فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)0%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیة اللہ جعفر سبحانی
زمرہ جات: صفحے: 809
مشاہدے: 301999
ڈاؤنلوڈ: 4164

تبصرے:

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 301999 / ڈاؤنلوڈ: 4164
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کرنے کی ضرورت نہیں ہے پھر اپنے گھوڑے کو موڑ کر میدان جنگ سے چلا گیا اس وقت دونوں فوجیں پیچھے ہٹ گئیں ا ور اپنی اپنی چھاؤنی میں واپس آگئیں۔(۱)

ماہ صفر ۳۸ھ کی پانچویں تاریخ اتوار کے دن دو دستے جن میں عراقیوں کی سرداری ابن عباس اور شامیوں کی سرداری ولید بن عقبہ کر رہے تھے میدان جنگ میں آئے اور دونوں کے درمیان زبردست جنگ ہوئی، ظہر کے وقت دونوں نے جنگ روک دی اور اپنے اپنے لشکر کے پاس واپس آگئے، ولید بن عقبہ نےجب عبدالمطلب کی اولاد کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو: ابن عباس نے اسے جنگ کے لئے بلایا لیکن اس نے جنگ کرنے سے گریز کیا اور میدان چھوڑ کر چلا گیا۔(۲)

فوج شام کے افراد اسلامی تاریخ اور واقعات سے بے بہرہ تھے ورنہ ان کی فوج کی سپہ سالاری ایسے شخص کے ہاتھ میں نہ ہوتی جس کو قرآن نے 'فاسق' اور نابکار سے یاد کیا ہے ولید وہی شخص ہے جس کے بارے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے''ان جاء کم فاسق بنباء فتبینّوا'' (سورۂ حجرات ۶) یعنی اگر کو ئی فاسق خبر لائے تو اسکی چھان بین کرو۔(۳) یہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں قرآن نے اس طرح توصیف کی ہے''اَفمن کان مومناً کمن کان فاسقاً لایستؤون'' (سورۂ سجدہ ۱۸) یعنی کیا جو شخص مومن ہے وہ اسی طرح ہے جس طرح فاسق ہے؟ ہرگز یہ دونوں برابر نہیں ۔(۴)

اس جنگ میں اگر چہ بہت سے افرادقتل ہوئے لیکن دونوں فوجیں بغیر کسی نتیجے کے اپنی اپنی چھاؤنی میں واپس آگئیں مگر امام علیہ السلام، عمار اور ابن عباس کی تقریروںسے شام کے لوگوں پر حقیقت واضح ہوگئی اور کم و بیش معاویہ کا جھوٹا اور بے بنیاد دعویٰ لوگوں پر ظاہر و روشن ہوگیا، یہی وجہ ہے کہ جنگ کے پانچویں دن شمر بن ابرہہ حمیری شام کے قاریوں کے کچھ گروہ کے ساتھ امام کے لشکر میں شامل ہوگیا ،ان لوگوں کا نور

_______________________________

(۱) وقعہ صفین ص ۲۲۲۔۲۲۱۔ کامل ابن اثیرج۳ص۵۰۔ تاریخ طبری ج ۳، جزئ۶ ص۷ ۔مروج الذہب ج ۲ ص۳۸۸۔

(۲) وقعہ صفین ص ۲۲۲۔۲۲۱۔ کامل ابن اثیرج۳ص۵۰۔ تاریخ طبری ج ۳ جزئ۶ ص۷ ۔مروج الذہب ج ۲ ص۳۸۸۔

( ۳) تما م اسلامی مفسرین نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

(۴)اس آیت کے شان نزو ل کے متعلق، تفسیر الدر المنثورا ور برہان کی طرف رجوع کریں۔

۵۸۱

کی طرف آنا تاریکی کی علامت تھی جو شام کی فوج پر چھائی ہوئی تھی اس سے معاویہ کو بہت بڑا دھچکا لگا ،اس کے تکرار سے سخت خوفناک تھا۔

عمرو عاص نے معاویہ سے کہا:تو چاہتا ہے کہ ایسے شخص سے جنگ کرے جو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قریبی رشتہ دار ہے ، اسلام میں ثابت قدم اور استوار ہے، فضلیت و معنویت اور جنگ کے اسرار و رموز جاننے میں بے مثال ہے، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص لوگوں میں سے ہے اوربہادر ساتھیوں ، قاریوں اور شریف ترین لوگوں کے ساتھ تم سے جنگ کرنے آیا ہے اور مسلمانوں کے دلوں میں اس کی ہیبت و بزرگی چھائی ہے،تو تجھ پر لازم ہے کہ شامیوں کو اہم جگہوں اور علاقوں میں معین کرو اور اس سے پہلے کہ جنگ کی مدت طولانی ہونے کی وجہ سے وہ افسردگی اور رنجیدگی کا احساس کریں ان لوگوں کولالچ دو اور جو چیز بھی بھولنا چاہو بھول جاؤ مگر یہ نہ بھولنا کہ تم باطل پرہو۔

معاویہ نے بوڑھے مکار سیاسی کی باتوں سے نصیحت لی اور سمجھ گیا کہ شامیوں کو میدان جنگ کی طرف مائل کرنے کا ایک طریقہ دین اور تقوی و پرہیزگاری کا اظہار کرنا بھی ہے اگرچہ ان کے دلوں میں اس کا کچھ اثر نہ ہو،یہی وجہ تھی کہ اس نے حکم دیا کہ ایک منبر بنایا جائے اور شام کے تمام سرداروں کو اپنے پاس بلایا اور منبرپر گیا اورپھر بڑے ہی رنجیدہ دل سے دین و مذہب کے لئے مگرمچھ کی طرح آنسو بہایا اور کہا:

اے لوگو : اپنی جانوں اور سروں کو میرے سپرد کردو ، سست نہ ہونا اور مدد کرنے میں کوتاہی نہ کرناآج کا دن خطرناک دن ہے حقیقت اور اس کی حفاظت کا دن ہے تم لوگ حق پر ہو اور تمھارے پاس دلیل ہے تم لوگ اس سے جنگ کررہے ہو جس نے بیعت کو توڑا ہے اور خون حرام بہایا ہے اور آسمان پر کوئی بھی اس کو معذور نہیں سمجھتا۔

پھر عمر و عاص منبر پر گیا اور معاویہ کی طرح سے تقریر کی اور پھر منبر سے اتر گیا۔(۱)

______________________

۱۔ وقعہ صفین ص ۲۲۲۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ص۱۸۰۔

۵۸۲

امام علیہ السلام کی تقریر

امام علیہ السلام کو خبر ملی کہ معاویہ اپنے مکر و فریب کے ذریعے دین کا لبادہ پہن کرشامیوں کو جنگ کی

دعوت دے رہا ہے لہذا آپ نے حکم دیا کہ سب کے سب ایک جگہ جمع ہوجائیں ، راوی کہتا ہے کہ میں نے امام کو دیکھا جو اپنی کمان پر ٹیک لگائے ہیں اور پیغمبر(ص)کے دوستوں کو اپنے پاس جمع کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام ساتھی ان کے ہمراہ ہیں پھر آپ نے خدا کی حمد و ثناء کی اور کہا:

اے لوگو! میری باتوں کو غور سے سنو اور اسے یاد کرلو۔ خود خواہی سر کشی کی وجہ سے ہے اورکبرو نخوت خود بینی سے اور شیطان تمھاراابھی کا دشمن ہے جو تمھیں باطل کا وعدہ دے رہا ہے ،آگاہ ہوجاؤکہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے اسے برا بھلا نہ کہو اس کی مدد کرنے سے گریز نہ کرو، شریعت ودین ایک ہے اور اس کے راستے بھی ہموار ہیں جس نے بھی اس سے تمسک کیا وہ اس سے ملحق ہوگیا اور جس نے اسے ترک کیا وہ اس سے خارج ہوگیا اور جو بھی اس سے جدا ہوگا وہ نابود ہوجائے گااور جو شخص امین کے نام سے مشہور ہو اور خیانت کرے ، وعدہ کرے مگر خلاف ورزی کرے، بات کرے مگر جھوٹ بولے، وہ مسلمان نہیں ہے، ہم خاندان رحمت ہیں ہماری باتیں سچی اور ہمارے کردار سب سے اچھے ہیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آخر الزمان ہم میں سے ہیں اور اسلام کی رہبری بھی ہمارے ہی پاس ہے،خدا کی کتاب کے قاری ہم ہی ہیں۔میں تمھیں خدا اور رسول(ص)کی طرف اور ان کے دشمنوں سے جہاد کرنے، اور اس کی راہ میںثابت قدم رہنے اور اس کی مرضی حاصل کرنے، نماز قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے ، اور خدا کے گھر کی زیارت کرنے،اور رمضان المبارک میں روزہ رکھنے ، اور بیت المال کواس کے اہل تک پہونچانے کی دعوت دیتا ہوں۔

۵۸۳

یہ بھی دنیا کے لئے تعجب ہے کہ معاویہ اور عمرو عاص دونوں اس لائق ہوگئے کہ لوگوں کو دینداری کی طرف رغبت دلائیں! تم لوگ جانتے ہو کہ میں نے کبھی بھی پیغمبر (ص)کی مخالفت نہیں کی بلکہ وہ مقامات جہا ں پر بڑے بڑے بہادر پیچھے ہٹ گئے اور ان کے بدن خوف کے مارے کانپنے لگے میں نے اپنی جان کوپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے سپر قرار دیااس خدا کا شکر جس نے ہمیں یہ فضلیت بخشی، پیغمبر (ص)کی روح پرواز کر گئی جب کہ ان کا سر میری آغوش میں تھا ، اور صرف تنہا میں نے ان کو غسل دیا اور مقرب ترین فرشتے آپ کے جسم اطہر کو اِدھر سے ادھر پلٹتے تھے، خدا کی قسم کسی بھی پیغمبر کی امت اس کی رحلت کے بعد اختلاف کا شکار نہ ہوئی مگر یہ کہ اہل باطل حق والوں پر غالب آگئے ۔(۱)

جب امام علیہ السلام کی تقریر یہاں تک پہونچی تو ، بزرگ و باایمان اور وفادار دوست عمارنے لوگوں کی طرف نگا ہ کی اور کہا، امامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تم لوگوں کو آگاہ کردیا ہے کہ امت نے نہ تو شروع ہی میں صحیح راستہ اپنایا اور نہ ہی آخر میں صحیح راستہ اپنایا۔

ابن مزاحم کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام نے ۶،صفر ۳۸ دو شبنہ کے دن شام کے وقت تقریر کی تھی اور آخر کلام میں تما م سپاہیوں سے مطالبہ کیا کہ فساد کو جڑ سے اکھاڑدیں۔ اسی وجہ سے ۷،صفر منگل کے دن تمام سپاہیوں کو ایک بڑے حملے کے لئے آمادہ کیا اور خطبہ ارشاد فرمایا جس میں جنگ کے اسرار و رموز کی تعلیم دی ۔(۲)

_______________________________

(۱)،(۲)وقعہ صفین ص۲۲۴۔۲۲۳۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۵ص۱۸۲۔۱۸۱

۵۸۴

اٹھارہویں فصل

اجتماعی حملے کا اغاز

جنگ صفین شروع ہوئے آٹھ دن گزر گئے اور چھٹ پٹ حملے اور بہادر سرداروں کی رفت و آمد سے کوئی نتیجہ نہ نکلا ، امام علیہ السلام اس فکر میں تھے کہ کس طرح سے نقصان کم ہو اور ہم اپنے مقصد تک پہونچ جائیں آپ اس بات سے بھی مطمئن تھے کہ محدود جنگ قتل و غارت گری کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں رکھتی اسی وجہ سے آپ نے ماہ صفر کی آٹھویں رات (شب چہار شنبہ) کو اپنے اصحاب کے درمیان تقریر فرمائی:

''اس خدا کا شکر کہ اگر اس نے کسی چیز کو شکست دی تو اسے مستحکم نہیں کیا اور جس چیز کو مستحکم کر دیا اُسے شکست نہیں ہو سکتی، اگر وہ چاہتا تو اس امت سے دو آدمی یا پوری امت اختلاف نہیں کرتی،اور کوئی شخص بھی کسی بھی امر میں جو اس سے مربوط ہے اختلاف نہیں کرتا ، اور مفضول ،فاضل کے فضل وکرم سے انکار نہیں کرتے، تقدیر نے ہمیں اس گروہ کے سامنے کھڑا کر دیا ہے ۔

سب کے سب خدا کی نگاہوں اور اس کے حضور میں ہیں اگر خدا چاہتا تو عذاب کے نزول میں جلدی کرتا ، تاکہ ستمگروں کو جھٹلا سکے، اور حق کو آشکار کرے اس نے دنیا کو کردار کا گھر اور آخرت کو اجرو ثواب کا گھر قرار دیا تاکہ بدکاروں کو ان کے برے کردار کہ وجہ سے عذاب اور اچھے لوگوں کو ان کے اچھے کردار کی وجہ سے اجر و ثواب دے، آگاہ ہوجاؤ اگر خدانے چاہا تو کل د شمن سے مقابلہ ہوگا لہذا اس رات خوب نماز پڑھو اور بہت زیادہ قرآن پڑھو، اور خدا وند عالم سے ثابت قدمی اور کامیابی کی دعا کرو اور کل دشمنوں سے احتیاط اور پوری بہادری کے ساتھ لڑنا ،اور اپنے کام میں سچے رہو۔امام علیہ السلام نے یہ باتیں کہیں اور وہاں سے چلے گئے پھر امام علیہ السلام کے تمام سپاہی تلوار و نیزہ وتیر کی طرف گئے اور اپنے اپنے اصلحوں کو صحیح کرنے لگے۔(۱) امام علیہ السلام نے آٹھ صفر بدھ کے دن حکم دیاکہ ایک آدمی شام کی فوج کے سامنے کھڑا ہو اور

______________________

(۱)وقعہ صفین ص ۲۲۵۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۵ص۱۸۲۔ تاریخ طبری ج ۳ جزئ۶ ص۸ ۷ ۔ کامل ابن اثیرج۳ص۱۵۰۔

۵۸۵

عراق کی فوج کی طرف سے جنگ کا اعلان کرے۔

معاویہ نے بھی امام علیہ السلام کی طرح اپنی فوج کومنظم کیا اور اسے مختلف حصّوں میں تقسیم کردیا،اس کی فوج حمص، اردن اور قنسرین کے لوگوں پر مشتمل تھی اور معاویہ کی جان کی حفاظت کے لئے شام کے لوگوں نے ضحاک بن قیس فہری کی سرپرستی میں ذمہ داری لی اور اس کو اپنے حلقے میں لے لیا ، تاکہ دشمن کو قلب لشکر ، جہاں معاویہ کی جگہ تھی پہونچنے سے روک سکیں۔

معاویہ نے جس انداز سے فوج کو مرتب کیا تھاوہ عمرو عاص کو پسند نہ آئی اور اس نے چاہا کہ معاویہ کی فوج کو منظم کرنے میں مدد کرے لہذااسے وہ وعدہ یاد دلایا جو دونوں نے آپس میں کیا تھا، (یعنی فتح و کامیابی کے بعد مصر کی حکومت اس کی ہوگی)عمرو نے کہا: حمص کی فوج کی سرداری میرے سپر د کرو اور ابوالاعور کو ہٹادو ۔ معاویہ اس کی اس فرمائش پربہت خوش ہوا اور فوراً ایک شخص کو حمصیوں کے پاس بھیجا اور پیغام بھیجوایا کہ عمرو عاص جنگ کے امور میں تجربہ رکھتا ہے جو ہم اور تم نہیں رکھتے ، میں نے اسے سواروں کا سردار بنایا ہے لہذا تم دوسرے علاقے میں جاؤ۔

عمرو عاص نے حکومت مصر کی امید میں اپنے دونوں بیٹوں عبداللہ اور محمد کو بلایااور اپنے تجربہ اور اپنے اعتبار سے فوج کو منظم کیا اور حکم دیاکہ زرہ پہنے ہوئے سپاہی فوج کے آگے اور جو زرہ

نہیں پہنے ہیں وہ فوج کے پیچھے کھڑے ہوں، اور پھر اپنے دونوں بیٹوں(۱) کو حکم دیا کہ فوج کے درمیان معائنہ کریں اور فوج کے نظم و ترتیب کا خاص خیال رکھیں اسی پراکتفاء نہیں کیا بلکہ خود فوج کے درمیان ٹہلنے لگااور اس کے نظم و ترتیب پرنگاہ رکھی اور اسی طرح معاویہ فوج کے درمیان منبر پر بیٹھ گیااور اس کی حفاظت کی ذمہ داری یمن کے لوگوں نے لی اور حکم دیا کہ جو شخص بھی منبر کے نزدیک ہونے کا ارادہ کرے فوراً اسے قتل

______________________

(۱) یہاں اس بات کی یاددہانی کرناہے کہ عمر و عاص کے دونوں بیٹے ظاہری طور پرزاہد نما تھے.جو ابتداء میں باپ کو ابوسفیان کے بیٹے کی حمایت سے روک رہے تھے لیکن اس وقت ان کے سچے اور گہرے دوست ہیں یہ واقعہ ہمیں اس مثال کی یاد دلاتا ہے جوعربی اور فارسی(اور اردو ، رضوی) زبان میں رائج ہے۔(ھل تلد الحیة الاالحیة) یعنی کیا سانپ کا بچہ سانپ کے علاوہ ہو سکتا ہے ۔یافارسی کی مثال، عاقبت گرک زادہ گرک شود۔گرچہ با آدمی بزرگ شود۔ بھیڑیئے کا بچہ بھیڑیا ہوگا اگرچہ وہ آدمی کے ساتھ ہی کیوں نہ بڑاہوا ہو۔

۵۸۶

کردینا۔(۱) جب بھی جنگ کا مقصد قدرت اور حاکمیت ہوگا تو اس وقت اپنی حفاظت کے لئے گروہ کا انتظام ہوگا ،لیکن اگر ہدف اور مقصد معنوی ہوگا تو ہدف کی خاطر اگر جان بھی دینی پڑے تو کوئی پرواہ نہیں ہوگی لہذا نہ تو کسی نے امام کی حفاظت کی ذمہ داری لی بلکہ امام علیہ السلام سیاہ رنگ کے گھوڑے پر سوار حکم دیتے تھے اور فوج کی رہبری بھی کر رہے تھے اور اپنے بلند نعروں سے شام کے بہادروں کو لرزہ براندام(تھرتھرانا) کر دیتے تھے اور اپنی تیز تلوار سے لوگوں کو دور کرتے تھے۔

رہبری کے طریقے میں اختلاف، مقصد کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہے اور شہادت کا طلب کرنا آخرت پر ایمان اور اس کی حقانیت پر اعتقاد رکھنا ہے، جب کہ موت سے خوف اور دوسروں کو اپنی جان کی حفاظت کے لئے قربان کرنا دنیاوی زندگی سے محبت والفت اور ماوراء مادہ سے انکار کرنا ہے اور حیرت کی بات تویہ ہے کہ عمروعاص کے بیٹے نے ان چیزوں کا اعتراف بھی کیا اور امام علیہ السلام

کی فوج کے بارے میں یہ کہا''فان هوٰلائِ جاؤوا بخطّةٍ بلغت السمائ'' یہ لوگ آسمانی ہدف لے کر میدان میں آئے ہیں اور شہادت سے خوف نہیں رکھتے ۔

عاص کے بیٹے کی معاویہ کے ساتھ خیرخواہی اور مدد اس سے محبت و الفت اور فتح و کامیابی کی بناپر نہ تھی بلکہ وہ ہرطرف سے اپنے فائدے کے لئے اسے کامیابی سے ہمکنار کرانا چاہتا تھااورمعاویہ سے اظہار نظر اور مشورہ کرکے اکثر اسے یاد دلاتا تھا اور جوباتیں ان دونوں کے درمیان ہوئیں وہ اس حقیقت کو بیا ن کرتی ہیں۔

معاویہ:جتنی جلدی ہو فوج کی صفوں کومنظم کرو۔

عمر وعاص:اس شرط کے ساتھ کہ میری حکومت میرے لئے ہو۔

معاویہ،اس خوف سے کہ عمروعاص اما م کے بعد اس کا رقیب نہ ہوجائے فوراً پوچھا کون سی حکومت؟کیا حکومت مصر کے علاوہ دوسری چیز چاہتا ہے؟

عمرو عاص نے جوپرانا سیا ستبازا اور غیر متقی سوداگرتھانے اپنے چہرے پر تقوے کا ماسک لگاکر کہا کیا

______________________

(۱)وقعہ صفین ص ۲۲۶۔ شرح نہیج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۱۸۲۔

۵۸۷

مصر، جنت کے عوض ہو سکتا ہے؟ کیا علی کو قتل کرکے عذاب جہنم کی مناسب قیمت جس میںہر گز آرام نہیں ہوگا ،ہوسکتی ہے؟

معاویہ نے اس خوف سے کہ کہیں عمرو کی بات فوج کے درمیان پھیل نہ جائے اس سے کہا ذرا آہستہ آہستہ، تیری گفتگو کوئی اور نہ سن لے۔

جی ہاں،عمروعاص مصر کی حکومت کی آرزو میں شام کے لوگوں کی طرف متوجہ ہوا اورکہا:

اے شام کے سردارو، اپنی صفوں کو مرتب کرو اور اپنے سروں کو اپنے خدا کو ہدیہ کر دو، اور خدا سے مدد طلب کرو اور خدا کے دشمن اور اپنے دشمن سے جنگ کرو ان لوگوں کو قتل کرو تاکہ خدا ان لوگوں کو قتل کرے اور انھیں نابود کردے ۔(۱)

اور اُدھر جیسا کہ گزر چکا ہے اس دن امام علیہ السلام نے ایک گھوڑا طلب کیا لوگ آپ کے لئے(شبرنگی) گھوڑا لائے جو طاقت کی وجہ سے مسلسل کود رہاتھا اور دو لگاموں سے کھینچا جاتا تھا۔ امام علیہ السلام نے اس کی لگام اپنے ہاتھ میں لی اور اس آیت کی تلاوت فرمائی :

( سبحان الذی سخّرلنا هذا وماَ کُنّٰا له مقرنین وانّااِلیٰ ربّنا لمنقلبون ) ''پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لئے آمادہ کیا جسکی ہمارے پاس طاقت و قدرت نہ تھی اور سب کے سب اس کی بارگاہ میں واپس جائیں گے''۔(زخرف ۱۳ )

پھر آپ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا اور کہا:

''اللّٰهم اِلیک نُقِلَتِ الاقدامُ وأُ تْعِبَتِ الا بدانُ و أ فضتِ القلوبُ و رفعتِ الأ یدی و شُخِصَتِ الأ بصار.........اللّٰهم انّا نشکُوٰ ألیکَ غیبة نبیّنٰا وکثرةعدوّنا وتشتّت أ هوا ئنٰا.ربنّا افتح بیننٰا وبینَ قومِنٰابالحقِّ وَ اَنتَ خیر الفاتحِینَ (۲)

خدا یا: تیری ہی طرف قدم اٹھتے ہیں اور بدن رنج وغم میں گرفتار ہوتے ہیں اور دل تیری طرف متوجہ

ہوتے ہیںاور ہاتھ بلند ہوتے ہیں اور آنکھیں کھلی رہتی ہیں........خدایا:ہم اپنے پیغمبر کے نہ رہنے کا شکوہ

______________________

(۱)،(۲) وقعہ صفین ص۲۳۱،۲۳۰۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۱۷۶

۵۸۸

اور دشمنوں کی زیادتی اور اپنی آرزؤوں کے بکھرنے کاتیری بارگاہ میں شکوہ کرتے ہیں خداوندا ہمارے اور اس قوم کے درمیان حقیقی فیصلہ کر کیونکہ تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔بالآخر ۸صفر بدھ کے دن باقاعدہ حملے کا آغاز ہوا اور صبح سویرے سے را ت تک حملے ہوتے رہے اور دونوں فوجیں بغیر کسی کامیابی کے اپنی اپنی چھاؤنی میں واپس آگئیں۔جمعرات کے دن امام علیہ السلام نے نما ز صبح تاریکی میں پڑھی اور پھر دعاپڑھنے کے بعد خود

حملہ شروع کیا ، آپ کے ساتھی بھی چاروں طرف سے جنگ کرنے لگے۔(۱)

حملے سے پہلے اما م علیہ السلام نے جو دعا پڑھی اس کا کچھ حصہ یہ ہے۔

''ان اظهرتنٰا علیٰ عدوّنا فجنبنا الغ و سدِّ دنٰا للحقِّ،واِن اظهر تَهُم علینٰا فَارزُقنا الشّهٰا دَة وَ اعصِم بقیَّةَ أصحابی مِنَ الفتنة'' (۲)

''پروردگار ! اگر ہمیں اپنے دشمنوں پر کامیاب کیا تو ہم سب کو ظلم و ستم سے دور رکھ اور ہمارے قدموں کو حق کے راستے پر چلا، اور اگر وہ سب ہم پر کامیاب ہوئے تو ہم لوگوں کو شہادت نصیب فرمااور جو ہمارے دوست باقی بچیں انہیں فتنہ سے محفوظ رکھ''

امام علیہ السلام کے لشکر کے سرداروں کی شعلہ ور تقریریں

فوج کے بزرگوں اور سرداروں کی تقریریں بہت بڑی تبلیغ کا کام کرتی ہیں بسا اوقات، ایک فوج کی تقریر دشمن کو نابود اور خود اپنے لئے کامیابی کے مقدمات فراہم کر دیتی ہے، اسی وجہ سے ، جمعرات ۹ صفر اجتماعی حملے کے دوسرے دن امام علیہ السلام کی فوج کی بزرگ شخصیتوں نے تقر یریں کیں ، امام کے علاوہ عبد اللہ بن بدیل(۳) سعید بن قیس(۴) (ناصرین کے علاقہ میں) اور مالک اشتر جیسی بزرگ

_______________________________

(۱)تاریخ طبری ۳، جزء ۶ص۸۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۵۱-----(۲) وقعہ صفین ص۲۳۲

(۳) وقعہ صفین ص۲۳۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵ص۱۸۶

(۴)وقعہ صفین ص۳۴۷۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵ص۱۸۸

۵۸۹

شخصیتوں(۱) نے تقریر کی اور ہر شخص نے ایک خاص طریقے سے امام علیہ السلام کی فوج کو شامی دشمن کی فوج پر حملہ کرنے کی تشویق دلائی، اسی درمیان بہت سے واقعات رونما ہوئے جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

۱۔ کون ہے جو اس قرآن کو اپنے ہاتھ میں لے؟

علی علیہ السلام قبل اس کے کہ جنگ کا آغاز کرتے اتمام حجت کے لئے اپنے سپاہیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: کون ہے جو اس قرآن کو اپنے ہاتھوں میں لے اور ان شامیوں کو اس کی طرف دعوت دے؟ سعید نامی نوجوان اٹھا اور اس نے ذمہ داری لی امام علیہ السلام نے دوسری مرتبہ پھر اپنی بات دہرائی اور پھر و ہی نوجوان اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا اے امیرالمومنین میں حاضر ہوں، اس وقت علی علیہ السلام نے قرآن اس کے حوالے کیا وہ معاویہ کی فوج کی طرف روانہ ہوا ان لوگوں کو خدا کی کتاب اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دی، تھوڑی دیر بھی نہ گذری تھی کہ دشمن کے ہاتھوں شھید ہوگیا(۲)

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص ۲۴۱۔۲۳۹۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵ص۱۹۱۔۱۹۰

(۲)وقعہ صفین ص ۲۴۴۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۵ص۱۹۴

۵۹۰

۲۔ دوحُجر کی جنگ:

حُجر بن عدی کندی ان شخصیتوں میں سے ہیں جو پیغمبر کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور ان کے ذریعے مسلمان ہوئے اس کے بعد علی علیہ السلام کے مخلصوں اور ان دفاع کرنے والوں کی صف میں تھے بالآخر اسی راہ میں اپنی جان دے دی معاویہ کے ظالم جلادوں کے ہاتھوں امام علیہ السلام کے کچھ مخلصوں کے ہمراہ ''مرج عذرائ'' (جو شام سے ۲۰ کلومیڑ دوری پر واقعہ ہے) میں قتل ہوگئے اور تاریخ نے انھیں ''حُجر الخیر'' کے نام سے یاد کیا جبکہ ان کے چچا حُجر بن یزید کو تاریخ نے ''حُجر الشّر'' کے نام سے یاد کیا ۔

اتفاق سے اس دن یہ دونوں حُجر جو کہ آپس میں قریبی عزیز بھی تھے میدان جنگ میں روبرو

ہوئے، مبارزہ کی دعوت حُجر الشّر کی طرف سے شروع ہوئی اوراس وقت جبکہ یہ دونوں اپنے اپنے نیزوں سے جنگ کرنے میں مصروف تھے معاویہ کی فوج سے ایک شخص خزیمہ، حُجر بن یزید کی مدد کیلئے دوڑا اور حُجر بن عدی پر نیزہ مارا اس موقع پر حُجر کے کچھ ساتھیوں نے خزیمہ پر حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا لیکن حجر بن یزید

۵۹۱

میدان چھوڑ کربھاگ گیا۔(۱)

۳۔ فوج شام کے میسرہ پر عبداللہ بن بدیل کا حملہ

عبد اللہ بن بدیل خزاعی امام علیہ السلام کے لشکر کے بلند پایہ افسر تھے وہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جلیل القدر صحابی اور نفس کی پاکیزگی اور بہادری اور زبردست جنگ کرنے والوں میں مالک اشتر کے بعد مشہور تھے۔

میمنہ کی فوج کی ذمہ داری انھی کے ہاتھ میں تھی اور میسرہ کی سرداری عبد اللہ بن عباس کے ذمہ تھی، عراق کے قاری عمار یاسر، قیس بن سعد او رعبداللہ بن بدیل کے بارے میں ہوے(۲)

عبد اللہ ، حملہ شروع کرنے سے پہلے اپنے دوستوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : معاویہ نے ایسے مقام و منصب کا دعویٰ کیا ہے جس کا وہ اہل نہیں ہے، مقام ومنصب کے حقیقی وارثوں سے لڑائی کے لئے اٹھا ہے اور باطل اور غلط دلیلوں کے ساتھ حق سے لڑنے آیا ہے ،اس نے عربوں(بدو) اور مختلف لوگوں کو ملا کر فوج تشکیل دی ہے اور گمراہی کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔یہاں تک کہنے کے بعد کہا:

''وأنتم واللّه علیٰ نورٍ من ربّکم وبرهان مبین، قاتلواالطغاةَ الجفاةَ ولا تخشوهُم وکیفَ تخشَونَهم وفی أید یکم کتاب من ربّکم ظاهر منور وقدقاتلتهُم مع التبیُّ واللّه مٰا هم فی هٰذهِ بأزکیٰ ولاٰ أ تقٰی ولاٰأبَرّ ،قُو مواُ اَلیٰ عدوِّ اللّٰه وعدوِّکم''(۳)

خدا کی قسم تم لوگ خدا کے نور کے سایۂ میں اور روشن دلیل ہو۔ اس جفا کار اور سرکش کے ساتھ جنگ کرو سے خوف نہ کرو، اس سے کیوں ڈرو جب کہ تمھارے ہاتھ میں خدا کی کتاب ہے جو واضح اور سب کی نظر میں مقبول ہے تم نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اس سے جنگ کی ہے خدا کی قسم ان کا حال ماضی سے بہتر نہیں ہے، اٹھو اور خدا کے دشمن اور اپنے دشمن سے جنگ کرنے کے لئے روانہ ہوجاؤ ۔

_______________________________

(۱)وقعہ صفین ص۲۴۳ ۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدید ج۵ص۱۹۶۔۱۹۵-----(۲)کامل ابن اثیرج ۳ ص ۱۵۱

(۳) وقعہ صفین ص۲۳۴ ۔ تاریخ طبری ج ۳جزء ص۹۔ کامل ابن اثیرج۳ص۱۵۱ (تھوڑے فرق کے ساتھ)

۵۹۲

میمنہ کی سرداری عبد اللہ کے حوالے تھی اس کے باوجود انہوں نے دو زرہ پہنی اور دو تلواریں (دونوں ہاتھوںمیں ) لیں اور حملہ شروع کردیا اور پہلے ہی حملہ میں معاویہ کی فوج کو راستے سے ہٹادیا اور حبیب بن مسلمہ جوفوج شام کے میسرہ کا سردار تھا،کے لشکر کو شکست دیدی ،ان کی پوری کوشش یہ تھی کہ خود کو معاویہ کے خیمے تک پہونچا دیں اور اس ام ّالفساد کو درمیان سے ختم کردیں معاویہ کے تمام نگہبان جنہوں نے اپنی جان قربان کرنے کا عہد کیا تھا، پانچ صف کی صورت میںیا بقولے پانچ دیوار کی طرح اس کے اطراف میں محاصرہ کئے ہوئے تھے اور ان کو بڑھنے سے روک رہے تھے لیکن یہ دیواریں بہت بڑی مشکل نہ بنیں، بلکہ ایک کے بعد ایک گرتی رہیں عبدا للہ کا حملہ بہت زبردست تھالیکن اس سے پہلے کہ خود کو معاویہ کے خیمہ تک پہونچاتے قتل کر دئیے گئے۔(۱)

اس سلسلے میں جریر طبری نے اپنی ''تاریخ'' میں ابن مزاحم (مؤلف وقعہ صفین) سے زیادہ تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، وہ لکھتا ہے:عبداللہ دشمن کی فوج کے میسرہ کے ساتھ جنگ کرنے میں مشغول تھا اور مالک اشتر بھی میمنہ پر حملہ کر رہے تھے، مالک اشتر جو کہ زرہ پہنے ہوئے تھے اپنے ہاتھ میں ایک یمنی ڈھال نما لوہے کا ٹکڑا لئے ہوئے تھے جب اس کو جھکاتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ اس سے پانی برس رہا ہے اور جب اسے اونچا کرتے تھے تو اس کی چمک سے آنکھیں خیرہ ہو جاتی تھیں۔انھوں نے اپنے حملے میں میمنہ کو تہ وبالا کردیا اور ایسے مقام پر پہونچے جہاں عبد اللہ بن بدیل قاریوں کے گروہ جن کی تعداد تقریباً تین سو،(۲) کے آس پاس تھی موجود تھے، انہوں نے عبد اللہ کے دوستوں کو میدان میں ڈٹا ہوا پایا مالک اشتر نے ان کے اطراف سے دشمنوں کو دور کیا وہ لوگ مالک اشتر کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فوراً امام کے حالات دریافت کئے اور جب ان لوگوں نے جواب میں سنا کہ امام علیہ السلام صحیح و سالم ہیں اور میسرۂ میں اپنی فوج کے ساتھ جنگ کرنے میں مصروف ہیں تو شکرخدابجالائے۔

ایسی حالت میں عبد اللہ نے اپنے کم ساتھیوں کے باوجود بہت زیادہ اصرا ر کیا کہ آگے بڑھیں، معاویہ کے نگہبانوںکو قتل کرنے کے بعد خود معاویہ کو قتل کردیں،لیکن مالک اشتر نے انہیں پیغام دیا کہ آگے

______________________

(۱) وقعہ صفین ص۲۴۸

(۲)ابن مزاحم نے وقعہ صفین میں ان کی تعداد سو آدمی لکھی ہے۔

۵۹۳

نہ بڑھیںاور جس جگہ پر ہیں وہیں ٹھہرے رہیں اور اپنا دفاع کریں۔(۱) لیکن ان کا خیال تھا کہ وہ ایک بجلی کی طرح تیز حملے سے نگہبانوں کو ختم کرکے معاویہ تک پہونچ جائیں گے، اسی وجہ سے وہ آگے بڑھتے رہے اور چونکہ دونوں ہاتھوں میں تلوار لئے تھے اپنے دوستوں کے ہمراہ حملہ شروع کردیا اور جو بھی سامنے آتا تھا ایک ہی حملے میں اس کا کام تمام کردیتے تھے اور اس قدر آگے بڑھے کہ معاویہ کو مجبوراً اپنی جگہ بدلنی پڑی۔(۲)

عبد اللہ کے حملے کی خوبی یہ تھی کہ وہ نگہبانوں سے لڑتے وقت یالثارات عثمان،، کا نعرہ بلند کر رہے تھے اس نعرے سے ان کا مقصد ان کا وہ بھائی تھا جو اسی جنگ میںمارا گیا تھا لیکن دشمنوں نے اس سے دوسری چیزسمجھا اور بہت تعجب میں پڑے تھے کہ عبد اللہ کس طرح سے لوگوں کو عثمان کے خون کا بدلہ لینے کی دعوت دے رہے ہیں۔!

بالآخر نوبت یہاں تک پہونچی کہ حقیقت میں معاویہ کو اپنی جان خطرے میں نظر آئی اور کئی مرتبہ اپنی میمنہ کی فوج کے سردار حبیب بن مسلمہ کے پاس پیغام بھیجا کہ مدد کو پہونچے لیکن حبیب کی ساری کوششیں بے کار ہوگئیں۔ اور عبد اللہ کو ان کے مقصد تک پہونچنے سے روک نہ سکا ،معاویہ کے خیمے سے وہ بہت کم فاصلے پر تھے معاویہ نے جب کوئی سبیل نہ دیکھی تو نگہبانوں کو حکم دیا کہ ان کے اوپر پتھر مارو اور ان سے جنگ کرو، اور یہ طریقہ مؤثر واقع ہوااور نگہبانوں نے پتھر مار کر عبد اللہ جن کے ہمراہ بہت کم لوگ تھے زخمی کر دیا اور وہ زخمی ہوکر زمین پر گر پڑے ۔(۳)

جب معاویہ نے اپنی جان کو خطرے سے باہر پایا توخوشی سے پھولے نہیں سمایااورعبداللہ کے سراہنے آیا، ایک شخص جس کا نام عبد اللہ بن عامر تھا اور معاویہ کے قریبی لوگوں میں سے تھا اپنے عمامہ کو عبد اللہ کے چہرے پر ڈال دیا اور اس کے لئے دعائے رحمت کی، معاویہ نے بہت اصرار کیا کہ اس کا چہرہ کھول دے مگر اس نے نہیں کھولا کیونکہ وہ اس کا دوست تھا، معاویہ نے اس سے وعدہ کیا کہ میں اِسے مُثلہ

_______________________________

(۱)کامل ابن اثیرج۳ص۱۵۳

(۲)تاریخ طبری ج ۳جزئ۶ص۱۰۔کامل ابن اثیرج۳ص۱۵۲،۱۵۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدید ج۵ص۱۹۶

(۳)وقعہ صفین ص ۲۴۶۔۲۴۵

۵۹۴

(جسم کے ٹکڑے کاٹنا) نہیں کروں گا، اس وقت اُسے امام کے بہادر سردار کا چہرہ دیکھنا نصیب ہوا،جیسے ہی معاویہ کی نگاہ عبد اللہ کے چہرے پر پڑی اس نے برجستہ کہا:

''هذاواللّٰه کبشُ القومِ.وربِّ الکعبةِ اللّٰهمّ اَظْفِرْنْیِ بالْاَشْتَرِ النّخعِی والْاَ شْعَتِ الْکِنْدِیْ'' (۱)

''خدا کی قسم ، وہ اس گروہ کا سب سے بڑا ہے خدایا مجھے اور دو بڑے بہادروں، مالک اشتر نخعی اور اشعث کنِدی پر کامیابی عطا فرما''۔

اس وقت عبد اللہ کی بے مثال بہادری و شجاعت پر عدی بن حاتم کا قصیدہ پڑھاجس کا پہلاشعر یہ تھا۔

''أخا الحربِ اِن عضّتْ به الحربُ عضّهٰا.وان شمّرَتْ عن سَا قِهٰا الحربُ شمَّرا'' (۲)

''مرد جنگجو(بہت زیادہ جنگ کرنے ولا)وہ ہے کہ اگر جنگ نے اُسے دانت دکھایا تو وہ بھی اسے دانت دکھائے اور اگر آستین اوپر اٹھائے تو وہ بھی آستین اوپر کرے''۔

جنگ، لیلة الہریر تک

امام علیہ السلام کے چاہنے والوں اور معاویہ کے طرفداروں کے درمیان واقعی جنگ ماہ صفر ۳۸ ھ سے شروع ہوئی اور ۱۳،صفر(۳) کو دوپہر تک جاری رہی، تاریخ لکھنے والوں نے اس ابن جریر طبری نے اپنی کتاب میں صلح کی تاریخ ۱۳ صفر لکھی ہے اور لیلة الہریر کو جمعہ کے دن لکھا ہے۔(ص۲۴) لیکن چونکہ جس دن صفر کا مہینہ شروع ہوا تھا وہ بدھ کا دن تھا اور اس اعتبار سے لیلة الہریر ۱۷ صفر کو ہونا چاہیے(ماہ صفر کی تیسری شب جمعہ) اور اگر مراد دوسری شب جمعہ ہو تو اس صورت میں لیلة الہریر ۱۰صفر کو ہوناچاہیے نہ کہ ۱۳ صفر کو ،مگر یہ کہا جائے لیلةالہریر کے آدھے دن سے صلح نامہ لکھے جانے تک تین دن تک دونوں فوجوں

______________________

(۱)،(۲)، تاریخ طبری ۳ جزء ۶ص۱۶َ،۱۳۔وقعہ صفین ص۲۴۶۔ کامل ابن اثیرج ۳ص۱۵۴۔۱۵۳،شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۱۹۷۔ مروج الذہب ج۲ص۳۹۸۔----(۳) تاریخ طبری ج ۳جلد۶ص۳۱۔

۵۹۵

میں لڑائی ہوتی رہی اور تیسرے دن صلح نامہ مکمل ہوا لیکن ظاہراً جو ابن مزاحم کی کتاب وقعہ صفین میں تحریر ہے وہ یہ ہے کہ جنگ دسویں دن کے بعد بھی جاری رہی۔

مہینے کی شب پندرہویںکو ''لیلة الہریر'' کے نام سے یا د کیاہے ، عربی لغت میں ''ہریر'' کے معنیٰ کتوں کا تیز اوردردناک آواز میں بھونکنا ہے، کیونکہ معاویہ کی فوج اس رات امام علیہ السلام کی فوج کے حملے سے ایسے ہی چلا رہی تھی جیسے کتے چلاتے ہیں ،عنقریب تھا کہ معاویہ اور امویوں کی حکومت کا تختہ پلٹ جائے کہ اچانک عمروعاص نے دھوکہ اور فریب کے ساتھ اور امام کی فوج کے درمیان تفرقہ پیدا کرکے اس خونی اور سرنوشت ساز جنگ اور اس کو روک دیا بالآخر۱۷،صفر جمعہ کے دن واقعہ ''حَکمیّت''تک پہونچا اور جنگ وقتی طور پر روک دی گئی۔

جنگ صفین کے حادثات لکھنے والے مؤرخین نے دس دن تک حالات کو ترتیب سے لکھا ہے۔(۱) لیکن اس کے بعد کے حالات و حادثات کی ترتیب بدل گئی، تاریخ لکھنے والوں کو چاہیے کہ اپنے ذوق تاریخ شناسی کی روشنی میں واقعات کو ترتیب دیں ہم بھی ان چند دن میں ہوئے واقعات کو لیلة الہریرتک اپنے انداز سے تحریر کر رہے ہیں۔

______________________

(۱) مروج الذہب ج۲ص۳۹۰۔۳۸۷۔

۵۹۶

دسویں دن کا حادثہ

دسویں صفر کا سورج طلوع ہوا اور اپنی روشنی کو صفین کے میدان پر ڈالا جو خون کے تالاب کی طرح ہوگیاتھا ،شہادت کے عاشق اور امام علیہ السلام کے چاہنے والے یعنی ربیعہ قبیلے والے امام کے اطراف میں جمع تھے اور امام کا محاصرہ کئے ہوئے تھے، ان کے سرداروں میں سے ایک سردار اٹھا اور کہا ''من یبایعٰ نفسہُ علی الموتِ و یشری نفسہُ للّٰہ؟ کون ہے جو مرنے کے لئے بیعت کرے اور اپنی جان کو خداکے لئے بیچ دے ؟ اس وقت سات ہزار لوگ کھڑے ہوئے اور اپنے سردار کے ہاتھ پر بیعت کی اور کہا ،ہم اتنا آگے بڑھیںکہ معاویہ کے خیمے میں داخل ہوجائیں اور پیچھے پلٹ کر بھی نہ دیکھیں۔

ان کی محبت و الفت کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ان میں سے ایک شخص نے اٹھ کر کہا''لیس لکم عُذرفیِ العربِ اِن اصیب عِلیّ فیکم، ومنکم رجُل حتّیٰ'' ۔یعنی عربوںکے سامنے تم لوگ ذلیل ورسوا ہو جاؤگے اگر تم میں سے ایک آدمی بھی زندہ رہا اور امام علیہ السلام کو کوئی آسیب پہونچا جب معاویہ نے ''ربیعہ'' کی بہادری اور موعظہ و نصیحت کو دیکھا تو برجستہ اس کے منھ سے تعریفی جملے نکل پڑے اور یہ شعر پڑھا۔

اِذَاقُلتَ قد وَلّتْ ربیعةُ أقبلَتْ

کتائبُ منهم کالجِبالِ تجالد

اگر کوئی کہے کہ قبیلۂ ربیعہ نے میدان میں اپنی پشت دکھائی، تو اچانک ان میں سے کچھ گروہ پہاڑ کی طرح جنگ کرنے کیلئے تیار

۵۹۷

ہو جائیں گے۔(۱)

میمنہ کی فوج میں ترمیم

ربیعہ کی بہادری کے مقابلے میں قبیلۂ مضر نے بہت زیادہ وفاداری نہیں کی اور امام علیہ السلام کی میمنہ کی فوج اپنے سردار عبد اللہ بن بدیل کے قتل ہونے کی وجہ سے اور قبیلۂ مضَر کے افراد کے میدان سے بھاگنے کی وجہ سے شکست سے دوچار تھی، اس طرح سے کہ اس فوج کے سپاہی قلب لشکر سے جا ملے کہ جس کی سرداری خود امام علیہ السلام کررہے تھے۔ امام علیہ السلام نے میمنہ کی فوج میں بہتری اور سدھارکے لئے سہل بن حنیف کو اس فوج کا سردار بنا یا، لیکن حبیب بن مسلمہ کی سرداری میں شام کی فوج کے ہجوم نے میمنہ کے نئے سردار کو اتنی مہلت نہ دی کہ فوج کو منظم و مرتب کرتا، امام علیہ السلام جب قبیلۂ مضَر کی بد نظمی سے

باخبر ہوئے تو فوراً مالک اشتر کو اپنے پاس بلایا اور انہیں حکم دیا کہ یہ گروہ جس نے اسلامی روش کو بھلادیا ہے اس سے کہو''این فرار کم من الموت الذی لن تعجزوه الیٰ الحیاة الّتی لا تبقیٰ لکم؟'' کیو ں ایسی موت سے بھاگ رہے ہو جس کے مقابلے کی قدرت نہیں رکھتے اور جو زندگی ختم ہونے والی ہے اس کی طرف بھاگ رہے ہو ؟

مالک اشتر، میمنہ میں شکست کھا تے ہوئے لوگوں کے درمیان کھڑے ہوکر امام علیہ السلام کا پیغام پہونچانے کے بعد جوش وولولے والی تقریر میں کہا:''فان الفِرار فیه سلب العزّ والغلبة علیٰ الفَیئِ

______________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۴۲،۲۴۱۔ وقعہ صفین ص۳۰۶

۵۹۸

وذِلَُّ الحیاة و المماتِ و عار الدنیا والاخرة وسخط اللّٰه وألیم عقابِهِ''

''میدان جہاد سے فرار کرنا اپنی عزت کو برباد کرنا اور بیت المال کوا پنے ہاتھوں سے گنوا دینااور حیات و زندگی میں ذلت، اور دنیا و آخرت میں ننگ و عار، خدا کا قہر و غضب اور اس کا درد ناک عذاب ہے''۔

پھر فرمایا: اپنے دانتوں کو ایک دوسرے پر مضبوطی سے دبا لو اور اپنے سر کے ساتھ دشمن کے استقبال کے لئے بڑھواتنا کہنے کے بعد آپ نے میمنہ کی فوج کو منظم کیا اور خود حملہ شروع کر دیااور میسرۂ میں معاویہ کی فوج جو امام علیہ السلام کی میمنہ فوج کے مقابل تھی ، اسے پیچھے بھگا دیا یہاں تک کہ معاویہ کے قلب لشکر میں پہونچ گئے۔(۱)

شکست کے بعد میمنہ کی فوج کا مرتب ہونا امام علیہ السلام کی خوشحالی کا سبب ہوا، اسی وجہ سے آپ نے ان لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا''فألان فاصبر واانزلت علیکم الَسّکینة وثبّتکم اللّٰه بالیقین ولیعلم المنهزم بأنّه مُسخِط لِرَبّهِ و مُوْبقنفسه، وَفی الْفِرارِ مُوجَدَة اللّٰهِ عَلَیْهِ والذّلّ اللازمُ أوِالعارُالباقی، (۲)

''اس وقت صبر و سکون سے رہو کیونکہ ثبات اور آرام تمھارے لئے خداکی طر ف سے آیا اور تمھیں یقین کے ساتھ قائم رکھا اور جو لوگ شکست کھاچکے ہیں (میدان جنگ میںثابت قدم نہ رہے )وہ جا ن لیں کہ انہوں نے خود کو خدا کے غیظ و غضب اور بلاؤں میں گرفتار کیا ہے اور میدان جنگ سے بھاگنے والے پر خدا کا قہر اور ذلت ہوگی''۔

_______________________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۱۹۸،۱۹۷۔ وقعہ صفین ص۲۵۰۔ تاریخ طبری ۳، جزء ۶،ص۱۲

(۲)۔ تاریخ طبری ۳، جزء ۶ص۱۴

۵۹۹

قاتل کا گریہ

مأرب ایک شہر ہے جو شمال میں شرق صنعا کے پاس ہے وہ اس عظیم نہر جو ۵۴۲سے ۵۷۰ کے درمیان منہدم ہوئے بہت مشہور ہے، یمن کے قبیلے والوں نے اسی نہر کی برکت سے کافی ترقی کی اوروہ بہت اچھی کھیتی کرتے تھے ، مشہور طوفان،''عرم'' کے اثر سے نہر منہدم ہوئی جس کے بعد لوگ وہاں سےجزیرہ کے اِدھر اُدھر چلے گئے اور اس میں سے اکثر لوگ شام ،اردن ،فلسطین چلے گئے ،لیکن اپناقبیلہ چھوڑنے کے باوجود لوگ اپنے کو اسی قبیلے سے منتسب کرتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قبیلہ ازد، مضَر، کنِدہ، قضاعہ اور ربیعہ کے لوگ عراق میں اور اسی قبیلے کے کچھ لوگ شام ،اردن اور فلسطین میں زندگی بسر کررہے ہیں۔

فوج کو منظم کرتے وقت امام علیہ السلام کی سیاست یہ تھی کہ جس قبیلے کے لوگ بھی عراق میں زندگی بسر کررہے تھے تو دوسرے افراد کے سامنے وہی قبیلے کے لوگ کھڑے ہوں ، جو عراق کے علاوہ دوسری جگہوں پر زندگی بسر کر رہے تھے کیونکہ ممکن ہے کہ یہ آمنے سامنے کا مقابلہ بہتر ثابت ہو اور شدید خونریزی نہ ہو۔(۱)

ایک دن ''خثعم'' کے عبد اللہ نامی شامی سردارنے خثعم عراق کے رئیس سے ملاقات کرنےکی خواہش ظاہر کی، اور تھوڑے وقفہ کے بعد اس سے ملاقات ہوئی، شامی نے عرض کیا کہ خثعم قبیلے کے دونوں گروہ جنگ نہ کریں ، اور آئندہ کے لئے فکر کریں، دونوں فوجوں میں سے جو بھی کامیاب ہوئی ہم اس کی پیروی کریں ،لیکن ان دونوں سرداروں کی باتوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ عراقیوں میں سے کسی نے بھی اس کی باتوں پر توجہ نہیں دی،اور کوئی بھی راضی نہیں ہوا کہ امام علیہ السلام سے اپنی بیعت اٹھا لے،لہٰذا دونوں گروہوںمیں آمنے سامنے سے ایک ایک کر کے جنگ شروع ہوگئی ، وہب بن مسعود خثعمی عراقی، نے اپنے برابر کے شخص کو شامیوں میں سے قتل کر ڈالا اور اسی کے مقابلے میں خثعم شام کے ایک شخص نے عراق کے خثعمی پر حملہ کر دیا اور ابوکعب کو قتل کر دیا لیکن قتل کرنے کے فوراً بعد مقتول پر رونا شروع کردیا اور کہا میں نے معاویہ کی پیروی کرنے کی وجہ سے تجھے قتل کیا ہے جب کہ تو میرا قریبی عزیز تھا اور لوگوں سے زیادہ میں تم کو چاہتا تھا خدا کی قسم میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا کروں، سوائے یہ کہ شیطان نے ہم لوگوں کو گمراہ کردیااور قریش نے ہمیں اپنا آلٰہ قرار دیدیا ہے اور ایک ہی قبیلے کے دوگروہوں کی آپسی جنگ میں ۸۰ لوگ دونوں طرف کے مارے گئے اور جنگ تمام ہوگئی۔(۲)

______________________

( ۱)معجم البلدان ج۵ص۳۵،۳۴------(۲) وقعہ صفین ص۲۵۸،۲۵۷۔ شرح نہج البلاغہ ابن الحدیدج۵ص۲۰۵،۲۰۴۔

۶۰۰