی تم کو نہ گھیرے اور تمہاری عظمت وجلالت لوگوں کے درمیان سے ختم نہ ہو صبر کرو کیونکہ خداوند عالم صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے''۔

جی ہاں، امام علیہ السلام کی گفتگو ختم ہوئی اور آپ اپنے گیارہ فوجی سرداروں کے ساتھ دشمن کے سامنے کھڑے ہوئے امام علیہ السلام کی فوج کی صفیں اس طرح سے ترتیب دی گئی تھیں کہ قبیلہ کے لوگ جس میں سے کچھ عراق اور کچھ شام کے رہنے والے تھے میدان جنگ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے، ابتداء میں جنگ کی آگ زیادہ شعلہ ور نہ تھی اور طرفین کو صلح اور جنگ بندی کی امید تھی ، سپاہیوں نے ظہر تک جنگ کی پھر حملہ کرنا چھوڑدیا لیکن پھر جنگ نے شدت پکڑ لی اور صبح سے رات تک بلکہ رات کے کچھ حصہ تک جنگ جاری رہتی(۲) ۔

فوجی صف بندی

۱ / صفر کو امام علیہ السلام کے لشکر سے مالک اشتر اور معاویہ کے لشکر سے حبیب بن مسلمہ اپنے دستے لے کر میدان جنگ میں آئے ، دن کے کچھ حصّوں میں جنگ ہوئی دونوں طرف کے لوگ مارے گئے پھر جنگ رک گئی اور دونوں اپنی اپنی قیامگاہ میں واپس آگئے(۳) ۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۲۰۴،۲۰۳۔تاریخ طبری ج۳، جزئ۶ ص ۶۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص۱۴۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص۲۶

(۲)،(۳)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص۳۰۔مروج الذھب ج ۲ص ۳۸۸،۳۸۷۔وقعہ صفین ص۲۱۵،۲۱۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص۳۰،۲۷

۵۷۸

دوسرے دن امام کے لشکر سے ہاشم بن عتبہ سواروں اور پیادوں کے ساتھ اور معاویہ کے لشکر سے ابوالاعور سلی اپنے سواروں اور پیادوں کے ساتھ میدان میں آئے اور سواروںنے سواروں سے اور پیادوں نے پیادوں سے جنگ کی۔(۱)

تیسرے دن امام کے لشکر سے عمار اور معاویہ کے لشکر سے عمرو عاص اپنے اپنے دستوں کے ساتھ میدان جنگ میں آئے اور دونوں کے درمیان بہت زبردست جنگ ہوئی۔(۲)

عمار نے شام کے لشکر کے سامنے جاکر بلند آواز سے کہا: کیا تم اس شخص کو پہچاننا چاہتے ہو جس نے خدا اور پیغمبر(ص)سے دشمنی اور عداوت کی اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کیا ہے اور مشرکوں کی پشت پناہی کی ہے؟ جب کہ خدا نے چاہا کہ اپنے دین کو ظاہر و آشکار کرے اور اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کرے تو اس نے فوراً ڈر اور خوف کی وجہ سے (نہ اپنی مرضی و خواہش سے) اپنے کو مسلمان ظاہر کیا اور جب پیغمبر اسلام(ص) اس دنیا سے چلے گئے تو وہ مسلمانوں کا دشمن اور ظالموں کا دوست ہوگیا۔ اے لوگو آگاہ ہوجاؤ کہ یہ شخص وہی معاویہ ہے اس پر لعنت بھیجو اور اسکے ساتھ جنگ کرنے کے لئے تیار ہوجاؤ وہ ایسا شخص ہے جو چاہتا ہے کہ خدا کے نور کو خاموش کردے اور خدا کے دشمنوں کی مدد کرے۔(۳)

ایک شخص نے عمار سے کہا کہ رسول اسلام(ص)نے فرمایا ہے کہ لوگوں کے ساتھ جنگ کرو تاکہ لوگ اسلام قبول کریں اور جب لوگ اسلام قبول کرلیں گے تو ان کے جان و مال محفوظ ہوجائیں گے۔

عمار نے اس کلام کی تصدیق کی اور کہا بنی امیہ نے شروع سے ہی اسلام قبول نہیں کیا تھا بلکہ صرف اسلام لانے کا ڈھونگ کررہے تھے، اور اپنے اندر کفر کو چھپائے تھے یہاں تک کہ انکے کفر نے اپنا دوست واحباب بنالیا۔(۴)

عمار نے اتنا کہنے کے بعد اپنے سواروں کے سپہ سالار کو حکم دیا کہ شامیوں کے سوار وںپر حملہ کرے اس نے حملہ کرنے کا حکم دیا لیکن شامی ان کے مقابلے میں جمے رہے اس وقت پیادوں کے افسر کو حملہ کرنے

_______________________________

(۱)،(۲)،(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۴ص۳۰۔ مروج الذہب ج۲ص۳۸۸۔۳۸۷ ۔ وقعہ صفین ص ۲۱۵۔۲۱۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۴ص۳۰۔۳۲۷۔

(۴) وقعہ صفین ص ۲۱۶۔۲۱۵ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۴ص۳۱ ۔تاریخ طبری جزء ۶ص۷

۵۷۹

کا حکم دیا چنانچہ اس نے حملہ کرنے کا دستور دیا اور امام علیہ السلام کے سپاہیوں نے ایک ہی حملے میں دشمن کی صفوں کو تہ بالاکردیا عمروعاص اپنی جگہ چھوڑکر صفوں میں روپوش ہوگیا۔

عمرو عاص ، نے ایسا حربہ استعمال کیا جو عمار استعمال کر چکے تھے، عما ر نے بنی امیہ کی فوج اور ان کے سرداروں کو کافر بتا کر دشمن کی صف میں ہلچل مچا دی تھی، اسی کے مقابلے میں عمر و عاص نے بھی ایک کالا کپڑا نیزے پر بلند کیا اور کہا کہ یہ وہی پرچم ہے جو پیغمبر اسلام نے ایک دن اس کے حوالے کیا تھا، جسے دیکھ کر لوگوں کی آنکھیں حیرت زدہ ہوگئیں اور سرگوشیاں شروع ہو گئیں، امام علیہ السلام فتنے کو روکنے کے لئے اپنے دوستوں کے پاس گئے اور کہا ! کیا تم لوگ جانتے ہو کہ اس پرچم کی کیا کہانی ہے؟ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک دن اس پرچم کو باہر لائے اور فوج اسلام کی طرف مخاطب ہوکر کہا: کون ہے جو اس کو اٹھائے اور اس کا حق ادا کرے؟عمروعاص نے کہا: کس طرح اس کا حق ادا ہوگا؟ پیغمبر اسلام(ص)نے فرمایا: مسلمانوں سے جنگ نہ کرے اور کافر کے مقابلے سے نہ بھاگے مگر اس کا اس نے یوں حق ادا کیا کہ کافروں سے بھاگا اور آج مسلمانوں کے ساتھ جنگ کررہا ہے۔

اس خدا کی قسم جس نے بیج کو شگافتہ کیا اور انسان کو پیدا کیا اس گروہ نے صدق دل سے اسلام

قبول نہیں کیا ہے بلکہ صرف اسلام کا تظاہر کیا ہے اور اپنے کفر کو چھپالیا ہے اور جب ان کے دوست و احباب مل گئے تو اپنے کفر کو ظاہر کردیا اور اپنی دشمنی پر واپس آگئے ۔اورصرف نماز کو ظاہراً ترک نہیں کیا(۱)

چوتھے دن محمد حنیفہ اپنے لشکر کے ساتھ میدان میں آئے اور معاویہ کی فوج سے عبید اللہ بن عمراپنی فوج لے کر میدان میں آیا جنگ کے شعلے بھڑکے اور پھر دونوں فوجوں کے درمیان زبردست لڑائی ہوئی(۲) عبید اللہ نے محمد حنیفہ کے پاس پیغام بھیجوایا کہ اب ہم دونوں جنگ کرنے کے لئے میدان میں آئیں محمد بن حنفیہ میدان کی طرف بڑھے تاکہ ان کے ایک ایک فرد سے جنگ کریں ، امام علیہ السلام کو اس کی خبر ملی اور فوراً گھوڑے کو اپنے بیٹے کی طرف دوڑایا اور ان کو جنگ کرنے سے منع کیا اورپھر خود عبید اللہ کی طرف بڑھے اور کہاتو آگے بڑھ میں تم سے جنگ کروں گا، عبید اللہ یہ سن کر کانپنے لگا اور کہا: مجھے تمھارے ساتھ جنگ

______________________

(۱) وقعہ صفین ص ۲۱۶۔۲۱۵۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۴ص۱ ۳۔ تاریخ طبری ج ۳ جزئ۶ ص۷

(۲)مروج الذہب ج ۲ ص۳۸۸

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809