فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)4%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 362198 / ڈاؤنلوڈ: 6022
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

کرنے کی ضرورت نہیں ہے پھر اپنے گھوڑے کو موڑ کر میدان جنگ سے چلا گیا اس وقت دونوں فوجیں پیچھے ہٹ گئیں ا ور اپنی اپنی چھاؤنی میں واپس آگئیں۔(۱)

ماہ صفر ۳۸ھ کی پانچویں تاریخ اتوار کے دن دو دستے جن میں عراقیوں کی سرداری ابن عباس اور شامیوں کی سرداری ولید بن عقبہ کر رہے تھے میدان جنگ میں آئے اور دونوں کے درمیان زبردست جنگ ہوئی، ظہر کے وقت دونوں نے جنگ روک دی اور اپنے اپنے لشکر کے پاس واپس آگئے، ولید بن عقبہ نےجب عبدالمطلب کی اولاد کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو: ابن عباس نے اسے جنگ کے لئے بلایا لیکن اس نے جنگ کرنے سے گریز کیا اور میدان چھوڑ کر چلا گیا۔(۲)

فوج شام کے افراد اسلامی تاریخ اور واقعات سے بے بہرہ تھے ورنہ ان کی فوج کی سپہ سالاری ایسے شخص کے ہاتھ میں نہ ہوتی جس کو قرآن نے 'فاسق' اور نابکار سے یاد کیا ہے ولید وہی شخص ہے جس کے بارے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے''ان جاء کم فاسق بنباء فتبینّوا'' (سورۂ حجرات ۶) یعنی اگر کو ئی فاسق خبر لائے تو اسکی چھان بین کرو۔(۳) یہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں قرآن نے اس طرح توصیف کی ہے''اَفمن کان مومناً کمن کان فاسقاً لایستؤون'' (سورۂ سجدہ ۱۸) یعنی کیا جو شخص مومن ہے وہ اسی طرح ہے جس طرح فاسق ہے؟ ہرگز یہ دونوں برابر نہیں ۔(۴)

اس جنگ میں اگر چہ بہت سے افرادقتل ہوئے لیکن دونوں فوجیں بغیر کسی نتیجے کے اپنی اپنی چھاؤنی میں واپس آگئیں مگر امام علیہ السلام، عمار اور ابن عباس کی تقریروںسے شام کے لوگوں پر حقیقت واضح ہوگئی اور کم و بیش معاویہ کا جھوٹا اور بے بنیاد دعویٰ لوگوں پر ظاہر و روشن ہوگیا، یہی وجہ ہے کہ جنگ کے پانچویں دن شمر بن ابرہہ حمیری شام کے قاریوں کے کچھ گروہ کے ساتھ امام کے لشکر میں شامل ہوگیا ،ان لوگوں کا نور

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص ۲۲۲۔۲۲۱۔ کامل ابن اثیرج۳ص۵۰۔ تاریخ طبری ج ۳، جزئ۶ ص۷ ۔مروج الذہب ج ۲ ص۳۸۸۔

(۲) وقعہ صفین ص ۲۲۲۔۲۲۱۔ کامل ابن اثیرج۳ص۵۰۔ تاریخ طبری ج ۳ جزئ۶ ص۷ ۔مروج الذہب ج ۲ ص۳۸۸۔

( ۳) تما م اسلامی مفسرین نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

(۴)اس آیت کے شان نزو ل کے متعلق، تفسیر الدر المنثورا ور برہان کی طرف رجوع کریں۔

۵۸۱

کی طرف آنا تاریکی کی علامت تھی جو شام کی فوج پر چھائی ہوئی تھی اس سے معاویہ کو بہت بڑا دھچکا لگا ،اس کے تکرار سے سخت خوفناک تھا۔

عمرو عاص نے معاویہ سے کہا:تو چاہتا ہے کہ ایسے شخص سے جنگ کرے جو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قریبی رشتہ دار ہے ، اسلام میں ثابت قدم اور استوار ہے، فضلیت و معنویت اور جنگ کے اسرار و رموز جاننے میں بے مثال ہے، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص لوگوں میں سے ہے اوربہادر ساتھیوں ، قاریوں اور شریف ترین لوگوں کے ساتھ تم سے جنگ کرنے آیا ہے اور مسلمانوں کے دلوں میں اس کی ہیبت و بزرگی چھائی ہے،تو تجھ پر لازم ہے کہ شامیوں کو اہم جگہوں اور علاقوں میں معین کرو اور اس سے پہلے کہ جنگ کی مدت طولانی ہونے کی وجہ سے وہ افسردگی اور رنجیدگی کا احساس کریں ان لوگوں کولالچ دو اور جو چیز بھی بھولنا چاہو بھول جاؤ مگر یہ نہ بھولنا کہ تم باطل پرہو۔

معاویہ نے بوڑھے مکار سیاسی کی باتوں سے نصیحت لی اور سمجھ گیا کہ شامیوں کو میدان جنگ کی طرف مائل کرنے کا ایک طریقہ دین اور تقوی و پرہیزگاری کا اظہار کرنا بھی ہے اگرچہ ان کے دلوں میں اس کا کچھ اثر نہ ہو،یہی وجہ تھی کہ اس نے حکم دیا کہ ایک منبر بنایا جائے اور شام کے تمام سرداروں کو اپنے پاس بلایا اور منبرپر گیا اورپھر بڑے ہی رنجیدہ دل سے دین و مذہب کے لئے مگرمچھ کی طرح آنسو بہایا اور کہا:

اے لوگو : اپنی جانوں اور سروں کو میرے سپرد کردو ، سست نہ ہونا اور مدد کرنے میں کوتاہی نہ کرناآج کا دن خطرناک دن ہے حقیقت اور اس کی حفاظت کا دن ہے تم لوگ حق پر ہو اور تمھارے پاس دلیل ہے تم لوگ اس سے جنگ کررہے ہو جس نے بیعت کو توڑا ہے اور خون حرام بہایا ہے اور آسمان پر کوئی بھی اس کو معذور نہیں سمجھتا۔

پھر عمر و عاص منبر پر گیا اور معاویہ کی طرح سے تقریر کی اور پھر منبر سے اتر گیا۔(۱)

______________________

۱۔ وقعہ صفین ص ۲۲۲۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ص۱۸۰۔

۵۸۲

امام علیہ السلام کی تقریر

امام علیہ السلام کو خبر ملی کہ معاویہ اپنے مکر و فریب کے ذریعے دین کا لبادہ پہن کرشامیوں کو جنگ کی

دعوت دے رہا ہے لہذا آپ نے حکم دیا کہ سب کے سب ایک جگہ جمع ہوجائیں ، راوی کہتا ہے کہ میں نے امام کو دیکھا جو اپنی کمان پر ٹیک لگائے ہیں اور پیغمبر(ص)کے دوستوں کو اپنے پاس جمع کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام ساتھی ان کے ہمراہ ہیں پھر آپ نے خدا کی حمد و ثناء کی اور کہا:

اے لوگو! میری باتوں کو غور سے سنو اور اسے یاد کرلو۔ خود خواہی سر کشی کی وجہ سے ہے اورکبرو نخوت خود بینی سے اور شیطان تمھاراابھی کا دشمن ہے جو تمھیں باطل کا وعدہ دے رہا ہے ،آگاہ ہوجاؤکہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے اسے برا بھلا نہ کہو اس کی مدد کرنے سے گریز نہ کرو، شریعت ودین ایک ہے اور اس کے راستے بھی ہموار ہیں جس نے بھی اس سے تمسک کیا وہ اس سے ملحق ہوگیا اور جس نے اسے ترک کیا وہ اس سے خارج ہوگیا اور جو بھی اس سے جدا ہوگا وہ نابود ہوجائے گااور جو شخص امین کے نام سے مشہور ہو اور خیانت کرے ، وعدہ کرے مگر خلاف ورزی کرے، بات کرے مگر جھوٹ بولے، وہ مسلمان نہیں ہے، ہم خاندان رحمت ہیں ہماری باتیں سچی اور ہمارے کردار سب سے اچھے ہیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آخر الزمان ہم میں سے ہیں اور اسلام کی رہبری بھی ہمارے ہی پاس ہے،خدا کی کتاب کے قاری ہم ہی ہیں۔میں تمھیں خدا اور رسول(ص)کی طرف اور ان کے دشمنوں سے جہاد کرنے، اور اس کی راہ میںثابت قدم رہنے اور اس کی مرضی حاصل کرنے، نماز قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے ، اور خدا کے گھر کی زیارت کرنے،اور رمضان المبارک میں روزہ رکھنے ، اور بیت المال کواس کے اہل تک پہونچانے کی دعوت دیتا ہوں۔

۵۸۳

یہ بھی دنیا کے لئے تعجب ہے کہ معاویہ اور عمرو عاص دونوں اس لائق ہوگئے کہ لوگوں کو دینداری کی طرف رغبت دلائیں! تم لوگ جانتے ہو کہ میں نے کبھی بھی پیغمبر (ص)کی مخالفت نہیں کی بلکہ وہ مقامات جہا ں پر بڑے بڑے بہادر پیچھے ہٹ گئے اور ان کے بدن خوف کے مارے کانپنے لگے میں نے اپنی جان کوپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے سپر قرار دیااس خدا کا شکر جس نے ہمیں یہ فضلیت بخشی، پیغمبر (ص)کی روح پرواز کر گئی جب کہ ان کا سر میری آغوش میں تھا ، اور صرف تنہا میں نے ان کو غسل دیا اور مقرب ترین فرشتے آپ کے جسم اطہر کو اِدھر سے ادھر پلٹتے تھے، خدا کی قسم کسی بھی پیغمبر کی امت اس کی رحلت کے بعد اختلاف کا شکار نہ ہوئی مگر یہ کہ اہل باطل حق والوں پر غالب آگئے ۔(۱)

جب امام علیہ السلام کی تقریر یہاں تک پہونچی تو ، بزرگ و باایمان اور وفادار دوست عمارنے لوگوں کی طرف نگا ہ کی اور کہا، امامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تم لوگوں کو آگاہ کردیا ہے کہ امت نے نہ تو شروع ہی میں صحیح راستہ اپنایا اور نہ ہی آخر میں صحیح راستہ اپنایا۔

ابن مزاحم کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ۶،صفر ۳۸ دو شبنہ کے دن شام کے وقت تقریر کی تھی اور آخر کلام میں تما م سپاہیوں سے مطالبہ کیا کہ فساد کو جڑ سے اکھاڑدیں۔ اسی وجہ سے ۷،صفر منگل کے دن تمام سپاہیوں کو ایک بڑے حملے کے لئے آمادہ کیا اور خطبہ ارشاد فرمایا جس میں جنگ کے اسرار و رموز کی تعلیم دی ۔(۲)

_______________________________

(۱)،(۲)وقعہ صفین ص۲۲۴۔۲۲۳۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ص۱۸۲۔۱۸۱

۵۸۴

اٹھارہویں فصل

اجتماعی حملے کا اغاز

جنگ صفین شروع ہوئے آٹھ دن گزر گئے اور چھٹ پٹ حملے اور بہادر سرداروں کی رفت و آمد سے کوئی نتیجہ نہ نکلا ، امام علیہ السلام اس فکر میں تھے کہ کس طرح سے نقصان کم ہو اور ہم اپنے مقصد تک پہونچ جائیں آپ اس بات سے بھی مطمئن تھے کہ محدود جنگ قتل و غارت گری کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں رکھتی اسی وجہ سے آپ نے ماہ صفر کی آٹھویں رات (شب چہار شنبہ) کو اپنے اصحاب کے درمیان تقریر فرمائی:

''اس خدا کا شکر کہ اگر اس نے کسی چیز کو شکست دی تو اسے مستحکم نہیں کیا اور جس چیز کو مستحکم کر دیا اُسے شکست نہیں ہو سکتی، اگر وہ چاہتا تو اس امت سے دو آدمی یا پوری امت اختلاف نہیں کرتی،اور کوئی شخص بھی کسی بھی امر میں جو اس سے مربوط ہے اختلاف نہیں کرتا ، اور مفضول ،فاضل کے فضل وکرم سے انکار نہیں کرتے، تقدیر نے ہمیں اس گروہ کے سامنے کھڑا کر دیا ہے ۔

سب کے سب خدا کی نگاہوں اور اس کے حضور میں ہیں اگر خدا چاہتا تو عذاب کے نزول میں جلدی کرتا ، تاکہ ستمگروں کو جھٹلا سکے، اور حق کو آشکار کرے اس نے دنیا کو کردار کا گھر اور آخرت کو اجرو ثواب کا گھر قرار دیا تاکہ بدکاروں کو ان کے برے کردار کہ وجہ سے عذاب اور اچھے لوگوں کو ان کے اچھے کردار کی وجہ سے اجر و ثواب دے، آگاہ ہوجاؤ اگر خدانے چاہا تو کل د شمن سے مقابلہ ہوگا لہذا اس رات خوب نماز پڑھو اور بہت زیادہ قرآن پڑھو، اور خدا وند عالم سے ثابت قدمی اور کامیابی کی دعا کرو اور کل دشمنوں سے احتیاط اور پوری بہادری کے ساتھ لڑنا ،اور اپنے کام میں سچے رہو۔امام علیہ السلام نے یہ باتیں کہیں اور وہاں سے چلے گئے پھر امام علیہ السلام کے تمام سپاہی تلوار و نیزہ وتیر کی طرف گئے اور اپنے اپنے اصلحوں کو صحیح کرنے لگے۔(۱) امام علیہ السلام نے آٹھ صفر بدھ کے دن حکم دیاکہ ایک آدمی شام کی فوج کے سامنے کھڑا ہو اور

______________________

(۱)وقعہ صفین ص ۲۲۵۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۵ص۱۸۲۔ تاریخ طبری ج ۳ جزئ۶ ص۸ ۷ ۔ کامل ابن اثیرج۳ص۱۵۰۔

۵۸۵

عراق کی فوج کی طرف سے جنگ کا اعلان کرے۔

معاویہ نے بھی امام علیہ السلام کی طرح اپنی فوج کومنظم کیا اور اسے مختلف حصّوں میں تقسیم کردیا،اس کی فوج حمص، اردن اور قنسرین کے لوگوں پر مشتمل تھی اور معاویہ کی جان کی حفاظت کے لئے شام کے لوگوں نے ضحاک بن قیس فہری کی سرپرستی میں ذمہ داری لی اور اس کو اپنے حلقے میں لے لیا ، تاکہ دشمن کو قلب لشکر ، جہاں معاویہ کی جگہ تھی پہونچنے سے روک سکیں۔

معاویہ نے جس انداز سے فوج کو مرتب کیا تھاوہ عمرو عاص کو پسند نہ آئی اور اس نے چاہا کہ معاویہ کی فوج کو منظم کرنے میں مدد کرے لہذااسے وہ وعدہ یاد دلایا جو دونوں نے آپس میں کیا تھا، (یعنی فتح و کامیابی کے بعد مصر کی حکومت اس کی ہوگی)عمرو نے کہا: حمص کی فوج کی سرداری میرے سپر د کرو اور ابوالاعور کو ہٹادو ۔ معاویہ اس کی اس فرمائش پربہت خوش ہوا اور فوراً ایک شخص کو حمصیوں کے پاس بھیجا اور پیغام بھیجوایا کہ عمرو عاص جنگ کے امور میں تجربہ رکھتا ہے جو ہم اور تم نہیں رکھتے ، میں نے اسے سواروں کا سردار بنایا ہے لہذا تم دوسرے علاقے میں جاؤ۔

عمرو عاص نے حکومت مصر کی امید میں اپنے دونوں بیٹوں عبداللہ اور محمد کو بلایااور اپنے تجربہ اور اپنے اعتبار سے فوج کو منظم کیا اور حکم دیاکہ زرہ پہنے ہوئے سپاہی فوج کے آگے اور جو زرہ

نہیں پہنے ہیں وہ فوج کے پیچھے کھڑے ہوں، اور پھر اپنے دونوں بیٹوں(۱) کو حکم دیا کہ فوج کے درمیان معائنہ کریں اور فوج کے نظم و ترتیب کا خاص خیال رکھیں اسی پراکتفاء نہیں کیا بلکہ خود فوج کے درمیان ٹہلنے لگااور اس کے نظم و ترتیب پرنگاہ رکھی اور اسی طرح معاویہ فوج کے درمیان منبر پر بیٹھ گیااور اس کی حفاظت کی ذمہ داری یمن کے لوگوں نے لی اور حکم دیا کہ جو شخص بھی منبر کے نزدیک ہونے کا ارادہ کرے فوراً اسے قتل

______________________

(۱) یہاں اس بات کی یاددہانی کرناہے کہ عمر و عاص کے دونوں بیٹے ظاہری طور پرزاہد نما تھے.جو ابتداء میں باپ کو ابوسفیان کے بیٹے کی حمایت سے روک رہے تھے لیکن اس وقت ان کے سچے اور گہرے دوست ہیں یہ واقعہ ہمیں اس مثال کی یاد دلاتا ہے جوعربی اور فارسی(اور اردو ، رضوی) زبان میں رائج ہے۔(ھل تلد الحیة الاالحیة) یعنی کیا سانپ کا بچہ سانپ کے علاوہ ہو سکتا ہے ۔یافارسی کی مثال، عاقبت گرک زادہ گرک شود۔گرچہ با آدمی بزرگ شود۔ بھیڑیئے کا بچہ بھیڑیا ہوگا اگرچہ وہ آدمی کے ساتھ ہی کیوں نہ بڑاہوا ہو۔

۵۸۶

کردینا۔(۱) جب بھی جنگ کا مقصد قدرت اور حاکمیت ہوگا تو اس وقت اپنی حفاظت کے لئے گروہ کا انتظام ہوگا ،لیکن اگر ہدف اور مقصد معنوی ہوگا تو ہدف کی خاطر اگر جان بھی دینی پڑے تو کوئی پرواہ نہیں ہوگی لہذا نہ تو کسی نے امام کی حفاظت کی ذمہ داری لی بلکہ امام علیہ السلام سیاہ رنگ کے گھوڑے پر سوار حکم دیتے تھے اور فوج کی رہبری بھی کر رہے تھے اور اپنے بلند نعروں سے شام کے بہادروں کو لرزہ براندام(تھرتھرانا) کر دیتے تھے اور اپنی تیز تلوار سے لوگوں کو دور کرتے تھے۔

رہبری کے طریقے میں اختلاف، مقصد کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہے اور شہادت کا طلب کرنا آخرت پر ایمان اور اس کی حقانیت پر اعتقاد رکھنا ہے، جب کہ موت سے خوف اور دوسروں کو اپنی جان کی حفاظت کے لئے قربان کرنا دنیاوی زندگی سے محبت والفت اور ماوراء مادہ سے انکار کرنا ہے اور حیرت کی بات تویہ ہے کہ عمروعاص کے بیٹے نے ان چیزوں کا اعتراف بھی کیا اور امام علیہ السلام

کی فوج کے بارے میں یہ کہا''فان هوٰلائِ جاؤوا بخطّةٍ بلغت السمائ'' یہ لوگ آسمانی ہدف لے کر میدان میں آئے ہیں اور شہادت سے خوف نہیں رکھتے ۔

عاص کے بیٹے کی معاویہ کے ساتھ خیرخواہی اور مدد اس سے محبت و الفت اور فتح و کامیابی کی بناپر نہ تھی بلکہ وہ ہرطرف سے اپنے فائدے کے لئے اسے کامیابی سے ہمکنار کرانا چاہتا تھااورمعاویہ سے اظہار نظر اور مشورہ کرکے اکثر اسے یاد دلاتا تھا اور جوباتیں ان دونوں کے درمیان ہوئیں وہ اس حقیقت کو بیا ن کرتی ہیں۔

معاویہ:جتنی جلدی ہو فوج کی صفوں کومنظم کرو۔

عمر وعاص:اس شرط کے ساتھ کہ میری حکومت میرے لئے ہو۔

معاویہ،اس خوف سے کہ عمروعاص اما م کے بعد اس کا رقیب نہ ہوجائے فوراً پوچھا کون سی حکومت؟کیا حکومت مصر کے علاوہ دوسری چیز چاہتا ہے؟

عمرو عاص نے جوپرانا سیا ستبازا اور غیر متقی سوداگرتھانے اپنے چہرے پر تقوے کا ماسک لگاکر کہا کیا

______________________

(۱)وقعہ صفین ص ۲۲۶۔ شرح نہیج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۱۸۲۔

۵۸۷

مصر، جنت کے عوض ہو سکتا ہے؟ کیا علی کو قتل کرکے عذاب جہنم کی مناسب قیمت جس میںہر گز آرام نہیں ہوگا ،ہوسکتی ہے؟

معاویہ نے اس خوف سے کہ کہیں عمرو کی بات فوج کے درمیان پھیل نہ جائے اس سے کہا ذرا آہستہ آہستہ، تیری گفتگو کوئی اور نہ سن لے۔

جی ہاں،عمروعاص مصر کی حکومت کی آرزو میں شام کے لوگوں کی طرف متوجہ ہوا اورکہا:

اے شام کے سردارو، اپنی صفوں کو مرتب کرو اور اپنے سروں کو اپنے خدا کو ہدیہ کر دو، اور خدا سے مدد طلب کرو اور خدا کے دشمن اور اپنے دشمن سے جنگ کرو ان لوگوں کو قتل کرو تاکہ خدا ان لوگوں کو قتل کرے اور انھیں نابود کردے ۔(۱)

اور اُدھر جیسا کہ گزر چکا ہے اس دن امام علیہ السلام نے ایک گھوڑا طلب کیا لوگ آپ کے لئے(شبرنگی) گھوڑا لائے جو طاقت کی وجہ سے مسلسل کود رہاتھا اور دو لگاموں سے کھینچا جاتا تھا۔ امام علیہ السلام نے اس کی لگام اپنے ہاتھ میں لی اور اس آیت کی تلاوت فرمائی :

( سبحان الذی سخّرلنا هذا وماَ کُنّٰا له مقرنین وانّااِلیٰ ربّنا لمنقلبون ) ''پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لئے آمادہ کیا جسکی ہمارے پاس طاقت و قدرت نہ تھی اور سب کے سب اس کی بارگاہ میں واپس جائیں گے''۔(زخرف ۱۳ )

پھر آپ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا اور کہا:

''اللّٰهم اِلیک نُقِلَتِ الاقدامُ وأُ تْعِبَتِ الا بدانُ و أ فضتِ القلوبُ و رفعتِ الأ یدی و شُخِصَتِ الأ بصار.........اللّٰهم انّا نشکُوٰ ألیکَ غیبة نبیّنٰا وکثرةعدوّنا وتشتّت أ هوا ئنٰا.ربنّا افتح بیننٰا وبینَ قومِنٰابالحقِّ وَ اَنتَ خیر الفاتحِینَ (۲)

خدا یا: تیری ہی طرف قدم اٹھتے ہیں اور بدن رنج وغم میں گرفتار ہوتے ہیں اور دل تیری طرف متوجہ

ہوتے ہیںاور ہاتھ بلند ہوتے ہیں اور آنکھیں کھلی رہتی ہیں........خدایا:ہم اپنے پیغمبر کے نہ رہنے کا شکوہ

______________________

(۱)،(۲) وقعہ صفین ص۲۳۱،۲۳۰۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۱۷۶

۵۸۸

اور دشمنوں کی زیادتی اور اپنی آرزؤوں کے بکھرنے کاتیری بارگاہ میں شکوہ کرتے ہیں خداوندا ہمارے اور اس قوم کے درمیان حقیقی فیصلہ کر کیونکہ تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔بالآخر ۸صفر بدھ کے دن باقاعدہ حملے کا آغاز ہوا اور صبح سویرے سے را ت تک حملے ہوتے رہے اور دونوں فوجیں بغیر کسی کامیابی کے اپنی اپنی چھاؤنی میں واپس آگئیں۔جمعرات کے دن امام علیہ السلام نے نما ز صبح تاریکی میں پڑھی اور پھر دعاپڑھنے کے بعد خود

حملہ شروع کیا ، آپ کے ساتھی بھی چاروں طرف سے جنگ کرنے لگے۔(۱)

حملے سے پہلے اما م علیہ السلام نے جو دعا پڑھی اس کا کچھ حصہ یہ ہے۔

''ان اظهرتنٰا علیٰ عدوّنا فجنبنا الغ و سدِّ دنٰا للحقِّ،واِن اظهر تَهُم علینٰا فَارزُقنا الشّهٰا دَة وَ اعصِم بقیَّةَ أصحابی مِنَ الفتنة'' (۲)

''پروردگار ! اگر ہمیں اپنے دشمنوں پر کامیاب کیا تو ہم سب کو ظلم و ستم سے دور رکھ اور ہمارے قدموں کو حق کے راستے پر چلا، اور اگر وہ سب ہم پر کامیاب ہوئے تو ہم لوگوں کو شہادت نصیب فرمااور جو ہمارے دوست باقی بچیں انہیں فتنہ سے محفوظ رکھ''

امام علیہ السلام کے لشکر کے سرداروں کی شعلہ ور تقریریں

فوج کے بزرگوں اور سرداروں کی تقریریں بہت بڑی تبلیغ کا کام کرتی ہیں بسا اوقات، ایک فوج کی تقریر دشمن کو نابود اور خود اپنے لئے کامیابی کے مقدمات فراہم کر دیتی ہے، اسی وجہ سے ، جمعرات ۹ صفر اجتماعی حملے کے دوسرے دن امام علیہ السلام کی فوج کی بزرگ شخصیتوں نے تقر یریں کیں ، امام کے علاوہ عبد اللہ بن بدیل(۳) سعید بن قیس(۴) (ناصرین کے علاقہ میں) اور مالک اشتر جیسی بزرگ

_______________________________

(۱)تاریخ طبری ۳، جزء ۶ص۸۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۵۱-----(۲) وقعہ صفین ص۲۳۲

(۳) وقعہ صفین ص۲۳۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵ص۱۸۶

(۴)وقعہ صفین ص۳۴۷۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵ص۱۸۸

۵۸۹

شخصیتوں(۱) نے تقریر کی اور ہر شخص نے ایک خاص طریقے سے امام علیہ السلام کی فوج کو شامی دشمن کی فوج پر حملہ کرنے کی تشویق دلائی، اسی درمیان بہت سے واقعات رونما ہوئے جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۔ کون ہے جو اس قرآن کو اپنے ہاتھ میں لے؟

علی علیہ السلام قبل اس کے کہ جنگ کا آغاز کرتے اتمام حجت کے لئے اپنے سپاہیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: کون ہے جو اس قرآن کو اپنے ہاتھوں میں لے اور ان شامیوں کو اس کی طرف دعوت دے؟ سعید نامی نوجوان اٹھا اور اس نے ذمہ داری لی امام علیہ السلام نے دوسری مرتبہ پھر اپنی بات دہرائی اور پھر و ہی نوجوان اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا اے امیرالمومنین میں حاضر ہوں، اس وقت علی علیہ السلام نے قرآن اس کے حوالے کیا وہ معاویہ کی فوج کی طرف روانہ ہوا ان لوگوں کو خدا کی کتاب اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دی، تھوڑی دیر بھی نہ گذری تھی کہ دشمن کے ہاتھوں شھید ہوگیا(۲)

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۲۴۱۔۲۳۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵ص۱۹۱۔۱۹۰

(۲)وقعہ صفین ص ۲۴۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵ص۱۹۴

۵۹۰

۲۔ دوحُجر کی جنگ:

حُجر بن عدی کندی ان شخصیتوں میں سے ہیں جو پیغمبر کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور ان کے ذریعے مسلمان ہوئے اس کے بعد علی علیہ السلام کے مخلصوں اور ان دفاع کرنے والوں کی صف میں تھے بالآخر اسی راہ میں اپنی جان دے دی معاویہ کے ظالم جلادوں کے ہاتھوں امام علیہ السلام کے کچھ مخلصوں کے ہمراہ ''مرج عذرائ'' (جو شام سے ۲۰ کلومیڑ دوری پر واقعہ ہے) میں قتل ہوگئے اور تاریخ نے انھیں ''حُجر الخیر'' کے نام سے یاد کیا جبکہ ان کے چچا حُجر بن یزید کو تاریخ نے ''حُجر الشّر'' کے نام سے یاد کیا ۔

اتفاق سے اس دن یہ دونوں حُجر جو کہ آپس میں قریبی عزیز بھی تھے میدان جنگ میں روبرو

ہوئے، مبارزہ کی دعوت حُجر الشّر کی طرف سے شروع ہوئی اوراس وقت جبکہ یہ دونوں اپنے اپنے نیزوں سے جنگ کرنے میں مصروف تھے معاویہ کی فوج سے ایک شخص خزیمہ، حُجر بن یزید کی مدد کیلئے دوڑا اور حُجر بن عدی پر نیزہ مارا اس موقع پر حُجر کے کچھ ساتھیوں نے خزیمہ پر حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا لیکن حجر بن یزید

۵۹۱

میدان چھوڑ کربھاگ گیا۔(۱)

۳۔ فوج شام کے میسرہ پر عبداللہ بن بدیل کا حملہ

عبد اللہ بن بدیل خزاعی امام علیہ السلام کے لشکر کے بلند پایہ افسر تھے وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جلیل القدر صحابی اور نفس کی پاکیزگی اور بہادری اور زبردست جنگ کرنے والوں میں مالک اشتر کے بعد مشہور تھے۔

میمنہ کی فوج کی ذمہ داری انھی کے ہاتھ میں تھی اور میسرہ کی سرداری عبد اللہ بن عباس کے ذمہ تھی، عراق کے قاری عمار یاسر، قیس بن سعد او رعبداللہ بن بدیل کے بارے میں ہوے(۲)

عبد اللہ ، حملہ شروع کرنے سے پہلے اپنے دوستوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : معاویہ نے ایسے مقام و منصب کا دعویٰ کیا ہے جس کا وہ اہل نہیں ہے، مقام ومنصب کے حقیقی وارثوں سے لڑائی کے لئے اٹھا ہے اور باطل اور غلط دلیلوں کے ساتھ حق سے لڑنے آیا ہے ،اس نے عربوں(بدو) اور مختلف لوگوں کو ملا کر فوج تشکیل دی ہے اور گمراہی کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔یہاں تک کہنے کے بعد کہا:

''وأنتم واللّه علیٰ نورٍ من ربّکم وبرهان مبین، قاتلواالطغاةَ الجفاةَ ولا تخشوهُم وکیفَ تخشَونَهم وفی أید یکم کتاب من ربّکم ظاهر منور وقدقاتلتهُم مع التبیُّ واللّه مٰا هم فی هٰذهِ بأزکیٰ ولاٰ أ تقٰی ولاٰأبَرّ ،قُو مواُ اَلیٰ عدوِّ اللّٰه وعدوِّکم''(۳)

خدا کی قسم تم لوگ خدا کے نور کے سایۂ میں اور روشن دلیل ہو۔ اس جفا کار اور سرکش کے ساتھ جنگ کرو سے خوف نہ کرو، اس سے کیوں ڈرو جب کہ تمھارے ہاتھ میں خدا کی کتاب ہے جو واضح اور سب کی نظر میں مقبول ہے تم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس سے جنگ کی ہے خدا کی قسم ان کا حال ماضی سے بہتر نہیں ہے، اٹھو اور خدا کے دشمن اور اپنے دشمن سے جنگ کرنے کے لئے روانہ ہوجاؤ ۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۲۴۳ ۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدید ج۵ص۱۹۶۔۱۹۵-----(۲)کامل ابن اثیرج ۳ ص ۱۵۱

(۳) وقعہ صفین ص۲۳۴ ۔ تاریخ طبری ج ۳جزء ص۹۔ کامل ابن اثیرج۳ص۱۵۱ (تھوڑے فرق کے ساتھ)

۵۹۲

میمنہ کی سرداری عبد اللہ کے حوالے تھی اس کے باوجود انہوں نے دو زرہ پہنی اور دو تلواریں (دونوں ہاتھوںمیں ) لیں اور حملہ شروع کردیا اور پہلے ہی حملہ میں معاویہ کی فوج کو راستے سے ہٹادیا اور حبیب بن مسلمہ جوفوج شام کے میسرہ کا سردار تھا،کے لشکر کو شکست دیدی ،ان کی پوری کوشش یہ تھی کہ خود کو معاویہ کے خیمے تک پہونچا دیں اور اس ام ّالفساد کو درمیان سے ختم کردیں معاویہ کے تمام نگہبان جنہوں نے اپنی جان قربان کرنے کا عہد کیا تھا، پانچ صف کی صورت میںیا بقولے پانچ دیوار کی طرح اس کے اطراف میں محاصرہ کئے ہوئے تھے اور ان کو بڑھنے سے روک رہے تھے لیکن یہ دیواریں بہت بڑی مشکل نہ بنیں، بلکہ ایک کے بعد ایک گرتی رہیں عبدا للہ کا حملہ بہت زبردست تھالیکن اس سے پہلے کہ خود کو معاویہ کے خیمہ تک پہونچاتے قتل کر دئیے گئے۔(۱)

اس سلسلے میں جریر طبری نے اپنی ''تاریخ'' میں ابن مزاحم (مؤلف وقعہ صفین) سے زیادہ تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، وہ لکھتا ہے:عبداللہ دشمن کی فوج کے میسرہ کے ساتھ جنگ کرنے میں مشغول تھا اور مالک اشتر بھی میمنہ پر حملہ کر رہے تھے، مالک اشتر جو کہ زرہ پہنے ہوئے تھے اپنے ہاتھ میں ایک یمنی ڈھال نما لوہے کا ٹکڑا لئے ہوئے تھے جب اس کو جھکاتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ اس سے پانی برس رہا ہے اور جب اسے اونچا کرتے تھے تو اس کی چمک سے آنکھیں خیرہ ہو جاتی تھیں۔انھوں نے اپنے حملے میں میمنہ کو تہ وبالا کردیا اور ایسے مقام پر پہونچے جہاں عبد اللہ بن بدیل قاریوں کے گروہ جن کی تعداد تقریباً تین سو،(۲) کے آس پاس تھی موجود تھے، انہوں نے عبد اللہ کے دوستوں کو میدان میں ڈٹا ہوا پایا مالک اشتر نے ان کے اطراف سے دشمنوں کو دور کیا وہ لوگ مالک اشتر کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فوراً امام کے حالات دریافت کئے اور جب ان لوگوں نے جواب میں سنا کہ امام علیہ السلام صحیح و سالم ہیں اور میسرۂ میں اپنی فوج کے ساتھ جنگ کرنے میں مصروف ہیں تو شکرخدابجالائے۔

ایسی حالت میں عبد اللہ نے اپنے کم ساتھیوں کے باوجود بہت زیادہ اصرا ر کیا کہ آگے بڑھیں، معاویہ کے نگہبانوںکو قتل کرنے کے بعد خود معاویہ کو قتل کردیں،لیکن مالک اشتر نے انہیں پیغام دیا کہ آگے

______________________

(۱) وقعہ صفین ص۲۴۸

(۲)ابن مزاحم نے وقعہ صفین میں ان کی تعداد سو آدمی لکھی ہے۔

۵۹۳

نہ بڑھیںاور جس جگہ پر ہیں وہیں ٹھہرے رہیں اور اپنا دفاع کریں۔(۱) لیکن ان کا خیال تھا کہ وہ ایک بجلی کی طرح تیز حملے سے نگہبانوں کو ختم کرکے معاویہ تک پہونچ جائیں گے، اسی وجہ سے وہ آگے بڑھتے رہے اور چونکہ دونوں ہاتھوں میں تلوار لئے تھے اپنے دوستوں کے ہمراہ حملہ شروع کردیا اور جو بھی سامنے آتا تھا ایک ہی حملے میں اس کا کام تمام کردیتے تھے اور اس قدر آگے بڑھے کہ معاویہ کو مجبوراً اپنی جگہ بدلنی پڑی۔(۲)

عبد اللہ کے حملے کی خوبی یہ تھی کہ وہ نگہبانوں سے لڑتے وقت یالثارات عثمان،، کا نعرہ بلند کر رہے تھے اس نعرے سے ان کا مقصد ان کا وہ بھائی تھا جو اسی جنگ میںمارا گیا تھا لیکن دشمنوں نے اس سے دوسری چیزسمجھا اور بہت تعجب میں پڑے تھے کہ عبد اللہ کس طرح سے لوگوں کو عثمان کے خون کا بدلہ لینے کی دعوت دے رہے ہیں۔!

بالآخر نوبت یہاں تک پہونچی کہ حقیقت میں معاویہ کو اپنی جان خطرے میں نظر آئی اور کئی مرتبہ اپنی میمنہ کی فوج کے سردار حبیب بن مسلمہ کے پاس پیغام بھیجا کہ مدد کو پہونچے لیکن حبیب کی ساری کوششیں بے کار ہوگئیں۔ اور عبد اللہ کو ان کے مقصد تک پہونچنے سے روک نہ سکا ،معاویہ کے خیمے سے وہ بہت کم فاصلے پر تھے معاویہ نے جب کوئی سبیل نہ دیکھی تو نگہبانوں کو حکم دیا کہ ان کے اوپر پتھر مارو اور ان سے جنگ کرو، اور یہ طریقہ مؤثر واقع ہوااور نگہبانوں نے پتھر مار کر عبد اللہ جن کے ہمراہ بہت کم لوگ تھے زخمی کر دیا اور وہ زخمی ہوکر زمین پر گر پڑے ۔(۳)

جب معاویہ نے اپنی جان کو خطرے سے باہر پایا توخوشی سے پھولے نہیں سمایااورعبداللہ کے سراہنے آیا، ایک شخص جس کا نام عبد اللہ بن عامر تھا اور معاویہ کے قریبی لوگوں میں سے تھا اپنے عمامہ کو عبد اللہ کے چہرے پر ڈال دیا اور اس کے لئے دعائے رحمت کی، معاویہ نے بہت اصرار کیا کہ اس کا چہرہ کھول دے مگر اس نے نہیں کھولا کیونکہ وہ اس کا دوست تھا، معاویہ نے اس سے وعدہ کیا کہ میں اِسے مُثلہ

_______________________________

(۱)کامل ابن اثیرج۳ص۱۵۳

(۲)تاریخ طبری ج ۳جزئ۶ص۱۰۔کامل ابن اثیرج۳ص۱۵۲،۱۵۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدید ج۵ص۱۹۶

(۳)وقعہ صفین ص ۲۴۶۔۲۴۵

۵۹۴

(جسم کے ٹکڑے کاٹنا) نہیں کروں گا، اس وقت اُسے امام کے بہادر سردار کا چہرہ دیکھنا نصیب ہوا،جیسے ہی معاویہ کی نگاہ عبد اللہ کے چہرے پر پڑی اس نے برجستہ کہا:

''هذاواللّٰه کبشُ القومِ.وربِّ الکعبةِ اللّٰهمّ اَظْفِرْنْیِ بالْاَشْتَرِ النّخعِی والْاَ شْعَتِ الْکِنْدِیْ'' (۱)

''خدا کی قسم ، وہ اس گروہ کا سب سے بڑا ہے خدایا مجھے اور دو بڑے بہادروں، مالک اشتر نخعی اور اشعث کنِدی پر کامیابی عطا فرما''۔

اس وقت عبد اللہ کی بے مثال بہادری و شجاعت پر عدی بن حاتم کا قصیدہ پڑھاجس کا پہلاشعر یہ تھا۔

''أخا الحربِ اِن عضّتْ به الحربُ عضّهٰا.وان شمّرَتْ عن سَا قِهٰا الحربُ شمَّرا'' (۲)

''مرد جنگجو(بہت زیادہ جنگ کرنے ولا)وہ ہے کہ اگر جنگ نے اُسے دانت دکھایا تو وہ بھی اسے دانت دکھائے اور اگر آستین اوپر اٹھائے تو وہ بھی آستین اوپر کرے''۔

جنگ، لیلة الہریر تک

امام علیہ السلام کے چاہنے والوں اور معاویہ کے طرفداروں کے درمیان واقعی جنگ ماہ صفر ۳۸ ھ سے شروع ہوئی اور ۱۳،صفر(۳) کو دوپہر تک جاری رہی، تاریخ لکھنے والوں نے اس ابن جریر طبری نے اپنی کتاب میں صلح کی تاریخ ۱۳ صفر لکھی ہے اور لیلة الہریر کو جمعہ کے دن لکھا ہے۔(ص۲۴) لیکن چونکہ جس دن صفر کا مہینہ شروع ہوا تھا وہ بدھ کا دن تھا اور اس اعتبار سے لیلة الہریر ۱۷ صفر کو ہونا چاہیے(ماہ صفر کی تیسری شب جمعہ) اور اگر مراد دوسری شب جمعہ ہو تو اس صورت میں لیلة الہریر ۱۰صفر کو ہوناچاہیے نہ کہ ۱۳ صفر کو ،مگر یہ کہا جائے لیلةالہریر کے آدھے دن سے صلح نامہ لکھے جانے تک تین دن تک دونوں فوجوں

______________________

(۱)،(۲)، تاریخ طبری ۳ جزء ۶ص۱۶َ،۱۳۔وقعہ صفین ص۲۴۶۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۵۴۔۱۵۳،شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۱۹۷۔ مروج الذہب ج۲ص۳۹۸۔----(۳) تاریخ طبری ج ۳جلد۶ص۳۱۔

۵۹۵

میں لڑائی ہوتی رہی اور تیسرے دن صلح نامہ مکمل ہوا لیکن ظاہراً جو ابن مزاحم کی کتاب وقعہ صفین میں تحریر ہے وہ یہ ہے کہ جنگ دسویں دن کے بعد بھی جاری رہی۔

مہینے کی شب پندرہویںکو ''لیلة الہریر'' کے نام سے یا د کیاہے ، عربی لغت میں ''ہریر'' کے معنیٰ کتوں کا تیز اوردردناک آواز میں بھونکنا ہے، کیونکہ معاویہ کی فوج اس رات امام علیہ السلام کی فوج کے حملے سے ایسے ہی چلا رہی تھی جیسے کتے چلاتے ہیں ،عنقریب تھا کہ معاویہ اور امویوں کی حکومت کا تختہ پلٹ جائے کہ اچانک عمروعاص نے دھوکہ اور فریب کے ساتھ اور امام کی فوج کے درمیان تفرقہ پیدا کرکے اس خونی اور سرنوشت ساز جنگ اور اس کو روک دیا بالآخر۱۷،صفر جمعہ کے دن واقعہ ''حَکمیّت''تک پہونچا اور جنگ وقتی طور پر روک دی گئی۔

جنگ صفین کے حادثات لکھنے والے مؤرخین نے دس دن تک حالات کو ترتیب سے لکھا ہے۔(۱) لیکن اس کے بعد کے حالات و حادثات کی ترتیب بدل گئی، تاریخ لکھنے والوں کو چاہیے کہ اپنے ذوق تاریخ شناسی کی روشنی میں واقعات کو ترتیب دیں ہم بھی ان چند دن میں ہوئے واقعات کو لیلة الہریرتک اپنے انداز سے تحریر کر رہے ہیں۔

______________________

(۱) مروج الذہب ج۲ص۳۹۰۔۳۸۷۔

۵۹۶

دسویں دن کا حادثہ

دسویں صفر کا سورج طلوع ہوا اور اپنی روشنی کو صفین کے میدان پر ڈالا جو خون کے تالاب کی طرح ہوگیاتھا ،شہادت کے عاشق اور امام علیہ السلام کے چاہنے والے یعنی ربیعہ قبیلے والے امام کے اطراف میں جمع تھے اور امام کا محاصرہ کئے ہوئے تھے، ان کے سرداروں میں سے ایک سردار اٹھا اور کہا ''من یبایعٰ نفسہُ علی الموتِ و یشری نفسہُ للّٰہ؟ کون ہے جو مرنے کے لئے بیعت کرے اور اپنی جان کو خداکے لئے بیچ دے ؟ اس وقت سات ہزار لوگ کھڑے ہوئے اور اپنے سردار کے ہاتھ پر بیعت کی اور کہا ،ہم اتنا آگے بڑھیںکہ معاویہ کے خیمے میں داخل ہوجائیں اور پیچھے پلٹ کر بھی نہ دیکھیں۔

ان کی محبت و الفت کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ان میں سے ایک شخص نے اٹھ کر کہا''لیس لکم عُذرفیِ العربِ اِن اصیب عِلیّ فیکم، ومنکم رجُل حتّیٰ'' ۔یعنی عربوںکے سامنے تم لوگ ذلیل ورسوا ہو جاؤگے اگر تم میں سے ایک آدمی بھی زندہ رہا اور امام علیہ السلام کو کوئی آسیب پہونچا جب معاویہ نے ''ربیعہ'' کی بہادری اور موعظہ و نصیحت کو دیکھا تو برجستہ اس کے منھ سے تعریفی جملے نکل پڑے اور یہ شعر پڑھا۔

اِذَاقُلتَ قد وَلّتْ ربیعةُ أقبلَتْ

کتائبُ منهم کالجِبالِ تجالد

اگر کوئی کہے کہ قبیلۂ ربیعہ نے میدان میں اپنی پشت دکھائی، تو اچانک ان میں سے کچھ گروہ پہاڑ کی طرح جنگ کرنے کیلئے تیار

۵۹۷

ہو جائیں گے۔(۱)

میمنہ کی فوج میں ترمیم

ربیعہ کی بہادری کے مقابلے میں قبیلۂ مضر نے بہت زیادہ وفاداری نہیں کی اور امام علیہ السلام کی میمنہ کی فوج اپنے سردار عبد اللہ بن بدیل کے قتل ہونے کی وجہ سے اور قبیلۂ مضَر کے افراد کے میدان سے بھاگنے کی وجہ سے شکست سے دوچار تھی، اس طرح سے کہ اس فوج کے سپاہی قلب لشکر سے جا ملے کہ جس کی سرداری خود امام علیہ السلام کررہے تھے۔ امام علیہ السلام نے میمنہ کی فوج میں بہتری اور سدھارکے لئے سہل بن حنیف کو اس فوج کا سردار بنا یا، لیکن حبیب بن مسلمہ کی سرداری میں شام کی فوج کے ہجوم نے میمنہ کے نئے سردار کو اتنی مہلت نہ دی کہ فوج کو منظم و مرتب کرتا، امام علیہ السلام جب قبیلۂ مضَر کی بد نظمی سے

باخبر ہوئے تو فوراً مالک اشتر کو اپنے پاس بلایا اور انہیں حکم دیا کہ یہ گروہ جس نے اسلامی روش کو بھلادیا ہے اس سے کہو''این فرار کم من الموت الذی لن تعجزوه الیٰ الحیاة الّتی لا تبقیٰ لکم؟'' کیو ں ایسی موت سے بھاگ رہے ہو جس کے مقابلے کی قدرت نہیں رکھتے اور جو زندگی ختم ہونے والی ہے اس کی طرف بھاگ رہے ہو ؟

مالک اشتر، میمنہ میں شکست کھا تے ہوئے لوگوں کے درمیان کھڑے ہوکر امام علیہ السلام کا پیغام پہونچانے کے بعد جوش وولولے والی تقریر میں کہا:''فان الفِرار فیه سلب العزّ والغلبة علیٰ الفَیئِ

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۴۲،۲۴۱۔ وقعہ صفین ص۳۰۶

۵۹۸

وذِلَُّ الحیاة و المماتِ و عار الدنیا والاخرة وسخط اللّٰه وألیم عقابِهِ''

''میدان جہاد سے فرار کرنا اپنی عزت کو برباد کرنا اور بیت المال کوا پنے ہاتھوں سے گنوا دینااور حیات و زندگی میں ذلت، اور دنیا و آخرت میں ننگ و عار، خدا کا قہر و غضب اور اس کا درد ناک عذاب ہے''۔

پھر فرمایا: اپنے دانتوں کو ایک دوسرے پر مضبوطی سے دبا لو اور اپنے سر کے ساتھ دشمن کے استقبال کے لئے بڑھواتنا کہنے کے بعد آپ نے میمنہ کی فوج کو منظم کیا اور خود حملہ شروع کر دیااور میسرۂ میں معاویہ کی فوج جو امام علیہ السلام کی میمنہ فوج کے مقابل تھی ، اسے پیچھے بھگا دیا یہاں تک کہ معاویہ کے قلب لشکر میں پہونچ گئے۔(۱)

شکست کے بعد میمنہ کی فوج کا مرتب ہونا امام علیہ السلام کی خوشحالی کا سبب ہوا، اسی وجہ سے آپ نے ان لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا''فألان فاصبر واانزلت علیکم الَسّکینة وثبّتکم اللّٰه بالیقین ولیعلم المنهزم بأنّه مُسخِط لِرَبّهِ و مُوْبقنفسه، وَفی الْفِرارِ مُوجَدَة اللّٰهِ عَلَیْهِ والذّلّ اللازمُ أوِالعارُالباقی، (۲)

''اس وقت صبر و سکون سے رہو کیونکہ ثبات اور آرام تمھارے لئے خداکی طر ف سے آیا اور تمھیں یقین کے ساتھ قائم رکھا اور جو لوگ شکست کھاچکے ہیں (میدان جنگ میںثابت قدم نہ رہے )وہ جا ن لیں کہ انہوں نے خود کو خدا کے غیظ و غضب اور بلاؤں میں گرفتار کیا ہے اور میدان جنگ سے بھاگنے والے پر خدا کا قہر اور ذلت ہوگی''۔

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۱۹۸،۱۹۷۔ وقعہ صفین ص۲۵۰۔ تاریخ طبری ۳، جزء ۶،ص۱۲

(۲)۔ تاریخ طبری ۳، جزء ۶ص۱۴

۵۹۹

قاتل کا گریہ

مأرب ایک شہر ہے جو شمال میں شرق صنعا کے پاس ہے وہ اس عظیم نہر جو ۵۴۲سے ۵۷۰ کے درمیان منہدم ہوئے بہت مشہور ہے، یمن کے قبیلے والوں نے اسی نہر کی برکت سے کافی ترقی کی اوروہ بہت اچھی کھیتی کرتے تھے ، مشہور طوفان،''عرم'' کے اثر سے نہر منہدم ہوئی جس کے بعد لوگ وہاں سےجزیرہ کے اِدھر اُدھر چلے گئے اور اس میں سے اکثر لوگ شام ،اردن ،فلسطین چلے گئے ،لیکن اپناقبیلہ چھوڑنے کے باوجود لوگ اپنے کو اسی قبیلے سے منتسب کرتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قبیلہ ازد، مضَر، کنِدہ، قضاعہ اور ربیعہ کے لوگ عراق میں اور اسی قبیلے کے کچھ لوگ شام ،اردن اور فلسطین میں زندگی بسر کررہے ہیں۔

فوج کو منظم کرتے وقت امام علیہ السلام کی سیاست یہ تھی کہ جس قبیلے کے لوگ بھی عراق میں زندگی بسر کررہے تھے تو دوسرے افراد کے سامنے وہی قبیلے کے لوگ کھڑے ہوں ، جو عراق کے علاوہ دوسری جگہوں پر زندگی بسر کر رہے تھے کیونکہ ممکن ہے کہ یہ آمنے سامنے کا مقابلہ بہتر ثابت ہو اور شدید خونریزی نہ ہو۔(۱)

ایک دن ''خثعم'' کے عبد اللہ نامی شامی سردارنے خثعم عراق کے رئیس سے ملاقات کرنےکی خواہش ظاہر کی، اور تھوڑے وقفہ کے بعد اس سے ملاقات ہوئی، شامی نے عرض کیا کہ خثعم قبیلے کے دونوں گروہ جنگ نہ کریں ، اور آئندہ کے لئے فکر کریں، دونوں فوجوں میں سے جو بھی کامیاب ہوئی ہم اس کی پیروی کریں ،لیکن ان دونوں سرداروں کی باتوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ عراقیوں میں سے کسی نے بھی اس کی باتوں پر توجہ نہیں دی،اور کوئی بھی راضی نہیں ہوا کہ امام علیہ السلام سے اپنی بیعت اٹھا لے،لہٰذا دونوں گروہوںمیں آمنے سامنے سے ایک ایک کر کے جنگ شروع ہوگئی ، وہب بن مسعود خثعمی عراقی، نے اپنے برابر کے شخص کو شامیوں میں سے قتل کر ڈالا اور اسی کے مقابلے میں خثعم شام کے ایک شخص نے عراق کے خثعمی پر حملہ کر دیا اور ابوکعب کو قتل کر دیا لیکن قتل کرنے کے فوراً بعد مقتول پر رونا شروع کردیا اور کہا میں نے معاویہ کی پیروی کرنے کی وجہ سے تجھے قتل کیا ہے جب کہ تو میرا قریبی عزیز تھا اور لوگوں سے زیادہ میں تم کو چاہتا تھا خدا کی قسم میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کروں، سوائے یہ کہ شیطان نے ہم لوگوں کو گمراہ کردیااور قریش نے ہمیں اپنا آلٰہ قرار دیدیا ہے اور ایک ہی قبیلے کے دوگروہوں کی آپسی جنگ میں ۸۰ لوگ دونوں طرف کے مارے گئے اور جنگ تمام ہوگئی۔(۲)

______________________

( ۱)معجم البلدان ج۵ص۳۵،۳۴------(۲) وقعہ صفین ص۲۵۸،۲۵۷۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۰۵،۲۰۴۔

۶۰۰

تاریخ دہراتی ہے

یہ واقعہ بذات خود بے مثال نہیں ہے بلکہ جنگ صفین میں کم وبیش اس طرح کا واقعہ ہوا ہے جس میں بعض کی طرف ہم اشارہ کررہے ہیں۔

۱۔ نعیم بن صہیب بَجلی عراقی قتل ہوا اس کاچچازاد بھائی نعیم بن حارث بَجلی جو شام کی فوج میں تھا ، اس نے معاویہ سے اصرار کیا کہ اپنے چچازاد بھائی کی لاش کو کپڑے سے چھپادے، لیکن اس

نے اجازت نہیں دی اور بہانہ بنایا کہ اسی گروہ کے خوف سے عثمان کو رات میں دفن کیا گیا لیکن بَجلی شامی نے کہا یا تو یہ کام انجام پائے گایا تجھے چھوڑ دوں گا اور علی کے لشکر میں شامل ہوجاؤں گاآخرکار معاویہ نے اسے اجازت دی کہ اپنے چچا زاد بھائی کے جناز ے کو دفن کردے۔(۱)

۲۔ قبیلۂ ازد کے دو گروہ آمنے سامنے تھے ان دونوں قبیلوں میں سے ایک قبیلے کے سردار نے کہا سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ایک ہی قبیلہ کے دو گروہ ایک دوسرے سے مقابلے کے لئے آمادہ ہیں۔ خدا کی قسم، ہم اس جنگ میں اپنے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ پیر کاٹنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر سکتے اور اگر یہ کام انجام نہ دیا تو ہم نے اپنے رہبر اور قبیلے کی مدد نہیں کی، اور اگر انجام دیں تو اپنی عزت کو برباد اور اپنی زندگی کی لو کو خاموش کردیا ہے۔( ۲)

۳۔ شامیوں میں سے ایک نے میدان ِ میں قدم رکھا اور جنگ کی دعوت دی ،عراق کا ایک شخص اس سے مقابلہ کرنے کے لئے مید ان میں آیا اور دونوںنے زبردست حملے کئے بالآخر عراقی نے شامی کی گردن پکڑی اور اسے زور سے زمین پرپٹک دیا اور اس کے سینے پر بیٹھ گیا جس وقت اس نے خودشامی کے چہرے سے نقاب اور سر سے ٹوپی اتاری تو دیکھا کہ اس کا اپنا بھائی ہے! اس نے امام علیہ السلام کے دوستوں سے کہا کہ امام علیہ السلام سے کہو کہ اس مشکل کو حل کریں۔ امام علیہ السلام نے حکم دیا کہ اُسے آزاد کردو لہٰذا اس نے آزاد کردیا اس کے باوجود وہ دوبارہ معاویہ کی فوج میں شامل ہوگیا۔(۳)

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۲۵۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۰۷۔ تاریخ طبری ج ۳جزئ۶، ص۱۴،کامل ابن اثیرج ۳ص۱۵۴۔---(۲) وقعہ صفین ص۲۶۲۔ تاریخ طبری ج ۳،جزئ۶، ص۱۵۔شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵،ص۲۰۹۔---(۳)وقعہ صفین ص۲۷۲۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۱۵۔

۶۰۱

۴۔ معاویہ کی فوج سے ایک شخص بنام ''سوید'' میدان میں آیا اور مقابلے کے لئے للکارا امام علیہ السلام کی فوج سے قیس میدان میں آئے، جب دونوں نزدیک ہوئے تو ایک دوسرے کو پہچان گئے اور دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے رہبر و پیشوا کی طرف آنے کی دعوت دی، قیس نے امام علیہ السلام سے اپنی محبت و ایمان کو اپنے چچازاد بھائی سے بیان کیااور کہا،وہ خدا کہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اگر ممکن ہوتا تو اس تلوار سے اس سفید خیمے(معاویہ کا خیمہ) پر اتنا زبردست حملہ کرتا کہ صاحب خیمہ کا کوئی آثار باقی نہ رہتا۔(۱)

شمر بن ذی الجوشن امام علیہ السلام کی رکاب میں

تعجب کی بات (ایسی حیرت و تعجب جس کی کوئی انتہاء نہیں ہے) یہ ہے کہ شمر جنگ صفین میں امام علیہ السلام کے ہمراہ تھا، اور میدان جنگ میں''ادھم''نام کے ایک شامی نے اس کی پیشانی پر سخت ضربت لگائی جس سے اس کی ہڈی ٹوٹ گئی،وہ بھی بدلہ لینے کے لئے اٹھا اور شامی پر تلوار سے زبردست حملہ کیا، مگر کوئی فائدہ نہ ہوا، شمر اپنی توانائی واپس کرنے کے لئے اپنے خیمے میں پانی پیا اور ہاتھ میں نیزہ لے لیا پھر میدان میں آگیا اس نے دیکھا کہ شامی اسی طریقے سے اپنی جگہ پر کھڑا ہے، اس نے شامی کو مہلت نہ دی اور اپنا نیزہ اس کے اوپر اس طرح مارا کہ وہ گھوڑے سے زمین پر گر گیا اور اگر فوج شام سے لوگ اسکی مدد کو نہ پہونچتے تو اسے قتل کردیتا اس وقت شمر نے کہا یہ نیزہ کی مار اس حملہ کے مقابلے میں ہے۔(۲)

______________________

(۱)وقعہ صفین ص۲۶۸۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۱۳۔

(۲)تاریخ طبری ج ۳جزئ۶، ص۱۸۔شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۱۳۔

۶۰۲

شہادت پر فخر و مباہات

شہادت اور اللہ تعالیٰ سے عشق و محبت پر مومنین اور قیامت پر ایمان و اعتقاد رکھنے والے ہی افتخار کرتے ہیں اورمقد س مقصد کے تحت جنگ کرتے ہیں اور یہ افتخار اور فخرو مباہات ایک ایسی ثقافت ہے جو دوسری قوموں میں نہیں ، شہادت سے عشق و محبت قیام و جہاد کے لئے ایک بہترین محرّک اور علت ہے، شہید اپنی چند روزہ زندگی کو ابدی زندگی سے اسی عقیدے کی بنا پر تبدیل کرتا ہے اور پھر وہ اپنے مقصد کے پیش نظر کسی کو نہیں پہچانتا ہے۔

جنگ صفین کے زمانے میں ایک دن فوج شام کے قبیلۂ بنی اسد کا ایک بہادر سپاہی میدان میں آیا اور جنگ کے لئے بلایا عراقی فوجی اس بہادر کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے اچانک ایک ضعیف شخص بنام''مقطّع عامری'' اٹھا تاکہ بنی اسد کے اس شخص سے لڑنے کے لئے میدان میںجائے،لیکن جب امام علیہ السلام متوجہ ہوئے تو اسے میدان جنگ میں جانے سے منع کردیا، ادھر اس شامی بہادر کیهَلْ مِنْ مبارز کی بلند آواز نے لوگوں کے کانوں کوبہرا کر دیا تھا۔ ادھر ہر مرتبہ و ہ ضعیف جو شہادت کا عاشق تھا اپنی جگہ سے مقابلے کے لئے اٹھتا تھا لیکن امام اُسے منع کردیتے تھے، اس ضعیف نے عرض کیا اے میرے مولا، اجازت دیجیے کہ اس جنگ میں شرکت کروں تا کہ شہید ہو جاؤں اور بہشت کی طرف جاؤں یا اسے قتل کردوںاور اس کے شرّ سے آپ کو امان دوں ، امام علیہ السلام نے اس مرتبہ اسے اجازت دی اور اس کے حق میں دعا کی۔

۶۰۳

اس دلیر اور بہادر کے عاشقانہ حملے نے اس بہادر شامی کے دل میں ایسا رعب پیدا کر دیا کہ اسے بھاگنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ اور اتنا دور ہوگیا کہ خود کو معاویہ کے خیمے کے پاس پہونچا دیا لیکن اس بوڑھے مجاہد نے اس کا وہاں تک پیچھا کیا اور جب اس کو نہ پایا تو اپنی جگہ پر وآپس آگیا۔ اور جب علی علیہ السلام کی شہادت ہوگئی اور لوگوں نے معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کی تو معاویہ نے مقطّع عامری کو تلاش کرایا اور اسے اپنے پاس بلایا،مقطّع جب کہ پیری اور ضعیفی کی زندگی بسر کر رہے تھے معاویہ کے پاس آئے۔

معاویہ:بھائی ، اگر تم ایسی حالت میں(بہت بڑھاپا اور ضعیفی میں ) میرے پاس نہ آئے ہوتے تو ہرگز میرے ہاتھ سے نہ بچتے (یعنی قتل کردیتا)

عامری:میں تجھے خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ مجھے قتل کردے اور ایسی ذلت کی زندگی سے مجھے نجات دیدے اور خدا کی ملاقات سے نزدیک کردے۔

معاویہ: میں ہرگز تمھیں قتل نہیں کروں گا بلکہ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔

عامری: تیری حاجت کیا ہے؟

معاویہ: میری حاجت ہے کہ میں تمھارا بھائی بنوں۔

عامری: میں خدا کے لئے تجھ سے پہلے ہی جدا ہوچکا ہوں اور اسی حالت پر باقی ہوں تاکہ خدا وند عالم قیامت کے دن ہم لوگوں کو اپنے پاس بلائے اور ہمارے اور تمھارے درمیان فیصلہ کرے۔

معاویہ: اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو۔

عامری: میں نے اس سے آسان درخواست کو ٹھکرادیا تو پھر یہ درخواست کہا ں (قبول کرسکتا ہوں)

معاویہ: مجھ سے کچھ مال لے لو۔

۶۰۴

عامری: مجھے تمھارے مال کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)

ایک فوجی حکمت عملی

دسویں دن یا اس کے بعد جب کہ عراقیوں اور شامیوں کی سواروںکے درمیان گھمسان کی

جنگ ہو رہی تھی، امام علیہ السلام کی فوج کے ایک ہزار آدمیوں کا شامیوں نے محاصرہ کر لیا اور ان لوگوں کا رابطہ آپ سے منقطع ہوگیا اس وقت امام علیہ السلام نے بلند آواز سے فرمایا، کیا کوئی نہیں ہے جو خدا کی رضاخریدے اور اپنی دنیا کو آخرت کے بدلے بیچ دے؟ عبدالعزیز کا لے گھوڑے پر سوار اور زرہ پہنے ہوئے آنکھ کے علاوہ بدن کا کوئی حصّہ نظر نہیں آرہا تھا امام علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا آپ جو بھی حکم دیں گے اسے انجام دوںگا، امام علیہ السلام نے اس کے لئے دعا کی اور کہا: فوج شام پر حملہ کرو اور خود کو گھیرے ہوئے لوگوں تک پہونچا دو اور جب ان کے پاس پہونچنا تو کہنا کہ امیر المومنین نے تمھیںسلام کہا ہے اور کہا ہے کہ تم لوگ اس طرف سے تکبیر کہو اور ہم اس طرف سے تکبیر کہتے ہیں اور تم لوگ اس طرف سے اور ہم اس طرف سے حملہ کریں تاکہ محاصرہ کو ختم کردیںاور تم لوگوں کو آزادی مل جائے۔

امام علیہ السلام کے بہادر سپاہی نے فوج شام پرزبردست حملہ کیا اور اپنے کو محاصرہ ہوئے لوگوں تک پہونچایااور امام علیہ السلام کا پیغام پہونچایا، لوگ امام علیہ السلام کا پیغام سن کر بہت خوش ہوئے اور اس وقت تکبیر و تہلیل کی آوازاور دونوں طرف سے جنگ شروع ہوگئی اور محاصرہ ختم ہوگیا اور محاصرہ ہوئے لوگ امام علیہ السلام کے لشکرسے مل گئے۔ شامیوں کے آٹھ سو لوگ مارے گئے اورجو بچے وہ پیچھے ہٹ گئے اور جنگ وقتی طور پر رک گئی۔(۲)

_______________________________

(۱)۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۲۴،۲۲۳۔ وقعہ صفین ص ۲۷۸۔

(۲) شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۴۳۔ وقعہ ٔ صفین ص ۳۰۸۔

۶۰۵

شدیدجنگ کے دوران سیاسی ہتھکنڈے

امور جنگ کے ماہرین نے امام علی علیہ السلام کی فوج کے اجتماعی حملے کو ابتدأ ہی میں دیکھ کر یہ

سمجھ گئے تھے کہ جنگ میں اما م کے لشکر کو کامیابی ملے گی، کیونکہ وہ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ہر دن جنگ کے حالات امام علیہ السلام کے حق میں جارہے ہیں اور معاویہ کی فوج نابودی اور موت کی طرف جا رہی ہے۔ یہ کامیابی ان علتوں کی بنأ پر تھی جس میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کر رہے ہیں:

۱۔ سب سے بڑے سردار کی شائستہ اور مدّبرانہ رہبری ،یعنی حضرت علی علیہ السلام ،اور اسی صحیح نظام ِ رہبری کی وجہ سے معاویہ کی فوج تقریباً اما م کے لشکر سے دوگنی تھی، قتل ہوئی (جنگ صفین کے واقعات نقل کرنے کے بعد دونوں فوج کے مرنے والوں کی تعداد تحریر کی جائے گی)

۲۔ امام علیہ السلام کی بے مثال شجاعت و بہادری کہ دنیا نے آج تک ایسا بہادر نہیں دیکھا، ایک دشمن کے قول کے مطابق، علی علیہ السلالم نے کسی بھی بہادر سے مقابلہ نہیں کیا مگر یہ کہ زمین کو اس کے خون سے سیراب کردیااس سور ما کی بنا پر عراقیوں کے سامنے سے بڑے بڑے شر ہٹا لئے گئے اور دشمنوں کے دل میں زبردست رعب بیٹھ گیا اور میدان جنگ میں ٹھہرنے کے بجائے بھاگنے کو ترجیح دیا۔

۳۔ امام علیہ السلام کی فوج کا آنحضرت کی فضیلت،خلافت،تقویٰ اور امامت برحق پر ایمان وعقیدہ رکھنا، جن لوگوں نے نص الہٰی کو رہبری کا ملاک سمجھااور جنہوں نے انصارو مہاجرین کے انتخاب کو معیار خلافت جانا، وہ سب کے سب امام علیہ السلام کے پرچم تلے حق و عدالت کے ساتھ باطل و سرکش سے جنگ کرنے آئے تھے، جب کہ معاویہ کی فوج کی حالت کچھ اورہی تھی،اگرچہ کچھ خلیفہ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے معاویہ کے ساتھ آئے تھے اور ان کے لئے تلوار چلا رہے تھے مگر بہت زیادہ لوگ مادیت کی لالچ اور دنیا طلبی کے لئے اس کے ہمراہ آئے تھے اور ان میں سے بعض گروہ امام علیہ السلام سے دیر ینہ بغض وعداوت کی وجہ سے یہاں آئے تھے اور یہ حقیقت کسی بھی مؤرخ سے پوشیدہ نہیں ہے۔

۴۔ امام علیہ السلام کی فوج میں مشہور و معروف اور امت اسلامیہ کی محبوب شخصیتوں کا موجود ہونا، وہ عظیم شخصیتیں جنہوں نے پیغمبر اسلام (ص)کے ہمرکاب ہو کر بدر، اُحد ،حنین میں جنگیں کی تھیں اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی سچائی اور پاکیزگی پر گواہی دی تھی،

۶۰۶

ان لوگوں میں چند کا نام قابل ذکر ہے مثلاً عمار یاسر، ابوایوب انصاری،قیس بن سعد، حُجر بن عدی اور عبد اللہ بن بدیل ، جنہوں نے معاویہ کی فوج کے بہت سے خود غرض لیکن سادہ لوح سپاہیوں کے دل میں شک و تردید پیدا کر دی تھی، یہ علتیں اور دوسری چیزیں سبب بنیں کہ معاویہ اور اس کی دوسری عقل عمرو عاص نے اپنی شکست کو قطعی سمجھااور اس سے بچنے کے لئے سیاسی حربے چلنے لگا تاکہ امام علیہ السلام کی فوج کی کامیابی کو کسی بھی صورت سے روک سکے، اور وہ سیاسی حربہ، علی علیہ السلام کی فوج کے سرداروں سے خط و کتابت اور ان لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے اور امام کی فوج میں تفرقہ و اختلاف کرنے کا تھا۔

۱۔ جنگ صفین میں امام علیہ السلام کی فوج میںسب سے وفادار ربیعہ والے تھے اگرچہ قبیلۂ مُضَر والے اپنی جگہ سے ہٹ گئے لیکن قبیلہ ربیعہ والے پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پر موجو د رہے. جب امام علیہ السلام کی نظر ان کے پرچموں پر پڑی تو آپ نے پوچھا کہ یہ پرچم کس کے ہیں لوگوں نے کہا یہ پرچم ربیعہ کے ہیں اس وقت آپ نے فرمایا:''هِیَ رایات عَصَمَ اللّٰه أهلهاو صبَّر هم و ثبّتَ اَقْدامهم'' (۱)

''یعنی یہ سب خدا کے پرچم ہیں خدا ان کے مالکوں کی حفاظت کرے اور انہیں صبر عطا کرے اور یہ ثا بت قدم رہیں''

امام علیہ السلام کو خبر ملی کہ اسی قبیلے کا ایک سردار خالد بن معمّر، معاویہ سے قریب ہوگیا ہے اور اس کے اور معاویہ کے درمیان ایک خط یا متعد د خطوط لکھے جاچکے ہیں تو امام علیہ السلام نے فوراً اس کواور قبیلہ ربیعہ کے بزرگوں کو طلب کیا اور ان سے فرمایا:اے قبیلہ ربیعہ کے لوگو ،تم لوگ میرے چاہنے والے اور میری آواز پر لبیک کہنے والے ہو، مجھے خبر ملی ہے کہ تمھارے سرداروں میں سے کسی ایک نے معاویہ کے ساتھ خط و کتابت کی ہے اور پھر خالد کی طرف نگاہ کی اور کہا : اگر تمھارے متعلق جو باتیں ہم تک پہونچی ہیں اگر وہ سچی ہیں تو میں تمھیں بخش دوں گا اور امان دوں گا لیکن شرط یہ ہے کہ عراق اور حجاز یا ہر وہ جگہ جہاںپر معاویہ کی حکومت و قدرت نہیں ہے وہاں جا کر زندگی بسر کرو اور اگر وہ چیزیں جو تمھارے متعلق ہم تک پہونچی ہیں جھوٹی ہیں تو ہمارے دھڑکتے ہوئے دل کواپنی مطمٔن قسم کے ذریعے آرام پہونچاؤ،اس نے اسی وقت سب

______________________

(۱)تاریخ طبری ج ۳جزء ۶ ص۱۹،۸۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۲۶،۲۲۵۔

۶۰۷

کے سامنے قسم کھائی کہ ہرگز ایسا نہیں ہے اس کے دوستوں نے کہا اگر یہ بات سچی ہوگی تو اسے قتل کردیں گے اور انہیں میں سے ایک شخص زید بن حفصہ نے امام علیہ السلام سے کہا خالد کی قسم پر آپ کوئی چیز بطور ضمانت رکھئے تاکہ آپکے ساتھ خیانت نہ کرے(۱)

تمام قرأین سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام علیہ السلام کی فوج میں وہ معاویہ کی طرف سے خصوصی نمائندہ تھا اور کامیابی کے وقت یہاں تک کہ اس موقع پر کہ عنقریب تھا کہ لوگ معاویہ تک پہونچیں اور اس کے خیمے میں اسے گرفتار کرلیں ،خالد نے فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا اور پھر اپنے کام کی توجیہ پیش کرنے لگا اس سلسلے میں چند باتوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔

امام علیہ السلام نے میسرہ قبیلہ ربیعہ کے سپرد کیا تھا اور اس کی سرداری عبداللہ ابن عباس کے ہاتھوں میں تھی، امام علیہ السلام کا میسرہ معاویہ کے میمنہ کے مقابلے میں تھا اور اس کی ذمہ داری شام کی مشہور ترین شخصیتیں ذوالکلاع حمیری اورعبیداللہ بن عمر کے ہاتھوں میں تھی قبیلہ حمیر، ذوالکلاع کی سرداری میں اور عبید اللہ نے سواروں اور پیادوں کے ساتھ امام علیہ السلام کے میسرہ پر شدید حملہ کیا لیکن زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوا دوسرے حملے میں عبیداللہ بن عمر فوج کے بالکل آگے کھڑا ہوا اور شامیوں سے کہا عراق کے اس گروہ نے عثمان کو قتل کیا ہے اگر ان لوگوں کو شکست دیدیا تو تم نے انتقام لے لیا اور علی کو نابود کردیا ۔ اس حملے میں بھی ربیعہ کے لوگوں نے ثابت قدم رہتے ہوئے اپنا دفاع کیا اور کمزوروناتواں لوگوں کے علاوہ کوئی بھی پیچھے نہ ہٹا۔

امام علیہ السلام کی فوج کے تیز بین لوگوں نے بتا دیاکہ جس وقت خالد نے امام علیہ السلام کی فوج کے کچھ لوگوں کو پیچھے ہوتے دیکھا تو وہ بھی ان کے ساتھ پیچھے ہونے لگا اور چاہا کہ اپنے اس عمل سے امام کی فوج کے ثابت قدم سپاہیوں کو پیچھے ہٹنے کے لئے آمادہ کرے لیکن جب اس نے ان لوگوں کی ثابت قدمی دیکھی تو فوراً ان لوگوں کی طرف واپس چلا گیا اور اپنے فعل کی توجیہ کرنے لگا اور کہا: میرے پیچھے ہٹنے کا مطلب یہ تھا کہ جو لوگ بھاگ رہے تھے ان کو تم لوگوں کی طرف واپس پلٹا دوں۔(۲)

______________________

(۱) تاریخ طبری ج ۳جزء ۶ ص۱۹،۸۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۲۶،۲۲۵۔

(۲)تاریخ طبری ج ۳ جز ۶ ص ۱۹۔ کامل ابن اثیر ج۳ ص ۱۵۶

۶۰۸

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں :

اسلامی مؤرخین مثلاً کلبی اور واقدیمی کا نظریہ ہے کہ خالد نے جان بوجھ کر دوسرے حملے میں پیچھے ہٹنے کا حکم دیا تھا تاکہ میسرہ میں امام کی فوج شکست کھاجائے کیونکہ معاویہ نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اگر امام کی فوج پر اس نے کامیابی حاصل کرلی تو جب تک خالد زندہ رہے گا خراسان کی گورنری اسے دے دے گا۔(۱)

ابن مزاحم لکھتے ہیں :

معاویہ نے خالد سے وعدہ کیا تھا کہ اگر اس جنگ میں کامیابی ملی تو خراسان کی گورنری اس کے ہاتھ میں ہوگی، خالد معاویہ کے دھوکہ میں آگیا مگراس کی آرزو پوری نہ ہوسکی کیونکہ جب معاویہ نے حکومت کی ذمہ داری سنبھالی تو اسے خراسان کاگورنر تو بنادیا لیکن اس سے پہلے کہ معین شدہ جگہ پر پہونچتا آدھے ہی راستے میں ہلاک ہوگیا۔(۲)

شام کی فوج عبید اللہ ابن عمر کے وجود پر افتخار کرتی تھی اور کہتی تھی کہ پاکیزہ کا بیٹا ہمارے ساتھ ہے اور عراقی محمد بن ابو بکرپرافتخار کرتے تھے اور اسے طیب بن طیب(اچھا اور اچھے کا بیٹا) کہتے تھے۔

جی ہاں، بالآخرشام کی فوج حمیرا اور امام کی فوج ربیعہ کے درمیان زبردست جنگ کی وجہ سے دونوں طرف کے بہت زیادہ افراد مارے گئے اور سب سے کم نقصان یہ تھا کہ امام علیہ السلام کی فوج سے پانچ سو سپاہی جب کہ وہ سر سے پیر تک اسلحوں سے لیس تھے اور ان کی آنکھوں کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا میدان جنگ میں آئے اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں معاویہ کی فوج کے سپاہی ان سے مقابلے کے لئے میدان میں آئے پھر دونو ں گروہوں کے درمیان زبردست جنگ ہوئی اور دونوں فوجوں میں سے کوئی ایک بھی اپنی چھاؤنی میں واپس نہیں گیا اور سب کے سب مارئے گئے۔

دونوں فوجوں کے دور ہوتے وقت سروں کے ٹیلوں میں سے ایک سر نیچے گرا جسے''تل الجماجم'' کہتے ہیں، اور اسی جنگ میں ذوالکلاع جو معاویہ کا سب سے بڑا محا فظ تھا اور قبیلۂ حمیر کو معاویہ

_______________________________

(۱) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ ص ۲۲۸

(۲) وقعہ صفین ص ۳۰۶

۶۰۹

کی جان کی حفاظت کے لئے آمادہ کرتا تھا خندف نامی شخص کے ہاتھوں ماراگیا اور حمیریان کے درمیان عجیب خوف وہراس پیدا ہوگیا۔(۱)

۲۔ عبید اللہ بن عمر نے جنگ کے شدید ترین لمحات میں شیطنت اور تفرقہ ایجاد کرنے کے لئے کسی کو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا اور ان سے ملاقات کرنے کی درخواست کی امام حسن علیہ السلام نے امام کے حکم سے اس سے ملاقات کی، گفتگو کے دوران عبید اللہ نے امام حسن علیہ السلام سے کہا ، تمھارے باپ نے پہلے بھی اور اس وقت بھی قریش کا خون بہایا ہے کیا تم اس بات کے لئے آمادہ ہو کہ ان کے جانشین بنو، اور تمھیں مسلمانوں کے خلیفہ کے عنوان سے پہچنوائیں؟امام علیہ السلام نے بہت تیز اس کے سینہ پر ہاتھ مارا اور اس وقت علم امامت کے ذریعے عبید اللہ کے ذلت سے مارے جانے کی اُسے خبر دی اور کہا آج یا کل تو مارا جائے گا۔ آگاہ ہوجا کہ شیطان نے تیرے بُرے کام کو تیری نظر میں خوبصورت بنا کر دکھایا ہے، راوی کہتا ہے کہ وہ اسی دن یا دوسرے دن چار ہزار سبز پوش سپاہیوں کے ساتھ میدان میں آیا اور اسی دن قبیلہ ہمدان سے تعلق رکھنے والے ہانی بن خطاب کے ہاتھوں مارا گیا۔(۲)

۳۔معاویہ نے اپنے بھائی عتبہ بن سفیان کوجو فصیح وبلیغ تقریر کرنے والا تھا اپنے پاس بلایا اور کہاکہ اشعث بن قیس کے ساتھ ملاقات کرو، اور اسے صلح اور سازش کے لئے دعوت دو، وہ امام علیہ السلام کی فوج میں آیا اور بلند آواز سے پکارا ، لوگو اشعث کو خبرکردو کہ معاویہ کی فوج کا ایک شخص تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہے، اس نے کہاکہ اس کا نام پوچھو اور جب سے خبر دی کہ وہ عتبہ بن سفیان ہے تو کہا وہ جو ان خوش کلام ہے اس سے ملاقات کرنا چاہیے عتبہ نے جب اشعث سے ملاقات کی تو اس سے کہا:اگر معاویہ علی کے علاوہ کسی اور سے ملاقات کرتاتو تم سے کرتاکیونکہ تم عراقیوں اوریمنیوں میں سب سے بزرگ ہو اور عثمان کے داماد اور اس کے زمانے میں حاکم تھے تم اپنے کو علی کی فوج کے دوسرے سپہ سالاروں سے برابری نہ کرو، کیونکہ اشتر وہ ہے جس نے عثمان کو قتل کیا اور عدی حاتم وہ ہے جس نے لوگوں کو قتل عثمان پر ورغلایا اور سعید بن قیس وہی ہے جس کی دیت ،امام علی نے اپنے ذمہ لی ہے اور شریح اور زحربن قیس خواہشات نفس کے علاوہ کوئی دوسری چیز

______________________

(۱) وقعہ صفین ص ۳۰۶-------(۲) وقعہ صفین ص ۲۹۷ ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ ص ۲۳۳ ۔

۶۱۰

کی فکر نہیں کرتے تم نے نمک حلالی کرتے ہوئے عراق والوں کا دفاع کیا اور تعصب کی وجہ سے شامیوں سے جنگ کیا ، خدا کی قسم ،کیا تم جانتے ہو کہ ہمارا اور تمھارا کام کہا ں تک پہونچ چکا ہے ، میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ علی کو چھوڑ دو اور معاویہ کی مدد کرو، میں تجھے اس راہ کو اختیار کرنے کی دعوت دے رہا ہوں جس میں میرا اور تمھار ا دونوں کا فائدہ ہے۔

تاریخ کابیان ہے کہ اشعث، خفیہ طور پر معاویہ سے رابطہ رکھے تھا اور موقع کی تلاش میں تھا کہ جیسے بھی ممکن ہو جنگ کی کامیابی کو معاویہ کی طرف موڑ دے، اس نے پہلے تو اپنے جواب میں امام علیہ السلام کی تعریف کی اور عتبہ کی گفتگو کو ایک ایک کرکے رد کیا، لیکن آخر میں جنگ کو ختم کرنے کے لئے اشارة موافقت کر لی اور کہا تم لوگ مجھ سے زیادہ زند گی گزارنے اور باقی رہنے میں محتاج نہیں ہو میں اس سلسلے میں فکر کروں گا اور خدا نے چاہا تو اپنے نظریہ کا اعلان کروں گا۔

جب عتبہ معاویہ کے پاس واپس پہونچا اور اس سے پورا ماجرا بیان کیا تو معاویہ بہت خوش ہواور کہا اس نے اپنی نظر میں صلح کا اعلان کردیاہے۔(۱)

۴۔ معاویہ نے عمر و عاص سے کہا، علی کے بعد سب سے مشہور و معروف شخضیت ابن عباس کی ہے اگر وہ کوئی بات کہے تو علی اس کی مخالفت نہیں کریں گے، ، جتنی جلدی ہو کوئی تدبیرکروکیونکہ یہ جنگ ہم لوگوں کو ختم کردیگی، ہم ہرگز عراق نہیں پہونچ سکتے مگر یہ کہ شام کے لوگ نابود ہوجائیں ۔

عمر و عاص نے کہا: ابن عباس دھوکہ نہیں کھا سکتے اگر اس کو دھوکہ دے دیا تو علی کو بھی دھوکہ دے سکتے ہو، معاویہ کے بے حد اصرار پر عمر و عاص نے ابن عباس کو خط لکھا اور خط کے آخر میں کچھ شعر بھی

لکھا، جب عمروعاص نے اپنا خط اور اپنا کہا ہواشعر معاویہ کو دکھایا تو معاویہ نے کہا''لاٰ أریٰ کتابک علیٰ رقّةِ شعرِک'' یعنی تیراخط تیرے شعر کے پائے کا نہیں ہے!

دھوکہ بازوں کے سردار نے اس خط اور اشعار میں ابن عباس اور ان کے خاندان کی تعریف اور مالک اشتر کی برائی کی تھی اور آخر میں یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر جنگ ختم ہوگئی تو ابن عباس شوریٰ کے ایک ممبر ہوگے جس کے ذریعے سے امیر اور خلیفہ معین ہوگا، جب یہ خط ابن عباس کو ملا تو انہوں نے امام علیہ السلام کو

______________________

( ۱)وقعہ صفین ص۴۰۸ ۔

۶۱۱

دکھایا اس وقت امام نے فرمایا۔ خدا وند عالم عاص کے بیٹے کو موت دے، کیسا دھوکہ دینے والا خط ہے جتنی جلدی ہو اس کاجواب لکھو اور اس کے شعر کے جواب کے لئے اپنے بھائی سے شعر لکھواؤ کیونکہ وہ شعر کہنے میں ماہرہے۔

ابن عباس نے خط کے جواب میں لکھا:

میں نے عربوں کے درمیان تجھ جیسا بے حیا نہیں دیکھا اپنے دین کو بہت کم قیمت میں بیچ دیا اور دنیا کو گناہگاروں کی طرح بہت بڑی سمجھا، اور ریاکاری کے ذریعے تقویٰ نمایاںکرتا ہے، اگر تو چاہتا ہے کہ خدا کو راضی کرے ،تو سب سے پہلے مصر کی حکومت کی ہوس اپنے دل سے نکال دے اور اپنے گھر واپس چلاجا، علی اور معاویہ ایک جیسے نہیں ہیں جس طرح سے عراق اور شام کے لوگ برابر نہیں ہیں، میں نے خدا کی مرضی چاہی ہے اور تو نے مصر کی حکومت ، اور پھر ان اشعار کو جو ان کے بھائی فضل نے عمر وعاص کے اشعار کے وزن پر کہے تھے اس خط میں لکھا اور امام علیہ السلام کو خط دکھا یا ۔ امام علیہ السلام نے کہا اگر وہ عقلمند ہوگاتو تمھارے خط کا جواب نہیں دے گا۔

جب عمرو عاص کو خط ملا تو اس نے معاویہ کو دکھایا اور کہا تو نے مجھے خط کی دعوت دی لیکن نہ تجھے کوئی فائدہ ہوا اور نہ مجھے فائدہ ہوا، معاویہ نے کہا: علی اور ابن عباس کا دل ایک ہی جیسا ہے اوردونوں عبدالمطلب کے بیٹے ہیں۔(۱)

۵۔ جب معاویہ نے احساس کیا کہ علی کے سپاہی پہلے سے کچھ زیادہ آمادہ ہوگئے ہیں اور محاصرہ تنگ ہوگیا ہے اورقریب ہے کہ،شکست کھا جائیں تو اس نے خود براہ راست ابن عباس کو خط لکھا اور یا د دلایا کہ یہ جنگ بنی ہاشم اور بنی امیہ کے درمیان بغض وعداوت کی بھڑکتی ہوئی چنگاری ہے اور انہیں اس کام کے انجام سے ڈرایا، اس خط میں اس نے ابن عباس کو لالچ دلائی اور کہا : اگر لوگ تمھارے ہاتھ پر بیعت کریں تو ہم بھی تمھار ی بیعت کرنے کے لئے تیار ہیں۔

جب ابن عباس کو خط ملا تو آپ نے ٹھوس او ر دندان شکن جواب معاویہ کو لکھا ، ایسا جواب کہ معاویہ اپنے

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص۴۱۴۔۴۱۰ (تھوڑے فرق کے ساتھ اور دونوں خطوط کے اشعارکے بغیر)۔ الامامة السیاسةج۱ص۹۹۔۹۸

۶۱۲

خط لکھنے پربہت شرمندہ ہوا اور کہا یہ خود میر ے کام کا نتیجہ ہے اب ایک سال تک اُسے خط نہیں لکھوں گا۔(۱)

عمار اور باغی گروہ

یاسر کا گھرانہ اسلام کے عظیم گھرانے میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے آغاز اسلام میں ہی پیغمبر اسلام (ص)کی دعوت پر لبیک کہا اور اس راہ میں زبردست مصائب و آلام برداشت کیایہاں تک کہ یاسر اور ان کی بیوی سمیہ نے خدا کی راہ میں ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کے ظلم و ستم سے اپنی جان دیدی۔

ان دونوں کے جوان بیٹے عمار مکہ کے جوانوں کی سفارش اور نئے قوانین سے ظاہری اظہار بیزاری کرنے سے نجات پاگئے خداوند عالم نے عمار کے اس فعل کو اس آیت میںقرار دیا ہے:

( اِلّٰا مَنْ اُکرِ ه و قلبُه مطمئن بالایمان ) (سورۂ نحل آیت ۱۰۶)

مگر وہ شخص کہ جو (کفر کہنے پر) مجبور ہوجائے جب کہ اس کا قلب ایمان سے مطمئن ہے۔

جس وقت عمار کے واقعات اور ان کے کفر ظاہر کرنے کی خبر پیغمبر (ص)کو ملی تو آپ نے فرمایا: ہرگزنہیں بلکہ عمار کا پورا وجود ایمان سے سرشار ہے اور توحید ان کے گوشت و خون میں رچ بس گئی ہے اسی وقت عمار وہاں پہونچ گئے جب کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے آنسوؤں کو صاف کیااور کہا کہ اگر دوبارہ ایسی مشکل پیش آئے تو اظہار برائت کرنا۔(۲) صرف یہی ایک آیت نہیں ہے جو اس بزرگ صحابی کی شان میں نازل ہوئی بلکہ مفسرین نے دواور آیتوں کو لکھا ہے جو ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے(۱) وہ پیغمبر اسلام کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آپ کے ہم رکاب رہے اور تمام غزوات اور بعض سریوں میں شرکت کی اور پیغمبر(ص)کے انتقال کے بعد، اگرچہ خلافت ِوقت سے راضی نہ تھے مگر خلافت کی مدد کرنے میں اگر اسلام کا فائدہ ہوتا تو مدد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے۔پیغمبر اسلام (ص)نے مدینہ آنے کے بعد سب سے پہلے جو کام انجام دیا وہ مسجد کی تعمیر تھی، عمار

_______________________________

(۱)آیتیںاَمّنْ هو ٰقانتٔ آنأ اللیل ساجد اوقائماً یحذرالآخرة (زمر، ۹)ولا تطرد الذین ید عون ربّهم بالغداوة والعشی ۔ اس سلسلے میں تفسیر قرطبی۔کشاف۔درالمنثور۔تفسیررازی کی طرف رجوع کریں۔----(۲)وقعہ صفین ص۲۱۶۔۲۱۴ ۔ الامامة السیاسة ج۱ص۱۰۰

۶۱۳

نے مسجد بنانے میں سب سے زیادہ زحمت برداشت کی اکیلے کئی لوگوں کا کام انجام دیتے تھے ، اسلام سے عشق سبب بناکہ لوگ انہیں ان کی طاقت سے زیادہ کام لیں، ایک دن عمار نے ان لوگوں کی پیغمبر سے شکایت کی اور کہا ان لوگوںنے مجھے مار ڈالا ہے، پیغمبر اسلام(ص)نے اپنا تاریخی بیان دیا جو تمام حاضرین کے دل میں اتر گیا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''انک لن تموتَ حتیٰ تقتُلک الفئة الباغیةُ النّٰا کِبَةُعنِ الحقّ یکونُ آخِر زادِک من الدّنیٰا شَر بةُلَبن'' (۱)

''تمھیں اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تک تجھے باغی اور حق سے منحرف گروہ قتل نہ کرے دنیا میں تمہارا آخری رزق ایک پیالہ دودھ ہے''۔

یہ بات پیغمبر (ص)کے تما م صحابیوں میں پھیل گئی اور پھر ایک سے دوسروں تک منتقل ہو گئی، اسی دن تمام مسلمانوں کی نظر میں عمار ایک خاص مقام کے حامل ہوگئے پیغمبر اسلام (ص)نے مختلف مواقع پر بھی آپ کی تعریف کی، جنگ صفین میں امام علیہ السلام کی فوج میں عمار کے شامل ہونے کی خبر نے معاویہ کی دھوکہ کھائی ہوئی فوج کے دلوں کو لرزا دیا، اور بعض لوگ اس بات کی تحقیق کرنے لگے۔

______________________

(۱)یہ حدیث جس میں پیغمبر(ص)نے غیب کی خبر دی ہے محدثین اور مؤرخین نے اسے نقل کیا ہے اور سیوطی نے اپنی کتاب خصائص میں اس کے تو اتر کی تصریح کی ہے ،اور مرحوم علامہ امینی نے الغدیر(ج۹ص۲۲،۲۱) میں اس کی سندوں کو ذکر کیا ہے ۔ تاریخ طبری ج ۳ جزء ۶ص۲۱۔ کامل ابن اثیرج ۳، ص۱۵۷ کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

۶۱۴

عمار کی تقریر

جب عمار نے چاہا کہ میدان جنگ میں جائیں تو امام علیہ السلام کے دوستوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اسطرح سے گفتگو شروع کی:اے خدا کے بندو ، ایسی قوم سے جنگ کرنے کے لئے اٹھو ، جو ایسے شخص کے خون کا بدلہ لینا چاہتی ہے جس نے خود اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور خدا کی کتاب کے خلاف حکم دیا اور اسے صالح گروہ ، نہی عن المنکر اور امر با لمعروف کرنے والوں نے قتل کیا ہے لیکن وہ گروہ جس کی دنیا اس کے قتل کی وجہ سے خطرے میں پڑگئی تھی، ان لوگوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ کیوں اسے قتل کر دیاتو اس کا جواب دیاگیا کہ وہ اپنے برے کاموں کی وجہ سے مارا گیاہے، ان لوگوں نے کہا عثمان نے کوئی برا کام نہیں کیا ہے جی ہاں! ان لوگوں کی نظر میں عثمان نے براکام انجام نہیں دیا ، تمام دینار ان کے ہاتھ میں تھے وہ سب کھا گئے اور ہضم کرگئے ، وہ عثمان کے خون کا بدلہ لینا نہیں چاہتے بلکہ وہ دنیا کی لذتوں سے آشنا ہیں اور اسے دوست رکھتے ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اگر ہمارے ہاتھوں گرفتار ہوئے تو دنیا کی وہ لذ ت و آرام و آسایش سے محروم ہوجائیں گے۔

بنی امیہ کا خاندان اسلام قبول کرنے میں آگے نہ تھا کہ وہ رہبری کے لایق ہوتا، انہوں نے لوگوں کو دھوکہ دیا اور ''ہمارا ا مام مظلوم مارا گیا'' کا نعرۂ لگایا تا کہ لوگوںپر ظلم و ستم کے ساتھ حکومت و سلطنت کرے، یہ ایک ایسا بہانہ ہے جو ان لوگوں کی طرف سے ہواہے جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں اور اگر ایسا دھوکہ اور فریب انجام نہ دیتے تو دو آدمی بھی ان کی بیعت نہ کرتے اور ان کی

۶۱۵

مددکے لئے نہ اٹھتے۔(۱)

عمار تقریر ختم کرنے کے بعد میدان میں آئے اور ان کے ساتھی بھی انکے پیچھے پیچھے تھے، جب عمر و عاص کے خیمے پر نگاہ پڑی تو بلند آوا ز سے کہا تو نے اپنے دین کو مصر کی حکومت کے بدلے بیچ دیا ،لعنت ہو تجھ پر یہ پہلی مرتبہ تو نے اسلام پر وار نہیں کیاہے، اور جب آپ کی نگاہ عبید اللہ بن عمر کے خیمے پر پڑی تو پکار کر کہا: خدا تجھے نابو د کرے تو نے اپنے دین کو خدا اور اسلام کے دشمن کی دنیا کے بدلے بیچ دیا ہے، اس نے جواب دیا میں شہید مظلوم کے خون کا بدلہ لینا چاہتا ہوں عمار نے کہا تو جھوٹ بول رہا ہے خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ تو ہرگز خدا کی مرضی نہیں چاہتا اگر تو آج مارا نہ گیا تو کل ضرور مارا جائے گا، سوچ لے کہ اگر خدا وند عالم اپنے بند وں کو ان کی نیت کے مطابق جزاء و سزا دے تو تیری نیت کیاہے(۲)

اس وقت جب کہ ان کے چاروں طرف علی علیہ السلام کے دوست جمع تھے، کہا خدا وندا تو جانتا ہے کہ اگر مجھے معلوم ہو کہ تیری مرضی اس میں ہے کہ اس دریا میں کود جاؤ ںتو کود جاؤنگا اگر مجھے معلوم ہو کہ تیر ی مرضی اس میں ہے کہ تلوار کی نوک کو اپنے سینہ پر رکھوں اور اتنا جھکوں کہ پشت کے پار ہو جائے تو میں اس سے بھی دریغ نہیں کرونگا، خدا یا میں جانتا ہو ں اور مجھے آگا ہ بھی کیا ہے کہ آج کے دن وہ کام جس سے تو سب سے زیادہ راضی ہوگا وہ اس گروہ کے ساتھ جہاد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اگر مجھے معلوم ہو تا کہ

_______________________________

(۱) کامل ابن اثیرج ۳ ص۱۵۷ ۔ وقعہ صفین ص۳۱۹۔ تاریخ طبری ج ۳ جزء ۶ص۲۱

(۲) وقعہ صفین ص۳۳۶۔ اعیان الشیعہ ج۱ ص۴۹۶ مطبوعہ بیروت لبنان۔

۶۱۶

اس عمل کے علاوہ کوئی اور کام ہے تو اس کو ضرور انجام دیتا۔(۱)

_______________________________

( ۱) تاریخ طبری ج ۳ جزء ۶،ص۲۱ ۔ کامل ابن اثیرج ۳ ص۱۵۷ ۔ وقعہ صفین ص۳۲۰۔

۶۱۷

امام کی فوج میں عمار کے ہونے کا اثر

عمار کی شخصیت اور اسلام میں ان کی خدمات ایسی چیز نہ تھی جو اہل شام سے پوشیدہ ہوتی۔ ان کے بارے میں پیغمبر اسلام کی حدیث شہرت پاچکی تھی اور جو چیز شام کے لوگوں سے کچھ پوشیدہ تھی وہ اما م علیہ السلام کی فوج میں عمار کا شریک ہونا تھا، جب عمار کی امام علیہ السلام کی فوج میں احتمالاً شرکت کی خبر معاویہ کے فوج میں پھیلی تو جو لوگ معاویہ کی جھوٹی اور مسموم تبلیغ کی وجہ سے اس کی فوج میں داخل ہوئے تھے وہ چھان بین کرنے لگے ، انھی میں سے ایک یمن کی مشہور و معروف شخصیت ذوالکلاع کی تھی جس نے حمیر ی قبیلے کے بہت سے آدمیوں کو معاویہ کے لشکر میں شامل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، اب اس کے دل میں حقانیت کا نور چمک گیا وہ چاہتا تھا کہ حقیقت کو پالے، لہٰذا اس نے ارادہ کیا کہ ابونوح کے ساتھ ، جو کہ حمیر قبیلے کا سردار تھااور کوفہ میں رہتا تھا اور اس وقت امام علیہ السلام کی فوج میں شامل تھا اس سے ملاقات کرے، اسی لئے ذوالکلاع نے معاویہ کی فوج میں سب سے آگے کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا :میں ابو نوح حمیری جو کلاع قبیلے کا ہے سے بات کرناچاہتا ہوں ۔

ابونوح یہ آواز سن کر اس کے سامنے آیا اور کہا،تم کون ہوں،اپنا تعارف کراؤ؟

ذوالکلاع : میں ذوالکلاع ہوں میر ی التجا ہے کہ میر ے پاس آؤ۔

ابونوح :میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں جو تنہا تمھارے پاس آؤں ،مگر اپنے گروہ کے ہمراہ جو میرے اختیا ر میں ہے ۔

ذوالکلاع : تم خدا اور اس کے رسول اور ذوالکلاع کی پنا ہ میں ہو، میں چاہتا ہوں کہ تم سے ایک موضوع کے سلسلے میںگفتگو کرو ں،لہٰذا تم اکیلے میرے پاس آؤ،اور میں بھی تنہا تمھار ے پاس آؤنگا اور دونوں صفوں کے درمیان گفتگو کریں ، دونوں اپنی اپنی صف سے نکلے اور صفوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری ہوا۔

ذوالکلاع : میں نے تمھیں اس لئے بلایا ہے کہ میں نے پہلے (عمربن خطاب کے زمانے میں)

عمرو عاص سے ایک حدیث سنی ہے ۔

ابونوح : وہ حدیث کیا ہے؟

ذوالکلاع : عمروعاص نے کہا کہ رسول ِ خدا (ص)نے فرمایا ہے کہ ! اہل عراق اور اہل شام ایک دوسرے کے مقابلے میں جمع ہونگے، حق اور ہدایت کرنے والا ایک طرف ہے اور عمار بھی اسی طرف ہوگا۔

۶۱۸

ابونوح : خدا کی قسم عمار ہمارے ساتھ ہیں۔

ذوالکلاع : کیا ہم سے جنگ کا مکمل ارادہ ہے

ابونوح : ہاں کعبہ کے رب کی قسم ! کہ وہ تمھارے ساتھ جنگ کے لئے ہم سے زیادہ مصر ہیں اور خود میرا ارادہ یہ ہے کہ کاش تم سب لوگ ایک آدمی ہوتے اور میں سب کا سر کاٹ دیتا اور سب سے پہلے میں تمھارا سر قلم کرتا جب کہ تو میرا چچا زاد بھائی ہے۔

ذوالکلاع : کیوں ایسی آرزو تمھار ے دل میں ہے جب کہ میں نے اپنی رشتہ داری کو ختم نہیں کیا اورتمہیں اپنی قوم کا سب سے قریبی شخص جانااور میں نہیں چاہتا کہ تمھیں قتل کروں۔

ابونوح : خدا نے اسلام کی وجہ سے ایک رشتہ ختم کردیا ہے اور جو افراد دور تھے ان کو قریبی عزیز بنا دیا تم نے اور تمھارے دوستوں نے ہمارے سا تھ معنوی رشتہ کو ختم کر دیا ہے ہم حق پر ہیںاور تم باطل پر ہو سردارِکفر اور اور اس کے لشکر کی مدد کر رہے ہو۔

ذوالکلاع : کیا تم شام کی فوج کے درمیان میرے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہو؟ میں تمھیں امان دے رہا ہوں کہ اس راہ میں قتل نہیں کئے جاؤ گے او ر نہ تجھ سے کوئی چیز لی جائے گی۔ اور نہ بیعت کے لئے مجبور ہوگے بلکہ مقصد یہ ہے کہ عمروعاص کو آگاہ کردو کہ عمار، امام علی علیہ السلام کے لشکر میں موجود ہیں۔شاید خداوند عالم دونوں لشکروں کے درمیان صلح و آشتی کا ماحول پیدا کردے۔

ابونوح :میں تمھارے اور تمھارے دوستوں کے مکر و فریب سے خوف محسوس کر رہا ہوں۔

ذواکلاع :میں اپنی بات کا ضامن ہوں۔

ابونوح نے آسمان کی طرف رخ کرکے کہا ، خدا یا تو بہتر جانتا ہے کہ ذوالکلاع نے مجھے امان دیا ہے اور جو کچھ میرے دل میں ہے تو اس سے باخبر ہے ، میر ی حفا ظت فرما، اتنا کہنے کے بعد ذوالکلاع کے ساتھ معاویہ کی فوج کی طرف گئے اور جب عمروعاص اور معاویہ کے خیمے کے پاس پہونچے تو دیکھا کہ دونوں ،لوگوں کو جنگ کے لئے تیار کر رہے ہیں۔

ذوالکلاع نے عمرو عاص کو متوجہ کر تے ہوئے کہا کیا تو ایک سچے اور عقلمند انسان سے عمار یاسر کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہے؟

۶۱۹

عمروعاص : یہ کون آدمی ہے؟

ذوالکلاع نے ابونوح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ میرا چچا زادبھائی اورکوفہ کا رہنے والا ہے، عمرو عاص نے ابونوح سے کہا میں تمھارے چہرے پر ابوتراب کی نشانیاں دیکھ رہا ہوں۔

ابونوح : میرے چہرے پرمحمد (ص)اور ان کے دوستوں کی نشانیاں ہیں اور تیرے چہرے پر ابوجہل و فرعون کی نشانیاں ہیں۔ اس وقت معاویہ کی فوج کا ایک سردار ابوالاعور اٹھا اور اپنی تلوار کھینچ کر کہاکہ اس جھوٹے کے چہرے پر ابوتراب کی نشانیاں ہیں میں اس کو قتل کروں گا، اس میںکیسے اتنی جرأت پیدا ہو گئی کہ ہمارے درمیان ہوتے ہوئے بھی ہمیں گالی دے رہا ہے۔

ذوالکلاع نے کہا: خدا کی قسم ، اگر تم نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو میں تجھے تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔ یہ میرا چچازاد بھائی ہے اور میری امان میں وہ اس صف میں داخل ہوا ہے، میں اسے اس لئے لایا ہوںکہ تم لوگ عمار کے بارے میں سوال کرو کہ جس کے متعلق مستقل جنگ و جدال کررہے ہو۔

عمر وعاص : میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ سچ بولنا کیاعمار یا سر تمھاری فوج میں ہیں۔

ابونوح : میں جواب نہیں دوں گا مگر یہ کہ اس سوال کی وجہ سے آگاہ ہو جاؤں ، جب کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بہت دوست ہمارے ساتھ ہیںاور سب کے سب تمھارے ساتھ جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔

عمرو عاص :میں نے پیغمبر (ص)سے سنا ہے کہ عمار کو ظالم وستمگر گروہ قتل کرے گا اور عمار کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ حق سے دور ہو ں جہنم کی آگ ان پرحرام ہے۔

ابونوح :اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں و اللہ وہ ہمارے ساتھ اور وہ تم لوگوں سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہیں۔

عمر وعاص : وہ ہم سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہیں؟!

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809