فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 361646 / ڈاؤنلوڈ: 6014
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ب عبودیت کا مقام۔

قرآن مجید میں لفظ عبد جب مطلق استعمال ہو ا ہے اور یہ پیغمبر اسلام کے ساتھ خاص ہے کیونکہ دوسرے انبیاء کے لئے جب یہ لفظ استعمال ہوتا ہے وہاں ساتھ پہلے یا بعد میں نبی کا نام یا صفت بھی ساتھ بیان ہوتی ہے اس مقام پر بھی چونکہ لفظ عبد مطلق ہے(۱) یہ پیغمبر اسلام کے ساتھ خاص ہے۔

جس طرح خد ا کے علاوہ کوئی ذات بھی مطلق حر نہیں ہے اسی طرح آپ (ص) کے علاوہ کوئی بھی مطلق عبد نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم جیسے ابو الانبیاء بھی آپ(ص) کے پرچم کے سایہ میں ہو ں گے جیسا کے آپ کا ارشاد گرامی ہے۔

آدم و من دونه تحت لوائی یوم القیامة

آدم اور اسکے بعد آنے والے سب لو گ قیامت والے دن میرے سایہ میں ہونگے۔

یہ مقام عبودیت اس قدر بلند ہے کہ مو لی کائنات حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ارشاد فر ماتے ہیں۔

الهی کفی بی غدا ان اکون لک عبدا

اے میرے معبود میرے لئے یہ بہت بڑی عزت ہے کہ میں تیرا عبد ہوں۔(۲)

لہذا مطلق سرداری اور سیادت بھی آپ کے لئے ہے،آپ عبد خدا کے نام سے پہلے ہی سے پوری کائنات میں مشہور ومعروف تھے اسی لئے اس آیت میں بھی عبد مطلق لایا گیا ہے کہ ہم نے اپنے عبد پر جو کچھ نازل کیا ہے اس میں تمہیں شک ہے تو اس جیسا ایک سورہ لے آؤ۔

____________________

(۱)کذبت قبلهم قوم نوح فکذبوا عبدنا ۔سورہ قمر آیت نمبر ۹ان سے پہلے قوم نوح نے بھی تکذیب کی تھی اور انہوں نے بھی ہمارے بندے کو جھٹلایا۔واذکر عبدنا ایوب۔سورہ ص آیت نمبر ۴۱۔ ہمارے عبد ایوب کا ذکر کرو۔

(۲)مفاتیح الجنان مناجات حضرت امیر المومنین علیہ السلام ص۲۶۶۔

۱۲۱

قرآن کا چیلنج

الف۔قرآن مجید تمام شکوک سے پاک ہے

ریب اس شک کو کہتے ہیں جو تہمت کے ساتھ ہو،قرآن مجید ہر قسم کے ریب و شک سے پاک ہے لہذا اگر تمہں قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے میں شک ہے اور تم رسول خدا (ص) پرتہمت لگاتے ہو کہ انہوں نے خدا پر اختراء باندھا ہے اور یہ اس کا اپنا کلام ہے تو تم بھی اس قسم کا کلام بنا لا ؤ یہ لا ریب کتاب ہے اور تم اس میں شک کرتے ہو اور اسے رسول خدا کا کلام کہتے ہو قرآن کی اس آیت میں پیغمبر اسلام کی صداقت بیان کر رہا ہے کہ لوگ کبھی تو توحید میں شک کرتے ہیں۔(۱) کبھی وحی کے بارے میں شک وگمان میں مبتلا ہوتے ہیں(۲) کبھی قیامت کو نہیں مانتے۔(۳)

____________________

( ۱)( وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ ) (ابراہیم آیت نمبر ۹)

ہمیں اس بات کے بارے میں واضح شک ہے جس کی طرف تم ہمیں دعوت دے رہے ہو ۰۰۰

( ۲)( أَأُنزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِن بَيْنِنَا ۚ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّن ذِكْرِي ۖ ) (ص آیت ۸)

کیاہم سب کے درمیان تنہا انہیں پر کتاب نازل ہوئی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انہیں ہماری کتاب میں شک

( ۳)( وَمَا كَانَ لَهُ عَلَيْهِم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يُؤْمِنُ بِالْآخِرَةِ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِي شَكٍّ ۗ )

اورشیطان کو ان پر اختیار حاصل نہ ہوگا مگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کون آخرت پر ایمان رکھتاہے اور کون شک میں مبتلا ہے (سباء آیت نمبر ۲۱)

۱۲۲

یہ سب شکو ک و شبھات ا س لئے نہیں کہ ان میں کسی قسم کا ریب وشک ہے بلکہ یہ اس لئے شک کرتے ہیں کہ یہ لوگ اندھے ہو چکے ہیں ان میں غور وفکر کی قدرت نہیں رہی یہ اپنے سوء اختیار کی وجہ سے راہ راست سے دور ہیں اس لئے یہ شک کرتے ہیں کہ بلکہ یہ اندھے ہیں انہیں حق سجھائی نہیں دیتا۔(۴) حا لانکہ ان کی آنکھیں ہی اندھی نہیں ہیں بلکہ ان کے دل اندھے ہو چکے ہیں۔(۵) کیونکہ آنکھ اور کان تو ادراک کے وسائل ہیں جب قلب ہی کام نہ کر سکے تو یہ کیا کام کر سکتے ہے۔

____________________

(۴)جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

(بَلِ ادَّارَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ ۚ بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّنْهَا ۖ بَلْ هُم مِّنْهَا عَمُونَ) ۔سورہ نمل آیت نمبر ۶۶۔

بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ناقص رہ گیا ہے اور یہ شک میں مبتلا ہو گئے ہیں بلکہ (یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ )یہ با لکل اندھے ہیں۔

(۵)(أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ) ۔حج آیت نمبر ۴۶۔

کیا یہ لوگ روئے زمین پر چلے پھرے نہیں ہیں تاکہ ان کے ایسے دل ہوتے ہیں جن سے (حق بات)سمجھنے یا اس کے کان ہوتے جن سے یہ سنتے کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ سینے میں موجود دل ہی اندھے ہو جایا کرتے ہیں۔

۱۲۳

انہوں نے غور وفکر اور سوچنے کے چراغ گل کر دیتے ہیں اسی وجہ سے یہ لوگ شک وشبہ میں مبتلا ہو گئے ہیں اور قرآن مجید جیسے واضح روشن حقائق کے متعلق شک و تردید کر بیٹھے۔کبھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے۔ ہم بھی اس قسم کی کلام بنا سکتے ہیں۔(۱)

قرآن مجید ان لوگوں سے بر ملا کہہ رہا ہے کہ اگر تمہیں اس کے قرآن ہونے کے بارے میں شک ہو تو تم بھی اس جیسا کوئی سورہ ہی لے آؤ لہذا اس آیت میں اللہ تعالی ایک طرف تو قرآن مجید کے معجزہ ہو نے کو بیان کر رہاہے اور دوسری طرف پیغمبر اسلام کی صداقت کو بیان کر رہا ہے کہ یہ میرا کلام ہے اور میں نے اسے اپنے عبد پر نازل کیا ہے یہ اس کا کلام نہیں ہے،تم اپنے دعوے میں جھوٹے ہو تمہار ا شک تمہارے اندھے پن کی وجہ سے ہے۔

قرآن ہمیشہ رہنے والا ایک معجزہ ہے

معجزہ وہ غیر معمولی چیز ہے جو کسی نبی کو دعوائے نبوت یاکسی اور منصب الہی والے کو اس منصب کے ثبوت میں خدا وند عالم کی وجہ سے عطاء ہوا ہواور اس کے مقابل لانے سے ساری دنیا عاجز ہو یعنی معجزہ ان غیر معمولی آثار کا نام ہے جو ایک مدعی نبوت میں اس کے دعوی کی خصوصی دلیل بن سکیں۔

قرآن مجید ہمارے رسول کا ہمیشہ رہنے والا معجزہ ہے جب کہ گذشتہ انبیاء کے معجزات ایک زمانے تک محدود تھے مثلا حضرت عیسی کا پیدا ہوتے ہی گفتگوکرنا،مردوں کو زندہ کرنا،مادر ذاد اندھوں کو بینائی دینا،یا برص کے مریضوں کو تندرست کرنا،یا حضرت موسی علیہ السلام کو ید بیضاء عنایت فرمانا یہ سب کے سب ایک زماننے تک محدود ہیں۔لیکن قرآن مجید تا قیامت معجزہ ہے اور آغاز سے انجام تک معجزہ ہے یعنی جس طرح حضرت کے زمانہ میں معجزہ تھا اسی طرح آج بھی معجزہ ہے اور قیامت تک معجزہ رہے گا۔

_____________________

(۱) لو نشاء لقلنا مثل هذا (انفعال آیت نمبر ۳۱)

۱۲۴

قرآن کی حقانیت یقینی ہے

خداوند عالم اس ایک معجزہ میں پوری کائنات کو چیلنج کر رہا ہے کہ جو کچھ ہم نے اپنے خاص بندے پر نازل کیا ہے اگر تمہیں اس کے متعلق شک ہے تو کم از کم اس جیسا ایک سورہ ہی بنا لا ؤ۔ یعنی قرآن مجید کی حقا نیت پر اس قدر یقین ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ حتمی اس جیسی پوری کتاب بنا لاؤ وہ تو تم یقینا نہیں بنا سکتے،اچھا ( ۱۰) آیات ہی بنا لاؤ،اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو فقط و فقط ایک سورہ بنا لاؤ یہاں ایک سورہ جو کہا ہے اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ تم( ۲۸۶) آیات پر مشتمل سورہ بقرہ جتنا سورہ بنالاؤ بلکہ تمہیں اختیار ہے کہ ( ۳) آیات پر مشتمل سورہ کو ثر جتنا سورہ بھی بنا سکتے ہو تو بنا کر دکھاؤ۔ اگر تم قرآن مجید جیسا ایک سورہ لے آو گئے تو ہم اسے پورے قرآن کے مقابلے میں تسلیم کرنے کے لئے تیار ہیں۔

مخالف قرآن جھوٹے ہیں

خدا وند عالم نے عرب جیسی با حمیت اور با غیرت قوم کو للکارا کر کہا ہے کہ اگر تمہں قرآن پر شک ہے تو اس جیسا ایک سورہ ہی بنا لاؤ اگر تم اکیلے ایسا نہیں کر سکتے تو اللہ کو چھوڑ کر جتنے تمہارے مدد گار ہیں ان سب کو بھی جمع کر لو اور اجتماعی کوشش کرو سب کے سب مل کر اس قرآن جیسا ایک سورہ بنا لاؤ لیکن اگر تم سورہ نہ بنا سکے تو پھر تم جھوٹے ہو اور تمہارا خیال بھی غلط ہے۔

قرآن مجید کسی بھی انسانی طاقت کا نتیجہ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ صرف اور صرف اللہ کا نازل کر دہ کلام ہے یہ فصاحت اور بلاغت میں بلغاء کے لئے معجزہ ہے اپنی حکمت میں حکماء کے لئے معجزہ ہے اپنے علمی مباحث کے عنوان سے علماء کے لئے معجزہ ہے قانون دانوں کے لئے اجتماعی قانون گذاری کرنے کے لحاظ سے معجزہ ہے۔

غرض قرآن مجید ہر پہلو اور ہر لحاظ سے معجزہ ہے اور اللہ کی نازل شدہ کتاب ہے اس میں شک و شبہ کرنے والا اگر اس کے مقابل کچھ نہیں لا سکتا تو سمجھ لے کہ میں جھوٹا ہوں اور میرا دعوی غلط ہے۔

( فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِی وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِینَ )

اگر تم ایسا نہ کر سکے اور یقینا نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور یہ کافروں کے لئے تیارکی گئی ہے۔

۱۲۵

الف۔ قرآن کا چیلنج لا جواب ہے

قرآن مجید نے نفسیاتی طریقہ اختیار کیا ہے اس نے تیز سے تیز اور سخت سے سخت الفاظ میں چیلنج کیا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ اگر تمہیں اس میں شک ہے تو اس جیسی کوئی اور کتاب بنالاؤ یعنی انہیں غیرت اور حمیت دلاتی ہے تاکہ وہ اپنی پوری طاقت اور قوت کو استعمال کرتے ہوئے مقابلہ کی کوشش کریں۔

وہ غیور اور باحمیت اور پر جوش عرب جو چھوٹی چھوٹی بات پر جان دینے کے لئے آمادہ ہو جا تے تھے اگر ان میں دم وخم ہوتا اور وہ قرآن کے چیلنج کا جواب دے سکتے ہوتے تو وہ ان طعنوں،سرزنشوں،اور مبارزہ طلیبوں کو سن کر ضرور اپنی فکر کی طاقتوں سے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے۔

لیکن وہ ناکام اور عاجز رہے انہوں نے واضح طور پر جان لیا کہ یہ انسانی طقت سے باہر ہے اور یہ خدائی کام ہے حضرت محمد (ص) نے تو اسے اپنی حقانیت کی دلیل بنا کر پیش کیا ہے مضحائے عرب کو مقابلہ کی دعوت دی وہ قرآن مجید کے چیلنج کا جواب لانے سے عاجز آگئے۔ قرآن کاچیلنج لا جواب رہا اور قیام قیامت لا جواب رہے گا کیونکہ اس کی حقانیت کا ثبوت ہمہ گیر حیثیت رکھتا ہے اسی وجہ سے یہ صرف عربوں کے لئے معجزہ نہ تھا۔

بلکہ پوری خلق کے لئے عربی ادیب عمر بن بحر حافظ کہتے ہیں۔عرب قوم کا قرآن جیسا کلام پیش نہ کر سکنا اور اس کے مقا بلے میں عاجز آجانا دنیا کے تمام غیر عرب لوگوں کے لیئے قرآن کی حقانیت کا ثبوت ہے۔

جہاں تک عرب قوم کا تعلق ہے اس نے اس قرآن کے مقابلہ میں اپنی عاجزی کا اظہار کردیا تھا ۱۴۰۰ سال بعد بھی قرآن مجید اسی انداز میں اپنی مقابل دنیا کے ہر طبقہ کو پکار پکار کر مقابلہ کی دعوت دے رہا ہے اور مخالفین کو سرتوڑ کوشش کے بعد ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ ماننا پڑا کہ قرآن مجید کا یہ دعوی لا یا تون بمثلہ۔تا قیام قیامت سچا رہے گا یہ سچائی پر اعتماد کی انتہا ء ہے دشمنوں کے ماحول میں داعی حق انتہائی اطمنان و سکون بلکہ یقین کے ساتھ کہ رہا ہے تم ہرگز ہرگز اس کا مثل نہ لا سکو گے اور قرآن کا مثل لانا اس کائنات کی طاقت سے باہر ہے۔

۱۲۶

ب :دعوت ایمان

قرآن مجید ایک بار بھی انہیں ایمان قبول کرنے کی دعوت دے رہا ہے کہ جب تم اس کی مثل نہیں لا سکے ہو تو پھر جان لو کہ قرآن مجید پوری کائنات کے لیئے معجزہ ہے۔

لہذا تم ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر قرآن مجید اور پیغمبر اسلام کی رسالت پر ایمان لے آؤ ضروریات اسلام کو تسلیم کرو تب تمہاری بخشش کا سامان ہو سکتا ہے کیونکہ بخشش کے لیئے اسلام کے اصولوں کو دل وجان سے تسلیم کرنا ضروری ہے یہ تمہارے لیئے اتمام حجت ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے گناہوں سے توبہ کرلو جہنم کی آگ سے بچاؤ کی یہی ایک صورت ہے کہ اس دعوت ایمان پر لبیک کہتے ہوئے اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کرلو۔

ج: اتمام حجت کے بعد انکار کا نتیجہ

قرآن مجید نے اتمام حجت کردی تھی منکرین کے لیئے جہنم کی آگ سے بچنے کا ایک موقعہ فراہم کیا تھا اب جن لوگوں نے اتمام حجت کے بعد بھی اگر اسلام کی پیروی نہ کی تو تم اور تمہارے معبود جہنم کا ایندھن بنو گے جیسا کہ خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔

( إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ )

تم اور جس کی تم اللہ کے علاوہ عبادت کرتے ہو سب کے سب جہنم کا ایندھن ہیں۔(۱)

آتش جہنم کا عذاب در حقیقت نا فرمان لوگوں کے لیئے ہے ان لوگوں کی اس سے بڑھ کر اور کیا توہین ہو گی کہ ان کے وہ معبود جن کی یہ لوگ پرستش کرتے ہیں انہیں بھی جہنم کی آگ میں ڈال دیا جائے گا اسی وجہ سے یہ کہا گیا ہے اس آگ کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جو ان کے معبود تھے۔

____________________

(۱)انبیاء آیت ۹۸۔

۱۲۷

چونکہ یہ لوگ یہ خیال کرتے تھے قیامت والے دن یہ بت اللہ کے سامنے ہماری شفاعت اور سفارش کریں گے آج انہیں بھی ان کے ساتھ جہنم کی آگ میں جھونک دیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ یہ تمہاری کیا شفاعت کر سکتے ہیں یہ تو بالکل بے بس ہیں اگر تم اس جہنم کی آگ سے بچنا چاہتے ہو تو اللہ،رسول اور ضروریا ت دین کو دل سے تسلیم کر لو تب اس درد ناک عذاب سے تمہارا چھٹکارہ ہو سکتا ہے۔

( وَبَشِّرْ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ کُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِی رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا وَلَهُمْ فِیهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِیهَا خَالِدُونَ )

اے پیغمبر! جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے انہیں خوشخبری دے دیجئے ان کے لیئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جب بھی انہیں ان باغات سے کوئی پھل کھانے کے لیئے ملے گا تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو پہلے بھی ہمیں کھانے کے لیئے مل چکا ہے اور جو پھل انہیں پیش کیے جا ئیں گے( وہ خوبی و زیبائی )میں یکساں ہیں اور بہشت میں ان کے لیئے پاک و پا کیزہ ہوں گی اور یہ لوگ اس بہشت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

گزشتہ آیات میں ان لوگوں کا تذکرہ ہو رہا تھا جنہوں نے دعوت عبودیت کو قبول نہ کیا اور کفر اختیار کیا حالانکہ ان کے لیئے اتمام حجت بھی ہو چکی تھی کہ کسی نہ کسی طرح یہ لوگ جہنم کی آگ سے بچ جائیں اور اھل ایمان میں داخل ہو جائیں اس کے بعد انہیں حجج بینہ کے ساتھ دردناک عذاب سے ڈرایا گیا لیکن یہ لوگ راہ راست پہ نہ آئے۔

اب اس آیت میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے دعوت عبودیت پر لبیک کہی ان کے لیئے بروز قیامت بلند مقام درجات اور نعمتوں کو بیان کیا جارہا ہے۔

۱۲۸

بشارت الہی

قرآن مجید میں کئی طرح کی بشارت ہوتی ہے کبھی تو اس مورد کی عظمت کو بیان کرنے کے لیئے بشارت دی جاتی ہے جیسا کہ اس آیت میں صاحبان ایمان کو جنت کی بشارت دی جارہی ہے اس سے جنت کی عظمت کو بیان کیا جا رہا ہے اسی طرح خداوند عالم کا یہ فرمان بھی جنت کی عظمت کو بیان کر رہا ہے۔

( جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ )

جنت جس کی وسعت سارے زمین و آسمان کے برابر ہے اور متقین کے لئے مہیا کی گئی ہے۔(۱)

اگرچہ اس آیت مجیدہ میں تشبیہ کا حکم ہے پیغمبر اسلام (ص) سے خطاب ہے لیکن آپ کے وسیلے سے آپ کی نیک اور صالح امت کو بھی شامل ہے جب امت آپ اور آپ کے حقیقی جانشینوں سے معارف الہی حاصل کر کے حقیقی متقی بن جائیں اور خدا کی واحدانیت،انبیاء کی نبوت اور آئمہ اطہار علیہم السلام کی امامت کے ساتھ ساتھ ضروریات دین و مذہب پر عمل پیرا ہوجائیں تو اس وقت یہ بشارتیں ان کے لئے ہیں۔

ایمان اور عمل صالح

خدا وند عالم کی یہ سب بشارتیں ان لوگوں کی ہیں جو صاحب ایمان اور عمل صالح بجا لانے والے ہیں،ایمان، عمل صالح سے جدا نہیں ہے بلکہ قرآن مجید میں جہاں بھی جنت کی بشارت دی گئی ہے وہاں صرف صاحب ایمان نہیں کہا گیا بلکہ ایمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔(۲)

لہذا جنت میں جانے کے لئے مومن ہونے کے ساتھ،عمل اور اصول عقائد کی پابندی بھی ضروری ہے۔ایمان اور عمل صالح سے ہی انسان کامل بنتا ہے،ایمان جڑ ہے اور عمل صالح اس کا پھل ہے جس طرح جڑ اور پھل کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

____________________

(۱)آل عمران آیت نمبر ۱۳۳

(۲)ملاحظہ فرمائیں سورہ طلاق آیت نمبر ۱۱،سورہ نور آیت نمبر ۵۵۔

۱۲۹

اسی طرح ایمان اور عمل بھی ہیں نیکی ایمان سے الگ نہیں ہو سکتی،بلکہ عمل صالح کی عملی شکل کا نام ایمان ہے۔رضائے الہی کے مطابق جو کام بھی کریں گے وہ عمل صالح ہو گا جو جتنا زیادہ رضائے الہی کا پابند ہو گا وہ اتنا بڑا مومن ہو گا،عمل صالح کے حقیقی مصداق آئمہ اطہار علیہم السلام ہیں جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

فالذین امنو ه و عملوالصالحات علی ابن ابی طالب والا صیاء من بعد ه و شیعتهم

حقیقی ایمان لانے والے اور عمل صالح بجا لانے والے تو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور ان کے بعد ان کے اوصیاء ہیں اور پھر ان کے شیعہ ایمان و عمل کا نمونہ ہیں(۱)

بہر حال ایمان کے ساتھ ضروریات دین و مذہب پر قلبی طورپر عمل کرنے والا ہی جنت کی بشارت کا مستحق ہے اور حقیقی مومن ہے جیسا کہ سلیم بن قیس ھلالی حضرت علی ابن ابی طالب علیہ ا لسلام کی خدمت میں عرض کرتا ہے۔

جو شخص اس دنیا سے اس حالت میں اٹھے کہ وہ اپنے امام کو جانتا بھی ہے اور اس کا مطیع بھی ہے تو کیا ایسا شخص اہل جنت سے ہو گا؟

حضرت نے فرمایا :

جو شخص بھی ایمان کی حالت میں اپنے اللہ سے ملاقات کرے وہ ان لوگوں میں سے ہوگا جو اللہ پر ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام انجام دیے۔(۲)

____________________

(۱)بحار الانوار ج ۳۶ ص ۱۲۹۔

(۲)بحار الانوار ج۲۸ ص ۱۶،حدیث ۲۲۔

۱۳۰

بہشت اور اس کی نعمتیں

صاحبان ایمان و عمل کے لئے جنت اور اس کی نعمتیں ہیں یعنی ان لوگوں نے دنیا میں جتنے نیک اعمال کیے تھے آخرت میں وہ سب ان کے سامنے ظاہر ہونگے کیونکہ اس کا عمل زندہ ہے اور بہشت و اس کی نعمتیں اسی عمل کا ظہور ہیں

الف :بہشت کے باغات

انسان کو اسکے عمل صالح اور ایمان کی وجہ سے ایسی جنت کے باغوں کی بشارت دی جا رہی ہے ان باغات کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان درختوں پر انوع و اقسام کے پھل لگے ہوئے ہیں یہ لوگ جب بھی ان کا اردہ کریں گے یہ پھل ان کے سامنے حاضر ہو جائیں گے اور یہ اسے تناول کریں گے۔

جب انہیں کھانے کے لئے پھل دیے جاےئں گے تو یہ لوگ کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جسے پہلے ہم کھا چکے ہیں لیکن جب اسے کھائیں گے تو انہیں محسوس ہوگا کہ اس کی لذت اور ذائقہ بہت عمدہ ہے اور حقیقت کے لحاظ سے بہت مختلف ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اس کو ان پھلوں کے مشابہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ مشابہت کے لئے ضروری ہے کہ دونوں چیزیں ذاتی طور پر ایک دوسرے سے جدا ہوں لیکن شکل وصورت میں ایک جیسی ہوں تو پھر ایک دوسرے کے مشابہ کہلاتی ہیں۔

ب:پاکیزہ بیویاں

صاحبان ایمان و عمل کے لئے ایک بشارت یہ ہے کہ انہیں وہاں پاکیزہ بیویاں میسر ہونگی اس سے مراد حوریں بھی ہو سکتی ہیں اور اس دنیا والی نیک بیویاں بھی ہو سکتی ہیں جب یہ بہشت میں داخل ہونگے تو اس دنیا میں جتنی جسمانی اور روحانی کثافتیں تھیں سب ختم ہو جائیں گی اور وہ ازداج مطا ھرہ کہلوانے کی مستحق قرار پائیں گی۔بہر حال مومنین کو حورالعین ملیں گی وہ حوریں،اخلاق کمال اور جمال میں بے نظیر ہونگی اور وہ ہر قسم کی نجاسات سے پاک و پاکیزہ ہونگی۔حضرت رسول اکرم (ص) سے منقول ہے۔ اگر جنت کی عورت ایک دفعہ زمین کی طرف دیکھ لے تو اس کی خوشبو پوری زمین کو معطر کر جائے گی۔ لہذا جسمانی اور روحانی نجاستوں سے پاک،تمام خصوصیات نسوانی کا مرقع بیویا ں صرف اہل ایمان کو نصیب ہونگی۔

۱۳۱

نعمتوں میں دوام و ہمیشگی

انسان کو جب بھی اس دنیا میں کوئی نعمت ملتی ہے اسے یقین ہوتا ہے ایک دن وہ اس سے ختم ہو جائے گی اس کے باوجود اسے نعمت میسر آنے کے ساتھ ہی خوشی محسوس ہونے لگتی ہے اور خدا کا شکر بجا لانے کے لئے اپنا سر سجدے میں رکھ دیتا ہے۔لیکن آخرت میں ان صاحبان ایمان و عمل کو بشارت دیجارہی ہے یہاں دنیا والا معمالہ نہیں ہے یہاں کی نعمتیں ا بدی ہیں اور جاودانی ہیں ان کے لئے فنا اور زوال کا تصور تک نہیں ہے۔

مومن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں رہے گاجنت کی نعمات سے لطف اندوذ ہوتا رہے گا۔ جنت کی کسی چھوٹی سے چھوٹی نعمت کے مقابلے میں بھی دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت نہیں آسکتی کیونکہ دنیاوی نعمت کتنی ہی بڑی ہی کیوں نہ ہو آخر اس نے فنا ہو نا ہے اور جنت کی نعمت تو جاودانی ہے،یہ ہمیشہ کے لئے جنت میں رہیں گے اور کافر اور منافق کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لئے جہنم ہو گا۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس کی علت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

انما خلد اهل النار فی النار لان ینانیهم کا نت فی الدنیا ان لو خلا وا فیها ان یعصوا الله ابدا و انما خلد اهل الجنة لان نیاتهم کانت فالدنیا ان لو لقوا فیها ان یطیعوا لله ابدا،النیات خلد هو لاء و هولا

اہل جنہم اس لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہم میں رہیں گے کیونکہ اس دنیا میں ان کی نیت ہی بد تھی اگر وہ کچھ دیر اس دنیا میں اور رہ لیتے تو خدا کی نافرمانی میں مبتلا رہتے۔ اہل بہشت اس لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں رہیں گے کہ اس دنیا میں ان کی نیت اچھی تھی اور اگر کچھ عرصہ اس دنیا میں اور زندہ رہتے تو اللہ تعالی کی اطا عت میں ان کی زندگی گزرتی اس لئے یہ ہمیشہ جنت میں اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔(۱)

____________________

(۱)نور الثقلین ج ۱ ص۴۴۔

۱۳۲

( إِنَّ اللهَ لاَیَسْتَحْیِی أَنْ یَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَیَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِینَ کَفَرُوا فَیَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللهُ بِهَذَا مَثَلًا یُضِلُّ بِهِ کَثِیرًا وَیَهْدِی بِهِ کَثِیرًا وَمَا یُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِینَ )

بے شک اللہ اس سے نہیں شرماتا کہ وہ مچھر یا اس سے کم تر کسی چیز کی مثل بیان کرے اب جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ ان کے پروردگار کی طرف سے برحق ہے اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ یہی کہتے ہیں کہ آخر ان مثالوں سے خدا کا مقصد کیا ہے خدا اس سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے اور گمراہی میں صرف فاسقوں کو ڈالتا ہے۔

شان نزول

اس آیت مبارکہ کے شان نزول کے حوالے سے ابن مسعود روایت بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے منافقین کی پہچان کے لیئے اسی سورہ کی ۱۷ ویں اور ۱۹ ویں آیات میں مثال کے ذریعے ان کے حقائق سے پردہ اٹھایا تو وہ کہنے لگے خدا سے بعید ہے کہ وہ ایسی مثالیں بیان کرے۔

ان کے جواب میں خداوندعالم نے اس آیة مبارکہ کو نازل کیا کہ اللہ تعالی کو مچھر اور اس سے کمترکسی چیز کی مثال بیان کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہے۔اسی طرح اس آیت کے شان نزول کے حوالہ سے قتادہ کی یہ روایت بھی کتب تفسیر میں موجود ہے کہ خداوندعالم نے سورہ عنکبوت کو نازل کیا تو یہودی اعتراض کرنے لگے اور کہنے لگے یہ خدا کی نازل کردہ سورہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی سے بعید ہے کہ وہ ایسی چیزیں بیان کریں۔

اس وقت یہ اایت نازل ہوئی اور خداوندعالم منافقین اور کافرین کے حقائق کو ایسی مثالوں سے بیان کرسکتا ہے۔مچھر ہو یا عنکبوت کی مثال سب اللہ کی طرف سے ہیں اسی کمتر مخلوق مچھر ہی نے تو نمرود جیسے مغرور شخص کو ہلاک کر دیا تھا اور عنکبوت (مکڑی) نے غار ثور کے دھانے جالہ بن کر پیغمبر اسلام کی حفاظت کی تھی،یہ حقیر چیزیں نہیں ہیں بلکہ انہوں نے تو تاریخ کا رخ ہی موڑ دیا تھا نمرود ظالم تھا اسے مچھر نے ہلاک کر کے نئی تاریخ لکھی ادھر مکڑی نے ظالموں سے حضرت کی حفاظت کر کے تا ریخ رقم کی۔

۱۳۳

قرآنی تمثیل

قرآن مجید وحی الہی ہے اور ہر قسم کے نقص سے پاک ہے قرآن کے مخالف کھبی تو قرآن کے انداز بیان پر اعتراض کرنے لگتے ہیں اور کھبی قراانی مطالب کو پسند نہیں کرتے۔اس آیت میں خدا ان کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمارہا ہے کہ تمہیں مطلب سمجھانے کے لیئے مثال دی ہے یعنی انسانی ذہن محسوسات سے مانوس ہے وہ اس وقت تک کسی حقیقت کا آسانی سے تصور نہیں کرسکتا جب تک حسی شکل میں اس کی مثال نہ بیان کر دی جائے اور انسانی مشاہدے کو مدنطر رکھ کر مثال نہ پیش کر دی جائے۔

اسی وجہ سے قرآن مجید نے چھوٹی اور بڑی چیزوں کی مثالیں بیان کر کے مطالب کو سمجھایا ہے لہذا خدا ایسی مثالیں دینے سے نہیں شرماتا اور اس مثال کو اپنی اور اپنے کلام کی شان کے خلاف نہیں جانتا خواہ مچھر سے مثال دی جائے یا اس سے کمتر کسی اور مخلوق سے مثال دی جائے کیونکہ اللہ کا مقسد صرف حقیقت کو انسان کے ذہن کے قریب لانا ہے اسی وجہ سے اللہ تعالی مطالب کو کبھی برہان ذریعہ بیان کرتا ہے کبھی جدال احسن،کبھی موعظہ اور کبھی مثال کے ساتھ بیان کرتا ہے۔

مچھر کی مثال کیوں

منافق کافر اور مشرک آپس میں مل بیٹھ کر اعتراض کرتے تھے کہ مچھر ایک حقیر سی مخلوق ہے خدا وند متعال نے اس کا تذکرہ کیوں کیا ہے اس کی نسبت کسی بڑی مخلوق کو بیان کرتا،لیکن حقیقت یہ ہے کہ مچھر بھی بہت بڑی مخلوق ہے،اسی مچھر کے متعلق حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں۔

۱۳۴

ولو اجتمع جمیع حیوانها من طیرها و بها ئمها و کان من صراحها و سائمها و اضاف اسناخها و اخباسها و قبلدة اممها و اکیاسها علی احداث بعوضةما قدرت علی احداثها ولا عرضت کیف السبیل الی ایجادهاو تحیرت عقولها فی علم ذلک و تاهت و عجزت ۔

تمام حیوان خواہ پرندے ہوں یا جانور رات کو پلٹ کر آنے والوں میں سے ہوں یا چراگاہوں میں رہنے والے ہوں،یعنی کسی صنف سے تعلق رکھتے ہوں اور تمام خواہ کند ذہن ہوں یا ذہین اور ہوشیار اگر یہ سب مل کر بھی ایک مچھر پیدا کرنا چاہیں تو وہ اسے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہیں اور یہ بھی معلوم نہیں کر سکتے کہ اسے کس طرح پیدا کیا جا سکتا ہے اسے جاننے کے لیئے ان کی عقلیں حیران و سر گردان ہیں قوتیں عاجز اور درماندہ ہو جائیں گی۔ آخر کا ر شکست خوردہ ہو کر اقرار کر لیں گے کہ وہ اسے نہیں بنا سکتے اور ہم اپنے عجز کا اقرار کرتے ہیں اور یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ہم اسے فنا کرنے پر بھی قادر نہیں ہیں۔(۱)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام مچھر کی مثال کے سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں۔

خداوندعالم نے مچھر کی مثال دی ہے حالانکہ وہ جسامت کے لحاظ سے بہت چھوٹا ہے لیکن اس کے جسم میں وہ تمام آلات و اعضاء و جوارح ہیں جو خشکی پر رہنے والے سب سے بڑے جانور (ہاتھی )کے جسم میں ہیں بلکہ اس کے جسم میں دو اعضاء ہاتھی کی نسبت زیادہ ہیں (سینگ و پر ) جو ہاتھی کے پاس بھی نہیں ہیں۔(۲)

خداوندعالم اس مثال سے خلقت و افرینش کی خوبی و عمدگی بیان کررہا ہے یہ ظاہرا کمزور جانور ہے جسے خدا نے ہاتھی کی طرح کلق کیا ہے اس میں غور و فکر انسان کو اس خالق حقیقی کی طرف متوجہ کرتا ہے۔اس مچھر کی سونڈ ہاتھی کی سونڈ کی مانند ہے اور اندرسے خالی ہے اور مخصوص قوت سے خون کو اپنی طرف کھینچتی ہے بلکہ یہ دنیا کی عمدہ سرنگ معلوم ہوتی ہے اور اس کا اندورنی سوراخ بہت باریک ہے۔ خدا مچھر کو جذب دفع اور ہاضمے کی قوت دی ہے اسی طرح اسے مناسب ہاتھ پاؤں اور کان عطا فرمائے ہیں اسے پر دیئے ہیں تا کہ غذا تلاش کر سکے اور یہ پر اتنی تیزی کیساتھ اوپر نیچے حرکت کرتے ہیں کہ آنکھ سے یہ حرکت نہیں دیکھ سکتے

____________________

۰۰۰نہج البلاغہ خطبہ ۱۸۶۔۰۰۰۰۰۰صافی ج ۱ ص ۱۰۴۔۰۰۰

۱۳۵

اور یہ جانور اتنا حساس ہے کہ کسی چیز کے اٹھنے کے ساتھ ہی یہ خطرہ معلوم کر لیتا ہے اور بڑی تیزی سے خود کو خطرہ سے دور کر لیتا ہے اور انتہائیہ تعجب کی بات یہ ہے کہ اتنا کمزور ہونے کے باوجود بڑے بڑے جانوروں کو عاجز کر دیتا ہے۔

قرآنی مثالیں اور انسانی رویہ

قرآن مجید میں بہت سی مثالیں موجود ہیں خداوندعالم نے مچھر یا اس جیسے یا اس سے کمتر مخلوق کی مثالوں کے ساتھ حق کو بیان کرتا ہے اس طرح عقلی حقائق کو حسی مثالوں کی شکل میں بیان کر کے ھق کو واضح کرتا ہے۔خدا وندعالم نے مچھر مکھی مکڑی شہد کی مکھی اور چیونٹی جیسی چیزوں کے ساتھ مثالیں پیش کی ہیں ان کی وجہ سے لوگو ں کا رویہ دوطرح ہو گیا ہے زیرنطر آیت میں لوگوں کے دوگروہوں میں تقسیم ہو کر مثالوں کے متعلق مختلف نطر اور رویہ کو بیان کیا گیا ہے۔

جو لوگ ایمان لائے انہوں نے توحید قرآن مجید انبیاء اور آئمہ اطہار علیہم السلام کو قبول کر لیا اور پکے مومن بن گئے جب ان کے سامنے ایسی مثالیں پیش کی جاتی ہیں تو انہیں یقین کامل ہوتا ہے کہ یہ مثالیں پروردگار عالم کی طرف سے حق ہیں انہیں کسی حکمت اور مصلحت کی وجہ سے پیش کیا گیا ہے لیکن ان کے مقابل کافر فاسق اور دوسرے لوگ جو حق کو چھپاتے ہیں ان کا رویہ مومنین سے جدا ہے یہ لوگ جب ایسی مثلیں سنتے ہیں تو دشمنی کی وجہ سے کہتے ہین بھلا ان مثالوں کا کیا فائدہ نجانے خدا نے انہیں کیوں بیان کیا ہے ہمیں تو یہ ایک عبث اور فضول کلام لگ رہا ہے اس میں کوئی مصلحت نہیں ہے۔

ہدایت اور گمراہی

خداوندعالم اس آیت میں ارشاد فرمارہا ہے کہ ان مثالون کا فائدہ یہ ہے کہ بعض ان مثالوں سے ہدایت پا جاتے ہیں اور بعض لوگوں کا مقدر ضلالت اور گمراہی ہے کیونکہ ان لوگوں نے اپنی فکر سے تدبیر نہیں کی جس کی وجہ سے یہلوگ حقیقت کا انکار کر بیٹھے خدا نے بھی اپنے لطف و تو فیق کا ان پر راستہ بند کر دیا ہے اور انہیں ضلالت و گمراہی کی وادی میں سرگردان چھوڑ دیا ہے۔

جن لوگوں نے ان مثالوں میں غور وفکر کیا انہوں نے عقل اور توفیق سے ہدایت کی راہ تلاش کر لی تو ان کی آنکھوں سے حجاب ہٹ گئے اور انہیں ان مثالوں کے ذریعے ہدایت نصیب ہوئی۔

۱۳۶

خداوندعالم نے اس آیت میں ہدایت و گمراہی کو اپنی طرف نسبت دی ہے اس مراد یہ ہے کہ یہ گمراہی انسان کے برے عمل کی وجہ سے ہے کیونکہ انسان حجت عقل نقل کتاب سنت کے ہوتے ہوئے بھی صراط مستقیم پر نہ چل سکے تو بہ کا دروازہ کھلا ہونے کے باوجود گناہ طغیانی اور سرکشی پر مصر رہے تو ایسا شخص اپنے سو اختیار کی وجہ سے صراط مستقیم سے منحرف ہو جائے گا اس وقت اللہ بھی اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور مزید لطف توفیق کا راستہ اس پر بند کر دیتا ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّـهُ قُلُوبَهُمْ ) ۔(۱)

جب وہ اپنے حق سے منحرف ہوئے تو خدا نے بھی ان کے دلوں کو منحرف کردیا۔

جبر کی نفی

اس آیت کے آکر مین خداوندعالم نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ گمراہی صرف ان فاسقوں کا مقدر ہے یعنی جو لوگ اپنے ارادے اور سو اختیار کی وجہ سے د ین سے خارج ہو گئے ہیں یہ فاسق کہلاتے ہیں۔(۲)

اللہ کا مقصد انہین گمراہ کرنا نہیں ہے لیکن ان مثالوں سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ بعض تو ہدایت یافتہ ہو جاتے ہیں اور بعض تعصب اور عناد کی وجہ سے مزید گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور گمراہی ان کے لیئے ہے جو ابتداء ہی سے راہ حق سے ہتے ہوئے ہیں یعنی یہ گمراہی ہمارے اپنے سو اختیار اور بد اعمالی کی وجہ سے ہے اللہ نے ان پر کوئی جبر نہیں کیا بلکہ انہیں تو اختیار تھا انہوں نے گمراہی کو اختیار کر لیا اور ہدایت کو چھوڑ بیٹھے۔

____________________

۰۰۰ صف آیت ۵۔۰۰۰

(۲)المراد بافاسقین ھنا الخارجون عن حدودالایمان،روح المعانی ج ۱ ص ۲۱۰،

۱۳۷

( الَّذِینَ یَنقُضُونَ عَهْدَ اللهِ مِنْ بَعْدِ مِیثَاقِهِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللهُ بِهِ أَنْ یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ أُوْلَئِکَ هُمْ الْخَاسِرُونَ )

اور جو خدا سے محکم عہد و پیمان کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جن (تعلقات)کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں قطع کر دیتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں یہی لوگ خسارے میں ہیں۔

گزشتہ آیت مین خداوندعالم نے صرف فاسقوں کو گمراہ قرار دیا ہے اس آیت میں ان کے تین اوصاف بیان کر کے انہیں بالکل مشخص کردیا ہے،ان لوگوں نے قرآنی امثال سے ہدایت حاصل نہ کی بلکہ گمراہی کو اختیار کیا یہ گمراہی ان کی طبیعت فسق کا نتیجہ ہے ذیل میں ان کی صفات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

( ۱) عہد شکنی

اس آیت مین خداوندعالم نے فاسقوں کی پہلی صفت عہد شکنی قرار دیا ہے عہد شکنی دو طرح سے ہو سکتی ہے کبھی تو انسان بذات خود کسی عہد کو وفا نہیں کرتا اور کبھی اپنے اور عہد کے درمیان رابطہ کو منقطع کر لیتا ہے وہ کتابیں جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں وہ سب اللہ کا عہد ہیں جو شخص ان میں تحریف کا موجب بنے یا ان سے اپنا تعلق اور رابطہ منقطع کرلے تو وہ عہد شکن ہے۔

خداوندعالم بتا رہا ہے کہ فاسق خداسے محکم عہد وپیمان باندھ کر عہد شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں یعنی انسانوں نے خدا سے مختلف عہد وپیمان باندھ رکھے ہیں مثلا توحید و خداشناسی کا پیمان شیطان کی پیروی نہ کرنے کا پیمان،ضروریات دین کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا پیمان،انبیاء،آئمہ قیامت و دین کے تمام اوامر و نہی کو قبول کرنے کا پیمان،گویا خدا کے ساتھ محکم عہد پیمان باندھنے کے بعد توڑنا فاسق کی نشانی ہے۔

۱۳۸

اس خدائی عہد کو توڑنے والے مختلف گروہ مراد ہو سکتے ہیں منافق اس لیئے عہد شکن ہے کیونکہ اس نے ظاہری اسلام قبول کیا حضرت رسالت کو قبول کیا احکام الہی پر عمل پیرا ہونے کا عہد وپیمان باندھنے کے باوجود یہ لوگ کبھی قرآن میں اعتراض کا پہلو تلاش کرتے کبھی حضرت کو اذیت پہنچانے کی کوشش کرتے کبھی احکام الہی کا استھزاء کرتے لہذا یہ لوگ عہد شکن کہلائے۔

کافر اس لیئے عہد شکن ہیں کیونکہ یہ لوگ عقل سلیم،فطرت کے خلاف برسرپیکار ہیں انہیں بہت سی نعمتیں دی گئیں ان کی ہدایت کے لیئے عقل کے علاوہ انبیا اور آئمہ اطہار علیہم السلام بھیجے گئے تا کہ کسی نہ کسی طرح یہ اپنے فطری عہد پر عمل پیرا ہوں جیسا کہ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا فرمان ہے۔

و بعث فیهم رسله وواتر الیه انبیائه یستادوه میثاق فطرته،

خداوندعالم نے لوگوں کے پاس اپنی طرف سے یکے بعد دیگرے انبیاء اور رسول بھیجے تا کہ وہ ان سے یہ خواہش کریں کہ وہ اپنے فطری پیمان پر عمل کریں۔

جب ان لوگوں نے اپنی فطرت کے مطابق عمل نہ کیا تو گویا انہوں نے عہد پیمان کو توڑ دیا،اس طرح خدا سے عہد شکنی کرنے والے اھل کتاب بھی ہیں خدا نے ان سے ان کی کتابوں میں عہد لیا تھا ان کی کتب میں انہیں پہلے سے نبی آخرالزمان کی بشارتیں دی گئی تھیں لیکن جب آپ(ص) مبعوث ہوئے تو انہوں نے اللہ سے کیا عہد وپیمان توڑ ڈالا اور اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ لہذا فاسقوں کی یہ صفت صرف اس دور کے ساتھ مخصوص نہ تھی بلکہ آج بھی جو دین اسلام،حجرت نبی آخر الزمان،اور آخری آسمانی کتاب قرآن مجید اور ضروریات دین کو نہ مانے تو حقیقتا وہ اللہ سے باندھے ہوئے مستحکم عہد و پیمان کو توڑنے والا ہو گا۔

۱۳۹

قطع تعلق

خداوندعالم نے جن تعلقات کا انہیں حکم دیا ہے یہ لوگ ان تعلقات کو منقطع کر لیتے ہیں یعنی خداوندعالم نے جن رشتوں اور تعلقات کو جوڑنے اور مضبوط کرنے کا حکم دیا ہے یہ خدا کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے اس پر قائم نہیں رہتے،اس سے تمام حقوق مراد ہیں خواہ وہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق الناس ہوں اللہ نے ان حقوق کو قطع کرنے سے منع فرمایا ہے۔جو انسان،خدا،اسکی وحدانیت،اس کے فرامین اس کے انبیاء اور انکے آئمہ اطہار سے رابطہ منقطع کر لیتا ہے تو گویا وہ فاسق ہے جیسا کہ بعض روایات میں بھی اس آیت کی تفسیر یہ بیان کی گئی ہے ہمیں حضرت امیرالمومنین اور آئمہ اہلبیت علیہم السلام سے تعلق جوڑے رکھنا چاہیے(۱)

ان سے تعلق کو توڑنے والا اور ان سے رابطہ منقطع کرنے والا فاسق ہے،اسی طرح حقوق الناس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے،اس میں صلہ رحمی،عزیزوں اور دوستوں سے تعلق اور محبت ان سے قطع تعلق ان کے دوسرے حقوق کا خیال رکھنا ان کی حق تلفی نہ کرنا معاشرے سے رشتہ جوڑے رکھنا ضروری ہے جو لوگ حقوق الناس کا خیال نہیں کرتے وہ اس آیت کی روسے فاسق ہیں کیونکہ اللہ تعالی اس آیہ مجیدہ میں فاسق کی دوسری علامت اور صفت قطع تعق کو بیان فرمارہا ہے۔

۰۰۰ولیقطعون ما امر الله به یعنی من صله امیر المومنین والآئمه،

____________________

نور الثقلین ج ۱ ص ۴۵۔۰۰۰

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

کرنے کی ضرورت نہیں ہے پھر اپنے گھوڑے کو موڑ کر میدان جنگ سے چلا گیا اس وقت دونوں فوجیں پیچھے ہٹ گئیں ا ور اپنی اپنی چھاؤنی میں واپس آگئیں۔(۱)

ماہ صفر ۳۸ھ کی پانچویں تاریخ اتوار کے دن دو دستے جن میں عراقیوں کی سرداری ابن عباس اور شامیوں کی سرداری ولید بن عقبہ کر رہے تھے میدان جنگ میں آئے اور دونوں کے درمیان زبردست جنگ ہوئی، ظہر کے وقت دونوں نے جنگ روک دی اور اپنے اپنے لشکر کے پاس واپس آگئے، ولید بن عقبہ نےجب عبدالمطلب کی اولاد کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو: ابن عباس نے اسے جنگ کے لئے بلایا لیکن اس نے جنگ کرنے سے گریز کیا اور میدان چھوڑ کر چلا گیا۔(۲)

فوج شام کے افراد اسلامی تاریخ اور واقعات سے بے بہرہ تھے ورنہ ان کی فوج کی سپہ سالاری ایسے شخص کے ہاتھ میں نہ ہوتی جس کو قرآن نے 'فاسق' اور نابکار سے یاد کیا ہے ولید وہی شخص ہے جس کے بارے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے''ان جاء کم فاسق بنباء فتبینّوا'' (سورۂ حجرات ۶) یعنی اگر کو ئی فاسق خبر لائے تو اسکی چھان بین کرو۔(۳) یہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں قرآن نے اس طرح توصیف کی ہے''اَفمن کان مومناً کمن کان فاسقاً لایستؤون'' (سورۂ سجدہ ۱۸) یعنی کیا جو شخص مومن ہے وہ اسی طرح ہے جس طرح فاسق ہے؟ ہرگز یہ دونوں برابر نہیں ۔(۴)

اس جنگ میں اگر چہ بہت سے افرادقتل ہوئے لیکن دونوں فوجیں بغیر کسی نتیجے کے اپنی اپنی چھاؤنی میں واپس آگئیں مگر امام علیہ السلام، عمار اور ابن عباس کی تقریروںسے شام کے لوگوں پر حقیقت واضح ہوگئی اور کم و بیش معاویہ کا جھوٹا اور بے بنیاد دعویٰ لوگوں پر ظاہر و روشن ہوگیا، یہی وجہ ہے کہ جنگ کے پانچویں دن شمر بن ابرہہ حمیری شام کے قاریوں کے کچھ گروہ کے ساتھ امام کے لشکر میں شامل ہوگیا ،ان لوگوں کا نور

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص ۲۲۲۔۲۲۱۔ کامل ابن اثیرج۳ص۵۰۔ تاریخ طبری ج ۳، جزئ۶ ص۷ ۔مروج الذہب ج ۲ ص۳۸۸۔

(۲) وقعہ صفین ص ۲۲۲۔۲۲۱۔ کامل ابن اثیرج۳ص۵۰۔ تاریخ طبری ج ۳ جزئ۶ ص۷ ۔مروج الذہب ج ۲ ص۳۸۸۔

( ۳) تما م اسلامی مفسرین نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

(۴)اس آیت کے شان نزو ل کے متعلق، تفسیر الدر المنثورا ور برہان کی طرف رجوع کریں۔

۵۸۱

کی طرف آنا تاریکی کی علامت تھی جو شام کی فوج پر چھائی ہوئی تھی اس سے معاویہ کو بہت بڑا دھچکا لگا ،اس کے تکرار سے سخت خوفناک تھا۔

عمرو عاص نے معاویہ سے کہا:تو چاہتا ہے کہ ایسے شخص سے جنگ کرے جو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قریبی رشتہ دار ہے ، اسلام میں ثابت قدم اور استوار ہے، فضلیت و معنویت اور جنگ کے اسرار و رموز جاننے میں بے مثال ہے، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص لوگوں میں سے ہے اوربہادر ساتھیوں ، قاریوں اور شریف ترین لوگوں کے ساتھ تم سے جنگ کرنے آیا ہے اور مسلمانوں کے دلوں میں اس کی ہیبت و بزرگی چھائی ہے،تو تجھ پر لازم ہے کہ شامیوں کو اہم جگہوں اور علاقوں میں معین کرو اور اس سے پہلے کہ جنگ کی مدت طولانی ہونے کی وجہ سے وہ افسردگی اور رنجیدگی کا احساس کریں ان لوگوں کولالچ دو اور جو چیز بھی بھولنا چاہو بھول جاؤ مگر یہ نہ بھولنا کہ تم باطل پرہو۔

معاویہ نے بوڑھے مکار سیاسی کی باتوں سے نصیحت لی اور سمجھ گیا کہ شامیوں کو میدان جنگ کی طرف مائل کرنے کا ایک طریقہ دین اور تقوی و پرہیزگاری کا اظہار کرنا بھی ہے اگرچہ ان کے دلوں میں اس کا کچھ اثر نہ ہو،یہی وجہ تھی کہ اس نے حکم دیا کہ ایک منبر بنایا جائے اور شام کے تمام سرداروں کو اپنے پاس بلایا اور منبرپر گیا اورپھر بڑے ہی رنجیدہ دل سے دین و مذہب کے لئے مگرمچھ کی طرح آنسو بہایا اور کہا:

اے لوگو : اپنی جانوں اور سروں کو میرے سپرد کردو ، سست نہ ہونا اور مدد کرنے میں کوتاہی نہ کرناآج کا دن خطرناک دن ہے حقیقت اور اس کی حفاظت کا دن ہے تم لوگ حق پر ہو اور تمھارے پاس دلیل ہے تم لوگ اس سے جنگ کررہے ہو جس نے بیعت کو توڑا ہے اور خون حرام بہایا ہے اور آسمان پر کوئی بھی اس کو معذور نہیں سمجھتا۔

پھر عمر و عاص منبر پر گیا اور معاویہ کی طرح سے تقریر کی اور پھر منبر سے اتر گیا۔(۱)

______________________

۱۔ وقعہ صفین ص ۲۲۲۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ص۱۸۰۔

۵۸۲

امام علیہ السلام کی تقریر

امام علیہ السلام کو خبر ملی کہ معاویہ اپنے مکر و فریب کے ذریعے دین کا لبادہ پہن کرشامیوں کو جنگ کی

دعوت دے رہا ہے لہذا آپ نے حکم دیا کہ سب کے سب ایک جگہ جمع ہوجائیں ، راوی کہتا ہے کہ میں نے امام کو دیکھا جو اپنی کمان پر ٹیک لگائے ہیں اور پیغمبر(ص)کے دوستوں کو اپنے پاس جمع کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام ساتھی ان کے ہمراہ ہیں پھر آپ نے خدا کی حمد و ثناء کی اور کہا:

اے لوگو! میری باتوں کو غور سے سنو اور اسے یاد کرلو۔ خود خواہی سر کشی کی وجہ سے ہے اورکبرو نخوت خود بینی سے اور شیطان تمھاراابھی کا دشمن ہے جو تمھیں باطل کا وعدہ دے رہا ہے ،آگاہ ہوجاؤکہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے اسے برا بھلا نہ کہو اس کی مدد کرنے سے گریز نہ کرو، شریعت ودین ایک ہے اور اس کے راستے بھی ہموار ہیں جس نے بھی اس سے تمسک کیا وہ اس سے ملحق ہوگیا اور جس نے اسے ترک کیا وہ اس سے خارج ہوگیا اور جو بھی اس سے جدا ہوگا وہ نابود ہوجائے گااور جو شخص امین کے نام سے مشہور ہو اور خیانت کرے ، وعدہ کرے مگر خلاف ورزی کرے، بات کرے مگر جھوٹ بولے، وہ مسلمان نہیں ہے، ہم خاندان رحمت ہیں ہماری باتیں سچی اور ہمارے کردار سب سے اچھے ہیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آخر الزمان ہم میں سے ہیں اور اسلام کی رہبری بھی ہمارے ہی پاس ہے،خدا کی کتاب کے قاری ہم ہی ہیں۔میں تمھیں خدا اور رسول(ص)کی طرف اور ان کے دشمنوں سے جہاد کرنے، اور اس کی راہ میںثابت قدم رہنے اور اس کی مرضی حاصل کرنے، نماز قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے ، اور خدا کے گھر کی زیارت کرنے،اور رمضان المبارک میں روزہ رکھنے ، اور بیت المال کواس کے اہل تک پہونچانے کی دعوت دیتا ہوں۔

۵۸۳

یہ بھی دنیا کے لئے تعجب ہے کہ معاویہ اور عمرو عاص دونوں اس لائق ہوگئے کہ لوگوں کو دینداری کی طرف رغبت دلائیں! تم لوگ جانتے ہو کہ میں نے کبھی بھی پیغمبر (ص)کی مخالفت نہیں کی بلکہ وہ مقامات جہا ں پر بڑے بڑے بہادر پیچھے ہٹ گئے اور ان کے بدن خوف کے مارے کانپنے لگے میں نے اپنی جان کوپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے سپر قرار دیااس خدا کا شکر جس نے ہمیں یہ فضلیت بخشی، پیغمبر (ص)کی روح پرواز کر گئی جب کہ ان کا سر میری آغوش میں تھا ، اور صرف تنہا میں نے ان کو غسل دیا اور مقرب ترین فرشتے آپ کے جسم اطہر کو اِدھر سے ادھر پلٹتے تھے، خدا کی قسم کسی بھی پیغمبر کی امت اس کی رحلت کے بعد اختلاف کا شکار نہ ہوئی مگر یہ کہ اہل باطل حق والوں پر غالب آگئے ۔(۱)

جب امام علیہ السلام کی تقریر یہاں تک پہونچی تو ، بزرگ و باایمان اور وفادار دوست عمارنے لوگوں کی طرف نگا ہ کی اور کہا، امامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تم لوگوں کو آگاہ کردیا ہے کہ امت نے نہ تو شروع ہی میں صحیح راستہ اپنایا اور نہ ہی آخر میں صحیح راستہ اپنایا۔

ابن مزاحم کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ۶،صفر ۳۸ دو شبنہ کے دن شام کے وقت تقریر کی تھی اور آخر کلام میں تما م سپاہیوں سے مطالبہ کیا کہ فساد کو جڑ سے اکھاڑدیں۔ اسی وجہ سے ۷،صفر منگل کے دن تمام سپاہیوں کو ایک بڑے حملے کے لئے آمادہ کیا اور خطبہ ارشاد فرمایا جس میں جنگ کے اسرار و رموز کی تعلیم دی ۔(۲)

_______________________________

(۱)،(۲)وقعہ صفین ص۲۲۴۔۲۲۳۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ص۱۸۲۔۱۸۱

۵۸۴

اٹھارہویں فصل

اجتماعی حملے کا اغاز

جنگ صفین شروع ہوئے آٹھ دن گزر گئے اور چھٹ پٹ حملے اور بہادر سرداروں کی رفت و آمد سے کوئی نتیجہ نہ نکلا ، امام علیہ السلام اس فکر میں تھے کہ کس طرح سے نقصان کم ہو اور ہم اپنے مقصد تک پہونچ جائیں آپ اس بات سے بھی مطمئن تھے کہ محدود جنگ قتل و غارت گری کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں رکھتی اسی وجہ سے آپ نے ماہ صفر کی آٹھویں رات (شب چہار شنبہ) کو اپنے اصحاب کے درمیان تقریر فرمائی:

''اس خدا کا شکر کہ اگر اس نے کسی چیز کو شکست دی تو اسے مستحکم نہیں کیا اور جس چیز کو مستحکم کر دیا اُسے شکست نہیں ہو سکتی، اگر وہ چاہتا تو اس امت سے دو آدمی یا پوری امت اختلاف نہیں کرتی،اور کوئی شخص بھی کسی بھی امر میں جو اس سے مربوط ہے اختلاف نہیں کرتا ، اور مفضول ،فاضل کے فضل وکرم سے انکار نہیں کرتے، تقدیر نے ہمیں اس گروہ کے سامنے کھڑا کر دیا ہے ۔

سب کے سب خدا کی نگاہوں اور اس کے حضور میں ہیں اگر خدا چاہتا تو عذاب کے نزول میں جلدی کرتا ، تاکہ ستمگروں کو جھٹلا سکے، اور حق کو آشکار کرے اس نے دنیا کو کردار کا گھر اور آخرت کو اجرو ثواب کا گھر قرار دیا تاکہ بدکاروں کو ان کے برے کردار کہ وجہ سے عذاب اور اچھے لوگوں کو ان کے اچھے کردار کی وجہ سے اجر و ثواب دے، آگاہ ہوجاؤ اگر خدانے چاہا تو کل د شمن سے مقابلہ ہوگا لہذا اس رات خوب نماز پڑھو اور بہت زیادہ قرآن پڑھو، اور خدا وند عالم سے ثابت قدمی اور کامیابی کی دعا کرو اور کل دشمنوں سے احتیاط اور پوری بہادری کے ساتھ لڑنا ،اور اپنے کام میں سچے رہو۔امام علیہ السلام نے یہ باتیں کہیں اور وہاں سے چلے گئے پھر امام علیہ السلام کے تمام سپاہی تلوار و نیزہ وتیر کی طرف گئے اور اپنے اپنے اصلحوں کو صحیح کرنے لگے۔(۱) امام علیہ السلام نے آٹھ صفر بدھ کے دن حکم دیاکہ ایک آدمی شام کی فوج کے سامنے کھڑا ہو اور

______________________

(۱)وقعہ صفین ص ۲۲۵۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۵ص۱۸۲۔ تاریخ طبری ج ۳ جزئ۶ ص۸ ۷ ۔ کامل ابن اثیرج۳ص۱۵۰۔

۵۸۵

عراق کی فوج کی طرف سے جنگ کا اعلان کرے۔

معاویہ نے بھی امام علیہ السلام کی طرح اپنی فوج کومنظم کیا اور اسے مختلف حصّوں میں تقسیم کردیا،اس کی فوج حمص، اردن اور قنسرین کے لوگوں پر مشتمل تھی اور معاویہ کی جان کی حفاظت کے لئے شام کے لوگوں نے ضحاک بن قیس فہری کی سرپرستی میں ذمہ داری لی اور اس کو اپنے حلقے میں لے لیا ، تاکہ دشمن کو قلب لشکر ، جہاں معاویہ کی جگہ تھی پہونچنے سے روک سکیں۔

معاویہ نے جس انداز سے فوج کو مرتب کیا تھاوہ عمرو عاص کو پسند نہ آئی اور اس نے چاہا کہ معاویہ کی فوج کو منظم کرنے میں مدد کرے لہذااسے وہ وعدہ یاد دلایا جو دونوں نے آپس میں کیا تھا، (یعنی فتح و کامیابی کے بعد مصر کی حکومت اس کی ہوگی)عمرو نے کہا: حمص کی فوج کی سرداری میرے سپر د کرو اور ابوالاعور کو ہٹادو ۔ معاویہ اس کی اس فرمائش پربہت خوش ہوا اور فوراً ایک شخص کو حمصیوں کے پاس بھیجا اور پیغام بھیجوایا کہ عمرو عاص جنگ کے امور میں تجربہ رکھتا ہے جو ہم اور تم نہیں رکھتے ، میں نے اسے سواروں کا سردار بنایا ہے لہذا تم دوسرے علاقے میں جاؤ۔

عمرو عاص نے حکومت مصر کی امید میں اپنے دونوں بیٹوں عبداللہ اور محمد کو بلایااور اپنے تجربہ اور اپنے اعتبار سے فوج کو منظم کیا اور حکم دیاکہ زرہ پہنے ہوئے سپاہی فوج کے آگے اور جو زرہ

نہیں پہنے ہیں وہ فوج کے پیچھے کھڑے ہوں، اور پھر اپنے دونوں بیٹوں(۱) کو حکم دیا کہ فوج کے درمیان معائنہ کریں اور فوج کے نظم و ترتیب کا خاص خیال رکھیں اسی پراکتفاء نہیں کیا بلکہ خود فوج کے درمیان ٹہلنے لگااور اس کے نظم و ترتیب پرنگاہ رکھی اور اسی طرح معاویہ فوج کے درمیان منبر پر بیٹھ گیااور اس کی حفاظت کی ذمہ داری یمن کے لوگوں نے لی اور حکم دیا کہ جو شخص بھی منبر کے نزدیک ہونے کا ارادہ کرے فوراً اسے قتل

______________________

(۱) یہاں اس بات کی یاددہانی کرناہے کہ عمر و عاص کے دونوں بیٹے ظاہری طور پرزاہد نما تھے.جو ابتداء میں باپ کو ابوسفیان کے بیٹے کی حمایت سے روک رہے تھے لیکن اس وقت ان کے سچے اور گہرے دوست ہیں یہ واقعہ ہمیں اس مثال کی یاد دلاتا ہے جوعربی اور فارسی(اور اردو ، رضوی) زبان میں رائج ہے۔(ھل تلد الحیة الاالحیة) یعنی کیا سانپ کا بچہ سانپ کے علاوہ ہو سکتا ہے ۔یافارسی کی مثال، عاقبت گرک زادہ گرک شود۔گرچہ با آدمی بزرگ شود۔ بھیڑیئے کا بچہ بھیڑیا ہوگا اگرچہ وہ آدمی کے ساتھ ہی کیوں نہ بڑاہوا ہو۔

۵۸۶

کردینا۔(۱) جب بھی جنگ کا مقصد قدرت اور حاکمیت ہوگا تو اس وقت اپنی حفاظت کے لئے گروہ کا انتظام ہوگا ،لیکن اگر ہدف اور مقصد معنوی ہوگا تو ہدف کی خاطر اگر جان بھی دینی پڑے تو کوئی پرواہ نہیں ہوگی لہذا نہ تو کسی نے امام کی حفاظت کی ذمہ داری لی بلکہ امام علیہ السلام سیاہ رنگ کے گھوڑے پر سوار حکم دیتے تھے اور فوج کی رہبری بھی کر رہے تھے اور اپنے بلند نعروں سے شام کے بہادروں کو لرزہ براندام(تھرتھرانا) کر دیتے تھے اور اپنی تیز تلوار سے لوگوں کو دور کرتے تھے۔

رہبری کے طریقے میں اختلاف، مقصد کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہے اور شہادت کا طلب کرنا آخرت پر ایمان اور اس کی حقانیت پر اعتقاد رکھنا ہے، جب کہ موت سے خوف اور دوسروں کو اپنی جان کی حفاظت کے لئے قربان کرنا دنیاوی زندگی سے محبت والفت اور ماوراء مادہ سے انکار کرنا ہے اور حیرت کی بات تویہ ہے کہ عمروعاص کے بیٹے نے ان چیزوں کا اعتراف بھی کیا اور امام علیہ السلام

کی فوج کے بارے میں یہ کہا''فان هوٰلائِ جاؤوا بخطّةٍ بلغت السمائ'' یہ لوگ آسمانی ہدف لے کر میدان میں آئے ہیں اور شہادت سے خوف نہیں رکھتے ۔

عاص کے بیٹے کی معاویہ کے ساتھ خیرخواہی اور مدد اس سے محبت و الفت اور فتح و کامیابی کی بناپر نہ تھی بلکہ وہ ہرطرف سے اپنے فائدے کے لئے اسے کامیابی سے ہمکنار کرانا چاہتا تھااورمعاویہ سے اظہار نظر اور مشورہ کرکے اکثر اسے یاد دلاتا تھا اور جوباتیں ان دونوں کے درمیان ہوئیں وہ اس حقیقت کو بیا ن کرتی ہیں۔

معاویہ:جتنی جلدی ہو فوج کی صفوں کومنظم کرو۔

عمر وعاص:اس شرط کے ساتھ کہ میری حکومت میرے لئے ہو۔

معاویہ،اس خوف سے کہ عمروعاص اما م کے بعد اس کا رقیب نہ ہوجائے فوراً پوچھا کون سی حکومت؟کیا حکومت مصر کے علاوہ دوسری چیز چاہتا ہے؟

عمرو عاص نے جوپرانا سیا ستبازا اور غیر متقی سوداگرتھانے اپنے چہرے پر تقوے کا ماسک لگاکر کہا کیا

______________________

(۱)وقعہ صفین ص ۲۲۶۔ شرح نہیج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۱۸۲۔

۵۸۷

مصر، جنت کے عوض ہو سکتا ہے؟ کیا علی کو قتل کرکے عذاب جہنم کی مناسب قیمت جس میںہر گز آرام نہیں ہوگا ،ہوسکتی ہے؟

معاویہ نے اس خوف سے کہ کہیں عمرو کی بات فوج کے درمیان پھیل نہ جائے اس سے کہا ذرا آہستہ آہستہ، تیری گفتگو کوئی اور نہ سن لے۔

جی ہاں،عمروعاص مصر کی حکومت کی آرزو میں شام کے لوگوں کی طرف متوجہ ہوا اورکہا:

اے شام کے سردارو، اپنی صفوں کو مرتب کرو اور اپنے سروں کو اپنے خدا کو ہدیہ کر دو، اور خدا سے مدد طلب کرو اور خدا کے دشمن اور اپنے دشمن سے جنگ کرو ان لوگوں کو قتل کرو تاکہ خدا ان لوگوں کو قتل کرے اور انھیں نابود کردے ۔(۱)

اور اُدھر جیسا کہ گزر چکا ہے اس دن امام علیہ السلام نے ایک گھوڑا طلب کیا لوگ آپ کے لئے(شبرنگی) گھوڑا لائے جو طاقت کی وجہ سے مسلسل کود رہاتھا اور دو لگاموں سے کھینچا جاتا تھا۔ امام علیہ السلام نے اس کی لگام اپنے ہاتھ میں لی اور اس آیت کی تلاوت فرمائی :

( سبحان الذی سخّرلنا هذا وماَ کُنّٰا له مقرنین وانّااِلیٰ ربّنا لمنقلبون ) ''پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لئے آمادہ کیا جسکی ہمارے پاس طاقت و قدرت نہ تھی اور سب کے سب اس کی بارگاہ میں واپس جائیں گے''۔(زخرف ۱۳ )

پھر آپ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا اور کہا:

''اللّٰهم اِلیک نُقِلَتِ الاقدامُ وأُ تْعِبَتِ الا بدانُ و أ فضتِ القلوبُ و رفعتِ الأ یدی و شُخِصَتِ الأ بصار.........اللّٰهم انّا نشکُوٰ ألیکَ غیبة نبیّنٰا وکثرةعدوّنا وتشتّت أ هوا ئنٰا.ربنّا افتح بیننٰا وبینَ قومِنٰابالحقِّ وَ اَنتَ خیر الفاتحِینَ (۲)

خدا یا: تیری ہی طرف قدم اٹھتے ہیں اور بدن رنج وغم میں گرفتار ہوتے ہیں اور دل تیری طرف متوجہ

ہوتے ہیںاور ہاتھ بلند ہوتے ہیں اور آنکھیں کھلی رہتی ہیں........خدایا:ہم اپنے پیغمبر کے نہ رہنے کا شکوہ

______________________

(۱)،(۲) وقعہ صفین ص۲۳۱،۲۳۰۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۱۷۶

۵۸۸

اور دشمنوں کی زیادتی اور اپنی آرزؤوں کے بکھرنے کاتیری بارگاہ میں شکوہ کرتے ہیں خداوندا ہمارے اور اس قوم کے درمیان حقیقی فیصلہ کر کیونکہ تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔بالآخر ۸صفر بدھ کے دن باقاعدہ حملے کا آغاز ہوا اور صبح سویرے سے را ت تک حملے ہوتے رہے اور دونوں فوجیں بغیر کسی کامیابی کے اپنی اپنی چھاؤنی میں واپس آگئیں۔جمعرات کے دن امام علیہ السلام نے نما ز صبح تاریکی میں پڑھی اور پھر دعاپڑھنے کے بعد خود

حملہ شروع کیا ، آپ کے ساتھی بھی چاروں طرف سے جنگ کرنے لگے۔(۱)

حملے سے پہلے اما م علیہ السلام نے جو دعا پڑھی اس کا کچھ حصہ یہ ہے۔

''ان اظهرتنٰا علیٰ عدوّنا فجنبنا الغ و سدِّ دنٰا للحقِّ،واِن اظهر تَهُم علینٰا فَارزُقنا الشّهٰا دَة وَ اعصِم بقیَّةَ أصحابی مِنَ الفتنة'' (۲)

''پروردگار ! اگر ہمیں اپنے دشمنوں پر کامیاب کیا تو ہم سب کو ظلم و ستم سے دور رکھ اور ہمارے قدموں کو حق کے راستے پر چلا، اور اگر وہ سب ہم پر کامیاب ہوئے تو ہم لوگوں کو شہادت نصیب فرمااور جو ہمارے دوست باقی بچیں انہیں فتنہ سے محفوظ رکھ''

امام علیہ السلام کے لشکر کے سرداروں کی شعلہ ور تقریریں

فوج کے بزرگوں اور سرداروں کی تقریریں بہت بڑی تبلیغ کا کام کرتی ہیں بسا اوقات، ایک فوج کی تقریر دشمن کو نابود اور خود اپنے لئے کامیابی کے مقدمات فراہم کر دیتی ہے، اسی وجہ سے ، جمعرات ۹ صفر اجتماعی حملے کے دوسرے دن امام علیہ السلام کی فوج کی بزرگ شخصیتوں نے تقر یریں کیں ، امام کے علاوہ عبد اللہ بن بدیل(۳) سعید بن قیس(۴) (ناصرین کے علاقہ میں) اور مالک اشتر جیسی بزرگ

_______________________________

(۱)تاریخ طبری ۳، جزء ۶ص۸۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۵۱-----(۲) وقعہ صفین ص۲۳۲

(۳) وقعہ صفین ص۲۳۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵ص۱۸۶

(۴)وقعہ صفین ص۳۴۷۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵ص۱۸۸

۵۸۹

شخصیتوں(۱) نے تقریر کی اور ہر شخص نے ایک خاص طریقے سے امام علیہ السلام کی فوج کو شامی دشمن کی فوج پر حملہ کرنے کی تشویق دلائی، اسی درمیان بہت سے واقعات رونما ہوئے جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۔ کون ہے جو اس قرآن کو اپنے ہاتھ میں لے؟

علی علیہ السلام قبل اس کے کہ جنگ کا آغاز کرتے اتمام حجت کے لئے اپنے سپاہیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: کون ہے جو اس قرآن کو اپنے ہاتھوں میں لے اور ان شامیوں کو اس کی طرف دعوت دے؟ سعید نامی نوجوان اٹھا اور اس نے ذمہ داری لی امام علیہ السلام نے دوسری مرتبہ پھر اپنی بات دہرائی اور پھر و ہی نوجوان اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا اے امیرالمومنین میں حاضر ہوں، اس وقت علی علیہ السلام نے قرآن اس کے حوالے کیا وہ معاویہ کی فوج کی طرف روانہ ہوا ان لوگوں کو خدا کی کتاب اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دی، تھوڑی دیر بھی نہ گذری تھی کہ دشمن کے ہاتھوں شھید ہوگیا(۲)

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۲۴۱۔۲۳۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵ص۱۹۱۔۱۹۰

(۲)وقعہ صفین ص ۲۴۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵ص۱۹۴

۵۹۰

۲۔ دوحُجر کی جنگ:

حُجر بن عدی کندی ان شخصیتوں میں سے ہیں جو پیغمبر کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور ان کے ذریعے مسلمان ہوئے اس کے بعد علی علیہ السلام کے مخلصوں اور ان دفاع کرنے والوں کی صف میں تھے بالآخر اسی راہ میں اپنی جان دے دی معاویہ کے ظالم جلادوں کے ہاتھوں امام علیہ السلام کے کچھ مخلصوں کے ہمراہ ''مرج عذرائ'' (جو شام سے ۲۰ کلومیڑ دوری پر واقعہ ہے) میں قتل ہوگئے اور تاریخ نے انھیں ''حُجر الخیر'' کے نام سے یاد کیا جبکہ ان کے چچا حُجر بن یزید کو تاریخ نے ''حُجر الشّر'' کے نام سے یاد کیا ۔

اتفاق سے اس دن یہ دونوں حُجر جو کہ آپس میں قریبی عزیز بھی تھے میدان جنگ میں روبرو

ہوئے، مبارزہ کی دعوت حُجر الشّر کی طرف سے شروع ہوئی اوراس وقت جبکہ یہ دونوں اپنے اپنے نیزوں سے جنگ کرنے میں مصروف تھے معاویہ کی فوج سے ایک شخص خزیمہ، حُجر بن یزید کی مدد کیلئے دوڑا اور حُجر بن عدی پر نیزہ مارا اس موقع پر حُجر کے کچھ ساتھیوں نے خزیمہ پر حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا لیکن حجر بن یزید

۵۹۱

میدان چھوڑ کربھاگ گیا۔(۱)

۳۔ فوج شام کے میسرہ پر عبداللہ بن بدیل کا حملہ

عبد اللہ بن بدیل خزاعی امام علیہ السلام کے لشکر کے بلند پایہ افسر تھے وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جلیل القدر صحابی اور نفس کی پاکیزگی اور بہادری اور زبردست جنگ کرنے والوں میں مالک اشتر کے بعد مشہور تھے۔

میمنہ کی فوج کی ذمہ داری انھی کے ہاتھ میں تھی اور میسرہ کی سرداری عبد اللہ بن عباس کے ذمہ تھی، عراق کے قاری عمار یاسر، قیس بن سعد او رعبداللہ بن بدیل کے بارے میں ہوے(۲)

عبد اللہ ، حملہ شروع کرنے سے پہلے اپنے دوستوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : معاویہ نے ایسے مقام و منصب کا دعویٰ کیا ہے جس کا وہ اہل نہیں ہے، مقام ومنصب کے حقیقی وارثوں سے لڑائی کے لئے اٹھا ہے اور باطل اور غلط دلیلوں کے ساتھ حق سے لڑنے آیا ہے ،اس نے عربوں(بدو) اور مختلف لوگوں کو ملا کر فوج تشکیل دی ہے اور گمراہی کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔یہاں تک کہنے کے بعد کہا:

''وأنتم واللّه علیٰ نورٍ من ربّکم وبرهان مبین، قاتلواالطغاةَ الجفاةَ ولا تخشوهُم وکیفَ تخشَونَهم وفی أید یکم کتاب من ربّکم ظاهر منور وقدقاتلتهُم مع التبیُّ واللّه مٰا هم فی هٰذهِ بأزکیٰ ولاٰ أ تقٰی ولاٰأبَرّ ،قُو مواُ اَلیٰ عدوِّ اللّٰه وعدوِّکم''(۳)

خدا کی قسم تم لوگ خدا کے نور کے سایۂ میں اور روشن دلیل ہو۔ اس جفا کار اور سرکش کے ساتھ جنگ کرو سے خوف نہ کرو، اس سے کیوں ڈرو جب کہ تمھارے ہاتھ میں خدا کی کتاب ہے جو واضح اور سب کی نظر میں مقبول ہے تم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس سے جنگ کی ہے خدا کی قسم ان کا حال ماضی سے بہتر نہیں ہے، اٹھو اور خدا کے دشمن اور اپنے دشمن سے جنگ کرنے کے لئے روانہ ہوجاؤ ۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۲۴۳ ۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدید ج۵ص۱۹۶۔۱۹۵-----(۲)کامل ابن اثیرج ۳ ص ۱۵۱

(۳) وقعہ صفین ص۲۳۴ ۔ تاریخ طبری ج ۳جزء ص۹۔ کامل ابن اثیرج۳ص۱۵۱ (تھوڑے فرق کے ساتھ)

۵۹۲

میمنہ کی سرداری عبد اللہ کے حوالے تھی اس کے باوجود انہوں نے دو زرہ پہنی اور دو تلواریں (دونوں ہاتھوںمیں ) لیں اور حملہ شروع کردیا اور پہلے ہی حملہ میں معاویہ کی فوج کو راستے سے ہٹادیا اور حبیب بن مسلمہ جوفوج شام کے میسرہ کا سردار تھا،کے لشکر کو شکست دیدی ،ان کی پوری کوشش یہ تھی کہ خود کو معاویہ کے خیمے تک پہونچا دیں اور اس ام ّالفساد کو درمیان سے ختم کردیں معاویہ کے تمام نگہبان جنہوں نے اپنی جان قربان کرنے کا عہد کیا تھا، پانچ صف کی صورت میںیا بقولے پانچ دیوار کی طرح اس کے اطراف میں محاصرہ کئے ہوئے تھے اور ان کو بڑھنے سے روک رہے تھے لیکن یہ دیواریں بہت بڑی مشکل نہ بنیں، بلکہ ایک کے بعد ایک گرتی رہیں عبدا للہ کا حملہ بہت زبردست تھالیکن اس سے پہلے کہ خود کو معاویہ کے خیمہ تک پہونچاتے قتل کر دئیے گئے۔(۱)

اس سلسلے میں جریر طبری نے اپنی ''تاریخ'' میں ابن مزاحم (مؤلف وقعہ صفین) سے زیادہ تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، وہ لکھتا ہے:عبداللہ دشمن کی فوج کے میسرہ کے ساتھ جنگ کرنے میں مشغول تھا اور مالک اشتر بھی میمنہ پر حملہ کر رہے تھے، مالک اشتر جو کہ زرہ پہنے ہوئے تھے اپنے ہاتھ میں ایک یمنی ڈھال نما لوہے کا ٹکڑا لئے ہوئے تھے جب اس کو جھکاتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ اس سے پانی برس رہا ہے اور جب اسے اونچا کرتے تھے تو اس کی چمک سے آنکھیں خیرہ ہو جاتی تھیں۔انھوں نے اپنے حملے میں میمنہ کو تہ وبالا کردیا اور ایسے مقام پر پہونچے جہاں عبد اللہ بن بدیل قاریوں کے گروہ جن کی تعداد تقریباً تین سو،(۲) کے آس پاس تھی موجود تھے، انہوں نے عبد اللہ کے دوستوں کو میدان میں ڈٹا ہوا پایا مالک اشتر نے ان کے اطراف سے دشمنوں کو دور کیا وہ لوگ مالک اشتر کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فوراً امام کے حالات دریافت کئے اور جب ان لوگوں نے جواب میں سنا کہ امام علیہ السلام صحیح و سالم ہیں اور میسرۂ میں اپنی فوج کے ساتھ جنگ کرنے میں مصروف ہیں تو شکرخدابجالائے۔

ایسی حالت میں عبد اللہ نے اپنے کم ساتھیوں کے باوجود بہت زیادہ اصرا ر کیا کہ آگے بڑھیں، معاویہ کے نگہبانوںکو قتل کرنے کے بعد خود معاویہ کو قتل کردیں،لیکن مالک اشتر نے انہیں پیغام دیا کہ آگے

______________________

(۱) وقعہ صفین ص۲۴۸

(۲)ابن مزاحم نے وقعہ صفین میں ان کی تعداد سو آدمی لکھی ہے۔

۵۹۳

نہ بڑھیںاور جس جگہ پر ہیں وہیں ٹھہرے رہیں اور اپنا دفاع کریں۔(۱) لیکن ان کا خیال تھا کہ وہ ایک بجلی کی طرح تیز حملے سے نگہبانوں کو ختم کرکے معاویہ تک پہونچ جائیں گے، اسی وجہ سے وہ آگے بڑھتے رہے اور چونکہ دونوں ہاتھوں میں تلوار لئے تھے اپنے دوستوں کے ہمراہ حملہ شروع کردیا اور جو بھی سامنے آتا تھا ایک ہی حملے میں اس کا کام تمام کردیتے تھے اور اس قدر آگے بڑھے کہ معاویہ کو مجبوراً اپنی جگہ بدلنی پڑی۔(۲)

عبد اللہ کے حملے کی خوبی یہ تھی کہ وہ نگہبانوں سے لڑتے وقت یالثارات عثمان،، کا نعرہ بلند کر رہے تھے اس نعرے سے ان کا مقصد ان کا وہ بھائی تھا جو اسی جنگ میںمارا گیا تھا لیکن دشمنوں نے اس سے دوسری چیزسمجھا اور بہت تعجب میں پڑے تھے کہ عبد اللہ کس طرح سے لوگوں کو عثمان کے خون کا بدلہ لینے کی دعوت دے رہے ہیں۔!

بالآخر نوبت یہاں تک پہونچی کہ حقیقت میں معاویہ کو اپنی جان خطرے میں نظر آئی اور کئی مرتبہ اپنی میمنہ کی فوج کے سردار حبیب بن مسلمہ کے پاس پیغام بھیجا کہ مدد کو پہونچے لیکن حبیب کی ساری کوششیں بے کار ہوگئیں۔ اور عبد اللہ کو ان کے مقصد تک پہونچنے سے روک نہ سکا ،معاویہ کے خیمے سے وہ بہت کم فاصلے پر تھے معاویہ نے جب کوئی سبیل نہ دیکھی تو نگہبانوں کو حکم دیا کہ ان کے اوپر پتھر مارو اور ان سے جنگ کرو، اور یہ طریقہ مؤثر واقع ہوااور نگہبانوں نے پتھر مار کر عبد اللہ جن کے ہمراہ بہت کم لوگ تھے زخمی کر دیا اور وہ زخمی ہوکر زمین پر گر پڑے ۔(۳)

جب معاویہ نے اپنی جان کو خطرے سے باہر پایا توخوشی سے پھولے نہیں سمایااورعبداللہ کے سراہنے آیا، ایک شخص جس کا نام عبد اللہ بن عامر تھا اور معاویہ کے قریبی لوگوں میں سے تھا اپنے عمامہ کو عبد اللہ کے چہرے پر ڈال دیا اور اس کے لئے دعائے رحمت کی، معاویہ نے بہت اصرار کیا کہ اس کا چہرہ کھول دے مگر اس نے نہیں کھولا کیونکہ وہ اس کا دوست تھا، معاویہ نے اس سے وعدہ کیا کہ میں اِسے مُثلہ

_______________________________

(۱)کامل ابن اثیرج۳ص۱۵۳

(۲)تاریخ طبری ج ۳جزئ۶ص۱۰۔کامل ابن اثیرج۳ص۱۵۲،۱۵۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدید ج۵ص۱۹۶

(۳)وقعہ صفین ص ۲۴۶۔۲۴۵

۵۹۴

(جسم کے ٹکڑے کاٹنا) نہیں کروں گا، اس وقت اُسے امام کے بہادر سردار کا چہرہ دیکھنا نصیب ہوا،جیسے ہی معاویہ کی نگاہ عبد اللہ کے چہرے پر پڑی اس نے برجستہ کہا:

''هذاواللّٰه کبشُ القومِ.وربِّ الکعبةِ اللّٰهمّ اَظْفِرْنْیِ بالْاَشْتَرِ النّخعِی والْاَ شْعَتِ الْکِنْدِیْ'' (۱)

''خدا کی قسم ، وہ اس گروہ کا سب سے بڑا ہے خدایا مجھے اور دو بڑے بہادروں، مالک اشتر نخعی اور اشعث کنِدی پر کامیابی عطا فرما''۔

اس وقت عبد اللہ کی بے مثال بہادری و شجاعت پر عدی بن حاتم کا قصیدہ پڑھاجس کا پہلاشعر یہ تھا۔

''أخا الحربِ اِن عضّتْ به الحربُ عضّهٰا.وان شمّرَتْ عن سَا قِهٰا الحربُ شمَّرا'' (۲)

''مرد جنگجو(بہت زیادہ جنگ کرنے ولا)وہ ہے کہ اگر جنگ نے اُسے دانت دکھایا تو وہ بھی اسے دانت دکھائے اور اگر آستین اوپر اٹھائے تو وہ بھی آستین اوپر کرے''۔

جنگ، لیلة الہریر تک

امام علیہ السلام کے چاہنے والوں اور معاویہ کے طرفداروں کے درمیان واقعی جنگ ماہ صفر ۳۸ ھ سے شروع ہوئی اور ۱۳،صفر(۳) کو دوپہر تک جاری رہی، تاریخ لکھنے والوں نے اس ابن جریر طبری نے اپنی کتاب میں صلح کی تاریخ ۱۳ صفر لکھی ہے اور لیلة الہریر کو جمعہ کے دن لکھا ہے۔(ص۲۴) لیکن چونکہ جس دن صفر کا مہینہ شروع ہوا تھا وہ بدھ کا دن تھا اور اس اعتبار سے لیلة الہریر ۱۷ صفر کو ہونا چاہیے(ماہ صفر کی تیسری شب جمعہ) اور اگر مراد دوسری شب جمعہ ہو تو اس صورت میں لیلة الہریر ۱۰صفر کو ہوناچاہیے نہ کہ ۱۳ صفر کو ،مگر یہ کہا جائے لیلةالہریر کے آدھے دن سے صلح نامہ لکھے جانے تک تین دن تک دونوں فوجوں

______________________

(۱)،(۲)، تاریخ طبری ۳ جزء ۶ص۱۶َ،۱۳۔وقعہ صفین ص۲۴۶۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۵۴۔۱۵۳،شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۱۹۷۔ مروج الذہب ج۲ص۳۹۸۔----(۳) تاریخ طبری ج ۳جلد۶ص۳۱۔

۵۹۵

میں لڑائی ہوتی رہی اور تیسرے دن صلح نامہ مکمل ہوا لیکن ظاہراً جو ابن مزاحم کی کتاب وقعہ صفین میں تحریر ہے وہ یہ ہے کہ جنگ دسویں دن کے بعد بھی جاری رہی۔

مہینے کی شب پندرہویںکو ''لیلة الہریر'' کے نام سے یا د کیاہے ، عربی لغت میں ''ہریر'' کے معنیٰ کتوں کا تیز اوردردناک آواز میں بھونکنا ہے، کیونکہ معاویہ کی فوج اس رات امام علیہ السلام کی فوج کے حملے سے ایسے ہی چلا رہی تھی جیسے کتے چلاتے ہیں ،عنقریب تھا کہ معاویہ اور امویوں کی حکومت کا تختہ پلٹ جائے کہ اچانک عمروعاص نے دھوکہ اور فریب کے ساتھ اور امام کی فوج کے درمیان تفرقہ پیدا کرکے اس خونی اور سرنوشت ساز جنگ اور اس کو روک دیا بالآخر۱۷،صفر جمعہ کے دن واقعہ ''حَکمیّت''تک پہونچا اور جنگ وقتی طور پر روک دی گئی۔

جنگ صفین کے حادثات لکھنے والے مؤرخین نے دس دن تک حالات کو ترتیب سے لکھا ہے۔(۱) لیکن اس کے بعد کے حالات و حادثات کی ترتیب بدل گئی، تاریخ لکھنے والوں کو چاہیے کہ اپنے ذوق تاریخ شناسی کی روشنی میں واقعات کو ترتیب دیں ہم بھی ان چند دن میں ہوئے واقعات کو لیلة الہریرتک اپنے انداز سے تحریر کر رہے ہیں۔

______________________

(۱) مروج الذہب ج۲ص۳۹۰۔۳۸۷۔

۵۹۶

دسویں دن کا حادثہ

دسویں صفر کا سورج طلوع ہوا اور اپنی روشنی کو صفین کے میدان پر ڈالا جو خون کے تالاب کی طرح ہوگیاتھا ،شہادت کے عاشق اور امام علیہ السلام کے چاہنے والے یعنی ربیعہ قبیلے والے امام کے اطراف میں جمع تھے اور امام کا محاصرہ کئے ہوئے تھے، ان کے سرداروں میں سے ایک سردار اٹھا اور کہا ''من یبایعٰ نفسہُ علی الموتِ و یشری نفسہُ للّٰہ؟ کون ہے جو مرنے کے لئے بیعت کرے اور اپنی جان کو خداکے لئے بیچ دے ؟ اس وقت سات ہزار لوگ کھڑے ہوئے اور اپنے سردار کے ہاتھ پر بیعت کی اور کہا ،ہم اتنا آگے بڑھیںکہ معاویہ کے خیمے میں داخل ہوجائیں اور پیچھے پلٹ کر بھی نہ دیکھیں۔

ان کی محبت و الفت کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ان میں سے ایک شخص نے اٹھ کر کہا''لیس لکم عُذرفیِ العربِ اِن اصیب عِلیّ فیکم، ومنکم رجُل حتّیٰ'' ۔یعنی عربوںکے سامنے تم لوگ ذلیل ورسوا ہو جاؤگے اگر تم میں سے ایک آدمی بھی زندہ رہا اور امام علیہ السلام کو کوئی آسیب پہونچا جب معاویہ نے ''ربیعہ'' کی بہادری اور موعظہ و نصیحت کو دیکھا تو برجستہ اس کے منھ سے تعریفی جملے نکل پڑے اور یہ شعر پڑھا۔

اِذَاقُلتَ قد وَلّتْ ربیعةُ أقبلَتْ

کتائبُ منهم کالجِبالِ تجالد

اگر کوئی کہے کہ قبیلۂ ربیعہ نے میدان میں اپنی پشت دکھائی، تو اچانک ان میں سے کچھ گروہ پہاڑ کی طرح جنگ کرنے کیلئے تیار

۵۹۷

ہو جائیں گے۔(۱)

میمنہ کی فوج میں ترمیم

ربیعہ کی بہادری کے مقابلے میں قبیلۂ مضر نے بہت زیادہ وفاداری نہیں کی اور امام علیہ السلام کی میمنہ کی فوج اپنے سردار عبد اللہ بن بدیل کے قتل ہونے کی وجہ سے اور قبیلۂ مضَر کے افراد کے میدان سے بھاگنے کی وجہ سے شکست سے دوچار تھی، اس طرح سے کہ اس فوج کے سپاہی قلب لشکر سے جا ملے کہ جس کی سرداری خود امام علیہ السلام کررہے تھے۔ امام علیہ السلام نے میمنہ کی فوج میں بہتری اور سدھارکے لئے سہل بن حنیف کو اس فوج کا سردار بنا یا، لیکن حبیب بن مسلمہ کی سرداری میں شام کی فوج کے ہجوم نے میمنہ کے نئے سردار کو اتنی مہلت نہ دی کہ فوج کو منظم و مرتب کرتا، امام علیہ السلام جب قبیلۂ مضَر کی بد نظمی سے

باخبر ہوئے تو فوراً مالک اشتر کو اپنے پاس بلایا اور انہیں حکم دیا کہ یہ گروہ جس نے اسلامی روش کو بھلادیا ہے اس سے کہو''این فرار کم من الموت الذی لن تعجزوه الیٰ الحیاة الّتی لا تبقیٰ لکم؟'' کیو ں ایسی موت سے بھاگ رہے ہو جس کے مقابلے کی قدرت نہیں رکھتے اور جو زندگی ختم ہونے والی ہے اس کی طرف بھاگ رہے ہو ؟

مالک اشتر، میمنہ میں شکست کھا تے ہوئے لوگوں کے درمیان کھڑے ہوکر امام علیہ السلام کا پیغام پہونچانے کے بعد جوش وولولے والی تقریر میں کہا:''فان الفِرار فیه سلب العزّ والغلبة علیٰ الفَیئِ

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۴۲،۲۴۱۔ وقعہ صفین ص۳۰۶

۵۹۸

وذِلَُّ الحیاة و المماتِ و عار الدنیا والاخرة وسخط اللّٰه وألیم عقابِهِ''

''میدان جہاد سے فرار کرنا اپنی عزت کو برباد کرنا اور بیت المال کوا پنے ہاتھوں سے گنوا دینااور حیات و زندگی میں ذلت، اور دنیا و آخرت میں ننگ و عار، خدا کا قہر و غضب اور اس کا درد ناک عذاب ہے''۔

پھر فرمایا: اپنے دانتوں کو ایک دوسرے پر مضبوطی سے دبا لو اور اپنے سر کے ساتھ دشمن کے استقبال کے لئے بڑھواتنا کہنے کے بعد آپ نے میمنہ کی فوج کو منظم کیا اور خود حملہ شروع کر دیااور میسرۂ میں معاویہ کی فوج جو امام علیہ السلام کی میمنہ فوج کے مقابل تھی ، اسے پیچھے بھگا دیا یہاں تک کہ معاویہ کے قلب لشکر میں پہونچ گئے۔(۱)

شکست کے بعد میمنہ کی فوج کا مرتب ہونا امام علیہ السلام کی خوشحالی کا سبب ہوا، اسی وجہ سے آپ نے ان لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا''فألان فاصبر واانزلت علیکم الَسّکینة وثبّتکم اللّٰه بالیقین ولیعلم المنهزم بأنّه مُسخِط لِرَبّهِ و مُوْبقنفسه، وَفی الْفِرارِ مُوجَدَة اللّٰهِ عَلَیْهِ والذّلّ اللازمُ أوِالعارُالباقی، (۲)

''اس وقت صبر و سکون سے رہو کیونکہ ثبات اور آرام تمھارے لئے خداکی طر ف سے آیا اور تمھیں یقین کے ساتھ قائم رکھا اور جو لوگ شکست کھاچکے ہیں (میدان جنگ میںثابت قدم نہ رہے )وہ جا ن لیں کہ انہوں نے خود کو خدا کے غیظ و غضب اور بلاؤں میں گرفتار کیا ہے اور میدان جنگ سے بھاگنے والے پر خدا کا قہر اور ذلت ہوگی''۔

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۱۹۸،۱۹۷۔ وقعہ صفین ص۲۵۰۔ تاریخ طبری ۳، جزء ۶،ص۱۲

(۲)۔ تاریخ طبری ۳، جزء ۶ص۱۴

۵۹۹

قاتل کا گریہ

مأرب ایک شہر ہے جو شمال میں شرق صنعا کے پاس ہے وہ اس عظیم نہر جو ۵۴۲سے ۵۷۰ کے درمیان منہدم ہوئے بہت مشہور ہے، یمن کے قبیلے والوں نے اسی نہر کی برکت سے کافی ترقی کی اوروہ بہت اچھی کھیتی کرتے تھے ، مشہور طوفان،''عرم'' کے اثر سے نہر منہدم ہوئی جس کے بعد لوگ وہاں سےجزیرہ کے اِدھر اُدھر چلے گئے اور اس میں سے اکثر لوگ شام ،اردن ،فلسطین چلے گئے ،لیکن اپناقبیلہ چھوڑنے کے باوجود لوگ اپنے کو اسی قبیلے سے منتسب کرتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قبیلہ ازد، مضَر، کنِدہ، قضاعہ اور ربیعہ کے لوگ عراق میں اور اسی قبیلے کے کچھ لوگ شام ،اردن اور فلسطین میں زندگی بسر کررہے ہیں۔

فوج کو منظم کرتے وقت امام علیہ السلام کی سیاست یہ تھی کہ جس قبیلے کے لوگ بھی عراق میں زندگی بسر کررہے تھے تو دوسرے افراد کے سامنے وہی قبیلے کے لوگ کھڑے ہوں ، جو عراق کے علاوہ دوسری جگہوں پر زندگی بسر کر رہے تھے کیونکہ ممکن ہے کہ یہ آمنے سامنے کا مقابلہ بہتر ثابت ہو اور شدید خونریزی نہ ہو۔(۱)

ایک دن ''خثعم'' کے عبد اللہ نامی شامی سردارنے خثعم عراق کے رئیس سے ملاقات کرنےکی خواہش ظاہر کی، اور تھوڑے وقفہ کے بعد اس سے ملاقات ہوئی، شامی نے عرض کیا کہ خثعم قبیلے کے دونوں گروہ جنگ نہ کریں ، اور آئندہ کے لئے فکر کریں، دونوں فوجوں میں سے جو بھی کامیاب ہوئی ہم اس کی پیروی کریں ،لیکن ان دونوں سرداروں کی باتوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ عراقیوں میں سے کسی نے بھی اس کی باتوں پر توجہ نہیں دی،اور کوئی بھی راضی نہیں ہوا کہ امام علیہ السلام سے اپنی بیعت اٹھا لے،لہٰذا دونوں گروہوںمیں آمنے سامنے سے ایک ایک کر کے جنگ شروع ہوگئی ، وہب بن مسعود خثعمی عراقی، نے اپنے برابر کے شخص کو شامیوں میں سے قتل کر ڈالا اور اسی کے مقابلے میں خثعم شام کے ایک شخص نے عراق کے خثعمی پر حملہ کر دیا اور ابوکعب کو قتل کر دیا لیکن قتل کرنے کے فوراً بعد مقتول پر رونا شروع کردیا اور کہا میں نے معاویہ کی پیروی کرنے کی وجہ سے تجھے قتل کیا ہے جب کہ تو میرا قریبی عزیز تھا اور لوگوں سے زیادہ میں تم کو چاہتا تھا خدا کی قسم میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کروں، سوائے یہ کہ شیطان نے ہم لوگوں کو گمراہ کردیااور قریش نے ہمیں اپنا آلٰہ قرار دیدیا ہے اور ایک ہی قبیلے کے دوگروہوں کی آپسی جنگ میں ۸۰ لوگ دونوں طرف کے مارے گئے اور جنگ تمام ہوگئی۔(۲)

______________________

( ۱)معجم البلدان ج۵ص۳۵،۳۴------(۲) وقعہ صفین ص۲۵۸،۲۵۷۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۰۵،۲۰۴۔

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809