فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)4%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362321 / ڈاؤنلوڈ: 6025
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

عراق وشام کے قاریوں کا اجتماع

صدر اسلام میں قاریان قرآن کا ایک خاص مقام تھا ان کا کسی طرف ہوناتمام مسلمانوں کا ان لوگوں کی طرف متوجہ ہونے کا سبب بنتا تھا،ایسے حالات میں جب کہ صلح وآشتی کی کوئی امید نہ تھی عراق وشام

کے قاری جن کی تعداد ۳۰ ہزار کے قریب تھی ایک خاص جگہ پر جمع ہوئے اور ان کے نمائندے مثلاً عبیدہ سلمانی ، علقمہ بن قیس ،عبداللہ بن عتبہ وعامر بن عبد القیس وغیرہ دونوں فوج کے سرداروں کے پاس کئی مرتبہ آئے گئے سب سے پہلے معاویہ کے پاس گئے اور اس سے گفتگو کی جو درج ذیل ہے :

نمائندے: تم کیا چاہتے ہو؟

معاویہ : عثمان کے خون کا بدلہ چاہتاہوں۔

نمائندے: کس سے بدلہ لو گے؟

معاویہ : علی سے۔

نمائندے : کیا علی نے ان کو قتل کیاہے؟

معاویہ : ہاں علی نے قتل کیاہے اور ان کے قاتلوں کو پناہ دی ہے۔

پھر وہ نمائندے امام علی علیہ السلام کی خدمت میں آئے او ر کہا کہ معاویہ آپ پر عثمان کے قتل کا الزام لگارہا ہے۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی قسم وہ جھوٹا ہے میں نے ہرگز اسے قتل نہیں کیا ہے۔

نمائندے پھر معاویہ کے پاس گئے اور امام علیہ السلام کی باتیں اسے بتائیں ۔

معاویہ : براہ راست وہ قتل میں شریک نہ تھے لیکن تھا اور لوگوں کو ان کے قتل پر ابھارا ہے ۔

امام علیہ السلام نے،معاویہ کی باتیںجاننے کے بعددوبارہ خلیفہ کے قتل میںہرطرح کی مداخلت کرنے سے انکار کیا۔

معاویہ نے امام علیہ السلام کے انکار کو دیکھ کر دوسری بات کہی، کہ اگر ایسا ہے تو عثمان کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کریں یا ہمیں اجازت دیں کہ ہم خود انہیں گرفتار کریں۔

۵۶۱

امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ایک ایسا قتل ، جو عمداً نہیں تھالہذا اس کا قصاص نہیں ہے کیونکہ ان کے قاتلوں نے قرآن سے ان کے قتل کے جائز ہونے پر دلیلیں پیش کی ہیں اور اس کی تاویل کی ہے اور ان کے اور خلیفہ کے درمیان اختلاف ہوگیا اورخلیفہ تمام قدرت کے باوجود قتل ہوگیا(اور بالفرض کہ یہ عمل صحیح نہیں تھا توبھی ایسا قتل ، قابل قصاص نہیں ہے)۔

جس وقت امام کے نمائندوں نے حضرت کے فقہی استدلال کو ( جوباب قضاء کے اصول میں سے ہے ) معاویہ کے سامنے نقل کیا اور اس نے اپنے کو شکست خوردہ دیکھا تو پھر اپنی گفتگو کو دوسرے طریقے سے شروع کیا اور کہا کیوں علی نے خلافت کو بغیر ہمارے اور جو لوگ یہاں ہیں کے مشورے کے اپنے لئے انتخاب کیا اور ہمیں اس سے محروم کیا؟

امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: لوگ مہاجر وانصار کے پیرو ہیں اور وہ دوسرے شہروں میں رہنے والے مسلمانوں کے ترجمان ہیں، ان لوگوں نے اپنی مرضی و آزادی اور صدق دل سے میری بیعت کی ہے اور میں ہرگز معاویہ جیسے لوگوں کو اجازت نہیں دوںگا کہ وہ امت مسلمہ پر حکومت کرے اور لوگوں پر ہمیشہ مسلط رہے اور ان کی کمر توڑدے(۱)

معاویہ : تمام مہاجر وانصار مدینہ میں نہ تھے بلکہ ان میں سے کچھ شام میں رہتے تھے کیوں ان سے مشورہ نہیں کیا گیا؟

امام : امام کا انتخاب تمام مہاجرین و انصار جو پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں سے مربوط نہیں ہے، ورنہ انتخاب ہوہی نہیں سکتا بلکہ ان میں سے کچھ ہی لوگوں پر منحصر ہے یعنی ان لوگوں پر جنہوں نے صدر اسلام میں اپنی بہادری کا ثبوت پیش کیاہے اور '' بدری (جنگ بدر) '' کے نام سے مشہور ہیں اور ان تمام لوگوں نے میرے ہاتھ پہ بیعت کی ہے پھر آپ نے تمام قاریوں کی طرف رخ کرکے کہا: معاویہ تم لوگوں کو دھوکہ نہ دے اور تمہارے دین وجان کو تباہ نہ کردے۔

وضاحت : پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد حکومت اسلامی کے پھیلنے کی وجہ سے مہاجرین وانصار مختلف اسلامی ملکوں میں سکونت پذیر ہوگئے تھے اور اس زمانے میں کوئی ایسا وسیلہ نہ تھا جس کے ذریعے سب کو جمع کیا جاتا اور سب سے رائے ومشورہ لیا جاتا ، جس کے نتیجے میں حکومت کے نظام میں خلل واقع ہونے کے علاوہ کچھ نہ ہوتا، اسی وجہ سے کوئی اور صورت نہ تھی مگر یہ کہ مہاجرین وانصار کی اکثریت جو مدینہ میں سکونت پزیر تھی ان

_______________________________

(۱)اس سلسلے میں امام علیہ السلام کی بہت عمدہ تعبیر ہے''انماالناس تبع المهاجرین والانصار وهم شهود المسلمین فی البلاد علیٰ ولایتهم وأمردینهم فرضوا بی و بایعونی ولست أستحِلّ أن ادع ضرب معاویة یحکم علیٰ الامة ویرکبهم ویشقّ عصاهم '' وقعہ صفین ص ۱۸۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص ۱۶۔

۵۶۲

پر اکتفاء کیا جاتا، اصولی طور پر صحیح نہ تھا کہ صرف مہاجرین وانصار کی رائے نافذ ہو، اور اگر تمام لوگوں سے مشورہ لینا ممکن ہوتاتو ان میں اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے صحابہ میں جنہوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرایمان لائے تھے لیکن ہجرت نہیں کی تھی کوئی فرق نہیں تھا ، تو پھر کس بنیاد پر خلیفہ کا انتخاب صحابہ کے اختیار میں ہوا اور دوسرے مسلمان اس مسئلہ میں اپنا نظریہ پیش کرنے کا حق نہیں رکھتے؟

اصل میں مسئلہ امامت، امام علیہ السلام کی نظر میں ایک تنصیصی ( نصّی ) مسئلہ تھا یعنی ضروری ہے کہ امام بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح خدا کی طرف سے معین ہو لہٰذا اگر اس مسئلہ میں امام علیہ السلام مہاجرین و انصار یا '' اصحاب بدر '' کے انتخاب کرنے کے متعلق کوئی بات کررہے ہیں تو یہ لوگوں کو قانع کرنے کے لئے اپنی حجت تمام کررہے تھے، انتخاب کے ذریعے امامت کو اختیار کرنے کے مسئلے کا جب کبھی تجزیہ کیا جائے گا تو ہرگز اس زمانے کے تمام مہاجرین و انصار یا تمام صحابہ یا تمام مسلمان کی رائے کو مورد بحث قرار نہیں دیا جا سکتاکیونکہ اس زمانہ میں لوگوں کے ایک دوسرے سے رابطے کے ذرائع بہت کم تھے اور مہینوں گزر تے تھے جب قاصد ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں پہونچتا تھا، اسی وجہ سے کوئی اور صورت نہ تھی مگر یہ کہ اسلام کی بزرگ وعظیم شخصیتوں یا امام علیہ السلام کی تعبیر کے مطابق '' اصحاب بدر'' پر اکتفاء کیا جاتا۔

ابتدائی جھڑپیں

ربیع الثانی، جمادی الاول اورجمادی الثانی کے مہینے صرف نمائندے اور پیغامات بھیجنے میں گزر گئے اور اس درمیان بہت سی جھڑپیں ہوئیں ( جن کی تعداد ۸۵ لکھی گئی ہے ) لیکن یہ جھڑپیں جنگ وجدال کا سبب نہیں بنیں، کیونکہ عراق وشام کے قاری اس درمیان میں واسطہ بنے تھے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا کررہے تھے(۱)

______________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۹۰۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص ۱۸۔۱۷

۵۶۳

ابو امامہ و ابو الدرداء :

یہ دونوں بزرگ صحابی جنگ وجدال کو روکنے کے لئے معاویہ کے پاس گئے اور اس سے کہا: کیوں علی سے جنگ کررہے ہو؟ معاویہ نے اپنے اسی پرانے جواب کو جو اس نے کئی مرتبہ امام علیہ السلام اور آپ

کے نمائندوں کو دیا تھا دہرایا اور دونوں صحابیوں نے امام کے پاس آکر اس کا جواب سنایا ، امام علیہ السلام نے اس مرتبہ معاویہ کا جواب دوسرے انداز سے دیا اور وہ یہ کہ اپنے سپاہیوں کے درمیان یہ بات نشر کردی کہ معاویہ خلیفہ کے قاتلوں کا طلبگارہے، اچانک ۲۰ ہزار آدمی اسلحے سے لیس ہو کر اور وہ بھی اس طرح کہ ان کی آنکھوں کے علاوہ ان کے بدن کا کوئی حصہ دکھائی نہیں دے رہا تھا باہر آئے اور سب نے یہ کہا کہ ہم خلیفہ کے قاتل ہیں(۱) ۔

جب ان دونوں بوڑھے صحابیوں نے یہ منظر دیکھا تو انہوں نے دونوں گروہوں کو چھوڑ دیا تاکہ جنگ کے عینی شاہد نہ بنیں جب کہ ان لوگوں کے لئے بہتر تھا کہ حق کی تلاش کرتے اور اس کی حمایت کرتے، رجب ۳۶ کا مہینہ آپہونچا اور چھٹ پٹ حملے رک گئے ، معاویہ کو اس بات کو خوف تھا کہ قاریان قرآن جو دونوں فوج کے درمیان پڑاؤ ڈالے تھے علی کے لشکر سے نہ مل جائیں ، لہٰذا امام علیہ السلام کی چھاؤنی کو درہم برہم کرنے کے لئے اس نے چال چلی ، جس کی مثال اسلام کی جنگوں کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۹۰۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص ۱۸۔۱۷

۵۶۴

معاویہ کی طرف سے بند توڑنے کی افواہ

فرات کے گھاٹ پر قبضہ کرنے کے بعد جنگ کا نقشہ امام کے لشکر کے حق میں ہو گیا اسی طرح عراق وشام کے قاریان قرآن جو امام کی خدمت میں تھے ،امام کی منطقی اور عقلی گفتگو سن کر ان میں سے اکثر شامی قاری بھی آپ کی فوج میں داخل ہوگئے اور ان میں سے کچھ نے کنارہ کشی اختیار کرلی ، معاویہ نے اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ امام کا اخلاق سب پر حاوی ہوجائے، ایک چال چلی تاکہ جنگ کواپنے فائدے میں بدل دے۔

امام علیہ السلام کی فوج کی چھاؤنی صفین کے ڈھلان پر تھی اورمعاویہ کی چھاؤنی بلندی پر تھی، میدان کے کنارے ایک بند تھا جس سے فرات کا پانی روکا گیا تھا اچانک امام کے لشکر میں ایک دوسرے سے یہ خبر پھیل گئی کہ معاویہ چاہتا ہے کہ فرات کے بند کو توڑ کرپانی عراقیوں کی کی طرف بہادے، اس خبر کو

پھیلانے کا طریقہ یہ تھا کہ معاویہ کے حکم سے خفیہ طور پر ایک تیر امام کے لشکر کی طرف پھینکاگیا جس میں ایک خط تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ ، یہ خط خدا کے ایک نیک بندے کی طرف سے ہے، میری عرض ہے کہ معاویہ چاہتاہے کہ فرات پر بنے ہوئے بند کو توڑ دے تاکہ تم لوگوں کو غرق کردے جتنی جلدی ممکن ہو کوئی فیصلہ کرو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو۔

یہ خط امام علیہ السلام کے ایک فوجی کے ہاتھ میں پڑا اس سے دوسروں کے ہاتھ میں جاتارہا یہاں تک کہ پوری چھاؤنی میں یہ خبر پھیل گئی اور شاید سب نے اس خط کو صحیح مان لیا اور جس وقت یہ خبر پھیلی اسی وقت عراق کے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے دوسو آدمیوں کو پھاوڑا ، نیزہ وغیرہ دیکر فرات کے گھاٹ پر بھیجا تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ واقعاً وہ بند توڑنا چاہتاہے۔

امام علیہ السلام، معاویہ کے مکروحیلہ سے واقف تھے لہٰذا اپنی فوج کے سپہ سالاروں سے فرمایا: معاویہ بندتوڑنے کی طاقت نہیں رکھتا، وہ تم لوگوں کو اپنے اس مکر وحیلہ سے مرعوب کرنا چاہتا ہے تاکہ تم لوگ اپنا قبضہ چھوڑ دو اور وہ دوبارہ فرات کو اپنے قبضہ میں لے لے۔

۵۶۵

سپہ سالاروں نے کہا: ایسا نہیں ہے بلکہ وہ واقعاً توڑناچاہتاہے اور اس وقت کچھ لوگ بند کو توڑنے میں مصروف ہیں تاکہ پانی کا رخ ہم لوگوں کی طرف کر دیں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:اے عراقیو ، میری مخالفت نہ کرو۔

سپہ سالاروں نے کہا: خدا کی قسم ہم یہاں سے کوچ کریں گے اگر آپ رکنا چاہتے ہیں تو رک جائیں اس وقت سب چھاؤنی چھوڑکر چلے گئے اور ایک بلند جگہ پر پناہ لی ، امام علیہ السلام آخری فرد تھے جنہوں نے مجبوراً چھاؤنی چھوڑی ، لیکن زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ امام علیہ السلام کی بات صحیح ثابت ہوئی معاویہ نے بجلی کی تیز رفتاری سے امام علیہ السلام کی چھاؤنی پر قبضہ کرلیااور عراقی سپاہیوں کو حیرت میں ڈال دیا۔(۱)

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۱۹۱۔ ۱۹۰

۵۶۶

مخالفت کی تلافی

امام علیہ السلام نے اپنے مخالف سرداروں کو اپنے پاس بلایا اور ان لوگوں کی ملامت کی۔

اشعث بن قیس نے اپنی مخالفت کی عذر خواہی کی اور کہا کہ اس شکست کی تلافی کریں گے چنانچہ مالک اشتر کی مدد سے شدید جنگ کرکے معاویہ کی فوج کو قبضہ کی ہوئی سرزمین سے تین فرسخ دور کردیا اور اس طرح اپنی مخالفت کے ذریعے ہوئی شکست کی تلافی کردی اور میدان پھر امام علیہ السلام کے قبضے میں آگیا اور پھر فرات کے پانی پر امام علیہ السلام کے سپاہیوں کا قبضہ ہوگیا۔

مگر اس وقت امام علیہ السلام نے اپنی کرامت وشجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً ہی معاویہ کے پاس پیغام بھیجا :''انا لانکافیک بصنعِک ، هلُمّ الی الماء فنحن وأنتم فیه سوائ '' میں تمہارے جیسا کام ہرگز نہیں کرسکتا ، اس پانی کی طرف آؤ ہم اور تم اس آسمانی نعمت میں برابر ہیں ۔اس وقت اپنی فوج کی طر ف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ہمارا مقصد پانی پر قبضہ کرنے سے زیادہ بزرگ ہے ۔(۱)

ماہ رجب ۳۶ ہجری سے ذی الحجہ تک جنگی جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا اور دونوں فوجوں نے لاشوں کو ایک دوسرے کے حوالے اس خوف سے نہیں کیا کہ کہیں ایسا نہ ہوا کہ فوج حملہ کر بیٹھے لیکن ذی الحجہ میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے، امام علیہ السلام نے اس مہینے اپنے سپہ سالاروں مثلاً مالک اشتر، حجر بن عدی ، شبث تمیمی ، خالد دوسی ، زیاد بن نضر ، زیاد بن جعفر، سعید ہمدانی ، معقل بن قیس اور قیس بن سعد کو ان کے دستوں کے ہمراہ میدان میں روانہ کیا(۲) تمام سپہ سالاروں کے درمیان مالک اشتر سب سے نمایاں نظر آرہے تھے کبھی کبھی دن میں دو حملے ہوتے اور دونوں طرف کے لوگ مارے جاتے ، جس وقت محرم ۳۷ ہجری کا چاند فلک پر نمودارہوا دونوں فوجوں نے کہا کہ محرم الحرام کے احترام میں جنگ بند ہونا چاہیے اور نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں طرف سے نمائندے گفتگو کے لئے آنے لگے۔(۳)

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۱۶۵

(۲)تاریخ طبری ج۳ جزئ۵ ص ۲۴۳۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص۱۴۶

(۳)وقعہ صفین ص ۱۶۵

۵۶۷

۳۷ ہجری کے حادثات

محرام الحرام ۳۷ ہجری کا مہینہ ، پیغام اور نمائندے بھیجنے کا مہینہ تھا۔

امام علیہ السلام نے اس مہینے میں اہم شخصیتوں مثلاً عدی بن حاتم ، شِبث بن ربعی، یزید بن

قیس اور زیاد بن حفصہ کو معاویہ کے پاس بھیجا تاکہ شاید اس مدت میں اسے دوبارہ جنگ کرنے کے ارادے سے روک سکیں ، معاویہ اور ان لوگوں کے درمیان ہوئی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے:

عَدی بن حاتم : ہم اس لئے آئے ہیں کہ تمہیں ایسی چیز کی دعوت دیں جس کے ذریعے سے خداوند عالم ہماری امت کو متحد کردے گا اور مسلمانوں کا خون بہنے سے بچ جائے گا اور ہم تجھے اسلام کے فاضل اور اچھے فرد کی طرف دعوت دیتے ہیں ، لوگ اس کے پاس جمع ہوئے اور خداوندعالم نے اس کی ہدایت وراہنمائی کی اور کسی نے بھی اس کی بیعت کرنے سے انکار نہیں کیا مگر صرف تم نے اور جولوگ تمہارے ساتھ ہیں، ہم لوگوں کی تم سے التجا ہے کہ اس نافرمانی اور طغیانی سے بازآجا، اس سے پہلے کہ جنگ جمل جیسے حالات میں مبتلا ہو۔

معاویہ : تم لوگ مجھے دھمکی دینے اور مرعوب کرنے آئے ہو نہ کہ میری اصلاح کرنے! جو تم چاہتے ہو وہ بہت دور ہے میںحرب کا بیٹا ہوں اور کبھی بھی خالی مشکوں کو پیٹنے سے نہیں ڈرتا ( عرب اونٹوں کو بھگانے کے لئے خالی مشکوں کو پیٹتے تھے) خدا کی قسم ! تو ان لوگوں میں سے ہے جس نے عثمان کے قتل کرنے پر لوگوں کو ابھارا تھا اور تو خود ان کے قاتلوں میں سے ہے ، افسوس اے عدی، میں نے اُسے مضبوط ہاتھوں سے پکڑاہے۔

۵۶۸

شبث بن ربعی وزیاد بن حفصہ:ہم صلح کرنے کے لئے تمہارے پاس آئے ہیں اور تو(ادب کو بالائے طاق رکھ کر) ہم لوگوں کے لئے قصہ بیان کررہا ہے بیہودہ باتوں کو چھوڑ دے اور ایسی باتیں کر جو ہمارے اور تمہارے دونوں کے لئے مفیدہو ں۔

یزید بن قیس: ہم پیغام پہونچانے اور پیغام لے جانے کے لئے آئے ہیں اور ہرگز موعظہ ونصیحت اور دلیل اور ایسے مسائل جو اتحاد واتفاق کے لئے سرمایہ ہیں چھوڑ نہیں سکتے، تم ہمارے امام کو پہچانتے ہوا ور مسلمان بھی انہیں پہچانتے ہیں کہ وہ کتنے عظیم و برتر ہیںاور یہ بات ہرگز تم سے پوشیدہ نہیں ہے اور متقی وپرہیز گار اور بافضیلت لوگ تجھے علی کے برابر شمار نہیں کرتے ، خدا سے خوف کر اور علی کی مخالفت نہ کر، کہ خدا کی قسم کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو علی سے زیادہ متقی وپرہیز گارہو اور علی جیسا تمام فضیلتوں کا مظہر ہو۔

معاویہ : تم لوگوںنے مجھے دو چیزوں کی دعوت دی ہے ، علی کی اطاعت اور اتحاد ، میں دوسرے کو قبول کروں گا لیکن ہرگز میں علی کی اطاعت نہیں کرسکتا ،تمہارے رہبر وحاکم نے ہمارے خلیفہ کو قتل کیا اور امت کو دو گروہوں میں تقسیم کردیا اور خلیفہ کے قاتلوں کو پناہ دیا ہے، اگر ان کا کہنا ہے کہ میں نے خلیفہ کو قتل نہیں کیا ہے تو میں بھی ان کی اس بات کو رد نہیں کروں گا لیکن کیا وہ انکار کرسکتے ہیں کہ خلیفہ کے قاتل ان کے دوست نہیں ہیں؟ وہ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کردیں تاکہ میں ان سے بدلہ لے سکوں اس وقت میں اطاعت اور وحدت کے بارے میں تمہارا جواب دوں گا۔(۱)

______________________

(۱)تاریخ طبری ج۳ جزئ۵ ص ۳۔۲۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص۱۴۷۔وقعہ صفین ص ۱۹۶،۱۹۸۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص۲۲۔۲۱

۵۶۹

معاویہ کے جواب کی وضاحت

معاویہ اپنے احتجاجات میں ایک نظریہ پر قائم نہیں تھا،حالات کو دیکھ کر باتیں کرتا تھا۔کبھی امام علیہ السلام پر قتل کا الزام رکھتااور کسی صورت میں بھی اس سے انکار نہیں کرتالیکن اس گفتگو میں حضرت کو خون عثمان سے بری رکھا مگر یہی مسلسل کہتا رہا کہ امام نے خلیفہ کے قاتلوں کو اپنے پاس رکھا ہے جب کہ وہ اس طرح کا دعویٰ کرنے کا حق نہیں رکھتا تھا کیونکہ نہ تو وہ خلیفہ کا وارث تھا اور نہ مسلمانوں کا حاکم ، قاتلوں کو بار بار اپنے اختیار میں لینے کا اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ امام علیہ السلام کی فوج کے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے ، وہ جانتاتھا کہ عراق ومصر وحجاز کے انقلابی لوگ خلیفہ کے حاکموں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن چکے تھے اور عثمان کے قتل کے بعد بہت زیادہ اصرار کرکے امام کے ہاتھوں پر بیعت کی ۔ یہی لوگ خلیفہ کے قاتل ہیں ( چاہے ان لوگوں نے خودقتل کیا ہے یا کسی کے ذریعے قتل کرایا ہے یا تبلیغ اور اپنی مرضی کے اظہار اور خوشحالی کے لئے اس قتل میں شامل رہے ہیں)ایسے عظیم گروہ کاسپرد کرنا پہلے تو ممکن نہ تھا بلکہ صرف اور صرف نظام حکومت کو ختم کرنے یا شورش برپا کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

معاویہ نے اس گفتگو میں خلیفہ کے قاتلوں کی سپردگی کو مرکزی حکومت کی پیروی کرنے کے لئے

کافی سمجھا ،جب کہ دوسری جگہوں پر اس نے بہت اصرار کیا کہ ضروری ہے کہ حکومت مہاجرین و انصار کی شوریٰ جس کے افراد مختلف شہروں میں رہتے ہیں ان کی رائے ومشورہ سے طے ہو ،اس طرح کی ضدونقیض باتیں کرنا معاویہ کے ابن الوقت ہونے کی نشاندہی ہے۔

اب ہم معاویہ اور علی علیہ السلام کے نمائندوں کے درمیان ہوئی گفتگو کے سلسلہ میں بیان کر رہے ہیں۔

شبث بن ربعی : اے معاویہ ، تجھے خدا کی قسم، اگر عمار یاسر کو تیرے حوالے کریں تو کیا تو انہیں قتل کردے گا؟ ( عمار جس کے بارے میں پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایاہے ، اسے ظالم گروہ قتل کرے گا)

معاویہ : خدا کی قسم، اگر علی سمیہ کے بیٹے کو میرے حوالے کریں تو میں عثمان کے غلام نائل کے بدلے انہیں قتل کردوںگا ۔

شبث بن ربعی :آسمان کے خالق کی قسم ، تو نے عدالت سے کام نہ لیا اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تم ہرگز سمیہ کے بیٹے کو قتل نہیں کرسکتے مگر یہ کہ سروتن میں جدائی ہوجائے اور زمین اپنی پوری وسعت وکشادگی کے ساتھ تجھ پر تنگ ہوجائے۔

۵۷۰

معاویہ : اگر زمین مجھ پر تنگ ہوگی تو مجھ سے زیادہ تجھ پر تنگ ہوگی۔

یہاں امام علیہ السلام کے نمائندوں کی گفتگو ختم ہوگئی اور بغیر کسی نتیجے کے یاابوسفیان کے بیٹے کی فکر وتدبر پر کوئی اثر ہوتا نمائندے واپس آگئے ، معاویہ نے ان لوگوں میں سے زیاد بن حفصہ کو بلایا اور اس سے دوسرے انداز سے گفتگو کرنا چاہی وہ سوچ رہا تھا کہ شاید اس کے نظریہ اور فکر کو تبدیل کردے گا کیونکہ ان میں سے ہر ایک امام علیہ السلام کے چاہنے والوں میں سے بہت سے لوگوں کا نمایندہ تھا معاویہ نے اس سے کہا: علی نے قطع رحم کیاہے اور ہمارے امام کو قتل کرڈالا اور اس کے قاتلوں کو پناہ دیا ہے میں تجھ سے درخواست کرتاہوں کہ اپنے عزیزوں اور قبیلے والوں کے ساتھ میری مدد کرو اور میںتم سے عہد کرتاہوں کہ جنگ فتح کرنے کے بعد ان دو شہروں (کوفہ اور بصرہ) میں سے جس شہر کی حکومت چاہے گا تجھے دے دوں گا۔

زیاد بن حفصہ نے کہا: میں اس دلیل کی بنیاد پر جو خدا کی طرف سے میرے پاس ہے اور وہ نعمتیں جو مجھے نصیب ہوئی ہیں میں کبھی مجرموں کا محافظ ومددگار نہیں بن سکتا،یہ جملہ جو کہ موسیٰ بن عمران(۱) کی گفتگو کا سرچشمہ ہے کہا اور معاویہ کو چھوڑ کر (امام کی خدمت میں) واپس آگیا۔

اس بزم میں عمرو عاص بھی موجود تھا معاویہ نے اس بوڑھے سیاسی سے کہا ہم نے ان میں سے جس سے بھی گفتگو کی سب نے بہترین جواب دیا سب کا دل مثل ایک آدمی کے ہے اور سب کی منطق ایک طرح کی ہے۔(۲)

______________________

(۱)زیاد کے کلام کی عبارت یہ ہے ''اما بعد فانی علیٰ بیّنةٍ مِن رّبّی وبما أنعم علیَّ فلن اکون ظهیراً للمجرمین'' ۔

(۲)تاریخ طبری ج۳ جزئ۵ ص ۳۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص۱۴۸۔وقعہ صفین ص ۱۹۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص۲۲۔

۵۷۱

معاویہ کے نمائندے امام علیہ السلام کی خدمت میں

امام علیہ السلام کا بزرگ شخصیتوں کے بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ معاویہ اپنے ارادے کو بدل دے اور یہ مشکل گفتگو کے ذریعہ حل ہو جائے جب کہ معاویہ کا مقصد یہ تھا کہ جنگ میں تاخیر اور امام کے لشکر میں اختلاف اور انتشار ہوجائے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ علی (علیہ السلام) ہرگز اس جیسے لوگوںکے سامنے اپنے ارادے میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔

اس مرتبہ معاویہ نے تین آدمیوں '' حبیب، شرحبیل اور معن کو امام کے پاس بھیجا اور ان تینوں کی منطق وہی معاویہ کی منطق تھی ، گویا یہ لوگ معاویہ کی زبان تھے جو اس کی باتوں کو بغیر کسی کمی وزیادتی کے بیان کررہے تھے امام علیہ السلام اور ان تینوں کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ درج ذیل ہے۔

حبیب: عثمان ہدایت یافتہ خلیفہ تھااور آپ نے اس پر زیادتی کی اور اسے قتل کردیا اب اس وقت اس کے قاتلوں کو ہمارے حوالے کردیجیئے تاکہ ہم انہیں قتل کردیں اور اگر آپ کا کہنا یہ ہے کہ میں نے اسے قتل نہیں کیا ہے تو حکومت چھوڑدیجیئے اور اسے شوریٰ کے حوالے کردیجیئے تاکہ لوگ جس کو چاہیں منتخب کریں اور وہ حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لے۔

حبیب کی گفتگو بے اساس تھی ، سب سے پہلے بغیر کسی گواہ کے امام علیہ السلام پر قتل کا الزام لگایا اور اپنے کو خلیفہ کے حق کا دفاع کرنے والا ثابت کیا، اور پھر امام علیہ السلام کے انکار کو قبول کررہا ہے اور ان

سے چاہتا ہے کہ وہ حکومت کی ذمہ داری چھوڑ دیں ! یعنی اس پوری گفتگو کا مقصد اس کا آخری جملہ تھا لہٰذا مام علیہ السلام نے سخت انداز میں اس کو جواب دیا: ''وما أنت لااُمّ لَکَ والولایة والعزل والدخول فی هذا الأمر فانّک لستَ هناک ولاٰ بأهل لذالک ''تو حکومت سے دستبرداری کا مطالبہ کرنے والا کون ہوتا ہے ،جب کہ اس معاملہ میں دخل دینے کا تو اہل نہیں ہے۔

حبیب: خدا کی قسم ! جن حالات میں اپنے آپ کو دیکھا پسند نہیں کرتے ان میں اپنے کو ضرور دیکھیں گے۔

امام علیہ السلام : تیری کیا حقیقت ہے ! جا جتنے بھی سوار اور پیادہ ہیں لا، تو کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔

شرحبیل: میں بھی وہی بات کہنا چاہتا ہوں جو حبیب نے کہا ہے، کیا وہ جواب جو آپ نے اس کو دیا اس کے علاوہ کوئی جواب ہے جو مجھے دیں گے؟

۵۷۲

امام علیہ السلام : کیوں نہیں ، تمہارے لئے اور تمہارے دوست کے لئے دوسرا جواب بھی میرے پاس ہے، خداوند عالم نے پیغمبر کو چنا اور ان کے ذریعے سے لوگوں کو گمراہی سے نجات دی اور پھر انہیں اپنی بارگاہ میں بلالیا جب کہ آپ نے اپنی رسالت کو انجام دیا پھر لوگوں نے ابوبکر کو ان کی جانشینی کے لئے منتخب کیا اور ابوبکر نے بھی عمر کو اپنا جانشین بنایا۔۔ پھر عثمان نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور لوگ ان کاموں کی وجہ سے جو انہوں نے انجام دیئے تھے ان سے ناراض ہوئے اور اس کی طرف حملہ آور ہوئے اور انہیں قتل کرڈالا، پھر میرے پاس آئے جب کہ میں ان لوگوں کے کاموں سے دور تھا،ان لوگوں نے بہت زیادہ اصرار کیا کہ میرے ہاتھوں پر بیعت کریں ، میں نے شروع میں قبول نہیں کیا لیکن ان لوگوں نے حد سے زیادہ اصرار کیا اور کہا امت آپ کے علاوہ کسی پرراضی نہیں ہے اور ہمیں خوف ہے کہ اگر آپ کے ہاتھوں پر بیعت نہ کریں تو دوگروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے، تب میں نے ان لوگوں کی بیعت قبول کرلی ، طلحہ وزبیر نے بھی میرے ہاتھوں پر بیعت کی لیکن بعد میں بیعت توڑ دی، پھر معاویہ میری مخالفت میں اٹھا ، وہ ایسا شخص ہے جسے نہ دین میں کوئی سبقت ہے اور نہ صحیح اسلام ہی میں کوئی درجہ حاصل ہے وہ آزاد کردہ اور آزاد کردا کا بیٹا ہے وہ بنی امیہ کے گروہ سے ہے وہ اور اس کے باپ ہمیشہ خدا ورسول کے دشمن رہے ہیں اور مجبوراً اسلام قبول کیاہے مجھے تم پر تعجب ہے کہ تم اس کے لئے فوج اکھٹا کررہے ہو اور اس کی پیروی کررہے ہو اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان کو چھوڑدیا ہے اور اہل بیت رسول کے ہوتے ہوئے تم نے دوسروں کی محبت اپنے دل میں بسالی ہے ۔ میں تمہیں خدا کی کتاب اور رسول خدا (ص) کی سنت اور باطل مردہ اور دین کی تمام نشانیوں کو زندہ کرنے کی دعوت دیتاہوں ، اور اپنے اور تمام مومن مرد، عورت کے لئے طلب

۵۷۳

مغفرت کرتا ہوں(۱) ۔

اگر شرحبیل (تمیم کا زاہد نما) خواہشات نفسانی کا اسیر نہ ہوتا اور اسلام کی تاریخ سے کچھ آگاہی رکھتا تو ضرور امام علیہ السلام کی باتوں کو قبول کرتالیکن چونکہ امام علیہ السلام کی عقلی باتوں کے سامنے اس نے اپنے کو عاجز وناتواں سمجھا اور غلط فکر رکھنے والوں کی طرح امام کے قول کو دوسرے طریقے سے سوچا لہذا کہنے لگا: عثمان کے قتل کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیا آپ گواہی دیں گے کہ وہ مظلوم مارا گیاہے ؟ اس طرح کا سوال ایک پیغام لانے والے کی زمہ داری سے خارج تھا اور جلسہ کو درہم برہم کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا ہدف نہ تھا، اس واقعے کے فیصلہ کے لئے عثمان کے قتل کی علتوں کی تحقیق وجستجو کی ضرورت ہے لہٰذا امام علیہ السلام نے اس کی تصدیق نہیں کی اور وہ لوگ بھی اسی بہانہ سے امام کے پاس سے چلے گئے اور کہا: جو بھی عثمان کی مظلومیت کی گواہی نہیں دے گا ہم لوگ اس سے بیزار ہیں ۔

امام علیہ السلام نے ان لوگوں کو اس آیت کا مصداق قرار دیا۔

( انک لاتُسمعُ الموتیٰ ولا تُسمِعُ الصُّمَّ الدّعاء اذا ولّوا مُدْ بِرین وماأنت بِهادی العُمیِ عن ضَلالتهم اِن تُسمعُ الامَنْ یؤمنُ بأیاتنٰافهُم مسلمون ) (نمل ۸۱،۸۰)

'' بے شک نہ تم مردوں کو ( اپنی بات) سنا سکتے ہو اور نہ بہروں کو اپنی آواز سنا سکتے ہو

( خاص کر) جب وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں اور نہ تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے راہ پر لاسکتے ہو تم تو بس ان ہی لوگوں کو ( اپنی بات) سنا سکتے ہو جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں پھر وہی لوگ تو ماننے والے بھی ہیں ''۔

_______________________________

(۱)تاریخ طبری ج۳ جزئ۶ ص ۴۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص۱۴۸۱۴۹۔وقعہ صفین ص ۲۰۲،۲۰۰۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص۲۴،۲۲

۵۷۴

سترہویں فصل

جنگ صفین کا انجام

امام علیہ السلام مظہرصبر و استقامت تھے، آپ ابوسفیان کے بیٹے کی مخالفت کے مقابلے میں صلح کی ہر کوشش کی لیکن معاویہ کو ریاست طلبی نے اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ نمائندوں ، نصیحت کرنے والوں کے جانے کے بعد بھی بجائے اس کے کہ اس میں لوچ پیدا ہوتازیادہ سخت ہوگیا ، آخر کا ر امام علیہ السلام نے ارادہ کیاکہ مسلسل جنگ کریں اور اس سے زیادہ اپنا قیمتی وقت برباد نہ کریں اور اس کینسر کے جراثیم کو اسلامی معاشرہ سے ختم کریں۔

اسلامی معاشرے میں دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر اسلامی حکومت کسی گروہ کے ساتھ عہد ( بغیر کسی مزاحمت کے ) کرلے تو یہ عہد وپیمان محترم ہوتاہے مگر یہ کہ حاکم اسلامی کسی وجہ سے یہ احساس کرلے کہ ہمارا مقابل عہد وپیمان توڑدے گا اور خیانت کرے گا تو اس صورت میں وہ پہل کرسکتا ہے اور اپنے کئے ہوئے عہد وپیمان کو باطل قرار دے سکتا ہے اور جنگ کا آغاز کرسکتا ہے جیسا کہ قرآن مجید نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے، ارشاد قدرت ہے:( واِ مّا تخافَنّ من قومٍ خیانةً فانبذ الیهم علیٰ سوائٍ اِنّ الله لایحبّ الخائنین ) (انفال ۵۸)'' اور اگر تمہیں کسی قوم کی خیانت (عہد شکنی) کا خوف ہو تو تم بھی برابر ان کا عہد ان ہی کی طرف سے پھینک مارو (عہد شکن کے ساتھ عہد شکنی کرو)خداہرگز دغا بازوں کو دوست نہیں رکھتا''۔

اسلام کایہ قانون، اصول اخلاقی اور عدالت کی رعایت کی حکایت کرتا ہے اور اسلام تو یہاں تک اجازت نہیں دیتا کہ بغیر بتائے ہوئے دشمن پر حملہ کیا جائے ، اگرچہ اس کی رفتارو گفتار سے خیانت کی علامتیں ظاہر ہوں۔

امام علیہ السلام نے صفین میں اس سے بھی زیادہ رعایتیں کیں ، جب کہ آپ کے اور معاویہ کے درمیان جنگ نہ کرنے کا عہد وپیمان نہ تھا بلکہ صرف ماہ محرم کا احترام تھا اور یہی سبب بنا کہ طرفین نے جنگ سے ہاتھ روک لیا اور صفین کا میدان چند دنوں تک سکون میں رہا اس کے باوجود صرف اس لئے کہ شام کے لوگ کہیں یہ نہ سوچیں کہ جیسے ہی محرم کا مہینہ ختم ہونے کے بعد پھر جنگ شروع نہیں ہو گی ، آپ نے مرثد بن حارث کو حکم دیا کہ محرم کے آخری دن سورج ڈوبتے وقت شام کی فوج کے سامنے کھڑے ہو کر بلند آواز سے یہ اعلان کرے :

۵۷۵

'' اے اہل شام ! امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے تمہیں مہلت دی اور جنگ کا حکم دینے میں صبر سے کام لیا تاکہ حق کی طرف واپس آجاؤ اور تمہارے سامنے قرآن مجید سے دلیل پیش کی اور تم لوگوں کو اس کی طر ف دعوت دی لیکن تم لوگوں نے سرکشی سے دوری اختیار نہیں کی اور حق کو قبول نہیں کیا ایسی صورت میں ہم نے ہر طرح کے امن وامان کو قطع کر دیاہے بے شک خداوند عالم خائنوں کو دوست نہیں رکھتا''۔(۱)

مرثد کے ذریعہ امام علیہ السلام کا پیغام معاویہ کی فوج میں گونج گیا اور دونوں طرف کی فوج جوش میں آگئی اور دونوں گروہ اپنی اپنی فوجیں سنوارنے لگے اور سپہ سالار معین ہونے لگے امام علیہ السلام نے اپنی فوج کواس طرح ترتیب دیا:

سواروں پر عمار یاسر کو اور تمام پیادوں پر عبداللہ بن بدیل خزاعی کو افسر مقرر کیا اور پو رایت جنگ ہاشم بن عتبہ کے سپرد کیا پھر امام علیہ السلام نے فوج کو میمنہ اور میسرہ اور قلب لشکر میں تقسیم کیا یمنیوں کو فوج کی دا ہنی طرف اور ربیعہ قبیلے کے مختلف گروہ کو فوج کے بائیں طرف اور قبیلہ مُضر کے بہادروں کو جو اکثر کوفہ اور بصرہ کے تھے قلب لشکر میں معین کیا اور ان تینوں کوایک ایک کرکے سواروں اور پیادوں میں تقسیم کیا، میمنہ اور میسرہ کے سواروں کے لئے اشعث بن قیس اور عبداللہ بن عباس کو ، اور پیادہ میمنہ اور میسرہ کے لئے سلیمان بن صُرد اور حارث بن مرّہ کو معین فرمایا اور اس وقت ہرقبیلے کے پرچم کو ان کے سرداروں کے سپرد کیا، ابن مزاحم نے اپنی کتاب وقعہ صفین میں ۲۶ پرچم کا ذکر کیا ہے جو ہر قبیلہ کا تھا کہ تمام پرچم اٹھانے والوں اور ان کے قبیلے کا نام اگر تحریر کیا جائے تو بحث طولانی ہوجائے گی لہٰذا اس کے ذکر سے سے پرہیز کررہے ہیں(۲) معاویہ نے بھی اسی ترتیب سے اپنی فوج کو منظم کیا اور سپہ سالاروں اور پرچم اٹھانے والوں کو معین

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۲۰۳۔۲۰۲،تاریخ طبری ج۳جزئ۶ ص ۵۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص۱۴۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص۲۵۔مروج الذھب ج۲ ص ۳۸۷ ( تھوڑے فرق کے ساتھ)

(۲)وقعہ صفین ص ۲۰۵۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص۲۶۔۲۴

۵۷۶

کیاصبح جب سورج افق پر نظر آیا اور جنگ کا ہونا قطعی ہوگیاتو امام علیہ السلام اپنے سپاہیوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور بلندآواز سے فرمایا:''لا تقاتلوهم حتیٰ یبدؤوکم ، فانکم بحمد اللّٰه علی حجة وتَرکُکُم ایّاهم حتٰی یبدؤوکم حجّةأخری لکم علیهم فاذا قاتلتموهم فهزمتموهم فلاتقتلوا مدبراً ولاتجهروا علٰی جریحٍ ولا تکشفوا عورةً ولاتمثّلوا بقتیلٍ، فاذا وصلتم اِلٰی رِحالِ قومٍ فلاتهتکوا ستراً ولاتدخلوا داراًالّٰا باذنی ولا تأخذ وا شیئًا من اموالهم الا ما وجد تم فی عسکرهم ولاٰ تهبّجوا امراةً بأذیً وان شتمن أعراضکم وتنا ولنَ أمرائَ کُم وصُلحائَ کم فانهنّ ضعاف القویٰ والأنفس والعقولِ ولقد کنّٰا لنؤمِرُ بِالکفِّ عنهنَّ وانّهُنَّ لمشرکاتُ وان کان الرّجلُ لیتناولُ المرأة بالهراوةِ اوالحدیدِ فیعیرُ بِهٰاعقِبُهُ من بعدِهِ'' (۱)

'' جب تک وہ جنگ شروع نہ کریںتم ان سے نہ لڑنا ، خدا کا شکر کہ اس جنگ کے لئے تمہارے پاس حجت و دلیل ہے اور ان کو پہل کرنے کے لئے چھوڑ دینا ان پر دوسری حجت ہوگی اور جب ان لوگوں کو شکست دینا تو جو لوگ جنگ سے منہ موڑ کر بھاگیں ان کو قتل نہ کرنا، زخمیوں کو قتل نہ کرنا اور دشمن کو برہنہ نہ کرنا، ان کی لاشوں کو مُثلہ (ناک کان وغیرہ کاٹنا) نہ کرنا اور جب ان کی چھاؤنی اور قیام کی جگہ پہونچنا تو ان کی پردہ دری نہ کرنا اور کسی کے گھر میں بغیرمیری اجازت کے داخل نہ ہونا اور دشمنوں کے مال میں سے کوئی چیز نہ لینا ، مگر جو چیز تمہیں میدان جنگ میں ملے، عورتوں کو اذیت نہ دینا چاہے تمہیں جتنا بھی برا بھلا کہیں اور تمہارے افسروں کو گالیاں دیں کیونکہ وہ عقل وقدرت کے اعتبار سے کمزور ہیں ، وہ مشرک تھیں تو ہمیں حکم تھا کہ ان کی طرف ہاتھ نہ بڑھائیں اور جاہلیت کے زمانے میں اگر کوئی شخص کسی عورت پر عصا یا لوہے سے حملہ کرتاتھا تو یہ ایک ایسی توہین تھی کہ بعد میں اس کی اولادوں کی مذمت کی جاتی تھی''۔

امیر المومنین علیہ السلام نے جنگ ''جمل'' جنگ '' صفین '' اور جنگ ''نہروان''میں اپنے سپاہیوں کو

______________________

(۱)وقعہ صفین ص ۲۰۴،۲۰۳۔تاریخ طبری ج۳ جزئ۶ ص ۶۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص۱۴۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص۲۶ ۔

۵۷۷

درج ذیل چیزوں کی سفارش کی :'' عباداللّٰه اتقواللّٰه عزّوجلَّ ، غُضواالابصار وأخفضوا الاصوات وأقلّوأ الکلام و وَطّنوا أنفسکم علی المنازلة والمجادلةِ والمبارزةِ والمعانقةِ والمکاء مةِ واثبتوا واذکروا اللّٰه کثیراً لعلّکم تفلحون ولا تنازعوا فتفشلوا وتذهبَ ریحُکُم وأصبروا ان اللّٰه مع الصابرین'' (۱)

'' اے خدا کے بندو ، خدا کے قوانین کی مخالفت کرنے سے بچو ، اپنی آنکھوں کو نیچے کرو، اور

اپنی آوازوں کو کم کرو اور کم سخن بنو، اور اپنے کو جنگ اور دشمن سے دفاع اور اس سے مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ رکھو ثابت قدم اور مستحکم رہو اور خدا کا ذکر کرو تاکہ کامیاب ہوجاؤ ، اختلاف اور تفرقہ سے پرہیز کرو تاکہ سستی تم کو نہ گھیرے اور تمہاری عظمت وجلالت لوگوں کے درمیان سے ختم نہ ہو صبر کرو کیونکہ خداوند عالم صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے''۔

جی ہاں، امام علیہ السلام کی گفتگو ختم ہوئی اور آپ اپنے گیارہ فوجی سرداروں کے ساتھ دشمن کے سامنے کھڑے ہوئے امام علیہ السلام کی فوج کی صفیں اس طرح سے ترتیب دی گئی تھیں کہ قبیلہ کے لوگ جس میں سے کچھ عراق اور کچھ شام کے رہنے والے تھے میدان جنگ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے، ابتداء میں جنگ کی آگ زیادہ شعلہ ور نہ تھی اور طرفین کو صلح اور جنگ بندی کی امید تھی ، سپاہیوں نے ظہر تک جنگ کی پھر حملہ کرنا چھوڑدیا لیکن پھر جنگ نے شدت پکڑ لی اور صبح سے رات تک بلکہ رات کے کچھ حصہ تک جنگ جاری رہتی(۲) ۔

فوجی صف بندی

۱ / صفر کو امام علیہ السلام کے لشکر سے مالک اشتر اور معاویہ کے لشکر سے حبیب بن مسلمہ اپنے دستے لے کر میدان جنگ میں آئے ، دن کے کچھ حصّوں میں جنگ ہوئی دونوں طرف کے لوگ مارے گئے پھر جنگ رک گئی اور دونوں اپنی اپنی قیامگاہ میں واپس آگئے(۳) ۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۲۰۴،۲۰۳۔تاریخ طبری ج۳، جزئ۶ ص ۶۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص۱۴۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص۲۶

(۲)،(۳)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص۳۰۔مروج الذھب ج ۲ص ۳۸۸،۳۸۷۔وقعہ صفین ص۲۱۵،۲۱۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۴ ص۳۰،۲۷

۵۷۸

دوسرے دن امام کے لشکر سے ہاشم بن عتبہ سواروں اور پیادوں کے ساتھ اور معاویہ کے لشکر سے ابوالاعور سلی اپنے سواروں اور پیادوں کے ساتھ میدان میں آئے اور سواروںنے سواروں سے اور پیادوں نے پیادوں سے جنگ کی۔(۱)

تیسرے دن امام کے لشکر سے عمار اور معاویہ کے لشکر سے عمرو عاص اپنے اپنے دستوں کے ساتھ میدان جنگ میں آئے اور دونوں کے درمیان بہت زبردست جنگ ہوئی۔(۲)

عمار نے شام کے لشکر کے سامنے جاکر بلند آواز سے کہا: کیا تم اس شخص کو پہچاننا چاہتے ہو جس نے خدا اور پیغمبر(ص)سے دشمنی اور عداوت کی اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کیا ہے اور مشرکوں کی پشت پناہی کی ہے؟ جب کہ خدا نے چاہا کہ اپنے دین کو ظاہر و آشکار کرے اور اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کرے تو اس نے فوراً ڈر اور خوف کی وجہ سے (نہ اپنی مرضی و خواہش سے) اپنے کو مسلمان ظاہر کیا اور جب پیغمبر اسلام(ص) اس دنیا سے چلے گئے تو وہ مسلمانوں کا دشمن اور ظالموں کا دوست ہوگیا۔ اے لوگو آگاہ ہوجاؤ کہ یہ شخص وہی معاویہ ہے اس پر لعنت بھیجو اور اسکے ساتھ جنگ کرنے کے لئے تیار ہوجاؤ وہ ایسا شخص ہے جو چاہتا ہے کہ خدا کے نور کو خاموش کردے اور خدا کے دشمنوں کی مدد کرے۔(۳)

ایک شخص نے عمار سے کہا کہ رسول اسلام(ص)نے فرمایا ہے کہ لوگوں کے ساتھ جنگ کرو تاکہ لوگ اسلام قبول کریں اور جب لوگ اسلام قبول کرلیں گے تو ان کے جان و مال محفوظ ہوجائیں گے۔

عمار نے اس کلام کی تصدیق کی اور کہا بنی امیہ نے شروع سے ہی اسلام قبول نہیں کیا تھا بلکہ صرف اسلام لانے کا ڈھونگ کررہے تھے، اور اپنے اندر کفر کو چھپائے تھے یہاں تک کہ انکے کفر نے اپنا دوست واحباب بنالیا۔(۴)

عمار نے اتنا کہنے کے بعد اپنے سواروں کے سپہ سالار کو حکم دیا کہ شامیوں کے سوار وںپر حملہ کرے اس نے حملہ کرنے کا حکم دیا لیکن شامی ان کے مقابلے میں جمے رہے اس وقت پیادوں کے افسر کو حملہ کرنے

_______________________________

(۱)،(۲)،(۳) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۴ص۳۰۔ مروج الذہب ج۲ص۳۸۸۔۳۸۷ ۔ وقعہ صفین ص ۲۱۵۔۲۱۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۴ص۳۰۔۳۲۷۔

(۴) وقعہ صفین ص ۲۱۶۔۲۱۵ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۴ص۳۱ ۔تاریخ طبری جزء ۶ص۷

۵۷۹

کا حکم دیا چنانچہ اس نے حملہ کرنے کا دستور دیا اور امام علیہ السلام کے سپاہیوں نے ایک ہی حملے میں دشمن کی صفوں کو تہ بالاکردیا عمروعاص اپنی جگہ چھوڑکر صفوں میں روپوش ہوگیا۔

عمرو عاص ، نے ایسا حربہ استعمال کیا جو عمار استعمال کر چکے تھے، عما ر نے بنی امیہ کی فوج اور ان کے سرداروں کو کافر بتا کر دشمن کی صف میں ہلچل مچا دی تھی، اسی کے مقابلے میں عمر و عاص نے بھی ایک کالا کپڑا نیزے پر بلند کیا اور کہا کہ یہ وہی پرچم ہے جو پیغمبر اسلام نے ایک دن اس کے حوالے کیا تھا، جسے دیکھ کر لوگوں کی آنکھیں حیرت زدہ ہوگئیں اور سرگوشیاں شروع ہو گئیں، امام علیہ السلام فتنے کو روکنے کے لئے اپنے دوستوں کے پاس گئے اور کہا ! کیا تم لوگ جانتے ہو کہ اس پرچم کی کیا کہانی ہے؟ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک دن اس پرچم کو باہر لائے اور فوج اسلام کی طرف مخاطب ہوکر کہا: کون ہے جو اس کو اٹھائے اور اس کا حق ادا کرے؟عمروعاص نے کہا: کس طرح اس کا حق ادا ہوگا؟ پیغمبر اسلام(ص)نے فرمایا: مسلمانوں سے جنگ نہ کرے اور کافر کے مقابلے سے نہ بھاگے مگر اس کا اس نے یوں حق ادا کیا کہ کافروں سے بھاگا اور آج مسلمانوں کے ساتھ جنگ کررہا ہے۔

اس خدا کی قسم جس نے بیج کو شگافتہ کیا اور انسان کو پیدا کیا اس گروہ نے صدق دل سے اسلام

قبول نہیں کیا ہے بلکہ صرف اسلام کا تظاہر کیا ہے اور اپنے کفر کو چھپالیا ہے اور جب ان کے دوست و احباب مل گئے تو اپنے کفر کو ظاہر کردیا اور اپنی دشمنی پر واپس آگئے ۔اورصرف نماز کو ظاہراً ترک نہیں کیا(۱)

چوتھے دن محمد حنیفہ اپنے لشکر کے ساتھ میدان میں آئے اور معاویہ کی فوج سے عبید اللہ بن عمراپنی فوج لے کر میدان میں آیا جنگ کے شعلے بھڑکے اور پھر دونوں فوجوں کے درمیان زبردست لڑائی ہوئی(۲) عبید اللہ نے محمد حنیفہ کے پاس پیغام بھیجوایا کہ اب ہم دونوں جنگ کرنے کے لئے میدان میں آئیں محمد بن حنفیہ میدان کی طرف بڑھے تاکہ ان کے ایک ایک فرد سے جنگ کریں ، امام علیہ السلام کو اس کی خبر ملی اور فوراً گھوڑے کو اپنے بیٹے کی طرف دوڑایا اور ان کو جنگ کرنے سے منع کیا اورپھر خود عبید اللہ کی طرف بڑھے اور کہاتو آگے بڑھ میں تم سے جنگ کروں گا، عبید اللہ یہ سن کر کانپنے لگا اور کہا: مجھے تمھارے ساتھ جنگ

______________________

(۱) وقعہ صفین ص ۲۱۶۔۲۱۵۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۴ص۱ ۳۔ تاریخ طبری ج ۳ جزئ۶ ص۷

(۲)مروج الذہب ج ۲ ص۳۸۸

۵۸۰

کرنے کی ضرورت نہیں ہے پھر اپنے گھوڑے کو موڑ کر میدان جنگ سے چلا گیا اس وقت دونوں فوجیں پیچھے ہٹ گئیں ا ور اپنی اپنی چھاؤنی میں واپس آگئیں۔(۱)

ماہ صفر ۳۸ھ کی پانچویں تاریخ اتوار کے دن دو دستے جن میں عراقیوں کی سرداری ابن عباس اور شامیوں کی سرداری ولید بن عقبہ کر رہے تھے میدان جنگ میں آئے اور دونوں کے درمیان زبردست جنگ ہوئی، ظہر کے وقت دونوں نے جنگ روک دی اور اپنے اپنے لشکر کے پاس واپس آگئے، ولید بن عقبہ نےجب عبدالمطلب کی اولاد کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو: ابن عباس نے اسے جنگ کے لئے بلایا لیکن اس نے جنگ کرنے سے گریز کیا اور میدان چھوڑ کر چلا گیا۔(۲)

فوج شام کے افراد اسلامی تاریخ اور واقعات سے بے بہرہ تھے ورنہ ان کی فوج کی سپہ سالاری ایسے شخص کے ہاتھ میں نہ ہوتی جس کو قرآن نے 'فاسق' اور نابکار سے یاد کیا ہے ولید وہی شخص ہے جس کے بارے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے''ان جاء کم فاسق بنباء فتبینّوا'' (سورۂ حجرات ۶) یعنی اگر کو ئی فاسق خبر لائے تو اسکی چھان بین کرو۔(۳) یہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں قرآن نے اس طرح توصیف کی ہے''اَفمن کان مومناً کمن کان فاسقاً لایستؤون'' (سورۂ سجدہ ۱۸) یعنی کیا جو شخص مومن ہے وہ اسی طرح ہے جس طرح فاسق ہے؟ ہرگز یہ دونوں برابر نہیں ۔(۴)

اس جنگ میں اگر چہ بہت سے افرادقتل ہوئے لیکن دونوں فوجیں بغیر کسی نتیجے کے اپنی اپنی چھاؤنی میں واپس آگئیں مگر امام علیہ السلام، عمار اور ابن عباس کی تقریروںسے شام کے لوگوں پر حقیقت واضح ہوگئی اور کم و بیش معاویہ کا جھوٹا اور بے بنیاد دعویٰ لوگوں پر ظاہر و روشن ہوگیا، یہی وجہ ہے کہ جنگ کے پانچویں دن شمر بن ابرہہ حمیری شام کے قاریوں کے کچھ گروہ کے ساتھ امام کے لشکر میں شامل ہوگیا ،ان لوگوں کا نور

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص ۲۲۲۔۲۲۱۔ کامل ابن اثیرج۳ص۵۰۔ تاریخ طبری ج ۳، جزئ۶ ص۷ ۔مروج الذہب ج ۲ ص۳۸۸۔

(۲) وقعہ صفین ص ۲۲۲۔۲۲۱۔ کامل ابن اثیرج۳ص۵۰۔ تاریخ طبری ج ۳ جزئ۶ ص۷ ۔مروج الذہب ج ۲ ص۳۸۸۔

( ۳) تما م اسلامی مفسرین نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

(۴)اس آیت کے شان نزو ل کے متعلق، تفسیر الدر المنثورا ور برہان کی طرف رجوع کریں۔

۵۸۱

کی طرف آنا تاریکی کی علامت تھی جو شام کی فوج پر چھائی ہوئی تھی اس سے معاویہ کو بہت بڑا دھچکا لگا ،اس کے تکرار سے سخت خوفناک تھا۔

عمرو عاص نے معاویہ سے کہا:تو چاہتا ہے کہ ایسے شخص سے جنگ کرے جو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قریبی رشتہ دار ہے ، اسلام میں ثابت قدم اور استوار ہے، فضلیت و معنویت اور جنگ کے اسرار و رموز جاننے میں بے مثال ہے، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص لوگوں میں سے ہے اوربہادر ساتھیوں ، قاریوں اور شریف ترین لوگوں کے ساتھ تم سے جنگ کرنے آیا ہے اور مسلمانوں کے دلوں میں اس کی ہیبت و بزرگی چھائی ہے،تو تجھ پر لازم ہے کہ شامیوں کو اہم جگہوں اور علاقوں میں معین کرو اور اس سے پہلے کہ جنگ کی مدت طولانی ہونے کی وجہ سے وہ افسردگی اور رنجیدگی کا احساس کریں ان لوگوں کولالچ دو اور جو چیز بھی بھولنا چاہو بھول جاؤ مگر یہ نہ بھولنا کہ تم باطل پرہو۔

معاویہ نے بوڑھے مکار سیاسی کی باتوں سے نصیحت لی اور سمجھ گیا کہ شامیوں کو میدان جنگ کی طرف مائل کرنے کا ایک طریقہ دین اور تقوی و پرہیزگاری کا اظہار کرنا بھی ہے اگرچہ ان کے دلوں میں اس کا کچھ اثر نہ ہو،یہی وجہ تھی کہ اس نے حکم دیا کہ ایک منبر بنایا جائے اور شام کے تمام سرداروں کو اپنے پاس بلایا اور منبرپر گیا اورپھر بڑے ہی رنجیدہ دل سے دین و مذہب کے لئے مگرمچھ کی طرح آنسو بہایا اور کہا:

اے لوگو : اپنی جانوں اور سروں کو میرے سپرد کردو ، سست نہ ہونا اور مدد کرنے میں کوتاہی نہ کرناآج کا دن خطرناک دن ہے حقیقت اور اس کی حفاظت کا دن ہے تم لوگ حق پر ہو اور تمھارے پاس دلیل ہے تم لوگ اس سے جنگ کررہے ہو جس نے بیعت کو توڑا ہے اور خون حرام بہایا ہے اور آسمان پر کوئی بھی اس کو معذور نہیں سمجھتا۔

پھر عمر و عاص منبر پر گیا اور معاویہ کی طرح سے تقریر کی اور پھر منبر سے اتر گیا۔(۱)

______________________

۱۔ وقعہ صفین ص ۲۲۲۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ص۱۸۰۔

۵۸۲

امام علیہ السلام کی تقریر

امام علیہ السلام کو خبر ملی کہ معاویہ اپنے مکر و فریب کے ذریعے دین کا لبادہ پہن کرشامیوں کو جنگ کی

دعوت دے رہا ہے لہذا آپ نے حکم دیا کہ سب کے سب ایک جگہ جمع ہوجائیں ، راوی کہتا ہے کہ میں نے امام کو دیکھا جو اپنی کمان پر ٹیک لگائے ہیں اور پیغمبر(ص)کے دوستوں کو اپنے پاس جمع کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام ساتھی ان کے ہمراہ ہیں پھر آپ نے خدا کی حمد و ثناء کی اور کہا:

اے لوگو! میری باتوں کو غور سے سنو اور اسے یاد کرلو۔ خود خواہی سر کشی کی وجہ سے ہے اورکبرو نخوت خود بینی سے اور شیطان تمھاراابھی کا دشمن ہے جو تمھیں باطل کا وعدہ دے رہا ہے ،آگاہ ہوجاؤکہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے اسے برا بھلا نہ کہو اس کی مدد کرنے سے گریز نہ کرو، شریعت ودین ایک ہے اور اس کے راستے بھی ہموار ہیں جس نے بھی اس سے تمسک کیا وہ اس سے ملحق ہوگیا اور جس نے اسے ترک کیا وہ اس سے خارج ہوگیا اور جو بھی اس سے جدا ہوگا وہ نابود ہوجائے گااور جو شخص امین کے نام سے مشہور ہو اور خیانت کرے ، وعدہ کرے مگر خلاف ورزی کرے، بات کرے مگر جھوٹ بولے، وہ مسلمان نہیں ہے، ہم خاندان رحمت ہیں ہماری باتیں سچی اور ہمارے کردار سب سے اچھے ہیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آخر الزمان ہم میں سے ہیں اور اسلام کی رہبری بھی ہمارے ہی پاس ہے،خدا کی کتاب کے قاری ہم ہی ہیں۔میں تمھیں خدا اور رسول(ص)کی طرف اور ان کے دشمنوں سے جہاد کرنے، اور اس کی راہ میںثابت قدم رہنے اور اس کی مرضی حاصل کرنے، نماز قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے ، اور خدا کے گھر کی زیارت کرنے،اور رمضان المبارک میں روزہ رکھنے ، اور بیت المال کواس کے اہل تک پہونچانے کی دعوت دیتا ہوں۔

۵۸۳

یہ بھی دنیا کے لئے تعجب ہے کہ معاویہ اور عمرو عاص دونوں اس لائق ہوگئے کہ لوگوں کو دینداری کی طرف رغبت دلائیں! تم لوگ جانتے ہو کہ میں نے کبھی بھی پیغمبر (ص)کی مخالفت نہیں کی بلکہ وہ مقامات جہا ں پر بڑے بڑے بہادر پیچھے ہٹ گئے اور ان کے بدن خوف کے مارے کانپنے لگے میں نے اپنی جان کوپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے سپر قرار دیااس خدا کا شکر جس نے ہمیں یہ فضلیت بخشی، پیغمبر (ص)کی روح پرواز کر گئی جب کہ ان کا سر میری آغوش میں تھا ، اور صرف تنہا میں نے ان کو غسل دیا اور مقرب ترین فرشتے آپ کے جسم اطہر کو اِدھر سے ادھر پلٹتے تھے، خدا کی قسم کسی بھی پیغمبر کی امت اس کی رحلت کے بعد اختلاف کا شکار نہ ہوئی مگر یہ کہ اہل باطل حق والوں پر غالب آگئے ۔(۱)

جب امام علیہ السلام کی تقریر یہاں تک پہونچی تو ، بزرگ و باایمان اور وفادار دوست عمارنے لوگوں کی طرف نگا ہ کی اور کہا، امامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تم لوگوں کو آگاہ کردیا ہے کہ امت نے نہ تو شروع ہی میں صحیح راستہ اپنایا اور نہ ہی آخر میں صحیح راستہ اپنایا۔

ابن مزاحم کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ۶،صفر ۳۸ دو شبنہ کے دن شام کے وقت تقریر کی تھی اور آخر کلام میں تما م سپاہیوں سے مطالبہ کیا کہ فساد کو جڑ سے اکھاڑدیں۔ اسی وجہ سے ۷،صفر منگل کے دن تمام سپاہیوں کو ایک بڑے حملے کے لئے آمادہ کیا اور خطبہ ارشاد فرمایا جس میں جنگ کے اسرار و رموز کی تعلیم دی ۔(۲)

_______________________________

(۱)،(۲)وقعہ صفین ص۲۲۴۔۲۲۳۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ص۱۸۲۔۱۸۱

۵۸۴

اٹھارہویں فصل

اجتماعی حملے کا اغاز

جنگ صفین شروع ہوئے آٹھ دن گزر گئے اور چھٹ پٹ حملے اور بہادر سرداروں کی رفت و آمد سے کوئی نتیجہ نہ نکلا ، امام علیہ السلام اس فکر میں تھے کہ کس طرح سے نقصان کم ہو اور ہم اپنے مقصد تک پہونچ جائیں آپ اس بات سے بھی مطمئن تھے کہ محدود جنگ قتل و غارت گری کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں رکھتی اسی وجہ سے آپ نے ماہ صفر کی آٹھویں رات (شب چہار شنبہ) کو اپنے اصحاب کے درمیان تقریر فرمائی:

''اس خدا کا شکر کہ اگر اس نے کسی چیز کو شکست دی تو اسے مستحکم نہیں کیا اور جس چیز کو مستحکم کر دیا اُسے شکست نہیں ہو سکتی، اگر وہ چاہتا تو اس امت سے دو آدمی یا پوری امت اختلاف نہیں کرتی،اور کوئی شخص بھی کسی بھی امر میں جو اس سے مربوط ہے اختلاف نہیں کرتا ، اور مفضول ،فاضل کے فضل وکرم سے انکار نہیں کرتے، تقدیر نے ہمیں اس گروہ کے سامنے کھڑا کر دیا ہے ۔

سب کے سب خدا کی نگاہوں اور اس کے حضور میں ہیں اگر خدا چاہتا تو عذاب کے نزول میں جلدی کرتا ، تاکہ ستمگروں کو جھٹلا سکے، اور حق کو آشکار کرے اس نے دنیا کو کردار کا گھر اور آخرت کو اجرو ثواب کا گھر قرار دیا تاکہ بدکاروں کو ان کے برے کردار کہ وجہ سے عذاب اور اچھے لوگوں کو ان کے اچھے کردار کی وجہ سے اجر و ثواب دے، آگاہ ہوجاؤ اگر خدانے چاہا تو کل د شمن سے مقابلہ ہوگا لہذا اس رات خوب نماز پڑھو اور بہت زیادہ قرآن پڑھو، اور خدا وند عالم سے ثابت قدمی اور کامیابی کی دعا کرو اور کل دشمنوں سے احتیاط اور پوری بہادری کے ساتھ لڑنا ،اور اپنے کام میں سچے رہو۔امام علیہ السلام نے یہ باتیں کہیں اور وہاں سے چلے گئے پھر امام علیہ السلام کے تمام سپاہی تلوار و نیزہ وتیر کی طرف گئے اور اپنے اپنے اصلحوں کو صحیح کرنے لگے۔(۱) امام علیہ السلام نے آٹھ صفر بدھ کے دن حکم دیاکہ ایک آدمی شام کی فوج کے سامنے کھڑا ہو اور

______________________

(۱)وقعہ صفین ص ۲۲۵۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۵ص۱۸۲۔ تاریخ طبری ج ۳ جزئ۶ ص۸ ۷ ۔ کامل ابن اثیرج۳ص۱۵۰۔

۵۸۵

عراق کی فوج کی طرف سے جنگ کا اعلان کرے۔

معاویہ نے بھی امام علیہ السلام کی طرح اپنی فوج کومنظم کیا اور اسے مختلف حصّوں میں تقسیم کردیا،اس کی فوج حمص، اردن اور قنسرین کے لوگوں پر مشتمل تھی اور معاویہ کی جان کی حفاظت کے لئے شام کے لوگوں نے ضحاک بن قیس فہری کی سرپرستی میں ذمہ داری لی اور اس کو اپنے حلقے میں لے لیا ، تاکہ دشمن کو قلب لشکر ، جہاں معاویہ کی جگہ تھی پہونچنے سے روک سکیں۔

معاویہ نے جس انداز سے فوج کو مرتب کیا تھاوہ عمرو عاص کو پسند نہ آئی اور اس نے چاہا کہ معاویہ کی فوج کو منظم کرنے میں مدد کرے لہذااسے وہ وعدہ یاد دلایا جو دونوں نے آپس میں کیا تھا، (یعنی فتح و کامیابی کے بعد مصر کی حکومت اس کی ہوگی)عمرو نے کہا: حمص کی فوج کی سرداری میرے سپر د کرو اور ابوالاعور کو ہٹادو ۔ معاویہ اس کی اس فرمائش پربہت خوش ہوا اور فوراً ایک شخص کو حمصیوں کے پاس بھیجا اور پیغام بھیجوایا کہ عمرو عاص جنگ کے امور میں تجربہ رکھتا ہے جو ہم اور تم نہیں رکھتے ، میں نے اسے سواروں کا سردار بنایا ہے لہذا تم دوسرے علاقے میں جاؤ۔

عمرو عاص نے حکومت مصر کی امید میں اپنے دونوں بیٹوں عبداللہ اور محمد کو بلایااور اپنے تجربہ اور اپنے اعتبار سے فوج کو منظم کیا اور حکم دیاکہ زرہ پہنے ہوئے سپاہی فوج کے آگے اور جو زرہ

نہیں پہنے ہیں وہ فوج کے پیچھے کھڑے ہوں، اور پھر اپنے دونوں بیٹوں(۱) کو حکم دیا کہ فوج کے درمیان معائنہ کریں اور فوج کے نظم و ترتیب کا خاص خیال رکھیں اسی پراکتفاء نہیں کیا بلکہ خود فوج کے درمیان ٹہلنے لگااور اس کے نظم و ترتیب پرنگاہ رکھی اور اسی طرح معاویہ فوج کے درمیان منبر پر بیٹھ گیااور اس کی حفاظت کی ذمہ داری یمن کے لوگوں نے لی اور حکم دیا کہ جو شخص بھی منبر کے نزدیک ہونے کا ارادہ کرے فوراً اسے قتل

______________________

(۱) یہاں اس بات کی یاددہانی کرناہے کہ عمر و عاص کے دونوں بیٹے ظاہری طور پرزاہد نما تھے.جو ابتداء میں باپ کو ابوسفیان کے بیٹے کی حمایت سے روک رہے تھے لیکن اس وقت ان کے سچے اور گہرے دوست ہیں یہ واقعہ ہمیں اس مثال کی یاد دلاتا ہے جوعربی اور فارسی(اور اردو ، رضوی) زبان میں رائج ہے۔(ھل تلد الحیة الاالحیة) یعنی کیا سانپ کا بچہ سانپ کے علاوہ ہو سکتا ہے ۔یافارسی کی مثال، عاقبت گرک زادہ گرک شود۔گرچہ با آدمی بزرگ شود۔ بھیڑیئے کا بچہ بھیڑیا ہوگا اگرچہ وہ آدمی کے ساتھ ہی کیوں نہ بڑاہوا ہو۔

۵۸۶

کردینا۔(۱) جب بھی جنگ کا مقصد قدرت اور حاکمیت ہوگا تو اس وقت اپنی حفاظت کے لئے گروہ کا انتظام ہوگا ،لیکن اگر ہدف اور مقصد معنوی ہوگا تو ہدف کی خاطر اگر جان بھی دینی پڑے تو کوئی پرواہ نہیں ہوگی لہذا نہ تو کسی نے امام کی حفاظت کی ذمہ داری لی بلکہ امام علیہ السلام سیاہ رنگ کے گھوڑے پر سوار حکم دیتے تھے اور فوج کی رہبری بھی کر رہے تھے اور اپنے بلند نعروں سے شام کے بہادروں کو لرزہ براندام(تھرتھرانا) کر دیتے تھے اور اپنی تیز تلوار سے لوگوں کو دور کرتے تھے۔

رہبری کے طریقے میں اختلاف، مقصد کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہے اور شہادت کا طلب کرنا آخرت پر ایمان اور اس کی حقانیت پر اعتقاد رکھنا ہے، جب کہ موت سے خوف اور دوسروں کو اپنی جان کی حفاظت کے لئے قربان کرنا دنیاوی زندگی سے محبت والفت اور ماوراء مادہ سے انکار کرنا ہے اور حیرت کی بات تویہ ہے کہ عمروعاص کے بیٹے نے ان چیزوں کا اعتراف بھی کیا اور امام علیہ السلام

کی فوج کے بارے میں یہ کہا''فان هوٰلائِ جاؤوا بخطّةٍ بلغت السمائ'' یہ لوگ آسمانی ہدف لے کر میدان میں آئے ہیں اور شہادت سے خوف نہیں رکھتے ۔

عاص کے بیٹے کی معاویہ کے ساتھ خیرخواہی اور مدد اس سے محبت و الفت اور فتح و کامیابی کی بناپر نہ تھی بلکہ وہ ہرطرف سے اپنے فائدے کے لئے اسے کامیابی سے ہمکنار کرانا چاہتا تھااورمعاویہ سے اظہار نظر اور مشورہ کرکے اکثر اسے یاد دلاتا تھا اور جوباتیں ان دونوں کے درمیان ہوئیں وہ اس حقیقت کو بیا ن کرتی ہیں۔

معاویہ:جتنی جلدی ہو فوج کی صفوں کومنظم کرو۔

عمر وعاص:اس شرط کے ساتھ کہ میری حکومت میرے لئے ہو۔

معاویہ،اس خوف سے کہ عمروعاص اما م کے بعد اس کا رقیب نہ ہوجائے فوراً پوچھا کون سی حکومت؟کیا حکومت مصر کے علاوہ دوسری چیز چاہتا ہے؟

عمرو عاص نے جوپرانا سیا ستبازا اور غیر متقی سوداگرتھانے اپنے چہرے پر تقوے کا ماسک لگاکر کہا کیا

______________________

(۱)وقعہ صفین ص ۲۲۶۔ شرح نہیج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۱۸۲۔

۵۸۷

مصر، جنت کے عوض ہو سکتا ہے؟ کیا علی کو قتل کرکے عذاب جہنم کی مناسب قیمت جس میںہر گز آرام نہیں ہوگا ،ہوسکتی ہے؟

معاویہ نے اس خوف سے کہ کہیں عمرو کی بات فوج کے درمیان پھیل نہ جائے اس سے کہا ذرا آہستہ آہستہ، تیری گفتگو کوئی اور نہ سن لے۔

جی ہاں،عمروعاص مصر کی حکومت کی آرزو میں شام کے لوگوں کی طرف متوجہ ہوا اورکہا:

اے شام کے سردارو، اپنی صفوں کو مرتب کرو اور اپنے سروں کو اپنے خدا کو ہدیہ کر دو، اور خدا سے مدد طلب کرو اور خدا کے دشمن اور اپنے دشمن سے جنگ کرو ان لوگوں کو قتل کرو تاکہ خدا ان لوگوں کو قتل کرے اور انھیں نابود کردے ۔(۱)

اور اُدھر جیسا کہ گزر چکا ہے اس دن امام علیہ السلام نے ایک گھوڑا طلب کیا لوگ آپ کے لئے(شبرنگی) گھوڑا لائے جو طاقت کی وجہ سے مسلسل کود رہاتھا اور دو لگاموں سے کھینچا جاتا تھا۔ امام علیہ السلام نے اس کی لگام اپنے ہاتھ میں لی اور اس آیت کی تلاوت فرمائی :

( سبحان الذی سخّرلنا هذا وماَ کُنّٰا له مقرنین وانّااِلیٰ ربّنا لمنقلبون ) ''پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لئے آمادہ کیا جسکی ہمارے پاس طاقت و قدرت نہ تھی اور سب کے سب اس کی بارگاہ میں واپس جائیں گے''۔(زخرف ۱۳ )

پھر آپ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا اور کہا:

''اللّٰهم اِلیک نُقِلَتِ الاقدامُ وأُ تْعِبَتِ الا بدانُ و أ فضتِ القلوبُ و رفعتِ الأ یدی و شُخِصَتِ الأ بصار.........اللّٰهم انّا نشکُوٰ ألیکَ غیبة نبیّنٰا وکثرةعدوّنا وتشتّت أ هوا ئنٰا.ربنّا افتح بیننٰا وبینَ قومِنٰابالحقِّ وَ اَنتَ خیر الفاتحِینَ (۲)

خدا یا: تیری ہی طرف قدم اٹھتے ہیں اور بدن رنج وغم میں گرفتار ہوتے ہیں اور دل تیری طرف متوجہ

ہوتے ہیںاور ہاتھ بلند ہوتے ہیں اور آنکھیں کھلی رہتی ہیں........خدایا:ہم اپنے پیغمبر کے نہ رہنے کا شکوہ

______________________

(۱)،(۲) وقعہ صفین ص۲۳۱،۲۳۰۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۱۷۶

۵۸۸

اور دشمنوں کی زیادتی اور اپنی آرزؤوں کے بکھرنے کاتیری بارگاہ میں شکوہ کرتے ہیں خداوندا ہمارے اور اس قوم کے درمیان حقیقی فیصلہ کر کیونکہ تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔بالآخر ۸صفر بدھ کے دن باقاعدہ حملے کا آغاز ہوا اور صبح سویرے سے را ت تک حملے ہوتے رہے اور دونوں فوجیں بغیر کسی کامیابی کے اپنی اپنی چھاؤنی میں واپس آگئیں۔جمعرات کے دن امام علیہ السلام نے نما ز صبح تاریکی میں پڑھی اور پھر دعاپڑھنے کے بعد خود

حملہ شروع کیا ، آپ کے ساتھی بھی چاروں طرف سے جنگ کرنے لگے۔(۱)

حملے سے پہلے اما م علیہ السلام نے جو دعا پڑھی اس کا کچھ حصہ یہ ہے۔

''ان اظهرتنٰا علیٰ عدوّنا فجنبنا الغ و سدِّ دنٰا للحقِّ،واِن اظهر تَهُم علینٰا فَارزُقنا الشّهٰا دَة وَ اعصِم بقیَّةَ أصحابی مِنَ الفتنة'' (۲)

''پروردگار ! اگر ہمیں اپنے دشمنوں پر کامیاب کیا تو ہم سب کو ظلم و ستم سے دور رکھ اور ہمارے قدموں کو حق کے راستے پر چلا، اور اگر وہ سب ہم پر کامیاب ہوئے تو ہم لوگوں کو شہادت نصیب فرمااور جو ہمارے دوست باقی بچیں انہیں فتنہ سے محفوظ رکھ''

امام علیہ السلام کے لشکر کے سرداروں کی شعلہ ور تقریریں

فوج کے بزرگوں اور سرداروں کی تقریریں بہت بڑی تبلیغ کا کام کرتی ہیں بسا اوقات، ایک فوج کی تقریر دشمن کو نابود اور خود اپنے لئے کامیابی کے مقدمات فراہم کر دیتی ہے، اسی وجہ سے ، جمعرات ۹ صفر اجتماعی حملے کے دوسرے دن امام علیہ السلام کی فوج کی بزرگ شخصیتوں نے تقر یریں کیں ، امام کے علاوہ عبد اللہ بن بدیل(۳) سعید بن قیس(۴) (ناصرین کے علاقہ میں) اور مالک اشتر جیسی بزرگ

_______________________________

(۱)تاریخ طبری ۳، جزء ۶ص۸۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۵۱-----(۲) وقعہ صفین ص۲۳۲

(۳) وقعہ صفین ص۲۳۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵ص۱۸۶

(۴)وقعہ صفین ص۳۴۷۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵ص۱۸۸

۵۸۹

شخصیتوں(۱) نے تقریر کی اور ہر شخص نے ایک خاص طریقے سے امام علیہ السلام کی فوج کو شامی دشمن کی فوج پر حملہ کرنے کی تشویق دلائی، اسی درمیان بہت سے واقعات رونما ہوئے جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۔ کون ہے جو اس قرآن کو اپنے ہاتھ میں لے؟

علی علیہ السلام قبل اس کے کہ جنگ کا آغاز کرتے اتمام حجت کے لئے اپنے سپاہیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: کون ہے جو اس قرآن کو اپنے ہاتھوں میں لے اور ان شامیوں کو اس کی طرف دعوت دے؟ سعید نامی نوجوان اٹھا اور اس نے ذمہ داری لی امام علیہ السلام نے دوسری مرتبہ پھر اپنی بات دہرائی اور پھر و ہی نوجوان اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا اے امیرالمومنین میں حاضر ہوں، اس وقت علی علیہ السلام نے قرآن اس کے حوالے کیا وہ معاویہ کی فوج کی طرف روانہ ہوا ان لوگوں کو خدا کی کتاب اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دی، تھوڑی دیر بھی نہ گذری تھی کہ دشمن کے ہاتھوں شھید ہوگیا(۲)

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۲۴۱۔۲۳۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵ص۱۹۱۔۱۹۰

(۲)وقعہ صفین ص ۲۴۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵ص۱۹۴

۵۹۰

۲۔ دوحُجر کی جنگ:

حُجر بن عدی کندی ان شخصیتوں میں سے ہیں جو پیغمبر کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور ان کے ذریعے مسلمان ہوئے اس کے بعد علی علیہ السلام کے مخلصوں اور ان دفاع کرنے والوں کی صف میں تھے بالآخر اسی راہ میں اپنی جان دے دی معاویہ کے ظالم جلادوں کے ہاتھوں امام علیہ السلام کے کچھ مخلصوں کے ہمراہ ''مرج عذرائ'' (جو شام سے ۲۰ کلومیڑ دوری پر واقعہ ہے) میں قتل ہوگئے اور تاریخ نے انھیں ''حُجر الخیر'' کے نام سے یاد کیا جبکہ ان کے چچا حُجر بن یزید کو تاریخ نے ''حُجر الشّر'' کے نام سے یاد کیا ۔

اتفاق سے اس دن یہ دونوں حُجر جو کہ آپس میں قریبی عزیز بھی تھے میدان جنگ میں روبرو

ہوئے، مبارزہ کی دعوت حُجر الشّر کی طرف سے شروع ہوئی اوراس وقت جبکہ یہ دونوں اپنے اپنے نیزوں سے جنگ کرنے میں مصروف تھے معاویہ کی فوج سے ایک شخص خزیمہ، حُجر بن یزید کی مدد کیلئے دوڑا اور حُجر بن عدی پر نیزہ مارا اس موقع پر حُجر کے کچھ ساتھیوں نے خزیمہ پر حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا لیکن حجر بن یزید

۵۹۱

میدان چھوڑ کربھاگ گیا۔(۱)

۳۔ فوج شام کے میسرہ پر عبداللہ بن بدیل کا حملہ

عبد اللہ بن بدیل خزاعی امام علیہ السلام کے لشکر کے بلند پایہ افسر تھے وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جلیل القدر صحابی اور نفس کی پاکیزگی اور بہادری اور زبردست جنگ کرنے والوں میں مالک اشتر کے بعد مشہور تھے۔

میمنہ کی فوج کی ذمہ داری انھی کے ہاتھ میں تھی اور میسرہ کی سرداری عبد اللہ بن عباس کے ذمہ تھی، عراق کے قاری عمار یاسر، قیس بن سعد او رعبداللہ بن بدیل کے بارے میں ہوے(۲)

عبد اللہ ، حملہ شروع کرنے سے پہلے اپنے دوستوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : معاویہ نے ایسے مقام و منصب کا دعویٰ کیا ہے جس کا وہ اہل نہیں ہے، مقام ومنصب کے حقیقی وارثوں سے لڑائی کے لئے اٹھا ہے اور باطل اور غلط دلیلوں کے ساتھ حق سے لڑنے آیا ہے ،اس نے عربوں(بدو) اور مختلف لوگوں کو ملا کر فوج تشکیل دی ہے اور گمراہی کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔یہاں تک کہنے کے بعد کہا:

''وأنتم واللّه علیٰ نورٍ من ربّکم وبرهان مبین، قاتلواالطغاةَ الجفاةَ ولا تخشوهُم وکیفَ تخشَونَهم وفی أید یکم کتاب من ربّکم ظاهر منور وقدقاتلتهُم مع التبیُّ واللّه مٰا هم فی هٰذهِ بأزکیٰ ولاٰ أ تقٰی ولاٰأبَرّ ،قُو مواُ اَلیٰ عدوِّ اللّٰه وعدوِّکم''(۳)

خدا کی قسم تم لوگ خدا کے نور کے سایۂ میں اور روشن دلیل ہو۔ اس جفا کار اور سرکش کے ساتھ جنگ کرو سے خوف نہ کرو، اس سے کیوں ڈرو جب کہ تمھارے ہاتھ میں خدا کی کتاب ہے جو واضح اور سب کی نظر میں مقبول ہے تم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس سے جنگ کی ہے خدا کی قسم ان کا حال ماضی سے بہتر نہیں ہے، اٹھو اور خدا کے دشمن اور اپنے دشمن سے جنگ کرنے کے لئے روانہ ہوجاؤ ۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۲۴۳ ۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدید ج۵ص۱۹۶۔۱۹۵-----(۲)کامل ابن اثیرج ۳ ص ۱۵۱

(۳) وقعہ صفین ص۲۳۴ ۔ تاریخ طبری ج ۳جزء ص۹۔ کامل ابن اثیرج۳ص۱۵۱ (تھوڑے فرق کے ساتھ)

۵۹۲

میمنہ کی سرداری عبد اللہ کے حوالے تھی اس کے باوجود انہوں نے دو زرہ پہنی اور دو تلواریں (دونوں ہاتھوںمیں ) لیں اور حملہ شروع کردیا اور پہلے ہی حملہ میں معاویہ کی فوج کو راستے سے ہٹادیا اور حبیب بن مسلمہ جوفوج شام کے میسرہ کا سردار تھا،کے لشکر کو شکست دیدی ،ان کی پوری کوشش یہ تھی کہ خود کو معاویہ کے خیمے تک پہونچا دیں اور اس ام ّالفساد کو درمیان سے ختم کردیں معاویہ کے تمام نگہبان جنہوں نے اپنی جان قربان کرنے کا عہد کیا تھا، پانچ صف کی صورت میںیا بقولے پانچ دیوار کی طرح اس کے اطراف میں محاصرہ کئے ہوئے تھے اور ان کو بڑھنے سے روک رہے تھے لیکن یہ دیواریں بہت بڑی مشکل نہ بنیں، بلکہ ایک کے بعد ایک گرتی رہیں عبدا للہ کا حملہ بہت زبردست تھالیکن اس سے پہلے کہ خود کو معاویہ کے خیمہ تک پہونچاتے قتل کر دئیے گئے۔(۱)

اس سلسلے میں جریر طبری نے اپنی ''تاریخ'' میں ابن مزاحم (مؤلف وقعہ صفین) سے زیادہ تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، وہ لکھتا ہے:عبداللہ دشمن کی فوج کے میسرہ کے ساتھ جنگ کرنے میں مشغول تھا اور مالک اشتر بھی میمنہ پر حملہ کر رہے تھے، مالک اشتر جو کہ زرہ پہنے ہوئے تھے اپنے ہاتھ میں ایک یمنی ڈھال نما لوہے کا ٹکڑا لئے ہوئے تھے جب اس کو جھکاتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ اس سے پانی برس رہا ہے اور جب اسے اونچا کرتے تھے تو اس کی چمک سے آنکھیں خیرہ ہو جاتی تھیں۔انھوں نے اپنے حملے میں میمنہ کو تہ وبالا کردیا اور ایسے مقام پر پہونچے جہاں عبد اللہ بن بدیل قاریوں کے گروہ جن کی تعداد تقریباً تین سو،(۲) کے آس پاس تھی موجود تھے، انہوں نے عبد اللہ کے دوستوں کو میدان میں ڈٹا ہوا پایا مالک اشتر نے ان کے اطراف سے دشمنوں کو دور کیا وہ لوگ مالک اشتر کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فوراً امام کے حالات دریافت کئے اور جب ان لوگوں نے جواب میں سنا کہ امام علیہ السلام صحیح و سالم ہیں اور میسرۂ میں اپنی فوج کے ساتھ جنگ کرنے میں مصروف ہیں تو شکرخدابجالائے۔

ایسی حالت میں عبد اللہ نے اپنے کم ساتھیوں کے باوجود بہت زیادہ اصرا ر کیا کہ آگے بڑھیں، معاویہ کے نگہبانوںکو قتل کرنے کے بعد خود معاویہ کو قتل کردیں،لیکن مالک اشتر نے انہیں پیغام دیا کہ آگے

______________________

(۱) وقعہ صفین ص۲۴۸

(۲)ابن مزاحم نے وقعہ صفین میں ان کی تعداد سو آدمی لکھی ہے۔

۵۹۳

نہ بڑھیںاور جس جگہ پر ہیں وہیں ٹھہرے رہیں اور اپنا دفاع کریں۔(۱) لیکن ان کا خیال تھا کہ وہ ایک بجلی کی طرح تیز حملے سے نگہبانوں کو ختم کرکے معاویہ تک پہونچ جائیں گے، اسی وجہ سے وہ آگے بڑھتے رہے اور چونکہ دونوں ہاتھوں میں تلوار لئے تھے اپنے دوستوں کے ہمراہ حملہ شروع کردیا اور جو بھی سامنے آتا تھا ایک ہی حملے میں اس کا کام تمام کردیتے تھے اور اس قدر آگے بڑھے کہ معاویہ کو مجبوراً اپنی جگہ بدلنی پڑی۔(۲)

عبد اللہ کے حملے کی خوبی یہ تھی کہ وہ نگہبانوں سے لڑتے وقت یالثارات عثمان،، کا نعرہ بلند کر رہے تھے اس نعرے سے ان کا مقصد ان کا وہ بھائی تھا جو اسی جنگ میںمارا گیا تھا لیکن دشمنوں نے اس سے دوسری چیزسمجھا اور بہت تعجب میں پڑے تھے کہ عبد اللہ کس طرح سے لوگوں کو عثمان کے خون کا بدلہ لینے کی دعوت دے رہے ہیں۔!

بالآخر نوبت یہاں تک پہونچی کہ حقیقت میں معاویہ کو اپنی جان خطرے میں نظر آئی اور کئی مرتبہ اپنی میمنہ کی فوج کے سردار حبیب بن مسلمہ کے پاس پیغام بھیجا کہ مدد کو پہونچے لیکن حبیب کی ساری کوششیں بے کار ہوگئیں۔ اور عبد اللہ کو ان کے مقصد تک پہونچنے سے روک نہ سکا ،معاویہ کے خیمے سے وہ بہت کم فاصلے پر تھے معاویہ نے جب کوئی سبیل نہ دیکھی تو نگہبانوں کو حکم دیا کہ ان کے اوپر پتھر مارو اور ان سے جنگ کرو، اور یہ طریقہ مؤثر واقع ہوااور نگہبانوں نے پتھر مار کر عبد اللہ جن کے ہمراہ بہت کم لوگ تھے زخمی کر دیا اور وہ زخمی ہوکر زمین پر گر پڑے ۔(۳)

جب معاویہ نے اپنی جان کو خطرے سے باہر پایا توخوشی سے پھولے نہیں سمایااورعبداللہ کے سراہنے آیا، ایک شخص جس کا نام عبد اللہ بن عامر تھا اور معاویہ کے قریبی لوگوں میں سے تھا اپنے عمامہ کو عبد اللہ کے چہرے پر ڈال دیا اور اس کے لئے دعائے رحمت کی، معاویہ نے بہت اصرار کیا کہ اس کا چہرہ کھول دے مگر اس نے نہیں کھولا کیونکہ وہ اس کا دوست تھا، معاویہ نے اس سے وعدہ کیا کہ میں اِسے مُثلہ

_______________________________

(۱)کامل ابن اثیرج۳ص۱۵۳

(۲)تاریخ طبری ج ۳جزئ۶ص۱۰۔کامل ابن اثیرج۳ص۱۵۲،۱۵۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدید ج۵ص۱۹۶

(۳)وقعہ صفین ص ۲۴۶۔۲۴۵

۵۹۴

(جسم کے ٹکڑے کاٹنا) نہیں کروں گا، اس وقت اُسے امام کے بہادر سردار کا چہرہ دیکھنا نصیب ہوا،جیسے ہی معاویہ کی نگاہ عبد اللہ کے چہرے پر پڑی اس نے برجستہ کہا:

''هذاواللّٰه کبشُ القومِ.وربِّ الکعبةِ اللّٰهمّ اَظْفِرْنْیِ بالْاَشْتَرِ النّخعِی والْاَ شْعَتِ الْکِنْدِیْ'' (۱)

''خدا کی قسم ، وہ اس گروہ کا سب سے بڑا ہے خدایا مجھے اور دو بڑے بہادروں، مالک اشتر نخعی اور اشعث کنِدی پر کامیابی عطا فرما''۔

اس وقت عبد اللہ کی بے مثال بہادری و شجاعت پر عدی بن حاتم کا قصیدہ پڑھاجس کا پہلاشعر یہ تھا۔

''أخا الحربِ اِن عضّتْ به الحربُ عضّهٰا.وان شمّرَتْ عن سَا قِهٰا الحربُ شمَّرا'' (۲)

''مرد جنگجو(بہت زیادہ جنگ کرنے ولا)وہ ہے کہ اگر جنگ نے اُسے دانت دکھایا تو وہ بھی اسے دانت دکھائے اور اگر آستین اوپر اٹھائے تو وہ بھی آستین اوپر کرے''۔

جنگ، لیلة الہریر تک

امام علیہ السلام کے چاہنے والوں اور معاویہ کے طرفداروں کے درمیان واقعی جنگ ماہ صفر ۳۸ ھ سے شروع ہوئی اور ۱۳،صفر(۳) کو دوپہر تک جاری رہی، تاریخ لکھنے والوں نے اس ابن جریر طبری نے اپنی کتاب میں صلح کی تاریخ ۱۳ صفر لکھی ہے اور لیلة الہریر کو جمعہ کے دن لکھا ہے۔(ص۲۴) لیکن چونکہ جس دن صفر کا مہینہ شروع ہوا تھا وہ بدھ کا دن تھا اور اس اعتبار سے لیلة الہریر ۱۷ صفر کو ہونا چاہیے(ماہ صفر کی تیسری شب جمعہ) اور اگر مراد دوسری شب جمعہ ہو تو اس صورت میں لیلة الہریر ۱۰صفر کو ہوناچاہیے نہ کہ ۱۳ صفر کو ،مگر یہ کہا جائے لیلةالہریر کے آدھے دن سے صلح نامہ لکھے جانے تک تین دن تک دونوں فوجوں

______________________

(۱)،(۲)، تاریخ طبری ۳ جزء ۶ص۱۶َ،۱۳۔وقعہ صفین ص۲۴۶۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۵۴۔۱۵۳،شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۱۹۷۔ مروج الذہب ج۲ص۳۹۸۔----(۳) تاریخ طبری ج ۳جلد۶ص۳۱۔

۵۹۵

میں لڑائی ہوتی رہی اور تیسرے دن صلح نامہ مکمل ہوا لیکن ظاہراً جو ابن مزاحم کی کتاب وقعہ صفین میں تحریر ہے وہ یہ ہے کہ جنگ دسویں دن کے بعد بھی جاری رہی۔

مہینے کی شب پندرہویںکو ''لیلة الہریر'' کے نام سے یا د کیاہے ، عربی لغت میں ''ہریر'' کے معنیٰ کتوں کا تیز اوردردناک آواز میں بھونکنا ہے، کیونکہ معاویہ کی فوج اس رات امام علیہ السلام کی فوج کے حملے سے ایسے ہی چلا رہی تھی جیسے کتے چلاتے ہیں ،عنقریب تھا کہ معاویہ اور امویوں کی حکومت کا تختہ پلٹ جائے کہ اچانک عمروعاص نے دھوکہ اور فریب کے ساتھ اور امام کی فوج کے درمیان تفرقہ پیدا کرکے اس خونی اور سرنوشت ساز جنگ اور اس کو روک دیا بالآخر۱۷،صفر جمعہ کے دن واقعہ ''حَکمیّت''تک پہونچا اور جنگ وقتی طور پر روک دی گئی۔

جنگ صفین کے حادثات لکھنے والے مؤرخین نے دس دن تک حالات کو ترتیب سے لکھا ہے۔(۱) لیکن اس کے بعد کے حالات و حادثات کی ترتیب بدل گئی، تاریخ لکھنے والوں کو چاہیے کہ اپنے ذوق تاریخ شناسی کی روشنی میں واقعات کو ترتیب دیں ہم بھی ان چند دن میں ہوئے واقعات کو لیلة الہریرتک اپنے انداز سے تحریر کر رہے ہیں۔

______________________

(۱) مروج الذہب ج۲ص۳۹۰۔۳۸۷۔

۵۹۶

دسویں دن کا حادثہ

دسویں صفر کا سورج طلوع ہوا اور اپنی روشنی کو صفین کے میدان پر ڈالا جو خون کے تالاب کی طرح ہوگیاتھا ،شہادت کے عاشق اور امام علیہ السلام کے چاہنے والے یعنی ربیعہ قبیلے والے امام کے اطراف میں جمع تھے اور امام کا محاصرہ کئے ہوئے تھے، ان کے سرداروں میں سے ایک سردار اٹھا اور کہا ''من یبایعٰ نفسہُ علی الموتِ و یشری نفسہُ للّٰہ؟ کون ہے جو مرنے کے لئے بیعت کرے اور اپنی جان کو خداکے لئے بیچ دے ؟ اس وقت سات ہزار لوگ کھڑے ہوئے اور اپنے سردار کے ہاتھ پر بیعت کی اور کہا ،ہم اتنا آگے بڑھیںکہ معاویہ کے خیمے میں داخل ہوجائیں اور پیچھے پلٹ کر بھی نہ دیکھیں۔

ان کی محبت و الفت کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ان میں سے ایک شخص نے اٹھ کر کہا''لیس لکم عُذرفیِ العربِ اِن اصیب عِلیّ فیکم، ومنکم رجُل حتّیٰ'' ۔یعنی عربوںکے سامنے تم لوگ ذلیل ورسوا ہو جاؤگے اگر تم میں سے ایک آدمی بھی زندہ رہا اور امام علیہ السلام کو کوئی آسیب پہونچا جب معاویہ نے ''ربیعہ'' کی بہادری اور موعظہ و نصیحت کو دیکھا تو برجستہ اس کے منھ سے تعریفی جملے نکل پڑے اور یہ شعر پڑھا۔

اِذَاقُلتَ قد وَلّتْ ربیعةُ أقبلَتْ

کتائبُ منهم کالجِبالِ تجالد

اگر کوئی کہے کہ قبیلۂ ربیعہ نے میدان میں اپنی پشت دکھائی، تو اچانک ان میں سے کچھ گروہ پہاڑ کی طرح جنگ کرنے کیلئے تیار

۵۹۷

ہو جائیں گے۔(۱)

میمنہ کی فوج میں ترمیم

ربیعہ کی بہادری کے مقابلے میں قبیلۂ مضر نے بہت زیادہ وفاداری نہیں کی اور امام علیہ السلام کی میمنہ کی فوج اپنے سردار عبد اللہ بن بدیل کے قتل ہونے کی وجہ سے اور قبیلۂ مضَر کے افراد کے میدان سے بھاگنے کی وجہ سے شکست سے دوچار تھی، اس طرح سے کہ اس فوج کے سپاہی قلب لشکر سے جا ملے کہ جس کی سرداری خود امام علیہ السلام کررہے تھے۔ امام علیہ السلام نے میمنہ کی فوج میں بہتری اور سدھارکے لئے سہل بن حنیف کو اس فوج کا سردار بنا یا، لیکن حبیب بن مسلمہ کی سرداری میں شام کی فوج کے ہجوم نے میمنہ کے نئے سردار کو اتنی مہلت نہ دی کہ فوج کو منظم و مرتب کرتا، امام علیہ السلام جب قبیلۂ مضَر کی بد نظمی سے

باخبر ہوئے تو فوراً مالک اشتر کو اپنے پاس بلایا اور انہیں حکم دیا کہ یہ گروہ جس نے اسلامی روش کو بھلادیا ہے اس سے کہو''این فرار کم من الموت الذی لن تعجزوه الیٰ الحیاة الّتی لا تبقیٰ لکم؟'' کیو ں ایسی موت سے بھاگ رہے ہو جس کے مقابلے کی قدرت نہیں رکھتے اور جو زندگی ختم ہونے والی ہے اس کی طرف بھاگ رہے ہو ؟

مالک اشتر، میمنہ میں شکست کھا تے ہوئے لوگوں کے درمیان کھڑے ہوکر امام علیہ السلام کا پیغام پہونچانے کے بعد جوش وولولے والی تقریر میں کہا:''فان الفِرار فیه سلب العزّ والغلبة علیٰ الفَیئِ

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۴۲،۲۴۱۔ وقعہ صفین ص۳۰۶

۵۹۸

وذِلَُّ الحیاة و المماتِ و عار الدنیا والاخرة وسخط اللّٰه وألیم عقابِهِ''

''میدان جہاد سے فرار کرنا اپنی عزت کو برباد کرنا اور بیت المال کوا پنے ہاتھوں سے گنوا دینااور حیات و زندگی میں ذلت، اور دنیا و آخرت میں ننگ و عار، خدا کا قہر و غضب اور اس کا درد ناک عذاب ہے''۔

پھر فرمایا: اپنے دانتوں کو ایک دوسرے پر مضبوطی سے دبا لو اور اپنے سر کے ساتھ دشمن کے استقبال کے لئے بڑھواتنا کہنے کے بعد آپ نے میمنہ کی فوج کو منظم کیا اور خود حملہ شروع کر دیااور میسرۂ میں معاویہ کی فوج جو امام علیہ السلام کی میمنہ فوج کے مقابل تھی ، اسے پیچھے بھگا دیا یہاں تک کہ معاویہ کے قلب لشکر میں پہونچ گئے۔(۱)

شکست کے بعد میمنہ کی فوج کا مرتب ہونا امام علیہ السلام کی خوشحالی کا سبب ہوا، اسی وجہ سے آپ نے ان لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا''فألان فاصبر واانزلت علیکم الَسّکینة وثبّتکم اللّٰه بالیقین ولیعلم المنهزم بأنّه مُسخِط لِرَبّهِ و مُوْبقنفسه، وَفی الْفِرارِ مُوجَدَة اللّٰهِ عَلَیْهِ والذّلّ اللازمُ أوِالعارُالباقی، (۲)

''اس وقت صبر و سکون سے رہو کیونکہ ثبات اور آرام تمھارے لئے خداکی طر ف سے آیا اور تمھیں یقین کے ساتھ قائم رکھا اور جو لوگ شکست کھاچکے ہیں (میدان جنگ میںثابت قدم نہ رہے )وہ جا ن لیں کہ انہوں نے خود کو خدا کے غیظ و غضب اور بلاؤں میں گرفتار کیا ہے اور میدان جنگ سے بھاگنے والے پر خدا کا قہر اور ذلت ہوگی''۔

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۱۹۸،۱۹۷۔ وقعہ صفین ص۲۵۰۔ تاریخ طبری ۳، جزء ۶،ص۱۲

(۲)۔ تاریخ طبری ۳، جزء ۶ص۱۴

۵۹۹

قاتل کا گریہ

مأرب ایک شہر ہے جو شمال میں شرق صنعا کے پاس ہے وہ اس عظیم نہر جو ۵۴۲سے ۵۷۰ کے درمیان منہدم ہوئے بہت مشہور ہے، یمن کے قبیلے والوں نے اسی نہر کی برکت سے کافی ترقی کی اوروہ بہت اچھی کھیتی کرتے تھے ، مشہور طوفان،''عرم'' کے اثر سے نہر منہدم ہوئی جس کے بعد لوگ وہاں سےجزیرہ کے اِدھر اُدھر چلے گئے اور اس میں سے اکثر لوگ شام ،اردن ،فلسطین چلے گئے ،لیکن اپناقبیلہ چھوڑنے کے باوجود لوگ اپنے کو اسی قبیلے سے منتسب کرتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قبیلہ ازد، مضَر، کنِدہ، قضاعہ اور ربیعہ کے لوگ عراق میں اور اسی قبیلے کے کچھ لوگ شام ،اردن اور فلسطین میں زندگی بسر کررہے ہیں۔

فوج کو منظم کرتے وقت امام علیہ السلام کی سیاست یہ تھی کہ جس قبیلے کے لوگ بھی عراق میں زندگی بسر کررہے تھے تو دوسرے افراد کے سامنے وہی قبیلے کے لوگ کھڑے ہوں ، جو عراق کے علاوہ دوسری جگہوں پر زندگی بسر کر رہے تھے کیونکہ ممکن ہے کہ یہ آمنے سامنے کا مقابلہ بہتر ثابت ہو اور شدید خونریزی نہ ہو۔(۱)

ایک دن ''خثعم'' کے عبد اللہ نامی شامی سردارنے خثعم عراق کے رئیس سے ملاقات کرنےکی خواہش ظاہر کی، اور تھوڑے وقفہ کے بعد اس سے ملاقات ہوئی، شامی نے عرض کیا کہ خثعم قبیلے کے دونوں گروہ جنگ نہ کریں ، اور آئندہ کے لئے فکر کریں، دونوں فوجوں میں سے جو بھی کامیاب ہوئی ہم اس کی پیروی کریں ،لیکن ان دونوں سرداروں کی باتوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ عراقیوں میں سے کسی نے بھی اس کی باتوں پر توجہ نہیں دی،اور کوئی بھی راضی نہیں ہوا کہ امام علیہ السلام سے اپنی بیعت اٹھا لے،لہٰذا دونوں گروہوںمیں آمنے سامنے سے ایک ایک کر کے جنگ شروع ہوگئی ، وہب بن مسعود خثعمی عراقی، نے اپنے برابر کے شخص کو شامیوں میں سے قتل کر ڈالا اور اسی کے مقابلے میں خثعم شام کے ایک شخص نے عراق کے خثعمی پر حملہ کر دیا اور ابوکعب کو قتل کر دیا لیکن قتل کرنے کے فوراً بعد مقتول پر رونا شروع کردیا اور کہا میں نے معاویہ کی پیروی کرنے کی وجہ سے تجھے قتل کیا ہے جب کہ تو میرا قریبی عزیز تھا اور لوگوں سے زیادہ میں تم کو چاہتا تھا خدا کی قسم میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کروں، سوائے یہ کہ شیطان نے ہم لوگوں کو گمراہ کردیااور قریش نے ہمیں اپنا آلٰہ قرار دیدیا ہے اور ایک ہی قبیلے کے دوگروہوں کی آپسی جنگ میں ۸۰ لوگ دونوں طرف کے مارے گئے اور جنگ تمام ہوگئی۔(۲)

______________________

( ۱)معجم البلدان ج۵ص۳۵،۳۴------(۲) وقعہ صفین ص۲۵۸،۲۵۷۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۰۵،۲۰۴۔

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809