فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)7%

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)
صفحے: 809

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 809 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 368366 / ڈاؤنلوڈ: 6243
سائز سائز سائز
فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب: فروغِ ولایت

(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)

تالیف: آیة اللہ جعفر سبحانی

ترجمہ: سید حسین اختر رضوی اعظمی

تطبیق اورتصحیح : مسعود اختر رضوی اعظمی

نظر ثانی: سیدشجاعت حسین رضوی

پیشکش: معاونت فرہنگی ،مجمع جہانی اہل بیت،ادارۂ ترجمہ

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

طبع اول : ۱۴۲۹ھ ۲۰۰۸ ء

تعداد : ۳۰۰۰

مطبع : لیلا

۳

قال رسول اﷲ :

''انی تارک فیکم الثقلین، کتاب اﷲ، وعترتی اهل بیتی ما ان تمسکتم بهما لن تضلّوا ابدا وانهما لن یفترقا حتّیٰ یردا علیّ الحوض'' ۔

حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں:(ایک) کتاب خدا اور (دوسری) میری عترت اہل بیت (علیہم السلام)، اگر تم انھیں اختیار کئے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے، یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں''۔

اس حدیث شریف کومتواتر اور اس سے مشابہ دوسری حدیثوں کو مختلف تعبیروں کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت کے مختلف کتابوں میں ذکرکی گئی ہیں۔

(صحیح مسلم: ۱۲۲۷، سنن دارمی: ۴۳۲۲، مسند احمد: ج۳، ۱۴، ۱۷، ۲۶. ۳۶۶۴ و ۳۷۱. ۱۸۲۵اور ۱۸۹، مستدرک حاکم: ۱۰۹۳، ۱۴۸، ۵۳۳. و غیرہ.)

۴

پروردگار عالم کا ارشاد ہے:

( اِنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیْراً )

(سورۂ احزاب : آیت ۳۳)

شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میںرسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہت سی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ آیۂ مبارکہ پنجتن پاک کی شان میں نازل ہوئی ہے اور '' اہل بیت'' سے مرادیہی اصحاب کساء ہیں اور وہ : محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، علی ، فاطمہ، حسن و حسین علیہم السلام ہیں۔نمونہ کے طور پر ان کتابوں کی طرف رجوع کریں: مسند احمد بن حنبل(وفات ۲۴۱ھ): ج۱، ص۳۳۱،ج۴،ص۱۰۷، ج۶،ص۲۹۲ و ۴؛ صحیح مسلم (وفات۲۶۱ ھ) ج۷،ص۱۳۰؛ سنن ترمذی (وفات ۲۷۹ھ ):ج۵،ص۳۶۱ و...؛ الذریة الطاہرة النبویة دولابی (وفات: ۳۱۰ ھ ص۱۰۸؛ السنن الکبریٰ نسائی(وفات ۳۰۳ ھ ): ج۵ ،ص۱۰۸ و ۱۱۳؛ المستدرک علی الصحیحین حاکم نیشاپوری(وفات: ۴۰۵ ھ): ج۲، ص ۴۱۶، ج۳،ص۱۳۳و ۱۴۷ و ۱۱۳؛ البرہان زرکشی(وفات ۷۹۴ ھ ) ص۱۹۷؛ فتح الباری شرح صحیح البخاری ابن حجر عسقلانی(وفات ۸۵۲ ھ):ج۷،ص۱۰۴؛ اصول الکافی کلینی(وفات ۳۲۸ ھ ): ج۱،ص ۲۸۷ ؛ الامامة و التبصرة ابن بابویہ (وفات ۳۲۹ ھ): ص۴۷، ح۲۹؛ دعائم الاسلام مغربی(وفات ۳۶۳ ھ):ص۳۵ و ۳۷؛ الخصال شیخ صدوق(وفات ۳۸۱ ھ):ص۴۰۳ و ۵۵۰؛ الامالی شیخ طوسی(وفات ۴۶۰ ھ):ح ۴۳۸،۴۸۲ و ۷۸۳ نیز مندرجہ ذیل کتابوں میں اس آیت کی تفسیر کی طر ف مراجعہ کریں: جامع البیان طبری(وفات۳۱۰ھ) ؛ احکام القرآن جصاص(وفات ۳۷۰ ھ )؛ اسباب النزول واحدی(وفات ۴۶۸ ھ)؛ زاد المسیرابن جوزی(وفات۵۹۷ ھ)؛ الجامع لاحکام القرآن قرطبی(وفات ۶۷۱ ھ)؛ تفسیر ابن کثیر (وفات ۷۷۴ ھ)؛ تفسیر ثعالبی (وفات۸۲۵ ھ)؛ الدر المنثور سیوطی(وفات ۹۱۱ ھ)؛ فتح القدیر شوکانی(وفات ۱۲۵۰ ھ)؛ تفسیر عیاشی(وفات ۳۲۰ ھ)؛ تفسیر قمی(وفات:۳۲۹ ھ)؛ تفسیر فرات کوفی (وفات ۳۵۲ ھ) آیۂ اولوا الامر کے ذیل میں؛ مجمع البیان طبرسی(وفات ۵۶۰ ھ)ان کے علاوہ اور بھی بہت سی دوسری کتابیں ہیں۔

۵

بسم الله الرحمٰن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے منھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کر لیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پر نور ہو جاتے ہیں ، چنانچہ متمدن دنیا سے عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا ،دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و مؤسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمئہ حق و حقیقت سے سیراب کر دیا ،آپ کے تمام الہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا ،اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑ گئیں ،وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ ،ولولہ اورشعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھو دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کر لیا۔

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت (ع) اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے ،وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہو کر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کر دئی گئی تھی ،پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیرمکتب اہل بیت (ع) نے اپنا چشمئہ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنہوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہرقسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے ،خاص طور پر عصر حاضر میں

۶

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام وقرآن اور مکتب اہل بیت ٪ کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں ،دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بے تاب ہیں ،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا ،وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت (ع) کونسل)مجمع جہانی اہل بیت (ع) نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت (ع) و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہو سکے ،ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت٪ عصمت وطہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدوخال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن ،انانیت کے شکار ،سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن ونجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے لئے استقبال کے لئے تیار کیا جا سکتا ہے ۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کومؤلفین ومترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں ،زیر نظر کتاب ،مکتب اہل بیت (ع) کی ترویج و اشاعت کے سلسلے کی ایک کڑی ہے ، آیةاللہ جعفر سبحانی دام ظلہ کی گرانقدر کتاب فروغ ولایت کو فاضل جلیل مولانا سید حسین اختر رضوی اعظمی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنہوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے ،خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت ،مجمع جہانی اہل بیت (ع)

۷

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

مقدمہ

انسانی معاشرہ، تحقیق وجستجو کرنے والوں کی نظر میں ایک ایسے دریا کے مانند ہے جو خاموش اور بغیرآواز کے ہے اور زمانہ گزرنے کی وجہ سے اس کے بعض حصّے خشک ہوگئے ہیں اور اب جبکہ بہت زیادہ عرصہ گزر گیاہے تو ممکن ہے نابود وختم ہوجائے جس چیز نے اس کوخاموش اور بغیر آواز کا دریا باقی رکھا ہے وہ صرف ہوا کے تند اور تیز جھونکے اور تند وضعیف طوفان ہیں طوفان اورہوا کے جھونکے اٹھتے ہیں اور موج بنا کر کشتیوں کی قسمت وتقدیریں معین کرتے ہیں اور اس میں سے بعض موجیں ایسی بھی ہیں جو کشتی کو غرقاب کرکے لوگوں کو موت کی وادی تک پہونچا دیتی ہیں اور بعض موجیں ایسی ہیں جو نجات اور زندگی عطا کرتی ہیں ۔

جی ہاں، عظیم تاریخی شخصیتیں انسانی معاشرے کے لئے وہی بہترین موجیں ہیں جو کبھی کبھی لوگوں کو ہلاکت وبدبختی میں گرفتار کردیتی ہیں اور کبھی کبھی زندگی وسعادت کے لئے ہمیشہ راہنمائی کرتی ہیں ، حقیقتاً خدا وندعالم کی طرف سے معین کئے ہوئے الٰہی نمائندے اور پیغمبر اور پاک وپاکیزہ راہنما وہی بہترین موجیں ہیں جو اپنی بے مثال موج ہدایت کے ذریعے معاشرہ کی کشتی کو اپنی عاقلانہ اورمنطقی تربیت اور لوگوں کو آخرت کی طرف رغبت دلانے یا نجات تک پہونچانے اور ہمیشہ عمدہ زندگی کی طرف راہنمائی کرنے کے لئے انسانی اور الٰہی قوانین کی طرف راغب کرتی ہیں ۔

یہ صاحبان عظمت وشرافت برائیوں اور پلیدگیوں سے خدا کی دی ہوئی طاقت و ہدایت کے ذریعہ ہمیشہ جنگ کرتے رہے اور انسانی معاشرے کو عزت وکرامت جیسی نعمتوں سے نوازتے رہے تاریخ شاہد ہے کہ جہاں پر بھی وحی کا نور چمکا ہے وہاں کے افراد کی فکریں اور عقلیں کھل گئیں ہیں اور انسانیت اور معاشرے میں ترقی کا سبب بنا ہے ۔

۸

پیغمبر اسلام (ص) ایک نور تھے جو انسانوں کے تاریک قلب ودماغ میں چمکے اور اس زمانے کے بدبخت وخبیث معاشرے کو انسانی فرشتوں سے روشناس کرایا اور تہذیب وتمدن کا ایسا تحفہ پیش کیا جو آج تک تمام انسانی قوانین میں سب سے عمدہ اور قیمتی ہے اور ہر شخص اس بات کی تصدیق کرتاہے، اوراگر صرف اور صرف تمام مسلمان اس راستے پرچلتے جو پیغمبر نے اسلامی معاشرے کے لئے معین کیا تھا اور اختلاف وتفرقہ ، تعصب اور خود غرضی سے پرہیز کرتے تو یقین کامل ہے کہ چودہ سو سال گذرجانے کے بعد آج بھی اس تہذیب وتمدن کے مبارک درخت سے بہترین بہترین میوے تناول کرتے ، اور ایسی ظلم و ستم سے دنیا میں اپنی عظمت وبزرگی کے محافظ ہوتے لیکن افسوس اور ہزار افسوس کہ پیغمبر ختمی مرتبتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دردناک رحلت کے بعد جنگ وجدال، خود غرضی اور مقام طلبی نے بعض مسلمانوں پر قبضہ جمالیا تھا جس کی وجہ سے اسلامی اور الٰہی راستے میں زبردست اور خطرناک انحراف پیدا ہوگیا اور اسلام کے سیدھے راستے کو بہت زیادہ نقصان پہونچایا۔

حقیقتاً ، معاشرہ اُن دنوںکس چیز سے راضی نہ تھا ؟ اور کس وجہ سے لوگ ناشکری اور سرکشی اختیار کئے ہوئے تھے؟

جی ہاں ، ان لوگوں کی ناشکری اور ناراضگی ایسے امام کی مخالفت کی وجہ سے تھی کہ جنہیں پیغمبر اسلام (ص) نے مختلف طریقوں اور زاویوں اور مناسبتوں سے پہچنوایا تھا اور نتیجہ یہ ہوا کہ درد ناک اور غم انگیز مخالفتیں اور ناشکری جو تمام مومنوں، پرہیز گاروں ، عالموں ، دانشمندوں ، سیاستدانوں اور فکر وآگہی رکھنے والوں خلاصہ یہ کہ پیغمبر اسلام (ص) کے بعد سب سے بزرگ الٰہی نمائندے نے ۲۵ سال تک گوشہ نشینی اختیار کرلیا اور تنہا آپ ہی نے ان دنوں اسلامی معاشرے کو منتشر ہونے سے بچایا اور یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانے کو لوگوں نے نہ یہ کہ صرف علی ـ کو نہیں پہچانا بلکہ اس امام برحق وعظیم الشان کے فضائل وکمالات کو ذرہ برابر بھی درک نہیں کیا۔

۹

لیکن اس ۲۵ سال کی گوشہ نشینی کے بعد جسے حضرت نے یوں تعبیر کیا ہے کہ جیسے میری آنکھ میں کانٹا اور گلے میں ہڈی ہو ، جس وقت اسلامی معاشرہ پیغمبر اسلام (ص) کے بتائے ہوئے سیدھے راستے سے بالکل منحرف ہوگیا اور مسلمانوں نے چاہا کہ پھر سے اسی راستے کو اپنائیں تو حقیقی رہنما اور عظیم وبزرگ الٰہی شخصیت اور اپنے بڑے مربی کو تلاش کرنے لگے ، تاکہ وہ معاشرے کو صحیح راستے پر لائیں اور جس طرح سے پیغمبر (ص)چاہتے تھے اسی طرح عدل وانصاف سے آراستہ حکومت قائم کریں، اور ان لوگوں نے اس مقدس مقصد کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت کی اور آپ نے بھی خداوند عالم کے حکم کے مطابق '' جب عدل وانصاف کی حکومت قائم کرنے کے لئے زمینہ فراہم ہوجائے تو فوراً حکومت قائم کرو'' ان کی بیعت کو قبول کرلیا، لیکن معاشرے میں اس قدر اختلاف وانحراف پھیل چکا تھا کہ جس کے خاتمہ کے لئے سرکشوں اور مخالفوں سے جنگ وجدال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

یہی وجہ ہے کہ اس عظیم وکریم ، سخی اور بہادر اور کامل الایمان شخص کی خلافت کے زمانے میں صرف داخلی جنگیں ہوئیں، ناکثین (معاہدہ توڑنے والے) کے ساتھ جنگ شروع ہوگئی اور مارقین ( دین سے خارج ہونے والے) کو جڑ سے ختم کرنے کے بعد جنگ کا خاتمہ ہوا ،اور بالآخر کچھ اندرونی دشمنوں ( خوارج نہروان) کے بچ جانے کی وجہ سے تاریخ میں ہمیشہ باقی رہنے والے ظالم و بدبخت شخص کے ہاتھوں خدا کے گھر میں جام شہادت نوش فرمایا ، جس طرح سے خدا کے گھر میں آنکھیں کھولی تھیں ۔

اور اپنی بابرکت وباعظمت زندگی کو دو مقدس عبادت گاہوں ( کعبہ اور محراب کوفہ) کے درمیان بسر کیا۔

۱۰

اس کتاب کے بارے میں :

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی پوری زندگی کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔

۱۔ ولادت سے بعثت تک،

۲۔ بعثت سے ہجرت تک،

۳۔ ہجرت سے پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت تک،

۴۔ رحلت پیغمبر (ص)سے خلافت تک،

۵۔ خلافت سے شہادت تک،

کتاب کی تقسیم بندی اسی طریقہ پر ہوگی ان پانچ حصوں میں امام علیہ السلام کی عام زندگی ، مستند اور آسان طریقے سے بیان ہوئی ہے ہماری یہ کوشش ہے کہ اس کتاب میں مبالغہ گوئی اور بے جا ظن وگمان سے دور رہیں اور شروع سے ہی یہی کوشش تھی کہ اصل منابع کی طرف رجوع کریں نہ اتنا طولانی فاصلہ ہو کہ آدمی تھک جائے اور نہ اتنا زیادہ ہی مختصر ہو کہ مقصد ختم ہوجائے بلکہ اس کے منابع ومآخذ کو اس مقدار تک بیان کردیںکہ پڑھنے والوں کی زبان پر شکوہ نہ آئے اور ان کے لئے یہ کافی ہو۔

جب مؤلف ''فروغ ابدیت '' ( پیغمبر اسلام (ص) کی مکمل سوانح حیات)کی طباعت ونشر سے فارغ ہوا تو اس وقت ارادہ کیا کہ شیعوں کے پہلے رہبر وپیشوا حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی قابل افتخار زندگی کو اسی کتاب کے طرزپر تحریر کروں اور خداوند عالم کا شکرکہ اس نے اس کام کے لئے توفیق بھی دیدی اور حضرت کی زندگی کا چار حصہ کتاب کی شکل میں منظر عام پر آگیا، لیکن انقلاب اسلامی کی سیاسی فضا میں چند مذہبوں کے ایجاد نے مؤلف کی فکر کو اس آفت کے دفاع کی طرف متوجہ کردیا خصوصاً مارکسیزم سے دفاع کی طرف ،اور ان ہی چیزوں نے مؤلف کو متقیوں اور پرہیز گاروں کے رہبر علی بن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں کچھ لکھنے سے روک دیا لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد دوبارہ خدانے توفیق دی کہ امام علیہ السلام کی زندگی کے پانچویں اور چھٹے حصے کو تحریر کروں جو آپ کی زندگی کا سب سے زیادہ حساس اور پر آشوب دور تھا اور اس طرح سے مؤلف نے امام علیہ السلام کی پوری زندگی کو تحلیلی اور مستند اور بہترین اور اس زمانے کے طریقوں کے اعتبار سے مکمل کرکے حضرت کی خدمت میں پیش کیا۔

۱۱

دوباتیں :

یہاں پر دو باتوں کا تذکرہ ضروری ہے،

یہ کتاب، جیسا کہ بیان ہوا ہے امام علیہ السلام کی عام اور ذاتی زندگی کا مجموعہ ہے اور آپ کی زندگی کے دوسرے حصّے مثلاً علم وفضل، تقویٰ وپرہیز گاری، فضائل ومناقب ، خطبے اور تقریریں ، خطوط ونصیحتیں اور کلمات قصار (موعظہ) ، احتجاجات اور مناظرے ، آپ کے اصحاب اور ساتھی اور ان کے حالات ، معجزے اور کرامتیں ، فیصلے اور تعجب خیز قضاوتیں وغیرہ جیسی بحثوں کو اس کتاب میں ذکر نہیں کیا ہے کیونکہ یہ تمام عنوانات خود ایک الگ موضوع ہیں جس پر الگ الگ کتابیں درکار ہیں ۔

مؤلف کتاب '' فروغ ولایت '' اپنی تمام تر عاجزی کے ساتھ معترف ہے کہ وہ امام علیہ السلام کی نورانی زندگی کا ایک ادنیٰ سا پہلو بھی پیش کرنے سے قاصر رہا ہے لیکن اس بات پر مفتخر ہے کہ وہ حضرت یوسف کے خریداروں کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے اگرچہ اس مختصر سے بہانے ، کہ اس زمانے کے یوسف کی نظر رحمت کا بھی حقدار نہ ہوسکے ، لیکن کیا کرے :

ماکل مایتمنیٰ المرء یدرکه

تجری الریاح بما لا تشتهی السّفن

جعفر سبحانی

قم، مؤسئسہ امام صادق ـ

۱۵ رجب ۱۴۱۰ ھ

۲۲ بہمن ۱۳۶۸ ش

۱۲

پہلا باب

بعثت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پہلے حضرت علی ـ کی زندگی

عظیم افراد اوران کے دوست اور دشمن

کائنات کی اہم اور بزرگ شخصیتوں کے سلسلے میں کئی طرح کے پہلو نظر آتے ہیں کبھی بالکل مختلف اور کبھی بالکل برعکس، کبھی ان کے دوست ایسے ہوتے ہیں کہ دوستی کے آگے وہ کچھ نہیں دیکھتے اور پروانہ کے مانند اپنی ساری زندگی ان پر نثار و قربان کردیتے ہیں اور اس دوستی کی وجہ سے بدترین مصیبت اور مشکلات، سختی اور شکنجے کو بھی برداشت کرتے ہیں اور اسی کے برعکس ان کے دشمن بھی ایسے ہوتے ہیں جو شیطان صفت، کینہ و بغض اور حسد میں ہمیشہ جلتے رہتے ہیں اور کبھی بھی عداوت و دشمنی سے باز نہیں آتے کہ صلح و آشتی کی راہ ہموار ہوسکے، ان افراد کی دوستی اوردشمنی کبھی کبھی اس قدر حد سے تجاوز کرجاتی ہے جس کی انتہا نہیں ہوتی اور وقت اور مقام کا بھی خیال نہیں رکھتی اور پھر بہت دنوں تک اور مختلف جگہوں پر یہ سلسلہ قائم رہتا ہے اور یہ عداوت و دشمنی انسان کے باعظمت اور محترم و باکمال ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔

کائنات کی عظیم اور بزرگ شخصیتوں کے درمیان مولائے کائنات حضرت علی ـ کے علاوہ کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں نظرئیے قائم ہوئے ہوں۔

آپ سے محبت اور دشمنی کرنے میں بھی آپ جیسا کوئی نہیں ہے ، آپ کے چاہنے والوں کی بھی تعداد بہت ہے اور آپ کے دشمنوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، عظیم شخصیتوں اور انسانوں کے درمیان فقط جناب حضرت عیسیٰ مسیح ـکی طرح ہیں جو مولائے کائنات حضرت علی ـ کی طرح ہیں. کیونکہ حضرت عیسیٰـ سے دوستی اور دشمنی کرنے والے دو متضاد دھڑے نظر آتے ہیں ، اس طرح دونوں آسمانوی پیشواؤوں میں مشابہت پائی جاتی ہے ۔

حضرت عیسیٰـ دنیا کے تمام عیسائیوں کے گمان وخیال میں وہی خدا ئے مجسم ہیں جس نے اپنے بندوں اور چاہنے والوں کو اپنے باپ حضرت آدم سے ورثہ میں ملے ہوئے گناہوں سے نجات دلانے کے لئے زمین پر آئے اور آخرکار سولی پر چڑھا دیئے گئے وہ عامعیسائیوں کی نگاہ میں الوہیت کے علاوہ کوئی اور شخصیت کے مالک نہ تھے۔

۱۳

ان کے مقابلے میں یہودی ان کے بالکل برخلاف ہیں انھوں نے حضرت پر الزام و اتہام لگایاہے اور جھوٹ کی نسبت دی ہے اور ایسی ناروا تہمتیں لگائیں کہ جس کا تذکرہ باعث شرم ہے اور آپ کی مقدس و پاکیزہ ماں کی طرف غلط نسبتیں دی ہیں۔

بالکل ایسے ہی اور بھی کچھ افراد ہیں جو مولائے کائنات حضرت علی ـ کے بارے میں متضاد فکر رکھتے ہیں ایک گروہ کم ظرف اور تنگ نظرہے اور دوسرا کچھ زیادہ ہی الفت و محبت کی وجہ سے خدا کے مطیع و فرماںبردار کو مقام الوہیت تک پہونچا دیا ہے اور جو کرامتیں اور معجزات حضرت کی پوری زندگی میں ظاہر ہوئے اس کی وجہ سے وہ خدا مان بیٹھے ہیں افسوس کہ اس گروہ نے اپنے کو اس مقدس نام ''علوی'' سے منسوب کر رکھا ہے اور آج بھی اس نظریہ پر چلنے والے اور ان کی پیروی کرنے والے افراد کثرت سے موجود ہیں. لیکن افسوس کا مقام ہے کہ شیعیت کی تبلیغ کرنے والوں نے آج تک اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا تاکہ حضرت علی ـ کے حقیقی چہرے کو ان کے سامنے ظاہر کریں اور ان لوگوں کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کریں جس راستے پر خود حضرت علی ـ افتخار کر رہے ہیں اس گروہ کے مقابلے میں، ایک اور گروہ جس نے خلافت ظاہری کے ابتدائی دنوں سے ہی امام ـ سے بغض و عداوت اپنے دل میں بٹھا رکھی اور پھر کچھ مدت کے بعد خوارج اور نواصب نامی گروہ کے شکل میں ابھر کر سامنے آگئے، پیغمبر اسلام(ص) حضرت علی ـ

۱۴

کے زمانہ حکومت میں ان دونوں گروہوں کے ظہور کے سلسلے میں بخوبی آگاہ تھے اسی وجہ سے آپ نے حضرت علی ـ سے ایک موقع پر فرمایا تھا:

''هَلَکَ فِیْکَ اِثْنٰانِ مُحِبّ غَالٍ وَ مُبْغِض قَالٍ'' (۱)

تمہارے ماننے والوں میں سے دوگروہ ہلاک ہوں گے ایک وہ گروہ جو تمہارے بارے میں غلو کرے گا اور دوسرا وہ گروہ جو تم سے دشمنی و عداوت رکھے گا۔

حضرت علی ـ اور حضرت عیسیٰ ـ کے درمیان ایک اور بھی مشابہت پائی جاتی ہے اوریہ وہ مقام ہے جہاں پران دو شخصیتوں کی ولادت ہوئی ہے۔

حضرت عیسیٰ ـ کی ولادت مقدس ،سرزمین بیت اللحم (بیت المقدس کے علاوہ ہے) پر ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کے تمام پیغمبروں سے آپ ایک جہت سے برتر وافضل ہیں، اور مولائے کائنات حضرت علی ـ کی ولادت مکہء مکرمہ کی مقدس سرزمین خانہ کعبہ کے اندر معجزاتی طور پر ہوئی، اور آپ نے خدا کے گھر (مسجد کوفہ) میں جام شہادت نوش کیا اور حسن مطلع کے مقابلے میں حسن ختام سے بہرہ مند ہوئے جو حقیقت میں بے مثال ہے اور کتنی عمدہ بات ہے کہ آپ کے متعلق کہا جائے ''نازم بہ حسن مطلع و حسن ختام او'' (یعنی ہم اس حسن مطلع اور حسن ختام پر افتخار کرتے ہیں اور نازاں ہیں)

______________________________

(۱) نہج البلاغہ، کلمات قصار نمبر ۱۷۷، فیک کے بجائے فیّ ہے۔

۱۵

حضرت علی ـ کی شخصیت کے تین پہلو:

ماہرین نفسیات کی نظر میں ہر انسان کی شخصیت کے نکھار میں تین اہم عوامل ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک شخصیت سازی میں مؤثر ہوتا ہے گویا انسان کی روح اور صفات اور فکر کرنے کا طریقہ مثلث کی طرح ہے اور یہ تینوں پہلو ایک دوسرے سے ملنے کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں اور وہ تینوں عامل یہ ہیں۔

۱۔ وراثت ۔

۲۔ تعلیم و تربیت۔

۳۔ محیط زندگی۔

انسان کے اچھے اور برے صفات اور اس کی عظیم و پست خصلتیں ان تینوں عامل کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں اور رشد و نمو کرتی ہیں۔

وراثت کے عوامل کے سلسلے میں مختصروضاحت: ہماری اولادیں ہم سے صرف ظاہری صفات مثلاً شکل و صورت ہی بطور میراث نہیں لیتیں بلکہ ماں باپ کے باطنی صفات اور روحانی کیفیت بھی بطور میراث اولاد میں منتقل ہوتی ہیں۔

تعلیم و تربیت اور اور محیط زندگی، جو انسانی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہیں، بہترین تربیت جسے خداوند عالم نے انسان کے ہاتھوں میں دیا ہے یا مثالی تربیت جسے بچہ ماں باپ سے بطور میراث حاصل کرتا ہے اس کی بہت عظمت و منزلت ہے، ایک استاد بچے کی تقدیر یا اس کے درسی رجحان کو بدل سکتا ہے اور اسی طرح گناہوں سے آلودہ انسانوں کو پاک و پاکیزہ ،اور پاک و پاکیزہ افراد کو گناہوں کے دلدل میں ڈال سکتا ہے یہ دونوں صورتیں انسان کی شخصیت کو اتنا واضح و روشن کرتی ہیں کہ جس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ۔البتہ یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ ان تینوں امور پر انسان کاارادہ غالب ہے ۔

۱۶

حضرت علی ـ کی خاندانی شخصیت :

حضرت علی ـ کی ولادت جناب ابوطالب کے صلب سے ہوئی... حضرت ابوطالب ـ بطحاء (مکہ) کے بزرگ اور بنی ہاشم کے رئیس تھے. آپ کا پورا وجود مہربانی و عطوفت، جانبازی اور فداکاری اور جود و سخا میں آئین توحیدکا آئینہ دار تھا .جس دن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دادا حضرت عبد المطلب کا انتقال ہوا اس وقت آپ صرف آٹھ سال کے تھے اور اس دن سے ۴۲ سال تک آپ نے پیغمبر اسلام(ص) کی حفاظت، سفر ہو یا حضر، کی ذمہ داری اپنے ذمے لے لی تھی اور بے مثال عشق و محبت سے پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے مقدس ہدف، جو کہ وحدانیت پروردگار تھا ،میں جم کر فداکاری کی اور یہ حقیقت آپ کے بہت سے اشعار ''دیوان ابوطالب'' سے واضح ہوتی ہیں مثلاً:

''لِیَعْلَمُ خِیَارُ النَّاسِ اَنّ محمداً نَبِی کَمُوْسیٰ وَ الْمَسِیْحِ بنِ مَرْیَمِ'' (۱)

پاک و پاکیزہ اور نیک طینت والے یہ جان لیں کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، موسیٰ اور عیسیٰ ٪ کی طرح پیغمبر ہیںاور دوسری جگہ فرماتے ہیں:

''اَلَمْ تَعْلَمُوْا أَنَّا وَجَدْنَا مُحمداً رَسُولْاً کَمُوْسیٰ خُطَّ فِی اَوَّلِ الْکُتُبِ'' (۲)

کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم موسیٰ ـکی طرح آسمانی رہبر اور رسول ہیں، اور ان کی پیغمبری کا تذکرہ آسمانی کتابوں میں درج ہے۔ایک ایسی قربانی ، کہ جس میں تمام بنی ہاشم ایک سوکھی اور تپتی ہوئی غار میں قید ہوگئے اور یہ چیز مقصدسے عشق ومحبت کے علاوہ ممکن نہیں ہے کہ اتنا گہرا معنویت سے تعلق ہو، رشتہ کی الفت ومحبت اور تمام مادی عوامل اس طرح کی ایثار وقربانی کے روح انسان کے اندر پیدا نہیں کرسکتیں۔حضرت ابو طالب کے ایمان کی دلیل اپنے بھتیجے کے آئین وقوانین پر اس قدر زیادہ ہے جس نےمحققین کی نظروں کواپنی طرف جذب کر لیا ہے مگر افسوس کہ ایک گروہ نے تعصب کی بنیاد پر ابوطالب پرشک کیااور دوسرے گروہ نے تو بہت ہی زیادہ جسارت کی ہے اور آپ کوغیرمومن تک کہہ ڈالاہے .حالا نکہ وہ دلیلیں جوحضرت ابو طالب کے لئے تاریخ وحدیث کی کتابوں میں موجود ہیں اگراس میں سے تھوڑا بہت کسی اور کے متعلق تحریر ہوتا تو اس کے ایمان واسلام کے متعلق ذرہ برابر بھی شک و تردیدنہ کرتے۔مگر انسان نہیں جانتا کہ اتنی دلیلوں کے باوجود بعض انسانوں کا دل روشن نہ ہوسکا (اور وہ گمراہی کے دلدل میں پھنسے ہیں )

________________________

(۱)،(۲) مجمع البیان، ج۴، ص۳۷۔

۱۷

حضرت علی ـ کی ماں کی شخصیت :

آپ کی مادر گرامی فاطمہ بنت اسد،جناب ہاشم کی بیٹی ہیں .آپ وہ پہلی خاتون ہیں جو پیغمبر پر ایمان سے پہلے آئین ابراہیمی پر عمل پیرا ہوئیں وہ وہی پاکیزہ ومقدس خاتون ہیںجو دردزہ کی شدت کے وقت مسجداالحرام کی طرف آئیں اور دیوار کعبہ کے قریب جاکر کہا :

پروردگارا: ہم تجھ پر اورپیغمبروں پر اور آسما نی کتابوں پرجو تیری طرف سے نازل ہوئی ہیں اور اپنے جد ا براہیم کے آئین پر جنھوں نے اس گھر کو بنا یا ہے ایمان کامل رکھتی ہوں.

پرور دگارا: جس نے اس گھر کو تعمیر کیا اس کی عظمت اور اس مولود کے حق کا واسطہ جومیرے رحم میں ہے اس بچہ کی ولادت کو مجھ پر آسان کردے۔

ابھی کچھ دیر بھی نہ گزری تھی کہ فاطمہ بنت اسد معجزاتی طریقہ سے خدا کے گھر میں داخل ہوگئیں اور مولائے کائنات کی ولادت ہوئی۔(۱)

اس عظیم فضیلت کو مذہب شیعہ کے معتبرمحدثین اور مورخین اور علم انساب کے معتبر دانشوروںنے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے .اہلسنت کے اکثر دانشوروں نے اس حقیقت کو صراحت سے بیان کیاہے اور اس کو ایک بے مثال فضیلت کے نام سے تعبیر کیا ہے۔(۲)

حاکم نیشاپوری کہتے ہیں :

خا نہ کعبہ میں علی ـکی ولادت کی خبر حدیث تواترکے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے ۔(۳)

______________________

(۱) کشف الغمہ ، ج۱ ص ۹۰

(۲)جیسے مروج الذہب، ج۲ ص۳۴۹،بشرح الشفاء ، ج۱ ص ۱۵۱

(۳) مستدرک حاکم ، ج۳ ص ۴۸۳

۱۸

مشہور مفسرآلوسی بغدادی لکھتے ہیں :

کعبہ میں علی ـکی ولادت کی خبر دنیا کے تمام مذہبوں کے درمیان مشہور ومعروف ہے اور آج تک کسی کو بھی یہ فضیلت حاصل نہیں ہوئی ہے۔(۱)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش میں:

اگر امام علیہ السلام کی عمر کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے تو آپ کی زندگی کا ابتدائی دور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت سے پہلے کا دور ہوگا .اس وقت امام علیہ السلام کی عمر دس سال سے زیادہ نہیں تھی. کیونکہ جب علی علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو پیغمبر اسلام کی عمر۳۰ سال سے زیادہ نہ تھی .اور پیغمبر اسلام چالیس سال کی عمر میں رسالت کے لئے مبعوث ہوئے۔(۲)

امام علیہ السلام کی زندگی کے حساس ترین واقعات اسی دور میںرونما ہو ئے یعنی حضرت علی ـ کی شخصیت پیغمبر کے توسط سے ابھری، عمر کایہ حصہ ہر انسان کے لئے اس کی زندگی کا سب سے حساس اور کامیاب واہم حصہ ہوتاہے ایک بچے کی شخصیت اس عمر میں ایک سفید کاغذ کے مانند ہوتی ہے اور وہ ہر شکل کو قبول کرنے اور اس پر نقش ہونے کے لئے آمادہ ہوتاہے. اس کی عمر کا یہ حصہ پرورش کرنے والوںاور تربیت کرنے والوں کے لئے سنہرا موقع ہوتا ہے تا کہ بچے کی روح کو فضائل اخلاقی سے مزین کریں کہ جس کی ذمہ داری خدا نے ان کے ہاتھوں میں دی ہے تاکہ ان کی بہترین تربیت کریں اور اسے انسانی اور اخلاقی اصولوں سے روشناس کرائیں اور بہترین اور کامیاب زندگی گذارنے کا طورطریقہ اسے سکھائیں۔پیغمبر عظیم الشان نے اسی عظیم مقصد کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی ولا دت کے بعد ان کی تربیت کی ذمہ داری خود لے رکھی تھی، جس وقت حضرت علی ـ کی والدہ نو مولود بچے کولے کر پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئیںتوپیغمبر اسلام نے والہانہ عشق ومحبت کے ساتھ اس بچے کودیکھا اور کہا اے چچی علی کیجھولے کو میرے بستر کے قریب رکھ دیجیئے ،اس جہت سے امام علی علیہ السلام کی زندگی کا آ غاز

___________________________

(۱) شرح قصیدہ عبدالباقی آفندی ص ۱۵

(۲) بعض لوگوں نے مثلاابن خشاب نے اپنی کتاب موالید الائمہ میں علی ـ کی کل عمر ۶۵ سال اور بعثت پیغمبر سے پہلے ۱۲

۱۹

سال لکھی ہے. تفصیل کے لئے کتاب کشف الغمہ تالیف مشہور مورخ علی بن عیسیٰ اربلی (متوفی ۶۹۳ھ) ص ۶۵ پر دیکھ سکتے ہیں۔

پیغمبر اکرم کے لطف خاص سے ہوا، پیغمبر صرف سوتے وقت حضرت علی ـ کے گہوارہ کو جھولا تے ہی نہیں تھے بلکہ آپ کے بدن کو دھوتے بھی تھے اور انھیں دودھ بھی پلاتے تھے ، اور جب علی علیہ السلام بیدار ہوتے تو خلوص والفت کے ساتھ ان سے بات کرتے تھے اور کبھی کبھی انھیں سینے سے لگا کر کہتے تھے ''یہ میرا بھائی ہے اور مستقبل میں میرا ولی وناصر اور میرا وصی اور میراداماد ہوگا''

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علی کو اتنا عزیز رکھتے تھے کہ کبھی بھی ان سے جدا نہیں ہوتے تھے اور جب بھی مکہ سے باہر عبا دت خدا کے لئے جاتے تھے توحضرت علی علیہ السلام کو چھوٹے بھائی یا عزیز ترین فرزند کی طرح اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔(۱)

اس حفاظت و مراقبت کا مقصد یہ تھا کہ حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کا دوسرا پہلو جوکہ تربیت ہے آپ کے ذریعے ہو اور پیغمبر کے علاوہ کوئی شخص بھی ان کی تربیت میں شامل نہ ہو ۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام اپنے خطبے میں پیغمبر اسلام کی خدمات کو سراہتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

وَقَدْعَلِمْتُمْ مَوْضِعِیْ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ ۖ بِالْقَرَا بَةِ الْقَرِ یْبَةِ وَالْمَنْزِلَةِ الْخَصِیْصَةِ وَضعْنِیْ فِیْ حجْرِهِ وَاَنَا وَلَدیَضُمُّنِي اِلَی صَدْرِهِ وَ یَکْنُفُنِي فِیْ فِرَاشِهِ وَ یَمَسَّنِیْ جَسَدَه وَ یُشِمُّنِي عَرْفَهُ وَ کَانَ یَمضُغُ الشَّیَٔ ثُمَّ یُلقمُنِیْهِ .(۲)

_________________________

(۱) کشف الغمہ، ج۱، ص ۹۰۔

(۲) نہج البلاغہ عبدہ، ج۲ ص ۱۸۲، خطبۂ قاصعۂ ۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

اس کے بعد طبری لکھتا ہے:

''خالدکی اس فوج کشی کے دوران متعدد جنگیں لڑی گئیں اور بہت سے رزمیہ قصیدے لکھے گئے اس کے بعد خالد ''حیرہ'' کی طرف واپس ہو ااور قعقاع کے بھائی عاصم بن عمرو کو حکم دیا تاکہ فوج کے ساتھ چلے اور باقی فوجیوں کی کمانڈ شجرہ بن اعزکے ہاتھ میں دی اور یہ افواہ پھیلائی کہ باقی فوجیوں کے ہمراہ پیچھے پیچھے خود بھی آرہا ہے ۔اس طرح ماہ ذی قعدہ کے پانچ دن بچے تھے کہ وہ چھپکے سے فوج سے خارج ہوا اور حج انجام دینے کی غرض سے مکہ کی طرف روانہ ہو ا۔ جب وہ حج سے واپس آیا تو اس وقت ابھی باقی فوجی حیرہ نہیں پہنچے تھے ۔خالد کے اس اچانک سفر کی خبر خلیفہ ابوبکر کو پہنچی خلیفہ کو یہ خبر سخت ناگوار گزری ۔انھوں نے غضبناک ہو کر تنبیہ کے طور پر خالد کو عراق کے بجائے اسے شام کی ماموریت دے دی ''

حموی اس روایت پر اعتبار کرتے ہوئے ''فراض ''کے بارے میں لکھتاہے:

''جو کچھ سیف کی کتاب''فتوح''میں آیاہے،اس کے مطابق ،خالد بن ولید نے ''فراض''جو شام ، عراق اور جزیرہ کی مشترک سرحد پر فرات کی مشرق میں واقع ہے اور رومیوں ،عرب اور ایرانیوں نے وہاں پر اجتماع کیاتھا میں قبیلہ بنی غالب پر اچانک حملہ کیا اور گھمسان کی جنگ کی''۔سیف کہتاہے:اس جنگ میں ایک لاکھ انسان مارے گئے ۔اس کے بعد خالد ١٢ ھ میں جب ماہ ذی الحجہ کے دس دن باقی بچے تھے سفر حج سے واپس بحیرہ پہنچا ۔قعقاع نے اس واقعہ کے بارے میں یہ شعر کہے ہیں :

''میں نے سرزمین ''فراض ''میں ایرانیوں اور رومیوں کے اجتماع کو دیکھا کہ ایام کے طولانی ہونے کی وجہ سے اس کی سلامتی خطرے میں پڑگئی تھی ۔جب ہم وہاں پہنچے تو ان کی جمعیت کو تتر بتر کرکے رکھ دیا اور اس کے بعد قبیلۂ بنی رزام پر شب خون مارا۔ابھی اسلام کے سپاہی جابجا نہیں ہوئے تھے کہ دشمن سر کٹی بھیڑوں کی طرح بکھرے پڑے تھے۔''

سند کی پڑتال

فراض کی روایت بیان کرنے والے بھی سیف کے دو راوی محمدومہلب ہیں اور پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور وہ سیف کے جعلی راوی ہیں ۔اس کے علاوہ سیف کا ایک اور راوی ظفر بن دہی ہے کہ انشا ء اللہ اس کی آئندہ وضاحت کریں گے ۔ان کے علاوہ اس نے بنی سعد سے ایک شخص کوراوی کے طور پر ذکر کیا ہے کہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ سیف کے خیال میں اس کا کیا نام تھا تاکہ ہم اس کی تحقیقات کرتے۔

۱۶۱

بحث کا نتیجہ:

سیف کے جعلی صحابی ابی مفزرکے سلسلے میں بحث کے دوران ''الثنی''اور ''زمیل''کی جنگ کے بارے میں بھی انشاء اللہ تفصیل سے بیان کریں گے ۔لیکن ''فراض'' کی جنگ میں خالد کے اچانک حملہ کرکے شب خون مارنے اور ایک لاکھ انسانوں کا قتل عام کرنے ،قعقاع کی خو دستائی اور رجز خوانی وغیرہ اور خالد کے چوری چھپے حج پر جانے کے بارے میں صرف سیف نے روایت اور افسانہ سازی کی ہے ۔طبری پہلا مشہور مورخ ہے جس نے سیف کے افسانوں کو نقل کرکے لوگوں کی نگاہ میں اپنی معتبر تاریخ کی کتاب میں درج کیاہے ۔اور ان افسانوں کو دوسر ے تاریخ دانوں نے طبری سے نقل کیا ہے ۔اس میں صرف یہ فرق ہے کہ طبر ی نے اپنی عادت کے مطابق اپنی تاریخ میں اشعار اور رجز خوانیوں کوثبت نہیں کیا ہے اگر چہ اس امرکی طرف اشارہ کرتاہے کہ ان جنگوں میں بہت سے رزمیہ اشعار کہے گئے ہیں ۔

لیکن مشہور جغرافیا نویس ،حموی نے قعقاع کی رجز خوانیوں میں سے ایک حصہ سیف کی کتاب ''فتوح ''سے نقل کیا ہے اور ایک حصے کو ''الفراض ''کے ذکر کے ذیل میں اپنی کتاب میں ذکر کرتا ہے ۔

لیکن یہ بات قابل غورہے کہ طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خالد بن ولید نے اس طرح ظاہر کیا کہ وہ اپنی فوج میں موجود ہے ،لیکن چوری چھپے اس وقت حج کے لئے نکل جاتا ہے جب کے ماہ ذیقعدہ کے ابھی پانچ دن باقی تھے اور حموی کے قو ل کے مطابق ذی الحجہ کے ١٠دن باقی تھے جب وہ واپس آکر اپنی فوج سے ملحق ہو تا ہے ۔سوچنے کی بات ہے کہ سپہ سالار کی ٢٥ دن فوج کی غیر حاضری کو سپاہی کس طرح نہ سمجھ سکے ؟!اس مدت میں فوج کے لئے نماز کی امامت کے فرائض کس نے انجام دئے(۱) ؟! اس کی غیر حاضری سے فوج کے افسر تک کیسے آگاہ نہ ہوسکے؟! اور اس سے بھی بڑھ کر ،خالد نے اس زمانے میں ''حیرہ ''سے مکہ تک کا سفر نوہی دنوں میں کس طرح طے کیا ؟!یہ وہ مسائل ہیں جو ہمیں غور وفکر پر مجبور کرتے ہیں اور اس امرکاسبب بنتے ہیں کہ ان مسائل پر بیشتر بحث وتحقیق کریں ۔انشاء اللہ ہم بعد میں اس سلسلے میں مزید بحث وتحقیق کریں گے کہ سیف نے کیوں ان حالات میں خالد بن ولید کے لئے اس طرح کے حج کی داستان جعل کی ہے۔

____________________

(۱)۔اس زمانے میں رسم یہ تھی کہ ،بہر صورت اسلامی فوج کی نماز پنجگانہ کی امامت فوج کاسردار کرتاتھا۔

۱۶۲

جنگ فراض کی داستان کے نتائج:

١۔ میدان کارزار میں مضری خاندان کے سپہ سالار خالد بن ولید اور تمیمی خاندان کے سورما قعقاع کے کمالات وافتخارات دکھانا۔

٢۔حج کی لمبی مسافت کو طے کرنے میں خالد بن ولید کی کرامت کااظہار کرنا۔

٣۔شجرہ نامی ایک شخص کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے طور پر جعل کرنا۔

٤۔جنگ میں ایک لاکھ انسانوں کے قتل عام کی داستان گڑھ کر اسلام کے دشمنوں کو شاد کرنا۔

٥۔اسلامی ادبیات میں اشعار کا اضافہ کرکے اپنے اسلاف کی کرامتیں سننے کے شوقین لوگوں کو افسانوی اشعار سے خوش کرنا۔

۱۶۳

قعقاع ،خالد کے ساتھ شام جاتے ہوئے

و فیهم صحابة ورواة مختلفون

اس داستان کی سند میں بہت سے افسانوی اصحاب اور راوی نظر آتے ہیں !

(مؤلف)

خالدکی شام کی جانب روانگی کی داستان

مؤرخین نے لکھا ہے کہ عمرو عاص نے شام میں دشمن کی فوج کی کثرت دیکھ کر ابوبکر کو ایک خط لکھا اور انھیں حالات سے آگاہ کرنے کے علاوہ ان سے مدد طلب کی ۔ابوبکر نے مجلس میں حاضر مسلمانوں سے صلاح و مشورہ کیا۔ان میں سے عمر بن خطاب نے یوں کہا:''اے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین !خالد کو حکم دیجئے کہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ شام کی جانب روانہ ہوجائے اور عمر وعاص کی مدد کرے ''۔ابوبکر نے ایسا ہی کیا اور خالد کے نام ایک خط لکھا ۔جب ابوبکر کاخط خالد کوپہنچا تو اس نے کہا:''یہ عمر کاکام ہے ،چونکہ وہ میرے ساتھ حسد کرتے ہیں اس لئے نہیں چاہتے کہ پورا عراق میرے ہاتھ فتح ہو بلکہ چاہتے ہیں کہ میں عمر وعاص اور اس کے ساتھیوں کی مدد کروں اور ان میں شامل ہوجاؤں ۔اگر انھوں نے کوئی کامیابی حاصل کی تو میں بھی اس میں شریک رہوں ،یا ان میں سے کسی کی کمانڈ میں کام کروں تاکہ اگر کوئی کامیابی حاصل ہو تو میرے بجائے اس کو فضیلت ملے '' ١

۱۶۴

ایک دوسری روایت میں ہے:

''یہ اعسیر(۱) بن ام شملہ کاکام ہے،اسے یہ پسند نہیں ہے کہ پورا عراق میرے ہاتھوں فتح ہو .....تا آخر ''

سیف یہ نہیں چاہتاتھا کہ خلیفہ عمر اور خالد جیسے سورما کہ دونوں قبیلہ مضر کے بزرگ ہیں کے درمیان بد گمانی دشمنی کی خبر لوگوں میں پھیلے ۔اور یہ بھی نہیں چاہتاتھا کہ خالد کو عراق کی فتح سے محروم رکھے ۔اس لئے اس مسئلہ کے بنیادی علاج کی فکر میں پڑا ہے اور خالد بن ولید کے ہاتھوں عراق کے مختلف شہروں کی فتحیابی کے سلسلے میں مذکورہ داستانیں جعل کی ہیں ۔ہم نے ان داستانوں کا کچھ حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا۔اسی طرح خالد کی عراق سے شام کی طرف روانگی کے سلسلہ میں سیف نے یہ داستان جعل کی کہ :خالد کے شب خون کے نتیجہ میں مصیخ بنی البرشاء میں دو مسلمانوں کا قتل ہونا ،عمر کا ان کے قتل کی وجہ سے خالد پر غضبناک ہونا ،خالد کے مخفی طور پر حج پر جانے کے سلسلے میں خلیفہ ابوبکر کا اس پر ناراض ہونا،خالد کو شام بھیجے جانے کے وجوہات تھے اور وہ عراق کو فتح کرنے سے محروم رہے۔

جیسا کہ ایک اور روایت میں ہے کہ :

''عمر ،خالد بن ولید کے بارے میں ابوبکر کے پاس مسلسل شکایت کرتے تھے۔لیکن ابوبکر ان کی باتوں پر اعتناء نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے:''میں اس تلوار کو دوبارہ نیام میں نہیں ڈالوں گا جسے خدا نے نیام سے باہر کھینچا ہے!''۔ ٢

____________________

(۱)اعیسر ،اعسر کا اسم تصغیر ہے ،عربی زبان میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بائیں ہاتھ سے کام کرتا ہو۔

۱۶۵

اس کے بعد خالد کے نام ابو بکر کے خط کا ایک اور روایت میں ذکر کرتا ہے کہ یہ سب جعلی ہے اور اس میں ذرہ برابر حقیقت نہیں ہے اس پوری مقدمہ سازی کے بعد ایک روایت میں کہتا ہے :٣

''خالد عمر کے بارے میں بد گمان تھا اور کہتا تھا: یہ ان ہی کا کام ہے ۔وہ حسد کی وجہ سے نہیں چاہتے کہ عراق میرے ہاتھوں فتح ہو اور یہ افتخار مجھے ملے اس کے باوجود خدا نے عراق کی سرحدوں کو میرے ہاتھوں توڑدیا اور وہاں کے لوگوں کے دلوں میں میرا خوف ڈال دیا اور مسلمانوں کو میری وجہ سے حوصلہ اور جرأت بخشی ''

باالآخر چھٹی روایت میں کہتا ہے :

''لیکن (خالد) یہ نہیں جانتا تھا کہ عمر کا کوئی قصور نہیں تھا ،یہاں تک کہ قعقاع نے اس سے کہا : عمر کے بارے میں بد ظن نہ ہو خدا کی قسم ابوبکر نے جھوٹ نہیں بولا ہے ۔ اور ظاہر داری نہیں کی ہے ''خالد نے قعقاع سے کہا:'' تم نے سچ کہا !لعنت ہو غصہ و بدگمانی پر ۔خدا کی قسم اے قعقاع !تم نے مجھے خوش بینی پر آمادہ کیا اور عمر کے بارے میں مجھے خوش بین بنا دیا '' قعقاع نے خالد کے جواب میں کہا:'' خدا کا شکر ہے جس نے تمھیں سکون بخشا اور تم میں خیر و نیکی کو باقی رکھا اور شر و بدگمانی کو تم سے دور کیا !!''

اس روایت سے سیف کی زبانی خالد کی جنگوں میں فتحیابیوں ،غنائم وغیرہ کے بارے میں جھوٹ اور افسانوں کے اسرار فاش ہوتے ہیں ۔سیف نے ان سب داستانوں اور افسانوں کو اس لئے گڑھا ہے تاکہ سرانجام خالد کی زبانی یہ کہلوائے کہ:

'' خدا نے میرے ذریعہ عراق کی سرحدوں کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ،وہاں کے لوگوں کے دلوں میں میرا خوف ڈال دیا اور مسلمانوں کو ان سے جنگ کرنے کی جرأت وہمت بخشی ''

سیف کے بقول خالد بن ولید کے بعد یہ سب فضل وافتخار خاندان تمیم کے بے مثال سورما ''قعقاع ''اور اس کے تمیمی بھائیوں تک پہنچتے ہیں اور سر انجام قعقاع کی وجہ سے عمر کی نسبت خالد کی بد گمانیاں دور ہو جاتی ہیں ۔

اسی طرح ہم نے خون کے دریا کی داستان میں دیکھا کہ کس طرح یہ فضل وشرف ان دوناقابل شکست سور مائوں کے درمیا ن تقسیم ہوتے ہیں ۔

سیف نے خالد بن ولید کے لئے عراق کی طرح شام میں بھی قابل توجہ افتخارات کے افسانے گڑھے ہیں ،انشاء اللہ ان کا ہم آگے ذکر کریں گے ۔

۱۶۶

سند کی پڑتال :

خالد کی عراق سے شام کی جانب روانگی کے بارے میں سیف کی حدیث کے راوی وہی ہیں جنھیں داستان ''الفراض''میں نقل کیا گیا ہے ۔جن کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہوچکا ہے کہ وہ سب راوی جعلی اور سیف کے خیالات کی تخلیق تھے۔

اس جانچ کا خلاصہ :

طبری نے اپنی تاریخ میں ١٢ ہجری کے حوادث کا ذکر کرتے ہوئے خالد کے ہمراہ قعقاع کی جنگوں کے بارے میں سیف کی روایتوں کا ذکر کیا ہے اور حموی نے اپنی جغرافیہ کی کتاب میں سیف کے ذکر کردہ مقامات کا نام لیا ہے ، اس کے بعد طبری سے ابن اثیر ،ابن کثیر ،ابن خلدون اور دیگر مورخین نے ان تمام مطالب کو نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ،جن کا ہم نے ذکر کیا جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ صحابہ کی تاریخ کے بارے میں مذکورہ مورخین نے صرف طبری سے نقل کیا ہے اور طبری کی معتبر تاریخی سند سیف ابن عمر تمیمی کی کتابیں ''فتوح '' اور ''جمل '' ہیں ہم نے اس مطلب کو '' سبائیوں کے افسانے کا سرچشمہ '' کے عنوان سے اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبائ'' میں واضح طورسے بیان کیا ہے ۔

سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتیں :

بلاذری نے اپنی معتبر کتاب '' فتوح البلدان'' میں عراق میں خالد کی فتوحات کو تفصیل سے بیان کیا ہے، لیکن اس نے وہاں پر قعقاع اور لاکھوں انسانوں کے قتل عام کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے ،اور اس کے علاوہ متعدد جنگوں جیسے الثنی ،الولجہ اور حصید وغیرہ اور کئی شہروں کو فتح کئے جانے کا بھی ذکر نہیں کیا ہے ۔

طبری نے بھی سیف کے علاوہ ابن اسحاق کے ذریعہ خالد کی جنگوں کا ذکر کیا ہے اور اس میں تقریبا بلاذری کی طرح قعقاع اور دیگر مطالب کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں ملتا ۔

دینوری نے بھی اپنی کتاب '' اخبار الطوال '' میں عراق میں خالد کی جنگوں کے بارے میں کچھ مطالب درج کئے ہیں اس میں بھی قعقاع اور دیگر افسانوں کا کہیں ذکر نہیں ہے بلکہ جو کچھ اس سلسلے میں کہا گیا ہے وہ صرف سیف ابن عمر تمیمی کے یہاں پایا جاتا ہے اور وہ ان تمام افسانوں اور جھوٹ کا سر چشمہ ہے ۔٤

۱۶۷

خالد شام جاتے ہوئے

سیف خالد ابن ولید کے سفر شام کے بارے میں لکھتا ہے :

''خالد نے عراق کے علاقہ '' سماوہ'' کے ایک گائوں کی طرف حرکت کی اور وہاں سے قصوان میں واقع '' مصیخ بہراء '' پر حملہ کیا اور مصیخ ایک بستی ہے '' نمر'' کے باشندے مئے نوشی میں مصروف تھے اور ان کا ساقی یہ شعر پڑھ رہا تھا :'' اے ساقی مجھے صبح کی شراب پلا دے اس سے قبل کہ ابوبکر کی سپاہ پہنچ جائے '' کہ تلوار کی ایک ضرب سے اس طرح اس کا سرتن سے جدا کیا گیا کہ شراب کا جام جو اس کے ہاتھ میں تھا خون سے بھر گیا''

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ایک اور روایت پیش کی ہے :

'' خالد نے ولید بہراء کے اسیروں کو اپنے ساتھ ایک جگہ لے گیا وہاں پر اسے اطلاع ملی کہ غسانیان نے ''مرج راہط '' میں فوج کشی کی ہے لہٰذا وہ ان کی طرف بڑھ گیا اور ''مرج الصفر '' کے مقام پر ان سے رو برو ہوا ان کا سردار '' حارث ابن الایہم '' تھا خالد نے ان سے سخت جنگ کی اور اس کو اور اس کے خاندان کو نابود کرکے رکھ دیا اس کے بعد چند دن وہاں پر قیام کیا اور جنگی غنائم کا پانچواں حصہ وہیں سے ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیجا اس کے بعد قنات بصری کی طرف بڑھا یہ شام کے ابتدائی شہروں میں سے ایک شہر تھا جو خالد کے ہاتھوں فتح ہوا اور خالد نے اس شہر میں پڑائو ڈال دیا پھر خالد قنات بصری سے نو ہزار سپاہیوں کے ساتھ رومیوں سے لڑنے کے لئے '' واقوصہ'' کی طرف بڑھا اور وہاں پر رومیوں سے جنگ کی ''طبری کی روایت کا خاتمہ ۔

یہ داستان کہاں تک پہنچی :

ابن اثیر نے یہی مطالب طبری سے نقل کئے ہیں اور اپنی تاریخ میں انھیں درج کیا ہے :

ابن عساکر نے قعقاع کے حالات کے بارے میں سیف کی روایت کو نقل کیا ہے اور اس کے آخر میں لکھتا ہے :

''قعقاع بن عمرو نے خالد کے '' واقوصہ'' کی جانب بڑھنے کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں '' :

۱۶۸

قعقاع کے رزمیہ اشعار

'' ہم نے خشک اور تپتے صحرائوں کو اپنے گھوڑوں کے ذریعہ طے کیا اور ''سومی'' کے بعد ''فرافر''کی طرف آگے بڑھے ۔وہیں پر ''بہرائ'' کی جنگ کا آغاز کیا اور یہ وہی جگہ تھی جہاں پر ہمارے سفید اور زرد اونٹ ہمیں حملہ کے لئے ان غیر عرب اجنبیوں کی طرف لے گئے جو بھاگ رہے تھے ۔میں نے شہر بصری سے کہا : اپنی آنکھیں کھول دے اس نے خود کو اندھا بنا لیا کیوں کہ ''مرج ا لصفر ''کے مقام پر'' ایہم'' اور ''حارث غسانی' ' کی سرکردگی میں بعض گروہ خونخوار درندوں کی طرح جمع ہو گئے تھے۔ ہم نے ''مرج الصفر '' میں جنگ کی اور خاندان غسان کی ناک کاٹ کے رکھ دی اور انھیں شکست فاش سے دو چار کیا !اس دن ان لوگوں کے علاوہ جو ہماری تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھرے پڑے تھے بقیہ تمام غسانی بھاگ گئے ۔وہاں سے ہم پھر بصری کی طرف لوٹے اور اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور اس نے بھی جو کچھ ہم سے پوشیدہ تھا ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ۔ہم نے بصری کے دروازے کھول دیئے اس کے بعد وہاں سے اونٹوں پر سوار ہوکر '' یرموک'' کے قبائل کی طرف بڑھے ''

اس رجز کو ابن عساکر نے سیف کی روایت کے آخر مین درج کیا ہے جب کہ طبری نے اپنی عادت کے مطابق کہ وہ اکثر اشعار و رجز کو حذف کردیتا ہے اس رجز کا ذکر نہیں کیا ہے اور سیف کی روایت سے اسے حذف کر دیا ہے ۔

حموی بھی مصیخ کی معرفی میں سیف کی حدیث کو سند قرار دے کر لکھتا ہے :

' 'مصیخ بہرائ''شام کی سرحد پر ایک اور بستی ہے۔ خا لد بن ولید نے شام جاتے ہوئے ''سومی '' کے بعد وہاں پر پڑائوڈالا ۔چونکہ خالد نے مصیخ کے لوگوں کو مستی کی حالت میں پایا اوریہی مستی ان کے لئے موت کا سبب بنی ۔جب خالد نے اپنے سپاہیوں کو ان پر حملہ کرنے کا حکم دیا،ان کے بزرگ و سردار نے یہ حالت دیکھ کر چیختے ہوئے کہا : ''اے ساقی !صبح کی شراب پلا!اس سے قبل کہ ابوبکر کی فوج پہنچ جائے ،شائد ہماری موت نزدیک ہو اور ہم کچھ نہ جانتے ہوں ''

کہ تلوار کی ایک ضرب سے اس کاسر تن سے جدا کیا گیا اور خون و شراب باہم مل گئے۔ان کا کام تمام کرنے کے بعد ان کے اموال پر غنیمت کے طور پر قبضہ کیا گیا ۔غنائم کے پانچویں حصہ کو ابوبکر کے لئے مدینہ بھیج د یا گیا۔

۱۶۹

اس کے بعد خالد یرموک کی جانب بڑھا ۔قعقاع بن عمرو نے مصیخ بہراء کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

یہاں پر حموی نے مذکورہ بالا اشعار کے شروع کے تین شعر ذکر کئے ہیں ۔

حموی نے یرموک کے موضوع کے بارے میں بھی سیف کی اسی روایت سے استناد کرتے ہوئے لکھاہے:

''قعقاع بن عمرو نے خالد کے عراق سے شام کی جانب روانگی کے بارے میں اس طرح کہاہے: ...''

اور یہاں پر وہ مذکورہ اشعار کادوسرا حصہ ذکر کرتاہے۔

عبد المؤمن نے یرموک اور مصیخ کی تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب ''مراصد الاطلاع''میں حموی کی روایت سے استناد کیاہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ:

جو کچھ خالد کی فتوحات کے بارے میں ذکر کیا گیاوہ سیف ابن عمر کی تحریر ہے۔ لیکن دوسروں کی تحریروں میں ایک تو ''مصیخ بہرائ''کا کہیں ذکر نہیں آیاہے۔دوسرے فتح بصری کے بارے میں تمام مورخین اس بات پر متفق القول ہیں کہ خالد کے وہاں پہنچنے سے پہلے ابو عبیدہ جراح ،یزید بن ابوسفیان ،اور شرجیل بن حسنہ کی سربراہی میں اسلامی فوج وہاں پر پہنچ چکی تھی ۔خالد اور اس کی فوج وہاں پہنچنے کے بعد ان سے ملحق ہوئی ۔اس لحاظ سے بصری صرف خالد اور اس کی سپاہ کے ہاتھوں فتح نہیں ہواہے۔ ٥

سند کی پڑتال:

سیف ،خالد کے عراق سے شام کی جانب جانے کے بارے میں محمد ومہلب سے روایت کرتا ہے کہ یہ دونوں راوی اس کے جعلی اصحاب ہیں ۔اسی طرح عبیداللہ بن محفز بن ثعلبہ سے بھی روایت کی ہے کہ اس نے قبیلہ بکر بن وائل کے کسی ایک فردسے روایت کی ہے ۔لیکن عبید خود ان افراد میں سے ہے جو مجہول ہیں اور وہ سیف کے ذہن کی مخلوق ہے ۔طبری نے سیف کی چھ روایتیں اس سے نقل کی ہیں ۔لیکن بکر بن وائل کے قبیلہ کاوہ فرد معلوم نہیں کون ہے کہ ہم راویوں کی فہرست میں اس کو تلاش کرتے !!

۱۷۰

تحقیق کانتیجہ :

ابن عساکر قعقاع کے حالات کے بارے میں شروع سے آخر تک صرف سیف کی ایک حدیث کو نقل کرتا ہے اور خاص کرتاکید کرتا ہے کہ یہ سیف کی روایت ہے۔

طبری نے خالد کے شام کی طرف سفر کے بارے میں سیف کی حدیث کو نقل کیاہے لیکن اپنی

عادت کے مطابق اس کے رجز کوحذف کردیا ہے ۔

حموی نے اس روایت کے ایک حصہ کو مصیخ کے ذکر میں اور دوسرے حصہ کو یرموک کی تشریح میں کسی راوی کانام لئے بغیر ذکر کیا ہے اور یہی امر سبب بن جاتاہے کہ ایک محقق اس پر شک وشبہ کرے کہ ممکن ہے قعقاع کا نام سیف کی روایتوں کے علاوہ بھی کہیں آیا ہو ۔اسی طرح یہ شبہ مصیخ کے بارے میں بھی دکھائی دیتا ہے جب کہ وہ (محقق) نہیں جانتا کہ مصیخ سیف کے خیالات کی تخلیق ہے اور حقیقت میں اس کا وجود ہی نہیں ہے ۔

سیف کی حدیث کے نتائج :

١۔ خالد بن ولید کے لئے شجاعتیں اور افتخارات درج کرانا۔

٢۔ مصیخ نام کی ایک جگہ کی تخلیق کرنا تاکہ یہ نام جغرافیہ کی کتابوں میں درج ہو جائے ۔

٣۔قعقاع کے اشعار سے ادبیات عرب کو مزین کرنا ۔

٤۔شام میں پہلی فتح کو خالد بن ولید اور اس کے عراقی سپاہیوں کے نام درج کرانا کیوں کہ عراق سیف ابن عمر کا وطن ہے ۔

۱۷۱

قعقاع ،شام کی جنگوں میں

کم من اب لی قد و رثت فعاله

کتنے ایسے میرے اسلاف و اجداد ہیں جن سے میں نے نیکی اور شجاعت وراثت میں پائی ہے

(سیف کا افسانوی سورما ،قعقاع)

جنگ یرموک کی داستان

طبری ١٣ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے:

''یرموک کی جنگ میں خالد بن ولید نے گھوڑسواروں کی فوج کے ایک دستہ کی کمان قعقاع بن عمر و کو سونپی اور اسے دشمنوں سے لڑنے کا حکم دیا قعقاع نے خود کو جنگ کے لئے آمادہ کیا اور حسب ذیل رجز پڑھے :

'' کاش !جنگجو اور شجاع سپاہیوں کو تہس نہس کرنے سے پہلے تجھے سواروں کے درمیان دیکھتا ،تجھے میدان جنگ میں دیکھ کر تیرا مقابلہ کرتا''

اس کے بعد طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے جنگ کی تفصیلات درج کرتے ہوئے رومیوں کی جنگی تیاریوں کی عجیب طرز سے توصیف کی ہے:

''رومیوں نے اپنے سپاہیوں کی اس طرح تقسیم بندی کی تھی : اسّی (٨٠)ہزار فوجی ایک دوسرے سے سٹی ہوئی قطاروں کی صورت میں خود کو ایک دوسرے سے باندھے ہوئے تھے !چالیس ہزار فدائی جنگجوئوں نے خود کو زنجیروں سے ایک دوسرے سے وابستہ کر رکھا تھا !چالیس ہزار سپاہیوں نے بھی خود کو دستاروں کے ذریعہ ایک دوسرے سے باندھ رکھا تھا! اس کے علاوہ اسی(٨٠) ہزار سوار اور اسّی ہزار پیدل فوج تھی ،غرض دشمن نے ایک عظیم اور حیرت انگیز فوج کو منظم اور آمادہ رکھا تھا ''

۱۷۲

خالد نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ دشمن کی پیدل فوج پر حملہ کیا اور انھیں ایسے تہس نہس کرکے رکھ دیا کہ دشمن کی فوج ایک دیوار کے مانند دھڑام سے گر گئی ۔ رومی فوج اپنی خندق کی طرف دوڑ پڑی اور برگ خزاں کے مانند گروہ گروہ واقوصہ کی خندق میں ڈھیر ہو کر نابود ہوتی گئی اس طرح واقوصہ میں ایک دوسرے سے بندھے ہوئے سپاہیوں کی ایک عظیم قتل گاہ وجود میں آگئی ۔کافی تھا کہ ان میں سے ایک سپاہی کو قتل کیا جاتا اور وہ اپنے ساتھ دس سپاہیوں کو لیکر خندق میں جا گرتا تھا ،اس طرح دشمن کے ایک لاکھ بیس ہزار سپاہی مارے گئے !!''

ابن عساکر اس روایت کے آخر میں ،جسے اس نے واقوصہ کے بارے میں سیف بن عمر سے نقل کیا ہے ،نیز قعقاع کی زندگی کے حالات بیان کرتے ہوئے دو نوں کے آخر میں درج ذیل اشعار نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : قعقاع بن عمرو تمیمی نے یرموک کی جنگ میں یہ شعر کہے تھے ۔

''کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ہم یرموک کی جنگ میں اسی طرح فتحیاب ہوئے جس طرح عراق کی جنگوں میں کامیاب ہوئے تھے ؟ہم نے شہر یرموک سے پہلے شہر بصری کو فتح کیا جسے ناقابل تسخیر تصور کیا جاتا تھا ۔ اسی طرح ایسے نئے نئے شہروں کو بھی فتح کیا جنھیں آج تک کسی نے فتح نہیں کیا تھا ۔ ہم نے شہر مرج الصفر کو اپنے سواروں اور پیدل فوج کے ذریعہ فتح کیا ۔جو بھی ہمارے سامنے آجاتا تھا اسے ہم ننگی تلوار سے قتل کر ڈالتے تھے اور جنگی غنائم لے کر لوٹتے تھے ۔واقوصہ کی جنگ میں ہم نے رومیوں کی ایک بڑی تعداد کو ہلاک کیا میدان جنگ میں ہمارے لئے ان کی قدر کبوتر کے فضلہ سے بھی حقیر تھی ۔واقوصہ کی جنگ میں ہم نے ان کی فوج کا قتل عام کیا اور ان کے کشتوں کے پشتے لگا دئے یہ ان کا المناک اور درد ناک انجام تھا''

ابن کثیر نے سیف کی اس روایت کو قعقاع کے اشعار کے ساتھ اپنی تاریخ کی کتاب میں ایک جگہ ذکر کیا ہے ۔

ابن اثیر نے صرف اصل روایت کو نقل کیا ہے لیکن مذکورہ اشعار درج نہیں کئے ہیں ۔

حموی نے لغت '' واقوصہ'' میں روایت کے ایک حصہ کو درج کیا ہے اور یوں لکھتا ہے:

'' واقوصہ شام میں سر زمین حوران میں ایک صحرا ہے ۔وہاں پر ابوبکر کے زمانہ میں اسلامی فوج نے پڑائو ڈال کررومیوں سے جنگ کی ہے اور قعقاع بن عمرو نے اس جنگ میں یہ شعر کہے ہیں :..

یہاں پر مذکورا بالا اشعار میں سے پہلا شعر اور پھر پانچویں سے ساتویں شعر تک درج کیا ہے ۔

۱۷۳

سیف کی روایت کی حیثیت :

سیف نے یرموک کی فتح کو ١٣ھ میں بصری کی فتح کے بعد نقل کیا ہے ۔

لیکن ابن اسحاق اور دیگر مورخین نے '' اجنادین ''کی فتح کو '' بصری'' کی فتح کے بعد ذکر کیا ہے اور یرموک کی فتح کو ١٥ھ میں بیان کیا ہے اور اسے اس علاقہ کے شہروں کی آخری فتح جانتے ہیں دوسری جانب ''واقوصہ'' کا کہیں نام و نشان نہیں پایا جاتا ۔اس سلسلے میں صرف بلاذری لکھتا ہے کہ:

''رومیوں نے جنگ '' اجنادین '' کے بعد ''یاقوصہ'' میں ایک بڑی فوج جمع کی اور مسلمانوں نے وہاں پر رومیوں سے جنگ کی اور انھیں پسپا ہونے پر مجبور کیا''

لگتا ہے سیف نے لفظ'' یاقوصہ '' کو اس لئے ''واقوصہ'' میں تبدیل کیا ہے تاکہ اپنے مقصد کو پانے کے لئے مادئہ وقص یعنی گردن توڑنا سے استفادہ کرے اور اپنے فرضی میدان جنگ میں خالد بن ولید کی پیدل فوج کے شدید حملہ کے ذریعہ دشمن کی گردن توڑنے کو ثابت کرے۔

سند کی پڑتال :

سیف نے اس حدیث کے راوی کے طور پرمحمد بن عبداللہ کا نام لیا ہے ،جس کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہو چکا کہ وہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔اس کے علاوہ ابو عثمان یزید بن اسیدعسانی کو راوی کے طورپر پیش کیا ہے ۔لیکن اس کے بارے میں ہم نے نہ تاریخ طبری میں اور نہ تاریخ ابن عساکر میں کوئی روایت پائی ،اس کے علاوہ چوں کہ ہم نے اس کانام راویوں کی فہرست اور طبقات روایت میں بھی کہیں نہیں پایا ،اس لئے اسے بھی سیف کا جعلی راوی جانتے ہیں ۔اور معلوم ہوا کہ یہ شخص بھی اس کے دیگر راویوں اور ناقابل شکست جعلی سورمائوں کی طرح حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتا ۔

۱۷۴

حدیث کی پڑتال کا نتیجہ

سیف کے کہنے کے مطابق ،یرموک میں جنگ کے لئے آمادہ ہوکر حملہ کرنے والے اور رجزو رزم نامے پڑھنے والے بزرگ اصحاب،ناقابل شکست پہلوان اور اسلام کے سچے سپاہی ،خاندان تمیم کے دوسورماؤں ،یعنی قعقاع بن عمرو اور ابو مفزر کے علاوہ اور کون ہوسکتے ہیں ؟

''واقوصہ''کی جنگ میں ایک لاکھ بیس ہزار انسان قتل عام کئے جاتے ہیں ،سیف نے کمانڈر انچیف،خالد بن ولید اور اس کی پیدل فوج کے برق رفتار حملے کے نتیجے میں صرف واقوصہ کی جنگ میں ایک لاکھ بیس ہزار جوانوں کو خاک وخون میں لوٹتے دکھایاہے۔اس طرح اتنے انسانوں کاخون بہاکر چند لمحوں کے لئے اپنی نہ بجھنے والی پیاس کو تسکین دی ہے،جب کہ دیگر مؤرخین نے اس قسم کی کوئی بات بیان نہیں کی ہے۔انہی میں سے بلاذری بھی ہے جس نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان'' میں یرموک میں قتل ہوئے کل افراد کی تعداد ستر ہزار بتائی ہے۔اس کے علاوہ جاننا چاہئے کہ سیف وہ تنہا شخص ہے جس نے یرموک کی جنگ کو ١٣ ھ میں ذکر کیاہے۔

سیف کے افسانوی سورما قعقاع کی جنگوں اور فتوحات کے یہ وہ چند نمونے تھے جنھیں اس نے ابو بکر کے دور میں روایت کیاہے۔عمر کے دور میں شام میں قعقاع کی جنگ وفتوحات کے نمونوں کاجائزہ ہم آنے والی فصل میں پیش کریں گے۔

۱۷۵

قعقاع ،عمر کے زمانے میں

قتل فیه من الروم ثمانون الفاً

''جنگ فحل میں اسّی ہزار رومی قتل کئے گئے ''

فتح دمشق کی داستان:

شہر دمشق کی فتح کے بارے میں سیف لکھتاہے:

''شہر دمشق کے محافظین کے سردار کے ہاں بیٹا پیدا ہواتھا۔محافظین نے ایک ولیمہ کا اہتمام کیاتھا۔اور کھانے پینے میں مشغول ہوئے اور اپنی ذمہ داریوں کوفراموش کرکے شہر کی اہم چوکیوں کی حفاظت سے غافل ہوگئے ۔اس امر سے خالد بن ولید کے علاوہ کوئی مسلمان آگاہ نہیں ہوا، چونکہ وہ ہوشیار تھا اور اس سے اس شہر کے باشندوں اور محافظوں سے متعلق کوئی چیز پوشیدہ نہ تھی!

رات ہوتے ہی خالد،قلعہ کے ساکنوں کی مستی اور غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قعقاع بن عمرو اور مذعور بن عدی کے ہمراہ پہلے سے بنائی گئی رسیوں کی سیڑھیاں لے کر قلعہ کے نزدیک پہنچا ۔ انھوں نے رسی کی سیڑھیاں دشمن کے قلعہ کی دیوار کے کنگروں پر پھینکیں دو رسیاں کنگروں میں اٹک گئیں ۔ قعقاع اور مذعور سیڑھیوں سے اوپر چڑھ گئے پھر انھوں نے باقی سیڑھیوں کی رسیاں کنگروں سے محکم باندھ لیں اور دیگر لوگ بھی قلعہ کی دیوارسے اوپر چڑھ گئے ۔اس کے بعد بے خبر ومست محافظین پر حملہ کرکے ماردھاڑ شروع کی۔اورآسانی کے ساتھ ان پر غلبہ پالیا۔اس کے بعد اسلام کے سپاہیوں کے لئے قلعہ کادروازہ کھولدیا...''

ابن عساکر نے اس پوری داستان کو سیف سے نقل کرنے کے بعد اضافہ کیاہے:

''اور قعقاع بن عمرو نے فتح دمشق کی مناسبت سے یہ شعر کہے ہیں :

سلیمان کے دوشہروں (دمشق وتدمر)کے نزدیک ہم نے کئی مہینوں تک استقامت کی اور اپنی تلواروں پر ناز کرنے والے رومیوں سے جنگ کرتے رہے۔جب ہم نے دمشق کے عراقی دروازے کو اپنے قبضے میں لے کر کھول دیا تو ان کے تمام سپاہیوں نے ہتھیار ڈال دئے۔جب پورے شہر پر ہمارا قبضہ ہوگیاتو میں نے حکم دیا کہ ان کے سر تن سے جدا کردئے جائیں اور ان کے گلے پھاڑدئے جائیں ۔ جب انھوں نے شہر دمشق اور تدمر میں ہمارے پنجے مستحکم ہوتے دیکھے توخوف ووحشت سے انگشت بدندان رہ گئے''۔

۱۷۶

لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیاہے کہ طبری نے اپنی تاریخ میں روایت کے آخر میں اشعار حذف کئے ہیں ۔اسی لئے مذکورہ اشعار کو بھی اپنی روایت میں درج نہیں کیاہے۔

یہ داستان کہاں تک پہنچی

فتح دمشق کی داستان کو طبری اور ابن عساکر دونوں نے سیف سے نقل کیاہے اور دوسروں جیسے،ابن اثیر اور ابن کثیر نے اسی طرح طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیاہے۔خاص کر ابن کثیر اس روایت کو اس طرح شروع کرتاہے:

''سیف کہتاہے .....''

اس کے بعد داستان کو آخر تک لکھتاہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ :

بلاذری نے فتح دمشق کی تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب ''فتوح البلدان '' میں لکھا ہے:

''خالدبن ولید نے ''دیرخالد ''کے باشندوں سے یہ شرط رکھی کہ اگر اسے ایک سیڑھی دیدیں ، جس کے ذریعہ وہ دمشق کے قلعہ کی دیوار پر چڑھ سکے تو ان کے خراج میں تخفیف کردے گا۔کہ آخر کار ابو عبید نے خالد کے مطالبہ کو پورا کیا''۔

سند کی پڑتال

فتح دمشق کی داستان کو سیف نے صرف ایک جگہ اور ایک روایت میں تین راویوں ،ابو عثمان ،خالد اور عبادہ سے نقل کیاہے۔ابو عثمان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہوچکاہے کہ وہ سیف کا جعلی راوی اور اس کے ذہن کے تخلیق ہے۔

لیکن خالد وعبادہ جن سے طبری اور ابن عساکرنے سیف کے ذریعہ سولہ روایتیں نقلی کی ہیں کے بارے میں ہم فہرست اور طبقات رجال میں کوئی سراغ نہ پاسکے۔

۱۷۷

فحل کی جنگ

طبری اور ابن عساکر نے سیف سے نقل کرتے ہوئے اس طرح روایت کی ہے:

''دمشق کو فتح کرنے کے بعد ابوعبیدہ''فحل''کی طرف روانہ ہوا۔رومیوں نے اسلامی فوج سے لڑنے اور ان کی پیشقدمی کو روکنے کے لئے اسّی ہزار فوج آمادہ کر رکھی تھی اور گھات لگاکر اچانک اسلامی فوج پر حملہ کیا۔مسلمانوں نے شجاعت اور دلیری کے ساتھ رومیوں کے اس اچانک حملہ کاڈٹ کر مقابلہ کیا۔اس طرح ایک گھمسان جنگ چھڑگئی ۔یہ جنگ ایک دن اور ایک رات جاری رہی۔مسلمانوں نے رومیوں کی فوج کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور سر انجام یہ جنگ مسلمانوں کی فتحیابی اور رومیوں کی ہزیمت پر ختم ہوئی۔

رومیوں نے پہلے سے ہی ایک خندق کھود کر اس میں پانی بھر دیاتھا تا کہ اسلامی فوج کی پیشقدمی کو روک سکیں ۔لیکن شکست کھاکر پیچھے ہٹتے ہوئے رومی خود اس خندق میں گر کر دلدل میں پھنس گئے ۔ایسے پھنسنے والوں کاحال معلوم ہی ہے کہ کیا ہوگا!اس طرح اس جنگ میں اسّی ہزار رومی ہلاک ہوگئے مگر یہ کہ کوئی فرار ہونے میں کامیاب ہواہو !

ابن عساکر نے اس داستان کے آخر میں یہ اضافہ کیاہے:

''اور قعقاع بن عمرو نے فحل کی فتحیابی کے سلسلے میں اس طرح شعر کہے ہیں :

''کتنے ایسے میرے اسلاف ہیں ،کہ ان کے نیک کام مجھے وراثت میں ملے ہیں ۔میرے اجداد ایسے ہیں جن کی عظمت وبزرگواری سمندر کے مانندہے۔انھوں نے بھی فضائل کو اپنے اجداد سے وراثت میں پایاتھا اور بصیرت وبلند نظریات کی بناپر ان فضائل کو چار چاند لگائے تھے ۔میں نے بھی اپنی ذمہ داری کے مطابق ان مفاخر وفضائل کو بڑھاوادیا اور انھیں نقصان پہنچنے نہیں دیا۔میری اولاد بھی اگر میرے بعد زندہ رہے تو وہ بھی ان فضائل و مفاخر کے بانی ہوں گے ''

۱۷۸

''فوج کے سپہ سالار ہمیشہ ہم میں سے رہے ہیں ،وہ بادشاہوں کی طرح حملہ کرتے ہیں ، ان کے پیچھے بہادر فوج ہے ۔ہم میدان کارزار کے بہادر ہیں ،جس وقت سرحد کے محافظ سستی دکھاتے ہیں ،ہم ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور ان پر فتح پاتے ہیں ''

فحل کی جنگ میں جب میرا گھوڑا کرو فر کے ساتھ لمبی لمبی سانسیں لینے لگا اور بلائیں چاروں طرف سے گھیرنے لگیں تو لوگ میری سر بلندی اور بہادر ی کا مشاہدہ کر رہے تھے ۔اگر میری جگہ پر کوئی اور ان بلائوں سے مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آتا تو بے چارہ اور ذلیل ہو کے رہ جاتا اور ایسے کام کو اپنے ذمہ لینے پر شرمندہ ہو جاتا !''

عربی گھوڑے فحل کے میدان کارزار میں گردو غبار کو آسمان پر اڑاتے ہوئے دشمن کی فوج کو کچلے دے رہے تھے ،سر انجام ان کے گھوڑوں نے اپنے ہی سرداروں کو دلدل میں گرادیا اور وہ اٹھنے کے قابل نہ رہے ۔اس کے بعد ہم نے سر نیزوں سے دشمن پر حملہ کیا ۔ ہم نے ان کی فوج کو دلدل میں نابود کرکے رکھ دیا اس دن تمام نگاہیں مجھ پر متمرکز تھیں ۔

اس کے علاوہ سیف نے روایت کی ہے کہ قعقاع نے جنگ فحل میں یہ شعر کہے ہیں :

''فحل کی جنگ میں ہم اتنے مشکلات سے دو چار ہوئے کہ جس کے خوف سے پہلوان اپنے اسلحہ کو گھر میں ہی بھول جاتے تھے ۔میں اس دن اپنے مشہور گھوڑے پر پوری طاقت سے سوار ہوکر اپنے بہادر فوجیوں کے ساتھ دشمن پر تیر باران کرتا تھا ۔ بالاخر ہم نے مقاومت کرنے والے دشمن کے فوجیوں کو تلوار کے وار سے منتشر کرکے بھگا دیا''

''ہم ہی ہیں جنھوں نے عراق کو اپنے گھوڑوں سے عبور کیا اور شام میں اپنی تلواروں کے سائے میں جنگ لڑی اور عراق اور اس کی جنگوں کے بعد بہت سے نصرانیوں کو نابود کرکے رکھ دیا ''

حموی نے سیف کی اس روایت پر استناد کرکے لغت ''فحل'' کے بارے میں لکھا ہے :

''جس سال مسلمانوں کے ہاتھوں دمشق فتح ہوا ،اسی سال فحل میں مسلمانوں اور اسّی(٨٠) ہزار رومی فوج کے درمیان جنگ ہوئی اور قعقاع بن عمرو تمیمی نے اس جنگ کے بارے میں یوں کہا ہے ...:

اس کے بعد روایت کی سند کے بارے میں کسی قسم کا اشارہ کئے بغیر چار شعر ذکر کئے ہیں ۔

۱۷۹

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ:

طبری نے ''فحل'' کی پوری داستان سیف سے نقل کی ہے ،اور معمول کے مطابق اس سے مربوط رجز و شعر کو حذف کیا ہے ۔

ابن عساکر نے بھی فحل کی پوری داستان سیف سے نقل کی ہے اور اس سے مربوط اشعار بھی ذکر کئے ہیں ۔

حموی نے اس داستان کا تھوڑ ا سا حصہ لغت '' فحل '' کے سلسلے میں سند کے بغیر ذکر کیا ہے لیکن اس داستان سے مربوط مطالب ،ان مطالب سے مختلف ہیں جو دیگر مورخین نے اس سلسلے میں درج کئے ہیں مثال کے طور پر بلاذری نے اس معرکہ میں قتل ہوئے لوگوں کی تعداد دس ہزار بتائی ہے ۔اس کے علاوہ کسی بھی مورخ نے شام کی جنگوں میں خاندان تمیم کے سورمائوں کی شرکت کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

ابن عساکر لکھتا ہے :

''مورخین کا اتفاق ہے کہ شام کی فتوحات میں قبائل اسد ،تمیم اور ربیعہ میں سے کسی نے شرکت نہیں کی ہے بلکہ وہ اپنی لشکر گاہ یعنی عراق کے حالات کے مطابق وہیں پر ایرانیوں سے بر سر پیکار تھے '' ١

سند کی پڑتال :

سیف نے داستان فحل ،ابو عثمان یزید سے روایت کی ہے جب کہ پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ اس کاحقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے بلکہ وہ سیف کا جعل کردہ راوی ہے ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785

786

787

788

789

790

791

792

793

794

795

796

797

798

799

800

801

802

803

804

805

806

807

808

809